“کم از کم تمہیں تو یاد……” اس نے سر اٹھاتے ہوئے پرسکون انداز میں اس کی بات کاٹ دی تھی- “ہیپی برتھ ڈے حدید!” اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک ابھر کر معدوم ہو گئی تھی- “تمہیں میرا ایڈریس کہاں سے ملا؟” “پروفیسر عبدالکریم سے-” وہ خاموش ہو گئی تھی- “ابھی بھی اسی طرح روتے ہو جیسے پہلے……؟” اس نے مسکرانے کی کوشش کی تھی- “نہیں، اب تو بہت عرصہ ہو گیا ہے- میں نہیں رویا- آخری بار تب رویا تھا جب تمھارے مرنے کی اطلاع…… ان چھ سالوں میں بہت بدل گیا ہوں- اب رونا بھی میرے لئے ممکن نہیں رہا- میں تمہارا انتظار کرتے کرتے تھک گیا تھا- سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور پتا نہیں کیا ہوا، سارا ماضی یاد آنے لگا- یوں لگا جیسے بیچ کے چھ سات سال غائب ہو گئے ہوں- مجھے لگا میں ویسے ہی تم سے ملنے آیا ہوں جیسے چھ سات سال پہلے کیتھڈرل میں ملنے آتا تھا- تمہیں یاد ہے نا تب میں بہت رویا کرتا تھا-“ ثانیہ نے اس کے ہونٹوں پر ایک معصوم سی مسکراہٹ دیکھی تھی- “جتنا زاروقطار میں تمھارے سامنے رویا ہوں، کسی اور کے سامنے نہیں رویا-” اس نے نظریں جھکا لی تھیں- کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی تھی- “تم سے جب میں پہلی بار ملا تھا تو انیس بیس سال کا تھا- جذباتی، بزدل، کم ہمت، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو پڑنے والا- ان دنوں مجھے سارے رستے بند نظر آتے تھے- مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں کوئی جانور ہوں جسے شکار کرنے کے لیے چاروں طرف سے گھیر لیا گیا ہو- مجھے لوگوں سے خوف اور وحشت ہوتی تھی- میرا ہاتھ اور دل دونوں خالی تھے- میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ ٹینا سے آخری ملاقات سے پہلے ایک رات میں نے الله سے بہت دعا کی تھی- میں نے اس سے سکون اور سہارا منگا تھا- میں نے اس سے آسانی اور محبت مانگی تھی- میں نے اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی تھی- اس رات پتا نہیں کیوں مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ الله نے میری دعا قبول کر لی ہے- مجھے یوں لگا تھا جیسے اگلے دن میری ساری مشکلات ختم ہو جائیں گی- ٹینا مجھے مل جائے گی-“ وہ کافی کے مگ کو دیکھتے ہوئے اس کے کناروں پر انگلی پھیر رہا تھا- “ٹینا نہیں ملی مگر اگلے دن مجھے تم مل گئیں- پارک میں، میں نے تمہیں نہیں دیکھا مگر تم نے مجھے دیکھا- اس رات وہ جو احساس ہوا تھا نا کہ میری دعا قبول ہو گئی ہے، وہ غلط نہیں تھا- میری دعا واقعی قبول ہوئی تھی- تم سے بڑھ کر سہارا اور سکون مجھے کوئی نہیں دے سکتا تھا- تم سے زیادہ محبت مجھے کہیں سے نہیں مل سکتی تھی- تمہیں پتا ہے، تب تم نے میرے لیے کیا کیا- تم نے میرے جسم میں سے ایک ایک کانٹا نکال دیا اور پھر ہر زخم کو سی دیا- میں سوچتا ہوں، اس دن اگر مجھے ٹینا مل جاتی تم نے