“جی واقعی! ان کے چبا کر کہنے پہ وہ مسکرایا- “ٹھیک ہے محمل بی بی ! تھانے چلیئے آپ سلطانی گواہ ہیں،گواہی دیں اور فواد کریم کو ساری زندگی جیل میں سڑتا دیکھیں- میں نے تو سوچا تھا گھر کی بات گھر میں رہ جائے،لیکن اگر آپ چاہتے ہو کہ ساری دنیا کو علم ہو کہ فواد نے گھر کی بچی کا سودا کیا ہے تو ٹھیک ہے،ہم اس سلطانی گواہ کو ساتھ لے چلتے ہیں نہ آپ اس بچی کو سمجھا بجھا کر چپ کرا سکیں گے،نہ ہی فواد کبھی باہر آئے گا- چلو محمل- ارے نہیں اے ایس پی صاحب محمل ہماری بچی ہے-بھائی صاحب بس یونہی ناراض ہیں،ہمیں یقین ہے کہ یہ پولیس کی حفاطت میں رہی ہے-عزت سے گھر آئی ہے-غفران چچا نے بوکھلا کر بات سنبھالی- نہ بھی یقین کریں ،تو بھی ہم نے محمل کو مسجد بجھوا دیا تھا-عورتوں کی مسجد ہے- میری بہن ادھر پڑھاتی ہے- اس نے آغا جان کو بغور دیکھتے ہوئے بہن پر زور دیا اور ایک سخت نظر ڈالتا ہوا پلٹ گیا- وہ ابھی تک ویسے ہی شاکڈ ساکت کھڑی تھی-جیسے اسے آغا جان کے الفاظ کا ابھی تک یقین نہیں آیا تھا- گاڑیاں گیٹ سے باہر نکل گئیں ۔۔۔۔ غفران چچا موبائل پر کوئی نمبر ملانے لگے- تائی مہتاب زور زور سے رونے لگیں- یہ سارا اسی منحوس کا کیا دھرا ہے-اسے گھر سے نکالیئے آغا صاحب،کمبخت نے میرے بچے کو پھنسا دیا- اپنے باپ کے ساتھ کیوں نہیں مر گئی؟ وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف بڑھی مگر حسن درمیان میں آگیا- کیا کر رہی ہیں آپ تائی اماں؟ان کے دونوں ہاتھ گرفت میں لیئے اس نے بمشکل انہیں باز رکھا- “بھلا ایک لڑکی کے کہنے پر فواد کریم جیسے اثر و رسوخ رکھنے والے آدمی کے اریسٹ وارنٹ جاری ہو سکتے ہیں؟ یہ جھوٹ بکتی ہے میں اسے جان سے مار دوں گی- محمل اندر جاؤ – فضہ چاچی نے آہستہ سے کہا تو وہ چونکی پھر اندر کی طرف دوڑی- فضہ اور ناعمہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا-آغا جان ڈرائیووے کی طرف بڑھ گئے تھے-تائی اماں ابھی تک حسن کے بازوؤں میں رو اور چیخ رہی تھیں- وہ بھاگتی ہوئی برآمدے کے سرے پر رکی ستون سے لگی کھڑی مسرت نے منہ پھیر لیا- اسے دھکا سا لگا- اماں ۔۔۔۔۔ ! اس کی آنکھوں میں مرچیں سی چبھنے لگیں- اے محمل ۔۔۔۔۔! آرزو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ ذرا سا چونکی- یہ ہینڈسم آفیسر کون تھا؟ یہ ہمایوں تھا ہمایوں داؤد- ہوں نائس نیم-کدھر رہتا ہے؟ جہنم میں-ایڈریس چاہیئے؟وہ زہر خندہ ہوئی تو آرزو نے منہ سا بنا لیا- محمل اس کا ہاتھ جھٹک کر ایک شکوہ کناں سی نظر ماں پر ڈال کر اندر بھاگتی گئی- ہمایوں داؤد ۔۔۔۔۔۔۔ ! آرزو زیر لب مسکرائی- اور پھر توس کھانے لگی-
گھر میں اگلے کئی روز تک خاموشی چھائی رہی-بس ایک حسن تھا جو ہر وقت ہر ایک کے سامنے اس کا دفاع کرتا نظر آتا تھا- اگر محمل کی جگہ آرزو ہوتی تو بھی آپ یہی کہتی چچی؟وہ ناعمہ کی کسی بات پر بھڑک کے بولا – تو وہ جو سر منہ لپیٹے اندر پڑی تھی-جھٹکے سے اٹھی اور تیزی سے باہر آئی- آپ کو کوئی ضرورت نہیں ہے ہر ایک کے سامنے میری صفائی دینے کی-وہ لاؤنج میں آ کر ایک دم چکا کر بولی تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے- مگر محمل! اگر ان لوگوں نے یونہی مجھے پورے خاندان میں بے عزت کرنا ہے تو ٹھیک ہے-اگر عزت ایک دفعہ چلی گئی تو میں کس عزت کو بچانے کے لیئے کورٹ میں چپ رہوں گی؟ میں بھی بھری عدالت میں پورے شہر کو بتاؤں گی سن لیں آپ سب- اپنے پیچھے دھاڑ سے دروزہ بند کر کے اس نے پھر سے خود کو کمرے میں بند کر لیا- اندر مسرت بستر کی چادر درست کر رہی تھیں- اسے آتا دیکھ کر لمحے بھر کو سر اٹھایا،پھر واپس کام مصروف ہوگئیں- ” آپ بھی مجھ سے ناراض ہیں اماں؟ مسرت خآموشی سے تکیئے پہ غلاف چڑھاتی رہی- “اماں ! اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے- وہ تکیئے درست کر کے دروازے کی طرف بؔڑھی- میں نے کیا کیا ہے اماں؟وہ رو پڑی تھی- دروازے کی طرف بڑھتی مسرت نے گردن موڑی- “تم نے اچھا نہیں کیا محمل- وہ بہت دنوں بعد بولی تھیں- اماں- وہ تڑپ کر ان کے قریب آئی- فواد بھائی نے مجھے فنکشن کا کہہ کر ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پتا ہے- پتہ ہے مگر یقین نہیں ہے؟ ” میں برسوں ان کی خدمت کرتی رہی کہ شاید کبھی یہ ہمیں کچھ عزت دیں، مگر میری بیٹی ان ہی کے بیٹے کو پکڑوا کر کورٹ کچہری میں گواہی دیتی پھرے ۔۔۔۔۔۔ پہلے زندگی کم مشکل تھی محمل جو تم نے اور مشکل بنا دی؟ وہ تھکی تھکی سی پلٹ گئی- وہ نم آنکھوں سے انہیں جاتے ہوئے دیکھتی رہی- ایک غلط قدم اسے یہاں لا پہنچائے گا اس نے سوچا بھی نہ تھا-
پھر کتنے ہی دن وہ ماتم کرتی رہی، اس کے پاس رونے کو بہت کچھ تھا- پھر کئی دنوں بعد اسے عبایا اسکارف اور مردانہ شلوار قمیض کا خیال آیا تو دہنوں کو الگ الگ شاپر میں ڈال کر فرشتے کو واپس کرنے نکلی- کوئی ضرورت نہیں ہے ہمایوں داؤد کے منہ لگنے کی فرشتے کو واپس کر دوں گی-وہی آگے پہنچا دے گی-اس نے سوچا تھا- بس اسٹاپ کا بینچ اب ویران ہوتا تھا-وہ سیاہ فام لڑکی مڑ کر کبھی واپس نہیں آئی تھی-جانے کون تھی کہاں سے آئی تھی وہ اکثر سوچتی رہ جاتی- بس سے اتر کر اس نے سڑک پر کھڑے گردن اونچی کر کے دیکھا-وہ دونوں عمارتیں ساتھ ساتھ تھیں-ہمایوں داؤد کا کا بنگلہ سبز بیلوں سے ڈھکا تھا اور ساتھ موجود سفید ستونوں والی عمارت کوئی انسٹیٹیوٹ تھا شاید- کوئی ضرورت نہیں ہے اس فضول انسان کا دروازہ کھٹکھٹانے کی-میں مسجد میں ہی چلی جاتی ہوں- وہ مسجد کے سیاہ گیٹ کے سامنے آئی-گیٹ کا سیاہ لوہا چمک رہا تھا-اسے اس چمکتے لوہے میں اپنا عکس نظر آیا- بلیو جینز کے اوپر گھٹنوں تک آتا کرتا’گردن سے لپٹا دوپٹہ،اونچی بھوری پونی ٹیل بانھے ماتھے پر بل ڈالے وہ اپنے مخصوص حلیئے میں تھی- گیٹ کے اس طرف ایک بورڈ لگا تھا جس کو وہ پہلے نہ دیکھ سکی تھی- اس پر واضح لکھا تھا- No men Allowed (مردوں کا داخلہ ممنوع ہے) ساتھ باوردی گارڈ بیٹھا تھا- اس نے گہری سانس لے کر اندر قدم رکھا- بڑا سا سر سبز کالین- سامنے سفید سنگ مر مر کا چمکتا برآمدہ -برآمدے کے کونے میں ریسپشن ڈیسک کے پیچھے کھڑی لڑکی’ جو سیاہ عبایا کے اوپر سرمئی اسکارف میں ملبوس فون کان سے لگائے محو گفتگو تھی- سامنے سے سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک لڑکی چلی آرہی تھی-اس نے عنابی اسکارف لے رکھا تھا-جیسے یونیفارم ہو-محمل کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے مسکرا کر اسلام علیکم کہا ۔۔۔۔۔ “جی؟” وہ چونکی-وہ لرکی مسکرا کر اس کے پاس سے گزرتی چلی گئی- ہیں اس نے مجھے سلام کیں کیاَ؟