وہ جلے پیر کی بلی کی مانند کمرے کا چکر کاٹ رہی تھی۔اپنی ماں اورپھوپھو کی باتوں کو سر ے سے نظرانداز کر چکی تھی مگر جب اگلےدن اسے جاوید صاحب نے اپنا فیصلہ سنایا وہ غصے سے کمرے میں بند ہو گئی تھی۔ریحان کی جاب لاہور میں تھی لیکن وہ کبھی ان کے گھر نہیں آیا تھا، اس کے چچا کبھی کبھار آجاتے تھے ۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کے چچا اتنی بڑی خواہش اس کو لیکر دل میں پال چکے تھے۔وہ انکار کرنے کا ارادہ کرتی کمرے سے نکلی تھی۔جاوید صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر ریحان پر پڑی تھی جو سر جھکائے جاوید صاحب کی کوئی بات سن رہا تھا۔ارمینہ کودیکھ کر وہ خاموش ہوئے تھے۔ “آؤ بچے! میں ریحان سے یہی کہہ رہا تھا کہ شادی کے بعد اسے الگ گھر میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے یہ گھراس کا بھی ہے۔” “کون سی شادی ابو!میں نہیں کرنا چاہتی شادی ۔” ارمینہ نے بے لچک انداز میں کہا۔ “کوئی بات نہیں بچے ! نکاح کر لیتے ہیں رخصتی بعد میں کر لیں گے۔” وہ نرم لہجے میں بولے تھے۔ریحا ن اٹھ کر وہاں سے جانےلگا تو جاوید صاحب کے روکنے پر دروازہ کے پاس ہی رک گیا ۔ارمینہ آگے آئی تھی۔ “مجھے اس شخص سے شادی نہیں کرنی ابو!” ارمینہ نے الفاظ کے ردو بدل سے اپنی بات دہرائی۔ “کیوں نہیں کرنی؟کیا برائی ہے اس میں؟ جوجو خامیاں نکال کر تم نے رضوان کو منع کیا تھاریحان میں ایک بھی نہیں ہے۔” جاوید صاحب کو تھوڑا غصہ آیا تھا مگر وہ تحمل کا دامن چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ “میرا اور اسکا کوئی میچ نہیں ہے ابو!میں سب دوستوں کو کیسے فیس کروں گی کہ میں نے ایک کالے رنگ والے سے شادی کی ہے۔” ارمینہ کی بات پر جاوید صاحب نے شرمندگی سے ریحان کی جانب دیکھا،مگر ریحان نارمل تھا۔ “بدتمیزی مت کرو ارمینہ! وہ اچھا لڑکا ہے اور —-“ جاوید صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ “میں کسی صورت اس شخص سے شادی نہیں کروں گی۔” ارمینہ نے ہٹ دھرمی سے کہتے ہوئے رخ موڑ لیا تھا۔ جاوید صاحب نے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔ “بس بہت ہوگیا،بہت سمجھا لیا۔اب یا تو ریحان سے شادی کے لیے حامی بھرو یا پھر کل ہی تمہارا نکاح رضوان سے ہوگا۔” جاوید صاحب کی دھمکی پر اس نے ایک سخت نظر پیچھے کھڑے ریحان پر ڈالی جو ایسے کھڑا تھا گویا یہاں بات کسی اور کی ہو رہی ہو۔ “آپ زبردستی نہیں کر سکتے ابو!” ارمینہ نے ان کے ہاتھ پکڑتے ہوئے رونے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ “یہ میرا فیصلہ ہے ارمینہ!میرے بھائی کی خواہش ہے جس کا احترام تمہیں بھی کرنا ہوگا۔” وہ کسی طور بھی اس کی بات ماننے کو تیار نہ تھے۔ “بہت مہنگی پڑے گی تمہیں یہ شادی!” جاوید صاحب کے ہاتھ چھوڑ کر ایک ناراضگی بھری نظر ان پر ڈالتی وہ ریحان کے پاس آکر بولی تھی۔ریحان نے بس ایک نظر اس پر ڈالی تھی پھر رخ پھیر گیا۔وہ پیرپٹھکتی وہاں سے چلی گئی تھی۔ “تایا ابو ! آپ اس کے ساتھ زبردستی مت کریں۔” ریحان نے کہا تو جاویدصاحب نے نفی میں سر ہلایا۔ “میرے ہی لاڈ پیارکی وجہ سے وہ اتنی خود سر اور بدتمیز ہو گئی ہے،مجھے معلو م ہے تمہارے علاوہ وہ کسی کےساتھ خوش نہیں رہ پائے گا۔کوئی بھی اس کا یہ مزاج برداشت نہیں کرسکتا۔” جاوید صاحب کو آخر میں شرمندگی نے آن گھیرا تھا۔ریحان کچھ کہہ نہیں پایا تھا۔ وہ نہیں کرنا چاہتا تھا یہ شادی ،ارمینہ کامزاج اورجاوید صاحب کا اس کے لئے پیار دیکھ کر اسے لگا تھا وہ انکار کر دیں گے مگر ان کا فورا مان جانا ریحان کو مشکل میں ڈال گیا تھا۔وہ اب چاہ کر بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتاتھا کیونکہ عباد صاحب کا خط بھی اس نے ہی جاوید صاحب کو دیا تھا،دوسرا وہ اپنی ماں کی وجہ سے بھی مجبور تھا۔شمیم بیگم نے ان کی عدت ختم ہونے تک رکنے سے منع کر دیا تھا۔وہ بس جلدازجلد عباد کی خواہش کو پورا کرنا چاہتی تھیں۔ عباد صاحب نے اپنے نکاح سے عین وقت پر انکار کر کر جہاں شمیم بیگم سے شادی کی ضد باندھی تھی وہیں نظیر صاحب نے ان کی شادی شمیم بیگم سے کروا کر انہیں گھر سے نکال دیا تھا،وہ دلہن بن کر اس گھرمیں آئی تھی مگر دس منٹ بھی نہ رہ سکی تھیں۔عباد چھپ چھپ کر سب سے ملتے تھے،پچھلے سال نظیر صاحب کی وفات کے بعد وہ بہت بے چین رہنےلگے تھے،انہیں اس گھر سے تعلق دوبارہ بناناتھا۔وہ اکثر اپنی خواہش کا اظہار کرتے تھے ،وہ اس رشتے کے ذریعے پھر سے ملنا چاہ رہے تھے۔شمیم بیگم کے لئے اس وقت ان کی خواہش ہی زیادہ ضروری تھی۔وہ بھی ارمینہ کا مزاج سمجھ چکی تھیں مگر جانتی تھیں ریحان کا تحمل مزاج ہونا سب ٹھیک کر دے گا۔
جتنی خوشگوار اس وقت باہرکی فضاتھی اتنا ہی کوئی اندر سے بھی خوش تھا۔اپنی خوشی کو ظاہر کرنے کا اس کا اندازبھی الگ ہی تھا۔اب بھی وہ کانوں میں ہیڈ فونز لگائے بنا اردگرد کی پرواہ کیے سڑک کے بیچ میں اسکیٹنگ کر رہا تھا۔وہ ماہرانہ انداز میں اسکیٹنگ بورڈ استعمال کررہا تھا۔آس پاس سے گزرتی گاڑیاں بھی اسے خوفزدہ نہیں کر رہی تھیں۔تبھی اس کی نظر کار میں ٹکٹکی باندھے دیکھتی بچی پر پڑی۔اگلے ہی پل اس نے مسکراتے ہوئے اس بچی کو فلائنگ کس پاس کی تھی۔ٹریفک بلاک ہوئی تو وہ تیزی سے آگے نکل گیا۔ وہ آزاد تھا،جسے اپنے نام کی طرح آزاد رہنا پسند تھا۔قید اس کو ناگوار گزرتی تھی۔اس وقت بھی وہ آزاد پنچھی کی طرح پابندیوں کو توڑتا ہوا اپنا راستہ بنا رہا تھاکہ سامنے سے اچانک آتی کار سے ٹکرایا تھا۔ہجوم اس کے گرد جمع ہورہا تھا مگر اس کے چہرے کی مسکراہٹ سب کو حیران کر رہی تھی۔کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک سر پھرے لڑکے کو کسی کی ایک جھلک ہی منجمد کر گئی تھی۔ شاید یہ جھلک اس کا امتحان بننے والی تھی،اس پر بھی آزمائش آچکی تھی جس میں وہ قید ہونے والا تھا۔ “آزاد!” اسے ہوش آیا تو خود کو ہسپتال کے بستر پر دیکھ کر اس نے منہ بنایا مگر جہانگیر صاحب کی کرخت آواز پر اس نے فورا آنکھیں بند کی تھیں۔ “کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے تم میرے غصے سے بچ نہیں سکتے آزاد!” وہ اس وقت سخت نالاں تھے اس سے۔آزاد نے ایک لمبی سانس لی اورآنکھیں کھولیں۔ “اچانک ہی کار آگئی تھی ورنہ میرا پورا دھیان تھا۔” وہ آہستگی سے بولا تو جہانگیر صاحب اس کے پاس آئے۔ “تم چاہتے کیا ہو آزاد ؟ تمہارے ماں باپ مر جائیں۔” “کیسی باتیں کر رہے ہیں ڈیڈ!” آزاد نے دہل کر انہیں دیکھا تھا۔ “تو پھر کیوں ہماری بات نہیں سنتے؟” اب کی بار ان کے لہجے میں بے بسی تھی۔ “آپ کی سب باتیں تو مانتا ہوں ڈیڈ!لیکن اپنی زندگی بھی جینا چاہتا ہوں۔” وہ مسکراتے ہوئے بولا مگر اس کی لہجے میں چھپی اداسی جہانگیر صاحب محسوس کر چکے تھے۔انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر لبو ں سے لگا لیا تھا۔ “بہت جلد سب ٹھیک ہو گا۔” وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھے۔ اک اذیت سی رگ و پے میں رواں رہتی ہے ایک غم ہے جو مری جاں کو لگا رہتا ہے رنگ اور نور سے دہکا ہوا رہتا ہے بدن ہائے، اک دل ہے جو ہر وقت بجھا رہتا ہے