ملتیں تو کیا ہوتا- ٹینا اور میں شادی کرتے ویسا ہی گھر بناتے جیسا اس کے پیرنٹس یا میرے پیرنٹس نے بنایا تھا- اسی طرح لڑتے جیسے وہ دونوں لڑتے تھے- ہمارے بچے ویسی ہی زندگی گزارتے جیسے میں یا ٹینا اپنے پیرنٹس کے پاس گزار رہے تھے، مصنوعی اور خالی زندگی- میں ساری عمر خدا کے وجود سے اتنا ہی بےنیاز رہتا، جتنا تب تھا- میں ٹینا کو خوش رکھنے کے لئے مکمل طور پر میٹریلزم کا شکار ہو جاتا- میرا دین، میرا پیغمبر (صلی الله علیہ والہ وسلم)، میرا الله مجھے…… مجھے تو کسی کے بارے میں بھی کچھ خبر نہ ہوتی- میں بےکار چیزوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے زندگی ختم کر لیتا- چھ سال میں، میں نے الله کا اتنی بار شکر ادا کیا ہے کہ اس دن مجھے ٹینا نہیں ملی تم ملیں- چاہے جس مقصد کے لیے بھی کی مگر تم نے میرے ساتھ نیکی کی- اس وقت دنیا میں صرف ایک شخص ایسا ہے جس کا احسان میں چاہوں بھی تو نہیں اتار سکتا اور وہ…… وہ تم ہو-“ “تم مجھے تاریکی سے روشنی کی طرف لے کر آئی تھیں- مجھے مسلمان میرے ماں باپ نے نہیں، تم نے بنایا- کان میں اترنے والی آواز سے کوئی مسلمان نہیں ہوتا- دل میں اترنے والی آواز سے مسلمان ہوتا ہے اور میرے دل میں تمہاری آواز اتری تھی- میں نے اپنے الله، پیغمبر (صلی الله علیہ والہ وسلم)، اپنے دین کو تمہارے ذریعے پہچانا- جب پہچان لیا تو زمین پر کھڑے ہونے کا طریقہ آ گیا- زندگی کے رستے نظر آنے لگے- میں ایک بار پھر سے دنیا کو دیکھنے کے قابل ہو گیا- حتی کہ تمہاری مرنے کی خبر پر بھی پہلے کی طرح میں زندگی اور دنیا سے مایوس نہیں ہوا- میں نے پہلے کی طرح خدا کے سامنے شکووں کی قطاریں کھڑی نہیں کیں- میں نے صبر کیا- میں نے ان چیزوں کو یاد رکھنے کی کوشش کی جو الله مجھے دے رہا تھا- ان چھ سالوں میں، میں نے بہت کچھ حاصل کیا- اپنا ایم سی ایس مکمل کیا- ایک کمپیوٹر فرم میں بہت اچھی جاب مل گئی- اچھی زندگی گزارنے کے لیے جتنی آسائشیں ضروری ہوتی ہیں، وہ سب میرے پاس ہیں اور اب میں پہلے کی طرح زندگی سے ناخوش بھی نہیں ہوں- اپنی ہر بے چینی اور پریشانی کا علاج میں نے قرآن پاک میں ڈھونڈا ہے- چھ سال اکیلے گزارنے کے بعد اس سال میں شادی کرنا چاہتا تھا- زندگی میں کسی نہ کسی اسٹیج پر آپ کو رشتوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے- چھ سالوں میں بہت سی لڑکیوں سے ملتا رہا ہوں لیکن ہر بار شادی کا سوچتے ہی میرے سامنے تم آ کر کھڑی ہو جاتی تھیں-“ اس نے ثانیہ کو گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹتے اور پھر ان میں چہرہ چھپاتے ہوئے دیکھا تھا- “میں ہر لڑکی کا موازنہ تم سے کرتا تھا- میں چاہتا تھا جو بھی میری زندگی میں آئے، وہ تمھارے جیسی ہو- میں اپنے پیرنٹس جیسا گھر بنانا نہیں چاہتا تھا- میں گھر جیسا گھر بنانا چاہتا تھا- میں چاہتا تھا وہ میری اولاد کو میری طرح الله سے بےنیاز نہ رکھے- جیسے میرے پیرنٹس نے مجھے رکھا- میں چاہتا تھا وہ میری اولاد کو اچھا مسلمان بنائے- وہ مجھے صرف یہ نہ بتاتی رہے کہ دنیا کی ترقی کتنی ضروری ہے- وہ مجھے باہر سے نہیں، اندر سے سمجھے- چھ سال میں، میں کسی ایسی لڑکی سے نہیں ملا جو یہ سب کر سکتی- جب سے یہاں سیٹل ہوا ہوں، تب سے میں اسلامک سینٹر جاتا رہا ہوں- پروفیسر عبدالکریم سے میں نے ایک بار شادی کی خواہش ظاہر کی- میں نے انھیں بتایا کہ مجھے ایسی لڑکی کی ضرورت ہے جو صرف مسلمان نہ ہو بلکہ دین کو سمجھتی بھی ہو، جانتی بھی ہو، جو دنیا کے پیچھے بھاگنے والی نہ ہو، جو ہر اچھے اور برے وقت میں میرے ساتھ رہے، مجھ سے وفادار ہو، جو میری اولاد کی اچھی پرورش کر سکے- میں نے اور کوئی شرط نہیں رکھی تھی- میرا دھیان اور کسی بات کی طرف گیا ہی نہیں- انہوں نے مجھے تمہارے بارے میں بتایا- وہ سب کچھ جو وہ جانتے تھے- جو تم نے انھیں بتایا تھا- انہوں نے پوچھا تھا کہ میں تمہارے ماضی کے ساتھ تم کو قبول کر سکتا ہوں؟ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوا- وہ تمہیں ثانی کہتے تھے- مجھے کبھی شک نہیں ہوا کہ یہ تم تھیں- ہاں ہر بار ثانی کہنے پر مجھے تمہارا نام ضرور یاد آ جاتا تھا- اس دن میں ثانی سے ملنے گیا تھا اور سامنے آنے والی ثانیہ تھی-“ وہ خاموش ہو گیا تھا- اس نے گھٹنوں میں سر چھپائے اس کے لرزتے ہوئے وجود کو دیکھا تھا- “میں تمہیں نہیں بتا سکتا، مجھے تم پر کتنا غصہ آیا تھا- مجھے لگا میں نے اتنے سال ایک جھوٹ کی محبت میں گزار دیے، ایک فراڈ کی چاہ میں- پھر تم نے سب کچھ مجھے بتا دیا- اگر مجھے تھوڑی بہت کوئی خوش فہمی تھی تو وہ بھی ختم ہو گئی- تم سے ملنے کے بعد گھر جا کر میں سوچتا رہا تھا کہ میں کس قدر بےوقوف اور احمق تھا کہ ایک لڑکی…… بہت دن میں اسی صدمے اور غصے میں رہا تھا پھر آہستہ آہستہ غصہ ختم ہونے لگا تھا- آہستہ آہستہ تمہاری ساری باتیں ایک بار پھر یاد آنے لگی تھیں- میں نے سوچا تم نے مجھ سے کیا مانگا، کیا لیا- تم نے نیکی اپنی غرض کے لیے کی تھی مگر میرے ساتھ کی تھی- جس دلدل میں اترنے کے لیے میں کھڑا تھا، وہاں مجھے تم نہیں لے کر گئی تھی- میں خود گیا تھا- تم تو مجھے وہاں سے واپس لائی تھی- دلدل تک جانے کے لیے اگر میں خود سے نفرت نہیں کر سکا تو وہاں سے واپس لانے کے لیے تم سے کیسے کر سکتا ہوں- ان چھ سالوں میں، میں نے جو بھی حاصل کیا ہے، تمہاری وجہ سے کیا ہے- سکون، صبر، ایجوکیشن، جاب، دولت، حتی کہ…… حتی کہ ایمان بھی- تم مجھے الله تک لے کر گئی تھی- تم نے مجھے تشخص دیا- تمہیں پتا ہے ثانیہ! تم کیا ہو؟” اس نے ایک بار پھر اپنے گھٹنوں میں سر چھپا لیا تھا- “میلے دامن داغ دار دل والے لوگ ویسی زندگی نہیں گزارتے جیسے تم گزار رہی ہو- ویسے کام نہیں کرتے جیسے تم نے کیے- مجھے اور تمہیں دوبارہ ملانے والا الله ہے اور وہ ہمارے بارے میں سب کچھ جانتا ہے- میں بہت