کیا یہ مجھے جانتی ہے؟ وہ الجھ ہی رہی تھی کہ ریسپشنسٹ کی آواز آئی- اسلام علیکم کین آئی ہیلپ یو؟ جی- مجھے فرشتے سے ملنا ہے- وہ ڈیسک کے قریب آئی- فرشتے باجی کلاس میں ہونگی-اندر کاریڈور میں رائٹ فرسٹ ڈور ۔۔۔۔۔۔۔ اچھا- وہ ادھر ادھر دیکھتی سنگ مر مر کے فرش پر چلتی جارہی تھی– مرتین سے مراد بنی اسرائیل میں ہونے والا دو مرتبہ کا فساد ہے-مفسر کے مطابق پہلی دفعہ سے مراد زکریا کا قتل، جبکہ دوسری دفعہ سے مراد عیسی کے قتل کی سازش مراد ہے- اس نے کھلے دروازے سے گردن اندر کی-سامنے بنے پلیٹ فارم پہ کرسی پہ وہ بیٹھی اپنے آگے میز پر کتاب کھولے مصروف سی پڑھا رہی تھی-اس کے سامنے قطار در قطار لڑکیاں کرسیوں پہ بیٹھئی تھیں- عنابی اسکارف میں لپٹے بہت سے جھکے سر اور چلتے قلم-وہ واپس پلٹ گئی- برآمدے میں ریسیپشن ڈیسک کے سامنے دیوار سے لگے کاؤچ پہ بیٹھی کے وقت کاٹنا اسے بہتر لگا،سو کتی ہی دیر وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی پاؤں جھلاتی چیونگم چباتے ہوئے تنقیدی نگاہوں سے اردگرد گزرتی لڑکیوں کا جائزہ لیتی رہی- وہاں ایک منظم سی چہل پہل ہمہ وقت ہورہی تھی-وہ جیسے کوئی اور ہی دنا میں تھی- یونیفارم میں ملبوس ادھر ادھر تیزی سے آتی جاتی لڑکیاں-وہاں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں تھیں-اسٹوڈنٹس کی شلوار قمیض اور اوپر کسی رنگ کا اسکارف تھا،جبکہ تمام ٹیچرز اور آفیشلز کے سیاہ عبائے اور سرمئی اسکارف تھے – ان کئ عباۓ اور اسکارف لینے کا انداز نبے حد نفیس تھا- بہت پر اعتماد ،ایکٹو اور مصروف سی لڑکیاں جیسے وہ الگ سی دنیا لڑکیاں ہی چلا رہی تھیں-کچھ تھا اس مسجد میں جو محمل کو کہیں اور نظر نہیں آیا-
ا سلام علیکم- اگر آپ بور ہورہی ہیں تو اس کا مطالعہ کرلیں- شیور- اس نے شانے اچکا کے اس ریسپشنسٹ کے ہاتھ سے وہ دبیز کتاب لے لی- چند صفحے پلٹتے ہی اسے وہ شام یاد آئی جب آغا جان نے اسے ٹیرس پہ اس سے وہ سیاہ جلد والا مصحف چھینا تھا- وہ قرآن کی سادہ ٹرانسلیشن تھی- وہ یونہی درمیان سے کھول کر پڑھنے لگی- اور اس نے ہی غنی کو اور مالدار بنایا ہے-اور وہی ہے جو شعری(ستارے) کا رب ہے اور بلا شبہ اس نے ہی پہلی قوم عاد کو ہلاک کیا اور قوم ثمود کو بھی-باشبہ یہ سب انتہائی ظالم و سرکش لوگ تھے اور اسی نے پلٹا الٹی ہوئی بستیوں کو- پھر ان پر چھا گیا جو چھانا تھا-تو تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں پہ جھگڑو گے؟یہ تو تنبیہہ تھی- پہلی تنبیہات میں سے-آنے والی قریب آگئی-اللہ کے علاوہ! کوئی ظاہر کرنے والا نہیں تو کیا تم اس قرآن سے تعجب کرتے ہو ہنستے ہو،روتے نہیں اور کھیل تماشا کر رہے ہو؟ محمل؟ ارے ۔۔۔۔۔ ! وہ جو بالکل کھو کے پڑھتی جا رہی تھی،بری طرح چونکی – فرشتے سامنے کھڑی تھی-اس نے قرآن بند کیا اور میز پہ رکھ کر کھڑی ہوئی- اسلام علیکم کیسی ہو؟ فرشتے اس کے گلے لگ کر الگ ہوئی اور اسے شانوں سے تھام کر مسکرا کر دیکھا-وہ محمل سے دو انچ لمبی تھی-شفاف سپید چہرہ سرمئی اسکارف میں مقید اور وہ کانچ سی بھوری آنکھیں- میں ٹھیک ، آپ کیسی ہیں؟ الحمد للہ- اتنے دنوں بعد تمہیں دیکھ رہی ہوں،گھر میں سب ٹھیک ہے؟ جی- اس نے نگاہیں جھکائیں اور بہت سی نم اپنے اندر اتاری- چلو کوئی بات نہیں،سب ٹھیک ہوجائے گا- آپ کی چیزیؔں تھی میرے پاس- اس نے شاپر اوپر کیا- “میں سمجھی، تم میرے لیئے کوئی گفٹ لائی ہو- “وہ ہنسی اور شاپر لے لیا- کوئی تکلف نہیں کوئی خالص سا اندازہ – سچا اور خالص- لیکن اگر تم یہ رکھنا چاہو تو ۔۔۔۔۔۔ نہیں میں یہ عبایا وغیرہ نہیں لیتی – نو پرابلم – بہت شکریہ -وہ خوش دلی سے مسکرائی تو محمل کو اچھا لگا- بہت مذہبی لوگ عموما اتنے سنجیدہ اور سخت نظر آتے ہیں کہ جیسے ایک وہی نیک مومن ہوں اور باقی سب گناہگار کافر -اسے ایسے لوگوں سے شدید چؔڑ تھی-جن کے سامنے اسے لگے کہ وہ بہت گناہگار سمجھ رہا ہے-مگر فرشتے اور اس کی مسجد کی لڑکیاں اس روایتی امیج سے بہت مختلف تھیں- یہ ان کا ہے-اس نے دوسرا شاپر آگے کیا-ہمایوں کا ؟ جی- “اچھا ہمایوں کبھی شہر میں ہوتا ہے کہیں نہیں- میرا اس سے ایزسچ کونٹیکٹ نہیں رہتا- میں بھول بھی جاتی ہوں بہت اگر تم یہ اس کے چوکیدار کو دے دو تو وہ پہنچا دے گا- فرشتے انہوں نے آپ کو اپنی اور فواد بھائی کی ڈیل کے بارے میں بتایا تھا؟ ڈیل نہیں ،وہ دراصل آغا فواد سے بہت تنگ تھا- اور اسے اس کی گینگ کی کسی لڑکی کے ذریعے پکڑنا چاہتا تھا- وہ گینگ کی لڑکی کی توقع کر رہے تھے تو آپ کو کیسے علم ہوا کہ ان کی کزن ہوں؟ تم نے خود بتایا تھا جب ہم پرئیر ہال میں تہجد پڑھ رہے تھے- اوہ کئی دن کی الجھن سلجھ گئی-میں تو گینگ کی لڑکی نہیں تھی،پھر انہوں نے فواد بھائی کو کیسے اریسٹ کرلیا؟ یہ تو تم ہمایوں سے پوچھنا- میری تو عرصے سے اس سے بات نہیں ہوئی- ٹھیک دو بجنے کو ہیں فرشتے میں پھر آؤں گی- اور وہ سوچ رہی تھی کہ اس کا ہمایوں سے زیادہ رابطہ نہیں رہتا،مگر اسے فواد کے کیس کی ہر بات معلوم تھی- عجیب بات تھی- اور میں دعا کروں گی کہ کبھی تم ہمارے ساتھ آ کر قرآن پڑھو- معلوم نہیں-شاید میں کچھ عرصے تک انگلینڈ چلی جاؤں- اوہ فرشتے کے چہرے پر سایہ سا لہرایا- آپ مسجد میں قرآن پڑھاتے ہیں؟ ہاں،یہ در اصل ایک اسلامک اسکول ہے-ہوں میں چلتی ہوں-وہ اسے لان تک چھوڑنے آئی- تمہیں کبھی کسی نے اس کتاب کی طرف نہیں بلایا محمل؟ جاتے سمے اس نے پوچھا تو اس کے قدم رک گئے- یادوں کے پردے پر ایک سیاہ فام چہرہ لہرایا تھا- بلایا تھا، مگر میں نے دل کا انتخا ب کیا اور میں خوش تھی-اس نے کہا تھا یہ کتاب سحر کر دیتی ہے-اور مجھے مسحور ہونے سے ڈر لگتا ہے- “کتاب سحر نہیں کرتی پڑھنے والا خود سحر زدہ محسوس کرتا ہے-ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ “بہت سے لفظوں کو الگ الگ پرکھنا سیکھو نہیں تو زندگی کی سمجھ نہیں آئے گی- فرشتے چلی گئی اور وہ شاپر اٹھائے خود کو گھسیٹتی ہوئی باہر نکلی- ساتھ والے گیٹ میں اندر جاتی گاڑی لمحے بھر کو رکی- شیشہ نیچے ہوا-سر پر کیپ اور وجیہہ چہرے پر ڈارک گلاسز لگائے اس نے اسے دیکھا تھا جو گیٹ کے سامنے کھڑی تھی- وہ چوکیدار کو کچھ کہہ کر گاڑی زن سے اندر لے گیا- چوکیدار بھاگتا ہوا اس کے قریب آیا- صاحب کہہ رہے ہیں آپ کو اندر ڈرائنگ روم میں بٹھایئں وہ آتے ہیں- تمہارے صاحب نے سوچا بھی کیسے کہ میں اس سے ملنے آئی ہوں-مائی فٖٹ- یہ پکڑو اور اپنے صاحب کے منہ پر مارنا-غصے سے اس کی آواز بلند ہونے لگی- سارا کیا دھرا اس شخص کا تھا-اسے اس پے بے طرح غصہ ایا تھا- اس نے شاپر اسے تھمایا- اسی پل وہ کیپ ہاتھ میں لیئے تیزی سے چلتا ہوا اس تک آیا- “خان گیٹ بند کردہ اور بتول سے کہو چائے پانی کا بندوبست کرے- مہمان ہیں-اور آپ پلیز اندر آجائیں- شائستہ و ہموار لحجہ وہ قطعا مختلف لگ رہا تھا- مجھے اندر آنے کا کوئی شوق نہیں ہے-“لیکن آغا فواد کے باہر آنے کی خبر سننے کا ہوگا؟ وہ متذبذب سی سوچتی رہ گئی تو ہمایوں نے مسکراتے ہوئے راستہ چھوڑ دیا- دن کی روشنی میں اس کا لاؤنج اتنا ہی نفیس جتنا اس دن رات کو لگا تھا- اونچی دیوار گیر کھڑکیوں کے ہلکے پردے نفاست سے بندھے تھے’سنہری روشنی چھن کر اندر آرہی تھی- کونوں میں نفاست سے لگے مغلیہ دور طرز کے سنہری گملوں میں لگے پودے بہت ترو تازہ لگ رہے تھے- بیٹھیے-وہ ہاتھ سے اشارہ کرتا سامنے صوفے پر بیٹھا-اس کے چہرے پہ کھڑکی سے روشنی سیدھی پڑ رہی تھی- تھینک یو-وہ ذرا تکلف سے بیٹھی-اس کا صوفہ اندھیرے میں تھا-ہمایوں کو اس کا وجود بھی اسی تاریکی کا حصہ لگا تھا- آپ نے جو بھی کہنا ہے ذرا جلدی کہیئے؟ ڈر گئی ہیں؟ وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے ٹیک لگائے مسکرایا- میں ڈرتی نہیں ہوں- بلکہ آپ کو بے حد نا قابل اعتبار سمجھتی ہوں- شوق سے سمجھیں-مگر میں نے آپ کو اغوا نہیں کیا تھا-آپ کورٹ میں میرے خلاف بیان نہیں دے سکتیں- آپ کو کس نے کہا کہ میں آپ کے خلاف بیان دے رہی ہوں- آپ کے تایا نے- محمل نے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھا- بات کچھ کچھ سمجھ میں آنے لگی تھی- وہ کہتے ہیں آپ کورٹ مین یہ بیان دیں گی کہ میں نے آپ کو حبس بے جا میں رکھا تھا-اور یقینا وہ اس کے لیئے آپ پر دباؤ ڈالیں گے- آپ کو کیوں لگا کہ انہیں مجھ پر دباؤ ڈالنا پڑے گا؟وہ اب مطمئن سی ٹانگ پہ ٹانگ رکھے جھلا رہی تھی- انداز میں ہلکا سا طنز تھا-ہمایوں ذرا چونک کر سیدھا ہوا- کیا مطلب؟ حبس بے جا میں تو آپ نے مجھے رکھا تھا اے ایس پی صاحب ۔۔۔۔۔ مس محمل ابراہیم اتنی آسانی سے اتنے بڑے بیان نہیں دیئے جا سکتے-حالانکہ اپ جانتی ہیں کہ میں بے قصور ہوں- بے قؔصور؟اگر آپ مجھے گھر جانے دیتے تو میں یوں بدنام نہ ہوتی- پہلے آپ بے ہوش ہوئیں،حالانکہ آپ اس وقت ایک اے ایس پی کی تحویل میں تھیں- ہمایوں داؤد کی نہیں-اگر آپ دیوار نہ بھلانگتی تو میں رات میں ہی اپ کا بیان لے کر آپ کو اکیلے گھر چھور آتا- مجھے کمرے میں بند کرتے وقت تو آپ نے کسی بیان کا ذکر نہیں کیا تھا- مجھے قانون مت سکھائین-وہ میرا تفتیش کا طریقہ تھا- اور آپ کے اس طریقے میں بھلے کوئی بدنام ہو جائے؟ تو ہوجائے مجھے پرواہ نہیں- آپ ۔۔۔۔۔۔ اس کا دل چاہا وہ گملے اس کے سر پر پھوڑ دے- “میم اس وقت آپ کو آپ کے گھر نہیں چھوڑا جا سکتا تھا-ہم فواد کو ڈھیل دے رہے تھے-میں جانتا تھا آپ مسجد گئی ہیں- اور فجر سے پہلے مسجد کے دروازے نہیں کھلتے-سو میں اذان سنتے ہی آپ کو لینے ایا تھا- مجھے آپ کی کہانی نہیں سننی -وہ پیر پٹختی اٹھی-وہ ابھی تک تاریکی میں تھی-جس سے اس کے چہرے کے نقوش مدھم پڑ گئے تھے- نہ سنیں مگر میرا کارڈ رکھ لیں-ہوسکتا ہے آپ کو میری مدد کی ضرورت پڑے ۔۔۔۔ اس نے ایک کارڈ اس کے ہاتھ میں گویا زبردستی رکھنا چاہا- مجھے ضرورت نہیں ہے-اس نے پکڑ تو لیا مگر جتانا نہ بھولی اور پھر اسی طرح کارڈ پکرے باہر نکل گئی- وہ لاؤنج میں تنہا کھڑا رہ گیا-کھڑکی سے چھن کر اتی روشنی ابھی تک اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔
لاؤنج میں سب بڑے موجود تھے-وہ سر جھکائے کارڈ کو احتیاط سے پاکٹ میں چھپا کر اندر جانے لگی- محمل! غفران چچا نے قدرے رعب سے پکارا- آغا جان نے تو اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا تھا-وہ اس دن سے اس سے مخاطب نہیں ہوئے تھے- جی؟ وہ ناگواری سے رکی ۔۔۔۔ کدھر سے آرہی ہو؟ پرچہ کٹوانے گئی تھی تھانے! واٹ؟ غفران چچا غضب ناک سے اس کی طرف بڑھے- ” جی آپ کے فواد آغا کے خلاف پرچہ کٹوانے گئی تھی- کیوم؟نہیں کٹوا سکتی؟وہ ان کے بالکل سامنے کھڑی بلند آواز میں بد لحاظی سے بول رہی تھی- اور مجھ سے آئندہ سوال جواب مت کیجیئے گا،میں جدھر بھی جاؤں میری مرضی-آپ لوگ ہوتے کون ہیں مجھ سے ۔۔۔۔۔۔ چٹاخ کی آواز کے ساتھ اس کے منہ پر تھپڑ لگا تھا- وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی تھی- اور چہرے پہ ہاتھ رکھے بے یقینی سے غفران چچا کو دیکھا- پرچہ کٹواؤ گی تم؟ہاں؟ انہوں نے اس کو بالوں سے پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا- ہاں ہاں کٹواؤں گی- مجھے نہیں روک سکتے آپ لوگ-وہ حلق پھاڑ کے چلائی تھی- دوسرے ہی لمحے اسد چچا اٹھے اور پھر ان دونوں بھائیوں نے کچھ نا دیکھا-تابڑ توڑ اس پر تھپڑوں کی برسات کردی ۔۔۔۔ آغاجان بڑے صوفے پر آرام سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے اسے پتتے دعکھتے رہے تھے- تائی مہتاب ناعمہ اور فضہ بھی قریب ہی بالکل خاموش بیٹھی تھیں- سامیہ کچن کے کھلے دروازے میں کھڑی تھی-اوپر سیڑھیوں سے ندا جھانک رہی تھی- وہ اسے بری طرح گالیاں بکتے مارتے چلے گئے-وہ صوفے پر بے حال سی گری چیخ چیخ کر رو رہی تھی،مگر ان دونوں نے اسے نہیں چھوڑا- بول کٹوائے گی پرچہ؟وہ دونوں بار بار یہی پوچھتے، یہاں تک کے نڈھال سی محمل میں جواب دینے کی سکت نہ رہی تو انہوں نے ہاتھ روک لیا- صوفے کہ ایک ٹھوکر مار کر غفران چچا باہر چلے گئے- امی امی- وہ صوفے پر گری منہ پہ بازو رکھے گھٹی گھٹی سسکیوں سے رو رہی تھی-مسرت ادھر کہیں بھی نہیں تھی-آہستہ آہستہ سب بڑے ایک ایک کر کے اٹھ کر باہر چلے گئے-سیڑھیوں سے لگی تماشا دیکھتی لڑکیاں بھی اپنے کمروں کو ہو لیں- ” مر جاؤ تم سب اللہ کرے تم سب کے بچے مر جائیں،چھت گرے تم لوگوں پر -گردن کاٹ دوں میں تمہارے بچوں کی ۔۔۔۔ وہ ہچکیوں سے روتی گھٹ گھٹ کے بد دعائیں دیئے جا رہی تھی- کتنی ہی دیر بعد لاؤنج کا دروازہ کھلا اور دن بھر کا تھکا ہارا حسن اندر داخل ہوا- کوٹ بازو پر ڈالے ٹئی کی ناٹ ڈھیلی کرتا وہ ممی ممی پکارتا ذرا آگے آیا تو ایک دم ساکت رہ گیا- کارپٹ پہ بکھرے کشن اور ایک صوفہ جسے ٹھوکر مار کر جگہ سے ہٹا دیا گیا تھا- اس پے عجیب طرح سے گری محمل ۔۔۔۔۔۔ بکھرے بال چہرے پر نیل ۔۔ باذوؤں پر سرخ نشان ۔۔۔ وہ بازوؤں سے آدھا چہرہ چھپائے سسکیوں سے رو رہی تھی- وہ متحیر سا چند قدم آگے آیا- محمل! وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا کس نے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کس نے کیا یہ سب؟ مر جاؤ تم ! ایک دم بازو ہٹا کر اس نے حسن کو دیکھا اور پھر چلائی تھی-خدا کرے تم سب مر جاؤ،یتیموں پر ظلم کرتے ہوخدا کرے تمہارے بچے مر جائیں – سب کے- محمل مجھے بتاؤ یہ کس نے کیا ہے میں- مرجاؤ تم سب وہ پوری قوت سے چلائی اپھر یکدم بلک کر رودی اور اٹھ کر لڑکھڑاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی-
