اس کی آواز اسے اندر تک کاٹ رہی تھی- وہ دوبارہ کبھی کسی کو اپنا چہرہ دکھانا نہیں چاہتا تھا- “اور لاحاصل آرزوؤں نے تم کو دھوکہ دیا یہاں تک کہ خدا کا حکم آن پہنچا اور خدا کے بارے میں شیطان دغا باز دغا دیتا رہا تو آج تم سے معاوضہ نہیں لیا جائے گا اور نہ کافروں سے ہی-“ اس کا پورا وجود موم بن کر پگھل رہا تھا- وہ آھستہ آواز میں بولتی جا رہی تھی- “اور نہ کافروں ہی سے قبول کیا جائے گا- تم سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے کہ وہی تمھارے لائق ہے اور وہ بری جگہ ہے اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے یہی اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہید ہیں ان کے لیے ان کے اعمال کا صلہ ہو گا اور جن لوگوں نے کفر کیا اور تمہاری آیتوں کو جھٹلایا وہی اہل دوزخ ہیں- وہ تمھارے لیے روشنی کر دے گا جس میں چلو گے اور وہ تم کو بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے-“ وہ خاموش ہو گئی تھی- حدید بازوؤں میں سر چھپائے بیٹھا رہا- چاروں طرف ایک عجیب سا سناٹا پھیلا ہوا تھا- ہوا سے ہلنے والے پتوں کی سرسراہٹ کے علاوہ وہاں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا- بہت دیر بعد حدید نے سر اٹھایا تھا- کرسٹینا نے اس کے چہرے کو آنسوؤں سے تر دیکھا تھا- “اگر میں واپس جانا چاہوں تو؟ اگر مجھے —– اگر مجھے اپنے کیے پر افسوس ہو تو؟ اگر .میں ….. الله سے معافی مانگنا چاہوں تو؟ اگر —– اگر میں پچھتاوے کا اظہار کروں تو —؟ تو کیا ہو گا کرسٹینا، کیا الله مجھے معاف کر دے گا؟” اس نے لڑکھڑاتی آواز میں اس سے پوچھا تھا- “ہاں- وہ تمہیں معاف کر دے گا وہ تمھارے لیے روشنی کر دے گا جس میں چلو گے اور تمہیں بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے-“ “تو میں، میں دوبارہ کبھی یہ گناہ نہیں کروں گا- میں دوبارہ کبھی یہ سب نہیں کروں گا- میں مرتے دن تک مسلمان ہی رہوں گا- میں اب کسی چیز کے گم ہونے پر خدا سے شکوہ نہیں کروں گا- بس تم میرے لیے الله سے دعا کرنا کہ وہ مجھے معاف کر دے-“ وہ بھرائی آواز میں کہتا گیا تھا- “میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے باہر جانا چاہتا ہوں- کچھ پراپرٹی میں بیچ چکا ہوں، باقی چند دنوں میں بیچ دوں گا-“ اگلے دن وہ بے حد پر سکون تھا- ٹھہرے ہوئے لہجے میں وہ اسے اپنے آئندہ کے پروگرام کے بارے میں بتا رہا تھا- وہ سنتی جا رہی تھی- بات کرتے کرتے وہ اچانک رک گیا- “تمہارا نام کیا اب بھی کرسٹینا ہی ہے؟” “نہیں میرا نام ثانیہ ہے-” اس نے حدید کو بتایا تھا- “مگر سب یہاں مجھے کرسٹینا کے نام سے ہی جانتے ہیں-“ “میں تم سے باہر جانے کے بعد بھی کانٹیکٹ رکھنا چاہتا ہوں- تم مجھے کوئی ایڈریس بتاؤ، کوئی فون نمبر؟” ثانیہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی تھی- “تم دارلکلام آ کر میرے بارے میں پوچھ سکتے ہو- رابطہ بھی کر سکتے ہو-“ اس نے حدید کو ایک ایڈریس لکھوا دیا تھا- حدید نے اس کا ایڈریس نوٹ کر لیا تھا- “میں