“ایکسکیوزمی سسٹر!” روش پر دھیمے قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی وہ گروپ میں سب سے پیچھے تھی، جب اس نے بینچ پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو اچانک اٹھ کر سسٹر الزبتھ کی طرف بڑھتے اور انھیں روکتے دیکھا تھا- مجھے آپ سے بات کرنی ہے، میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں- اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا- بھیگے لہجے میں کہے گئے اس بلند جملے نے پورے گروپ کو رک جانے پر مجبور کر دیا تھا- وہ بھی باقی سب کی طرح اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی- وہ سفید شرٹ اور سیاہ جینز میں ملبوس سترہ اٹھارہ سال کا ایک دراز قد لڑکا تھا- اس کے سیاہ چمکیلے بال بے ترتیب تھے- شاید اس نے دو تین دن سے شیو بھی نہیں کی تھی- اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں، پلکیں ابھی تک بھیگی ہوئی تھیں- شاید وہ اس بینچ پر کچھ دیر پہلے تک بیٹھا رو رہا تھا- اس کی صاف رنگت کی وجہ سے آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے بہت نمایاں نظر آ رہے تھے- اس نے چند لمحوں میں ہی اس کے پورے سراپا کا جائزہ لے لیا تھا- “یور نیم(آپ کا نام )؟” سسٹر الزبتھ نے کچھ حیرانی سے اس سے پوچھا تھا- “محمد حدید-” اس کے جواب پر ایک لمحے کے لئے اس کا سانس رک گیا تھا- سسٹر الزبتھ نے بے اختیار مڑ کر اس کو دیکھا تھا- چند سیکنڈ کے لیے دونوں کی نظرین ملی تھیں- “میں اس کے متعلق کچھ نہیں کہ سکتی-“ سسٹر الزبتھ یک دم محتاط ہو گئی تھیں- اس کی آواز قدرے مدھم ہو گئی تھی- “آپ کو فادر سے بات کرنا چاہیے-“ انھوں نے اس سے کہا تھا- “اس کے لیے مجھے کہاں جانا چاہیے-“ اس نوجوان کے چہرے کے اضطراب میں اضافہ ہو گیا تھا- سسٹر الزبتھ نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا اور پھر چند قدم آگے بڑھ کر اس نوجوان کو ایک طرف لے گئی تھیں، کچھ دیر وہ دونوں وہاں باتیں کرتے رہے تھے- پھر اس نوجوان نے اپنا والٹ نکال کر سسٹر کو ایک پن اور کارڈ دیا تھا- سسٹر نے کارڈ کی پشت پر کچھ لکھ کر اسے پکڑا دیا تھا- وہ کسی ڈمی کی طرح سب کچھ دیکھتی رہی تھی- “اسے کیا چاہیے ہو گا جس کی طلب اسے———“ اس نے اسے دیکھتے ہوئے سوچنے اور بوجھنے کی کوشش کی تھی- گلے میں پڑی ہوئی سونے کی چین جو اس کے کھلے گریبان سے جھلک رہی تھی اور ہاتھ میں باندھی ہوئی کرسچن ڈائر کی گھڑی اسے کسی معمولی گھرانے کا فرد بھی ظاہر نہیں کر رہے تھے اور اگر روپیہ پاس ہے اور روپیہ کمانے کے لیے کسی باہر کے ملک کے ویزے، وہاں سیاسی پناہ اور پھر نیشنیلٹی کی بھی ضرورت نہیں تو پھر یہ، یہ سب کیوں کرنا چاہتا ہے-“ وہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی- چند منٹوں بعد اس نے اس نوجوان کو والٹ جیب میں ڈال کر واپس اسی بینچ کی طرف جاتے دیکھا تھا اور سسٹر الزبتھ کو اپنی جانب آتے دیکھا تھا- ان کی واپسی پر کسی نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا، روش پر پھر پہلے کی طرح سب کی چہل قدمی شروع ہو گئی تھی مگر وہ وہاں سے جانا نہیں چاہتی تھی- ان لوگوں کے ساتھ چلتے ہو ئے اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا- وہ لڑکا اب بھی اسی بینچ پر بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے چہرہ ڈھانپے بیٹھا ہوا تھا- بے اختیار اس کا دل بھاگ کر اس کے پاس جانے کو چاہا- صرف ایک لمحے کے لیے صرف ایک بات کہنے کے لیے- اس نے مڑ کر اپنے آگے چلتے ہوئے گروپ کو دیکھا تھا اور خود کو بے بس پایا تھا- وہ پیچھے جانا چاہتی تھی، واپس وہیں مگر وہ آگے چلتی جا رہی تھی- اسے پتا تھا یہ روش سیدھا اس پارک سے باہر لے جائے گی- وہ واپس وہاں نہیں آ سکے گی- اسے جو بھی کرنا تھا بہت جلدی میں کرنا تھا مگر اسے آخر کیا کرنا تھا- روش پر چلتے چلتے وہ گھاس پر چلنے لگی تھی، بڑے نہ محسوس طریقے سے اس نے اپنا جوتا اتار دیا تھا اور پھر اسی طرح سب لوگوں کے ساتھ چلتی رہی- ایک بار پھر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا- بہت دور بینچ پر اب وہ ایک نقطے کی صورت میں نظر آ رہا تھا- مگر وہ وہاں تھا- وہ لوگ گیٹ کے پاس پہنچ گئے تھے- “اوہ گاڈ سسٹر! میں اپنا جوتا وہیں گھاس پر بھول آئی، مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ میں ننگے پاؤں چل رہی تھی-” اس نے سسٹر الزبتھ سے کہا تھا- “کہاں اتارا تھا؟” سسٹر نے کچھ تشویش سے دیکھا تھا- “مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ اس درخت کے پاس جو جھاڑی نظر آ رہی ہے وہیں سے گذرتے گذرتے میں نے جوتا اتارا تھا- میرا خیال تھا ہم واپس ادھر سے ہی گزریں گے تو میں جوتا پہن لوں گی مگر پھر آپ نے اس گیٹ سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا- میں بس پانچ منٹ میں لے کر آتی ہوں-” اس نے چلتے ہوئے کہا تھا- وہ واپس مڑ گئی تھی- روش پر چلنے کے بجائے اس نے گھاس پر بھاگنا شروع کر دیا تھا- وہ جلد از جلد اس کے پاس پہنچ جانا چاہتی تھی- چند منٹ بھاگنے کے بعد اس نے سر اٹھا کر اس