کچن سے آتی گنگنانے کی آواز پر اس نے کچن کا رخ کیا تھا۔دروازہ کے بیچ و بیچ کھڑے ہوتے ہی اسے حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔سارا کچن بکھرا پڑا تھا۔پیاز اور آلو چھلکے فرش کی دھول چاٹ رہے تھے۔سنک کےآس پاس برتنوں کا ڈھیر لگ چکا تھا۔برنر پر جا بجا گرے تیل ،سرکہ اور مصالحوں کے دھبے۔اس نے نفی میں سر ہلایا اور آگے بڑھی۔ “آپ کیا کر رہے ہیں؟” اس نےآزاد کےکندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو وہ مڑا تھا۔ “ڈیڈ نے چیلنج دیا ہے مجھے،خاص ڈنر تیار کرنا ہے۔” آزاد کا انداز جوشیلہ تھا۔ “آپ نے کچھ بنایا بھی ہے یا صرف پھیلایا ہی ہے؟” اس نے کچن پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا تو آزاد کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ آئی۔ “سچ بتاؤں یا جھوٹ؟ “ “اپنی پلاننگ بتا دیں۔” اس کے درست اندازے پر آزاد کامنہ کھل گیا تھا۔پھر اس نے سچ بتانا ہی ضروری سمجھا۔ “کھانا آرڈر کر دیا ہے، بہت زیادہ محنت کر کر کچن کا حال بھی درست کر دیا ہے، کوئی نہیں کہہ سکتا یہاں کچھ نہیں بنا۔ “ اس نے بتا کرخود کو داد دی تھی جبکہ مقابل ہنستی چلی گئی تھی۔ آزاد اسے دیکھ رہا تھا جو شاید آج پہلی بار ہنسی تھی۔ ہنستے ہنستے وہ اچانک رونے لگی توآزاد کو اس کی فکر ہوئی۔اس نے۔اس نے آگے بڑھ کر پورے حق سے اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔ “آئی ایم سوری! “ کچھ پل بعد جیسے ہی وہ سنبھلی تھی، اسے اپنی پوزیشن کا احساس ہوا تھا۔ اس نے آزاد سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔ “میں ہوں ہمیشہ تمہارے لیے۔ “ آزاد نے اسے یقین دلانا چاہا تھا جبکہ اس کا اپنا دل تیزی سے دھڑکا تھا اپنے اس وعدے پر۔ آیا وہ وعدے پر پورا اتر سکے گا یا نہیں۔
کہاں سے آئی تھی آخر, تیری طلب مجھ میں خدا نے مجھ کو بنایا تو میں اکیلا تھا۔
“ہمیں ابھی نہیں جا سکتے؟ “ وہ اس کے پاس بیٹھی ریکویسٹ کر رہی تھی۔ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا، وہ کسی نہ بہانے ریحان کے قریب رہتی تھی۔ ریحان کم گو تھا اس کا فائدہ ارمینہ کو یہ تھا کہ وہ بنا کوئی بحث کیے اس کی بات مان لیتا تھا۔ “بیمار ہو جاؤ گی۔ “ ریحان نے سنجیدگی سے کہامگر ساتھ ساتھ وہ لیپ ٹاپ میں کھلی اپنی فائلز بند کر رہا تھا۔ “تم خدمت کر لینا میری۔ “ ارمینہ نے جیسے ہی کہا تھا ریحان نے اسے دیکھا تھا۔ “اب ایسے مت دیکھو،نیچے جا کر میرا نام نہیں لینا، میرا موڈ اچھا ہے، امی کے طعنے سن کر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ “ اسے سب سمجھاتی وہ اٹھ کر الماری سے چادر نکال لائی تھی۔ “ایسے جاؤ گے؟سردی لگ جائے گی۔ یہ پہنو پہلے۔” ریحان کو بنا جیکٹ کے باہر جاتے دیکھ کر اس نے ٹوکا تھا ،اور نہ صرف ٹوکا تھا بلکہ اس کے تکیے کے پاس رکھی جیکٹ لا کر اسے زبردستی پہنا بھی رہی تھی۔ “سیدھے ہو جاؤ ذرا؟ “ اس کا رخ اپنی جانب کرتی وہ جیکٹ صحیح کر رہی تھی۔ “نیچے آجاؤ۔” پیچھے ہوتا ریحان کمرے سے نکل گیا تھا۔ ارمینہ مسکرائی تھی۔ ارمینہ نے نوٹ کیا تھا وہ رات میں دیر سے سوتا تھا، اور فجر سے پہلے ہی کمرے سے نکل جاتا تھا۔ سونے سے پہلے اس کا روز کا معمول تھا شمیم بیگم سے ملنا اور ارمینہ کو چند پل کے لیے دیکھنا۔ ارمینہ نہیں جانتی تھی،کہ اس کا یہ ڈرامہ مقابل کو کس دکھ سے دوچار کر سکتا ہے، فلحال وہ سب بھلائے صرف ریحان کو جھکانا چاہتی تھی۔
“اچھا ریحان! تم صرف مجھے اور چچی کو کیوں لے جا رہے ہو؟ “ آئس کریم سے انصاف کرتی وہ بولی تھی۔ “امی اور بابا کے لیے سر پرائیز پلان کیا تھا، ان کی خواہش تھی یہ۔ لیکن۔ ۔۔۔۔۔” یک دم وہ چپ ہوا تو ارمینہ نے اس کا چہرہ دیکھا۔ باپ کی یاد نے ریحان کے چہرے پر دکھ کی جھلک دیکھائی تھی جسے پر وہ جلد ہی قابو پا گیا تھا۔ “کچھ ردو بدل کرنے کے بعد تمہارے لیے بھی اپلائے کر دیا تھا، کیونکہ تم بھی میری ذمہ داری ہو۔” ریحان کے جواب پر ارمینہ نے بے ساختہ اس کی جانب دیکھا تھا۔ “تم ذمہ داری پوری کر رہے ہو؟” ارمینہ کو اس سے کسی اور جواب کی توقع تھی۔ “ذمہ داریاں نبھا کر شاید دلوں کا میل چھٹ جائے۔ “ ریحان نے بہت سوچ کر جواب دیا تھا۔ ارمینہ نے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر ہاتھ صاف کیا تھا جس پر آئس کریم پگھل کر بہہ گئی تھی۔ “تم صبح اتنی جلدی کیوں اٹھ جاتے ہو؟اور جاتے کہاں ہو؟ “ اس کے سوال پر ریحان کی گرفت اسٹیرنگ پر ڈھیلی ہوئی تھی۔ اس کے جواب دینے سے پہلے ہی اس کا فون رنگ ہوا۔ “خیریت؟ “ فون اٹھاتے ہی ریحان نے پوچھا تھا۔ میں کل آتا ہوں۔ “ اس نے کہہ کر فون بند کر دیا تھا۔ “کہاں جانا ہے ؟کس کا فون تھا؟ “ ارمینہ نے اس کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔ “اسلام آباد جانا ہے ،خالہ کا آپریشن ہے۔ “ ارمینہ کو سمجھ نہ آیا کہ آگے کیا کہے تو اس نے ہمم کہہ کر رخ سیدھا کر لیا تھا۔
“تم بہت زیادہ خوددار ہو ریحان!” وہ جہانگیر صاحب سے ملنے آیا تھا تاکہ ان سے دو دن مزید غیر حاضر کی بات کر سکے۔جہانگیر صاحب میٹنگ میں تھے جبکہ آزاد ان کے کیبن میں موجود تھا۔اس نے خود ہی بات شروع کی۔تھی۔ “یہ کوئی برائی تو نہیں ہے۔” ریحان نے میگزین رکھتے ہوئے کہا۔ “برائی تو نہیں ہے لیکن تمہیں نہیں لگتا کبھی کبھی فیور لے لینا چاہیئے؟” آزاد نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔ “احسان کا بدلہ چکانا پڑتا ہے۔شاید میں نہ چکا سکوں۔میں کسی پیشمانی کو اپنی زندگی کا حصہ نہیں بنا سکتا۔” ریحان کے جواب پر آزاد نے تائیدی انداز میں سر ہلایا۔ “بالکل ڈیڈ کی طرح باتیں کرتے ہو تم ،وہ الگ بات ہے وہ صرف باتیں کرتے ہیں اور تم عمل بھی کرتے ہو۔” آزاد کے رازداری سے بتانے پر ریحان مسکرایا تھا۔ “ریحان!ڈیڈ کا خیال رکھنا۔” وہ یک دم سنجیدہ ہوتا بولا تو ریحان کی مسکراہٹ سمٹی۔ “ناامیدی گناہ ہے آزاد!” “ناامید نہیں ہوں میں ریحان!لیکن ہوسکتا ہے میری زندگی اتنی ہی ہو؟” آزاد نے سنجیدگی سے کہا۔ “اگر امید اور ناامیدی کی کشمکش میں پھنس رہے ہو تو دعا کا راستہ چن لو۔” ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “کیا اپنی زندگی مانگنا صحیح ہے؟” آزاد کا لہجہ عجیب تھا۔ “کیا جس نے زندگی دی ہے اس سے صرف موت مانگی جا سکتی ہے زندگی نہیں؟” ریحان نے سوال کے بدلے سوال کیا تو آزاد کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔اسے سوال کا جواب مل گیا تھا۔
“تم اتنا سامان کیوں لے جارہے ہو؟” ریحان نے ارمینہ کے سوال پر اپنے کپڑوں کو دیکھا۔تین سوٹ تھے جنہیں اتنا سامان کہا جارہا تھا۔ “دو تین دن لگ سکتے ہیں اس لیے۔” “دو تین دن؟” اس نے تینوں الفاظ پر زور ڈالتے ہوئے کہا۔ “شاید زیادہ بھی لگ جائیں۔” ریحان نے عام سے انداز میں کہا۔ “آپریشن اتنے دن چلنے والا ہے؟” اس نے طنزیہ پوچھا تو ریحان نے اچنبے سے اسےدیکھا۔ “امی نے گھر بیچنے کا کہا تھا۔وہ کام بھی ختم کرنا ہے،اس لیے زیادہ دن لگ سکتے ہیں؟” بیگ بند کرتا وہ پوری وضاحت اسے دے چکا تھا۔ “یہ رکھ لو۔” ایک لفافہ اس کے ہاتھ میں تھما کر وہ آگے بڑھ گیا تھا۔چند قدم چل کر وہ رکا تھا۔ “مینا!” ریحان نے اسے پکارا تو ارمینہ نے فورا اس کی جانب دیکھا تھا۔پہلی بار جو پکارا تھا۔ “امی کا خیال رکھنا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنا بھی۔” وہ کہہ کر آگے بڑھا تو ارمینہ نے اسے پکارا۔ “جلدی واپس آنا۔” ریحان ہاں میں سرہلاکر آگے بڑھ گیا تھا۔ارمینہ سمجھ نہیں پا رہی تھی اپنی فیلنگز کو۔ریحان کے جاتے ہی اسے خالی کمرہ عجیب لگ رہا تھا۔وہ ریحان کے پیچھے باہر نکلی تھی۔جب تک وہ گھر کے دروازے سے باہر نہیں نکل گیا ارمینہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
نگاہ اُلفت، مزاج برہم،یہ سلسلہ بھی عجیب تر هے!!!!!!!!! ہزار شکوے،ہزار رنجشیں،وہ شخص پھر بھی قریب تر ھے۔ ریحان ایک ہفتے بعد لوٹا تھا۔رات گئے جیسے ہی اس نے کمرے میں قدم رکھا تھا،ارمینہ فورا اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ “سوری!میری وجہ سے تمہاری نیند خراب ہوئی۔” ریحان کو شرمندگی ہوئی تھی۔دوسری جانب ارمینہ بنا کوئی جواب دیئے واپس لیٹ گئی تھی۔اپنا بیگ الماری کے پاس رکھ کر اس نے اپنا بستر الماری سے نکالا۔ارمینہ نے آنکھیں بند کی ہوئی تھیں،لیکن ریحان کی ہر حرکت کو محسوس کر رہی تھی۔ریحان سونے کے لیے لیٹ گیا تو ارمینہ نے آنکھیں کھولیں۔