میں روز اُس کو سمجھاتا ہوں عشق فانی ہے وہ پھر سے خواب محبت کے بونے لگتی ہے
ایسی لڑکی سے کون بحث کا خطرہ مول لے جو لاجواب ہو جائے__ ” تو رونے لگتی ہے!!
آزاد واش روم سے باہر نکلا تو اسے دبی دبی سسکیوں کی آواز سنائی دی۔ کمبل میں لپٹا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ وہ ٹاول پھینک کر فورا اس کی جانب لپکا تھا۔ “تم رو رہی ہو؟ “ آزاد نے کمبل چہرے سے ہٹاتے ہی جیسے ہی پوچھا تھا اس نے فورا اپنے آنسو صاف کیے تھے۔ “میرے سر میں درد ہے مجھے سونا ہے۔ “ بھاری ہوتی آواز کے ساتھ وہ چڑ کر بولی تھی۔تو آزاد ہاتھ آگے بڑھا کر اس کا بخار چیک کرنے لگا۔ اسے بخار نہیں تھا۔آزاد کی تشویش تھوڑی کم ہوئی۔ “مجھے بتاؤ کیا بات پریشان کر رہی ہے؟” آزاد نے نرمی سے پوچھا تھا۔ “مجھے جانا ہے یہاں سے۔ “ اس نے روتے روتے جیسے ہی کہا آزاد کے سارے الفاظ ہی گم ہوگئے تھے۔ وہ بے بسی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ “تم بھی نہیں جانے دو گے ناں؟ میں نے کہا تھا مجھے نہیں کرنی شادی۔ چلے جاؤ یہاں سے۔ “ اس نے ہاتھ سے آزاد کو پیچھے دھکیلا تھا۔آزاد اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ ہلا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں ہاتھ پکڑے تو وہ چھڑوانے لگی۔ آزاد نے پکڑ سخت کی تو تنگ آتی رونے لگی۔ آزاد نے اس کے ہاتھوں پر سر ٹکایا۔ “بہت محبت ہے تم سے، تم جانے کی بات کرتی ہو تو دھڑکن رکنے لگتی ہے۔ “ آزاد نے بولنا شروع کیا تو وہ رونا بھول کر اس کی بات سننے لگی۔ “تم میری دسترس میں ہو، میری ہو، مجھ سے یہ حق نہ چھینو کہ تمہیں اپنا نہ کہہ سکوں؟اپنی زندگی کی آخری سانس تک تمہارا رہنا چاہتا ہوں۔” آزاد کے آنسو جیسے ہی اس کے ہاتھ پر محسوس ہوئے اس نے گھبرا کر ہاتھ پیچھے کھینچے تھے۔ وہ اس کے لیے رو رہا تھا یہ دیکھ کر اس کا دل گھبرا گیا تھا۔ آنسو صاف کرتا وہ مسکرایا۔ “میرے ساتھ چلو،جہاں کہو گی لے کر جاؤں گا لیکن واپس میرے پاس ہی آنا ہوگا۔ “ نرمی سے بات کرتے اس نے آخری میں جیسے اسے یاد دلایا تھا۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا تو آزاد آگے جھکا۔ “شش ش شرٹ! “ اس کے ہکلا کر کہنے پر آزاد اپنا سر کھجاتا کھڑا ہوگیا تھا۔ وہ تیزی سے اٹھ کر واش روم کی سمت بھاگی تھی۔ آزاد مسکرا تھا ،دروازہ بند ہوتے ہی اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ “تم آزمائش بنتی جارہی ہو اور میں ہارنے لگا ہوں۔ تمہارے بعد تو یہ موت کا ڈر بھی نہیں رہے گا۔” دل میں سوچتا وہ اس سے مخاطب تھا۔
عکس عکس، گماں گماں، خیال سارے مسترد.. تو نہیں تو کچھ نہیں، سوال سارے مسترد.
