وہ اس کی زندگی کے ہولناک ترین دن تھے- گھر سے بےگھر اور بےنام ہونا اگر تکلیف دہ تھا تو مذہب سے بالکل کٹ کر رہ جانا ایک عذاب تھا- مگر ان دنوں اسے احساس نہیں تھا کہ وہ کسی تکلیف سے ہی نہیں، عذاب سے بھی گزر رہی تھی- تب وہ کچھ سوچنے اور سمجھنے کے قابل نہیں تھی- وہ وہی سوچتی تھی جو اس سے کہا جاتا تھا اور وہ اسے ہی ٹھیک سمجھتی تھی- وہ ان باتوں کو جج نہیں کر پاتی تھی- سب کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا تھا- اس بات کا احساس اسے پہلی بار تب ہوا تھا جب اس سے ملنے آنے والے کچھ غیر ملکی ننوں نے اسے بائبل کے حوالے سے کچھ مذھبی مواد پڑھنے کے لیے دیا تھا- وہ اس مواد کو پڑھنے کے بعد یکدم بے چین ہو گئی تھی- اسے احساس ہونے لگا تھا کہ وہ ‘کون ہے’ اور ‘کیا’ کر رہی ہے- اسے یاد آیا تھا کہ بچپن میں وہ قرآن پڑھتی رہی تھی- ترجمے سے اپنی کتاب کو نہ پڑھنے کے باوجود اسے اس کتاب سے محبت تھی، انس تھا، عقیدت تھی اور اب…… اب وہ لوگ اس سے کیا چاہتے ہیں- پہلی بار اسے ان لوگوں کے درمیان خوف آنے لگا تھا- پھر اسے مذھبی لٹریچر باقاعدگی سے دیا جانے لگا تھا- اسے احساس ہونے لگا تھا کہ وہ کسی ایسے گرداب میں پھنس گئی ہے جہاں سے نکلنے کے بعد بھی اس کے ارد گرد پانی ہی پانی ہو گا، زمین نہیں- ہر بار ان ننوں سے وہ کتابیں لینے کے بعد اس کے دل میں اپنی کتاب کو ایک بار پھر سے دیکھنے، ایک بار پھر سے چھونے، ایک بار پھر سے پڑھنے کی خواہش اور شدید ہو جاتی- وہ ان کتابوں کو لینے کے بعد رکھ دیتی- وہ انہیں پڑھنا نہیں چاہتی تھی- وہ پڑھنا چاہتی بھی تو اسکے لیے یہ ممکن نہیں تھا- وہ سارا میٹریل اس کے لیے نامانوس تھا، اجنبی تھا- وہ لفظ سمجھنا اس کے لیے مشکل تھا- وہ ساری رات جاگ جاگ کر ان چھوٹی چھوٹی آیات اور دعاؤں کو یاد کرنے کی کوشش کرتی رہتی جو بچپن میں کبھی اس کی امی نے اسے سکھائی تھیں- مگر کچھ بھی یاد نہیں آتا تھا- اس کے ذہن سے جیسے سب کچھ مٹ چکا تھا- اس کا خوف اور وحشت بڑھتی جا رہی تھی- اسے چھوٹے سے چھوٹا درود پاک دہرانے میں بھی مشکل ہوتی- وہ رات کو کئی کئی گھنٹے درود کے اگلے لفظ کو یاد کرنے کے لیے پاگلوں کی طرح کمرے کے چکر کاٹتی رہتی- بعض دفعہ لفظ یاد آ جاتا، اسے کچھ سکون مل جاتا- جب اگلا لفظ یاد نہ آتا تو وہ تکیے میں منہ چھپا کر کتنی کتنی دیر روتی رہتی- کچھ عرصے کے بعد اسے ایک چرچ کے ساتھ منسلک کانونٹ میں منتقل کر دیا گیا تھا- وہ پہلی رات وہاں آنے کے بعد سو نہیں سکی تھی- “یہاں سے جب میں نکلوں گی تو میں کیا ہوں گی- کیا میں کبھی یہاں سے نکل بھی سکوں گی یا نہیں-” وہ ساری رات ایک ہی جگہ بیٹھی سوچتی رہتی تھی- پھر یہ سب کئی راتوں تک ہوتا رہا تھا- وہ ان لوگوں کو یہ بتانے کی ہمت نہیں رکھتی تھی کہ وہ ان کے مذہب میں دلچسپی نہیں رکھتی- اسے ان کی کتابیں نہیں پڑھنا ہے- اسے ان کی باتوں سے بھی دلچسپی نہیں ہے- وہ ان کے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتی- مگر پھر…… پھر وہ کہاں جائے گی- یہ سب کچھ بتانے اور کہنے کے بعد وہ لوگ اگر اسے چھوڑ دیں تو وہ کیا کرے گی- باہر اس کے خاندان والے تھے، وہ ان سے چھپ نہیں سکتی تھی- وہ ان