کچھ دنوں سے نجانے کیوں اس کا دل بے چین رہنے لگا تھا،وہ چاہ کر اس لڑکی کے چہرے کوبھلا نہیں پا رہا تھا۔وہ خوبصورت تھی ،لیکن اس کے شوشل سرکل میں اس سے بھی زیادہ خوبصورت لڑکیاں تھیں ۔اس کی نظر کبھی کسی پر نہیں ٹھری مگر اس لڑکی کی کشش اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔آزاد نے لمبی سانس لیتے ہوئے ریوالنگ چیئر کی پشت کی ٹیک لگائی تھی۔اس لڑکی کو یاد کرتے ہی دھڑکن جیسے تھمنا ہی بھول گئی تھی۔وہ گھبرا گیا تھا۔اٹھ کر کمرے سے ہی نکل آیا۔وہ تیز قدموں سےچلتا گھر سے نکل گیا تھا۔کار لے جانے کا بھی اسے خیال نہیں رہا تھا۔وہ نہیں جانتا تھا کہ کہاں جا رہا ہے مگر اسے جانا تھا ۔اس کے قدم تھمے تھے سامنے آتے وجود کو دیکھ کر ۔وہ سن ہو گیا تھا ،جبکہ لڑکی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔پھر اس کے سائیڈ سے ہو کر آگے بڑھ گئی۔ “کون ہو تم؟” وہ فورا اس کے پیچھے لپکا تھا۔اس کے سوال پر اس لڑکی کے چہرے پر سخت تاثرات آئے تھے۔ “ایکسکیوز می!” وہ سنجیدگی سے کہتی آگے بڑھ گئی تھی۔ “تم میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔تمہارےآنسو مجھے تکلیف دے رہے ہیں ۔پلیز بتا دو کون ہو تم ؟” وہ التجائی اندا زمیں بولا تھا جبکہ اس لڑکی کےقدم تیز ہو گئے تھے۔آزاد اسے جاتے دیکھ رہا تھا پھر اس کی نظر زمین پر پڑی پائل پر گئی۔اس نے جھک کر وہ پائل اٹھا لی تھی۔وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی تھی مگر آزاد کے دل میں پائل واپس کرنے خیال نہیں آیا تھا۔وہ وہیں کھڑا اسے نظروں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہا تھا۔ محبت کے صحیفوںمیں جہاں تحریف ہوتی ہے!! وہاں پھر ہجر کی آیت کی تصنیف ہوتی ہے!! محبت تو ہے —لیکن انوکھا ربط ہے کوئی مجھے اک شخص کی تکلیف سےتکلیف ہوتی ہے!!
“اچھی نہیں آرہی!” کمرے میں ہر جگہ وہ کھڑی ہو کر سیلفی لینے کی کوشش کر چکی تھی مگر اسے کوئی بھی پسند نہیں آرہی تھی۔تھک کر وہ ایسے ہی بیڈ پر لیٹ گئی۔ “یہ میری دھمکی کتنی سیریس لیتا ہے۔” نیند کی وادی میں جاتی وہ گھڑی میں بارہ بجتے دیکھ کر بولی تھی،پھر خود ہی ہنسی تھی۔ “صحیح جا رہی ہو ارمینہ! اسے کبھی شوہر والی فیلنگ نہ آنے دینا ۔” اپنا کندھا تھپکتی وہ خود کو ہی سمجھا رہی تھی۔ “ناشتہ نہیں بنانا—-“ منہ بسورتی وہ صبح جاوید صاحب کا دیا فرمان یاد آتے ہی بولی تھی۔خود سے باتیں کرتیں وہ ویسےہی سو گئی تھی۔کمرے کا دروازہ کھول کر ریحان اندر آیا تو اسے بنا چینج کئے سوتے دیکھ کر اسے عجیب لگا ۔اس نے آگے بڑھ کر اسکے پاؤں سینڈلز سے آزادکرتے ہوئے اس پر کمفرٹر ڈال دیا تھا۔ پھر اپنی جگہ پر اپنا بستر ڈالنے لگا ۔جو اس نے الماری میں ہی نفاست سے سیٹ کیا تھا ۔وہ تھک گیا تھا۔زندگی میں اس نے اپنا ہر فیصلہ لینے کے بعد اس فیصلے کی ذمہ داری نبھائی تھی۔اس بار وہ مجبور ہو گیا تھا،وہ مزید ذمہ داریاں نہیں نبھانا چاہتا تھا،اس نے ارمینہ کی جانب دیکھا۔