“ریحان!تم بار بار سو کیوں جاتے ہو؟ “ ریحان کے آنکھیں بند کرتے ہی ارمینہ نے شکوہ کیا تھا۔ “نیند آرہی ہے مینا! “ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرتے ہوئے اس نے کہا۔ “ریحان!طبیعت ٹھیک ہے ناں؟ “ اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بخار چیک کرتی وہ پریشان ہوچکی تھی۔ “تم ساتھ ہو تو طبیعت بھی ٹھیک ہے۔ “ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھتا وہ بولا تو ارمینہ مسکرائی تھی۔ “چلو سوجاؤ۔لیکن یاد رکھنا آج اظہار محبت کا دن ہے۔” اذان شروع ہوتے ہی ارمینہ نے ریحان کے ہاتھ سے ہاتھ چھڑانا چاہا توریحان نے مضبوطی سے ہاتھ پکڑ لیا۔ “تمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں مینا! “ وہ ہولے سے بولا تھا۔ ارمینہ کا ہاتھ کانپا تھا۔ دل کچھ برا ہونے کی گواہی دینے لگا تھا۔ “ہم ساتھ رہیں گے ہمیشہ!” وہ خود کو یقین دلاتی بولی تھی۔ تبھی ریحان کی گرفت ہاتھ پر ڈھیلی ہوئی تھی۔ “ریحان!!” ریحان کو پکارتی وہ اٹھ کر بیٹھی تھی۔ خود کو ہاسپٹل بیڈ پر دیکھ کر اس نے اردگرد ریحان کی تلاش میں نظریں دوڑائی تھیں۔ “ریحان کہاں ہے؟” نرس اس کا بی پی چیک کر رہی تھی۔ اس نے نرس سے ہاتھ چھڑوا کر پوچھا۔ “آپ کے گھروالے باہر ہیں۔ ریلیکس رہیں۔ “ نرس نے نرمی سے کہا۔ “ریحان کہاں ہے؟ “ اس کی بات کو نظر انداز کرتی وہ چلائی تھی۔ “مینا بچے!” جاوید صاحب اس کی آواز سن کر اندر آئے تھے۔ “ابو! ریحان ٹھیک ہے ناں؟ “جاوید صاحب کا ہاتھ پکڑ کر اس نے امید بھری نظروں سے پوچھا۔ “مینا بچے!” وہ بے بس ہوئے تھے۔ دو دن بعد اسے ہوش آیا تھا۔ وہ کیسے بتاتے اسے کہ ریحان چلا گیا ہے اس کی زندگی سے۔ “مجھے جانا ہے اس کے پاس ابو! “ ارمینہ نے ضد کی تو جاوید صاحب نے اس کے سرپر ہاتھ رکھا۔ “تم ٹھیک ہو جاؤ پھر چلتے ہیں۔” جھوٹی تسلی سے وہ اسے بہلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ “مجھے ابھی جانا ہے۔ اس کا آپریشن ہے مجھے پاس رہنا ہے اس کے۔ “ ارمینہ نے بیڈ سے اترنے کی کوشش کی تو جاوید نے اسے روکا۔ “ارمینہ! وہ چلا گیا ہے کبھی نہ لوٹنے کے لیے۔ آپریشن کامیاب نہیں ہوا تھا۔” اسے کندھوں سے پکڑ کروہ جیسے ہی بولے تھے ارمینہ ساکت ہوگئی تھی۔ جاوید صاحب کا دل گھبرایا تھا۔ “ارمینہ! “ انہوں نے اسے خود سے لگایا تھا۔ وہ رو نہیں رہی تھی۔ بالکل چپ تھی۔ اسے ڈسچارج کرواکر گھر لانے کے بعد بھی وہ خاموش تھی۔ دودن ارمینہ کی بےہوشی کے دوران ہی وہ لوگ ریحان کو آخری آرام گاہ تک پہنچا چکے تھے۔ ارمینہ کی چپ سب کو پریشان کر رہی تھی۔ سب نے ہی اس کو بلوانے کی کوشش کی تھی مگر اس کی چپ نہ ٹوٹی۔ ریحان کی چیزیں لیکر وہ بیٹھی رہتی تھی۔ اجیہ اور رامین آکر زبردستی اسے کھانا کھلا دیتی تھیں۔ “بیٹا! وہ چلا گیا ہے کب تک ایسے رہو گی۔ اس کی روح کو تکلیف ہوگی۔” رفعت بیگم اسے سمجھاتے ہوئے بولیں۔ “مجھے اس کے پاس جانا ہے۔ “ ایک مہینے بعد اس کے منہ سے پہلا جملہ نکلا تھا۔ “ایسی باتیں نہیں کرتے بچے! “ انہوں نے دہل کر اسے خود سے لگایا تھا۔پھر ارمینہ کی تمام باتیں یہیں تک محدود ہوگئی تھیں کہ اسے ریحان کے پاس جانا تھا۔پریشانی کا حل ایک ہی تھا ارمینہ کی شادی۔جس کے لیے اجیہ نے اپنے دیور کا رشتہ سامنے رکھا تھا، فلحال یہ گھر والوں کی سوچ تھی جس سے ارمینہ بے خبر تھی لیکن کب تک؟
شمیشر کے ساتھ وہ ایک بار زبردستی قبرستان جا چکی تھی۔اب ارمینہ کا معمول بن گیا تھاوہ اکثر بنا بتائے گھر سے نکل جاتی تھی۔ “یہ کیا کر رہی ہو؟” اسے سامان پیک کرتا دیکھ کر رفعت بیگم نے پوچھا۔ “اپنے گھر جا رہی ہوں۔ “ اس کا انداز سپاٹ تھا۔ “یہ تمہارا گھر ہے۔” “انہوں نے جتایا۔ “میرا گھر وہ ہے جو ریحان نے بنایا تھا میرے لیے۔” زپ بند کرتی وہ ہاتھوں میں ریحان کی دی چوڑیاں پہن رہی تھی۔ “ارمینہ کیا کر رہی ہو یہ؟” انہوں نے ہاتھ پکڑ کر روکا تو ہاتھ چھڑا کر وہ پیچھے ہوئی۔ “آپ لوگوں کے کہنے پر چار مہینے سے نہیں پہنا میں نے انہیں۔اب مزید نہیں۔ ریحان نے دی تھیں مجھے۔” وہ ضدی پن سے بولی تھی۔ پھر رفعت بیگم کے روکنے کے باوجود بھی سامان سمیٹ کر گھر سے نکل گئی تھی۔
“یہ ہمارا گھر ہے ریحان! “ دیوار پر لگی اپنی اور ریحان کی فوٹو دیکھ کر وہ آنسو صاف کرتی بولی تھی۔
اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں اک شام کے ہونے کا بھروسہ ہے…….کہ تم ہو
میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے………. کہ تم ہو۔
کارٹن میں سے ریحان کا کمبل نکال کر وہ صوفے پر بیٹھی تھی۔ “ارمینہ! یہ کیا بچپنا ہے بچے! گھر چلو۔ “ جاوید صاحب شمشیر کے ساتھ وہاں آئے تھے۔ “مجھے نہیں جانا وہاں۔ “ مٹھیوں میں کمبل کو جکڑے وہ اٹل لہجے میں بولی تھی۔ “وہ تمہارا گھر ہے بچے!” “نہیں ہے وہ میرا گھر!میرا گھر یہ ہے جہاں ریحان میرے ساتھ ہے۔” وہ چلائی تھی۔جاوید صاحب کو حیرت ہوئی تھی۔ “مجھے اسے آخری بار دیکھنے تک نہیں دیا۔اس سے ملنے تک چپ کر جانا پڑتا ہے۔اس کی یادیں ہیں میرے پاس وہ بھی چھیننا چاہتے ہیں آپ سب۔مجھ سے ریحان کو چھیننا چاہتے ہیں آپ سب۔میں یہیں رہوں گی،کہیں نہیں جاؤں گی۔ “ وہ ضدی پن سے بولتی اٹھ کر کمرے میں بند ہوگئی تھی۔ “اس نے چاچی اور امی کی باتیں سن لی تھیں،ارسم کے رشتے کے متعلق سب کچھ۔ “ شمشیر نے سر جھکائے بتایا تو جاوید صاحب نے سر پکڑ لیا۔ انہوں نے بہت کوشش کی ارمینہ کو ساتھ لے جانے کی مگر وہ نہ مانی۔ شمشیر اور رامین اس کے پاس رہنے لگے۔ وہ پارک جاتی تھی۔ اکیلے وقت گزارتی تھی۔ آزاد سے سرسری ملاقات کے بعد اس کی پائل گم ہونا، وہ روتی رہی تھی ایک پائل پکڑ کر۔ جاوید صاحب کی طبیعت خراب ہوئی تو گھر واپس آگئی تھی۔ جہاں انہوں نے اپنے سر کی قسم دے کر اسے شادی کے لیے راضی کیا تھا۔آزاد سے ہوئی سرسری سی ملاقات بھی وہ بھول چکی تھی۔ آزاد کا اس کو دوستی کی آفر کرنا اس کا خیال رکھنا بھی اس کا دل بدل نہیں پا رہا تھا۔ پہلی بار اس نے آزاد کے دکھ کو محسوس کیا تھا جب وہ اسے ریحان کی قبر پر لے گیا تھا اس کے بعد ریحان کے گھر۔ وہ اسے دکھ نہیں دینا چاہتی تھی مگر آگے بڑھنا بھی آسان نہیں تھا اس کے لیے۔ آزاد کی رپورٹس دیکھ کر اسے ریحان کی رپورٹس ،اس کا جانا یاد آیا تھا۔ وہ پھر سے آزاد کو بھول کر ریحان کی مینا بن گئی تھی جس کا ریحان اس سے دور جانے والا تھا۔ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﮑﻤﻞ ﺳﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺎﺗﮫ ﮨُﻮﮞ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻣﮕﺮ ﯾﺎﺩ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ نہیں .
(حال) آنکھیں کھول کر اس نے بائیں جانب اپنے قریب ہی کرسی پر سوئے آزاد کو دیکھا تھا۔ وہ اٹھنے لگی تو ہاتھ میں لگے برنولا سےہونے والی تکلیف سے وہ سسکی تھی۔ آزاد کی آنکھ فورا کھلی تھی۔ “مینا! تم ٹھیک ہو؟” اس نے آگے ہوتے فورا پوچھا تھا۔ ارمینہ نے ہاتھ چھپایا تھا جس میں سے خون رسنے لگا تھا۔ آزاد نے اس کا ہاتھ پیچھے لے جانا دیکھا تھا۔ “دیکھاؤ مجھے۔” آزاد کھڑا ہوا تھا۔ “میں ٹھیک ہوں۔ “ بنا اس کی جانب دیکھے ارمینہ نے جواب دیا تھا “ہاتھ دیکھاؤ مینا! “ اس نے خود ہی آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ خون دیکھ کر اس نے خفگی بھری نظر ارمینہ پر ڈالی تھی۔ “اپنے ساتھ تم مجھے تکلیف دیتی ہو مینا! “ کاٹن سے خون صاف کرتا وہ شکوہ کر رہا تھا۔ “مجھے مینا مت بلایا کرو۔ مجھے میرے خالی ہاتھ ،خالی زندگی یاد آتی ہے۔ “ ارمینہ نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا۔ “تمہارے ہاتھ خالی کہاں ہیں مینا! یہ دیکھو میں ہوں ہمیشہ تمہارے ساتھ۔خالی زندگی میں مل کر رنگ بھریں گے۔ “ آزاد نے مسکراتے ہوئے کہا تو ارمینہ نے اس کی جانب دیکھا۔ “جانتی جب پہلی بار تمہیں دیکھا تو موت کو قریب سے جان لینا تھا۔” آزاد کو وہ دن یاد آیا تھا جب اس نے ارمینہ کو رکشے میں بیٹھے دیکھا اور دھیان بھٹکنے پر وہ سکیٹنگ کرتا کار سے ٹکرایا تھا۔ “اس دن خواہش کی تھی تمہیں پانے کی۔ پھر تمہارا تصور میرے پاس سے نہیں گیا۔ اللہ کے گھر جا کر تمہیں مانگا تھا میں نے۔تم صرف محبت نہیں ہو مینا بلکہ۔۔۔۔۔۔۔” ارمینہ نے یک دم ہی اس سے ہاتھ چھڑوایا تھا۔ آزاد نے حیرانی سے ارمینہ کو دیکھا جو نفرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ “تم نے۔۔۔۔کیا سب؟ ریحان کومجھ سے چھین لیا۔” آزاد نے بولنا چاہا مگر ارمینہ آگے ہوتی اسے پیچھے دھکیل گئی تھی۔ “تمہاری وجہ سے میری دعا رائیگاں چلی گئی۔ تم مجھے نہ مانگتے تو میرا ریحان میرے ساتھ ہوتا۔” اپنے ہاتھوں میں سر پکڑے وہ شدت سے روئی تھی۔ “مینا! میری بات سنو۔۔۔۔۔” آزاد نے آگےبڑھ کر اس کے ہاتھ پکڑنا چاہے تو ایک بار پھر ارمینہ نے اس کے ہاتھ جھٹک دیئے۔ “چلے جاؤ یہاں سے۔ تمہاری وجہ سے میرا ریحان چلا گیا۔ چلے جاؤ۔تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی مجھے۔” وہ چلا رہی تھی۔ آزاد قدم پیچھے لیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔ سپردِ خاک مرا ، ایک ایک خط نہ کرے وہ بدگمانیوں میں فیصلے غلط نہ کرے
