“کہاں چلا گیا واپس کیوں نہیں آیا ابھی تک؟” ایک گھنٹہ ہوگیا تھا ریحان کو کمرے سے گئے ہوئے۔ارمینہ نے سارا کمرہ سمیٹ لیا تھا۔وہ اس کا انتظار کررہی تھی۔پھر اکتا کر کمرے سے نکل آئی۔باہر اندھیرا تھا۔سب سو چکے تھے۔جاوید صاحب نے اسے نہیں بلایا تھا مطلب ان سے بات چھپا لی گئی تھی۔ “یہ کدھر چلا گیا ہے؟” اس نے چڑتے ہوئے کہا اور پھر سر جھٹکتی واپس کمرے کی جانب بڑھ گئی۔تبھی اسے چھت پر ہیولہ دیکھائی دیا۔ “یہ اتنی ٹھنڈ میں وہاں کیا کر رہا ہے؟” وہ دبے قدموں سے آگے بڑھی۔اسے ریحان کے کھانسنے کی آواز سنائی دی۔ “نہیں!ٹھنڈ کی وجہ سے ہے۔آنٹی کی طبیعت کیسی ہے اب؟” وہ فون پر بات کر رہا تھا۔ارمینہ رک کر اس کی باتیں سن رہی تھی۔ “کچھ دن بعد چکر لگاؤں گا۔کچھ ادھورے کام ہیں وہ پورے کرنے ہیں۔” وہ بہت سنجیدگی سے جواب دے رہا تھا۔ “اس کےکونسے ادھورے کام ہیں؟ “ ارمینہ نے خود سے سوال کیا تھا۔ “میری بات ہوگئی ہے ایجنسی سے۔ایک مہینے کا وقت دیا ہے انہوں نے۔” وہ پھر سے کھانسا تو اس کی بات ادھوری رہ گئی تھی۔قدموں کی چاپ سن کر وہ ہڑبڑا کر کمرے کی جانب بھاگی تھی۔ ریحان میسج پر جواب دیتا سیڑھیاں اتر رہا تھا۔ کمرے میں داخل ہوا تو پہلی نظر بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹی ارمینہ پر پڑی تھی۔صبح بات کرنے کا ارادہ کرتا وہ اپنا بستر لگا کر لیٹ گیا۔
ہم نے الفت کا بھرم سب سے جدا رکھا هے گویا سینے میں تجھے دل کی جگہ رکھا ھے۔ گارڈن کے وسط میں کھڑا وہ اپنی ہی سوچوں محور میں پھنسا ہوا تھا۔نیلگوں آسمان پرآہستہ آہستہ بڑھتی تاریخی اس کے دل کو بھی ویران کر رہی تھی۔وہ تو ہمیشہ خوش رہنے والا لڑکا تھا،اسے یاد تھا جب پہلی باروہ سڑک پر بے ہوش ہوا تھا۔اس کو سانس لینے میں مشکل ہو رہی تھی۔زندگی کی ڈور جیسے ہاتھ سے پھسل رہی تھی۔دو دن بعد اسے ہوش آیا تھا۔موت کا ڈر اس دن اس پر حاوی ہوا تھا۔وہ جان گیا تھا اس کا علاج ممکن تو ہے مگر زندگی کی ضمانت نہیں تھی۔اس نے جینا شروع کیا تھا۔مرنے سے پہلے اپنی ہر خواہش کو پورا کرنا تھا۔لیکن آج وہ خود کو بے بس محسوس کر رہا تھا۔کچھ دیر پہلے جسے اس نے اپنے نکاح میں قبول کیا تھا،اب اس کے سامنے جانے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔جہانگیر صاحب اس کے پیچھے کھڑے تھے۔وہ جانتے تھے اپنے بیٹے کی کیفیت کو۔محسوس کر رہے تھے اس کے دل کے درد کو۔انہوں نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ “جاؤ آزاد! اس کی خوشیوں کی ضمانت دے کر آئے ہو تم۔ “ “ڈیڈ! آپ تو سچ جانتے ہیں میں۔۔۔۔۔۔۔” وہ مزید کچھ بولتا کہ اس سے پہلے ہی اچانک بارش شروع ہوگئی تھی۔ سردیوں کا موسم اور اچانک تیز بارش کا شروع ہونا، آزاد نے حیران ہوتے ہوئے نظر اوپر اٹھائی تھی۔ اسے بالکنی میں سرخ آنچل نظر آیا تھا۔ وہ تیزی سے اندر بھاگا تھا۔ جہانگیر صاحب کو بھی حیرت میں ڈال گیا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی آزاد بے بالکنی میں آکر اس کا ہاتھ پکڑ کر اندر کھینچا تھا۔ “کیا رہی ہو تم؟ بیمار ہو جاؤ گی؟” آزاد کے لہجے میں غصے کی جھلک تھی۔ سامنے کھڑی اس کی بیوی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔دو تین منٹ کی بارش نے اس کو مکمل بھگو دیا تھا۔ تبھی وہ آنکھیں بند کرتی پیچھے کی جانب گری تھی ،آزاد نے سرعت سے اسے تھاما تھا۔ “بد نصیب لوگ آسانی سے نہ مرتے ہیں نہ ہی انہیں تکلیف ہوتی ہے۔” اس کےالفاظ آزاد کو اپنی جگہ پر جامد کر گئے تھے۔گرفت ڈھیلی ہوئی تو وہ بیڈ پر گری تھی۔یک دم ہی وہ رونے لگی تو آزاد تیزی سے اس کی جانب لپکا تھا۔ “سوری!میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا۔” اس کا ہاتھ پکڑتا وہ صفائی دینے لگا۔ “کیا مجھے وقت دے سکتے ہیں۔میں ۔۔۔۔۔” اس سے پہلے وہ آگے بولتی آزاد نے اسے بیٹھایا تھا۔ “ہم دوست بن سکتے ہیں؟” آزاد نے اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی تھی۔جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ آزاد کے ہاتھ پر رکھا وہ مسکرایا تھا۔
“یہ اٹھتا کب ہے اور نکلتا کب ہے کمرے سے؟” ارمینہ آج چھ بجے اٹھی تھی مگر ریحان کو نہ پاکر اسےتجسس ہوا تھا۔وہ بال سمیٹ کر دوبارہ کیچر لگا کر کمرے سے نکلی تھی۔ “ارمینہ آپی!” اس کو دیکھتی رامین پرجوش سی اس کے پاس آئی تھی۔ “صبح صبح کیا ملا گیا تمہیں؟” ارمینہ نے حیران ہوتے اسے دیکھا تھا۔ “صبح نہیں کل رات۔” رامین نے رازدارانہ انداز میں کہا۔ “کل رات کیا؟” ارمینہ نے چڑتے ہوئے پوچھا۔ “افراہیم بھائی رات کو ہی چلے گئے تھے،پتا ہے کیوں؟” رامین نے اردگرد دیکھتے ہوئے پوچھا تو ارمینہ نے منہ بگاڑا۔افراہیم کا ذکر اسے پسند نہیں آیا تھا۔ “سن تو لیں۔میں نے جب ریحان بھائی کو افراہیم بھائی کی باتیں بتائیں تو انہوں نے۔۔۔۔۔۔” رامین نے تجسس پھیلایا تو ارمینہ کو بے چینی ہوئی۔ “کیا کیا بولو گی بھی؟” ارمینہ نے اس کے بازو پر چٹکی کاٹی تھی۔ “اف اللہ آپی!!۔۔۔۔۔۔تھپڑ مارا وہ بھی زور دار۔” پہلے اپنا بازو مسلتی وہ درد سے بولی تھی۔باقی جملہ اس نے خوش ہوتے بولا تھا۔وہ باقی سب بھی بتا رہی تھی جبکہ ارمینہ مسکرا رہی تھی۔ “اچھا سبق سیکھایا ہے۔” ہشاش بشاش لہجے میں بولتی وہ واپس کمرے میں چلی گئی تھی۔رامین نے سر جھٹکا تھا۔تبھی شمشیر اسے راستے سے ہٹاتا ارمینہ کے کمرے میں چلا گیا تھا۔ “یہ لو جلدی سائن کرو۔ریحان بھائی نے دیئے ہیں۔” ایک سانس میں بولتا وہ پیپرز ارمینہ کے ہاتھ میں تھما چکا تھا۔ “یہ کیا ہے؟” اس نے کاغذات کھول کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ “تم سائن کر دو بس اور جلدی کرو مجھے واپس جانا ہے۔” شمشیر نے چڑتے ہوئے کہا۔