“محبت سرد ھوا کا جھونکا“از اقراء رانجھا
مخلص شخص کا ساتھ کسی جنت سے کم تھوڑی ھوتا ھے مگر ایسے مخلص شخص کی ہم اکثر شناخت نہیں کر پاتے ہم انسان وہ بدنصیب ھوتے ہیں جو ہیرے کو کھو کر اکثر سکے کے پیچھے بھاگتے چلے جاتے ہیں اور ہماری زندگیاں گزر جاتی ھے امامہ نے بھی تو ایسا ہی کیا تھا فرہاد کی سچی محبت کو جنونیت ،حوس ، اور جھوٹ کا نام دے کر سراب کے پیچھے بھاگنا شروع کیا تھا اور آخر کار کیا ملا پچھتاوا ، انتظار ،عمر بھر کا رونا اور اپنے نصیب کو کوسنا۔
امامہ امامہ پلیز میرا یقین کرو میں تمہاری خاطر ہر مشکل سے مشکل چٹان سے ٹکرانے کو تیار ھوں مگر وقت لگتا ھے کچھ پانے کے لیے __ فرہاد امامہ کے بلمقابل بیٹھا روہانسہ ھو کر کہتا ھے اووو پلیز فرہاد بس کر دو __ اپنی جھوٹی محبت کے ڈرامےاور تم پڑھائی کے ساتھ ساتھ معمولی سی ملازمت کرنے والے انسان مجھے دے ہی کیا سکتے ھو اور یو _ نو امامہ حنان کے خواب دنیا گھومنے کے ہیں تمہاری معمولی سی ملازمت پر گزارا کرنے کے نہیں۔ امامہ منہ بسوڑتی جتلانے والے لہجے میں کہتی ھے اگر فرہاد ملک امامہ کے سارے خواب پورے کرے تو کیا تم میرا ساتھ دو گی ؟؟نہیں __ کیونکہ مجھے تمہاری ذات میں کوئی دلچسپی نہیںجتنی تمہاری تنخواہ ھے ناں اس سے زیادہ ہمارے گھر کے ملازموں کی تنخوائیں ہیں اور آئندہ میرے راستے میں آنے کی کوشش مت کرنا جب تمہیں لگا اب تم امامہ حنان کے قابل ھو تب راستہ روکنے اور اس محبت کے ڈرامے کرنا وہ اتنا کہتی پیر پٹختی جانے کی کرتی ھے
فرہاد روہانسہ ھو کر بس دیکھتا رہ جاتا ھے
آج وہ دن اور فرہاد کی سچی محبت یاد کر کے بے انتہا رو رہی تھی کیونکہ وہ جان گئ تھی انسان زمین سے اٹھ کر سیدھا تخت پر بیٹھنے کے خواب تو دیکھ سکتا ھے مگر ایسے خوابوں کو حقیقت بنانے میں یا تو صدیاں بیت جاتی ہیں یا انسان خود حقیقت پسند ھو جاتا ھے __اب وہ بھی حقیقت پسند ھو چکی تھی جب رضا
ابراہیم نے اس کے خوابوں کو چکنا چور کیا اور محبت کے نام پر خوب استعمال کیا __ وہ ایسی تو نہ تھی مگر رضا ابراہیم کی دولت نے اس کو ایسا بنا دیا تھا وہ بھول گئ تھی رضا بھی اک مرد ھے اور مرد کی فطرت ھے پیسے کے گھمنڈ میں آ کر سیدھے راستے سے بھٹک جانااور رضا ابراہیم بھی سیدھے راستے سے بھٹکا ھوا “گدھ “نما انسان تھا جو جھوٹی محبت کے لارے لگا کر دولت نچھاور کرکے نوچ کھانے والا شخص تھا اور امامہ برسوں کی دولت کے پیچھے پھاگنے والی ایک لالچی لڑکی تھی سب کچھ تھا امامہ کے گھر مگر وہ صبر شکر کرنے والی کہاں تھی وہ ہمیشہ سے اپنی استطاعت سے اونچے خواب دیکھنے والی لڑکی تھی
