“یہ لو زرنور بن گیا تمہارا لنچ ..جلدی سے پی لو یہ سوپ پھر تم نے دوا بھی لینی ہے ” انوشے نے اس کی طرف سوپ کا باؤل بڑھایا جس کو دیکھ کر اس نے برا سا منہ بنایا تھا “بھئی مجھے نہیں پینا یہ گندا پھیکا سا سوپ ” اس نے پیچھے کر دیا تھا “ارے …بیماری میں سوپ ہی پیتے ہیں ” “میں اب ٹھیک ہوں انوشے ..اور یہ سوپ تو بلکل بھی نہیں پیونگی ” “اچھا تو پھر دلیہ .یا کھچڑی بنا دوں ؟” “دلیہ ؟ کھچڑی ؟؟ یخ یخ …” اس نے پھر سے برا سا منہ بنایا ” “دلیہ بھی نہیں کھانا کھچڑی بھی نہیں کھانی سوپ بھی نہیں پینا ..تو پھر برگر اور پیزا حاضر کر دوں میں آپ کی خدمت میں میڈم ؟؟” زرنور کی آنکھیں چمکی تھی .”ضرور ..اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے؟ ” “پیزا تو ایک ہی شرط پر ملے گا اگر تم ان تینوں چیزوں میں سے کچھ کھاؤ گی تو ورنہ نہیں ..” انوشے کے کہنے پر اس نے منہ پھلا لیا تھا “میں نہیں کھاؤں گی یہ بیماروں والا کھانا ” ” اس کا تو پھر ایک ہی حل ہے ڈئیر نور بانو ..اگر تم چھلانگیں لگا کر دکھاؤ تو واقعی میں ان کو یقین آجاے گا کے تم بیمار نہیں ہو پھر تمہیں آرام سے پیزا برگر جو مانگو گی مل جائے گا ” حیدر نے کمرے میں آتے ہوئے کہا تھا ” تم تو رہنے ہی دو حیدر . تم سے اتنا نہیں ہوتا کے کسی کی عیادت کرنے آؤ تو ساتھ کچھ لیتے ہوئے ہی آجاؤ ..ایسے ہی ہاتھ ہلاتے آگئے ” زرنور نے اس کو شرم دلانی چاہی تھی ” “ایسے طنز تو مت کرو نور بانو مانا کے میں خالی ہاتھ آ گیا لیکن کیا یہ کم نہیں کے ایم این اے کا بیٹا تمہاری …ایک نوربانو… کی عیادت کرنے آیا ہے ” وہ کالر کھڑا کرتے ہوئے فخر سے بولا ” خالی ہاتھ ..” زرنور نے پھر طنز کیا تھا ” میں اس لئے خالی ہاتھ آیا کے ..میں نے سوچا کے جب نوربانو اگلی دفع بیمار پڑیگی تو جب کچھ لے جاؤں گا .اسی لئے ایسے ہی آ گیا لیکن وہ اشعر اور ریاض بےچارے اتنی چیزیں تو لے کر آئیں ہیں تمہارے لئے ..” “کون سی چیزیں ؟ مجھے تو کچھ بھی نہیں ملا ” وہ حیرت سے بولی “ہاں تو وہ سب پیزا برگر بروسٹ تکے وغیرہ تھے تم تو کھا نہیں سکتی تھی اس لئے وہ سب ہم نے ہی کھا لئے ..” حیدر کے بےفکری سے کہنے پر اس کا منہ حیرت سے کھلا تھا “تم لوگوں نے سب کچھ کھا لیا ؟” صدمے سے اس کا برا حال ہو رہا تھا “ہاں تو ..اور پوچھو ہی مت نوربانو ..اف کیا بریانی بنائی تھی مناہل نے ..اہاں …مزہ آ گیا بھئی اتنی مصالے والی اتنی ٹیسٹی …اف میں تو بتا ہی نہیں سکتا ..”وہ چٹخارے لیتے ہوئے بولا اور زرنور کی غصے اور مارے صدمے کے اب تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی “چپ ہو جاؤ حیدر ..وہ پہلے ہی نہیں پی رہی ہے سوپ ..” انوشے نے آنکھیں نکالی تھی “اچھی بات ہے پینا بھی نہیں چاہیے ..سوپ بھی کوئی پینے والی چیز ہے کیا ؟” حیدر …..!!!” انوشے نے اس کو گھور کر کہا تھا ” ارے ..سوپ تو اتنے مزے کا ہوتا ہے میرا تو دل کرتا ہے کے بس صبح شام میں سوپ ہی پیتا رہوں …پیو پیو تم بھی پیو نور بانو تمہیں بھی پسند آے گا ..” حیدر نے فورآ پینترا بدلا “صرف ابھی پی لو زرنور پھر رات کو جو تم کہو گی میں بنا کر دوں گی ..لیکن ابھی تم نے دوا لینی ہے نہ اسی لئے جلدی سے سوپ پی لو ..” “کوفتے بنا کر دو گی ؟؟” زرنور نے اس سے پوچھا تھا ” ہاں بلکل بنا کر دوں گی …” “آدھا پیوں گی صرف ..” اس نے باؤل پکڑتے ہوئے پہلے ہی کہ دیا تھا “چلو ٹھیک ہے …” وہ بھی مان گئی تھی “مناہل ایک بات پوچھوں ؟؟” حیدر نے اندر آتی مناہل کو دیکھ کر کہا تھا ” میں منع کروں گی تو کیا تم نہیں پوچھو گے ؟” اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا ” پھر تو ضرور پوچھوں گا ” “تو پھر اجازت کیوں مانگ رہے ہو مجھ سے ؟؟” وہ گھور کر بولی ” اچھا چھوڑو ..تمہیں ایک راز کی بات بتاؤں ؟؟” وہ اس کےساتھ صوفے پر بیٹھتے ہوئے رازداری سے بولا تھا “رہنے دو اس میں بھی کوئی ڈرامہ ہی ہوگا تمہارا ..” اس نے میگزین کے ورق پلٹتے ہو ۓ ہاتھ جھلا کر کہا “ارے نہیں قسم سے کوئی ڈرامے بازی نہیں ہے ..واقعی میں ایک خفیہ بات ہے جو ان میں سے بھی کسی کو نہیں پتا ..” “کسی کو بھی نہیں پتا؟؟” نہیں ..” “مجھے کیوں بتا رہے ہو پھر ؟؟” وہ مشکوک انداز میں بولی “ارے تو راز کی بات ہے نہ گڑیا ..اور مجھے پتا ہے کے تمہیں راز رکھنے آتے ہیں اسی لئے بس تمہیں بتا رہا ہوں ..””اچھا بتاؤ پھر کیا بات ہے ؟” مناہل کو نہ چاہتے ہوئے بھی متوجہ ہونا پڑا “پہلے وعدہ کرو کے کسی کو بھی نہیں بتاؤ گی ..” “ایسی کون سی بات ہے ؟؟”وہ حیرت سے بولی “بتاؤں گا نہ پہلے وعدہ تو کرو ” “اچھا وعدہ نہیں بتاؤں گی کسی کو ..اب بتاؤ کیا بات ہے ..” وہ سیدھی ہو کر بیٹھ گئی “تمہیں پتا ہے کے… “وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے رازداری سے بولا ” “کیا ؟؟…” “یہی کے …شمالی کوریا جنوبی کوریا پر مزائل مارنا والا ہے ..اور یہ بات خود شمالی کوریا کو بھی نہیں معلوم کے وہ ایسا کرنے والا ہے لیکن میں نے تمہیں بتا دیا …اب تمہیں ہر حال میں اس راز کی حفاظت کرنی ہے کسی بھی صورت اس خبر کو لیک نہیں ہونے دینا ..ورنہ خفیہ والے تمہیں اٹھا کر لے جائیں گے …سمجھ گئی ؟؟” وہ گہری سنجیدگی سے بولا ” یہ راز کی بات ہے ؟؟” وہ سرد لہجے میں بولی “اور نہیں تو کیا مناہل بھابھی ..” آخر میں وہ اس کو چڑاتا دروازے کی جانب بھاگھا “حیدر …!!!” وہ زور سے چیخی اور کشن کھینچ کر اس کو مارا ..وہ تو نیچے جھک گیا لیکن اندر آتی لائبہ کے منہ پر جا کر لگا تھا “یا وحشت ..یہ گولہ باری کیوں شروع کر دی اب ؟” وہ ہڑ بڑا کر بولی “ہاہا نشانہ چک گیا بھابھی ..”وہ ہنستے ہوئے باہر بھاگا اور بس مناہل کی برداشت جواب دے گئی غصّے میں بھری وہ اسکے پیچھے لپکی تھی کے بس آج تو وہ ضرور اس کا قتل کریگی لیکن کمرے سے باہر نکلتے ہی وہ اندر آتے حارث سے بری طرح ٹکرائی تھی اس کے سر پر تارے گھوم گئے تھے “یہ ریس کیوں لگائی جا رہی ہے بھئی ؟” حارث نے اس کا بازو تھاما ہوا تھا مناہل کے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پر تھے وہ ایک ٹک حارث کو دیکھ رہی تھی جو نیوی بلو شلوار قمیض میں ہمیشہ کی طرح فریش اور بہت ہینڈسم لگ رہا تھا اس کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی “کیا ہوا مناہل ؟ ٹھیک تو ہو تم ؟” حارث نے اس کے سامنے ہاتھ ہلایا تب وہ چونکی “تت تمہاری وجہ سے وہ میرے ہاتھ سے نکل گیا حارث ..تم بیچ میں کیوں آۓ ؟؟” اپنی خفت مٹانے کے لئے مناہل نے اس پر چڑھائی کر دی ” تو تم نے اس کو پکڑ کر کیا کرنا تھا ؟؟” “قتل کرنا تھا اور کیا کرنا تھا ..” وہ اپنے بال ٹھیک کرتی منہ پھلا کر بولی اتنا اچھا موقع جو ہاتھ سے نکل گیا “یا اللہ کیا تخریب کارانہ سوچ ہے ..اچھا ہوا میں بیچ میں آگیا اور ایک معصوم کی جان بچ گئی ..” ” معصوم ؟؟” اس کے آنکھیں حیرت سے کھلی تھی “اور نہیں تو کیا ..معصوم سا ایک بچہ ہوں میں تو ..فضول میں یہ بھابھیاں تیرے بھائی کی جان کے پیچھے پڑی رہتی ہیں حارث ..”حیدر نے حارث کی گردن میں ہاتھ ڈالتے ہوئے منہ بنا کر کہا مناہل نے غصے سے اس کو گھورا اور پلٹ کر زرنور سے کہا “زرنور گن ملے گی تمہارے پاس ؟” “گن تو اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی مناہل اگر تم دس بارہ مزائل بھی اس کے پیچھے چھوڑ دو نہ تو پکّا یقین ہے مجھے پھر بھی بچ جائے گا یہ ..”وہ بھی ناراضگی سے بولی “تعریف کا شکریہ ..” حیدر نے زرنور سے کہا جو میڈیسن لے رہی تھی مناہل اپنا غصّہ ضبط کرتی دوبارہ صوفے پر جا بیٹھی اور میگزین کھول کر چہرے کے سامنے کر لیا یہ اس کی ناراضگی کا اظہار تھا “اب کیسی طبیعت ہے تمہاری زرنور ؟ کل تو تمہاری حالت اتنی سیرئیس ہو گئی تھی سب کو ہی ڈرا دیا تم نے ” حارث اس کے بیڈ کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھتےہوئے بولا “یہ نہیں پوچھوگے کے کس کی وجہ سے وہ حالت ہوئی تھی ؟” وہ زہرخند لہجے میں بولی “ہاں تو وہ کون سا سکون میں تھا اس نے بھی ساری رات پریشانی میں ہوسپٹل کے کوریڈور میں گزاری ہے “وہ احمد کا دفاع کرتے ہوئے بولا “میں نے نہیں کہا تھا اسے پریشان ہونے کے لئے اور تم کیا میری عیادت کرنے آۓ ہو یا اس کی وکالت کرنے ؟” “یار عیادت کرنے ہی آیا ہوں ..” وہ گڑبڑا کر بولا ..”