نظر آنے والے بینچ کو دیکھا تھا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا مگر اب وہ بینچ خالی نظر آ رہا تھا- اسے بے اختیار ٹھوکر لگی تھی- اس بینچ کے قریبی بینچ بھی خالی نظر آ رہے تھے- وہ بے اختیار آگے بھاگتی چلی گئی- اس نے پارک کی روشوں پر چلتے لوگوں میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اسے نظر نہیں آیا تھا- اس نے بے اختیار بھاگ کر گیٹ سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی، اس کی چادر کا ایک کونا گیٹ میں اٹک گیا تھا- وہ اسے چھڑانے میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی، ننگے سر اور ننگے پیر بھاگتی ہوئی وہ گیٹ پار کر کے باہر نکل گئی تھی- گاڑی تب تک ایک زناٹے کے ساتھ ٹرن کر کے سڑک پر پہنچ چکی تھی- جب تک وہ سڑک پر پہنچتی، تب تک کار اس کی پہنچ سے بہت دور ہو چکی تھی- اس نے بے بسی سے دور جاتی ہوئی کار کو دیکھا تھا- پھر ایک ٹھنڈک سی اس کے جسم میں اترتی گئی تھی- پہلی بار اسے احساس ہوا کہ وہ گیٹ کے باہر اور اندر جانے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے- اسے ان نظروں کی پرواہ نہیں تھی- اسے اس وقت کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں تھی- گیٹ کے قریب آتے ہی اس نے چوکیدار کے ہاتھ میں اپنی چادر دیکھ لی تھی- اس نے اسے دیکھ کر چادر اس کی طرف بڑھا دی تھی، ہونٹ بھینچتے ہوئے اس نے چادر لے کر اوڑھ لی تھی- “کیا بات ہے بی بی؟”کیا ہوا ہے؟” چوکیدار متجسس تھا- اس نے جواب نہیں دیا تھا، چپ چاپ اندر چلی گئی تھی- روش سے گھاس پر اتر کر اس نے مطلوبہ جگہ جوتا تلاش کرنے کی کوشش کی تھی- اسے جوتا نہیں ملا یا تو وہ جگہ بھول چکی تھی یا پھر کوئی جوتا اٹھا چکا تھا- چند منٹ وہ گھاس پر بے دلی سے جوتا ڈھونڈتی رہی پھر واپس اس گیٹ کی طرف چل دی جہاں سسٹرز اس کا انتظار کر رہی تھیں- گھاس پر چلتے چلتے اس نے اپنے پیر میں کوئی چیز چھبتی محسوس کی تھی- وہ رک گئی تھی- اس نے پیر اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی تھی- اسے اندازہ نہیں ہوا کہ پاؤں میں کیا چبھا تھا- اب وہ گھاس سے ہٹ کر روش پر چلنے لگی تھی- “تم نے پریشان کر دیا، اتنی دیر؟ میں تو ڈر گئی تھی ابھی تمھارے پیچھے آنے والی تھی-” سسٹر الزبتھ نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا- تبھی ان کی نظر اس کے پیروں پر پر تھی- “کیا ہوا؟ جوتا نہیں ملا؟” انھوں نے کچھ حیران ہو کر پوچھا تھا- اس نے سر کی جنبش سے انکار کیا تھا- سسٹر نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا تھا اور پھر کچھ متفکر ہو گئی تھیں- “تمہیں کیا ہوا ہے؟ اتنی پریشان کیوں ہو؟” “کچھ نہیں ہوا…… سسٹر کچھ بھی نہیں ہوا بس جو ڈھونڈ رہی تھی، وہ نہیں ملا حالانکہ میں نے تو…… یقین کریں میں نے تو بہت کوشش کی تھی پھر بھی پتا نہیں کیوں……..” وہ بڑبڑائی تھی- سسٹر الزبتھ نے اس کی آنکھوں میں امڈتی ہوئی نمی کو دیکھا تھا اور پھر اس کے گال چھوتے ہی ہوئے اسے جیسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی- “کم ان ایک جوتے کے گم ہو جانے پر اتنی پریشانی ، کوئی بات نہیں- ہو جاتا ہے ایسا کئی دفعہ ایسا ہو جاتا ہے مگر اس میں رونے والی کون سی بات ہے؟ ابھی راستے سے دوسرا جوتا خرید لیں گے-“ سسٹر الزبتھ نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا- باقی سسٹرز نے بھی اسے تسلی دی تھی اور پھر اسے چئیر اپ کرنے کی کوشش کرنے لگی تھیں- وہ آنکھوں میں تیرتی ہوئی نمی کو اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرنے لگی تھی- پچھلے کئی دنوں سے وہ سسٹر الزبتھ کے دیئے ہوئے پتے پر جا رہا تھا- فادر جوشوا کے پاس جا کر اس نے انھیں سب کچھ کہ دیا تھا- اس کے ساتھ کیا ہوا تھا- وہ خود کو کیا سمجھ رہا تھا، اس کا ذہنی خلجان- اس نے ہر چیز کھل کر بتائی تھی- فادر جوشوا نے بڑی محبّت اور توجہ سے اس کی ساری گفتگو سنی تھی اور پھر دیر تک اسے اولڈ اور نیو ٹیسٹمنٹ سے کچھ چنی ہوئی باتیں بتاتے رہے- حضرت عیسٰی کی مسیحائی اور معجزات، مدر میری کی بے گناہی اور پاکبازی، ان کی آزمائش، حضرت عیسٰی کی تنہا زندگی جو انھوں نے لوگوں کے لیے وقف کر دی تھی اور پھر ان ہی لوگوں کے ہاتھوں ان کا دار پر چڑھایا جانا، وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح ان کی باتیں سنتا رہا- پہلی بار اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ یہی سب کچھ سننا چاہتا تھا- یہی سب کچھ جاننا چاہتا تھا- یہی سب کچھ محسوس کرنا چاہتا تھا- “مجھے کچھ نہیں چاہیے فادر! میں کسی financial gains (مالی مفاد) کے لیے ادھر نہیں آیا، میں تو صرف سکون چاہتا ہوں- mental composure ذہنی یکسوئی کی ضرورت ہے مجھے اور وہ سب کچھ مجھے اپنے مذہب سے نہیں ملا- مجھے لگتا ہے یہ سب کچھ مجھے یہاں مل جائے گا- میں چاہتا ہوں مجھے رات کو نیند آ جائے، میں سب کچھ بھلا دینا چاہتا ہوں، میں کسی چیز کے بارے میں سوچنا ہی نہیں چاہتا-“ وہ بول رہا تھا اور فادر جوشوا ملائمت سے مسکرا رہے تھے تم ہر چیز حاصل کر