اسے ریحان کی کار میں جانے کا موقع مل رہا تھا جو وہ گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ “کیوں سائن کروں؟اور اس نے تمہارے ہاتھ کیوں بھیجے ہیں خود کیوں نہیں آیا؟” ارمینہ نے غصے سے پوچھا تو شمیشیر کو کار کے جانے کی آواز سنائی دی۔ “طلاق کے کاغذ ہیں۔خود اس لیے نہیں آئے کیونکہ ابو کے ساتھ کچھ دیر پہلے جا چکے ہیں۔اب سائن کر کر اپنے پاس ہی رکھ لینا۔” شمشیر بول کر چلا تو گیا تھا مگر ارمینہ کے چہرے کا اڑا رنگ نہ دیکھ سکا تھا۔ارمینہ نے اس کے جاتے ہی کاغذات کھول کر دیکھے تھے۔پھرغصے سے شمشیر کو گالیوں سے نوازتی کاغذات الماری میں رکھنے لگی۔
“موسم بہت سرد ہے،تمہیں احتیاط کرنی چاہیئے۔” آزاد نے شال لاکر اس کے کندھوں کے گرد پھیلائی تھی۔ “مجھ سے زیادہ سرد تو نہیں ہوگا جس پر محبت اثر نہیں کرتی۔” وہ مسکرائی تھی مگر آذاد کو اس کی مسکراہٹ کھوکھلی لگی تھی۔ “اثر تو سب کچھ کرتا ہے مگر تم اچھی اداکارہ ہو۔” آزاد نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ “اداکار کیا پھتر دل ہوتے ہیں؟” اس نے اگلا سوال کیا تو آزاد نے نفی میں سر ہلایا۔ “جنہیں زندگی اداکار بنا دے وہ حساس دل ہوتے ہیں،اوپر سخت خول چڑھا کر خود کو پھتر ثابت کرنے میں تل جاتے ہیں یہ جانے بنا کہ کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اس خول کے پار دیکھ لیتا ہے۔” آزاد نے اس کا سرد ہاتھ اپنے گرم ہاتھ میں دبایا تھا۔ “جو اس خول کو توڑ کر اس کے سارے غم لے لینا چاہتا ہے۔” اس کی آنکھوں میں دیکھتا وہ بول رہا تھا جب وہ ہاتھ چھڑا کر وہاں سے اٹھ کر چلی گئی۔ “وہ خول زخمی بھی کر دیتا ہے۔” وہ دھیرے سے بڑبڑایا تھا۔
ریحان اپنے وقت پر پھر کمرے میں موجود تھا۔اسے ضروری فائل مکمل کرنی تھی اس لیے بنا ارمینہ سے بات کیے وہ کام میں مگن ہوگیا تھا۔تبھی دروازہ کھول کر ارمینہ اندر داخل ہوئی تھی جو ریحان کے آتے ہی باہر چلی گئی تھی۔وہ ریحان کے پاس آئی تھی۔ “یہ لو۔” چائے کا مگ اس کی جانب بڑھاتی وہ دوستانہ لہجے میں بولی تھی۔ریحان نے ایک نظر ہی اس پر ڈالی تھی اور واپس اپنا کام کرنے لگا۔ “اب تو مجھے معلوم ہوگیا ہے تم گونگے نہیں ہو تو بول ہی دو کچھ۔اور ویسے اب ہماری دوستی ہوگئی ہے تو اس لیے تمہارے لیے بھی بنا دی چائے۔اب پکڑو اسے۔” آگے بڑھ کر اس نے خود ہی اس کے ہاتھ میں مگ پکڑا دیا تھا۔ “مجھے نہیں پینی۔” ریحان نے مگ واپس کرنا چاہا تو آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورنے لگی۔ “دیکھا تھا میں نے کیسے چھت پر کھانس رہے تھے تم۔۔نیچے لیٹ کر ٹھنڈ لگ گئی ہے۔۔۔۔۔” “تھینک یو!” اسے آگے بولنے سے روکتا وہ اس کی بات کاٹ گیا تھا۔ارمینہ ہنسی تھی۔ “ڈر کیوں گئے؟میں بیڈ پر سونے کا نہیں کہنے والی تھی۔۔” وہ کہہ کر پھر ہنسنے لگی تھی جبکہ ریحان نے افسوس سے اسے دیکھا تھا۔ “بہت ضروری کام ہے میرا اگر تم ۔۔۔۔۔۔” “تم دن کے کتنے گھنٹے کام کرتے ہو؟” ارمینہ اس کی بات کاٹ کر سامنے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ “گیارہ گھنٹے۔” اس نے چائے کا مگ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔ “ارمینہ ہر کسی کے لیے چائے نہیں بناتی۔اگر تم نے نہیں پینی تو واپس سے سکتے ہو۔” اسے غصہ آیا تھا جبکہ سر نفی میں ہلاتا ریحان مگ واپس اٹھا چکا تھا۔ “تم نے میرے لیے افراہیم کو تھپڑ مارا۔” ارمینہ کے لہجے میں بدلاؤ تھا۔ “وہ حق دار تھا۔ “ چائے کا سپ لیتے ہوئے اس نے کہا۔ “حق دار تو وہ تھا، اس کی وجہ سے مجھے چوٹ لگی تھی۔ “ اس نے منہ بگاڑتے ہوئے کہا۔پھر اٹھ کر الماری سے کاغذات نکال لائی۔ “میں نے سائن کر دیئے ہیں۔ “ اس نے پیپیرز ریحان کی جانب بڑھائے تھے۔ ریحان نے ہاں میں سر ہلاتے کاغذات اس سے لیے تھے۔ “تم مجھے بھی ساتھ لے کر جانے والے ہو؟ “ ارمینہ نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا تو ریحان نے اس کے چمکتے چہرے کو دیکھا تھا۔ پھر ہلکا سا مسکرایا تھا۔
دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے وہ ساتھ چل رہے تھے۔کالی پینٹ اور ہائی نیک پر کالا لمبا کوٹ پہنے وہ نظریں اپنی ساتھ چلتی بیوی پر جمائے ہوئے تھا۔جبکہ آف وائٹ فراک پر آف وائٹ ہی جرسی پہنے وہ بے نیاز سی اس کے ساتھ چل رہی تھی۔ “تمہیں یہ موسم پسند ہے؟” آزاد کو اس کی خاموشی پریشان کر گئی تھی اس لیے اس کا دھیان بٹانے کے لیے پوچھنے لگا۔ “بے رحم موسم کسے پسند ہوسکتا ہے؟” اس کا لہجہ تلخ نہ تھا مگر بات تلخ تھی۔ “موسم بے رحم کہاں ہوتا ہے؟” آزاد نے سامنے لگے درخت کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا جس کی ایک مضبوط شاخ سے جھولا بندھا ہوا تھا۔ایک خیال اس کے دماغ میں کوندا تھا۔ “ان بے جان پتوں کو دیکھ رہے ہو،اپنے مسکن سے بچھڑ کر کیسے روندے جارہے ہیں اور ان کا مسکن ان کے بنا ویران ہوگیا ہے۔” آزاد نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔اور اسے لیے جھولے کے پاس آیا۔اس بیٹھانے کے بعد وہ پیچھے آیا تھا۔ “موسم بے رحم نہیں ہوتا۔زندگی میں خوشی اور غم آتے رہتے ہیں۔ان کا دورانیہ تب بڑھتا ہے جب برداشت کی سکت بڑھتی ہے۔” اس کو جھولا جھلاتا وہ بول رہا تھا۔ “جسے جانا ہو چلا جاتا ہے۔لیکن جانتی ہو اپنے پیچھے نئے لوگوں کی امید چھوڑ جاتا ہے۔” جھولا یک دم رکا تھا۔آزاد نے اس کا سوالیہ چہرہ دیکھا تو دھیرے سے مسکرایا۔ “اس درخت کو دیکھ رہی ہو ناں؟کیا اسے نیچے گرے بےجان پتوں کا سوگ منانا چاہیئے یا پھر خود میں پنپنتے ان نئے پتوں کا استقبال کرنا چاہیئے؟دکھ,تکلیف کسے اچھی لگتی ہے۔وقت گزرے گا یہ درخت پھر سے بھر جائے گا،لہلائے گا،مہکے گا ،جھومے گا۔۔۔” آزاد پرجوش سا بول رہا تھا جبکہ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ “اور پھر سے بکھر جائے گا۔” اس کے الفاظ نے آزاد کو گویا ساکت کردیا تھا۔اس کےالفاظ الفاظ کہاں تھے،ایک سچائی تھی جس کا سامنا نہ وہ خود کرنا چاہتا تھا نہ ہی اسے کرنے دینا چاہتا تھا۔ “شاید قسمت اسی کو کہتے ہیں۔” وہ دل ہی دل میں بولا تھا۔