باہر جا کر تمہیں اپنا ایڈریس بجھوا دوں گا، کیا میں توقع رکھوں کہ تم میرے ساتھ رابطہ رکھو گی؟! اس نے والٹ جیب میں رکھتے ہوئے اس سے پوچھا تھا، اس نے سر ہلا دیا- <33 اگلے ایک ہفتہ میں اس نے اپنی باقی پراپرٹی بھی بیچ دی تھی- اپنے نانا کو اس نے اپنی آمد کی اطلاع دے دی تھی اور سیٹ کنفرم کروانے کے بعد وہ آخری بار کرسٹینا سے ملنے گیا تھا- “میں کل واپس جا رہا ہوں-” اس نے کرسٹینا کو بتایا تھا- وہ خاموش رہی تھی- کچھ دیر تک اس نے بھی کچھ نہیں کہا تھا- حدید نے اپنی جیب سے ایک چیک نکال کر اس کی طرف بڑھایا تھا، وہ حیران ہوئی تھی- “یہ کچھ روپے ہیں، یہ بہت زیادہ نہیں ہیں، مگر اتنے ضرور ہیں کہ تمہیں کافی عرصے تک کسی سے مدد نہیں لینی پڑے گی- تم مسلمان ہو چکی ہو تو تمہیں مسلمان بن کر رہنا چاہیے-“ کرسٹینا نے ہاتھ نہیں بڑھایا تھا- “مجھے روپے کی ضرورت نہیں ہے، میری جاب کا انتظام ہو چکا ہے- اب مجھے کوئی پرابلم نہیں ہو گی-“ “پھر بھی میں چاہتا ہوں، یہ چیک تم لے لو- تمہیں اس کی ضرورت پیش آ سکتی ہے-“ “حدید! مجھے ضرورت نہیں ہے، مجھے تم سے روپیہ نہیں چاہیے-“ اس بار اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تھا- حدید کچھ مایوس ہوا تھا- اس نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا تھا- خاموشی کا ایک اور طویل وقفہ اس کے درمیان آیا تھا- “کیا تم دو سال میرا انتظار کر سکتی ہو؟” اس نے کرسٹینا کو چونکتے دیکھا تھا- “انتظار؟” “تم نے کہا تھا، تم مجھ سے محبت کرتی ہو…… ہم دونوں اکھٹے اچھی زندگی گزار سکتے ہیں- دو سال بعد میں واپس آ کر تم سے شادی کر لوں گا-” وہ اس سے کہہ رہا تھا- “تم میرے بارے میں بہت کم جانتے ہو-“ “مجھے کچھ نہیں جاننا، میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں-“ وہ اس کی بات پر اس کا چہرہ غور سے دیکھتی رہی تھی- “کیا تم دو سال میرا انتظار کر سکتی ہو؟” وہ ایک بار پھر پوچھ رہا تھا- “ہاں-“ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا- کرسٹینا نے اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوتے دیکھی تھی- کچھ دیر تک وہ کچھ کہے بغیر اس کے پاس کھڑا رہا تھا- پھر کرسٹینا نے اسے سیڑھیوں سے اترتے دیکھا تھا- آھستہ آھستہ وہ مڑ کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا- کرسٹینا نے ایک گہری سانس لے کر اپنا چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا- لندن میں آ کر پہلا کام جو اس نے کیا تھا وہ کرسٹینا کو خط لکھنے کا تھا- ثانیہ! پچھلے چند ہفتوں میں میری زندگی میں بہت کچھ بدل گیا ہے- اگلے چند ہفتوں میں مجھے کچھ اور تبدیلیوں سے گزرنا ہے- زندگی میں پہلی بار مجھے ان تبدیلیوں سے خوف نہیں آ رہا- زندگی میں پہلی بار مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں زمین پر کھڑا ہوں کسی خلا میں نہیں- تم نے مجھے قرآن پاک پڑھنے کے لئے کہا تھا- آج یہاں آنے کے بعد جب میں نے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا تو پہلی آیت