“کیسے ہو حدید؟” آواز میں بلا کی بےتکلفی تھی- وہ کچھ حیران ہوا تھا- “سوری میں نے آپ کو پہچانا نہیں-” اس نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا تھا- “اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے-” دوسری طرف سے جواب بڑے شرارت آمیز لہجے میں دیا گیا تھا- وہ چند لمحوں کے لیے کچھ بول نہیں سکا- “دیکھیں میں نے واقعی آپ کو نہیں پہچانا، آپ پلیز اپنا نام بتا دیں-” اس نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا تھا- “تم مجھے کسی بھی نام سے بلا سکتے ہو-“ حدید اس بار جواب سے کچھ اور الجھا تھا- “چلو پریشان مت ہو، تم مجھے ٹینا کہ سکتے ہو-” وہ شاید اسکی الجھن سمجھ گئی تھی- “لیکن میں تو کسی ٹینا کو نہیں جانتا-“ “کوئی بات نہیں- آھستہ آھستہ جان جاؤ گے- میں نے اسی لئے تو فون کیا ہے-“ “دیکھیں آپ کو شاید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے- آپ مجھے بتائیں آپ نے کس نمبر پر رنگ کیا ہے؟” دوسری طرف سے اس لڑکی نے پورے اطمینان سے گھر کا فون نمبر بتا دیا تھا- اب اس بات میں تو کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ اس نے پوری طرح سوچ سمجھ کر ہی وہاں فون کیا تھا- “اگر چاہو تو گھر کا پتا بھی بتا سکتی ہوں-“ دوسری طرف سے فون نمبر بتانے کے بعد کہا گیا تھا اور پھر حدید کے گھر کا پتا اس لڑکی نے دہرایا تھا- فوری طور پر حدید کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے، لڑکی اس کا ایڈریس تک جانتی تھی اور کیا کیا جانتی تھی- “آپ کیا چاہتی ہیں؟” اس نے بے حد محتاط ہو کر پوچھا تھا- “بہت سی چیزیں….. سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ مجھے آپ کے بجائے تم کہہ کر مخاطب کرو- دوسری چیز یہ کہ مجھ سے باتیں کرو بالکل دوست کی طرح یوں جیسے ہم بہت دیر سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں-“ “دیکھیں آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں- میں ایسا ویسا لڑکا نہیں ہوں-“ “لیکن میں ایسی ویسی لڑکی ہوں-” دوسری طرف سے قہقہ لگا کر کہا گیا تھا- حدید نے فون بند کر دیا تھا لیکن رسیور کریڈل پر رکھتے ہی ایک بار پھر فون کی گھنٹی بجنے لگی تھی- حدید نے کچھ ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا تھا اور اس کا خدشہ درست تھا- دوسری طرف پھر وہی تھی- حدید نے اس بار فون بند کرنے کے بعد رسیور کریڈل پر نہیں رکھا- اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ بہت دیر تک نہیں سو سکا تھا- یہ اس کی زندگی میں پہلی بار ہوا تھا کہ اس طرح کی کوئی لڑکی اس سے یوں بات کرتی- اسے حیرانگی ہو رہی تھی کہ وہ لڑکی اس کا نام اور گھر کا پتا کیسے جانتی تھی اور آخر وہ کیا چاہتی تھی- وہ بہت دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا تھا- وہ کیا چاہتی تھی اگلے چند دنوں میں اس پر واضح ہو گیا تھا- ایک بار اسکول سے گھر آنے کے بعد فون کی گھنٹی بار بار بجتی رہی- اس نے ملازم کو کہہ دیا تھا کہ کسی لڑکی کے فون پر اسے نہ بلائے لیکن اس لڑکی کے پاس شاید فون کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا- وہ اس وقت تک فون کرتی رہتی جب تک مجبور ہو کر ملازم حدید کو نہ بلا لاتا- کچھ دیر وہ جھلاتا، اسے جھڑکتا- اس کی گفتگو سنتا رہتا اور پھر وہ فون بند کر دیتا- وہ اس سے عجیب احمقانہ باتیں پوچھتی رہتی تھی جیسے آج تم نے لنچ پر کیا کھایا ہے؟ کس طرح کے کپڑے پہنے ہیں؟ رات کو کھانے میں کیا کھاؤ گے؟ ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھا ہے- وہ اس کے سوالوں سے اکتا جاتا مگر وہ مسلسل سوال کرتی رہتی اور وہ مجبوراً جواب دیتا رہتا- اسے اندازہ نہیں ہوا کب کیوں اور کیسے مگر اسے لڑکی کے فون کی عادت ہو گئی تھی اور اس بات کا پتا اسے تب چلا تھا جب ایک دن اس کا فون نہیں آیا تھا- وہ لاشعوری طور پر اس کے فون کا انتظار کرتا رہا تھا- مگر وقت آھستہ آھستہ گزرتا گیا تھا- ایک گھنٹہ، دو گھنٹے تین گھنٹے اور پھر شام ہو گئی تھی اور رات دس بجے تک وہیں لاؤنج میں فون کے وہ پاس بیٹھا رہا تھا مگر فون نہیں آیا تھا- اس رات اس نے سوتے وقت خود کو پہلے سے بھی زیادہ اداس، تنہا اور بے چین محسوس کیا تھا- پھر تین دن تک اس کی یہی حالت رہی تھی- اس لڑکی نے تین دن تک فون نہیں کیا تھا اور وہ تین دن دن میں فون کے علاوہ جیسے سب کچھ بھول گیا تھا- اسکول سے آنے کے بعد وہ سارا دن وہیں لاؤنج میں فون کا انتظار کرتا رہا اور تب پہلی بار اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس لڑکی آواز اور فون کال اس کی زندگی کا کتنا اہم حصہ بن چکا تھا- چوتھے دن جب وہ اسکول سے گھر آیا تھا اور لنچ کر رہا تھا تو اس نے لاؤنج میں فون کی گھنٹی سنی تھی- وہ بے اختیار چمچ پلیٹ میں پھینک کر بھاگتا ہوا لاؤنج میں گیا تھا- فون پر وہی آواز تھی- “تین دن سے کہاں تھیں تم؟” وہ آواز سنتے ہی چلایا تھا- دوسری طرف اس نے قہقہ لگایا تھا- “اس کا مطلب ہے کہ تم نے میری کمی محسوس کی؟” وہ چپ ہو گیا تھا- وہ سچ کہ رہی تھی- “بتاؤ خاموش کیوں ہو؟ تم نے مس کیا مجھے؟” وہ ہنستے ہوئے پوچھ رہی تھی- “ہاں- میں نے تمہیں بہت مس کیا- تم کہاں تھیں؟” اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا- “میں مری گئی تھی اپنی فیملی کے ساتھ-“ “مگر تم مجھے بتا تو سکتی تھیں یا کم از کم وہاں سے فون تو کر سکتی تھیں-” اس نے احتجاج کیا تھا- “اگلی دفعہ میں تمہیں بتا کر جاؤں گی-” اس نے جیسے حدید کو تسلی دینے کی کوشش کی تھی- حدید خاموش ہو گیا تھا- اور ان تین دنوں کے بعد حدید کی زندگی میں سب کچھ بدل گیا تھا- چودہ سال کی عمر میں وہ جس سے محبت میں گرفتار ہوا تھا وہ اس سے ایک سال بڑی تھی مگر حدید کو اس بات کی پرواہ نہیں تھی- شروع میں ان دونوں کی گفتگو صرف فون پر ہوا کرتی تھی اور پھر آھستہ آھستہ ٹینا نے اسے بتا دیا تھا کہ وہ اسی کے اسکول میں پڑھتی تھی- حدید اسے دوسرے لڑکوں سے مختلف لگا تھا اور اس کا دل چاہا تھا کہ وہ اس سے دوستی کرے اور پھر اس نے حدید کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنی شروع کر دی تھی اور نتیجہ وہ فون کال تھی جو اس نے پہلی بار حدید کو کی تھی- وہ دونوں اب اسکول میں بھی ملا کرتے تھے اور پھر آھستہ آھستہ یہ ملاقاتیں گھر سے باہر بھی ہونے لگی تھیں- اسے ٹینا کی ہر بات پسند تھی- ہر انداز بھاتا تھا- وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جنہیں آسانی سے بھلایا جا سکے- پہلی بار جس کے ساتھ حدید نے اپنی ہر بات شیئر کی تھی ، وہ ٹینا ہی تھی- اس نے اسے ہر بات بتا دی تھی- اپنا بچپن، اپنی تنہائی، اپنی خواہشات اور…… اور اپنے والدین، اس نے ہر ایک کے بارے میں اسے سب کچھ بتا دیا تھا- وہ ہمیشہ بڑی ہمدردی سے اس کی باتیں سنتی اور اسے تسلیاں دیتی رہتی- خود وہ بھی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی- اس کے ڈیڈی بھی بزنس کرتے تھے اور اس کی ممی بھی کافی سوشل تھیں- لیکن حدید کی ممی کی طرح وہ گھر سے باہر بہت زیادہ ایکٹو نہیں تھیں اور نہ ہی انھوں نے گھر کو اس کی ممی کی طرح بالکل نظر انداز کیا ہوا تھا- لیکن اس کے باوجود وہ بھی اسی تنہائی اور ڈپریشن کا شکار تھی جس کا سامنا حدید کر رہا تھا- دونوں گھنٹوں بیٹھے ایک دوسرے کو اپنے گھر اور گھر والوں کے حالات بتاتے رہتے- “کیا بات ہے حدید؟ بہت پریشان ہو؟” اس دن بریک میں ٹینا نے اسے دیکھتے ہی پوچھا تھا- “پاپا ممی کو طلاق دینا چاہتے ہیں-“ “دینے دو، یہ ان کا مسئلہ ہے- تم کیوں پریشان ہو رہے ہو؟” حدید نے حیرانی سے ٹینا کے اطمینان کو دیکھا تھا- “ٹینا! یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے- یہ میرا مسئلہ ہے- وہ میرے پیرنٹس ہیں-“ “تو پھر؟” “میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا-” ٹینا سنجیدگی سے کچھ دیر اسے دیکھتی رہی تھی- “ہاں اس حقیقت کے باوجود کہ…” حدید نے اس کی بات کاٹ دی تھی- “انہوں نے ہمیشہ مجھے نظر انداز کیا ہے، میں چاہتا ہوں کہ وہ اکھٹے رہیں-“ “صرف تمھارے چاہنے سے کیا ہو گا- وہ تم سے پوچھ کر تو کوئی فیصلہ نہیں کریں گے-“ “پھر مجھے بتاؤ ٹینا! میں کیا کروں- میں ان دونوں کے بغیر نہیں رہ سکتا-میں ان میں سے کسی ایک کو بھی کھونا نہیں چاہتا-” اس نے بےچارگی سے کہا تھا- “حدید! برے والدین سے ایک اچھا باپ بہتر ہے- جس طرح کی زندگی تم گزار رہے ہو اس سے بہتر ہے کہ تم ان دونوں کو الگ ہو جانے دو کم از کم تمہیں ان روز روز کے جھگڑوں سے تو نجات مل جائے گی-“ “ٹینا! تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتیں، تم کچھ بھی نہیں سمجھ سکتیں-وہ اکھٹے رہیں گے تو کبھی نہ کبھی ایک دوسرے کو سمجھ جائیں گے-کبھی نہ کبھی ایک دوسرے کی عزت کرنے لگیں گے- ڈائی ورس ہونے کے بعد تو مجھے خوف آتا ہے ٹینا وہ الگ ہو جائیں گے تو میرا کوئی گھر نہیں رہے گا- وہ دونوں اپنی نئی دنیا میں مصروف ہو جائیں گے وہ مجھے بھول جائیں گے-“ ٹیینا نے اسے ہمدردی سے دیکھا تھا- اسے حدید پر ترس آ رہا تھا- “انہیں جو کرنا ہے وہ کریں گے تمہارے کہنے سے کوئی نہیں رکے گا- تم بڑے ہو رہے ہو، تمہیں میچور ہو جانا چاہیے، حقیقت کا سامنا کرنا چاہیے- ان کے درمیان