ہمم تم بھی خالی ہاتھ آۓ ہو ..” وہ اس کو گھور کر بولی “توبہ ہے نوربانو تم تو بہت ہی چٹوری ہو گئی ہو ..” حیدر نے تاسف سے کہا “یار وہ احمد نے ہی اتنی ڈھیر سارے فروٹس اور چیزیں لے لی تھی کے میرے لینے کی کوئی ضرورت ہی نہیں پڑی ..” “اوے احمد بھی آیا ہے ؟” حیدر نے اس سے پوچھا ..” “ہاں میرے ساتھ ہی آیا ہے انکل کے ساتھ لاؤنج میں ہے اشعر ریاض اور تیمور نے تو اس کو آتے ہی گھیر لیا تھا ” ابے تونے پہلے کیوں نہیں بتایا ؟” وہ جلدی سے باہر جانے کے لئے اٹھا جبھی اس کی نظر مناہل پر پڑی جو لائبہ اور انوشے سے بات کر رہی تھی “یار مناہل بات سنو ” وہ دروازے پر رک کر بولا “مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سننی بہتر ہوگا کے دفع ہو جاؤ تم یہاں سے ” وہ چبا کر بولی “وہ تو جا ہی رہا ہوں میں ..بس اتنا کہناتھا کے یہ حارث بیچارہ بھوکا پیاسا آیا ہے تم سے اتنا نہیں ہوتا کے اس کو چاۓ یا کھانا پانی کا ہی پوچھ لو ..بہت ہی کھڑوس ہو تم بھابھی ..ویسے حارث مجھے دلی افسوس ہے یار تیری قسمت میں ہی یہ ہے کیا کر سکتے ہیں ..” وہ بولتے ہوئے جھپاک سے باہر بھاگااور مناہل کا دل کر رہا تھا کے دیوار میں سر مار لے حارث نے بہ مشکل اپنی مسکراہٹ دبائی تھی “سچ میں یار بھوک تو مجھے لگ رہی ہے ناشتہ بھی نہیں کیا ..ماہین بھابھی کا فون آیا تھا کے حارث کھانا یہیں آ کر کھا لینا مناہل بریانی بنا رہی ہے ..اور مناہل کے ہاتھ کی بنی بریانی کھانے کے لئے تو میں سات سمندر پار سے بھی آ سکتا ہوں ..” حارث کے کہنے پر اس نے منہ بنایا ” ہنہ ..گھر پر تو اتنی برائیاں کرتے ہو کے نمک کم ہے مرچیں ٹھیک نہیں مصالہ سہی سے پکایا نہیں ..” حارث اس کے انداز پر ہنس پڑا تھا “اوہ انو شے جی کیسی ہیں آپ ؟” “ٹھیک ہوں ..” اس نے رسمی انداز میں کہا باہر کافی شور مچا ہوا تھا نہ جانے کس بات پر وہ لوگ اتنا ہنس رہے تھے “یار زرنور تم سے ایک بات کہنی ہے ” وہ اس کی طرف جھک کر رازداری سے بولا ” اگر اس کر متعلق کوئی بات کرنی ہے تو معاف کرنا مجھے کچھ نہیں سننا ..” اس نے پہلے ہی وارننگ دے دی ” یار بات تو اسی کے متعلق ہے ..وہ بھی ملنا چاہتا ہے تم سے ..” ” اسے صاف صاف کہ دوحارث کے مجھے اپنی شکل بھی مت دکھاۓ ورنہ اچھا نہیں ہوگا اس کے لئے “وہ غصّہ دبا کر بولی “وہ بس کچھ غلط فہمیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے .” “مجھے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں سننا حارث …” اس نے بات ہی ختم کر دی ” ٹھیک ہے بھئی جیسی تمہاری مرضی ..اب وہ خود ہی آ کر تم سے بات کرے گا وہ بھی اپنے طریقے سے ..” وہ چونکی “کیا اپنے طریقے سے ؟ ہاں کیا اپنے طریقے سے ؟ حارث میں کہ رہی ہوں تمہیں ..اگر اس نے میرے کمرے میں قدم بھی رکھا نہ تو اچھا نہیں ہوگا اس کے لئے ..” وہ انگلی اٹھاتے ہوئے بولی “فکر مت کرو یار وہ لوگ اس کی جان چھوڑیں گے تو وہ آۓ گا نہ.. “کیا مطلب ؟ تم نے ان سب کو بھی بتا دیا ؟” وہ حیرت سے بولی “تو اور کیا ..یہ کوئی چھپنے والی بات تھوڑی ہے ..” “چھپنے والی بات نہیں ہے تو پھر مجھے کیوں بے خبر رکھا ؟” وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولی “ویل… اس کا جواب تو وہ ہی دے سکتا ہے ” وہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا “حارث ..تمہیں پہلے سے پتا تھا نہ ؟” حارث نے گہری سانس لے کر آثبات میں سر ہلایا ” تم نےصرف دوستی کا رشتہ نبھایا حارث ..تم تو خود کو میرا بھائی کہتے تھے نہ ؟” وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی “یار زرنور ..” وہ اس کے پاس بیٹھا ” اس نے مجھے بھی کافی ٹائم بعد بتایا ” وہ نرمی سے بولا “پھر بھی تم نے مجھے نہیں بتایا ” اس نے آنکھیں رگڑتے ہوئے ناراضگی سے کہا “مانتا ہوں یار کے غلطی ہے میری کم از کم مجھے تم سے نہیں چھپانا چاہیے تھا لیکن اس نے ہی مجھے پابند کیا تھا “وہ بےبسی سے بولا ” رہنے دو حارث بہن سے زیادہ دوست زیادہ اہم ہے تمہارے لئے ” ” یہ تو تم بھی جانتی ہو زرنور کے وہ دوست سے زیادہ بھائی ہے میرا ..میں اس کی بات ٹال نہیں سکا لیکن اسے خود پر بڑا یقین ہے کے وہ تمہیں منا لے گا .اسی لئے پھر میں نے بھی آگے سے کچھ نہیں کہا لیکن اس نے ایسا کسی غلط مقصد کے لئے نہیں کیا …تم ایک دفعہ اس سے مل لو ..اس کی بات سن لو .. اگر تمہیں پھر بھی تسلی نہ ہو تو.. جو تم کہو گی وہ ہی ہوگا ..ہم زبردستی نہیں کریں گے تمہارے ساتھ یہ ایک بھائی کا وعدہ ہے تم سے ” وہ نرمی سے اسے کہ رہا تھا “میں اسکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی حارث ..اسے کہدو کے میرے سامنے بھی نہ آۓ ..شوٹ کر دوں گی میں اسے “زرنور کو رہ رہ کر اس پر غصہ آ رہا تھا “اچھا چلو ٹھیک ہے ..اگر تم ابھی اس سے نہیں ملنا چاہتی تو میں اسے منع کردوں گا ..لیکن تم ریلکیس رہو ..ورنہ پھر طبیعت خراب ہو جائے گی تمہاری ..اور دوا لی تم نے ؟” وہ بلکل بھائیوں کی طرح اس کا خیال رکھتا تھا اس نے آثبات میں سر ہلایا ” ٹھیک ہے اب تم آرام کرو اور اسٹریس بلکل بھی مت لو ..انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا ..” حارث نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اسکی آنکھیں پھر سے بھر آئی تھی بامشکل اس نے اپنے آنسوؤں کو باہر آنے سے روکا “کھانا کھالو حارث ..ماہین بھابھی بلا رہی ہیں تمہیں ..” مناہل نے ناراضگی سے کہا ا”اب تمہارا منہ کیوں پھولا ہوا ہے ؟” حارث نے اس کے ناراض سندر مکھڑے کو تکتے ہوئے کہا ” بدلے میں اس نے ایک غصیلی نگاہ اس پر ڈالی” تم اسے کچھ نہیں کہتے حارث ..اسی لئے وہ اتنا اوور ہوتا جا رہا ہے ” “تم جتنا چڑو گی وہ تمہیں اتنا ہی چڑاۓ گا ..تم رسپانس ہی مت دو اس کی بات پر ..اگنور کرو ..” ” ہر طریقہ کر کے دیکھ لیا میں نے ..لیکن اس ڈھیٹ پر کچھ اثر ہی نہیں ہوتا ..”وہ شدید ناراضگی سے بولی “اچھا ..میں بات کروں گا اس سے ” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا ” ہاں تمہاری تو جیسے بہت سنتا ہے نہ وہ ” مناہل طنزیہ انداز میں بولی “کیا مجھے کسی نے یاد کیا ہے ؟؟” جبھی حیدر نے دروازے میں سے سر نکال کر کہا “مناہل نے پھر غصے سے حارث کو دیکھا ” ابے حیدر ..تیری سمجھ میں نہیں آۓ گا ؟ کیوں فضول میں تنگ کرتا ہے تو مناہل کو ؟” وہ مصنوئی غصے سے بولا “اچھا سوری مناہل بھابھی ..آئندہ آپ کو بھابھی نہیں کہوں گا ” وہ سنجیدگی سے بولا جبکے مناہل اس کو تیز نظروں سے گھورتی غصّے میں بھری کمرے سے نکلی زرنور نے تو حیدر کو دیکھتے ہی سر تک بلینکٹ اوڑھ لیا تھا حارث اور حیدر کے درمیان مسکراہٹ کے تبادلے ہوئے تھے پھر وہ بھی مناہل کے پیچھے بھاگا آۓ ہم باراتی برات لے کر . جائیں گے تجھے بھی اپنے ساتھ لے کر وہ شرارتی انداز میں گنگنا رہا تھا ” آہستہ بولو حیدر شور مت کرو ..ابھی دوا لے کر سوئی ہے یہ ” انوشے نے اسے تنبہ کی تھی “کیا واقعی میں سو گئی ہے ؟” “ہاں میں مذاق تھوڑی کر رہی ہوں ..” “چلیں پھر ٹھیک ہے ..میں گھر جا رہا ہوں ..یہ اٹھ جائے تو اسے بتا دیجئے گا .” “ٹھیک ہے کہ دوں گی ” انوشے نے جلدی سے کہا وہ جاتے جاتے پلٹ کر سائیڈ ٹیبل کے پاس گیا اور وہاں رکھے ڈیری ملک کے ڈبے میں سے تین چار چاکلیٹس نکال کر اپنی جیکٹ کی جیب میں ڈالی تھی “ایسے مت دیکھیں انوشے ..نوربانو بھی میری بہن ہی ہے اگر میں یہ دو تین چاکلیٹس لے لوں گا تو وہ بلکل بھی برا نہیں مناۓ گی اس نے اتنے مان سے کہا کے انوشے ہنس پڑی “ٹھیک ہے حیدر تمہیں جتنی چاکلیٹس چاہیے تم لے لو ..میں اسے نہیں بتاؤں گی ..” “یہ ہوئی نہ بات ..چلیں اسی بات پر ایک آپ لیں لے ” حیدر نے ڈبے میں سے ایک اور چاکلیٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی “ارے لے لیں یار ..بھائی سمجھ کر لیں لے ..