مجھے زندگی کے بیس سال کسی نے نہیں بتایا…کسی بڑے‘ کسی اسکالر‘ کسی قرآن کے حافظ نے نہیں بتایا…کہ قرآن حرام حلا ل کے احکامات کی کتاب نہیں ہے۔ وہ تورات تھی۔
قرآن اخلاقیات کی کتاب بھی نہیں ہے۔وہ انجیل تھی۔
قرآن دعاؤں کا مجموعہ بھی نہیں ہے۔ وہ زبور تھی۔
قرآن میں بس صرف دانائی کی باتیں نہیں ہیں۔وہ تو اللہ تعالیٰ نے بہت سے آسمانی صحیفوں میں بھی نازل کی تھیں۔
قرآن میرا ذکر ہے۔میرا اپنا ذکر۔
قرآن میرے بارے میں ہے۔بے شک قرآن احکامات‘ اخلاقیات‘ قصوں اور دعاؤں سب کا مجموعہ ہے…لیکن ہر شے کا تعلق مجھ سے جڑا ہے۔قرآن میں ہمارا ذکر ہے۔ہم میں سے ہر اس شخص کا جو اس کتاب کو پڑھتا ہے۔ قرآن ایک کلام ہے۔اللہ کی ”بات“ ہے۔ اسی لیے لگتا ہے کہ یہ ہم سے بات کرتا ہے کیونکہ یہ واقعی ہم سے بات کرتا ہے۔ یہ نرمی سے ہمارے ذہن کی الجھنیں سلجھاتا ہے۔اس کے پاس ہمارے سارے جواب ہیں۔اس کے پاس سارے مسئلوں کا حل ہے۔
میں جو سمجھتی تھی کہ الہدیٰ میں دین کے احکامات‘ عقائد اور حرام حلال کے فتاویٰ پڑھائے جائیں گے تو میں غلط تھی۔ وہ سب بھی وہاں پڑھایا جاتا تھا…لیکن بعد میں۔ سب سے پہلے وہاں قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ میں نے قرآن کو الہدیٰ کی اس سفید عمارت میں دریافت کیا تھا۔
میں انمول