سلسلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے، کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمتِ شب سے، تو کہیں بہتر تھا اپنے حِصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آساں تھا ترے ہجر میں مرنا جاناں پھر بھی اک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے جشنِ مقتل ہی نہ برپا ہوا، ورنہ ہم بھی پابجولاں ہی سہی، ناچتے گاتے جاتے اِس کی وہ جانے اُسے پاسِ وفا تھا کہ نہ تھا تم فراز! اپنی طرف سے تو، نبھاتے جاتے (احمد فراز) ہر بات کا جواب رکھنے والی وہ لڑکی آج چپ تھی۔اس کے الفاظ تو جیسے ختم ہی ہوگئے تھے۔وقت بدل گیا تھا،اس کی فیلنگز بدل گئی تھیں لیکن سامنے کھڑا شخص سرتاپا وہی تھا جو چھ ماہ پہلے تھا۔وہ اس پر طنز کرتی تھی۔اس کے چپ رہنے پر گونگے ہونے کا طعنہ دیتی تھی،لیکن آج جب اپنے الفاظ سے وہ صور پھونک کر جاچکا تھا،تو اس کے الفاظ اس کو شل کر گئے تھے۔ اس نے کیسے کہہ دیاتھا کہ ان چھ ماہ میں اس کے جذبات اسے لے کر نہیں بدلے۔کیا ایک پل کے لیے بھی اس کے دل میں کوئی جذبہ نہیں ابھرا۔تو پھر وہ کیوں محبت کر بیٹھی تھی اس سے؟ ہاتھ میں پکڑا لفافہ جیسے ہی زمین بوس ہوا تھا وہ بھی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ اسی کمرے میں وہ اسے زلیل کرتی تھی،اور آج یہیں وہ اس کی محبت کو سنے بنا اسے دھتکار کر چلا گیا تھا۔انازادی تھی وہ انا مار کر آج جھکنے چلی تھی مگر وہ تو اسے زمین پر پٹھک گیا تھا۔ روح تک چھائے ہوئے شخص تجھے لگتا ہے تجھ سے دستبردار ہوئے تو جی پائیں گے؟
“بھابھی!اجیہ کو پالر بھیجا یانہیں ؟ بارات کا وقت چار بجے کا ہے۔” ہاتھ میں میوے کی تھال لیے راشدہ بیگم ( پھوپھو)رفعت بیگم کے پاس آئی تھیں جو جہیز کاسامان پوراکروا رہی تھیں،باہر سامان لوڈ ہورہا تھا،سب لڑکے سامان رکھوا رہے تھے،اور گھر کی تین لڑکیاں کمرے میں بند تھیں۔ “میں نے رضوان سے کہا تھا بچیوں کو پارلر لے جائے،اسے دیکھو ذرا کہاں ہے،اور ہاں ارمینہ کو بھی اٹھا دینا،اس لڑکی کو شادی سے کوئی غرض نہیں ،سوئی پڑی ہے کمرے میں۔” آخر میں وہ ناگواری سے بولیں تو راشدہ بیگم مسکرا دیں۔ “بچی ہے فکر نہ کریں وقت رہتے ٹھیک ہوجائے گی۔” وہ کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گئی تھیں رضوان کودیکھنے ۔جبکہ ان کی بات پر رفعت بیگم سر جھٹک کر رہ گئی تھیں۔ “اپیا! عبایا رہنے دیں ، چادر ڈال لیں۔رضوان بھائی نے رینٹ پر کار منگوائی ہے،اس میں جائیں گے۔” پندرہ سالہ رامین نے اجیہ کا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا۔ “نہیں رامین! کار مجھے ویسےنہیں ڈھانپ سکتی جیسے میرا عبایا مجھے محفوظ رکھے گا۔” اجیہ نے عبایا پہنتے ہوئےکہا۔رامین کندھے اچکاتی باقی سامان اٹھانے لگی۔ “ارمینہ نہیں جائے گی ہمارے ساتھ۔” نقاب لگا کر اجیہ نے پوچھا تو رامین کے چہرے کے زاویے بگڑے۔ “وہ کہہ رہی تھیں ،وہ کسی چھوٹے موٹے پارلرسے تیار نہیں ہوں گی۔” ارمینہ کی نقل اتارتی وہ بولی تو اجیہ نے اس کے سرپر ہلکی سی چپت لگائی۔ “بڑی بہن ہے تمہاری،نقل نہیں اتارتے۔” اجیہ نے اسے سمجھایا۔ “بہن نہیں کزن ! کسی کو بہن بنانے کو تیار نہیں ہیں میڈم!” رضوان کی آواز پر دونوں نے دروازے کی سمت دیکھا جہاں وہ انہیں ہی لینے آیا تھا۔ “بھائی! آپ بھی اس کے ساتھ مل جائیں اب۔” اجیہ نے شکوہ کیا تو وہ مسکرا کر آگے بڑھا۔ “اچھا ! اب منھ نہ پھلاؤ!دلہن بن کر چڑیل لگو گی۔” رضوان نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔ “میں آگے بیٹھوں گی۔” رامین شور مچاتی باہر بھاگی تھی۔اجیہ اور رضوان نے نفی میں سر ہلایا تھا۔
“ارمینہ بیٹا؟” دروازہ کھولتے ہوئے راشدہ بیگم نے اسے پکارا تو بیڈ پر اوندھے منھ لیٹی ارمینہ کے چہرے پر بے زاری آئی۔ “مجھے سونے دیں پھوپھو!” اس نے نیند سے بوجھل آوازمیں کہا۔ “بیٹا! بارہ بج رہے ہیں ،گھر میں شادی ہے ،تم سو رہی ہو۔” راشدہ بیگم نے محبت سے اس پر چادر ہٹاتے ہوئے کہا ۔ “میری شادی تو نہیں ہےناں پھوپھو! جس کی ہے اسے دیکھیں۔ویسے بھی صبح پانچ بجے تو سوئی تھی میں۔” چادر واپس کھینچتی وہ بولی تو راشدہ بیگم نے تاسف سے سر ہلایا۔ “بھائی نے یہ منگوایا ہے،کہہ رہے تھے ان کی شہزادی آج یہ پہنے گی۔” کندن کا نفیس سا سیٹ اس کےسامنے کرتی وہ بولی تو اپنے ابو کے ذکر پر اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا سیٹ کو دیکھ کر اس نے ہنسی دبائی تھی۔ “پھوپھو! پرانا زمانہ گیا اب،اتنی ہیوی جیولری کون پہنتا ہے؟” اس کے لہجے کا تمسخر راشدہ بیگم کو واضح محسوس ہوا تھا۔ “اچھا تم اپنی مرضی کا پہن لو۔لیکن اٹھ جاؤ۔رضوان اجیہ کو لے کر پارلر جارہا ہے تم بھی چلی جاؤ۔” انہوں نے نارمل لہجے میں کہا۔ “بس کر دیں پھوپھو! میں آپ کے بیٹے کے ساتھ نہیں جا رہی اس سستے سے پارلر میں۔میں خود تیار ہو جاؤں گی۔” ارمینہ نخوت سے کہتی بیڈ سے اترکر واش روم میں بند ہو گئی تھی۔راشدہ بیگم کو برا تو لگا تھا مگر وہ نظر انداز کرتی کمرے سے نکل گئی تھیں۔
موٹروے پر اکا دکا نظر آتی گاڑیاں ،ٹرک۔اس جگہ کی خاموشی بالکل ویسی ہی تھی جیسی کار ڈرائیو کرتے شخص کی۔ایک ہاتھ سے اسٹرینگ گھماتا وہ دوسرے ہاتھ کو تھوڑی کےنیچے جمائے وہ گہری سوچ میں گم تھا۔اس کی زندگی نے جو موڑ لیاتھا وہ اسے قبول نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس نے پیسنجر سیٹ پر آنکھیں موندے بیٹھی اپنی ماں کو دیکھاجن کےسونے ہاتھ اسے پھر سے گہرےدکھ میں دھکیل گئے تھے۔چند دن پہلے ہی تو اپنے ماں باپ کو ان کی خوشی دینا چاہتاتھا مگر انسان جو سوچتا ہے ہمیشہ وہی ہو ایسا کیسے ممکن ہوسکتا تھا بھلا۔عباد نظیر کی اچانک موت ان ماں بیٹےکے خواب توڑ گئی تھی۔