حواس باختہ چلاتی وہ اٹھ کر بیٹھی تھی۔اردگرد نظر دوڑانے پر ریحان نظر نہ آیا تو بیڈ سے اتر کر کمرے سے نکل گئی۔بنا ڈوپٹے اور چپل کے وہ خود سے بےگانہ ہوتی ریحان کو ڈھونڈ رہی تھی۔چھت کی طرف جاتی سڑھیوں پر اسے ہیولہ دیکھائی دیا۔ “ریحان!!” وہ بھاگ کر اس کےپاس پہنچی تھی۔پسینے سے تر چہرہ،آنکھوں میں آنسو۔وہ ریحان کے پلٹتے ہی اس کے سینے سے لگی تھی۔ریحان بوکھلاگیا تھا۔ “مینا!کیا ہوا ہے؟” ریحان نے اسے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا مگر ارمینہ الگ ہونے کوتیار ہی نہ تھی۔مسلسل رو رہی تھی۔ “اچھا کمرے میں چلو۔” ریحان کی نظر نیچے کمرے کے دروازے کے پاس منہ کھولے کھڑی رامین پر پڑی تو اس نے زبردستی ارمینہ کو خود سے الگ کیا۔وہ اسے ساتھ لے کر کمرے میں گیا تو رامین کا منہ بھی بند ہوا۔ “یہ میں نے کیا دیکھا ابھی؟” خود سے سوال کرتی وہ واپس کمرے میں چلی گئی تھی۔ “اب بتاؤ کیا ہوا ہے کیوں رو رہی تھی؟ “ ریحان نے اسے بیڈ پر بیٹھا کر پانی کا گلاس اس کی جانب بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ہچکیاں لیتی وہ آنسو صاف کر رہی تھی۔ “پانی پیو مینا! “ ریحان نے پھرسے اسے پکارا تھا۔ارمینہ نے گلاس لیکر کر دو گھونٹ لے کر گلاس واپس پکڑا دیا تھا۔ “میں نے بہت برا خواب دیکھا۔ تم جا رہے تھےمجھے چھوڑ کر۔ “ چہرہ جھکائے اس نے بتایا تو ریحان کے ہاتھ میں پانی کا گلاس لرزا۔ “میں ضروری کال کرنے گیا تھا چھت پر۔” ریحان نے نظریں بچاتے اپنے تاثرات چھپائے تھے۔ “برا خواب تھا بس۔ تم سوجاؤ۔” گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر وہ اسے کہہ کر اپنی جگہ پر جانے لگا تو ارمینہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔ “تم یہیں سوجاؤ پلیز۔” ارمینہ ابھی تک ڈری ہوئی تھی۔ ریحان کو بھی اس طرح اسے اکیلا چھوڑنا صحیح نہ لگا تو ہاں میں سر ہلا کر اسے لیٹنے کا اشارہ کرکر اپنی چادر بھی اٹھا کر بیڈ پر لے آیا۔ اس سے کچھ فاصلے پر لیٹ کر اس نے ارمینہ کی جانب دیکھا تو ارمینہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ “سو جاؤ ارمینہ! “ ریحان نے آنکھیں موندتے ہوئے کہا۔ اسے کچھ پل ہی ہوئے تھے آنکھیں موندے جب اسے اپنے بازو پر ارمینہ کا سر محسوس ہوا۔ اس نے ہلنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ ارمینہ اس کی بازو پر سر رکھے سونے کی کوشش کر رہی تھی جبکہ ریحان آنکھیں موندے اپنی دل کی دھڑکن کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ارمینہ تو سو گئی تھی مگر نہ سو سکا تھا۔ فجر کی اذان سے پہلے اس کی آنکھ لگی تھی۔