ایک عجیب سی کیفیت اس پر طاری ہوئی تھی،وہ سمجھ نہیں پایا تھا،شاید وہ احساس ِکمتری کا شکار ہو رہا تھا یا پھر وہ بھاگنا چاہ رہا تھا اس رشتے سے۔سوچتے سوچتے وہ نیند کی وادی میں چلا گیا تھا۔ “نہیں بناناناشتہ! نہیں—-“ نیند میں بڑبڑاتے ہوئے اس نے یک دم آنکھیں کھولیں تھی۔اپنی ہی پہنی جیولری نے اس کے چہرے ،گلے اور کان حتی کے سارے جسم کو درد میں مبتلا کر دیا تھا۔اس نے جلدی سے اٹھ کر زیور اتارے تھے۔ “کیابدتمیزی ہے ارمینہ؟ ایسی ہی سوگئی۔” اپنے دکھتے سر کو پکڑتی وہ خودکو کوس رہی تھی۔گھڑی میں ٹائم دیکھا جو دس بج رہے تھے۔سر درد بھلا کر اس نے ریحان کی جگہ پر دیکھا جو حسب توقع غائب تھا۔ “افف!” وہ کپڑے لے کر واش روم میں بند ہوگئی ۔آدھے گھنٹے بعدوہ باہر نکلی تھی۔خود کو فریش محسوس کرتی اس نے لمبی سانس لی تھی۔دروازہ ناک ہوا تو اس کا منہ بگڑا۔اس نے آگے بڑھ کر جیسے ہی دروازہ کھولا ،جاوید صاحب فکر مند سے کھڑے تھے۔ “ارمینہ بچے! طبیعت کیوں خراب لی؟” اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے وہ فکر مند سے بولے تھے۔ “میری طبیعت؟” ارمینہ نے اچنبے سے انہیں دیکھا۔ “بیٹھو تم! اور نہائی کیوں بخار میں؟” ارمینہ کے چہرے پر حیرت آئی تھی۔ “مجھے کہاں ہے بخار؟” “جانتا ہوں اب نہیں ہے،ریحان نے بتایا تھا تمہاری طبیعت خراب رہی ہے رات کو۔” “ریحان نے؟” اس نے منہ منہ میں بولا ،پھر منہ بسورتے لاڈ سے رخ پھیر گئی۔ “آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟میں ٹھیک ہوں اب ،مجھے ناشتہ بنانا جانا ہے۔” منہ پھلائے وہ کہتی کھڑی ہوئی تو جاوید صاحب نے اسے واپس بیٹھایا۔ “کچھ نہیں کرنا ،تمہاری ماں لے آتی ہے ناشتہ بھی۔آرام کروتم۔” ناراضگی دیکھانے کا موڈ بناتی وہ جاکر لیٹ گئی۔جیسے پروٹوکول کی اسے عادت تھی ابوہی واپس مل رہا تھا تو وہ خوش ہو گئی تھی مگر نخرہ کرنا لازمی تھا۔
“ریحان! یہ فائل دیکھو۔مجھے جاننا ہے یہ کس کا کام ہے؟” جہانگیر صاحب نے ریحان کےسامنے ایک فائل رکھی تھی۔ان کی کمپنی کا بہت بڑا آرڈر اس فائل کی وجہ سے ان کی کمپنی کو نہیں ملا تھا۔ “میں معلوم کرواتا ہوں سر!” ریحان سنجیدگی سے کہہ کر اٹھ کر کیبن سے نکل آیا تھا۔اپنے گھر کے مسئلے میں وہ دھیان نہیں پایا تھا کہ کوئی ان کی کمپنی کا ہی غداری کر گیا تھا۔ “ہائے!” یک دم سامنے آتے آزاد کی آواز نے اسے خیالوں سے باہر نکالاتھا۔ “یار ! زبان کا استعمال بھی کر لیا کرو۔” آزاد نے چڑتے ہوئے کہا تو وہ مسکرایا تھا۔ “کیسے آنا ہوا؟” آزاد کا آفس آنا دنیا بدل جانےکے مترادف تھا۔ “یار ڈیڈ دوستوں کے ساتھ جانے نہیں دے رہے،تم میری سفارش کرو ناں۔” آزاد نےاس کی حمایت حاصل کرنا چاہی ۔ “وہ اپنی جگہ پر صحیح ہیں۔تمہیں نہیں جانا چاہیئے۔” “تم صحیح ڈیڈ کے چمچے ہونے کا فرض ادا کرتے ہو۔” آزاد نے چڑتے ہوئےکہا تو ریحان نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔ “چھوٹی سی زندگی ہے کب ختم ہو جائے،کون جانتا ہے؟