سنہری صبح بھیگ رہی تھی،جب وہ سست روی سے چلتی ہوئی بس اسٹاپ تک پہنچی کندھے پر بیگ لٹکا ئے، ہاتھ میں پانی کی چھوٹی بوتل پکڑے،چہرے پے ڈھیروں بے زاری لیئے،وہ بینچ کے قریب آئی،جہاں بیٹھ کر وہ روز 10 منٹ بس کا انتظار کرتی تھی اس نے بیگ ایک طرف رکھا اور بینچ پہ بیٹھ گئی- پھر ایک ہاتھ سے جمائی روکتے دوسرے سے بوتل کھول کر لبوں سے لگائی-گرمی آج کل بڑھتی جا رہی تھی صبح ہی صبح اسے پسینہ آنے لگا تھا، جانے آگے کیا ہوگا، وہ گھنٹ بھرتی بے زاری سے سوچ رہی تھی، چہرے پے بھی وہی اکتاہٹ کے تاثرات تھے،جیسے دنیا بھر سے خفا ہو،سنہری پیشانی پہ مستقل پرے بل اور کانچ سی خوبصورت بھوری سنہری آنکھوں میں چھائی خفگی ،کچھ تھا اس میں جو اسے سارے میں یکتا کرتا بناتا تھا،لمبے کرتے اور جینز میں ملبوس رسی کی مانند دوپٹہ مفلر کے انداز میں گردن سے لپیٹے،ٹانگ پے ٹانگ رکھے وہ پاوں جھلاتی،تنقیدی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی اور تب ہی اسے احساس ہوا کہ وہ سیاہ فام لڑکی آج بھی بینچ پے اس کے ساتھ بیٹھی ہے، ان دونوں کے درمیان اس کا بیگ پڑا تھا اور اس وقت وہ سیاہ فام لڑکی سرجھکائے،نگاہ ترچھی کیے اس کے بیگ کو دیکھ رہی تھی،جہاں جگہ جگہ چاک اور وائٹنر سے اس نے اپنا نام لکھا ہوا تھا محمل ابراہیم۔۔۔۔محمل ابراہیم آڑا ترچھا چھوٹے بڑے ہر انداز میں یہی لکھا تھا، وہ لڑکی کبھی ہی اس کے بیگ کو دیکھتی تھی مگر محمل کے تو روز کے دس منٹ اس سیاہ فام لڑکی کا جائزہ لیتے ہی گزرتے تھے وہ بھی عجیب پراسرار کردار تھی،یہاں اسلام آباد میں سیاہ فام نظر آ ہی جاتے تھے،مگر وہ اپنے جیسوں سے مختلف تھی سر پہ رومال باندھ کر گردن کے پیچھے گرہ لگاتی اور نیچے اوور کوٹ موٹے ہونٹ سیاہ رنگت،مگر چمکیلی آنکھیں کوئی ایسی چمک تھی ان میں کہ محمل کبھی ان آنکھوں میں دیکھ نہیں پائی تھی،ہمیشہ نظر چرا جاتی شاید ڈیڑھ مہینہ قبل وہ اسے اپنے مخصوص اوقات میں اسٹینڈ پہ دیکھتی تھی اور ان ڈیڑھ ماہ میں ان کا انداز ہمیشہ یکساں رہا تھا، کمر سیدھی رکھے الرٹ سی بینچ بیٹھی خاموشی سے سامنے سیدھ میں دیکھتی وہ بہت چپ سی لڑکی معلوم نہیں کون تھی اور پھر اس کی وہ پر اسرار کتاب جس کا سیاہ سرورق بلکل خالی تھا اس کی گود میں دھری ہوتی اور کتاب ک کناروں پر اس کے سیاہ ہاتھ مضبوطی سے جمے ہوتے_ اس کے انداز سے کچھ خاص جھلکتا تھا،کتاب کی حفاظت کا احساس یا پھر اس کے بیش قیمت ہونے کا- کتاب بالشت بھر موٹی تھی-صفحوں کے جھلکتے کنارے پیلے اور خستہ لگتے تھے- جیسے کوئی قدیم کتاب ہو سینکڑوں برس پرانا کوئی نسخہ ہو- کچھ تھا اس میں کوئی قدیم راز یا کوئی پراسرار کتھا،وہ جب بھی اس پر اسرار کتاب کو دیکھتی، یہی سوچتی،اور آج جانے کیا ہوا،وہ اس خاموش سی لڑکی سے مخاطب ہو ہی گئی شاید تجسس عاجز کر رہا تھا- ایکسکیوزمی-ایک بات پوچھ سکتی ہوں؟پوچھو-“سیاہ فام لڑکی نے اپنی چمکیلی آنکھیں اٹھائی، “یہ کتاب کس کی ہے؟ ” ی ہے؟ “میری- میرا مطلب اس میں کیا لکھا ہے؟ وہ چند لمحے محمل کا چہرہ دیکھتی رہی پھر آہستہ سے بولی- میری زندگی کی کہانی اچھا-وہ حیرت چھپا نہ سکی-“میں سمجھی یہ کوئی قدیم کتاب ہے- قدیم ہی ہے صدیوں پہلے لکھی گئی تھی- تو آپ کو کہاں سے ملی؟ “مصر کی ایک پرانی لائبریری سے،یہ کچھ کتا بوں کے بیچ پڑی تھی-جب میں نے اسے نکالا تو اس پے زمانوں کی گرد تھی،وہ محبت سے سیاہ جلد پے ہاتھ پھیرتے ہوے کہہ رہی تھی-اس کے لبوں پر مدھم سی مسکراہٹ تھی “میں نے وہ گرد جھاڑی اور اسے اپنے ساتھ رکھ لیا،پھر جب پڑھا تو معلوم ہوا اسے تو کسی نے میرے لئے لکھوا کر یدھر رکھ دیا تھا محمل منہ کھولے اسی دیکھ رہی تھی تمہیں کیا دلچسپی ہے اس میں؟ میں اس کے بارے میں مزید جاننا چاہتی ہوں کیا میں اسے پڑھ سکتی ہوں؟وہ ہلکا مسکرائی تم نئے دور کی نئی لڑکی ہو اس قدیم زبان میں لکھے نسخے کو کہاں سمجھو گی؟ مگر یہ ہے کیا اس میں لکھا کیا ہے؟وہ تجسس اب اسے بے چین کر رہا تھا میرا ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی پل ہارن بجا تو محمل نے چونک کر سامنے سڑک پے اتی بس کو دیکھا- میرا حال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ سیاہ فام لڑکی کہہ رہی تھی محمل بیگ کا اسٹریپ پکرے کھڑی ہوئی اسے جلدی کالج پہنچنا تھا- اور میرا مستقبل بھی مجھے کیا پیش آنے والا ہے یہ کتاب سب بتا دیتی ہے- میں چلتی ہوں وہ بس کی طرف دیکھتے معزرت خواہانہ انداز میں کہتی ہوئی آگے بڑھ گئی اس میں تمہارا بھی ذکر ہے محمل وہ الٹے پاوں مڑی- میرا ذکر؟میرے بارے میں کیا لکھا ہے وہ ششدر رہ گئی تھی- یہی کہ مین تمہیں یہ کتاب دے دوں-لیکن میں تو اسے تمہیں تبھی دوں گی جب تم تھک کر خود مجھ سے مانگنے آو گی کیونکہ اس میں تمہاری زندگی کی کہانی بھی ہے-جو ہو چکا ہے اور جو ہونے والا ہے سب لکھا ہے- بس کا تیز ہارن پھر سے بجا تو وہ کچھ کہے بنا تیزی سے اس طرف لپکی راڈ پکر کر اوپر چڑھتے اس نے پل بھر کو پلٹ کے دیکھا تھا وہ سیاہ فام لرکی اسی طرح مسکرا رہی تھی پراسرار معنی خیز مسکراہٹ محمل کو ایک دم اس سے بہت ڈر لگا تھا کالج کے بعد وہ اپنی دوست نادیہ کے ابو کی اکیڈمی میں سیونتھ کلاس کے بچوں کو سائنس اور میتھس پڑھاتی تھی گھر پہنچتے پہنچتے اسے روز ساڑھے تین ہو جا تے تھے- گیٹ عبور کر کے پورچ میں دیکھا تو تین گاڑیاں آگے پیچھے کھڑی تھیں- دل کراہ کے رہ گیا-گر میں گاڑیوں کے باوجود بسوں پیں دھکے کھانے پر مجبور تھی- ہم چچاوں کے رحم و کرم پر پلنے والے یتیموں کے نصیب بھی کتنے یتیم ہوتے ہیں نا؟