رات کا تیسرے پہر اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا-مدھم سی چرچراہٹ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی-لا ؤنج سنا ٹے اور تاریکی میں ڈوبا تھا- وہ دکھتے جسم کو زبردستی گھویٹتی ٹی وی لاؤنج تک لائی-ساتھ ہی فون اسٹینڈ رکھا تھا-اس نے لارڈ لیس نکالا اور ادھر ادھر احتیاط سے دیکھتی واپس آئی- مسرت آج گھر پے نہ تھی-صبح جب وہ مسجد جانے کے لیئے نکلی تھی تب مسرت گھر میں ہی تھی-مگر شاید اس کے جاتے ہی ان کو کہیں بھیج دیا گیا تھا-غالبا رضیہ پھپھو کے گھر- وہ دروازے کی کنڈی لگا کر بیڈ پر بیٹھی تھی-لایٹ آن کر رکھی تھی-سامنے دیوار پر آئینہ لگا تھا-اسے اپنا عکس سامنے ہی دکھائی دے رہا تھا- لمبے بال چہرے کے اطراف میں گرے سوجے ہونٹ- ماتھے اور گال پہ سرخ سے نشان جو نیلے پر رہے تھے-اس نے بے اختیار بال کانوں کے پیچھے اڑسے-وہ کارڈ ابھی تک جینز کی جیب میں تھا-اس نے مڑا تڑا سا وہ کارڈ نکالا اور نمبر ڈائل کرنے لگی- پہلی گھنٹی پوری بھی نہ گئی تھی کہ چوکنی سی ہیلو سنائی دی- اے ۔۔۔۔ اے ایس پی صاحب؟اس کی آواز لڑکھڑائی- کون؟ وہ چونکا تھا- مم ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔ محمل – اسے اپنا گھمنڈی انداز یاد کر کے رونا آیا- محمل کدھر ہو تم خیریت ہے؟ وہ چپ رہی آنسو اس کے چہرے پہ لڑھکتے گئے- محمل بولو- مجھے مجھے انہوں نے ٹارچر کیا ہےا مارا ہے-“ اوہ- وہ چپ ہوگیا- پھر آہستہ آہستہ بولا-اب کیسی ہو؟ مجھے نہیں پتہ- وہ رونے لگی تھی- مجھے بتائیں فواد بھائی جیل میں ہیں؟ ہے تو سہی مگر شاید جلد اس کی ضمانت ہو جائے وہ لوگ عنقریب تمہیں میرے خلاف گواہی دینے پہ اکسائیں گے- پھر میں کیا کروں؟ مان جاؤ- کیا؟اس نے بے یقینی سے فون کو دیکھا-عجیب سر پھرا شخص ہے- تم جھوٹا وعدہ کر لو کہ تم میرے خلاف گواہی دو گی-ورنہ یہ تمہیں کورٹ میں نہیں پہنچنے دیں گے- اور کورٹ میں جا کر مکر جاؤں؟ ہاں وہاں سچ بتا دینا- اور وہ اس دھوکے پے میرا کیا حشر کریں گے آپ کو اندازہ ہے؟ تم اس کی پرواہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ سب مجھے اپنے اپنے مقصد کے لیئے استعمال کر رہے ہو- آپ کو مجھ سے کوئی سچی ہمدردی نہیں ہے- چندلمحے خاموشی چھائی رہی،پھر ہمایوں نے ٹھک سے فون بند کر دیا- وہ دکھی سی فون ہاتھ میں لیئے بیٹھی رہ گئی-
مسرت اگلی صبح ہی آگئی تھی-انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا- کوئی جواب نہ مانگا-بس اسے دیکھ کر ایک جامد سی چپ ہونٹوں پہ لگ گئی-بہت دیر بعد آہستہ سے بولی تو بس اتنا کہ تم فواد کے خلاف ضرور گواہی دوگی-انہوں نے میری بیٹی کے ساتھ اچھا نہیں کیا- اور پھر چپ چاپ کام میں لگ گئیں- پورے گھر کا اس سے سوشل بائیکاٹ تھا-وہ کمرے میں کھانا کھاتی اور سارا دن اندر ہی بیٹھی رہتی- باہر نہ نکلتی- اگر نکلتی بھی تو کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا- اس روز بہت سوچ کے وہ فرشتے سے ملنے مسجد چلی آئی- کالونی کی سڑک گھنے درختوں کی باڑ سے ڈھکی تھی- درختوں نے سارے پہ ٹھنڈی چھایا کر رکھی تھی- آہنی گیٹ کے سامنے رک کر اس نے گردن اوپر اٹھائی- سفید اونچےستونوں والی وہ عالیشان عمارت اپنے ازلی وقار و تمکنت کے ساتھ کھڑی تھی- برابر میں سبز بیلوں سے ڈھکا بنگلہ تھا جس کی بیرونی دیوار کے ساتھ ایک خالی سنگی بینچ نصب تھا-محمل جب بھی ادھر آتی وہ بینچ ویران نظر آتا- اسے بے اختیار ہی بس اسٹاپ کا بینچ اور وہ سیاہ فام لڑکی یاد آئی تھی-نہ جانے کیوں- سفید سنگ مر مر کی لش پش چمکتی راہداریاں آج بھی ویسے ہی پر سکوں تھیں جیسی وہ ان کو چھوڑ کے گئی تھی- باب دجال مدینہ طیبہ میں نہ آ سکے گا- آخری کھلے دروازے سے اسے فرشتے کی آواز سنائی دی- اس نے ذرا سا جھانکا- وہ کتاب ہاتھ میں لیئے منہمک سی پڑھا رہی تھی سیاہ عبایا کے اوپر سرمئی اسکارف میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا-اور وہ سہری چمکدار کرسٹل سی آنکھیں ۔۔۔۔۔۔ اس نے کہیں دیکھ رکھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر کہاں؟ وہ ان ہی سوچوں میں گھری دروازے کی اوٹ میں کھڑ تھی جب فرشتے باہر آئی- ارے محمل اسلام علیکم- اور اسے دیکھ کر خود وہ بھی بہت خوش ہوئی تھی- تم کیسی ہو محمل؟آؤ بلکہ یوں کرو میرے ساتھ اندر آفس میں چلتے ہیں-فرشتے نے اس کا ہاتھ ہولے سے تھاما اور پھر اسے تھامے ہی مختلف راہداریوں سے گزرتی اپنے آفس تک لائی- اور یہ کیا حالت بنا رکھی ہے تم نے؟ پتا نہیں- اس نے بیٹھتے ہوئے میس کے شیشے کی سنک میں اپنا عکس دیکھا- بھوری اونچی پونی ٹیل سے نکلتی لاپروا لٹیں،آنکھوں تلے گہرے حلقے، ماتھے اور گال پہ گہرے نیل اور ہونٹون کے سوجے کنارے- یکدم روشنی اس کے چہرے پہ پڑی تو اس نے آنکھیں چندھیا کر چہرہ پیچھے کر لیا- فرشتے اپنی کرسی کی پشت پہ کھڑکی کے بلائنڈز کھول رہی تھی- ہمایوں نے بتایا تھا تم نے اسے کال کی تھی؟ وہ ذرا سی چونکی-ہمایوں ہر بات کیوں اسے بتاتا تھا؟ اسے نہیں بتانا چاہیئے تھا- ہمایوں کو تمہاری بہت فکر تھی-وہ واپس کرسی پہ آ بیٹھی تھی- انہیں میری نہیں اپنی فکر ہے-بہت خود غرض ہیں آپ کے کزن- جانے دو وہ نرمی سے مسکرائی-کسی کے پیچھے اس کا برا ذکر نہیں کرتے- جو بھی ہے اس نے شانے اچکائے-وہ یقینا اپنے کزن کی برائی نہیں سن سکتی تھی- اچھا یہ بتاؤ-وہ ذرا کرسی پہ آگے کو ہوئی-آگے پڑھائی کا کیا پروگرام ہے؟ ستمبر میں یونیورسٹی جوئن کرنی ہے- تو ابھی گرمیوں کی چھٹیوں میں ادھر اسکول آجاؤ- قرآن پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ آ ۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایکچوئلی ۔۔۔۔۔ میرے پاس قرآن ہے ترجمے والا گھر میں پڑھ لون گی- بی ایس سی میں کون سا سبجیکٹ تھا؟ میتھس- کس سے پڑھا تھا؟ کالج میں پروفیسر سے اور شام میں ایک باجی کے پاس ٹیوشن جاتی تھی- میتھس کی بک تھی تو تمہارے پاس پھر دو دو جگہ سے کیوں پڑھا؟گھر بیٹھ کر پڑھ لیتی؟ گھر میں خود سے کہاں پڑھا جاتا ہے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر رک گئی اور جیسے سمجھ کر گہری سانس لی-قرآن اور نصابی کتابوں میں فرق ہے- اس لیئے ہم چار سال کی عمر سے گھنٹوں نصاب کو پڑھتے رہتے ہیں،اور قرآن کو اللہ نے آسان بنا کر اتارا ہے تاکہ ہر کوئی سمجھ سکے-میتھس ٹیچر کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا-قرآن آجاتا ہے سمجھ؟ ہاں کیوں نہیں- فرشتے نے جھک کر دراز سے ایک سیاہ جلد والی دبیز کتاب نکالی- یہ انجیل مقدس کا ایک عظیم حصہ ہے-اس میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کی پیش گوئی ہے-کافی دلچسپ ہے یہ پڑھو- اس نے ایک صفحہ کھول کر اس کے سامنے کیا- محمل نے کتاب اپنی جانب کھسکا لی- اس کی امت کی اناجیل ان کے سینوں میں ہوں گی-وہ بے اختیار رکی- اناجیل؟ اس نے پوچھا- انجیل کی جمع-مراد ہے قرآن مجید- یہ یہاں سے پڑھو-فرشتے نے ایک جگہ انگلی رکھی-مخروطی سپید انگلی جس کا ناخن نفاست سے تراشیدہ تھا-اس نے انگلی میں زمرد جڑی چاندی کی انگوٹھی پہن رکھی تھی- اوہ اچھا-وہ ادھر سے پڑھنے لگی- وہ بازاروں میں شور کرنے والا ہوگا،نہ بے ہودہ گو ۔ نام احمد ہوگا-وہ آفتاب کے سایوں پر نظر رکھنے والا ہوگا-اس کے ازان دینے والے کی پکار دور تک سنی جاۓ گی-وہ رک کر جیسے الجھ کر پھر سے شروع سے پڑھنے لگی- “ملک شام ہوگا؟ بعد میں مسلمانوں کی حکومت شام تک پھیل جاۓ گئی تھی اسی طرف اشارہ ہے ۔۔۔۔ اور آفتاب کے سایوں پر نظر رکھنا ۔۔۔۔۔۔؟ نمازوں کے اوقات کے لیئے۔۔۔ اور آزان دینے والا ۔۔۔۔ ؟ بلال ۔۔ فرشتے جواب دیتے ہوئے مسکرائی- گھر بیٹھ کر پڑھو گی تو یہ سوال کس سے پوچھو گی؟ قرآن کی تفاسیر بھی تو پڑھی جا سکتی ہے ۔۔۔ علم پڑھنے سے نہیں سمجھنے سے آتا ہے- آخر گھر بیٹھ کر پڑھنے میں کیا ہے؟ موسی کو خضر کے پاس جانا پڑتا ہے میری جان،خضر موسی کے پاس نہیں آتے ۔۔۔اچھی کوالٹی کے علم کے لیئے اتنا ہی سفر کرنا پڑتا ہے- آپ ۔۔۔۔ آپ کی ساری باتیں ٹھیک مگر، مگر میری بات بھی ٹھیک ہے- مذبذبین بین ثالک،لاالی ھولاء ولاالی ھولاء- فرشتے پین کو انگلیوں کے درمیان گھماتی مسکرا کر گہری سانس لے کر بولی-وہ ان کے دریاں تذبذب میں ہیں،نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے ہیں- آپ نے عربی میں کچھ کہا نا؟اب عام بندے کو عربی کہاں سمجھ میں آتی ہے؟قرآن اردو میں کیوں نہیں اترا؟ اچھا سوال ہے-وہ اپنی نشست سے اٹھی اور سامنے کتابوں کے ریک کی طرف گئی-پھر سیدھی کھڑی کتابوں کی جلد پر انگلی گزارتی کسی کتاب کی تلاش کرنے لگی- تو تمہارا نقطہ یہ ہے کہ صرف خالی محاورتا’ترجمہ دیکھ کر قرآن پڑھنا بھی کافی ہے- اس نے ایک کتاب پر انگلی روکی اور اسے کھینچ کر باہر نکالا- یہ سورۃ بنی اسرائیل میں ابلیس کے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے کا قصہ ہے-یہاں ابلیس نے اولاد آدم کے لیئے کیا لفظ استعمال کیا ۔۔۔۔۔۔ یہ پڑھو اس نے بڑا سا ترجمے والا قرآن اس کے سامنے کھول رکھا اور اپنی زمرد جڑی انگوٹھی والی انگلی ایک لفظ پر رکھی-مؔحمل بے اختیار قرآن پر جھکی- لاحتنکن’ البتہ میں ضرور قابو کروں گا-اس نے لفظ اور ترجمہ دونوں پڑھے- رائٹ- اگر البتہ اور ضرور کے ضمائر کو نکال دو تو تین حرفی لفظ رہ جاتا ہے-ح ن ک یعنی حنک’ حنک کے تین معنی ہیں-کسی چیز کو خوب باریکی میں سمجھنا’ ٹڈیوں کے کھیت کا صفایا کرنا اور گھوڑے کے جبڑوں کے درمیان سے لگام گزار کر گھوڑے کو قابو کرنا اردو میں بس اتنا لکھا ہے قابو کرنا- جسے انگریزی میں کنٹرول کہتے ہیں- جبکہ عربی کی وسعت ہمیں بتاتی ہے- کہ شیظان کس طرح ہماری نفسیات سمجھ کر،ہمارے ایمان کا صفایا کر کے ہمیں لگام ڈالتا ہے اور وہ لگام عموما منہ کے راستے ڈالی جاتی ہے اور قرآن اسی لیئے عربی میں اترا اور ۔۔۔۔ تم میری بات سے بور ہورہی ہو- چلو جانے دو- ابھی تمہارے پاس ٹائم ہے،اس لیئے کہہ رہی تھی،ورنہ بعد میں دنیاوی تعلیم میں کھو کر تمہیں اس کا ٹائم نہیں ملے گا- “یعنی آپ بھی ٹیپکل مولویوں کی طرح دنیاوی تعلیم کو گناہ سمجھتی ہیں؟ میں دنیاوی تعلیم میں کھو کر مادہ پرست بننے کو گناہ سمجھتی ہوں- ہاں- تمہیں دیر ہو رہی ہے،گھر میں سب پریشان ہورہے ہونگے- پریشان وریشان کوئی نہیں ہوتا،یتیموں کی پرواہ کسی کو نہیں ہوتی- کون یتیم؟ میں! میرے ابا نہیں ہیں- عمر کیا ہے تمہاری؟ بیس سال- پھر تو تم یتیم نہیں ہو- یتیم تو اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہوجائے،بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں ہوئی-اپنی اس خود ترسی کو اپنے اندر سے نکال دو محمل! آپ کیا کہہ رہی ہیں؟محمل بے یقینی سے پیچھے ہٹی اور چند لمحے اسے یونہی بے اعتبار نگاہوں سے دیکھ کر بنا کچھ کہے تیزی سے بھاگ گئی- فرشتے کی بات نے ایک دم اسے بہت ڈسٹرب کردیا تھا- “بھاڑ میں گئی ڈکشنری،میں یتیم ہوں! وہ تیزی سے راہداری عبور کر کے برآمدے میں آئی-آگے نکل ہی نا پائی تھی کہ ریسپشنسٹ نے روک لیا- اسلام علیکم- یہ آپ کا ایڈمیشن فارم،فرشتے باجی نے کہا تھا آپ کو اس کی ضرورت ہے- اف! وہ گہری سانس بھر کر ڈیسک کے قریب آئی- دکھایئے- بس دیکھ کر واپس کر دوں گی مجھے مولوی نہیں بننا۔ماسٹرز کرنا ہے اس نے سوچا- نیا پیچ کونسا ہے؟وہ اب پراسپیکٹس کے صفحے پلٹ کر دیکھ رہی -تھی- علم الکتاب پرسوں پہلی کلاس ہے- میں فرشتے کو صاف انکار کردونگی،بھلے وہ برا منائے،بس پورا دیکھ کر واپس کر دونگی-وہ سوچ رہی تھی- اور یہ فارم فل کر کے کدھر دینا ہے؟ اسی ڈیسک پر- اور فیس؟ علم کی فیس نہیں ہوتی- پھر بھی کچھ چارجز تو ہونگے- ہم قرآن پاک کے چارجز نہیں لیتے- تو نہ لیں،مجھے کونسا ادھر داخلہ لینا ہے-میں تو پورا دن اسکارف لپیٹ کر قرآن نہیں پڑھ سکتی-آئی ایم سوری فرشتے،مگر میں یہ نہیں کروں گی-اس نے خود کلامی کی تھی-
وہ بیگ کو اسٹریپ سے تھامے ہاتھ گرائے یوں تھکے تھکے قدموں چل رہی تھی کہ بیگ لٹکتا ہوا میں کو چھو رہا تھا-کالونی کے گھنے درخت خاموشی سے جھکے کھڑے تھے-وہ آہستہ سے بینچ پہ جا بیٹھی جو آج بھی اداس تھا-وہ فارم جمعع کروا کے فرشتے سے ملے بغیر وہاں سے نکلی تھی،تب ہی کسی کے دوڑتے قدم اس کے قریب آ کے سست پڑے- “کیسی ہو؟ کوئی اس کے پاس ا کھڑا ہوا تھا- اس نے ہولے سے سر اٹھایا- ہمایوں بہت سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا-سیاہ ٹراؤزر پہ رف سی شرٹ پہنے،ماتھے کے گیلے بال اور چہرے پہ نمی پھولی سانس جیسے تیز جاگنگ کرتا ادھر آیا تھا- کیا فرق پڑتا ہے آپ کو؟ فرق تو پڑتا ہے- تمہیں ایسے دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کہ تم میرے خلاف کورٹ میں پیش ہونے کے لیئے تیار ہوگئی ہو- “ہونا پڑے گا – مگر اب کیا کروں- “کچھ نہ کرو-وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا-محمل چہرہ موڑ کے اسے دیکھنے لگی-جو سامنے درختوں کی باڑ کو دیکھ رہا تھا- جب تک تم عدالت میں جاؤ گی ہمارا پھندا فواد کی گردن کے گرد مزید تنگ ہوچکا ہوگا-بس ابھی ان کی مانتی جاؤ اور کورٹ میں سچ بول دینا- استعمال کر لیں سب مجھے اپنے اپنے مقصد کے لیئے- وہ دکھ سے اسے جھٹکتی اٹھی اور زمین پر گرا بیگ اسٹریپ سے اٹھایا- کمزور ہوگئی ہو بہت اپنا خیال رکھا کرو- “آپ کی فکر میں بھی غرض چھپا ہے- کاش میں آپ کے خلاف بیان دے سکوں-وہ تیز تیز قدموں سے سڑک پر آگے بڑھ گئی- وہ شانے اچکا کر گیٹ کی طرف آیا-گیٹ بند کرتے ہوئے اس نے لمحہ بھر کو مڑ کے اس کی طرف دیکھا ضرور تھا جو سر جھکائے تیز تیز سڑک کے کنارے چلتی جا رہی تھی- ہمایوں پلٹ کر ڈرائیووے پر جا گنگ کی طرح بھاگتا ہوا اندر بڑھ گیا- درختوں کی بھاڑ اور بینچ پھر سے ویران ہوگئے-