آنکھوں پر بازو رکھے وہ سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ارمینہ کی آنکھ سے آنسو نکلا تو اس نے غصے سے کشن اٹھا کر ریحان پر پھینکا تھا۔اچانک افتاد پر وہ اٹھ کر بیٹھا تھا،پھر ارمینہ کو روتے دیکھ کر پریشان ہوتا کھڑا ہوا تھا۔ “کچھ ہوا ہے؟رو کیوں رہی ہو؟” کچھ فاصلے پر کھڑا ہو کر وہ پوچھ رہا،جواب میں ارمینہ نے باقی دو کشن بھی اس پر پھینکے اور گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگی۔ریحان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے،ہچکچاتے ہوئے وہ بیڈ پر جیسے ہی اس کے پاس بیٹھا ارمینہ نے سر اٹھایا تھا۔ریحان کو اپنے لیے پریشان دیکھ کر اسے اپنی بے اختیاری پر غصہ آیا۔وہ رونا نہیں چاہتی تھی لیکن آنسو رک ہی نہیں رہے تھے۔ “مینا!کیا ہوا ہے؟” ارمینہ نے اب نوٹ کیا تھا وہ اسے عباد کی طرح مینا بلاتا تھا۔ “تم۔۔۔۔۔۔(وہ چپ ہوئی اور ریحان کی جانب دیکھا جو اس کے بولنے کا منتظر تھا) تم میرے لیے کچھ نہیں لائے۔ابو اور چاچو ہمیشہ لاتے تھے۔” اس نے شکوہ کیا تھا،وہ اسے نہیں بتاناچاہتی تھی کہ وہ اسے یاد کرتی رہی ہے۔ریحان اس کا شکوہ سن کر کھڑا ہوا تھا۔ “لایا ہوں ،صبح دینے کا سوچا تھا۔” وہ تھکا ہوا لگ رہا تھا۔اپنے بیگ سے باکس نکال کر وہ ارمینہ کے پاس واپس آیا تھا۔ “ابونے بتایا تھا کہ تمہیں گفٹس لینا پسند ہے۔” ریحان نے باکس اس کی جانب بڑھایا تو ارمینہ نے آنسو صاف کیے۔اس نے جلدی سے باکس لے کر کھولا تھا۔سلور کلر کی پائل دیکھ کر اس نے ریحان کی جانب دیکھا جو اس کے جواب کا منتظر تھا۔ “اچھی ہیں۔اب پہنا دو مجھے۔” واپس اس کے ہاتھ میں باکس دے کر اس نے نخرہ دیکھاتے ہوئے کہا۔ریحان کچھ پل تو سوچتا رہا پھر آگے بڑھ کر اس کے پیروں میں پائل باندھنے لگا۔ “یہ تمہاری طرف سے پہلا تحفہ ہے ،منہ دیکھائی میں تو تم نے چاچی کے کنگن دے دیے تھے۔” وہ پائل دیکھتے ہوئے اسے جتاتے ہوئے بولی۔ریحان نے باکس اس کے ہاتھ میں رکھا تھا۔ “ابو نے کہا تھا تمہیں تائی امی کے کنگن پسندہیں،اس لیے ویسے ہی بنوائے تھے،امی کے نہیں تھے وہ۔” اس کی غلط فہمی دور کرتا وہ جاکر اپنے بستر میں لیٹ گیا تھا۔ارمینہ حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔پھر جلدی سے اتر کر اس کے پاس آئی۔ “چاچو!میرے بارے میں بتاتے تھے تمہیں؟” اس نے ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے پوچھا،جبکہ ریحان کو سمجھ آگیا تھا،آج اس کو سکون کی نیند نہیں ملے گی۔ “لیٹے کیا ہوئے ہو؟اٹھو؟” زبردستی اسے بیٹھا کر وہ اس کے برابر میں جگہ بنا چکی تھی۔ریحان نے ایک لمبی سانس لی تھی۔
مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت چپکے سے کسی روز جتانے کے لئے آ