ہم آہنگی ہونی ہوتی تو بہت پہلے ہو جاتی، سولہ سترہ سال ایک لمبا عرصہ ہوتا ہے جو کپل اتنا عرصہ اکھٹے رہنے کے بعد بھی اس طرح کی زندی گزاریں، وہ اگلے سولہ سترہ سال بھی اسی طرح گذرتے ہیں- تم ان دونوں کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو پریشان مت کرو، تم اپنی زندگی کے بارے میں سوچو اپنے لئے ایکٹیویٹیز ڈھونڈو- یہ سب کچھ صرف تمہارے ساتھ ہی نہیں ہو رہا بہت سے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے اور ان میں سے کوئی بھی مرتا نہیں، سب زندہ رہتے ہیں- ٹینا اسے کسی بڑے کی طرح سمجھا رہی تھی اور وہ بے بسی سے اسکی باتیں سن رہا تھا- بریک ختم ہونے کے بعد وہ اپنی کلاس میں آ گیا تھا اگلے چند ہفتوں میں گھر میں ہونے والے جھگڑوں میں شدت آ گئی تھی- زرشی اور بلال علی جیسے پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکے تھے- دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کی جاتی تھی- دونوں کے ہاتھ جو چیز آتی، وہ ایک دوسرے پر کھینچ مارتے، ہر رات حدید گھنٹوں ننھے بچوں کی طرح اپنے تکیے میں منہ چھپا کر روتا رہتا- باہر سے آنے والی آوازیں اور شور اس کے اعصاب کو بری طرح متاثر کرتے- بعض دفعہ اس کا دل چاہتا تھا وہ ہاتھ جوڑ کر ان دونوں کے سامنے جائے اور انھیں کہے کہ وہ یہ سب نہ کریں، ہر بار وہ صرف سوچ کر ہی رہ جاتا تھا- زرشی اور بلال علی کو اگر اب تک کسی چیز نے اکھٹے رکھا ہوا تھا تو وہ ان کی مشترکہ جائیداد اور فیکٹری کے شیئرز میں ان کا حصہ تھا- دونوں فریق مخالف کی زندگی کو اس قدر عذاب بنا دینا چاہتے تھے کہ دوسرا خود ہی اسے زندگی سے نکال دے- زرشی چاہتی تھی بلال علی اسے خود طلاق دے دے- بلال علی چاہتا تھا زرشی خلع لے لے کیونکہ اس صورت میں اسے زرشی کو کچھ دینا نہیں پڑتا تھا جبکہ طلاق دینے کی صورت میں وہ ان کی جائیداد کا ایک بڑا حصہ لے جاتی- اور حدید سوچتا تھا خوش رہنے کے لیے آخر آپ کو کس چیز کی ضرورت ہوتی ہے- اگر محبت اور دولت بھی آپ کو اکھٹا نہیں رکھ سکتی تو پھر کون سی چیز رکھ سکتی ہے- وہ میگزینز اور نیوز پیپرز میں نت نئے ماڈلز کے ساتھ اپنی ماں کے اسکینڈلز کی خبریں پڑھتا اور ہر خبر زرشی کو نہیں خود اسے اپنی نظروں سے گرا دیتی، ہر نئے اسکینڈل کے بعد اس کے لیے اسکول جانا دنیا کا سب سے مشکل کام ہوتا- اس کے کلاس فیلوز اس کی ماں کے حوالے سے اس سے کچھ پوچھتے اور اس پر جیسے گھڑوں پانی پر جاتا- اس کے کلاس فیلوز اس کی ماں کی فیگر اور گلیمر کی تعریف کرتے اور اس کا خون کھولنے لگتا- اس کے لیے زرشی کا نام اور حوالہ جیسے ایک گالی بن گیا تھا اور زرشی اس بات پر نازاں تھی کہ وہ فیشن ڈیزائننگ کی دنیا کا ایک بڑا نام ہے- اس نے فیشن انڈسٹری کو ایک نیا ٹرینڈ دیا تھا- اس کا نام سن کر لوگ منہ مانگی قیمت پر اس کے منعقد کردہ فیشن شوز کی ٹکٹس خرید لیتے تھے- اس کے تیار کردہ کپڑے پہننا عورتیں اپنے لیے اعزاز سمجھتی تھیں- “میں تمھارے نام سے پہچانی نہیں جاتی بلال علی! تم میرے نام سے جانے جاتے ہو-“ وہ ہر جھگڑے میں بلال علی کو یاد کروانا نہ بھولتی اور اس کا یہ جملہ جیسے جلتی پر تیل کا کام کرتا تھا، بلال علی مزید بھڑک اٹھتا تھا- حدید نہیں جانتا تھا کہ او لیولز کے بعد اے لیولز کے لیے اسے باہر بھیجنے کا فیصلہ کس کا تھا- اسے صرف او لیولز کا رزلٹ آنے کے بعد بلال علی نے اس بات کی اطلاع دی تھی- اس نے ہمیشہ کی طرح خاموشی سے سر جھکا دیا تھا- انگلینڈ جانے سے پہلے وہ ٹینا سے ملا تھا، سترہ سال کی عمر میں اس نے پہلی بار کسی لڑکی کو پرپوز کیا تھا- “کیا تم چند سال میرا انتظار کر سکتی ہو؟ صرف چند سال…..؟” ایک ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے ہوئے اس نے ٹینا سے پوچھا تھا- وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھتی رہی- “صرف چند سال….؟ میں ساری زندگی تمہارا انتظار کر سکتی ہوں اگر مجھے یہ یقین ہو کہ تم واپس ضرور آؤ گے- “مجھ پر یقین کرو ٹینا آئی سوئیر میں واپس ضرور آؤں گا-” اس نے بے تابی سے کہا تھا- ٹینا نے ٹیبل پر رکھے ہوئے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا- “آل رائٹ میں تمہارا انتظار کروں گی-“ اس نے کہا تھا اور اس دن وہاں ریسٹورنٹ میں بیٹھے بیٹھے انہوں نے اپنی زندگی کے بہت سے فیصلے کر لئے تھے- “ہم دونوں کبھی آپس میں جھگڑا نہیں کریں گے، کبھی ایک دوسرے پر چلائیں گے نہیں، ہم اپنے پیرنٹس سے مختلف زندگی گزاریں گے بالکل مختلف، ایک دوسرے کی بات سنیں گے، ایک دوسرے کی عزت کریں گے- ہمارا گھر گھر ہو گا، زمین کا ٹکڑا نہیں، ہم کبھی ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہوں گے- ہم کبھی اپنے بچوں کے ساتھ وہ سب نہیں کریں گے جو ہمارے پیرنٹس نے ہمارے ساتھ کیا-“ وہاں انہوں نے مل کر بہت سے خواب بنے تھے، ہر خواب کو خواہش کی تار سے بنایا گیا تھا، ہر تار کو امید کی سوئی سے جوڑا گیا تھا- اس رات دو بجے کی فلائٹ سے انگلینڈ جاتے ہوئے وہ اگر خوش نہیں تھا تو کم از کم پر سکون ضرور تھا- زندگی میں ایک دم ہی جیسے کوئی مقصد آ گیا تھا- “مجھے اسٹڈیز میں بہت محنت کرنی ہے کیونکہ مجھے ٹینا کو بہت کچھ دینا ہے اور وہ سب کچھ میرا اپنا ہو گا میرے پیرنٹس کا نہیں-“ پلین میں آنکھیں بند کر کے سونے سے پہلے اس نے جیسے خود سے ایک وعدہ کیا تھا- انگلینڈ میں اس کی زندگی بہت مصروف تھی- مگر اس کے باوجود وہ ٹینا سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھا- ہر ویک اینڈ پر وہ اسے فون کرتا اور ہفتہ میں دو بار اسے خط لکھتا- اس نے اب اپنے پیرنٹس کے بارے میں پہلے کی طرح پریشان ہونا چھوڑ دیا تھا- وہ ان کے بارے میں کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا- ان سے اس کی بیزاری کچھ اتنی ہی بڑھ گئی تھی- اس دن اس کے نانا نے اسے فون کیا تھا- “حدید! زرشی پر کسی نے فائرنگ کی ہے، وہ زخمی ہے ہوسپٹل میں ایڈمٹ ہے-” ان کی آواز میں گھبراہٹ تھی، حدید کے پیروں تلے سے جیسے زمین نکل گئی تھی- “نانا! یہ کیسے ہو سکتا ہے- مجھے کسی نے کچھ نہیں بتایا-” اسے اس خبر کی صداقت پر یقین نہیں آ رہا تھا- “حدید! میں سچ کہہ رہا ہوں- تم فون کر کے اپنے فادر سے پوچھ لو، مجھے بلال نے ہی فون پر اطلاع دی ہے-“ حدید نے مزید کچھ کہے بغیر فون بند کر دیا تھا اور پاکستان کال کرنے لگا تھا- بلال علی سے رابطہ کرنے پر اس خبر کی تصدیق ہو گئی تھی- “تم پریشان مت ہو حدید! زرشی ٹھیک ہے- گولی صرف بازو کو چھوتے ہوئے گزر گئی ہے- وہ کل گھر آ جائے گی-” وہ بالکل بھی فکرمند نہیں لگ رہے تھے- “پاپا میں واپس آنا چاہتا ہوں پلیز میری سیٹ بک کروا دیں، میں میں ممی کو دیکھنا چاہتا ہوں-” اس نے اصرارکیا تھا- “میں نے تمہیں بتایا ہے نا کہ زرشی ٹھیک ہے- تم فکر مت کرو- تمھارے پپرز ہونے والے ہیں- اس طرح تم سب چھوڑ کر کیسے آ سکتے ہو؟” بلال علی کی آواز میں اب ناراضگی تھی- مگر حدید پر اس کا اثر نہیں ہوا تھا- “پاپا! میں صرف چند دن کے لیے آنا چاہتا ہوں پھر واپس چلا جاؤں گا- پلیز میری سیٹ بک کروا دیں-“ اس نے بلال علی سے اتنا اصرار کیا تھا کہ وہ اس کی بات ماننے پر مجبور ہو گئے تھے- وہ اگلے دن پاکستان واپس آ گیا تھا- زرشی کو دیکھ کر اسے تسلی ہوئی تھی- وہ گھر آ چکی تھی اور بازو پر بندھی ہوئی ایک بینڈیج کے علاوہ وہ بالکل ٹھیک تھی لیکن اس کا رویہ بہت عجیب تھا- “میں جانتی ہوں- مجھ پر کس نے فائرنگ کی ہے اور میں اسے معاف نہیں کروں گی-” اس نے حدید سے کہا تھا- “ممی! آپ پر کس نے فائرنگ کروائی ہے اگر آپ جانتی ہیں تو پلیز پولیس کو بتائیں تا کہ وہ ان لوگوں کو پکڑ سکے-” حدید بے حد پریشان ہو گیا تھا- “ہر کام پولیس کو نہیں کرنا ہوتا- بعض کام خود کرنے چاہئیں-” اس کا لہجہ بہت عجیب تھا- “آپ پاپا کو بتائیں، وہ کچھ نہ کچھ ضرور کر لیں گے-” حدید نے اصرار کیا تھا- “بلال علی وہ تو-” زرشی کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی، اس نے حدید کا چہرہ بہت غور سے دیکھا تھا- “یہ سب تمہارے باپ نے کروایا ہے اور اب میری باری ہے-” وہ دم بخود ہو گیا تھا- “میں جانتی ہوں، تمہیں یقین نہیں آ رہا- کسی کو بھی یقین نہیں آئے گا مگر یہ سب تمہارے باپ نے کیا ہے-“ “ممی! وہ وہ کیوں؟ کیوں آپ کو I dont believe it مجھے یقین ہے آپ کو ضرور کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے-“ “مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی سمجھے- اگر شک ہے تو اپنے باپ سے پوچھو-“ زرشی نے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا تھا- وہ سیدھا بلال علی کے پاس فیکٹری چلا آیا تھا- “تمہاری ماں کو عادت ہے اس طرح کی بکواس کی، تم اس کی باتوں پر دھیان مت دو-” بلال علی نے اس کے سوال کے جواب میں اطمینان سے کہا تھا- “مگر پاپا! وہ کسی وجہ کے بغیر اس طرح کا الزام کیوں لگائیں گی؟” “اس عورت کا دماغ خراب ہو چکا ہے- وہ کسی کے بارے میں کسی بھی وقت کچھ بھی کہہ سکتی ہے-“ “مگر پاپا! بلال علی نے تیزی سے اس کی بات کاٹ دی تھی- “اس کے ساتھ یہ سب کچھ اس کی اپنی حرکتوں کی وجہ سے ہوا ہے تم جانتے ہو، اس حادثے کے وقت وہ کس حالت میں تھی- رات کے دو بجے شراب پی کر ایک ماڈل کے ساتھ گاڑی میں پھر رہی تھی- اس کے بقول وہ اس کا دوست ہے اور زرشی کے ایسے کتنے دوست ہیں یہ تم مجھ سے بہتر جانتے ہو گے- اب اگر ان میں سے کسی نے رقابت کی بنا پر یہ کام کیا ہے تو وہ اس کا الزام میرے سر نہیں تھوپ سکتی- مجھے اگر اسے قتل کروانا ہوتا تو بہت عرصہ پہلے کروا چکا ہوتا-“ انہوں نے اپنی صفائی میں اور بھی بہت کچھ کہا تھا- حدید ان کے آفس سے نکلنے کے بعد واپس گھر نہیں گیا تھا- وہ سیدھا ٹینا کے پاس گیا تھا۔
