“بعض دفعہ زندگی سب کچھ نہیں ہوتی، میرے پاس بھی زندگی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں-“ “ہم تمہیں صرف ایک بار پریس کانفرنس میں پیش کرنا چاہتے ہیں- اس کے بعد تم بے شک دوبارہ کبھی پریس کے سامنے مت آنا-“ “مجھے ایک بار بھی پریس کے سامنے نہیں آنا- اگر آپ نے مجھے مجبور کیا تو میں پریس کانفرنس میں یہ کہہ دوں گی کہ مجھے آپ لوگوں نے ٹریپ کیا تھا اور میں یہ سب کچھ آپ لوگوں کے کہنے پر کر رہی ہوں، اس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھے چھوڑ دیں-“ امریکہ آنے کے بعد اسے مسلسل پریشرائز کیا جا رہا تھا کہ وہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرے تا کہ میڈیا کے ذریعے ان ایشوز کو مزید اچھالا جائے جو پاکستان کے متعلق مغربی عوام کی رائے خراب کرتے رہے ہیں- ہیومن رائٹس کی جو مغربی تنظیم اسے پاکستان سے امریکہ لانے اور وہاں سیاسی پناہ دلوانے کی موجب بنی تھی اب وہ بدلے میں اس کو ایکسپلائٹ کرنا چاہ رہے تھے- امریکہ میں ہی اس کی ملاقات ڈیوڈ کی فیملی سے کروائی گئی تھی اور اس بار ڈیوڈ کی فیملی نے بھی اسے اسی کام پر مجبور کرنے کی کوشش کی تھی جو کام اس تنظیم کے افراد کروانا چاہ رہے تھے- اس کا جواب ایک بار پھر انکار کی صورت میں تھا- “میں جانتی ہوں، میری وجہ سے آپ کو اپنے بیٹے کی جان سے ہاتھ دھونا پڑے مگر میں مجبور ہوں- میں آپ کی بات نہیں ماں سکتی-“ ڈیوڈ کی فیملی واپس جاتے ہوئے بہت مشتعل تھی، اسے قائل کرنے میں ناکامی پر چند ہفتوں کے بعد اسے اس کی مرضی کے مطابق چھوڑ دیا گیا تھا- وہ وہاں سے نکلتے ہی طے کر چکی تھی کہ اسے کہاں جانا تھا- پرس میں کچھ ڈالرز اور ایک بیگ لیے وہ اسلامک سینٹر چلی گئی تھی- وہ جانتی تھی اب اسے مدد کی ضرورت تھی اور یہ مدد اسے امریکہ میں کہیں اور سے نہیں مل سکتی تھی- اسے سر چھپانے کے لیے جگہ اور ایک جاب کی ضرورت تھی اور یہ چیزیں اسے اب کوئی اور نہیں دے سکتا تھا- اسلامک سینٹر میں اس نے چند باتوں کے علاوہ اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا اور پھر مدد کے لیے درخواست دی تھی- اسے جواب میں ایک ریفرنس لیٹر کے ساتھ ایک پاکستانی کے پاس بجھوا دیا گیا تھا- وہاں جا کر اسے دوبارہ اپنی داستان نہیں سنانی پڑی تھی- اس پاکستانی نے اپنے ایک اسٹور میں اسے سیلز گرل کے طور پر ملازمت دے دی تھی- اسی کے توسط سے ایک جگہ پر پے انگ گیسٹ کے طور پر اس کے لیے رہائش کا بندوبست بھی کر دیا گیا تھا- اسے ایک بار پھر اپنی زندگی نئے سرے سے صرف اپنے بل بوتے پر شروع کرنی تھی اور یہ کام اسے شروع میں بہت مشکل لگتا تھا- بعض دفعہ سب کچھ اسے ایک ڈراؤنا خواب لگتا تھا جب وہ نیند سے بیدار ہو گی تو یہ خواب بھی ختم ہو جائے گا- وہ ایک بار پھر وہیں کھڑی ہو گی جہاں وہ پہلے تھی مگر ایسا نہیں ہوتا تھا- اسے یقین نہیں آتا تھا کہ جو کچھ وہ کر چکی ہے، وہ واقعی اس نے کیا ہے- “مجھے ڈیوڈ سے محبت کیسے ہو گئی اور پھر اس کے لیے میں جو کچھ کرتی رہی، وہ کیسے کرتی رہی- کیا وہ سب کرنے والی میں ہی تھی؟” وہ بعض دفعہ سوچ کر حیران ہو جاتی تھی اور یہ سب اس لیے ہوا کیونکہ مجھے اپنے مذہب کا پتا ہی نہیں تھا- اگر پتا ہوتا تو یہ سب کچھ کبھی نہ ہوتا- وہ پچھتاوے کا شکار ہو جاتی کیا مجھے واقعی ڈیوڈ سے محبت ہوئی تھی یا پھر وہ سب کچھ ایک جادو تھا- ایک ایسا جادو جس نے میری زندگی برباد کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کرنا