خود پہ ترس کھاتی وہ اندر آئی تھی- لاونج میں خاموش دوپہر اتری تھی- وہ سب کے سونے کا ٹائم تھا آغا جان اس کے سب سے بڑے تایا اس وقت تک آفس سے لوٹ آئے تھے-اور ان کی کچی نیند کے باعث پورے گھر کو حکم ہوتا کہ پتہ بھی نہ کھڑکے ورنہ وہ ڈسٹرب ہونگے-حکم بظاہر پورےگھر کو اور در حقیقت محمل اور مسرت کو سنایا جاتا تھا-اور آخر میں جب آغا جان کی بیگم مہتاب تائی ان الفاظ کا اضافہ کرتیں، اور مسرت اپنی بیتی کو سمجھا دینا جب لور لور شہر پھرنے سے فارغ ہوجائے تو گھر آتی ہوئے میں گیٹ آرام سے کھولا کرے-آغا صاحب کی نیند خراب ہوتی ہے،اب میں کچھ کہوں گی تو اسے برا لگے گا-گز بھر کی تو زبان ہے اس کی-نہ چھوتے کا کحاظ نہ برے کا ادب-استغفر اللہ ہماری بیٹیاں بھی کالج میں پڑھی ہیں ان کے تو انداز ایسے نا نکلے جیسے محمل کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ تو اسے تو آگ ہی لگ جاتی تھی – ہر روز دروازہ کھولتے ہوئے یہی فقرہ سماعت میں گونجتا تو چڑنے کے باوجود دروازاہ آہستہ بند کرتی- کچن کی طرف ائی تو سنک میں جھتے برتنوں کا ڑھیر لگا ہوا تھا-ناگواری سے ناک چڑھائے اس نے بیگ سلیب پہ رکھا اور ہاٹ پاٹ کی طرف بڑھی-صبح ناشتے کے بعد اب تک کچھ بھی نہیں کھایا تھا،اور اب زوروں کی بھوک لگی تھی- ہاٹ پاٹ کھولا تو وہ خالی تھا رومال پہ روٹی کے چند ذرے بکھرے تھے اس نے فریج کھولنا چاہا تو وہ لاکڈ تھا-مہتاب تائی اس کے آنے سے قبل فریج لاک کر دیتی تھی-مسرت اس کے لیے کھانا بچا کر حاٹ پاٹ میں رکھ دیتی تھی-مگر جب سے مہتاب تائی نے کھانے کی خود نگرانی سٹارٹ کی تھی-ہاٹ پاٹ ہر تیسرے دن خالی ہی ملتا تھا- تکلیف سے اس کی انکھوں میں آنسو آگئے،لیکن پھر ضبط کر ک باہر نکلی-اور آہستہ سے گیٹ عبور کر کے کالونی سے باہر نکڑ والے ہوٹل سے ایک نان اور ایک کباب لے آئی اس کے پاس اتنے ہی پیسے تھے- واپسی پر وہ پھر پرانی محمل بن چکی تھی لاونج کا دروازاہ کھول کے دھرام سے بند کیا-فرش پر پڑی فٹ بال اٹھا کے پوری قوت کے ساتھ دیوار پہ ماری اور صوفے پے ٹانگ پے تانگ رکھ کر بیٹھی نان کباب کا لفافہ کھولنے لگی- لمحے بھر بعد ہی آغا جان ک کمرے کا دروازہ کھلا اور تنتناتی ہوئی تائی مہتاب باہر آئی- محمل -وہ گرجیں،تو اس نے آرام سے سر اٹھایا- کباب کھائیں گی تائی ماں؟ شٹ اپ ہزار بار کہا ہے دروازہ آرام سے کھولا کرو مگر تم- آہستہ بولیں تائی جان اس وقت آغا جان سو رہے ہوتے ہیں اٹھ جائیں گے-وہ نان پر کباب رکھ کے بےنیازی سے پاوں جھلاتی کھا رہی تھی تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احسان فراموش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں زرا بھر بھی احساس ہے کہ آغا صاحب دن بھر کے تھکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر فقرہ مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اپنا نان کباب اٹھائے اپنے کمرے کی طرف جا چکی تھی- تائی مہتاب تلملاتی کلیستی رہ گئی- اندر مسرت آوازوں پہ جاگ چکی تھی- “کیا ہوا ہے محمل بھابھی بیگم کیوں ناراض ہورہی تھی؟ “دماغ خراب ہے ان کا پیدائشی مسئلی ہے-آپ کہ نہیں پتہ؟اس نے بے زاری سے نان کباب کا لفافہ بستر پر رکھ دیا- مگر ہوا کیا ہے؟