چند دن سکون سے گزر گۓ۔ اس دن وہ چاروں واہب کی پھوپھو کی جانب افطاری کے لئے انوائيٹڈ تھے۔ واہب ابھی ريسٹ کررہا تھا جب راديا کمرے ميں داخل ہوئ۔ “کس وقت نکلنا ہے” بيڈ پر نيم دراز موبائل پر گيم کھيلتے ہوۓ اس نے ايک نظر نماز کے سٹائل ميں دوپٹہ اوڑھے راديا کو ديکھا۔ جس کے ايک ہاتھ ميں قرآن تھا۔ “آنٹی کہہ رہی ہيں کہ بس آدھے گھنٹے تک تياری شروع کريں۔ پانچ تو بج جائيں گے۔ عصر پڑھ کر نکليں گے۔ اب بالکل افطاری کے ٹائم پر تو کسی کے گھر جاتے اچھا نہيں لگتا نا” اسکے دوسری جانب بيٹھ کر قرآن مجيد کو سرہانے کے اوپر رکھ کر کھولا اور آہستہ آواز ميں قرآت سے پڑھنے لگی۔ واہب کو اسکی دھيمی آواز ميں کی جانے والی قرآت اپنے سحر ميں جکڑنے لگی۔ سورہ رحمن پڑھ رہی تھی۔ ہر بار جب وہ ‘فبائ الاءربکما تکذبان’پڑھتی واہب کی آنکھيں نم ہو جاتيں۔ يکدم موبائل ہاتھ سے رکھ کر اسکے گھٹنے کے پاس سر رکھ کر وہ ليٹ گيا۔ راديا يکدم اسکی اس حرکت پر خاموش ہوئ۔ پھر سر جھٹک کر پڑھتی رہی اور وہ خاموش اسکے قريب ليٹ کر اسکی ميٹھی آواز کا رس قطرہ قطرہ اپنے اندر اتارتا رہا۔ جس لمحے وہ قرآن مجيد بند کرکے اسے چوم کر آنکھوں سے لگا کر اٹھی۔ واہب کو لگا اسکا وجود خالی سا ہوگيا ہے۔ “پورے بيڈ پر ليٹنے کی کوئ اور جگہ نہيں ملی۔ ايک تو پہلے ہی ميں کنارے پر تھی اور پيچھے ہوتی تو گر پڑتی” راديا نے اپنی ناہموار ہونے والی سانس اور کچھ دير پہلے کی کيفيت سے پيچھا چھڑاتے ہوۓ کہا۔ “ابھی اللہ کا نام لے کر فارغ ہوئ ہو اور لڑنے کھڑی ہوگئ ہو” واہب نے سيدھا ہوتے شرارت سے بھرپور نظروں سے اسے ديکھتے ہوۓ شرم دلائ۔ وہ منہ بنا کر قرآن مجيد الماری ميں رکھتے ہوۓ اپنے کپڑے نکالنے لگی۔ “آپ ميری امی کو آنٹی کيوں کہتی ہو” واہب نے ايسے پوچھا جيسے بڑے پتے کی بات جان رہا ہو۔ “اسی لئے کہ يہ حق کچھ عرصے بعد کسی اور کو ملنے والا ہے اور ميں پرائ جگہوں اور رشتوں کو اپنا نہيں بناتی” اسکی بات پر واہب نے سر اونچا کرکے اسکی پشت کو ديکھا۔ وہ تو بھول گيا تھا کہ اس نے دوسری شادی کے لئے کسی اجازت نامے پر اس سے سائن کروائے ہيں۔ جب سے اسکی محبت کا ادراک ہوا تھا وہ تو سب کچھ فراموش کربيٹھا تھا۔ لب بھينچ کر اس نے نظريں واپس موبائل پر ٹکائيں۔ جبکہ راديا کپڑے بدلنے واش روم ميں جاچکی تھی۔ “يار اور کتنی دير لگانی ہے” واہب راديا کے کپڑے چينج کرنے کے فورا بعد خود بھی چينج کرکے باہر آگيا۔ “کتنی دير لگے گی تيار ہونے ميں” ڈارک مونگيا رنگ کی شلوار قميض ميں کف فولڈ کرکے ‘اودھا’ کی شيشی سے رولر اپنی گردن اور بازوؤں پر لگا کر شيشے ميں ديکھتے بال سيٹ کرتا ہوا راديا کی جانب مڑا جو ايک جانب کھڑی بال اسٹريٹ کررہی تھی۔ “بس پندرہ منٹ” اس نے ايک نظر ہلکی سی شيو ميں وجيہہ سے واہب کی جانب ديکھ کر فورا نظروں کا رخ بدل ليا۔ راديا کادل اسکی نظروں کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔ “اوکے” وہ اپنی تياری کو بھرپور انداز ميں ديکھتا کمرے سے نکل گيا۔ اب پندرہ کی جگہ بيس منٹ ہوچکے تھے مگر راديا تھی کہ باہر ہی نہيں نکل رہی تھی۔ وہ جھنجھلايا ہوا کمرے ميں داخل ہوا۔ مگر شيشے کے سامنے آف وائٹ پرلز کی بالياں پہنتی سجی سنوری وائٹ اور گرين ہی کلر کے سوٹ ميں ملبوس راديا پر نظر پڑی تو نظروں نے پلٹنے سے انکار کر ديا۔ “بس آگئ۔۔ ميری جيولری نہيں مل رہی تھی۔ اسی ميں دير ہوگئ” وہ مصروف سے انداز ميں کمر تک آتے کھلے بالوں کو ايک جانب کرتی جلدی جلدی نازک سی ہيل والی سينڈل پاؤں ميں پہنتی بولی۔ تيزی سے آگے بڑھ کر کلچ اٹھايا۔ “افطاری پر جا رہی ہو کا کسی کی شادی پہ”واہب نے جان بوجھ کر اسکا راستہ روکا۔ تاکہ وہ نظر اٹھا کر واہب کو ديکھے۔ “اب اتنا بھی تيار نہيں ہوئ” وہ بمشکل اسکی گہری بولتی آنکھوں سے نظريں چرا کر بولی۔ دھڑکنوں ميں عجيب بے ربط سا شور بڑھ رہا تھا۔ “بال باندھو” نجانے کيوں اسے راديا کے کھلے بالوں سے الجھن ہوئ۔۔۔ محبوب کی زلف کا اسير ہونے سے ڈر رہا تھا۔ “ميری مرضی ۔۔۔اتنی محنت سے اسٹريٹ کئے ہيں۔ کوئ نہيں باندھ رہی” وہ ہٹ دھرمی سے اسکے دائيں سائيڈ سے نکلنے لگی۔ “بال باندھو۔۔۔” وہ پھر سے اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ “چاہے کيچر ہی لگا لو۔۔ ليکن کھلے نہيں چھوڑو” وہ نہيں چاہتا تھا يہ خوبصورتی کسی اور کی نظروں ميں آۓ۔ وہ اکيلا ہی ان گھنيری زلفوں کا ستم سہنے کے لئے بہت تھا۔ راديا نے حيرت سے اسکے دھونس بھرے انداز ديکھے۔ “کيوں مانوں آپکی بات۔۔ نہيں بند کرتی” وہ بھی کمر پر ہاتھ رکھے لڑنے کو تيار ہوئ۔ “اسی لئے کہ ميرے نکاح ميں ہو” وہ آںکھيں اسکے چہرے پر گاڑھ کر بولا۔ “اچھا ۔۔۔۔۔جب دل کرے گا تو نکاح ميں شامل کرليں گے۔ اور جب دل کرے گا دو کوڑی کا کرديں گے۔۔اچھی زبردستی ہے” وہ ہاتھ ہلا کر کندھے اچکا کر بولی۔ “واپس آکر لڑ لينا ابھی بال باندھو۔۔ کوئ بات سمجھ ہی نہيں آتی” وہ کيسے کہہ ديتا تمہاری خوبصورتی صرف مجھ تک اپنے محرم تک محدود رہنی چاہئے۔ اسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے ديکھ کر راديا نے گھور کر اسے ديکھا۔ واپس مڑی غصے سے کيچر اٹھا کر بالوں ميں لگايا۔ واہب کے چہرے پر بڑی جاندار مسکراہٹ پھيلی۔ اس سے پہلے کمرے سے باہر نکلا۔ سيڑھياں اترتے موبائل پر کسی کو ميسج ٹائپ کررہا تھا۔ راديا دوپٹہ سر پر لينے لگی يکدم پاؤں مڑا۔ آگے چلتے واہب کا سہارا لينے کے لئے اس نے ہاتھ اسکے بازو پر رکھے۔ “کيا مسئلہ ہے يار” واہب کوئ آفيشل ميسج کررہا تھا۔ راديا کے اچانک خود کو ہاتھ لگانے پر چڑا۔ وہ ابھی بمشکل خود کو اسکے گھنيرے بالوں اور ساحر چہرے کے سحر سے بچا کر آيا تھا۔ اور وہ تھی کے پھر سے اس کا امتحان لينے پر تلی تھی۔ غصے ميں اسکے ہاتھ جھٹکنے پر وہ نہيں جانتا تھا کہ اگلے ہی پل کيا ہونے والا ہے۔ يکدم پيچھے سے راديا پھسلتی ہوئ اسکے پاس سے گرتی ہوئ تمام سيڑھياں گرتی ہی چلی گئ۔ يہ سب آناّّفاناّّ ہوا کہ واہب کو اسے سنبھالنے کا موقع ہی نہ ملا۔۔ نيچے گری اسکی دلدوز چيخيں اسکے حواس جھنجھوڑ کر رکھ گئيں۔ زيبا اور سميع دوڑ کر اسکے پاس آۓ جو چيخنے کے ساتھ ساتھ زور زور سے رو رہی تھی۔ واہب تيزی سے سيڑھياں اترتا اسکے قريب پہنچا۔۔ “اماں۔۔۔۔۔۔” وہ ماں کو پکار رہی تھی۔ ٹانگ تھامے وہ ادھر سے ادھے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ ماتھے پر بھی سيڑھی کا کوئ سرا لگا تھا جس کی وجہ سے وہاں گہرا کٹ پڑ چکا تھا اور خون رس رہا تھا۔ “گاڑی نکالو” سميع نے فورا واہب سے کہا۔ واہب نے اسے اٹھانا چاہا جب درد سے بے حال ہوتے ہوۓ بھی راديا نے اسکے ہاتھ جھٹکے سے خود سے دور ہٹاۓ۔ “ہاتھ مت لگائيں مجھے۔۔۔ اچھوت ہوں نا۔۔۔۔دھکا ديتے احساس نہيں تھا” آنسوؤں سے بھری آنکھوں ميں غصہ سموۓ وہ دھاڑی۔ زيبا اور سميع نے بے يقين نظروں سے اسے ديکھا۔ “تم نے دھکا ديا ہے” سميع اور زيبا نے افسوس اور حيرت سے اسے ديکھا۔ “ميں نے دھکا نہيں ديا۔۔”وہ بھی راديا کے الزام پر حيران ايک نظر اسے اور ايک نظر سميع اور زيبا کو ديکھ کر اپنی صفائ ميں بولا۔۔ “آہ۔۔۔۔۔ آۓ۔۔۔۔۔۔اماں” ايک بار پھر تکليف نے راديا کو گھيرا تو وہ پھر سے رونے اور چيخنے لگی۔ واہب نے اب کی بار کسی پر بھی غور کئے بغير تيزی سے اسے بازؤں ميں اٹھايا اور باہر کی جانب دوڑا۔ راديا اب تکليف سے اس قدر بے حال ہوچکی تھی کہ مزاحمت کرنے کی اس ميں ہمت نہيں تھی۔ پچھلی سيٹ پر احتياط سے اسے لٹاتے واہب ڈرائيونگ سيٹ کی جانب بڑھا۔ زيبا اور سميع بھی فورا گاڑی ميں بيٹھے۔ زيبا پيچھے ہی اسکے ساتھ بيٹھ کر اسکا سر اپنی گود ميں رکھتيں اسے سہلانے لگيں۔ جبکہ سميع بالکل خاموش واہب کے ساتھ اگلی سيٹ پر تھے۔
ہاسپٹل پہنچتے ہی وہ اسی طرح اسے بازوؤں ميں اٹھاۓ ايمرجنسی ميں پہنچا۔ اسے کوئ پرواہ نہيں تھی کون اسے ديکھ رہا ہے اسے پرواہ تھی تو اسکی جو تکليف سے نڈھال ہورہی تھی۔ چہرے پر خون کی لکير اب سوکھ رہی تھی۔ فورا ايمرجنس الرٹ ہوئ۔ اسے باہر جانے کو کہا۔ واہب، زيبا اور سميع باہر کھڑے ڈاکٹرز کا انتظار کرنے لگے۔ سميع نے بہن کو فون کرکے آنے سے معذرت کر لی۔ فی الحال يہ نہيں بتايا کہ راديا سيڑھيوں سے گری ہے بس اتنا کہا کہ اسکی طبيعت نہيں ٹھيک۔ “شرم آتی ہے مجھے يہ سوچ کر کہ ميں نے اس جيسے جنگلی سے اسے بياہ ديا” فون بند کرکے سميع نے سرجھکاۓ کاريڈور کی ديوار کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑے واہب کو ايک نظر تنفر سے ديکھ کر کہا۔ اس نے سر اٹھايا۔ “آئ سوئير ميں نے اسے نہيں گرايا” وہ پھر سے اپنی بات دہرانے لگا۔ زيبا نے بس ايک تيزی چبھتی ہوئ نظر اس پر ڈالی بوليں کچھ نہيں سر پر دوپٹہ جماۓ وہ تسبيح کرنے ميں مصروف تھيں۔ تھوڑی دير بعد ڈاکٹر باہر آيا۔ وہ تينوں اسکے گرد کھڑے ہوگۓ۔ “بچی کيسے گری ہے۔ اسکی ٹانگ کی راڈ دو جگہ سے کريک ہوگئ ہے نئ ڈالنی پڑے گی۔ تکليف دہ مرحلہ ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ آپ کو بھی صبر سے کام لينا پڑے گا” واہب نے الجھ کر سميع اور زيبا کو ديکھا ۔۔ “بس سيڑھيوں سے اترتے اچانک پاؤں مڑ گيا تھا” زيبا نے نظريں چراتے ہوۓ کہا۔ “اوہ۔۔۔ خير اللہ بہتر کرے گا آپ لوگ دعا کريں” ڈاکٹر انہيں تسلی دلا کر اپنے روم کی جانب بڑھا۔ “کون سی راڈ” ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوا۔ “تمہيں اس سے کيا” زيبا نے خشمگيں نگاہوں سے اسے ديکھا۔ “کيون نہيں مجھےاس سے کچھ۔۔ بيوی ہے وہ ميری” وہ بے بس سا اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ “کون سی بيوی ہاں۔۔۔۔ جسے تم نے بيوی نہيں مانا۔ اندھے نہيں ہيں ہم۔۔ تمہارا گريز ۔ تمہاری بيزاری سب نظر آتی ہے ہميں۔ يہی سوچا تھا کہ چلو شروعات ہے ابھی آہستہ آہستہ ٹھيک ہو جاؤ گے۔۔ ليکن نہيں۔، تم نے تو اسکی بڑی عمر کو اس کا جرم بنا ديا۔ نفرت کی اس انتہا تک پہنچ گۓ کہ اس معصوم کے ساتھ يہ سلوک کيا آج” سميع اسے بخشنے کو تيار نہيں تھے۔ “اسکی ہڈياں شروع سے مضبوط نہيں تھيں۔ خاص کردائيں ٹانگ کی ہڈياں کمزور تھيں اسی لئے چھوٹے ہوتے ہی ايک دو بار گرنے پر جب اسکی ٹانگ کی ہڈياں ٹوٹيں تو ڈاکٹرز نے راڈ لگا دئيے۔ اور کہاکہ يہ راڈز اب ساری زندگیی اسکی ٹانگ ميں لگيں گے۔ ذرا سا دھچکا يا ٹانگ کا مڑنا اسے عمر بھر کی معذوری کی طرف لے جاۓ گا۔ لہذا احتياط برتيں۔ يہی وجہ تھی اسکی دو بار منگنی ٹوٹنے کی۔سب يہی سمجھتے تھے کہ وہ معذور ہے حالانکہ صرف ہڈياں کمزور تھيں۔ اور ان کا علاج بھی راڈز کی صورت کرکے اس کمزوری کو کوور کر ليا گيا تھا مجھے جب شائستہ بھابھی نے بتايا مجھے بے حد تکليف پہنچی تبھی فيصلہ کرليا کہ اس نگينے کو اپنے گھر لے آؤں گی۔ کيا کسی کی ذرا سی کمزوری کو ہم اس کا گناہ بنا ديں۔ ہم کون ہوتے ہيں يہ سب کرنے والے۔ تمہيں اس سے دلچسپی ہی نہيں تھی تو تمہيں کيا بتاتے اور پھر جس طرح تم اس رشتے سے ہتھے سے اکھڑ رہے تھے عين ممکن تھا تمہيں بتا ديتے تو تم اسی بات کو جواز بنا کر اس سے شادی سے انکار کرليتے۔ مگر مجھے کيا پتہ تھا کہ اس بچی کے ساتھ ايسی ناقدری ميرے ہی گھر ميں ہوگی” زيبا نے روتے ہوۓ اس پر سب راز افشاں کئے۔ ‘اوہ خدايا’ سر تھامے بينچ پر بيٹھے اسے اپنی ہر زيادتی اور اسکی خاموشی ياد آئ۔ تو يہ وجہ تھی اسکی ہر الٹی سيدھی بکواس کو برداشت کرنے کی۔ اف وہ لڑکی اسکے لفظوں کے کون کون سے وار نہيں سہہ گئ۔ اسے شديد ندامت نے آگھيرا۔ کاش وہ اسے تھام ليتا۔۔ کاش وہ اپنے حواسوں ميں رہتا۔ ايک سيکنڈ کو موبائل چھوڑ کر اسکی جانب ديکھ ليتا۔ ‘يقینا اسکا پاؤں مڑا ہوگا اور ساتھ ہی راڈ بھی کريک ہونے کی وجہ سے وہ توازن برقرار نہيں رکھ پائ ہوگی۔ اسی لئے اس نے مجھے تھاما ہوگا’ سر ہاتھوں پر گراۓ اسے وہ ايک ايک لمحہ ياد آيا۔ اس کا بس نہيں چل رہا تھا وقت کو پیچھے موڑ لے۔ اسکی دلدوز چيخيں اب بھی اسکے کانوں ميں سنائ دے رہی تھيں۔ يکدم وہ وہاں سے اٹھ کر ڈاکٹر کے روم مين گيا۔ اس سے ڈيٹيل ميں اسکی کنڈيشن کے متعلق بات کی۔ “جتنا پيسہ چاہئيے ميں دوں گا۔ مگر اسے معذوری سے بچا ليں۔” وہ آج اس لڑکی کے لئے گڑگڑا رہا تھا جسے وہ اپنی بيوی ماننے سے انکاری تھا۔ جس سے تعلق توڑنے کا بہانا ڈھوںڈتا تھا۔ آج دل اسکی تکليف پر رو رہا تھا۔۔۔ کرلا رہا تھا۔ ڈاکٹر کے روم سے باہر آکر وہ سيدھا سامنے بينچ پر بيٹھی زيبا کے پاس آيا۔ “آئ سوئير ماں ميں نے اسے دھکا نہيں ديا تھا” واہب نے ايک آخری کوشش کی اپنی صفائ دينے کی۔ “تھاما بھی تو نہيں تھا” دل سے کہيں آواز آئ۔ “چلو ميں مان ليتی ہوں کہ تم نے ايسی حرکت نہيں کی۔ ليکن آخر وہ تمہارے ساتھ ہی سيڑھياں اتر رہی تھی اگر وہ لڑکھڑائ تھی تو کيا تم سنبھال نہيں سکتے تھے۔” ماں تھيں کيسے نہ اصل بات کی تہہ تک پہنچتيں۔ وہ نادم سا خاموش ہوگيا۔ دو دن ہوگۓ تھے انہيں ہاسپٹل مين ڈاکٹرز نے اسی دن نئ راڈ ڈال دی تھی۔ راديا کے گھر والوں کو بھی بتا ديا تھا۔ ايک رات اسکی امی رہيں اور ايک رات زيبا۔ تيسرے دن ڈاکٹرز نے ڈسچارج کا کہا۔ “مجھے امی کے ساتھ جانا ہے” راديا نے ماں کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ وہ مسلسل دو دن واہب کو نظر انداز کرتی رہی۔ حالانکہ وہ سارا وقت وہيں ہوتا تھا۔ مگر وہ ايسے شو کرتی جيسے وہ اسکے آس پاس کہيں ہے ہی نہيں۔ سب نے اسکی يہ سردمہری نوٹ کرلی تھی۔ “ديکھيں آپ کو جہاں بھی بچی کو لے کر جانا ہے بس يہ ياد رکھئيے گا کہ بيس دن تک اسے وہاں سے کہيں اور موو نہيں کرنا۔” ڈاکٹر اس وقت ڈسچارج شيٹ تيار کررہا تھا جب اس نے يہ بحث ديکھی۔ “آنٹی ہم اسے گھر لے جاتے ہيں کوئ ايشو نہيں ہے۔ ويسے بھی آپ لوگوں کا عمرے کا پلين ہے۔ اسے خراب مت کريں۔ يہ سعادت بار بار نہيں ملتی۔ راديا آرام سے گھر پر ہی رہے گی” واہب نے سنجيدگی سے شائستہ سے کہا۔ راديا کے علاوہ انکی دو ہی بيٹياں تھيں۔ فرح کی تو شادی ہوچکی تھی اب ساميہ ہی رہ گئ تھی وہ فی الحال پڑھ رہی تھی۔ شائستہ۔۔۔وہاج اور ساميہ کی دو دن بعد عمرہ کی فلائٹ تھی۔ راديا نے ايک خفا سی نگاہ ماں پر ڈالی جو واہب کی بات مان گئ تھيں۔ وہ منہ پھلاۓ گھر آئ۔ “ايسا کرتے ہيں يہ نيچے والے ہمارے کمرے ميں تم لوگ رہ لو ميں اور تمہارے ابو گيسٹ روم ميں شفٹ ہوجاتے ہيں” زيبا نے گھر پہنچتے ہی کہا۔ “نہيں امی آپ اور ابو تنگ ہوں گے۔ کوئ مسئلہ نہيں ميں اور راديا گيسٹ روم ميں شفٹ ہو جاتے ہيں۔”واہب نے انہيں فورا منع کيا۔ کام والی کو اپنے کمرے ميں بھيجا تاکہ وہ انکے کپڑے گيسٹ روم والی الماری ميں شفٹ کردے۔ راديا کو احتياط سے بيڈ پر بٹھايا۔ فی الحال اسے ٹانگ کو موڑنے سے منع کيا گيا تھا۔ راديا مسلسل خاموش تھی۔ اسکے چہرے پر ناگواری صاف پڑھی جاسکتی تھی۔ زيبا اور سميع کے ساتھ وہ نارمل تھی مگر واہب کو مخاطب تک نہيں کررہی تھی۔ نہ اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔ واہب نے اسے حق بجانب سمجھا جو کچھ وہ اسکے ساتھ کر چکا تھا اسکے بدلے راديا کا رويہ اسے اپنے ساتھ بالکل ٹھيک لگا۔
رات ميں سونے کا وقت آيا تو تب بھی واہب نے زيبا کو اس کمرے ميں سونے سے منع کرديا۔ “آپ آرام سے ريسٹ کريں روزہ بھی رکھنا ہوگا صبح۔۔ بے آرام رہيں گی تو بی پی شوٹ کرجاۓ گا۔ ميں ہوں نا يہاں” واہب کے اصرار پر راديا کا دل کيا اسے بہروپيے کا دماغ ٹھکانے لگادے۔ وہ کيوں اب مہربان ہو رہی تھا۔ اب جب اسے ضرورت نہيں تھی۔ نہ اسکی نہ اس تعلق کی ۔ يہ آخری دھچکا بہت شديد لگا تھا۔ کيا تھا اگر وہ انسانيت کے ہی ناطے اسے اس دن تھام ليتا مگر جس طرح اس نے راديا کا ہاتھ جھٹکا۔ وہ جھٹکنا اسکے دل پر گھونسے کی طرح لگا تھا۔ اس چوٹ کی درد اب کبھی نہيں جانے والی تھی۔ “ديکھ لو بيٹا۔۔ تمہيں تنگی ہوگی۔۔” زيبا نے راديا کا خطرناک حد تک سنجيدہ چہرہ دیکھ کر کہا۔ وہ تو ماں باپ تھے انہوں نے واہب کو معاف کرديا تھا مگر وہ جس نے نجانے کيا کيا سہا تھا وہ کيسے معاف کرتی۔ “ميں نے فی الحال کچھ دن کا آف لے ليا ہے جو کوئ کام ہوگا وہ ميں گھر پر ليٹ ٹاپ پر کر لوں گا۔باقی ابو سنبھال ليں گے” اس نے رسانيت سے کہا۔ “اچھا چلو۔ کوئ مسئلہ ہو تو ہميں جگا دینا” وہ بادل نخواستہ وہاں سے اٹھيں۔ “زرينہ سے کہيں يہاں ليٹے۔۔” زيبا کے جاتے جيسے ہی واہب نے دروازہ بند کيا۔ راديا کی سپاٹ آواز سنائ دی۔ “ميں ہوں نا آپکے پاس” اس نے جیسے تسلی دلائ۔ “آپ ہين اسی لئے پريشانی ہے۔۔ رات کو اٹھ کر گر بھی گئ بيڈ سے تو آپ کيوں اٹھائيں گے” وہ زہر خند لہجے ميں بولی۔ واہب نے بڑے سکون سے اس کا يہ لہجہ برداشت کيا۔ کسی قسم کا ری ايکشن نہ ديکھ کر راديا حیران ہوئ۔ بڑے آرام سے اسکی دوائياں چيک کرکے اس نے نائٹ بلب آن کيا۔ لائٹ آف کرکے۔ اسکی جانب بڑھا وہ سانس روکے اسے اپنی جانب بڑھتا ہوا ديکھ رہی تھی۔ جھک کر اسے شانوں سے تھام کر آگے کيا۔ راديا کو لگا ايک سنسنی سی پورے جسم ميں پھيل گئ ہو۔ جو تين تکيے اسکے پيچھے ٹيک لگانے کے لئے رکھے تھے ان ميں سے دو ہٹاۓ۔ پھر اسے بازوؤں آگے کيا کيونکہ اس نے ابھی ٹانگ پر زيادہ زور نہيں دينا تھا۔ پھر دوبارہ سے اسے بيڈ پر اس طرح بٹھايا کہ وہ کمر سيدھی کرتی تو آرام سے ليٹ جاتی۔ راديا اسکے وجيہہ چہرے کو حيرت بھری نظروں سے ديکھ رہی تھی۔ نہ کوئ ناگواری تھی نہ کوئ بيزاری۔ ايسے جيسے محبتيں ٹپک رہی تھيں۔ وہ گم سم اسکی ايک ايک حرکت نوٹ کررہی تھی۔ اسے دوبارہ کندھوں سے تھام کر لٹايا۔ اسکی حيرت بھری نظروں ميں دیکھتے ايک جاندار مسکراہٹ اسکے چہرے پر پھيلی۔ پھر سيدھے ہوکر اسکی ٹانگوں پر کپڑا ديا۔ “کيوں کر رہے ہيں آپ یہ۔۔۔۔” آخر حیرت کو الفاظ ملے۔ “ميرا فرض ہے” بڑے آرام سے جواب ديا گيا ۔ “ميری کمزوری تو ويسے بھی اب آپکی نظروں ميں آگئ ہے ۔۔اب تو راستہ صاف ہے۔۔ اسے بہانہ بنا کر مجھے زندگی سے نکال ديں اور کسی اور کا ہاتھ تھام ليں۔” وہ اسکے قريب تکيہ رکھ کر ليٹا۔ ايک ہاتھ سر کے نيچے رکھے بڑی فرصت سے اسکی زبان کے تير سہہ رہا تھا۔۔ “وہ خير ميں لے ہی آؤں گا کسی کو زندگی ميں ۔۔۔۔ليکن آپ کو نہيں نکالنا۔۔ اگر نکال ديا تو لڑوں گا کس سے” شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں ميں دباۓ وہ اسے پھر سے چڑا رہا تھا۔ “ہونہہ۔۔۔” راديا کو جب جواب سمجھ نہيں آيا تو غصے سے منہ دوسری جانب موڑ ليا۔ “ذہن پر اتنا بوجھ مت ڈاليں سوجائيں” تکيے پر سر رکھتے اسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ ميں تھاما۔ راديا نے جھٹکنا چاہا تو اور بھی مضبوطی سے تھاما۔ “ہاتھ ہٹائيں۔۔۔ کيوں پکڑا ہے” وہ دبے دبے انداز ميں چيخی۔ “اسی لئے کہ رات کو جب آپ ہلکی سی بھی جنبش کريں تو ميری آنکھ کھل جاۓ” محبت سے گندھا لہجہ راديا کے زخموں پر جيسے نمک بن کر لگا اور تکليف بڑھا گيا۔ “اتنی زحمت کی ضرورت نہيں تھی۔۔ اسی لئے کہا تھا زرينہ کو يہيں رکنے ديں” وہ سرد اور خشک لہجے ميں بولی۔ “کچھ دن کے لئے مجھے زرينہ سمجھ لو۔۔ اور اب خاموش ہو کر سوجاؤ۔۔پتہ نہيں کيسی نيند کی دوائ ڈاکٹر نے دی ہے لگتا ہے آپکی نيند اڑ گئ ہے” بڑبڑاتے ساتھ ہی وہ پھر سے آنکھيں بند کرکے ليٹ گيا۔ خاموشی چھائ تو راديا کو بھی نيند نے جکڑ ليا۔
رات ميں کسی پل اس کا گلا خشک ہوا ايسے جيسے کانٹے چبھنے لگ گۓ ہوں۔ آنکھ کھول کر دائيں جانب سوئے واہب کی طرف ديکھا۔ اس کا ہاتھ ابھی اسکے ہاتھ ميں تھا۔ مگر گرفت اتنی مضبوط نہيں تھی۔ اس کا احسان لينے کی بجاۓ اس نے سوچا خود اٹھ کر پاس پڑے جگ سے پانی پی لے۔ ابھی ہاتھ آہستہ سے اسکے ہاتھ کے نيچے سے نکال ہی رہی تھی کہ واہب نے پٹ سے آنکھيں کھوليں۔ سرعت سے اٹھ بيٹھا۔ راديا نے کوفت سے اسے ديکھا۔ “کيا ہوا۔۔ کيا چاہئيے” تيزی سے اٹھ کر بيٹھا۔ “پانی لينا ہے ميں لے ليتی ہوں يہاں ہی تو پڑا ہے” اس کا بيزار سا لہجہ نظر انداز کرتے واہب اٹھا۔ اسکی سائيڈ پر آکر اسے اٹھنے ميں مدد دی۔ پانی کا گلاس ہونٹوں سے لگايا جب راديا نے ناگواری سےاس کا ہاتھ جھٹک کر پيچھے کيا۔ “ٹانگ خراب ہے ہاتھ سلامت ہيں۔ ميں خود پی سکتی ہوں” راديا کی بات پر اس نے خاموشی سے گلاس اسکے ہاتھ ميں پکڑايا۔ پانی پی کر وہ واپس ليٹ گئ۔ “کيوں اتنے اچھے بن رہے ہيں۔۔ اب کون سا ڈرامہ رہ گيا ہے جو پلے کرنا باقی ہے” وہ الجھتی جارہی تھی۔ اسکی کسی تلخ بات پر وہ غصہ ہی نہيں ہورہا تھا۔ آخر ان چند دنوں ميں ايسی کيا کايا پلٹ ہوگئ تھی کہ وہ سب بھول گيا تھا۔ يہ بھی کہ وہ ايک ان چاہے رشتے کے سبب اسکے گھر۔۔ اسکے پاس موجود ہے۔ “صرف اتنی غرض ہے کہ شايد ميرے ايسا کرنے سے آپکی کوئ دعا مجھے لگے اور ميرے وہ کام جو سب الٹے ہوگۓ تھے سيدھے ہو جائيں” پرشوق نگاہوں سے اس کا الجھا بکھرا روپ ديکھا۔ “دعا تو کبھی نہيں نکلے گی اب” وہ تلخ لہجے ميں بولی۔ “لگی شرط” واہب نے يکدم اسکے سامنے اپنی چوڑی ہتھيلی پھيلائ۔ “مجھے ايسی بے ہودہ حرکتيں کرنے کا کوئ شوق نہيں” چہرہ موڑ کر وہ سپاٹ لہجے ميں بولی۔ اسی لمحے کمرے کا دروازہ بجا۔ واہب اٹھ کر بيٹھا۔ “آجائيں” زيبا نے اسکی اجازت ملتے ہی قدم اندر رکھے۔ “کيسی ہو بيٹا” محبت سے راديا کے قريب آتے اسکے ماتھے پر پيار کيا۔ “بہتر ہوں” اس نے ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر جواب ديا۔ واہب نے حسرت سے اسکی مسکراہٹ ديکھی۔ “بيٹا روزہ رکھنا ہے؟” اب ان کا رخ واہب کی جانب تھا۔ “جی جی کيوں نہيں۔۔” کہتے ساتھ ہی وہ واش روم منہ ہاتھ دھونے چل پڑا۔ “ميں نے بھی رکھنا ہے” اس نے ضد کی۔ “بيٹا ويسے تو کوئ مسئلہ نہيں۔۔ليکن دوائياں لينی ہوں گی تمہيں تو” وہ ہچکچائيں۔ “آنٹی ميں نے اور کرنا ہی کيا ہے سارا دن تو بس يہيں بيٹھے رہنا ہے کون سا کوئ کام کرنا ہے کہ روزہ لگے گا” اس نے پھر سے کہا۔ واہب باہر آکر انکی تکرار سن رہا تھا۔ “اوکے آج کا رکھ کر ديکھ لو۔۔ اگر صحيح رہا تو جاری رکھ لينا” واہب نے مسئلہ کا حل نکالا۔ “ڈاکٹر سے نہيں پوچھا نا بيٹا” زيبا نے پھر سے کہا۔ “آپ سحری تيار کروائيں ميں ڈاکٹر سے ابھی کال کرکے پوچھ ليتا ہون۔ وہ بھی تو اس وقت سحری کے لئے اٹھے ہوں گے نا” اس نے موبائل پکڑتے ہوۓ ايک اور حل نکالا۔ راديا نے چور نظروں سے اسکی چوڑی پشت ديکھی۔ پھر ڈاکٹر کی اجازت ملتے ہی واہب اس کی اور اپنی سحری کمرے ميں ہی لے آيا۔ بيڈ پر زرينہ نے سب سليقے سے رکھا۔ واہب نے اسکی پليٹ ميں سالن نکالا۔۔روٹی اسے تھمائ۔۔ سحری کرنے کے بعد راديا نے وضو کرنے کی بھی ضد کی۔ “ميں بيٹھ کر تو نماز پڑھ سکتی ہوں نا” اسکی بات پر واہب نے اثبات ميں سر ہلاتے اسے سہارا دے کر کھڑا کيا۔ آہستہ آہستہ اسے چلاتے واش روم تک لے کر گيا۔ اس کی کمر کے گرد بازو باندھتے اسے وضو کرنے کا اشارہ کيا۔ راديان نے بازوؤں تک سب وضو آرام سے کرليا۔ اب پاؤں دھونے کی باری تھی۔ “باہر چلو ميں ايک باؤل مين پانا لاتا ہوں ہاتھوں پر لگا کر ہلکا سا مسح کرلينا” واہب کی بات پر اس نے ہولے سے سر ہلايا۔ واہب نے دوبارہ اسکے کندھوں کو تھام کر ہولے ہولے چلاتے بيڈ کے قريب لايا پھر بٹھاکر اسکی ٹانگ آہستہ سے تھام کر اوپر رکھی۔ ايا باؤل ميں پانی لايا راديا نے مسح کرکے دوپٹہ نماز کے انداز ميں باندھا اور بيٹھ کر نماز ادا کی۔ واہب بھی اتنی دير ميں نماز سے فارغ ہوا۔ “مجھے قرآن پکڑا ديں گے؟” ايک اور خواہش۔۔ واہب سر ہلاتے باہر گيا۔ واپسی پر اسکے ہاتھ ميں قرآن تھا۔ راديا کو پکڑايا۔ اور خود دوسری جانب جاکر ليٹ گيا۔ راديا زير لب قرآن پڑھ رہی تھی۔ “سنو” يکدم واہب نے اسے پکارا۔ راديا نے سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ “اونچی آواز ميں قرآت کرو” اسکی فرمائش پر راديا نے لب بھينچے۔ وہی دن پھر سے ياد آيا۔ ٹھنڈی سانس لے کر اونچی آواز ميں پڑھنے لگی۔ واہب نے سر اسکے قريب اسی انداز ميں رکھا۔ اسکی آواز کی مٹھاس اس کے اندر گھلتی جارہی تھی۔
وہ تيزی سے ری کور کررہی تھی۔ بوتيک کا کام اسکی اسسٹنٹ سنبھال رہی تھی۔ ايک آدھ دن بعد زيبا چکر لگا ليتی تھيں۔ وہ سب اسے ہتھيلی کا چھالا بناۓ ہوۓ تھے۔ باقی سب کی محبتوں پر تو اسے شک نہيں تھا ليکن واہب کا خيال رکھنا اور يوں اسے اہميت دینا اسکے اندر آگ لگا ديتا تھا۔ اپنی کم مائيگی کا ايک ايک لمحہ ياد آتا تھا۔ اسکے لفظوں سے دئيے جانے والے زخم ابھی ہرے ہی تھے۔ سارا دن اسکے پاس ہی کمرے ميں رہتے وہ آفس کا کام کرتا رہتا۔ اور اس دوران اس کا ايک ايک کام خود کرتا۔ آخری عشرہ بھی اختتام کو تھا۔ جب اس دن وہ مارکيٹ گيا اور واپسی پر راديا کے لئے ڈھيروں شاپنگ کرکے لايا۔ رات ميں جس وقت وہ اسے چيزيں دکھا رہا تھا اس کا دل کيا سب کچھ اٹھا کر گھر سے باہر پھينک دے۔۔ وہ کيوں يہ سب عنايتيں کررہا تھا۔ اب کيا مقصد تھا اس کا۔ “بس کريں۔۔۔ اتنے اچھے بننے کی ضرورت نہيں۔۔ آپ کا اصل روپ ديکھ چکی ہوں تو پھر اب يہ اچھائ کا ماسک پہن کر کيا ثابت کررہے ہيں۔۔ ہاں” وہ غصے ميں بھڑکتی ہوئ سب چيزيں ہاتھ مار کر بيڈ سے گرا چکی تھی۔ “اگر آپ کی يادداشت کھو چکی ہے تو بتاتی چلوں کہ آپ سے عمر ميں پانچ سال بڑی ہوں ميں۔۔ايک ان چاہی بيوی۔۔۔مجھ سے تو نفرت تھی آپ کو ۔۔ پھر يہ نوازشيں کيوں۔۔ ۔ بے فکر رہيں کسی کو آپکے بارے ميں کچھ نہيں بتاؤں گی۔۔ جب دوسری شادی کا کہيں گے آپ کا ساتھ دوں گی۔ مگر يہ سب کرکے ميری اذيتوں ميں اضافہ مت کريں۔۔۔۔ پليز” وہ بے اختيار ہو کررو پڑی۔ “اگر ميں اپنے کئے کی معافی مانگوں کيا پھر بھی يقين نہيں آۓ گا” واہب ايک ايک چيز اٹھا کر سامنے پڑے صوفے پر رکھ کر اسکی جانب آيا۔ اسکے قريب نيچے بيٹھتے ہوۓ بولا۔ “کيوں ۔۔ کيوں چاہئيے معافی۔ آپ درست تھے۔۔ اور آپ درست ہيں۔۔ مجھے اپنے ماں باپ کی مجبورياں نظر نہ آتيں تو کبھی ايسا ابنارمل رشتہ نہ جوڑتی۔۔ ہر لمحہ ہر لمحہ آپ نے مجھے يہ احساس دلايا کہ ميں کوئ عمر رسيدہ عورت آپکے پلے بندھ گئ ہوں۔۔۔ مجھے اب آپکی معافی سے کوئ سروکار نہيں۔۔ ہمدردی کررہے ہيں نا۔۔ معذور ہوں مگر اتنی نہيں کہ اپنا بوجھ خود نہ اٹھا سکوں گی۔ بس اپنے ٹھيک ہونے کا انتظار کررہی ہوں جيسے ہی چلنے پھرنے لگی۔ آپ کی زندگی سے چلی جاؤں گی” اس کا ايک ايک لفظ واہب کو تکليف سے دوچار کررہا تھا۔ “يہ ہمدردی نہيں ہے بے وقوف” وہ ہولے سے مسکرايا۔ “اوہ۔۔بس کريں۔۔ محبت کے جھوٹے ڈھونگ مت رچائيں۔ صرف اسی لئے کہ ميں آپکی شخصيت سے متاثر ہوکر آپکے عشق ميں گرفتار نہيں ہوئ۔ آپ سے رحم کی بھيک نہيں مانگی۔۔۔ تو اس سب کا بدلہ يوں لے رہے ہيں۔ مجھ سے فلرٹ کرکے۔۔۔” “ آنسو بے دردی سے صاف کرتی وہ بدگمانيوں کی انتہا پر تھی۔ “ہمارے معاشرے کا الميہ يہ ہے کہ بڑی عمر کی عورت سے شادی نہيں کرنی۔ ہاں فلرٹ جائز ہے۔ نجانے کتنی لڑکياں مجبوريوں کی آڑ ميں گھروں ميں بيٹھی ہيں۔ مگر لڑکوں نے ناجائز تعلقات تو بنا لينے ہيں مگر کسی بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرکے اسے عزت نہيں دينی۔ اگر يہ ايسا ہی گناہ کا کام ہوتا تو ہمارے اسلام ميں ۔۔ ہمارے آخری پيارے نبی اپنی پہلی ہی شادی ايک بڑی عمر کی عورت کے ساتھ نہ کرتے۔ دس سال ۔۔۔پندرہ سال۔۔ حتی کے بيس بيس سال چھوٹی لڑکيوں سے شادی کرتے ہوۓ آپ جيسے لڑکوں کو شرم نہيں آتی ۔ مگر بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے غيرت جاگ پڑتی ہے۔ ناانصافی لگتی ہے۔ چار شاديوں کے لئے تو آپ مردوں کو دين ياد آجاتا ہے کيونکہ وہاں اپنی غرض شامل ہوتی ہے۔ ہاں ليکن بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرتے وقت اسے گناہ تصور کيا جاتا ہے ايسے جيسے وہ اچھوت ہو۔ آپ نے بھی مجھے اچھوت سمجھا۔ شروع دن سے بس يہی باور کروايا۔ ميری عمر بڑی ہے۔۔ ميری عمر بڑی ہے کيا سوچ کر اب آپ محبت کے دعوے کررہے ہيں۔مطلب بھی جانتے ہين محبت کا۔۔ احساس۔۔ پيار۔۔۔ ايک دوسرے کو سمجھنا۔ ايک دوسرے کے لئے قربانی۔ آپ تو ميرا ہاتھ نہيں تھام سکتے مجھے سہارا نہيں دے سکتے۔ ہا۔۔۔ محبت کريں گے مجھ سے”جب وہ بولے پر آئ تو اگلے پچھلے تمام حساب چکا دئيے۔ واہب نے اسے ايک پل کو بھی نہيں ٹوکا۔ جتنی نفرت اسے دی تھی اسکے حساب سے تو يہ کچھ بھی نہيں تھا۔ “ہاں ميں جانتا ہوں مجھ سے يہ سب غلطياں سرزد ہوئيں۔ وہ شايد ردعمل تھا۔ کوئ بھی ميری بات سمجھنے کو تيار نہيں تھا۔ اور پھر لوگوں کی رشتہ داروں کی چہ مگوئياں۔ ہماری شادی پر بہت سے لوگوں کو مين نے يہ کہتے سناکہ’ زيبا بھابھی اور سميع بھائ کو اتنی کيا جلدی تھی واہب کی شادی کی۔ اچھے بھلے لڑکے کی پانچ سال بڑی سے شادی کردی’ تو کوئ يہ کہہ رہا تھا کہ’ شہاب کا کيا دھونے کی خاطر بيچارے واہب کو پھنسا دیا’ خود سوچو ہم ايک معاشرے ميں رہتے ہيں جہاں ہر سوچ اور ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہيں۔ اور لوگوں کی باتيں اتنی کاٹ دار ہوتی ہيں کہ وہ اچھے بھلے انسان کا دماغ خراب کرديں۔ ميں پہلے ہی الجھا ہوا تھا اس پر لوگوں کی باتيں۔ بس ميں وہ سب کرگيا جو مجھے نہيں کرنا چاہئيے تھا۔ مگر آپ اگر تھوڑا سا مجھے سمجھ ليتی شايد حالات بہتر ہوتے۔ آپ کا دل شکن رويہ ميری ہر بات پر پورا مقابلہ۔۔” اسکی بات ختم نہيں ہوئ تھی کہ راديا کچھ کہنے کے لئے منہ کھولنے لگی۔ “پليز پوری بات سن لو” واہب نے اسے روکا۔ “ميں آپ کو قصوروار نہيں کہہ رہا کيونکہ شروع ميں نے کيا تھا۔ ظاہر ہے آپ کو اپنا بھرم رکھنے کے لئے اتنا تو کرنا ہی تھا۔ بہرحال جو بھی ہوا ميں اپنے کئے پر بے حد نادم ہوں۔ بس اتنی خواہش ہے کہ مجھے معاف کردو۔ آپکا ہاتھ جھٹکنے کا کفارہ تو ساری عمر دينا ہوگا۔ مگر آپ اب ميرا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر بدلہ لے رہی ہو” واہب اسے اپنے رويے کی ايک ايک وجہ بتاتا چلا گيا۔ “نہيں واہب ميں اتنی آسانی سے وہ سب نہيں بھول سکتی۔ بنا کسی قصور کے آپ نے اتنا کچھ کہہ ديا۔۔