تھا- بلال جیل کے اندر عمر قید کاٹے گا، میں ملک سے باہر عمر قید کاٹوں گی- وہ عمر قید کاٹنے کے بعد آزاد ہو کر واپس گھر چلا جائے گا- سب کچھ اس کے لیے دوبارہ شروع ہو سکتا ہے- مجھے اپنی زندگی کسی اولڈ ہوم میں گزارنا ہو گی- جاب سے واپس گھر آنے کے بعد وہ کئی کئی گھنٹے روتی رہتی اور پھر اچانک اسے وہ یاد آنے لگتا- بے اختیار اس کے آنسو تھم جاتے- پتا نہیں وہ اب کیسا ہو گا، زندگی کیسے گزار رہا ہو گا- مجھے یاد بھی کرتا ہو گا یا نہیں- جوں جوں وہ اس سے اپنا رابطہ ختم کرتی گئی تھی، اسے وہ زیادہ یاد آنے لگا تھا- جب اس نے مکمل طور پر اس سے رابطہ ختم کر دیا، تب اسے پہلی بار پتا چلا تھا، وہ اس کے لیے صرف ‘نیکی’ نہیں رہا تھا، وہ اس کے لیے کچھ اور ہو چکا تھا اور یہ انکشاف اس کے لیے بے حد ہولناک تھا- اس کا خیال تھا اسے ڈیوڈ کے بعد کسی سے محبت نہیں ہو سکتی تھی مگر اس کا خیال غلط ثابت ہو چکا تھا، اسے محبت ہو چکی تھی- بہت دفعہ اپنے قریب سے گذرتے ہوئے کسی شخص پر اسے اس کا گمان ہوتا اور وہ اسے پکار بیٹھتی- پھر اچانک اسے احساس ہوتا کہ وہ کیا کر رہی ہے- بہتر ہے، وہ کبھی دوبارہ میرے سامنے نہ آئے- اس سے دوبارہ کبھی میری ملاقات نہ ہو ورنہ وہ میرے ہر جھوٹ کو جان جائے گا اور پھر وہ میرے بارے میں کیا سوچے گا- “الله تعالیٰ اسے دوبارہ کبھی میرے سامنے مت لانا-” وہ ہر نماز کے بعد الله سے دعا کرتی- ہر ہفتے وہ اسلامک سینٹر جایا کرتی تھی، وہاں جانے کے بعد وہ کچھ پرسکون ہو جاتی تھی- اسے آھستہ آھستہ صبر آنے لگا تھا- پہلے کی طرح وہ جاب سے آنے کے بعد سارا سارا دن رو کر نہیں گزارتی تھی- خاموشی سے قرآن لے کر بیٹھ جاتی تھی- کمرے کی خاموشی اور تنہائی میں اسے الله اپنے بہت قریب محسوس ہوتا تھا، یوں جیسے وہ اس کے ہر عمل کو دیکھ رہا ہو، جانچ رہا ہو، پرکھ رہا ہو- “بعض دفعہ وہ اپنی سوچوں پر ہنس پڑتی، الله کو مجھے جانچنے اور پرکھنے کی کیا ضرورت ہے، میں اپنے عقیدے میں ثابت قدم رہی ہوں نہ مستحکم، مشکل کے وقت میں نے……” وہ آگے کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی- ماضی اس کے لیے دو دھاری تلوار کی طرح تھا جو اسے زخمی کرتی رہتی تھی- “میں اپنے اعمال کی وجہ سے اتنا پیچھے چلی گئی ہوں کہ اگر چاہوں تو بھی الله کو راضی نہیں کر سکتی- گناہ گاروں کو الله معاف نہیں کیا کرتا- انہیں میری طرح زندگی میں ہی دوزخ دے دیتا ہے اور میرے جیسے لوگ ساری عمر اس دوزخ سے فرار نہیں ہو سکتے- پھر بھی میں الله سے دعا کرتی رہوں گی کہ وہ مجھے اس گناہ کے لیے معاف کر دے جو میں نے اس کی نافرمانی کر کے کیا، کاش وقت ایک بار پھر پیچھے چلا جائے اور میں…… میں دوبارہ کبھی…… کبھی الله اور پیغمبر کی نافرمانی نہ کروں- کاش میں ہمیشہ ان دونوں کی فرمانبردار ہوتی- میری زندگی میں نافرمانی کے وہ لمحات کبھی نہ آتے وہ سوچتی اور رونے لگتی- اسلامک سینٹر میں وہ ایک مصری عالم کے پاس باقاعدگی سے جایا کرتی تھی- پروفیسر عبدالکریم بہت پرسکون تھے اور مشفقانہ انداز میں اسے تسلی دیا کرتے تھے- “تم نے جو کچھ کیا ہے، الله اس کے لیے تمہیں ضرور معاف کر دے گا کیونکہ تم سچے دل سے اپنی غلطیوں کے لیے معافی مانگ رہی ہو- یہ بھی ممکن ہے الله اب تک تمہیں معاف کر چکا ہو-“ ان کے پاس سے آنے کے بعد وہ اگلے کئی دن بہت پرسکون رہتی- ان کے الفاظ اس کے ذہن میں گردش کرتے رہتے- اس نے ان کے پاس جا کر بہت سے اعتراف کیے تھے اور انہوں نے ہر بار بہت پرسکون انداز