لو گے میرے بچے ہر چیز- مگر کچھ انتظار کرنا ہو گا تمہیں اور اس وقت کے دوران تم جتنے ثابت قدم رہو گے تمہاری آئندہ زندگی اتنی ہی اچھی ہو گی-“ “فادر میں کروں گا-” اس نے اضطراب سے فادر جوشوا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تھا- انھوں نے ہاتھ سے اس کے ہاتھ کو نرمی سے تھپکا تھا- “فادر! میں جانتا ہوں- میں روز آپ کے پاس آ کر آپ سے کرنا چاہتا ہوں- آپ سے بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں-” اس نے ان سے اجازت لینا چاہی تھی- “شیور تم ہر روز میرے پاس آ جایا کرو-“ اور اس دن کے بعد سے وہ ہر روز ان کے پاس جا رہا تھا- ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ ان کے پاس بیٹھا رہتا، پھر اٹھ کر آ جاتا- مگر اس ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں اس کے اندر بہت کچھ بدل جاتا تھا- اسے اپنے ہر سوال کا جواب وہاں مل جاتا تھا- اس کا ڈپریشن اور فرسٹریشن مکمل طور پر تو ختم نہیں ہوا تھا لیکن کم ضرور ہو گیا تھا- فادر جوشوا نے اسے کچھ دوسرے پادریوں اور سسٹرز سے بھی ملوایا تھا اور ان سب سے مل کر اسے یوں لگتا تھا جیسے اس کا ہاتھ پکڑنے اس کی مدد کرنے کے لیے بہت سے لوگ موجود تھے اور ہر ایک پہلے سے زیادہ مخلص تھا- اسے اپنی نئی دنیا بہت اچھی لگ رہی تھی- چند ہفتوں میں وہ بڑی حد تک بدل چکا تھا- ابھی اس نے باقاعدہ طور پر مذہب تبدیل نہیں کیا تھا- ابھی فادر جوشوا کی دی ہوئی کتابیں اور پمفلٹس پڑھتا رہتا تھا- چند ہفتوں کے اندر مذہب تبدیل کرنے کا اس کا فیصلہ مستحکم ہو گیا تھا- جو تھوڑی بہت جھجھک تھی وہ بھی اب ختم ہو گئی تھی- ایک ڈیڑھ ہفتے تک باقاعدہ طور پر وہ اپنا مذہب تبدیل کرنے والا تھا- 31 دسمبر کی رات کو Thanks giving prayer کے لیے وہ کیتھڈرل آیا تھا- وہ کئی دنوں سے باقاعدہ چرچ جا کر سروس اٹینڈ کر رہا تھا مگر کیتھڈرل وہ پہلی بار آیا تھا- سروس ابھی شروع نہیں تھی- لوگوں کا رش اندر آ جا رہا تھا- پوری کیتھولک کمیونٹی وہاں اکھٹی ہوئی تھی کم از کم جو شہر میں تھے- غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود تھی- کیتھڈرل کے لانز میں بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی جو سروس اٹینڈ کرنے کا بجائے خوش گپیوں میں مصروف تھی کیونکہ سال کا آخری دن تھا اور نیو ائیر کی تقریبات پہلے ہی شروع ہو چکی تھیں- وہ طائرانہ نظروں سے سب لوگوں کا جائزہ لیتے ہوئے چرچ میں داخل ہو گیا تھا- بنچوں کی قطاروں پر نظر ڈالتے ہوئے اس نے اپنے لیے کوئی خالی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی تھی- اگلی قطاروں میں کچھ جگہ اسے نظر آ ہی گئی تھی- وہ ایک بینچ پر جا کر خاموشی سے بیٹھ گیا- دعا کی کتاب نکال کر اس نے ہاتھ میں لے لی تھی- کچھ دیر تک وہ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کتاب بند کر دی- ایک عجیب سے اداسی اس کے وجود پر چھا رہی تھی، اسے اپنا آپ اس ماحول کا حصہ نہیں لگ رہا تھا- وہ سب پیدائشی عیسائی تھے اور وہ پیدائشی مسلمان تھا- ان میں سے ہر ایک اسے خود سے سپیریئر لگ رہا تھا- وہ بہت سے کمپلیکسز کا شکار تھا مگر اس طرح احساس کمتری اسے پہلی بار ہو رہا تھا- سروس کی تیاری جاری تھی- اس پر ایک عجیب سی تھکن سوار تھی، بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں-تب ہی اسے احساس ہوا تھا اس کے بائیں جانب کوئی آ کر بیٹھا تھا- اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھیں- جانتا تھا آھستہ آھستہ تمام بینچیں لوگوں سے بھر جائیں گی- “بہت اچھا لگ رہا ہے یہاں؟” اس نے اپنے قریب ایک مدھم پر سکون مگر اجنبی آواز سنی تھی- اس نے اب بھی آنکھیں نہیں کھولی تھیں- “شاید یہ جملہ کسی اور سے کہا گیا ہے-” اس نے سوچا تھا- “آج کی شام میری زندگی کی سب سے اچھی شام ہے حدید!” آواز وہی تھی مگر اس بار اس کا نام بھی لیا گیا تھا- اس نے برق رفتاری سے آنکھیں کھول کر اپنے بائیں جانب دیکھا تھا- اس کے بہت قریب سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک لڑکی بالکل اسی کی طرح بینچ کی پشت سے ٹیک لگائے اور آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی- سیاہ چادر اس کے سر کو ڈھانپے ہوئے تھی- سیاہ چادر کی اوٹ میں سے نظر آنے والے چہرے پر عجیب طرح کا سکون اور ٹھہراؤ تھا- مگر اس کیفیت کے بغیر بھی وہ بے حد خوبصورت نظر آتی- اس نے گہری نظروں سے اس کا جائزہ لیا تھا اور پھر الجھن کا شکار ہو گیا تھا- وہ لڑکی اب آنکھیں بند کیے ٹیک لگائے خاموش تھی اور وہ سوچ رہا تھا کیا واقعی وہ اس سے مخاطب ہوئی تھی یا اسے غلط فہمی ہو گئی تھی- وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا- اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ پوچھتا دفعتاً اس نے آنکھیں کھول دی تھیں مگر اس کی طرف دیکھنے کی بجائے وہ سامنے لگے ہوئے ہولی کراس کو دیکھ رہی تھی- “اس دن میں نے سوچا تھا میں دوبارہ کبھی تمہیں دیکھ نہیں پاؤں گی اور دوبارہ نہ دیکھتی تو–“ وہ سامنے دیکھتے ہوئے اسطرح بولی تھی جیسے کوئی سرگوشی کر رہی ہو- حدید اب واقعی الجھن کا شکار ہو گیا تھا- “دیکھیں میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے- میرا خیال ہے ہم پہلے کبھی نہیں ملے اور نہ ہی مجھے سمجھ میں آ رہا ہے کہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا؟ کیا آپ اپنا انٹروڈکشن کروائیں گی-“ اس بار پہلی دفعہ اس نے اپنی نظرین ہولی کراس سے ہٹاتے ہوئے اس پر مرکوز کر دی تھیں- حدید نے زندگی میں بہت سی آنکھیں دیکھی تھیں- ایسی آنکھیں جو پہلی نظر میں ہی بندے کو ہپناٹائز کر لیتی ہیں، ایسی آنکھیں جنھیں آپ بار بار دیکھنا چاہتے ہیں، ایسی آنکھیں جو سب کچھ کہہ دیتی ہیں، جو کوئی راز بھی نہیں رہنے دیتیں، ایسی آنکھیں جنھیں دیکھ کر یہ خیال آتا ہے کہ شاید دنیا انہی آنکھوں کو دکھانے کے لیے بنائی گئی ہے- ہنسنے والی آنکھیں دل میں اتر جانے والی نظرین- سحرزدہ کر دینے والی نگاہیں- مگر اس نے کبھی بھی اتنی اداس آنکھیں نہیں دیکھی تھیں- جب وہ آنکھیں بند کے بیٹھی تھی تو وہ سوچ رہا تھا کہ اس کی پلکیں بہت خوبصورت ہیں- جب اس نے آنکھیں کھولی تھیں تو اس نے دیکھا تھا کہ آنکھوں کا رنگ بھی بہت خوبصورت تھا- ڈارک بلیک مگر اب اس کی نظر نہ دراز پلکوں پر تھی نہ آنکھوں کے رنگ پر بلکہ صرف اداسی پر تھی جو آنکھوں میں تھی- وہ کچھ پزل ہو گیا تھا- “آپ نے مجھے اس لئے نہیں پہچانا کیونکہ آپ نے مجھے کبھی دیکھا ہے نہ مجھ سے ملے ہیں- مگر میں آپ کو اس لیے پہچانتی ہوں کیونکہ آپ کو دیکھ بھی چکی ہوں اور آپ سے مل بھی چکی ہوں حدید-“ کرسٹینا نے ایک گہری سانس لی تھی- “اس دن میں نے آپ کو پارک میں دیکھا تھا- آپ سسٹر الزبتھ پاس آئے تھے-“ اس نے حدید کو یاد دہانی کروائی تھی- حدید نے غور سے اسے دیکھا مگر پہچان نہیں پایا، اس دن ویسے بھی وہ جس کیفیت میں تھا شاید کسی کو بھی نہ پہچان پاتا اور سسٹرز کے جس گروپ کے پاس وہ گیا تھا، وہ خاصا لمبا چوڑا تھا- اب ان میں یہ لڑکی بھی شامل تھی یا نہیں وہ نہیں جانتا تھا مگر اس نے سر ہلا دیا- “ہاں، ہو سکتا ہے آپ وہاں ہوں- بہرحال میں نے آپ کو نہیں دیکھا-“ سروس شروع ہو چکی تھی- اس نے بشپ کو چبوترے پہ جاتے دیکھا تھا- “کیا آپ کچھ دیر کے لیے میرے ساتھ باہر چل سکتے ہیں؟” حدید نے ایک مدھم سرگوشی سنی تھی- “مگر میں یہاں پر سروس اٹینڈ کرنے آیا ہوں-” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے اس سے کہا تھا- “پلیز-” اس بار اس کی آواز التجائیہ تھی- وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے کھڑا ہو گیا- Nave کی بجائے وہ aisle سے ہو کر باہر آ گئے تھے- باہر بھی لوگوں کا ایک ہجوم تھا- یوں لگ رہا تھا جیسے آوازوں اور قہقہوں کا ایک طوفان آیا ہوا تھا- “میرے ساتھ آؤ-” باہر آتے ہی اس نے کرسٹینا کو کہتے سنا تھا- وہ خاموشی سے اس کے پیچھے چل پڑا- وہ اسے کیتھڈرل کے عقبی حصہ میں لے آئی تھی- اس طرف نسبتاً خاموشی تھی- وہ وہاں موجود ایک بینچ پر بیٹھ گئی- حدید اسے دیکھتا ہوا اسی بینچ پر بیٹھ گیا- بینچ کے قریب لیمپ پوسٹ کی روشنی نے ان دونوں کو بہت نمایاں کر دیا تھا- “تم کرسچن کیوں ہونا چاہتے ہو؟” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا تھا- “تم مسلمان کیوں ہونا چاہتی ہو؟” سوال کا جواب سوال سے دیا گیا تھا- “کیونکہ یہ سچا مذہب ہے-“ “میں بھی Christianity (عیسائیت) کے بارے میں یہی سوچتا ہوں-“ “تم غلط سوچتے ہو، اسلام کے علاوہ کوئی مذہب سچا نہیں ہے-“ “کیا میں بھی یہ کہوں کہ تم غلط سوچتی ہو، Christianity (عیسائیت) کے علاوہ کوئی ریلیجن (مذہب) سچا نہیں ہے-” حدید کی ثابت قدمی اس سے کم نہیں تھی- وہ کچھ بےبسی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی- “تمہیں اپنے مذہب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟” “اگر یہی سوال میں تم سے پوچھوں تو —– تمہیں اپنے مذہب سے اتنی نفرت کیوں ہے؟” حدید نے ایک بار پھر اس کے سوال کا جواب سوال سے دیا تھا- “مجھے اپنے مذہب سے نفرت نہیں ہے-” کرسٹینا نے ہلکی آواز میں کہا تھا- “پھر بھی تم اپنا مذہب چھوڑ دینا چاہتی ہو؟” وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی تھی- “اس لیے چھوڑ دینا چاہتی ہوں کیونکہ میں نے سچائی پا لی ہے-“ “کون سی سچائی، کیسی سچائی؟ مجھے تو آج تک اپنے مذہب میں کوئی سچائی نظر نہیں آئی- مجھے اگر کہیں سچائی نظر آئی ہے تو تمھارے مذہب میں-” وہ جیسے یک دم پھٹ پڑا تھا- “بعض دفعہ جو چیز آپ کو نظر آتی ہے وہ فریب ہوتا ہے نظر کا دھوکہ اور جب تک یہ بات پتا چلتی ہے بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے- اتنی دیر کہ نہ آپ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے- میں چاہتی ہوں حدید! تمھارے ساتھ یہ نہ ہو-“ حدید نے اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے مگر اس کی آواز میں لرزش تھی- وہ بے یقینی کے عالم میں اسے دیکھنے لگا تھا- “آخر یہ میری اتنی ہمدرد کیوں بن رہی ہے؟”اس نے تلخی سے سوچا تھا۔
