“میں فون کردوں گی مجھے لینے آجانا۔ “ کھڑکی میں جھک کر اس نے ریحان کی جانب دیکھتے ہوئے اور پھر اندر بڑھ گئی۔ ریحان نے پچھلی سیٹ پر رکھے شاپنگ بیگ کو دیکھا۔ یقینا اس میں ارمینہ کے کپڑے تھے کیونکہ گفٹ تو وہ اس میں سے نکال کر لے جا چکی تھی۔ اس نے کار اسٹارٹ کر لی تھی۔ فون رنگ ہونے پر اس نےفون اٹھایا۔ “جی میری بات ہوئی تھی ریاض صاحب سے۔میں نے ایک اور سیٹ کا کہا تھا انہیں۔ “ “ہاں جی سر! بےشک اللہ کی مرضی سےہوتا ہے سب لیکن ہم کوشش تو کرسکتے ہیں۔ “ “میں کچھ دنوں میں ساری فارمیلٹیز پوری کرتا ہوں آکر۔ “ فون بند کر کر اس نے گہری سانس لی تھی۔
“ارمینہ یار! بھائی کو نہیں لائی تم؟ “ اس کی دوست نے پوچھا تو ارمینہ کو سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دے۔ “کیا سوچنے لگ گئی ہو؟ “ اس کے جھنجھوڑنے پرارمینہ نے اسے ہلکی سی گھوری سےنوازا۔ “اسے کام تھا کچھ تو مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔ “ بے نیازی سے کہتی وہ اپنے لیے کھانا نکالنے لگی۔ “تم جانتی ہو ،تمہیں ایک سمجھدار لائف پارٹنر ملا ہے۔سب کی قسمت ایسی نہیں ہوتی۔ اب تم وہاں ہی دیکھ لو۔ اتنے نخرے ہیں اس کے منگیتر کہ ہر چیز اپنی پسند کی رکھوائی ہے اس نے۔ غصہ تو ناک پر رہتا ہے۔ میرے سامنے ہی ایک مرتبہ وہ بنا لحاظ کیے ارسلہ کو ڈانٹ چکا ہے۔” انعم نے اسے رازداری سے بتایا تو ارمینہ نے بے ساختہ سامنے اسٹیج کی طرف دیکھا جہاں ارسلہ کے ساتھ کھڑا اس کا منگیتر جتنا خوبرو تھا، اتنا ہی مزاج کا الٹ تھا۔ “تو وہ کیوں کر رہی ہے منگنی؟ “ ارمینہ نے پوچھا۔ “تمہاری طرح کانشیئس ہے کہ لڑکا شکل و صورت کا اچھا ہو مگر۔۔۔۔۔” انعم اور بھی کچھ کہہ کر رہی تھی مگر وہ تو وہاں کھڑی ریحان اور سامنے کھڑے لڑکے کا موازنہ کر رہی تھی، ارسلہ کی آنکھوں کی نمی اور اس لڑکے کا ڈانٹنا اس نے بھی دیکھا تھا۔ اس کے بعد وہ نارمل نہیں رہ سکی تھی۔ ریحان کو میسج کر کر آنے کا کہہ دیا تھا۔ “تم خوش ہو ارسلہ؟ “ وہ اسے خداحافظ بولنے آئی تھی لیکن جانے کیسے یہ سوال کر بیٹھی۔ ارسلہ نے اس کے سوال پر مسکرانے کی کوشش کی۔وہ سمجھ گئی تھی کہ ذیشان کا رویہ اس نے بھی نوٹ کر لیا تھا۔ “تھوڑے سے غصے والے ہیں لیکن دل کے اچھے ہیں۔ “ ارسلہ نے جیسے اسے یقین دلانا چاہا تھا۔ارمینہ اس کے گلے لگ گئی۔ الفاظ اس کے پاس بھی نہیں تھے۔جو دل میں چل رہا تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی۔ ریحان کا میسج آیا تو مسکرا کر اس سے الگ ہوتی اسٹیج سے اتر گئی۔وہ خاموشی سے کار میں بیٹھ گئی تھی۔ ریحان نے اس کی غائب دماغی نوٹ کی تھی مگر کچھ بولنے سے گریز کیا تھا۔
