“میں آپ کو ڈراپ کر دوں گا- آپ کو کہاں جانا ہے؟” وہ بے اختیار اس کے پیچھے آیا تھا- “نہیں، میں یہ نہیں چاہتی-“ “آپ مجھے اپنا کنٹیکٹ نمبر تو دے دیں-” وہ اس کے ساتھ چلنے لگا تھا- “تم مجھے اپنا فون نمبر دے دو-” کرسٹینا نے رک کر اسے کہا تھا- وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر اس نے جیب سے والٹ نکال کر ایک کاغذ اسے تھما دیا تھا- کرسٹینا نے دیکھے بغیر کاغذ مٹھی میں دبا لیا- وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا پارکنگ کی طرف آیا تھا- وہاں ابھی بھی بہت سے لوگ کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے- کیتھڈرل کا اگلا حصہ بہت روشن تھا- وہ چرچ کے اندر جانے لگی تھی جب اسے اپنے عقب میں حدید کی آواز سنائی دی تھی- اس نے مڑ کر دیکھا تھا- وہ کچھ جھجھکتا ہوا اس کے پاس آیا تھا- “مجھے ایک بات پوچھنی ہے- کیا…… کیا…… کیا تمہیں واقعی مجھ سے محبت ہے؟” حدید نے کرسٹینا کے چہرے کی مسکراہٹ کو گہرا ہوتے دیکھا تھا- “نہیں مجھے…… مجھے تم سے عشق ہے-“ اس نے بڑی روانی سے کہا تھا- وہ مڑ کر اندر چلی گئی تھی-حدید وہیں کھڑا اسے لوگوں کے ہجوم میں گم ہوتے دیکھتا رہا- اس کا دل چاہا تھا وہ…… وہ اس سے دوبارہ ملے- اگلے دن نہ چاہتے ہوئے بھی وہ کیتھڈرل میں موجود تھا- وہ سیڑھیوں پر بیٹھی ہوئی تھی- سیاہ چادر میں خود کو لپیٹے وہ اپنے بازوؤں میں چہرہ چھپائے ہوئے تھی- حدید اس کے پاس چلا گیا تھا- قدموں کی چاپ پر اس نے سر اٹھایا تھا- حدید نے اس کے چہرے پر ایک خیر مقدمی مسکراہٹ دیکھی تھی- وہ اس سے کچھ فاصلے پر سیڑھیوں پر بیٹھ گیا تھا- “تم نے زندگی میں خدا کو کتنی بار پکارا ہے؟” چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس نے حدید سے پوچھا تھا- “بہت دفعہ-“ اب وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا- “اور الله کو؟” حدید اس کے سوال پر حیران ہوا تھا- “کیا؟” “تم نے الله کو کتنی بار پکارا ہے؟” بڑے پرسکون اور نرم انداز میں سوال دہرایا گیا تھا- “کیا خدا اور الله میں فرق ہوتا ہے؟” وہ کچھ الجھ گیا تھا- “الله خدا کا ذاتی نام ہے- اس نام سے اسے پکاریں تو وہ زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے- دوست لگتا ہے-“ حدید نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لی تھیں- “حدید! کل تم کہ رہے تھے نا کہ تم نے جب بھی الله کو پکارا ہے اس نے تمہاری مدد نہیں کی جب بھی اپنے پیغمبر سے مدد مانگی ہے انھوں نے تمہارا ہاتھ جھٹک دیا ہے- ساری بات عشق کی ہے- جب آپ کو کسی سے عشق ہو اور پھر آپ اسے پکاریں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ آپ کی بات نہ سنے مگر تمہیں عشق نہیں تھا- تمہیں ضرورت تھی اور تمہارا ہاتھ جھٹک دیا گیا- مجھے دیکھو- اس دن تمہیں دیکھا تھا- پارک میں اور مجھے تم سے عشق ہو گیا- عجیب بات ہے نا، پہلی بار دیکھنے پر محبّت نہیں عشق ہو