اب کسی طور سے قابو میں نہیں آئے گا خلق دیکھے گی تماشہ تیرے دیوانے کا۔ آج وہ اسے اس کے ماضی سے ملا کر لایا تھا۔ وہ ماضی جو وہ بھولنے کو تیار نہ تھی اور نہ آگے بڑھنے کو۔ اپنے آپ کو اندر سے خالی محسوس کرتا وہ ریوالونگ چیئر پر آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ “آزاد! “ جہانگیر صاحب کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں۔ “تم اسے وہاں لے کر کیوں گئے تھے؟ “ وہ سختی سے پوچھ رہے تھے۔آزاد تلخی سے ہنسا۔ “خود کو آزما رہا تھا ڈیڈ! دیکھیں اپنا دل زخمی کر بیٹھا ہوں۔” آنسو جیسے ہی بند توڑ کر نکلا تھا آزاد نے اسے بے دردی سے صاف کیا تھا جیسے اسے گستاخی کی سزا دی ہو۔ “میں بات کرتا ہوں اس سے بیٹا!وہ سمجھے گی میری بات۔ “ جہانگیر صاحب کے بیٹے کی حالت پر تڑپے تھے۔ “نہیں ڈیڈ! اب مجھے ہی محبت کو ثابت کرنا ہے۔ وہ ایک دن خود مجھے بلائے گی ڈیڈ! مجھے یقین ہے۔ “ آزاد یک دم ہی نارمل ہوا تھا۔ “چلیں اتنی دکھی شکل نہ بنائیں، میں زندہ ہوں ابھی۔ “ “آزاد!!” جہانگیر صاحب نے دہل کر اسے پکارا تھا۔ “سوری ڈیڈ! مذاق کر رہا تھا۔ “ ان کے گلے لگتا وہ بولا تھا جہانگیر صاحب نے ضبط سے آنکھیں بند کی تھیں۔ “اچھا ابھی مینا کماری نہ بنیں۔ مجھے پارک جانا تھا۔ “ سر پر ہاتھ مارتا وہ باہر کی جانب لپکا تھا۔ جہانگیر صاحب اسے جاتے دیکھ رہے تھے۔ “چلو چلو چلو! آج بہت خاص دن ہے۔ “ کمرے میں آتے ہی وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے جارہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پائی تھی کہ وہ کہاں لے جارہا تھا اسے۔ “آنکھیں بند کرو۔ “ پارک میں لاکر آزاد نے اسے آنکھیں بند کرنے کا کہا تو وہ چونکی۔ وہ کافی وقت بعد وہاں آئی تھی۔ “کرو بھی۔ “ آزاد نے جلدی مچائی تو اس نے آنکھیں بند کیں۔ آزاد اسے ساتھ لیے آگے بڑھا۔ ایک جگہ پہنچ کر وہ رکا۔ “آنکھیں کھولو۔” اجازت ملتے ہی آنکھیں کھولیں تو اس کی نظر سامنے ہی بڑے سے درخت پر پڑی۔ جس پر نئی کونپلیں پھوٹ پڑی تھی۔ نئے پتے بہار کی آمد کی اطلاع دے رہے تھے۔ اس نے درخت سے نظریں ہٹائیں تو نظر سامنے کھڑے مسکراتے آزاد پر ٹہریں۔ “خوشیاں منتظر ہیں۔آگے بڑھو تھام لو انہیں۔ “ آزاد نے اسے پھر سے جھولے پر بیٹھایا تھا۔ وہ خاموش تھی یا آج رہنا چاہتی تھی۔ آزاد نے چند پھول اس کی جانب بڑھائے تو اس نے خاموشی سے تھام لیے۔ یہ کیسی دُھند میں ھم تُم آغاز سفر کر بیٹھے! تُمہیں آنکھیں نہیں مِلتیں مجھے چہرہ نہیں مِلتا!!! “اس درخت نے دکھ کے بعد جینا سیکھ لیا ہے۔ اگر روگ پال لیے جائیں تو ہستی تباہ ہوجاتی ہے۔ اگر یہ درخت بھی بچھڑے پتوں کا سوگ مناتا رہتا کبھی خود پر آنے والی بہار نہ دیکھ پاتا۔صبر،برداشت ہی تو غم کو کم کرتا ہے۔ “ ہلکے سے جھولا جھلاتا وہ بول رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔ “اگر کوئی کوشش کے بعد بھی نہ بھولے تو؟ “ اس نےسوال کیا تو آزاد مسکرا کر سامنے آیا۔ “تو پھر یہ کہ انہیں دیکھو۔ “ پھولوں کو اس کے سامنے کرکر اس نے کچھ توقف کیا تھا۔ “تو پھر یہ بھی اداس ہو کر ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ “ بات تلخ تھی لیکن حقیقت تھی۔ “اللہ سے صبر مانگو! وہ دےگا اور نیا راستہ بھی دیکھائے گا۔ “ ایک بار پھر نئی امید اور کوشش کے ساتھ وہ اس کے سامنے تھا۔ اس بار اس کے دل نے کہا تھا کہ بہار آنے والی ہے۔
ارمینہ کی آنکھ کھلی تو ریحان کو سامنے پاکر،رات کا خواب پھر سے تازہ ہوگیا تھا۔ اس نے ریحان کو پرسکون سوتے دیکھ کر اپنے آپ کو منایا تھا آج ہی بات کرنے پر۔ وہ ریحان کی جانب بڑھناچاہتی تھی اور اب دیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ دروازہ پر ہونے والی دستک اتنی تیز تھی کہ ریحان بھی ہڑبڑا کر اٹھا تھا۔ “میں دیکھتی ہوں۔ “ دل میں انجانا سا ڈر لیے وہ دروازے کی سمت بڑھی تھی۔ دروازے کھولتے ہی اس کی نظر روتی ہوئی رامین پر پڑی۔ “رامین!۔۔۔۔” “ریحان بھائی!وہ تائی امی اٹھ نہیں رہیں۔ “ رامین نے روتے روتے کہا تو ریحان تیزی سے نیچے کی طرف بھاگا تھا۔ “آپی! تائی امی!” رامین ارمینہ کے ساتھ لگی رونے لگی تو ارمینہ بھی رونے لگی۔ شمیم بیگم رات کے پہر ہی خاموشی سے دنیا چلی گئی تھی۔ باپ کے بعد ماں کا جانا ریحان کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ گھر میں صفِ ماتم بچھی تھی۔ ریحان ایک جانب کھڑا تھا ،نظریں ماں کے مسکراتے چہرے پرتھیں۔ سب اردگرد پڑھ رہے تھے، کچھ باتیں کر رہے تھے، کچھ دلاسے دے رہے تھے۔تبھی شمیم بیگم کو ان کی۔ آخری آرام گاہ لے جانے کےلیے سب مرد اندر آگئے تھے۔ ریحان ضبط کرتا چارپائی کو کندھا دیتا اپنی ماں کو خود سے دور کرنے چلا گیا تھا۔
کمرے میں بیٹھی وہ اس کا انتظار کر رہی تھی۔اس نے کبھی کسی مرد کو روتے نہیں دیکھا تھا۔اسے لگتا تھا مرد نہیں روتا بڑی سے بڑی تکلیف پر بھی آنسو نہیں بہاتا لیکن ریحان کی آنکھ سے نکلتا آنسو اس بات کا گواہ تھا ماں کے جانے کی تکلیف ہر تکلیف سے بڑی ہوتی ہے۔ریحان آنسو چھپا گیا تھا مگر وہ دیکھ چکی تھی۔ریحان کو اس وقت سہارا چاہیئے تھا اور وہ تیار تھی اس کا سہارا بننے کے لیے۔وقت گزر رہا تھا وہ واپس نہیں آیا تھا۔بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ ریحان کی راہ تکتے تکتے نیند کی وادی کی اتر گئی تھی۔ اذان کی آواز کانوں میں پڑی تو ارمینہ کی آنکھ کھلی۔ کمرہ خالی تھا۔ وہ بستر سے اتری تھی تبھی دروازہ کھلا تھا۔ ریحان بنا اس کی جانب دیکھے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ ریحان کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑ رہا تھا۔ آنکھیں اس کے رونے کی چغلی کھا رہی تھی مگر وہ خود پر مضبوطی کا خول چڑھائے اپنے بیگ کی جانب بڑھا تھا۔ ارمینہ فورا اس کے پاس آئی تھی۔ اس نے ریحان کا ہاتھ پکڑا تو ریحان نے بے تاثر نظروں سے اسے دیکھا تھا۔ ارمینہ نے جیسے ہی اس کے گرد حصار باندھا تھا، ریحان نے جھٹکے سے اسے دور کیا تھا۔ “سوجاؤ ارمینہ! مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے۔ “ ریحان کا لہجہ تلخ نہ تھا مگر ارمینہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے سے نہ روک سکا تھا۔ ریحان اسے ویسے ہی چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔
خود کو میں تجھ سے کئی بار الگ کرتا ہوں سانس رکتی ہے تو! گھبرا کے پلٹ آتا ہوں۔ وہ ویسے ہی کھڑی رو رہی تھی جب وہ واپس کمرے میں داخل ہوا تھا۔ دونوں آمنے سامنےکھڑے تھے۔ ایک بار پھر ارمینہ نے پہل کی تھی مگر اس بار ریحان کو خود بھی سہارا چاہیئے تھا۔ وہ جھٹک ہی نہیں پایا تھا۔
“مینا!” ریحان نے آہستگی سے اسے خود سے الگ کیا تھا۔ “تم ٹھیک نہیں ہو ریحان!مجھے پتا ہے تم رو رہے تھے۔” ارمینہ نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔ “امی کے چلے جانے کا غم ہے مینا!کاش وہ نہ جاتیں۔” ریحان کا لہجہ دکھی اور تھکا ہوا تھا۔ “مجھے دلاسہ دینانہیں آتا ریحان!لیکن شاید ان کا وقت یہی تھا۔انہیں جانا ہی تھا۔تم نے ان کی خواہش پوری کی،انہیں اللہ کا گھر دیکھایا۔وہ خوش تھیں تم سے ریحان!وہ راضی تھیں۔” ارمینہ اس کا ہاتھ پکڑے بول رہی تھی۔ریحان نے مسکرا کر ہاتھ آگے بڑھا کر اسکے آنسو پونچے تھے۔ “تم آرام کر لو مینا!” ریحان نے اسے بیڈ پر جانے کا اشارہ کیا تھا۔ “تمہیں بھی آرام چاہیے ریحان!” ارمینہ نے بھی پر زور دیتے ہوئے کہا۔ “میری ماں کو ضرورت ہے مینا میری۔آج کی رات اپنی امی کی پہلی رات کو آسان بنانے کی دعا کرنی ہے مجھے۔” ریحان نرمی سے اس سے ہاتھ چھڑا کر واش روم کی سمت بڑھ گیا تھا۔کچھ دیر بعد وہ نم چہرے کے ساتھ باہر آیا تھا۔ارمینہ اسے دیکھتی بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ریحان نماز پڑھ رہا تھا اور وہ اسے دیکھ رہی تھی۔نماز کے بعد اس نے بہت لمبی دعا مانگی تھی۔پھر قرآن مجید لیکر وہ روم سے باہر جانے لگا تو ارمینہ نے اسے روکا۔ “مجھے بھی پڑھنا ہے تمہارے ساتھ۔” ریحان رک گیا تھا۔ارمینہ بھی وضو کر کر اس کے پاس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔ریحان مسلسل پڑھ رہا تھا جبکہ وہ تسبیح کر رہی تھی۔اس کی آنکھ لگ گئی تھی مگر ریحان کا پڑھنا جاری تھا۔نیک اولاد اللہ کا تحفہ ہوتا ہے اور اسے بھی ماں کا حق ادا کرنا تھا۔