آج اس کا ارادہ اتفاق سے ہٹ کر خود جا کر ملنے کا تھا۔ کتنی ہی دفعہ وہ کپڑے بدل چکا تھا مگر مطمئن نہیں ہو پارہا تھا۔ آخر کار وہ ایک بلیک شرٹ اور بلیک پینٹ پر مطمئن ہو گیا تھا۔ باہر کا موسم سرد تھا لیکن وہ اس وقت اتنا پرجوش تھا کہ سب کچھ بھلا چکا تھا۔ سیٹی کی دھن بجاتا وہ مسکراتا ہوا سیڑھیاں اتررہا تھا۔ جہانگیر صاحب اسے اتنا خوش دیکھ کر حیران ہوئے تھے اور ساتھ ساتھ اس کی دائمی خوشی کی دعا کی تھی۔لیکن وقت شاید قبولیت کا نہیں تھا۔ آزاد اسی پارک میں آیا تھا جہاں وہ اسے ہمیشہ دیکھائی دیتی تھی۔ نظریں اس کی متلاشی تھیں۔تبھی وہ اسے نظر آگئی تھی۔ کالی شلوار قمیض اور گلے میں کالاہی ڈوپٹہ ڈالےوہ زمین پر کچھ ڈھونڈ رہی تھی۔ چہرے پر پریشانی تھی آنکھوں میں آنسو چھلکنے کو بے تاب۔ آزاد کا ہاتھ بے ساختہ اپنی جیب پر گیا تھا جس میں اس کی پائل تھی۔ وہ آگے بڑھا تھا اور وہ لڑکی واپس مڑ گئی تھی۔ وہ اس کے پیچھے چل رہا تھا۔ وہ لڑکی ایک گھر کے سامنے رکی تھی۔ باہر لگی سنہری تختی پر ایک نام کنندہ تھا۔ وہ لڑکی اس نام پر ہاتھ پھیر رہی تھی پھر آنسو صاف کرتی اندر چلی گئی۔ پیچھے کھڑے آزاد پر آج ایک پہاڑ ٹوٹا تھا۔ وہ الٹے قدم لیتاوہاں سے بھاگا تھا۔
صبح صبح ہی پورے گھر کی بجلی بند ہوگئی تھی۔ارمینہ گھر والوں کی آوازیں سن کر کمرے سے نکلی تھی۔ باہر کےحالات دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کھل گئی تھیں۔ شمشیر پانی کی بالٹی بھر کر کچن میں لے جا رہا تھا،رامین منہ بسورے صحن کی جھاڑو لگا رہی تھی۔رفعت بیگم کچن میں سے ہی آوازیں لگا رہی تھیں۔جبکہ رضوان اور اس کے چھوٹے چچا مین سوئچ چیک کر رہے تھے۔ “ارمینہ!ادھر آ۔” رفعت بیگم کی نظر اس پر پڑی تو وہ جو رامین کو بلانے والی تھیں اسے ہی پکار لیا۔وہ منہ کے نقشے بگاڑتی ان کے پاس آئی تھی۔ “یہ ناشتہ لے کر جا تیری چچی اور ریحان کو دے۔کمرے میں ہیں دونوں۔” ریحان کا نام سن کر وہ حیران ہوئی تھی۔ “وہ آفس نہیں گیا ابھی تک؟” “یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا ارمینہ؟شوہر ہے تمہارا عزت سے بات کیا کرو۔” وہ الٹا اسے ہی سمجھانے لگی تو ارمینہ نے جانے میں ہی عافیت جانی۔ “بیٹا!وہ تھوڑی ضدی ہے ،تمہارے ابو بتاتے تھے ناں پیار محبت سے مان جاتی ہے۔” شمیم بیگم کی آواز سن کر اس نے دروازے کے پاس رک کر اندر جھانکا تھا۔ریحان ان کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔ “زبردستی کے رشتوں میں محبت کہاں ہوتی ہے امی!خاص کر وہاں جہاں ناپسندیدگی بھی ہو۔” ریحان بولا تو ارمینہ کا حیرت سے منہ کھل گیا۔ “تم پہل توکرو،دیکھنا ناپسندیدگی محبت میں بھی بدل جائے گی۔” شمیم بیگم نے کہا تو اٹھ کر بیٹھا۔ “امی!کچھ وقت تو مجھے دیں ۔میں کیسے سب اتنی جلدی قبول کر سکتا ہوں؟” ریحان کے بولنے پر وہ آنکھیں بڑی کیے مڑی تھی۔ “یہ گونگا نہیں ہے۔تو بولتا کیوں نہیں ہے؟” وہ بڑبڑائی تھی۔ “مجھے لگتا ہے ڈرامہ کر رہا میرے ساتھ۔کیسے مظلوم بن کر چچی سے باتیں کر رہا ہے۔” چڑ چڑے پن سے کہتی وہ باتیں سننے کے لیے جیسے ہی مڑی تھی باہر آتے ریحان سے ٹکرائی۔ٹرے وہ سنبھال چکی تھی۔ “تم۔۔۔۔۔