میں سوچ رہا ہوں، اگلی بار اگر کبھی کیرل کو ڈراپ کرنا پڑا تو میں ایک فولڈر بنا کر ساتھ لے جاؤں گا- ان سے کہوں گا کہ ان کے سارے سوالوں کے جواب اس میں ہیں- وہ بعد میں آرام سے اس کا مطالعہ کر سکتے ہیں مگر فی الحال مجھے جانے دیں-“ بات ختم کر کے وہ خاموش ہوا تھا اور پھر اچانک اس نے ثانیہ سے پوچھا تھا- “آپ کے گھر میں تو ایسے کوئی دادا نہیں ہیں؟” وہ اس اچانک سوال پر یک دم گڑبڑائی تھی- “نہیں، ثانیہ کے گھر کوئی دادا نہیں ہیں اور اگر ہوتے بھی تو تمہیں فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے- میں خود تمھارے ساتھ اسے ڈراپ کرنے جاؤں گی اور ظاہر ہے، میں ہی گھر کے اندر جاؤں گی-“ ربیکا نے سلاد کھاتے ہوئے کہا تھا- لنچ کے بعد ربیکا کے ڈیڈی واپس آفس چلے گئے تھے- ربیکا کی ممی اور چھوٹی بہن مارکیٹ چلی گئی تھیں- ثانیہ ربیکا کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی گئی- صرف چند منٹ گزرے تھے جب اچانک اسٹیریو پر وٹنی ہوسٹن کا Body Guerd بجایا جانے لگا تھا- والیم اتنا بلند تھا کہ وہ دونوں بات کرتے کرتے چپ ہو گئیں- ربیکا نے چائے کا مگ رکھ دیا تھا- “یہ ڈیوی ہے- اسے اتنے مینرز نہیں ہیں کہ گھر میں کوئی آیا ہے تو والیم ہی تھوڑا کم رکھ لے- دن میں چھتیس بار ہم یہ نمبر سنتے ہیں- اس کا خیال ہے کہ وٹنی نے یہ نمبر اس کے لیے ریکارڈ کیا ہے-“ ربیکا ترشی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی تھی- چند منٹوں بعد اسٹیریو کے والیم کم ہو گیا تھا- ربیکا دوبارہ کمرے میں آ گئی تھی- “والیم کم کر دیا؟” ثانیہ نے اس کے اندر آتے ہی پوچھا تھا- “ہاں، میں نے اسے وٹنی کی قسم دی تھی-“ ثانیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی- “تمہارا بھائی وٹنی کا بہت بڑا فین لگتا ہے-” اس نے ہنستے ہوئے ربیکا سے کہا تھا- “یہ بات کبھی اس کے سامنے مت کہہ دینا- وہ خود کو فین نہیں، وٹنی کا لور سمجھتا ہے-“ “اوہ گاڈ! دنیا میں اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں-“ “دنیا میں تو پتا نہیں مگر ہمارے گھر میں ایسے ہی لوگ ہیں- ڈیوڈ وٹنی پہ مرتا ہے اور انیتا ٹام کروز پر-” اس نے چھوٹی بہن کا نام لیتے ہوئے کہا تھا- “اور تم…… تم کس پر مرتی ہو؟” ثانیہ نے شرارت سے پوچھا تھا- “ظاہر بھی بھئی رابن پہ-” اس نے اپنے فیانسی کا نام لیتے ہوئے کہا تھا- “میں ہمیشہ پکا کام کرتی ہوں-” اس نے کھلکھلاتے ہوئے ثانیہ سے کہا تھا- “مجھے تمہاری فیملی بہت اچھی لگی ہے-” ثانیہ نے چائے کا گھونٹ لیتے ہوئے کہا تھا- “تمہاری فیملی بھی تو بہت اچھی ہے-“ “ہاں مگر تمہاری فیملی جتنی نہیں- ہم لوگ ایک دوسرے سے اتنے کلوز نہیں ہیں-” اس نے سنجیدگی سے کہا تھا- “تم آ جایا کرو ہمارے گھر، مجھے بہت اچھا لگے گا-” ربیکا نے بڑے خلوص سے اسے آفر کی تھی- “ہاں، اب میں آتی رہوں گی- یہاں آ کر بہت اچھا وقت گزارا ہے میں نے-“ اس نے چائے کا مگ خالی کرتے ہوئے کہا تھا- پھر گفتگو کا موضوع بدل گیا تھا- چار بجے تک وہ دونوں باتیں کرتی رہیں- پھر ثانیہ گھڑی دیکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی- “میں ڈیوڈ کو بلاتی ہوں-” وہ اسے لاؤنج میں چھوڑ کر چلی گئی تھی- چند منٹوں بعد ربیکا اس کے کمرے سے نکل آئی تھی- “آؤ باہر پورچ میں چلتے ہیں- وہ سو رہا تھا- میں نے جگا دیا ہے- چند منٹوں میں باہر آ جائے گا-“ ربیکا نے اسے بتایا تھا- وہ اس کے ساتھ باہر پورچ میں آ گئی تھی- چند منٹوں بعد وہ جمائیاں لیتے ہوئے باہر نکلا تھا اور پھر گاڑی میں بیٹھ کر اس نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول دیا تھا- ربیکا ثانیہ کے ساتھ اندر بیٹھ گئی تھی- گاڑی سڑک پر لاتے ہی اس نے کیسٹ پلیئر آن کر دیا تھا- گاڑی میں وٹنی کا Body Guerd گونجنے لگا تھا اور ثانیہ نے بے اختیار قہقہ لگایا تھا- اسے چند گھنٹے پہلے ربیکا کے کہے گئے جملے یاد آ گئے تھے- ڈیوڈ نے حیرانی سے مڑ کر دیکھا تھا- “کیا ہوا؟” ثانیہ کو اور ہنسی آئی تھی- ربیکا بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگی تھی- شاید وہ بھی ثانیہ کی ہنسی کی وجہ جان چکی تھی- ڈیوڈ کچھ دیر بیک ویو مرر سے انہیں حیرانی سے دیکھتے ہوئے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس کے ماتھے پر بل پڑنے لگے تھے- ناراضگی کے عالم میں اس نے گاڑی سڑک کے کنارے روک دی- “پہلے تم لوگ مجھے اپنے ہنسنے کی وجہ بتاؤ یا پھر ہنسنا بند کرو، پھر میں گاڑی چلاؤں گا-“ اس نے پیچھے مڑ کر ان دونوں سے کہا تھا مگر ان دونوں کی ہنسی کی رفتار میں یکدم اضافہ ہو گیا تھا- وہ بالکل پاگلوں کی طرح ہنس رہی تھیں- پھر ربیکا نے خود پر کچھ قابو پاتے ہوئے کہا- “اچھا ٹھیک ہے- تم گاڑی چلاؤ، ہم خاموش ہو جاتے ہیں-“ بات ختم کرتے کرتے اس نے ثانیہ کی طرف دیکھا تھا اور وہ ایک بار پھر ہنسنے لگی تھی- “نہیں، اب تو میں بالکل گاڑی نہیں چلاؤں گا-” وہ کچھ اور بگڑ گیا تھا- “پلیز آپ گاڑی چلائیں، آپ کو وٹنی کی قسم-“ ثانیہ نہیں جانتی کس طرح بے اختیار اس کے منہ سے یہ جملہ نکلا تھا- اس نے ڈیوڈ کے چہرے پر بے تحاشا حیرت دیکھی تھی پھر اس نے اس کا چہرہ سرخ ہوتے دیکھا تھا- کچھ کہے بغیر وہ مڑا تھا- اس نے کیسٹ پلیئر آف کیا تھا گاڑی سڑک پر لے آیا تھا- وہ دونوں کچھ دیر مزید ہنستی رہی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی ہنسی تھم گئی تھی اور ہنسی تھمتے ہی ثانیہ کو اپنی حرکت پر خجالت کا احساس ہونے لگا تھا- اس نے بیک ویو مرر سے ڈیوڈ کو دیکھنے کی کوشش کی تھی- وہ بڑی سنجیدگی سے ماتھے پر بل ڈالے گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا- اس کے چہرے پر دوپہر والی خوش مزاجی کے کوئی آثار نہیں تھے- ثانیہ کو شرمندگی ہونے لگی تھی- پتا نہیں وہ میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا کہ میں کیسی لڑکی ہوں- اسے خیال آیا تھا- ربیکا اب اس سے باتیں کر رہی تھی مگر اس کا ذہن اب بھی وہیں اٹکا ہوا تھا- ربیکا گیٹ پر اس کے ساتھ اتر کر اسے گھر کے اندر تک چھوڑنے گئی تھی- اس کے ذہن میں تب بھی ڈیوڈ کے چہرے کے تاثرات تھے- “کل تمہیں ڈراپ کرنے کے بعد میرا اور ڈیوڈ کا زبردست جھگڑا ہوا-” اگلے دن کالج میں ربیکا اسے بتا رہی تھی- “وہ مجھ سے اس بات پر لڑ رہا تھا کہ میں نے تمہیں وٹنی کے بارے میں کیوں بتایا-” ربیکا مزے سے بتا رہی تھی- “پھر؟” “پھر کیا- ایسے جھگڑے تو اکثر ہوتے رہتے ہیں- اسے اصل میں جھگڑنے کی عادت ہے-” ربیکا بہت پرسکون تھی- “ویسے مجھے ہنسنا نہیں چاہیے تھا اور پھر وہ بات جو میں نے اس سے……” “چھوڑو یار! اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے- اسے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا-” ربیکا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تھا- وہ خاموش ہو گئی تھی لیکن اس کی شرمندگی ختم نہیں ہوئی تھی- تین چار دن بعد اس نے شام کو ربیکا کو فون کیا تھا- فون ڈیوڈ نے ریسیو کیا تھا- ثانیہ نے اس کی آواز پہچان لی تھی- “میں ثانیہ ہوں- مجھے ربیکا سے بات کرنا ہے-” اس نے کہا تھا- “اچھا میں اسے بلوا دیتا ہوں- آپ ہولڈ کریں-” دوسری طرف سے کہا گیا تھا- “ایک منٹ- مجھے آپ سے بھی ایک بات کرنی ہے-” ثانیہ نے تیزی سے کہا تھا- معذرت کرنے کا یہ اچھا موقع اسے ملا تھا- “مجھ سے بات کرنا ہے؟ کیا بات کرنا ہے؟” “مجھے آپ سے ایکسکیوز کرنی ہے-“ “ایکسکیوز؟ کس چیز کے لیے؟” وہ حیران ہوا تھا- “وہ اس دن گاڑی میں…… میں…… میرا مطلب ہے میں نے آپ کو گاڑی چلانے کے لیے وٹنی ک قسم دی تھی-” اس نے کچھ اٹکتے ہوئے وجہ بتائی- “ہاں تو میں نے گاڑی چلا دی تھی-” دوسری طرف سے بڑی سنجیدگی سے کہا گیا تھا- ثانیہ کو اس جواب کی توقع نہیں تھی- وہ کچھ دیر یہ سمجھنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ مذاق کر رہا ہے یا سنجیدہ ہے- “نہیں…… لیکن مجھے ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی-“ “چلیں ٹھیک ہے- دوبارہ مت کہیے گا-“ “آپ ناراض تو نہیں ہیں؟” “نہیں، فی الحال تو نہیں ہوں- کیا اب ربیکا سے بات کروا دوں-“ وہ اس کی بات پر کچھ شرمندہ ہو گئی تھی- “ہاں کروا دیں-“ “ہیلو ثانیہ! کچھ دیر بعد ریسیور میں ربیکا کی چہکتی ہوئی آواز گونجی تھی- اس دن وہ اپنی بھابھی کے ساتھ شاپنگ کے لیے نکلی ہوئی تھی جب فیروز سنز کے باہر اس نے ڈیوڈ کو کچھ فارنرز کے ساتھ دیکھا تھا- اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن انیتا بھی تھی- انیتا نے ثانیہ کو دیکھ لیا تھا اور وہ اس کے پاس آ گئی تھی- “تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟” ثانیہ نے اس سے پوچھا تھا- ڈیوڈ ابھی بھی ان ہی لوگوں کے ساتھ کھڑا تھا- “ڈیڈی کے کچھ دوست آئے ہوئے ہیں- رات کی فلائٹ ہے ان کی- اس لیے کچھ شاپنگ کروانے آئے ہیں-“ “ربیکا بھی آئی ہے؟” “نہیں، وہ نہیں آئی- بس میں اور ڈیوڈ ہی آئے ہیں-“ انیتا کچھ دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد واپس چلی گئی تھی- ثانیہ کو بہت عجیب سا محسوس ہوا تھا- ڈیوڈ اسے دیکھنے کے باوجود بھی اس کی طرف نہیں آیا تھا- اس نے ثانیہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا تھا اور ثانیہ کو یہ بات اچھی نہیں لگی- “کیا وہ اب بھی اس بات پر مجھ سے ناراض ہے؟” اسے خیال آیا تھا- “مگر میں نے تو ایکسکیوز کر لی تھی-“ اس کا دل یکدم شاپنگ سے اچاٹ ہو گیا تھا- بھابھی کے اصرار کے باوجود وہ واپس گاڑی کی طرف چلی گئی تھی- پھر ثانیہ نے کئی دفعہ اسے بہت سی جگہوں پر دیکھا تھا- بعض دفعہ وہ اکیلا ہوتا، بعض دفعہ اس کا کوئی دوست ساتھ ہوتا مگر کبھی بھی اس نے ثانیہ کو مخاطب کرنے کی کوشش نہیں کی تھی- ہر بار اس طرح نظر انداز ہونا ثانیہ کے لیے بہت تکلیف دہ ہوتا تھا- بعض دفعہ اس کا دل چاہتا وہ خود اس کے پاس جا کر ہیلو ہائے کرے- “آخر پتا تو چلنا چاہیے کہ وہ اس طرح کیوں کر رہا ہے؟” اس کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی- ہر بار اس کا سامنا کرنے کے بعد وہ گھنٹوں اس کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اور ہر سوچ اسے پہلے سے زیادہ الجھاتی تھی- وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے ڈیوڈ کی طرف کون سی چیز اس طرح کھینچ رہی تھی- اس دن وہ ربیکا کے گھر گئی ہوئی تھی اور وہاں ایک بار پھر ڈیوڈ سے اس کا سامنا ہوا تھا مگر خلاف توقع اسے نظر انداز کرنے کے بجائے وہ خوش دلی سے مسکرانے لگا تھا- “ہیلو، کیسی ہیں آپ؟” “میں ٹھیک ہوں- آپ کیسے ہیں؟” وہ بے اختیار خوش ہوئی تھی- “فائن- کافی دنوں بعد آئی ہیں اپ ہمارے گھر- کیا ابھی آپ کی شرمندگی ختم نہیں ہوئی؟” وہ بڑی دلچسپی سے پوچھ رہا تھا- “میری شرمندگی تو ختم ہو گئی ہے مگر آپ شاید ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے؟” “نہیں، میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ میں اس طرح کی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا-“ ثانیہ اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ پھر وہ اتنے ہفتوں سے اسے نظر انداز کیوں کر رہا ہے- مگر وہ پوچھ نہیں سکی تھی- ربیکا لاؤنج میں آ چکی تھی- وہ ربیکا کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی آئی تھی- مگر آج وہ بہت خوش تھی اور اس کے مزاج میں یکدم آنے والی اس تبدیلی کو ربیکا نے بھی محسوس کیا تھا- اس دن وہ ربیکا کے گھر گئی ہوئی تھی اور وہاں ایک بار پھر ڈیوڈ سے اس کا سامنا ہوا تھا مگر خلاف توقع اسے نظر انداز کرنے کے بجائے وہ خوش دلی سے مسکرانے لگا تھا- “ہیلو، کیسی ہیں آپ؟” “میں ٹھیک ہوں- آپ کیسے ہیں؟” وہ بے اختیار خوش ہوئی تھی- “فائن- کافی دنوں بعد آئی ہیں اپ ہمارے گھر- کیا ابھی آپ کی شرمندگی ختم نہیں ہوئی؟” وہ بڑی دلچسپی سے پوچھ رہا تھا- “میری شرمندگی تو ختم ہو گئی ہے مگر آپ شاید ابھی تک ناراض ہیں مجھ سے؟” “نہیں، میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ میں اس طرح کی باتوں پر ناراض نہیں ہوتا-“ ثانیہ اس سے پوچھنا چاہ رہی تھی کہ پھر وہ اتنے ہفتوں سے اسے نظر انداز کیوں کر رہا ہے- مگر وہ پوچھ نہیں سکی تھی- ربیکا لاؤنج میں آ چکی تھی- وہ ربیکا کے ساتھ اس کے کمرے میں چلی آئی تھی- مگر آج وہ بہت خوش تھی اور اس کے مزاج میں یکدم آنے والی اس تبدیلی کو ربیکا نے بھی محسوس کیا تھا- اس دن گھر واپس آ کر بھی اس کا موڈ بہت خوشگوار رہا تھا- زندگی میں پہلی بار لاشعوری طور پر کسی لڑکے سے اس طرح متاثر ہو رہی تھی اور وہ لڑکا کون…… اس وقت اسے اس بات کی پرواہ نہیں تھی- ربیکا کی گفتگو میں اکثر اس کے بھائی کا ذکر ہوتا تھا- آج ڈیوڈ نے یہ کیا، آج ڈیوڈ نے یہ کہا- بعض دفعہ ثانیہ کے بارے میں اس کا تبصرہ بھی اسے بتا دیتی اور ان تبصروں نے اسے ڈیوڈ کی جانب کچھ اور مائل کر دیا تھا- جس دن ربیکا ڈیوڈ کا ذکر کرنا بھول جاتی، اس دن ثانیہ خود اس کا ذکر چھیڑ دیتی- ان دنوں اس کے بارے میں بات کرنے سے زیادہ دلچسپ چیز اس کے لئے کوئی اور نہیں تھی- اس دن کالج میں ربیکا نے اسے ایک کارڈ تھما دیا تھا- ” ڈیوڈ کی برتھ ڈے ہے پرسوں اور میں تمہیں انوائٹ کر رہی ہوں- گھر میں ہی ایک چھوٹا سا فنکشن ہے-” ربیکا اسے تفصیلات بتا رہی تھی- “میرا آنا تو شاید کچھ مشکل…..” “مجھے تمہاری مشکل میں دلچسپی نہیں ہے- بس تمہیں آنا ہے-” ربیکا نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی- تیسری شام ثانیہ کا بڑا بھائی اسے ربیکا کے گھر ڈراپ کر گیا تھا- گیٹ کے باہر گاڑیوں کی قطار اور اندر ہونے والی چہل پہل سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کوئی چھوٹا فنکشن نہیں ہے- لان میں لائٹنگ کی گئی تھی اور وہاں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد موجود تھی- ربیکا اسی کی منتظر تھی اور اسے دیکھتے ہی اس نے گرم جوشی سے اسے گلے لگا لیا تھا۔
