ان دنوں اس کے لیے گھر میں ایک پرپوزل آیا ہوا تھا- اس کے ابو کو یہ پرپوزل بہت پسند آیا تھا- انہوں نے ثانیہ کی مرضی پوچھی تھی اور اس نے انکار کر دیا تھا- “مگر تم آخر انکار کی کوئی وجہ تو بتاؤ- اتنا اچھا رشتہ آخر تمہیں کیوں پسند نہیں؟” اس کی امی حیران تھیں- “بس میں نے کہا نہ کہ میں ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہوں- گریجویشن کرنے سے پہلے مجھے شادی نہیں کرنی-“ “تو ہم تمہاری منگنی کر دیتے ہیں- تم گریجویشن کر لینا-“ “مجھے منگنی بھی نہیں کرنی- مجھے یہ رشتہ پسند ہی نہیں ہے-“ وہ چلانے لگی تھی- اس کی امی پہلی بار پریشان ہوئی تھیں- پچھلے کئی ماہ میں وہ بہت سے رشتے ٹھکرا چکی تھی- “کیا تمہیں کوئی اور پسند ہے؟” انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھا تھا- “مجھے کوئی پسند نہیں ہے مگر مجھے ابھی شادی یا منگنی کچھ بھی نہیں کرنا ہے-“ اس کی امی خاموشی سے کمرے سے نکل گئیں تھیں- ثانیہ نے سکون کا سانس لیا تھا- اس کا خیال تھا کہ اس بار بھی بلا ٹل گئی ہے مگر ایسا نہیں تھا- تین دن بعد اس کے والدین نے لڑکے والوں کو ہاں کر دی تھی اور منگنی کی تاریخ بھی طے کر دی تھی- اس کے چیخنے اور چلانے کی انہوں نے پرواہ نہیں کی تھی- “تم منگنی ہونے دو- منگنی سے کچھ نہیں ہوتا- کم از کم روز روز کے پرپوزل سے تو تمہاری جان چھوٹ جائے گی- ڈیوڈ سے رابطہ کرنے پر اس نے ثانیہ کو سمجھایا تھا- “لیکن ڈیوڈ! اگر انہوں نے شادی کے لیے اصرار کیا تو؟” “تب دیکھا جائے گا- فی الحال تم کسی پر کچھ ظاہر مت کرو-“ اس نے ڈیوڈ کے کہنے پر خاموشی سے منگنی کروا لی تھی- اس کی خاموشی پر سب نے سکون کا سانس لیا تھا- لیکن ثانیہ کے دل میں ان سب کے خلاف گرہ پڑ چکی تھی- “ان لوگوں کے نزدیک میں انسان نہیں، بھیڑ بکری ہوں- جسے وہ جب چاہیں، جسکے لیے چاہیں ذبح کر دیں-“ منگنی کی انگوٹھی پہنتے ہوئے اس نے سوچا تھا- منگنی کے چند ہفتوں کے بعد ہی اس کے سسرال والوں نے شادی کی تاریخ طے کرنے پر اصرار شروع کر دیا- وہ بری طرح سٹپٹائی تھی- “ڈیوڈ!اب تم پلیز اپنے پیرنٹس سے بات کرو- میرے ابو چند ماہ تک میری شادی کی تاریخ طے کر دیں گے اور مجھے اس سے پہلے اس گھر سے نکلنا ہے-“ ڈیوڈ اس کی بات پر پریشان ہو گیا تھا- وہ رو رہی تھی- “پلیز ثانیہ! تم رونا بند کر دو- میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں لیکن تم روتی رہو گی تو میرے لیے کچھ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا-“ اس نے ثانیہ کا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا تھا- “میں اپنے پیرنٹس سے ایک دو دن میں بات کرتا ہوں- دیکھتا ہوں، ان کا کیا ری ایکشن ہوتا ہے-“ وہ بہت فکرمند لگ رہا تھا- ربیکا تین دن سے کالج نہیں آ رہی تھی- تیسرے دن اسے گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھ کر ثانیہ تیر کی طرح اس کے پاس گئی تھی- “کیا ہوا بھئی؟ اتنے دن سے کہاں تھیں؟ میں نے فون کیا تو تمھارے ملازم نے بتایا کہ تم گھر پر نہیں ہو- کہاں گئی ہوئی تھیں- مجھے بتایا……” ثانیہ بات کرتے کرتے اچانک رک گئی تھی- اسے احساس ہوا تھا کہ ربیکا اسے بہت عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی- “ثانیہ! مجھے تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں- ہم کلاس میں نہیں جا رہے ہیں-” ربیکا نے سرد لہجے میں اس سے کہا تھا- “تم ڈیوڈ کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہو؟” لان کے ایک سنسان گوشے میں آتے ہی اس نے پوچھا تھا- ثانیہ کچھ بول نہیں سکی- “میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی ثانیہ! کہ تم اتنی بیوقوف ہو سکتی ہو-“ “پلیز ربیکا! کچھ مت کہو-“ “کیوں نہ کہوں- تم جانتی ہو- تمہاری وجہ سے ہمارے گھر میں کیا کیا ہوا ہے- تمہاری وجہ سے پہلی بار ڈیوڈ نے ممی اور ڈیڈی سے جھگڑا کیا اور پھر سلیپنگ پلز کھا لیں-“ “ربیکا!” ثانیہ کے منہ سے چیخ نکلی تھی- “وہ بچ گیا ہے لیکن جو کچھ تم دونوں کرنا چاہتے ہو، وہ ہم سب کو مار ڈالے گا-“ “ڈیوڈ کیساہے؟ وہ گھر پر ہے؟” “یہ سب چھوڑو- تم اس کی زندگی سے نکل جاؤ- دیکھو ثانیہ! میرا صرف ایک بھائی ہے- اسے کچھ ہو گیا تو ہم…… ہم جیتے جی مر جائیں گے- تم مسلم ہو- ہم اقلیت ہیں- ہمیں یہاں رہنا ہے- ہمارا گھر بار سب کچھ یہاں ہے مگر ڈیوڈ سے تمہاری شادی کے بعد ہمارا گھر برباد ہو جائے گا-“ “ربیکا! میں اس سے محبت کرتی ہوں-“ “تمہیں اس سے بہتر لڑکے مل جائیں گے اور پھر تمہاری تو منگنی بھی ہو چکی ہے، پھر تم کیوں میرے بھائی کے پیچھے پڑ گئی ہو-“ “منگنی میں نے ڈیوڈ کے کہنے پر کروائی تھی- مجھے اپنے فیانسی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے-“ “ثانیہ! تم میرے بھائی کا پیچھا چھوڑ دو، ورنہ میں تمھارے گھر والوں کو سب کچھ بتا دوں گی- اس عمر میں محبت وغیرہ نہیں ہوتی- صرف دلچسپی ہوتی ہے اور دلچسپی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے- تم مسلم ہو- ڈیوڈ کرسچین ہے- تمھارے مذہب میں ویسے بھی اس کے ساتھ شادی جائز نہیں ہے- کیا تم اپنے مذہب کے خلاف جاؤ گی-“ ربیکا نے اسے ایموشنلی بلیک میل کرنے کی کوشش کی تھی- “مجھے ڈیوڈ سے محبت ہے اور میں اسے نہیں چھوڑ سکتی- میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی-“ “تم پاگل ہو چکی ہو ثانیہ اور پاگل اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی تباہ کر دیتے ہیں- اگر تم ڈیوڈ کو نہیں چھوڑ سکتیں تو پھر اپنی اور میری دوستی ختم سمجھو- دوبارہ کبھی میرے گھر مت آنا-“ “ربیکا! میں ڈیوڈ کو نہیں چھوڑ سکتی- وہ میرا سب کچھ ہے- تم مجھے اس کے پاس جانے سے روک سکتی ہو مگر اسے میرے پاس آنے سے نہیں روک سکتیں- میرے پیرنٹس کو تم اگر کچھ بتاؤ گی تو میں ڈیوڈ کے ساتھ گھر سے بھاگ جاؤں گی، پھر کیا ہو گا تم اچھی طرح جانتی ہو-“ ربیکا نے بےبسی اسے دیکھا تھا- “میں نے تم سے دوستی کر کے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کی ہے-” ثانیہ نے اس کی بات پر کچھ نہیں کہا تھا- شام کو وہ ربیکا کے گھر پہنچ گئی تھی- پہلی بار وہاں اس کا استقبال بڑی سرد مہری سے کیا گیا تھا اور اسے اس کی پرواہ نہیں تھی- ربیکا کا بس چلتا تو شاید وہ اسے دھکے دے کر وہاں سے نکال دیتی- وہ ڈھیٹوں