ویسے بھی یہ تو سو رہی ہے اس کو کیا پتا کے چاکلیٹس ہم نے کھائی ہیں ” یہ بات کرتے ہوئے وہ انوشے کو سچ میں معصوم سا لگا تھا لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کے یہ معصوم سا دکھنے والا دوسرو کو تگنی کا ناچ نچوا دیتا تھا انوشے نے مسکراتے ہوئے اس کی بڑھائی ہوئی چاکلیٹ تھام لی تھی “اوکے گڈ باۓ ..” وہ بھی دوسری چاکلیٹ کا ریپر ہٹاتا وہاں سے چلا گیا اس کے جاتے ہی زرنور نے سر باہر نکالا ..” تھینک گاڈ انوشے ..تم نے بچا لیا مجھے ،،” وہ شکر ادا کرتے ہوئے بولی “ویسے تمہیں پتا تو نہیں چلا نہ کے ہم بھائی بہن نے تمہاری چاکلیٹس کھائی ہیں ؟” انوشے نے شرارت سے کہا پھر وہ دونوں ہنس پڑی…. “آج تو اپنا ارادہ ملتوی کر دے تو بہتر ہے ..کیوں کے اس کے روم کی فضاء انتہائی کشیدہ ہے ..گولہ باری توپ ..اور مزائل چلنے کے بھی سو فیصد امکانات ہیں “حارث نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا وہ دونوں اس وقت کچن میں ڈائینگ ٹیبل کے گرد بیٹے تھے “اور وہ تو پکّا تجھے قتل کرنے کا ارادہ کئے بیٹھی ہے “اس نے ہنستے ہوئے کہا “یہ مذاق تمہیں بہت مہنگا پڑنے والا ہے ارمان ..” ماہین نے ان کے سامنے بریانی کی ڈش رکھتے ہوئے کہا “میں نے تو پہلے ہی کہ دیا تھا کے اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے ..میری بہن ہے نہ اچھی طرح سے جانتی ہوں میں اس کے مزاج کو ..” “بھابھی ٹھیک کہ رہی ہیں احمد ..میں نے بھی تجھے شروع میں ہی کہ دیا تھا کے یہ ہرکت مت کر ..لیکن تو سنے تب نہ ..” حارث نے پلیٹ میں بریانی نکالتے ہوئے کہا “آگے تم نے کیا سوچا ہے ارمان .؟ کیوں کے وہ تو تمہیں قبول کرنے کے لئے بلکل بھی تیار نہیں ہے ..” ماہین نے اس سے کہا “پریشان نہ ہو آپی ..میں سمبھال لوں گا اسے ..آپ لوگ اس کی ٹینشن مت لیں ..” اس نے اطمینان سے کہا ” تیری یہ ہی بات مجھے بری لگتی ہے احمد کسی بات کو تو سیرئیس لیتا ہی نہیں ہے ..وہاں تیری بیوی تجھے مرنے مارنے پر تلی ہوئی ہے اور تجھے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا آرام سے بیٹھ کر یہاں بریانی کھا رہا ہے ” حارث نے ناراضگی سے کہا “تو یار کیا چاہ رہا ہے تو ؟ ..کبھی تو کہتا ہے کے جا اس کے پاس …اچھا بھئی چلا جاتا ہوں ..کبھی تو کہتا ہے کے مت جا اس کے پاس مار دے گی تجھے ..اچھا یار نہیں جاتا …اور اب تو پھر غصّہ کر رہا ہے ..کیا چاہتا کیا ہے آخر ؟ کیا میں بریانی نہ کھاؤں ؟” وہ مصنوئی ناراضگی سے منہ پھلا کر بولا “اب میں نے یہ بھی نہیں کہا کے تو بریانی مت کھا ..شوق سے کھا ..جتنی کھانی ہے اتنی کھا ..لیکن یار تو تھوڑی سی ٹینشن ہی لے لے ” ” آپ کیا کہتی ہیں آپی کیا مجھے ٹینشن لینی چاہیے ؟” اس نے بریانی کھاتے ہوئے ماہین سے پوچھا ” اگر مجھے تمہاری نیچر کے بارے میں پتا نہ ہوتا تو میں بھی یہ ہی کہتی ..لیکن مجھے پتا ہے تم ہینڈل کر لوگے اسے ..”ماہین کے اطمینان سے کہنے پر احمد نے مسکرا کر حارث کو دیکھا “پریشان نہ ہو یار ..منا لوں گا میں تیری بہن کو ..” احمد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا “وہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھ سے کسی قسم کی کوئی امید مت رکھنا کیوں کے اس معاملے میں .میں تیری کوئی مدد نہیں کروں گا وعدہ کر آیا ہوں میں اپنی بہن سے ..” حارث نے بدستور ناراضگی سے کہا “چل جیسی تیری مرضی ..لیکن منہ ٹھیک کر اپنا ..ورنہ ایک پنچ مار کر میں خود ہی ٹھیک کر دوں گا …سالے ” “ارمان.. !!” ماہین نے اس کو گھور کر کہا “یار آپی یہ خود ہی تو کہ رہا ہے کے نور کا بھائی ہے تو اس حساب سے تو میرا سالا ہی ہوا نہ ؟” اس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا ..ماہین بھی ہنس پڑی “میں تم سے بے حد شرمندہ ہوں عباد ..ارمان نے جو حرکت کی ہے وہ واقعی میں اس قابل نہیں کے اسے معاف کیا جا سکے “عدیل خانزادہ نے شرمندگی سے کہا “تم کیوں ایسا کہ رہے ہو عدیل ؟ اگر ارمان کی اس میں کوئی غلطی ہے تو ہم بھی قصور وار ہیں کیوں کے ارمان نے یہ سب ہماری اجازت سے ہی کیا تھا ..اس لئے میرے بیٹے کو کچھ مت کہو ..” “جو بھی ہو عباد اس نے میری بیٹی کو بہت تنگ کیا ہے اس لئے میں اسے تب تک معاف نہیں کروں گا جب تک زرنور نہیں کر دیتی ..” عدیل خانزادہ نے ناراضگی سے احمد کو دیکھا جو سنگل صوفے پر کافی کا مگ ہاتھ میں پکڑے بیٹھا تھا “چلو چھوڑو یار اس پر بعد میں بات ہو جائے گی تم یہ بتاؤ دوبارہ اٹلی کیوں جا رہے ہو ؟” “کچھ ضروری کام رہ گئے ہیں وہ نمٹانا ہے میں چاہ رہا تھا کے جب تک میں مستقل یہیں آجاؤں ..تم نے جو تیاری کرنی ہے کر لو ..جب تک زرنور کے پپیرز بھی ہو جائے گے تو پھر رخصتی کی کوئی ڈیٹ رکھ لیں گے ..” “میں چاہ رہا تھا کے کچھ مہینے اور رک جاتے ہیں عدیل ..” “نہیں عباد اب اور صبر نہیں ہوتا مجھ سے .اتنا عرصہ ہم باپ بیٹا تنہا رہیں ہیں دیکھو ذرا کس قدر ویرانی ہے اس گھر میں ..اب بس میں چاہتا ہوں کے میری بیٹی جلدی سے آ کر اس گھر کو آباد کر دے ..”وہ ٹھوس انداز میں بولے “وہ تو ٹھیک ہے یار لیکن زری ابی تک نہیں مانی ..انفیکٹ وہ تو اس بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتی اور میں نے بھی زیادہ نہیں کہا کے کہیں وہ اسٹریس نہ لے لے ..” ا”اس کی فکر مت کرو عباد ..یہ مسلئہ تو اب ارمان صاحب خود ہو حل کریں گے “عدیل خانزادہ نے فہمائشی انداز میں احمد کو دیکھا “آپ لوگ پریشان نہ ہو عباد انکل میں منا لوں گا اسے ” احمد نے یقین دلاتے ہوئے کہا “مجھے تم پر بھروسہ ہے بیٹا ..” عباد بخاری نے اس کا کندھا تھپکا…. “اوے ریاض ..اب تو بھی جلدی سے کوئی اچھی خبر سنا دے ..سچ میں تو اکیلا بلکل بھی اچھا نہیں لگتا ..”اشعر کے کہنے پر اس نے ہاتھ جھلایا تھا “میں اکیلا ہی ٹھیک ہوں بھائی مجھ سے نہیں گھوما جاتا تتلیوں کے آگے پیچھے ” “یار تم لوگوں کو میں کیوں نظر نہیں آتا ؟ میں بھی تو بیچارہ اکیلا ہوں ..میری ہی سیٹنگ کر وادو کہیں ..” حیدر منہ پھلا کر بولا “تو کنوارہ ہی مرے گا حیدر لڑکیاں تو صرف “حمزہ حیدر علی ” کا نام سن کر ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی بھاگ جاتی ہیں کوئی تیار ہی نہیں ہے تیری گرل فرینڈ بننے کے لئے “تیمور کے کہنے پر اس نے پھر سے منہ بنایا “اتنا تو پیارا ہوں میں ..” “ہاں بھائی تو بہت پیارا ہے ..” وہ سب ہنسے لگے احمد کا فون بجنے لگا اس نے نکال کر یس کیا تھا “اسلام علیکم ہاں راحم بول کیا ہوا ؟ ..کیا ابھی ؟ ..یار بات کچھ ایسی ہے کے مجھے تھوڑا ضروری کام ہے ..لیکن میرے دوست تیرا یہ کام کر دیں گے ..تو فکر مت کر ..اور کوئی تصیور وغیرہ ہے تو دے دے تاکے میں انھیں دکھا دوں ..چل ٹھیک ہے ..” اس نے کال کاٹ کر ان لوگوں سے کہا ” بات سنو یار ..میرے دوست کی ایک کزن ہے اس کا آج یہاں فرسٹ ڈے ہے تھوڑی دیر تک وہ پہنچ جائے گی تو تم لوگ اس کی ہیلپ کر دینا کلاس وغیرہ ڈھونڈنے میں اور یہ ہے اس کی کزن ..” احمد نے راحم کی بھیجی ہوئی تصویر ان کے سامنے کی تصویر دیکھ کر تو ان سب کو گویا سانپ سونگھ گیا “یہ ..یہ تیرے دوست کی کزن ..”ریاض نے حیرت سے کہا “ہاں اور میرے لئے بلکل چھوٹی بہنوں کی طرح ہے اس لئے کسی قسم کا کوئی مذاق نہیں ہونا چاہیے .. ” احمد نے انہیں پہلے ہی تنبہ کر دی تھی وہ سب حیدر کو دیکھ رہے تھے جس نے جلد ہی خود کو کمپوز کر لیا تھا “تو پریشان نہ ہو احمد ..ہم اس کی ہر طرح سے مدد کر دیں گے ..” حیدر نے اس کو یقین دلایا تھا اور یہ تو صرف اس کو ہی پتا تھا کے اس کے دماغ میں کیا کھچڑی پک رہی ہے “ٹھیک ہے پھر میں آتا ہوں ایک دو گھنٹے تک ..” احمد نے زرنور اور مناہل کو یونی کی عمارت سے باہر جاتے دیکھ لیا تھا اسی لئے جلدی سے موبائل پاکٹ میں رکھتا ان کے پیچھے گیا تھا “بھائی لوگ ..تیار ہو جاؤ شکار خود چل کر آ رہا ہے ” حیدر نے شیطانی مسکراہٹ سے ان سے کہا… “مناہل میرے سر میں درد ہو رہا ہے پلیز تم ڈرائیو کر لو ..” ” کیا ہوا زری تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ؟” مناہل نے فکرمندی سے اس کی پیشانی کو چھو کر دیکھا “طبعیت ٹھیک ہے بس میرا دل نہیں کر رہا ڈرائیو کرنے کو تم کر لو ” “ٹھیک ہے تم بیٹھو ..”