سلجھ بھی سکتا ہے جھگڑا اسے کہو کہ ابھی جدائی کے کسی کاغذ پہ دستخط نہ کرے
مسلسل گونجتی ارمینہ کی نفرت بھری دھتکار سے تنگ آکر اس نے کار روکی تھی۔ الفاظ سے زیادہ لہجے کی نفرت نے آزاد کو توڑ دیا تھا۔ اس نے اسٹرینگ پر سر گرایا تھا۔ “چلے جاؤ یہاں سے۔ تمہاری وجہ سے میرا ریحان چلا گیا۔ “ اسٹرینگ پر گرفت مضبوط کیے وہ پھر سےارمینہ کے الفاظ یاد کر رہا تھا۔ “تمہاری وجہ سے میری دعا رائیگاں چلی گئی۔ تم مجھے نہ مانگتے تو میرا ریحان میرے ساتھ ہوتا۔” ارمینہ کے لفظوں کی گونج اس کے دل کی دھڑکن بڑھا رہی تھی۔ “اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا مینا!تمہارے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔تمہاری نفرت مجھے مارڈالے گی۔” دل پر ہاتھ رکھتا وہ تکلیف برداشت کرتا بولا تھا۔ فون کی بجتی مسلسل بیل ،گاڑیوں شور، دھندلی آنکھوں سے اردگرد دیکھتا وہ ہوش خرد سے بےگانہ ہوا تھا۔ آس پاس کے لوگ اس کی جانب بڑھے تھے۔ تجھ سے بچھڑے ہیں مگر عشق کہاں ختم ہوا، یہ وہ جیتی ہوئی بازی ہے جو ہاری نہ گئی
تو ہے وہ خواب جو آنکھوں سے اتارا نہ گیا، تو وہ خواہش ہے جو ہم سے کبھی ماری نہ گئی۔
رامین شمشیر کے ساتھ وہاں آئی تھی۔آزاد نے ہی انہیں بلایا تھا تاکہ وہ ارمینہ سے مل سکیں۔ “رامین!” روتے روتے اس نے رامین کی آواز پر سر اٹھایا تھا۔ “کیا ہوا ہے آپی!آپ رو کیوں رہی ہیں؟” وہ پریشان ہوتی اس کے پاس آئی تھی۔ارمینہ اس کے گلے لگ گئی تھی۔ “مجھے اپنے گھر جانا ہے،اس کے ساتھ نہیں رہنا۔” وہ مسلسل رورہی تھی۔ “کس کی بات کر رہی ہیں آپ؟ کس کے ساتھ نہیں رہنا؟” رامین نے پیچھے ہوتے ہوئے پوچھا۔ “آز۔۔۔آزاد۔۔اس کے ساتھ نہیں رہنا۔” “آپی!آپ کیوں کہہ رہی ہیں ایسے؟وہ محبت کرتے ہیں آپ سے۔” “تم سمجھ نہیں کیوں نہیں رہی میری بات؟؟ مجھے جانا ہے یہاں سے۔” وہ یک دم غصے سے بولی تھی۔اندر آتے جہانگیر صاحب ٹھٹک کر رکے تھے۔ارمینہ بھی انہیں دیکھ کر سر جھکا گئی تھی۔ “آزاد کہاں ہے؟” ان کے پوچھنے پر بھی ارمینہ نے سر نہیں اٹھایا تھا۔جہانگیر صاحب کا فون رنگ ہوا تو آزاد کا نمبر دیکھ کر انہوں نے کال پک کی۔اس سے پہلے وہ کچھ بولتے دوسری جانب سے ملنے والی خبر سے ان کے قدم لڑکھڑائے تھے۔ “انکل!” خاموش کھڑا شمیشر ان کو لڑکھڑاتے دیکھ کر ان کی جانب لپکا تھا۔ارمینہ نے بھی سر اٹھایا تھا۔ “میرا آزاد!” وہ ہولے سے بولتے الٹے قدم لیتے روم سے نکلے تھے۔ “ان کےساتھ جاؤ شمشیر دیکھو کیا ہوا ہے۔” رامین نے تیز آواز سے کہا تو شمیشیر جہانگیر صاحب کے پیچھے بھاگا۔ “اللہ خیر کرے۔ “ رامین نے کہا تو ارمینہ نے اس کی جانب دیکھا۔ “آپی! وہ آزاد بھائی!!” شمشیر ہانپتا ہوا روم میں داخل ہوا تھا۔ارمینہ کی گرفت چادر پر مضبوط ہوئی تھی۔ “کیا ہوا ہے؟ وہ ٹھیک ہیں ناں؟ “ رامین بیڈ سے اتری تھی۔ شمشیر نے نفی میں سر ہلایا۔ “ایمرجنسی میں لے کر گئے ہیں انہیں۔” شمشیر کی آنکھ میں آنسو آئے تھے۔ ارمینہ کے دماغ میں آزاد کی رپورٹس گھوم گئیں تھی۔ پھر اپنے کہے جملے یاد آئے تو آزاد کا چہرہ نظروں کے سامنے آگیا۔ اس کے چہرے کا دکھ،بے بسی جسے اس وقت اہمیت نہیں دی تھی اب گلٹ میں مبتلا کر رہی تھی۔ اس بار اس کی آنکھ سے نکلنے والا آنسو آزاد کے لیے تھا۔ تجھے ﯾﻘﯿﻦ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ہے ﻣﮕﺮ ﯾﮩﯽ ﺳﭻ ﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﻋﻤﺮﯾﮟ ﮔﺰﺍﺭ سکتا ﮨﻮﮞ