کے پاس جا بھی نہیں سکتی تھی- وہ مکڑی کے ایک ایسے جال میں پھنس چکی تھی جہاں ہر روز اس کے گرد ایک تار کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور اس جال میں وہ اپنی مرضی سے آئی تھی- صبح ناشتے، لنچ اور ڈنر سے پہلے ڈائننگ ٹیبل کے اردگرد تمام سسٹرز کھڑی ہو کر کھانے سے پہلے کی دعا کرتیں- جس میں وہ اس کھانے کو اس تک پہنچانے کا ذمہ دار یسوع مسیح کو قرار دیتیں اور اس کے لیے کھانا کھانا مشکل ہو جاتا- ان سب کے ساتھ آنکھیں بند کیے وہ وحشت کے عالم میں دہراتی رہتی- “یسوع مسیح! میں آپ کی عزت کرتی ہوں- میں آپ کا احترام کرتی ہوں- کیونکہ آپ بھی پیغمبر ہیں مگر یہ کھانا مجھے الله دے رہا ہے- الله کے سوا کوئی نہیں اور میرے پیغمبر محمد صلی الله علیہ و آلہ وسلم ہیں اور میں ان ہی کی پیروکار ہوں-“ یہ سب کہنے کے باوجود اس کی وحشت میں کمی نہیں ہوتی تھی- اور پھر رات کے پچھلے پہر مایوسی کی انتہاء پر پہنچ کر اس نے خود کشی کا فیصلہ کر لیا تھا- “میں جانتی ہوں، میں جو کر رہی ہوں وہ سب سے غلط کام ہے مگر میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے- میرے پاس کچھ باقی نہیں رہا- صرف اپنا دین رہ گیا ہے اور میں اسے کھونا نہیں چاہتی- میں اب تک ایک گناہ کے بعد دوسرا گناہ کرتی آ رہی ہوں اور اب میں سب سے بڑا گناہ کرنے جا رہی ہوں مگر یہ گناہ کم از کم مجھے ایک مسلمان کے طور پر مرنے تو دے گا، چاہے یہ موت حرام ہی سہی- جو کچھ میں کر چکی ہوں وہ سب کرنے کے بعد، میں اس کی مستحق نہیں ہوں کہ مجھے معاف کر دیا جائے مگر پھر بھی میں تم سے ریکویسٹ کرتی ہوں کہ مجھے معاف کر دو-” وہ اس رات کے آخری پہر بہت دیر تک الله سے باتیں کرتے ہوئے روتی رہی تھی- اگلے دن صبح سب کے ساتھ ڈائننگ روم میں ناشتہ کرنے کے بعد وہ کچن میں گئی تھی اور وہاں سے چوری چھپے ایک چھری اپنے کمرے میں لے آئی تھی- وہ اپنے ہاتھوں کی کلائیوں کی رگیں کاٹنا چاہتی تھی مگر دن کے وقت کوئی نہ کوئی اسکے کمرے میں آتا رہتا تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ قدم اٹھانے کے بعد بھی وہ بچ جائے- اس لیے یہ سب کچھ رات کو کرنا چاہتی تھی- اسی دن سہ پہر کو اسے کانونٹ میں موجود لائبریری جانے کا اتفاق ہوا تھا- ایک چھوٹے سے کمرے میں ریکس پر کتابوں کے ڈھیر موجود تھے- اس کے ساتھ ایک دو دوسری سسٹرز بھی تھیں- وہ خالی الذہنی کے عالم میں ان کے ساتھ ان کتابوں کے ریکس اور شیلف کے سامنے سے گزرتی رہی اور پھر اچانک اس کی نظر ایک شیلف پر پڑی تھی اور اس کا دل ایک لمحے کے لیے جیسے دھڑکنا بھول گیا تھا- وہاں چند دوسرے مذاہب کی کتابوں کیساتھ قرآن پاک کا ایک انگلش ترجمہ بھی موجود تھا- اس نے اپنے ہاتھوں میں لرزش محسوس کی تھی- وہ وہاں سے ہلنے کے قابل نہیں رہی تھی- اسے یوں لگ رہا تھا کہ وہ یہاں سے کہیں جائے گی تو اس کی اپنی کتاب اسے دوبارہ نظر نہیں آ سکے گی- دوسری سسٹرز نے کچھ کتابیں نکال لی تھیں- وہ وہاں سے چلی گئی تھیں- اس نے ان سے کچھ دیر بعد آنے کا بہانہ لگایا تھا- ان کے جانے کے بعد بے اختیار وہ اس شیلف کی طرف آئی تھی اور اس نے کانپتے ہاتھوں سے قرآن پاک کو نکال لیا تھا- اسے پہلی بار