“آزاد!!” جہانگیر صاحب نے گھر سے باہر نکلتے آزاد کو پکارا تھا۔ “پیچھے سے آواز نہیں دیتے ڈیڈ!” وہ منہ بنا کر ان کے پاس آیا تھا۔ “کہاں جا رہے تھے؟” انہوں نے اس کا پھولا منہ اگنور کیا تھا۔ “آپ کی اکلوتی ،پیاری بہو کے لیے پھول لینے۔” آزاد نے بگڑے موڈ کے ساتھ کہا تو جہانگیر صاحب نے قہقہہ لگایا۔ “اس جناتی قہقہے کی وجہ جان سکتا ہوں؟” آزاد کے موڈ میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ “اسے اپنے ساتھ گھمانے لے کر جاؤ،بجائے روز پھول لانے کے۔ “ جہانگیر صاحب نے مشورہ دیاتھا۔ “مجھے اس کا دوست بننا ہے ڈیڈ!وہ بن جائے گی ناں میری دوست؟” آزاد نے بچوں کی طرح کہا تو جہانگیر صاحب کی آنکھیں بے ساختہ نم ہوئی تھیں۔ “میرا بیٹا بہترین دوست ہے وہ انکار نہیں کرے گی۔” انہوں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے یقین دلانے والے انداز میں کہا۔ “لیکن اگر یہ دوست کھو گیا تو۔۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے ڈیڈ!اس کو دکھ دینے سے۔” “آزاد!۔۔۔” جہانگیر صاحب کا دل دہل گیا تھا اس کی بات پر۔ “سوری ڈیڈ!” وہ شرمندہ ہوتا ان کے گلے لگا تھا۔ “میں کل سکیٹینگ کلب لے جانے والا ہوں آپ کی بہو کو۔آپ کے بیٹے کی پرفارمنس دیکھ کر وہ فدا ہوجائے گی۔” موڈ کو خوشگوار بناتے ہوئے نے اس نے فرضی کالر کھڑے کیے تھے۔جہانگیر صاحب نے دل میں ہی اس کی زندگی کی دعا کی تھی۔ “پھول ڈیڈ!” سر پر ہاتھ مارتا وہ گارڈن سے ہی گلاب کے دو پھول توڑ کر کمرے کی جانب بھاگا تھا۔ کلسمندی سے آنکھیں کھول کر وہ اپنے سرہانے کھڑے آزاد کو دیکھ اٹھ کر بیٹھی تھی۔ “گڈ مارننگ!” آزاد نے پھول اس کی جانب بڑھائے۔ہتھیلی سے نکلتی خون کی لکیر دیکھ کر وہ پریشان ہوئی تھی۔ “یہ کیا کیا ہے؟” اس نے پریشانی سے اس کی ہتھیلی دیکھی تھی۔ “ہماری دوستی کے لیے کچھ بھی۔” آزاد نے مسکراتےہوئے کہا تو اسے گھوری سے نواز کر وہ سائیڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ باکس نکال کر اس کی ہتھیلی سے خون صاف کرنے لگی۔ “لاپرواہی مت کیا کریں۔” “تم دوستی کر لو؟” آزاد نے دوبدو کہا تو وہ اٹھ کر واش روم کی سمت بڑھ گئی۔آزاد نے اپنے لائے پھولوں کو دیکھا جو سائیڈ ٹیبل پر رکھے تھے۔ “ہم دوست ہیں۔” اس ایک جملے نے اس کی اداسی پل میں ختم کی تھی،لیکن جملہ بولنے والی واش روم میں بند ہوچکی تھی۔وہ خوشی سے اچھلا تھا۔
کوئی تو سمجھے محبت کی بے زبانی کو کوئی تو ہاتھ پہ چپکے سے پھول دھر جائے
بس ایک بار وہ اپنا مجھے کہے تو سہی وہ اپنی بات سے چاھے تو پھر مکر جائے۔