آنکھ میں آئی نمی کواس نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔وہ لڑکا تھا اسے مضبوط رہنا تھا۔ “ریحان!” شمیم بیگم کی آواز پر اس نے فورا چہرے پر مسکراہٹ سجائی تھی۔ “تو انکار تو نہیں کرے گا ناں؟” کچھ دیر ہی ان کی آنکھ لگی تھی اور اٹھ کر وہ پھر سے وہی سوال کر یں رہی تھیں۔اس نے نفی میں سرہلایا۔وہ پوچھنا چاہتا تھا کہ اگر اس نے انکار کر دیا تو مگر جیسے اپنے الفاظ ہی اسے ماں کو دکھ دینے کی وجہ لگے تو وہ خاموش ہی رہا۔ “عباد کی بہت خواہش مینا کو بیٹی بنانے کی۔وہ جب بھی لاہور سے ہو کر آتے تھے،بس مینا کی ہی گردان رکھتے تھے۔” وہ پھر سے مسکراتے ہوئے عباد صاحب کے ساتھ ساتھ ارمینہ کا ذکر کر رہی تھیں۔کار لاہور کی حدود میں داخل ہوئی توریحان نے بیک مرر میں اپنا چہرہ دیکھا پھر تلخ سا مسکرا دیا۔
سنہری اور کاسنی رنگ کے امتزاج کا لہنگا کرتی پہنےوہ آئینے کے سامنے بیٹھی اپنے میک اپ کو آخری ٹچ دے رہی تھی۔بالوں کو کر ل کر کر اس نے سمپل ہیئر اسٹائیل بنا لیا تھا۔جاوید صاحب کے لائے گولڈ کے جھمکے نکال کر اس نے کانوں میں پہنے۔سیدھے کھڑے ہو کر اس نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ “لکنگ بیوٹفل مینا!” خود کو ستائشی انداز میں دیکھتی وہ بولی تھی۔پیچھے مڑ کر ڈوپٹے کو دیکھا تو اسے سکون آیا۔ لمبے چوڑے ڈوپٹے اسے کبھی پسند نہیں آتے تھے۔اس لئے اس نے الگ سے ڈوپٹہ تیار کروایا تھا۔ڈوپٹے کی دونوں پٹیاں ملا کر انہیں گلے میں ڈالتی وہ ایک بار پھر خود کا جائزہ لے رہی تھی۔ “میری سینڈلز کہاں ہیں؟” اپنے پاؤں ننگے محسوس کرتی وہ خود سےبولی تھی۔ بیڈ کے نیچے اسے باکس نظر آیا تو وہ نزاکت سے چلتی بیڈ تک آئی۔ سینڈلز پہن کر اس نے گھوم کر خود کر آئینے میں دیکھا تھا۔ پھر اپنا کلچ اور موبائل اٹھا کر وہ کمرے سے نکل گئی۔کمرے کی حالت وہ بہت بگاڑ کر گئی تھی۔ “اب کس کے ساتھ جاؤ گی؟سب چلے گئے ہیں۔” افراہیم کی آواز پر وہ جو تیز تیز آگے بڑھ رہی تھی رکی تھی۔ “ویسے اگر چاہو تو میں بھی لے جاسکتا ہوں تمہیں۔” اس نے فراخدلی سے کہا تو ارمینہ کے چہرےپر طنزیہ مسکراہٹ آئی۔ “ارمینہ کسی کی محتاج نہیں ہے۔اس لئے اپنی خدمات اپنے تک ہی رکھو۔” تمسخرانہ انداز میں کہتی وہ دروازے کی جانب بڑھ گئی تھی ۔وہ جاوید صاحب کو بلوا چکی تھی،لاڈلی بیٹی تھی جس کی ہر بات ماننا وہ اپنا فرض سمجھتےتھے۔ “ڈیئر کزن! کب تک نخرے کروگی،آخرکو تم بھی تو ایک لڑکی ہی ہو۔” اپنی کار کی چابی انگلی میں گھماتا وہ تصور میں ہی ارمینہ سے مخاطب تھا۔