زرنور نے اس کو گاڑی کی چابی دی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر اس نے سیٹ کی بیک سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لی تھی “حارث نے احمد کو اشارہ کیا تھا جس نے خفیف سی سر کو جنبش دی “مناہل بات سنو ..” حارث نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولتی مناہل کو آواز دے کر روکا اس نے چونک کر حارث کو دیکھا تھا اور پھر اس کے پاس آئی ..”کیا ہوا ؟” مناہل کے جاتے ہی احمد نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھنے کے بعد جلدی سے گاڑی سٹارٹ کر کے آگے بڑھائی تھی مناہل حیرت سے پلٹی تھی لیکن حارث نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا “کیوں تم میاں بیوی کے بیچ میں آ رہی ہو ؟” “اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے حارث ..” مناہل نے پریشانی سے کہا “وہ دیکھ لے گا تم پریشان نہ ہو ..” حارث نے اسے کہا اس کی متلاشی نظریں احمد کو ڈھونڈ رہی تھی آدھے گھنٹے سے وہ اس کو دیکھ رہی تھی لیکن وہ کہیں نظر ہی نہیں آ رہا تھا کال بھی ٹرائی کر لی تھی لیکن نمبر ہی اوف جا رہا تھا بلاآخر اس نے اپنی مدد آپ کے تحت کچھ کرنے کا سوچا “اے لڑکے بات سنو ..کیا تمہیں پتا ہے کے ایم اے فرسٹ ائیر کی کلاس کہاں ہے ؟” اس نے پاس سے گزرتے ایک لڑکے کو روک کر پوچھا جو اس کو گھورنے لگا ” بات کرنے کی تمیز نہیں ہے آپ کو باجی ؟ یہ بات کرنے کا کون سا طریقہ ہے …اے لڑکے بات سنو ..لڑکیاں ایسے بات نہیں کرتی پہلے تمیز سے بات کرنا سیکھے آپ ” وہ تو کہ کر نکل گیا اور وہ محض اس کی پشت کو گھور کر رہ گئی “ایک تو باجی بولا اوپر سے باتیں بھی سنا گیا .” لیکن اسے احساس ہو گیا تھا کے غلطی اسی کی ہے پھر اس نے دوسرے لڑکے کو روکا “بات سننا بھائی ..کیا آپ کو پتا ہے کے ایم اے فرسٹ ائیر کی کلاس کہاں ہے ؟” اس دفعہ اس نے قدرے شائستگی سے کہا لیکن وہ تو ایسے اچھلا جیسے کرنٹ لگ گیا ہو “اوے ..یہ بھائی کسے کہ رہی ہو ؟ میں تمہارا بھائی کہاں سے ہو گیا ..ہنہ حد ہے بھئی .. جسے دیکھو بھائی بنانے پر تلا ہوا ہے مجھے …” وہ بھی پہلے والے کی طرح منہ بناتا وہاں سے چلا گیا یشفہ نے حیران ہوتے ہوئے اس کو دیکھا پھر ایک غصیلی نظر اس پر ڈال کر بینچ پر بیٹھے ایک لڑکے کے پاس آ کر اس سے بھی یشفہ نے وہی سوال کیا جو کسی کتاب میں گم مطالعہ کر رہا تھا لیکن اس دفعہ اس نے ذرا ہوشیاری سے کام لیا “ایکسکیوز می .کین یو ٹیل می پلیز ویئر از دا کلاس اوف ایم اے فرسٹ ائیر ..” اس نے شائستگی سے کہا اس نے کتاب سے نظریں ہٹا کر اس لڑکی کو دیکھا جو جینز پر ٹاپ پہنے پونی ٹیل بناۓ کھڑی تھی “سوری آئی ڈونٹ نو ..” لٹھ مار انداز میں کہتا وہ پھر سے کتاب میں گم ہو گیا “بھاڑ میں جاؤ سب ..” دانت پیستے ہوئے وہ وہاں سے آگے چلی تھی ” سیم ہئیر ..” اس کو اپنے پیچھے اس لڑکے کی آواز آئی تھی اس نے دھیان نہیں دیا تقریبآ ایک گھنٹے تک وہ یہاں سے وہاں گھومتی رہی تھی لیکن کسی نے بھی اس کی کوئی مدد نہیں کی اسے حیرت تھی کے دنیا بھر کر بے مروت لوگ یہاں آ کر جمع ہو گئے ہیں تھک ہار کر وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئی تھی فائل اور بیگ بھی اس نے سائیڈ پر رکھ دیا تھا غصے سے وہ یہاں وہاں بے فکری سے گھومتے سٹوڈنٹس کو دیکھ رہی تھی غصّے سے وہ سامنے گرین شرٹ والے لڑکے کو دیکھ رہی تھی جو کسی بات پر ہنس رہا تھا دل تو کر رہا تھا کے اس لڑکے کی گردن اڑا دے بد تمیز سے کلاس کا پوچھا تو ایسا راستہ بتایا کے ایک گھنٹے تک پوری یونی میں گھوم پھر کر وہ واپس وہیں آگئی جہاں سے چلنا شروع کیا تھا لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کے یہ سب حیدر کے ہی چیلے ہیں “کیا ہوا کچھ پریشان لگ رہی ہو ؟” یشفہ نے چونک کر سر اٹھایا تھا جہاں یلو فراک میں ایک لڑکی گلاسیس لگاۓ کھڑی تھی “آج فرسٹ ڈے ہے میرا ..اتنی دیر سے اپنی کلاس ڈھونڈ رہی ہوں مل ہی نہیں رہی ..اور اتنے بد تمیز اور بد تہذیب لوگ ہیں یہاں پر مجال ہے جو کسی نے میری مدد کی ہو .” وہ منہ پھلا کر بولی “اچھا بتاؤ کون سی کلاس ہے تمہاری .؟” انوشے نے اس سے پوچھا “ایم اے فرسٹ ائیر ..” وہ جلدی سے بولی اتنا دفعہ بول چکی تھی کے اب تو رٹ چکا تھا اسے “آجاؤ میں تمہیں کلاس تک چھوڑ دوں گی ” انوشے کے خوش دلی سے کہنے پر وہ بے ساختہ خوشی سے بولی “ہیں سچی ….؟؟” انوشے نے مسکرا کر سر آثبات میں ہلایا “ویسے آپ کون سی فیکیلٹی کی ہیں ؟” “ایم اے فائنل ائیر ..” “اوہ تو آپ مجھ سے سینئیر ہیں ..” اس نے اپنا سامان اٹھاتے ہوئے کہا اسے جانی پہچانی سی کلون کی خوشبوں محسوس ہوئی تھی اس نے اپنی آنکھیں کھولی اور چونک کر اپنے برابر میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے احمد کو دیکھا اس کے دیکھنے پر وہ مسکرایا تھا “تم ..تم یہاں کیسے ؟ یہاں تو مناہل تھی ..” وہ حیرت سے بولی “یہاں ہمیشہ سے میں ہی تھا بس تم نے کبھی ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں ..” وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا “گاڑی روکو فورآ ..” وہ سخت لہجے میں بولی لیکن اس نے کوئی رسپونس نہیں دیا “میں کیا کہ رہی ہوں تم سے گاڑی روکو …کیا تمہیں سمجھ نہیں آ رہی میری بات ؟” وہ غصّے سے بولی “نہیں …مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا ..” اس کے اطمینان سے کہنے پر وہ بھڑک اٹھی “تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری گاڑی میں بیٹھنے کی ؟؟” وہ اتنی زور سے چیخی کے احمد نے بے ساختہ ہاتھ اپنے کان پر رکھا تھا اور ایسے ایکسپریشن دئے جیسے زرنور کی آواز اس پر گراں گزری ہو “آہستہ بولو یار ..چیخ کیوں رہی ہو ؟ اونچا نہیں سنتا میں ..اور پریشان نہ ہو اغوا نہیں کر رہا تمہیں ..” اس نے کہنے کے بعد میوزک پلئیر آن کر دیا تھا سن میرے ہمسفر …. کیا تجھے اتنی سی بھی خبر کے تیری سانسیں چلتی جدھر رہوں گا بس وہی عمر بھر کتنی حسین یہ ملاقاتیں ہیں ان سے بھی پیاری تیری باتیں ہیں … یہ گانا زرنور کو بے حد پسند تھا لیکن اس دفعہ زہر لگ رہا تھا اس نے ہاتھ مار کر پلئیر آف کر دیا تھا “ارے اسے کیوں بند کیا ؟” “بکواس بند کرو اپنی ..اور فورآ گاڑی روکو ..مجھے کہیں بھی نہیں جانا تمہارے ساتھ ..” وہ غصّے سے بولی اور احمد ایسے مسکرا کر اس کو دیکھ رہا تھا جیسے وہ اسے لطیفے سنا رہی ہو اتنے شدید غصے میں بھی زرنور کا دل اس کو مسکراتے دیکھ کر دھڑک اٹھا تھا ..اس کی تو جان بسی تھی اس کی مسکراہٹ میں ایک لمحے کے لئے تو وہ جیسے ساکت ہو گئی تھی پھر جلد ہی خود کو سمبھال لیا تھا “احمد میں کہ رہی ہوں تم سے گاڑی روکو ..ورنہ اچھا نہیں ہوگا ..” وہ دھمکاتے ہوئے بولی “نور ..اگر تم تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو جاؤ ..تو کیا یہ اچھا نہیں ہوگا ؟” وہ اس انداز سے بولا کے زرنور کو تو آگ ہی لگ گئی “میری گاڑی میں بیٹھ کر تم مجھے ہی باتیں سنا رہے ہو ؟؟” وہ پھر سے چیخ کر بولی “باتیں کہاں سنا رہا ہوں بس اتنا کہ رہا ہوں کے تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاؤ ..” “کیوں ہو جاؤں میں خاموش ؟؟ ہاں کیوں ہو جاؤں ؟؟ میری مرضی میں بولوں نہ بولوں ..تم ہوتے کون ہو مجھے خاموش کروانے والے ؟؟” وہ شدید غصے سے بولی “صرف اتنا کہا تھا کے تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو جاؤ ..تم نے تو مجھے ہی باتیں سنا دی “وہ دھیان سے ڈرائیو کرتا ساتھ ساتھ بولتا بھی جا رہا تھا گاہے بگاہے اس کے غصے سے سرخ پڑتے چہرے پر بھی نظر ڈال رہا تھا زرنور نے غصّے میں سٹئیرنگ پر ہاتھ مارا جس سے گاڑی کا بیلنس بگڑا تھا احمد نے با مشکل گاڑی کو کنٹرول کر کے سائیڈ پر کر کے بریک لگاۓ تھے اگر وہ بر وقت ایسا نہ کرتا تو یقینآ سامنے سے آتی کار سے ان کا زبردست تصادم ہو جاتا زرنور کا سر ڈیش بورڈ پر لگتے لگتے بچا “دماغ تو نہیں خراب ہو گیا تمہارا ؟ یہ کیا حرکت کی ہے تم نے ؟ کچھ خبر بھی ہے تمہیں کے کتنا برا ایکسیڈینٹ ہو سکتا تھا ؟” اس کے غصّے سے بولنے پر وہ سہم گئی تھی “ا ..احمد ..وہ ..!!” ” خاموش ہو جاؤ ..ایک لفظ نہ سنو میں تمہارے منہ سے اب ..” اس نے پھر سے کار سٹارٹ کی تھی اس کے اتنے سخت لہجے میں بات کرنے پر اس کا دل ٹوٹ گیا تھا اس نے شدید شاکی نظروں سے احمد کودیکھا جو خفا سا سامنے دیکھتا ڈرائیو کر رہا تھا اس کی آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہو چکے تھے ناراضگی سے اس نے منہ ہی موڑ لیا تھا ..اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ انوشے نے اسے کلاس تک پہنچا دیا تھا اس کا شکریہ ادا کرتی وہ کلاس میں جا بیٹھی تھی پروفیسر تھوڑی دیر پہلے ہی کلاس میں آۓ تھے اور ابھی وائٹ بورڈ کے سامنے کھڑے کچھ لکھنے میں مصروف تھے “اے شش ..!!” یشفہ کو یہ آواز اپنے پیچھے والی ڈیکسیس پر سے آئی تھی لیکن اس نے دھیان نہیں دیا “اے شش ..پنک بیگ ..” اب کی دفعہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں اس کے پیچھے دو ڈیکسیس چھوڑ کر برابر والی رو میں ایک لڑکا بیٹھا تھا جس نے یشفہ کے دیکھنے پر مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی تھی اسے دیکھ کر وہ چونکی تھی اس کو امید نہیں تھی کے یہ لڑکا اس کو یہاں ملے گا اسے حیرانی اس بات پر تھی کے وہ اس کو دیکھ کر مسکرا کیوں رہا تھا کیوں کے جو حرکت اس نے حیدر کے ساتھ کی تھی اسے پکّا یقین تھا کے کبھی نہ کبھی وہ کہیں سے اچانک آۓ گا اور اس کو شوٹ کر کے نکل جاۓ گا لیکن یہ تو مسکرا رہا تھا پہلی ملاقات کا تو کوئی شائبہ تک نہیں تھا اس کے چہرے پر یشفہ اس کو نظر انداز کرتی پھر سے سامنے دیکھنے لگی جہاں پروفیسر ابھی تک کچھ لکھ رہے تھے “ہئیے ..!!” اس نےپھر اسے متوجہ کرنا چاہا لیکن اس دفعہ یشفہ نے کوئی رسپونس نہیں دیا بس سامنے دیکھتی رہی جبھی کوئی چھوٹی سی چیز آ کر اس کے کندھے پر لگی “ایک لمحے کے لئے تو وہ سن رہ گئی کے کہیں اس نے گولی تو نہیں مار دی ..اس نے سکھ کا سانس لیا ..کے گولی نہیں ماری تھی لیکن ویسی ہی ایک اور چیز اڑتی ہوئی آ کر اس کے سر پر لگ کر نیچے گری تھی اس نے حیرانی سے نیچے پڑی ان دونوں چیزوں کو دیکھ رہی تھی اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی دوسرے ہی لمحے وہ چیختی ہوئی اپنی جگہ سے اٹھی تھی پوری کلاس حیرانی سے اس کو دیکھ رہی تھی جس نے چیخ چیخ کر پوری کلاس سر پر اٹھا لی تھی “وہاٹ از یور پرابلم ..؟؟” پروفیسر نے اپنے موٹے سے چشمےکو ناک پر ٹکاتے گھور کر اس کو دیکھا جو اسٹیج سے نیچے کھڑی تھی حالت عجیب سی ہو رہی تھی “سر۔۔سر۔۔وہ کاک ۔۔کاکروچ مارے..مارے ہیں اس لڑکے نے مجھے ..” وہ گھبراۓ ہوئے انداز میں ہاتھ سے حیدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی “کیا ہوا پھر ؟ کاکروچ ہی مارے ہے نہ ؟ کوئی مزائل تو نہیں مار دئے جو تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو ” پروفیسر نے اسے گھور کر کہا “سر اس نے مجھے کاکروچ مارے ہیں کاکروچ ..” وہ زور دے کر بولی “تو اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے ؟ کاکروچ تو اتنے اچھے ہوتے ہیں ..کلاس ایک بات آپ سب میری غور سے سنیں ..” پروفیسر نے کھی کھی کرتے سٹوڈنٹس کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا ” بلکے ایسا کریں کے دوپٹے سے ..شرٹ سے ..رومال سے ..جو بھی ہے آپ کے پاس اس سے یہ نصیحت باندھ لیں کے …جب بھی جہاں بھی آپ کو کاکروچ چھپکلی نظر آۓ ..اسے اٹھا کر منہ میں ڈال کر کھا جائیں ..اور یہ تو آپ جانتے ہیں آپے نہ کے پروفیسر حارث آپ کو کبھی بھی کوئی غلط نصیحت نہیں کرتے ….ہاں تو صرف نگلنا نہیں ہے بلکے چبا چبا کر کھانا ہے ..امیجن کریں ذرا ..ککروچ اور چھپکلی آپ لوگ چبا چبا کر کھا رہیں ہیں ..آہا ..کیا مزہ آ رہا ہے …کیا لطف آ رہا ہے ..” پروفیسر بنے حارث نے چٹخارے لیتے ہوۓ کہا۔۔ “سر۔۔سر۔۔وہ کاک ۔۔کاکروچ مارے..مارے ہیں اس لڑکے نے مجھے ..” وہ گھبراۓ ہوئے انداز میں ہاتھ سے حیدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی “کیا ہوا پھر ؟ کاکروچ ہی مارے ہے نہ ؟ کوئی مزائل تو نہیں مار دئے جو تم ایسے ری ایکٹ کر رہی ہو ” پروفیسر نے اسے گھور کر کہا “سر اس نے مجھے کاکروچ مارے ہیں کاکروچ ..” وہ زور دے کر بولی “تو اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے ؟ کاکروچ تو اتنے اچھے ہوتے ہیں ..کلاس ایک بات آپ سب میری غور سے سنیں ..” پروفیسر نے کھی کھی کرتے سٹوڈنٹس کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا ” بلکے ایسا کریں کے دوپٹے سے ..شرٹ سے ..رومال سے ..جو بھی ہے آپ کے پاس اس سے یہ نصیحت باندھ لیں کے …جب بھی جہاں بھی آپ کو کاکروچ چھپکلی نظر آۓ ..اسے اٹھا کر منہ میں ڈال کر کھا جائیں ..اور یہ تو آپ جانتےہی ہیں نہ کے پروفیسر حارث آپ کو کبھی بھی کوئی غلط نصیحت نہیں کرتے ….ہاں تو صرف نگلنا نہیں ہے بلکے چبا چبا کر کھانا ہے ..امیجن کریں ذرا ..ککروچ اور چھپکلی آپ لوگ چبا چبا کر کھا رہیں ہیں ..آہا ..کیا مزہ آ رہا ہے …کیا لطف آ رہا ہے ..” پروفیسر بنے حارث نے چٹخارے لیتے ہوۓ کہا … …یشفہ نے اپنے دونوں ہاتھ جلدی سے منہ پر رکھے کے کہیں اسے الٹی نہ ہو جاۓ “ارے تم کیوں ایسے منہ بنا رہی ہو ؟ ..سچ میں یہ کاکروچ اور کیڑے مکوڑے تو اتنے لذیز ہوتے ہیں ..میں تو صبح شام ایک ایک کھاتا ہوں ..ارے ہاں سچ میں یقین نہیں آتا تو یہ دیکھو ..اس نے کہتے ہوئے ساتھ ہی ایک سائیڈ سے اپنا کوٹ ہٹایا تھا جہاں بے شمار کاکروچز اور چھپکلیوں کی لاشیں لٹکی ہوئی تھی یشفہ کی آنکھیں باہر نکلنے کو تھی وہ تو اپنا سامان چھوڑ چھاڑ چیختی ہوئی کلاس سے باہر بھاگی اتنا تو قتل کرنے سے نہیں ڈرتی تھی جتنا ان کیڑ ے مکوڑوں سے ڈرتی تھی “اے ..بات سنو …بات سنو میری .کیا تمہیں پتا ہے کے… پرنسپل کا آفس.. کدھر ہے ؟” اس نے اپنی سانسیں ہموار کرتے ہوئے ایک لڑکے کو روک کر پوچھا جس کے ہاتھ میں بڑا سا چپس کا پیکٹ تھا “ہاں پتا ہے ..لیکن تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ؟” اشعر نے فکر مندی سے پوچھا اور ساتھ ہی چپس کے پیکٹ میں ہاتھ ڈال کر مٹھی بھر کر بہت سے عجیب و غریب کیڑے اور گراس ہاپرز نکال کر اپنے منہ میں ڈالے یشفہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی “اسی لئے میں کسی کے سامنے نہیں کھاتا سب نظر لگانا شروع ہو جاتے ہیں ..یہ لو کھالو تم بھی ..” اشعر نے ناراضگی سے کہتے ہوئے پیکٹ اسکی طرف بڑھآیا تھا ” آہ ..دور کرو اس کو ..دور کرو مجھ سے ..” وہ چیخ مارتے ہوئے وہاں سے بھاگی ..اور سامنے سے آتے ایک لڑکے کو روک کر بولی .” بب بات سنو…بات سنو میری ..وہا..وہاں پر ..!!!” “وہ آگیا ہے ..آگیا ہے وہ اپنی موت کا بدلہ لینے ..” ریاض نے سرد لہجے میں کہا ” کک کون سا بدلہ ..اور کون آگیا ؟؟” اس کی دھڑکن تیز تیز چل رہی تھی “وہی ..جس کو تم نے لال بیگ سمجھ کر کھا لیا تھا ..لیکن وہ واپس آ گیا ہے ..اپنی موت کا بدلہ لینے ..وہ کھا جاۓ گا تمہیں ..کھا جاۓ گا ..” ریاض اسے گھورتے ہوئے پراسرار انداز میں بولا یشفہ کا چہرہ سفید پڑنے لگا تھا اس کو دھکا دے کر وہ وہاں سے نکلی لگ رہا تھا کے جیسے بے ہوش ہی ہو جاۓ گی صد شکر کے سامنے ہی پرنسپل کا آفس مل گیا وہ جلدی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی ناک کرنے کا بھی خیال نہ آیا “پر پرنسپل ..سر ..مم ..میری ..بات سنیں …” وہ ہاتھ کی پشت سے ماتھے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے گردن مسلتے ہوئے بولی جبھی پرنسپل نے اپنی راکنگ چیئر کا رخ موڑا ..ان کے ہاتھ میں شیشے کا بڑا سا باؤل تھا ” ارے تم پریشان کیوں ہو ؟ …کوئی مسلئہ ہے ؟ ..چلو چھوڑو پہلے چل کرو ..یہ لو کیڑے کھاؤ ..آئی مین ..انسیکٹ سیلڈ کھاؤ ..