ارمینہ کی آنکھ کھلی تو پہلی نظر ریحان کے چہرے پر پڑی۔کچھ پل تو وہ اسے دیکھتی رہی پھر یک دم اس سے دور ہوئی تھی۔اس کے اس طرح جھٹکنے سے ریحان کی آنکھ بھی کھل گئی تھی۔اس نے بھی پیچھے ہوتے فاصلہ بنایا تھا۔وہ اس سے بات کرتی کرتی اس کے کندھے پر سر رکھ کر سوگئی تھی۔ریحان تھکا ہوا تھا اس بھی پتا نہیں چلا کب اس کی آنکھ لگی۔دونوں ہی نظریں چرا رہے تھے ایک دوسرے سے۔ارمینہ نے۔تیزی سے اٹھ کر جانے کی کوشش کی تو ڈوپٹہ ریحان کے ہاتھ کے نیچے دبا ہونے کی وجہ واپس پیچھے آئی تھی۔ریحان نے جلدی سے اس کے ڈوپٹے سے ہاتھ ہٹایا تھا۔اس کا ہاتھ ارمینہ کے ہاتھ سے ٹچ ہوا تھا۔وہ اٹھنے لگا تو ارمینہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ “تمہیں بخار ہے؟” وہ اب اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کر رہی تھی۔ “میں ابو کو بتاتی ہوں۔” اس کا بخار کنفرم کرتے ہی وہ اٹھی تھی۔ “میں دوا لے لوں گا تم تایا ابو کو پریشان مت کرو۔” ریحان نے اسے روکتے ہوئے کہا۔ “ڈاکٹر کے پاس جانا ہوگا۔” ارمینہ نے آنکھیں چھوٹی کر کر اسے گھورتے ہوئے کہا۔ “چلا جاؤں گا۔ “ اس نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔ ارمینہ تیزی سے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی تھی۔ ریحان کے بستر اٹھانے تک جاوید صاحب اور رفعت بیگم اس کے کمرے میں آگئے تھے۔ریحان نے بے بسی سے ارمینہ کو دیکھا جو اسے منہ چڑاتی رخ پھیر گئی تھی۔
“واسع!مجھے آپ سے بات کرنی ہے۔” اجیہ نے اس کی شرٹ کو پیچھے سے پکڑ کر اسے روکا تھا۔ “بیگم! یہ کونسا طریقہ ہے بات کرنے کا؟ “ واسع نے اپنی شرٹ گلے سے پکڑ کر بٹن کھولتے ہوئے پوچھا۔ “اسے زبردستی والا طریقہ کہتے ہیں۔” اجیہ نے مزید اس کی شرٹ کھینچی تو واسع نے پیچھے مڑ کر اس سے شرٹ چھڑوائی تھی۔ “ایسی کونسی بات کرنی ہے آپ کو بیگم! جو شوہر بیچارے کا سانس تک روکا جارہا ہے؟” اس نے شوخ لہجے میں پوچھا تو اجیہ نے اس کے کندھے پر مکا مارا۔ “آپ کو پتا ہے آپ مجھے بالکل وقت نہیں دیتے۔۔۔۔” اجیہ نے روٹھتے ہوئے کہا۔ “مجبوری ہے،ورنہ میں کہاں ایسی گستاخی کر سکتا ہوں؟ “ واسع نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ “آپ یہ گستاخی پیچھلے دو ہفتے سے کر رہے ہیں۔” اجیہ نےاس کے ہاتھ سے ہاتھ نکالا۔ “زوجہ!!!” “واسع بس کریں،عجیب عجیب ناموں سے بلانا شروع ہوجاتے ہیں آپ تو۔ “ آگے بڑھ کر اس کی شرٹ کا کھلا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔ “طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ “ واسع نے اس کی حجاب کی پن نکالتے ہوئے پوچھا۔ “آپ کو کیا؟ آپ تو میری طرف دیکھتے بھی نہیں۔ “ پھرسے ناراضگی کی وجہ یاد آتے ہی وہ رخ پھیر گئی تھی۔ “مجھے کچھ گڑ بڑ لگ رہی زوجہ! اچانک ناراضگی وہ بھی اس وقت۔ ۔۔۔۔” واسع کے درست اندازے پر اجیہ نے پن واپس لگاتے ہوئے دراز سے لفافہ نکال کر اس کے ہاتھ میں رکھا اور کمرے سے نکل گئی۔ واسع نے حیرانگی سے لفافے پرلکھے ہاسپٹل کے نام کو دیکھا تھا۔ اندر سے رپورٹ نکال کر اسے پڑھتے ہی واسع کے چہرے پر خوشی آئی تھی۔ “اب مجھے اگنور مت کیجئے گا،میری پوزیشن مضبوط ہونے والی ہے۔ “ اجیہ کی خوشگوارآواز پر وہ پلٹا تھا، اس سے پہلے وہ کچھ بولتا اجیہ چلی گئی تھی۔ اس کی زندگی میں اتنی بڑی خوشی آئی تھی۔ اس نے بے ساختہ اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔
“تم کہیں نہیں جاؤ گے۔” دروازے میں ہاتھ رکھ کر اس نے ریحان کا راستہ روکا تھا۔ “میرا جانا ضروری ہے۔ “ ریحان نے سنجیدگی سے کہا۔ “تمہیں بخار ہے اور۔۔۔۔۔۔” “بخار اتر چکا ہے اور۔۔۔۔” “امی!!!!” ریحان کی بات کاٹتی وہ اونچی آواز میں رفعت بیگم کو بلانے لگی۔ “کیا کر رہی ہو یہ اور کیوں؟ “ ریحان کا لہجہ ہنوز سنجیدہ تھا۔ “امی کو بلا رہی ہوں اور کیوں بلا رہی ہوں؟ کیونکہ مجھے مزا آرہا ہے تمہیں تنگ کرنے میں۔” ارمینہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے لے جاکر بیڈ پر بیٹھا دیا تھا۔ “آج کے دن تم میرا بیڈ لے سکتے ہو۔ “ اس نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تو ریحان کھڑا ہوا۔ “کچھ کہہ رہی ہوں میں تم سے۔” اس کے سینے پر انگلی رکھتی وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تو ریحان اس کا ہاتھ نیچے کیا۔ “امی سے ملنے جا سکتا ہوں؟ “ اس نے چڑتے ہوئے اجازت مانگی تو ارمینہ فتح مندی سے مسکرائی۔ ریحان اس کے پاس سے گزر کر دروازے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ “میں ساتھ چلوں گی۔ “ اونچی میں بولتی وہ اس کے پیچھے آئی تھی۔ وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں،جہاں محبت جڑیں پھیلا رہی تھی وہیں وقت اپنی اگلی چال رہا تھا۔
لے گیا چھین کے کون آج ترا صبر و قرار بیقراری تجھے اے دِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اب کی جو راہِ محبّت میں اٹھائی تکلیف سخت ہوتی ہمیں منزِل کبھی ایسی تو نہ تھی
اسکیٹنگ شوز پہن کر وہ ہال میں آیا تھا۔ بلیک جینز اور بلیک اونی پوری بازو کی شرٹ پہنے وہ اپنے مسکراتے چہرے کے ساتھ وہاں سب کو اپنی جانب دیکھنے پر مجبور کر گیا تھا۔ “بہت جلد تم مجھ پر بری طرح فدا ہونے والی ہو۔” اس کے چیلنجنگ انداز پر وہاں ہوٹنگ کی گئی تھی۔ “آج میرا ارادہ ہے اپنی پیاری سی وائف کو متاثر کرنے کا۔ آپ سب میرا ساتھ دیجیئے گا۔ “ آزاد پرجوش تھا سب نے چلا کر اس کا حوصلہ بڑھایا تھا۔ وہ مسکراتا ہوا بالکل درمیان میں جا کر کھڑا ہوا تھا۔ میوزک شروع ہوتے ہی آزاد نے سکیٹ کرنا شروع کیا تھا۔ دونوں بازو پھیلائے اس نے اوپر دیکھا تھا۔ وہ بھی آگے بڑھ آئی تھی۔ سب لوگ اس کے لیے تالیاں بجا رہے تھے۔ ہال کے گول چکر لگاتے وہ جیسے ہی اچھلا تھا، اس نے بے ساختہ اسے پکارا تھا۔ آزاد نے اس کی جانب دیکھ کر آنکھ ونک کی تھی۔ وہ اتنی مہارت سے ڈانس اسٹیپ لے رہا تھا۔ وہ گھول گھومنا شروع ہوا تو ہوٹنگ شروع ہوگئی۔ آزاد کے چہرے کے تاثرات بدلے تھے۔مسکراہٹ تکلیف میں بدلی تھی۔ اس کا ہاتھ دل پر گیا تھا۔ خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتا وہ سامنے کھڑی اپنی محبت کی مسکراہٹ دیکھ کر اپنی تکلیف بھلا گیا تھا۔ سب سے داد وصول کر کر وہ اس کے پاس آیا تھا۔
اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا آسماں پہ چاند پورا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر آدھا لگا۔
“مسکراہٹ۔۔۔۔۔بتا رہی۔۔۔۔۔ہے بندہ ناچیز۔۔۔۔۔کامیاب ہوگیا ہے۔ “ ہانپتے ہوئے اس نے کہا تو وہ مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔ آزاد اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔ دل گھبرا رہا تھا مگر محبوب کی چاہ بھی کر رہا تھا۔ “مجھے بھی سکیھنی ہے۔ “ اس نے جیسے ہی کہا تھا،آزاد خوش ہوتا آگے آیا تھا۔ “میں سیکھاؤں گا۔مجھ سے سیکھو گی؟” آزاد نے اپنی خدمات پیش کی تواس نے ہاں میں سر ہلایا تھا۔ آزاد کے چہرے پر خوشی آئی تھی۔ وقت سب ٹھیک کر رہا تھا لیکن ایک آزمائش بھی تیار کر رہا تھا۔
وہ کب سے بیٹھا ارمینہ کی باتیں سن رہا تھا۔ ارمینہ کا بدلنا اسے عجیب لگ رہا تھا۔ وہ کبھی اسے بدتمیز لگتی تھی، کبھی معصوم تو کبھی شرارتی۔ریحان کی نظریں اس پر تھیں مگرذہن کہیں دور پہنچا ہوا تھا۔ “ریحان لایا ہے میرے لیے۔ “ اپنا نام سنا توریحان کا پورا دھیان ارمینہ کی جانب ہوا۔وہ شمیم بیگم کو پائل دیکھا رہی تھی۔ ریحان نے اس کی کلائیاں دیکھیں تو کنگن دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر تقریبا لیٹ گیا تھا۔شمیم بیگم اور ارمینہ کی باتیں سنتے سنتے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔ “سو گیا۔ “ ارمینہ نے شمیم بیگم کا دھیان ریحان کی جانب کیا۔ ” عباد کی ایک بار بہت زیادہ طبیعت خراب ہوئی تھی چھوٹا تھا میرا ریحان ،لیکن اس وقت مجھے لگا تھا میرا بیٹا بڑا ہوگیا ہے۔ وہ ہمارا سہارا بن گیا تھا۔” شمیم بیگم نے محبت سے اسے دیکھتے ہوئے اس پر چادر ڈالی تھی۔ “یہ اچھا ہے۔ “ ارمینہ نے بے ساختہ کہا تو شمیم بیگم مسکرائی تھیں۔ “آپی!چچی! خوشی کی خبر ہے میں خالہ بننے والی ہوں۔ اجیہ آپی آئیں باہر۔ “ رامین کی چہکتی ہوئی آواز پر ان دونوں نے اسے چپ ہونے کا اشارہ کیا تھا۔ “دیکھائی نہیں دیتا، وہ سورہا ہے۔ “ ارمینہ نے اسے ڈانٹا تو پرواہ کیے بنا شمیم بیگم کے گلے لگ گئی۔ “تائی امی! میں خالہ بنوں گی۔ “ اب کی بار اس نے آواز آہستہ رکھی تھی۔ان دونوں کو اب اس کی بات سمجھ آئی تھی۔ دونوں کے چہرے ہر خوشی آئی تھی۔ ارمینہ اٹھ کر اجیہ سے ملنے باہر چلی گئی تھی۔ شمیم بیگم نے ایک نظر ریحان کے پرسکون چہرے پر ڈالی تھی اور مسکرا دی تھیں۔