ہم میسر ہیں سہارا کیجے
جب بھرے دل تو کنارا کیجے آپ پہ طے ہے بہار آنی ہے دو گھڑی ہم پہ گزارا کیجے ہم بھی آنسو ہیں چھلک جائیں گے بس ذرا پل کو گوارا کیجے آئینہ ہم کو سمجھ لیجے کبھی اور پھر خود کو سنوارا کیجے کچھ تعلق کا گماں ہوتا ہے یونہی بے وجہ پکاراکیجے خواب میں کر کے گزر پھر اپنا کچھ تو امید ابھارا کیجے جب کوئی صبح نئی مل جائے ہم کو بھی ڈوبا ستارا کیجے جائیے آپ اجازت ہے میری اب کوئی اور بے چارا کیجے ہیں جو سامان میں یہ دو آنسو ان پہ بس نام ہمارا کیجے دل جو پھر چاہے کوئی توڑنا دل ہم پہ ہی کرم دوبارہ کیجے ایک سے ایک حسیں ملتے ہیں منتظر ہیں کہ اشارا کیجے جو فراموش ہوئے ہو اداس آپ بھی عقل خدارا کیجے۔
“یہ کیا ہے ڈیڈ؟” آزاد ایک فائل لےکر جہانگیر صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔جہانگیر صاحب نے اپنی عینک اتار کر ٹیبل پر رکھی اور اسے پاس بلایا۔آزاد بگڑے موڈ کے ساتھ ان کے پاس بیٹھا تھا۔ “یہ اس گھر کے کاغذات ہیں آزاد جو تمہاری بیوی کے نام ہے۔” جہانگیر صاحب نے بولنا شروع کیا۔ “لیکن کیوں؟آپ جانتے ہیں اسے یہ سب نہیں چاہیئے۔” آزاد وہ فائل اٹھا لایا مگر نہیں جانتا تھا فائل تو پہلے ہی دیکھی جا چکی تھی۔ “اسے چاہ نہیں ہو گی اس کی لیکن یہ اس کا حق ہے۔وہ گھر اس کا نہیں ہے آزاد بلکہ یہ اس کا گھر ہوگا۔اسے حقیقت کو ماننا ہے۔تم اس کو ماضی سے باہر نکلنے دو آزاد!” جہانگیر صاحب نے اسے سمجھایا۔ “وہ مجھے چھوڑ جانے کی بات کر دیتی ہے ڈیڈ!میں اتنا تو برداشت کرسکتا ہوں کہ مجھے یاد نہ کرے لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ مجھے چھوڑ جائے۔” آزاد کے لہجے میں ڈر اور خوف تھا۔جہانگیر صاحب نے اسے گلے لگایا۔ “اگلے مہینے ہمیں چیک اپ کے لیے جانا ہے آزاد!” جہانگیر صاحب نے اسے یاد دلایا تھا۔ “آپ اسے نہیں بتائیں گے ڈیڈ!” “وہ ہمارے ساتھ جائے گی۔” جہانگیر صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ “ڈیڈ!!” آزاد بے بس ہوا تھا۔ “آزاد!!” جہانگیر صاحب کے فیصلہ کن انداز پر وہ خاموش ہوگیا تھا۔پھر اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔جہانگیر صاحب نے ایک لمبی سانس لی تھی۔ “مجھے کل پارک لے جائیں گے؟” وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا،اس کی خوش کن آواز سن کر پرسکون ہوا تھا۔ “ضرور!” وہ مسکراتا ہوا آگے بڑھا تھا۔ “انکل سے کہیے گا مجھے گھر نہیں چاہیئے ،میرے لیے وہی گھر کافی ہے۔” اس کا ایک نارمل جملہ آزاد کی ساری خوشی ختم کر گیا تھا۔وہ دکھی ہوتا مسکرایا تھا۔ “کیا مجھ سے منسوب کوئی چیز تمہیں کبھی عزیز نہیں ہوگی؟” آزاد نے پوچھنا چاہا تھا مگر صرف سوچ ہی سکا۔
“کہاں گیا ہے ریحان؟” دو دن سے وہ غائب تھا۔اگلی۔صبح ہی وہ گھر سے نکل گیا تھا۔ارمینہ بھی نہیں جانتی تھی کہ۔وہ کہاں گیا ہے۔آفس والے تک لاعلم تھے۔رفعت بیگم نے جاوید صاحب سے پوچھا تھا۔ “نمبر بھی بند جا رہا ہے اس کا۔پولیس میں سوچ رہا ہوں رپورٹ کروانے کی۔” جاوید صاحب نے پریشانی سے کہا۔ “تو آپ اب تک سوچ کیوں رہے ہیں۔کروائیں جا کر رپورٹ،اور ڈھونڈیں اسے۔رو رو کر برا حال کر لیا ہے میری بچی نے۔” انہوں نے ارمینہ کے کمرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔جو صبح سے اندر بند تھی۔ “شمیشیر چلو میرے اور ریحان کی تصویر لے آؤ۔” جاوید صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ شمشیر ارمینہ کے کمرے کی جانب بڑھا تبھی دروازہ بجنے پر سب دروازے کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔ جاوید صاحب نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو ریحان کو کھڑا پایا۔ “کہاں چلے گئے تھے بنا بتائے۔ ہم لوگ کتنا پریشان ہوگئے تھے؟” جاوید نے اسے لتاڑا تھا۔ “ریحان بچے! یہ کیا حرکت ہے؟ “ رفعت بیگم بھی اس کے سامنے آئی تھی۔ “تایا ابو! دوست کو ضرورت تھی میری۔ ایمرجنسی میں جانا پڑا۔ فون گھر پر ہی بھول گیا تھا اور وقت بھی نہیں ملا بتانے کا۔ مجھے معاف کردیں میری وجہ سے آپ پریشان ہوئے۔” ریحان نے شرمندگی سے کہا۔ جاوید صاحب کو وہ تھکا تھکا سا لگا۔ “آرام کرو جا کر۔ “ انہوں نے بات نہ بڑھاتے ہوئے کہا۔ رفعت بیگم نے کچھ بولنا چاہا تو انہوں نے اشارے سے منع کر دیا۔ ریحان کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ “جاوید آپ۔۔۔۔” “وہ پریشان ہے بیگم!اس کی حالت نہیں دیکھی تم نے۔ تم کھانا بھجواؤ دونوں بچوں کے لیے کمرے میں۔ “ جاوید صاحب کہہ کر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئےتھے ۔شمیشر بھی سر جھٹکتا اپنے کمرے کی۔ جانب بڑھ گیا تھا۔ رفعت بیگم نے کچن کا رخ کیا تھا۔
کتنا بے وفا بے رحم مطلبی تھا وہ ایک شخص..! دل جلانے کے لئے ۔دل لگانے پر مجبور کیا ہم کو۔ ریحان نے دروازہ کھول کر جیسے ہی قدم اندر رکھا تھا ارمینہ بکھری حالت کےساتھ اٹھ کر بیٹھی تھی۔ ریحان کو دیکھ کر جیسے اس کی جان میں جان میں آئی تھی۔ غم سے خوشی اور خوشی سے ناراضگی کا سفر کرتی وہ ایک کے بعد ایک کشن اسے مارنے لگی۔ ریحان کو لگا نہیں تھا کہ ری ایکشن اتنا شدید ہوگا۔ “مینا!” وہ اسے روک رہا تھا اب بیڈ سے اتر خود میدان میں آگئی تھی۔ “بہت برے ہو تم۔ کہاں چلے گئے تھے۔تمہیں میرا بالکل خیال نہیں آیا؟” وہ دونوں ہاتھوں سے اس کے سینے پر مارتی سوال کر رہی تھی۔ “مینا!!!” ریحان نے اس کے ہاتھ پکڑے۔ “چھوڑو مجھے۔ “ ارمینہ نے ہاتھ چھڑانا چاہے۔ “چھوڑ ہی رہا ہوں ارمینہ! “ ریحان کے جملے پر وہ ساکت ہوئی تھی۔ “ہم ایک دوسرے کے لیے بنے ہی نہیں تھے ارمینہ! فیصلہ لینے میں بہت وقت لگا دیا میں نے لیکن فیصلہ لے چکا ہوں۔” ارمینہ جو سوچے بیٹھی تھی کہ اس کے آنے پر اپنی دل کی ہر بات اسے بتائے گی، ریحان کے جملوں کو سنتی سن پڑ گئی تھی۔ “مجھے جانا ہے ،دب انتظامات کر کر آیا ہوں۔” ریحان نے کہہ کر اپنی جیکٹ کی پاکٹ سے کچھ کاغذ نکالے۔ “یہ ضروری ہے ارمینہ!” ریحان کا لہجہ اس کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ “ریحان! میری بات سنیں۔ “ ارمینہ نے ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ دو قدم پیچھے ہوگیا۔ “یہ حق مہر کا چیک ہے مینا! اور یہ اس گھر میں حصے کے پیپرز۔اپنا ہر فرض پورا کر کر جارہا ہوں۔ “ “ریحان نہیں!!۔۔۔” “امی چاہتی تھیں میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں لیکن میں نہیں رہ پا رہا ارمینہ! میں تھک گیا ہوں ایسی زندگی جیتے جیتے، مجھے تم نہیں چاہیئے تھیں اپنی زندگی میں لیکن مجبور ہو کر مجھے یہ کرنا پڑا۔ میں نے بہت کوشش کی مینا اس رشتے کو قبول کرنے کی لیکن یہ دل تمہیں قبول نہیں کر پارہا۔پچھلے چھ ماہ سے میں نے ہر ممکن کوشش کی تھی تم سے محبت کرنے کی،مگر میں نہیں کرسکا۔ دل پر زبردستی نہیں چلتی مینا!’ ریحان بول رہا تھا اور ارمینہ شل سی کھڑی تھی۔ “میں تمہیں ابھی طلاق دے کر نہیں جا رہا لیکن یہاں سے جا کر تمہیں آزاد کر دوں گا۔مجھے معاف کر دینا ارمینہ!” ہر بات کا جواب رکھنے والی وہ لڑکی آج چپ تھی۔اس کے الفاظ تو جیسے ختم ہی ہوگئے تھے۔وقت بدل گیا تھا،اس کی فیلنگز بدل گئی تھیں لیکن سامنے کھڑا شخص سرتاپا وہی تھا جو چھ ماہ پہلے تھا۔وہ اس پر طنز کرتی تھی۔اس کے چپ رہنے پر گونگے ہونے کا طعنہ دیتی تھی،لیکن آج جب اپنے الفاظ سے وہ صور پھونک کر جاچکا تھا،تو اس کے الفاظ اس کو شل کر گئے تھے۔ اس نے کیسے کہہ دیاتھا کہ ان چھ ماہ میں اس کے جذبات اسے لے کر نہیں بدلے۔کیا ایک پل کے لیے بھی اس کے دل میں کوئی جذبہ نہیں ابھرا۔تو پھر وہ کیوں محبت کر بیٹھی تھی اس سے؟ پیپرز اس کے ہاتھ میں پکڑا کر وہ اپنا بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گیا تھا۔ پیچھے وہ خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔ ہاتھ میں پکڑا لفافہ جیسے ہی زمین بوس ہوا تھا وہ بھی نیچے بیٹھتی چلی گئی۔ اسی کمرے میں وہ اسے زلیل کرتی تھی،اور آج یہیں وہ اس کی محبت کو سنے بنا اسے دھتکار کر چلا گیا تھا۔انازادی تھی وہ انا مار کر آج جھکنے چلی تھی مگر وہ تو اسے زمین پر پٹھک گیا تھا۔ روح تک چھائے ہوئے شخص تجھے لگتا ہے تجھ سے دستبردار ہوئے تو جی پائیں گے؟