“آؤ، میں تمہیں اپنے کزنز سے ملواتی ہوں-“ ہیلو ہائے کے بعد اس نے ثانیہ کا ہاتھ اپنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا تھا- پھر وہ اسے لے کر لان کی مختلف ٹیبلز پر جاتی اور مختلف لڑکیوں اور لڑکوں سے متعارف کرواتی رہی- “ربیکا! یہ گفٹ تم لے لو-” اس نے ربیکا کے ساتھ چلتے چلتے کہا تھا- “بھئی، یہ میں کیوں لے لوں، جس کے لیے تم لائی ہو اسی کو دینا- آؤ ڈیوی کے پاس چلتے ہیں-“ ربیکا اسے لے کر گھر کے اندر آ گئی تھی- ڈیوڈ اپنے کمرے سے باہر نکل رہا تھا- ثانیہ کو دیکھ کر اسکے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی- وہ بے اختیار نروس ہو گئی تھی- “تھینک یو فار بینگ ہیر-” وہ خود ہی ثانیہ اور ربیکا کے پاس آ گیا تھا- “ہپپی برتھ ڈے-” ثانیہ نے گفٹ اس کی طرف بڑھا دیا تھا- “تھینک یو-” اس نے مسکراتے ہوئے گفٹ لے لیا تھا- “آپ گفٹ کے بغیر آتیں تو مجھے خوشی ہوتی لیکن گفٹ کے ساتھ آئی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوئی ہے-“ ربیکا نے اس کے کندھے پر ایک ہاتھ مارا تھا- وہ کھلکھلا کر ہنسا تھا- “آؤ ثانیہ! باہر چلتے ہیں-“ ربیکا اس کا ہاتھ تھام کر واپس مڑ گئی تھی- لاؤنج کے دروازے سے نکلتے ہوئے اس نے غیر محسوس طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا تھا- وہ اس کا گفٹ ہاتھ میں تھامے وہیں کھڑا سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا- ثانیہ نے تیزی سے گردن موڑ لی تھی- اس کے دل کی دھڑکن بے اختیار تیز ہو گئی تھی- برتھ ڈے کا کیک کاٹنے کے بعد ربیکا اور اس کے کزنز نے گٹار اور کی بورڈ پر بہت سے گانے گائے تھے- ڈیوڈ نے بھی گٹار پر ایک دھن بجائی تھی- وہ حیران کن حد تک اچھا گٹار بجا رہا تھا- ثانیہ اس پر سے اپنی نظریں نہیں ہٹا سکی- ربیکا اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی- “ثانیہ! ذرا اس لڑکی کو دیکھو جس نے رائل بلو کلر کا سلک کا چوڑی پاجامہ پہنا ہوا ہے-“ ثانیہ نے اس سمت دیکھا جس طرف وہ اشارہ کر رہی تھی- وہ لڑکی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئی تھی- “کیسی ہے؟” ثانیہ نے حیرانی سے اس کو دیکھا تھا- “بہت خوبصورت ہے مگر تم کیوں پوچھ رہی ہو؟” اس نے ربیکا سے پوچھا تھا- “ممی کی بہت نظر ہے اس لڑکی پر، ڈیوڈ کے لیے-“ ثانیہ کا سانس رک گیا تھا- ” ڈیوڈ کے لیے؟” “ہاں ڈیوڈ کے لیے- شیبا بہت اچھی لڑکی ہے- ڈیڈی کے دوست کی بیٹی ہے- کینیڈا سے آئی ہے چند ہفتے یہاں گزارنے- ممی سوچ رہی ہیں اس کا پرپوزل مانگنے کے لیے-“ ربیکا سرگوشی میں اسے بتا رہی تھی اور ثانیہ کی نظر اس لڑکی کے چہرے پر جمی ہوئی تھی- “ڈیوڈ انٹرسٹڈ ہے؟” اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی- “ابھی ممی نے اس سے بات نہیں کی مگر شیبا ایسی لڑکی ہے جسے کوئی بھی ناپسند نہیں کر سکتا-“ اس نے ربیکا کو کہتے سنا تھا- یکدم فنکشن سے اس کا جی اچاٹ ہو گیا تھا- ڈیوڈ ابھی بھی گٹار پر کوئی دھن بجا رہا تھا- مگر وہ وہاں