“انکل!اس وقت آپ سب کا ساتھ اس کےلیے ضروری ہے۔وہ تو خاموشی سے جارہا تھا لیکن شاید آپ کی بیٹی سمجھ گئی تھی ریحان کو۔” آزاد جاوید صاحب سے بات کررہا تھا۔انہیں ریحان کی کنڈیشن بتا کر وہ اب ریحان کی محبت پر رشک کر رہا تھا۔ “انکل!آپ اسے ساتھ لے جائیں۔میں ڈیڈ سے بات کر کر جلد از جلد ریحان کی سرجری کا انتظام کرواتا ہوں۔وہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔” آزاد یک دم ہی پر جوش ہوا تھا۔جاوید صاحب دکھ سے مسکرائے تھے۔ان کے پاس الفاظ ہی کہاں تھے کچھ کہنے کو۔اگر آج ارمینہ ضد نہ کرتی تو وہ شاید بھتیجے سے ہمیشہ کے لیے دور ہوجاتے۔ آزاد ان سے سلام کر کر اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا تھا۔جہانگیر صاحب سے اسے بات کرنی تھی۔جبکہ جاوید صاحب گھر کے اندر داخل ہوگئے تھے۔
سرِ شام مجھ سے تُو مِل وہاں جہاں عُجلتوں کا نِشاں نہ ہو کہیں دُور تک یونہی ساتھ چل میرا ہاتھ , ہاتھ میں تھام کر۔ “مینا!” “چپ کرو تم!تم گونگے ہی اچھے لگتے ہو۔تمہارے الفاظ دل تو نہیں توڑتے۔” ارمینہ اس سے شکوہ کرتی الگ ہوئی تو ریحان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بے چین ہوئی۔ “تم نے جھوٹ بولا تھا ناں مجھ سے کہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتے؟” ارمینہ نے اسے آنسو صاف کرتے دیکھ کر پوچھا۔ارمینہ کا چہرہ دھندلا رہا تھا ریحان کوشش کر رہا تھا اسے دیکھنے کی۔ “ریحان!کیا ہوا ہے ؟تم ٹھیک ہو؟” ارمینہ نے پریشانی سے اس کی بازو پکڑ کر سہارا دیا تھا۔ جاوید صاحب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تھے۔ریحان کی حالت دیکھ کر اس کے پاس آئے تھے۔ “ارمینہ بیٹا!اسے بیٹھنے دو۔” جاوید صاحب اسے زبردستی وہاں رکھے صوفے تک لائے تھے۔ارمینہ وہیں کھڑی تھی۔ “تم نے ہم سب کو پرایا کردیا ریحان!کیا ہم تمہارے اپنے نہیں تھے جو اتنے عرصے ہم سے سب چھپا کر رکھا؟” جاوید صاحب دکھ اور افسوس سے پوچھ رہے تھے ارمینہ کا دل شدت سے دھڑکا تھا۔نیچے گری فائل پر نظر پڑی تو اس نے جھک کر فائل اٹھائی۔ہاتھوں میں واضح لرزش تھی۔ارمینہ کی طرف سے خاموشی محسوس کرتے ہوئے ریحان اور جاوید صاحب دونوں نے ارمینہ کی جانب دیکھا تھا جو فائل کھولے کھڑی تھی۔ جب چاہو، جہاں چاہو، بچھڑ جاؤ کسی سے اتنی بھی تو آسان محبت نہیں ہوتی
تم ہِجر کی تفسیر مِری آنکھ سے پڑھ لو اِس لفظ کی اب اور وضاحت نہیں ہوتی۔
“میری بات سنو ریحان!تم جا رہے سرجری کے لیے۔ڈیڈ سے بات ہوگئی ہے میری،دس دن بعد سرجری ہوگی،لیکن کل ہی ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونا ہے تمہیں۔” آزاد کے اتنی فکر کرنے پر ریحان مسکرایا تھا۔ “اپنے لیے کب سیریس ہوگے تم؟” ریحان نے پوچھا تو اس کا منہ بنا۔ “تم ٹھیک ہو کر آجاؤ پھر میں بھی سیریس ہوجاؤں گا۔ “ فون دوسرے کان پر منتقل کرتا آزاد لاپرواہی سے بولا تھا۔ “انکل تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں آزاد!” ریحان نے بیڈ پر بیٹھتےہوئے کہا۔ “اور میں کسی کی زندگی برباد نہیں کر سکتا۔ “ آزاد نے فورا جواب دیا مگر اچانک احساس ہوتے ہی اس نے گہری سانس لی۔ “تمہارا معاملہ مجھ سے الگ ہے ریحان! جس سے میں محبت کرتا ہوں وہ شاید کھو گئی ہے۔” آزاد کے ذہن کے پردے پر ایک خفا سا چہرہ لہرایا تھا۔ “تم کوشش کرو،قسمت اسے تم تک لے آئے گی۔ میری اور مین۔۔۔۔۔۔” ارمینہ کو سامنے کھڑے دیکھ کر ریحان چپ ہوا تھا۔ “بند کرو فون اور ناشتہ کرو۔ “ ارمینہ کی آواز دوسری جانب آزاد نے بھی سنی۔ تھی۔ ارمینہ کے حکمیہ انداز پر اس نے ہنس کر فون بند کر دیا تھا۔ “میڈیسن کہاں ہے تمہاری؟ “ بیڈ کا دراز چیک کرتی وہ غصے سے پوچھ رہی تھی۔ کل سے وہ چپ تھی۔ جاوید صاحب کے ساتھ وہ لوگ واپس گھر آگئے تھے۔ ریحان دوا کی وجہ سے دیر تک سوتا رہا تھا۔ ارمینہ کے غصے کی وجہ وہ سمجھ رہا تھا۔ “ناراض ہو؟ “ ریحان کے انجان بن کر پوچھنے پر اس نے چیزیں پٹھکنا شروع کر دیں۔ “سمجھتے کیا ہو خود کو ہاں؟شروع سے جانتے تم اپنی بیماری۔۔۔کے بارے میں لیکن کسی کو بتانا گوارہ نہیں کیا۔ اس لیے رات کو دیر سے آتے تھے اور گلے خراب کی دوا بتا کر یہ کھاتے تھے۔ “ اس نے دوائیاں بیڈ پر پھینکی تھیں۔ ریحان نے ہاتھ بڑھا کر اسے پاس بیٹھایا تھا۔ “مجھے ڈر لگ رہا ہے ریحان! “ منہ چھپائے وہ رونا شروع کر چکی تھی۔ ریحان بے بس ہوا تھا۔ “چھوٹا سا آپریشن ہوگا مینا!۔۔۔” ریحان نے اس کے چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔ “پھر تم ٹھیک ہو جاؤ گے ناں؟ میرے پاس رہو گے ناں؟” ارمینہ کی امید بھری نظریں دیکھ کر بے ساختہ ہاں میں سر ہلاگیا تھا۔ارمینہ مسکرائی تھی۔ “چلو ناشتہ کرو، میں نے بنایا ہے۔ “ آنسو صاف کرتی وہ ٹرے اٹھانے گئی تھی۔ ریحان اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پلٹ پلٹ کے میں تکتا تھا اس لئے سب کو مجھے خبر تھی مری واپسی نہیں ہوگی…!!
ریحان کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ کر لیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے ریحان کے لیے بیسٹ ڈاکٹر سے بات کی تھی۔ وہ ملنے بھی آئے تھے اس سے۔ڈاکٹر راؤف قاسم ریحان کی رپورٹس دیکھنے کے بعد تسلی بخش جواب دے چکے تھے۔ سرجری کے لیے کچھ وقت درکار تھا اور ریحان کی رضامندی بھی۔ ریحان نے چند دن مانگے تھے۔ ڈاکٹر نے اعتراض نہیں کیاتھا وہ جانتے تھے اس بیماری میں موت کاخوف صحت یابی کی امید سے زیادہ ہوتا ہے۔ ارمینہ اس کے پاس ہاسپٹل میں ہی ہوتی تھی۔ آزاد چاہ کر بھی ریحان سے ملنے نہیں آسکا تھا۔ م اس کی طبیعت اچانک ہی بگڑ گئی تھی۔ دل میں موجود سوراخ اب تقویت پکڑ رہا تھا۔ جہانگیر صاحب اس کی بات مان کر ریحان کو اس کے بارے میں بتایا نہیں تھا۔ لیکن وہ لندن جانے کا فیصلہ کر چکے تھے۔آزاد راضی ہوگیاتھا علاج کے لیے۔ ریحان سے مل کر وہ سرجری والے دن آنے کا کہہ کر چلے گئے تھے۔ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھا ریحان ارمینہ کودیکھ رہا تھا۔جو پندرہ منٹ سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔وہ بیڈ پر جگہ بنائے اس کے سامنے ہی بیٹھی تھی۔
کلام کرتی ہیں اُس کی سرمگیں آنکھیں وہ چپ چاپ سا بھی , مگر بولتا ھے!
