وحشت ناک خاموشی اندھیرے کی سیاہ چادر اور مہیب خوف کے زیر اثر اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ سرد ترین رات میں وہ ملجی روشنی والے سیلین زدہ کمرے کے ایک کونے میں سکٹر کر بیٹھی تھی۔ سرد ہوا کے تیز جھونکے سے کھڑکی کا کھلا لکڑی کا پٹ زور سے بند ہوا اور پھر چوکھٹ سے ٹکرا کر زور دار آواز کے ساتھ لگتا ہوا واپس اپنی پہلی حالت پر آ گیا۔ اس کے دل میں کھڑ کی بند کرنے کا خیال آیا دیوار کا سہارا لے کر اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کی نظر کمرے میں موجود واحد چارپائی پر گئی تھی۔ اگلے ہی ہل اس نے زور سے آنکھیں بیچ لیں اور دیوار کے ساتھ لگ گئی پھر آہستہ آہستہ سارا بدن خوف کی شدت سے کانپ اٹھا۔ اس نے اپنا سر گھٹنوں پر رکھ لیا اور دونوں بازو مضبوطی سے گھٹنوں کے گرد لپیٹ لیے۔ تاریک رات اس کی زندگی کی سب سے طویل رات بنتی جارہی تھی۔ کمرے میں اتنی خاموشی تھی کہ باہر ہوا چلنے کے سبب ہونے والا ہلکا سا ارتعاش بھی سماعت میں محسوس کیا جاسکتا تھا لیکن اس نے ایک بار جوسر گھٹنوں میں دیا تو دوبارہ کوئی آواز اسے سراٹھانے پر مجبور نہ کرسکی تھی۔ آوازیں تو ایک طرف کمرے میں موجود دوسرے وجود نے بھی اسے اپنی جانب دیکھنے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ اس کا سب کچھ تھا جس کو ہر رات دو بار نیند سے اٹھ کر دیکھا کرتی تھی۔ ہر آہٹ پر وہ لرز اٹھتی تھی لیکن اب اس نے اپنا سر اٹھانے یا دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی تھی اس کا بدن سرد ہو کرشن ہو گیا تھا۔ دل و دماغ میں کسی قسم کا کوئی احساس پیدا نہیں ہورہا تھا۔ جب گھر کے دروازے پر دستک کی آواز سنائی دی۔ آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی چلی گئی مگر دروازے پر جو بھی تھا وہ مستقل مزاج تھا۔ اس نے ڈرتے ہوئے بلاآخر سر اوپر اٹھایا رات کی سیاہ چادر چھٹ چکی تھی۔ اس کے دل کو کچھ اطمینان ہوا وہ آہستگی سے اٹھی اور لڑکھڑاتے ہوئے دروازے کی جانب بڑھ گئی۔ دروازے پر چند خواتین کھڑی تھیں وہ خالی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگ گئی عجیب عورتیں تھیں جن کے ہونٹ تو ہل رہے تھے لیکن ان کے بولنے کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ نا سمجھی سے ان کی طرف دیکھتے اس کے چہرے پر عجیب سا تاثر ابھرا جب ان میں سے ہی کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور گھر کے واحد کمرے کی طرف لے آئیں۔ سب کی سب چار پائی کی جانب بڑھیں وہ بھی قریب پہنچ کر کھڑی ہوگئی ہاتھ آگے بڑھا کر اس نے چارپائی پر لیٹے وجود کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ اسے لگا اس کا ٹھنڈا ہاتھ اس بے جان وجود سے نہیں زیادہ سرد ہے اور وہ اپنا یخ احساس اس مردہ وجود میں اتار رہی ہے۔ دفعتا اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا کسی نے اس کے شانوں پر چادر اوڑھائی تھی کوئی اسے پکار رہا تھا کسی نے اسے جھنجھوڑنا چاہا تھا کوئی اسے سنبھال رہا تھا۔ سب گڈمڈ ہورہا تھا گول گول دھندلے دائرے بن رہے تھے۔ اس کی آنکھیں اس دھندلے منظر کو دیکھ نہیں پارہی تھیں، سماعتیں آواز میں سمجھنے سے قاصر تھیں اور پھر اس نے آنکھیں دھیرے سے بند کر لیں احساس مثل ہو گیا اور وہ ڈھے گئی تھی۔__________________________________گھٹنوں تک آتے سرخ کوٹ اور سیاہ جینز میں وہ بے حد دلکش دکھائی دے رہی تھی۔ گردن میں سرخ اسکارف لپیٹ کر اس نے بالوں کو کھلا چھوڑا ہوا تھا سرد شام میں وہ لان میں پتھر کی بنچوں میں سے ایک پر بیٹھ گئی تھی۔ یہ پھر بھی اسے خزاں جیسے ہی معلوم ہوتے تھے۔ یخ ، سخت اور بے جان ہر احساس سے ماورا اور ظالم دونوں ہاتھ لپیٹ کر اس نے گہری سانس لی اور آسمان کی جانب نظر کر کے ٹنڈ منڈ درختوں کے آخری سرے دیکھنے لگی جن کے وجود کے ہزاروں حصے خزاں الگ کر کے لے جارہی تھی۔ ہوا کا تیز جھونکا آیا اور آخری ہچکیاں لیتے کئی پتوں کو ان کی شاخوں سے علیحدہ کر گیا اس نے آنکھیں میچ کر دونوں کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے فضا میں پتوں کےچیخنے چلانے اور کرب کی آواز سنائی دینے لگئی درخت اپنے وجود کے کئی حصے اس بے دردی سے جدا ہونے پر پھڑ پھڑانے لگا۔ اس نے کچھ دیر بعد کانوں سے ہاتھ ہٹا کر آہستگی سے آنکھیں کھولیں، بے تاثر نظروں سے اس پاس دیکھا پتے بھرے ہوئے تھے ایک پتا اس کی گود میں تبھی آن گرا تھا۔ اس نے دوانگلیوں سے بیتے کو پکڑ کر بغور دکھ کی کیفت سے دیکھا گویا کہہ رہی ہو مجھے تمہارے درد کاپورا احساس ہے۔آپ پھر یہاں آ گئیں، کیوں خود کو ان دیکھے دکھ میں بار بار مبتلا کرتی ہیں؟ غشمیرہ اس کے کاندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھتی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔ سوچ رہی ہوں یہ موسم کتنا اذیت ناک ہے اس بار پھر نجانے کتنے لوگوں کو اس نے اپنے پیاروں سے جدا کیا ہوگا۔ کتنے دل اجاڑے ہوں گئے کتنے گھر خالی کیے ہوں گئے بالکل ایسے ہی جیسے ان سبز پتوں کو موت کی زردی میں بدل کر انہیں شاخوں سے الگ کر کے درختوں کو ان کا ماتممنانے کے لیے تنہا چھوڑ کر۔ غشمیرہ کیا میں واقعی پاگل ہوگئی ہوں، کیا واقعی تم سب کو ان درختوں کی سسکیاں سنائی نہیں دیتیں؟ کیا تم سب کو اس سرد دھند آلود فضا میں نوجوں کی آواز میں نہیں سنائی دیتیں؟ کوئی تو وجہ ہے ناں جو لوگ اسے بچھڑنے کا موسم کہتے ہیں؟ مجھے نہیں علم کہ میں سب کو اپنی بات کیسے سمجھاؤں لیکن سچ یہ ہے کہ جو میں محسوس کرتی ہوں تجھے وہی سچ لگتا ہے اور میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتی ۔ کسی غیر مرئی شے کو دیکھتے اور نا دیدہ آوازیں سنتے وہ بنا کسی تاثر کے اپنی بات کہ رہی تھی۔ ہم تمہیں غلط نہیں کہتے حسال نہ ہی ہمارا مقصد تمہیں غلط ثابت کرنا ہے۔ غلط وہ سوچ ہے جو تمہارے اندر بس گئی ہے وہ ڈر ہے جو تمہارے اندر ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے جب تک تم خود اس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کرو گی یہ باہر نہیں نکلے گا۔ تمام عمر یہ موسم تمہیں یونہی ڈستا ر ہے گا، جو ہوا تھا وہ مشیت ایزدی تھی۔ تم اسے کیسے موسم کا ستم کہہ سکتی ہو اسی لیے سب تمہارا بھلا چاہتے ہیں اگر تمہیں لگتا ہے تم ٹھیک ہو تو پھر بھی گھر کے سب لوگ تمہارا بھلا ہی چاہتے ہیں۔ ان سب کی خاطر ایک بار اپنا فیصلہ بدل کر تو دیکھو۔ غشمیرہ اس کا ہاتھ تھامے اسے سمجھانا چاہ رہی تھی لیکن اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ جو کوشش کر رہی تھی وہ بے سود ثابت ہوگی۔ غشمیرہ ، پلیز میرے ہاتھوں میں پہلے ہی خوشی کی کوئی لکیر نہیں میں نہیں چاہتی کہ میں جان بوجھ کر اپنے غموں کی لکیروں میں ایک اور لکیر کا اضافہ کرلوں اور تم سب کو بھی ایسا دکھ دوں جس سے باہر آنا پھر ممکن نہ رہے۔” اپنی دونوں ہتھیلیاں سامنے کرتے اس نے انہیں پڑھا اور پھر ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ پتا اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا اور وہ انجانے میں اس پر پیر رکھتی آگے بڑھ گئی تھی غشمیرہ نے پتا اٹھا کر بینچ پر عین اس جگہ رکھ دیا جہاں کچھ دیر قبل حسال بیٹھی تھی۔ اداسیوں کے یہ زرد موسم فضا میں بکھری پرانی یادیں اجاڑ پیٹروں پر تنکا تنکا بکھرے چڑیوں کے آشیانے یہ فرقوں سے نڈھال برکھا میرے لہو میں اتر رہی ہے__________________________________”حسال آپی آپ سے ایک بات کرنی تھی ۔” غفران غشمیرہ کے اشارے کو سمجھ کر حسال کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا جس کا ستا ہوا چہرہ اس کے رونے کی چغلی کھا رہا تھا۔ مجھ سے ! ہاں بولو۔“ حسال نے حیران ہوتے ہوئے اپنی گھنی پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو وہ سہم جانے کی اداکاری کرنے لگا۔” کیا ہوا؟“ اس نے اچنبھے سے پوچھا۔ آپ نے شراب پی رکھی ہے ناں؟ وہ اس کے کان کے قریب ہو کر بولا مبادا کوئی اور نہ سن لئے وہ حیرانی سے اس کی جانب دیکھتی رہ گئی۔ اچھا اچھا پھر کوئی نیا آئی میک اپ آیا ہو گا ناں؟ اور ایسی سرخ آنکھیں فیشن میں ان ہوں گی۔ ارے غشمیرہ تم بھی آپی سے پوچھ کراپنی شادی پر ایسا ہی آئی میک اپ کروانا۔ وہ اب بھی بلا کی سنجیدگی خود پر طاری کر کے کہہ رہا تھا۔شادی سے یاد آیا آپی آپ سے ایک بات کرنے آیا ہوں۔ اب آپ تو جانتی ہی ہیں آپ کی یہ دوست میری تو ایک نہیں سنتی اسی لیے آپ کی مدودرکار ہے۔ وہ چہرے پر سنجیدگی طاری کیے غضب کی اداکاری کر رہا تھا۔ کچھ فاصلے پر بیٹھی غشمیرہ نے مسکراہٹ دباتے ہوئے چہرہ جھکا لیا تھا۔ وہ جانتی تھی ہمیشہ کی طرح غفران کوئی پھلجڑی ضرور چھوڑے گا اور اب تو اس نے خود ہی غفران کو اشارہ کر کے حسال کا موڈ ٹھیک کرنے کو کہا تھا۔ غفران اب کہہ بھی دو کیا بات ہے؟“ حسال نے سوچ سوچ کر بولتے غفران سے جنجھلا کر کہاں وہ آپی میں چاہ رہا تھا کہ آپ غشمیرہ سے کہیں کہ شادی سے پہلے نام بدل لے ورنہ میں اس سے کسی صورت شادی نہیں کروں گا۔ میری طرف سے اجازت ہے کہ اپنا نام کشمیرہ کرئے ہمشیرہ رکھ لے لیکن اس غ کو بدل ڈالے آپ تو جانتی ہیں ناں میں اس خاندانی “غ” سے کتنا الرجک ہوں بلکہ آپ کو بتاؤں میں تو سوچ رہا ہوں کہ اپنا نام بھی بدل لوں ۔ غفران کا ہٹا کر بغران رکھ لوں یا بغران کا صرف بغر ہی رکھ لیتا ہوں بلکہ اگر میری مطلب غمشیرہ کہے تو میں بغیر کے بجائے خود کو ڈفر کہلوالوں گا لیکن پلیز اسے سمجھائیں کہ اس غین کو میری بصارتوں کے سامنے سے سوری سماعتوں سے ٹکرانے سے روک دے۔ میری آدھی عمر تو غین کے گرداب میں گزرگئی ہے باقی کی آدھی اس کے جال میں الجھ کر رہ جائے گی ۔ غفران سنجیدگی کی ہر حد پار کرتے ہوئے کمال بے چارگی کا اظہار کر رہا تھا۔__________________آپ میری مشکل سمجھ رہی ہیں ناں؟ وہ معصومیت سے پوچھ رہا تھا حسال نا چاہتےہوئے بھی بے اختیار مسکرا دی تھی۔ پھر تمہارا غین نامہ شروع ہو گیا رک جانا نجار میں تیرا نام ابھی بدلتی ہوں ارے بڑوں کا مذاق بناتا ہے۔ دادی لاٹھی ٹیکتی ایک ہاتھ کمر پر رکھے لاؤنج میں داخل دادی… اوہ آپ کے پیر کے پاس اتنا بڑا کیڑا ” غفران چلایا دادی پیر جھاڑتے ہوئے لاٹھی ٹیکتی آگے بڑھیں، گھبراہٹ کے مارے وہ کچھ جلدی ہی آگے بڑھ آئی تھیں۔ ارے دیکھ بٹیا کہیں وہ موا کیڑا میرے جوتوں میں تو نہیں گھس گیا۔ موٹے عدسے والے چشمے کے پیچھے سے بغور اپنے پیروں کی جانب دیکھتے ہوئے وہ حال سے مخاطب ہوئیں۔ ایک منٹ رکیں وادی میں ذرا جائے وقوعہ کا معائنہ کرلوں تمہیں وہ نازک اندام وجود کسی بھاری بھر کم وجود تلے آ کر اس دار فانی سے کوچ ہی نہ کر گیا ہو۔ غفران کی آواز حتی الامکان حد تک گھبرائی ہوئی تھی۔ ہاں ہاں بیٹا جلدی دیکھ “ دادی نے ہاتھ ہلاتے ہوئے اسے جانے کا کہا۔ حسال اور غشمیرہ کے چہرے پر مسکراہٹ بے ساختہ تھی۔ دادی ماں غفران نے دروازے پر پہنچ کر انہیں پکارا دادی نے اس کی جانب دیکھا جس کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ چل رہی تھی۔ آنکھیں گھماتے ہوئے وہ مسکراتا ہوا غائب ہو گیا۔ دادی کو اس کے ہمیشہ کی طرح چالا کی سے غائب ہونے کا احساس ہوا تو وہ اس کے پیچھے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ نانو …. وہ اب آپ کے ہاتھ نہیں آئے گا بیٹھ جائیں ۔“ حسال نے دادی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں پھر سے بٹھالیا۔ اسی پل غفران ایک بار پھر دروازے کے پیچھے نمودار ہوا دروازے کے سامنے غشمیرہ صوفے پر بیٹھی تھی۔ دادی اماں اور حسال کی اس جانب پشت تھی ، مسکراتے لب مزید پھیل گئے تھے۔ غفران نے آنکھ کا ایک کونا دبایا غشمیرہ سٹپٹا گئی غشمیرہ نے غفران کی شرارت کی وجہ سے حسال کے مسکراتے چہرے کو دیکھنا چاندنی کی مانند حسال کی مسکراہٹ کے سامنے ہر منظر دب جاتا تھا۔ غشمیرہ کے دل سے بے اختیار حسال کی خوشیوں کے لیے ڈھیروں دعا ئیں نکلی تھیں۔____________________________عمر حسن اور شیبا حسن کی تین اولاد میں تھیں دو بیٹے غضنفر غیور اور ایک بیٹی غزالہ غضنفر کے دو بیٹے غیاث اور غفران تھے اور غیور کی دو بیٹیاں غریدہ غشمیرہ اور ایک بیٹا غمر تھے ۔ دونوں بیٹوں کی شادیاں ماں باپ کی پسند سے طے ہوئی تھیں لیکن غزالہ نے اپنی ضد اور محبت سے مجبور ہوکر گھر والوں سے بغاوت کر کے اپنے ڈرائیور سے شادی کی تھی۔ بیٹی کی ضد سے مجبور ہو کر ماں باپ نے اسے بیاہ تو دیا تھا لیکن ساتھ ہی اس سے ہر ناطہ توڑ دیا تھا۔ شادی کے پندرہ برس تک عمر حسن، شیبا حسن اور ان کے بچوں کا غزالہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔بیس برس بعد بھی غزالہ تو نہیں آئی لیکن ایک چٹھی آئی تھی جس پر غزالہ کی موت اور اس کی آخری وصیت کے بارے میں لکھا تھا خط بھیجنے والے نے اس میں ایک پتا بھی لکھا تھا۔ خط پڑھ کر عمر حسن وہیں ڈھے گئے ماضی میں کچھ بھی ہوا اسے بدلا تو نہیں جاسکتا تھا لیکن سچ تو یہ تھا کہ غزالہ ان کی بیٹی تھی ان کا اپنا خون۔ مذکورہ پتے پر پہنچے تو سوائے غزالہ کی سہمی ڈری گھبرائی نشانی حسال کے وہاں کچھ نہ تھا۔ غزالہ کا شوہر دس سال قبل ایک حادثے کا شکار ہو کر اس دار فانی سے کوچ کر گیا تھا۔ اس کا شوہر ڈھاکہ کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتا تھا، سرال والوں نے بھی شادی کے بعد غزالہ کو قبول نہ کیا تو وہ غزالہ کو لے کر شہر آ گیا تھا۔ ہمیشہ سے ضدی غزالہ نے واپس لوٹنے کے بجائے اپنا سہارا خود بننے کا فیصلہ کیا اس بستی کے مکینوں کا دل بہت بڑا تھا۔ لاڈو سے پلی غزالہ لوگوں کا ہر کام کر لیا کرتی تھی۔سلائی کڑھائی، گھروں کی صفائی اور کچھ لوگ عید بقر عید اور دوسرے مواقعوں پر غزالہ کی مالی امداد کر دیا کرتے تھے۔ پڑھی لکھی غزالہ بظاہر مسکراتی رہی لیکن اندر ہی اندر کوئی روگ اسے دیمک کی طرح چاٹ رہا تھا۔ شروع میں اس نے کسی پرائیوٹ اسکول میں نوکری کرنے کی کوشش کی لیکن اسکول میں وقت بہت زیادہ اور پیسے نہ ہونے کے برابر ملا کرتے تھے اور بچی کے ساتھ ٹیچنگ کرنا بہت مشکل ثابت ہو رہا تھا۔ آس پاس کوئی بہت اچھا اسکول نہ تھا اور زیادہ دور وہ جانہیں سکتی تھی اس بستی میں لوگ ٹیوشن کی فیس بھی نہ ہونے کے برابر دیا کرتے تھے لہذا اس نے دوسرے آپشن پر عمل کیا اور خود کو مار کر ہر وہ کام کیا جس سے اس کا اور اس کی بیٹی کا پیٹ بھرتا رہے اور اس کی بیٹی پڑھ بھی سکے۔ اندر کا روگ بڑھتا رہا اور ایک دن سرطان بن کر باہر نکلا تھا۔ حسال جب گورنمنٹ کالج سے ایف اے کر رہی تھی غزالہ کو اپنی زندگی کے محدود ہونے کا اندازہ ہو گیا تھا، اسی لیے ایک قابل اعتماد پڑوسن کو دو کاغذ تھما دیے تھے ایک پر وصیت تحریر تھی تو دوسرے پر اس کے والدین کے گھر کا پتا۔ ایک سرد اور وحشت ناک رات کی خاموشی میں باپ کی طرح ماں بھی حسال کو اکیلا چھوڑ کر اسں دار فانی سے کوچ کر گئی تھی۔ حسال نانا کے گھر آ گئی تھی، سنجیدہ اور خاموش طبیعت حسال کو اس گھر سب لوگ بہت اچھے لگے تھے سب نے ہی اسے بہت پیار سے خوش آمدید کہا تھا۔ عمر حسن اس صدمے سے باہر نہ آ سکے تھے۔ گھنٹوں نانا اور نواسی غزالہ کی باتیں کرتے رہتے حسال دن بدن عمر حسن کے قریب ہوتی چلی گئی پھر ایک دن زرد موسم حسال سے اس کا ایک اور قریبی رشتہ چھین کر لے گیا تھا۔ حسال وہ دن بھول کیسے سکتی تھی شدید دھند اور تیز ہوا کے تھپیڑے اس کا دل ہولا رہے تھے۔ اس موسم میں وہ رات بھر سو نہیں پائی تھی کچھ ہونے والا ہے“ کا احساس اسے گھیرے ہوئے تھا، پھر علی اصبح نانا ابو کے کمرے سے رونے کی آواز سنائی دیں وہ ننگے پیر اس طرف دوڑی۔ اندر کا منظر اسے ساکت کر گیا تھا۔ نانا ابو کے چہرے پر گہرے سکون اور ان کے آس پاس سب گھر والوں کا اکٹھا ہونا اسے انہونی کا احساس دلا گیا تھا۔ بےجان قدموں سے وہ آگے بڑھی بے یقینی سے نانا ابو کا ہاتھ تھاما ان کا ہاتھ ڈھلک کے نیچے آن گرا۔ وہ ہوش میں ہوتے ہوئے بھی حواس کھو رہی تھی وہ روئی تو اس بری طرح سے کہ ہر شخص اپنا درد بھول کر اس کا درد محسوس کرنے لگا تھا اس کی زندگی کا ہر اہم شخص اس سے ایسے ہی چھین لیا جاتا تھا۔یہ موسم خزاں میری خوشیوں کا قاتل ہے میرے پیاروں کے مجھ سے بچھڑنے کی وجہ ہے۔ یہ موسم قاتل ہے۔ اس کے دل و دماغ پر یہ سوچ نقش ہو گئی تھی اور ایسی نقش ہوئی کہ آج نانا ابو کو گزرے کئی برس گزر گئے مگر اس کی یہ سوچ آج بھی ویسے ہی زندہ تھی۔ اتنے سالوں میں اس نے ایف اے سے انگلش میں ماسٹرز کرنے کا سفر طے کر لیا تھا لیکن اس کے اندر خزاں کے موسم میں پتوں کو بکھرتے بچھڑتے دیکھ کر وہی کیفیت اور سوچ پھر سے عود کر آئی۔ وہ سونا اٹھنا کھانا پینا اوڑھنا سب بھول کر کسی انہونی کے ہو جانے کے ڈر میں مبتلا ہو گئی تھی۔سبز پتے زرد لبادہ اوڑھ کر اپنا رشتہ درخت سے کمزور کر رہے تھے اور پھر ہوا کا ایک ہی ظالم جھونکا انہیں تکلیف سے نجات دے دیتا۔ بڑی شان سے رنگت بدل کر وہ خود اپنی موت کا پیام دے رہے تھے۔ گھنے درختوں کی ٹہنیاں خالی ہورہی تھیں، طیور اشجار سے روٹھ رہے تھے اب شازو نادر ہی کوئی بھولا بھٹکا پنچھی کسی پیٹر پر بیٹھا نظر آتا تھا۔ سیاہ لباس اور ہم رنگ کوٹ میں وہ دھیرے دھیرے پارک کے ایک سنسان گوشے کی جانب بڑھ گئی۔ پارک میں ہر سو سوکھے پتے بکھرے ہوئے تھے اور لوگوں کے بے دردی سے روند کر چلنے پر ان کے چہ مرانے کی آوازیں اس کے دل سے ٹکرا رہی تھیں۔ پتوں کو پیروں سے بچا کر سنبھل کر چلتی وہ ایک بینچ پر بیٹھ گئی اس کی آنکھوں میں نمی تھی شاید ماضی کا کوئی در پھر سے کھل گیا تھا۔ درخت پر چڑیا کا گھونسلہ خالی تھا اور اب تو تنکا تنکا بکھر رہا تھا، چڑیا کی وہ مانوس آواز جیسے سنے وہ کچھ عرصہ پہلے تک روز چلی آتی تھی اب کہیں نہ تھی۔ جھلملاتی آنکھوں میں جلن اور بڑھ گئی آنکھوں کی سیاہ باڑ پر ہیرے جگر جگر کرنے لگے۔ آنکھ میں نمی جمع ہو کر موتی بنانے لگی اس نے آنکھیں بند کر کے بینچ سے ٹیک لگائی موتی ٹپ ٹپ پھسل کر گرنے لگے۔ تکلیف اور بڑھ گئی تھی ایک ایک کر کے سارے ستم یاد آرہے تھے۔ جان سے پیارے بابا صحرا میں کھلے واحد پھول کی طرح اس بھری دنیا میں اس کا کل سرمایہ اس کی ماں سب کچھ گنوا کر ملے ہوئے نانا اور سب کھو گیا تھا، کچھ پاس نہ رہا وہ اکیلی اور ادھوری تھی، خزاں میں شاخوں پر مکے کئی پتے اور جینا چاہتے ہیں۔ جیسے کسی موذی بیماری میں مبتلا مریض معجزے کی تمنا کرتے بھر پور زندگی جینا چاہتا ہو زندگی تو کبھی کبھار مہلت دے دیا کرتی ہے لیکن پت جھڑ پتوں کو مہلت نہیں دیا کرتی۔ کسی سنگ دل قاتل کی طرح ایک ہی جھٹکے میں پتے کا رشتہ درخت سے جدا کر دیتی ہے۔ اداس موسم میں زرد پتے منتظر ہیں بہار تیرے نجانے کتنے دنوں سے پیاسے یہ دشت تم کو بلا رہے ہیں کبھی تو لوٹو کبھی تو پلٹو کہ زندگی میں ویرانیاں ہیںبنا تمہارے اس کی ذات بھی تو زرد موسم جیسی تھی بس فرق اتنا تھا کہ پتے چہ مراتے ہیں تو ان کے بین کرنے کی آوازیں سماعتوں سے ٹکراتی ہیں اور جب یادیں ایک ایک کر کے اندر ٹوٹ کر بکھرتی ہیں دل کی دیواروں سے ٹکراتی ہیں تو باہر آواز نہیں آتی لیکن اندر زرد یادیں کراہتی ہیں سسکیاں لیتی ہیں، چیختی چلاتی ہیں گونجتی ہیں، کہرام برپا کر دیتی ہیں۔اور پھر درد میں ڈھل جاتی ہیں اور درد بے رنگ بے وجود ہے آواز ہوتا ہے۔ کوئی اور بھلا کیسے اسے دیکھئے جانے اور محسوس کیے بنا اس کا درد سمجھ سکتا تھا۔_________________________آج میز