ہیلو! وہ بیڈ سے ٹیک لگائے،گھٹنوں پہ پراسپیکٹس رکھے پڑھ رہی تھی جب دروازہ کھلا-آواز پہ محمل نے سر اٹھایا- چوکھٹ پہ آرزو کھڑی تھی-ریڈ ٹراؤزر کے اوپر سلیو لیس سفید شرٹ،یہ اس کا مخصوص ایکسرسائز کا لباس تھا-کٹے ہوئے بال شانوں تک آئے تھے-پتلی کمان سی بھنوئیں اؔٹھائے وہ مسکرا تے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی- کیسی ہو؟ انداز دوستانہ تھا-محمل بمشکل سنبھل پائی- ٹھیک ہوں آپ کیسی ہو؟وہ سیدھی ہو بیٹھی اور پراسپیکٹس نا محسوس طریقے سے ایک طرف کھسکا دیا- فٹ! وہ بے تکلفی سے بیڈ کے کنارے ٹک گئی-اندر آتے ہوئے اس نے دروازہ پورا بند کردیا تھا-محمل بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی- جو عادتا بالوں میں انگلیاں پھیرتے بھنوئیں سکیڑتے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی- “کتنا چھوٹا کمرہ ہے تمہارا محمل؟ایٹلیسٹ آغآ جان کو تمہیں پراپر بیڈ روم دینا چاہیئے تھا-بعد دفعہ آغا جان بہت زیادتی کر جاتے ہیں-ہے نا؟اس نے رائے مانگی-محمل نے ایک نظر دروازے کو دیکھا جو بند تھا- معلوم نہیں- تم کہو تو میں ابا سے کہہ کر تمہیں بڑا روم دلوا دوں؟ (یہ خیال اتنے سالوں میں تو آپ کو نہیں آیا آج کیوں؟) اٹس اوکے-میں خوش ہوں-اس نے پھر سے بند دروازے کو دیکھا-مجھے آغا جان سے کوئی شکایت نہیں- خیر آغآ جان کی ہی کیا بات-خود فواد نے تمہارے ساتھ کتنی زیادتی کی-کم از کم گھر کی عزت کا ہی خیال کر لیا ہوتا- “آپ کو، آپ کو میرا یقین ہے؟اسے جھٹکا لگا تھا- “آف کورس- فواد کو کون نہیں جانتا اور اب تو یہ لوگ تمہارے خلاف سازشیں کر رہی ہیں- “کیسی سازشیں؟وہ محتاط ہوئی- یہ تم سے اے ایس پی کے خلاف بیان دلوائیں گے-کیا نام تھا اس کا؟ہمایوں؟اس کا انداز بے حد سرسری تھا- ہمایوں داؤد-بات کچھ کچھ اس کی سمجھ میں انے لگی تھی- ہاں اس کے گھر فواد تمہیں لے گیا تھا نا؟کدھر رہتا ہے وہ؟اب آرزو بہت ہی لاپرواہی سے کہتی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی- یہ تو مجھے نہیں پتہ آرزو باجی کہ وہ کس کا گھر تھا- فون نمبر تو ہوگا تمہارے پاس؟ جی ہے-آپ کو چاہیئے؟ ہاں بتاؤ! آرزو یکدم الرٹ سی ہوئی-سارا سرسری پن اڑن چھو ہوگیا- ون فائیو پہ کال کر لیں،یہی نمبر ہوتا ہے پولیس والوں کااس نے مسکراہٹ دباۓ پراسپیکٹس پھر سے اٹھا لیا- خیر رہنے دو-مجھے کام ہے،چلتی ہوں-آرزو ناگواری سے کہتی ہوئی تیزی سے اٹھ کر باہر نکل گئی- ان کا بھی کیسا دل ہے فٹ بال کی طرح فواد اور ہمایوں کے درمیاں لڑھکتا رہتا ہے-ہونہہ-اس نے استہزائیہ سر جھٹک کر پھر سے پراسپیکٹس اٹھالیا-
آج کتنے ہی دنوں کے بعد وہ خود سے ناشتے کی میز پہ موجود تھی-کسی نے اس کو مخاطب نہیں کیا-وہ خود بھی خاموشی سے تیز تیز لقمے لے رہی تھی-سفید شلوار قمیض پہنے اور بے بی پنک اسکارف گردن میں ڈالے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے وہ اپنی پلیٹ پر جھکی تھی- محمل فضہ چاچی نے خود ہی اسے مخاطب کیا- وہ بغور اسے دیکھ رہی تھی-کالج جوئن کرلیا ہے؟ توس پر جام لگاتے حس نے چونک کر اسے دیکھا جو سر جھکائے ناشتے میں مگن تھی-اونچی بھوری پونی سے ایک لٹ نکل کر گال چھو رہی تھی-فضہ کے پکارنے پر اس نے گردن اٹھائی- نہیں ایک انسٹی ٹیوٹ میں ایڈمشن لیا ہے- کیا پڑھتی ہو ادھر؟ میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی-وہ کرسی دھکیلتی اٹھ گئی تھی-حسن کی نگاہوں نے دور تک اسے باہر جاتے دیکھا تھا- اسکول کی ایک راہداری میں لگے ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اس نے اسکارف کو سر پر رکھا اور چہرے کے گرد نفاست سے لپیٹ کر پن لگائی،یوں کہ دمکتی سنہری رنگت والا چہرہ بےبی پنک بیضوی ہالے میں مقید ہوگیا-اونچی پونی ٹیل کے باعث پیچھے سے اسکارف کافی اوپر اٹھ گیا تھا- ہوں نائس- وہ خود کو سراہتی واپس برآمدے تک آئی-گھر سے اسکارف لے کر آنا اسے عجیب سا لگ رہا تھا،سو یہیں اکر اس نے اسے سر پر لیا تھا- برآمدے سے چوڑی سیڑھی نیچے حال تک جاتی تھیں- ساتھ ہی جوتوں کا ریک پڑا تھا-اس نے جوتے ریک پر اتارے اور ننگے پاؤں سنگ مر مر کے ٹھنڈے زینے اترنے لگی- وسیع و عریض prayer hall بھرا ہوا تھا-قالین پر سفید چادریں بچھی ہوئی تھیں-ان سے بہت سلیقے سے صفوں میں ڈیسک لگے تھے-وہ ڈیسک زمیں سے بازو بھر ہی اونچے تھے-عموما مدرسوں میں ہوتے ہیں- ڈیسکوں کے پیچھے سفید یونیفارن اور بے بی پنک اسکارف سے ڈھکے سروں والی لڑکیاں سفید چادروں ہی دو زانو مؤدب سی بیٹھی تھیں- محمل نے آہستہ سے آخری سیڑھی پر پاؤن رکھا- وہ ہال کے آخر میں تھی-ان کے سامنے اب ساری صفوں میں بیٹھی لڑکیوں کی پشت تھی-سامنے اونچے پلیٹ فارم پر میڈم کی کرسی اور میز تھا-ان کے پیچھے دیوار پہ کیلی گرافی آویزاں تھی- قرآن سب چیزوں سے بہتر ہے- جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں- اسے لگا وہ ان لڑکیوں کی طرح نیچے نہیں بیٹھ سکے گی-سو ہال کے آخر میں دیوار ساتھ لگی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی- اس کی کتابیں خاصی انٹرسٹنگ تھیں-کتاب الطہارۃ، کتاب الزکوۃ،کتاب العلم،کتاب الصلوۃ،کتاب الصیام، کتاب الحج و عمرہ-چھوٹے چھوٹے کتابچے تھے-باقی ایک سیپارہ تھا-پہلا سیپارہ بہت بڑے سائز کا ،ہر صفحے پر بڑے بڑی پانچ عربی کی سطریں تھی-اور ہر دو کے درمیاں خالی دو لائینیں تھیں-غالبا نوٹس لینے کے لیئے- عربی کے ہر لفظ کے نیچے اس کا اردو ترجمہ ایک چوکور ضانے میں لکھا ہوا تھا-یون ہر لفظ الگ الگ نظر آتا تھا- وہ دس منٹ لیٹ تھی-میڈم مصباح کا لیکچر شروع ہو چکا تھا- سب سے پہلے تو آپ لوگ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ یہاں آپ کو دین پڑھایا جائے گا-مذہب نہیں- دین اور مذہب میں بڑا فرق ہوتا ہے- دین religion کہ کہتے ہیں-اور مذہب عقیدے یا اسکول آف تھاٹ کو، ــــــــــــــــــــــــــــــ دین پڑھنے سے قبل ایک بات ذہن میں نقش کر لیں اور گرہ باندھ لیں-دین میں دلیل صرف قرآن کی ؔآیت یا حدیث صلی اللہ علیہ وسلم سے دی جاتی ہے- اب وہ سورہ فاتحہ سے آغاز کر رہیں تھی- الحمد للہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عربی کے لفظ تین یا چار حروف سے بنتے ہیں جنہیں ہم روٹ ورڈ کہتے ہیں-الحمد میں روٹ ورڈ حامیم دال (ح م د) ہے- یعنی تعریف ،اسی حمد ‘سے حآمد حماد احمد محمد حمید،محمود بنتے ہیں- حامد تعریف کرنے والا،احمد تعریف والا،حمید خوب خوب تعریف والا جب آپ قرآن کو کولسٹرل ورڈ ڈفینیشن پہ پڑھیں گے تو آپ اینجوئے کریں گے کہ بس -جیسے سجدہ” کا روٹ ورڈ “سجد” ہے اس سے مسجد،ساجد بنتا ہے- پڑھانے کا انداز دلچسپ تھا- محمل تیزی سے نوٹس لے رہی تھی–اس نے بارہا سوچا کہ یہ فیؔصلہ صحیح تھا یا غلط مگر اندر سے متذبذب ہی رہی تھی- اگلے کچھ روز وہ پڑھائی میں اتنی مصروف رہی-فرشتے سے ملی ہی نہ سکی-تجوید تفویر،حدیث کی پڑھائی ۔۔۔۔ پڑھائی ٹھیک تھی اور بس ٹھیک ہی تھی-کوئی غیر معمولی چیز تو اسے ابھی تک نظر نہیں آئی تھی- البتہ اپنی راۓ اسے صحیح لگی تھی قرآن می وہی کچھ تھا جو اس نے سوچا تھا- نماز کا حکم،زکواۃ دینا مال خرچ کرنے کی تاکید- مومن،کافر ،منافق کی تعریف وہی،مدینہ کے منافقوں کا ذکر- نھئی اب مسلمان ہیں اتنا تو پڑھ ہی رکھا ہے-ہاں وہ باتیں ہرگز نہیں تھیں جس کا ذکر وہ سیاہ فام لڑکی کیا کرتی تھی- البتہ وہ قرآن کو بہت دھیان سے پڑھتی،الفاظ کے معنی یاد کرنے کی کوشش کرتی، نوٹس لیتی، اور روٹ ورڈ سمجھتی-آہستہ آہستہ اسے احساس ہوا وہ کتنا قرآن پڑھتی تھی-الفاظ کا مجہول ادا کرتی تھی- مثلا ب (بازیر) بی ہوتا ہے-مگر وہ بازیر (بے) پڑھتی تھی اور یہ ساری امیاں نانیاں اور دادیاں جو ہمیں قرآن سکھاتی ہیں-س ص اور ث کا فرق ہی نہین پتا چلتا-جب ہم زیر زبر کوبہت لمبا کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم قرآن میں ایک حرف کا اضافہ کر رہے ہیں، قرآن میں تحریف کر رہے ہیں-معانی بدل رہے ہیں- انگریزی کو تو خوب برٹش امریکن لہجے مین بولنے کی کوشش کرتے ہیں اور قرآن جس کو عربی لب و لہجے میں پڑھنے کاحکم ہے اور جس زیر زبر کا اصل سے زائد کھینچنا بھی حرام درجے کی غلطی شمار ہوتا ہے،اس کے سیکھنے کو اہمیت ہی نہیں دیتے- مسجد میں ایک اور عجیب رواج تھا-اسے شروع میں تو عیب ہی لگااور بعد میں اچھا-وہاں ہر کسی کو سلام کیا جاتا تھا-راہداریوں میں سے گزرتے،سیڑھیوں پہ اترتے چڑھتے،جو بھی لڑکی نظر آتی اس کو مسکرا کر سلام کیا جاتا-بھلے کسی کو آپ جانتے ہیں یا نہیں مگر سلام فرض تھا-کسی کو مخاطب کرنے کے لیئے بھی” ایکسکیوزمی” کی جگہ اسلام علیکم کہہ کر مخاطب کیا جاتا- :ایکسکیوزمی کہہ کر معافی کس غلطی کی مانگیں جو ہوئی ہی نہیں؟دعا کوں نہ دیں؟فرشتے نے بہت پہلے اسے بتایا تھا تو وہ سوچتی رہ گئی تھی- ان تمام سوزوں کے برعکس محمل قرآن کو عزت دیتی- اس وقت بھی وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر بیٹھی صبح کے نوٹس پڑھ رہی تھی-جب دروازہ ہولے سے بجا- اس نے حیرت سے سر اٹھایا-یہ کھٹکھٹآ کر کون آۓ گا بھلا اس کے کمرے میں؟ جی؟ دروازہ ہولے سے کھلا- وہ الجھ کر آہستہ آہستہ کھلتے دروازے کو دیکھے گئی-یہاں تک کہ وہ پورا کھل گیا اور لمحے بھر کو تو وہ سن سی رہ گئی-پھر جیسے بوکھلا کر نیچے اتری- آ ۔۔۔ آغآ جان – آپ؟ وہ دہلیز میں کھڑے تھے اطراف کا جائزہ لیتے کمر پہ ہاتھ باندھے اندر داخل ہوئے- آپ ۔۔۔۔۔۔ آپ بیٹھیں آغا جان! چھوٹا سا کمرہ تھا وہ انہیں کہاں بٹھاتی-جلدی سے سیپارہ اوپر شیلف پہ رکھا اور بیڈ کی چادر ٹھیک کی-وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھ گئے- ادھر آؤ بیٹا مجھے تم سے بات کرنی ہے- یہ اس واقعہ کے بعد پہلی دفعہ تھا جب وہ اس سے مخاطب ہوئے تھے-اور انداز میں کافی نرمی تھی-وہ کسی معمول کی طرح ان کے سامنے آبیٹھی- جج ۔۔۔۔۔۔ جی- محمل! وہ بغور اس کا چہرہ دیکھتے آہستہ سے بولے- محمل سانس روکے ان کو دیکھے گئی- فواد نے تمہارے ساتھ برا کیا بہت برا-میں تم سے اس کی طرف سے معافی مانگتا ہوں- نہیں نہیں آغا جان پلیز- انہوں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے-تو وہ موم کی طرح پگھلنے لگی- بے اختیار ان کے ہاتھ پکڑ لیئے- تمہارے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں میں جانتا ہوں-اور اب میں ان کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں- جیَ وہ کچھ سمجھ نہ پا رہی تھی- میں جائیداد میں تمہارا حصہ الگ کرنا چاہ رہا ہوں-تا کہ تم اس کی دیکھ بھال کر سکو-ففٹی پرسنٹ کی تم مالک ہو- تم وہ حصہ لے لو-میں نے وکیل کو پیپرز تیار کرنے کا کہہ دیا ہے- وہ حق دق ان کا چہرہ دیکھ رہی تھی- ” کیا تم اپنا حصہ لینا چاہتی ہو؟ جج جیسے آپ کہیں۔۔۔ بعد دفعہ اپنے حقوق کی بات اکیلے میں کہنا آسان ہوتا ہےبہ نسبت اپنے مخالفین کے سامنے- وہ اور کچھ کہہ ہی نہ سکی بس یک ٹک انہیں دیکھے گئی جو اس کے سامنےبیڈ پائنتی ہی بیٹھے تھے- میں آج جائیداد کے کاغذات سائن کر دیتا ہوں-مگر تم میری ایک شرط ہےوہ لمحے بھر کو رکےان کی نگاہیں اس کے چہرے پر جمی تھیں وہ پلک نہیں جھپک رہے تھے اسے دیکھ رہے تھے جو دم سادھے انہیں دیکھ رہ تھی- “مگر تم فواد کے خلاف نہیں بلکہ اے ایس پی ہمایوں داؤد کے خلاف گواہی دو گی کورٹ میں-“ وہ ادھ کھلے لب اور پھٹی آنکھوں سے انہیں دیکھے گئی- عدالت نے ہمیں تاریخ دے دی ہے اگلے ماہ کی تاریخ میں چاہتا ہوں تم عدالت میں اپنے بیان سے نہ پھرو- تا کہ میں جائیداد کے کاغذات تمہارے حوالے کردوں-جیسے ہی تم کورٹ مین بیان دوگی میں دستخط کر دونگا- وہ اٹھ کھڑے ہوئے-وہ انہیں دیکھنے کے لیئے گردن بھی نہ اٹھا سکی-تمہارے پاس وقت ہے خوب اچھی طرح سوچ لو-اور اسے ایک بزنس ڈیلنگ سمجھو-یہ تمہیں آئندہ ابراہیم کی بزنس ایمپائر سنبھالنے میں مدد دے گی- وہ دروازے کی طرف بڑھے- مجھے منظور ہے-وہ تیزی سے بولی فیصلہ کرنے میں اسے ایک پل لگا تھا-بھاڑ میں جائے ہمایوں حبس بے جا میں تو اس نے بھی مجھے رکھا تھا- انہوں نے ذرا سا مڑ کر فاتحانہ مسکراہٹ سے اسے دیکھا- تم اچھی بزنس وومن بن سکتی ہو ٹیک کئیر- اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئے- کیا یوں ہمایوں گرفتار ہوجائے گا؟اور۔۔۔۔ اورفواد کیا گھر آجائے گا؟نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر جائیداد- اپنے مقام کو پالینے کی خواہش۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی وہ بھی تائی پر یونہی حکومت کرے-سب اس کی عزت کریں-اس کے حکم سے گھر میں کام ہوں اس کی موجودگی ہر جگہ ضروری سمجھی جائے-وہ الجھ کر رہ گئی تھی- کیا اس نے صحیح کیا ؟کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا-