“اجیہ بیٹا! نیچے واسع کا دوست اپنی فیملی کے ساتھ آیا ہے،تم تیارہو کر آجاؤ نیچے۔” مبینہ بیگم اسے کہہ کر واپس چلی گئیں تھیں۔دو دن ہو گئے تھے،واسع ہنوز اس سے ناراض تھا۔وہ اسے مزیدناراض نہ کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے تیار ہونے چلی گئی تھی۔رائل بلو فراک پہنے جس کی بازو کے کناروں پر بھاری کام تھا جبکہ باقی کا فراک بالکل سادہ تھا۔اس نے حجاب سیٹ کرتے ہوئے نقاب کیا تھا۔ڈوپٹہ سے خود کو کورکرتی وہ نیچے آئی تھی۔جہاں واسع بیٹھا خوش اخلاقی سے اپنے دوست سے بات کر رہا تھا۔اسے کوئی عورت دیکھائی نہ دی وہ سلام کرتی واسع کے پاس بیٹھ گئی۔ “وعلیکم السلام بھابھی!” سامنے بیٹھا واسع کا دوست خوش اخلاقی سےبولا تھا ۔ “امی کے کمرے میں جاؤ۔” واسع نے دھیرے سے اس کے کان میں کہا تھا مگر وہ آگے بڑھ کر چائے کپوں میں ڈالنے لگی۔واسع کا دوست بھی حیرانی سے اجیہ کو دیکھ رہا تھا جو چائے کا کپ اس کی جانب بڑھارہی تھی۔واسع نے غصہ ضبط کرتے ہوئے اجیہ کو بازو سے پکڑ کر واپس کھینچا تھا۔ “میں نے کہا امی کے کمرے میں جاؤ۔” اب کی بار وہ صحیح سے سن سکی تھی اس کی بات ۔فورا اٹھ کر مبینہ بیگم کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔ “یار تو زبردستی پردہ کروا رہا ہے بھابھی سے؟” واسع کے دوست کا جملہ سن کر اس کے قدم رکےتھے۔آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے۔جنہیں بامشکل اندر دھکیل کرمبینہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ “لو یہ آگئی میری بہو!” اجیہ کو دیکھ کر مبینہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ان کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی تھی۔وہ اٹھ کر اس سے ملی تھی۔ “بھائی نے بتایا آپ پردہ کرتی ہیں،تو اس لئے میں نےوہاں بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔” وہ خوشدلی سے اسے بتا رہی تھی،جبکہ اپنی حرکت پر اور واسع کے غصے کی وجہ جان کر وہ پھر سے شرمندہو گئی تھی۔ “واسع!میں—-“ “تمہاری کزن کا نکاح ہے کل ،تیار رہنا صبح چھوڑ آؤں گا وہاں۔” بنا اس کی بات سنے وہ اسے بتا کر سونےکے لئے لیٹ گیاتھا۔ “کس کا نکاح؟” اپنی بات بھول کر وہ حیران ہو کر پوچھنے لگی۔ “صبح وہاں جا کر ہی معلوم کر لینا ۔اب لائٹس بند کر دو ۔” واسع کا لہجہ نارمل تھا مگر اجیہ کو عجیب لگ رہا تھا۔اس نے خاموشی سے اٹھ کر لائٹس بند کر دی تھیں۔اپنی جگہ پر لیٹ کر وہ یہی سوچ رہی تھی کہ کس کانکاح ہے اتنا اچانک؟دوسری جانب واسع کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔اسے اجیہ پسند تھی مگر اس نے خود کے ساتھ بہت غلط کر لیا تھا،جس کا اندازہ اسے ابھی تک نہیں ہوا تھا۔