“کیا دیکھ رہی ہو؟” ریحان نے اسے مسلسل خود کو دیکھتے پاکر پوچھا۔ “تمہیں دیکھ رہی ہوں۔” اس نے جیسے ہی کہا ریحان مسکرایا تھا۔ “کیوں؟” ریحان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے اگلا سوال کیا تھا۔ “کیونکہ غریب ہونے کے بعد بھی تم برے نہیں لگ رہے۔” اس نے ہنستے ہوئے کہا تو ریحان مسکرایا۔وہ جانتا تھا وہ بات بدل گئی تھی لیکن اس کا بھرم بھی توڑنا نہیں چاہتا تھا۔ “لیکن پہلے تو برا لگتا تھا۔” اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ریحان نے کہا تو ارمینہ نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نکالا۔ “امیر بیوی سے زیادہ سوال جواب نہیں کرتے۔اب چپ کر کر بیٹھو اور مجھے میرا کام کرنے دو۔” ارمینہ نے اس کی شرٹ کا کالر صحیح کرتے ہوئے کہا۔ریحان نے تابعداری سے سر ہلایا تھا۔ “تم محبت کا اظہار کب کرو گے ریحان؟” ارمینہ نے اس کے کندھےپر سر رکھتے ہوئے کہا۔ “میرا اظہار تمہیں میرا پابند بنا دے گا مینا!” ریحان دل ہی دل میں اس سے مخاطب تھا۔ “گونگے مت جایا کرو ریحان!” ارمینہ نے اس کو چٹکی کاٹی تو کراہا تھا۔ “تم رہنے دو میں سیکھاتی ہوں تمہیں اظہار کیسے کرنا ہے۔” وہ یک دم سیدھی ہوتی بیٹھی تھی۔اس کی چہرے پر خوشی کے رنگ ہی تو ریحان کو پسند تھے۔موبائل اس کے سامنے کرکر اس نے ایک ویڈیو چلائی تھی۔ویڈیو میں ایک لڑکا سکیٹ کرتا ہوا مختلف پھول اکھٹے کرتے ہوئے ایک میدان میں رکا تھا۔سامنے رخ موڑ کر ایک لڑکی کھڑی تھی۔وہ اس کے گرد گول چکر لگاتا ایک ایک کرکر پھول اسے پکڑا رہا تھا۔جیسے ہی پھول ختم ہوئے وہ رکا تھا۔اشارے سے اظہارِ محبت کرکر وہ جواب کا منتظر تھا۔ویڈیو ختم ہوگئی تھی۔ “دیکھا ایسے کرتے ہیں اظہار۔” ارمینہ نے کہا تو ریحان نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔ “مجھے سکیٹنگ نہیں آتی مینا!” “تم لڑکی کی جگہ کھڑے ہوجانا۔سکیٹ میں کرلوں گی۔” ارمینہ کے حل پر وہ ہنسا تھا۔ “ہنسنا بند کرو۔میں جلد سیکھ لوں گی سکیٹنگ۔تمہیں پتا ہے ،مجھےپسند ہے یہ لیکن امی کی وجہ سیکھ نہیں سکی میں۔” “اپنے شوق ضرورپورے کرنا مینا!” ریحان نے اس کے کندھے کے گرد سے بازو پھیلایا تھا۔ “تمہارے ساتھ ہی پورے کروں گی۔” ارمینہ نے آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ریحان چپ تھا۔
کل سرجری تھی ریحان کی۔ارمینہ جاگ رہی تھی۔پچھلے کچھ دنوں سے اس نے نیند کو خود پر حرام کر لیا تھا۔وہ باتیں کرتی رہتی تھی ریحان سے۔ریحان سو جاتا تو اسے دیکھتی رہتی۔ایک ڈر تھا دل میں جو اسے سونے نہیں دیتا تھا۔ریحان جواب نہیں دیتا تھا تو وہ پریشان ہوجاتی تھی۔اب بھی نظریں اسی کے چہرے پر تھیں۔ریحان نے کروٹ لیتے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا تھا۔ “کل سب ٹھیک ہوجائے گا مینا!” ان دس دنوں میں اس نے پہلی بار ارمینہ کو تسلی دی تھی۔ “تم جاگ رہےتھے؟” ارمینہ نے اس کا ہاتھ آنکھوں سے ہٹایا تھا۔ “تم نے جگا دیا۔” ریحان کی بات پر اس نے اسے مصنوعی گھورا تھا۔ “اب جاگ گئے ہو تو اظہار محبت کرو۔” ارمینہ کا انداز ضدی تھا۔ریحان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔ “دس سال کاتھا میں جب ابو نے پہلی بار مجھ پر ہاتھ اٹھایا تھا کیونکہ ایک لڑکی کو دوست بنالیا تھا میں نے۔” ریحان کہہ کر ہنسا تو ارمینہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ “ابو کہتے تھے میری دوست صرف ان کی مینا بنے گی اور میں نے منع کر دیا تھا۔” “صحیح کیا تھا چاچو نے۔” ریحان کی وضاحت پر وہ نروٹھے پن سے بولی تھی۔ “جب ابو کی اس بات کامطلب سمجھ آنے لگا تو مینا کو دوست مان لیا۔” “تبھی تو زمین پر بستر ڈال کر دوستی کا فرض نبھاتے تھے تم۔” ارمینہ نے پھر سے شکوہ کیا تو ریحان نے نفی میں سر ہلایا۔ “بس یہ چاہتا تھا کہ میری مینا کبھی دکھی نہ ہو۔” ریحان کا میری مینا کہنا ارمینہ کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا۔ “تم بہت اچھے ہو ریحان!مجھے بس غصہ تھا کہ مجھ پر زبردستی فیصلہ کیوں مسلط کیا جارہا ہے اور کچھ میرا دماغ بھی خراب تھا لیکن تم سے شادی کے بعد میں نے صرف تمہیں سوچا تھا۔کب برا سوچتے سوچتے تم دل میں جگہ بنا گئے مجھے پتا ہی نہیں چلا۔” ارمینہ آہستہ آہستہ بول رہی تھی۔ریحان کی گرم سانسیں چہرے پر محسوس کر کر اس نے چہرہ اٹھایا تو ریحان کو سویا پاکر مسکرائی تھی۔ “بہت ساری باتیں کرنی ہیں ریحان!کل میں سونے نہیں دوں گی۔کل تمہارا اظہار محبت بھی سننا ہے مجھے۔” ریحان کی جانب دیکھتی وہ مسکرا کر بول رہی تھی۔ تم سے بس اتنی سی الفت ہے کہ ہم تیرے بنا عمر بھر ادھورے رہیں گے ہم
ریحان کو اندر لے جایا جاچکا تھا۔ارمینہ باہر بیٹھی مسلسل اس کے لیے دعا کر رہی تھی۔جاوید صاحب اور رفعت بیگم بھی اس کے پاس موجود تھے۔باقی گھر والے بھی مسلسل ریحان کے لیے دعا کر رہے تھے۔بیس منٹ ہوگئے تھے ارمینہ بے چین ہونا شروع ہوگئی تھی۔بار بار اٹھ کر آپریشن تھیٹر کے دروازے تک جارہی تھی۔اچانک ہی نرسز ہڑبڑاہٹ میں باہر اور اندر کے چکر لگانے لگیں۔ “ابو؟؟؟” ارمینہ کا دل گھبرا رہا تھا۔اس نے جاوید صاحب کو پکارا تھا۔ “نرس!ریحان ٹھیک ہے؟” جاوید صاحب نے اسے بیٹھا کر نرس کو روک کر پوچھا تھا۔ “ان کا کیس بگڑ گیا،ہم کوشش کر رہے ہیں۔آپ سب دعا کریں۔” نرس کے الفاظ ارمینہ کو ساکت کر گئے تھے۔ “دعا کرو بچے!” جاوید صاحب نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔ارمینہ نے فورا دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ لائٹ بند ہوئی تو ڈاکٹر راؤف باہر نکلے۔ جاوید صاحب فورا ان کی جانب بڑھے تھے۔ “ریحان؟؟؟؟” جاوید صاحب نے بے چینی سے پوچھا۔ “آئی ایم سوری! “ ڈاکٹر کے جملے ان کی کمر توڑ دی تھی وہ تڑپ کر پیچھے ہوئے تھے۔ “جاوید! !!” رفعت بیگم کے پکارنے پر وہ مڑے تھے جہاں ارمینہ بے ہوش چکی تھی۔
جا بجا دل کو لگانے سے کہاں بھولے گا!!!!! ھم کو وہ شخص بھلانے سے کہاں بھولے گا۔