کافی دیر سے وہ سیکیٹنگ بورڈ کو ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔اس نے آزاد کو کہہ تو دیا تھا کہ اسے سیکھنا ہے مگر اب خود نہیں جانتی تھی کہ وہ کیا کرنا چاہتی تھی۔ “کیا ہوا؟” آزاد فریش ہوکر ڈریسنگ روم سے باہر نکلا تو اسے ویسے ہی بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔ “مجھے نہیں سیکھنا۔” اس نے بے دلی سے بورڈ کو بیڈ پر رکھ دیا تھا۔ “کیوں نہیں سیکھنا؟ کل تو تم کہہ رہی تھی کہ سیکھنا چاہتی ہو؟” آزاد کو اس کا انکار کرنا سمجھ نہیں آیا تھا۔ “میں۔۔۔۔۔مجھے ڈر لگتا ہے گرنے سے؟” اسے سمجھ نہ آیا کیا جواب دے تو ڈر کا بہانہ بنا دیا۔آزاد مسکراہٹ چھپاتا اس کے پاس آیا تھا۔ “میرا ہاتھ پکڑ لو۔ گرنے نہیں دوں گا۔ “ آزاد نے مسکراتے ہوئے اس کے سامنے ہتھیلی پھیلائی تھی۔ “آزاد!میں۔۔۔۔۔۔” وہ بولنا چاہتی تھی کچھ۔ “بھروسہ کر لو۔” آزاد کے لہجے میں مان اور بھروسہ تھا جیسے وہ اس کا ہاتھ نہیں جھٹکے گی۔وہ شش وپنج میں مبتلا تھی کہ ہاتھ رکھے یا نہ رکھے مگر پھر فیصلہ کرتی اس کا ہاتھ تھام گئی تھی۔ ایک ہاتھ میں اسکیٹنگ بورڈ اور دوسرے ہاتھ سے اس کا ہاتھ پکڑے وہ آگے بڑھ رہا تھا۔ جہانگیر صاحب کے کمرے سے ملازم فائلز کا ڈھیر اٹھا کر باہر لا کر رہا تھا مگر بیلنس برقرار نہ رکھنے کی وجہ سے ساری فائلز نیچے گر گئی تھیں۔ وہ آزاد سے ہاتھ چھڑوا کر ملازم کی مدد کے لیے آگے آئی تھی۔ آزاد بھی وہیں آگیا تھا۔وہ ایک ایک کر کر فائل اٹھا رہی تھی۔ جب اس کی نظر فائل کے کور پر چمکتے آزاد کے نام پر پڑی۔ اس نے متجسس ہو کر فائل کھولی تھی۔ مگر اندر رکھی آزاد کی رپورٹس نے اس کو سن کر دیا تھا۔ “دھیان سے کیجیئے گا۔ چلیں۔ “ وہ پہلے ملازم اور پھر اس سے مخاطب ہوا تھا۔ جبکہ وہ بامشکل آنسو روک رہی تھی، اس کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر۔ میں جو یونہی کچھ دِن نظر نہ آؤں تو کیا کرو گے میں جو بے نام محبت سے مُکر جاؤں تو کیا کرو گے یہ خلوص ، اعتبار ، مان ، یہ وعدے چھوڑو یہ سب یہ بتاؤ میں اچانک سے جو مر جاؤں تو کیا کرو گے آگے بڑھتے آزاد نے جیسے ہی اس کا گرنا محسوس کیا تھا فورا بورڈ پھینک کر اسے سنبھالا تھا۔ “ارمینہ!!” وہ پریشانی سے اس کے گال تھپک رہا تھا۔جب وہ ہوش میں نہ آئی تو اسے اٹھا کر باہر بھاگا تھا۔
“انہوں نے کسی بات کا سڑیس لیا ہے۔لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے،وہ اب ٹھیک ہیں۔” ڈاکٹر نے آزاد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز انداز میں کہا تھا۔ “میں دیکھ سکتا ہوں اسے؟” آزاد نے بے چینی سے پوچھا تو ڈاکٹر ہاں میں سر ہلا کر آگے بڑھ گیا۔آزاد نے بنا دیر کیے کمرے کا رخ کیا تھا۔سکون آور انجیکشن کے زیر اثر وہ سوئی ہوئی تھی۔نرس اس کی ڈرپ صحیح کر کر باہر چلی گئی تھی۔آزاد آہستہ سے چلتا اس کے پاس آیا تھا۔ “ارمینہ!!” اس کےہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیے اس نے پکارا تھا۔وہ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا تھا۔نظریں اس کے چہرے پر تھیں۔مرجھایا چہرہ اب آزاد کو پیشمان کرنے لگا تھا۔نجانے کتنی دیر وہ اسے دیکھتا اپنی سوچوں میں گم رہا۔ارمینہ کی آواز پر وہ چونکا تھا۔وہ کچھ بول رہی تھی۔آزاد نے آگے جھک کر سننے کی کوشش کی تھی۔شدید کرب سے ریحان کا نام لیتی وہ آزاد کو ساکت کر گئی تھی۔ “مینا!” آزاد نے جیسے ہی اسے پکارا تھا ارمینہ واپس غنودگی میں چلی گئی تھی۔اپنی ہتھیلی پر گرتا آنسو محسوس کرتا وہ دکھ سے مسکرایا تھا۔ “میں درمیان میں آگیا تھا تم دونوں کے۔مجھے یہاں نہیں ہونا چاہیئے تھا ارمینہ!یہ ریحان کی جگہ تھی۔” وہ اس کے پاس سےاٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔گھٹن کا احساس بڑھتا ہی جارہا تھا۔ہاسپٹل کی بالکنی میں آکر اس نے جیسے سانس بحال کیا تھا۔ “تمہیں نہیں جانا چاہیئے تھا ریحان!تم نے بہت غلط کیا۔” وہ ریحان سے شکوہ کر رہا تھا۔
“ڈیڈ!ریحان شفٹ ہوگیا ہےکیا؟” جہانگیر صاحب کے ساتھ گھر جاتے ہوئے آزاد نے ریحان کے لیے نئے گھر میں روشنی دیکھی تو پوچھنے لگا۔ “بتا رہا تھا عمرے سے واپس آکر شفٹ ہوجائے گا۔” جہانگیر صاحب نے مصروف انداز میں جواب دیا۔ “کار روکو۔” آزاد نے ڈرائیور سے کہہ کر کار رکوائی تو جہانگیر صاحب نے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ “میں ریحان کو ویلکم کہہ کر آتا ہوں۔اس کی مما سے بھی مل لوں گا۔” آزاد باہر نکلتا بنا جہانگیر صاحب کی بات سنے پیچھے مڑ گیاتھا۔جہانگیر صاحب جانتے تھےشمیم بیگم کے انتقال کے بارے میں مگر آزاد نہیں جانتا تھا۔پھر ریحان کے بارے میں سوچ کر وہ پرسکون ہوگئے تھے۔آزاد کے ساتھ وہ دکھ کم کر لے گا۔ درد آنکھوں میں لیے بیٹھے ہو دل کو ہاتھوں میں لیے بیٹھے ہو
کس کےآنے کا انتظار ہے تمہیں کس کو سانسوں میں لیےبیٹھےہو۔ دروازہ کھلا دیکھ کر وہ اندر ہی آگیا تھا۔دروازے کے پاس ہی اسے ریحان نظر آیا تھا۔غیر مرئی نقطے کو گھورتا،آزاد کو اس کی حالت اچھی نہ لگی تھی۔ “ریحان!” اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے ریحان کو پکارا تو ریحان نے آزاد کی جانب دیکھا۔ “کیا ہوا تم ایسے کیوں بیٹھے ہو؟” “اس کے ساتھ بیٹھ کر آزاد نے پوچھا۔ “دل گھبرا رہا تھا اس لیے یہاں بیٹھ گیا۔” ریحان نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ “تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ،آنٹی کہاں ہیں؟” آزاد کو پریشانی ہوئی تھی۔شمیم بیگم کے زکر پر ریحان نے آسمان کی جانب دیکھا تھا۔ “دو دن پہلے وہ چلی گئیں مجھے چھوڑ کر۔” ریحان نے دکھ سے کہا۔آزاد کو اس کا دکھ سمجھ آتے ہی افسوس ہوا تھا۔ “مجھے معلوم نہیں تھا ریحان!