“میں کسی فضول رسم کا حصہ نہیں بننے والی۔” نکاح ہو چکا تھا،دودھ پلائی کی رسم کے لئے رامین ارمینہ کو بلانے آئی تھی جو ایک جانب بے زار سی بیٹھی تھی۔ “ٹھیک ہے مت بنیں ،میں اکیلے رکھ لو ں گی پیسے۔” اسے چڑانے کی کوشش کرتی وہ واپس چلی گئی تھی۔ “ارمینہ اپنے ہاتھ کسی کے سامنے کبھی نہ پھیلائے۔” سرجھٹک کر بولتی وہ اپنے موبائل میں مگن ہو گئی تھی۔ بچپن میں وہ گھر بھر کی لاڈلی تھی۔نخرے کرتی تھی تو سب خوش ہوتے تھے۔عمر بڑھنے کے ساتھ اسے اندازہ ہوگیاتھا کہ وہ اپنی خوبصورتی میں باقی کزنوں سے آگے تھی۔جاوید صاحب نے لاڈ سے شہزادی کہنا شروع کیاتو اسکا غرور بڑھ گیا۔وہ جو بچپن میں گھل مل کر رہتی تھی،آہستہ آہستہ سب سے دور ہونے لگی،وہ کسی چیز کی فرمائش کرتی اور اسے نہ ملتی تو اسے توڑ دیتی تھی۔ایک دن اپنے ماموں کی کار میں آگے بیٹھنے کی فرمائش کی،افراہیم نے منع کیا تو دوبارہ کبھی ان کی کار میں نہیں بیٹھی۔کوئی کتنی ہی معافی مانگے وہ معاف نہیں کرتی تھی۔اس لئے سب ہی اس سے دور رہتے تھے۔وہ صرف جاوید صاحب کے قریب تھی،جن کی ہر بات مان بھی جاتی اور منوا بھی لیتی تھی۔ “یہ اتنی پیاری لڑکی یہاں کیوں بیٹھی ہے؟” واسع کا بھائی وہاں آیاتھا۔ “آپ کو نہیں لگتا آپ کو وہاں ہونا چاہیئے۔” ارمینہ نے اسٹیج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں دودھ پلائی کی رسم ہو رہی تھی۔ ” بالکل نہیں ! وہاں میرا کیا کام ،جب اتنی خوبصورت لڑکی یہاں بیٹھی ہے۔” اپنے تئیں اس کی تعریف کر کر وہ جو ری ایکشن چاہ رہا تھا،ارمینہ کے چہرے پر غصہ دیکھ کر فورا سنجیدہ ہوا۔ “مذاق کر رہا تھا،آپ بھی چلیں وہاں۔” اس نے فورا بات سنبھالی تھی۔ “میں کسی کےساتھ مذاق کا رشتہ نہیں رکھتی تو آئندہ دھیان رکھیئے گا۔” وہ اٹھ کر برائیڈل روم کی جانب بڑھ گئی،اسے تنہائی چاہیئے تھی جو وہیں مل سکتی تھی۔
“واسع بھائی! ہم اتنی پیاری اپیاآپ کو دے رہے ہیں اور آپ بیس ہزار نہیں دے سکتے؟” رامین نے دودھ کا گلاس ہاتھ میں پکڑتے ہوئے کہا۔واسع نے ایک نظر اپنےساتھ گونگھٹ ڈالے بیٹھی اجیہ کو دیکھا پھر رامین کو ۔ “مجھے کیا معلوم آپ کی اپیا پیاری ہیں یانہیں ؟ کیا معلوم ہم سے جھوٹ بولا جارہا ہو؟” واسع کے صاف الفاظ میں کہنے پر اجیہ آنکھوں میں آنسو آئے،جبکہ رامین نے منھ بسورا۔ “گھر جا کر دیکھ لیجئے گا ناں ،ابھی تو میری دودھ پلائی مجھے دیں۔” رامین نے دودھ کا گلاس آگے بڑھا یا تو واسع نے اسے روکا۔ “پہلے مجھے کنفرم کرنے دو تمہاری آپی پیاری ہیں یا نہیں ،یہ نہ ہو میں زیادہ رقم دے کر اپنا نقصان کر بیٹھوں۔” واسع کا انداز اجیہ کو صاف مذاق اڑاتا ہوا محسوس ہوا۔اس نے جیسے ہی ہاتھ بڑھا کراجیہ کا گھونگھٹ ہٹانا چاہا اجیہ نے اسے روک دیا۔ “پلیز!” اس کے لہجے میں التجا تھی۔واسع نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لئے۔اور پاکٹ سے بیس ہزار نکال کر رامین کی ہتھیلی پر رکھ دیئے۔رسم کے شور شرابے میں کوئی بھی واسع کا سرد انداز محسوس نہیں کر پایا تھا۔کچھ دیر تک رخصتی کا شور اٹھا تورامین کو برائیڈل روم میں لے جایا گیا۔جہاں اس کی ضد پر اسے عبایا پہنا دیا گیا تھا۔واسع نے ایک تیز نظر اپنے ساتھ چلتی اجیہ پر ڈالی تھی پھر اپنی ماں کو دیکھاجنہوں نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔وہ سپاٹ چہرہ لئے سب سے مل کر کار میں بیٹھ گیا تھا۔ اجیہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی احتیاط نے کسی کی انا پر ضرب لگائی تھی جس پر آج پھر وار ہوا تھا۔صحیح اور غلط کی پہچان ان کی رشتے کی آزمائش بننے والی تھی۔