سے بھاگ جانا چاہتی تھی- “مجھے اب بھائی کو فون کرنا چاہیے، بہت دیر ہو گئی ہے-“ اس نے گھڑی دیکھتے ہوئے ربیکا سے کہا تھا- “یار! یکدم تمہیں گھر جانے کی کیا پڑ گئی ہے؟” ربیکا کچھ ناراض ہوئی تھی- “نہیں، امی نے اسی شرط پر آنے دیا تھا کہ میں نو بجے تک آ جاؤں گی-“ اس نے جھوٹ بولا تھا اور پھر اندرلاؤنج میں آ کر گھر فون کر دیا تھا- گھر آنے کے بعد وہ بےحد ٹینس تھی- “آخر میں چاہتی کیا ہوں؟” اس نے رنجیدگی سے سوچا تھا اور پھر کپڑے تبدیل کیے بغیر بیڈ پر لیٹ گئی تھی- ایک بار پھر ڈیوڈ کا چہرہ اس کے سامنے تھا اور پھر یکدم شیبا بھی اس کے ساتھ آ گئی تھی- وہ بےقرار ہو کر اٹھ گئی- اسے پتا نہیں چلا، کس وقت وہ رونے لگی تھی- “مجھے رونے کی کیا ضرورت ہے؟میں کیوں جیلس ہو رہی ہوں؟ میں کوئی احمق ہوں؟” وہ جتنا خود کو دلاسا دینے کی کوشش کر رہی تھی، اس کا دل اتنا ہی بھر رہا تھا- وہ بہت دیر روتی رہی تھی- اس رات اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا تھا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈیوڈ کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے- “کیا بات ہے ثانیہ؟ طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟” صبح امی نے ناشتے کی میز پر اس کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر پوچھا تھا- سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے تھے- “سر میں درد ہو رہا تھا- اس لئے رات کو نیند نہیں آئی-” اس نے بہانہ گھڑا تھا- “تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا- میں تمہیں کوئی ٹیبلٹ دے دیتی-“ اس کی بھابھی نے اس سے کہا تھا- وہ خاموشی سے چائے پیتی رہی تھی- “اب طبیعت کیسی ہے؟” اس کے سب سے بڑے بھائی نے پوچھا تھا- “اب ٹھیک ہوں-” اسے اب ان سب کے سوالوں سے الجھن ہونے لگی تھی- “آج کالج مت جانا، آرام کرنا-” اس کی امی نے کہا تھا- “ثانیہ! تم ابھی اپنی امی کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جانا-” اس کے ابو نے کہا تھا- وہ کپ ٹیبل پر پٹخ کر کھڑی ہو گئی تھی- “سب پیچھے ہی پڑ جاتے ہیں، سکون سے ناشتہ تک نہیں کرنے دیتے-“ وہ روتے ہوئے ڈائننگ روم سے نکل گئی تھی- ڈائننگ روم میں یکدم خاموشی چھا گئی تھی- سب لوگ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے تھے- ثانیہ نے کبھی اس طرح نہیں کیا تھا- “مجھے لگتا ہے، اس کی طبیعت زیادہ خراب ہے- تم جاؤ، جا کر دیکھو اسے-” اس کے ابو نے امی سے کہا تھا- “رات کو میں جب اسے ربیکا کے گھر سے لے کر آیا تھا، تب تو بالکل ٹھیک تھی-” اس کا بڑا بھائی حیران تھا- گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے وہ بہت لاڈلی تھی- ہر ایک کو ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا- خود وہ بھی بھائیوں کے ساتھ بہت اٹیچ تھی- اسے خاص حد تک آزادی بھی دی گئی تھی- وہ جس وقت جہاں جانا چاہتی، جا سکتی تھی-کوئی اسے منع نہیں کرتا تھا- اس کی غلطیوں کو بھی سب لوگ ہنس کر ٹال دیتے تھے اور اس لاڈ پیار نے اسے کسی حد تک خود سر بھی بنا دیا تھا- شام تک وہ خود پر قابو پا چکی تھی- وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی کسی حرکت سے گھر میں کسی کو کوئی شک ہو- “میں اب ڈیوڈ سے کبھی نہیں ملوں گی- جب میں ربیکا کے گھر نہیں جاؤں گی تو اس سے میرا