“آپ نے کہا تھا وہ ٹھیک ہوگیا ہے تو اب پھر۔۔۔۔” وہ رامین اور شمشیر کے ساتھ جہانگیر صاحب کے پاس آئی تھی جب ان کی بات سن کر اس کے قدم رکے تھے۔ “دیکھیئے جہانگیر سر! سرجری کامیاب تھی اس وقت لیکن اب ہارٹ صحیح سے باڈی کو سپورٹ نہیں کر رہا۔ انہیں شاید کوئی پریشانی ہے یا پھر جینے کی خواہش نہیں ہے۔ “ ڈاکٹر کی سخت بات پر جہانگیر صاحب اور ارمینہ دونوں کے دل دہل گئے تھے۔ “انکل!” رامین نے جہانگیر صاحب کو سہارا دیا تھا۔انہوں نے ارمینہ کی جانب دیکھا تو اس کے پاس آئے۔ “تم جاؤ اس کے پاس بیٹا!وہ خود کو قصور وار سمجھتا ہے۔ اسے سمجھاؤ اس کی غلطی نہیں تھی،ریحان کا فیصلہ تھا وہ۔ “ ارمینہ کے سامنے بے بسی سے بولتے وہ اسے حیرانی میں مبتلا کر گئے تھے۔ “کونسا فیصلہ؟ “ اس نے بامشکل الفاظ منہ سے نکالے تھے۔ “آزاد بھائی کا ہارٹ ٹرانسپلانٹ کیا گیا تھا،ریحان بھائی نے سرجری سے پہلے وصیت کی تھی اگر انہیں کچھ ہوجائے تو ان کا ہارٹ آزاد بھائی کو دیا جائے۔ “ رامین کے انکشاف پر اس نے قدم پیچھے لیے تھے۔ نفی میں سر ہلاتی وہ مزید قدم پیچھے لے رہی تھی۔ “ریحان جان گیا تھا کہ آزاد جس لڑکی سے محبت کرتا ہے وہ تم ہو۔ “ جہانگیر صاحب کے منہ سے اگلا انکشاف سن کر اس کے قدم رکے تھے۔
(ماضی) دوا کے زیر اثر وہ سوجاتا تھا۔ اس نے ارمینہ کو بھی نہیں بتایا تھا کہ اس کی تکلیف بڑھ گئی تھی۔ جب تک وہ سوتا تھا تب تک ہی تکلیف سے بچا رہتا تھا۔ آنکھوں کے نیچے حلقے بڑھ گئے تھے۔ وہ امید باندھتا اور پھر ہارنے لگتا تھا۔ ارمینہ کی باتیں سنتے ہوئے وہ مسکراتا تھا لیکن اسے تکلیف ظاہر نہیں ہونے دینا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا نہیں تھا زندگی اچانک سے اتنی مختصر ہوجائے گی۔ نیند میں کروٹ لیتے ارمینہ کےاس کے دل پر ہاتھ رکھا تو اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا۔ وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔ اس مسکراہٹ کا کرب وہ ہی جانتا تھا۔ وہ جانتا تھا ارمینہ ڈرتی ہے تبھی اس کے ساتھ رہتی تھی۔ بیڈ دونوں کے لیے چھوٹا تھا لیکن وہ اسے اکیلا چھوڑنے کو تیار نہ تھی۔ ریحان نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ “مجھے نہیں معلوم مینا!مجھے تم سے کتنی محبت ہے؟مانپنا شاید ممکن نہیں ہے۔میں اظہار کرنے سے ڈرتا ہوں مینا!اظہار کر دیا تو تمہارا دل میرا ہوجائے گا اور میں چلا گیا تو تم آگے بڑھ نہیں پاؤ گی۔” ریحان کی آواز بہت آہستہ تھی۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر ریحان نے فورا ارمینہ پر چادر ڈالی تھی۔ جہانگیر صاحب کو دیکھ کر ریحان حیران ہوا تھا۔جو صدیوں کے بیمار لگ رہے تھے۔ ریحان نے اٹھنے کی کوشش کی تو جہانگیر صاحب نے اسے روکا۔ “آپ تو لندن جانے والے تھے؟” ریحان نے پوچھا۔ “نہیں جاسکے۔آزاد کی طبیعت بگڑ گئی اچانک سے۔” جہانگیر صاحب بہت زیادہ پریشان تھے۔ “وہ ٹھیک ہے اب؟” ریحان کے پوچھنے پر ارمینہ نیند میں ہی بڑبڑائی تو جہانگیر صاحب کا دھیان بھی اس کی جانب گیا۔لیکن انہوں نے زیادہ دھیان نہ دیا۔ “ریحان اسے سمجھاؤ۔وہ میری بات نہیں مان رہا۔اس کی حالت بہت خراب ہے۔اس کا دل بہت کمزور ہوچکا ہے۔ہارٹ ٹرانسپلانٹ ہی واحد حل ہے اور وہ منع کر رہا ہے۔” “کیوں منع کر رہا ہے؟” ریحان نے بیڈ سے اترتے ہوئے پوچھا۔ “یہی تو سمجھ نہیں آرہا وہ کیوں منع کر رہا ہے۔” جہانگیر صاحب نے اسے سہارا دیتے ہوئے کہا۔ “وہ یہیں ہے؟ “ ریحان نے پوچھا تو انہوں نے ہاں میں سر ہلایا۔ “مجھے اس کے پاس لے چلیں۔ “ ریحان نے سوئی ہوئی ارمینہ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ جہانگیر صاحب اسے سہارا دیتے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ آئی سی یو کی وحشت ناک خاموشی اور بیڈ پر لیٹا آزاد ،ریحان کو آنے والے وقت نہیں ڈرایا تھا۔وہ آہستگی سے چلتے ہوئے آزاد کے پاس آیا تھا۔اندر آنے کی اجازت صرف ایک شخص کو تھی اس لیے جہانگیر صاحب باہر ہی رک گئے تھے۔ “آزاد!!” ریحان نے اسے پکارا تو آزاد نے آنکھیں کھولیں۔چہرے پر تکلیف کے آثار ابھرے تھے۔ “تم اپنے ڈیڈ کی بات کیوں نہیں مان رہے؟” دونوں ہی تکلیف میں تھے اور ایک دوسرے کو تکلیف سے نکالنا چاہتے تھے۔ “میں۔۔۔۔اسے کیسے نکال دوں۔۔۔ریحان!۔۔۔وہ اس دل میں۔۔۔۔۔۔بستی ہے۔اگر یہ۔۔۔۔دل ۔۔۔۔۔چلا گیا تو۔۔۔۔۔” آزاد کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا۔ “محبت کرتے ہو کسی سے؟” ریحان نے پوچھا تو آزاد ہلکے سے سر ہلایا۔ “اس کے لیے ہی کر لو یہ۔” ریحان نے کہا تو اس نے نفی میں سر ہلایا۔ “اسے اس دل میں اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں۔” آزاد کے لہجے میں ضد تھی۔
مجھے تمہاری جدائی کا ، کوئی رنج نہیں میرے خیال کی دُنیا میں ، میرے پاس ھو تم