__رضا میں چاھتی ھوں ہم ساری دنیا گھومیں اور ایسی زندگی جیے کہ لوگ رشک کریں وہ رضا کا ہاتھ تھامے چلتے ھوئے بے سدھ بولی جا رہی تھی انشاء اللہ جان ایسا ہی ھوگا آخرکار تم میری اکلوتی محبت ھو رضا اس کے منہ پر آئی آوارہ لٹو کو پیچھے ہٹاتے ہوئے جواب دیتا ھے مگر رضا ہم شادی کب کریں گے تم ہمیشہ شادی کا نام سن کر خاموش ھو جاتے ھو شادی ہم بہت جلد کریں گے جان تمہارے لیے سپیشل گھر لیا ھے کیا واقعی ہی میرے لیے گھر لیا ھے ؟؟ وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے ھوئے پوچھتی ہے ہاں بالکل میری جان کیا تم دیکھو گی نہیں ؟؟ میں چاھتا ھوں اس گھر میں پہلا قدم تم رکھو رضا حوس بھری نظروں سے امامہ کی جانب تکتے ھوۓ پوچھتا ھے ہاں مگر اگر مگر کچھ نہیں تم بس ابھی میرے ساتھ چلو اور اپنا ھونے والا گھر دیکھو امامہ مسکراتے ہوئے ساتھ چل پڑتی ھے وہ رضا کی دولت اور مٹھاس بھرے لہجے پر دل و جان سے فدا ھو چکی تھی
وہ بھول چکی تھی مرد عورت سے صرف اور صرف جنسی تسکین کے لیے تعلقات استوار کرتا ھے اگر اس نے نکاح یا شادی کرنی ھو تو وہ سیدھا رشتہ بھیجتا ھے یوں پیسے نچھاور کرکے تعلقات استوار نہیں کرتا مگر ہمارے معاشرے کی نادان عورت یہ کہاں سمجھتی ھے لہجوں کی مٹھاس اور پیسوں کی ڈھیری پر ڈیرے جمانے اور سہانے خواب بننے لگتی ھے اور مرد کی چال سمجھ نہیں پاتی اور بلآخر چیختی چلاتی اور بچھتاتی ھے
فرہاد امامہ کے انکار کے بعد بالکل ٹوٹ گیا تھا مگر وہ مرد تھا رو نہیں سکتا تھا وہ اپنے غموں کو سینے میں سمیٹ کر دن رات محنت کرنے لگتا ھے تاکہ امامہ کو پا سکے امامہ کے ناز نکھرے اٹھا سکے امامہ رضا ابراہیم کے ساتھ ایک بنگلہ نما گھر میں داخل ھوتی ھے جہاں عیش و عشرت کی ہر چیز میسر تھی وہ سب دیکھ کر یہ بھول جاتی ھے کہ وہ ایک تن تنہا گھر میں ایک خیر مرد کے ساتھ آئ ھے تھینک یو رضا گھر بہت پیارا ھے میرے خوابوں کی تعبیر ھے یہ گھر وہ خوشی سے چہکتی ہوئی رضا کو کہتی ھے صرف گھر تمہارے خوابوں کی تعبیر جیسا ھے تو رضا ابراہیم کی محبت کیسی ھے ؟؟ وہ امامہ کو بازوں سے پکڑ اپنی جانب کھینچتی ھوئ شوخ لہجے میں پوچھتا ھے امامہ رضا کے سینے سے جا لگتی ھے رضا جلدی سے امامہ کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لے لیتا ھے امامہ رضا کی اس حرکت پر ڈر جاتی ھے آخر کار عورت تھی اور عورت مرد کی آنکھوں میں پھیلی شرارت اور حرکت کو بہت جلدی پہچان جاتی ھے رضا چھوڑو وہ رضا کے بازوؤں کی مضبوط گرفت سے خود کو آزاد کرواتے ہوئے کہتی ھےرضا کچھ پل سوچنے کے امامہ سے چار قدم دور ھو جاتا ھے ریلیکس جان ___ تم میری زندگی ھو چلو اپنا ھونے والا کمرہ دیکھتے ہیں نن نہیں رضا پلیز مجھے گھر چھوڑ دیں کیوں جان ؟؟ کیا تمہیں مجھ پہ اور میری محبت پہ بھروسہ نہیں وہ ڈرامائی انداز میں پوچھتا ھے کیونکہ وہ امامہ کو چنگل میں پھسانے کے سارے گر اچھے سے جانتا ھے بھروسہ ھے رضا مگر ؟؟ اگر مگر کچھ نہیں چلو میرے ساتھامامہ سر ہلاتی ساتھ چل پڑتی ھےجوں ہی دونوں کمرے میں داخل ھوتے ہیں رضا وقت کا ضیاع کیے بغیر جلدی سے دروازہ لاک کر دیتا ھے در در دروازہ کیوں لاک کر رھے ھو امامہ بھوکھلاتے ھوئے پوچھتی ہےتاکہ اپنی جان کے ساتھ وقت گزار سکو رضا امامہ کا ہاتھ پکڑتے ھوئے جواب دیتا ھے مطلب ؟؟ میں سمجھی نہیں رضا پاس آؤ آج سب سمجھاتا ھوں رضا کی بات سن کر امامہ زوردار تھپڑ رضا ابراہیم کے منہ پر رسید کرتی ھے گھٹیا انسان تم نے میرے بارے میں ایسا سوچا بھی کیسے تمہاری اتنی جرات تم نے میرے منہ پر تھپڑ مارا وہ اتنا کہہ کر جوں کی امامہ کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچتا ھے امامہ اپنا توازن برقرار رکھتے ہوئے زوردار دھکہ دیتی ھے رضا اوندھے منہ زمین پر جا گرتا ھے وہ تیزی سے دروازہ کھولتی باہر کا رخ کرتی ھے
باہر شام کا اندھیرا کافی گہرا ھو چکا تھا وہ پھولے سانس کے ساتھ بھاگتی سڑک پر آتی گاڑی سے ٹکرا جاتی ھے رضا تیزی سے اٹھتا امامہ کو پکڑنے کی عوض اس کا پیچھا کرنے لگتا ہے او شٹ کون ھے یار __ وہ گاڑی سے نکلتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ھے پلیز پلیز مجھے بچھا لو میں بری لڑکی نہیں ہوں وہ مجھے پکڑ لے گا امامہ ڈرے سہمے لہجے میں روتے ھوئے کہتی ھے
امامہ تم ؟؟ فرہاد امامہ کو دیکھتے ساتھ چونکتے ہوئے پوچھا ھے تم رات کو کیا کر رہی ھو اور کون پکڑ لے گا ؟؟ فرہاد فکرمندانہ لہجہ میں امامہ کے بالمقابل بیٹھتے ھوئے پوچھتا ھے فرہاد ___ امامہ اتنا کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ھے فرہاد ابھی کچھ کہنے ہی لگتا ھے کہ پیچھے سے آتی آواز سن کر خاموش ہو جاتا ھے اووو مسٹر لڑکی کو ہمارے حوالے کر دو __ ورنہ ورنہ کیا ؟؟؟ فرہاد امامہ کو دونوں کندھوں سے پکڑ کر اٹھا کے اپنے ساتھ کھڑے کرتے ھوئے پوچھتا ھے ورنہ آنجام بہت برا ھوگا کیوں کہ یہ لڑکی میری منگیتر اور ھونے والی بیوی ھے رضا نے جتلاتے ھوئے رعب دار لہجے میں کہا ھے جج جھوٹ بو رہا ھے یہ میرا کوئی رشتہ نہیں اس سے امامہ روتے ھوئے فرہاد کو کہتی ھے اچھا کوئ رشتہ نہیں تھا تو گفٹ وہ پیسہ جو سب میرے سے لیتی تھی وہ کس رشتہ کی بنیاد پر لیتی تھی اور اگر آج ان تحفوں کے بدلے تم سے تھوڑا تنہا ساتھ کیا مانگا سارے رشتے ہی ختم کر دیے