“ریحان!” اس نے بیگ پیک کرتے ریحان کو پکارا۔ “ہمم!!” مصروف انداز میں ہمم کرتا وہ ارمینہ کو چڑا گیا تھا۔اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے کپڑے چھینے۔ “میری بات کو جواب دو پہلے۔” ضدی لہجے میں کہہ کر اس نے شرٹ بیڈ پر رکھی۔ “دادی کہتی تھیں اللہ کے گھر پر پہلی نظر پڑتے ہی جو دعا مانگو قبول ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو تم کیا مانگو گے؟ “ اس نے ہلکا سا ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔ “ابو کی مغفرت اور اپنے گناہوں کی معافی اور۔۔۔۔۔” “اور کیا؟ “ وہ چپ ہوا تو ارمینہ نے بے چینی سے پوچھا۔ “تمہاری خوشی۔ “ ارمینہ کی جانب دیکھ کر اس نے جیسے ہی کہا تھا ارمینہ گنگ رہی تھی۔ ریحان شرٹ بیگ میں رکھ کر بیگ بند کر کر اپنی باقی چیزیں سمیٹ رہا تھا جبکہ وہ ویسے ہی کھڑی تھی۔
شمیم بیگم کی عدت مکمل چکی تھی یہ قسمت ہی تھی یا اللہ کا بلاوا کہ انہیں ایک ہفتے بعد عمرے کے لیے نکلا تھا۔ کچھ ضروری چیزیں اور سب سے ملنے ملانے کے بعد وہ لوگ آج جارہے تھے۔ ارمینہ سب سے مل رہی تھی ریحان سامان کار میں رکھوا رہا تھا۔ “اللہ کے گھر جا رہی ہو بیٹا! اللہ سے اچھی اولاد کا سکھ مانگنا۔ “ رفعت بیگم نے کہا تو ارمینہ نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔ “ایسا کیا دیکھ رہی ہو، اپنے بچے نہیں کھلانے؟ “ رفعت بیگم کی بات سمجھتی وہ ہلکا سا شرمائی تھی۔ “بھابھی! خیر سے جانا اور خیر سے آنا۔ ہم سب خود آئیں گے آپ سب کو لینے۔ “ رفعت بیگم نے کہا تو شمیم بیگم مسکرائی تھی۔ رامین شمشیراور اجیہ بھی وہیں موجود تھے۔ سب نے بہت سی دعاؤں کے ساتھ انہیں رخصت کیا تھا۔ارمینہ نے چپ سادھ لی تھی۔ اس کے ذہن میں ہورہی کشمکش اسے الجھا رہی تھی۔ ائیرپورٹ تک کا سفر اس نے غائب دماغی سے طے کیا تھا۔ ریحان نے اس کے لیے دروازہ کھولا تو اس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا۔اس نے ریحان کی جانب ہاتھ بڑھایا تو ریحان نے ہاتھ بڑھا اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ارمینہ نے اپنے سفید ہاتھ میں ریحان کا سانولہ ہاتھ دیکھا ،پہلی بار تھا جو اس نے رنگ کو نہیں ریحان کی دی اہمیت کو دیکھا تھا۔ کار کو پارکنگ میں چھوڑ کر وہ اگلے سفر کے لیے روانہ گئے تھے۔ ریحان نوٹ کر رہا تھا اس کی خاموشی کو مگر پوچھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