“امی!!” ریحان کی آواز پر انہوں نے آنکھیں کھولیں۔سامنے ہی وہ گھر تھا جس میں وہ عباد کے ساتھ رخصت ہو کر آئیں تھی اور آج وہ عباد کو بہت دور چھوڑ آئیں تھی۔انہوں نے اپنے آنسو صاف کئے اور ریحان کے دروازہ کھولنے پر باہر آئیں۔چہرہ کو ڈھانپ لیا تھا۔ریحان نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔لکڑی کا پرانےطرز کا بڑا دروازہ تھا۔گھر کی سجاوٹ دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کسی کی شادی ہے گھر میں جبکہ شمیم بیگم کو ڈر لاحق ہو گیا تھا،اپنے شوہر کی خواہش پوری نہ کر سکنے کا۔ “کون؟” دروازہ رفعت بیگم نے کھولا تھا۔جو جلدی گھر واپس آگئیں تھی۔ “بھابھی!” ریحان کے بولنے سے پہلے ہی شمیم بیگم آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ گئی تھیں۔ایک پل لگا تھا انہیں پہچاننے میں ۔ پیچھے کھڑی ارمینہ نے دروازے میں کھڑے سانولے نقوش کے حامل لڑکے کو دیکھا جو چہرے پر سنجیدگی سجائے کھڑا تھا۔اس نے تھوڑا سا پیچھے جھانکا تو،ایک کار نظر آئی۔کار کو دیکھ کر اس کی نظریں میں ستائش ابھری تھی مگر آگے کھڑے ریحان کو دیکھ کر منہ بگاڑ لیا تھا۔تبھی وہ سب لوگ اسے اسی جانب آتے دیکھائی دیئے۔ “ارمینہ! جاکر ابو کو فون کرو ،کہو بھابھی اور ریحان آئے ہیں ،جلد جلد کام نبٹا کر گھر پہنچیں۔” ارمینہ کو کہتی وہ شمیم بیگم کو اشارہ کرنے لگی ساتھ چلنے کا ۔ریحا ن نے ارمینہ کے نام پر سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا تھا،بلاشبہ وہ خوبصورت تھی ،مگر اس کی خوبصورتی کے پیچھے چھپی اس کی ناگواری وہ ایک نظر میں ہی دیکھ چکا تھا۔ارمینہ نے اسے خود کو دیکھتے پا کر سخت گیر تاثرات چہرے پر سجا لیے تھے،وہ واپس مڑ گیا تھا۔جبکہ ارمینہ جاوید صاحب کا نمبر ملاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔
وہ اکیلا چھت پر موجود تھا۔نیچے اس کے سب اپنے موجود تھے،لیکن وہ چاہ کربھی ان سے گھل مل نہیں سکتا تھا۔اس کی نیچر ان سب سے الگ تھی۔وہ جلدی فرینک نہیں ہوتا تھا،وہ باتونی بھی نہیں تھا۔اپنی زندگی کے ستائیس سال اس نے اس کے گھر کے کسی فرد کو نہیں دیکھا تھا۔اپنے والد کے منھ سے ان کا ذکر ضرور سنتا تھا۔عباد صاحب کی اچانک وفات اس کےلیے گہراجھٹکا ثابت ہوئی تھی۔وہ تواپنے ماں باپ کو اللہ کا گھر دیکھانا چاہتا تھا،لیکن قسمت نے انہیں یہ موقع نہیں دیا۔اس کے تایااور چچا نے اسے گلےلگا کر اس کا دکھ بانٹا تھا۔