میں اس کی باتیں سنی تھیں- تین سال گزارنے کے بعد ان ہی کے سامنے پہلی بار اس نے اپنی تنہائی کا اعتراف کیا تھا- “کچھ وقت لگے گا مگر الله تمہیں اکیلا نہیں رکھے گا- جن لوگوں کو الله معاف کر دیتا ہے ان پر بہت رحم کرتا ہے-“ انہوں نے ہمیشہ کی طرح اسے قرآنی آیات کے حوالے دے دے کر تسلی دی تھی- “مجھے اپنے گناہ پر اتنا پچھتاوا ہے کہ میں اب اپنے آپ کو کسی نعمت کا حقدار بھی نہیں سمجھتی-” اس نے ان کے پاس سے اٹھتے ہوئے سوچا تھا- پانچ سال اسی طرح گزر گئے تھے اور پھر ایک دن اسلامک سینٹر میں پروفیسر عبدالکریم نے اس سے کہا تھا- “اب تمہیں شادی کر لینی چاہیے-” ان کی بات اسے بے حد عجیب لگی تھی- “تم ساری زندگی اکیلی رہ سکتی ہو نہ ہی تمہیں اکیلے رہنا چاہیے- میرے پاس تمھارے لئے ایک پرپوزل ہے- تمھارے بارے میں پہلے ہی میں اس سے بات کر چکا ہوں- وہ سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تم سے شادی پر تیار ہے-“ انہوں نے اس لڑکے کے بارے میں تفصیلات بتاتے ہوئے کہا تھا- وہ ان کے سامنے ایک لفظ نہیں بول سکی تھی- اسے ان کے سامنے بیٹھے ہوئے اچانک احساس ہوا تھا کہ وہ واقعی ساری زندگی اکیلے نہیں رہ سکتی- شعوری اور لاشعوری طور پر اسے ایک سہارے کی تلاش تھی اور یہ سہارا اس کی اپنی فیملی ہی ہو سکتی تھی- “میرا خیال ہے، تم اس شخص کے ساتھ بہت خوش رہو گی-“ انہوں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا تھا اور اس کے ذہن کی سکرین پر ایک چہرہ لہرایا تھا- “خوش میں صرف ایک شخص کے ساتھ رہ کر ہو سکتی ہوں اور اس شخص کے لیے میں مر چکی ہوں- ہاں شادی کسی کے ساتھ بھی کی جا سکتی ہے اور زندگی کسی کے ساتھ بھی گزاری جا سکتی ہے اور مجھے واقعی ہی کسی کے ساتھ شادی کر لینا چاہیے- شاید میری زندگی میں کچھ بہتری آ جائے- شاید مجھے اولڈ ہوم میں نہ رینا پڑے-“ اس نے پروفیسر عبدالکریم کے پاس سے اٹھتے ہوئے سوچا تھا- پونے چار بجے وہ اسلامک سینٹر پہنچ گئی تھی- پروفیسر عبدالکریم بن اسود اپنے آفس میں اس کے منتظر تھے- ہمیشہ کی طرح وہ اس سے گفتگو میں مصروف ہو گئے تھے- ساتھ ساتھ وہ اپنے چھوٹے موٹے کام بھی نپٹا رہے تھے- اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے- پہلے سے لکھ کر رکھے گئے کچھ خطوط کو لفافوں میں بند کر کے پتے لکھ رہے تھے- ایک دو بار انہوں نے اپنے پیجر پر آنے والے پیغام دیکھے- وہ کسی دلچسپی کے بغیر ان کی باتیں سنتی اور معمول کے کام دیکھتی رہی- ان سے تمام ملاقاتوں میں آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ ان کی باتوں پر توجہ نہیں دے پا رہی تھی- اس کا ذھن کہیں اور اٹکا ہوا تھا- “ڈیوڈ، حدید اور…… اب یہ تیسرا شخص اور اگر زندگی اس تیسرے شخص کے ساتھ ہی گزارنی ہے تو پھر پہلے دونوں شخصوں کو میری زندگی میں آنے کی کیا ضرورت تھی یا …… یا مجھے ان سے ملنے کی کیا ضرورت تھی-” اسے اپنے گلے میں نمی اترتی محسوس ہوئی تھی- “کیا آپ نے اسے میرے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے؟” اس نے تیسری بار پروفیسر عبدالکریم سے پوچھا تھا- “ہاں-“ “اور اسے کوئی اعتراض نہیں ہے؟” اسے ابھی بھی بے یقینی تھی- وہ مسکرائے تھے- “تمھارے خیال میں اسے کیا اعتراض ہونا چاہیے؟” وہ خاموش رہی تھی- “میں جانتا ہوں تم پریشان ہو- یہ نارمل چیز ہے- تم اس سے ملی نہیں، اس لئے تمھارے دل میں بہت سے خدشات ہیں- جب تم اس سے مل لو گو تو تمھارے سارے خدشات ختم ہو جائیں گے- وہ اپنی عمر