بازار میں آپ جب بھی جاتے ہیں وہاں ملنے والی سب سے اچھی چیز ہی خریدنا چاہتے ہیں- سب سے پسندیدہ چیز ہی پانا چاہتے ہیں- تم خوش قسمت ہو، تمہیں کسی بازار میں جانا نہیں پڑا مگر پھر بھی تمھارے پاس سب سے بہتر چیز ہے- اسلام تمہارا مذہب، تمہارا دین — حضرت محمد صلى الله عليه وسلم تمھارے پیغمبر اور الله تمہارا رب اکیلا، واحد اور اب تم بہترین چیز چھوڑ کر ———-” حدید نے ترشی سے اس کی بات کاٹ دی تھی- “کرسٹینا! مذہب بازار میں رکھی ہوئی کوئی چیز نہیں ہوتا- مذہب سکون دیتا ہے، اطمینان دیتا ہے- اگر کوئی مذہب یہ چیز نہیں کر پاتا تو اسے کیوں چھوڑا نہ جائے، دوسرا مذہب کیوں نہ اختیار کیا جائے؟ یہ سارے مذہب خدا کے بنائے ہوئے ہیں، ہر ایک الله کی تلاش ہی کرواتا ہے- اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں مسلم رہوں یا کرسچن بن جاؤں یا پھر کوئی تیسرا مذہب اختیار کر لوں-“ “فرق پڑتا ہے حدید بہت فرق پڑتا ہے- تم محمد صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر عیسٰی کے Follower (پیروکار) بننا چاہتے ہو- تم خدا کی واحدنیت کو چھوڑ کر Trinity پر ایمان لانا چاہتے ہو، تم ہر چیز replace کرنا چاہتے ہو —– ہر چیز پیغمبر، دین، خدا —– تم سب کچھ غلط کرنا چاہتے ہو سب کچھ غلط کر رہے ہو- مجھے صرف یہ بتاؤ کہ محمد صلى الله عليه وسلم کا نام نہیں لو گے تو زندہ کیسے رہو گے- تم ان کے بارے میں سوچو گے نہیں تو سانس کیسے لو گے- تم ان کی جگہ کسی دوسرے کو کیسے دے دو گے- چرچ کے اوپر لگا ہوا وہ کراس نظر آ رہا ہے تمہیں؟ تمہیں پتا ہے وہ کیا ظاہر کر رہا ہے؟ اگلی بار جب تم اپنے سینے پر کراس بناؤ گے تو پتا ہے تم کیا کر رہے ہو گے- تم الله کا نام لے رہے ہو گے؟ تم اس کو یاد کرو گے؟ نہیں حدید! تم جسے یاد کرو گے وہ خدا نہیں ہو گا، خدا تو واحد ہوتا ہے، ایک ہوتا ہے، یکتا ہوتا ہے-“ کرسٹینا نے بلند آواز میں بات کرتے کرتے اپنا ہاتھ اٹھایا اور حدید کے سینے پر ہولی کراس بنایا تھا- “تم کہو گے… Father son and the holy spirit “کیا تم جانتے ہو تم کیا کر رہے ہو؟ کیا تمہاری فیملی جانتی ہے تم کیا کر رہے ہو؟” وہ ابھی خاموش ہونا نہیں چاہتی تھی، وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی- بہت کچھ بتانا چاہتی تھی- مگر اسے یک دم چپ ہونا پڑا تھا- وہ یک ٹک اس کا چہرہ دیکھتے دیکھتے اس کی باتیں سنتے سنتے یک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تھا- بالکل بچوں کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے چہرے کو چھپائے وہ اپنے گھٹنوں پر جھک گیا تھا- “تم نہیں سمجھ سکتیں کہ میں کن حالات میں ہوں، کوئی نہیں سمجھ سکتا- تم سب ایک جیسے ہو صرف condemn کر سکتے ہو صرف ریمارکس دے سکتے ہو، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں…. کبھی بھی کچھ بھی نہیں-“ وہ روتے ہوئے بلند آواز میں کہ رہا تھا- اس نے زندگی میں کسی مرد کو روتے نہیں دیکھا تھا اور اس طرح بچوں کی طرح بلند آواز میں رونا وہ نہیں جانتی تھی کسی روتے ہوئے کو کس طرح چپ کروایا جاتا ہے اور اگر رونے والا مرد ہو تو پھر…. پھر کس طرح اسے دلاسا دیا جانا چاہیے- وہ بے بسی سے اسے روتے بلکتے ہوئے دیکھتی رہی- وہ کہہ رہا تھا- کاش میں پیدا نہ ہوتا، کاش میں مر سکتا- ایک سرد لہر اس کے وجود سے گزر گئی تھی، کرسٹینا کو کوئی یاد آیا تھا- کاش میں تمھارے لئے ہی ہوتی، صرف تمہارے لیے- کسی کی آواز اس کے ذھن میں لہرائی تھی- وہ بے اختیار حدید پر جھک گئی تھی- وہ اب اس آواز اس چہرے کو یاد نہیں کرنا چاہتی تھی کبھی بھی- “حدید پلیز، مت روؤ -“ اس نے ایک ہاتھ اس کی پشت پر پھیلا دیا تھا- دوسرے ہاتھ سے وہ اس کا سر سہلانے لگی تھی بالکل بچے کی طرح، وہ چپ نہیں ہوا تھا- وہ روتا رہا تھا- بلک بلک کر یوں جیسے وہ زندگی میں پہلی بار رو رہا تھا- کرسٹینا کو پتا نہیں چلا وہ کتنی دیر اس کے پاس بیٹھی اس کر سر سہلاتی رہی تھی- پھر آھستہ آھستہ اس کا لرزتا ہوا وجود ساکت ہو گیا تھا اور پھر وہ یک دم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا- کرسٹینا نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹشو سے اس کے بھیگے ہوئے چہرے کو خشک کرنا چاہا تھا- ٹشو گال پر لگتے ہی حدید نے اس کے ہاتھ سے ٹشو لے لیا تھا- اس سے نظریں ملائے بغیر اس نے ٹشو سے اپنی آنکھیں صاف کی تھیں- کرسٹینا نے دیکھا تھا اس کے ہاتھ میں لرزش تھی- “میں تمہیں پانی لا کر دیتی ہوں-” وہ بینچ سے اٹھنے لگی تھی اور تب حدید نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا- “پلیز میرے پاس رہو- میں اس وقت اکیلا رہنا نہیں چاہتا مجھے پانی کی ضرورت نہیں ہے-“ اس کی آواز میں بھی لرزش تھی- کرسٹینا رک گئی تھی- حدید نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا، بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں- وہ بھی خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی- حدید نے اپنی گردن کو تھوڑا سا اس کی طرف موڑا تھا اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگا تھا- “کیا تمہاری فیملی جانتی ہے کہ تم مسلمان ہونا چاہتی ہو؟” کرسٹینا کے