“امی! ارمینہ کا نکاح اتنی جلدی کیوں ہو رہا ہے؟” واسع اسے چھوڑ کر جاچکا تھا ،شام میں آنے کا وعدہ کر کر ۔اس نے حفصہ بیگم سے پوچھا ۔ “تمہارے تایا ابو کی خواہش تھی ،اس لئے بھائی صاحب چاہتے ہیں جلد از جلد اس فرض کو ادا کر دیں۔” حفصہ بیگم نے مصروف انداز میں جواب دیا اور کمرے سے نکل گئیں۔ “یہ کیا کر رہی ہیں اپیا؟” شمشیر نے اسے نقاب کی پن لگاتے دیکھ کر پوچھا۔وہ ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا۔ “نقاب کر رہی ہوں۔” اس نے دوبارہ شیشے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ “گھر کافنکشن ہے اس کی کیا ضرورت آ پ کو ؟” بیڈ سے کپڑے اٹھاتے ہوئے اس نے پوچھا۔ “میں پردہ کرتی ہوں شمشیر!” اجیہ نے جتایا تو وہ ہنسا۔ “آپ بھی عجیب پردہ کرتی ہیں اپیا!شادی کے فنکشنز میں تو نہیں تھا آپ کا پردہ۔” وہ تو بول کر جاچکاتھا مگر اجیہ کو لگا تھا جیسے اسے بھری محفل میں تماچہ مارا گیاہو۔واسع کا غصہ کرنا ،کل اسکی نظروں میں فکر ۔سب سے پہلے یاد آنا والا اسے آخر میں یاد آیا تھا۔ “یا اللہ!یہ میں نے کیا کردیا۔” وہ روتے ہوئے نیچے بیٹھ گئی تھی۔
نکاح کب ہوا اسے کچھ نہیں خبر نہیں تھی، وہ جبرا بھی مسکرا نہیں سکا تھا۔ارمینہ کی رضامندی بھی انہیں مل چکی تھی ،یعنی وہ لڑکی اسکا نصیب بنا دی گئی تھی۔رخصتی کا فیصلہ بھی آج کے دن کا ہواتھا۔ارمینہ کے کمرے میں ہلکی پھلکی سجاوٹ رضوان اور باقی کزن کر چکے تھے۔مبارک باد کا سلسلہ چلا تھا۔وہ خاموش تھا ۔سب سے مل کر شمیم بیگم کے پاس آگیا تھا۔ واسع نے رامین سے اجیہ کا پوچھا تو اس کے بتانے پر وہ کمرے میں ہے وہ کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔جبکہ باقی سب اب سب کام سمیٹ رہے تھے۔شمیم بیگم کے قدموں میں بیٹھا وہ الفاظ نہیں جٹا پارہا تھا۔شمیم بیگم نے بہت نصیحت کی تھی،ارمینہ کو محبت سے سمجھانے کی ،اسے وقت دینے کی۔وہ خاموش تھا،محض سر ہلا کر ان سےپیار لے کر وہ چلا گیا تھا۔ وہ پہلا دلہا تھا جو رخصت ہو کر اپنی دلہن کے کمرے میں آیا تھا۔اپنے باپ کے گھرمیں اسے کمرہ ملا بھی تو وہ اپنی بیوی کا تھا۔اس کے چہرے پر کوئی تاثرات نہ تھے۔نہ خوشی نہ غم،نہ غصہ،نہ حیرت،نہ ہی کوئی خواہش۔اپنے ہاتھ میں پکڑے لیپ ٹاپ پر نظر ڈالتا وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔جیسا اس نے سوچا تھا سامنے کا منظر ویسا ہی تھا،بس ایک چیز جو اس نے سوچی تھی وہ ویسی نہیں تھی۔کمرے کی بکھری چیزوں کے درمیان اس کی بیوی جو آج یقینا خوبصورتی میں سب کو مات دے چکی تھی،ویسے ہی دلہن بنی کھڑی تھی۔اسے لگا تھا وہ چینج کر چکی ہو گی۔پورے کمرے پر نظر دوڑا کر وہ جیسے ہی آگے بڑھا کمرے کے سکوت کو ارمینہ کی آواز نے توڑا تھا۔ “تمہیں کیا لگا تھا،میں یہاں بیٹھ کر تمہارانتظار کررہی ہوں گی؟” استہزائیہ انداز میں پوچھتی وہ دو قدم چل کر اس کے مقابل آئی۔ “بہت زیادہ خوش فہم ہو تم۔دس لاکھ حق مہر،اور اس گھر میں اپنا حصہ میرے نام کر کر تمہیں لگتا ہے تمہاری یہ بدصورتی چھپ جائے گی اور میں تمہیں اپنا شوہر تسلیم کر لوں گی تو بہت بڑی غلط فہمی ہے تمہیں۔” اس کے سینے پر دونوں ہاتھ مارتی وہ غصے سے پھنکاری تھی۔مگر سامنے موجود شخص تو جیسے ہر احساس سے عاری تھا۔خاموشی سے کھڑا تھا جیسے کوئی بت ہو۔ “یہ میرا کمرہ ہے۔اس کی ہر چیز میری ہے۔اپنا وجود مجھ سے اور میری چیزوں سے دور رکھنا۔” اس کا لہجہ ایسا تھا کوئی سامنے کھڑا شخص اچھوت ہو۔تبھی دروازہ ناک ہوا۔وہ ہنہ کرتی پیچھے ہوئی تھی۔ “ریحان بھائی!یہ چاچی نے دیئے ہیں وہ کہہ رہی تھی آپ کو اپنے کمبل اور تکیے کے بنا نیند نہیں آتی۔” رامین نے جیسے ہی کہا تھا وہ مسکرایا تھا۔اس کے سانولے نقوش پر اس کی مسکراہٹ کسی کو بھی دوسری بار دیکھنے پر مجبور کر سکتی تھی،مگر ارمینہ نے نخوت سے سر جھٹکا تھا۔