گیا اور پھر میں تم سے بات کرنے کے لیے تمھارے پیچھے بھاگی، جیسے پاگل بھاگتے ہیں- میرے پاؤں میں جوتا تک نہیں تھا مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی کیونکہ مجھے تم سے بات کرنا تھی- تمہاری تلاش تھی- تم نہیں ملے- میرے پاؤں میں کسی کیڑے نے کاٹ لیا- ایک ہفتہ تک میں ٹھیک سے چل نہیں سکی، میرا پاؤں بینڈیج میں جکڑا رہا مگر مجھے درد نہیں ہوا- صرف تکلیف ہوئی تو اس بات کی کہ مجھے تم نہیں ملے- تم میرا عشق تھے، ضرورت نہیں- تم تک پہنچنے کے لیے اگر دوبارہ مجھے اسی تکلیف میں سے گزرنا پڑتا تو بھی میں گزرتی، مگر تم دیکھو مجھے الله سے محبّت تھی تو الله نے مجھے تم تک پہنچایا- اس نے مجھے تکلیف دی، آزمائش میں ڈالا مگر تم تک پہنچایا- میری دعا قبول ہوئی، میری بات مانی گئی- تم نے یہ کیسے سوچ لیا کہ تمہیں جو تکلیفیں دی گئیں، جن آزمائشوں میں ڈالا گیا، ان کے بعد دوبارہ تمہاری کبھی کوئی دعا قبول نہیں کی جائے گی؟” حدید اسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا- “مذہب بدلنے سے تمہاری زندگی میں کیا بدل جائے گا؟ تمہارا پاپا واپس آ جائیں گے؟ تمہاری ممی واپس آ جائیں گی؟ وہ دونوں اکھٹے رہنے لگیں گے؟ جو بدنامی تمھارے خاندان کے حصّے میں آئی- وہ ختم ہو جائے گی؟ ٹینا مل جائے گی تمہیں؟ کیا مذہب بدلنے سے یہ سب ہو جائے گا؟ تو پھر تو پورے ویسٹ کو اپنا مذہب بدل کر مسلم ہو جانا چاہیے- کیونکہ گھر تو سب سے زیادہ وہاں ٹوٹتے ہیں، ڈائی وورس وہاں زیادہ ہے- وہاں تو ہر روز کوئی نہ کوئی ٹینا کسی نہ کسی حدید کو چھوڑ دیتی ہے اور وہ سب کرسچن ہیں پھر ان کے پاس سکون کیوں نہیں ہے؟ یہ مان لو حدید! جو چیزیں تمھارے مقدر میں تھیں اور ہیں وہ تم نہیں بدل سکتے، وہ ہو کر رہیں گی چاہے تم مسلم ہو، کرسچن ہو یا کچھ اور- مذہب سر پر پڑی ہوئی چادر نہیں ہے کہ چادر میں سے دھوپ آنے لگی تو دوسری چادر اوڑھ لی- تمھارے ساتھ زندگی میں جو کچھ ہوا وہ تمہارا قصور نہیں تھا- تمہارا مقدر تھا اور مقدر کو قبول کر لینا چاہیے- مگر یہ ضرور یاد رکھو کہ کچھ دوسرے لوگوں کی غلطیاں تمہارا مقدر بنیں اور تمہیں زندگی میں وہ غلطیاں نہیں کرنی جو کسی دوسرے کا مقدر بن جائیں- تم سن رہے ہو میں کیا کہہ رہی ہو؟ کرسٹینا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا- وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے گھٹنوں پر کہنیاں ٹکائے بیٹھا تھا- اس نے کرسٹینا کو کوئی جواب نہیں دیا تھا صرف ایک نظر اس کی طرف دیکھا تھا- “تم جانتے ہو، تمہیں کس قدر خوش قسمت بنا کر پیدا کیا گیا ہے، تمہیں سب سے بہترین مذہب کا پیروکار بنا کر پیدا کیا گیا ہے- تم پر اتنی بڑی رحمت، اتنی بڑی نعمت کسی جدوجہد کے بغیر ہی اتار دی گئی- تم نے کبھی اس بارے میں سوچا ہے؟” “خدا نے کبھی میرے ساتھ انصاف نہیں کیا-” وہ بلآخر بولا تھا- “کیوں صرف اس لیے کہ اس نے تمہیں چند چیزوں سے محروم رکھا، یا محروم کر دیا؟ جن چیزوں سے محروم رکھا، انھیں تم انگلی کی پوروں پر گن سکتے ہو مگر جو چیزیں اس نے تمھارے مانگے بغیر ہی تمہیں دے دیں، انھیں تم انگلی کی پوروں پر نہیں گن سکتے- اپنی محرومیاں مجھے بتاؤ گے تو چند منٹ لگیں گے اور اگر ان عنایات کا ذکر کرو گے جو الله نے تم پر کی ہیں تو تمہیں رات ہو جائے گی اور یہ سب الله نے اس وقت دیا جب تم مسلمان ہو-“ “کرسٹینا! میرے پاس سکون نہیں ہے اور مجھے اس وقت سکون کے علاوہ دنیا کی کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے- جن چیزوں کی تم بات کر رہی ہو مجھے ان کی ضرورت نہیں ہے-“ “اور سکون تمہیں مذہب تبدیل کرنے سے مل جائے گا- ہے نا؟ میں کرسچین ہوں، مجھے تو نہیں ملا سکون- تمہیں کہاں سے ملے گا؟” “میں نے بائبل کے کچھ حصے پڑھے ہیں- مجھے سکون ملا ہے-“ “میں نے پوری بائبل پڑھی ہے- مجھے سکون نہیں ملا-“ وہ بے چینی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتا رہا تھا- “میں سچ کہہ رہا ہوں کرسٹینا! مجھے واقعی ہی سکون ملا-“ “تمہیں پتا ہے تمہیں کیوں سکون ملا؟ کیونکہ تم نے سکون کی تلاش میں بائبل کو پڑھا- قرآن پاک کو کتنی بار تم نے سکون کی تلاش میں پڑھا؟ قرآن پاک کو ہمیشہ ضرورت کے لیے پڑھا- چرچ میں آ کر تمہیں سکون ملا ہو گا کیونکہ یہاں تم صرف سکون کے لیے آئے تھے- مسجد میں کتنی بار تم صرف سکون کی تلاش میں گئے؟ وہاں تو ہمیشہ تم ضرورت کے تحت گئے ہو گے-“ وہ کچھ دیر کچھ نہیں بول سکا- اس کے پاس دلیل تھی اور حدید کے پاس بہانہ اور دلیل ہر بہانے کے پرخچے اڑا رہی تھی- “تم نے بائبل کو کس زبان میں پڑھا؟” “انگلش میں-“ “اور قرآن کو؟” “عربک میں-“ “تم نے بائبل کو کس عمر میں پڑھا؟” “انیس سال کی عمر میں-“ “اور قرآن کو؟” “دس سال کی عمر میں-” وہ چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی- “تم نے بائبل کو انیس سال کی عمر میں سکون کے لیے اس زبان میں پڑھا، جسے تم جانتے ہو اور تمہیں لگا کہ تمہیں سکون مل گیا ہے- تم نے قرآن پاک کو دس سال کی عمر میں صرف ضرورت کے لیے اس زبان میں پڑھا جسے تم جانتے تک نہیں اور تمہیں لگا کہ تمہیں کچھ نہیں ملا- تم محمد صلى الله عليه وسلم کے پیروکاروں میں سے ہو نا؟ تمہیں پتا ہے انھوں نے کسی زندگی گزاری تھی؟ ہم نہیں جانتے الله کو ہم سے محبّت ہے کہ نہیں مگر اس دنیا کا ایک انسان ایسا ضرور ہے جس کے بارے میں ہم بغیر کسی شبے کے کہہ سکتے ہیں کہ الله کو اس سے محبّت ہے اور وہ ہیں محمد صلى الله عليه وسلم اور جس انسان سے الله نے سب سے زیادہ محبت کی اسے بھی آزمائشوں سے گزارا- تم ماں باپ سے اس وقت محروم ہوئے جب تم ان کے محتاج نہیں رہے تھے- محمد صلى الله عليه وسلم نے اپنے باپ کی شکل تک نہیں دیکھی، ان کی ماں اس وقت دنیا سے چلی گئیں جب ماں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے- تمھارے قدموں میں کسی نے کانٹے نہیں بچھائے ہوں