تم دیکھ کر نہیں چل سکتے؟” وہ بد تمیزی سے بولی تھی مگر اگلے ہی پل اس کی نظر خود کو تکتی شمیم بیگم پر پڑی تو اس نے چہرے پر معصومیت سجا لی۔ “سوری مجھے نہیں پتا تھا آپ ہیں۔” اس کے اتنے تمیز سے بولنے پر شمشیر کے ہاتھ سے بالٹی چھوٹ کر فرش پر گری تھی جبکہ رامین تو بے ہوش ہونے کے درپے تھی۔ “ناشتہ کرلیں۔” ٹرے سامنے کرتی وہ بولی تو شمشیر اس بار بالٹی گرادینا ہی بہتر سمجھا۔جبکہ صحن میں پانی گرتا دیکھ کر رامین غصے سے چلائی تھی۔
نہ سہہ سکا جب مسافتوں کے عذاب سارے تو کر گئے کوچ میری آنکھوں سے خواب سارے
بیاض دل پر غزل کی صورت رقم کیے ہیں ترے کرم بھی ترے ستم بھی حساب سارے
بہار آئی ہے تم بھی آؤ ادھر سے گزرو کہ دیکھنا چاہتے ہیں تم کو گلاب سارے
یہ سانحہ ہے کہ واعظوں سے الجھ پڑے ہم یہ واقعہ ہے کہ پی رہے تھے شراب سارے
بھلا ہوا ہم گناہ گاروں نے ضد نہیں کی سمیٹ کر لے گیا ہے ناصح ثواب سارے
فرازؔ کس نے مرے مقدر میں لکھ دیے ہیں بس ایک دریا کی دوستی میں سراب سارے
کمرے میں اندھیرا کیے وہ ریوالونگ چیئر سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔کمرے میں گونچتی چیئر کی آواز دروازہ کھلنے پر رکی تھی۔ “آزاد!یہاں ایسے کیوں بیٹھے ہو؟” جہانگیر صاحب نے اندر داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔ “آپ کیوں گئے تھے وہاں ڈیڈ؟” اس نے سپاٹ انداز میں سوال کیا تھا۔جہانگیر صاحب نے گہری سانس لی تھی۔ “تمہاری آنکھوں کی چمک،تمہارے چہرے کی مسکان واپس لانے کے لیے۔” ان کے جواب پر وہ ہنسا تھا۔ “سب کتابی باتیں ہیں ڈیڈ!بہلاوے ہیں۔آپ نے وہاں جا کر میرے ضمیر کا بوجھ بڑھا دیا ہے۔میں نے کبھی موت کا نہیں سوچا تھا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری زندگی کی ضمانت نہیں تھی۔لیکن پچھلے بیس گھنٹوں سے میں نے دعا کی ہے ڈیڈ مرنے کی،جلد مرنے کی۔کاش کہ۔۔۔۔۔۔۔”۔ اس کا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ جہانگیر صاحب کے تھپڑ نے اس کے الفاظ روک دیئے تھے۔ “پہلے تمہاری ماں کو مرنے کی جلدی تھی،ہر وقت اپنی موت کا ذکر کرتی رہتی تھی۔اب تم بھی۔۔۔۔۔۔بہت آسان ہے ناں مرنا؟بولو؟؟؟” وہ غصے سے بول رہے تھے جب آزاد ان کے گلے لگا تھا۔ “جینا بھی آسان نہیں ڈیڈ! میری اس دن کی ایک غلطی۔۔۔۔۔۔” “آزاد!!!دوبارہ اس بات کو زبان پر مت لانا۔” ان کے لہجے تنبیہہ تھی۔ “شاور لے کر فریش ہو جاؤ۔آفس جانا ہے تمہیں میرے ساتھ۔ “ جہانگیر صاحب نہیں چاہتے تھے وہ کبھی بھی پورا سچ جانے آزاد نے ان کی بات پر کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ وہ فریش ہونے چلا گیا تھا جبکہ جہانگیر صاحب کے چہرے کے تاثرات فورا تبدیل ہوئے تھے۔