کیا میں اپنی خواہشات بھی پوری نہ کروں؟” آزاد کی بات پر اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ “تمہاری یہی بات شاید انہیں تکلیف پہنچاتی ہے۔” ریحان نے سنجیدگی سے کہا تو آزاد نے کیبن کی جانب دیکھا جہاں جہانگیر صاحب کھڑے خفگی سے اسے دیکھ رہے تھے۔ “کلاس لگنے والی ہے دعا کرنا۔” آہستگی سے کہہ کر وہ جہانگیرصاحب کے پاس گیا تھا مگر وہ اندر چلے گئے تھے۔ریحان بھی سر جھٹکتا آگے بڑھ گیا تھا۔
“کہو پھر نخریلی کزن؟ کیسی جارہی ہے شادی شدہ زندگی؟” ایک ہفتہ ہو گیا تھا ان کی شادی ہوئے،مگر وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے اجنبی بنے ہوئے تھے۔ ارمینہ نے اسے دیکھا نہیں تھا۔اس کے سونے کے بعد کمرے میں آتا تھا اور اٹھنے سے پہلے چلا جاتا تھا۔روٹین نارمل ہو گئی تھی۔اب بھی وہ اپنے لئے جوس نکال رہی تھی جب افرہیم اس کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ “جیسی بھی جارہی ہو؟ تمہیں اس سے مطلب نہیں ہونا چاہیئے۔” سختی سے کہتی وہ اسے راستے سے ہٹاتی کچن سے نکل آئی تھی۔ “اپنی مرضی کے خلاف کچھ برداشت نہ کرنے والی لڑکی ! ایک کم شکل والے لڑکے کے سامنے ہار گئی؟—– کیا فائدہ اس سب کا جو اس نے تمہیں دیا ہے،کیا اس کے ساتھ اپنی دوستوں کے پاس جا سکتی ہو؟” وہ اس پر طنز کر رہا تھا ۔وہ صبر کے گھونٹ بھرتی اپنے کمرے میں آگئی تھی۔ اس کی فرینڈز اسکی اچانک شادی کے بارے میں جان کر ریحان سے ملنے سے ضد کر رہی تھیں۔افراہیم کا طعنہ دینا وہ اچھے سے سمجھ رہی تھی۔اس نے گلاس فرش پر پھینک دیا تھا۔غصہ تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لےرہا تھا۔ “سب تمہاری وجہ سے ہورہا ہے۔” دل ہی دل میں وہ ریحان سے مخاطب تھی۔
“بھابھی!” اجیہ کچن میں تھی جب اچانک ارسم وہاں آیا۔اجیہ نے فورا ہی چہرہ کور کیا تھا۔ “جی بھائی؟” رخ موڑے اس نے پوچھا تو ارسم سر کھجانے لگا ۔وہ کل ہی واپس آیا تھا ،ہاسٹل میں رہتا تھا ،لیکن اجیہ کا رویہ اسے عجیب لگا تھا۔اب بھی جیسے اس نے چہرہ چھپایا تھا اسے برا لگا تھا مگر اس نے جتانا مناسب نہ سمجھا ۔ “کھانے کا ہی پوچھنا تھا کب تک تیار ہوگا؟” بات بناتا وہ پوچھ کر واپس مڑ گیا تھا۔ “واسع! “ رات میں واسع سونے کے لیٹنے لگا تو اجیہ نے اسے پکارا۔ “کیا ہوا؟” اسے پریشان دیکھ کر واسع نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ “وہ ارسم بھائی!—-“ وہ کہہ کر چپ ہوئی تو واسع نے اس کا ہاتھ تھاما۔ “کچھ کہا ہے اس نے؟” واسع نے پوچھا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔ “وہ شاید مجھ میں بہن ،دوست ،بھابھی سب چاہتے تھے لیکن میں —-“ اجیہ بولتے بولتے چپ ہوئی تو واسع مسکرایا۔ “اتنا سا دماغ ہے اس کو بھی سوچنے میں صرف کر دو گی۔” اس کے سر پر چپت لگاتا وہ بولا تو اجیہ نے خفگی سے منہ موڑ لیا۔