یہ تم نے ٹھیک کہا ھے ، تمہیں مِلا نہ کروں مگر مجھے یہ بتا دو ، کہ کیوں اُداس ھو تم
خفا نہ ھونا ، میری جرأتِ تخاطب پر تمہیں خبر ھے ، میری زندگی کی آس ھو تم ؟؟
“ساحر لدھیانوی” “اسے بلا لو یہاں۔” ریحان نے کہا۔ “نہیں جانتا کون ہے۔” آزاد نے مسکراتے ہوئے کہا تو ریحان کو حیرت ہوئی۔ “اگر وہ آکر کہے تو مان لو گے اس کی بات؟” “ریحان!” آزاد بولنا چاہتا تھا مگر تکلیف برداشت کرتا چپ ہوا تھا۔ نرس اندر آتی ریحان کو جانے کا اشارہ کر چکی تھی۔ریحان دھیرے سے اٹھتا وہاں سے باہر آگیا تھا۔ “آپ جانتے ہیں اس لڑکی کے بارے میں؟” ریحان کے سوال پر جہانگیر صاحب کے لب سلے تھے۔ “اسے بلا لیں۔” ریحان سمجھ گیا تھا وہ جانتے ہیں سب۔ “وہ نہیں آئے گی۔” جہانگیر صاحب کی بات پر اس کے بڑھتے قدم رکے۔ “کیوں؟” اس نے پوچھا تو جہانگیر صاحب نے آزاد کے فون کی اسکرین اس کی سامنے کی جہاں ارمینہ کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ریحان نے بے یقینی سے انہیں دیکھا تھا۔ دھند چھٹتی ہوئی منظر سے نکلتے ہوئے تم نقش ابھرتے ہوئے پتھر سے نکلتے ہوئے تم
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھتا ہوا میں اور پھر میرے مقدر سے نکلتے ہوئے تم
آیتِ عشق اترتی ہوئی دل پر میرے اور ہر لفظِ منور سے نکلتے ہوئے تم
اپنے گمنام اندھیروں میں سمٹتا ہوا میں چاہنے والوں کے لشکر سے نکلتے ہوئے تم
“کہاں چلے گئے تھے تم؟ “ اس کے روم میں داخل ہوتے ہی وہ پریشان ہوتی اس کے پاس آئی تھی۔ “باہر ٹہلنے گیا تھا۔ “ چہرے پر مسکراہٹ سجائے ریحان نے اس کے بازو کا سہارا لیتے ہوئے بتایا۔ ارمینہ کے چہرے پر خفگی آئی تھی۔ “لاپرواہی مت کیا کرو ریحان! “ اس کے بازو پر گرفت مضبوط کرتی بولی تو ریحان اس کے لہجے میں چھپا خوف محسوس کر کراسے ساتھ لگائے تسلی دینے لگا۔ “میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا مینا! اسے محسوس کرو۔ “ اس کا ہاتھ اپنے دل پر رکھ وہ اسے اپنی دھڑکن کا گواہ بنا رہا تھا۔ “یہ میرا نام لیتی ہیں۔ “ اترا کر کہتی وہ اسے ساتھ لیے بیڈ تک آئی تھی۔ ریحان اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ “تم مجھے ایسے کیوں دیکھتے ہو جیسے۔۔۔” وہ جملہ مکمل کرنے سے ڈری تھی۔ “تمہیں پوری طرح اپنی نظروں میں بسا لینا چاہتا ہوں۔” ریحان کا جواب بے ساختہ تھا۔ ارمینہ اس کے پاس بیٹھ گئی تھی۔ “تم چپ رہا کرو ریحان! تمہاری باتیں ڈراتی ہیں مجھے۔ “ ارمینہ نے اس کے کندھے سےسر ٹکاتے ہوئے کہا۔ “مجھے ہر گزرتا لمحہ ڈراتا ہے مینا! “ وہ دل ہی دل میں بولا تھا۔ “تمہیں ہمیشہ میرے پاس رہو گے ناں ریحان؟” کچھ دیر بعد اس کی سرجری تھی۔وہ جانتی تھی ریحان ٹھیک نہیں ہے اس لیے ڈر رہی تھی۔بار بار پوچھ کر اپنی امید کو مضبوط کر رہی تھی۔ “میں ہمیشہ تمہارے ساتھ اور پاس رہوں گا۔” ارمینہ کا ہاتھ اب بھی اس کے دل پر تھا۔ “تم جانتے ہو سب مجھے انازادی کہتے ہیں،لیکن میری محبت انازادی ہے ریحان!اس نے تمہیں چنا ہے اور تمہارے علاوہ یہ کسی کو نہیں چنے گی۔مجھے چھوڑ کر کبھی نہ جانا ریحان!” وہ بول نہیں رہی تھی لیکن ریحان اس کی سوچ پڑھ چکا تھا۔اس نے ارمینہ ہر گرفت مضبوط کی تھی۔
“ریلیکس ریحان!یو ہیو ٹو بی اسٹرانگ۔یو ول بی فائن۔” آپریشن تھیٹر میں ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے اسے تسلی دی تھی۔اسے بے ہوش کرنے کے لیے جیسے ہی انجیکشن لے کر ڈاکٹر اس کے قریب آیا ریحان نے ان کا ہاتھ پکڑا۔ “کتنے پرسنٹ چانسسز ہیں ڈاکٹر؟” وہ حقیقت نہیں جھٹلانا چاہتا تھا۔ “اللہ پر بھروسہ رکھو ریحان!” ڈاکٹر نے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ “اگر مجھے کچھ ہوجائے تو۔۔۔۔۔” اچانک ہی تکلیف برداشت سے باہر ہوئی تھی۔ “آزاد۔۔کو۔۔۔۔۔میرا دل۔۔۔” “ریحان ریلیکس!!” ڈاکٹر اسے ہائپر نہیں ہونے دینا چاہتے تھے۔ “اسے کہیے گا۔۔۔۔۔۔ اس کی محبت ۔۔۔۔اس کے دل سے کہیں۔۔۔۔۔ نہیں جائے گی۔” انجیکشن لگتے ہی اس کی آنکھیں بند ہونا شروع ہوئی تھیں۔وہ نہیں جانتا تھا کہ اس بار وہ آنکھیں کھول نہیں پائے گا۔ڈاکٹر اس کی ہارٹ بیٹ نارمل ہونے کا انتظار کر رہے تھے تاکہ آپریشن شروع کیا جاسکے۔کچھ وقت گزرا جیسے ہی انہیں سب نارمل ہونے کا سگنل ملا وہ آپریشن شروع کر چکے تھے۔آپریشن رسکی تھا لیکن ابھی کرنا ضروری تھا۔ “بھولنا مت ریحان!صرف مینا تمہاری دوست ہے۔” باپ کی بات اس کے دماغ میں گونجی تھی۔ “یہ شادی بہت مہنگی پڑے گی تمہیں۔” ارمینہ کا چہرہ ابھرا تھا۔ “اب تو مجھے معلوم ہوگیا ہے تم گونگے نہیں ہو تو بول ہی دو کچھ۔اور ویسے اب ہماری دوستی ہوگئی ہے تو اس لیے تمہارے لیے بھی بنا دی چائے۔اب پکڑو اسے۔”