“اس نے کہا وہ مجھے پسند نہیں کرتا۔” آئینے کے سامنے کھڑی وہ خود کو دیکھتی ہوئی بولی تھی۔ “نہیں!یہ تو نہیں کہا اس نے، اس نے تو وقت کا کہا تھا۔ “ اپنی ہی تصیح کرتی وہ اب غور سے اپنا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ “اتنی پیاری تو ہوں میں۔ایسے کیسے اسے مجھ میں انٹرسٹ پیدا نہیں ہوا؟” نیا سوال پیدا ہوتے ہی اس نے میک اپ کا سامان نکالا تھا۔ “جھوٹ بول رہا ہوگا، دل میں خوش ہوگا اتنی پیاری لڑکی آسانی سے مل گئی۔” ہلکے سے تفاخر سے بولتی وہ لائٹ میک اپ کرنے لگی۔ “لیکن اتنے دن سے وہ مجھے اگنور کر رہا ہے، مجھ سے بات کرنے کی بھی کوشش نہیں کی اس نے اور صبح بھی تو ناشتے کے بنا ہی چلا گیا تھا جبکہ میں نے کتنے اچھے سے بات کی تھی؟” مسلسل سوچتی وہ ساتھ ساتھ میک اپ بھی کر رہی تھی۔ دروازہ تین بار کھٹکھٹایا گیا تو وہ مڑی تھی۔ ریحان نے اندر داخل ہو کر بنا اس پر نظر ڈالے اپنا بستر زمین پر لگایا تھا۔ ہاتھ میں لائنر پکڑے وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔شاید اس کا کام رہتا تھا،وہ تیزی سے لیپ ٹاپ پر کچھ ٹائپ کر رہا تھا۔ “سنو؟ “ ارمینہ نے بالآخر اسے پکار ہی لیا تھا۔ریحان کے اس کی جانب دیکھنے پر ارمینہ نے غور کیا تھا اس کی آنکھوں میں ارمینہ کے لیے کوئی ستائش نہیں ابھری تھی۔ اسے برا لگا تھا۔ وہ آہستگی۔ سے چلتی اس کے پاس آئی تھی۔ “میرا لائنر دونوں سائیڈ سے برابر ہے؟ “ آنکھیں بند کر کر اس نے پوچھا۔فون بیل کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں تھی۔ ریحان فون اٹھا کر بستر سے نکل سے کمرے سے ہی نکل گیا تھا۔ شدید غصے سے ارمینہ نے دروازے کی سمت دیکھا تھا۔ غصہ نکالنے کے لیے اس کے دماغ نے ریحان کے لیپ ٹاپ کا سگنل دیا تھا۔ اس نے آگے ہوکر دیکھا تو اس کی فائل کھلی تھی۔ فائل کو پرمننٹ ڈیلیٹ کر کر وہ سکون سے بیڈ پر لیٹ گئی تھی۔ “اب تو بولو گے۔لیکن بھول ہے تمہاری کہ ارمینہ تمہارے غصے کو برداشت کرے گی۔ “ دل ہی دل میں خوش ہوتی وہ آنکھیں موند کر لیٹ گئی تھی۔ میک اپ اتارنے کی زحمت تک نہ کی تھی۔ کچھ دیر بعد ریحان کمرے میں داخل ہوا تو ارمینہ کو بستر میں لیٹا دیکھ کر اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ صرف ایک نظر ہی ریحان نے ارمینہ پر ڈالی تھی اپنا لیپ ٹاپ دیکھنے کے بعد ،ارمینہ منتظر ہی رہی تھی کہ وہ کچھ بولے اور وہ اس سے جھگڑا کرے۔ ریحان کی خاموشی ارمینہ کے تجسس کو بڑھا رہی تھی۔ وہ کچھ اور پلان کرتی سو گئی تھی۔ ریحان اپنی فائل کو ہیڈن فولڈر سے نکال رہا تھا۔ اس کی عادت تھی ہمیشہ کاپی تیار رکھتا تھا۔ اب وہ سکون سے اپنا کام کر رہا تھا۔
“پھوپھو! اب میں چلتا ہوں۔ لیکن کھانا مجھے آپ کے ہاتھ کا کھانا ہے۔ “ افراہیم کا اچانک صبح ان کے گھر آجانا ارمینہ کو عجیب لگا تھا۔ وہ جلدی اٹھ گئی تھی۔ اسے معلوم ہوگیا تھا ریحان دس بجے جاتا تھا اور تب تک وہ شمیم بیگم کے پاس ہوتا تھا۔ اس کا موڈ تو خراب ہوا تھا افراہیم کو دیکھ کر مگر ساتھ ہی ریحان کو جیلس کروانے کا خیال اس کے دل میں کوندا تھا۔ جس پر اس نے فورا عمل کیا تھا۔ “ناشتے کے بنا جارہے ہو؟ “ ریحان کو سنانے کے لیے اس نے جان بوجھ کر کمرے کے باہر کھڑے ہوکر پوچھا تھا۔ افراہیم مسکراتا ہوا اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا۔ “تم کونسا مجھے اپنے ہاتھوں سے بنا کر دینے والی ہو؟ “ افراہیم کے طنز پر ارمینہ کا دل تو کیا اسے منہ توڑ جواب دے مگر پھر ریحان کے قدموں کی چاپ سن کر مسکرائی تھی۔ “بنا تو سکتی ہوں۔ اگر تم رک کر کچھ انتظار کر لو۔ “ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ریحان ان کے پاس سے گزر کر چلا گیا تھا۔ ارمینہ نے دانت پیسے تھے۔ “ویسے قابل ِقبول صورت ہے اس کی مگر تم سے میچ پھر بھی نہیں بنتا اس کا۔ “ افراہیم ہنسا تو ریحان کو جلانے کی خاطر وہ ہنسی تھی مگر ریحان رکا نہ تھا اور گھر سے نکل گیا تھا۔ “تو کزن جی! رات کا کھانا آپ کی طرف۔ “ افراہیم شوخ لہجے میں کہتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ ارمینہ کا دماغ اس وقت ریحان میں اٹکا تھا،اس لیے وہ افراہیم کا لہجہ محسوس نہیں کر سکی تھی۔
“واسع! یہ بال کس کا ہے؟” وہ سونے کے لیے لیٹنے ہی لگا تھا جب اجیہ لڑائی کے موڈ میں اس کے سامنے آئی تھی۔ “یار اتنا لمبا بال ہے تمہارا ہی ہوگا میرا تو ہونے سے رہا۔ “ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ سونا چاہتا تھا اس لیے جواب دے کر پھر سے لیٹنے لگا۔ “یہ آپ کی شرٹ سے ملا ہے مجھے۔ “ اس کا انداز کسی بھی قسم کی رعایت دینے کو تیار نہ تھا۔ “یار تمہاری سوتن بہت پریشان کرتی ہے مجھے، صبح اسی سے ملنے گیا تھا اسی کا ہے۔ “ جھنجھلاکر کہتا وہ چادر سر تک تان کر لیٹ گیا تھا۔جب کوئی آواز سنائی نہ دی تو چادر چہرے سے ہٹائی مگر اپنے بالکل سامنے اجیہ کو دیکھ کر وہ ڈرا تھا۔ “یار!یہ کیا حرکت ہے؟ “ وہ سخت چڑا تھا۔ “وہ پہلی بیوی ہے دوسری؟ “ سپاٹ انداز میں اس نے پوچھا تو واسع کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔ “وہ تو پہلی ہے،دوسری تم ہو ۔” واسع کا ارادہ اب اسے تنگ کرنے کا تھا۔مگر اس کے آنسو دیکھ کر وہ فورا ارادہ ترک کر گیا تھا۔ “یار میری ایک ہی بیوی ہے، جو اس وقت شکی مزاج بن کر میری نیند کی دشمن بنی ہوئی ہے۔ “ واسع نے اسے پاس بیٹھاتے ہوئے کہا تو اجیہ نے اس کے کندھے پر مکا مارا۔ “آپ بہت برے ہیں۔ “ اس نے روتے ہوئے کہا تو واسع نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ “بس کچھ دن ۔۔آفس میں کام بہت زیادہ ہے،اس لیے وقت نہیں دے پاتا میں تمہیں لیکن اس سنڈے میرا سارا وقت تمہارا۔ “ واسع نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس نے سکون نے آنکھیں موند لی تھیں۔ “اب سونے دو یار! “ واسع نے بے چارگی سے کہا تو اجیہ اس سے دور ہوئی۔ “اس بال کی تفصیل آپ کو پھر بھی بتانی ہوگی۔ آپ بچ نہیں سکتے۔ “ اجیہ نے کہا تو واسع نے فرمانبرداری سے سر ہلایا تھا۔