تُو تو خود سے ہی نہیں ھے آشنا تیری ذات تجھ پہ ہی راز ھے تیرے قلب میں ھے چھپا ھوا تیری روح کو جس کی تلاش ھے۔
“میں سب کو بتاؤں گی،اس افراہیم کو بھی بہت بول رہا تھا ناں۔ “ شمیم بیگم کے پاس بیٹھی وہ خوشی ہوتی بول رہی تھی۔ شمیم بیگم نے اسے خوش دیکھ کر دل میں اس کے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا کی تھی۔ “ریحان کے ساتھ خوش ہو؟ “ ان کے سوال پر ارمینہ کو سمجھ نہیں آیا کیا جواب دے۔ “چچی! میں جھوٹ نہیں بولنا چاہتی اور سچ میں خود نہیں جانتی۔ “ ارمینہ نے ان کے گود میں سر رکھتے ہوئے کہا۔ “کوئی بات نہیں مینا بیٹا!اس نے وقت مانگا ہے تو تمہارا بھی حق ہے وقت مانگنا۔ لیکن اتنا کہوں گی میرا بیٹا بہت فرمابردار ہے اور سمجھدار بھی۔اچھا شوہر ثابت ہوگا۔ “ آخر میں وہ شرارت سے بولیں تو ارمینہ بھی ہنس دی تھی۔ “آپ کو پتا ہے وہ بولتا ہی نہیں تھا مجھے تو اتنے دن یہی لگا تھا کہ وہ گونگا ہے۔ “ وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسی تو شمیم بیگم نے اس کے بال سہلائے تھے۔ “وہ بچپن سے خاموش طبیعت کا مالک ہے۔اس کے بابا کو کئی سال تک یہی لگتا رہا تھا کہ وہ گونگاتو نہیں ہے۔” شمیم بیگم اسے ریحان کے بارے میں بتا رہی تھیں وہ ہنستی ہوئی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ اسے آج ہی موقع ملا تھا شمیم بیگم کے ساتھ وقت گزارنے کا۔ “بھابھی!!!!!کھانا کھالیں۔ “ رفعت بیگم کی آواز پر ارمینہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ “میں نے کہا ہے تو بھابھی میں خود لےلیا کروں گی کھانا آپ تکلف مت کیا کریں۔ “ شمیم بیگم نے احسان مند ہوتے کہا تو رفعت بیگم نے ارمینہ کو گھورا۔ “بھابھی! آپ بجائے اسے سیکھانے کہ خود ہی کام کریں گی؟ “ ارمینہ نے منہ بسورا تھا۔ “اسے نا ڈانٹا کریں بھابھی! سب سیکھ لے گی آہستہ آہستہ۔ “ انہوں نےمحبت سے اسے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ “بھابھی! یہ پہلے ہی لاڈ پیار میں بگڑی ہوئی ہے اور اب ریحان اور آپ بھی اس کو شہہ دے رہے ہیں۔ “ رفعت بیگم کے شکایتی انداز پر ارمینہ نے منہ بگاڑ کر شمیم بیگم کی گود میں سر رکھ لیا تھا۔ “بگڑی ہوئی نہیں بس زیادہ محبت کی عادی ہے جو ہم اسے ضرور دیں گے۔ “ “بھابھی!!!” “امی!آپ کو شکایات ہیں مجھ سے ،میں جا رہی ہوں ناں اللہ کےگھر دعا کروں گی آپ کی ساری شکایات دور ہوجائیں۔” ارمینہ کی آنکھ میں آنسو دیکھ کر ان کے دل کو کچھ ہوا تھا وہ جیسے ہی اس کی جانب بڑھی وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔ “بھابھی! بچی ہے وہ ابھی۔” شمیم بیگم انہیں سمجھا رہی تھی۔جبکہ باہر کھڑی ارمینہ نے اپنے مصنوعی آنسو صاف کیے تھے۔