اپنی بکواس بند کرو گھٹیا انسان فرہاد رضا کی بات سن کر خود کو روک نہیں پاتا اس کو گریبان سے پکڑ لیتا ھے تمہاری جرات کیسے ھوئے امامہ کی طرف تکنے کی اووو تو آپ میرے رقیب نکلے رضا خود کو چھڑواتے ھوئے طنزیہ انداز میں کہتا ھے جس کی بات سن کر فرہاد بغیر لحاظ کیے رضا کو مار مار کر رکھ دیتا ھے پلیز فرہاد چھوڑ دو پلیز ___ اگر وہ قصور وار ھے تو میں بھی برابر کی مجرم ھوں جس نے آنکھیں بند کر کے اس گھٹیا شخص پر بھروسہ کرتے ھوئے اس کے ساتھ چل پڑی فرہاد رضا کو گریبان سے پکڑ کر روڈ کے کنارے پر دھکا دیتا چلو تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں اتنا کہتا گاڑی کی جانب بڑھ جاتا ھے وہ امامہ کی طرف بنا دیکھے غصیلے لہجہ میں کہتا ھےامامہ بھی روتے ھوئے گاڑی کی جانب بڑھ جاتی ھے
___یہ دن فریاد کے لیے قیامت سے کم نہ تھا وہ سی ایس ایس آفیسر بننے کے بعد امامہ حنان کو سرپرائز دینا چاھتا ھے مگر اس کو امامہ کی طرف سے ایسا سرپرائز مل چکا تھا کہ اب اس میں۔ مزید کہنے سننے کی ہمت نہ تھی جوں ہی گاڑی امامہ کے گھر کے پاس آ رکتی ھے امامہ کچھ کہنے ہی لگتی ھے پلیز آج کچھ مت کہنا میں نے اپنی محبت کو اس کی منزل مقصود تک پہنچا دیا __ اپنا خیال رکھنا امامہ حنان یہ ہماری آخری ملاقات تھی ___ اور یاد رکھنا ہر شخص فرہاد نہیں ھوگا جو امامہ کو عزت بنانے کے لیے دن رات ایک کر دے گا ہاں مگر ہر دوسرا شخص رضا ابراہیم ضرور ھوگا جو دولت کا دیکھاواں کر کے عورت کی عزت سے کھیلہ گا کیونکہ آج کل کے لوگوں کی محبت سرد ھوا کے جھونکے کی مانند ھے جو جتنی حسین اور خوبصورت نظر آتی ھے اس کا نتیجہ اتنا ہی بدصورت ثابت ھوتا ھے خود کو دولت کے پیچھے کبھی چھی اتنا بے مول مت کرنا کہ اپنی ذات کی ہی قیمت کھو بیٹھو کیونکہ امامہ ایک عورت اور عورت کی عزت بہت قیمتی شے ھوتی ھے اگر یہ ہی عورت سے چھین جائے نا تو عورت کی قیمت سکے کی مانند رہ جاتی ھے جس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی ____ چلو شاباش گھر جاؤ اور اپنی زندگی کا آغاز نئے سورج طلوع ھونے کے ساتھ دوبارہ سے کرو ___ فرہاد مسکراتے ھوئے بمشکل بات مکمل کرتا ھے ناجانے آج پھر وہ اندر ہی اندر کتنا ٹوٹا بکھرا تھا مگر مرد ھونے کے ناطے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو نہیں سکتا تھا اپنا کرچیاں کرچیاں ھوا دل دیکھا نہیں سکتا ___ صرف اور صرف اس لیے کہ وہ اک مرد تھا اور مرد کا آنسو بہانا ہمارے معاشرے میں بزدلی کی علامت سمجھا جاتا ھے یہ بھول کر کے مرد مرد ھونے کے ساتھ ساتھ انسان بھی ھے وہ بھی سینے میں دل اور احساسات و جذبات رکھتا ھے