حدید تم ان سب باتوں کو ذہن پر سوار مت کرو، تم بس اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو- تم واپس انگلینڈ جا کر اے لیولز کے پیپرز دو- اپنے پیرنٹس کے بارے میں تم کچھ نہیں کر سکتے-” ٹینا نے بڑی لاپرواہی سے اسے سمجھایا تھا- “ٹینا! میں کسی چیز پر ذہن مرکوز نہیں کر پا رہا- میں ان دونوں کے لیے فکرمند ہوں- جس نے ممی پر اس بار فائرنگ کروائی ہے، وہ یہ حرکت دوبارہ بھی کر سکتا ہے- ممی کا خیال ہے کہ یہ سب پاپا نے کروایا ہے اور اب اس کا بدلہ لینا چاہتی ہیں- مجھے نہیں پتا کہ ان دونوں میں کون سچا اور جھوٹا ہے مگر وہ دونوں میرے پیرنٹس ہیں- ان کے ساتھ میرا خون کا رشتہ ہے- ان میں سے جس کو بھی نقصان پہنچے گا، تکلیف مجھے ہو گی-“ “میری سمجھ میں نہیں آتا حدید” تمھارے پاس اپنے ماں باپ کے علاوہ اور کوئی ٹاپک کیوں نہیں ہے- تم ہمیشہ ان ہی کے قصے لے کر بیٹھے رہتے ہو، کیا تم مجھ سے اور بات نہیں کر سکتے بلیو می-” حدید نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا- اس کے چہرے پر بیزاری نمایاں تھی- “ٹینا! وہ میرے پیرنٹس ہیں، مجھے ان سے محبت ہے-“
حدید کو اس کے بدلے ہوئے لہجے پر حیرانی ہو رہی تھی-
“میں ٹھیک کہ رہی ہوں- تمہیں مجھے محبت کا جھانسا نہیں دینا چاہیے تھا- تمھارے لیے تمھارے پیرنٹس کی محبت ہی کافی ہے- تمہیں تو کسی دوسری محبت کی ضرورت ہی نہیں ہے-“ “تمہیں کیا ہو گیا ہے ٹینا؟” “اتنے سالوں سے ہم دونوں مل رہے ہیں- اتنے سالوں میں تمھارے پاس اپنے ماں باپ کے قصے کے علاوہ اور کون سا ٹاپک ہے- ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، تمہارا خیال ہے دنیا میں ہر کوئی خوش ہے اگر کسی پر قیامتیں ٹوٹی ہیں تو وہ صرف تم ہو-“ ٹینا کی تلخی آج عروج پر پہنچی ہوئی تھی اور وہ چپ چاپ اسے دیکھتا جا رہا تھا- یقیناً وہ کسی وجہ سے پریشان ہو گی ورنہ ٹینا ایسی تو نہیں تھی- وہ خود کو تسلی دے رہا تھا- بہت دیر تک اسے جلی کٹی سنانے کے بعد شاید ٹینا کو اس کی خاموشی کا احساس ہو گیا تھا اور وہ آھستہ آھستہ ٹھنڈی ہو گئی تھی- “آئی ایم سوری حدید” مجھے غصہ آ گیا تھا-” اس نے بلآخر اسے کہا تھا اور حدید نے خوش دلی سے اسے معاف کر دیا تھا- وہ ایک بار پھر ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے تھے- “میں اے لیولز کرنے کے بعد واپس آ جاؤں گا- باقی تعلیم یہیں مکمل کروں گا-” ریسٹورنٹ سے نکلتے ہوئے اس نے ٹینا سے کہا تھا- “تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے-“ “نہیں، میرا دماغ خراب نہیں ہوا- شاید میرے یہاں رہنے کی وجہ سے وہ دونوں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کریں- میں ان دونوں کو اس طرح ایک دوسرے کی جان لینے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا-” وہ بہت سنجیدہ تھا- “اور تمہارا کیریئر؟ تم نے اس کے بارے میں کیا سوچا ہے؟” ٹینا ایک بار پھر تلخ ہو گئی تھی- “میں اپنا ایم سی ایس یہاں بھی کر سکتا ہوں-“ “تم جانتے ہو، پاکستان کی ڈگری کی کیا ویلیو ہے؟” “جانتا ہوں مگر بعض چیزیں ڈگری سے زیادہ اہم ہوتی ہیں- میں اپنے پیرنٹس کے قریب رہنا چاہتا ہوں-“ اس کا لہجہ بالکل قطعی تھا- ٹینا عجیب سے انداز سے اسے دیکھتی رہی تھی، پھر اس نے کچھ اور نہیں کہا تھا- تین دن کے بعد وہ واپس انگلینڈ چلا گیا تھا- اے لیولز کے امتحاں میں بہت کم عرصہ تھا اور وہ بلال علی کو بتا گیا تھا کہ وہ اے لیولز کے بعد پاکستان آ جائے گا- بلال علی نے فی الحال اس سے کوئی بحث نہیں کی تھی- انہوں نے سوچا تھا کہ جب وہ اے لیولز کرے گا تو پھر وہ اس سے بات کریں گے- اے لیولز کے امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد وہ اپنا سامان پیک کر کے ہاسٹل چھوڑنے کی تیاریوں میں مصروف تھا- جب پاکستان سے زرشی کا فون آیا تھا- اس نے اس کی سیٹ بک کروا کر اسے فورا واپس آنے کے لیے کہا تھا- حدید اس کے لہجے سے کھٹکا- اس کے اصرار پر بھی زرشی نے اسے کچھ نہیں بتایا تھا- “تم پاکستان آ جاؤ، پھر تم سے بات ہو گی-” وہ ایک ہی جملہ کہہ رہی تھی- “ممی! پاپا تو ٹھیک ہیں؟” اس کے دل میں اچانک ایک خدشہ ابھرا