“میں آبدار عبید ہوں اور میں ایک بری لڑکی نہیں تھی۔ میرا بھی ایک دل تھا جیسے آپ سب کا ہوتا ہے۔”
“اور کیا بُرا کیا میں نے اگر ہمیشہ دل کی سنی؟ دل کی مانی؟ کیا عشق مرضی سے کیا جاتا ہے؟ نہیں۔ یہ تو مرض ہے جو یوں لگتا ہے جیسے کسی کو فلو لگ جاتا ہے۔ اور کسی کا فلو کینسر بن جاتا ہے۔”
“وہ میرا کبھی نہیں ہوسکے گا اور میں نہیں جانتی کہ کسی انسان کے لیے جان دینا یا جان لینا صحیح ہے یا نہیں مگر میرا دل کہتا ہے۔۔۔آج میں سب ختم کرہی دوں۔”
“آج میرا من کہتا ہے کہ جہاں اتنا کیا ہے اس کے لیے وہاں ایک آخری بازی بھی لگا دوں۔”
“اگر میں ہمیشہ بری ہی تھی تو آج میرا دل کہتا ہے کہ ایک برا کام اور کردو۔ عجیب بات۔۔میں اب بھی اپنی دنیا اور اپنی آخرت نہیں سوچ رہی۔ میں اس انسان کا سوچ رہی ہوں۔ یہ عشق تو غلامی ہے غلامی۔”
“اور آج میں یہ جان گئی ہوں کہ انسان کی غلامی نہیں کرنی چاہیے مگر میں اس چھوٹی لڑکی جیسی بہادر نہیں ہوں۔ میں خود کو اس پھندے سے آزاد نہیں کرسکتی۔”
“اور کتنی عجیب بات ہے کہ میں اسے (ہاشم) بھیڑیا کہہ رہی ہوں مگر اندر سے وہ مجھے عزیز بھی تھا تب ہی تو میں نے کبھی اسے اپنی قید سے آزاد نہیں ہونے دیا؟ قیدی کسے برے لگتے ہیں؟”
“اور میں نے جو کیا حُب چاہ کےلیے کیا۔ جاہ اور چاہ میں فرق ہوتا ہے۔ مگر دونوں کی ہوس انسان کو ہراتی ہے۔ میں ہار گئی ہوں مگر جیتنے ہاشم کو بھی نہیں دوں گی۔ آج میں اگر کامیاب ہوئی تو فارس کے سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے۔”
“اور اگر میں ناکام ٹھہرتی ہوں تو بھی فارس کے بہت سے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ پھر کیا ہو جو میں اپنے دل کی مان لوں؟ اس دل کی جو میری مانتا ہی نہیں۔”
“اور میں کبھی تسلیم نہیں کروں گی کہ میں ایک بُری لڑکی تھی۔ میں بُری نہیں تھی۔ میرا دل بُرا ہوگیا تھا۔ اور دیکھو ۔۔۔ میں اب بھی اسی آدمی کو سوچ رہی ہوں۔ کیا یہ عشق ہے یا کوئی آسیب؟”
“اور میں کوئی پہلی دفعہ مرنے نہیں جارہی۔ میں آبدار ہوں۔ پانی سے بنی۔ میں ایک دفعہ پانی میں پہلے بھی مرچکی ہوں۔ مگر اس وقت چند سوال ادھورے رہ گئے تھے۔ آج ان کے جواب مل جائیں گے۔ کم از کم اب میں نیوٹرل نہیں رہی۔ میں نے ایک سائیڈ چن لی تھی۔ میرے دل کی سائیڈ۔ کم از کم اب وہ نورانی وجود مجھ سے ناراض نہیں ہوگا۔۔۔اور دیکھو میں اپنی ماں کی روح کو یہاں سے بھی دیکھ سکتی ہوں۔ ہاں اب میں اس کے علاوہ بھی کچھ سوچ رہی ہوں۔”
“لیکن میں تمہیں بتاؤں۔۔۔انسان کے عشق میں جان دینا صحیح ہوتا ہے یا نہیں۔۔۔ مگر اس اُجرت کسی جہان میں نہیں ملتی۔”