“کیا بنا رہی ہو؟” دس بج رہے تھے،ارمینہ کچن میں کھڑی پاپ کارن بنا رہی تھی۔اس نے ریحان کو کمرے میں جاتے دیکھ کر ہی کچن کا رخ کیا تھا۔شمشیر خوشبو سونگتا کچن میں آیا تھا۔ “تم تو اپنی شکل گم کر لو جیسے کل سے گم کی ہوئی ہے ورنہ بگاڑ دینی ہے میں نے۔” ارمینہ کی دھمکی پر اس نے یاد کرنے کی کوشش کی کہ آج اس نے کوئی بدتمیزی تو نہیں کی اس سے مگر جب یاد نہ آیا تو پھر سے بولا۔ “اب میں نے کیا کیا ہے؟” اس کے پوچھنے کی دیر تھی ارمینہ نے مڑ کر اس کے کندھے پرتھپڑ مارا تھا۔ “کل صبح کیا بکواس کر کر گئے تھے تم،طلاق کے کاغذات؟” شمیشیر کو یاد آیا تو وہ کھیسیانہ سا ہنسا۔ “مذاق تھا وہ تو۔” “دفع ہو جاؤ یہاں سے۔ “ باؤل میں پاپ کارن ڈال کر اسے جلاتی ہوئی وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔ پیچھے وہ دانت پیستا رہ گیا تھا۔ اس نے کمرے میں قدم رکھا تو ریحان کو اپنی مخصوص جگہ پر پایا۔ پھر مسکراتی ہوئی دروازہ بند کر آگے بڑھی تھی۔ “اس طرح پھیل کر کیوں بیٹھے ہو؟جگہ دو مجھے بھی۔” پاپ کورن کا باؤل ہاتھ میں لیے وہ ریحان کے پاس بیٹھ کر زبردستی جگہ بناتے ہوئے بولی۔ریحان نے آگے سرکتے ہوئے جگہ بنائی تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا اسے۔ “مجھے مووی دیکھنی ہے۔ اچھی سی لگانا۔” ٹانگیں پھیلا کر بیٹھی وہ کمبل ٹانگوں پر ڈالتے ہوئے بولی۔ “بار بار گونگے مت بن جایا کرو۔ مجھے زہر لگتے ہیں وہ لوگ جو مجھے ایٹیٹوڈ دیکھاتے ہیں۔ “ ارمینہ نے چڑ کر کہا۔ “اس میں مووی نہیں ہے۔ “ ریحان نے اس سے فاصلے بناتے ہوئے کہا۔ “تو نیٹ کس بلا کا نام ہے۔ آن لائن دیکھ لیتے ہیں۔ “ ارمینہ نے مشورے سے نوازتے ہوئے پاپ کارن منہ ڈالے تھے۔ریحان کے تاثرات دیکھ کر اس نے منہ بگاڑا تھا۔ “یہ میرا کمرہ ہے میں کہیں بھی بیٹھ سکتی ہوں؟” ریحان کچھ بولنے لگا تو ارمینہ نے پھر اسے ٹوکا۔ “خبردار جو کہا کہ لیپ ٹاپ تمہارا ہے۔ میں طنز برداشت نہیں کرتی۔ “ اس نے اتراتے ہوئے کہا۔ “تم۔۔۔۔۔” کتنا بولتے ہو تم مووی لگاؤ۔” ارمینہ نے کہا تو ریحان نے لیپ ٹاپ اس کی گودمیں رکھ دیا۔ “کیا مطلب ؟” ارمینہ نے پوچھا تو ریحان کچھ نہ بولا۔ “پھر سے بولنا بند۔” “تم بولنے کہاں دیتی ہو؟جو مووی دیکھنی ہےدیکھ لولیکن اپنی جگہ پر جا کر۔ “ ریحان کے جواب پر ارمینہ نے اسے گھورتے ہوئے پاپ کارن منہ میں ڈالے۔ “بہت زیادہ بولنے لگے ہو تم۔ “ ارمینہ نے طنزیہ کہا تو ریحان نے خود آگے جھک کر مووی سرچ کرنا شروع کی تھی۔ ارمینہ رک سی گئی تھی۔ نظریں سامنے جھکے ریحان پر تھی جو سنجیدگی سے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلا رہا تھا۔ لسٹ کھلتے ہی اس نے چہرہ ارمینہ کی جانب موڑا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ وقت جیسے رک گیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ یک دم ہی ارمینہ کو ہچکی آئی تو ان کا تسسل ٹوٹا تھا۔ ریحان جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔
نا جانے کیسا شخص ہے میری زندگی میں وہ محبت بھی کرتا ہے اور اعتراف بھی نہیں کرتا
“یہ دوسرے ٹائپ کی مووی تو نہیں ہیں؟ “ ارمینہ کے سوال پر ریحان نے جانچتی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھا تھا،وہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ اتنی معصوم تھی یا بن رہی تھی۔ “نہیں بتانا نہ بتاؤ میں تو آنکھیں بند کر لوں گی تمہیں ہی گناہ ملے گا ایک معصوم کو یہ سب دیکھانے کا۔ “ ارمینہ کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔ “ان میں ایسا کچھ نہیں ہے۔” اس نے ایک مووی پر کلک کرتے ہوئے کہا۔ جیسے ہی مووی اسٹارٹ ہوئی ریحان اٹھ کر جانے لگا تو ارمینہ نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روکا۔ “وہ میری جگہ ہے تم یہیں بیٹھو۔ “ وہ زبردستی اسے روک چکی تھی۔ ریحان بے دلی سے بیٹھا تھا۔ پھر اپنا موبائل اٹھا کر اس میں کام کرنے لگا۔ وہ اپنے کام میں مگن تھا جب اچانک اسے اپنے کندھے پر وزن محسوس ہوا۔ اس نے بائیں جانب دیکھا تو ارمینہ سو چکی تھی اور اس کا سر ڈھلک کر ریحان کے کندھے پر آچکا تھا۔ ریحان موبائل گود میں رکھتے ارمینہ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ کتنی ہی دیر وہ اس کا چہرہ دیکھتا رہا۔ارمینہ نے کروٹ لینا چاہی تو ریحان نے ہاتھ بڑھا کر اسے گرنے سے روکا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جو شاید ارمینہ دیکھ لیتی تو اسے اچھی خاصی سنا دیتی۔ موبائل پر ہونے والی مخصوص بیل نے ریحان کوجیسے سب یاد دلا دیا تھا۔ اس نے احتیاط سے ارمینہ سے فاصلہ بنایا تھا۔ارمینہ کو صحیح سے لٹا کر لیپ ٹاپ بند کر کر رکھنے کے بعدوہ موبائل اٹھا کر کمرے سے نکل آیا۔
کس قدر کار اذیت ھے ذرا سوچو تو!!!! جس نے ملنا ہی نہیں اس کی تمنا کرنا۔
کمر میں درد کی لہر اٹھی تو ارمینہ کی آنکھ کھلی۔ خود کو ریحان کے بستر میں دیکھ کر اس کی آنکھیں پوری کھل گئی تھیں۔ “میں یہاں کیسے آئی؟ “ اس نے حیران ہوتے خود سے سوال کیا۔ پھر جیسے ہی سب یاد آیا تو نظر بے ساختہ ریحان کی تلاش کی میں دوڑائی۔ “ارمینہ!تم اچھا نہیں کررہی اس کے ساتھ،اگر اسے چھوڑنا ہی ہے تو اس کو خود کی جانب مائل بھی نہ کرو۔ “ ضمیر نے ملامت کی تو ارمینہ کو ایک پل کو شرمندگی ہوئی۔ “لیکن اس نے بھی تو میری انسلٹ کی ہے، وہ کیسے کہہ سکتا ہے اس کو مجھ میں انٹرسٹ نہیں۔ اب جب وہ اپنے منہ سے میرا ساتھ مانگے ناں تب مزہ آئے گا۔ “ ایک پل کی شرمندگی ہوا ہو چکی تھی خودغرضی اورضد غالب آگئی تھی۔ خود غرضی اور ضد کا انجام کہاں اچھا ہوتا ہے، ہار شاید اس بار ارمینہ کا مقدر تھی۔