احساس ہوا تھا کہ لوگوں کو جب خزانے ملتے ہیں تو ان کا کیا حال ہوتا ہے- دونوں ہاتھوں سے قرآن پاک کو سینے سے لگائے گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھے وہ بےتحاشا روتی رہی تھی- یہ وہ کتاب تھی جس کو دیکھنے کے لئے، جسے چھونے کے لیے وہ پچھلے کئی ماہ سے ترس رہی تھی- بہت دیر بعد برستی آنکھوں کے ساتھ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے قرآن پاک کو کھول لیا تھا اور لرزتی ہوئی آواز میں تلاوت کرنے لگی تھی- دھند چھٹنے لگی تھی- اس کے پیروں کے نیچے گردش کرنے والی زمین تھم گئی تھی- ہر چیز ایک بار پھر جیسے اپنی جگہ پر آنے لگی تھی- “مجھے مرنا نہیں ہے، زندہ رہنا ہے- اگر گناہ کیا ہے تو اس کی سزا پانی ہے مگر خود کشی نہیں کرنی-“ اس رات اپنے کمرے میں چھری کو ہاتھ میں لے کر اس نے سوچا تھا- “اور اب…… اب مجھے انکار کرنا سیکھنا ہے- ہر اس چیز سے جو میرے اللہ کو پسند نہیں ہے- مجھے ایک بار پھر اس راستے کو ڈھونڈنا ہے جس سے میں بھٹک گئی ہوں-” اس رات اس نے اپنی زندگی کے نئے ضابطے طے کیے تھے- اس رات تہجد پڑھتے وقت اسے وہ ساری آیات یاد آنے لگی تھیں جنہیں یاد کرتے ہوئے اسے گھنٹوں لگ جاتے تھے- اس رات اسے ان آیات میں سے کوئی آیت بھی نہیں بھولی تھی- “مجھے اب صرف ایک چیز چاہیے، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں- میں چاہتی ہوں میرا ایمان باقی رہے- میں مرتے وقت بھی مسلمان رہوں اور اس ایک چیزکے لیے میں باقی ہر چیز چھوڑنے کو تیار ہوں- تم چاہے تو مجھے زندگی میں اور کچھ مت دو مگر مسلمان رہنے دو-“ اس رات دعا کرتے ہوئے اس نے الله سے یہ دعا بھی کی تھی- اگلے کئی دن وہ خاموشی سے لائبریری میں چلی جاتی اور وہاں قرآن پاک کو ترجمے سے پڑھتی رہتی، اسکے کے وجود پر چھایا ہوا جنون اور وحشت آہستہ آہستہ ختم ہونے لگی تھی- اس دن سہ پہر کو وہ سب سسٹرز کے ساتھ سیر کے لیے پارک میں گئی تھی- بہت عرصے کے بعد اس نے باہر کی دنیا کو دیکھا تھا اور وہیں اس نے حدید کو بھی دیکھا تھا- وہ اس کی بات سن کر خوفزدہ ہو گئی تھی- کیا یہ جانتا ہے کہ یہ کیا کرنا چاہتا ہے- کیا اس کے علاوہ بھی ایسے لوگ ہیں جو……؟ وہ اسے تلاش کرنے کے لیے پاگلوں کی طرح بھاگی تھی- وہ چاہتی تھی وہ اسے اس کام سے روک دے جو وہ کرنا چاہتا تھا اور وہ اسے تلاش نہیں کر پائی تھی- پاؤں میں آنے والے زخم کی وجہ سے کئی دن تک وہ چل نہیں سکی تھی مگر ہر بار پاؤں میں ٹیس اٹھنے پر اسے حدید ہی کا خیال آتا تھا- “میں الله کی نظروں میں اتنی گر گئی ہوں کہ وہ اب مجھے کوئی موقع بھی دینا نہیں چاہتا-” وہ بار بار یہی سوچتی تھی- مگر پھر سال کی آخری رات کو چرچ میں اس نے ایک بار پھر حدید کو دیکھا تھا اور وہ بے اختیار اس کی طرف گئی تھی- جب حدید نے اس کے پوچھنے پر اسے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا تو وہ جان گئی تھی اسے کس طرح حدید کو کنوینس کرنا ہے- اسے حدید سے محبت کا ڈرامہ کرنا ہے- تا کہ وہ اس کی بات سننے پر تیار ہو تا کہ وہ اسے اپنا ہمدرد سمجھے اور اس نے حدید سے محبت کا اظہار کیا تھا- حدید کو اس کی بات پر یقین آیا تھا یا نہیں، مگر وہ خاموشی سے اس کی