گے- تمھارے جسم پر کسی نے غلاظت اور کوڑا کرکٹ نہیں پھینکا ہو گا- محمد صلى الله عليه وسلم کے ساتھ مکہ کی گلیوں میں یہی سب ہوتا تھا- تم تو ماں باپ کے حوالے سے ہونے والی تھوڑی سی بدنامی سے ڈر گئے- انھیں تو پورا مکہ پتا نہیں کیا کیا کہا کرتا تھا- تم کہتے ہو، تمہارا خاندان ختم ہو گیا ہے- تمھارے رشتہ داروں نے تمھارے ساتھ زیادتی کی ہے- انھیں تو تین سال تک ایک گھاٹی میں قید کر دیا گیا تھا- تم پر کسی نے پتھر نہیں برسائے، ان پر برسائے گئے تھے- تم نے صرف اپنے ماں باپ اپنے ہاتھوں دفنائے ہیں، انہوں نے اپنی اولادیں، اپنے بیٹے اپنے ہاتھوں دفنائے تھے- تمہیں خدا نے کبھی رزق کی کمی کا شکار نہیں کیا- انھوں نے تو فاقے بھی کاٹے تھے- تم الله سے برگشتہ ہو گئے- مذہب بدلنے پر تیار ہو گئے- مگر انھوں نے الله سے شکوہ کیا نہ اسے چھوڑا- تمہیں پتا ہے محمد صلى الله عليه وسلم سے الله کو اتنی محبت کیوں ہے؟ اسی وجہ سے الله کو ان سے محبت ہے-“ حدید نے اس کے گالوں پر پانی بہتے دیکھا تھا- “میں انسان ہوں، پیغمبر نہیں ہوں-“ “محمد صلى الله عليه وسلم کے بعد کوئی اور پیغمبر ہو بھی نہیں سکتا، کسی اور پیغمبر کی ضرورت بھی نہیں ہے- تم پیغمبر ہو بھی کیسے سکتے ہو- تم تو پیغمبر کے پیروکار بھی نہیں رہنا چاہتے-“ حدید نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا تھا- “جب آج گھر جاؤ گے تو قرآن پاک کا ترجمہ پڑھنا- ضرورت کے لیے نہیں، صرف سکون کے لیے، پھر کل مجھے بتانا تمہیں سکون ملا؟ قرآن کہتا ہے آزمائش اور تکلیف کے وقت صبر اور نماز سے کام لو- تم بھی یہی کرو، میں کل پھر یہاں آؤں گی، تم آؤ گے نا؟” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے نرم آواز میں پوچھ رہی تھی- وہ نہیں جانتا تھا اس کا سر آج بھی کس طرح اثبات میں ہل گیا تھا- “ہمارے لیے چوبیس گھنٹوں میں پانچ بار الله کو یاد کرنا بہت مشکل ہے، لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ الله چوبیس گھنٹوں میں ہر پل ہمارا خیال رکھے- ہمیں ہر نقصان سے بچائے، ہمیں ہر اس چیز سے نوازے جس کی ہمیں خواہش ہے-“ اگلے دن وہ ایک بار پھر وہیں موجود تھا اور وہ اس سے کہہ رہی تھی- وہ چپ چاپ اس کی بات سن رہا تھا- “اور اگر ان میں سے کوئی ایک چیز بھی نہ ہو تو ہم الله سے شکوہ کرنے لگتے ہیں- اسے بتاتے ہیں کہ اس نے ہمیں کتنا بدقسمت بنایا ہے- اپنی محرومیوں کا ماتم کرتے ہیں- یہاں اسی زمین پر ایسے لوگ ہیں جو اس طرح معذور ہیں کہ ذہن کے علاوہ ان کے جسم کا کوئی حصّہ کام نہیں کرتا اور وہ پھر بھی الله کا شکر ادا کرتے ہیں- یہاں کتنے ہیں جن کے پورے کے پورے خاندان کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں- وہ پھر بھی صبر کرتے ہیں، الله سے سودے بازی نہیں کی جا سکتی- اس کو کوئی دلچسپی نہیں کہ تم مسلمان رہتے ہو یا نہیں- تمھارے مذہب بدل لینے سے دنیا میں مسلمان ختم تو نہیں ہو جائیں