“یہ دیکھو! “ آزاد نے اپنی مٹھی اس کے سامنے کی۔ “کیا ہے اس میں؟ “ آزاد کے اظہار محبت کے بعد وہ اس سے سخت لہجے میں بات کرنا چھوڑ چکی تھی۔ آزاد نے پراسرار سا مسکرا کر مٹھی کھولی تھی۔ اس کے ہتھیلی پر رکھی نفیس اور باریک نوز پن دیکھ کر اس نے آئی برو اچکائے۔ “تمہارے لیے لایا ہوں۔ پہن لو پلیز؟ “ آزاد نے ریکویسٹ کرنے پر اس نے نوز پن اٹھا لی تھی۔ آئینے میں دیکھتے ہوئے اس نے اپنی پرانی نوز پن اتار کر آزاد کی لائی نوز پن ڈال لی۔ دھیرے سے چلتا آزاد اس کے قریب آیا۔ دونوں کندھوں سے تھام کر اس نے اسے اسٹول پر بیٹھایا۔وہ سمجھ نہیں پارہی تھی آزاد کے بی ہیور کو۔ جیسے ہی آزاد نے اس کا پاؤں اٹھا کر اپنے گٹنے پر رکھا اس نے مزاحمت کی۔ “پلیز! ؟؟؟” آزاد کے لہجے میں نجانے ایسا کیا تھا کہ وہ کچھ بول ہی نہ پائی۔ آزاد نے پاکٹ سے پائل نکال کر اس کے پاؤں میں باندھی تو پائل دیکھ کراس کے آنسو خود بخود نکلے تھے۔ “مجھے لگا تھا یہ کھو گئی ہے۔ “ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا، لہجے میں خوشی ہی خوشی تھی۔ “یہ میرے پاس آگئی تھی جیسے تم۔۔۔۔۔۔۔” آزاد آگے بول نہیں سکا تھا اس کی خوشی دیکھ کر وہ بار بار چھو کر پائل کو دیکھ رہی تھی۔ ہر بار وہ اپنی محبت کو آزماتا اور پھر تکلیف برداشت کرتا تھا۔ اس کی بیوی کو نوز پن سے زیادہ پائل عزیز تھی۔ وہ تلخ سا مسکراتا اٹھ کر وہاں سے چلا گیا تھا۔
حرم شریف میں قدم رکھتے ہی ریحان نے مضبوطی سے اپنے دونوں جانب کھڑی ماں اور ارمینہ کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔پکڑ اتنی مضبوط تھی جیسے کھو جانے کا ڈر ہو۔ “ریحان بیٹا!!” شمیم بیگم نے اسے پکارا تو اس نے گرفت ڈھیلی کی مگر ہاتھ نہیں چھوڑے تھے نہ ہی چھڑوانے کی کوشش کی گئی تھی۔ “ایسا لگ رہاہے امی جیسے دوبارہ ہم ساتھ نہیں ہونگے۔” ریحان نے دل ہی دل میں کہا بولنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ “دل کو پرسکون رکھو ریحان!” نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر وہ محبت سے بولیں تو ریحان مسکرایا۔ “کچھ دیر میں نماز کا وقت ہونے والا ہے امی!چلیں میرے ساتھ۔” ارمینہ کا ہاتھ چھوڑ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے ماں کاہاتھ پکڑا تھا۔وہ ان کےہاتھ پر بوسہ دے کر آگے چلنے لگا۔ارمینہ ان کےساتھ ہی چل رہی تھی۔ لیکن ذہن عجیب کشمکش کا شکار ہوگیا تھا۔ریحان کے کہے الفاظ ذہن میں گونجنے لگے تھے۔تبھی اس کی نظر مسجد نبویؐ کے مینار پر پڑی۔ سامنے کے منظر میں وہ اتنا کھو گئی تھی کہ جان ہی نہ پائی کہ وہ ہجوم کا حصہ بن کر آگے نکل آئی تھی۔مسجد نبویؐ میں گونجتی عصر کی اذان کی آواز اس وقت اتنی محصور کن تھی کہ وہ اپنا آپ ہی بھلا بیٹھی تھی۔ “اندر جگہ نہیں ہے آپ آگے نہیں جا سکتیں۔” ایک گارڈ نے اسے روکا تو اس کا تسسل ٹوٹا۔اس نے سامنے دیکھا تو پندرہ کے قریب گارڈ راستہ کو روک کر کھڑے تھے۔اس نے ریحان کو بلانا چاہا تھا تو خود کو اکیلا پاکر پریشان ہوگئی۔ “ریحان!چچی؟” اس نے پیچھے مڑ کر انہیں پکارا تو وہ کہیں دیکھائی نہ دیئے۔ “بیٹا!نماز کا وقت ہے،نماز پڑھ لو۔یہاں ملانے والی ذات اللہ کی ہے۔” ایک عورت نے اسے اپنے ساتھ لےجاتے ہوئے کہا۔وہ ابھی بھی ریحان کو ڈھونڈ رہی تھی۔ “وضو ہے بیٹا؟” اس عورت نے پوچھا تو ارمینہ نے غائب دماغی سے نفی میں سر ہلایا۔ “چلو میرے ساتھ۔” وہ وضو خانے کی جانب بڑھ گئیں۔ “بیٹا!پہلے میری بیٹی کو وضو کرنے دو۔” انہوں نے ایک لڑکے کو کہا تو اس نے پیچھے ہٹ کر جگہ بنا دی۔ “اللہ کے بلاوے پر اسے دیر نہیں کرواتے بیٹا!وہ منتظر ہے تمہیں نوازنے کے لیے۔” اس عورت کی بات پر ارمینہ نے وضو کرنا شروع کیا۔دل کا بوجھ آہستہ آہستہ سرکنا شروع ہوا تھا۔وہ عورت اسے لیکر اپنے سامان کے پاس آئی تھی۔جائے نماز کافی بڑی تھی۔دونوں نے ساتھ نماز ادا کی تھی۔ارمینہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو ریحان کا خیال ذہن میں آیا۔آنسو جیسے بند توڑ کر نکلے تھے۔وہ رو رہی تھی،سمجھ نہیں پا رہی تھی کیا مانگے؟ “وہ سب جانتا ہے۔” اس عورت نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ “وہ میری خوشی مانگنے والا ہے۔” ارمینہ نے روتے روتے کہا۔ “تم بھی اس کی خوشی مانگ لو۔” اس عورت نے کہا تو ارمینہ نے حیرانگی سے اس عورت کو دیکھا۔ “کیا جو اس نے مجھے دیا ہے وہ میرا ہے؟” آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے ارمینہ نے پوچھا تو وہ عورت مسکرائی۔ “جواب تو اللہ نے دے دیا ہے۔” اس عورت نے مسکراتے ہوئے کہا۔ “مینا؟؟” ریحان کی آواز پر اس نے پیچھے دیکھا تھا۔ “ملا جواب؟” اس عورت نے پوچھا تو ارمینہ آنسوصاف کرتی مسکرائی تھی۔اس نے دعا کے لیے دوبارہ ہاتھ اٹھا لیے تھے۔وہ ریحان کی خوشی اور اس کی مانگی دعاؤں کی قبولیت مانگ رہی تھی۔ریحان اس کے انتظار میں کھڑا تھا جب اس کی نظر کچھ فاصلے پر کھڑے آزاد پر پڑی۔وہ ارمینہ کو ایک نظر دیکھ کر آزاد کےپاس آیا تھا۔اس نے آزاد کے کندھےپر جیسے ہی ہاتھ رکھا آزاد کے مڑ کر دیکھنے پر وہ مسکرا دیا تھا۔ “اکیلے آئے ہو؟” ریحان نے جہانگیر صاحب کی تلاش میں نظر دوڑائی۔ “اپنی سپیشل ون کے ساتھ آیا ہوں۔اس کا ساتھ مانگنے اور اپنی زندگی اس کے ساتھ گزارنے کی دعا کرنے۔” آزاد نے مسکراتے ہوئے کہا۔اس کی آنکھوں میں انوکھی چمک تھی جو ریحان سے مخفی نہ رہ سکی۔ “کل عمرے کےلیے ساتھ چلنا۔میں دعا کروں گا تمہارے لیے بھی،یہاں سے قبولیت کی سند لے کر لوٹیں گے۔” ریحان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ہوٹل کا اڈریس اسے بتا کر آزاد آگے بڑھ گیا تھا۔تبھی وہ سامنے سے آتی ارمینہ سے ٹکراتا ٹکراتا بچا تھا۔ “معاف کیجئے گا۔” وہ سر جھکائے ہی تیزی سے آگے بڑھ گیا تھا۔ارمینہ ریحان کے پاس آئی تھی۔اس نے پورے حق سے ریحان کا ہاتھ پکڑا تھا۔ “تم نے مجھے کھو دیا تھا۔” ارمینہ نے شکوہ کیا تو ریحان اس لےکر مسجد کی اندورنی جانب بڑھ گیا۔ “یہاں کوئی کھو نہیں سکتا مینا!یہاں تو بھائی چارہ قائم ہوا تھا،محبت کی مثال قائم ہوئی تھی۔یہ جگہ ہی محبت اور خلوص کا پیکر ہے۔” ریحان اس کے ساتھ چلتا بول رہا تھا۔ “میں نے جو مانگا ہے وہ مجھے مل جائے گا ریحان؟” ارمینہ نے پوچھا تو ریحان مسکرایا۔ “یہاں آکر بھی شک کی گنجائش ہے!کل اللہ کے گھر جا کر پوری نیت سے مانگ لینا۔دعائیں رد نہیں ہوتیں بس اپنے وقت پر پوری ہوتی ہیں۔” ریحان کے ساتھ آگے بڑھتی وہ اسے سن رہی تھی۔
میں اپنے روبرو ہوں اور کچھ حیرت زدہ ہوں میں نہ جانے عکس ہوں چہرہ ہوں یا پھر آئینہ ہوں میں آئینے کے سامنے کھڑی وہ اپنی ناک میں پہنی نوز پن کو دیکھ رہی تھی۔وہ آزاد کے جانے کے بعد نوٹ کر پائی تھی اس کی آنکھوں میں بجھتی خوشی کو۔ “میں بہت بری ہوں آزاد!میرے لیے تم تک آنا بہت مشکل ہے۔” وہ آزاد سے مخاطب تھی۔ “میری محبت بہت انازادی ہے یہ تمہاری ہر دستک کو نامراد ہی لوٹائے گی۔” تلخی سے مسکرا کر اس نے خود کو دیکھتے ہوئے کہا۔ “انا کو مارنا آسان نہیں ہوتا مگر ناممکن بھی نہیں۔محبت کی چوٹ ڈبل فورس سے استعمال کروں گا ،تمہیں اللہ سے مانگوں گا،انازادی کو جھکنا پڑے گا۔” اس کے کندھوں کے گرد شال ڈالتا ہوا وہ بولا تو آزاد کی اچانک آمد اور اس کی لفظوں کی ثابت قدمی نے اسے ٹھٹکنے پر مجبور کر دیا تھا۔ “آزاد میں۔۔۔۔۔” اس نے بولا چاہا تو آزاد نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔ “ایک اجازت چاہتا ہوں تم سے،تمہیں اپنی محبت کی ہلکی سی شدت دیکھانا چاہتا ہوں۔کیا اجازت ہے مجھے؟” آزاد کے عجیب و لہجے پر وہ ڈری تھی اور بے ساختہ قدم پیچھے لیے تھے۔آزاد مسکرایا تھا۔ “تم سے حق نہیں مانگ رہا میں صرف اجازت مانگ رہا ہوں اپنی محبت کو ثابت کرنے کی۔” آزاد کےجملے نے اسے شرمندہ کر دیا تھا۔ “چلو۔” وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا تھا۔کار میں اسے بیٹھا کر اس نے کار آگے بڑھا لی تھی۔شناسا راستوں کو دیکھ کر وہ بے ساختہ کھڑکی کے قریب ہوئی تھی۔آزاد نے لب بھینچےتھے۔اسے ثابت قدم رہنا تھا۔ایک گھر کے باہر کار روک کر اس نے گہرے سانس لیے تھے پھر مسکراہٹ کو چہرے کا حصہ بنایا تھا۔وہ تو کب سے اتر کر گھر کی جانب جا چکی تھی۔آزاد اس کے پیچھے آیا تھا۔گھر پرلگی نیم پلیٹ نے ایک پل کو اس کی آنکھوں کو نم کر دیا تھا اگلے پل وہ ضبط کرتا آگے بڑھ گیا تھا۔
لکھا ھے وقت نے یہ بھی عجب اپنے مقدر میں پلٹنا ہی نہیں جس کو اسی کے راستے دیکھو!!