وہ تھی جس کا ترجمہ چند دن پپهلے تم نے مجھے سنایا تھا- میرے لئے واقعی میرا الله کافی ہے- ابھی چند دن مجھے خود کو دریافت کرنے میں لگیں گے،اس کے بعد تمہیں بتاؤں گا کہ اپنے دین کو جاننا شروع کرنے کے بعد مجھے کیسا لگ رہا ہے- مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا- محمد حدید یہ خط آخری نہیں تھا جو اس نے ثانیہ کو لکھا تھا-ہر ہفتے وہ اسے خط پوسٹ کر دیتا چاہے پہلے خط کا جواب آیا ہوتا یا نہیں- کئی مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا تھا- ثانیہ اس کے خطوں کا جواب باقاعدگی سے دیتی رہی تھی- پھر تقریباً آٹھ، نو ماہ کے بعد اس نے حدید کو لکھا تھا کہ وہ کسی دوسرے شہر شفٹ ہو رہی ہے، اس لئے وہ آئندہ اسے اس ایڈریس پر خط نہ لکھے،وہ کچھ عرصہ تک اسے اپنا نیا ایڈریس بجھوا دے گی- چند ماہ تک حدید اسے خط لکھے بغیر اس کے خط کا انتظار کرتا رہا تھا- پھر اسے ثانیہ کا خط ملا تھا- اس میں حدید سے اتنے دن تک خط نہ لکھنے کے لئے معذرت کی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ ابھی تک اسے رہائش کے لئے کوئی مناسب جگہ نہیں ملی- اس نے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ اگلے خط میں اسے اپنا ایڈریس بجھوائے گی- اگلے خط میں اسے ایک ایڈریس بجھوا دیا گیا تھا- حدید مطمئن ہو گیا تھا- ایک بار پھر اس نے ثانیہ کو خط لکھنے شروع کر دے تھے مگر اس کے خطوں کے جواب آنا بہت کم ہو گئے تھے- پھر یہ سلسلہ مکمل طور پر بند ہو گیا تھا- وہ چند ماہ کافی پریشان رہا تھا- مگر پھر اس نے یہ سوچ کر خود کو دلاسا دے لیا تھا کہ دو سال مکمل ہونے ہی والے ہیں-وہ چھٹیوں میں خود پاکستان جائے گا اور ثانیہ سے ملے گا- چوکیدار نے اسے اندر آفس میں پہنچا دیا تھا- بردار مالکم نے آنے والے کو غور سے دیکھتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا اور بیٹھنے کے لیے کہا تھا- “میرا نام حدید ہے، میں ایک لڑکی کے بارے میں پتا کرنے آیا ہوں، اس کا نام کرسٹینا ہے اور وہ……” حدید نے کرسٹینا کی بتائی ہوئی ساری معلومات دہرانی شروع کی تھیں- “ہاں وہ تقریباً ایک سال پہلے یہاں رہتی تھیں- مگر پھر یہاں سے چلی گئیں-” بردار مالکم نے اس سے کہا تھا- “ہاں میں جانتا ہوں اور میں اس ایڈریس پر بھی گیا تھا جو انھوں نے بجھوایا تھا مگر وہ اس ہاسٹل میں نہیں ہیں- وہ صرف چند دن وہاں رہی تھیں- پھر وہاں سے کہیں اور چلی گئیں- میں نے سوچا، شاید وہ یہاں واپس آ گئی ہوں- یا اگر آپ مجھے ان کے بارے میں کچھ بتا سکیں-“ حدید نے تفصیل سے انھیں بتایا تھا- بردار مالکم خاموش ہو گئے تھے، چند لمحے خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا- “آپ کے لیے یہ بڑی شاکنگ نیوز ہو گی لیکن…… یہاں سے جانے کے کچھ عرصہ بعد ہمیں پتا چلا تھا کہ ایک ایکسیڈنٹ میں کرسٹینا کی ڈیتھ ہو گئی-“ حدید سکتے میں آ گیا تھا- “شاید اسی وجہ سے وہ دوبارہ آپ سے رابطہ نہیں کر سکیں- ” آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ……” حدید اپنی