میری پسند کے چھپکلی کاکروچز ..مکوڑے گراس ہوپرز سب ہیں اس میں ..کھاؤگی..؟… ہاں کھاؤ گی ؟؟ ..یہ لو ..کھاؤ کھاؤ ..” یشفہ نے صرف ایک نظر تیمور کے ہاتھ میں پکڑے باؤل کو دیکھا تھا جس میں بھرے ہوئے حشرات الرض باؤل میں سے نکلنے کی پوری کوشش کر رہے تھے یشفہ کی برداشت جواب دے گئی تھی اس کا زور سے سر چکرآیا تھا اور اس سے پہلے کے وہ فرش پر گر پڑتی آفس کے باہر کھڑے اندر کا تماشا دیکھتے حیدر نے جلدی سے جا کر اس کو تھاما تھا لیکن تب تک وہ بے ہوش ہو چکی تھی “یشفہ ..یشفہ ..” حیدر نے اس کا گال تھپتھپایا “ابے حیدر ..یہ تو بے ہوش ہو گئی ہے ..کہیں کوئی مسلئہ نہ ہو جاۓ ..” اشعر نے پریشانی سے کہا ” او یار ..کچھ نہیں ہوگا اسے ..بہت سخت جان ہے ..چلو اچھا ہے اسے بھی سبق مل گیا ہوگا ..لائبہ وغیرہ تو گھر چلی گئی ہیں ..تیمور تو ایسا کر انوشے کو فون کر اس کو بلا یہاں جلدی ..”حیدر نے یشفہ کے بے ہوش وجود کو اٹھا کر سوفے پر ڈالتے ہوئے کہا تھا وہ کوئی پرنسپل روم نہیں تھا بلکے یونین کونسل کے صدر کا عارضی آفس تھا یونیورسٹی کے یونین کونسل کی عمارت الگ سے احاطے میں بنی ہوئی تھی لیکن وہاں کچھ کام چل رہا تھا اسی لئے اس کے صدر نے یونی کے اندر ہی اپنا عارضی آفس قائم کیا ہوا تھا ان لوگوں کے اس وجہ سے کام آیا کیوں کے یونین کا صدر ان سب کا دوست تھا تیمور نے انوشے کو فون کر کے مختصر سچویشن بتا کر وہاں آنے کے لئے کہا تھا گاڑی کن انجان راستوں پر سفر کر رہی تھی کچھ دیر بعد اس نے بڑے سے سفید گیٹ کے اندر لے جاکر کار روکی اور سیٹ بیلڈ ہٹا کر دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا تھوڑی دیر اس نے زرنور کے باہر آنے کا انتظار کیا لیکن وہ تب بھی باہر نہ آئی تو احمد نے اس کی سائیڈ پر جا کر دروازہ کھولا اور دروازے پر ہاتھ رکھتے وہ اس کی طرف جھکا تھا ” محترمہ ..اگر آپ خود چل کر نہیں جانا چاہتی تو بتا دیں …میں آپ کو اٹھا کر لے جاتا ہوں ..مجھے کوئی مسلئہ نہیں ہے ..” اس نے آرام سے کہا “پیچھے ہٹو ..” وہ کاٹ کھانے کے سے انداز میں بولی وہ دروازہ چھوڑ کر پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا اس کو گھورتی وہ باہر آئی اور اپنے پیچھے دروازہ زور سے بند کرتی اندر کی جانب بڑھ گئی احمد مسکراتے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اس کے پیچھے آیا “کہاں جا رہے ہو تم ؟” اس کو سیڑهیاں چڑھتے دیکھ کر زرنور نے کہا ” روم میں جا رہا ہوں اپنے ..” اس نے رک کر کہا ” مجھے کیوں یہاں لے کر آۓ تھے پھر ؟” وہ چڑ کر بولی “مجھے بات کرنی ہے تم سے نور ..اوپر آجاؤ ..” “میں ..کوئی نہیں جا رہی تمہارے ساتھ اوپر وپر ..جو بھی بات کرنی ہے یہیں کرو ..” وہ گڑبڑا کر بولی ..اتنا بڑا گھر خالی پڑا تھا اسے ہلکا سا خوف ہونے لگا “میں نے تم سے کہا ہے نور کے اوپر آجاؤ ..ہر بات میں ضد مت کیا کرو ..” “میں نے بھی کہ دیا ہے میں نہیں جاؤنگی اوپر ..” وہ ہٹیلے انداز میں بولی احمد نے ایک نظر اس کو دیکھا تھا “مرضی ہے تمہاری ..میں اٹھا کر لے جاتا ہوں تمہیں ..” احمد دوبارہ سے سیڑھیاں اترنے لگا تھا زرنور بوکھلا گئی تھی “اچھا ..اچھا میں آرہی ہوں ..آرہی ہوں ..” دو قدم پیچھے ہٹتے وہ جلدی سے بولی “آرام سے تو بات سمجھ میں آتی ہی نہیں ..” بڑبڑاتا ہوا وہ اوپر چلا گیا تھا اس کی پشت کو گھورتی وہ بھی اس کے پیچھے آئی تھی جہاں ایک طرف ٹی وی لاؤنج بنا ہوا تھا اور ایک طرف دو کمرے تھے نیچے والے پورشن کی طرح اوپر کی سیٹنگ اور سجاوٹ دیکھنے لائق تھی ایک کمرے کا لاک کھولتا وہ اندر چلا گیا تھا وہ بھی اسکے پیچھے آئی تھی وہ غالباً اس کا بیڈروم تھا جہاں ایک طرف جہازی سائز بیڈ تھا وارڈروب سوفے .رائٹنگ ٹیبل فرنیچر .بیڈ شیٹ کرٹنز سب کچھ ہی بہت خوبصورت اور قیمتی تھا بیڈ کے اوپر لگی لارج سائز تصویر دیکھ کر وہ ساکت رہ گئی تھی کیوں وہ اس کی تصویر تھی جس میں اس نے گولڈن کلر کی میکسی پہنی ہوئی تھی وہ اس کی بیسوی سالگرہ کی تصویر تھی “نور ..” احمد کی آواز پر وہ چونکی تھی ” بیٹھو ..” اس نے بیڈ کی طرف اشارہ کیا اس نے فورآ سے اپنے تاثرات سپاٹ کئے .” مجھے نہیں بیٹھنا ..جو بھی بات کرنی ہے جلدی کہو ..مجھے واپس بھی جانا ہے ..” احمد نے تاسف سے انگلی اور انگوٹھے سے اپنی پیشانی مسلی ..” تمہیں ایک ہی بات بار بار کیوں بتانی پڑتی ہے نور ؟” وہ اس انداز سے بولا کے وہ منہ بناتی بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی تھی..رائٹنگ ٹیبل کے پاس رکھی چیئر اٹھا کر ٹھیک اس کے سامنے رکھتا وہ بیٹھ گیا تھا زرنور بےساختہ پیچھے ہوئی تھی لیکن اس نے کوئی نوٹس نہیں لیا “اب بتاؤ کیا مسلئہ ہے تمہیں ..؟” “کون سا مسلئہ ؟؟” “شادی سے کیوں منع کر رہی ہو ؟” “کس کی شادی سے ؟” ” ہماری شادی سے ۔۔” ” واؤ ..ایٹیٹیوڈ تو دیکھو ذرا ..” وہ طنز سے بولی ..” “عباد انکل اور ڈیڈ رخصتی کی ڈیٹ فکس کرنا چاہتے ہیں ..” ہ” اس کی فکر تم مت کرو ..پاپا کو میں منع کر دوں گی ..” “میں نے تم سے یہ تو نہیں کہا کے تم منع کردو ..” ” تو پھر ؟؟” وہ نہ سمجھی سے بولی “میں چاہتا ہوں کے تم ہاں کہ دو ..” ” لیکن میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی ..” “ہماری شادی غالباً ہو چکی ہے ..” احمد اس کے گلابی چہرے کو تکتے ہوئے بولا “میں نہیں مانتی اس شادی کو ..اور احمد خانزادہ ..بہتر ہوگا کے تم اس نام نہاد کاغذی رشتے کو ختم کر دو ..کیوں کے نہ مجھے تم میں پہلے کوئی دلچسپی تھی اور نہ اب ہے ..” وہ چبا چبا کر بولی “چلو ٹھیک ہے شادی کو ابھی سائیڈ پر رکھتے ہیں …ابھی تمہیں مجھ سے جتنے بھی شکوے شکایاتیں ہیں تم مجھے وہ بتاؤ ..تاکے میں دور کر سکوں ..” “نہیں ..پہلے تو تم مجھے یہ بتاؤ کے تم ہو کون ؟ ارمان یا پھر احمد ؟ تاکے میں تم سے اسی حساب سے پیش آؤں ..” وہ طنزیہ انداز سے بولی اور احمد نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دیا تھا ” میں ارمان احمد خانزادہ ہوں ..تمہارا شوہر ..جس سے تم بے حد محبّت بھی کرتی ہو ..”وہ شرارتی انداز میں اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا ” یہ خوشفہمی کب سے پال لی تم نے ؟” وہ فہمائشی انداز میں بولی ” جب سے تمہاری آنکھوں میں اپنا عکس دیکھا ہے ..” وہ ایک لمحے کے لئے بھی اس کے چہرے پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا رہا تھا یہی چیز زرنور کو کنفیوز کر رہی تھی “بہتر ہوگا کے اپنی آنکھوں کا علاج کرواؤ تم ..” وہ چڑ کر بولی تھی لیکن چونکی ضرور تھی کے اس کے دل کا حال احمد نے کیسے پڑھ لیا کیوں یہ بات تو صرف اس کے علاوہ مناہل اور لائبہ جانتی تھی بس “کیوں ..کیا یہ سچ نہیں ہے کے تمہیں مجھ سے محبّت ہے ؟” ” بلکل بھی نہیں ..مجھے تم سے کوئی محبّت نہیں ہے ..” وہ صاف مکر گئی تھی لیکن احمد کی شرارتی مسکراہٹ اسے تپا گئی تھی ” دیکھو ..میں تم سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی ..اسی لئے بہتر ہوگا کے مجھے غصّہ مت دلاؤ ..میں شوٹ کر دوں گی تمہیں ..فضول میں میرے ہاتھوں قتل ہو جاؤ گے ..” وہ دانت پیستے ہوئے بولی “بلکے میں فضول میں ہی اپنا ٹائم ضائع کرنے تمہارے ساتھ آ گئی ..” وہ اٹھ کر جانے لگی تھی جبھی احمد نے اس کی کلائی پکڑ کر دوبارہ اپنے سامنے بٹھایا تھا “ہاتھ چھوڑو میرا ..” پہلے تو وہ حیران ہوئی پھر غصے سے بولی “تب تک نہیں چھوڑوں گا ..جب تک تم میری بات نہیں سنو گی ..” وہ دباؤ ڈالتے ہوئے سکون سے بولا “ہاتھ چھوڑو میرا احمد …درد ہو رہا ہے مجھے ..” وہ چھڑوانے کی مسلسل کوشش کر رہی تھی لیکن اس کی گرفت سخت تھی “بات سنو گی میری ؟” ” بلکل بھی نہیں ..”وہ ضدی انداز میں بولی “مرضی ہے تمہاری ..میں بھی نہیں چھوڑ رہا پھر ..” “اچھا اچھا ..سنو گی ساری باتیں سنو گی .تم ہاتھ تو چھوڑو میرا ..” احمد نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا وہ ناراضگی سے اس کو دیکھتی اپنا ہاتھ دبانے لگی تھی اگر تمہیں مجھ سے کوئی شکایات نہیں ہے تو پھر میں ڈیڈ سے کہ دیتا ہوں کے بہو مان گئی ہے آپ کی ..