کی طرح خود ہی اٹھ کر ڈیوڈ کے کمرے میں چلی گئی تھی- وہ جاگ رہا تھا- وہ اس کے پاس بیٹھ کر رونے لگی- “تم جانتی ہو- جو کچھ تم کرنا چاہتی ہو اس کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے-” ڈیوڈ کے پاس سے آنے کے بعد ربیکا نے اسے روک لیا تھا- لاؤنج میں ربیکا کے والدین کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا- “میں جانتی ہوں-” اس نے سر جھکاتے ہوئے کہا تھا- لاؤنج میں کچھ دیر خاموشی چھائی رہی تھی- پھر ڈیوڈ کے ڈیڈی نے کہا تھا- “تمہیں یا ڈیوڈ کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے- میں اس لیے تم دونوں کی مدد کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ میں ڈیوڈ کا باپ ہوں- اس نے اپنے آپ کو جس مصیبت میں پھنسا لیا ہے، میں اسے وہاں اس حالت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا- میں چند ہفتوں تک تمھارے کاغذات بنوا لوں گا پھر تمہیں امریکہ بجھوا دوں گا- وہاں تم اس وقت تک میری بہن کے پاس رہو گی جب تک ڈیوڈ اپنی انجینرنگ مکمل نہیں کر لیتا- سال کے اینڈ میں ڈیوڈ امریکہ آئے گا اور وہاں تم دونوں کی شادی ہو جائے گی اور ڈیوڈ پھر اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے پاکستان آ جائے گا- بعد میں ڈیوڈ بھی امریکہ سیٹل ہو جائے گا مگر تم ایک بات ذہن میں رکھنا کہ تمہیں اپنے گھر والوں کو ڈیوڈ کے بارے میں کچھ نہیں بتانا- جب تمھارے پیپرز مکمل ہو جائیں گے تو تم خاموشی سے گھر چھوڑ کر آ جانا- میں نہیں چاہتا، تمھارے گھر والوں کو اس معاملہ کا پتا چلے اور پھر میرے بیٹے کو اور میری فیملی کو کوئی نقصان پہنچے-“ انہوں نے ثانیہ کو سنجیدگی سے سب کچھ بتا دیا تھا- اس دن ڈیوڈ کے گھر سے نکلتے ہوئے وہ بےتحاشا خوش تھی- چند گھنٹوں پہلے تک ناممکن نظر آنے والی چیز ناممکن نہیں رہی تھی- اب ممکن نظر آنے لگی تھی-” اب میں اور ڈیوڈ ساری زندگی اکھٹے گزاریں گے-” اس کا دل جیسے بلیوں اچھل رہا تھا- “ہاں میں اپنے گھر والوں کو کچھ نہیں بتاؤں گی- ورنہ وہ ڈیوڈ اور اسکی فیملی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں- میں وہی کروں گی جو ڈیوڈ کے ڈیڈی چاہتے ہیں-“ اسے یہ سب طے کرتے ہوئے ایک بار بھی اپنی فیملی کا خیال نہیں آیا تھا- ایک بار بھی اسے اپنے فیصلے کی سنگینی اور ہولناکی کا احساس نہیں ہوا تھا- وہ ٹین ایج میں تھی اور اس کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ جس شخص سے وہ محبت کرتی ہے، وہ یکدم اس کی دسترس میں آ گیا ہے- اگلے چند ہفتوں میں وہ ڈیوڈ کے ڈیڈی کے ساتھ دو تین بار اپنے پیپرز کے سلسلہ میں امریکن ایمبیسی جاتی رہی تھی- ہر کام بہت تیز رفتاری سے ہو رہا تھا- امریکن ایمبیسی کے ایک سینئر آفیسر نے اپنی زندگی کے اتنے اہم فیصلے پر اس طرح ‘جرات اور بہادری’ دکھانے پر اس کی تعریف کی تھی- “تم دوسری پاکستانی لڑکیوں کے لیے ایک مثال ہو-” اس وقت ان کلمات پر بےتحاشا فخر محسوس ہوا تھا- “ہاں واقعی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ میں اپنے والدین کو کیوں کرنے دیتی، خود کیوں نہ کرتی- میں جو کر رہی