ان کی نگاہ پھسل کر لفافے پر گئی-پھر باہر سے کھانا لائی ہو فریج میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر خود ہی خاموش ہوگئی، آپ کے لیئے لائی ہوں آپ نے کچھ کھایا؟ میں کھا چکی،یہ تم کھاو میں جانتی ہوں تم نے کچھ نہیں کھایا،وہ تھکاوٹ سے مسکرائیں تو محمل نے لمحہ بھر کو ماں کو دیکھا،سادہ گھسے ہوئے کاٹن کے جوڑے میں سفید ہوئے بال اور جھریوں زدہ چہرے والی اسکی تھکی تھکی بے ضرر سی ماں جو واقعی اس عالی شان کوٹھی کی مالکن ہوتے ہوئے بھی ملازمہ لگتی ہے دل برا مت کیا کرو محمل اللہ کا نام لے کر کھا لو مجھے غصہ آتا ہے ان لوگوں پر اماں باہر تائی مہتاب کے بہلنے کی آواز برابر آرہی تھی وہ اب شور کر کے جانے کس کس کو بتا رہی تھی “ناشکری مت کرو بیٹاانہوں نے رہنے کے لیے ہمیں چھت دی ہے سہارا دیا ہے- احسان نہیں کیا میرے باپ کا گھر ہے-اسے ابا نے ہمارے لیئے بنوایا تھا،یہ بزنس یہ فیکٹریاں یہ سب ابا نے خود بنایا تھا-سب کچھ ابا نے ہمارے نام کیا تھا- تمہارے ابا اب زندہ نہیں رہے محمل وہ اب کہیں بھی نہیں ہیں-وہ جیسے تھک کر کہہ رہی تھیں اور وہ انہیں دیکھ کر رہ گئی-پھر اس نے سر جھٹک کر لفافہ اٹھایا نان سخت ہو چکا تھا اور کباب ٹھنڈا-وہ بے دلی سے لقمے توڑنے لگی- یہ ٹھنڈا بے لذت کھانا کھا کے وہ کچھ دیر ہی سوپائی کہ تھاہ کی آواز کے ساتھ کمرے ک دروازے سے فٹبال ٹکرایا- وہ ہربرا کے اٹھ گئی باہر دیوار پر فٹ بال مارنے کی آوازیں برابر آرہی تھی کچی نیند ٹوٹی تھی-وہ برا سا منہ بنائے جمائی روکتی اٹھی-سلیپر پہنے اور بال لپیٹتے دروازہ کھولا- اسکا اور مسرت کا مشترکہ کمرہ دراصل کچن کے ساتھ ملحقہ اسٹور روم تھا بہت چھٹا نہ بہت برا عرصہ پہلے اسے کاتھ کبارڑ سے خالی کروا کے ان دونوں کو ادھر منتقل کر دیا تھا،اس کے ساتھ باتھ رون نہیں تھااس لیئے انہیں لاونج سے گزر کر گیسٹ روم کی طرف جانا پڑتا تھا، باہر لاونج میں ناعمہ چاچی کے معاز اور معیز فٹ بال سے کھیلتے دوڑتے پھر رہے تھے تمیز نہیں ہے تم لوگوں کو دیکھ کر کھیلا کرو میں سو رہی تھی- کچن ک کھلے دروازے پے کھری اندر کسی سے بات کرتی ناعمہ چاچی فورا مڑیں- اب میرے بچے کھیلے بھی نا؟تمہارا تو کام ہی سونا ہے نہ دن دیکھا نہ رات ہر وقت بستر ہی توڑتی رہتی ہو- “ہاں تو میرے باپ کے پیسے سے یہ بستر ائے تھے توڑوں یا پھوڑوں میری مرضی-ابا کی ڈیتھ سے پہلے اسد چچا تو غالبا بے رزگار تھے نا؟وہ بھی محمل تھی سارے حساب فورا چکا کر بے نیازی سے باتھ روم کی طرف چلی گئی-ادھر ناعمہ چاچی بڑبڑا ک رہ گئیں منہ ہاتھ دھو کر اس نے اپنے سلکی بھورے بالدونوں ہاتھوں میں سمیٹ کر اہنچے کیئے اور پونی باندھی-بہت اونچی سی بھوری پونی ٹیل اس پع بہت اچھی لگتی تھی-وہ زرا بھی سر ہلاتی تو اونچی پونی ساتھ ہی گردن کے اوپر جھولتی- اس کی آنکھیں کانچ سی سنہری تھیاور ہلکا سا کاجل بھی اسے دہکا دیتا تھا-وہ بلا شبہ گھر کی سب سے حسین لڑکی تھی- اسی لئے تو جلتی ہیں یہ سب اسے ہنسی