واسع کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ “ادھر آؤ تم!” اسے ساتھ لگاتا وہ اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ “تم اس کی بہن بن سکتی ہوں ،اس کا خیال رکھ سکتی ہو،اس کی بھابھی بن کر اسے ڈانٹ سکتی ہو مگر دوست تم صرف میری ہو سمجھی؟اس کی دوست ہم چندسال بعد لے آئیں گے۔” “واسع نے اسے سمجھایا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنےلگی۔ “میں اس سے بات کروں گا ،تم ذہن پر ذور مت ڈالو۔” واسع جانتا تھا اس وقت دونوں جانب کے فریقوں کو سمجھانا تھا۔
ریحان کمرے میں آیا تو ارمینہ جاگ رہی تھی۔بیڈ کے کنارے پر بیٹھی وہ پاؤں ہلا رہی تھی۔ریحان کے اندر داخل ہوتے ہی وہ اس کے سامنے آئی۔ “ابو کو سمجھاؤ! میں نہیں رہ سکتی تمہارے ساتھ اس رشتے میں۔میری دوستیں ہنسیں گی مجھ پر۔مجھے نہیں برداشت کسی کے طعنے؟” ارمینہ کی بات سنتے ہوئے ریحان کے تاثرات عجیب ہوئے تھے۔ “اب ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ تم جانتے ہو ہمارا کو ئی میچ نہیں ہے،میں نے اتنے رشتے ٹھکرائے تھے کیونکہ وہ سب میرے لحاظ سے اچھے نہیں تھے،مجھے اپنے جیسا لائف پارٹنر چاہیئے تھا ناکہ تمہارے جیسا۔” ارمینہ بول رہی تھی جبکہ ریحان کے تاثرات اب ایسے ہوگئے تھے گویا اسے فرق نہیں پڑتا ارمینہ کچھ بھی بولے۔ “اس میں برا ماننے والی بات نہیں ہے،تم جانتے ہو اپنی اصلیت۔” انگلی ادھر ادھر گھماتی وہ بولی تو ریحان اس کے پاس سے گزر کر اپنا بستر نکال کر وہ لگانے لگا۔اپنے اگنور کئے جانے پر وہ بھڑکی تھی۔ “تم جواب کیوں نہیں دے رہے ہو؟ کچھ کہا ہے تم سے میں نے؟ بات کروابو سے۔۔” وہ بول رہی تھی جبکہ ریحان نے بسترمیں لیٹ میں سر پر چادر اوڑھ لی تھی۔ “گونگے بہرے انسان!” غصے سے کہتی وہ اپنی جگہ پر جا کر لیٹ گئی تھی۔اتنا تو وہ جان ہی گئی تھی کہ وہ بات ضرور کرے گا ،کیونکہ اب تک اس نے جو بھی کہا تھا اس کی بات مانی گئی تھی۔لیکن ریحان کا اسے جواب نہ دینااس کےغصے کو بڑھا رہا تھا۔وہ اسے گھورتی ہوئی سونے کی کوشش کرنے لگی۔
“یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہیں آپ بھائی؟” ناشتے کے وقت واسع نے بھی ارسم کا عجیب رویہ نوٹ کیا تھا۔وہ اجیہ کی آنکھوں میں ہی اداسی دیکھ کر پہچان گیا تھا۔اس لئے ارسم سے بات کرنے کا سوچا تھا۔ “وہی باتیں جو ضروری ہیں۔” واسع نے زور دیتے ہوئے کہا۔ “اپنی بھابھی کے ساتھ اکھڑ رویہ کیوں؟” واسع نے پوچھا ۔ “بھابھی نے شکایت کی ہے؟” ارسم کو برا لگا تھا۔ ” میں وہیں موجود تھا ارسم ! اب بتاؤ کیا وجہ ہے بے رخی کی؟” واسع نے پوچھا تو ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ “ارسم!!” واسع نے اسے پکارا تو اس نےمنہ بگاڑا۔ “بھائی! پھر آپ کو برا لگ جائے گا۔” اس نےچڑتے ہوئے کہا۔ “تو کیااب مجھے برا نہیں لگ رہا؟” واسع نے دو بدو کہا تو ارسم نے سرد آہ بھری۔ “وہ عجیب بیہو کرتی ہیں ۔پہلے تو بات کر لیتی تھیں ،اور اب مجھے دیکھ کر منہ چھپا لیتی ہیں ،کیا میں بر ی نیت والالڑکا ہوں؟ مجھے برا لگا ان کا ایسا کرنا۔” واسع نے اس کی شکایت سنی تو اسے بےساختہ اپنا رویہ یاد آیا تھا۔اسنے سر جھٹکا تھا۔ ” ماضی کے حوالے اچھے نہ ہوں تو نہیں دینے چاہیئے۔تمہاری بھابھی پردہ کرتی ہے—-“ “لیکن پہلے—–“ ارسم نےاس کی بات کاٹی تو واسع نے روکا۔ “میری پوری بات سن لو۔” ارسم نے ہاں میں سرہلایا۔ “پردہ نامحرم سے کیا جاتا ہے،ضروری نہیں نامحرم بری نظروالا ہو۔ وہ تمہیں اپنے بھائی جیسا سمجھتی ہے،اس لئے اس کی مدد کرو،نہ کرو اس کو ذہنی پریشانی دو۔ایک بات اور آئندہ کبھی پہلے کا ذکر مت کرنا ،یہ اچھی بات نہیں ہوتی کسی کو ماضی کا طعنہ دینا۔” واسع نے اسے سمجھایاتو اس نےہاں میں سرہلایا۔ “میں سوری کر لیتا ہوں ان سے۔” وہ اٹھ کر جانے لگا تو واسع نے اسے روکا۔ “بعد میں کرلینا ،اب ہمیں جانا ہے۔” واسع نے کہا تو ارسم کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آئی۔ “چھٹی کا دن سسرال ڈے منایا جارہا ہے۔” اس نے جیسےہی چھیڑا تھا واسع ہنسا تھا۔ “بہت جلد تمہارا بھی انتظام کر دیں گے ہم فکر مت کرو۔” واسع اسکے بال بگاڑتا کمرے سے نکل گیا تھا۔
“ارمینہ آپی! آپ کی سہلیاں آئی ہیں۔کمرے میں بھیج دوں؟” رامین نے کمرے میں جھانکا تو ارمینہ کے چہرے پر پریشانی آگئی۔نیچے ریحان موجود تھا۔ “انہوں نے ریحان کو تو نہیں دیکھا؟” ارمینہ نے پوچھا تو رامین نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ “دیکھ کیا رہی ہو؟کچھ پوچھا ہے میں نے؟” ارمینہ نے غصے سے پوچھا ۔ “مل لی ہیں وہ بھائی سے ،بڑے ابو نے ملوا دیا تھا ۔” رامین منہ بگاڑ کر بتا کر واپس چلی گئی تھی جبکہ ارمینہ کمرے میں چکر کاٹنے لگی۔ “میرا مذاق بنوا دیا ،اب وہ سب میرا مذاق—“ وہ آگے سوچ ہی رہی تھی جب اس کی دوستیں کمرے میں داخل ہو ئیں۔ “ہائے ارمینہ! یارتم تو چپکے سے شادی کروا کر عید کا چاند ہی ہو گئی ہو،ملنے تک نہیں آتی۔” اس کی ایک دوست نے شکوہ کرتے ہوئے اسے گلے لگایا تو وہ بد وقت جبرا مسکرائی تھی۔ “یار! ہم ملے تمہارے ہسبنڈ سے،سوبر اور ڈیسنٹ۔مان گئے تمہاری چوائس کو۔” دوسری دوست نے کہا تو ارمینہ نے اسکا چہرہ دیکھا ،کہیں بھی مذاق کی رمق نہیں تھی۔ “انہیں وہ اچھا لگا؟” وہ دل ہی دل میں حیران ہوئی تھی۔ “یار ! نیچر تو ہم نے دیکھ لی ان کی،بہت ہی سوفٹ نیچر ہے،تم ڈھونڈتی تو ضرور اپنے جیساڈھونڈتی۔” اب کی بات اس کی دوست نے مذاقا کہا تھا۔وہ مزید بھی ریحان کی تعریف کر رہی تھیں ساتھ ساتھ ارمینہ کو اسکی نیچر کے طعنے بھی دے رہی تھی مگر وہ برا منائے بغیر ان کی باتیں سن رہی تھی۔