کے دوسرے لوگوں سے بہت مختلف ہے- بہت میچور اور بہت ٹھنڈے مزاج کا مالک ہے- تمہیں اس سے بات کر کے اندازہ ہو جائے گا کہ اس کے بارے میں میری رائے اتنی اچھی کیوں ہے-“ وہ اپنے اسی مخصوص انداز میں نرم اور دھیمی آواز میں اسے سمجھا رہے تھے- “سوا چار بجنے والے ہیں- وہ بس آنے ہی والا ہو گا- وقت کی پابندی کرتا ہے- اس کی اچھی عادتوں میں سے ایک یہ بھی ہے-” انہوں نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا تھا- “وقت کی پابندی……-” اسے کوئی بے اختیار یاد آیا تھا- آنکھوں میں آنے والی نمی کو روکنے کے لیے ان نے ہونٹوں کو سختی سے بھینچ لیا تھا- “ہر چیز کو کبھی نہ کبھی اپنے مقام پر جانا ہی ہوتا ہے-” بہت عرصہ پہلے پروفیسر عبدالکریم کی کہی ہوئی ایک بات اسے یاد آئی تھی- “اور شاید میرا مقام یہ تیسرا شخص تھا، ڈیوڈ یا حدید نہیں- اور کاش میں یہ سب پہلے جان گئی ہوتی-“ وہ پروفیسر عبدالکریم کے سامنے پڑی میز کی چمکدار سطح کو دیکھتے ہوئے سوچتی رہی- چار بج کر دس منٹ پر دروازے پر کسی نے دستک دی تھی اور پھر دروازہ کھول کر کوئی اندر آ گیا تھا- اسے اپنی پشت پر قدموں کی چاپ سنائی دی تھی- اس نے اپنے دل کی دھڑکن کو تیز اور ہاتھوں کو سرد ہوتے ہوئے محسوس کیا تھا- پھر اس نے ایک آواز سنی تھی- گرم کمرے میں بھی اس کا پورا جسم جیسے برف کی چٹان بن گیا تھا- پروفیسر عبدالکریم اب آنے والے سے بات کر رہے تھے- ثانیہ نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے ماتھے پر نمی محسوس کرنے کی کوشش کی تھی، ماتھا خشک تھا- اس کا خیال تھا کہ اس کو پسینہ آ گیا ہو گا- آنے والا اس کے پاس سے گزر کر پروفیسر عبدالکریم کے بائیں جانب میز کے سامنے رکھی ہوئی کرسی کھینچنے لگا تھا- ثانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا- پروفیسر عبدالکریم نے دونوں کا تعارف کروایا تھا- وہ بہت دیر تک اس کے چہرے سے نظریں نہی ہٹا سکی تھی- وہ بھی کچھ دیر اسے دیکھتا رہا، پھر کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا تھا- ثانیہ نے اس کے چہرے سے نظر ہٹا لی تھی- وہ اب بڑی سنجیدگی سے پروفیسر عبدالکریم سے باتوں میں مصروف تھا- “تم یقیناً اسے پسند کرو گی- بہت میچور اور ٹھنڈے مزاج کا مالک ہے-” پروفیسر عبدالکریم نے چند منٹ پہلے اس کے بارے میں کہا تھا- “ہاں وہ دیکھنے میں ایسا ہی لگ رہا ہے- میچور اور Cool headed میں کیا کوئی بھی لڑکی اسے پسند کر سکتی ہے- چاہے پہلے اس کی زندگی میں کوئی آیا ہو یا نہیں-” اس نے تلخی سے سوچا تھا- “تم دونوں ایک دوسرے کے بارے میں تقریباً سب کچھ پہلے ہی جانتے ہو- میرے خیال میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے میں نے تم لوگوں کو آگاہ نہ کر دیا ہو- اب یہ ضروری ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرو تا کہ ایک دوسرے کے بارے میں مزید جو کچھ جاننا ضروری ہو، جان سکو- میں کچھ دیر کے لیے کمرے سے باہر چلا جاتا ہوں- تم لوگ اتنی دیر آپس میں بات کر سکتے ہو-“ پروفیسر عبدالکریم کمرے سے نکل گئے تھے- ثانیہ نے گردن موڑ کر اپنی پشت پر بند ہوتا ہوا دروازہ دیکھا تھا، پھر اس کی طرف دیکھا تھا- وہ سر جھکائے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کی رنگ سے اپنی جینز پر نظر نہ آنے والی لکیریں بنانے میں مصروف تھا- ثانیہ نے اس پر سے نظر ہٹا لی تھی- سامنے فرنچ ونڈوز سے اس نے باہر نظر آنے والے منظر میں اپنی دلچسپی کی کوئی چیز ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی، کوئی بھی چیز- وہ ناکام رہی تھی- کمرے میں مکمل خاموشی تھی اور خاموشی کو توڑنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے- “کون پہلے بولے گا، میں یا یہ؟ اور جو پہلے بات شروع کرے گا، وہ کیا کہے گا؟” ثانیہ نے سوچنے کی کوشش کی تھی- وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ میرے پاس تو کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے مگر یہ کیوں خاموش ہے- اس کے پاس تو کہنے کے لیے بہت کچھ ہونا چاہیے، بہت کچھ- اس کے پاس تو لفظوں کی کمی نہیں ہونی چاہیے-“ ثانیہ نے سوچا تھا- اس نے سر جھکا لیا تھا- ایک منٹ، دو منٹ، تین منٹ، چار منٹ، پانچویں منٹ پر ثانیہ نے اسے ایک گہری اور لمبی سانس لیتے ہوئے سنا تھا- یوں جیسے وہ کسی ٹرانس سے باہر آ گیا تھا-
“اور اب یہ کیا کہے گا؟” ثانیہ نے سر جھکائے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی- “پچھلے چھ سال میں جس چہرے کو دیکھنے کی میں نے سب سے زیادہ خواہش کی تھی، وہ تمہارا چہرہ تھا اور آج یہاں تمہیں دیکھنے کے بعد جس چہرے کو میں کبھی دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتا، وہ بھی تمہارا چہرہ ہے- عجیب بات ہے نا-“ “ہاں ٹھیک ہے، مجھے یقین تھا یہ ایسی ہی کوئی بات کہے گا-” ثانیہ نے سوچا- “پچھلے چھ سال میں جس چہرے کو میں کبھی دیکھنا نہیں چاہتی تھی، وہ تمہارا چہرہ تھا اور آج یہاں اس کمرے میں تمہیں دیکھنے کے بعد جس چہرے کو میں دوبارہ کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہتی، وہ بھی تمہارا ہی چہرہ ہے- عجیب بات ہے نا-“ اس نے سوچا تھا- اپنے اندازے کے صحیح ہونے پر اسے جیسے ایک عجیب سی خوشی ہوئی تھی- وہ اب بھی بول رہا تھا- اسی پختہ اور سرد آواز میں- “میں لوگوں کو کبھی سمجھ نہیں سکتا اور عورت کو تو شاید بالکل بھی نہیں- میں نہیں جانتا، ہر ایک مجھے ہی دھوکا کیوں دینا چاہتا ہے- میں نے تو کبھی کسی کے لیے برا سوچا ہے نہ برا چاہا- پھر بھی…… پھر بھی پتا نہیں لوگ میرے ساتھ یہ سب کیوں کرتے ہیں-“ اپنی گود میں رکھے ہوئے دائیں ہاتھ کی پشت پر اس نے پانی کے چند قطرے گرتے دیکھے تھے اور پھر ہاتھ دھندلا گیا تھا- اس نے سر نہیں اٹھایا- اس کی آواز اب ابھی کمرے میں گونج رہی تھی- “تمہیں یہاں اس کمرے میں دیکھنےکے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں پھر وہیں پہنچ گیا ہوں، جہاں چھ سال پہلے کھڑا تھا-“ “اور میں آج تک وہیں کھڑی ہو جہاں چھ سال پہلے تھی-“ “چھ سال پہلے تم سے ملنے کے بعد میں نے سوچا تھا، دنیا میں ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو خود غرض نہیں ہیں- جنہیں دوسروں کی پرواہ ہے- چھ سال پہلے میں نے تمہیں آئیڈیلائز کیا تھا- میں نے سوچا تھا مجھے زندگی میں تمھارے جیسا بننا ہے- آج یہاں اس کمرے میں بیٹھا میں سوچ رہا ہوں، کیا دنیا میں مجھ سے زیادہ بیوقوف کوئی اور ہو گا-“ اس کی آواز میں رنجیدگی تھی- ثانیہ کے ہاتھ پر گرنے والے پانی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا تھا- “پانچ سال پہلے جب میں نے واپس جا کر تمہیں تلاش کرنے کی کوشش کی تھی اور مجھے پتا چلا تھا کہ تم مر چکی ہو تو میں بہت رویا تھا- مجھے لگا تھا ایک بار پھر میری دنیا ختم ہو گئی- آج تمہیں یہاں دیکھ کر لگ رہا ہے کہ دنیا تو آج ختم ہوئی ہے- میں نہیں جانتا، اس کمرے سے نکلنے کے بعد میں کیا کروں گا- میں دوبارہ کسی