ڈیٹ رکھ لے آپ رخصتی کی ..” “میں نے تم سے کہا ہے نہ میں تم سے کوئی رشتہ نہیں رکھنہ چاہتی ..” اس نے زور دے کر کہا ” “وجہ ..؟؟” ” مسٹر خانزادہ ..اگر آپ فلیش بیک میں جائے نہ تو وجہ آپ کو خود ہی پتا چل جائے گی .” زرنور نے قہر برساتی نظروں سے کہا “جو بھی میں نے کیا ..اس کےلئے میں شرمندہ ہوں ..لیکن وہ بس ایک مذاق …!!” ” مذاق ؟ وہ صرف مذاق تھا ؟ میرا تماشا بنا کر رکھ دیا تم نے احمد ..اور تم کہ رہے ہو کے بس مذاق تھا ..” اس کی بات کاٹ کر وہ چیخ کر بولی زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے “نور ..بات سنو میری ..” احمد نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا لیکن وہ جھٹکے سے چھڑواتی دور جا کھڑی ہوئی تھی “تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ احمد ..بگاڑا کیا تھا میں نے تمہارا جو تم نے اس طرح سے بدلہ لیا مجھ سے ؟ ” احمد سے اس کے آنسو برداشت نہیں ہو رہے تھے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے سامنے جا کھڑا ہوا “میں نے تم سے کوئی بدلہ نہیں لیا ہے نور ..”اس نے نرمی سے کہا “پھر کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا ؟؟” وہ اس کی شرٹ کے کالر پکڑے روتے ہوئے بولی احمد نے اس کا بازو پکڑ کر اپنے گلے لگا لیا تھا زرنور نے اس کے حصار سے نکلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی تھک ہار کر اس نے اپنا سر احمد کے کندھے پر رکھ دیا “بہت برے ہو تم احمد ..بہت برے ..” وہ بے تحاشا رو رہی تھی وہ ہلکے ہلکے اس کا سر سہلانے لگا اس نے اپنی آنکھیں بند کر کے زرنور کو خودمیں سمو لیا تھا خود کو جیسے ان لمحوں کے سپرد کر دیا ہو آج اس کی جان اس کا عشق اس کے قریب ترین تھا وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا تھا۔ تیمور کے فون کرنے پر انوشے پانچ منٹ میں ہی وہاں پہنچ گئی تھی صوفے پر یشفہ کو بے ہوش پڑا دیکھ کر وہ حیران ہوئی تھی اس سے پہلے کے وہ کچھ پوچھتی تیمور نے اس سے کہا ” یار انوش ..آج اس کا فرسٹ ڈے تھا نہ اسی لئے ہم نے بس ایک چھوٹا سا مذاق کیا تھا ہمیں کیا پتا تھا کے یہ بے ہوش ہی ہو جائے گی ..اب تم پلیز جلدی سے اس کو ہوش میں لاؤ ..” انوشے اس کو ہوش میں لانے کی تدبیریں کرنے لگی جس سے تھوڑی ہی دیر میں اس نے آنکھیں کھول دی تھی ہوش میں آتے ہی اس نے کہا ” میرا سر گھوم رہا ہے ..” وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے پیر اوپر کئے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی انوشے نے جلدی سے اس کو گلاس میں پانی ڈال کر دیا جو پینے کے بعد اس کے حواس کچھ بحال ہوئے ” ” اب ٹھیک ہو ؟” انوشے نے اس سے پوچھا یشفہ نے آثبات میں سر ہلایا “آپ بھی ان لوگوں کے ساتھ ملی ہوئی تھی انوشے ..” وہ ناراضگی سے بولی “قسم سے مجھے تو اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا بلکے میں تو خود حیران تھی تمہیں یہاں دیکھ کر ..کیوں کے ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو میں نے تمہیں کلاس میں چھوڑا تھا..مجھے کیا پتا تھا کے یہ بدمعاش پہلے سے ہی تمہاری کلاس میں بیٹھے ہیں ” انوشے نے خفگی سے اندر آتے تیمور کو دیکھ کر کہا جس نے دانت نکوسے تھے “یہ جوس پی لو بھئی ..اور ہاں اس میں کاکروچز نہیں ہے ..” تیمور نے شرارت سے کہتے ہوئے جوس اور چپس کا شاپر انوشے کو دیا تھا تاکے وہ یشفہ کو دے دے “ویسے سچ بتاؤں تو حیدر نے جب مجھے یہ آئیڈیا بتایا تھا نہ تو مجھے پکا لگا تھا کے فلاپ ہی ہوگا کیوں کے ہیوی بائیک چلانے والی ..لڑکوں سے بھڑنے والی ..خوف نہ کھانے والی ..کاکروچز سے ڈر جائے گی تیمور نےچیئر انوشے کی چیئر کے ساتھ رکھ کر بیٹھتے ہوئے کہا “اوہ .تو یہ سب اس لنگور کا پلین تھا ..” وہ تپ کر بولی انوشے نے جوس نکال کر اس طرف بڑھایا جو اس نے لے لیا تھا “ویسے مجھے حیرت اس بات پر ہے کے تم نے کاکروچ کو کاکڑوچ کیوں نہیں کہا ؟ اس دن بھی تمہاری حیدر سے اسی بات پرلڑائی ہوئی تھی ..” تیمور کے حیرت سے کہنے پر اس نے منہ بنایا تھا اور راحم والی پینلٹی بتائی تھی “واہ بھئی ..کیا کہنے تمہارے …” تیمور نے اس کو داد دی “یہ چپس اور جوس کیا اسی بندر نے بھیجے ہیں ؟” چپس کھاتے ہوئے وہ ایک دم چونک کر بولی “ہنہ ..اس کنجوس کو اٹیک نہ پڑ جائے ..یہ سب چیزیں لانے پر ..” تیمور نے ہاتھ جھلایا “انوشے آپ مجھے ٹائم ٹیبل بتا دیں ..ایک کلاس تو اب میری نکل ہی گئی ہے ان لوگوں کی مہر بانی سے ..” یشفہ نے گھور کر اشعر اور ریاض کو دیکھا جو اندر جھانک کر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے “وہ تو میں بتا دوں گی ..ابھی تم مجھے بتاؤ کے اگر اب حالت بہتر ہے تو کلاس میں چلو ..دوسرا پیریڈ لگنے والا ہے ” “اب ٹھیک ہوں میں ” یشفہ نے مسکرا کر اس کو کہا جو کتنی فکر مند ہو گئی تھی اس کے لئے ..” ٹھیک ہے آجاؤ پھر .” انوشے نے کھڑے ہوتے ہوے کہا اور ٹیبل پر سے اس کا بیگ اور فائل اٹھا کر اس کو پکڑائی جو تیمور ہی کلاس میں سے لے کر آیا تھا “کلاس تو وہ ہی والی ہے نہ ؟” یشفہ نے اس سے پوچھا “ہاں وہی ہے ..” “ٹھیک ہے پھر میں چلی جاؤں گی ..آپ پریشان نہ ہو ..آج میرا پہلا دن ہے نہہ یہاں پر اسی لئے یہ لوگ بچ گئے لیکن اگلی دفع …میں نہیں یہ لوگ بے ہوش ہوں گے ..میں چلتی ہوں ..گڈ باۓ …” وہ اطمینان سے کہ کر انوشے سے گلے مل کر اور اس کا گال چوم کر آفس سے باہر آئی تھی جہاں کھڑے ریاض اور اشعر کو نظر انداز کرتی وہ آگے چلی گئی تھی “یار کتنی بولڈ ہے یہ لڑکی ..” تیمور نے یشفہ سے متاثر ہوتے ہوئے کہا “کیا چکر ہے یہ تیمور ؟” انوشے نے اس سے پوچھا ” یار انوش تم نے تو مجھے اکیلے میں تھپڑ مارے تھے لیکن اس نے تو سب کے سامنے حیدر کو پنچ مارا تھا ..” “کیا مطلب ؟” اس نے نہ سمجھی سے کہا تب تیمور نے اسے شروع سے لے کر آخر تک ساری بات بتائی ..”حد ہے..تم لوگوں کا کام کیا بس لڑکیوں سے مار کھانا ہی رہ گیا ہے ؟” اس نے بیگ کندھے پر ڈالتے ہوئے کہا ” اب یہ تو لڑکیوں کو سوچنا چاہیے نہ کے ..کبھی بھی کسی پر بھی ہاتھ اٹھا دیتی ہیں ..نہ موقع دیکھتی ہیں اور نہ محل ..آئی ..مارا …اور چلی گئی ..یہ بھی کوئی بات ہے ویسے تمہارا لاسٹ پیریڈ تو سر جبران لیتے ہیں نہ ؟ اور آج وہ آۓ نہیں ..تو تم کہاں جا رہی ہو ؟” “گھر جا رہی ہوں ..” “ٹھیک ہے میں ڈراپ کردیتا ہوں ..” وہ جلدی سے بولا ” کوئی ضرورت نہیں ہے ..ویسے بھی وائر جوڑنا میں نے سیکھ لیا ہے …” اس دن کا حوالہ دے کر وہ طنز سے بولی تیمور ہنس دیا تھا “ہاں تو آسانی سے تم مانتی کہاں ہو …چلو نہ میں ڈراپ کر دوں گا .. .” “تم کچھ زیادہ ہی فری ہونے نہیں لگ گئے ؟” وہ اس کو گھورتی ہوئی باہر چلی گئی تھی ” ارے انوش.. بات تو سنو یار ” وہ بھی اس کے پیچھے بھاگا تھا۔ احمد نے اسے چپ نہیں کروایا تھا رونے دیا تھا تاکے اس کے دل کا غبار نکل جاۓ نہ جانے کتنے ہی لمحے ایسے بیت گئے تھے تب کہیں جا کر اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا جھٹکے سے وہ اس سے الگ ہوئی تھی شرم سے اس کی پلکیں جھک گئی تھی اپنی بے خودی پر اسے تا ؤ آرہا تھا جبکے وہ دلفریبی سے اس کے بھیگے چہرے کو دیکھ رہا تھا ” ا ایسے مت دیکھو ..منہ توڑ دوں گی میں تمہارا ..” وہ شرم اور ناراضگی کے ملے جلے تاثرات سے بولی وہ چاہ کر بھی اپنی مسکراہٹ نہ چھپا سکا جس کو دیکھ کر زرنور کو تپ چڑھی تھی “مت ہنسو ایسے ..غصہ آ رہا ہے مجھے تم پر ..” “چلو پھر …پہلے تو تم اپنا غصہ اتار لو مجھ پر اس کے بعد میں تمہیں اپنے یہ سب کرنے کی وجہ بتاؤں گا.. ٹھیک ہے ؟” “مجھے جس پر غصہ آتا ہے نہ تو میں اس کو تھپڑ مار کر اپنا غصہ اتارتی ہوں ..” وہ اپنی شرم اور جھجھک پر قابو پاتے ہوئے بولی “اوہ تو یہ بات ہے ..” وہ قدم قدم چلتا اس کے سامنے جا کھڑا ہوا “میں مانتا ہوں کے میں نے غلطی کی اور شاید بہت بڑی غلطی کی ..اسکی سزا مجھے ملنی چاہیے ..تم جو بھی سزا دو مجھے قبول ہے ..