لیے اس کا سوال غیر متوقع تھا- “ہاں-” ایک لمحے کی خاموشی کے بعد اس نے نظر چراتے ہوئے اس سے کہا تھا- “کیا انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے؟” کرسٹینا نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا- “نہیں-“ “تم جھوٹ بول رہی ہو-” وہ اسے صرف دیکھ کر رہ گئی تھی- “حدید! کیا تم مجھے بتاؤ گے کہ تم کیوں اپنا مذہب چھوڑنا چاہتے ہو؟” بہت نرم آواز میں اس نے بات کا موضوع بدل دیا تھا- کرسٹینا نے اس کے چہرے پر تھکن دیکھی تھی- حدید نے ایک بار پھر چہرے کو موڑ کر اسے دیکھا تھا اور پھر پہلے کی طرح بینچ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں- اپنی چادر کو اس نے اپنے گرد کچھ اور لپیٹ لیا تھا- پھر اس نے حدید کے چہرے کو دیکھا تھا، وہ اسی طرح آنکھیں بند کے ہوئے تھا مگر اب وہ کچھ کہہ رہا تھا- کرسٹینا نے اس کے چہرے پر نظریں جما دی تھیں- وہ جو کہہ رہا تھا، وہ سن رہی رہی تھی- “اگر میں یہاں نہیں آتا تو میں خود کشی کر لیتا، میں نے کبھی..” وہ کہہ رہا تھا- “دنیا میں تم سے زیادہ ذلیل عورت کوئی دوسری نہیں ہو گی-” اس نے پاپا کو چلاتے سنا تھا- “اور تم سے زیادہ ذلیل مرد کوئی دوسرا نہیں ہو گا-” اس بار اس نے ممی کو پاپا سے بھی زیادہ بلند آواز میں دھاڑتے سنا تھا- اس کا دل چاہا تھا وہ وہاں سے بھاگ جائے اور دوبارہ کبھی وہاں نہ آئے- “میں نے تم سے شادی کر کے زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی تھی- تم جیسی عورتیں ٹائم پاس کرنے کے لیے ٹھیک ہوتی ہیں لیکن ان کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی- کاش میں تم سے کبھی شادی نہ کرتا-“ پاپا نے کئی بار کہا جانے والا جملہ ایک بار پھر دہرایا- وہ کمرے میں جانے کے بجائے لاؤنج میں ہی بیٹھ گیا تھا- کمرے میں ان دونوں کا شور زیادہ نمایاں ہوتا کیونکہ اس کا کمرہ ان کے کمرے کے قریب تھا- “اس شادی پر تمہیں مجھ سے زیادہ پچھتاوا نہیں ہو سکتا- میرے پیرنٹس نے ٹھیک کہا تھا تمہارے پاس صرف روپیہ ہے دماغ نہیں- تمہارا دل اور دماغ دونوں تنگ تھے اور تنگ ہیں- تم لوگ نہ خود خوش رہ سکتے ہو نہ دوسروں کو خوش دیکھ سکتے ہو- اصل میں تم جیلس ہوتے ہو کیونکہ اس شہر، اس ملک میں مجھے جاننے والے لوگ تمہارے جاننے والوں سے زیادہ ہیں-“ “جاننے والے یا چاہنے والے؟” حدید نے سر اٹھا کر کچن کے دروازے کو دیکھا تھا- وہاں ملازم کام میں مصروف تھے، اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی کہ وہ کس حد تک باتیں سن سکتے تھے- اس کے والدین کی آوازیں یقیناً کچن تک جا رہی تھیں مگر ملازمین کے چہرے پر کوئی تاثرات نہیں تھے- وہ حسب معمول کچن میں ادھر ادھر پھر کر معمول کا کام نپٹانے میں مصروف تھے- ان کے لیے یہ آوازیں نئی نہیں تھیں- حدید کی طرح وہ بھی یہ سب کچھ کئی سالوں سے سنتے آ رہے تھے- “ٹھیک ہے چاہنے والے ہی سمجھ لو- تم جیسی تھرڈ کلاس ذہنیت رکھنے والے انسان سے کسی اچھی بات کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے-“ “یہ سب کچھ جو آج تمہارے پاس ہے یہ اسی تھرڈ کلاس ذہنیت والے آدمی کی وجہ سے ہے-“ “تم نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا، جو تم نے مجھے دیا وہ ہر شوہر بیوی کو دیتا ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ دیتا ہے جتنا تم نے مجھے دیا-“ “آئی وش میں نے تمہیں کچھ نہ دیا ہوتا، میں نے تمہیں گھر کے ایک کمرے میں بند رکھا ہوتا تمہیں کبھی باہر نہ جانے دیا ہوتا-” اس نے پاپا کی بات پر ممی کا ایک طنزیہ قہقہ سنا تھا تم بیسویں صدی میں رہتے ہو بلال علی اٹھارویں صدی میں نہیں- تم مجھے قید کیسے کر سکتے تھے- میرے جیسی عورت کو ایک کمرے میں بند کر کے کیسے رکھ سکتے تھے- تم جانتے ہو جس سوسائٹی میں ہم موو کرتے ہیں وہاں تم زرشی کے حوالے سے جانے جاتے ہو تمہاری اپنی کوئی پہچان نہیں ہے وہاں، میری وجہ سے تم کروڑوں کے کنٹریکٹ حاصل……” اس نے پاپا کو ممی کی بات کاٹ کر چلاتے سنا تھا- “میں تمہاری وجہ سے کچھ حاصل نہیں کرتا- تمھارے حوالے سے صرف بدنامی اور رسوائی ملتی ہے مجھے، تمہاری آوارگی کی وجہ سے لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنتا ہوں میں، میں تمھارے حوالے سے پہچانا جانا نہیں چاہتا، تم عذاب بن گئی ہو میری زندگی کے لیے- حدید کاچہرہ سفید ہوتا جا رہا تھا- کچھ بھی نیا نہیں تھا پھر بھی ہر بار ان لفظوں کی اذیت پہلے سے زیادہ ہوتی تھی- “میں آوارہ ہوں تم کیا ہو- تمھارے کارنامے گنوانے بیٹھوں تو صبح ہو جائے گی- دوسروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو تم کیا ہو، تم کیا سمجھتے ہو تمہاری سرگرمیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، سب جانتی ہوں بلال علی سب کچھ جانتی ہوں- تم جس بزنس ٹور کے لیے اپنی سیکرٹری کے ساتھ مری گئے ہوئے تھے میں اس سے بھی واقف ہوں-“ “ہاں گیا تھا لیلیٰ کے ساتھ مری پھر تمہیں کیا تکلیف ہے- ایک بار نہیں دس بار جاؤں گا- خود تم کون سی پارسا ہو، وہ آج کل نیا ماڈل جو ہر وقت ساتھ لیے پھرتی ہو، جانتا ہوں- اس کے ساتھ تمھارے کیسے تعلقات ہیں-“ حدید اپنا سر بے بسی سے ہاتھوں میں لے کر بیٹھ گیا تھا- یہ سب روز نہیں ہوتا تھا کیونکہ ممی اور پاپا کا سامنا روز نہیں ہوتا تھا- وہ کئی کئی دن کے بعد ملا کرتے تھے- کبھی پاپا اپنے بزنس ٹور پر گئے ہوتے اور کبھی ممی اپنے فیشن شوز کے سلسلے میں کئی کئی دن گھر سے باہر رہتیں لیکن جب بھی ان دونوں کا سامنا گھر پر ہوتا تھا وہ یہی سب کچھ کہا اور کیا کرتے تھے- ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایکدوسرے سے نفرت کا اظہر، ایک دوسرے کی خامیوں کو اچھالنا، چیخنا چلانا، گالیاں دینا، برتن توڑنا یا ہر وہ چیز جو ان دونوں کے ہاتھ میں آ جاتی وہ توڑ دیتے- وہ بچپن سے یہی سب کچھ دیکھتا آ رہا تھا- بچپن میں وہ بہت سی باتوں کو زیادہ گہری سے نہیں سمجھتا تھا- والدین کے درمیان ہونے والے ہر جھگڑے کے بعد وہ الله سے دعا کرتا کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے- ان دونوں کے درمیان صلح ہو جائے اور ناراضگی ختم ہو جائے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا اور اگر ایسا کبھی ایسا ہوا بھی تو صرف وقتی طور پر- اس کی ممی شادی سے پہلے ایک ماڈل گرل تھیں شادی کے کچھ عرصہ بعد تک وہ ماڈلنگ کرتی رہیں، پھر حدید کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے انھوں نے ماڈلنگ چھوڑ کر کپڑوں کی ڈیزائننگ کا کام شروع کر دیا- اس کے پاپا ایک مشور بزنس مین تھے- ممی کو انھوں نے ایک کیٹ واک میں ہی دیکھا تھا- اس وقت وہ لندن میں تھیں اور بلال علی بھی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہاں تھے- کیٹ واک کے بعد دونوں میں ایک مختصر ملاقات ہوئی تھی، پھر یہ مختصر ملاقات لمبی ملاقاتوں کی بنیاد بن گئی تھی- ڈیڑھ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہا پھر بلال علی نے باقاعدہ طور پر زرشی کو پرپوز کر دیا- زرشی کے والدین نے کچھ اعتراضات اٹھائے تھے کیونکہ وہ زرشی کو پاکستان میں سیٹل ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے تھے اور بلال علی کو پاکستان ہی آنا تھا کیونکہ یہاں ان کی فیکٹریز تھیں، زرشی نے اپنے والدین کے اعتراضات اور ناپسندیدگی کے باوجود بلال علی سے شادی کر لی تھی کیونکہ اس وقت ان کے سر پر بلال علی کے عشق کا جنون سوار تھا- مگر بعد میں جب وہ باقاعدہ طور پر انگلینڈ چھوڑ کر پاکستان رہنے لگیں تو انھیں احساس ہونے لگا کہ بلال علی ایک بہت ہی کنزرویٹو آدمی تھے کم از کم بیوی کے معاملے میں جبکہ بلال علی کا خیال تھا کہ اس نے زرشی کو جتنی آزادی دے رکھی ہے اتنی آزادی اس خاندان کی کسی دوسری عورت کو حاصل نہیں تھی اور یہ خیال بڑی حد تک ٹھیک تھا- زرشی شادی کے بعد بھی کچھ عرصہ تک ماڈلنگ کرتی رہی، بلال علی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا- حدید کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی مگر وہ گھر بیٹھنے والی عورت نہیں تھی- اس نے باقاعدہ طور پر کپڑوں کی ڈیزائننگ شروع کر دی تھی- شروع میں بلال علی نے ہمیشہ کی طرح اس معاملے میں بھی اسے سپورٹ کیا تھا مگر آھستہ آھستہ جب ان کی مصروفیات میں اضافہ ہونے لگا تو انھیں اعتراض ہونے لگا تھا- وہ رات گئے تک مختلف پارٹیز میں رہتی اور حدید کو گورنس پاس چوڑے رکھتی- بات اگر صرف حدید اور گھر کو نظر انداز کرنے کی ہوتی تو شاید بلال علی برداشت کر لیتے مگر زرشی نے بہت سے بوائے فرینڈز بھی بنا لئے تھے- وہ سارے ماڈلز جو اس کے کپڑوں کے لیے ماڈلنگ کرتے تھے کھلے عام اس کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے تھے- وہ خود بھی گھر پر وقت گزارنے کے بجائے ان لوگوں کے ساتھ خوش رہتی- آھستہ آھستہ اس کے اور بلال علی کے اختلافات ابھر کر سامنے آنے لگے تھے پھر گھر میں جھگڑے شروع ہو گئے تھے- بلال علی خود بھی زیادہ پارسا بندہ نہیں تھا اور یہ بات زرشی اچھی طرح جانتی تھی اور اس کمزوری کو وہ ہر جھگڑے میں طعنہ دیا کرتی تھی- بلال علی اگر اس کے افیئرز اور اسکینڈلز کی بات کرتے تو وہ ان کے افیئرز کی تعداد گنوانے لگتی- وہ زندگی کو اس طریقے سے گزرنا چاہتی تھی جس طرح انگلینڈ میں گزارا کرتی تھی کسی روک ٹوک کے بغیر، اپنی مرضی سے اور بلال علی اس کے راستے میں جیسے ایک بڑی رکاوٹ بن گئے تھے- دوسری طرف بلال علی کو ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی حماقت کا پچھتاوا پہلے سے بھی شدید ہوتا- وہ حدید کے لئے اس کے ساتھ گزارا کر رہے تھے اور اس کے لیے بھی انھوں نے حق مہر میں اسے اپنی جائیداد اور فیکٹری کے شیئرز کا ایک بڑا حصہ دے دیا تھا- اب اگر وہ اسے طلاق دے دیتے تو انھیں مالی طور پر کافی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا اور یہ وہ نہیں چاہتے تھے- انھوں نے زرشی کی طرح گھر سے باہر بہت سی سرگرمیاں تلاش کر لی تھیں- وہ دونوں کسی نہ کسی طرح زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے تھے مگر اپنی اس کوشش میں انھوں نے جس چیز کو بھلا دیا تھا وہ حدید تھا- پیدائش کے کچھ عرصے کے بعد ہی زرشی اور بلال علی نے