ارمینہ نے کھانا بنوانے میں مدد کروا دی تھی۔ چچی بار بار اس کی تعریف کررہی تھی۔ جبکہ افراہیم نے اسے داد دی تھی۔ “آئس کریم کھانے چلو گی؟ “ افراہیم نے پوچھا تو ارمینہ نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ ریحان کے آنے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ اس نے حامی بھر دی تھی۔ افراہیم تو حیران ہوا تھا اس کے قسم توڑنے پر۔ پھر چہرے پر پراسرار مسکراہٹ آئی تھی۔ شمشیر اور رامین بھی ان کے ساتھ تھے۔ “ہم دونوں کے ہاتھ دیکھو ساتھ ساتھ اچھے لگ رہے ہیں ناں؟ “ شمیشیر اور رامین آئس کریم کھاتے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔جبکہ افراہیم نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ ارمینہ کے چہرے پر ناگواری آئی تھی۔ اس نے اپنا جھٹکے سے کھینچا تھا۔ “اپنی حد میں رہو۔ “ افراہیم کاچہرہ بے عزتی کے احساس سے سرخ ہوگیا تھا۔ “میں حد میں رہوں؟ سیرئسلی؟؟؟؟حدیں تم بھول رہی ہو۔شادی شدہ ہو کر ایک لڑکے کو ریجھانے کی کوشش کرتے تمہیں شرم آنی چاہیئے؟” اس کی اونچی آواز پر شمشیر اور رامین بھی ان کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔ “شٹ اپ افراہیم! “ ارمینہ نے دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ کہا۔ “سچ برا لگ رہا ہے اب؟ اپنے کم صورت شوہر سے تنگ آکر تم صبح سے جو میرے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں کر رہی ہوکوئی بے وقوف بھی۔ تمہاری ذہنیت اور کردار کو جان جائے گا۔ “ افراہیم بول تو گیا تھا مگر جیسے ہی اس نے شمشیر اور رامین کا چہرہ دیکھا تھا اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔ ارمینہ وہاں۔سے اٹھ کر بھاگ گئی تھی۔ “اپنی زبان سنبھالیں افراہیم بھائی! “ سخت لہجے میں کہہ کر شمشیر ارمینہ کے پیچھے گیا تھا۔ رامین فقط اسے گھوری سے نواز رہی تھی۔
ریحان کچھ دیر پہلے ہی آیا تھا۔ اسے دیر ہوگئی تھی۔ کھانے کا منع کرتا وہ کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ ہینڈل پر ہاتھ رکھتا وہ چونکا تھا۔اندر سے آنے والی توڑ پھوڑ کی آواز پر۔ صبح تک تو اس کا موڈ ٹھیک تھا اب اسے کیا ہوا؟ وہ سوچتا ہوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ تبھی اس کی جانب مڑتی وہ چیل کی طرح اس پر جھپٹی تھی۔وہ تو سمجھ ہی نہیں پایا تھا اچانک اسے کیا ہوگیا تھا۔ “سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے؟میری زندگی خراب کر دی تم نے۔” وہ مسلسل روتے ہوئے اسے مار رہی تھی۔ریحان نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسے روکا تھا۔ “خبردار جو مجھے ہاتھ بھی لگایا۔” اس سے ہاتھ چھڑواتی وہ پھنکاری تھی۔ریحان واپس جانے کے لیے پلٹا۔ “کیا ہوجاتا اگرجو تم ویسے ہوتے جیسا میرا آئیڈیل تھا،وہ مجھ پر بدکرار کا لیبل تو لگنے نہیں دیتا۔” وہ روتے روتے تکلیف سے بولی تو ریحان رکا تھا۔اس نے مڑ کر ارمینہ کی جانب دیکھا تھا۔ “میں تو کزن سمجھ کر اس کے ساتھ گئی لیکن وہ مجھے۔۔۔۔۔” اس کا جملہ سنے بنا وہ باہر نکل گیا تھا۔پیچھے وہ روتے روتے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ نیچے اترا تو رامین شرمندہ سی اس کے سامنے آئی۔ “کس نے کہا ہے ؟” اس کے سنجیدگی سے پوچھنے پر رامین نے سر جھکا کر اسے سب بتا دیا۔ افراہیم جاوید صاحب کے۔ کمرے میں رفعت بیگم سے معافی مانگ رہا تھا۔ جب وہ وہاں آیا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر بنا افراہیم کو سمجھنے کا موقع دیئے اس کو تھپڑ دے مارا تھا۔ “عزت کرنا سیکھو۔ اور دوبارہ میری بیوی کے آس پاس بھی نظر مت آنا مجھے۔ “ جتنے غصے میں وہ اس وقت تھا سب کے لیے ریحان کا روپ نیا تھا۔ “معاف کرنا تائی امی! لیکن میں کسی کو بھی اپنی بیوی کے بارے میں بولنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ “ وہ سنجیدگی سے کہتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ افراہیم گال پر ہاتھ رکھے کھڑا تھا جبکہ باہر کھڑی رامین منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی تھی۔ وہ واپس کمرے میں داخل ہوا تو ارمینہ کی کلائیوں سے خون نکلتا دیکھ کر واپس مڑا تھا۔ کچھ منٹ بعد وہ فرسٹ ایڈ باکس لے کر اندر آیا تھا۔ وہ خاموشی سے ارمینہ کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ اس کلائی پکڑ کر اس نے خون صاف کرنا شروع کیا۔ ارمینہ نےکوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔اپنے الفاظ اسے برے لگ رہے تھے مگر اندر کی انا معافی مانگنے سے روک رہی تھی۔ دائیں کلائی کی ڈریسنگ کرنے کے بعد وہ اس کی بائیں کلائی کی چوٹ کو دیکھ رہا جس پر صرف مرہم ہی کافی تھی۔وہ احتیاط سے مرہم لگا تھا،جبکہ ارمینہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اپنا سارا غصہ تو وہ نکال چکی تھی۔اس لیے اب سکون سے بیٹھی تھی۔دفعتا اس کی نظر ریحان کی شرٹ پر پڑی جس پر سینے کی جگہ پر خون لگا تھا۔اسے کچھ دیر پہلے کا اپنے چوڑیوں بھرے ہاتھ اس کے سینے پر مارنا یاد آیا۔ “اگر مجھے چوٹ لگی ہے تو کیا اسے بھی ۔۔۔۔۔” اس نے ریحان کا چہرہ دیکھا جو نارمل تھا۔اپنا ہاتھ آگے بڑھاتی وہ سینے تک لائی ہی تھی کہ ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “تمہیں چوٹ لگی ہے؟” اس نے کہا تو ریحان اس کا ہاتھ چھوڑتا کھڑا ہوا۔ “میں ٹھیک ہوں۔” ریحان کا چپ کا روزہ ٹوٹا تو اس نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔ “خون نکل رہا ہے دیکھنے دو۔” اسے مزید بلوانے کے لیے وہ اس کے سامنے آئی تو ریحان پیچھے ہوا۔ “میں خود دیکھ لوں گا۔” ارمینہ کو ریحان کا بوکھلانا مزا دے رہا تھا۔کچھ اس کے بولنے کی خوشی تھی۔ “تم نے بھی میری ڈرینسگ کی ہے۔مجھے ادھار رکھنا پسند نہیں۔” وہ کہہ آگے بڑھی تھی جیسے ہی اس نے شرٹ کی جانب ہاتھ بڑھائے،ریحان تیز قدم لیتا کمرے سے نکل گیا تھا۔ریحان کے ردعمل پر ہنستی چلی گئی۔