آئی ایم سوری!” آزاد نے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا۔ “ریحان اندر چلو۔” اس کے جسم کو ٹھنڈا پڑتا دیکھ کر آزاد نے کہا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔ “اندر گھٹن ہے۔” وہ تکلیف سے بولا تھا۔ “ریحان!تمہاری وائف کہاں ہے؟تم اکیلے کیوں ہو یہاں؟” آزاد نے پہلے کبھی اسے اس حالت میں نہیں دیکھا تھا۔وہ بھی پریشان ہوچکا تھا۔ “اسے چھوڑ آیا ہوں۔” کھوئے انداز میں کہتا وہ آزاد کو شاک لگا گیا تھا۔ “کیا مطلب چھوڑ آئے ہو؟اور کیوں؟” آزاد نے اس کو پکڑ کر جھنجھوڑا۔ “اب نہ چھوڑتا تو وہ کبھی مجھے چھوڑ نہ پاتی۔” ریحان کی آنکھ سے نکلتا آنسو،اس کی بے بسی آزاد کو دکھی کر گئی تھی۔ “مجھے نہیں سمجھ آرہی ریحان تمہاری۔لیکن تم جاؤ اپنی بیوی کے پاس۔” آزاد نے اسے زبردستی اٹھانا چاہا۔ “نہیں جا سکتا۔ “ ریحان نے اس سے بازو چھڑوایا تھا۔ “ریحان! “ آزاد نے بے بسی سے اسے پکارا۔ وہ نہیں جانتا تھا اس کی بیوی کون ہے کہاں رہتی ہے ورنہ وہ اسی لمحے اسے یہاں لے آتا۔ “میں بے بہت کوشش کی اسے مجھ سے محبت نہ ہو۔ کبھی اپنی محبت ظاہر نہیں کی ،ہمیشہ بے رخی ،بےاعتنائی برتی لیکن پھر بھی اسے مجھ سے محبت ہوگئی۔اس کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھ کر میں نے اسے دھتکار دیا۔ “ آزاد کو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ “ریحان!!تم نے کیوں کیا یہ؟ محبت مل جانا کتنی خوش قسمتی کی بات ہے۔پوری زندگی کیسے گزارو گے اس کی محبت کی توہین کر کر۔ میں تمہیں ایسا تو نہیں سمجھتا تھا۔تم تو حساس تھے بہت ۔کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دکھی ہوجاتے تھے تو پھر اپنی محبت کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ “ آزاد نے اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے اسے ایک بار پھر جھنجھوڑا تھا۔ پھر تھک کر زمین پر بیٹھ گیا تھا۔ ریحان نے اپنی پاس رکھی فائل آزاد کی گود میں رکھی۔ “ریحان !یہ۔ ۔۔۔” ہاسپٹل فائل دیکھ کر آزاد حیران ہوا تھا۔ “میرا ٹیومر بڑھ گیا ہے آزاد! ایک مہینہ، بس چند ہفتے ملے ہیں مجھے زندگی کے، اپنی چند ہفتوں کی خوشی کے لیے میں اسے ساری عمر کا روگ نہیں لگا سکتا۔ وہ تو پسندیدہ چیز ٹوٹنے پر رونے بیٹھ جاتی ہے،وہ کیسے برداشت کرے گی؟” آزاد فائل ہاتھ میں پکڑے شل سا بیٹھا تھا۔ “یہ کیسے ہوا ریحان! اور کب؟ تم نے بتایا تک نہیں؟” فائل چھوڑ کر اس نے ریحان کے ہاتھ پکڑے تھے۔ “ایک سال پہلے اپنی برتھ ڈے کے دن یہ انکشاف ہوا تھا مجھ پر۔ لیکن مجھ پر ذمہ داریاں اتنی تھیں کہ میں بوجھ کے ساتھ مرنا نہیں چاہتا تھا۔ میرے ماں باپ نہیں جانتے تھے کچھ لیکن پھر بھی مجھ سے پہلے چلے گئے۔ اور مینا! وہ دو دن نہیں رہ سکی تھی میرے بنا، کیسے رہے گی پوری زندگی؟” ریحان نے اپنے آنسو صاف کیے تھے۔ “ہم علاج کروائیں گے ریحان! تم نے ہمیشہ مجھے امید دلا کر رکھی ہے تو خود کیسے ہمت ہار سکتے ہو؟” آزاد نے اسے زبردستی اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا۔ریحان نے بڑھتے سر درد کو مشکل سے کنٹرول کیا تھا۔ دو دن پہلے اسے صبح میں وومٹنگ شروع ہوگئی تھی۔ وہ بنا کسی کو بتائے گھر سے نکل آیا تھا۔ اپنی زندگی جینے کا فیصلہ کر کر وہ اللہ کے گھر سے لوٹا تھا مگر زندگی اتنی کم ہوگی یہ جان کر وہ اپنی رپورٹس پکڑ کر رویا تھا۔
وہ فرش پر بیٹھی تھی۔آنسو خشک ہوچکے تھے،ایک چپ تھی جو اس کو لگ چکی تھی۔پچھلے چھ مہینے میں گزرا ایک ایک پل فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے چل رہا تھا۔رفعت بیگم دروازہ کھول کر اندر آئیں تو ارمینہ کو ایسے دیکھ کر کھانے کی ٹرے بیڈ پر رکھ کر اس کے پاس آئیں۔ “ایسے کیوں بیٹھی ارمینہ؟اٹھو بیمار ہوجاؤ گی،ریحان کہاں ہے؟ “ رفعت بیگم کو اس کا بخار تیز ہوتا محسوس ہوا تھا۔ “وہ کہتا ہے وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔” ویران آنکھوں سے انہیں دیکھتی وہ بولی تو رفعت بیگم کا دل گھبرایا تھا۔ “ارمینہ!!!” “وہ چلا گیا امی! مجھے چھوڑ کر چلا گیا، وہ کہتا ہے مجبور تھا وہ۔۔۔۔۔” ارمینہ نے نیچےپڑے کاغذات کی جانب دیکھا۔ “سب قرض اتار گیا امی وہ۔۔۔۔۔” وہ ہنسی تو رفعت بیگم اٹھ کر کمرے سے نکل گئیں۔ارمینہ کھڑی ہوکر الماری کی جانب بڑھ گئی تھی۔ کچھ لمحے بعد جاوید صاحب رفعت بیگم کے ساتھ پریشان سے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔ “مینا بچے! “ انہوں نے محبت سے اسے پکارا تھا۔ “ابو!ریحان نے جو نیا گھرلیا تھا آپ کو اس کا ایڈریس معلوم ہے؟” ارمینہ کو نارمل دیکھ کر رفعت بیگم بھی حیران ہوئی تھیں۔ “وہ مجھ سے ناراض ہو کرچلا گیا ہے ابو،آپ مجھے اس کے پاس چھوڑ آئیں گے؟ “ بیگ کی زپ بند کرتی وہ جھجکتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ جاوید صاحب کچھ حد تک مطمئن ہوگئے تھے۔ رفعت بیگم کو تسلی دے کر وہ ارمینہ کو ساتھ لیے باہر کی جانب بڑھ گئے تھے۔ ضد تیرے تبسم پہ وار دی ھم نے جو چاہے سلوک کر! انا مار دی ھم نے۔
“تم جاؤ آزاد!میں بالکل ٹھیک ہوں۔ “ ریحان نے اپنی فائل اس سے لیتے ہوئے کہا۔ “ریحان!ہم کل ہی ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں۔ اس کا علاج ہوتا ہے۔بس ایک چھوٹی سی سرجری ہوگی اور تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گے۔ “ آزاد جس طرح امید بھرے انداز میں بول رہا تھا ریحان مسکرایا تھا۔ “تم بھی انکل کی بات مان لو آزاد!چھوٹی سی سرجری ہوگی بس۔ “ ریحان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ “تم جانتےہو ریحان! میری سرجری خطرناک ہے،ففٹی پرسنٹ چانسسز ہیں زندگی کےاور زندگی کیسی ہوگی یہ بھی نہیں جانتا۔ کم از کم ابھی تو میں وہ کر سکتا ہوں جو کرنا چاہتا ہوں۔” آزاد نے بات ٹالتے ہوئے کہا۔ “رسک تو لینا پڑے گا آزاد! “ “تم لو گے رسک؟” آزاد نے فورا پوچھا تو ریحان نے ہاں میں سر ہلایا۔ “سچ میں؟” آزاد خوش ہوا تھا۔ ریحان اسے بتا نہیں سکا تھا کہ اس کے پاس تو دس پرسنٹ چانسسز بھی نہیں تھے کامیابی کے مگر ایک امید کے ساتھ وہ سرجری کے لیے تیار ہوا تھا۔ “میرا ایک کام کرو گے آزاد؟ “ ریحان کےپوچھنے کا انداز آزاد کو عجیب لگا تھا۔ “اگر سرجری کامیاب نہ ہوئی تو اس گھر کے پیپرز اور میری باڈی۔۔۔۔” “اچھا!اب چلو تم۔۔۔۔مجھے بھوک لگی ہے۔” آزاد نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔ “وصیت سمجھ لو اسے میری آزاد! “ ریحان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا تھا۔ “تم بہت سنگ دل ہو ریحان!جا کر اپنی بیوی کو لیکر آؤ۔” “زندگی مل گئی تو اسی کی ہی ہوگی مگر اس وقت اسے تکلیف سے نہیں گزار سکتا میں۔ “ ریحان پلٹ گیا تھا۔ آزاد اس کے پیچھے جانے لگا تو اس کا فون رنگ ہوا۔ جہانگیر صاحب کی کال دیکھ کر ایک جانب چلا گیا تھا۔جب اس کے پیچھے سے گزر کر ارمینہ گھر میں داخل ہوئی تھی اور اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر دیا تھا۔ آزاد نے بند دروازے کو دیکھا تو حیران ہوا،پھر جاوید صاحب کو گیٹ سے اندر آتے دیکھا۔ “آپ۔۔۔؟” آزاد نے فون بند کرتے ہوئے پوچھا۔ “ریحان کا تایا ہوں میں۔” “اندر۔۔۔۔؟” “بیوی ہے اس کی۔” جاوید صاحب نے اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھتے اس کی بات کاٹی تھی۔ “انکل!آپ کا تھوڑا سا وقت مل سکتا ہے؟” آزاد نے انہیں بتانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تو جاوید صاحب نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔وہ انہیں اپنے ساتھ گھر سے باہر لے آیا تھا۔
دروازہ بند ہونے کی آواز پر ریحان مڑا تھا،ارمینہ کو کڑے تیوروں کے ساتھ خود کو گھورتے پاکر وہ حیران ہوا تھا۔ “تم یہاں۔۔۔۔۔” وہ آگے بڑھا تھا جب ارمینہ نے اپنا بیگ اس کی سمت اچھالا تھا۔ “سمجھتے کیا ہو خود کوہاں! میرا حق مہر مجھے دے کر تمہیں لگتا ہے تمہاری مجھ سے جان چھوٹ گئی؟” ریحان بیگ کیچ کر چکا تھا اور حیرانی سے غصے سے آگ بگولا ہوتی ارمینہ کو دیکھ رہا تھا۔تبھی وہ آگے بڑھی تھی۔ “میرا نام لو ریحان!!!” بیگ اس کے ہاتھ سے نیچے پھیک کر اس نے ریحان کا گریبان پکڑا تھا۔ “میرا نام لو ریحان!!” اس کے گریبان پر گرفت مضبوط کرتی وہ ایک بار پھر بولی تھی۔ “مینا!!!” ریحان نے جیسے ہی اس کا نام لیا تھا ارمینہ نے اس کا گریبان چھوڑا تھا۔ پھر آگے بڑھتی اس کے گرد حصار باندھ گئی تھی۔ “کیوں جھوٹ بولا ریحان؟کیوں انکار کیا محبت سے؟مینا ،ارمینہ کی کشمکش کیوں تھی ریحان؟” وہ رو رہی تھی۔سوال کر رہی تھی۔ریحان کی آنکھیں بھی بھر آئیں تھی۔اس نے جیسے ہی ارمینہ کے گرد حصار باندھا تھا،اس کے آنسو نکلے تھے۔