مجھے عجيب نفرت ہونے لگ گئ ہے خود سے” وہ کھوۓ ہوۓ لہجے ميں بولی۔ “اچھا بتاؤ کيا کروں کہ آپ ان سب باتوں کو بھول جاؤ” واہب نے ہتھيار پھينکتے ہوۓ مصالحت بھرا لہجہ اپناتے ہوۓ کہا۔ “مجھے اپنی زندگی سے جانے ديں” راديا کی بات پر وہ سن رہ گيا۔ “اور کتنی اذيت دوگی” کيا کچھ نہيں تھا اس بے بس لہجے ميں۔ “جب تک ميری اذيت کم نہيں ہوتی” وہ گود ميں رکھے ہاتھوں کی جانب دیکھتے کھردرے لہجے ميں بولی۔ واہب نے لب بھينچے۔ اس کے پاس سے اٹھ کر کھڑا ہوا۔ چند لمحے اسکے جھکے سر کو دیکھتا رہا۔ پھر جھک کر اسکی پيشانی پر محبت کی مہر ثبت کر کے پيچھے ہٹ گيا۔ راديا نے نفرت سے ماتھا رگڑا۔ جيسے اس کا لمس مٹانے کی کوشش کررہی ہو۔ واہب نے تکليف سے يہ منظر دیکھا۔ خاموشی سے گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گيا۔ راديا اب خود کافی ہل جل ليتی تھی۔ گردن موڑ کر اسے باہر جاتا ديکھا۔ پھر خاموشی سے آگے ہوئی اور تکيے پر سر رکھ کر ليٹ گئ۔ دل کی بھڑاس تو نکال چکی تھی مگر نيند پھر بھی آنکھوں سے کوسوں دور تھا۔
وہ بے مقصد سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا رہا۔ ايک ہاتھ اسٹيرنگ پر تھا تو دوسرا بالوں ميں پھير رہا تھا راديا کا ايک ايک لفظ سچ تھا۔ واقعی اس معاشرے ميں ہم نے ايک نہايت جائز رشتے کو گناہ بنا ديا ہے۔ جہاں کوئ لڑکا بڑی عمر کی لڑکی سے شادی کرے۔ نہ صرف لڑکے کو باتيں سنائ جاتی ہيں۔ ب بلکہ لڑکی کو سب سے زيادہ تضحيک کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ بار بار يہ جتايا جاتا ہے کہ’اپنی عمر ديکھے اور يہ لچھن’ ‘ہو ہاۓ۔۔چھوٹے لڑکے سے شادی کرلی اتنا بھی کيا بے شرمی۔’ ‘اس کو ديکھو اسکی جوانی ہی ختم نہيں ہورہی اپنے سے چھوٹے سے شادی کرڈالی۔’ اور نجانے کتنے ہی ايسے زہر ميں ڈوبے الفاظ استعمال کئے جاتے ہيں۔ ايک لڑکا اور لڑکی چاہے جس بھی عمر کے ہوں وہ ناجائز تعلق قائم کرليں۔ ہميں وہ گوارا ہے مگر کيا جائز رشتے ميں بندھ جائيں تو اسے ہم ناجائز بنانے پر تل جاتے ہيں۔ واہب کو اپنا آپ بالکل خالی محسوس ہورہا تھا۔ پڑھا لکھا ہو کر بھی اس نے کتنی گھٹيا حرکت کی تھی۔ وہ جب جب اسکے ساتھ کھڑی ہوتی اسے ماں کے الفاظ ياد آتے۔’ تم اس سے بڑے لگتے ہو وہ چھوٹی ہی لگتی ہے’ وہ اتنی نازک سی تھی کہ واہب کو کئ بار ماں کی کہی يہ بات سچ لگی۔ اور اگر وہ اتنی کامنی سی نہ بھی ہوتی تو بھی کيا۔ بہت سی لڑکياں شادی کے بعد اتنی بے ڈول ہوجاتی ہيں کہ مياں سے بڑی لگتی ہيں۔ چاہے دس سال چھوٹی ہوں۔ ‘افف ميں نے کيوں اتنی جلدبازی اور بے وقوفی کا ثبوت دیا تھا’ اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آرہا تھا۔ کيسے وہ اسکے دل سے اپنے الفاظ کو کھرچ ڈالے۔ صحيح کہتے ہيں ‘زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تير کبھی واپس نہيں آتے’ بس پچھتاوا رہ جاتا ہے۔ اور وہ پل پل اب اس پچھتاوے کی آگ ميں جھلس رہا تھا۔
There’s a time of day When the night it seems like it’s never gonna fall But I find a way Yeah I’ll fight and if I can’t walk you know I’ll crawl When I close my eyes Well I’m back to where I wish I was for now Going back in time And I stay as long as my mind will allow So tell me once, tell me twice Tell me three times, tell me four Tell me what ya want to do Tell me what you need Tell me what you seem to dream the most Cause I’ll be anything for you Well I don’t know why But time can’t seem to temper my regret Sometimes I lie To myself and say I’ve learned how to forget Well it seems to me That you couldn’t help yourself but to deceive And I came to see That the way I’ve learned to live is justly I’m running circles I’m outta my mind I lost my grip On this thing called time I’m gone It’s gone I’m empty still But I’ll keep moving I always will I’m gone
وہ پل پل اس آگ ميں جھلس رہا تھا کہ کاش وہ وقت کو پيچھے لے آتا۔۔ کاش وہ اپنے اور راديا کے رشتے کو يوں بگاڑنے کی بجاۓ کچھ وقت دے ديتا۔ مگر اب لگتا تھا کچھ نہيں بچا۔ وہ تو واپس پلٹنے کو تيار ہی نہيں تھی۔