بات مکمل نہیں کر پایا، بردار مالکم نے ہمدردی سے اسے دیکھا تھا- “ان کی ایک دوست نے بتایا تھا-” وہ دونوں ہاتھ ٹیبل پر جمائے بردار مالکم کو بے یقینی کے عالم میں دیکھتا رہا- “آپ ان کے کیا لگتے ہیں؟” بردار مالکم نے اس سے پوچھا تھا- اس کا ذہن بالکل ماؤف ہو چکا تھا- وہ با تاثر چہرے کے ساتھ بردار مالکم کو دیکھتا رہا- “کیا آپ مجھے اس کی قبر کے بارے میں بتا سکتے ہیں-” وہ یک دم جیسے بہت تھک گیا تھا- “نہیں، ہم اس بارے میں کچھ نہیں جانتے- ان کے مرنے کے کافی دنوں بعد ہمیں پتا چلا تھا-“ “اس دوست کا پتا بتا سکتے ہیں؟” وہ کچھ بے چین ہو گیا تھا- “وہ شادی کے بعد پاکستان سے باہر جا چکی ہیں- پہلے ان کی فیملی کو ٹریس آوٹ کرنا پڑے گا اور پھر انہیں، مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ بھی آپ کو کرسٹینا کے بارے میں کچھ بتا پائیں- ہو سکتا ہے انہوں نے بھی کسی سے اس بارے میں سنا ہو- بہتر یہی ہے کہ آپ ان کے لیے دعا کریں-“ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا- ” اگر کبھی آپ کو کرسٹینا کے بارے میں کچھ پتا چلے تو مجھے اطلاع دے دیجئے گا-” بردار مالکم سے ہاتھ ملاتے ہوئے اس نے درخواست کی تھی- انہوں نے اسے تسلی دی تھی- دارلکلام سے باہر آتے ہوئے وہ بے حد افسردہ تھا- سڑک کے کنارے چلتے ہوئے اسے دو سال پہلے کے سارے واقعات یاد آ رہے تھے- “کسی بھی چیز کے ختم ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوتی، ہر بار کسی چیز کے کھونے پر الله سے شکوہ کرنے کے بجائے اس کا شکر ادا کرنا کہ اس نے تم سے صرف ایک چیز لی، سب کچھ نہیں لے لیا-“ دو سال پہلے کہے گئے اس کے الفاظ حدید کے کانوں میں گونج رہے تھے- انگلینڈ میں گزارے جانے والے دو سال میں وہ اپنی آئندہ کی بیس سالہ زندگی پلان کر چکا تھا- ثانیہ کے ساتھ رابطہ ٹوٹنے کے باوجود وہ اس کے ذہن سے محو نہیں ہوئی تھی- اس نے دو سال انگلینڈ میں ہوتے ہوئے بھی ثانیہ کے قریب گزرے تھے- وہ جیسے ہر وقت اس کے قریب ہوتی تھی- اس کی آواز ہر لمحہ اس کی سماعتوں میں گونجتی رہتی تھی اور اب سب کچھ ایک بار پھر بکھر گیا تھا سارے خواب، سارے منصوبے، ساری خواہشات ایک بار پھر ختم ہو گئیں تھیں- مگر عجیب بات یہ تھی کہ اس بار اسے پہلے کی طرح الله سے شکوہ نہیں ہوا تھا- اسے شاک لگا تھا- وہ ہرٹ بھی ہوا تھا مگر دو سال پہلے والی فرسٹریشن اور ڈپریشن نے اسے اپنے حصار میں نہیں لیا تھا- “ایک اور آزمائش میرے سامنے آئی ہے اور اس بار آزمائش میں مجھے صبر اور استقامت سے کام لینا ہے- اس بار مجھے شکوہ نہیں شکر ادا کرنا ہے-“ ہوٹل کے کمرے میں نماز پڑھنے کے بعد اپنا سامان پیک کرتے ہوئے اس نے سوچا تھا- “الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن وہ لوگ جن کی دنیا میں تمام خواہشات پوری ہوئی ہیں ان لوگوں پر خدا کا انعام و کرام دیکھیں گے جن کی دنیا میں خواہشات پوری نہیں ہوئیں تو وہ دھاڑریں مار مار کر روئیں گے اور خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں انھیں