گے- محمد صلى الله عليه وسلم کے ماننے والوں میں تو کمی نہیں آئے گی، فرق اگر کسی کو پڑے گا تو تم کو پڑے گا- نقصان اگر کوئی اٹھائے گا تو تم اٹھاؤ گے-“ حدید خاموش رہا تھا- وہ بولتی رہی تھی- بہت سے لفظ اس کے دل اور سماعتوں میں اتارے تھے- پھر دوبارہ آنے کا کہہ کر وہ چلی گئی تھی- وہ بھی گھر آ گیا تھا- رات کو فادر جوشوا نے اسے فون کیا تھا اور اس سے نہ آنے کا سبب پوچھا تھا- اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا دیا تھا- وہ اگلے دن بھی ان کے پاس نہیں گیا تھا- وہ ایک بار پھر کرسٹینا کے پاس چلا گیا تھا- “کرسٹینا! تم نے مجھے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا-“ اس نے اس کی بات سنتے سنتے اس کو ٹوکا تھا- وہ خاموش ہو گئی تھی- “میرے بارے میں کیا جاننا چاہتے ہو؟” چند لمحوں بعد اس نے پوچھا تھا- “تمہاری فیملی بیک گراؤنڈ کے بارے میں-” حدید نے اس کے چہرے پر ایک سایا لہراتے ہوئے دیکھا تھا- “میری فیملی مجھے چھوڑ چکی ہے-” اس نے اسے کہتے سنا تھا- حدید اس کی بات پر حیران ہوا تھا- “کیوں؟” “بہت سی وجوہات ہیں-“ “تم نے مذہب بدل لیا، کیا اس لیے؟” حدید نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس سے پوچھا تھا- “ہاں-“ “پھر اب تم کہاں رہتی ہو؟” “ایک ہاسٹل میں-“ اس کی سمجھ میں نہیں آیا، وہ اب اس سے اور کیا پوچھے- چند لمحے وہ خاموش رہا تھا- “پھر تم یہاں کیوں آئی ہو؟” “یہاں کچھ لوگوں سے واقفیت ہے، وہ ابھی یہ نہیں جانتے کہ میں مذہب تبدیل کر چکی ہوں- اس لیے میری مدد کر دیتے ہیں فنانشلی- مجھے جاب کی بھی تلاش ہے اور شاید یہاں جاب مل جائے-“ حدید سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا تھا- “اگر ان لوگوں کو تمھارے بارے میں پتا چل گیا تو؟” “میں نہیں جانتی پھر کیا ہو گا- میں لاہور سے تعلق نہیں رکھتی- ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق ہے میرا- میری فیملی کو پتا نہیں ہے کہ میں یہاں ہوں-“ ~ “تم خود گھر چھوڑ کر آ گئی ہو؟” “ہاں-” حدید ایک بار پھر خاموش ہو گیا تھا- دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی- وہ اس شام کچھ بوجھل دل کے ساتھ واپس گھر آیا تھا- وہ کرسٹینا کی بے خوفی اور جرات پر حیران تھا- کیا کوئی لڑکی اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے- کیا کوئی اتنا ثابت قدم ہو سکتا ہے اور یہ ثابت قدمی اسے میری کتاب نے عطا کی ہے تو کیا مجھے یہ ثابت قدمی کتاب سے نہیں مل سکتی- اس کا ذہن ایک عجیب کش مکش کا شکار تھا- ملازم نے اسے فادر جوشوا کے فون کے بارے میں بتایا تھا- اس نے چند لمحے خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھا تھا اور پھر کہا تھا- “ان سے کہہ دو، میں گھر پر نہیں ہوں اور اب جب بھی ان کا فون آئے یہی کہنا-“ ملازم نے حیرانی سے اسے دیکھا تھا اور پھر سر ہلا کر چلا گیا تھا- وہ جیسے کسی بھنور سے بھر