پر کئی اقسام کے کھانے بنے ہوئ تھے اس کی وجہ غیاث کا موجود ہونا تھا۔ غیاث اکثر کام کے سلسلے میں مصروف رہتا تھا اور کبھی کبھار ہی اسے سب کے ساتھ کھانے کا موقع ملتا تھا۔ عمر حسن کا امپورٹ ایکسپورٹ کا برنس تھا، جو اُن کی زندگی میں ہی خوب ترقی کر رہا تھا اب ملک کے مختلف حصوں میں ان کی شاخیں تھیں، غیاث کام کے معاملے میں بہت سنجیدہ تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے انہیں دوسرے شہر میں موجود اپنی ایک برانچ سے مسلسل نقصان ہورہا تھا۔ ایک دو بار غیاث وہاں گیا تو تھا لیکن مسئلہ کہاں ہے اس کا اندازہ نہیں لگا پارہا تھا، اسی لیے اب غیاث نے مستقل وہاں جانے کا سوچ لیا تھا ۔ غضنفر اور غیور دونوں ہی اسے نئے شہر میں میں اکیلا نہیں بھیجنا چاہتے تھے شیبا حسن اور مسز غضنفر کیبھی یہی رائے تھے۔ ابا۔ میں سوچ رہا ہوں بھائی کے ساتھ میں بھی اسلام آباد چلا جاؤں۔“ کن انکھیوں سے حسال کی طرفدیکھتے ہوئے غفران نے کہا۔ اور میں سوچ رہا ہوں غفران کے دماغ میں اتنا اچھا آئیڈیا کیسے آگیا؟ غیاث نے کانٹے سے کباب کا ٹکڑا توڑتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا۔ سب کے لبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی سوائے حسال کے جو اپنی پلیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھی۔اس کی ایک بہت اہم وجہ ہے بھیا اور وہ وجہ دادی کے سامنے ہر گز نہیں بتائی جاسکتی میں سوچ رہا ہوں اسلام آباد جا کر پہلے اپنا نام بدل لوں گا پھر آپ کا بدلوا دوں گا اس کے بعد ہم مل کر بابا کو فورس کریں گے کہ وہ بھی ایساہی کریں۔ مطلب ایک ایک کر کے ہم سارے غین” کا قتل عام کر دیں گے پھر نہ رہے کا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ پہلا جملہ بآواز بلند کہنے کے بعد غفران نے باقی ساری بات غیاث کے قریب ہو کر دھیمے لہجے میں کی گویا کوئی بہت ضروری بات کر رہا ہو۔ یہ کیا سرگوشیاں کر رہے ہو؟“ دادی حسب عادت اپنے مخصوص انداز اور الفاظ میں اسے کڑے تیوروں سے گھور رہی تھیں۔و سوری دادی ماں وہ میں اور بھائی جان اپنے مستقبل کا لائحہ عمل بنا رہے ہیں’ اب ہر بات آپ کی اجازت لے کر تو کی نہیں جاسکتی ۔ غفران نے ایک بار پھر آخری جمله زیرلب بڑبڑایا۔ غیاث نے البتہ اس کی بڑبڑاہٹ سن لی تھی کیونکہ وہ اس کے ساتھ والی کرسی پر براجمان تھا۔”خاموشی سے کھانا کھاؤ غفران …. باتیں بعد میں کر لینا غضنفر نے تنبیہ کی تو وہ سر ہلاتا پلیٹ پر جھک گیا کھانے کے بعد چائے کا دور چلا پھر سب بڑے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے لاؤنج میں اب غشمیرہ ، غیات غریدہ غمر اور غفران تھے۔ غفران حسب سابق غین نامہ لے کر بیٹھا تھا حسال خاموشی سے ٹی وی پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔ غیاث بار بار کن انکھیوں سے اس کی محویت نوٹ کر رہا تھا، بظا ہر ٹی وی پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی۔ “حسال آپی غفران نے اسے پکارا تو وہ خیالوں کی دنیا سے نکل کر اس کی جانب متوجہ ہوئی۔ میں ایک بات بہت دنوں سے سوچ رہا ہوں۔ چہرے پر سنجیدگی طاری کر کے وہ انتہائیمعصومیت سے بولا ۔ دیکھیں ہم سب اسی گھر میں پیدا ہوئے ہیں، یعنی پاپا چاچو پھوپو اور آپ کے علاوہ ہم سب غین والے تمہید باندھتے ہوئے آخری تین الفاظ پر اس نے منہ ٹیڑھا کیا۔تم لوگ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو یہاں میں اتنی اہم بات کر رہا ہوں ۔ اس نے غمشیرہ اور غریدہ کو مخاطب کیا جو نجانے کیا باتیں کر رہی تھیں۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر اس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا۔ اب کہہ بھی چکو ورنہ ہم سونے جارہے ہیں۔“ غشمیرہ بے زاری سے بولی۔مارے ارے لڑکی حدادب تمہارا ہونے والا مجازی خدا ہوں، کچھ سیکھو حسال آپی سے غیاث بھائی کا کتنا ادب کرتی ہیں۔” اپنے نام پر حسال کی نظریں غیاث سے ٹکرائیں وہ مسکرا رہا تھا، حسال کا دل بجھنے لگا اور اس نے نظریں جھکالیں۔میں یہ کہہ رہاتھا کہ اگر حسال آپی بھی یہاں اس گھر میں پیدا ہوئی ہوتیں تو سب ذرا سوچ کر بتاؤ دادی ان کا نام کیا رکھتیں گردن ہلاتے ہوئے اس نے اپنی بات مکمل کی۔ حسال نے نفی میں سر ہلایا گویا کہ رہی ہو تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔”میرے خیال سے غزالہ سب سے پہلے وہی بولا ۔ عموریہ غشمیرہ کی آواز تھی، حسال مسکراتے ہوئے سنے لگی سوال واقعی دلچسپ تھا۔ غزبیلہ بھی تو ہو سکتا تھا۔ غریدہ دھیمی آواز میں بولی۔ اب میں کیا بولوں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ غمر منمنائی آواز میں بولا۔سمجھ آنا بھی نہیں ہے بیٹا کیونکہ اسٹاک ختم ہو گیا ہے۔ غفران کی بات پر حسال سمیت سب بے ساختہ ہنسں دیئے۔ حسال کے چمکتے موتیوں جیسے سفید دانت واضح ہو گئے غیاث یک تک اسے دیکھنے لگا وہ بہت کم ایسے کھلکھلا کر ہنستی تھی۔ ہم غفران شرارت سے کھنکھارا تو غیات کی محویت ٹوٹی۔اب میں بتاتا ہوں یہ جو آپ لوگوں نے نام بتائےیہ سب تو غیاث بھائی کے بچوں کے رکھے جائیں گے۔کیونکہ دادی کا فی الحال اوپر جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ غفران کے بچوں کے نام لینے پر حسال سٹپٹائی وہ بنا کچھ سوچے ہمیشہ کی طرح پٹر پٹر بولتا رہا۔ حسال آپی … ذرا سوچنے آپ کا نام اگر دادی جان غ سے غلہ رکھ دیتیں تو غیاث بھائی تو راشن ختم ہونے پر آپ کو ہی کھا جاتے۔“ غیاث کا قہقہ بے ساختہ تھا حسال نے آنکھیں سکیٹر کر ناراضگی سے اسے گھورا۔ کیا ہوا نہیں پسند آیا اچھا سوچیں اگر غیرت رکھدیتیں تو اس نے آنکھیں گول گول گھمائیں۔ یہ کچھ مناسب ہے۔ غشمیرہ سوچتے ہوئے بولی۔ اور اگر کسی کی غیرت آپی کے سات لڑائی ہو جاتی تو وہ غیرت سے پہلے ”بے“ لگا دیا کرتا۔“ غفران حفاظتی اقدامات کے تحت ہمیشہ کی طرح اپنی جگہ سے اٹھ کر دوڑتاہوا دروازے پر پہنچ گیا۔ ایک اور نام بھی ذہن میں آیا ہے بھائی پلیز بتانے دیں پھر میں جارہا ہوں۔ دروازے پر پہنچ کر وہ معصومیتسے بولا۔ تو ذرا غیاث اپنی جگہ سے اٹھا، غفران قہقہہ لگاتا بھاگ گیا حسال سمیت سب کے چہرے مسکرا رہے تھے غشمیر اور غریدہ بھی سونے چل دیں۔ اب لاونج میں صرف حسال اور غیاث تھے اور گہری خاموشی چھائی ہوئی ہیں۔ کسی ہو؟ غیاث نے ہی خاموشی کو توڑا۔ ٹھیک ہوں۔“ وہ ہولے سے بولی لہجہ صدیوں کی تھکاوٹ لیے ہوئے تھا۔ ٹھیک ہو تو ٹھیک لگتی کیوں نہیں؟ کیوں خود کو اذیت دے رہی ہو ۔ “ وہ اس کے اداس چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔آپ جانتے ہیں یہ میرے بس میں نہیں ۔ وہ ایک ہاتھ کی ہتھیلی پھیلائے اس میں جانے کیا کھوج رہی تھی۔ اپنی اور ہماری خوشی کے لیے ایک کوشش تو کر سکتی ہو ناں ۔ غیاث نے موہوم سی آس لیے اس سے پوچھا۔ اور اس کوشش میں ایک بار پھر نقصان ہو گیا تو . حسال نے الٹا سوال جڑا۔نقصان تو دوسری صورت میں ہونا ہی ہے کیا مجھے کسی اور کے پاس دیکھ کر برداشت کر سکو گی؟ تم جانتی ہو مما اب مزید انتظار نہیں کریں گی اور ان کی بات سے انکار کرنا میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔ وہ زخمی لیہجے میں کہہ رہا تھا۔ دوسری صورت میں یہ یقین تو ہوگا کہ آپ سلامت ہیں۔ وہ ہولے سے بولی سیاہ کٹوروں میں وہ ہولے سے نمی جھلملانے لگی۔بہت رات ہو گئی ہے سو جاؤ صبح بات کریں گے۔“ وہ جو آج یہ سوچ کر جلدی گھر آیا تھا کہ آج ہر صورت حسال کو منا لے گا پھر سے لا جواب ہو گیا تھا۔ حسال تو کمرے میں چلی گئی اور وہ صوفے سے پشت لگا کر نجانے خیالوں کی کن بھول بھلیوں میں گم ہو گیا تھا۔_______________________________یہاں تو روز آتی ہو آؤ ذرا اس طرف چلتے ہیں۔“ غیاث حسال کے ساتھ آج پارک آیا تھا وہ حسب عادت اپنے پسندیدہ گوشے کی طرف بڑھ رہی تھی جب غیاث نے اسے دوسری جانب آنے کا کہا اور خود بھی قدم اس طرف بڑھا دیئے۔ خنک موسم میں دھند بادلوں کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ پارک میں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے ایسے موسم میں حسال جیسے سر پھرے ہی باہر آنے کا شوق رکھ سکتے تھے چند فٹ سے زیادہ نظریںدیکھ ہی نہیں پارہی تھیں۔ کتنا عجیب اداس موسم ہے ناں، نگاہیں منور ہونے کے باوجود منظر دیکھنے سے عاری ہیں۔“ حسال جھنجھلائی آواز میں بولی۔ اداس کیسے؟ اتنا خوب صورت تو ہے دیکھو یہ دھند ایسا نہیں لگتا جیسے ہم بادلوں کے درمیان چل رہے ہوں۔ یہ ہلکی ہلکی ہوا ایسا نہیں لگتا جیسے ہم مستانوں کو بادلوں میں اڑا کر لے جانا چاہتی ہے اچھا خاصا رومانٹک موسم ہے۔“غیاث شگفتگی سے بولا۔ مجھے تو اس موسم میں ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے نہ کوئی رنگ نہ کوئی منظر اور تو اور کوئی امدی کا پھول دکھائی نہیں دیتا ہر سو خالی شاخیں، بھرے مردہ وجود یاسیت بھری ہوئی ہے۔ وہ غم زدہ ہو کر کرب آمیز لہجے میں بولی۔ پھر سے شروع… چلو آج تمہیں امید کا پھول دکھاتا ہوں۔ وہ اس کا ہاتھ تھامے تیز قدموں سے چلنے لگا پھر کچھ فاصلے پر جا کر رک گیا۔ یہ دیکھو امید کا پھول ۔ وہ فاتحانہ انداز میں بول کر سینے پر ہاتھ باندھے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ بکھرے پتوں خالی پیٹ اور رنگوں سے عاری موسم میں یہ امید کا پھول دیکھ لو۔“ وہ اس کی حالت سے محظوظ ہو رہا تھا جو بہت حیرت سے شان سے کھڑے املتاس کے درخت کو دیکھ رہی تھی جو نا صرف ہرا بھرا تھا بلکہ پھولوں سے لدا ہوا بھی تھا۔ انگور کے کچھوں سے مشابہ املتاس کے پھول ڈالیوں پر ترتیب سے جڑے ہوئے تھے پہلے پورے کھلے پھر ادھ کھلے پھر خوب صورت سیپسی بند گلیاں۔ پت جھڑ میں یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ بے یقینیسے بولی۔ املتاس کے یہ پھول نا صرف پت جھڑ میں بہار کے آنے کی امید ہیں بلکہ یہ دیکھو ان کلیوں سے ادھ کھلے پھول اور پورے پھول بنے کا سارا جیون ہمارے سامنے ہے جو ہمیں اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ خزاں ہو یا بہار زندگی کا سفر رکنا نہیں چاہیے آگے بڑھنے کی کوشش ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ وہ حسال کا ہاتھ تھام کراسے بہت کچھ سمجھانا چاہ رہا تھا۔ جانتی ہو املتاس آگے بڑھنے کے لیے ہر مشکل کا سامنا کرنا جانتا ہے۔ زمین تیزابی ہو یا رتیلی پھریلی ہویا بھر بھری یہ ہر طرح کے حالات کا سامنا کرنا جانتا ہے اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے تو ہم انسان ہو کر کیوں آگے نہیں بڑھ سکتے ؟” وہ اس کی طرف بنا دیکھے بول رہا تھا تو دوسری طرف برف پگھل رہی تھی۔ “حسال… موسم باہر نہیں ہوتے موسم تو اندر ہوتے ہیں اندر کا موسم خوب صورت ہو تو باہر کا ہر موسم رنگین اور دلکش محسوس ہوتا ہے۔ چاروں طرف تتلیاں اڑتی ، پریاں رقص کرتی اور جگنو چمکتے محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر اندر کا موسم اداس ہو اندر درد بار بار کروٹیں بدلتا ہو ماضی کے سیاہ جھرو کے بار بار ذہن و دل کی سلیٹ پر نظر آتے ہوں بے سکونی چھائی ہو تو پھر ہر موسم بے رنگ محسوس ہوتا ہے۔ سبزہ بھی ویران لگتا ہے ہر رنگ سیاہ لبادہ اوڑھے سامنے نظر آتا ہے۔“ غیاث نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو حسال بھی اس کا ساتھ دیتے ہوئے اس کی بات بغور سن رہی تھی۔ تمہیں یہ ڈر ہے کہ تم مجھے پالو گی تو یہ موسم آج نہیں تو اگلی بار مجھے تم سے چھین لے گا کیونکہ تمہیں لگتا ہے کہ تم جسے چاہتی ہو وہ تم سے دور ہو جاتا ہے تم سے چھین لیا جاتا ہے اور جانتی ہو میں کیا سوچتا ہوں؟ غیاث نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا اس نے ہولے سے نفی میں گردن ہلائی۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر تم نہ ملی تو میری زندگی بھی ایسی ہی بے رنگ اور خالی ہو جائے گی جیسا تم محسوس کرتی ہو۔” حسال کے بڑھتے قدم یک دم رکئے اسے جھٹکا لگا۔ سچ کہہ رہا ہوں حسال تمہارے سوا کوئی دوسری ذات کبھی میری زندگی میں رنگ نہیں بھر سکتی تم ہی میری املتاس ہو کیا تم چاہتی ہو کہ میری زندگی میں کبھی بہار نہ آئے ہمیشہ زرد موسم کا سایہ رہے۔ “ حسال کی گہری آنکھیں جھلملا رہی تھیں، شفاف موتی پھسل رہے تھے۔ اس کی گردن ہولے سے نفی میں ہلی اور غیاث کو لگا جیسے اس کا وجود روشنی سے بھر گیا ہو دونوں ہاتھ ہوا میں لہرا کر وہ خوشی سے اچھلا حسال اس خوشی پر مسکرانے لگئی آس پاس ہر طرف محبت بکھرنے لگی تھی۔ ہر سمت ہوا میں پانی میں راستے میںزرد پتے تیرتے ہیںبخت کی تیرگی کا غبار بڑھ رہا ہے پھر بھی۔۔۔۔پھر بھی موسم کا بدلنا اتنا کٹھن نہیں ہے زرد پتوں سے اٹے راستوں میں پھولوں کا مسکرانا فضا میں خوشبوؤں کا پھیل جانا بہتے پانی کا صاف ہونااتنا کٹھن نہیں ہے زرد پتوں پر سفر کر کے بہار پانا غبار آلودگی تیرگی سے تمہیں ڈھونڈ لانا اتنا کٹھن نہیں ہےحسن ہاؤس میں خوشیاں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں، آج حسال اور غیاث کی مہندی تھی۔ پیلے اور سبز رنگ میں حسال پر آج جیسے چاند کی چاندنی اتر آئی تھی، سیاہ لمبے بال آج چوٹی میں مقید ہو کر کمر پر جھول رہے تھے۔ موتیوں کی لڑی سے چوٹی اور بھی خوب صورت لگ رہی تھی۔ گیندے اور موتیوں کا زیور حسال کی دودھیا رنگت پر داغریب منظر پیش کر رہے تھے۔ شیبا حسن (نانو ) بار بار حسال کی بلائیں لیتی نہ تھک رہی تھیں، آج تو ان کی شان بھی دیکھنے والی تھی اور کیوں نہ ہوتی ان کے پوتے اور نواسی دونوں کی شادی ہونے جارہی تھی اور تو اور انہوں نے آج اپنی لاٹھی تک موچے اور گیندے کی لڑیوں سے سجا رکھی تھی ۔ ” غشمیرہ اور غریدہ حسال کو تیار کر کے خود تیار ہونے چلی گئی تھیں، بیگم غضنفر اور بیگم غیور مہندی کی رسم کے لیےلوازمات کا اہتمام کر رہی تھیں۔لڑکیاں بالیاں ڈھولک کی تھاپ پر گانے گا رہی تھیں، حسال دل سے سارے وہم ڈر دور کرکے اس ماحول سے محظوظ ہورہی تھی۔ اس کےچہرے پر ایک عرصے بعد سچی مسکراہٹ سجھی تھی۔