دنوں پہلے تمہارے پاس آنا چاہتا تھا مگر ہر بار رک جاتا- لیکن آج جب تمہیں کمیونٹی سینٹر میں دیکھا تو پھر میں ٹھہر نہیں سکا- تم نے راستے میں لفٹ لینے سے انکار کر دیا اور میں یہاں چلا آیا- میں تمھارے پاس یہ جاننے نہیں آیا ہوں کہ تم نے کب کب، کہاں کہاں غلطی کی- مجھے ڈیوڈ کے قصے میں بھی دلچسپی نہیں ہے- مجھے اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ تم کسی کے لیے گھر سے بھاگ گئیں- میں یہ بھی جاننا نہیں چاہتا کہ تمہارے پیرنٹس تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہیں یا کیا نہیں- میں اپنی زندگی میں سکون چاہتا ہوں- میں تمہیں چاہتا ہوں-“ ثانیہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا- اس کی بھیگی ہوئی آنکھوں میں بے یقینی تھی- ڈیڑھ گھنٹہ بعد اسلامک سینٹر میں نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے اس نے حدید کو دیکھا تھا- وہ بےحد پرسکون نظر آ رہا تھا- چند لمحے چپ چاپ اسے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے نکاح نامے پر سائن کر دیے تھے- “میں کوشش کروں گا، ایک بار تمھارے پیرنٹس سے کانٹیکٹ کروں- تمہیں ان سے ملواؤں- ہو سکتا ہے وہ تمہیں معاف کر چکے ہوں-“ اسلامک سینٹر کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اس نے حدید کو کہتے سنا تھا- “یاد ہے، بہت سال پہلے تم نے ہی کہا تھا نا،کبھی نہ کبھی سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے-“ ثانیہ نے جواب دینے کی کوشش نہیں کی تھی- اسے یاد آ رہا تھا، اس کے ساتھ یہاں آنے سے پہلے اس نے حدید سے پوچھا تھا- “کیا تمہیں واقعی ہی لگتا ہے کہ میں اپنے سارے گناہوں کے بعد بھی تمہارے لیے ویسی بیوی ثابت ہو سکتی ہوں جیسی تم چاہتے ہو- کیا تم واقعی میرا ماضی بھول جاؤ گے؟” “نہیں، میں تمہارا ماضی نہیں بھول سکتا- کیونکہ اس ماضی سے میری کچھ بہت اچھی یادیں وابستہ ہیں-” حدید نے جواب دیا تھا- “کیا تم میرے جیسی گناہ گار عورت کے ساتھ رہ کر پچھتاؤ گے نہیں؟” “وہ تمھارے لئے روشنی کر دے گا جس میں تم چلو گے اور وہ تم کو بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے-“ اس نے بہت نرم لہجے میں بہت سال پہلے ثانیہ کی سنائی ہوئی سورۂ حدید کی آیات دہرا دی تھیں- بہت دیر تک نم آنکھوں سے وہ چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھتی رہی، پھر اس نے سر جھکا لیا تھا- “تمہیں یوں نہیں لگتا ثانیہ! جیسے آج سب کچھ مکمل ہے- کہیں بھی کچھ بھی مسنگ نہیں ہے-” کار پارکنگ لاٹ سے باہر نکالتے ہوئے وہ اس سے کہہ رہا تھا- ثانیہ نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا- “کم از کم مجھے تو یہی لگ رہا ہے جیسے سب کچھ یکدم مجھے مل گیا ہے-“ ثانیہ نے مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا لیا تھا- سرد موسم سے گاڑی کے اندر کی حدت میں آ کر اس کے جسم کو