ہوں، ٹھیک کر رہی ہوں-” اسے مزید اطمینان ہو گیا تھا- گھر میں کسی کو بھی اس کی سرگرمیوں پر کوئی شبہ نہیں ہوا تھا- وہ بہت نارمل طریقے سے گھر میں رہتی تھی- اپنی امی اور بھابھی کے ساتھ اپنی شادی کے لیے چیزوں کی خریداری کے لیے بھی بازار جاتی رہتی مگر دوسری طرف اس نے بہت سی چیزیں آہستہ آہستہ ربیکا کے گھر منتقل کر دی تھیں- اپنے پاس موجود سارا زیور اور بینک اکاؤنٹ میں موجود سارا روپیہ وہ ڈیوڈ کے والدین کے حوالے کر چکی تھی- چند دن تک اسے امریکہ کا ویزا ملنے والا تھا اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر چھوڑنے پر تیار تھی- اس دن وہ کالج سے ڈیوڈ کے ساتھ چلی گئی تھی- اس کے ساتھ لنچ کرنے کے بعد جب وہ چار بجے کے قریب گھر آئی تو گھر میں اس کے لیے ایک ہنگامہ تیار تھا- اس کے سب سے چھوٹے بھائی نے اسے ڈیوڈ کے ساتھ ریسٹورنٹ میں لنچ کرتے دیکھ لیا تھا اور اس نے گھر آ کر یہ بات سب کو بتا دی تھی- ثانیہ صبح اپنی امی سے یہ کہہ کر گئی تھی کہ وہ کالج سے ربیکا کے گھر جائے گی مگر جب اس کے بھائی نے گھر آ کر اس کی امی کو بتایا تو انہوں نے ربیکا کے گھر فون کیا- ربیکا نے انہیں بتا دیا کہ وہ ان کے ہاں نہیں ہے- ثانیہ کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا- اپنی امی کے پوچھنے پر اس نے یہی کہا کہ وہ ربیکا کے گھر سے آ رہی ہے- اس کے بھائی کو بھڑکانے کے لیے اس کا یہی جملہ کافی تھا- اس نے ثانیہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی تھی- اس کی امی نے اسے بچانے کی کوشش کی تھی نہ ہی بھابھی نے- آدھ گھنٹہ بھر وہ بری طرح اپنے بھائی سے پٹتی رہی لیکن اس نے یہ نہیں مانا تھا کہ وہ کسی لڑکے کے ساتھ لنچ کرنے گئی تھی- رات کو اس کے ابو اور بڑے بھائی گھر آئے تھے اور نئے سرے سے عدالت لگ گئی تھی- تب اس کے صبر کی حد ختم ہو گئی تھی- “ہاں گئی تھی کسی لڑکے کے ساتھ لنچ کرنے پھر…… کیا تم نہیں جاتے نئی نئی لڑکیوں کے ساتھ لنچ کرنے-” وہ پہلی بار اپنے چھوٹے بھائی پر چلائی تھی- بلال نے جواباً اس کے منہ پر زور کا تھپڑ مرا تھا اور اس بار خاموشی سے پٹنے کے بجائے اس نے بلال کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی- اس کی اس حرکت نے اس کے بھائی کو اور مشتعل کیا تھا- اس نے اس کے چہرے پر ایک اور تھپڑ مارا تھا- ثانیہ نے تھپڑ کھانے کے بعد کارنس پر رکھا ہوا ایک گلدان اٹھایا اور اشتعال میں پوری قوت سے بلال کو دے مارا تھا- اس نے گلدان بلال کے ماتھے پر لگتے اور پھر خون کی ایک لکیر نکلتے دیکھی تھی- باقی سب جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے، یکدم جیسے ان میں حرکت پیدا ہو گئی تھی- اس کے ابو اس بار اس کی طرف آئے تھے اور ان کے ہاتھ میں جو چیز آئی تھی ، انہوں نے ثانیہ کو اس سے مارا تھا- وہ جواباً چلاتی رہی تھی- “ہاں مجھے اسی لڑکے سے شادی کرنی ہے جسے میں چاہتی ہوں- میں مر جاؤں گی لیکن کبھی وہاں شادی نہیں کروں گی، جہاں آپ چاہتے ہیں-“ “کس سے شادی کرو گی؟ بتاؤ، کس سے شادی کرو گی؟” اس کی امی ہزیانی انداز میں چیخنے لگی تھیں- “ڈیوڈ سے شادی کروں گی، ڈیوڈ سے-“ وہ پاگلوں کی طرح چلائی تھی- اسکے ابو یکدم ساکت ہو گئے تھے- ہر شخص اپنی جگہ جیسے پتھر کا مجسمہ بن گیا تھا- وہ اپنے ہونٹوں سے نکلتا ہوا خون ہاتھ سے پونچھتے ہوئے بڑی بےخوفی سے ہر ایک کو دیکھتی رہی- “ربیکا کے بھائی سے-” اس کی امی کی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی سنائی دی تھی- “ہاں ربیکا کے بھائی سے-“ وہ آج جتنی نڈر تھی، پہلے کبھی نہیں تھی- بلال کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا- “اور میں نے تم دونوں کو زندہ رہنے دیا تو پھر کہنا- اسے تو میں دیکھ لوں گا لیکن تم آج کے بعد اس گھر سے قدم باہر نکالنا اور پھر دیکھنا میں تمہارا کیا حشر کروں گا-“ “ثانیہ! تمہارا دماغ کیوں خراب ہو گیا ہے- تمہیں پتا ہے تم کیا کر رہی ہو- تم مسلمان ہو اور وہ کرسچین ہے- ہمارے مذہب میں یہ شادی جائز نہیں ہو سکتی- تم دوزخ میں……” آمنہ بھابھی نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی میں اب دوزخ میں ہوں- یہ گھر دوزخ ہے میرے لئے- اورآپ جو کہہ رہی ہیں، غلط کہہ رہی ہیں- محبت میں کوئی مسلمان اور کرسچین نہیں ہوتا اور میں اس سے محبت کرتی ہوں-” وہ بلا جھجک بولتی گئی تھی۔
بلال چیل کی طرح اس پر جھپٹا تھا اور اس نے اس کا گلا دبانا شروع کر دیا تھا- ثانیہ سانس نہیں لے پا رہی تھی- وہ کوشش کے باوجود اس کے ہاتھوں سے اپنی گردن نہیں چھڑا پا رہی تھی- تب ہی اسکے بڑے بھائی نے زبردستی بلال کو پیچھے دھکیلا تھا- اس کا دوسرا بھائی بلال کو کمرے سے لے گیا تھا جو اب اسے گالیاں بک رہا تھا- “امی! آئندہ یہ گھر سے باہر نہیں جائے گی- کالج بھی نہیں-” اس کے بڑے بھائی نے فیصلہ سنا دیا تھا- اگلے کئی دن وہ گھر میں قید رہی تھی- وہ کوشش کے باوجود ڈیوڈ سے رابطہ نہیں کر سکی- اس شام اس کی امی اور بھابھی اسے اپنے ساتھ لے کر جیولر کے پاس گئی تھیں اور ثانیہ نے طے کر لیا تھا کہ گھر سے نکلنے کے لیے اس کے پاس شاید دوسرا موقع دوبارہ نہیں آئے گا- جیولر کی دکان میں داخل ہوتے ہوئے اس کی امی اور بھابھی اس کے آگے تھیں- وہ جیولر کی دکان میں داخل ہو گئی تھیں لیکن ثانیہ اندر نہیں گئی تھی- وہ دائیں جانب بھاگنا شروع ہو گئی تھی- اپنے پیچھے اس نے بھابھی کی آواز سنی تھی اور اس کے بعد پاگلوں کی طرح بےتحاشا دوڑتے ہوئے اس نے ایک ٹیکسی روک لی تھی- اس کے پاس جانے کے لیے صرف ایک ہی جگہ تھی، ڈیوڈ کا گھر- بیل بجانے پر دروازہ کھولنے ڈیوڈ ہی آیا تھا- ثانیہ کو دیکھ کر وہ حیران رہ گیا تھا- “ثانیہ! تم اتنے دن سے کہاں تھی- تم جانتی ہو، تمہاری سیٹ کنفرم ہو گئی ہے- پرسوں تمہاری فلائٹ ہے- میں پریشان تھا……” ڈیوڈ کہہ رہا تھا- وہ اس کے ساتھ اندر آ گئی تھی اور پھر اس نے ڈیوڈ کو سارا واقعہ سنا دیا تھا- اس کا رنگ اڑ گیا تھا- “اب کیا ہو گا؟” اس نے بیچارگی سے ڈیوڈ سے پوچھا تھا- “آؤ ڈیڈی سے بات کرتے ہیں-“ وہ اسے لے کر اندر چلا گیا تھا اور اندر جا کر اس نے سارا قصہ اپنے ڈیڈی کو بتا دیا تھا- ڈیوڈ کے تمام گھر والے یکدم پریشان ہو گئے تھے- “ثانیہ! تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا- تمھارے گھر والے اب یہاں آئیں گے- ” ڈیوڈ کے ڈیڈی بہت فکرمند تھے- “انکل!