تھا- “ہاں، وہ ٹھیک ہیں- بس تم اگلی فلائٹ سے پاکستان آ جاؤ-” زرشی نے فون بند کر دیا تھا- حدید نے اسی وقت بلال علی کے موبائل پر کال کی تھی مگر موبائل آف تھا- اس نے وقفے وقفے سے انہیں کئی بار کال کی تھی، ہر بار موبائل آف ملا تھا- اس کے اضطراب میں اضافہ ہو چکا تھا- اس نے زرشی کو کال کی تھی- “تمھارے پاپا کی طبیعت خراب ہے- وہ ہاسپٹل میں ہیں، اس لیے موبائل آف ہے-” زرشی نے اس کے اصرار پر بتایا تھا- “پاپا کو کیا ہوا ہے؟” “بلڈ پریشر کی وجہ سے ڈاکٹرز نے ایڈمٹ کیا ہے، تم فورا آ جاؤ-” انھوں نے ایک بار پھر فون بند کر دیا تھا- جس وقت وہ لاہور ایئر پورٹ پر اترا تھا، اس وقت وہ بے حد دباؤ میں تھا- اس کی چھٹی حس اسے کسی بات سے خبردار کر رہی تھی- زرشی نے اسے ایئر پورٹ پر ریسیو کیا تھا اور گاڑی میں اس کے سارے خدشات اس وقت صحیح ثابت ہو گئے تھے- “تمھارے پاپا پر فیکٹری سے نکلتے وقت کسی نے فائرنگ کی ہے- انہیں سینے میں دو گولیاں لگی ہیں- ان کی حالت بہت خراب ہے- ڈاکٹرز ان کی زندگی کے بارے میں زیادہ پرامید نہیں ہیں-” زرشی نے گاڑی میں اسے بتانا شروع کیا تھا- وہ بہت دیر تک کچھ کہے بغیر اپنی ماں کا چہرہ دیکھتا رہا- “یہ سب آپ نے کیا ہے، ہے نا ممی؟” بہت دیر بعد اس نے زرشی سے کہا تھا- اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی تھی- زرشی اس کی بات پر ہکا بکا رہ گئی تھی- چند لمحوں بعد بھرائی ہوئی آواز میں اس نے کہنا شروع کیا تھا- “حدید! میں نہیں جانتی تھی کہ تم بھی میرے بارے میں اس طرح سوچو گے جیسے باقی سوچ رہے ہیں- میں بلال علی کی طرح ظالم اور خود غرض نہیں ہوں- تمھارے باپ نے تین ماہ پہلے مجھے بتائے بغیر دوسری شادی کر لی اور اب وہ عورت اور اس کی فیملی مجھے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں- انہوں نے ایف آئی آر میں اس فائرنگ کے لیے مجھے ذمہ دار قرار دیا ہے- تمہاری دونوں پھپھو بھی اس کا ساتھ دے رہی ہیں- وہ سب لوگ مجھے ہر چیز سے محروم کر دینا چاہتے ہیں- وہ مجھے بھکاری بنا دینا چاہتے ہیں-“ زرشی اب زاروقطار رو رہی تھی- “تم میرا واحد سہارا ہو، میرا خیال تھا کہ تم مجھے سپورٹ کرو گے مگر تم بھی وہی سب کچھ کہہ رہے ہو جو وہ لوگ کہہ رہی ہیں-“ وہ اپنا سر پکڑے اس کی باتیں سن رہا تھا- باپ کے ساتھ ہونے حادثہ اگر اس کے لیے ایک شاک تھا تو باپ کی دوسری شادی اس سے بھی بڑا شاک- اور اس شادی کے لیے پاپا نے ممی سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی تھی- ممی نے اپنے اوپر ہونے والی فائرنگ کے بارے میں ٹھیک اندازہ لگایا تھا- یقیناً وہ پاپا نے ہی کروائی ہو گی اور اب ممی نے- وہ آگے نہیں سوچ سکا تھا- زرشی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی سسکیوں سے رو رہی تھی- “گاڑی کو ہاسپٹل لے چلیں-” اس نے سر اٹھا کر ڈرائیور سے کہا تھا- آئی سی یو کے شیشے سے اس نے پٹیوں اور نلکیوں میں جکڑے ہوئے بلال علی کو دیکھا تھا- وہ دروازہ کھولنے کی ہمت نہیں کر سکا- اس نے اپنے باپ کو بہت سے سالوں میں کبھی اس طرح نہیں دیکھا تھا- وہ گلاس ڈور پر دونوں ہاتھ رکھے اندر دیکھتا رہا- اپنے کندھے پر ہاتھ کا دباؤ پڑنے پر وہ مڑا تھا- اس کی بڑی پھپھو روتے ہوئے اس کے ساتھ لپٹ گئی تھیں- “دیکھ لو حدید! تمہاری ماں نے میرے بھائی کے ساتھ کیا کیا-“ اس نے انہیں کہتے سنا تھا- وہ کوئی جواب نہیں دے سکا، وہ کچھ کہنا چاہتا بھی نہیں تھا- بہت فاصلے پر اس نے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا- اس کی دوسری پھپھو، ان کے شوہر اور کچھ اور لوگ وہ سب شاید اس کے پاس آنا چاہتے تھے- وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتا تھا- بڑی پھپھو کو خود سے الگ کر کے وہ آئی سی یو کے اندر داخل ہو گیا تھا- بلال علی کے بیڈ کے پاس جا کر اس نے ان کا چہرہ دیکھا تھا- وہ respirator کے ذریعے سانس لے رہے تھے- وہ نہیں جانتا، وہ کتنی دیر ان کے پاس اسی طرح کھڑا رہا تھا- کچھ ڈاکٹرز راؤنڈ پر آئے تھے اور ان میں سے ایک نے تسلی کے کچھ کلمات کہتے ہوئے اس کی پشت تھپتھپائی تھی- “کیا آپ ان کو بچا سکتے ہیں؟” حدید نے خود کو کہتے سنا تھا- “ہم صرف کوشش کر سکتے ہیں، باقی الله کے ہاتھ میں ہے-“ ڈاکٹر نے ہلکی آواز میں اس سے کہا تھا- اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر کو دیکھا تھا- “گاڈ-” اس کے ذہن میں ایک نام لہرایا تھا- “میں خدا سے دعا کروں گا کہ وہ…” وہ اپنی بات مکمل نہیں کر سکا- اس کی آواز بھرا گئی تھی- ڈاکٹر نے ایک بار پھر اس کی پشت تھپتھپائی تھی اور اسے لے کر آئی سی یو سے باہر آ گیا