اور پھر واہب کا ہر احتجاج دم توڑ گيا۔ مگر اب اسکے اندر ايک انتقام کی آگ بھڑک چکی تھی۔ کسی اور سے تو نہيں ہاں وہ راديا سے يہ انتقام ضرور لينا چاہتا تھا۔ کيا تھا اگر وہ ذرا سا اس کا ساتھ دے ديتی۔ جب دونوں کو ہی ايک دوسرے کا ساتھ منظور نہ ہوتا تو انکے والدين خود ہی کچھ اور سوچتے۔ مگر اس نے جس طرح واہب کو ہری جھنڈی دکھائ وہ اسے طيش دلا گيا۔ “اب ديکھو تمہاری زندگی واقعی عذاب نہ بنائ تو کہنا” مہندی کے دن تيار ہوتے وہ آئينے ميں اسکے عکس سے مخاطب ہوا۔ نکاح دن ميں ہی ہو چکا تھا۔ لہذا اس وقت انکی کمبائن مہندی کی رسم واہب کے گھر کے قريب مارکی ميں انجام پانی تھی۔ سب پہنچ چکے تھے۔ واہب جان بوجھ کر ليٹ کررہا تھا۔ “بس کردے تيری بيوی بھی وہاں پہنچ چکی ہے اور تو ہے کہ تيری تياری ہی ختم نہيں ہونے ميں آرہیں ” سعد کمرے ميں آتے ہوۓ اسے اچھی خاصی جھاڑ پلا گيا۔ “ہاں تو انتظار کرنے دو سب کو۔۔۔” وہ خود کو خوشبوؤں ميں بساتا بے نيازی سے بولا۔ “کيا سوچے ہوۓ ہو” سعد نے کھوجتی نظروں سے اسکے انداز ديکھے۔ “کچھ بھی نہين” وہ ہی بے نياز انداز۔ يہ پہلی بار تھا جب وہ سعد سے اپنے خيالات۔۔ حتی کے اپنے جذبات اور آگے کا لائحہ عمل تک چھپا رہا تھا۔ اپنے جان سے پيارے دوست کے ساتھ يوں اپنا آپ چھپانا اسکے لئے مشکل تھا مگر وہ يہ مشکل کام انجام دينا چاہتا تھا۔ تھوڑی دير بعد وہ بھی سب کے ہمراہ مہندی کی رسم کے لئے مارکی ميں پہنچ چکا تھا۔ دونوں کو باری باری سب کزنز کے جھرمٹ مين اسٹيج تک لايا گيا۔ ہر جانب گيندے اور مختلف رنگوں کے پھولوں کا ميلہ سا لگا ہوا تھا۔ پرپل، گرين،شاکنگ پنک اور بلو رنگوں کے امتزاج کا لہنگا اور اس پر شارٹ شرٹ پہنے دوپٹے کو خوبصورتی سے سر پر سجاۓ ہلکے ميک اپ کے نام پر صرف لپ گلوز اور لائنر لگاۓ آنکھيں جھکاۓ وہ واہب کے ساتھ بيٹھی اسکی حسيات اپنی جانب کھينچنے ميں پوری طرح کامياب ہوچکی تھی۔ اور اسی وجہ سے واہب شديد جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔ رشتے کی ايک آنٹی نے واہب کو ہتھيلی سيدھی کرنے کا کہا۔ واہب نے سڑے دل سے ہتھيلی سيدھی کی۔ راديا بيٹا تم بھی اپنے بائين ہاتھ کی ہتھيلی اسکے ہاتھ پر رکھو” ان کے حکم پر وہ دونوں بوکھلا کر رہ گۓ۔ “يہ تو الگ الگ نہيں رکھتے” واہب نے اپنے لہجے کو حتی المقدور تلخ ہونے سے روکتے لہجے ميں عام سا تاثر پيدا کرنے کی کوشش کی۔ “ارے بھئ نہيں” وہ اسکی بات ہوا ميں اڑا کر راديا کا ہاتھ خود سے سيدھاکرے واہب کے ہاتھ پر رکھتے ہوۓ بوليں۔ پھر پان کا بڑا سا پتا راديا کی ہتھيلی پر رکھا۔ واہب کا کوفت سے برا حال تھا۔ راديا کی پيشانی پر بھی پسينے کے قطرے نمودار ہوۓ۔ “کسی خوش فہمی ميں مت رہنا۔۔ مجھے ان واہيات حرکتوں سے کوئ فرق نہيں پڑنے والا” راديا کو ٹشو سے ماتھا صاف کرتے ديکھ کر وہ اسے جتاۓ بغير نہيں رہ سکا۔ “مجھے ايسی کوئ خوش فہمی ہے بھی نہيں۔ آپ اپنی يہ غلط فہمی دور کرليں” چند لمحوں ميں اپنا اعتماد بحال کرتی وہ اسے تيکھی نظروں سے ديکھتے ہوۓ بولی۔ باری باری سب نے انہيں مٹھائ کھلائ اور مہندی لگائ۔ اس سے فارغ ہو کر سب کزنز نے اپنے اپنے تيار کئے ہوۓ ڈانس کئے۔ راديا مسلسل تالياں اور شور مچا کر ان سب کو بک اپ کررہی تھی۔ ايک دو بار تالياں بجاتے اسکی کہنی واہب کے بازو سے لگی۔ “مسئلہ کياہے ۔۔ اتنا شوق چڑھ رہا ہے تو خود بھی ڈانس کرلو۔۔۔ پورا صوفہ ہلاۓ جارہی ہو” اسکے کانوں کے ہلتے جھمکوں سے بمشکل نظريں چھڑا کر وہ آہستہ آواز ميں غرايا۔ “ميری مہندی ۔۔ ميری شادی۔۔ ميری مرضی۔۔ ميں روؤں يا فل انجواۓ کروں” مزے سے اسے جواب دے کر وہ پھر سامنے ديکھنے لگی۔ واہب نے تيکھے چتونوں سے اسکے انداز ديکھے۔ اسے بيوی کے روپ ميں ايسی لڑکی چاہئيے تھی جو اسکی ايک نظر سے پگھلنے والی چھوئ موئ ہو۔۔ يوں پٹر پٹر جواب دينے والی لڑکيوں سے اسے سخت چڑ تھی۔ مگر ستم ظريفی کے اللہ نے ايسا ناياب شاہکار اسکی قسمت ميں لکھا تھا۔ کچھ اسے يہ کلک تھا کہ وہ اپنے بڑے ہونے کی وجہ سے اسکے رعب ميں آنے کی بجاۓ اسے اپنے رعب ميں رکھے گی اور يہی بات اسکی چڑ کا باعث تھی جو سچ ثابت ہوتی لگ رہی تھی۔ وہ اسکی کسی بے زاری کو خاطر ميں ہی نہيں لارہی تھی۔ واہب نے غصے سے پہلو بدلا۔ “اوکے گائز ناؤ گيٹ ريڈی ٹو گيو آ بگ ہينڈ ٹو آوو برائيڈ” مائيک پر ڈی جے کے اناؤنس کرنے پر واہب نے کچھ الجھ کر راديا کی جانب ديکھا۔ جو مسکراتے ہوۓ تاليوں کے شور ميں ڈانس فلور پر پہنچ چکی تھی۔ واہب کی آنکھوں ميں حيرت صد حيرت تھی۔ راديا نے کسی قدر جتاتی نظروں سے اسکی حيران نظروں ميں ديکھا۔ تھوڑی دير بعد اسٹيريو پر جو گانا بجنا شروع ہوا راديا انگ انگ اسکے ساتھ محو رقص تھا۔ “سئياں چھيڑ ديوے نندچٹکی ليوے سسرال گيندا پھول ساس گالی ديوے ديورسمجھا ديوے سسرال گيندا پھول” سب دم بخود اسے ديکھ رہے تھے۔ ہولے ہولے ڈانس کرتی وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ واہب کو اپنا سوچا گيا ہر منصوبہ اس لمحے فيل ہوتا ہوا لگا۔ کسی مورتی کی طرح وہ ادھر سے ادھر گھوم رہی تھی۔ گانا ختم ہوتے ہی سب نے خوب تالياں اور شور مچا کر اسے داد و تحسين سے نوازا۔ وہ مسکراتی ہوئ واپس واہب کے پاس آکر بيٹھ گئ۔ “لگتا ہے کچھ زيادہ ہی خوشی چڑھ گئ ہے اس شادی کی” راديا کے بيٹھتے ساتھ ہی اس نے طنز کيا۔ “شادی زندگی ميں ايک ہی بار ہوتی ہے چاہے اپنے من پسند بندے سے ہو چاہے نہ ہو۔۔ اسی لئے اسے پوری طرح انجواۓ کرنا چاہئيے۔ سڑ کر بھی کيا مل جاۓ گا” وہ مزے سے اس پر چوٹ کرگئ۔ واہب دل ميں اس حسينہ عالم کے طنز پر تلملا کر رہ گيا۔ وہ کسی بھی طرح اسکے رعب ميں نہيں آرہی تھی۔
اگلا دن بھی آگيا جب وہ پور پور سج کر ايک ان چاہے رشتے کو نبھانے چل پڑی۔ رخصتی کے بعد مختلف رسموں سے فارغ ہو کر راديا کو اسکے کمرے ميں پہنچا ديا گيا۔ پھولوں سے سجے کمرے ميں بيڈ پر راديا کو بٹھا کر واہب کی کزنز چلی گئں راديا کا کبھی بھی ان کے گھر ميں اتنا آنا جانا نہيں رہا تھا۔ اسی لئے وہ پہلی بار واہب کا کمرہ ديکھ رہی تھی۔ کمرے ميں جابجا گلاب اور ٹيولپ کی پتياں بکھرائ ہوئ تھيں۔ کچھ کچھ فاصلے پر جابجاانہی دونوں پھولوں سے دل کی شيپ بنائ ہوئ تھی۔ بيڈ کے دائيں جانب تھوڑے فاصلے پر صوفے اور خوبصورت سی سينٹر ٹيبل رکھی گئ تھی۔ اسکے آگے گلاس وال پر دبيز پردوں کی تہہ تھی۔ بيڈ کے بائيں جانب ڈريسنگ موجود تھی۔ بالکل سامنے بيڈ کے آگے کاؤچ اور اسکے سامنے ديوار پر ايل ای ڈی اور نيچے اسی کا ريک موجود تھا۔ کمرہ بے حد کشادہ تھا۔ ڈريسنگ ٹيبل کے ساتھ ہی بائيں جانب مڑتے ہوۓ چھوٹا سا کاريڈور جسکے دائيں جانب وارڈروب اور سامنے واش روم کا دروازہ تھا۔ راديا بيڈ پر بيٹھی ايک ايک چيز کا معائنہ کررہی تھی۔ سائيڈ ٹيبل پر ايک جانب ليمپ اور ايک پر واہب کی تصوير تھی۔ بلاشبہ وہ بے حد وجيہہ تھا۔ راديا کا دل ايک لمحے کو اسکی مسکراتی تصوير ديکھکر دھڑکا۔ گھنيرے بال۔ گہری کالی آنکھوں پر گھنيری پلکيں سايہ فگن تھيں۔ چوڑی روشن پيشانی۔ ستواں ناک اور تيکھے نقوش کلين شيو ميں بھی وہ غضب ڈھاتا تھا اور ہلکی سی شيو کے ساتھ تو بات ہی اور تھی۔ وہ تصوير يقينا اسکی طالب علمی کے دور کی تھی۔ کيونکہ اب اس نے ہلکی سی خوبصورت سی شيو رکھی ہوئ تھی۔ دراز قد واہب کے سامنے سمارٹ سی راديا اپنی من موہنی صورت اور درميانے قد کے ساتھ چھوئ موئ ہی لگتی تھی۔ راديا کا ارادہ نہيں تھا اسکا يوں انتظار کرنے کا کيونکہ کل سے آج تک وہ اپنے ہر ہر انداز سے اپنی ناپسنديدگی اس پر پوری طرح واضح کرچکا تھا۔ مگر پھر دل ميں آيا کہ وہ يہی سوچ رہا ہوگا کہ اتنی واضح ناپسنديدگی کے بعد وہ بھی اسے منہ توڑ جواب دے گی اور اسکا انتظار نہيں کرے گی۔ اس طرح اس کا مقصد پورا ہوگا۔ اور راديا کا اس کا مقصد پورا کرنے کا کوئ ارداہ نہيں تھا۔ کيونکہ اسٹيج پر چڑھنے سے لے کر گھر آنے تک جس طرح وہ اسکے معاملے ميں بيزاری دکھاتا رہا اور جيسے زيبا اسے کور کرتی رہيں راديا کو اپنی انسلٹ محسوس ہوئ۔ اس نے بھی دل ميں سوچ ليا کہ اگر وہ اسکے ساتھ برا کرے گا تو وہ اس سے زيادہ اب اسکے ساتھ برا کرے گی۔ زندگی اگر ايسے ہی گزرنی ہے تو ايسے ہی صحيح۔ بس اسے يہ اطمينان تھا کہ اسکے ماں باپ اسکی رخصتی کرکے چين کی نيند سوئيں گے۔ اب اسے اپنی زندگی کے سبھی فيصلے خود کرنے تھے۔ اب تک تو وہ ان پر انحصار کئے ہوئے تھی اب اور نہيں۔ انہی سوچوں ميں مصروف وہ وہيں بيٹھی تھی جہاں واہب کی کزنز اسے بٹھا کر گئ تھيں۔ چند لمحوں بعد دروازہ کھلنے اور زوردار آواز ميں بند ہونے کی آواز آئ۔ مگر راديا اس دھماکے پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئ۔ مزے سے ايک تکيہ پيچھے بيڈ کے ساتھ لگاۓ اس پر کمر ٹکاۓ۔ موبائل ہاتھ ميں لئے فيس بک اور واٹس ايپ چيک کرنے ميں مگن تھی۔ واہب نے اسکا يہ بے نياز مگر کسی قدر قاتل روپ ديکھا تو جی جان سے جل گيا۔ اسے اميد تھی کہ اسکی بے زاری کے سبب وہ اپنا حليہ بدل چکی ہوگی۔ مگر وہ اپنی حشر سامانياں لئے بيڈ پر مزے سے بيٹی اس کا امتحان لے رہی تھی۔ وہ خود کو اس ساحرہ کے سحر سے بچانے کی بھرپور تگ و دو کررہا تھا اور وہ تھی کہ اسکی آزمائش بڑھا رہی تھی۔ غصے سے شيروانی اور کلہ بيڈ پر اسکے پاؤں کے پاس پھينکنے کے انداز ميں اچھالا۔ راديا نے تيکھی نظروں سے اسکے انداز ديکھے جو اب اسکے دوسری جانب موجود سائيڈ ٹيبل پر جھکا کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ تھوڑی دير بعد ايک پیپر اور قلم لئے وہ اسکی جانب بڑھا۔ اسکے دوسری جانب بيٹھتے غصے سے راديا کے سجے سنورے روپ کو ديکھا۔ راديا اسکے انہماک پر بھی اسکی جانب متوجہ نہيں ہوئ مزے سے موبائل پر ٹائپنگ کا کام جاری تھا۔ “کس خوش فہمی ميں آپ يوں ابھی تک بيٹھی ہيں” آخر اسے راديا کو متوجہ کرنا پڑا۔ “آپکی يہ غلط فہمی دور کرنے کے ميں آپکے لئے يہاں بيٹھی ہوں۔ مجھے اپنی سيلفيز لينی تھيں۔ اسی لئے ميں يہاں ابھی تک بيٹھی ہوں۔۔ کيونکہ ميری اطلاع کے مطابق اب ميں بھی اس بيڈ روم کی مالک ہوں۔ تو ميری مرضی ميں جتنی دير اور جيسے بھی یہاں بيٹھوں” اسکی جانب نظر اٹھاتے مزے سے اسے ترکی بہ ترکی جواب دے کر اسکے اندر مزيد آگ بڑھکاتی وہ اس لمحے واہب کو کسی زہر سے کم نہيں لگی۔ “ميری طرف سے پوری رات ايسے ہی بيٹھو ۔۔مجھے کيا۔۔۔ مجھے اس پر سائن چاہئيں” وہ تلملا کر بولا۔ راديا نے اسکے ہاتھ سے پيپر لے کر ايک نظر ديکھا۔ وہ اجازت نامہ تھا دوسری شادی کا۔ اسکے چہرے پر سايہ لہرايا۔ اسکے وہم و گمان مين نہيں تھا کہ اسے شادی کی پہلی رات يہ تحفہ ملے گا۔ “يہ آپکی منہ دکھائ اور ميری آزادی کا پروانہ۔” اسے خاموش ديکھ کر واہب نے دل جلانے والی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوۓاس پر چوٹ کی۔ اس نے ايک گہری سانس لے کر پين کے لئے ہاتھ اسکی جانب بڑھايا۔ اب کی بار حيران ہونے کی باری واہب کی تھی۔ وہ سمجھ رہا تھا وہ واويلا کرے گی۔ روۓ گی کہ ايسا مت کرو مگر اسکا پرسکون چہرہ اسے اور بھی غصہ دلا گيا۔ “پين ديں۔۔۔۔” جب اس نے کچھ دير پين اسکی جانب نہيں بڑھايا تب راديا نے اپنی پرسکون نگاہيں اسکی جانب کيں۔ واہب نے خاموشی سے پين اسے ديا۔ راديا نے تيزی سے سائن کئے۔ “بس اتنی سی بات” بڑے سکون سے اس نے پيپر واپس کرتے چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجاۓ اسکی جانب ديکھا۔ واہب نے جھپننے والے انداز ميں پيپر واپس لئے۔ وہ کيوں اتنی پرسکون تھی۔ اسے سمجھ نہيں آرہی تھی۔ راديا اب کی بار مزے سے کچھ گنگناتی ڈريسنگ کے پاس آئ اپنی جيولری اتار کر سليقے سے رکھی۔ آئينے ميں نظر آتے واہب کے عکس کو ديکھا جو اب بھی حيران پريشان سابيٹھا تھا۔ پھر وہی پيپرز دراز ميں پھينکنے والے انداز ميں ڈال کر دھپ دھپ کرتا وارڈروب سے کپڑے نکال کر واش روم کی جانب بڑھ گيا۔ اپنی ناقدری پر ايک آنسو راديا کی آنکھوں کے گوشے پر ٹھہرا جسے بے دردی سے اس نے صاف کرکے خود کو مضبوط بنايا۔ جو بھی تھا آخر تو وہ ايک لڑکی تھی۔ نرم گداز دل رکھنے والی۔۔ جس کی چند خواہشات بھی تھيں۔ مگر واہب نے جس طرح اسکی ذات کی نفی کی تھی وہ اسکی خواہشوں تک کيسے رسائ حاصل کرتا۔ جيسے ہی واہب باہر آيا۔ راديا اپنی چيزيں سميٹ کر کپڑے لئے واش روم ميں بند ہوچکی تھی۔ باہر آئ تو وہ مزے سے بيڈ پر ليٹا تھا کمرے کی لائٹس آف ہوچکی تھيں۔ رادیا بھی آہستہ سے چلتی ہوئ بيڈ کے دوسری جانب بيٹھی۔ “يہاں ہر گز نہيں سوئيں گی آپ” وہ غصے ميں پھر سے بھڑکا۔ “ميں پہلے بھی آپکوباور کروا چکی ہوں کہ يہ کمرہ اب ميرا بھی ہے۔ فضول ميں سينٹی ہو کر ميرا دماغ خراب مت کريں” مزے سے اسکے غصے کی پرواہ کئے بغير وہ تکيہ درست کرکے ليٹ چکی تھی۔ وہ بھنا کر اٹھا۔۔۔ “ادھر صوفے پر ليٹو۔۔ چلو” بے دردی سے اس کا کندھا ہلا کر کہا۔ اب کی بار وہ بھی غصے ميں اٹھی “ميرا خيال ہے اب ميں آنٹی اور انکل کے کمرے ميں ہی سوتی ہوں” دوپٹہ اپنے کندھوں پر درست کرتی وہ اٹھی۔ “فصول کا ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہيں ميں آپ کو پہلے ہی اپنی نا پسنديدگی سے آگاہ کرچکا تھا۔ پھر يہ سب يوں نارمل انداز ميں آپ کيسے لے سکتی ہو” اب اس نے اپنا اصل مسئلہ بيان کيا تھا۔ “اوہ۔۔۔ مگر ميں نے بھی آپ کو بتايا تھا کہ يہ ناپسنديدگی آپکی جانب سے ہے مجھے اپنے ماں باپ کی بات کا مان رکھنا تھا سو رکھا۔ اپنے مسئلے کا حل اب آپ خود ہی ڈھونڈيں” کندھے اچکاتی وہ واپس اپنی جگہ پر بيٹھی۔ “دوسری شادی کی بھی اجازت دے دی ہے اور کيا چاہئيے آپ کو” سر دوبارہ تکيے پر رکھا۔ “آپ کی موجودگی مجھے اس کمرے ميں برداشت نہيں” وہ پھر اسے آرام سے ليٹتے ديکھ کر بولا۔ “صبح آنٹی اور انکل کے سامنے يہ مسئلہ رکھوں گی۔ وہ آپ کو بتا ديں گے کہ کيا کرنا ہے” اس نے پھر واہب کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ “وہ سمجھ جاتے تو بات ہی کيا تھی” خير مجھے کيا جہاں مرضی ليٹو۔۔ آپکا وجود ميرے لئے کوئ معنی نہين رکھتا” غصے ميں کروٹ ليتے پھر سے اس کی انسلٹ کی۔ “جب ميرا وجود کوئ معنی نہيں رکھتا پھر جہاں بھی ليٹوں آپ کو کوئ ايشو نہيں ہونا چاہئے ۔۔ نيند پوری کريں تاکہ کل سے پھر طنز کے تير سيدھے کرسکيں” وہ بھی اپنے نام کی ايک تھی۔ مزے سے اسے جواب دے کر منہ دوسری جانب کيا اور آنکھيں بند کرليں۔ يہ اطمينان بہت تھا کہ انکل آنٹی اسکے ساتھ تھے۔ جو بھی کر لے واہب اسے اس کی حيثيت سے ہٹا نہيں سکتا۔ يہی اطمينان اسے پرسکون نيند ميں لے گيا۔ جبکہ دوسری جانب اپنی نفرت انڈيل کر بھی واہب بے سکون اور بے چين تھا۔
شادی کے ہنگامے سرد پڑتے ہی وليمے سے اگلے دن ہی دعوتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ واہب کو شديد کوفت ہوتی تھی سب کے سامنے ايک اچھے شادی شدہ جوڑے کا منظر پيش کرتے ہوۓ۔ ۔ واہب نے چوتھے دن سے ہی آفس دوبارہ سے جوائن کر ليا تھا۔ حالانکہ زيبا نے کافی شور مچايا۔ “شادی کہی تھی آپ نے کر لی۔ اب اس ايک رشتے کو اپنی ہر مصروفيت پر فوقيت نہيں دے سکتا” زيبا کو جيسے ہی معلوم ہوا کہ وہ صبح سے آفس جارہا ہے انہوں نے اپنے کمرے ميں اسے طلب کيا۔ وہ جھنجھلاۓ انداز ميں انکے سامنے بيٹھا انکے سوالوں کے جواب دے رہا تھا۔ “واہب۔اتنی پياری تو ہے وہ ۔۔۔۔تم پھر بھی اسکے ساتھ خوش نہيں” شادی کے دوران وہ يہی سمجھ رہی تھيں کہ ابھی غصے ميں ہے۔ بيوی کے ساتھ چند دن گزارے گا تو ٹھيک ہوجاۓ گا۔ “صرف خوبصورتی کسی ازدواجی زندگی کی کاميابی کا راز ہوتی تو کسی خوبصورت لڑکی کو کبھی طلاق نہ ملتی” اسکی خطرناک حد تک کہی جانے والی سنجيدہ بات پر ان کا دل دہل کر رہ گيا۔ “کيا کرنے والے ہو تم” انہوں نے دہشت سے اسکی آنکھوں کی سنجيدگی کو ديکھا۔ “بے فکر رہيں طلاق نہيں دوں گا۔۔ مگر ہر وقت اسے اپنے سامنے بھی برداشت نہيں کرسکتا۔ کم از کم آفس جاکر تو اس عمر رسيدہ خاتون سے جان چھوٹے گی” وہ نفرت سے بولا۔ “واہب۔۔۔۔۔ اس طرح مت کرو بيٹا اسے سمجھو وہ بہت اچھی بچی ہے” انہوں نے پھر سے محبت سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ “بچی نہيں ہے وہ۔۔۔ مجھ سے پانچ سال چھوٹی نہيں ۔۔۔پانچ سال بڑی ہے۔ بھائ کے کئے کی سزا مجھے ملنی تھی مل گئ۔ اب کہيں تو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے ديں” وہ غصے ميں ان کا ہاتھ جھٹک کر کمرے سے نکل گيا۔ آفس سے واپسی پر وہ جان بوجھ کر جم آگيا۔ وہ چاہتا تھا جتنا وقت اسے ميسر ہے وہ گھر سے باہر گزارے۔ جم ميں داخل ہوا تو سب نے اسے مبارکباد دی۔ بے دلی سے چہرے پر مسکراہٹ سجاۓ سب کی مبارک وصول کی۔ پھر اپنے جم پارٹنر کی جانب بڑھا۔ “کيسے ہوبھئ۔ سنا ہے بھابھی بڑی ہيں تم سے” اس نے سرسری سا سوال کيا جو واہب کو کسی تازيانے کی طرح لگا۔ “ہمم” صرف ہمم پر اکتفا کيا۔ راڈ پر ويٹس لگانے لگا۔ “دھيان رکھنا۔۔ بڑی عمر کی لڑکياں کبھی رعب ميں نہيں آتيں۔ بلکہ شوہر کو نہ صرف بچوں بلکہ غلام کی طرح ٹريٹ کرتی ہيں” وہ مزيد آگ بھڑکا کر اپنے کام ميں مصروف ہوچکا تھا۔ اسکی بات پر واہب کو راديا کا رويہ ياد آيا۔ وہ واقعی اسکی کسی بات کو خاطر ميں نہيں لاتی تھی۔ ويٹ اٹھانے مشکل ہوگۓ۔ “کيا ہوا ہے” اسے واپس ويٹ رکھتے ديکھ کر کوچ اسکے قريب آيا۔ “پتہ نہيں شايد ايک ہفتے کا گيپ ديا ہے نا اسی لئے کچھ ٹيمپو نہيں بن رہا” وہ نظريں نيچی کئے بولا۔ “ارے يار تو کم سے سٹارٹ کرنا۔۔۔۔” وہ اسکا کندھا تھپتھا کر چلا گيا۔ اسکے بعد بھی آدھا گھنٹہ بمشکل واہب جم ميں گزار سکا۔ دماغ بالکل ہی ساتھ دينے سے انکاری تھا۔ غصے سے واپسی کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ واۓ قسمت۔۔ بيڈ روم ميں پہنچا توراديا مزے سے کوئ فلم لگاۓ۔ بيڈ پر بيٹھی ساتھ ساتھ پاپ کارن کھانے ميں مصروف تھی۔ واہب نے کسی قدر حقارت سے اسکے يہ انداز ديکھے۔ پھر نظر انداز کرتا ہوا واش روم کی جانب بڑھ گيا۔ تھوڑی دير بعد آيا تو بھی اسکے انہماک ميں کوئ فرق نہيں آیا تھا۔ واہب نے غصے بھری نظريں اس بے نياز کے چہرے پر ٹکائيں۔ جم ميں ہونے والی گفتگو پھر سے ذہن کے پردے پر تازہ ہوئ۔ راديا نے ايک اچٹتی نگاہ خود کو گھورتے واہب پر ڈالی۔ چہرے پر بے نيازی کا خول تاری تھا۔ مگر دل کبھی کبھی اسکے يوں دیکھنے پر سوکھے پتے کی طرح کانپتا بھی تھا۔ “بند کرو اس بکواس کو” جب اس نے کوئ رسپانس نہيں ديا تو واہب غصے سے بولا۔ راديا نے آواز بند کرکے بلو ٹوتھ ائیر پيس کان کے ساتھ اٹيچ کرکے حل نکالا۔ واہب اپنی بات کی يہ بے قدری برداشت نہيں کرسکا۔ غصے سے ريمورٹ اسکے ہاتھ سے لينا چاہا وہ چوکنا بيٹھی تھی۔ ہاتھ سرعت سے واہب کی پہنچ سے دور کيا۔ “مسئلہ کيا ہے آپکے ساتھ اب آواز تو نہيں آرہی نا۔۔۔ سوجائيں” پرسکون چہرہ اسکے برابر بيٹھے واہب کو طيش دلا گيا۔ “اسکی روشنی ميری آنکھوں ميں چبھ رہی ہے۔” دانت پيس کر بولا۔ “تو اب ميں کيا کروں۔ ميرا مووی ديکھنے کو دل کررہا ہے۔ آپ يہ کشن اپنی آنکھوں پر رکھ ليں” ايک اور حل۔۔ پھر سے اسے بچوں کی طرح ٹريٹ کيا۔ “اسے بند کرو نہيں تو ميں يہ ايل ای ڈی توڑ دوں گا”انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔ “يہ تو ميں بند نہيں کرنے والی۔۔ ہر وقت آپکی بات مانتی جاؤں” وہ دو بدو ہوئ۔ “کتنی باتيں مانی ہيں ميری اب تک” اس نے سارا رخ راديا کی جانب کيا۔ “کس رشتے سے ساری باتيں مانوں؟” بھنويں اچکا کر سوال کيا۔ “اوہ۔۔۔۔۔۔۔بس اتنا سا صبر کر سکی۔۔۔رشتہ بنانا چاہتی ہو” واہب کی بات کی تہہ تک پہنچتے ساتھ ہی اس کا حلق تک کڑوا ہوگيا۔ “گھٹيا سوچ” دو لفظوں ميں ہی اس نے واہب کی سيوا کردی۔ واہب زير لب مسکراتے جيسے اسے چڑانے لگا۔ پھر مزے سے اسکے ايک کان سے ائير پيس نکال کے اپنے کان ميں لگايا۔ اور اسکے قريب تکيہ کرکے مزے سے بيٹھ کر راديا کی گود ميں رکھے پاپ کارن کے باؤل سے پاپ کارن کھانے لگا۔ وہ حيرت سے اس پل پل بدلتے مگر کسی قدر ڈھيٹ انسان کو ديکھ رہی تھی۔ “يہ کيا بدتميزی ہے” دوسری بار جب اس کا ہاتھ پاپ کارن کی جانب بڑھا اس نے باؤل پيچھے کرتے واہب کو گھورا۔ “جو تھوڑی دير پہلے آپ کررہی تھيں” وہ مزے سے بولا۔ نگاہيں سامنے سکرين پر تھيں۔ “ائير پيس واپس ديں” اس نے ضبط کرتے ہوۓ ہتھيلی اسکی جانب بڑھائ۔ “مجھے بھی مووی ديکھنی ہے” اسکی شفاف ہتھيلی سے نظر چراتے وہ مزے سے بولا۔ “مگر مجھے مووی اکيلے ديکھنی ہے۔ آپ سوئيں” راديا نے گويا بحث ختم کی۔ “کمرہ ميرا۔۔ ايل ای ڈی ميری۔۔۔نيند بھی ميری۔۔۔ تو ميری مرضی ميں مووی ديکھوں يا سوؤں” وہ بھی اب بے نيازی کی انتہا پر تھا۔ راديا نے غصے سے اسکی جانب ديکھا۔ دوسرا ائير پيس بھی اسکے پاس پٹخ کر باؤل سائيڈ پر رکھا۔ تکيہ سيدھا کرکے ليٹ گئ۔ سمجھ گئ تھی کہ وہ اب ڈھٹائ کرے گا۔ اور جتنی دير ليٹے گا نہيں اسے کوئ نہ کوئ طنز کرتا رہے گا۔ اسکے ميدان سے بھاگ کھڑے ہونے پر واہب کے چہرے پر ايک فاتحانہ مسکراہٹ ابھری۔ کن اکھيوں سے اپنے ساتھ ليٹے وجود کو ديکھا۔ پھر توجہ فلم پر مبذول کی۔ جو بھی تھا اسکی چوائس اچھی تھی۔