عجیب سا سکون مل رہا تھا- وہ کہتا جا رہا تھا- “آج پہلی بار مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میں اپنے فلیٹ نہیں، گھر جا رہا ہوں اور میں اس فیلنگ (احساس) کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا- کار میں اس کی آواز گونج رہی تھی اور وہ سوچنے لگی تھی- ہاں میں جانتی ہو- یہ بتانا بہت مشکل ہے کہ گھر کیا ہوتا ہے اور زندگی میں ایک گھر کی کیا اہمیت ہوتی ہے- اتنے بہت سے سال تنہا خوار ہونے کے بعد اب میں جہاں رہوں گی، وہ گھر ہو گا- وہاں کم از کم ایک شخص ایسا ہو گا جو میرے بیمار ہونے پر میرے لیے پریشان ہو گا- جو مجھ سے دن میں تین بار یہ ضرور پوچھے گا کہ میں نے کھانا کھایا یا نہیں- جو میرا دل بہلانے کے لیے کسی بھی وقت کوئی بھی کام چھوڑ کر باہر لے جا سکتا ہے- جس کے سامنے روتے ہوئے مجھے کوئی خوف اور پریشانی ہو گی نہ ہی کوئی جھوٹا بہانہ بنانا پڑے گا-“ اس نے آنکھیں کھول کر ایک بار پھر اسے دیکھا تھا- وہ سامنے سڑک پر نظریں جمائے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا- ثانیہ نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لی تھیں- “گھر جا کر تمہیں تھوڑا شاک لگے گا- میں پچھلے بہت دنوں سے تمہاری وجہ سے اپ سیٹ تھا- کسی چیز پر توجہ نہیں دے سکا، گھر پر بھی نہیں- وہاں سب کچھ ادھر ادھر بکھرا ہوا ہے-“ ثانیہ کو نیند آنا شروع ہو گئی تھی- حدید کی آواز اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی- “لیکن تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے- میں جاتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دوں گا-“ آواز اب اور ہلکی ہو گئی تھی- “مجھے زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ لگے گا-“ ثانیہ کو اب اس کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں- “اور…… پھر تم…… گھر…… کو دیکھنا…… اب…… مجھے…… کچھ…… نہیں……” حدید نے بات کرتے کرتے گردن موڑ کر اسے دیکھا تھا اور خاموش ہو گیا تھا- نیند میں ثانیہ کا ایک ہاتھ گیئر اور ہینڈ بریک کے پاس دھرا ہوا تھا- حدید نے بہت احتیاط سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کی گود میں رکھ دیا- لیور دبا کر اس نے ثانیہ کی سیٹ کی بیک کو تھوڑا اور نیچے کر دیا- حدید نے ثانیہ کی سیٹ بیلٹ کو آہستہ آہستہ چیک کیا تھا اور پھر مطمئن ہو کر اس سے اپنی توجہ ایک بار پھر سڑک پر مرکوز کر کی تھی- کار میں اب بالکل خاموشی تھی “بعض دفعہ خاموشی وجود پر نہیں، دل میں اترتی ہے- پھر اس سے زیادہ مکمل، خوبصورت اور بامعنی گفتگو کوئی اور چیز نہیں کر سکتی اور یہ گفتگو انسان کی ساری زندگی کا حاصل ہوتی ہے اور اس گفتگو کے بعد ایک دوسرے سے کبھی دوبارہ کچھ کہنا نہیں پڑتا- کچھ کہنے کی ضرورت رہتی ہی نہیں-“ وہ پرسکون انداز میں مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا-