صبح ميں جس لمحے واہب کی آنکھ کھلی راديا کمرے ميں نہيں تھی۔ وہ اب اسٹک پکڑ کر آہستہ آہستہ خود چل ليتی تھی۔ مگر ابھی اسے سيڑھياں چڑھنے سے منع کيا گيا تھا۔ اسی لئے فی الحال وہ دونوں گيسٹ روم ميں ہی تھے۔ واہب منہ ہاتھ دھو کر باہر لاؤنج ميں آيا تو وہ اخبار پڑھنے ميں مگن تھی۔ راديا نے ايک نظر اٹھا کر سامنے سے آتے واہب کو پر ڈالی پھر واپس اخبار کی جانب متوجہ ہوگئ۔ واہب تھوڑا سا فاصلے پر اسی کے صوفے پر بيٹھ گيا۔ راديا کو اميد تھی کہ کل رات کی باتوں کے بعد واہب اب اس سے کوئ اميد نہيں لگاۓ گا۔ مگر اسکی حيرت کی انتہا نہ رہی جب وہ اسکے گھٹنے پر مزے سے کشن رکھ کر اس پر سر رکھ کر ليٹ گيا۔ راديا نے گھبرا کر ايک نظر اندر کام کرتی زيبا اور زرينہ کو ديکھا۔ پھر گھور کر واہب کے گھنے بالوں والے سر کو ديکھا۔ “يہ کيا بے ہودگی ہے” وہ دبے دبے لہجے ميں چٹخی۔ “کيا؟” واہب نے آنکھوں پر رکھا ہاتھ ہٹا کر اچھنبے سے اسکا سرخ چہرہ دیکھا۔ “يہاں کيوں ليٹے ہيں۔۔ اٹھيں يہاں سے” وہ يکدم اٹھ نہيں سکتی تھی نہيں تو کب کی اسکا سر نيچے پٹخ کر اٹھ چکی ہوتی۔ “آپ کو سمجھ کيوں نہيں آتی کہ اب مجھے ان سب حرکتوں سے کوئ فرق نہيں پڑتا” وہ اسکی معصوميت پر زچ ہوکر بولی۔ “مگر آپ کو يہ کيوں نہيں سمجھ آتی کہ آپ کی اس بے زاری سے اب مجھے بھی کوئ فرق نہيں پڑتا۔” وہ بھی اسی کے انداز ميں بولا۔ “آپ کيوں اپنی زندگی فضول ميں تباہ کررہے ہيں جب مجھے آپ کے ساتھ اب رہنا ہی نہيں” راديا نے قطعيت بھرے لہجے ميں کہا۔ “ميں اب ہی تو اپنی زندگی کے ساتھ سب صحيح کررہا ہوں۔۔” وہ کھوۓ ہوۓ انداز ميں بولا۔ “مگر يہ سب اب ميرے ساتھ ٹھيک نہیں ہے۔ ميں اب اپنی آئندہ زندگی کا فيصلہ خود کروں گی۔ بہت کرليا دوسروں پر انحصار۔ جس ہمدردی کا بخار آپ کو چڑھا ہے نا۔۔۔ وہ چار دن ميں ختم ہوجاۓ گی” وہ تلخی سے بولی۔ “چلو ٹھيک ہے ايسا کرتے ہيں اپنی اپنی جگہ بدل ليتے ہيں” واہب نے يک لخت اٹھ کر اسکے قريب ہوتے ہوۓ سرگوشی نما لہجے مين کہا۔ “اس بار نفرت کے کنارے پر آپ کھڑی ہوجاؤ اور محبت کے کنارے پر ميں۔ جس کا جذبہ زيادہ طاقتور ہوا وہ جيت جاۓ گا اور پھر دوسرے فريق کو اسی کی بات ماننی پڑے گی” واہب کی بات پر وہ اور تپ گئ۔ “مين نے پہلے بھی آپ سے محبت نہيں کی تھی” صاف گوئ سے بولتی وہ اسے آئينہ دکھا گئ۔ “ليکن رشتہ نبھانے کا ارادہ تو کيا تھا نا” واہب کی بات پر وہ چند لمحے خاموش ہوئ۔ “ميں ايک انچ بھی اپنی جگہ سے ہلنے والی نہيں” وہ دھمکی آميز انداز ميں بولی۔ “مت ہلنا ميں بازوؤں ميں اٹھا کر اپنی طرف لے آؤں گا” واہب کے چہرے پر گہری دلکش مسکراہٹ بکھری جس نے راديا کی پلکوں کو لرزنے پر مجبور کيا۔ “فضول باتيں” اسٹک اپنے قريب کرکے وہ اٹھنا چاہتی تھی جب اس سے بھی پہلے واہب نے اٹھ کر اسے سہارا ديا۔ “ميں اب خود چل سکتی ہوں” وہ پھر اسکے ہاتھ کو جھٹک دينا چاہتی تھی۔ وہ اسے پل پل دھتکار رہی تھی بالکل ايسے ہی جيسے کچھ دن پہلے واہب اسے دھتکارتا تھا۔ مگر وہ اپنے حوصلے مضبوط رکھے ہوۓ تھا۔ “الحمداللہ ۔۔۔ ليکن ميں چاہتا ہوں جيسے آپ نے مجھے اپنا عادی بناکر اس محبت ميں جکڑا۔ ميں بھی اب آپکو اپناعادی بنا کر اس محبت ميں ہميشہ کے لئے قيد کرلوں” اسکی جانب جھکتے اسکی ناراض نظروں ميں اپنی محبت پاش نظريں گاڑھے اسکے ايک ايک لفظ سے محبت ٹپک رہی تھی۔ “چار دن کی چاندنی پھر اندھيری رات” راديا نے ويسے ہی طنز کيا جيسے کبھی وہ کرتا تھا۔ ” وی ويل سی” واہب نے اسے گويا چيلنج کيا۔
اور پھر اس نے جو کہا وہ سچ کر دکھايا۔ راديا کی ہر بيزاری کے جواب ميں اسکے پاس اسے دينے کو صرف محبت ہوتی ۔۔ احساس ہوتا۔ انہی دنوں ميں چاند رات بھی آگئ۔ واہب عشاء کی نماز پڑھ کر آيا تو اسکے سر ہوگيا۔ “چلو۔۔ مہندی لگوا کر لاؤں” وہ جو بيڈ پر مزے سے بيٹھی موبائل پر مصروف تھی اس اچانک افتاد پر تيوری چڑھا کر اسکی جانب ديکھا۔ “مجھے کہيں نہيں جانا اور کوئ مہندی وہندی نہيں لگانی” وہ کڑوے کسيلے لہجے ميں اسے جواب دے دوبارہ موبائل ميں مصروف ہوگئ۔ “جانا تو پڑے گا۔۔ ميڈم کے نخرے ختم نہيں ہورہے” وہ بھی اپنی ضد پر قائم تھا۔ “بوڑھی عورتوں کو مہندی اور ميک اپ سے کيا سروکار” وہ پھر سے اس پر طنز کرکے بولی۔ وہ جو بيڈ کے دوسری سمت بيٹھا تھا محبت سے اسکے چہرے پر اپنے دائيں ہاتھ کی انگلياں پھيريں۔ راديا اسکی جرات پر خشمگيں نظروں سے اسے ديکھنے لگے۔ سرعت سے پيچھے ہوئ۔ “کتنی بار کہا ہے دور رہ کر بات کيا کريں” ناگواری اسکے چہرے کا احاطہ کرچکی تھی۔ “اور کتنی بار ميں نے کہا ہے کہ اب دوريوں کی باتيں جانے دو۔۔ اٹھو”اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر رکھا۔ “کيا مصيبت ہے زندگی عذاب ہوگئ ہے” وہ زبردستی اسکی جانب آکر اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرنے لگا۔ جب وہ کوفت سے بولی۔ “اوکے باقی کے کوسنے واپس آکر دے لينا۔” واہب نے بھی ہار نہ مانی اسے کھڑا کرکے ہی دم ليا۔ جيسے ہی اس نے اسٹک کی طرف ہاتھ بڑھايا۔ واہب نے اسٹک اسکی پہنچ سے دور کی۔ “جب ميں ہوں تو ان کھوکھلے سہاروں کی کيا ضرورت ہے” اس کا دوپٹہ کندھوں پر ٹھيک کرتے ہوۓ وہ جس توجہ سے بولا راديا کی ايک بيٹ مس ہوئ۔ “مجھے اس سہارے پر اعتبار نہيں” راديا نے نگاہيں جھکا کر کانپتے لہجے ميں کہا ۔ واہب کے لبوں پر مسکراہٹ رينگی۔ “اعتبار بھی آہی جاۓ گا۔ چلو تو سہی راستہ کوئ مل ہی جاۓ گا” وہ دھيرے سے اپنا سر اسکی پيشانی کے ساتھ ٹکاتے گنگنايا “ايک آخری موقع دے دو” حسرت سے درخواست کی۔ “ابھی مجھے سوچنے ديں” واہب نے شکر کيا کہ اس نے نہ نہيں کی۔ “اوکے۔۔سوچ لو”پيچھے ہوتے ايک نظر اسکے صبيح چہرے پر ڈالی۔ پھر اسے لئے باہر کی جانب بڑھا۔ تمام راستہ اس کا ايک ہاتھ اسٹيرنگ پر دھرے ہاتھ کے نيچے دباۓ گاڑی چلاتا رہا۔ راديا نے تمام راستہ کوئ بات نہ کی نہ ہی واہب نے اسے مخاطب کيا بس دونوں ايک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کرتے رہےاور پہلی بار ان کے درميان موجود خاموشی بے حد معنی خیز تھی۔ محبت کی وائبز ايک کے دل سے دوسرے کے دل پر اثر انداز ہورہی تھيں۔
جس وقت وہ مہندی لگوا کر باہر آئ واہب نے تيزی سے آگے بڑھ کر اسے سہارا ديا۔پھر اسی طرح تھامے گاڑی کی جانب لايا۔ مہندی ابھی گيلی تھی۔ “کس مصيبت ميں پھنسا ديا ہے سچی۔۔ اب جب تک سوکھے گی نہيں تب تک بندہ کچھ نہيں کرسکتا۔” گاڑی ميں بيٹھ کر اسکی دہائياں شروع ہوچکی تھيں۔ جنہيں زير لب مسکراتے واہب مزے سے سن رہا تھا۔ اسکا کيچر بالوں ميں بالکل ڈھيلا ہوچکا تھا۔ وہ بازو کو اوپر لے جاکر کہنی سے بار بار بالوں کو پيچھے کرتی بھنا گئ۔ “کيا ہوا ہے” واہب اسکی يہ حرکت ديکھ کر سمجھنے سے قاصر تھا کہ وہ کہنی بار بار چہرے تک کيوں لے جارہی ہے۔ “يہ جو زلفيں کھل گئ ہيں ميری۔۔۔ کيسے باندھوں” وہ روہانسی آواز ميں بولی۔ واہب نے نفی ميں سر ہلايا۔ پھر گاڑی سڑک کے ايک کنارے پر روکی۔ “مڑو” اسے گاڑی روکتا ديکھ کر وہ الجھی کہ ايک اور حکم آگيا۔ “کيوں؟” اس نے مشکوک نظروں سے اسے ديکھا۔ جو اسٹيرنگ چھوڑے پورے کا پورا اسکی جانب مڑا ہوا تھا۔ “بال باندھوں نا” واہب نے وضاحت دی۔ وہ سانس بھر کر مڑی کہ اس وقت واہب کی مدد لئے بغير گزارا نہيں تھا۔ واہب نے کيچر اتار کر اسکے سب بال سميٹے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر چہرہ اسکے بالوں کے پاس لے جاتے محبت بھرا لمس ان پر چھوڑا۔ راديا اس کا لمس اپنے سر پر محسوس کرکے يکدم کانپی۔ واہب نے جيسے ہی کيچر لگايا وہ چيخی۔ “آہ۔۔ اتنے زور سے نہيں لگانا تھا سارے بال کھچ رہے ہيں” اسکے چلانے پر پھر سے اس نے کيچر اتارا۔ “يار اب مجھے کيا پتہ کيسے لگاتے ہيں۔ ميرے خیال ميں روزانہ دو مرتبہ اسکی پريکٹس کرنی چاہئيے پھر ميں ايکسپرٹ ہوجاؤں گا” کيچر تھوڑا سا ڈھيلا کرکے لگاتے اب کی بار وہ شرارتی لہجے ميں بولا۔ راديا نے خاموش نظروں سے گھورا۔ “آئسرکريم کھاؤ گی” گاڑی سٹارٹ کرتے ہوۓ مزے سے پوچھا۔ “کيسے کھاؤں گی۔۔۔ ہاتھوں پر تو يہ لگی ہے” آئسکريم کے نام پر دل للچايا مگر ہاتھوں کی طرف بے چارگی سے ديکھا۔ “ڈونٹ وری اسکا بھی حل ہے” وہ اسکے منع نہ کرنے پر خوش ہوتا گاڑی آئسکريم پارلر کی جانب بڑھاتے ہوۓ بولا۔ پتہ نہيں کيوں اس لمحے واہب کا ساتھ۔۔ اسکی نظروں کی گرمائش۔۔ لہجے کی محبت سب اچھا لگ رہا تھا۔ کيا دل نے بند دروازے کھول دئيے تھے۔ کيا زخم سلنا شروع ہوگۓ تھے۔ اس نے گردن موڑ کر مردانہ وجاہت کے شاہکار اپنے شريک سفر کو ديکھا۔ واہب نے ايک آئسکريم پارلر کے سامنے گاڑی روکی۔ وہاں موجود لڑکا تيزی سے گاڑی رکتے ديکھ کر انکی جانب آيا۔ واہب نے اپنی جانب کا شيشہ نيچے گرايا۔ “سر يہ ليں۔۔ آپ کو کون سا فليور چاہئيے اس ميں سے” وہ لڑکا اپنے پروفيشنل انداز ميں واہب کو ايک کارڈ پکڑا کر مودب کھڑا پوچھ رہا تھا۔ واہب نے اس کارڈ پر موجود درج مختلف آئسکريم کے ناموں پر نظر دوڑائ۔ “کون سا لوگی” واہب نے ايک نظر راديا کو ديکھا۔ “ميں کھاؤں گی کيسے” وہ اپنے ہی مسئلے ميں الجھی ہوئ تھی۔ اس نے بنانا فج سوائرل کا آرڈر ديا۔ “کتنی سر؟” لڑکے نے پھر مودب ہو کر پوچھا۔ “دو” راديا اسے گھورے جارہی تھی۔ جيسے ہی لڑکا گيا واہب نے راديا کی جانب ديکھا تو قہقہہ لگاۓ بغير نہ رہ سکا۔ “آئسکريم کھانا ابھی مجھے کيوں کھانے کا ارادہ کررہی ہو” اپنے قہقہے کو بمشکل روک کر اسے بھرپور نظروں سے ديکھتے ہوۓ بولا۔ “کھاؤں گی کيسے۔۔ يہ ديکھيں ابھی بھی گيلی ہے” اس نے ہاتھ اسکے آگے کرتے ہوۓ ناراضگی سے کہا “ميں کس لئے ہوں” واہب نے گہری نظروں سے ديکھتے گمبھير لہجے ميں کہا۔ راديا اسکی نظروں سے نروس ہوئ۔ چہرہ موڑ کر ونڈ سکرين سے باہر ديکھنے لگی۔ ليکن واہب کی ٹکٹکی بندھی رہی۔ راديا اسکی نگاہوں کی تپش کو خود پر بہت اچھی طرح محسوس کررہی تھی۔ نجانے کيوں مزاحمتی لہجہ آجکل ماند پڑ چکا تھا۔ “کيا مسئلہ ہے؟” آخر رخ موڑ کر دوبارہ اسے گھور کر ديکھا۔ ماتھے پہ بل نماياں تھے۔ واہب کی جان ليوا مسکراہٹ اسکے دل ميں شور برپا کر گئ۔ محبت سے اسکے ماتھے پر موجود بلوں پر شہادت کی انگلی پھيری۔ “اگر ميں تھوڑی بہت باتيں مان رہی ہوں نا تو فضول حرکتيں کرنے کی ضرورت نہيں” لڑکھڑاتی آواز پر بمشکل قابو پاتے اس نے رعب جمانا چاہا۔ “اتنی سی ہو آپ۔۔ يہ رعب کہاں سے لے آتی ہو؟” ہاتھ پيچھے کرکے سينے پر ہاتھ باندھے اپنی بولتی آنکھيں اسکی ناراض آنکھوں ميں گاڑے مزے سے بولا۔ اتنی دير ميں لڑکا آئسکريم لے کر آگيا۔ واہب نے شکريہ ادا کرتے دونوں کونز پکڑ ليں۔ “چلو لڑکی شروع ہوجاؤ” سيدھے ہاتھ والی آئسکريم اسکی جانب بڑھاتے اسے الرٹ کيا۔ راديا نے کچھ جھجھک کر آئسکريم کی پہلی بائٹ لی۔ پھر آہستہ آہستہ کھاتی رہی۔ واہب بھی شرافت سے اسے کھلاتارہا اور اپنی کھاتا رہا۔ “جس اسپيڈ سے کھارہی ہو مسز۔۔ يہ پگھل کر ميرے اوپر گر جانی ہے” واہب نے اسکی سست روی پر ٹوکا۔ “اب آپ کی طرح اتنا بڑا بڑا منہ نہيں کھول سکتی” وہ مزے سے اس پر چوٹ کرگئ۔ “اچھاويسے بے نيازی ہے مگر نظريں پوری طرح رکھی ہوئ ہيں مجھ پر” واہب نے آنکھيں سکيڑ کر کہا۔ پھر يکدم اسکی آئسکريم اپنی والی کے ساتھ ايکسچينج کردی۔ “يہ کيا؟” راديا اس حرکت پر حيرت سے بولی۔ “اب آپ يہ والی ٹيسٹ کرو ميں يہ ٹيسٹ کروں گا” آنکھوں ميں شرارت واضح ناچ رہی تھی۔ “دونوں ايک ہی تو فليور ہيں” اس نے پھر کندھے جھٹکتے ہوۓ کہا۔ “ہاں۔۔۔ مگر اس ميں آپکا ذائقہ گھل گيا ہے اس ميں ميرا۔ دونوں بدل کرديکھتے ہيں کس کی زيادہ ذائقہ دار ہے” راديا نے تيز نظر اسکے ہونٹوں ميں دبی مسکراہٹ پر ڈالی۔ “مجھے نہيں کھانی۔” يکدم پيچھے ہٹی۔ “چپ کرکے کھاؤ نہيں تو منہ پہ مل دوں گا” وہ بھی اپنے نام کا ايک تھا۔ “نہيں کھانی تو بس نہيں کھانی” وہ بضد ہوئ۔ “آپ جانتی ہونا اپنی منوا کر دم ليتا ہوں۔ کھاؤ شاباش۔۔ واہ آپکی والی ميں تو کھٹا ميٹھا ٹيسٹ ہے۔۔ آپ کی طرح” اسکی آئسکريم سے ايک بائٹ ليتے شرارت سے اسے ديکھتے ہوۓ کہا۔ اس نے بھی اب غصے ميں اسکی آئسکريم سے بائٹ لی۔ “اور يہ بالکل آپکی طرح ہے کڑوی کسيلی” اس کے غصے سے کہنے پر واہب اپنا قہقہہ نہيں روک سکا۔ “ويری گڈ۔۔ اچھا مشاہدہ ہے۔۔ چلو شاباش کھاتی جاؤ اور تبصرے کرتی جاؤ” وہ اسے پچکار کر بولا۔ “واہ۔۔۔۔ کيا ايک اور ذائقہ ۔۔۔ ميٹھا اور تھوڑا تھوڑا سڑيل” واہب نے ايک اور بائٹ ليتے اس پر تبصرہ کيا۔ اس نے بھی ايک اور بائٹ لی۔ “انتہائ گندا ذائقہ ہے۔۔ بے وفا اور مطلبی” دونوں بائٹ ليتے رہے اور ايک دوسرے پر تبصرے کرتے رہے۔ جب کھا چکے تب واہب نے ٹشو باکس سے ٹشو نکال کر بڑے دھيان سے اس کا منہ صاف کيا۔ “واہ آج کيا سير حاصل آئسکريم کھائ ہے۔۔ بھرپور تبصروں کے سنگ” واہب نے اپنا منہ صاف کرکے گاڑی سٹارٹ کی۔ لہجے ميں اب بھی شرارت تھی۔ “آئندہ کبھی يہ مصيبت نہيں لگواؤں گی” راديا نے تيکھی نظر اس پر اور پھر اپنے ہاتھوں پر لگی مہندی پر ڈالی۔ “اب تو وقتا فوقتا يہ مصيبت آپ کو مول لينی پڑے گی۔ کيونکہ مجھے يہ ان ہاتھوں پر لگی بے حد اچھی لگ رہی ہے” واہب نے ايک سرسری مگر بھرپور نظر اس پر ڈالی۔ راديا اب کی بار خاموش ہی رہی۔
صبح جس لمحے وہ نماز کے لئے اٹھا راديا ابھی سو رہی تھی۔ واہب نے محبت بھرا لمس اسکی پيشانی پر چھوڑا۔ پھر اپنا موبائل پکڑ کر کچھ ٹائپ کرکے اسکے نمبر پر سينڈ کيا۔ اور واش روم کی جانب بڑھ گيا۔ تھوڑی دير بعد شاور لے کر سفيد شلوار کرتا پہنے باہر آيا۔ تب بھی راديا سوئ ہوئ ملی۔ اس پر ايک مسکراتی نگاہ ڈال کر کمرے سے چلا گيا۔
وہ گہری نيند ميں تھی کہ دروازہ ناک ہوا۔ مندی مندی آنکھيں کھوليں تو زيبا کمرے ميں آتی دکھائ ديں۔ “عيد مبارک بيٹا۔ تمہارے ابو اور واہب نماز ادا کرنے گئے ہيں تم بھی انکے آنے تک اٹھ کر تيار ہوجاؤ” زيبا نے مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ اسے کے ماتھے سے الجھے بال سميٹتے ہوۓ کہا۔ “خير مبارک آنٹی۔۔ بس ميں اٹھ گئ سمجھيں” محبت سے اٹھ کر انکے گلے لگتے ہوۓ بولی۔جو بيڈ پر اسکے قريب بيٹھ چکی تھيں۔ “شاباش ميرا بچہ۔ تمہارے کپڑے رات کو زرينہ سے کہہ کر پريس کروا دئے تھے اٹھو چينج کرو” اٹھتے ہوۓ اسکے چہرہ کو پيار سے تھپتھاتے ہوۓ کہا۔ “جی” “اور سنو” کمرے سے جاتے جاتے وہ مڑيں۔ “جی” اس نے استفہاميہ نظروں سے انہيں ديکھا۔ “جب اس رشتے کو قبول کرلو تو ہميں بھی ماں باپ کی حيثيت سے قبول کرلينا” اتنی محبت سے انہوں نے اپنی خواہش بيان کی۔ “جی۔۔جی” راديا ان کی بات پر چند لمحے کے لئے ششدر رہ گئ۔ تو وہ جانتی تھيں اسکے اور واہب کے درميان کے تعلقات۔ ہاں ظاہر ہے دونوں نے ہی کسی سے چھپانے کی ضرورت نہيں سمجھی تھی نہ نفرت اور بيزاری کو اور نہ اب واہب نے اپنی محبت کو۔۔ وہ شفقت سے مسکراتے ہوۓ کمرے سے باہر چلی گئيں۔ اس نے بيڈ سے اٹھنے سے پہلے موبائل کھول کر ديکھا تو واٹس ايپ پر واہب کا ميسج موجود تھا۔ فورا کھول کر پڑھا۔