دروازہ بند کرتا وہ کھڑکی کے پاس آیا تھا۔اپنا بستر فرش پر لگاتا وہ اپنا لیپ ٹاپ گود میں لے کر بیٹھ گیا۔ارمینہ کو اس کی اگنورنس کھلی تھی۔ “اچھا ہوا تم نے قبول کر لیا کہ تم میرے قابل نہ تھے نہ کبھی ہو سکتے ہو۔” جاتے جاتے بھی طنز کرنا اس نے ضروری سمجھا تھا۔ریحان ہنوز خاموش تھا۔اس نے نظر اٹھا کر دوبارہ ارمینہ کو دیکھنا گوارہ نہ کیا تھا۔خاموش رہنا اس کا اپنا فیصلہ تھا جس پر وہ قائم رہنے والا تھا لیکن نہیں جانتا تھا جب وہ بولے گا تب شاید سامنے والا اس کے الفاظ برداشت نہ کر سکے۔
موسم کی بڑھتی خنکی آس پاس کے درختوں پر اثر انداز ہورہی تھی۔خزاں کا موسم شروع ہوچکا تھا۔درختوں سے پتے جھڑ رہے تھے ،وہیں ایک جانب ان پتوں کے گرنے کے منظر سے لطف اندوز ہوتا آزاد اپنی جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے مسکراتا ہوا چل رہا تھا۔چہرے کی مسکراہٹ میں وہ چمک نہیں رہی تھی جو کچھ سال پہلے ہوتی تھی لیکن نہ اس نے پہلے خود کو ظاہر ہونے دیا تھا نہ ہی اب اس کا ایسا کوئی ارادہ تھا۔وہ پارک کے ایک سنسان گوشے میں بیٹھ گیا تھا،نظر سامنے درخت پر تھی۔جو اپنی لمبائی کے حساب سے وہاں موجود سب درختوں سے اونچا تھا۔جیسے ہی تیز ہوا کا جھونکا آیا اس درخت کے زرد پتے ٹہنیوں کا ساتھ چھوڑتے ہوئے نیچے گرنے لگے تھے۔آزاد کی نظروں نے ان پتوں کا پیچھا کیا تھا۔یک دم ہی وہ ساکت ہوا تھا۔پارک میں بنے راستے پر نارنجی لباس پہنے ایک لڑکی اسکیٹنگ بورڈ نیچے رکھ رہی تھی۔وہ دم بخود سا اسے دیکھ رہا تھا۔اسے اس پر کسی کا گمان ہوا تھا۔وہ سیدھی ہوئی تو اس کا چہرہ بھی واضح ہوگیا ۔وہ ٹرانس کی کیفیت میں کھڑا ہوا ۔وہ لڑکی ا ب سکیٹ کرنے کی کوشش کر رہی تھی مگر ناکام ہورہی تھی۔پھر اس کی چار بار کی کوشش رنگ لائی تھی،وہ کچھ دور ہی آئی تھی کہ بیلنس برقرار نہ رکھ پائی اور نیچے گری تھی۔آزاد اس کی جانب بڑھا تھا مگر اسے رکنا پڑا۔وہ لڑکی رونا شروع ہوچکی تھی۔ یہ رونا نیچے گرنے،اور چوٹ لگنے کا نہیں تھا،آزاد کو یہی بات حیران کر گئی تھی۔اپنے پتوں کو خود سے جدا ہوتے دیکھ روتا ہوا ایک درخت اور نیچے بیٹھی کسی کو یاد کرتی وہ لڑکی،آزاد کو ایک سے معلوم ہو رہے تھے۔پھر وہ لڑکی اٹھی اور وہاں سے بھاگ گئی۔آزاد اس کی چھوڑی جگہ پر آیا تھا ،اسکیٹنگ بورڈ اٹھا کراب وہ اس لڑکی کے نہ نظر آنے والے قدموں کے نشانات کو دیکھ رہا تھا۔
اس کے کمرے کا دروازہ بار بار بج رہا تھا مگر ارمینہ تھی کہ اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔باہر پوری شدت سے دروازہ کو توڑنے کی کوشش کی گئی توارمینہ کی آنکھ کھلی۔ارد گرد نظر دوڑا کر وہ اٹھ کر بیٹھی۔گھڑی میں بارہ کا ہندسہ عبور ہو چکا تھا۔دروازہ ایک بار پھر بجا تو بیڈ سے اتری۔ “کیا ہے؟” دروازہ کھولتے ہی اس نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں پوچھا۔ “گھر کی دلہن صاحبہ ! ابو نے تمہیں یاد فرمایا ہے۔” شمشیر کہہ کر وہاں سے چلا گیا تھا وہ منہ بناتی دروازہ بند کر کر مڑی تھی۔ “گھر کی دلہن!!” شمشیر کا جملہ یاد آتے ہی اس کی آنکھیں پوری کھلی تھیں۔میری شادی ہوگئی اور وہ بھی اس—–“ سب یاد آتے ہی اس نے کھڑکی کے پاس دیکھا جہا ں کچھ بھی نہیں تھا،ریحان بھی نہیں ۔پھر اس نے باقی کمرے کو دیکھا جو صاف تھا ۔ “یہ سب اس نے کیا؟” وہ کنفیوز ہوئی تھی۔ “گیا کہا ں ہے؟” اس نے باتھ روم چیک کرتے ہوئے خود سے سوال کیا مگر باتھ روم خالی تھی۔ “اچھا ہوا خود ہی چلا گیا،ورنہ میرا موڈ خراب ہو جاتا اسے دیکھ کر۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی کپڑے لے کر واش روم میں چلی گئی۔آدھے گھنٹے بعد وہ کمرے سے نکلی تھی۔سیدھا جاوید صاحب کے کمرے میں گئی تھی۔جہاں وہ بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ “آپ نے بلایا ابو!” وہ ناراضگی دیکھانا چاہتی تھی انہیں،اس لئے سنجیدہ لہجےمیں پوچھا۔ “اب تمہاری شادی ہو گئی ہے ،ارمینہ اس لئے اب اپنی پرانی عادتیں چھوڑ دو ۔ریحان کس وقت آفس جاتا ہے تمہیں معلوم ہونا چاہیئے۔کل سے اسکا اور اپناناشتہ تم بناؤ گی سمجھی!” جاوید صاحب کا ارادہ بھی اسے کوئی چھوٹ دینے کا نہیں تھا۔ “میں کیوں بناؤں گی ناشتہ؟” وہ منہ بنائے بولی تھی۔ “کیونکہ وہ اب تمہارا شوہر ہے،اور جیسے تمہاری ماں میرے لئے ناشتہ بناتی ہے تم بھی اس کے لئے بناؤ گی۔اور کل سے جلدی اٹھ جانا۔” وہ سخت لہجے میں کہہ کر کمرے سے نکل گئے تھے،جانتے تھے اگر وہا ں رکتے تو ارمینہ رو کر فورا انہیں موم کردیتی ۔لیکن فلحال اس پر سختی ضروری تھی۔ “نواب زادہ ہے وہ جو اس کا ناشتہ بھی میں بناؤں!سامنے آئے ذرا میرے چودہ طبق روشن نہ کئے تو میرا نام بھی ارمینہ نہیں ۔” وہ بڑبڑاتی ہوئی اپنے لئے ناشتہ بنا رہی تھی۔ “لاؤ میں بنا دیتی ہوں ناشتہ!” حفصہ بیگم کچن میں آئی تو ارمینہ کو چائے چڑھاتے دیکھ کر اپنی خدمات پیش کرنے لگی۔ “رہنے دیں چچی ! روز خود بنانا ہے تو آج بھی بنا لوں گی۔” شکل پر بارہ بجائےوہ اس وقت مظلومیت کی مثال بنی ہوئی تھی۔کسی بھی طرح اسے کام سے چھٹکارا پانا تھا۔ “یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہولیکن آج میں بنا دیتی ہوں ،ولیمے کے بعد تم بنا لیا کرنا۔” سارے پلان پر پانی پھیرتی وہ بولیں تو ارمینہ کو تاؤ آیا۔تیز قدم اٹھاتی کچن سے نکل آئی۔کمرے میں آئی تو غصے سے ادھر ادھر ٹہلنے لگی۔یک دم نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے باکس پر پڑی۔اس نے کھولا تو اندر سونے کی چارچوڑیاں تھیں۔اسے یاد تھا اس کی ماں کے ہاتھ میں بھی ایسی ہی چوڑیاں تھیں،جو اس کی دادی نے اپنی تینوں بہوؤں کےلئے بنوائی تھی۔ “کنجوس انسان ! گفٹ میں اپنی اماں کی چوڑیاں دے دیں ۔” باکس واپس بند کرتی وہ نخوت سے بولی تھی۔پھر ناشتے کا انتظار کرنے لگی۔
“واسع بیٹا! میری طبیعت ٹھیک ہیں لگ رہی مجھے تو میں نہیں جا سکتی تم لوگوں کے ساتھ،ایساکرو اجیہ اور تم چلے جانا،دعوت میں۔” وہ آفس سے لوٹا تو مبینہ بیگم نے اسے کہا ۔ان سے پیار لےکر کمرے کی جانب بڑھ گیا ۔کمرے میں آیا تو اسے اجیہ کہیں دیکھائی نہ دی۔دروازہ کھلا دیکھ کر وہ اس جانب آیا تو اسے اجیہ سیڑھیوں پر بیٹھی دیکھائی دی۔بیگ بیڈ پر رکھ کر وہ اس کے پیچھے آیا تھا۔اسے محسوس ہوا تھا جیسے وہ رو رہی ہو۔ “اجیہ!” واسع نے اسے پکارا تو اس کا لرزتا وجود تھما تھا۔ “کیا ہوا ؟ رو کیوں رہی ہو؟” اسکے پاس بیٹھ کر اس نے فکر مندی سے پوچھا تھا۔وہ کل سے چپ تھی،اس نے نوٹ تو کیا تھا مگر پوچھ نہیں پایا۔صبح میں بھی اسے آفس جلدی جانا تھا اس لئےوہ دھیان نہیں پایا تھا،مگر اب اسے افسوس ہورہا تھا۔ “کچھ نہیں!” اجیہ نےآنسو پونچتے ہوئے کہا اور اٹھنے لگی تو واسع نے ہاتھ پکڑ کر اسے واپس بیٹھایا۔ “پہلے مجھے بتاؤ کیا ہوا ہے؟” واسع کا انداز ابھی بھی نہ بدلا تھا۔