صبح آٹھ بجے وہ مسجد کے گیٹ پر تھی-اندر داخل ہونے سے قبل اس نے بیلوں سے ڈھکے بنگلے کو دیکھا جس کا سنگی بینچ آج بھی ویران تھا- بابا! تمہارا صاحب ہے؟کچھ سوچ کر اس نے باوردی گارڈ کو مخاطب کیا- وہ تو شہر سے باہر گیا ہے- کب آئے گا؟ معلوم نہیں- “اچھا اس نے ذرا سی ایڑی اونچی کر کے گیٹ کے پار دیکھا-ہمایوں کی گاڑی کھڑی تھی- وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بیبی ! وہ جہاز پہ گیا ہے- گارد قدرے گربڑایا- بھاڑ میں گیا تمہارا صاحب میری طرف سے- اس سفید سر پر جھوٹ تو نہ بولو – نہیں ملنا چاہتا تو منع کردو-جھوٹ بولنا منافقت کی نشانی ہے-ایمان کی نہیں ہمایوں نے اس کے لیئے یہ کیوں کہہ رکھا تھا- ( اور پتا نہیں میں نے صحیح کیا یا غلط -مگر وہ ایسے میری جائیداد کبھی نہیں دیں گے،پھر اور کیا کرتی؟) بے زار سا تاشر چہرے پہ سجائے،بیگ اٹھائے وہ سست روی سے برآمدے کی طرف چل رہی تھی- (اور یہ جھوٹ تو نہیں ،اس نے مجھے حبس بے جا میں رکھا تھا-) اس نے چپل ریک میں اتاری اور خود کو گھسیٹتی ہوئی نیچے سیڑھیان اترنے لگی- (مگر اغوا تو نہیں کیا تھا ،میں ادھر اپنی مرضی سے ہی گئی تھی تو اس پر یوں اغواء کا الزام لگادینا جھوٹ نہیں ہوگا؟) وہ سر جھکائے آہستہ آہستہ زینے سے نیچے اتر رہی تھی- (نہیں جھوٹ کہاں،اس نے ڈیل تو کی تھی،اغوا اور خریدنا ایک ہی بات ہے-اگر ذرا سا لفظوں کا ہیر پھیر کردوں توکیا ہے؟) اس نے کرسی پر بیٹھ کر کتابیں سائیڈ ٹیبل پر رکھیں، اور ساتھ بیٹھی لڑکی کے سیپارے پہ جھا نکا اور پھر مطلوبہ صفحہ کھولنے لگی-تفسیر شروع ہو چکی تھی-وہ آج بھی لیٹ تھی- (فواد کے خلاف گواہی نہ بھی دوں تو بھی وہ سزا پائے گا،اور وہ اتنا بڑا اے ایس پی کوئی میرے بیان سے اسے سزا تھوڑی نا ملئ گی؟بس لفظوں کوتھوڑا سا ینٹر چینج کردیا جائے تو کیا ہے،میری نیت تو صاف ہے) مطلوبہ صفحہ کھول کر اس نے پین کا کیپ اتاری اور آج کی تاریخ لکھنے لگی- اور تم جھوٹ کو سچ کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ تم سچ کو چھپاؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو- میڈم مصباح کی بات پہ جیسے کرنٹ کھا کر اس نے سر اٹھایا-وہ اپنی چئیر پر بیٹھی کتاب سے پڑھ رہی تھی-اس نے بے اختیار اپنے سیپارے کودیکھا-اس صفحے پر سب سے اوپر یہی لکھا تھا- تم میری آیات کے بدلے تھوڑی قیمت نہ لو،اور صرف مجھ سے ہی ڈرو-اور تم جھوٹ کو سچ سے نہ ملاؤ-اور نہ تم حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو- وہ سن سی بے حد ساکت سی پھٹی پھٹی نگاہوں سے ان الفاظ کو دیکھ رہی تھی-مگر اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا-ساری آوازیں جیسے بند ہو کر رہ گئی تھیں-وہ بنا پلک جھپکے ان ہی الفاظ کو دیکھے جا رہی تھی- “کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو؟اور اپنے نفس کو بھول جاتے ہو؟حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو-کیا پھر تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ اسے ٹھنڈے پسینے آنے لگے تھے-ذرا دیر پہلے گارڈ کو کی گئی نصیحت اس کے کانوں میں گونجی- اسے لگا وہ کتاب اسے اس سے زیادہ جانتی ہے-(پھر ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ میں کیا کروں؟)اس کا دل کانپنے لگا تھا- بے اختیار اس نے رسی تھامنا چاہی-کلام کی رسی-وہ نہ جانتی تھی کہ دوسرے سرے پر کون ہے،مگر اسے یقین تھا کہ دوسرے سرے پر کوئی ضرور موجود ہے- “صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو-بے شک وہ (نماز) سب پہ بھاری ہے- سوائے ان کے جو ڈرنے والے ہیں- اس نے وحشت زدہ سی ہو کے سر اٹھایا-پنک اسکارف والے بہت سے سر اپنی کتابوں پر جھکے تھے-کوئی بھی اس کی طرف متوجہ نہ تھا- اس نے پھر سے ان الفاظ کو پڑھا-وہ کوئی مضمون نویسی نہ تھی-بات”او مائی گاد” اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا- it’s talking to me ساتھ بیٹھی لڑکی نے سر اٹھایا- تو یہ ٹاک ہی تو ہے-کلام-اس کو ہم کلام پاک اسی لیئے تو کہتے ہیں-وہ سادگی سے کہہ کر اپنے سیپارے پہ جھک گئی- محمل نے سیپارہ بند کردیا،اور کچھ بھی اٹھائے بنا،تیزی سے بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھتی گئی- فرشتے اپنے آفس میں آئی تو وہ اس کاانتظار کر رہی تھی- محمل تم؟ میں ۔۔۔۔ میں آئندہ نہیں آؤن گی،میں مدرسہ چھوڑ رہی ہوں- وہ جو کرسی پہ بیٹھی تھی،بے چینی سے کھڑی ہوئی-اس کی آنکھوں میں عجیب سا خوف اور گھبراہٹ تھی-فرشتے نے آرام سے فائل میز پہ رکھی اور کرسی کی دوسری جانب جگہ سنبھالی،کھڑکی کے بلائنڈز بند تھے،کمرے میں چھاؤں سی تھی- آپ میری بات سن رہی ہیں؟ بیٹھو- وہ میز کی دراز کھول کر جھکی کچھ تلاش کرنے لگی تھی-محمل بمشکل ضبط کرتی کرسی پہ ٹکی اس کا بس نہین چل رہاتھا وہ ادھر سے بھاگ جائے- میں نہیں آؤں گی آئندہفرشتے! اس نے دہرایا-وہ ابھی تک دراز میں مصروف تھی- پھر کہاں جاؤ گی؟ بس قرآن چھوڑ رہی ہوں- اسے چھور کر کہاں جاؤ گی محمل! وہ کچھ کاغذات نکال کر سیدھی ہوئی اور اسے دیکھا- اپنی نارمل لائف میں تمہیں یہ ابنارمل لائف لگتی ہے؟ یہ مجھ سے بات کرتی ہے فرشتے! وہ دبی دبی سی چیخی-آپ سمجھ نہیں سکتیں میں کتنے کرب سے گزر رہی ہوں-مجھ سے یہ برداشت نہیں ہورہا-آپ سمجھ نہیں سکتیں- ” میں سمجھتی ہوں -جب قرآن مخاطب کرنے لگتا ہے تو سب ہی اس کرب سے گزرتے ہیں- نہیں-اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا-وہ کسی کے ساتھ نہیں ہوسکتا جو میرے ساتھ ہوا،آپ تصور نہیں کر سکتیں- تمہیں لگتا ہے تم پہلی ہو؟ اس نے گہری سانس لے کر آنکھں بند کیں اور سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا- ہم انسان ہی تو یہ بوجھ اٹھانے کے قابل ہیں،پھر تم اتنی کمزور کیوں پر رہی ہو؟ہم پہار ہوتے تو نہ سہار سکتے دب جاتے- وہ میری سوچیں پڑھ رہی ہے فرشتے! وہ مخلوق نہیں ہے وہ کلام ہے -بات ہے اللہ کی بات،اور اللہ ہی تو سوچیں پڑھ سکتا ہے-“ وہ گم صم سی پوگئی- میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اللہ تعلی سے بات کر رہی تھی؟ تمہیں کوئی شک ہے؟ مگر یہ چودہ سو سال پرانی کتاب ہے،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاسٹ (ماضی) میں ہوکر ہم سے چودہ سو سال بعد کے فیوچر (مستقبل) سے کونٹیکٹ کرلے؟ اٹس لائیک اے میریکل-( یہ تو معجزے کی طرح ہے)