“چپ کرو تم!تم گونگے ہی اچھے لگتے ہو۔تمہارے الفاظ دل تو نہیں توڑتے۔” ارمینہ کی ابھرتی آوازیں ریحان کے جسم کو جھٹکے لگنا شروع ہوئے تو ڈاکٹر اور عملہ پریشان ہوگیا تھا۔ “تمہیں ہمیشہ میرے پاس رہو گے ناں ریحان؟” آخری جملہ تھا اور آخری سانس تھی۔سب ساکت ہوگیا تھا۔ایک آخری آنسو تھا جوریحان کی بند آنکھ سے نکلا تھا۔ ہر طرح سے تصدیق کے بعد اب ڈاکٹر کو اس کی وصیت پر عمل کرنا تھا۔انہوں نے باہر آکر یہ بات جاوید صاحب کو بتائی تھی۔ارمینہ کی بے ہوشی کے بعد وہ سوچتے رہے کہ کیا کریں پھر ریحان کے فیصلے کا احترام کرتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر کو اجازت دے دی تھی۔ آزاد کی بگڑی حالت کے زیر اثر ہی اسکا آپریٹ کیا گیا تھا۔جب اسے ہوش آیا تو اس نے ریحان کا پوچھا تھا۔ریحان کےبارے میں سن کر وہ کئی دن افسردہ رہا تھا۔ریحان نے اسے دل دیا تھا یہ بات اسے اس کے گھر والوں کے سامنے شرمندہ کرتی تھی۔جاوید صاحب آتے تھے اس سے ملنے۔ریحان کے دل کی وجہ وہ اسے ریحان کی طرح ہی عزیز ہوگیا تھا۔ڈاکٹر نے آزاد کو ریحان کی آخری وصیت بتائی تھی جو وہ اس وقت سمجھا جب اس نے ارمینہ کو اس کی بیوہ کے روپ میں دیکھا۔وہ گلٹ میں رہنے لگا تھا۔ارمینہ سے شادی کرنے بعد وہ گلٹ مزید بڑھ گیا تھا۔
(حال) “آپ چاہتی تھیں ناں ریحان بھائی آپ کے ساتھ رہیں؟وہ آپ کے پاس ہی ہیں آپی!انہیں روک لیں۔ورنہ ایک بار پھر آپ انہیں کھو دیں گی۔” رامین کے جھنجوڑنے پر ارمینہ نفی میں سر ہلاتی ایمرجنسی کی طرف بھاگی تھی۔مختلف مشینوں میں جکڑے آزاد کو دیکھ کر وہ آگے بڑھی تھی۔ تمھارے واسطے کچھ بھی نہیں بچھڑ جانا کہ جانتے نہیں تم سانس کا اکھڑ جانا
درختوں کا ہے الگ درد اور میرا الگ ہمارے درمیاں بس مشترک ہے جھڑ جانا “نہیں جاؤپلیز! “ اس کے پاس بیٹھی وہ التجا کر رہی تھی۔ سامنے مشینوں میں جکڑا وجود شاید اس کی التجائیں سن نہیں پا رہا تھا۔ اسے اس طرح روتے دیکھ کر نرس کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔ “کبھی جانے کا نہیں کہوں گی۔نفرت نہیں کروں گی۔” اس کے دل پر ہاتھ رکھتی وہ مسلسل رو رہی تھی۔ “مت جاؤ!مجھے اکیلا مت کرو۔ میں کبھی منہ نہیں موڑوں گی۔ “ وہ جیسے آج خود سے ہار گئی تھی۔اس کا کانپتا ہاتھ اور ٹوٹا ہوا لہجہ بھی آزاد کے وجود میں جنبش پیدا نہ کر سکا۔ “تم بھی جھوٹ بولتے تھے،مجھے چھوڑ کر جانا چاہتے ہو؟” وہ ہلکے سے غصے سے بولی تو نرس آگے بڑھی۔ “میم! آپ باہر چلیں۔” نرس اسے زبردستی اپنے ساتھ باہرلے جا رہی تھی۔ “نرس! میرا بیٹا ٹھیک ہے؟ “ جہانگیر صاحب آگے بڑھے تھے۔ “ان کا دل آہستہ آہستہ ریسپانڈ کرنا بند کر رہا ہے۔” نرس کی بات پر زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
ملنے لگتا ہے جب کسی کی رفاقت میں سکون!! پھر یوں ہوتا ھے! کہ وہ شخص بچھڑ جاتا ھے۔
اندر مانیٹر پر ہونے والی بیپ پر نرس اندر بھاگی تھی پھر فورا ڈاکٹر کو بلانے باہر آئی تھی۔ “کیا ہو رہا ہے؟” جہانگیر صاحب پریشان ہوئے تھے۔رامین نے ارمینہ کو فرش سے اٹھایا تھا۔ آپ رکیں پلیز!” ڈاکٹر کہہ کر اندر چلا گیا تھا۔باہر وہ مسلسل دعا کر رہے تھے آزاد کے لیے اور اکیلے نہیں جو اس کی زندگی مانگ رہے تھے۔ ڈاکٹر کے باہر آنے پر ان کی سانس اٹکی تھی۔ “ہی از فائن مسٹر جہانگیر!آئی تھنک ہی از فائٹر!” وہ مسکراتے ہوئے بول رہے تھے جہانگیر صاحب نے فورا اللہ کا شکر ادا کیا تھا۔
زنِ حسین تھی اور پھول چُن کے لاتی تھی ! میں شعر کہتا تھا وہ داستان سناتی تھی !
اسے پتہ تھا میں دنیا نہیں محبت ہوں ! وہ میرے سامنے کچھ بھی نہیں چھپاتی تھی !
اسے کسی سے محبت تھی اور وہ میں نہیں تھا ! یہ بات مجھ سے زیادہ اسے رلاتی تھی !
یہ پھول دیکھ رہے ہو یہ اس کا لہجہ تھا ! یہ جھیل دیکھ رہے ہو یہاں وہ آتی تھی !
میں کچھ بتا نہیں سکتا وہ میری کیا تھی ! کہ اس کو دیکھ کے بس اپنی یاد آتی تھی !
ہر ایک روپ انوکھا تھا اُس کی حیرت کا ! مِرے لئے وہ زمانے بدل کے آتی تھی !