اپنے لئے فکر دیکھ کر اس کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی تھی۔ “واسع! میں بہت غلط کر دیا ،اللہ کو ناراض کر دیا۔میں کیوں نہیں سمجھ پائی کہ میں کیا کر رہی ہوں۔میں نے اپنے ساتھ ساتھ سب کا مذاق بنوا دیا۔” وہ ہچکیاں لیتی رونے لگی تھی۔واسع نے اس کے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر اسے سہارا دیا تھا۔ “یہاں میری طرف دیکھو اجیہ! “ کچھ دیر بعد واسع نے اس کا چہرہ اوپر کرتے ہوئے پوچھا ۔ “اللہ تعالی تم سے ناراض نہیں ہیں۔یہ راستہ آسان نہیں ہوتا۔لیکن تمہارے لئے بہت آسان بنا تھا۔تمہاری فیملی تمہیں سپورٹ کر رہی تھی،میری فیملی بھی تمہیں سپورٹ کر رہی تھی ۔جب سب کچھ آسانی سے ہوجائے تو آزمایا پھر بھی جاتا ہے۔” “میں فیل ہو گئی آزمائش میں ۔” واسع کے سمجھانے پر وہ سر جھکاتے بولی تھی۔ “تم پاس ہوئی یا فیل یہ تو تم بتا سکتی ہو۔” واسع کے نارمل انداز میں کہنے پر اجیہ نے چہرہ اٹھایاتھا۔ آنکھوں میں سوال تھا ۔ “ہاں تم !—–بتا ؤ،کیا پردہ چھوڑ دو گی؟ لوگ باتیں کریں گے،ہو سکتا ہے مذاق بھی بنائیں ،برداشت کر سکو گی؟” “میں کر لوں گی برداشت لیکن ناکام نہیں ہوں گی۔” وہ فورا بولی تو واسع نے مسکرا کر اس کے آنسو صاف کیے۔ “تویہ آنسو اب نہیں بہنے چاہیئے۔برداشت کرنے کے لئے مضبوط بھی بننا ہو گا۔” “میں مضبوط بنوں گی ،نہیں روؤں گی اب۔” وہ ہلکا سا مسکرائی تھی۔واسع بھی مسکرایا تھا۔اس نے کھڑے ہو کر اجیہ کی جانب ہاتھ بڑھایا تھا۔اجیہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ “آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں۔” اجیہ کے معصومیت سے پوچھنے پر وہ مسکرایا تھا اور اسے ساتھ لیے اندر کمرے میں آگیا تھا۔ “مطلب آپ ناراض ہیں مجھ سے؟” اس کے جواب نہ دینے پر اجیہ نے پوچھا تو واسع نے اس کا ہاتھ چھوڑ کر بیڈ پر رکھے اپنے بیگ میں سے ایک گفٹ پیک نکالا۔ “آئی ایم سوری! میں اوور ری ایکٹ کر گیا تھا۔” گفٹ اس کی جانب بڑھاتا وہ شرمندگی سے بولا تو اجیہ کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا۔ “پھر سے آنسو؟” واسع نے خفگی سے اسے دیکھتے کہا تو اجیہ مسکرائی تھی۔ “اللہ ناراض نہیں ہیں ،انہوں نے مجھے آپ جیسا ساتھی دیا ہے۔” وہ مسکراتے ہوئی بولی تو واسع نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔ “گفٹ نہیں کھولو گی؟” واسع نے اس سے پوچھا تو اس سے الگ ہوئی۔اس نے جلدی جلدی گفٹ کھولا تو اندر تین مختلف رنگ کےحجاب دیکھ کر وہ خوش ہوئی تھی۔ “میری بیوی کےلئے جتنا میں کر سکتا ہوں کروں گا ۔ اب تیار ہو جاؤ تمہاری کزن کے ولیمے میں بھی جانا ہے۔” اچانک یاد آتے ہی وہ بولا تو اجیہ ہنسی تھی۔ “ہنسنا بند کرو اور میرےکپڑے نکالو ۔” اس کے سر پر چپت لگاتا وہ بولا تھا اور پھر اپنا والٹ اور گھڑی نکالنے لگا۔اجیہ آسودگی سے مسکرائی تھی۔اللہ کا شکر ادا کرتی وہ الماری کی جانب بڑھ گئی تھی۔