میں اور کہاں جا سکتی تھی؟” “پھر بھی تمہیں یہاں نہیں ہونا چاہیے- اگر تمھارے گھر والے پولیس لے کر آ گئے تو معاملہ بہت خراب ہو جائے گا- تم میرے ساتھ آؤ، میں تمہیں اپنے کسی دوست کے ہاں چھوڑ آتا ہوں-“ انہوں نے اٹھتے ہوئے کہا تھا- وہ ڈیوڈ اور اس کے والدین کے ساتھ باہر پورچ میں نکل آئی تھی- “تم پریشان مت ہونا، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا-“ ڈیوڈ نے اس کے لیے کار کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا تھا- وہ ممنون انداز میں مسکرائی تھی- ڈیوڈ گیٹ کھولنے کے لیے گیٹ کی طرف بڑھ گیا تھا- وہ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی- ڈیوڈ کے ڈیڈی گاڑی سٹارٹ کر رہے تھے- پھر ڈیوڈ گیٹ کھول کر پلٹ رہا تھا جب ثانیہ نے اس کے بالکل پیچھے گیٹ کے باہر کسی وجود کو نمودار ہوتے دیکھا تھا- وہ بجلی کی رفتار سے گاڑی سے نکل آئی تھی- ڈیوڈ اپنے پیچھے ابھرنے والے قدموں کی چاپ پر پلٹا تھا- ثانیہ نے اس شخص کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چیز کو دیکھ کر چیخ ماری تھی- “بلال! ڈیوڈ کو کچھ مت کہنا-” اس نے بلال کو اپنی طرف دیکھتے اور ہاتھ سیدھا کرتے ہوئے دیکھا تھا- اگلے لمحے فائر کی ایک آواز کے ساتھ اس نے ڈیوڈ کو گرتے دیکھا تھا- ڈیوڈ کی ممی چیخ کر ڈیوڈ کی طرف بھاگی تھیں- اس نے زمین پر گرے ہوئے ڈیوڈ پر بلال کو ایک اور فائر کرتے دیکھا تھا- ڈیوڈ کے جسم کو ایک اور جھٹکا لگا تھا- اس کا وجود خوف سے سرد ہو گیا- اس نے بلال کو ریووالور اپنی طرف سیدھا کرتے دیکھا تھا، وہ بےحس و حرکت تھی- کسی نے اسے دھکا دیا تھا پھر اس نے فائر کی ایک آواز سنی تھی پھر کچھ اور چیخیں سنائی دی تھیں- اس نے ربیکا اور انیتا کو چیختے ہوئے ڈیوڈ کی طرف لپکتے دیکھا تھا- اس نے فرش سے اٹھنے کی کوشش کی تھی- فائر کی ایک اور آواز سنائی دی تھی- وہ کھڑی ہو گئی تھی- اس نے بلال کو کچھ لوگوں کی گرفت میں دیکھا تھا- ڈیوڈ کے ڈیڈی ملازموں سے کچھ کہہ رہے تھے- وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی- بلال کو کھینچتے ہوئے کہیں لے جایا گیا تھا- انکل ایک ملازم کے ساتھ مل کر ڈیوڈ کو اٹھا رہے تھے- ڈیوڈ کی ممی، ربیکا اور انیتا بلند آواز میں چیخیں مار رہی تھیں- اسے زمین پر خون کا ایک تالاب نظر آیا تھا- ڈیوڈ کو گاڑی میں ڈال دیا گیا تھا- اس نے ڈیوڈ کا چہرہ دیکھا تھا- اس کی آنکھیں بند تھیں- اس کا جسم ساکت تھا- اس کی سفید شرٹ خون سے تر تھی- گاڑی ایک زناٹے کے ساتھ پورچ سے نکل گئی تھی- اس نے ڈیوڈ کے خون سے گاڑی کے ٹائروں کو لتھڑتے اور پھر فرش پر نشان بنا کر جاتے دیکھا تھا- ڈیوڈ کی پوری فیملی اس کے ساتھ چلی گئی تھی- وہ وہاں اکیلی تھی- اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ چند منٹ پہلے کہا ہوا تھا- ڈیوڈ کا خون گیٹ کے اوپر لگی ہوئی فلڈ لائٹس کی روشنی میں چمک رہا تھا- وہ اس جگہ پر آ گئی تھی اور پھر…… پھر جیسے سب کچھ اس کی سمجھ میں آنا شروع ہو گیا تھا- “بلال نے…… بلال نے……” غم و غصہ کی ایک لہر اس کے اندر اٹھی تھی- “تم اگلی بار اس سے ملنا، میں تم دونوں کو قبر میں اتار دوں گا-“ اسے بلال کی دھمکی یاد آئی تھی مگر وہ دھمکی نہیں تھی- جس وقت وہ یہ بات جانتی تھی، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی- اس نے اپنے آپ کو ہسٹریائی انداز میں چلاتے پایا تھا- پھر اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا محسوس ہوا تھا- ہوش میں آنے کے بعد اس نے خود کو ایک کمرے میں پایا تھا مگر وہ کمرہ ڈیوڈ کے گھر کا نہیں تھا- “تو اب تم ہوش میں آ گئی ہو-“ اس کے بیڈ کے قریب کھڑی ایک سیاہ فام عورت نے اس سے کہا تھا- ثانیہ اسے دیکھنے لگی تھی- “تم کیسا محسوس کر رہی ہو؟” اس عورت نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے پوچھا تھا- ثانیہ کے ذہن میں ایک جھماکا ہوا تھا- “ڈیوڈ…… ڈیوڈ کیسا ہے؟” وہ بے اختیار اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھی- وہ عورت خاموش رہی تھی- “ڈیوڈ کیسا ہے؟” ثانیہ جیسے اپنے حواس میں نہیں تھی- اس نے چلا کر پوچھا تھا- “He is dead” (وہ مر چکا ہے-) اس عورت نے کہا تھا- “ڈیڈ……” ثانیہ کی آواز جیسے کسی کھائی سے آئی تھی- اس عورت نے اب نرمی سے اس کے کندھے تھپتھپانا شروع کر دے تھے- “میں جانتی ہوں، یہ خبر تمھارے لیے شاکنگ ہے مگر یہی سچ ہے- ڈیوڈ کی فیملی ابھی اسکی آخری رسوم کی تیاری کر رہی ہے- اس سے فارغ ہونے کے بعد وہ لوگ یہاں آئیں گے اور پھر تم سے کچھ ضروری باتیں ہوں گی-“ وہ عورت اسے انگلش میں بتاتی جا رہی تھی- “میں کہاں ہوں؟” “تم امریکن ایمبیسی میں ہو- تم نے امریکہ میں سیاسی پناہ کے لیے اپلائی کیا تھا- ان حالات میں ڈیوڈ کی فیملی کے کہنے پر ہم نے تمہیں اپنی تحویل میں لیا ہے- کیونکہ تمہاری زندگی کو خطرہ تھا-“ وہ گم صم اس کے چہرے کو دیکھتی رہی تھی- زندگی کا ہر راستہ یکدم تاریک ہو گیا تھا- اس نے خود کو بند گلی کے آخری سرے پر کھڑا پایا تھا- زندگی میں کبھی اسے اپنے خاندان سے اتنی نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اس دن ہوئی تھی- اسے یاد نہیں وہ اس دن کتنا چیخی تھی یا اس نے بلال کو کتنی بددعائیں دی تھیں یا ڈیوڈ کو کتنی بار پکارا تھا- اسے صرف یہ یاد تھا کہ اس کے چلانے پر کمرے میں کچھ اور لوگ آئے تھے اور ان میں سے ایک نے زبردستی اسے ایک انجیکشن لگا دیا تھا- غنودگی کی حالت میں بھی جو آخری چہرہ اس کے سامنے تھا، وہ ڈیوڈ کا چہرہ تھا- اگلے بہت سے دن اسی طرح گزر گئے تھے- وہ اسی کمرے میں بند رہی تھی- اسے نہیں پتا باہر کی دنیا میں کیا ہو رہا تھا- اس کے والدین اسے کہاں اور کیسے تلاش کر رہے تھے- بلال کے ساتھ کیا ہو رہا تھا- ڈیوڈ کی فیملی پر کیا گزر رہ تھی اور…… اور اب خود اس کے ساتھ آگے کیا ہو گا- وہ جیسے چند ہفتوں کے لیے اپنی شناخت بھول گئی تھی- اسے اس کمرے سے باہر نکلنے کی خواہش ہی نہیں ہوتی تھی- پھر ایک دن اس نے اپنے بارے میں سوچنا شروع کیا تھا اور اسی دن اس عورت کے آنے پر اس سے ڈیوڈ کی فیملی کے بارے میں پوچھا تھا- “وہ امریکہ جا چکے ہیں- یہاں پر ان کی جان کو خطرہ تھا کیونکہ تمہاری فیملی کے لوگ تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں اور ان کا خیال تھا کہ تمہیں ڈیوڈ کی فیملی نے کہیں چھپایا ہے- اس لئے ان کا یہاں رہنا خطرے سے خالی نہیں تھا-“ اس عورت نے تفصیل سے اسے بتایا تھا- اسے ایک دھچکا لگا تھا- “وہ لوگ مجھ سے ملے بغیر باہر چلے گئے- مجھے چھوڑ کر چلے گئے- مجھے تو ان سب کے ساتھ رہنا تھا- مجھے تو ان کے ساتھ باہر جانا تھا-“ “تمہارا ان کے ساتھ باہر جانا یا ساتھ رہنا ممکن نہیں ہے-“ “کیوں ممکن نہیں ہے؟” “ابھی کوئی یہ نہیں جانتا کہ تم ہماری ایمبیسی میں ہو اور ہم یہ چاہتے بھی نہیں کہ یہ بات کسی کے علم میں آئے- تمہارا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ہے- اس لیے تمہیں ابھی باہر نہیں بجھوایا جا سکتا- چند ماہ تک جب معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو تمہیں باہر بجھوا دیا جائے گا- اس کے بعد تم اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کے لیے آزاد ہو گی-” اس عورت نے اس سے کہا تھا- “بلال کے ساتھ کیا ہوا؟” اس نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پوچھا تھا- “کیس کورٹ میں جا چکا ہے- وہ پولیس کی حراست میں ہے-” وہ ایک بار پھر چپ ہو گئی تھی- “میں یہاں سے باہر نکلنا چاہتی ہوں-“ “باہر نکلنا تمہارے لیے مناسب نہیں- تمہاری یہاں موجودگی ایک راز ہے- یہاں سے باہر نکلو گی تو ایمبیسی کے پاکستانی ملازمین اور وہاں آنے جانے والے لوگ تمہاری موجودگی کے بارے میں باخبر ہو سکتے ہیں- تب تمہیں چھپانا بہت مشکل ہو جائے گا- تم چند دن یہاں صبر سے گزار لو پھر ہم تمہیں کہیں اور شفٹ کر دیں گے- وہاں تم زیادہ آسانی سے رہ سکو گی-“ “میں ڈیوڈ کی قبر پہ جانا چاہتی ہو-“ “فی الحال یہ ممکن نہیں ہے-“ چند دنوں بعد ایک رات اسے ایک گاڑی میں ایمبیسی کے باہر ایک بلڈنگ میں لے جایا گیا تھا- وہ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے لیے کرائے پر لی گئی عمارت تھی- اسے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ کورٹ میں اس کے بھائی کے خلاف چلنے والے کیس کی کیا صورت حال ہے- اگلے کئی ہفتے تک اسے وہاں رکھا گیا تھا اور اسی عرصہ کے دوران ہیومن رائٹس کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کی کچھ پاکستانی عہدے داران اس کے پاس آتی رہی تھیں اور اس سے بہت سی باتیں پوچھتی رہی تھیں- اس کے پاس بیٹھ کر وہ گھنٹوں اسے اس کے حقوق بارے میں بتاتی رہتی تھیں- اس کی دلیری کی داد دیتی تھیں اور اسے بتاتی تھیں کہ اس کے اس قدم سے پاکستانی لڑکیوں میں کتنا ‘شعور’ اور ‘بیداری’ پیدا ہو گی- وہ اخبارات کا مطالعہ نہیں کرتی تھی مگر ان لوگوں کی باتوں سے اندازہ لگا سکتی تھی کہ اس کے کیس کو انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا کس طرح ہائی لائٹ کر رہا ہو گا- “ایک مسلمان لڑکی جس نے محبت کی خاطر اپنے مذہب اور خاندان کی پرواہ نہ کی-” مگر اس وقت اس جملے میں چھپی ہوئی ذلت کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھی- اس وقت اس کے ذہن میں صرف ایک ہی بات تھی کہ اس کے خاندان نے ڈیوڈ کو اس سے جدا کر دیا ہے۔