تھا- وہ باہر کھڑے لوگوں کے پاس جانے کے بجائے انہیں نظر انداز کرتا ہوا ہاسپٹل کی پارکنگ میں آ گیا- زرشی گاڑی میں اس کا انتظار کر رہی تھی- “بلال علی کیسا ہے؟” اس نے حدید کے گاڑی میں بیٹھے ہی پوچھا تھا- اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا- اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لی تھیں- گھر پہنچ کر بھی وہ خاموش ہی رہا تھا- اس نے زرشی سے کوئی بات نہیں کی تھی- زرشی بے چین ہو گئی تھی- “ممی” میں بہت تھک گیا ہوں- مجھے کچھ دیر سونے دیں- میں ابھی کوئی بات کرنا نہیں چاہتا-“ اس نے گھر پہنچتے ہی زرشی سے کہا تھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا تھا- لیکن وہ کمرے میں جا کر سویا نہیں تھا، وہ بہت دیر تک روتا رہا تھا- “دنیا میں کچھ چیزیں صرف خدا ہی دے سکتا ہے اور اس میں ایک میرے پاپا کی زندگی بھی ہے اور میں یہ چیز خدا سے مانگوں گا-” اس رات آٹھ بجے اپنے کمرے کے کارپٹ پر جائے نماز بچھاتے ہوئے اس نے سوچا تھا- اسے نہیں یاد اس نے زندگی میں کبھی اس طرح گڑگڑاتے ہوئے خدا سے کچھ مانگا تھا- جس طرح اس رات اس نے اپنے پاپا کی زندگی مانگی تھی- “میں مسلمان ہوں اور میں نے زندگی میں کوئی بڑا گناہ بھی نہیں کیا اور مجھے آپ سے اور اپنے پیغمبر سے محبت بھی ہے اور میں اپنے لیے نہیں اپنے فادر کے لیے کچھ مانگ رہا ہوں- کیا اتنے حوالوں کے بعد بھی آپ مجھے اسی طرح مایوس کر دو گے جس طرح آپ مجھے بچپن سے کرتے آ رہے ہو- اگر میرے باپ کو زندگی مل جائے تو میں آپ سے کبھی بھی اپنے لئے کچھ نہیں مانگوں گا- کچھ بھی نہیں- بس میرے پاپا ٹھیک ہو جائیں- انھیں کچھ نہ ہو-“ وہ خدا کو پکارتا رہا- وہ روتا رہا تھا، گڑگڑاتا رہا تھا- کبھی سجدے میں، کبھی ہاتھ اٹھا کر، کبھی قران پاک پڑھتے ہوئے، کبھی بچوں کی ہچکیوں سے روتے ہو۔ وہ ساری رات جاگتا رہا تھا- صبح چار بجے ہاسپٹل سے فون آیا تھا- اس نے لرزتے ہاتھوں کے ساتھ فون ریسیو کیا تھا- اس کا تعارف سننے کے بعد دوسری طرف سے کسی نے اطلاع دی تھی- “آپ ہاسپٹل آ جائیں- آپ کے فادر کی ڈیتھ ہو گئی ہے-“ وہ ریسیور ہاتھ میں لیے بہت دیر تک بے حس و حرکت کھڑا رہا تھا- دوسری طرف سے فون بند کیا جا چکا تھا- “تو خدا نے اس بار بھی میرے لئے کچھ نہیں کیا- حالانکہ میں نے اتنی دعائیں مانگی تھیں- کیا اتنی دعائیں مانگنے کے بعد بھی کوئی کسی کو اس طرح ٹھوکر مار سکتا ہے- میں نے خدا سے پاپا کی زندگی کی بھیک مانگی تھی- خدا دوسروں کو بغیر مانگے خزانے دے دیتا ہے اور مجھے…. مجھے اس نے بھیک میں بھی کچھ نہیں دیا-“ وہ بے یقینی نے عالم میں کھڑا تھا- “میں….. میں دوبارہ کبھی اسکے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا- میں اب اس سے کچھ نہیں مانگوں گا-” اس نے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے طے کیا تھا اور فون کا ریسیور رکھ دیا- اگلے چند دن اس کے لئے بہت سخت تھے- بلال علی کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد اس کے گھر میں زبردست جھگڑا ہوا تھا- اس نے تدفین کے موقع پر ہی بلال علی کی دوسری بیوی کو دیکھا تھا، وہ تیس بتیس سال ایک خوبصورت لڑکی تھی اور بار بار غش کھا کے بے ہوش ہو رہی تھی- وہ حدید کی پھپھو کے ساتھ آئی تھی اور زرشی کے اصرار کے باوجود حدید نے اسے اپنے گھر آنے سے نہیں روکا تھا- اسے اس عورت کو دیکھ کر غصہ بھی نہیں آیا تھا- بلال علی کی زندگی میں اس شادی پر اس کا ردعمل شاید کچھ اور ہوتا مگر اب سب کچھ اس کے لیے بے معنی ہو چکا تھا- سوئم والے دن بلال علی کی دوسری بیوی اور اس کے والدین نے جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا تھا اور وہ اس کام میں اکیلے نہیں تھے- حدید کی دونوں پھوپھیاں اور ان کے شوہروں نے بھی اپنے حصے کا مطالبہ کیا تھا- زرشی ضمانت قبل از گرفتاری کی وجہ سے اب تک پولیس کی گرفت میں آنے سے بچی ہوئی تھی لیکن خاندان کے سب لوگ حدید کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ زرشی کو گرفتار کروا دے کیونکہ وہ سب اسے ہی بلال علی کی قاتلہ سمجھتے تھے- انگلینڈ سے حدید کے نانا اور نانی بھی آ چکے تھے اور سوئم والے دن ان کے اور بلال علی کی دوسری بیوی اور حدید کی پھپھوؤں کے درمیان زبردست جھگڑا ہوا تھا- زرشی بلال علی کی دوسری بیوی اور اس کے والدین پر بلال علی کے قتل کا الزام عائد کر رہی تھی اور اس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دی تھی اور جواباً وہ لوگ بمعہ حدید کی پھپھو کے زرشی پر یہ الزام عائد کر رہے تھے اور اسے بلال علی کی جائیداد سے دستبردار ہونے