اسی لئے تمہیں اجازت ہے جتنے تھپڑ مارنے ہیں مار لو ..” احمد کے اطمینان سے کہنے پر وہ حیرت اور بے یقینی سے اس کو دیکھ رہی تھی “میں ..میں سچ میں مار دوں گی ..” اس نے زور دیتے ہوئے کہا “ہاں تو مار لو ..میں نے منع تھوڑی کیا ہے ..” وہ اسی انداز میں بولا اور زرنور نے صرف ایک لمحہ لیا تھا سوچنے میں دوسرے ہی لمے اس کا ہاتھ اٹھا تھا اور احمد کے گال پر نشان چھوڑ گیا تھا ایک اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس نے کھینچ کر احمد کے دوسرے گال پر مارا ..ہاتھ اٹھاتے ہوئے وہ ڈر رہی تھی کے کہیں اسے غصہ نہ آجاۓ اور بدلے میں کہیں وہ اس کو تھپڑ نہ مار دے ..لیکن وہ حیران تھی کیوں کے احمد نے کوئی ردعمل نہیں دیا تھا وہ اسی سکون سے کھڑا اسکو تک رہا تھا “بس …اتر گیا غصہ ؟؟ ” وہ اور اس کے قریب ہوا تھا اور زرنور جلدی سے پیچھے ہٹی تھی اسے اب افسوس ہو رہا تھا کے دل میں ایک ملال سا ہو رہا تھا کے اس نے کیوں احمد پر ہاتھ اٹھایا لیکن اس نے ظاہر نہیں ہونے دیا احمد کے سفید گالوں پر ہلکی ہلکی سرخی تھی جو اس کے ہاتھ اٹھانے سے ہی تھی اس کا خود کا ہاتھ بھی دکھنے لگا تھا “اتنا تو تم بولتی ہو اس سے بھی زیادہ تم روتی ہو ..دیکھو پوری شرٹ گیلی کر دی تم نے میری ..” احمد کے کہنے پر زرنور نے اس کی شرٹ کو دیکھا تھا جو واقعی میں اس کے رونے کی وجہ سے خراب ہو چکی تھی “سوری ..” وہ شرمندگی سے بولی ” “سوری سے کام نہیں چلے گا یہاں کمرے سے باہر جاؤ ..سیدھے ہاتھ پر کچن ہے ..جا کر میرے لئے سٹرونگ سی کافی بنا کر لاؤ تب تک میں شرٹ چینج کر لوں ..” “حکم دے رہے ہو ؟” وہ گھور کر بولی ..” نہیں محترمہ ..میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں کے میرے لئے پلیز کافی بنا دیں ..کیا آپ بناۓ گی ؟؟” وہ اس کی طرف جھکتے ہوئے بولا ” ملاذمہ نہیں ہوں میں ..خود بنا لو جا کر ..” پیچھے ہوتے ہوئے اس نے لٹھ مار انداز میں کہا “یار بیوی تو ہو نہ..شوہر کے لئے کیا تم کافی بھی نہیں بنا سکتی ؟” احمد نظریں اس کے چہرے پر جماۓ شرٹ کے اوپری بٹن کھولنے لگا زرنور گھبرا گئی تھی “ہنہ ..شوہر اور بیوی ..” منہ بنا کر کہتی وہ خود پر جھکے احمد کو دھکا دے کر وہاں سے بھاگی تھی اس کی گھبراہٹ اور شرمیلا انداز دیکھ کر ہنستے ہوئے وہ دوسری شرٹ لینے وارڈروب کی طرف بڑھا۔۔ “ماہین بھابھی ..میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کے آپ لوگ رشتہ لے جانے میں اتنا ٹائم کیوں لگا رہے ہیں ..؟” وہ ابھی یونی سے آ کر کچن میں بیٹھا کھانا کھا رہا تھا ساتھ ہی ماہین سے باتیں بھی کر رہا تھا ماہین چونکی تھی اس کی بات پر کیوں کے ابھی تو وہ کوئی اور بات کر رہا تھا ایکدم سے اس نے ٹوپک چینج کر دیا تھا وہ سمجھ گئی تھی اسی لئے مسکرا دی یقینآ مناہل کو آس پاس دیکھ لیا ہوگا جبھی بات بدل دی “اور مجھے یہ نہیں سمجھ آ رہا ہے کے آخر کو تمہیں شادی کی اتنی جلدی کیوں ہے ؟” روٹیاں پکاتے ہوئے اس نے حارث کے ہی انداز میں کہا “ہاں تو اس کے گھر والے اس کی شادی جلدی کرنا چاہتے ہیں نہ ..پہلے سے ہی اس کے پرپوزلز آۓ ہوئے ہیں ..اگر آپ لوگ رشتہ نہ لے کر گئے تو اس کے گھر والے کہیں اور شادی کر دیں گے اس کی ..اور اگر مجھ سے نہ ہوئی نہ اس کی شادی تو آگ لگا دوں گا میں ساری دنیا کو …” وہ دھمکانے والے انداز میں بولا “اف حارث ..تم تو بلکل ہی مجنوں بن گئے ہو اس کے پیچھے ..” “میں نہیں بنا بھابھی …اس نے بنایا ہے ..” حارث نے شاعرانہ انداز میں کہا ماہین ہنسنے لگی “پاگل ۔۔۔۔” “ویسے بتاۓ نہ بھابی کے کیسی لگی آپ کو میری پسند ؟” “بہت خوبصورت اور بہت پیاری ..مجھے تو سوجان سے وہ اپنی دیورانی کے طور پر قبول ہے “ماہین کے کہنے پر اس کی مسکراہٹ گہری ہو گئی تھی “تو پھر آپ بات کریں نہ امی سے ” ” امی نے تو صاف کہ دیا ہے حارث کے تین چار سال سے پہلے تمہاری شادی نہیں ہو گی ” “یار منگنی ہی کروا دیں ..” وہ منہ بسور کر بولا “صبر کرو ..اتنی بے صبری بھی اچھی نہیں ہوتی ..پہلے اپنی پڑھائی ختم کرو بزنس جوائن کرو ..تھوڑے سے قابل بن جاؤ ..پھر لے کر جاۓ گے رشتہ ..ایسے گئے تو وہ دروازے ہی واپس لوٹا دیں گے ” “ارے نہیں ..وہ لوگ میرا پرپوزل ریجیکٹ نہیں کریں گے انفیکٹ منگنی بھی کر دیں گے …” “تم اتنے اطمینان سے کہ رہے ہو حارث ..کیا عائشہ سے کوئی کمٹمنٹ ہوئی ہے تمہاری ؟” ماہین نے لہجے میں حیرانی سموتے ہوئے کہا “اور نہیں تو کیا ..وہ تو سو جان سے مجھ پر فدا ہے ..” حارث نے شرارت سے کہا “اور یہ اس نے تمہیں خود بتایا ہے ؟” “وہ بہت بولڈ ہے بھابھی ..جو دل میں آتا ہے کہ دیتی ہے ..لیکن یہ اس نے نہیں کہا مجھے ..میں نے خود ہی اندازہ لگا لیا کے وہاں بھی کچھ میرے جیسا ہی حال ہے “وہ ہنستے ہوئے بولا کچن کے باہر دیوار سے ٹیک لگاۓ کھڑی مناہل کی آنکھوں سے آنسوں بہ رہے تھے وہ ماہین کے پاس کسی کام سے آئی تھی لیکن اندر سے آتی حارث کی آواز نے اس کے قدم وہیں پر روک دئے تھے نہ جانے کیوں وہ اس کے حواسوں پر اس قدر حاوی ہوتا جا رہا تھا اسے لگ رہا تھا کے اگر وہ تھوڑی دیر بھی اور وہاں کھڑی رہی نہ تو ضرور اس کا دل بند ہو جائے گا بے جان قدمو سے چلتی وہ اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ لاک کر کے وہیں پر گھٹنوں کے گرد بازو پھیلا کر بیٹھ گئی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کے اسے ہو کیا گیا ہے پچھلے کچھ دنوں سے حارث کو دیکھ کر اس کا دل ایک الگ ہی لے پر دھڑکنے لگ جاتا تھا وہ بےچین رہتی تھی جب تک حارث اس کو نظر نہ آجاتا ..اور جب وہ اس کو دیکھ لیتی تو ایک ٹھنڈا میٹھا سا احساس اس کے دل میں اتر جاتا “یہ ..یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ؟ کیوں حارث کو دیکھ بغیر مجھے سکون نہیں ملتا اب ..؟ کیوں وہ مجھے اتنا اچھا لگنے لگ گیا ہے ؟” روتے ہوئے وہ جیسے خود سے ہی پوچھ رہی تھی “تمہیں محبّت ہو گئی ہے مناہل ..آج تک جس محبّت کا تم مذاق بناتی آئی تھی اسے فضول کہتی آئی تھی آج وہ تمہیں بھی ہو ہی گئی ..” اپنے دل کی آواز پر وہ دم بخود رو گئی تھی “یہ ..غلط ہے ..مجھے کوئی …محبّت نہیں …اس سے ..وہ تو پہلے ہی کسی اور سے محبّت کرتا ہے …میں کیسے ..اس سے محبّت کر سکتی ہوں ؟؟” اس نے سختی سے جھٹلایا تھا اس کے گالوں پر آنسوں پھیلتے جا رہے تھے اس کا دل چیخ چیخ کر بس ایک ہی نام لے رہا تھا “کیوں کیا تم نے ایسا حارث ،،،” وہ بے تحاشا رو رہی تھی “یہ پہلی اور آخری دفعہ میں نے تمہارے لئے کافی بنائی ہے آئندہ مجھ سے کوئی امید مت رکھنا ..” وہ صوفے پر بیٹھا پیر لمبے کیے ٹیبل پر رکھے موبائل پر میسجز چیک کر رہا تھا جبھی زرنور نے کافی کا بھاپ اڑاتا کپ اس کے سامنے رکھتے ہوئے تڑک سے کہا “احمد نے حیرانی سے اس کودیکھا تھوڑی دیر پہلے تک تو ٹھیک تھی لگتا ہے پھر غصہ چڑھ گیا اسے .”تھینک یو نور ..ویسے مجھے کہنا تو نہیں چاہیے ..کیوں کے یہ تو تمہارے ہی کرنے کے کام ہیں ..اگر میرے لئے کافی تم نہیں بناؤ گی تو اور کون بناۓ گا ؟” وہ عام سے انداز میں کہتا اس کو تپا گیا تھا ” ایکسکیوز می ..تم ہو کون جو میں تمہارے لئے کافی بناؤ ؟” “شوہر ہو نہ تمہارا …” “ہنہ شوہر ہو نہ تمہارا ..آۓ بڑے ..” زرنور کے نقل اتارنے پر وہ ہنس دیا “دوبارہ مت کہنا ..ورنہ اچھا نہی ہوگا .” وہ وارن کرتے ہوئے بولی “کیوں تم مجھے اپنا شوہر نہیں مانتی کیا ؟” “بلکل بھی نہیں .تم صرف ایک دھوکے باز اور فراڈی انسان ہو ..اور کچھ بھی نہیں ..” “کیا کہا ؟ میں دھوکے باز ہوں ؟ِ” “ہاں ہو تم دھوکے باز ” ” زرنور نے تپ کر کہا احمد نے اس کی کلائی پکڑ کر جھٹکے سے اسے کھینچ کر اپنے پہلوں میں گرایا تھا ور اس کو سمبھلنے کا موقع دئے بغیر اس کے گرد اپنا حصار کھینچ دیا تھا “بھلے میں ایک دھوکے باز ہوں فراڈی ہوں ..لیکن اب صرف تمہارا ہوں ..اور تم سے بے حد محبّت بھی کرتا ہوں .اسی لئے اب تمہیں اسی دھوکے باز کو ساری زندگی برداشت کرنا پڑے گا ..کیوں کے اب میں تمہاری جان چھوڑنے والا نہیں ہوں ..