آج پھر وہ ناجانے کیوں اس کاانتظار کر رہی تھی۔ آج چھٹی ہونے کے باوجود وہ گھر پر نہیں تھا ۔اس کی دوستوں نے ریحان کے حوالے سےاس پر طنز نہیں کیا تھا ، کل جو موڈخرا ب ہوا تھا آج بالکل نارمل تھا۔وہ اپنی دوستوں کی باتیں یاد کرتی مسکرا رہی تھی،ساتھ ساتھ ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی۔ دروازہ ناک ہوا تو اپنے ہاتھوں پر لوشن لگاتی وہ رکی تھی۔اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا تو دس بج رہے تھے۔ “اس سے زیادہ کوئی وقت کا پابند ہوگا۔” وہ دھیرے سے بڑبڑائی تھی۔تین باردستک دے کر وہ اندر آیا گیا تھا۔آج شاید اپنی عینک اتارنا بھول گیا۔وہ ہلکے رنگ پہنتا تھا،جو اس پر سوٹ کرتے تھے ورنہ اس نے ہمیشہ اپنے بھائیوں کو تیز بھڑکیلے بقول دادی کے خالص زنانہ رنگ زیب تن کرتے دیکھا تھا۔پہلی بار وہ اس کی ڈریسنگ سے متاثر ہوئی تھی۔وہ اب اپنا بستر اپنی مخصوص جگہ پر بچھا رہا تھا۔وہ نامحسوس انداز میں اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر رہی تھی۔اپنی عینک گھڑی والٹ نکال کر اس نے تکیے کے پاس رکھا تھا۔اس نے اس کو جوتے کے بنا دیکھاتو آنکھیں سکوڑیں۔شاید جوتے وہ باہر ہی اتار آیا تھا۔ “تم شاید بھول رہے ہو میں تمہاری ذمہ داری ہوں اور میرا خرچہ تم پر فرض ہے۔” ناجانے کیوں اس نے یہ بات کی تھی مگر اگلے پل حیران رہ گئی تھی جب وہ اپناوالٹ بیڈ پر رکھ کر واپس بیٹھ گیا تھا۔ “تم گونگے ہو؟” اس کے سوال پر ریحان نے ایک نظر اسے دیکھا تھا پھر سر جھٹک کر اپنا کام کرنے لگا۔ارمینہ کو غصہ آیا تھا۔اس نے والٹ اس کے گود میں پھینکا تھا۔ “ڈو ہیل ود یور اٹیٹیوڈ۔” تنفر سے کہتی وہ لائٹ آف کرتی بستر میں گھس گئی تھی۔ “میں بلا وجہ ہی اس کو اچھا سمجھ رہی تھی۔” غصے سے سوچتی وہ کروٹ بدل گئی تھی جبکہ ریحان نے سر جھٹکا تھا۔
“لے لینے چاہیئے تھے اس کے والٹ سے پیسے،بلاوجہ واپس کیا۔خالی کر کر دینا چاہیئے تھا۔” کچھ دیر پہلے ہی اس کی دوست کا فون آیا تھا جس نے اپنی اچانک ہی منگنی کی خبر اسے سنا دی تھی۔اس کو گفٹ اور ڈریس چاہیئے تھا۔رفعت بیگم اسے صاف صاف شادی کا ڈریس پہننے کا مشورہ دے چکی تھیں جبکہ جاوید صاحب آج صبح ہی رضوان کے ساتھ چلے گئے تھے عباد صاحب کی قبر پر،دوسرا شہر تھا شام تک واپسی ممکن نہیں تھی اور اسے شام میں جانا تھا۔افسوس کرتی وہ الماری میں سے کوئی ڈریس نکالنے لگی تو اندر رکھے لفافے پر اس کی نظر پڑی۔ “یہ کیا ہے؟” اس نے کھول کر دیکھا تو اندر رکھے ہزار ہزار کے کئی نوٹ دیکھ کر اس کے چہرے پر چمک آئی تھی۔کچھ دیر بعد ہی وہ مارکیٹ جانے کے لیے تیار تھی۔ “کہاں جارہی ہو؟” رفعت بیگم نے اسے ٹوکا تھا۔ “شاپنگ۔” ایک لفظی جواب دے کر اس نے فل ناراضگی دیکھائی تھی۔ “پیسے کہاں سے آئے ؟” ماں تھیں،فورا طنزیہ سوال کیا تھا۔ “ریحان نے دیئے ہیں۔” اسے عجیب تو لگا تھا لیکن جتانے کے لیے بتانا ضروری تھا۔ “اس لڑکے کا بھی دماغ خراب ہے ،کیا ضرورت ہے اس فضول خرچ کو پیسے دینے کی۔” وہ غصے سے بولی تھیں جبکہ ارمینہ منہ بنا گھر سے نکل گئی تھی۔ “میں فضول خرچ ہوں۔خود تو دیئے نہیں پیسے اور جب میرے شوہر نے دے دیئے تو اعتراض ہورہا ہے۔” وہ مسلسل غصے سےبڑبڑا رہی تھی،اس بات پر دھیان دیئے بنا کہ وہ ریحان کو اپنا شوہر کہہ چکی تھی۔وہ رامین کو ساتھ لےجانے والی تھی لیکن غصے کی وجہ سے اکیلی ہی نکل آئی تھی۔