بھی کچھ نہ ملتا-“ اس کی سماعتوں میں ایک بار پھر ایک آواز لہرائی تھی- “اور میں اسی لئے صبر کروں گا-” اس نے زیر لیب کہا تھا- “اور میں الله سے دعا کروں گا کہ تم سے ہونے والی ہر غلطی کو معاف کر دے اور تمہیں ان نیکیوں کے لیے اگلی دنیا میں بہت کچھ دے جو تم نے یہاں اس دنیا میں میرے جیسے لوگوں کے ساتھ کی ہیں-“ اس نے آنکھیں بند کرتے ہوئے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا تھا- “سسٹر! مجھے آپ سے ایک درخواست کرنی ہے-“ وہ اس دن چرچ سے واپس آ کر سیدھی سسٹر پیٹریشیا کے پاس آئی گئی تھی- سسٹر الزبتھ بھی ان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں- “میں یہاں کانونٹ میں رہنا نہیں چاہتی- آپ مجھے کہیں اور بجھوا دیں-” سسٹر پیٹریشیا اس کے مطالبے پر حیران رہ گئی تھیں- “کیوں کیا ہو گیا ہے؟” “میں یہاں خود کو آزاد محسوس نہیں کرتی- میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت نہیں کر سکتی- مجھے صرف قران پاک میں دلچسپی ہے- ان کتابوں میں نہیں جو آپ مجھے پڑھنے کے لیے دیتی ہیں-“ سسٹر پیٹریشیا کو وہ اتنی بدلی ہوئی لگی تھی کہ انہیں چند لمحوں کے لئے یقین نہیں آیا تھا کہ یہ سب الفاظ اس کے ہیں- “کرسٹینا! تمہیں کیا ہوا ہے؟” “پلیز سسٹر! میں کرسٹینا نہیں ثانیہ ہوں- آپ مجھے میرے نام سے پکاریں-“ سسٹر پیٹریشیا نے سسٹر الزبتھ کی طرف دیکھا تھا- “سسٹر! میں مسلمان ہوں ہے میں مسلمان ہی رہنا چاہتی ہوں- میری برین واشنگ کرنے کی کوشش نہ کریں-“ وہ خود یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اتنی طاقتور کیسے ہو گئی تھی مگر اسے اس وقت کسی چیز سے خوف نہیں آ رہا تھا نہ کسی کی ناراضی سے نہ کسی کے اکیلا کر دینے سے اور نہ ہی موت سے- “ثانیہ! تمہارا نام صرف اس لئے بدلا گیا تھا تا کہ تمھارے نام کی کسی لڑکی کے یہاں ہونے کی بات لیک آوٹ نہ ہو سکے ورنہ اور کوئی وجہ نہیں تھی-“ سسٹر پیٹریشیا کا لہجہ ایک دم معذرت خواہانہ ہو گیا تھا- “آپ یہ خبر لیک آوٹ ہو جانے دیں مگر مجھے میرے اپنے نام سے پکاریں- میں اب کسی چیز سے خوفزدہ نہیں ہوں- میرے ساتھ جو ہونا ہے وہ ہو گا اور میں اسے روک نہیں سکتی- مگر آپ مجھ سے میرا تشخص چھیننے کی کوشش نہ کریں- مجھے یہاں سے بجھوا دیں-“ اس کا لہجہ اتنا قطعی تھا کہ دونوں سسٹرز میں سے کسی نے مزید کچھ نہیں کہا تھا- “ٹھیک ہے، تم کو یہاں سے بجھوا دیا جائے گا-“ “تھینک یو سسٹر-” وہ کمرے سےنکل آئی تھی-
پچھلے بہت سے دنوں میں پہلی بار اس نے بڑی بے خوفی سے لائبریری میں جا کر قرآن پاک کو بلند آواز سے تلاوت شروع کر دی تھی- “اب مجھے اس شخص کے لئے چرچ نہیں جانا کیونکہ وہ وہاں نہیں آئے گا- وہ کبھی کسی چرچ میں الله کو ڈھونڈنے اور سکون پانے نہیں جائے گا اور مجھے کسی جھوٹ کا سہارا لے کر یہاں سے اس کے پاس نہیں جانا پڑے گا اور اب مجھے کسی سے یہ چھپانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ میں کون ہوں اور کیا چاہتی ہوں اور آج مجھے ڈائننگ روم میں کسی دعا میں شرکت کے