ہر بات سنتا اور مانتا رہا تھا- وہ جانتی تھی وہ اس سے جھوٹ بول رہی ہے، اسے ٹریپ کر رہی ہے مگر اس کے علاوہ اس کے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں تھا- اس وقت اسے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ جب اس کا یہ جھوٹ کھلے گا تو کیا ہو گا- وہ جھوٹ بول کر بہت دن حدید سے ملنے چرچ جاتی رہی تھی- اس وقت اسے یہ خوف نہیں آتا تھا کہ اگر اس کی فیملی میں سے کسی نے اسے دیکھ لیا تو کیا ہو گا- اس وقت اس کے دماغ پر بس ایک ہی دھن سوار تھی- اسے حدید کو گڑھے میں گرنے سے بچانا تھا- شاید یہ نیکی اس کے اپنے گناہ کو معاف کروا دے- پھر ایک دن حدید نے واپس جانے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ جانتی تھی کہ اب اسے کیا کرنا تھا- وہ حدید کو اب کسی انتظار میں مبتلا کرنا نہیں چاہتی تھی- وہ آہستہ آہستہ اس سے اپنے رابطے ختم کرنے لگی تھی- وہ جانتی تھی کہ اب وہ کسی بھی شاک کا سامنا کرنے کے قابل ہو چکا ہے- اب پہلے کی طرح وہ مایوسی کا شکار نہیں ہو گا- ان ہی دنوں اس کے بھائی کو عمر قیدکی سزا سنا دی گئی تھی اور اس کے کچھ عرصہ بعد ای سی ایل میں سے اس کا نام ہٹا دیا گیا تھا- باہر جانے سے پہلے اس نے بردار مالکم کو حدید کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا- “اگر یہ میرے بارے میں آپ سے رابطہ قائم کرے تو آپ اس سے کہہ دیجئے گا کہ میں مر چکی ہوں-“ بردار مالکم کو اس نے حدید کے بارے میں صرف یہ بتایا تھا کہ وہ ایک دوست تھا جسے وہ بہت عرصے سے جانتی تھی مگر اب وہ اس سے کوئی رابطہ رکھنا نہیں چاہتی- وہ یکدم حدید سے خط و کتابت کا سلسلہ ترک نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ اس صورت میں وہ پریشان ہو کر واپس آ سکتا تھا- امریکہ جانے کے بعد بھی وہ وہاں سے اپنی ایک دوست کو حدید کے نام کبھی کبھار کوئی خط بجھوا دیتی اور اس کی وہ دوست اس خط کو پاکستان سے پوسٹ کر دیتی- “میں نہیں جانتی، میں نے یہ سب کیوں کیا- مجھے یہ سب کرنا چاہیے تھا یا نہیں- لیکن شاید ان دنوں میں اتنے پچھتاووں کا شکار تھی کہ بس کسی طرح…… کسی بھی قیمت پر وہ سب حاصل کر لینا چاہتی تھی جو میں نے کھو دیا تھا- ایک دن میں مسلم تھی- اگلے دن میں کچھ بھی نہیں تھی- کچھ ہونے سے کچھ نہ ہونے تک کا سفر میں نے اپنی مرضی سے طے کیا تھا- کہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی- واپسی کا سفر میں نے کانٹوں پر طے کیا ہے- واپس وہیں تک پہنچنے کے لیے مجھے کئی سال لگ گئے اور میں آج بھی یہ نہیں جانتی کہ خدا کے نزدیک میں کہاں کھڑی ہوں- جب میں نے تم کو بھی اپنا مذہب چھوڑنے کا ارادہ کرتے دیکھا تو میں نے سوچا، اگر میں تمہیں اس کام سے روک لوں تو شاید الله میرے گناہ معاف کر دے- شاید وہ میری زندگی آسان کر دے- شاید وہ…… میں مانتی ہوں اس وقت میں نے خود غرضی دکھائی تھی- میں نے سوچا تھا الله نیکی کا اجر ضرور دیتا ہے- یہاں بھی…… اور وہاں بھی- میں نے سوچا اگر میں نیکی کروں تو…… میں مانتی ہوں میں نے اس وقت بھی صرف اپنا سوچا تھا- میں یہ سب اپنے لیے کرنا چاہتی تھی، تمہارے لیے نہیں- اپنا مذہب چھوڑ کر میں جنت سے نکل آئی