یوں بظاہر تو پسِ پشت نہ ڈالو گے ہمیں جانتے ہیں،بڑی عزت سے نکالو گے ہمیں اتنے ظالم نہ بنو ،کچھ تو مروت سیکھو ہم تم پہ مرتے ہیں ، تا کیامار ہی ڈالو گے ہمیں تم نہیں ،نہیں آئے۔مگر سوچا تھا ہم اگر روٹھ بھی جائیں تو منا لو گے ہمیں ہم تیرے سامنے آئیں گے نگینہ بن کر پہلے یہ وعدہ کروپھر سے چرا لو گے ہمیں قابلِ رحم بنے پھرتے ہیں اس آس پہ ہم اپنے سینےسے کسی روز لگا لو گے ہمیں ہم بڑی قیمتی مٹی سے ،بنائے گئے لوگ! خود کو بیچاچاہیں گے تو کیا لو گے ہمیں (ادریس آزاد) “سب کچھ جیسے پہلے سے ریڈی کرے بیٹھےتھے یہ لوگ۔” لائٹ براؤن کلر کی میکسی پہنے وہ بے زار سی بیٹھی بڑبڑائی تھی۔ولیمے کے لئے زیادہ بڑا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔کم ہی لوگ مدعو کئے گئے تھے۔ ہال میں ہی فیملی کے لئے ایک بڑی ٹیبل لگوائی گئی تھی۔جہاں مہمان ِ خصوصی بنی بیٹھی وہ بور ہورہی تھی۔رفعت بیگم نے اس کا موبائل اس سے لے لیا تھا ۔موبائل کے بنا اس کا موڈ مزید بگڑ گیا تھا۔کھانا شروع ہوا تو باقی سب بھی اپنی نشست سنبھالنے لگے۔ اس نے ایک بے زار نظر سامنے ڈالی جہاں سے ریحان چل کر آرہا تھا۔اس کا براؤن کوٹ دیکھ کر تو اسے پتنگے لگ گئے تھے۔ “اس کی ہمت کیسے ہوئی میرے ساتھ میچنگ کرنی کی؟” غصے سے کھولتی وہ دانت پیس رہی تھی۔جیسے ہی وہ اس کے پاس والی کرسی پر بیٹھا،اس نے اسے گھوری سے نوازہ مگر ریحا ن نے اس کی جانب دیکھا تک نہیں تھا۔ “ایسا لگ رہا ہے زبردستی بیٹھایا گیا تھا۔” افراہیم کی آواز پر ارمینہ نے اس کی جانب دیکھا ۔ “زبردستی ہی بیٹھی ہوں۔” دانت پیستی وہ بولی تھی۔ “ہم تو ریحان بھائی کی بات کر رہے ہیں۔” شمشیر کہہ کر تالی مار کر ہنسا تو ارمینہ نے اسے گھورا۔ “دس بجے سے پہلے کمرے میں مت آنا،میرا موڈ بہت خراب ہے ،میں تماشا نہیں کرنا چاہتی۔” ریحان کے پاس جھکتی وہ بولی تھی مگر ریحان نےکوئی ریسپانس ہیں دیاتھا۔ “کھانا کھا لو بعد میں بات کر لینا ،تمہارا ہی شوہر ہے۔” رضوان نے ہنستے ہوئے کہا تو ارمینہ نے باقی سب کی جانب دیکھا جو دبی دبی ہنسی ہنس رہے تھے۔ “ریحان بھائی! آپ بھی ہنس لیا کریں ۔” رامین نے کہا تو ہلکاسا مسکرایا۔ “بس میری ہی آوازان کانوں کے اندر نہیں جاتی۔” وہ جل کر بولی تو ریحان نے اس کی جانب دیکھا مگر اب وہ اپنی پلیٹ میں بریانی ڈال رہی تھی۔رائتے کا باؤل دور رکھا تھا۔اپنے بھاری ڈوپٹے کے ساتھ وہ آگے نہیں ہو پارہی تھی جبکہ کسی کی مدد لینا اس کی شان کے خلاف تھا۔ریحان نے رائتہ اور سلاد اٹھا کر آگے رکھا تو اس نے نظر ترچھی کر کر اسے دیکھا ۔پھر اگنور کرتی کھانے لگی۔ “آپ بھی تو کھا لیں۔” ٹیبل کے ایک جانب ساری خواتین بیٹھی تھیں ،اجیہ بھی ان کے ساتھ تھی مگر واسع اس کے ساتھ بیٹھ کر اس کی کرسی کو باقی کرسیوں سے تھوڑا سا پیچھے کر چکا تھا۔وہ اپنی کزنز کی نظروں سے دور تھی۔واسع اس کے سامنے ہو کر اس کو کھانے کی چیزیں پکڑا رہا تھا۔ویٹرز کو اس نے یہاں آنے سے منع کردیا تھا ۔واسع کو نہ کھاتے دیکھ کر اجیہ نے کہا تھا۔ “تم کھا لو میں بھی کھالوں گا۔” وہ نرمی سے بولا تھا۔حفصہ بیگم مسکرارہی تھی،اپنی بیٹی کو خوش دیکھ کر۔ “نہیں آپ بھی کھائیں۔” اپنی ہی پلیٹ اس کے سامنےکرتی وہ بولی تو واسع اس کے ساتھ ہی کھانے لگا۔ “ماشااللہ!” حفصہ بیگم اور رفعت بیگم نے ایک ساتھ بولا تو اجیہ جھینپ گئی۔ “تایا ابو! میں گھر جا رہا تھا ، امی اکیلی ہیں وہاں۔” ریحان کھانے کے بعد جاوید صاحب سےاجازت مانگ رہاتھا۔ “ہم سب بھی ساتھ ہی چلتے ہیں۔” انہوں نے کہا تو اس نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔اسے بحث کبھی بھی پسند نہیں تھی۔فون رنگ ہوا تو ایکسکیوز کرتا ایک جانب چلا گیا ۔جاوید صاحب باقی سب کو چلنے کا بولنے لگے اور ارمینہ کو برائڈل روم سے لانے کا اشارہ کیا۔ جو کھانے کے بعد واش روم کا کہہ کر اجیہ کے ساتھ برائڈ ل روم میں چلی گئی تھی۔