ساتھ اپنا کھانا نہیں کھانا- مجھے کھانا کھانے سے پہلے صرف بسم اللہ پڑھنی ہے اور بآواز بلند پڑھنی ہے اور کل مجھے کسی چرچ سروس میں شرکت نہیں کرنا- واحد کام جو مجھے کرنا ہے، وہ اس قرآن پاک کی تلاوت ہے اور اب مجھے یہ تلاوت کبھی بھی چھپ کر اور ڈر کر نہیں کرنی نہ ہی نماز پڑھتے وقت مجھے دل میں کوئی خوف رکھنا ہے- پھر جنہیں مجھے چھوڑنا ہو گا وہ مجھے چھوڑ دیں گے اور مجھے صرف اپنے الله سے سہارا چاہیے- میرے لیے میرا الله اور میرا رسول (صلی الله علیہ والہ وسلم) کافی ہیں اور میں اپنے گناہوں کے لئے الله سے رحمت کی طلبگار ہوں-“ اس نے زندگی میں کبھی خود کو اتنا طاقتور محسوس نہیں کیا تھا جتنا وہ اس وقت کر رہی تھی- “تم نے کیا سوچا ہے؟” ہیومن رائٹس کمیشن کی اس نامی گرامی عہدے دار نے اس سے ایک بار پھر پوچھا تھا- “میں آپ کو بتا چکی ہوں، مجھے کسی کورٹ میں پیش ہونا ہے نہ ہی میڈیا کے سامنے آنا ہے- مجھے ایسا کچھ نہیں کرنا-” اس نے انکار کرتے ہوئے کہا تھا- “تم انکار نہیں کر سکتیں- یہ دونوں کام تمھارے لیے ضروری ہیں- تم اس کیس میں گواہ ہو- تمہاری گواہی بہت ضروری ہے- تمہاری گواہی کے بغیر بلال بچ جائے گا-“ اس کے سر میں درد کی لہریں اٹھنے لگی تھیں- “اور میڈیا کے سامنے آنا اس لئے ضروری ہے تا کہ تم انہیں بتا سکو کہ اس ملک میں عورتوں کو کس قسم کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے- ان کے حقوق کس طرح پامال کیے جاتے ہیں- اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، اس کے ساتھ کس طرح امتیاز برتا جاتا ہے- تمہارا میڈیا کے سامنے آنا بہت ضروری ہو گیا ہے-” وہ عورت بولتی جا رہی تھی- “آپ کو پتا ہے، میرے اس طرح کے بیانات سے کیا ہو گا- مسلمانوں اور اقلیتوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو جائیں گے- میں نہیں چاہتی میری وجہ سے کسی اقلیت کو نقصان اٹھانا پڑے مگر آپ مجھ سے جو چاہ رہی ہیں، اس کے بعد یہی ہو گا-” وہ کچھ برہم ہو گئی تھی- “ہم نے اس بارے میں بہت سوچا ہے اور پچھلے ایک سال کے عرصے میں یہی سوچ کر خاموشی اختیار رکھی ہے تا کہ اس مسئلے کی وجہ سے دونوں کمیونٹیز کے درمیان کشیدگی نہ ہو، مگر اب حالات کافی حد تک نارمل ہیں- جوئیل کی فیملی باہر منتقل ہو چکی ہے، ان پر کسی قسم کے حملے کا خطرہ نہیں-“ “مگر باقی لوگوں پر تو ہے، ساری اقلیتیں تو باہر شفٹ نہیں ہو سکتیں- میری ایک غلطی سے میری اور ڈیوڈ کی فیملی کو جو نقصان پہنچ چکا ہے، میں نہیں چاہتی اب ویسا کو نقصان کسی دوسرے کو برداشت کرنا پڑے-“ “تم نے کوئی غلطی نہیں کی- تم نے جو کیا، وہ اپنے حق کے لیے کیا- تاریخ میں تم جیسی لڑکیوں کا نام بہت اونچی جگہ لکھا جائے گا-” وہ عورت ایک بار پھر اس کے سامنے جال بچھا رہی تھی- “مجھے کسی تاریخ میں نام نہیں لکھوانا ہے- مجھے کسی تاریخ کا حصہ نہیں بننا ہے- میں نے جو کچھ کیا، مجھے اس پر کوئی فخر نہیں- تاریخ میرے چہرے کو سونے سے لکھے یا چاندی سے مگر میری نظروں میں، میرا سیاہ چہرہ سیاہ رہے گا- دنیا کا