تھی- واپس جنت میں جانے کے لیے مجھے نیکیوں کے سہارے کی ضرورت تھی- میں نے تم سے محبت کا اظہار اس لئے کیا تھا تا کہ تم مجھ پر اعتماد کرنے لاگو، تا کہ تم یہ سمجھ لو کہ میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں اور اس لئے تمہیں اپنے مذہب پر قائم دیکھنا چاہتی ہوں- مجھے اس وقت تم سے محبت نہیں تھی- میں اس وقت محبت کرنے کے قابل ہی نہیں پارک میں پھیلتی ہوئی تاریکی میں حدید نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے کی کوشش کی تھی- باغی، گناہ گار، معصوم…… یا مسیحا- اس نے اندازہ لگانا چاہا تھا۔
“جب ڈیوڈ میرے سامنے ختم ہوا، میرے لئے ساری دنیا ختم ہو گئی-” وہ کہہ رہی تھی- “میں نے سوچ لیا تھا مجھے اب زندگی میں کچھ نہیں کرنا- مجھے بس رونا ہے- مجھے یوں لگتا تھا جیسے دنیا میں کہیں کچھ ہے ہی نہیں- نہ کوئی خدا، نہ پیغمبر، نہ مذہب، نہ رشتہ- اگر کچھ ہے تو صرف خود غرضی- مجھے ہر چیز سے نفرت ہو گئی تھی، ہر چیز سے- میری فیملی مجھے مار دینا چاہتی تھی- جب انہوں نے ڈیوڈ کو مار دیا تو بہت دنوں تک میں سو نہیں سکی تھی- کمرہ بند ہونے پر بھی مجھے یونہی لگتا تھا جیسے ابھی کہیں سے گولی چلے گی اور میں مر جاؤں گی- انہوں نے ڈیوڈ کو میری وجہ سے مارا تھا اور میں جانتی تھی وہ ہر اس شخص کو مار دیں گے جو میرے قریب آنے کی کوشش کرے گا- تب میں نے سوچا تھا اب مجھے کسی سے کبھی بھی محبت نہیں کرنی ہے- میں کسی اور کا خون اپنے سر نہیں لینا چاہتی تھی- جب میں تم سے ملنے لگی تب میں نے سوچا، اگر وہ لوگ تمھارے بارے میں جان گئے تو……؟ میں خوفزدہ ہو گئی پھر میں نے سوچا میں بہت جلد تم سے ملنا چھوڑ دوں گی ہمیشہ کے لیے اور میں نے ایسا ہی کیا- تب تک تم میرے لیے صرف ایک نیکی تھے اور کچھ نہیں- لیکن ان چھ سالوں میں سب کچھ بدل گیا- میرا خیال تھا محبت صرف ایک بار ہوتی ہے- میرا خیال تھا مجھے ڈیوڈ کے بعد دوبارہ کسی سے محبت نہیں ہو گی-“ وہ رک گئی تھی- حدید نے اسے چہرہ موڑتے ہوئے دیکھا تھا- “ڈیوڈ سے میں نے خود محبت کی تھی- تم سے الله نے کروائی ہے- ان چھ سالوں میں ہر بار نماز پڑھنے کے بعد میں نے ایک ہی دعا کی تھی، میں تمہیں کبھی نہ دیکھوں، تم سے کبھی نہ ملوں- میں نے الله سے کہا تھا وہ تمھارے سامنے میرے عیبوں کو چھپا رہنے دے- وہ تمھارے سامنے میرا پردہ رہنے دے- چھ سال میری دعا قبول ہوتی رہی- میں نے تمہیں نہیں دیکھا- آج پہلی بار نماز میں یہ دعا کرنا بھول گئی اور…… اور تم میرے سامنے کھڑے ہو اور…… اور وہ بھی ہر راز جانتے ہوئے- تمہیں یاد ہے جب تم پہلی بار مجھ سے ملے تھے تو تم نے کہا تھا کہ دنیا میں تمہارا کوئی نہیں ہے- تب میں تمہیں بتانا چاہتی تھی کہ دنیا میں بہت سے لوگ میرے ہیں مگر میرے لئے کوئی نہیں- تمہیں خدا نے بہت سے رشتوں سے محروم رکھا اور جو رشتے چھینے، وہ الله نے چھینے- مجھے الله نے ہر رشتے سے نوازا اور میں نے ہر رشتہ خود گنوایا، اپنے ہاتھوں سے- آج دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو میرے لئے روتا ہو گا- مجھے یاد کرتا ہو گا اور پچھلے چھ سالوں میں، میں ہر رات یہ سوچ کر سویا کرتی تھی کہ تم…… تم کبھی نہ کبھی مجھے ضرور