عورت پر اعتبار کر بھی پاؤں گا یا نہیں- تم تو بہت باتیں کیا کرتی تھی، آج خاموش کیوں ہو، کچھ کہو-“ وہ اب اس سے پوچھ رہا تھا- “تمہیں آنسوؤں جیسے ہتھیار سے سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے- تم تو اس کے بغیر بھی دوسروں کو منہ کے بل گرانے میں ماہر ہو-“ وہ شاید اس کے بہتے ہوئے آنسو دیکھ چکا تھا- ثانیہ نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ گالوں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا تھا- “میں تمہاری زندگی کی پوری کہانی میں اپنا رول سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں- تمھارے لیے میں کیا تھا، ایک Filler ایک سپورٹ یا کچھ بھی نہیں- میں جاننا چاہتا ہوں کہ تم کو مجھ سے کیا چاہیے تھا- کون سی چیز تمہیں میری جانب کھینچ کر لائی تھی؟ تم نے میرے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟” اس کے پاس سوالوں کا انبار تھا اور ثانیہ کے پاس جوابات نہیں تھے- اپنی گود میں رکھا ہوا بیگ اٹھا کر وہ کھڑی ہو گئی تھی- وہ اس کا ارادہ بھانپ گیا تھا- “تم کہاں جا رہی ہو؟” اس نے تیزی سے پوچھا تھا.- کرسی دھکیل کر وہ دروازے کی طرف مڑ گئی تھی- وہ لپکتا ہوا اس کا راستہ روک کر کھڑا ہو گیا تھا- “میرے سوالوں کا جواب دیے بغیر تم کیسے جا سکتی ہو؟ تم اس طرح کیسے جا سکتی ہو؟” وہ خاموش رہی تھی- “تم جانتی ہو، تم نے مجھے کتنا بڑا دھوکا دیا ہے؟” وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا کہہ رہا تھا- ثانیہ نے اس کا چہرہ دیکھنے کو کوشش نہیں کی تھی- وہ اس کی جیکٹ کے کالر کو دیکھتی رہی- وہ کہہ رہا تھا- “تم ایک بہت بڑا فراڈ ہو-” اس نے جیکٹ کے بٹن گننا شروع کر دیے تھے- “اس طرح چپ رہ کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو تم؟ ڈرامہ کا کون سا ایکٹ رہ گیا ہے جسے اب پرفارم کرنا چاہتی ہو؟” وہ بٹن گن چکی تھی- اب دوبارہ کالرز دیکھ رہی تھی- “کیا تم بول نہیں سکتی ہو؟” وہ اب چلا رہا تھا- اس نے اب شرٹ کے بٹن گننے شروع کر دیے تھے اور تب اچانک اس نے اپنے دائیں بازو پر اس کے ہاتھ کی گرفت محسوس کی تھی- وہ اسے جنجھوڑ رہا تھا- بے اختیار اس نے سختی سے اس کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا دیا تھا- “مجھے ہاتھ مت لگاؤ حدید!” اس نے بلآخر اپنی خاموشی توڑ دی تھی- حدید کا چہرہ اس کے جملے پر سرخ ہو گیا تھا- “تمہارا وجود واقعی اتنا گندا ہے کہ میرے جیسے شخص کو ہاتھ تو کیا، اسے دیکھنا تک نہیں چاہیے-“ ثانیہ نے ایک بار پھر سر جھکا لیا تھا- “آج ہاتھ لگانے پر اعتراض ہوا ہے، چھ سال پہلے تو……” “چھ سال پہلے کا ذکر مت کرو- تب اور بات تھی-” ثانیہ نے اس کی بات کاٹ کر رہا تھا- “میں جاننا چاہتا ہوں وہ ‘اور بات’ کیا تھا جس کے لئے تم نے مجھے استعمال کیا-“ “آئی ایم سوری- اگر تم میری کسی بات سے کبھی ہرٹ ہوئے تو- اب میرا راستہ چھوڑ دو، مجھے جانا ہے-“ وہ اس کی بات پر جیسے ہکا بکا رہ گیا تھا- “تمھارے لئے یہ سب کرنا کتنا آسان ہے- آئی ایم سوری- اگر تم میری کسی بات سے کبھی ہرٹ ہوئے تو- تم نے میری زندگی کے چھ سال برباد کر دیے ہیں اور تم صرف ایک جملہ بول کر سب کی تلافی کرنا چاہتی ہو، صرف ایک جملہ بول کر- تم کیسی انسان ہو؟ تم کیسی عورت ہو؟” ثانیہ نے سر اٹھا کر پہلی بار اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا- حدید کو اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے نظر آئے تھے- “میں نے کب کہا کہ میں انسان ہو؟ میں نے کب کہا کہ میں عورت ہوں؟ میں تو تماشا ہوں- اپنے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی- تماشا بننے اور دیکھنے کے لیے بڑی ہمت اور صبر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں الله نے میرے مقدر میں لکھ دی ہیں- کچھ لوگوں کو الله دل آباد کرنے کے لیے بناتا ہے- کچھ کو زندگیاں برباد کرنے کے لیے- مجھے الله نے دوسرے کام کے لیے بنایا ہے- جو لوگ دوسروں کے دلوں کو کانٹوں سے زخمی کرتے ہیں، ان کے اپنے اندر کیکر اگے ہوئے ہوتے ہیں- وہ چاہیں یا نہ چاہیں، ان کے وجود کو کانٹا ہی بننا ہوتا ہے- وہ پھول نہیں بن سکتے- تم میرے لئے چھ سال روئے ہو، آج ایک بار اور رو لو، پھر سوچ لینا کہ میں واقعی ہی مر گئی- ساری دنیا تمھارے آگے کھلی پڑی ہے- تمھارے لیے بھی کوئی نہ کوئی ہو گا- ہر عورت میرے جیسی نہیں ہوتی اور جو ہوتی ہے اسے…… اسے حدید نہیں ملتا-“ اس نے ایک بار پھر سر جھکا لیا تھا- حدید نے اپنی پشت پر دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی- پروفیسر عبدالکریم اندر آ گئے تھے اور کمرے کے نظارے نے انہیں ہکا بکا کر دیا تھا- دونوں کے چہرے کے تاثرات اور ثانیہ کا بھیگا ہوا چہرہ انہیں پریشان کرنے کے لیے کافی تھا- ثانیہ بھیگی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی طرف بڑھی تھی- “میں آپ کی مشکور ہوں- آپ نے میرے لئے بہت کچھ کیا مگر ہم ہر بار اپنی قسمت نہیں بدل سکتے- آپ نے ہمیں جس کام کے لئے ملوایا تھا وہ نہیں ہو سکتا پھر…… پھر بھی آپ کا شکریہ-“ وہ کمرے سے باہر نکل آئی تھی- “زندگی اچھی چیز ہے- کیونکہ بس ایک بار ہی ملتی ہے- بار بار اس عذاب سے گزرنا نہیں پڑتا-” اس نے باہر آ کر سوچا تھا- “اور میں اگر یہ بات پہلے جان جاتی کہ یہ تیسرا شخص حدید ہے تو شاید آج کی ملاقات کی نوبت ہی نہ آتی-“ اس کو خیال آیا- پروفیسر عبدالکریم نے اسے حدید کا نام بتایا تھا لیکن ان کی انگلش میں عربی لہجہ اسے بہت سے لفظوں اور ناموں کی شناخت میں الجھن سے دوچار کر دیتا تھا- حدید کا نام بھی انہوں نے اس طرح لیا تھا کہ وہ نام کے صحیح سپیلنگ اور تلفظ کے معاملے میں کنفیوزڈ ہی رہی تھی- اسلامک سینٹر سے باہر آنے کے بعد فٹ پاتھ پر چند قدم چلتے ہی اس نے اپنی پشت پر ایک شناسا آواز سنی تھی- وہ حدید تھا- “میں تم سے صرف ایک بات جاننا چاہتا ہوں، صرف ایک بات-” وہ اس کے قریب آ گیا تھا- “چھ سال پہلے میرے پاس آنے کی وجہ میری محبت تو نہیں ہو گی- تمہیں کوئی اور چیز میرے پاس لائی تھی- محبت نہیں…… ہے نا؟” ثانیہ نے اسے دیکھا تھا اور پھر نفی میں سر ہلا دیا- پوری زندگی میں اس نے کبھی کسی کے چہرے کو دن کی روشنی میں اس طرح تاریک ہوتے نہیں دیکھا تھا، جس طرح حدید کا چہرہ ہوا تھا- وہ بالکل گم صم ہو گیا تھا- “اور مجھے یہ خوش فہمی تھی کہ…… تم مجھے صرف ایک بار یہ بتا دو کہ تم میرے پاس کس لئے آئی تھیں- تمہیں کیا چاہیے تھا- پلیز مجھے بتا دو-“ اس کے لہجے میں اب صرف افسردگی تھی، رنجیدگی تھی، التجاء تھی- پہلے والا اشتعال ختم ہو چکا تھا- ثانیہ نے کچھ کہنا چاہا پھر سر جھکا لیا- “یار! تم کبھی ہمارے گھر بھی آ جایا کرو- دیکھو میں اتنے چکر لگا چکی ہوں تمھارے گھر کے-“ ربیکا اس دن پھر ثانیہ سے اصرار کر رہی تھی- “ڈونٹ وری ربیکا! میں اس ویک اینڈ پر تمہاری طرف آؤں گی- میں خود بھی بہت دنوں سے سوچ رہی ہوں- یہ بس اتفاق کی بات ہے کہ کوئی نہ کوئی کام پڑ جاتا