نکل رہا تھا- “ہاں واقعی ہی اگر ایک عیسائی لڑکی کو میرے دین سے اتنی تقویت مل سکتی ہے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ سکتی ہے تو مجھے کیوں نہیں- کرسٹینا ٹھیک کہتی ہے، میں نے الله کو اس طرح نہیں پکارا ہو گا- میرا ایمان کمزور ہو گا، اپنے مذہب کے بارے میں میرا علم سطحی ہے- میں واقعی کبھی بھی ایک مسلم نہیں رہا- مجھ میں بہت سی ایسی خرابیاں ہیں جن پر آج تک میری نظر نہیں گئی- میں نے —- میں نے —-“ “آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے- وہی زندہ کرتا ہے، وہی مارتا ہے-“ اگلے دن وہ اسے ایک صفحے پر لکھا ہوا سورۃ حدید کا ترجمہ سنا رہی تھی- “اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور تم جہاں کہیں ہو- وہ تمھارے ساتھ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو- خدا اسے دیکھ رہا ہے-“ وہ رک گئی تھی- اس نے حدید کو دیکھا تھا، وہ اس سے نظر چرا گیا تھا- “اور تم کیسے لوگ ہو کہ خدا پر ایمان نہیں لاتے-” اس کی آواز بے حد نرم تھی- “حالانکہ اس کے پیغمبر تمہیں بلا رہے ہیں کہ اس پر ایمان لاؤ اور اگر تم کو باور ہو تو وہ تم سے اس کا عہد بھی لے چکے ہیں-“ حدید نے اس کی طرف دیکھا تھا، کرسٹینا اس کی طرف متوجہ نہیں تھی- “جس دن تم مومن مردوں اور مومن عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کے ایمان کا نور ان کے آگے آگے اور داہنی طرف چل رہا ہے-“ حدید نے سر جھکا لیا- وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی- “تو ان سے کہا جائے گا کہ تم کو بشارت ہو کہ آج تمہارے لیے بہشتیں ہیں جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں، ان میں ہمیشہ رہو گے- یہی بہت بڑی کامیابی ہے- اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں-“ اس کی آواز بھرا گئی تھی- وہ رک گئی تھی- حدید نے سر اٹھا کر اسے دیکھا- وہ اپنے لرزتے ہوئے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی- اس کے ہاتھ میں لرزش تھی، اس نے کاغذ حدید کی طرف بڑھا دیا- “باقی تم پڑھو-” بھیگی آواز میں اس نے کہا تھا- “نہیں- میں تم سے سننا چاہتا ہوں-“ وہ چند لمحے ساکت رہی تھی- پھر جیسے خود پر قابو پاتے ہوئے بولنے لگی تھی- “اس دن منافق مرد اور منافق عورتیں مومنوں سے کہیں گے کہ ہماری طرف نظر کیجئے کہ ہم بھی تمھارے نور سے روشنی حاصل کریں تو ان سے کہا جائے گا کہ پیچھے لوٹ جاؤ- حدید نے اپنے بازوؤں میں چہرہ چھپا لیا تھا- “اور وہاں نور تلاش کرو پھر ان کے بیچ ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہو گا- جو اس کے اندرونی جانب ہو تو اس میں تو رحمت ہے اور جو بیرونی جانب ہے اس طرف عذاب ہے تو منافق لوگ مومنوں سے کہیں گے کیا ہم دنیا میں تمھارے ساتھ نہ تھے- وہ لوگ کہیں گے کیوں نہیں مگر تم نے خود اپنے تئیں بلا میں ڈالا اور ہمارے حق میں حوادث کے منتظر رہے اور اسلام میں شک کیا۔