یاد کرتے ہو گے- دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ محبت کرتے ہیں- ان سے بھی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں- میرا خیال تھا تمہیں مجھ سے محبت تھی- اب نہیں ہے، میں یہ بھی جانتی ہو-“ وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا تھا- پارک میں خاموشی چھائی ہوئی تھی- بعض دفعہ سناٹا صرف باہر ہی نہیں، بلکہ انسان کے اندر بھی ہوتا ہے- “میں بہت سے لوگوں کی مجرم ہوں- بہت سے لوگوں نے میری وجہ سے بہت کچھ سہا ہے- میں نے اپنے ماں باپ کے اعتماد کی دھجیاں اڑا دیں- میں نے اپنے خاندان کی عزت کو نیلام کر دیا- میری وجہ سے ڈیوڈ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے- میری وجہ سے ڈیوڈ کے گھر والوں کو اس سے ہمیشہ کے لیے محروم ہونا پڑا- مگر حدید! میری وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا- میں نے کم از کم تمھارے لئے کچھ برا نہیں کیا- پھر بھی میری وجہ سے تمہیں جو تکلیف پہنچی، میں اس کے لئے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتی ہوں-“ حدید نے اپنے سامنے اس کے جڑے ہوئے ہاتھوں کو دیکھا تھا- وہ بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا تھا- پھر کچھ کہے بغیر ایک جھٹکے سے وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا، چند لمحے وہ کچھ کہنے کی کوشش کرتا رہا پھر لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا- فضا میں خنکی بہت بڑھ گئی تھی- ثانیہ اپنا بیگ اٹھا کر کھڑی ہو گئی- وہ اندھیرے میں غائب ہو چکا تھا- اس نے اسے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی تھی- وہ جانتی تھی حدید اب دوبارہ اسے کبھی نظر نہیں آئے گا- “حدید کی زندگی، حدید کی زندگی ہے- اس میں کہیں بھی کسی ثانیہ شفیق کو نہیں ہونا چاہیے-“ اس کے ساتھ پارک میں آتے ہوئے اس نے سوچا تھا- “مجھے اسے سب کچھ بتا دینا ہے، سب کچھ- مجھے آج اس سے کچھ بھی نہیں چھپانا-“ اس نے طے کیا تھا اور پھر اس نے یہی کیا تھا- اس نے حدید کو ہر بات بتا دی تھی- کچھ بھی راز میں نہیں رکھا تھا- وہ جانتی تھی اس کا نتیجہ کیا ہو گا- “ہر کہانی کے انجام پر کچھ کردار کھو جاتے ہیں، کچھ کردار پاتے ہیں- میں کھونے والے کرداروں میں سے ہوں-“ اس نے پارک کے گیٹ سے نکلتے ہوئے سوچا تھا- اس دن کے بعد وہ دوبارہ کبھی اسلامک سینٹر نہیں گئی- اب وہ کسی کے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی اور پروفیسر عبدالکریم…… وہ دوبارہ ان کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی- وہ کسی کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی-
کمیونٹی سینٹر میں عید کے اجتماع میں شرکت کر کے جب وہ باہر نکلی تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی- ہال کے اندر اور باہر لوگوں کی ایک بڑی تعداد تھی- گروپس میں کھڑے ہوئے لوگوں کے قہقہوں اور آوازوں نے ماحول پر ہمیشہ چھائی رہنے والی خاموشی کو ختم کر دیا تھا- اس کے شناسا وہاں صرف چند لوگ تھے اور ان کے پاس اس کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا- وہ سب وہاں اپنی فیملیز کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور فیملیز آپس میں گھل مل کر خوش گپیوں میں مصروف تھیں- اس کے لیے کچھ بھی نیا اور مختلف نہیں تھا- پچھلے کئی سالوں سے وہ ایسی ہی عیدیں مناتی آ رہی تھی- لوگوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے اس نے اوورکوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال لیے تھے- خنکی میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہو گیا تھا- کمیونٹی سینٹر سے نکلنے کے بعد وہ سڑک پر آ گئی تھی- اوورکوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے وہ فٹ پاتھ پر چلتی رہی- “اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو ڈراپ کر سکتا ہوں؟” اس نے اپنے قریب ایک گاڑی کو رکتے دیکھا تھا اور پھر آواز آئی تھی- اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا- چند لمحے خاموشی سے دیکھنے کے بعد اس نے کہا تھا- “نہیں، شکریہ-“ “بارش تیز ہو سکتی ہے-” بڑی ہمدردی سے ایک بار پھر کہا گیا تھا- “اٹس آل رائٹ-“ وہ ایک بار پھر چلنے لگی تھی- اس کے پاس رکنے والی گاڑی فراٹے کے ساتھ اس کے پاس سے گزر گئی تھی- اس کی اداسی یکدم بےحد گہری ہو گئی تھی- سڑک کے کنارے لگے ہوئے درخت کی نچلی شاخ پر اس نے پرندوں کا ایک جوڑا بیٹھے دیکھا تھا- “One for sorrow two for joy “ اس نے زیر لب کہا تھا- “Joy” ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری تھی- بارش یکدم تیز ہو گئی تھی- وہ مین روڈ پر پہنچنے کے لیے تیزی سے چلنے لگی- بس شیلٹر کے نیچے پہنچ کر وہ سوچنے لگی تھی کہ اسے اس وقت کہاں جانا چاہیے- وہ گھر جانا نہیں چاہتی تھی- کم از کم آج کے دن وہ گھر جا کر کمرے میں قید ہونا نہیں چاہتی تھی- اس نے دور سے بس کو آتا دیکھ لیا تھا- ایک سستے سے انڈین ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر اس نے کھانا کھایا تھا اور پھر پہلے کی طرح سڑکوں پر بے مقصد بارش میں بھیگنے کے بجائے وہ ایک شاپنگ مال میں گھس گئی تھی- مختلف چیزوں اور لوگوں پر نظر دوڑاتے ہوئے بہت دیر تک وہ ادھر سے ادھر پھرتی رہی تھی- اسے یاد آیا تھا پچھلی عید پر بھی وہ یہاں اسی طرح پھرتی رہی تھی- “اگلے کتنے سال میں اپنی عیدیں اس طرح گزاروں گی؟” شاپنگ مال میں کافی پیتے ہوئے اس نے سوچا تھا- “یہاں اس طرح اکیلے پاگلوں کی طرح پھرتے ہوئے-“ اسے اندازہ نہیں ہوا اس نے وہاں کتنے گھنٹے گزارے تھے- جب وہ شاپنگ مال سے نکلی تھی تو آسمان تاریک تھا- بارش اب بھی برس رہی تھی- اس نے گھڑی میں وقت دیکھا تھا- شام کے چھ بج رہے تھے- جس وقت وہ بس سے اتری تھی، بارش تیز ہو چکی تھی- مین روڈ سے بائی روڈ کا فاصلہ اس نے تقریباً بھاگتے ہوئے طے کیا تھا- پانچ منٹ کے بعد وہ اپنے گھر کے سامنے تھی- گھر کے عقبی جانب آتے ہی اس نے سب سے اوپر والی سیڑھی پر کسی کو بیٹھے دیکھا تھا- وہ کچھ حیران ہوئی تھی- اس وقت اتنی بارش میں کون بیٹھا ہے؟ اس نے اندازہ لگانے کی کوشش کی تھی مگر دور سے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا- “جولین کا کوئی بوائے فرینڈ ہو گا- شاید ابھی وہ نہیں آئی تھی-“ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس نے اوورکوٹ کی جیب سے کمرے کی چابی نکال لی تھی- سیڑھی پر جو بھی بیٹھا تھا اسے آتا دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا- ثانیہ نے اس کے پاس سے گذرتے ہوئے سرسری نظر اس کے چہرے پر ڈالی تھی- اس کے ذہن میں جیسے ایک جھماکا ہوا تھا- سیڑھی کے کونے میں لٹکے ہوئے بلب کی ہلکی سی روشنی اس کا چہرہ شناخت کرنے کے لیے کافی تھی- وہ چند لمحے وہاں سے ہل نہیں سکی- اپنے کمرے کے دروازے کی طرف جاتے ہوئے اس نے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنی تھی- دروازہ کھول کر اسے بند کیے بغیر وہ اندر کمرے میں چلی آئی تھی- “سڑک پر لفٹ کی آفر دینے کے بعد وہ شاید سیدھا یہیں آیا تھا مگر کیوں؟” اس نے اپنا اوورکوٹ دروازے کے پیچھے لٹکاتے ہوئے سوچا تھا- وہ اندر آنے کے بجائے دروازے کے باہر ہی رک گیا تھا- ثانیہ نے خاموشی سے دروازہ کھول دیا تھا- وہ کچھ جھجکتے ہوئے اندر آیا تھا- وہ بری طرح بھیگا ہاتھ- “اس طرح بھیگنے کی کیا ضرورت تھی- تم برآمدے میں انتظار کر سکتے تھے-” دروازہ بند کرتے ہوئے ثانیہ نے مدھم آواز میں اس سے کہا تھا- “بھیگنے سے کیا ہوتا ہے؟” اس نے مڑ کر پوچھا تھا- اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں- وہ شاید سیڑھیوں پر بیٹھا روتا رہا تھا- سات سال پہلے بھی اس نے ایک بار اسے اسی طرح پارک میں…… وہ آگے بڑھ گئی تھی- ہیٹر آن کرنے کے بعد اس نے ایک فلور کشن اس کے سامنے رکھ دیا تھا- “یہاں بیٹھ جاؤ-“ وہ جوتے اتار چکا تھا- ثانیہ نے باتھ روم میں جا کر اپنا گیلا حجاب اتار کر دوسرا حجاب اوڑھ لیا تھا- وہ واپس کمرے میں آئی تو وہ فلور کشن پر بیٹھا ہوا تھا- “اپنا سویٹر اتار دو-” اس نے ایک تولیہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا- اس نے خاموشی سے تولیہ پکڑ کر اپنا سویٹر اتارنا شروع کر دیا- ثانیہ نے کیتلی میں کافی کے لیے پانی گرم ہونے کے لیے رکھ دیا- حدید نے سویٹر اتار کر کارپٹ پر رکھ دیا تھا اور تولیے سے بال خشک کرنے لگا تھا- وہ اس کے پاس آئی تھی اور سویٹر کو سیدھا کر کے اس نے ہیٹر کے سامنے پھیلا دیا تھا- وہ خاموشی سے اس کی سرگرمیاں دیکھ رہا تھا- وہ اسے ایک اونی شال تھمانے کے بعد واپس کونے میں جا کر کافی بنانے میں مصروف تھی- جب اس نے حدید کی آواز سنی تھی- “کیا تم یہ سب کام میرے لیے ساری عمر نہیں کر سکتیں-” وہ اپنی جگہ پہ ساکت ہو گئی تھی- “یہ کیا کہہ رہا ہے؟” اس نے سوچا تھا- “کیا اب بھی یہ ممکن ہے؟” اس نے مڑ کر اسے دیکھا تھا- وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا- ہیٹر پر نظریں جمائے بیٹھا تھا- “شاید مجھے کچھ غلط فہمی ہوئی ہے-” ثانیہ نے سوچا تھا- کافی کی ٹرے اس نے حدید کے سامنے لا کر رکھ دی تھی- “تم جانتی ہو، آج کیا دن ہے؟” اس نے کافی کا کپ اٹھاتے ہوئے اس سے پوچھا تھا- ثانیہ نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا- وہاں ایک عجیب سی کیفیت تھی- “عید ہے-” بہت مدھم آواز میں اس نے کہا تھا- “بس…… بس عید ہے-” اس کی آواز میں عجیب سی مایوسی تھی- “تمہیں کچھ یاد نہیں؟” اسے یاد تھا مگر وہ خاموشی سے دونوں ہاتھوں میں پکڑے ہوئے کپ کو گھورتی رہی-