پر مجبور کر رہے تھے- حدید عجیب کشمکش کا شکار تھا- وہ کچھ طے نہیں کر پا رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، زرشی اپنے بے گناہ ہونے پر اصرار کر رہی تھی اور اور خود اس کا دل بھی یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ وہ ایسا کام کر سکتی ہے- بلال علی کے وکیل نے جو وصیت ان سب کی موجودگی میں پڑھ کر سنائی تھی وہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن تھی- انہوں نے اپنی جائیداد کے بہت سے حصے کر دیے تھے- کچھ جائیداد حدید کے نام تھی کچھ اپنی دوسری بیوی کے، کچھ اپنی دونوں بہنوں کے اور کچھ رقم اپنے ملازموں کے، لیکن انہوں نے زرشی کے لئے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا اسے انھوں نے اپنی جائیداد سے عاق کر دیا تھا- انہوں نے ان چیزوں سے بھی زرشی کو محروم کرنے کو لکھا تھا جو پہلے ہی زرشی کی ملکیت میں تھیں یا ان دونوں کے نام تھیں یا پھر زرشی کے نام تھیں- قانوناً وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے لیکن وصیت میں بلال علی نے وہ تمام چیزیں اپنی دوسری بیوی کے نام کر دی تھیں- اور یہ سب زرشی کو سیخ پا کرنے کے لیے کافی تھا- اس نے اپنے وکیل سے جائیداد کے حصول کے لیے مقدمہ کرنے کے لیے کہا تھا- لیکن وصیت کا اعلان کرنے کے تیسرے دن پولیس ضمانت ختم ہونے پر انہیں گرفتار کر کے لے گئی تھی- اس کی ضمانت کی معیاد میں عدالت نے اضافہ نہیں کیا تھا کیونکہ اس کے خلاف واقعات و شواہد بہت مضبوط تھے- زرشی کے ماں باپ اور حدید نے گرفتاری رکوانے اور انہیں رہا کروانے کے لئے بہت بھاگ دوڑ کی تھی مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا- پولیس نے زرشی کا ریمانڈ حاصل کر لیا تھا- بلال علی کی دوسری بیوی اور بہنیں زرشی کو سزا دلوانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی تھیں کیونکہ زرشی کے مجرم ثابت ہو جانے کی صورت میں وہ آرام سے جائیداد کے مالک بن سکتے تھے- “میں یہاں نہیں رہ سکتی- میں یہاں مر جاؤں گی- فار گاڈ سیک حدید! مجھےیہاں سے نکال لو- کچھ بھی کرو مگر مجھے یہاں سے نکال لو-“ ہر بار ملاقات ہونے پر وہ حدید کے سامنے روتی اور گڑگڑاتی اور حدید بے بسی سے اسے تسلی دے کر آ جاتا- ان دنوں اخبار زرشی اور بلال علی کے متعلق خبروں سے بھرے ہوئے تھے- زرشی کے بارے میں ہر نئی پتا چلنے والی بات کو مرچ مسالا لگا کر چھاپا جاتا تھا- ہر روز صبح اخبار دیکھ کر حدید کا دل چاہتا وہ کسی ایسی جگہ بھاگ جائے جہاں کوئی انسان نہ ہو- ٹینا کا رویہ بھی بہت عجیب ہو چکا تھا- وہ اس سے ملنے سے کتراتی تھی، صرف فون پر چند منٹ بات کرتی اور پھر کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر فون بند کر دیتی- فیکٹری بند کی جا چکی تھی کیونکہ اس کی ملکیت کے بارے میں کورٹ میں کیس چل رہا تھا- سارے لاکرز اور اکاؤنٹس بھی فریز کر دے گئے تھے- حدید نانا سے ملنے والی رقوم سے کورٹ اور گھر کے اخراجات پورے کر رہا تھا- “یہ سب میرے ساتھ لوگ نہیں خدا کر رہا ہے-” وہ ہر نئی پریشانی پر سوچتا- مگر اس کے لئے ابھی بہت سی مصیبتیں باقی تھیں- چھے ماہ بعد اچانک زرشی نے اقبال جرم کر لیا تھا- حدید اس خبر پر سکتہ میں آ گیا تھا- وہ جیل میں زرشی سے ملنے گیا تھا- اس نے اس بار پہلی دفعہ حدید سے نظریں نہیں ملائی تھیں- سلاخوں کے اس پار وہ سر جھکائے بیٹھی رہی تھی- اس کی سمجھ میں نہیں آیا تھا کہ وہ اس سے کیا پوچھے، اس سے کیا کہے- “آپ نے مجھ پر بہت ظلم کیا-“ بہت دیر بعد اس نے کہا تھا اور زرشی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا- “آپ کو ان سے محبت نہیں تھی مگر وہ آپ کے شوہر تھے- آپ کو انہیں قتل کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا- مجھے یقین نہیں آتا، کیا کوئی عورت ایسی ہو سکتی ہے-“ اس نے زرشی کی آنکھوں میں پانی امڈتے دیکھا تھا- “ہر چیز کی ابتداء اس نے کی تھی- میں نے تو بس……” “آپ ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھیں تو ان سے طلاق لے لیتیں مگر آپ نے دولت کی خاطر طلاق لینے کے بجائے انہیں مار دیا- آپ نے میرے باپ کو مار دیا- اب کہاں ہے وہ دولت جس کے لئے آپ نے؟” وہ بلند آواز میں چلایا تھا- “میں اس کو قتل نہ کرتی تو وہ مجھے قتل کر دیتا- تم جانتے ہو، اس نے مجھ پر حملہ کروایا تھا- میں اسے مارنا نہیں چاہتی تھی مگر اس نے میرے لئے دوسرا کوئی راستہ نہیں چھوڑا تھا-” وہ اب رو رہی تھی- “اگر کبھی میں آپ کے لئے دوسرا راستہ نہیں چھوڑوں گا تو کیا آپ مجھ کو بھی قتل کروا دیں گی-” اس نے زہریلے لہجے میں پوچھا-