کوئی پانی اس سیاہی کو دور نہیں کر سکتا، میرے گناہ نے میرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر مجھے محتاج بنا کر آپ کے سامنے پھینک دیا ہے- اب میں چاہوں بھی تو اپنے پیروں پر خود کھڑی نہیں ہو سکتی، مگر میں اس سب کے لیے کسی کو ذمہ دار نہیں سمجھتی- یہ صرف اور صرف میری غلطی تھی- میری غلطی کی وجہ سے ڈیوڈ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بس یہی کافی ہے- مجھے کسی میڈیا کے سامنے آ کر اپنا یہ بدصورت چہرہ لوگوں کو نہیں دکھانا ہے-” وہ عورت عجیب نظروں سے اسے دیکھتی رہی- میڈیا کے سامنے تمہیں آنا چاہیے یا نہیں مگر کورٹ میں تو تمہیں پیش ہونا چاہیے، تم مانتی ہو کہ غلطی تمہاری تھی جس کی وجہ سے ڈیوڈ کو مشکلات کا سامان کرنا پڑا- کیا اب یہ ضروری نہیں ہے کہ تم انصاف کرو ڈیوڈ کے ساتھ، اس کی فیملی کے ساتھ، تم کورٹ میں پیش نہ ہو کر ایک اور گناہ نہیں کرو گی کیا؟ سچ چھپا کر؟ بلال کو سزا سے بچا کر-“ “پلیز، اس وقت مجھے اکیلا چھوڑ دیں- اس وقت میں کچھ سوچنا نہیں چاہتی- پلیز آپ یہاں سے چلی جائیں-“ وہ یکدم سر پکڑ کر چلانے لگی تھی- ہیومن رائٹس کمیشن سے متعلق وہ تینوں عورتیں کچھ دیر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہنے کے بعد کمرے سے نکل گئی تھیں- ان عورتوں کے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک اس کے ذہن میں ان کی باتیں گونجتی رہی تھیں- وہ ایک عجیب شش و پنج میں گرفتار تھی- اس کی گواہی سے بلال کو نقصان پہنچتا تھا اور گواہی نہ دینے سے وہ ضمیر کی خلش کا شکار تھی- بلال نے ڈیوڈ کو قتل کیا ہے اور میں گواہی نہ دے کر اس گناہ میں اس کی شریک کیوں بننا چاہتی ہوں- میں گواہی نہ دے کر ایک بار پھر الله کے سامنے…… نہیں میں اب ایسا کوئی کام نہیں کروں گی جس سے مجھے الله کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑے- اگر میں اپنے غلط کام کی سزا بھگت رہی ہوں تو پھر بلال کو بھی سزا ملنی چاہیے- دنیا کا کوئی قانون اسے یہ حق نہیں دیتا کہ وہ ڈیوڈ کو قتل کر دے- اگر بات انصاف کی ہے تو ڈیوڈ اور اس کے گھر والوں کے ساتھ بھی انصاف ہونا چاہیے- اس شام نماز پڑھنے کے بعد خود بخود ہی جیسے اس کے لیے ہر فیصلہ کرنا آسان ہو گیا تھا- اس نے زندگی میں کبھی اتنے لوگوں کو خود کو گھورتے نہیں دیکھا تھا، ان میں ہر طرح کی نظریں تھیں- وہ نظریں جن میں اس کے لیے نفرت تھی، وہ نظریں جن میں اس کو دیکھ کر حیرانی تھی اور وہ نظریں جس میں اس کے لیے ترس تھا، کورٹ کے اندر داخل ہونے تک اس نے اپنے بارے میں بہت سے جملے سن لیے تھے- اس کا دل ان جملوں کو سن کر زمین میں گڑنے کو نہیں چاہا تھا، وہ پہلے ہی زمین میں گڑ چکی تھی- “وہ جسے چاہے ذلت دیتا ہے-“ اس کے ذہن میں ایک آیت لہرائی- “اور ذلت کا انتخاب میں نے اپنی مرضی سے کیا اور اب مجھے صبر کرنا چاہیے-” اس نے چادر سے چہرے کو چھپاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو بھینچ لیا تھا- کورٹ روم میں بہت عرصے کے بعد اس نے چند ایسے