کچھ دیر میں سب ہی تیار ہو کر نیچے آگئے تھے، غفران حسب عادت دادی کے پسندیدہ ناموں کو نشانہ بنائےپھلجڑیاں چھوڑ رہا تھا آج بھی مردوں نے سفید لباس اور گلے میں زرد دوپٹہ ڈال رکھا تھا جو اُن سب پر خوب سج رہے تھے۔ رسم کے لیے غیاث کا انتظار تھا سب باری باری مسلسل غیاث کو فون کر رہے تھے لیکن غیاث فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ دس بجے بارہ بجے تشویش نے سب کو آن گھیر غضنفر ماموں نے آفس جا کر بھی دیکھ لیا لیکن کہیں کوئی اتا پتہ نہ تھا۔ حسال تک بات پہنچی تو اس کے سارے وہم سارے ڈر واپس لوٹ آئے کسی انہونی کے خیال نے اسے ایک بار پھر گھیر لیا طویل رات گزرگئی تھی۔ صبح کے وقت غیاث تو نہیں آیا تھا لیکن ہسپتال سے فون آیا تھا فون حسال نے اٹھایا تھا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ غیاث کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے گاڑی بری طرح تباہ ہوگئی ہے۔ ڈرائیور کی حالت بہت نازک ہے. کہنے والا اور بھی کچھ کہہ رہا تھا، حسال کے ہاتھ سے ریسیور چھوٹ گیا وہ لہرا کر گر پڑی تھی۔ ” کیا ہوا … کیا ہوا؟ سب ہی دوڑ کر اس کے گرد جمع ہو گئے۔غیات کا ایکسیڈنٹ سٹی ہسپتال سب اپنیجگہ ساکت ہو گئے۔ میں منحوس ہوں … یہ موسم منحوس ہے. کہا تھا اسے بار بار کہا تھا۔ اس نے میری ایک نہ سنی۔ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہورہی تھی۔ غضنفر اور غیور ماموں فوراً ہسپتال کے لیے نکل گئے، کسی کو کچھ سمجھ نہ آرہا تھا کہ کون کیسے تسلی دے۔ سب ایک ہی سج پر سوچ رہے تھے سب کو ہی حسال کی سوچ اس کے وہم اس کے ڈر ٹھیک محسوس ہونے لگے۔ خزاں بہار کو پُر خزاں کرنے لگی زنگین روشنیاں بجھ رہی تھی سیاہ پر دے ہر طرف لہرانے لگے۔میرے احساس کی بستی میںکب سے زرد موسم کا بسیرا ہےدرخت جاں نےجانے کب سے پت جھڑ کےوہ پھیکے رنگ سارے اوڑھ رکھے ہیںکہ دشت آرزو میں ابخیال یار کی رعنائیاں لے کر کوئی کو نپل نہیں کھلتی یہ ماہ و سال کی شاخیں ہوئی بنجر ہیں کچھ ایسے کہ ان کی کوکھ سے امید کے پتے بڑی مشکل سے آگ پائیں جو اگ آئیں۔ تو جلتی زیست کا تپتا ہوا سورج انہیں اس شاخ پر ٹکنے نہیں دیتا ہرا رہنے نہیں دیتا یہ سوکھے زرد پتے اب میرے ان سوختہ خوابوں کا مرقد ہیں جنہیں مایوسیوں کی آنچ نے تعبیر سے پہلے… جلا کر راکھ کرڈالا میرے مولامیرے احساس کے ویراں صحن میں کیوںبہاریں لوٹ آنا بھول بیٹھی ہیں؟ _________________________تقریباً دو گھنٹے بعد بڑے ماموں گھر کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوئے ان کے ساتھ غیور ماموں تھے اور ان دونوں کے پیچھے تھکا ہارا نڈھال لیکن صحیح سلامت غیاث کھڑا تھا۔ حسال بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی چند پل تو دیکھتی رہی پھر دوڑ کر اس تک پہنچی ہاتھ بڑھا کر ڈرتے ڈرتے اس کا ہاتھ چھوا کہ کہیں خواب نہ دیکھ رہی ہو۔ تڑپ کر بنا سب کے جمع ہونے کا لحاظ کیے اس کے سینے سے لگ گئی ۔ غیاث اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا ۔ بے وقوف لڑکی بات پوری تو سن لینی تھی ۔ وہ پیار سے اسے ڈانٹ رہا تھا، اسی لمحے حسال کو اپنی پوزیشن کا احساس ہواوہ حجل ہو کر پیچھے ہوئی۔ غیاث کا دوست اس کی گاڑی کچھ دیر کے لیے لے کر گیا تھا، اس کے ساتھ راہ میں حادثہ پیش آ گیا۔ اطلاع ملنے پر غیاث جلدی میں آفس میں ہی موبائل بھول گیا اور اسپتال چلا گیا۔ رات بھر اسپتال کے معاملات اور پریشانی میں الجھا رہا، صبح خیال آیا تو وہیں سے ڈرائیور کو گھر اطلاع دینے کو کہا لیکن ہماری حسال نے گھبراہٹ میں پوری بات ہی نہ سنی ۔ غضنفر ماموں تفصیل سے آگاہ کر رہے تھے۔ سیاہ چادر چھٹنے لگی رنگ ایک ایک کر کے روشن ہونے لگے۔میں نے کہا تھا ناں موسم دل کے اندر ہوتا ہے یقین نہیں آتا تو اپنے اندر جھانک کر دیکھ لو“ غیاث ہوئے سے حسال کے کان میں گنگنایا۔ میں بھی تمہارے لیے املتاس ہوں ناں؟ وہ یقین پر مہر چاہتا تھا، غفران کی تیز نظروں سے یہ منظر بھلا کیسے بیچ سکتا تھا۔ شرماہٹ سے حسال کے گال تپنے لگے اور اس نے ہولے سے اثبات میں گردن ہلا دی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اب اپنے خاندان سے غین والے نام ختم کر کے کاف کا اجرا کر دیا جائے تو پھر بھابی آپ کیا کہتی ہیں کاف سے بات کہتے ہوئے وہ دروازے تک پہنچا، ایک لمحے بعد سب کی سمجھ میں بات آگئی تھی سب نے دروازے کی جانب گھور کر دیکھا اور پھر ایک اجتماعی قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔امید کے پھول کھلنے لگے تھے سارے ڈرو ہم اپنی جگہ چھوڑ رہے تھے اپ ہر طرف خوشیاں، تتلیاں اور پریاں رقص کرنے لگیں۔ موسم سب خوب صورت ہوتے ہیں یہ بات حسال کو دیر سے ہی پر سمجھ آگئی تھی