جہانگیر صاحب کے کیبن میں اس وقت مکمل خاموشی تھی۔جہانگیر صاحب ہاتھ میں پکڑی فائل پڑھ رہے تھے۔سامنے ہی کرسی پر ریحان بیٹھا تھا جبکہ اس کے پیچھے اشفاق کھڑا تھا۔کیبن کا دروازہ کھول کر آزاد اندر آیا تو اندر کا گرم ماحول دیکھ کر ایک جانب رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔ “اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہو اشفاق؟” جہانگیر صاحب کی کرخت آواز پر اشفاق کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔اسے تو لگا تھا وہ کبھی پکڑا نہیں جائے گا لیکن ریحان اگلے دن ہی اس کا پول کھول دیا تھا۔ “سر!۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔” “تمہارے ماتھے کا پسینہ،لہجے میں لچک اور ڈر صاف بتا رہا ہےکہ تم نے یہ کیا ہے۔” کھڑے ہوتے انہوں نے غصے سے فائل اس پر پھینکی تھی۔ “میرا نمک کھا کر مجھ سے غداری کرتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آئی؟” وہ غصے سے آگے آتے اس کا گریبان پکڑ چکر تھے۔ “معاف کر دیں سر!” اشفاق گڑگڑایا تو آزاد نے ریحان کی طرف دیکھا جو سپاٹ چہرہ لیے بیٹھا تھا۔وہ اٹھ کر جہانگیر صاحب کے پاس آیا۔ “ڈیڈ!وہ سوری بول رہا ہے پلیز آپ ہائیپر نہ ہوں۔” ان کے کندھےپر ہاتھ رکھتا وہ بولا تو جہانگیر صاحب نے ایک غصے بھری نگاہ اس پر ڈالی۔ “سوری بولنے سے میرا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی ہوجائے گی؟” جہانگیر صاحب نے اشفاق کو دیکھتے ہوئے پوچھا تو آزاد نے پھر سے مداخلت کی۔ “ڈیڈ!وہ انسان ہے غلطی ہوگئی اس سے۔” “آزاد!تم ان معاملات کو نہیں سمجھتے اس لیے ان کے بیج میں مت پڑو۔اسے نقصان کی بھرپائی کرنا ہوگی ورنہ جیل میں سڑے گا یہ۔” انہوں نے غصے سے کہا تو آزاد کی ضدی طبیعت نے جوش مارا تھا۔ “سب سمجھتا ہوں میں ڈیڈ!چھوٹا بچہ نہیں ہوں ،آپ کیا کریں گے بھرپائی کا ڈیڈ!جب بیٹے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے،معاف کر دیں اسے شاید آپ کے بیٹے کی موت آسان ہوجائے۔” جہانگیر صاحب کی گرفت اشفاق کے گریبان پر ڈھیلی ہوئی تھی۔ریحان فورا اٹھ کر جہانگیر صاحب کے پاس آیا تھا۔ “سر!” انہیں کرسی پر بیٹھا کر اس نے ایک سخت نظر آزاد پر ڈالی تھی۔جو اب شرمندہ ہورہا تھا۔ “سوری ڈیڈ!” ان کےقدموں میں بیٹھ کر شرمندگی سے بولا تھا۔ ” اگر اپنی ساری دولت اور جان دینے کے بعد مجھے میرے بیٹے کی زندگی مل جاتی ہے تو میں یہ بھی کرنے کو تیار ہوں۔” ریحان اشفاق کو باہر جانے کا اشارہ کر چکا تھا۔جہانگیر صاحب کی بات پر آزاد کو افسوس نے آن گھیرا تھا۔ “موت کی بات کرنا آسان ہے لیکن یہ الفاظ کسی کو زندہ درگور کرنے کے مترادف بن جاتے ہیں۔” ریحان اسے مزید شرمندہ کرتا باہر چلا گیا تھا ان باپ بیٹےکو اکیلا چھوڑ کر۔ “ڈیڈ!!” آزاد نے انہیں پکارا۔ “بہت کوشش کر رہا ہوں اپنے بیٹے کو بچانے کی،لیکن۔۔۔۔۔۔” “ڈیڈ!” جہانگیر صاحب کا رونا اسے تڑپا گیا تھا۔وہ ان کے گلے لگ گیا تھا۔ “میں ٹھیک ہوں ڈیڈ!” ایک جھوٹی تسلی جو روز وہ خود کودیتا تھا۔وہ جانتا تھا ہر گزرتا دن اسے موت کے قریب لے جارہا تھا لیکن وہ ظاہر نہیں کرتا تھا۔آج غصے میں وہ بول گیا تھا جس کا اسے پچھتاوا ہورہا تھا۔جہانگیر صاحب اس کی تسلی سے بہل نہیں سکتے تھے لیکن اکلوتے بیٹے کو سینے سے لگے محسوس کرتے وہ اللہ سے اس کی زندگی مانگ رہے تھے۔
“اپنے ریحان بھائی کا نمبر بھیجو مجھے ابھی۔” وہ تھک چکی تھی۔ شاپنگ کے بعد وہ پارلر آگئی تھی۔اب ریڈی ہوکر اسے جانے کی فکر ہوئی تھی۔ریحان اور اس کی کار کا خیال آتے ہی اس چچی کے نمبر فون کیا تھا۔رامین سے نمبر مانگ کر وہ فون کٹ کرکر انتظار کرنے لگی۔میسج ملتے ہی اس نے فورا نمبر ڈائل کیا تھا۔فون ریسیسو ہوتے ہی وہ بول پڑی تھی۔ “مجھے ارسلہ کی منگنی میں جانا ہے ،لوکیشن بھیج رہی ہوں،مجھے وہاں سے پک کر لو۔” آرڈر دے کر اس نے فون بند کر دیا تھا۔اب پرسکوں ہوکر اسے لوکیشن بھیج رہی تھی۔ریحان فون ہاتھ میں پکڑے نفی میں سر ہلا رہا تھا۔جہانگیر صاحب کے سیکریڑی کو بتا کر آفس سے نکل آیا تھا۔اس کی بھیجی لوکیشن پر پہنچ کر اس نے ارمینہ کو میسج کیا تھا۔ “یہ میری ہر بات خاموشی سے مان لیتا ہے۔” میسج دیکھتے ہی وہ بڑبڑائی تھی اور پارلر سے باہر آگئی۔اسے کار کے اندر بیٹھا دیکھ کر وہ چڑی تھی۔ “دروازہ تو کھول دو۔میرے ہاتھ میں سامان ہے۔” ریحان نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا تو ایک کلچ اور شاپنگ بیگ دیکھ کر باہر نکل کر دروازہ کھول دیا۔وہ اترا کر اندر بیٹھی تھی۔بے بی پنک فراک پہنے وہ بلاشبہ پیاری لگ رہی تھی لیکن ریحان نے اس پر دوبارہ نظر نہیں ڈالی تھی۔یہ بات سارے راستے ارمینہ نے نوٹ کی تھی۔ “یہاں سے دائیں۔” اسے راستہ سمجھاتی وہ بار بار اسے دیکھ رہی تھی۔ “کیا تم سچ میں گونگے ہو؟” ارمینہ نے فکرمند ہوتے ہوئے پوچھا مگر جواب ندارد۔فون رنگ ہونے پر ریحان نے فون پک کیا تھا۔کچھ دیر وہ دوسری طرف کی بات سنتا رہا پھر فون کٹ کردیا۔ “سچ میں گونگا ہے۔” ارمینہ کو شدید صدمہ پہنچا تھا۔ “لیکن اسے اتنی اچھی جاب کیسے مل گئی؟” اس کی بڑبڑاہٹ سن کر ریحان جو اس کی غلط فہمی دور کرنے کےلیے بولنے والا تھا،ارادہ بدلتا مسکرا دیا تھا۔ارمینہ ابھی تک ریحان کی ذات میں الجھی تھی۔ پرکھنا مت، پرکھنے میں کوئی اپنا نہیں رہتا کسی بھی آئینے میں، دیر تک چہرہ نہیں رہتا
بڑے لوگوں سے ملنے میں، ہمیشہ فاصلہ رکھنا جہاں دریا سمندر سے ملا دریا نہیں رہتا
محبت میں تو خوشبو ہے، ہمیشہ ساتھ چلتی ہے کوئی انسان تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا