یہ عجیب بات ہے کہ چچا کے گھر میں روحیل ہی وہ واحد ہستی تھی کہ جو میرے غمزدہ دل کا احساس کرتا تھا اور گھر والوں کی نا انصافیوں پر میری طرف داری کیا کرتا تھا لیکن جب میں سیانی ہوگئی، وہی مجھے ترچھی نظروں سے بھی دیکھنے لگا۔ میں دو برس کی تھی، ماں چل بسیں اور چچی پر میری پرورش کی ذمہ داری آپڑی۔ ان کی اپنی ڈھیر ساری اولادیں تھیں، اوپر سے مجھے زبردستی ابا اور چچا نے ان کی گود میں ڈال دیا۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔ غرض بڑی بے دلی سے بادل ناخواستہ انہوں نے میری پرورش کا ذمہ اٹھایا۔ بہت بچپن کے دن تو یاد نہیں، چھ سات برس کی ہوئی تو یادوں کے ساتھ سوچوں کے دریچے بھی کھلنے لگے۔ گھر کے سبھی افراد باری باری کام بتاتے اور مجھ پر حکم چلاتے اور ان احکامات کو ایک باندی کی طرح مجھے بلاچوں و چرا ماننا پڑتا۔ میں کبھی کام سے منع کرتی ضد کر بیٹھتی تو چچی بال کھینچ کھینچ کر مجھ سے میری یتیمی کے بدلے لیا کرتیں۔ وہ ایک تیز مزاج خاتون تھیں۔ گھر والے ہی نہیں پڑوسی تک ان سے دبتے تھے اور کوئی بھی ان کے منہ لگنا پسند نہیں کرتا تھا۔ ان کی دو بیٹیاں تھیں جو مجھے بہت تنگ کرتی تھیں حالانکہ میں ان کے اردگرد اس طرح پھرا کرتی جیسے شمع کے گرد پروانے پھرتے ہیں مگر دیبا اور ملیحہ تو جائے کس کلهور مٹی کی بنی تھیں، شاید ان کے سینے میں دل ہی نہیں تھا کہ مجھے چھوٹی بہن سمجھتیں یا ترس کھاتیں۔ ایسے میں ان کے بھائی روحیل کا دم غنیمت تھا۔ جب مجھے اداس دیکھتا پاس آکر میرا جی بہلانے کو باتیں کرنے لگتا اور اپنے جیب خرچ سے ٹافیاں اور بسکٹ لادیتا۔ اس کی اتنی دلجوئی ہی میرے لئے اس گھر میں جینے کا سہارا بن گئی تھی۔ ابا کی ملازمت اس نوعیت کی تھی کہ اکثر باہر رہتے اور کبھی کبھی گھر آتے۔ انہوں نے مجھے اسکول میں داخل کرادیا تھا۔ چوتھی تک کلاس میں فرسٹ آئی پانچویں میں گھر کے کاموں کی ذمہ داری مجھ پر پڑی تو پڑھائی متاثر ہوئی، پوزیشن نہ لے سکی مگر اچھے نمبروں سے پاس ہوگئی۔ چھٹی میں جب چچی کو احساس ہوا کہ اگر بانو کو ہم اسکول سے اٹھالیں تو یہ ایک نوکرانی جتنا کام کرسکتی ہے۔ انہوں نے حیلے بہانے کر کے مجھے چھٹی جماعت کے بعد اسکول سے اٹھالیا۔ مجھے اتنا صدمہ ہوا کہ بتا نہیں سکتی جیسے کسی نے موت کی سزا سنا دی ہو۔ رو رو کر میں نے اپنی حالت بری کرلی۔ انہی دنوں اباجان نے دوسری شادی کرلی۔ ایک امید ان کی طرف بندهی تهی، سو وہ بھی ٹوٹ گئی۔ سوتیلی ماں کا غم دل کو لگالیا۔ امید کا یہ آخری دیا بھی گیا تو اپنی محرومیوں سے ہی جی کو لگانا پڑے گا۔ ابا اپنی نئی نویلی دلہن کے ہمراہ علیحدہ گھر میں رہتے اور کبھی کبھار آتے تھے۔ جب آتے رسم سی بات چیت کرتے۔ کبھی ایک بار بھی اپنے ساتھ اپنےگھر لے جانے کی بات نہ کی۔ یہاں تک کہ جب سوتیلی ماں نے کو جنم دیا، تب بھی انہوں نے مجھے اپنے گھر لے جانے کی خواہش ظاہر نہیں کی حالانکہ میرا بڑا جی چاہا کہ وہ مجھے گھر لے جائیں اور میں اپنے ننھےمنے بھائی کو دیکھوں۔ اس کو گود میں اٹھالوں مگر نہ انہوں نے بلایا اور نہ چچی نے مجھے ان کے گھر بھیجا۔ وقت گزرتا رہا۔ سولہ برس کی ہوگئی۔ دیبا اور ملیحہ اسکول جاتیں مگر میں گھریلو کام کاج میں طاق کی جارہی تھی۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ اس بار اپنی خالہ کے گھر سکھر گئی ہوئی تھی جبکہ روحیل لاہور ہوسٹل میں تھا۔ اس کی بھی چھٹیاں ہوگئیں، وہ گھر آگیا۔ ایک روز چچی کسی رشتہ دار کے وہاں چلی گئیں۔ یہ دوپہر کا وقت تھا، چچا کام پر جاچکے تھے، گھر میں اکیلی تھی اور کچن میں کام کاج میں مشغول تھی کہ روحیل باہر سے آیا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اس نے مجھے آواز دی۔ بانو ذرا ادھر آنا۔ جب میں اس کے رے میں گئی وہ بستر میں لیٹا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔ سر دبا دو بہت دکھ رہا ہے ۔ میں نے کہا۔ آپ کوچائے پلواتی ہوں۔ دراصل میں تنہائی میں اس کے پاس بیٹھنا نہ چاہتی تھی۔ چائے رہنے دو۔ تم بس میرا سر دبا دو… گومگو کی کیفیت تھی۔ ڈر سے انکار بھی نہ کرسکتی تھی۔ جب اس نے بار بار کہا تو میں اس کے سربانے پلنگ کی پٹی پر بیٹھ گئی اور سر دبانے لگی۔ اچانک ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور میں اس پر گرگئی۔ اس چیره دستی پر رو پڑی، تبھی وہ مجھے پھسلانے لگا کہ روتی کیوں ہو پگلی… تم تو میری دلہن بنو گی اور میں بیاہ کر تم کو اپنے ساتھ امریکا لے جاؤں گا۔ تم باہر کے ملک دیکھو گی۔ میرے ساتھ دنیا گھومو گی۔ مجھ سے شادی کرکے تمہارے سارے غم دور ہو جائیں گے۔ اپنے گھر والوں کی زیادتیوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے مگر کیا کروں ابھی تو بے بس ہوں۔ آج اگر تمہاری ماں زندہ ہوتی اور تم کو ہمارے گھر میں یوں نوکرانی بنا ہوا دیکھتی تو کیا حال ہوتا ان کا … مگر غم نہ کرو، بس تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے۔ میں پڑھائی مکمل کرلوں پھر تم سے شادی کرلوں گا اور ہم ٹھاٹ سے زندگی گزاریں گے۔ میں تمہارے سارے دکھ اپنے دامن میں سمیٹ لوں گا۔ غرض اس جهے روتا پاکر ایسے مدھربھرے کلمات کہے کہ جن کو سن : میں اس کی زیادتی کو بھلا کر اپنے دل کے زخموں پر سے کهرنڈ جمانے لگی اور اس کے میٹھے میٹھے بول میرے بس میرا زخموں پر مرہم کا کام کرنے لگے۔ میں تو رونے میں لگی تھی۔ جانے کب اس نے پھر سے مجھے خود سے قریب کرلیا، چپ کرانے اور گلے لگانے کے بہانے، مگر اس کا یہ بہلانا اور میرے آنسو پونچھنا بے غرض نہ تھا۔ اک آخری ستم باقی تھا جو روحیل کے باتھوں سر انجام پاگیا۔ اب پتا چلا کہ اس گھر کا کوئی فرد بھی مجھ سے مخلص نہیں ہے۔ پہلے یہ خوش فہمی تھی کہ لاکھ یہاں دکھی ہوں مگر چچا کے گھر میں میری عزت تو محفوظ ہے۔ یہ میری خام خیالی تھی۔ اس روز بدنصیبی نے ایک اور طمانچہ مارا تو باور ہوا کہ جو لڑکیاں بے سہارا ہوں ان کو اپنے بھی لوٹ لیتے ہیں۔ اس گھر میں اب تک میرے آنسوؤں پر کس نے رحم کھایا تھا جو اب روحیل کو ترس آتا بلکہ اس نے تو سارے حجابوں ہی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس کے بعد تو جب موقع ملتا، وہ اپنی خود غرضی کے الاؤ میں میری ذات کا بالن جھونک جاتا۔ میں آنسو بہا کر رہ جاتی۔ مگر یہ میری بے بسی کے آنسو تھے کہ جو اس الاؤ کو سرد نہ کر سکتے تھے۔ یوں میں اندر ہی اندر جلتی اور سلگتی رہتی۔ فریاد سننے والا کوئی نہ تھا۔ نہ ہی میں کسی سے فریاد کرسکتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ماں جس حال میں ہو، خوشی میں یا کہ غم میں اپنی اولاد کو نہیں بھولتی مگر اکثر باپ خوشیاں پاکر اولاد کو بھی بھول جاتے ہیں۔ اس کی زندہ مثال میرے ابا تھے، جو اپنی بیوی بچوں میں ایسے مگن ہوگئے کہ مجھے بھول گئے۔ چچا کو بھی مجھ سے بات کرنے کی فرصت نہ تھی۔ دیبا اور ملیحہ تو میری طرف دیکھتی بھی نہ تھیں۔ وہ اپنی دنیا میں مگن رہتی تھیں۔ ایک چچی رہ گئی تھیں کہ جن کے سامنے زبان کھولنا گویا خود اپنی بدبختی کو آواز دینا تھا۔ یہ میری زندگی کہ بڑے برے دن تھے ، خوف اور دہشت سے بھرے ہوئے، بے بسی سے دم گھٹا رہتا تھا۔ موت کی دعائیں مانگتی مگر یہ شے بھی مانگے سے نہیں ملتی۔ مجھے موت تو نہ آئی۔ ہاں کسی گھڑی دل سے نکلی دعا ضرور قبول ہوگئی۔ روبیل ملک سے باہر چلا گیا۔ یوں اس کا خوف ختم ہوا۔ جاتے ہوئے میں نے اس سے کہا تھا۔ دیکھو روحیل، جو وعدے تم نے کئے ہیں ان کو بھلا نہیں دینا، انہیں پورا کرنا… وہ بے رحمی سے ہنس دیا تھا۔ کہا انتظار تو انتظار ہوتا ہے، اس کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ طویل بھی ہوسکتا ہے۔ کرسکو تو میرا انتظار کرلینا ورنہ شادی کرلینا۔ جس ملک کا ویزا ملا ہے جاتے وہاں کے کیسے حالات ہوں اور میں کب تک لوٹ سکوں، کچھ کہہ نہیں سکتا، شاید اس وقت تم بوڑھی ہو جاؤ۔ یہ جواب سن کر میں صبر کا گھونٹ بھر اس سنگدل انسان کو جاتے ہوئے دیکھتی رہ گئی۔ ایک روز ابا کو میرا خیال آبی گیا۔ چچا سے صلاح مشورہ کرکے بالآخر میری تقدیر کا فیصلہ کرگئے۔ مجھے اس وقت علم ہوا جب پھوپھی عذرا چند عزیزوں کے ہمراہ میرے لئے شادی کا جوڑا لے کر آئیں۔ ہفتے بعد ہی میرا نکاح ان کے بیٹے رضوان سے طے ہوگیا۔ توقع تھی کہ آج تو چچی ماں کی طرح مجھے گلے لگا کر رخصت کریں گی، مگر نہیں، گلے لگانا تو کجا انہوں نے پیار کا ایک جملہ تک نہ کہا اور میں پھپھک پڑی۔ جو ماں دیکھی نہ تھی، جس کی شکل یاد نہ تھی، وہ ماں رخصتی کے وقت بے اختیار یاد آگئی، تبھی پھوپھی عذرا نے مجھے گلے سے لگالیا۔ کہنے لگی۔ یوں سمجھ لے بانو تو سسرال نہیں، ماں کے گھر جارہی ہے۔ میں ہی تیری ماں ہوں اور جس گھر تو جارہی ہے وہاں ہم سب کا پیار اور خوشیاں تیری منتظر ہیں۔ کاپ پھوپھی نے سچ کہا تھا۔ ماں جیسا پیار کیا انہوں نے مجھ سے اور رضوان وہ بھی میرے لئے محبت کا دیوتا ثابت ہوئے۔ اس گھر آکر اتنا سکون ملا کہ پچھلے سارے غم بھلا دیئے۔ اب لوگوں کی کہی اس بات کا یقین آگیا کہ انسان کو اگر غم ملتے ہیں تو خوشیاں بھی کبھی نہ کبھی ضرور ملتی ہیں۔ سچ ہے۔غم کے پہاڑ بھی ٹوٹ جائیں تو ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔۔ چاند گھٹتا ہے تو چڑھتا بھی ہے، سورج ڈوب جاتا ہے، اندھیری رات ہوجاتی ہے۔ لیکن اگلی صبح پھر سے واپس بھی آجاتا ہے اس دنیا پر اجالا بکھیرنے کے لئے۔ پس دکھ سکھ کے دنوں کا چکر چلتا رہتا ہے، زندگی اسی کا نام ہے۔ میری شادی کو سال بھی نہ گزرا تھا کہ روحیل لوٹ کر آگیا۔ ایک روز میرے شوہر کی غیر موجودگی میں ہمارے گھر آدھمکا۔ آبھی سکتا تھا، یہ اس کی پھوپھی کا گھر تھا میرا رنگ روپ دیکها تو ششدر رہ گیا۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کی بنت عم جو بدحال و نڈھال اس کے گھر میں نوکرانیوں کی طرح رہا کرتی تھی، اچھی تقدیر بھی رکھتی ہوگی اور شادی کے بعد یکدم اس کی زندگی بدل جائے گی۔ عمده لباس زیور کار، کوٹھی، نوکرچاکر اور سب سے بڑھ کر پیار کرنے والا شوہر اور محبت کرنے والی ساس کو پاکر خدا نے مجھے سکون کی دولت سے مالا مال کردیا تھا۔ اب میری اجڑی صورت پر ڈھیروں نکھار آگیا تھا۔ روحیل نے جو مجھے شابانہ روپ میں دیکھا تو بجھ سا گیا، جیسے افسوس سے باتھ مل رہا ہو۔ کہنے لگا ۔ بانو تم کتنی بدل گئی ایک معمولی شکل و صورت والی لڑکی آج تو آسمان کی حور لگتی ہو۔ شادی کے بعد کیا ہر لڑکی اتنی خوبصورت ہو جاتی ہے ؟ ہمارے گھر تو تم ایک مٹی کی میلی گڑیا تھیں، گھر کی مرغی دال برابر والا معاملہ ہوگیا ہے۔ اب تم کو رضوان کی ملکیت دیکھ کر میرا خون کھول اٹھا ہے۔ اس کی باتیں سن کر میں دنگ رہ گئی۔ دکھ سے کلیجہ پھٹنے لگا۔ جانے کیا مجھے کہ میں جہاں بیٹھی تھی، بے حس و حرکت ہوگئی، مجھے سکتہ ہوگیا۔ اس کو یہ بھی نہ کہہ سکی یہاں مت آتا، اب مجھے اور تنگ مت کرنا، تم نے تو اپنی سی کرلی اب اللّه نے خوشیاں دی ہیں تو پھر آگئے ہو ۔ جب اس نے مجھے آواز دی، باتیں کیں، میں کچھ نہ بولی۔ میری سانس رکی ہوئی اور آنکھیں ساکت تھیں تبھی وہ گھبرا گیا۔ اس نے مجھے بلایا تو میں ایک مرده وجود کی مانند ڈھے گئی… تبھی وہ گھبرا گیا اور میری ساس کو آواز دینے لگا۔ پھوپھی دوڑی آئیں۔ پھوپھی دیکھیں تو کیا ہوگیا ہے بانو کو، اچھی بھلی بیٹھی تھی اچانک ہی گر پڑی۔ اسی وقت ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ اس نے کہا ان کو دورہ پڑا ہے۔ تھوڑی دیر ساکت رہنے کے بعد مجھے ہوش آگیا۔ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ اچانک کیا ہوا تھا۔ اس سے پہلے تو مجھے دورے نہ پڑتے تھے۔ علاج ہونے لگا۔ رفتہ رفتہ دورے پڑنے کم ہوگئے۔ کبھی چھ ماہ بعد یہ کیفیت ہوجاتی کہ میرے جسم کی حالت ایسی ہوجاتی جیسے روح نکل گئی ہو، جہاں بیٹھی ہوتی بیٹھی رہ جاتی، ہلاتے جلاتے تو مردہ انسان کی مانند گرپڑتی۔ ذرا دیر بعد خود ہی ہوش آجاتا اور میں ٹھیک ہوجاتی۔ خدا جانے یہ کیسا مرض تھا کہ جس کا کوئی علاج ہی نہ تھا۔ روحیل تو اس روز کے بعد شاید خوف سے واپس میرے سامنے نہ آیا لیکن میرا مرض میرے اندر موجود تھا۔ سال بھر خیریت سے گزر گیا اور دورہ نہ پڑا تو سبھی گھر والوں نے یقین کرلیا کہ میں پوری طرح صحت یاب ہوگئی ہوں۔ رمضان میرے میاں کے بچپن کے دوست اور کزن تھے۔ اگر معلوم ہوتا کہ ان کے گھر جاکر مجھے دورہ پڑ جائے گا تو وہاں نہ جاتی۔ رمضان بھائی ہمارے گھر اپنی بیوی کے ہمراہ آئے۔ دونوں نے بہت اصرار کیا کہ آپ لوگ ہمارے گھر چلئے، ہم نے نیا مکان بنوایا ہے، آپ کو دکھانا چاہتے ہیں۔ بہرحال ان کے اصرار پر رضوان مجھے ان کے گھر لے گئے۔ میاں بیوی بہت خوش ہوئے ، ہماری خاطر مدارت کی۔ ایک دن بعد رضوان نے کہا کہ میں عدالتی کام کے سلسلے میں شہر واپس جارہا ہوں… دو دن تم یہاں رہو تاکہ رمضان کی بیوی کی خوشی پوری ہو۔ میں کام ہوتے ہی لوٹ آؤں گا اور تم کو میں لے جاؤں گا۔ بھابھی کے اصرار پر میں ان کے گھر رہ گئی اور رضوان لوٹ گئے۔ دیہات کی کھلی فضاء اتنی تازگی تھی کہ مجھے بھی یہاں رہنا اچھا لگ رہا تھا۔ رضوان سے یہ بھول ہوئی کہ جاتے ہوئے اپنے دوست رمضان کو یہ بتانا بھول گئے کہ مجهے کبهی کبهی سکتہ ہوتا ہے اور میں بیٹھے بیٹھے گرپڑتی ہوں۔ جب میں اس طرح گرتی تو لاش کی طرح اکڑ جاتی تھی۔ سانس بند اور آنکھیں ایک جگہ ٹھہر جاتی تھیں۔ انجانے لوگ مجھے اس حال میں دیکھ کر یہی سمجھتے کہ شاید میں مرگئی ہوں۔ میرے گھر والے تو میری اس کیفیت کے عادی تھے لیکن رمضان کے گھر اچانک چارپائی پر بیٹھے بیٹھے جب مجھے سکتہ ہوا تو اس کی بیوی بچاری کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ وہ پانی لینے کو دوڑی مگر پانی کا ایک قطرہ میرے منہ میں نہ گیا بلکہ باچھوں سے بہہ کر واپس آگیا۔ میرا سانس تھما ہوا، آنکھیں پتھرائی ہوئی اور جسم لکڑی کی طرح اکڑ گیا تھا۔ اس نے شوہر کو بلایا وہ حکیم صاحب کو لے آئے۔ حکیم نے کہا۔ اس کے جسم میں زندگی کے آثار نہیں ہیں، یہ مر چکی ہے۔ اب دوادارو بیکار ہے۔ رمضان نے اپنے سالے کو شہر روانہ کیا۔ پتا چلا کہ رضوان عدالتی کام سے لاہور گئے ہیں اور گھر والے بھی کہیں گئے ہوئے تھے۔ گھر پر تالا تھا۔ سخت گرمیوں کے دن تھے۔ لاش کو زیادہ دیر رکھنا محال تھا لہذا دیہاتیوں نے باہم مشورے کے بعد طے کیا کہ رضوان کی زوجہ کے کفن و دفن کا انتظام کردینا چاہیے۔ قبر کھودی جارہی تھی۔ ادھر کفن بھی منگوا لیا گیا۔ نہلانے والی آگئی۔ نہلا دھلا کر کفن پہنا کر جنازہ تیار کرلیا گیا۔ اب گھر والوں کا انتظار تھا۔ مغرب تک گھر والوں کے انتظار میں جنازہ رکھا گیا۔ آدمی شہر سے لوٹ آیا کہ وہاں تو ابھی تک تالا ہے، دفنانے یا نہ دفنانے کی باتیں ہورہی تھیں کہ میری خوش قسمتی مجھے ہوش آگیا۔ میرے کفن میں جنبش ہوئی۔ دیہات میں بجلی نہ تھی، مدھم لاتین جل رہی تھی۔ میری آنکھیں حرکت کرنے لگیں تو بھی کسی کو علم نہ ہوسکا کہ میرے چہرے کو کفن سے ڈھک دیا گیا تھا۔ مجھے ہوش آگیا دم گھٹتا محسوس ہوا۔ میں نے زور لگانا شروع کیا مگر اٹھ نہ سکی کہ کمر اور پاؤں کفن کے اوپر بندھے ہوئے تھے۔ صد شکر کہ اس دم رضوان آپہنچے۔ انہوں نے جو رمضان کے گھر کے صحن میں جنازہ رکھا ،دیکھا، پریشان ہوکر پوچها خیریت تو ہے، کون مر گیا ہے؟ تمہاری بیوی مرد ری بیوی مرگئی ہے۔ رمضان نے رندھی ہوئے آواز سے ؟ بتایا۔ میری بیوی مرگئی ہے؟ کیا میری بانو ہاں تمہاری بانو۔ نہیں، یہ نہیں ہوسکتا، وہ تو اچھی بھلی تھی۔ میرا دیدار کرانے کو کسی نے کفن کھولا اور جب میرا چہرہ کفن سے آزاد ہوا کھلی ہوا میرے پھیپڑوں میں پہنچی، گھٹن دور ہوگئی اور میں کھینچ کر سانس لینے لگی۔ لوگوں نے لاتین اوپر کی میری آنکھیں کھلی تھیں اور لب بل رہے تھے تبھی رضوان چلائے۔ کھولو جلدی کفن کھولو، میری بیوی زندہ ہے… اس کو سکتہ ہوگیا ہے اور آپ لوگوں نے اس کو مرا ہوا سمجھ کر کفن بھی پہنا دیا۔ یہ تو خدا کا شکر کہ میں وقت پر آگیا ورنہ کچھ بعید نہیں کہ تم دیہاتی سادہ لوح لوگ اس بچاری کو لے جاکر قبر میں ڈال دیتے۔ اف میرے خدا اگر ایسا ہوجاتا تو کیا ہوتا۔ میں تو جیتے جی مر جاتا۔ مگر یہ بچاری بھی زندہ قبر کے اندھیروں میں دفن ہوجاتی۔ وہ اس تصور سے ہی رو پڑے۔ بہرحال میرا کفن کھولا گیا اور مجھے لباس پہنا کر بٹھایا گیا، پانی پلایا گیا۔ وہاں ہر شخص حیران تھا کہ یہ کیسا دورہ ہے کہ میں مرگئی اور پھر زندہ بھی ہوگئی۔ اس اندوہناک واقعہ سے گزر کر ہم گھر آئے۔ آج تک میرے اس مرض کا معمہ حل نہیں ہوسکا کہ یہ زندہ آدمی کو سکتے کا مرض کیوں کر لاحق ہوتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب میری عمر بڑھی تو یہ مرض بھی کم ، کم ہوتا گیا … مگر میرے گھر والوں پر یہ راز راز ہی رہا۔ تاہم میرا دل جانتا ہے کہ کس سبب سے مجھے اتنا صدمہ پہنچا تھا کہ میں زندہ سے مُردہ ہوگئی تھی اور یہ صدمہ پہنچایا تھا اسی روحیل نے، جس نے مجھ سے میرا مان چھینا تھا اور جس سے شدید نفرت کرتے ہوئے بھی میں اس پر اپنی نفرت کا اظہار نہ کرسکی تھی۔ یہی وہ محرومی تھی جس نے مجھے اس عجیب و غریب مرض سے دوچار کیا تھا۔