یہ گورنس بدل کر ایک اور گورنس رکھ دی تھی اور یہ سلسلہ تب تک چلتا رہا جب تک اولیول کے بعد وہ باہر نہیں چلا گیا- گورنس کو بار بار بدلنے سےیہ ہوا کہ وہ کسی کے ساتھ بھی مانوس نہیں ہو پایا اور اس کی زندگی میں رشتوں کی کمی اس کے لئے بڑا عذاب بن گئی تھی- زرشی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اور بلال علی کی صرف دو بہنیں تھیں جو دوسرے شہروں میں سیٹل تھیں- نتیجہ یہ ہوا کہ حدید بیرونی دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گیا تھا- ایک دفعہ اسکول سے گھر آنے کے بعد وہ سارا دن گھر پر ہی رہتا- ٹیوٹر سے ہوم ورک کرتا- کسی دوست سے فون پر بات کرتا- ٹی وی دیکھتا یا بلا مقصد گھر میں پھرتا رہتا- بعض دفعہ وہ کئی کئی دن ماں باپ کا چہرہ بھی نہ دیکھ پاتا کیونکہ صبح وہ جس وقت اسکول جاتا اس وقت وہ دونوں سو رہے ہوتے اور جس وقت شام کو بلال علی فیکٹری سے واپس آتے اور زرشی اپنے بوتیک سے اس وقت عموما وہ اپنے ٹیوٹر کے پاس ہوم ورک کر رہا ہوتا- جب تک وہ ہوم ورک سے فارغ ہوتا تب تک بلال علی اور زرشی دوبارہ اپنی سرگرمیوں کے لیے گھر سے جا چکے ہوتے-بعض دفعہ وہ دونوں اکھٹے چلے لیکن زیادہ تر وہ الگ الگ جایا کرتے تھے- ایسا بہت کم ہوتا تھا کہ حدید نے ناشتہ، لنچ اور رات کے کھانے پر ان دونوں کو اکھٹے دیکھا ہو- چھٹی کے دن بھی ان دونوں کی اپنی مصروفیات ہوتی تھیں- بچپن کی اس تنہائی نے اسے extrovert کی بجائے introvert بنا دیا تھا- وہ بہت خاموش رہا کرتا تھا- ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود کسی سے لڑ نہیں سکتا تھا- بلند آوازوں سے اسے خوف آتا تھا- اس کی کمپنی بھی شروع سے ہی محدود تھی اور وہ دوست بھی اس کے گھر ہونے والی کسی بات سے آگاہ نہیں تھے- حدید کو خوف آتا تھا کہ اگر وہ ان کے ساتھ کچھ شیئر کرے گا تو وہ اس کا مذاق اڑائیں گے صرف اس کا ہی نہیں بلکہ اس کے ماں باپ کا بھی اور وہ یہ سب کچھ نہیں چاہتا تھا- اسی لیے اس نے کبھی اپنے فرینڈز سے ماں باپ کے درمیان ہونے والے جھگڑوں کا ذکر نہیں کیا تھا- آھستہ آھستہ ہی سہی لیکن وہ گھر کے ماحول کا عادی ہو گیا تھا- پہلے کی طرح اب اسے بات بات پر ماں باپ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی- اس نے ہر چیز ان کا بغیر کرنا سیکھ لیا تھا- ہاں مگر بعض دفعہ وہ یہ ضرور سوچتا کہ اس کے ماں باپ اس کے بغیر بھی گزارا کر رہے ہیں پھر انھوں نے اسے پیدا کرنے کی حماقت کیوں کی اور اس وقت اسے اپنا وجود سب سے بے وقعت لگتا- عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں سمجھ آنے لگی تھیں- بعض ایسی حقیقتیں اور سچائیاں بھی جنھیں پہلے اس کا دماغ سمجھنے سے قاصر تھا- اسے مذہب سے کوئی للگاؤ نہیں تھا کیونکہ جس ماحول میں وہ رہتا تھا وہاں مذہب ایک دقیانوسی چیز سمجھی جاتی تھی- بلال علی اور زرشی دونوں بہت لبرل تھے شاید یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہو گا کہ وہ دونوں صرف نام کی حد تک مسلمان تھے- وہ دونوں اپنے اصولوں اور خواہشات کے مطابق اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے اور جس سوسائٹی میں وہ رہتے تھے، وہاں کبھی بھی کسی کو خدا کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی تھی- وہاں کام نکلاوانے کے لیے یا تو روپے کی ضرورت ہوتی تھی یا تعلقات کی اور یہ دونوں چیزیں لوگوں کو زمین پر مل ہی جاتی تھیں- اس لئے کسی کو خدا کے سامنے گڑگڑانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی- بلال علی اور زرشی نے یہی “مذھبی آزادی” حدید کو بھی دی تھی- بچپن میں اسے ایک مولوی صاحب نے گھر آ کر قران پاک پڑھا دیا تھا، تب اس کی عمر نو سال تھی- بلال علی کا خیال تھا انھوں نے مذہب سے متعلق اپنے سارے فرائض ادا کر دیے تھے- حدید نے کبھی بھی نماز پڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی مگر ہر بار جب اس کے امتحانات ہو رہے ہوتے یا جب زرشی اور بلال علی میں بہت زیادہ جھگڑا ہوتا تو وہ لاشعوری طور پر خدا سے سب کچھ ٹھیک ہو جانے کی دعا ضرور کرتا مگر کبھی بھی اسے یہ نہیں لگا تھا کہ اس کی دعا قبول ہوئی تھی- بلال علی اور زرشی کے جھگڑے ہمیشہ اسی رفتار کے ساتھ ہوتے رہے تھے اور امتحان میں وہ ہمیشہ دوسری یا تیسری پوزیشن ہی لے پاتا- پہلی پوزیشن صرف ایک خواب ہی رہی تھی- مگر وہ پھر بھی اکثر خدا سے دعا ضرور منگا کرتا تھا- خاص طور پر تب جب وہ بہت تنہائی محسوس کر رہا ہوتا- او لیولز میں پہنچنے تک وہ بہت میچور اور سنجیدہ ہو چکا تھا اور او لیولز کے دوران ہی اس کی زندگی میں بھی ایک بہت بڑی تبدیلی آئی تھی- اس رات وہ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں گیا تھا جب ملازم اس کے پیچھے ہی آ گیا تھا- “آپ کا فون ہے-“ اس نے حدید کو اطلاع دی تھی- حدید باہر لاؤنج میں آ گیا تھا- اس کے دوست اکثر اسی وقت فون کیا کرتے تھے- اس رات بھی اس نے یہی سوچ کر فون اٹھایا تھا کہ اس کے کسی دوست نے اسے رنگ کیا ہو گا مگر رسیور سے آنے والی آواز سن کر اسے جھٹکا لگا تھا، وہ کوئی لڑکی تھی۔