میں اُس کے بعد کبھی ٹھیک سے نہیں جاگا ! وہ مجھ کو خواب نہیں، نیند سے جگاتی تھی۔
اس پر سے کمبل کھینچ کر وہ جا چکی تھی۔آزاد نے آنکھیں کھول کر اسے ڈھونڈنا چاہا مگر ہر بار کی طرح ناکام ٹہرا۔دھیرے سے مسکرا کر اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔پھر اٹھ کر فریش ہونے کر چلا گیا۔نہا کر باہر نکلا تو اس کے کپڑے بیڈ پر موجود تھے۔باقی چیزیں ٹیبل پر موجود تھیں۔ “تمہارا بدل جانا بھی اذیت دیتا ہے مینا!” اپنے کپڑے لیکر وہ چینج کرنے چلا گیا۔تیار ہوکر باہر نکلا تو کچن میں گم ہوتے آنچل کودیکھ کر وہیں چلا آیا۔ “مینا!” پراٹھا بیلتے اس کے ہاتھ آزاد کی پکار پر تھمے تھے۔ “جی!” بنا مڑے اس نے پوچھا تو آزاد نے آگے بڑھ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔ “کیا میری یہ خواہش کبھی پوری نہیںں ہوگی کہ آنکھ کھلنے پر تم میرے سامنے ہو؟” آزاد کے لہجے میں ایک حسرت تھی۔ارمینہ نے سر اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا،جہاں محبت کا ایک جہان آباد تھا وہ نظریں چراتی مڑنے ہی لگی تھی جب بے اختیار ہی اس کا ہاتھ آزاد کے دل کی جانب بڑھا تھا۔ دل کی دھڑکن محسوس کرتی وہ مسکرائی تھی۔سب بھولتی وہ آگے ہوتی اس کے سینے پر سر رکھ گئی تھی۔ “یہ میرا نام لیتی ہیں۔” دھیرے سے اس کے لب ہلے تھے۔آزاد کا وجود تو سماعت بن جاتا جب وہ قریب آتی تھی۔ “یہ تمہارے نام سے دھڑکتی ہیں مینا!” اس کی دھڑکن محسوس کرتی ویسے ہی کھڑی تھی۔قدموں کی چاپ سن کر وہ اس سے الگ ہوئی تھی۔آزاد کی کالی شرٹ پر دل کے مقام پر بنا آٹے سے ہاتھ دیکھ کر وہ ہنسی تھی۔ “صاف کر دیتی ہوں۔” اپنے ڈوپٹہ سے وہ صاف کرنے کے لیے آگے بڑھی تو آزاد پیچھے ہوگیا۔ “رہنے دو!تمہارا لمس میرے ساتھ رہے گا۔” “آزاد سب ہنسیں گے۔” اسے باہر جاتا دیکھ کر وہ پیچھے آئی تھی ۔ملازمہ اس کے پاس سے گزرتی کچن میں چلی گئی تھی۔ “ہنسنے دو۔مجھے فرق نہیں پڑتا۔” آزاد نے لاپرواہی سے کہا۔ “پلیز صاف کر لیں اسے۔” ارمینہ کے معصومیت سے کہنے پر آزاد الٹے قدم لیتا واپس اس تک آیا تھا۔ “تمہارے نقش تم بھی نہیں مٹا سکتی اس دل سے۔” آزاد نے اس کی ہتھیلی تھام کر شرٹ پر مزید نشان بنا لیے تھے۔ “آپ پاگل ہیں۔” وہ ہار مانتی سر جھکا گئی تھی۔ “عاشق ہوں۔” اس کی تصیح کرتا وہ آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر لب رکھتا پیچھے ہوا تھا۔ “ڈیڈ کو بلا کر لاتا ہوں مل کر ناشتہ کریں گے۔” اس کے گال تھپتھپا کر وہ جہانگیر صاحب کے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔ارمینہ اسے جاتا دیکھ رہی تھی۔ آزاد دو دن پہلے ہی ہاسپٹل سے گھر آیا تھا۔ہوش میں آنے پر اس نے ارمینہ کو اپنے ساتھ پایا تھا۔اس کے سینے پر سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ وہ اس کے کھو دینے کے ڈر سے روئی تھی یا پھر اس کو پاکر روئی تھی مگر وہ آخری بار تھا جب وہ اس طرح روئی تھی۔
ابھی وہ درد باقی ہے اگرچہ وقت مرہم ہے مگر کچھ وقت لگتا ہے کسی کو بھول جانے میں دوبارہ دل بسانے میں ابھی کچھ وقت لگنا ہے ابھی وہ درد باقی ہے! میں کیسے نئی الفت میں اپنی ذات کو گُم کر دوں کہ میرے جسم و وجداں میں ابھی وہ فرد باقی ہے ابھی اُس شخص کی مجھ پر نگاہِ سرد ۔۔۔۔۔۔۔ باقی ہے ابھی وہ عشق کے رستوں کی مجھ پر گرد باقی ہے ابھی وہ درد باقی ہے
رات کا آخری پہر تھا جب اس کی آنکھ کھلی تھی۔ ایک نظر سکون سے سوتے آزاد پر ڈال کر وہ بیڈ سے اتر کر بالکنی میں آگئی تھی۔ آسمان پر پوری آب و تاب سے چمکتے ستارے چاند کی غیر موجودگی میں اپنی کشش کھو رہے تھے۔ وہ وہیں ریلنگ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی تھی۔ خود میں سمٹ کر نظریں چاند کو تلاش کر رہی تھیں جو آج شاید آنا ہی نہیں چاہتا تھا۔قدموں کی مخصوص چاپ سن کر اس نے گھٹنوں سے سر اٹھایا۔ آزاد اسے خفگی سے دیکھ رہا تھا۔ “تم میری اتنی پرواہ کیوں کرتے ہو؟ “ کھوئے کھوئے لہجے میں پوچھتی وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔ آزاد اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔ “میرا دل کہتا ہےایسا کرنے کو۔ “ اس کے جواب پر ارمینہ نے پھر سے چاند کو تلاشنا چاہا۔ “اس کا مطلب تم اس دل کے کہنے پر کرتے ہو؟” ارمینہ کا اس پر زور دینا آزاد کو اس کی کشمکش سمجھا گیا تھا۔ وہ مسکرا کر وہیں اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا تھا۔ “میں تمہیں اپنے دل سے نکالنا نہیں چاہتا تھا ارمینہ! میں سب کھو کر زندہ نہیں رہنا چاہتا تھا لیکن ریحان کے دل نے میری محبت کو کئی گنا بڑھا دیا۔ شاید میں تم سے مایوس ہوجاتا لیکن میرا دل کہتا تھا تم صرف میری مینا ہو۔ “ آزاد بول رہا تھا جبکہ ارمینہ اس کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔اس کے چہرے میں ریحان کی شبیہ ڈھونڈتی وہ تھک کر آنکھیں موند گئیں۔ آزاد نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے دل پر رکھا تو ارمینہ نے اسے دیکھا۔ “میں یہ سوچ کر اپنی پوری زندگی گزار سکتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے چاہے وہ محبت اس دل سے ہی کیوں نا ہو کیونکہ یہ دل میرا ہے مینااور میں تمہارا۔ “ آزاد کی باتوں کے اس کے پاس جواب نہیں ہوتے تھے۔ وہ دکھ سے مسکرائی تھی کیونکہ وہ اس کے ساتھ آگے تو بڑھ گئی تھی لیکن وجہ آزاد نہیں تھا۔ “میں کوشش کر رہی ہوں آزاد! لیکن۔۔۔۔۔” “شششش!” اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر آزاد نے اسے بولنے سے روکا۔ “میں خوش ہوں ارمینہ! “ وہ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ ہنسی تھی۔ “وہ بھی جھوٹ بولتے ہوئے میرا پورا نام لیتا تھا۔” وہ ہنس کر بتا رہی تھی آزاد اسے دیکھ رہا محو ہوکر۔ “شاید میری طرح وہ بھی چاہتا تھا تم اس کا جھوٹ پکڑ لو۔ “ ان کی گفتگو میں ریحان کا ذکر ہمیشہ ہوتا تھا لیکن وہ کبھی بری یاد نہیں بن پایا تھا۔آزاد کے لیے وہ اس کا محسن تھا،جس نے اس کی محبت کا راستہ اس کے لیے آسان کر دیا تھا۔وہ ارمینہ سے بلاجھجھکے ریحان کے بارے میں بات کرتا تھا۔ریحان جو نہ ہوکر بھی ان کے درمیان تھا۔آزاد نے اس کے کندھے پر سر رکھ کر آنکھیں موند لی تھیں اور اس کا ہاتھ اپنے دل پر رکھ لیا تھا۔ارمینہ نے خود کے گرد لپٹی چادر کو آزاد پر پھیلا دیا تھا۔دل کی دھڑکن محسوس کرتی وہ اب بھی چاند کی ممتظر تھی۔ اک دھوپ سے الجھا ہوا سایہ ہے کہ میں ہوں اک شام کے ہونے کا بھروسہ ہے…….کہ تم ہو
میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے………. کہ تم ہو۔
“اجیہ یار پکڑو اسے۔” واسع کی جھنجھلاہٹ بھری آواز پر وہ ہنسی دباتی کمرے میں داخل ہوئی۔ “اپنی ہی اولاد سے کوئی چڑتا ہے بھلا؟” اجیہ نے مصنوعی غصے سے کہا تو واسع نے آنکھیں سکیڑیں۔ “جب اپنی ہی اولاد محنت برباد کر کر تالیاں بجانے والی ہو تو چڑنا بنتا ہے۔” اپنی آفس فائل کے سارے کاغذ سمیٹتا وہ جل کر بولا تھا۔ “بابا!” شجرت کا پیار سے پکارنا اس کا سارا چڑچڑا پن دور گیا تھا۔ “میرا بچہ! بابا کی جان!” اس نے تیزی سے شجرت کو اس سے لیا تھا۔اجیہ نے منہ کھولے حیرت سے باپ بیٹی کو دیکھا تھا جو کچھ دیر پہلے تک دشمن بنے ہوئے تھے۔ “اسے مجھے دیں اور چینج کر لیں جا کر۔ہمیں امی کی طرف جانا ہے۔” شجرت کو اس سے لیکر اجیہ نے کہا تو فائل اٹھا کر دراز میں ڈال کر تیار ہونے چلا گیا۔ “مما!” پانچ سالہ راحب بھاگ کر اندر آیا تھا۔ “دادو بلا رہی ہیں۔” جتنی۔تیزی سے وہ اندر آیا تھا۔اتنی ہی تیزی سے پیغام پہنچا کر وہ جا چکا تھا۔اجیہ کے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے تھے۔ پانچ سال کے عرصے میں زندگی نے خوشگوار موڑ لیا تھا۔جہاں اجیہ اور واسع ماں باپ کے درجے پر فائز ہوچکے تھے۔وہیں واسع کی محبت اور سمجھداری نے اجیہ کو اس کا گرویدہ کر دیا تھا۔واسع اس کے لیے انعام جیسا تھا جس نے اسے اسی کی نظروں میں سرخرو کیا تھا۔
“یہ گر جائے گا؟” “تو تم بھی چلو ساتھ۔” آزاد نے فورا ہی خدمات پیش کی تھیں۔ارمینہ نے اسے گھور کر برھان کے پاؤں سے اسکیٹنگ شوز اتارنا چاہے تو آزاد نے اسے روکا۔ “وہ نہیں گرے گا مینا! “ آزاد نے نرمی سے کہا تو ارمینہ نے ہاتھ پیچھے کر لیے۔ صاف اشارہ تھا کہ کرو جو کرنا ہے۔ “ہم مل کر سیکھائیں اسے؟ “ آزاد نے اس کے پاؤں کے پاس اسکیٹنگ شوز رکھے تھے۔ “میرے بیٹے کو چوٹ لگی تو آزاد!بات نہیں کروں گی میں۔” ارمینہ کی دھمکی پر وہ مسکرایا تھا۔ “نہیں لگے گی اسے چوٹ! “ اسے شوز پہنا کر وہ اس کاہاتھ پکڑکر اپنے ساتھ ہال میں لے آیا تھا۔ دوسرے ہاتھ سے برھان کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے سکیٹ کر رہا تھا۔ ارمینہ نے آگے بڑھ کر برھان کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔ برھان دونوں کو دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ کچھ دیر اسکیٹنگ کے بعد وہ واپس آگئے تھے۔ ارمینہ کے بنا کہے ہی آزاد اسے قبرستان لے آیا تھا۔ جہاں وہ خاموشی سے کھڑی تھی۔ “دیکھو ریحان! میں آگے بڑھ گئی ۔آگے بڑھنا آسان تھا لیکن تمہیں بھولنا نہیں۔ تم جانتے ہو تمہاری ہر چیز بہت سنبھال کر رکھی ہے میں نے ،تمہارا دل بھی۔ مجھے آزاد سے محبت نہیں ہوئی ریحان! کیسے ہو سکتی ہے، محبت تو ایک بار ہوتی ہے ناں؟ لیکن میں نے اس کی محبت کو قبول کر لیا ہے۔ پتا ہے وہ تمہاری طرح گونگا نہیں ہے۔مجھے تمہیں سننے کی خواہش تھی اور اسے مجھے سننے کی خواہش ہے۔ انازادی جیت گئی ریحان! یہ تمہاری چاہ کرتی تھی ،کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ “ وہ دل ہی دل میں ریحان سے مخاطب تھی۔ آزاد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ “جانتے ہو مجھے اس کی محبت کی عادت ہو رہی ہے۔ “ آخری جملہ بول کر وہ آزاد کے ساتھ واپس مڑ گئی تھی۔ بن کے احساس محبت کے حسین جزبوں کا وہ میرے دل میں دھڑکتا ہے غضب کرتا ہے