ہے-” ثانیہ نے معذرت کی تھی- “بس تو پھر طے ہے کہ اس ویک اینڈ پر تم ہماری طرف آ رہی ہو-“ ربیکا نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا تھا- “ڈیوڈ مجھے لینے کے لیے آ گیا ہے- میں جا رہی ہوں-“ اس نے کالج گیٹ کے باہر جھانکتے ہوئے کہا تھا- ثانیہ نے ربیکا کو جاتے ہوئے دیکھا تھا- وہ دونوں کانونٹ میں اکھٹی پڑھتی تھیں مگر اس وقت دونوں الگ سیکشنز میں تھیں اور دونوں کی دوستی الگ الگ لڑکیوں سے تھی- میٹرک کرنے کے بعد جب ربیکا نے کنیئرڈ کالج میں ایڈمیشن لیا تو اس کی دو بہترین دوستوں کو اپنے پیرنٹس کے ساتھ ملک چھوڑ کر جانا پڑا- ایک اور دوست کے والد کی ٹرانسفر دوسرے شہر ہو گئی- کنیئرڈ میں غیر محسوس طور پر وہ دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب آ گئیں- دونوں کے سبجیکٹس ایک ہی تھے اور ربیکا بہت ملنسار تھی- شروع میں ربیکا کے گروپ میں کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں مگر آہستہ آہستہ ان دونوں کی دوستی اتنی گہری ہو گئی کہ وہ دونوں ہر وقت ساتھ رہنے لگیں- ثانیہ تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹی تھی- جبکہ ربیکا کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھا اور وہ دوسرے نمبر پر تھی- سب سے بڑا اس کا بھائی تھا- ربیکا کے والد ایک این جی او کے لیے کام کرتے تھے- جبکہ ثانیہ کے والد ایک نامور بزنس مین تھے- ثانیہ کی ایک بڑی بہن اور بھائی کی شادی ہو چکی تھی اور ان دنوں اس کے لئے رشتہ تلاش کیا جا رہا تھا- ان کے خاندان میں لڑکیوں کی شادی بہت جلدی کر دی جاتی تھی- ثانیہ بھی جانتی تھی کہ انٹر کرنے کے بعد اس کی شادی بھی کر دی جائے گی- ویک اینڈ پر وہ ربیکا کے گھر گئی تھی- اسے اس کے گھر کا ماحول بہت اچھا لگا تھا- ربیکا کی ماں، باپ اور بہن بھائی سب آپس میں بہت فرینک تھے- اس نے کبھی ماں باپ اور بچوں کے درمیان اتنی دوستی نہیں دیکھی تھی- خود اس کے گھر میں بھی دوستانہ ماحول تھا مگر پھر بھی اس کے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے ساتھ ویسے تعلقات نہیں تھے جیسے ربیکا کے اپنے گھر والوں کے ساتھ تھے- لاشعوری طور پر وہ سارا وقت ربیکا اور اپنے گھر والوں کا موازنہ کرتی رہی- لنچ اس نے ربیکا اور اس کی فیملی کے ساتھ کیا تھا اور ڈائننگ ٹیبل پر ایک خاص قسم کی بے تکلفی تھی- ربیکا کے والد فرانس جوئیل بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے- وہ لنچ کے دوران چھوٹے موٹے لطیفے سناتے رہے- “ڈیڈی! میں کیرل کو دوبارہ گھر چھوڑنے نہیں جاؤں گا- اس کے گرینڈ فادر بہت لمبی چوڑی انویسٹی گیشن شروع کر دیتے ہیں-” لنچ پر باتیں کرتے کرتے اچانک ڈیوڈ نے اپنے باپ سے کہا تھا- “ٹھیک ہے- کیرل کو چھوڑنے مت جانا مگر آج میرے ساتھ ثانیہ کو تو چھوڑنے جانا ہی ہو گا-” ربیکا نے اسکی بات کے جواب میں کہا تھا- “ویسے کیرل کے دادا اتنے بھی برے نہیں ہیں- مجھے تو بہت اچھے لگتے ہیں-“ “میں نے کب کہا کہ وہ برے ہیں- پندرہ منٹ میں، میں کیرل کو گھر چھوڑتا ہوں اور اس کے دادا سے جان چھڑانے میں ایک گھنٹہ لگ جاتا ہے- میں شاید دسویں بار کیرل کو چھوڑنے گیا تھا مگر وہ ہر بار انٹرویو کا آغاز میرے نام سے کرتے ہیں اور پھر پورا بائیو ڈیٹا لینے بیٹھ جاتے ہیں- باپ اور ماں کا نام، بہن بھائیوں کی تعداد اور ان کے نام، تعلیم اور ہابیز، میرا نام، کوالیفیکیشن اور ہابیز- حتی کہ دوستوں کے نام بھی-“ وہ منہ بناتے ہوئے کہہ رہا تھا۔