چہروں کو دیکھا تھا جن کے بغیر رہنا کبھی اس کے لئے ناممکن تھا اور اب وہ کتنے عرصے سے ان کے بغیر ہی رہ رہی تھی اس نے یاد کرنے کی کوشش کی تھی- کٹہرے میں کھڑے بلال پر اس نے دوسری نظر نہیں ڈالی تھی- پہلی نظر اس سے ملتے ہی بلال نے زمین پر تھوک دیا تھا- اور یہ بلال وہ تھا جو اس کے کہنے پر کوئی بھی کام کرنے کو تیار رہتا تھا اور آج…… آج اس کی آزمائش تھی- اسے پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ عدل کرنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے اور تب عدل کرنا جب اس سے اپنے ہی جسم کا ایک حصہ زخمی ہوتا ہو- اس نے اپنے وجود میں پہلی بار کپکپاہٹ محسوس کی تھی- جج نے اسے کٹہرے میں بلوا لیا تھا- لوگوں سے بھرے ہوئے کورٹ روم پر نظر دوڑاتے ہوئے اس نے جج کو دیکھا تھا- ایک گہری سانس لے کر اس نے اپنا بیان ریکارڈ کروانا شروع کر دیا تھا- کورٹ روم میں سناٹا تھا اور وہ جانتی تھی بلال کی زندگی کا فیصلہ اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کریں گے اور اس نے وہاں سچ کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا تھا- اگلے چند ہفتوں میں عدالت نے اس کی کسٹڈی کا فیصلہ بھی کیا تھا- وہ نہیں جانتی تھی کہ جج پر کتنا پریشر ڈالا گیا تھا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا تھا کہ اسے اس کی مرضی کے مطابق اسی ادارے کے پاس رہنا دیا گیا تھا جہاں وہ رہ رہی تھی- وہ جانتی تھی چند دنوں کے اندر اسے ملک سے باہر بجھوا دیا جائے گا اور اس کے بعد…… اس نے عدالت کو بلال کو عمر قید کی سزا دیتے ہوئے بھی سنا تھا- اس نے بلال کے چہرے پر پھیلتی ہوئی تاریکی بھی دیکھی تھی- وہ بلال کے خوابوں سے واقف تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اب اس کی زندگی کہاں گزرے گی- وہ تیس سال کا تھا اور اگلے کئی سال اس نے……- “اور یہ سب میری وجہ سے ہوا، صرف میری وجہ سے-“ اس نے سوچا تھا اور اس کے اعصاب پر تھکن سوار ہونے لگی تھی- کوئی خاندان کے لیے اتنی رسوائی کا سبب نہیں بن سکتا، جتنی رسوائی میں نے اپنے خاندان کو دی ہے- کاش الله نے مجھے اس دنیا میں اتارا نہ ہوتا یا اتارا تھا تو بہت پہلے مجھے مار دیا ہوتا اتنی لمبی زندگی نہ دی ہوتی-“ اس نے کورٹ سے باہر نکلتے ہوئے اپنی گیلی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے سوچا تھا- “مجھے اپنی زندگی کے لیے خود راستہ ڈھونڈنے دیں، میں وہ سب نہیں کر سکتی جو آپ چاہتے ہیں، مجھے کسی پریس کانفرنس میں اسلام اور پاکستان میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی مذمتی بیان نہیں دینا- آپ مجھے اپنے ہاتھ کا ہتھیار مت بنائیں، مجھے چھوڑ دیں- میری برین واشنگ کرنے کی کوشش مت کریں-“ “تم بہت سے حقائق کو نظر انداز کر رہی ہو- اس وقت اگر تم اس ملک میں زندہ سلامت موجود ہو تو یہ ہماری وجہ سے ہے- تم کو یاد رکھنا چاہیے کہ تمھارے لوگ اور تمہارا خاندان تمھارے ساتھ کیا کر سکتے تھے، صرف ہم لوگوں کی وجہ سے تم یہاں محفوظ بیٹھی ہو۔