سامنا بھی نہیں ہو گا اور پھر وہ میرے ذہن سے نکل جائے گا-” اس نے اس رات یہ طے کیا تھا- ایک ڈیڑھ ہفتہ وہ ربیکا کے گھر نہیں گئی تھی اور نہ ہی اس نے اسے اپنے گھر انوائٹ کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ڈیوڈ کو اپنے ذہن سے نکال نہیں پائی تھی- وہ ان تمام دنوں میں اس کی نظروں کے سامنے رہا تھا اور وہ…… وہ شیبا کو بھی اپنے ذہن سے نکال نہیں پائی تھی- “تم لوگوں نے شیبا کے والدین سے بات کی؟” اس دن اس نے ہمت کر کے ربیکا سے پوچھا تھا- “ہاں، ممی نے بات کی تھی- وہ لوگ تو پہلے ہی یہ چاہتے تھے- اگلے سال چھٹیوں میں جب وہ لوگ پاکستان آئیں گے تو ہم باقاعدہ ان دونوں کی انگیجمنٹ کر دیں گے- شادی تو خیر ابھی چار پانچ سال بعد ہی ہو گی- کیونکہ ڈیوڈ کو اپنی انجینرنگ مکمل کرنا ہے- ثانیہ کا دل جیسے ڈوب گیا تھا- “ڈیوڈ بہت خوش ہو گا؟” وہ پتا نہیں کیا جاننا چاہتی تھی- “ابھی کون سی انگیجمنٹ ہو گئی ہے جو وہ خوش ہوتا پھرے- ابھی تو صرف بات ہوئی ہے- ممی نے اس سے پوچھا تھا تو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا- میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ شیبا کو کوئی بھی ناپسند نہیں کر سکتا-“ وہ اسے بتا رہی تھی- ثانیہ نے اپنے اندر یکدم بہت سا سناٹا محسوس کیا تھا- ثانیہ اور ربیکا کے پروموشن ٹیسٹ شروع ہونے والے تھے- اکنامکس کے ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہوئے کچھ سوالوں میں اسے پرابلم پیش آ رہی تھی- “میرا خیال ہے، مجھے ربیکا سے مدد لینا چاہیے-“ اس نے سوچا تھا لیکن ریسیور اٹھاتے ہوئے اسے یاد آیا تھا کہ ربیکا کا فون خراب ہے- کچھ دن پہلے بارش کی وجہ سے اس علاقے کی ایکسچینج میں کوئی خرابی ہو گئی تھی اور ربیکا نے اس سے ذکر بھی کیا تھا- وہ کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر امی کو بتا کر ڈرائیور کے ساتھ ربیکا کے گھر چلی گئی تھی- ملازم اسے اندر لے آیا تھا- “ربیکا بی بی انیتا بی بی کے ساتھ لائبریری گئی ہوئی ہیں- کچھ دیر میں آتی ہی ہوں گی-” ملازم نے اسے بتایا تھا- “گھر میں اور کوئی نہیں ہے؟” وہ کچھ مایوس ہوئی تھی- “صرف ڈیوڈ صاحب ہیں- میں انھیں بلاتا ہوں-“ ثانیہ کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی- وہ اس کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اور وہ…… ڈیوڈ ملازم کے ساتھ ہی آ گیا تھا- “آپ نے تو ہمارے گھر آنا ہی چھوڑ دیا-” وہ کچھ دیر بعد بولا تھا- ثانیہ نے کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی تھی- ڈیوڈ نے بھی اپنا سوال نہیں دہرایا تھا- کچھ دیر وہ دونوں خاموشی سے بیٹھے رہے- “لائیں، آپ کتاب دکھائیں- ہو سکتا ہے، میں آپ کی کچھ مدد کر سکوں؟” کچھ دیر کے بعد ڈیوڈ نے کہا تھا- ثانیہ نے ہچکچاتے ہوئے کتاب اس کی طرف بڑھا دی تھی- وہ اس کا بتایا ہوا باب کھول کر بیٹھ گیا- کچھ دیر خاموشی سے وہ کتاب دیکھتا رہا، پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے کہا- “نو پرابلم- یہ تو بہت آسان ہیں- میں آپ کو سمجھا دیتا ہوں-“ وہ ایک کرسی اٹھا کر سینٹر ٹیبل کے سامنے لے آیا تھا- ” آپ یہاں آ جائیں-“ اس سے کہتے ہوئے وہ خود اس کے بالمقابل صوفہ پر بیٹھ گیا تھا- کتاب اور نوٹ بک سینٹر ٹیبل پر رکھنے کے بعد اس نے بڑی مہارت سے مختلف فارمولے استعمال کرتے ہوئے سوال حل کرنے شروع کر دیے تھے- وہ آگے کو جھکی نوٹ بک پر روانی سے چلتے ہوئے اس کے ہاتھ کو دیکھتی رہی- اس کے ناخن تراشیدہ اور ہاتھ عام مردانہ ہاتھوں کے برعکس بہت خوبصورت تھے- وہ نوٹ بک پر لکھے ہوئے کسی لفظ کو سمجھ نہیں پا رہی تھی- اس کا ذہن صرف ڈیوڈ میں الجھا ہوا تھا- “کیا اسے کبھی یہ احساس ہوا ہو گاکہ میں اس سے محبت کرتی ہوں؟ کیا اس نے کبھی میرے بارے میں سوچا ہے؟” وہ اس وقت صرف یہی سوچ رہی تھی- وہ مدھم آواز میں نوٹ بک پر سر جھکائے بڑے اچھے طریقے سے کیلکولیشن کر رہا تھا اور تب اچانک ہی نوٹ بک پر چلتا ہوا اس کا ہاتھ رک گیا تھا- نوٹ بک سے کچھ فاصلے پر سینٹر ٹیبل کے شیشے پر پانی کے کچھ قطرے گرے تھے- اس نے حیران ہو کر سر اٹھایا تھا- “کیا ہوا ثانیہ؟” وہ جیسے ہکا بکا تھا- وہ اب اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ چکی تھی- ڈیوڈ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کرے- اسے پہلے کبھی ایسی صورت حال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا- وہ اب ہچکیوں سے رو رہی تھی- پھر ایک جھٹکے سے اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا لیے- “Do you know how much I love you” (تمہیں خبر ہے، میں تمہیں کتنا چاہتی ہوں) اس نے روتے ہوئے کہا تھا- وہ دم بخود ہو گیا تھا- “ثانیہ!” “میں تمھارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی ہوں اور تم…… تم شیبا کو اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتے ہو-“ “ثانیہ! تم ہوش میں تو ہو-“ “نہیں، میں ہوش میں نہیں ہوں- میں نہیں جانتی ڈیوڈ! میں نہیں جانتی یہ سب کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ مگر میں……” وہ سانس روکے اسے بلکتا ہوا دیکھ رہا تھا- “اگر تم کسی اور کے ہو گئے تو میں زندہ نہیں رہوں گی- میں خود کشی کر لوں گی- کیا تم کو کبھی اندازہ نہیں ہوا کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں؟ کیا تمہیں کبھی میرا خیال نہیں آیا؟ کیا شیبا مجھ سے زیادہ اچھی ہے؟” وہ اس کے سامنے سے اٹھ گیا تھا- “اندازہ تھا مگر…… مگر یہ سب کچھ بےکار ہے- تمھارے اور میرے درمیان اتنی دیواریں ہیں کہ صرف محبت سے کچھ نہیں ہو سکتا- اپنی اور میری زندگی کو مشکل بنانے کی کوشش مت کرو ثانیہ-“ “ڈیوڈ! اگر تم مسلم ہو جاؤ تو میں اپنے پیرنٹس سے بات کر سکتی ہوں- شاید وہ ہماری شادی پر رضامند ہو جائیں- پھر ہمیں کسی پرابلم کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا- “ اس نے ڈرتے ڈرتے ڈیوڈ سے کہا تھا- وہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتا رہا تھا- “میں اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتا-“ “مگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو- محبت کی خاطر تو لوگ……” تم بھی تو محبت کرتی ہو مجھ سے- کیا تم میرے لئے اپنا مذہب چھوڑ سکتی ہو؟” وہ اس کے سوال پر خاموش ہو گئی تھی- “تم اسلام کا مطالعہ تو کرو پھر……” “مجھے دلچسپی نہیں ہے تمھارے مذہب میں- تم سمجھتی کیوں نہیں- میں اپنے مذہب سے بہت خوش ہوں-” ڈیوڈ نے اس کی بات کاٹ دی تھی- “تم عیسائیت کا مطالعہ کرو- شاید تم اپنا مذہب چھوڑ دو-“ وہ ایک بار پھر اس کی بات کے جواب میں خاموش رہی تھی- “بہتر ہے کہ ہم اب مذہب پہ بات نہ کریں-” ڈیوڈ نے بات ختم کر دی تھی۔