اس کی ماں عدت میں تھی،جن کی ضد پر وہ اسے اس گھر میں لایا تھا،وہ اپنے شوہر کے گھر میں عدت گزارنا چاہتی تھی،لیکن اصل وجہ تو عباد کی خواہش تھی جو انہیں یہاں لے آئی تھی۔ “ریحان بھائی!” شمشیر کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔ “آجائیں آپ کا بستر ہمارے کمرے میں لگا دیا ہے۔” بیس سالہ شمشیر جو قد کاٹ میں تو اس سے کم تھا لیکن چہرے کی سفید رنگت اسے جازب نظر بناتی تھی۔اس کے بتانے کے انداز سے ریحان کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کمرہ شیئر کر کر بالکل خوش نہیں تھا۔آج تو اس کی مجبوری تھی لیکن کل کے بارے میں وہ سوچ چکا تھا۔وہ شمشیر کے ساتھ نیچے آیا تو اس کا سامنا ایک بار پھر ارمینہ سے ہوا تھا جو ہاتھ میں چائے کا کپ پکڑے کھڑی تھی۔ارمینہ کے چہرے پر بے زارگی تھی جبکہ ریحان کا چہرہ ہر تاثر سے پاک۔وہ منہ بگاڑتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔ “چاچو کے کمرے پر اس چڑیل کا قبضہ ہے۔” شمشیر نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا تھا اور آگے بڑھ گیا تھا۔اس نے ارمینہ کے عقب میں دیکھا تھا،اس کے باپ کا کمرہ اس گھر میں موجود تھا لیکن اس کی ماں اپنی عدت وہاں نہیں گزار سکتی تھی۔اس کے دل میں کچھ چھبا تھا شاید اس کی ماں کی توقعات زیادہ تھیں یا پھر وہ ہی غلط تھا۔
کچھ دیر پہلے ہی مبینہ بیگم ساری رسموں کے بعد اسے کمرے میں چھوڑ کر گئیں،ساری ہدایات اسے دینے کے بعد وہ اس کے ماتھے پر پیار کر کر چلی گئی تھیں۔اجیہ نے ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھا تھا۔سرخ جوڑے میں وہ زیورات سے سجی خود کو بھی پیاری لگی تھی ۔اس نے خود ہی شرما کر سر جھکا لیا تھا۔چہرے پر گھونگٹ ڈال کر وہ واسع کا انتظار کرنے لگی۔شادی کے ہنگاموں میں وہ ٹھیک سے سو نہیں پائی تھی۔اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ایک گھنٹہ ہو گیا تھا لیکن واسع ابھی تک نہیں آیا تھا۔اس نے بیڈ کرواؤن سے ٹیک لگا لی تھی۔ نیند جیسی ہی حاوی ہوئی وہ آنکھیں موند گئی۔ خود پر کچھ پھینکے جانےپر اس کی آنکھ کھلی تھی۔ وہ ہڑبڑا کر سیدھی ہوئی تھی۔ اس نے ایک نظر سامنے غصے میں کھڑے واسع کو دیکھا اور پھر اپنی گود میں پڑے عبایا کو۔ “پہنو اسے۔ “ وہ یک دم غصے سے بولا تو اجیہ اپنی جگہ پر اچھلی تھی۔ “واسع! آپ۔۔۔۔۔۔” “جو کہا ہے کرو۔ ۔۔” اسے بولنے کا موقع دیے بنا وہ پھر سے بولا تو اجیہ اس کا غصہ دیکھ کر ڈر گئی۔ “آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ “ اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا تو وہ اس کے پاس آیا۔ “کیونکہ میرا کردار بہت ہی برا ہے ،میری نظریں پاک نہیں ہے۔ “ دانت چبا کر بولتا وہ اجیہ کو سن کر گیا تھا۔ “واسع! “ اس نے دکھ سے پکارا تو واسع ہنسا۔ “تم نے کہا شادی سے پہلے بات نہیں، ملاقات نہیں، شاپنگ تک پر تم نہیں مانی، تمہاری ان چند باتوں نے متاثر کیا تھا مجھے یہی وجہ تھی جو بنا تمہیں دیکھے اس شادی کے لیے ہاں کی۔(وہ ہلکا سا مسکرایا تھا، اجیہ کے آنسو لگاتار بہہ رہے تھے) لیکن آج نکاح کے بعد بھی وہی گریز؟ “ “واسع !میں پردہ۔۔۔۔۔” “شٹ اپ! تمہارا یہ سوکالڈ پردہ صرف مجھ سے تھا، میرا بھائی، تمہارے کزن کیا وہ سب محرم تھے تمہارے؟” واسع کے چلانے پر اس نے روتے روتے نفی میں سر ہلایا۔ “اس گھر میں قدم رکھتے ہی تمہارا وہ پردہ اتر گیا، باہر جتنی رسم ہوئی آس پاس میرے سب کزن موجود تھے لیکن تمہیں صرف میرے سامنے آنے پر اعتراض تھا۔یہ کونسا پردہ تھا جس کی ہر شرط مجھ پر لاگو ہوتی تھی۔ میری نکاح میں موجود لڑکی کو صرف میرے چہرے دیکھنے پر اعتراض تھا لیکن باقی سب کے سامنے۔۔۔۔۔” وہ آگے بول نہیں پایا تھاشاید بولنا نہیں چاہتا تھا، کمرے سے منسلک دروازہ کھولتا سیڑھیاں اتر گیا تھا۔ اس کے کمرے کے پچھلی جانب بیک ڈور تھا،وہ چلا گیا تھا اجیہ رو رہی تھی۔ واسع کی باتوں نے اسے شرمندہ کر دیا تھا، اپنے عبایا کو دیکھ کر اسے نفرت ہوئی تھی خود سے۔
واسع واپس نہیں آیا تھا وہ روتے روتے فرش پر ہی سو گئی تھی۔ آنکھ کھلنے پر اس نے خالی کمرہ دیکھا، رات کا منظر ،واسع کے الفاظ یاد آتے ہی اس نے شرمندگی سے چہرہ چھپا لیا تھا۔ آنسو صاف کرتی وہ فریش ہونے چلی گئی تھی۔ واسع اس کا شوہر تھا ،اسے اس کو منانا تھا۔ آدھے گھنٹے بعد وہ ہلکے سےکام والے فیروزی شلوار قمیض میں ہلکے سے میک اپ میں تیار کھڑی تھی۔ واسع ابھی تک نہیں آیا تھا۔ اسے عجیب لگ رہا تھا اکیلے نیچے جانا لیکن یہ سوچ کر واسع نیچے ہوگا وہ سر پر سلیقے سے ڈوپٹہ جمائے کمرے سے باہر نکل آئی تھی۔ مبینہ بیگم اسے سیڑھیوں میں ہی مل گئی تھیں۔ گھر میں خاموشی تھی، شاید ان کے مہمان رات میں ہی جا چکے تھے۔ وہ سر جھکائے مبینہ بیگم کے پاس آئی تھی۔ انہوں نے محبت سے اسے ساتھ لگایا تھا۔ باہر سے آتے ارسم نے اس منظر کو دیکھ کر سیٹی بجائی تھی۔ مبینہ بیگم نے اسے مصنوعی۔ گھوری سے نوازہ تو ہنس دیا۔ “اجیہ بیٹا! واسع نہیں اٹھا ابھی تک؟ “ مبینہ بیگم کاسوال سن کر اس سر مزید جھک گیا تھا،اس میں ہمت نہیں تھی بتانے کہ واسع گھر پر نہیں ہے۔ “امی! آپ کو پتا تو ہے بھائی کا انہیں کریز ہے جاگنگ کا۔ جاگنگ پر گئے ہیں۔ “ ارسم نے اس کی مشکل حل کر دی تھی مگر اب اسے الگ ہی فکر ہوگئی تھی کہ وہ کچھ جانتا تو نہیں تھا؟ “یہ لڑکا بھی ناں! “ وہ نفی میں سر ہلاتی اجیہ کو ساتھ لیے آگے بڑھ گئی تھیں۔ “بھابھی! آپ کی وہ نک چڑھی کزن اتنی سڑی ہوئی کیوں رہتی ہے؟ “ وہ اس سے کچھ فاصلے پر صوفےپر بیٹھ گیا تھا۔مبینہ بیگم کچن کی جانب چلی گئی تھی۔ “ارمینہ کی بات کر رہے ہو؟ “ وہ فورا ہی پہچان گئی تھی۔ ارسم نے ہاں میں سرہلایا۔ “وہ تھوڑی ریزرو رہتی ہے۔ “ اجیہ نے مسکراتے ہوئے بتایا۔ “ریزرو نہیں انا کی دکان ہے چلتی پھرتی۔ “ ارسم نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا وہ ہنسی تھی۔ ہنستے ہوئے اس کی نظر دروازے میں کھڑے واسع پر پڑی۔ اس کے آنکھوں میں غصہ دیکھ کر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ وہ اسے اگنور کرتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ “تمہارا یہ سوکالڈ پردہ صرف مجھ سے تھا، میرا بھائی، تمہارے کزن کیا وہ سب محرم تھے تمہارے؟” واسع کی بات یاد آتے ہی وہ اٹھ کر اس کے پیچھے گئی تھی۔ ارسم کندھے اچکاتا صوفے پر پھیل کر لیٹ گیا تھا۔ “واسع! میری بات سنیں!” وہ اپنے کپڑے لے کر واش روم کی جانب بڑھا تھا جب اجیہ اس کے سامنے آئی تھی۔ “میرا ارادہ آپ کو دکھ پہچانے کا نہیں تھا واسع!۔۔مجھے لگا آپ کے گھر والوں کو برا لگے گا میرا سب سے منھ۔۔۔۔۔۔” “میرے گھر والے تمہیں تمہارے پردے کے ساتھ قبول کر کر لائے تھے۔” وہ اسے کہہ کر راستے سے ہٹاتا واش روم میں بند ہوگیا تھا۔ اجیہ بند دروازے کو دیکھ رہی تھی۔
“ریحان کہاں ہے؟” وہ لوگ ناشتے کی تیاری کر رہے تھے۔ آج ولیمے کے بعد انہوں نے عباد کے لیے خاص دعا کا احتمام کروایا تھا۔ “وہ تو چچی سے مل کر چلے گئے۔ “ رامین نے انہیں بتایا تو سب حیران ہوئے۔ “کہاں گیا وہ نیا کزن؟ “ ارمینہ جو خلاف توقع آج جلدی اٹھ گئی تھی، پراٹھے کا نوالا توڑتے ہوئے اس نے شمشیر سے پوچھا۔ “اپنا سامان لینے گئے ہیں، تم کمرہ خالی کرنے کی تیاری پکڑو۔” شمشیر نے اسے چڑایا۔ “میں اپنا کمرہ کسی کو نہیں دوں گی۔ “ ارمینہ نے ہتھے سے اکھڑتے ہوئے کہا تو شمشیر آگ لگا اٹھ کر چلا گیا۔ “ابو! یہ کیا کہہ رہا ہے میں اپنا کمرہ خالی نہیں کروں گی؟ “ وہ ضدی انداز میں جاوید صاحب سے مخاطب ہوئی تھی۔ “آپ سے آپ کا کمرہ نہیں چھینا جائے گا، اس بارے میں آکر بات ہو گی، پہلے اجیہ کے سسرال ناشتے لے کر جانا ہے۔ “ جاوید صاحب نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ ارمینہ اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی، اس کا ارادہ نہیں تھا کمرے کو خالی چھوڑنے کا مگر اپنے نام پر وہ رکی تھی۔ کمرے میں سے راشدہ پھوپھو کی آواز آرہی تھی۔ “باجی! مسئلہ تو ارمینہ کے ماننے کا ہے وہ کبھی نہیں مانے گی۔” رفعت بیگم نے کہا تو ارمینہ مزید سننے کے لیے آگے ہوئی۔ “اچھا خاصا کماتا ہے لڑکا!اس گھر میں بھی اس کا حصہ ہے، اجیہ خوش رہے گی، وہ سب آسائشیں دے سکتا ہے اسے۔” راشدہ بیگم کی بات پر وہ چونکی تھی۔ “یہ کس کی بات کر رہی ہیں؟ “ اس نے خود سے سوال کیا۔ “میں جانتی ہوں باجی! ریحان مجھے بھی اچھا لگا ہے مگر بات تو ارمینہ کی ضد کی ہے وہ تو رضوان کو چھوٹا قد ہونے پر ذلیل کر چکی ہےاور ریحان کا سانولا رنگ۔ ۔۔۔” وہ پریشانی سے بول رہی تھی جبکہ باہر کھڑی ارمینہ غصے سے پیچ وتاب کھا رہی تھی۔
Very nice just completed this episode