وہ اک اجنبی جس سے تعلق سرسری سا تھا ھمارے دل میں ہوتے ھیں اسی کے تذکرے دیکھو۔
احرام باندھے وہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا۔ارمینہ کے چہرے پر سکون اور خوشی دیکھ کر اس نے بےساختہ اللہ سے دعا کی تھی۔شمیم بیگم اس کے ساتھ کھڑی تھیں۔ہزاروں لوگ وہاں اپنی اپنی دعاؤں کے ساتھ موجود تھے اور سننے والا سن رہا تھا یہ تو طے تھا کوئی بھی نامراد نہیں لوٹے گا۔ اللہ کی ذات کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتی۔ ریحان نے دعا مکمل کرتے ہی قدم پیچھے لیے تھے۔ ایک فیصلہ لیا تھا اس نے، اللہ سے مدد مانگی تھی۔ اس نے ارمینہ کی جانب دیکھا جو مگن انداز میں دعا مانگ رہی تھی۔ اس نے اپنی ماں کی جانب دیکھا۔ “اسے کبھی چھوڑنا مت ریحان!” شمیم بیگم کا جملہ یاد آتے ہی وہ آگے بڑھا تھا اور ارمینہ کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے فیصلہ وقت پر چھوڑ دیا تھا۔ اسے ماں کی بات کا مان رکھنا تھا۔ کوہ انا کی برف تھی دونوں جمے رہے! جذبوں کی تیز دھوپ میں پگھلا نہ وہ نہ میں۔
وہ لوگ آج واپس جارہے تھے۔ عمرے کی سعادت حاصل کر کر دل جیسے مطمئن ہوگیا تھا۔ سب سے زیادہ خوش ارمینہ تھی۔ اس کے دل کی دنیا بدل گئی تھی۔ ریحان کو لیکر سب شکایتیں دور ہوئیں تو اس کا ساتھ پہلے سے بھلا لگنے لگا۔ سفر کےدوران بھی وہ اس کے کندھے پر سر رکھ پر بیٹھی رہی تھی۔ ریحان نے اعتراض نہیں کیا تھا، جبکہ۔ شمیم بیگم دونوں کو دیکھ کر مطمئن سی ہوتیں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی تھیں۔ ان کے استقبال کے لیے سب لوگ آئے تھے۔ ریحان کی کار پارکنگ میں ہی موجود تھی۔ سب ہنسی خوشی اللہ کے گھر کا ذکر کرتے واپس گھر آئے تھے۔ “بھائی! آپ نے دعا کی آپ کی بیوی سیدھی ہوجائے؟ “ رامین نے ریحان کے کان میں پوچھا تو ریحان نے ارمینہ کو دیکھا، جو سب کو آب زم زم اور وہاں سے لائے گفٹس دے رہی تھی۔وہ مسکرا دیا۔ “مطلب نہیں کی۔ “ رامین کو افسوس ہوا تھا۔ “اگر وہ بدل جائے گی تو کسی کو اچھی نہیں لگے گی۔” ریحان کے جواب پر اس نے کچھ سوچ کر ہاں میں سر ہلایا تھا۔ “لیکن میں نے کی ہے دعا کہ انہیں آپ شدید والی محبت ہوجائے۔ “ شرارت سے کہہ کر وہ ارمینہ کے پاس آگئی تھی۔ ریحان ڈر گیا تھا اس کی دعا سے۔
“مجھے جانا ہے تمہارے ساتھ۔ “ رات کے وقت وہ زبردستی ریحان کے ساتھ بیٹھ گئی تھی۔ “مجھے کام سے جاناہے۔ “ ریحان نے اسے بتایا۔ “لیکن مجھے تمہارے ساتھ ہی جانا ہے،تم کام بھی کر لینا اپنا۔ “ ادائے بے نیازی سے کہتی وہ ہاتھ باندھ کر بیٹھ گئی تھی۔ ریحان نے نفی میں سر ہلاکر کار اسٹارٹ کر لی تھی۔ کار میں۔ خاموشی نے ڈیرہ جما لیا تھا۔ “تم ناراض ہو مجھ سے ہے ناں؟” کار کی خاموشی کو ارمینہ کی آواز نے توڑا تھا۔ “نہیں!” ریحان کا لہجہ نارمل تھا۔ارمینہ نے آگے جھک کر اس کا چہرہ دیکھا۔ “کیا کر رہی ہو سیدھی ہو کر بیٹھو۔” ریحان نے اسے ٹوکا تھا۔ “مجھے سوری کرنا تھا ریحان!” ارمینہ نے اپنی انگلیاں آپس میں مسلتے ہوئے کہا۔ “کس لیے؟” “وجہ نہیں بتا سکتی تم جانتے ہو سب۔” اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ “ہم نارمل کپل کی طرح رہ سکتے ہیں؟” ارمینہ نے یک دم پورا جملہ کہا تو ریحان نے کار کو بریک لگایا تھا۔ارمینہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ “مجھے وقت لگا لیکن مجھے سمجھ آگیا ہے ہم دونوں کی جوڑی پرفیکٹ ہے۔” اس نے ریحان کا ہاتھ پکڑا۔ریحان ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ “بولو ناں کچھ۔” ارمینہ نے اس کا ہاتھ ہلایا۔تبھی سامنے سے بے قابو ہوتی کار ان کی جانب آئی تھی۔ “ریحان!!!” ارمینہ پوری شدت سے چلائی تھی۔اس نے ریحان کو خون میں لت پت دیکھ کر چلانا شروع کر دیا تھا۔