Open up the gates please let me in everybody needs someway to start again I have been rude not always kind Since it’s been a long heart to climb So lay your hand in mine Sometimes we just carry hopes to down But letting go is hard I have found So let me be like the leaves on the trees They come back in the spring and go to green So let me be like a stream full of rain It comes back eventually to the sea Tell me where we could reach the promise land There is nothing that we can do to change the past But baby now I have found a way back to you So please find a way back to me
واہب کے ميسج ميں درج الفاظ راديا کو گھٹنے ٹيکنے پر مجبور کررہے تھے اس نے اسٹک ڈھونڈی۔ پھر دل ميں نجانے کيا سمايا اٹھ کر کوشش کی کہ اپنے سہارے ہی چلے۔ ہلکی سی لڑکھڑاہٹ کے ساتھ وہ کسی حد تک کامياب ہوگئ۔ پہلے واش روم گئ۔ منہ ہاتھ دھو کر باہر آئ۔ کمرے ميں بنی قد آور الماری کی جانب رخ کيا۔ الماری کے دونوں پٹ کھولے تو سامنے ہی سفيد گھيردار فراک پاجامہ اور چنا ہوا دوپٹہ نظر آيا جو اس دن واہب نہايت محبت سے اسکے لئے لے کر آيا تھا۔ ايک گہری سانس فضا کے سپرد کی۔ “اے اللہ ميں اس وقت اس جگہ پر کھڑی ہوں جہاں آگے کا کچھ نہيں پتہ۔ ميں نہيں جانتی جس محبت کا دعوی آج يہ شخص کررہا ہے ميری محبت پالينے کے بعد بھی يہ اپنی بات پر قائم رہے گا يا نہيں۔ اگر اس کو چھوڑ ديتی ہوں تو کہيں کفران نعمت کی مرتکب نہ ہو جاؤں۔ اگر يہ ميرے لئے بہتر ہے تو ميرے دل سے ہر وسوسہ ہر شک نکال ديں” تيار ہوتے وقت وہ مسلسل اپنے رب سے مخاطب تھی۔ کيونکہ دلوں کے بھيد تو وہی جانتا ہے اور واہب کے دل کا بھيد اس سے بہتر اور کس کو پتہ ہوگا۔ بس اس نے آج بھی اپنا معاملہ اس رب کے سپرد کرديا جس کے سپرد يہ شادی ہونے سے پہلے کيا تھا۔ وہ پلٹا تھا۔۔ اسکی محبت سے لبريز ہوا تھا تو يقينا يہ اللہ کا ہی حکم تھا۔ اسے ايسے ہی پلٹنا تھا۔ اپنی غلطيوں پر نادم ہوکر۔
جس لمحے وہ لاؤنج ميں داخل ہواٹھٹھک کر دروازے کے قريب ہی رک گيا۔ اسکے لائے ہوۓ سفيد فراک جس پر خوبصورت دھاگے کا کام ہوا تھااور چوڑی دار پاجامے پر ايک کندھے پر چنا ہوا دوپٹہ ڈالے۔ کانوں ميں بڑی بڑی بالياں پہنے خوبصورت سے کئے گۓ ميک اپ اور کھلے بالوں ميں وہ واہب کو کسی حور سے کم نہ لگی۔ خوشگوار سا احساس لئے وہ اندر بڑھا۔ جہاں وہ سميع سے سر پر پيار لے رہی تھی۔ “عيدمبارک” اسکی شوق کا جہاں لئے آنکھوں ميں بمشکل ديکھتے ہوۓ اس نے عيد مبارک کہنے ميں پہل کی۔ واہب نے بمشکل اسکے پريوں سے روپ سے نظريں ہٹائيں۔ واہب ماں کی جانب بڑھا۔ “چلو بيٹا گاڑی کی چابی پکڑو۔۔ چچا کی طرف جانا ہے” ان کا معمول تھا کہ وہ عيد والے دن بھائ کے گھر جاتے وہاں سے سب مرد مل کر ماں باپ کی قبروں پر جاتے اور پھر کھانا کھا کر باقی رشتہ داروں کی طرف جاتے۔ “آپ لوگ ريڈی ہيں؟” واہب نے ان دونوں سے دريافت کيا جو بيگز پکڑے تيار ہی کھڑی تھيں۔ سميع اور زيبا اپنی گاڑی کی جانب بڑھے۔ جس لمحے وہ بھی انکے پيچھے لاؤنج سے نکلنے لگی۔ کہ واہب نے راستہ روکا۔ راديا کے دل کی دھڑکنيں بڑھيں۔ “آپ کون ہيں مس” جان بوجھ کر اسے چھيڑا۔ “آپکے پيرنٹس کی چہيتی بہو” وہ کہاں زيادہ دير گھبرانے والی تھی۔ مزے سے جواب دیتی اسکے ايک سائيڈ سے نکلنے لگی۔ جب مڑتے ہوۓ واہب نے اسکا ہاتھ تھام کر اپنی بازو پر رکھا۔ راديا نے نظر اٹھا کر محبت کے يہ انداز ديکھے۔ وہ واقعی اس کا سہارا بن گيا تھا۔ وہ دونوں واہب کی گاڑی کی جانب بڑھے۔ اسے بٹھا کر واہب اپنی سيٹ پر آکر بيٹھا۔ گاڑی چلاتے تمام وقت اسکی پرشوق نظريں اس کا طواف کرتی رہی تھيں۔ “مجھے لگتا ہے اگر ميں لنگڑی نہيں ہوئ تو آج آپکی حرکتيں مجھے لنگڑا کرکے چھوڑيں گی” راديا کی بات پر وہ اسکی بات کی تہہ تک تو نہيں پہنچا مگر قہقہہ بھی نہيں روک سکا۔ “وہ کيسے؟” “جس حساب سے آپکی نظريں سامنے کی بجاۓ بائيں جانب ہيں ايکسيڈنٹ لازمی ہے” وہ اسکے ديکھنے پر چوٹ کرگئ۔ “ہاہاہاہا۔۔۔کيا کروں۔۔۔ نظروں پر کس کا زور ہے” محبت سے گندھا لہجہ اسے نروس کرگيا۔ “ميں ابو سے کہتی ہوں۔ آپ کا بيٹا نيم پاگل ہوچکا ہے۔۔ مجھے اس سے خطرے کی بو آرہی ہے پليز مجھے اپنی گاڑی ميں شفٹ کرليں” اسکے ابو کہنے پر وہ چونکا “ابو؟” سواليہ نظروں سے اسکی جانب ديکھا۔ کيونکہ اپنے ابو کو وہ ابا کہتی تھی۔ “ميرے اور آپکے ابو سميع احمد” وہ اسکی حالت سے حظ اٹھاتے ہوۓ بولی۔ “تو کيا۔۔۔۔”واہب کو اپنی حيرت بيان کرنے کے لئے الفاظ نہيں ملے۔ “نہيں خير اب اتنی جلدی بھی ميں ماننے والی نہيں۔۔ رات کو اپنے اجازت نامے کے بعد کچھ کہوں گی” راديا کی بات پر وہ الجھا۔ کچھ دير پہلے کا جو خوشگوار سا احساس تھا وہ يک لخت ختم ہوا۔ تو کيا وہ اب بھی دوريوں کی بات کرے گی۔ اس کے بعد سارا دن وہ الجھا الجھا رہا اور راديا اسکی حالت پر دل ہی دل ميں مسکراتی رہی۔
گھر واپس آتے انہيں رات ہوگئ۔ زيبا اور سميع تو سيدھا اپنے کمرے ميں چلے گۓ۔ جبکہ وہ واہب کے ساتھ کچن ميں آئ۔ “مجھے چاۓ پينی ہے” اسکی فرمائش پر وہ اسے لئے کچن ميں آيا۔ سب چيزيں اسکے پاس رکھين تاکہ اسے بار بار پکڑنے کے لئے زيادہ چلنا نہ پڑے۔ راديا نے پانی ابلتے ساتھ ہی سب چيزيں ڈاليں۔ وہ اسکی ايک ايک حرکت ديکھ رہا تھا۔ ہونٹوں پر قفل لگا تھا۔ يکدم نجانے کيا ہوا۔ آگے بڑھ کر پيچھے سے اسکے کندھے پر سر رکھا۔ “بس کردو يار کب تک يہ سردمہری قائم رکھو گی۔” راديا اس اچانک افتاد کے لئے تيار نہين تھی۔ اتھل پتھل سانسوں کو بمشکل ہموار کيا۔ چہرہ موڑ کر اسکے گھنے بالوں والے سر کو ديکھا۔ “جب تک آپ اجازت نامے پر سائن نہيں کرتے” وہ سرد لہجے ميں بولی۔ واہب نے سرعت سے سر اٹھا کر اسکے چہرے کو دیکھا۔ “سب کچھ مانگ لينا مگر جدائ نہ مانگنا” اسکے لہجے ميں کيا کيا نہ تھا۔ خوف۔۔۔التجا۔۔۔گزارش۔ راديا خاموش رہی چاۓ کپوں ميں انڈيل کر ٹرے واہب نے تھامی اسے لئے کمرے ميں آيا۔ بيڈ پر بيٹھ کر اس نے سائيڈ ٹيبل کے دراز سے ايک کاغذ نکالا واہب نے بيڈ پر بيٹھتے کن اکھيوں سے اس کاغذ کو ديکھا۔ جس کی تہين اب وہ کھول رہی تھی۔ “يہ اجازت نامہ اور شرائط نامہ دونوں ہے” مزے سے پيپر پکڑے رخ واہب کی جانب کئے بولی۔ واہب سانس روکے اسے سن رہا تھا۔ “پہلی شرط۔۔ کبھی مجھے بڑی عمر کا طعنہ نہيں ديں گے” اسکی بات سنتے اس نے چونک کر اسکے چہرے کی جانب ديکھا۔ مطلب وہ زندگی کی شروعات سے پہلے اس سے کچھ منوانا چاہتی تھی۔ اعصاب يکدم ڈھيلے ہوۓ۔ “ڈن” چہکتی آواز پر راديا نے کاغذ سے نظر اٹھا کر اسکے مطمئن چہرے کی جانب ديکھا۔ “مجھے بوتيک بند کرنے کا کبھی نہيں کہيں گے” ڈن اب کی بار واہب نے سر اسکی گود ميں رکھا۔ “فضول ميں ہر وقت اوور نہيں ہوں گے۔۔ ” اس کا اشارہ اسکا سر گود ميں رکھنے کی طرف تھا۔ “ہاہاہا۔۔۔ ہاف ڈن” “ہاف ڈن؟” اس نے سواليہ نظريں اسکے چہرے پر ڈاليں۔ “ہاں نا۔۔۔ اب فضول حرکتيں بيوی کے ساتھ نہ کروں تو کس کے ساتھ کروں” اسکی بات پر اس نے منہ بنا کر دوبارہ کاغذ کو پڑھنا شروع کيا۔ “آخری اور سب سے اہم شرط نہ کسی لڑکی کو ديکھيں گے اور نہ دوسری شادی کی بات کريں گے” “ڈن ہی ڈن ۔۔۔ميری جان” محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر وہ سيدھا ہوا۔ “اس قدر ميرا خون خشک کيا ہے صبح سے۔۔ اور عيد بھی نہيں ملی” وہ منہ پھلاۓ شکايتين کھول چکا تھا۔ “ميری عيدی کا ہوش ہے۔۔ وہ کب دی مجھے؟” وہ الٹا اس پر چڑھ دوڑی۔ “ابھی دوں گا۔ پہلے بتاؤ معاف کرديا مجھے” واہب نے پھر سے تصديق چاہی۔ اس نے اثبات ميں سر ہلايا۔ “وہ سب سہنا آسان نہيں تھا۔ ليکن ميں خود کو اور آپ کو اور اس رشتے کو ايک اور چانس دينا چاہتی ہون۔ آپ کا يوں پلٹ آنا يقينا اللہ کی رضا ہے اور ميں اسکی رضا ميں راضی رہنا چاہتی ہون۔ بس مجھے کبھی پھر سے يوں بے وقعت نہيں کرنا” وہ آس سے اسے ديکھتی اپنا فيصلہ سنا رہی تھی۔ واہب نے محبت سے اسے خود سے سمويا۔ “کبھی بھی نہيں کروں گا۔۔۔بہت دعائيں مانگيں ہين آپ کا دل ميری جانب مائل ہوجانے کی۔ ايک بار پھر سے ان سب تلخيوں کے لئے مجھے معاف کردو۔۔ اصل محبت تو اس رشتے ميں ہے۔۔ عمروں کے فرق ميں کہاں” وہ آنکھيں موندے محبت کو خود پر نچھاور ہوتے دیکھ رہی تھی۔ محسوس کررہی تھی۔