1: “میں ایک بہت اچھا رائیٹر ہوں اور رائیٹر سے بہت احتیاط سے بات کرتے ہیں ورنہ وہ آپ کو اپنی کہانی میں ڈال کر مار بھی سکتے ہیں۔”
2 : کتابیں پڑھنا کتابیں لکھنا ایک ٹائم لیس شوق ہے اور کسی ٹائم لیس چیز کا شوق انسانوں سے محبّت کرنے سے بہتر ہوتا ہے کیونکہ ٹائم لیس شے دل کو ایسے نہیں دُکھاتی جیسے انسان دُکھاتے ہیں
3 : اگر میں مثبت انسان بننا چاہتا ہوں تو مجھے سب سے پہلے اپنے موڈ،اپنی مسکراہٹوں اور اپنے آنسوؤں کا احتیار دوسروں کی زبانوں سے واپس لینا ہو گا
4 : Mind over Matter آپ مائنڈ کرنا چھوڑ دیں تو وہ میٹر کرنا چھوڑ دیں گے
5 : اصل طاقت تو ٹھنڈے رہنے میں ہے۔اصل طاقتور لوگ وہی ہیں جو لوگوں کی ہر راۓ پر یقین نہیں کر لیتے بلکے اکثر باتوں کو در گزر کر جاتے ہیں اور ان کو بے جا سوچتے نہیں رہتے ہمیں ذرا ذرا سی بات پر ردعمل دینے سے خود کو روکنا ہو گا۔
6 : چے تالیہ آپ بہت ذہین ہیں اور آپ جیسے زہین لوگوں کو جانتی ہیں کہاں ہونا چاہیے…؟ “جیل میں”
7 : چے تالیہ آپ کتابیں نہیں پڑھتیں کیا…؟؟ 8 : “ہوں۔اصلی فوجی ہونا نقلی شہزادی ہونے سے بہتر ہے۔” 9 : کون سے اساتذہ؟ کون سے علوم و فنون؟ یہ ایک مہینہ ملاکہ میں رہ کے چند باتیں کیا سیکھ لی آپ نے’ آپ تو بھول ہی گئیں کہ ساری عمر آپ ملاءم ئیشیاء کی گلیوں میں بٹوے چراتی اور جیبیں کاٹتی رہی ہیں”۔ 10 : “تالیہ کے بعد اس نے کبھی دوست نہیں ببنائے تھے۔” اس کا دل قدیم ملاکہ میں ٹوٹا تا
11 : “مجھے آپ سے خفا ہونے کا حق بھی نہیں ہے۔” 12 : اتنی سی بات تھی اور ایڈم بن محمد کا دل خالی ہو گیا 13 : مجھے جس سے محبّت ہوئی،وہ کسی اور کے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتی ہے ۔کچھ لوگ ھمارے لیے نہیں ہوتے۔ہم دعائیں کریں یا جادو’ وہ ہمیں نہیں ملیں گے۔ان لوگوں کے ملنے کی خواہش کو ترک کرنا دل کو مار دیتا ہے۔ 14 : اور یہ وہ لمحہ تھا جب برسوں بعد ایڈم بن محمد کا دل ایک دفعہ پھر خالی ہو گیا تا
15 : اور میں ایڈم بن محمد اپنا دل اس امید پہ مار رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی میرا یہ زخم بھر جاۓ گا۔کبھی تو میرا خدا میرے دل کو پھرسے تندرست کر دے گا۔ 16 : فاتح کو تالیہ یاد تھی اور تالیہ کو وہ کبھی بھولا ہی نہیں تھا وہ دونوں اپنی جگہ واپس آ گئے تھے وقت کے اس چکر نے اگر کسی کو برباد کیا تھا تو وہ ایڈم بن محمد تھا۔
17 : اگر زندگی چانس کا دوسرا نام ہے، تو ایک چانس وہ بھی لے گا 18 : “میں “وقت” سے معافی مانگنے کے لئے تیار ہوں۔” 19 : میں چے تالیہ سے دستبردار ہوتا ہوں اسے چے تالیہ کے لیے جینے کی خواہش نہیں رہی۔ وہ اب اپنے لیے جیے گا، جہاں بھی جیسے بھی