آگئی-ایک نظر خود پر ڈالی-جینز کے اوپر کھلا سا کرتا اور گردن ک گرد لپیٹا دوپٹہ’مفلر کی ترحا ک پلو سامنے لٹکتا اور ایک پیچھے کمر میں وہ واقعی سب سے منفرد تھی- کچن میں تائی مہتاب نگٹس نکال کے مسرت ک سامنے راکھ رہی تھیں جو بہت تابعداری سے ایک طرف چائے کا پانی چڑھا کر دوسری ٹرف تیل گرم کر رہی تھی اس پر نظر پڑی تو نگٹس رکھتے ہوئے زرا لا پرواہی سے گویا ہوئی- یہ بچوں کے لیے فرائی کردو مسرت اب ہر کوئی باہر سے منہ مار کے تو نہیں آتا نہ بجا فرمایا تائی اماں-یہاں تو لوگ گھر کے اندر ہی دوسروں کے مال پر منہ مارتے ہیں وہ اطمینان سے کہہ کر کولر سے پانی بھرنے لگی- زبان کو سنبھالو لڑکی،توبہ ہے ہماری بیتیاں تو کبھی ہمارے سامنے ایسے نہیں بولیں- آپ برا مت مانیں بھابھی بیگم-میں سمجھا دوں گی-“گھبرا کر مسرت نے ایک ملتجی نظر محمل پے ڈالی-وہ کندھے اچکا کر کھڑے کھڑے پانی پینے لگی، سمجھا دینا بہتر ہوگا-اس پر ایک تنفر نظر ڈال کر تائی مہتاب باہر چلی گئیں-ناعمہ چچی پہلے ہی جا چکی تھی-اب مسرت اور محمل ہی کچن میں رہ گئے تھے- اب یقینن برتن بھی آپ ہی کو دھونے ہونگے؟اماں دھو بھی دوں تو کیا ہے؟ان کے احسان کم ہیں ہم پر؟وہ مصروف سی ایک ایک نگٹس کڑاہی میں ڈال رہی تھیمحمل نے ایک گہری سانس لی اور آستین موڑ کر سنک کی طرف متوجہ ہوئی اسے غم تھا،کہ اگر وہ نا کرے گیتو مسرت کو ہی کرنا ہوگا اور ابھی تو انہوں نے رات کا کھانا بھی تیار کرنا تھا رہنے دو بیٹا میں کر لوں گی لیکن میں بھی ان لوگوں پے تھوڑا احسان کرنا چاہتی ہوں-وہ برتن دھو ک فارگ ہوئی تو مسرت ٹرالی بھر چکی تھی- محمل یہ باہر لے جاو،سب لان میں ہونگے وہ بنا احتجاج ٹرالی گھسیٹنے لگی،لان میں روز شام کی طرح کرسیاں لگی تھیں، آغا کریم اخبار کھولے دیکھ رہے تھے،ساتھ ہی مہتاب تائی اور نا عمہ چاچی باتیں کر رہی تھی،ناعمی چاچی سب سے چھٹے اسد چچا کی بیوی تھی جو قریب ہی بیٹھے غفران چچا سے کچھ کہہ رہے تھے-غفران چچا اور محمل کے ابا آغا ابراہیم جڑواں تھے آغا کریم ان سے برے اور اسد چچا چاروں بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے- غفران چچا کی بیگم فضہ چچی برآمدے میں کھڑی اپنی بیٹی کو اواز دے رہی تھیں اسے ٹرالی لاتا دیکھ کر مسکرائی- ارے محمل جان تم اکیلی لگی رہی،ندا یا سامیہ کو کہہ دیا ہوتا تمہاری ہیلپ کروا دیتی- فضہ چچی مہتاب تائی اور ناعمہ چچی کی طرح زبان کی کروی نا تھی بلکہ انی میٹھی تھی ک جب اپنی مٹھاس اپنے لبوں سے دوسرے کے حلق میں انڈیلتی تو وہاں کانٹے اگ جاتے- اٹس اوکے-وہ بھی بس مسکرا کے ٹرالی آگے لے گئیاب کیا کہتی کہ ندا اور سامیہ نے پہلے کونسے کام کیئے ہیں جو اج کرتیں،اگر وہ انہیں بلاتی وہ فورا چلی آتیں،ایک دو چیزیں پکڑاتی چولہا جلاتی باتیں بگھارتیں-اور پھر آہستہ سے کھسک جاتیں،اس کے بعد لان میں فضہ چاچی ایک ایک چیز یہ چکھیں میری سامیہ نے بنائی ہے۔اور میری ندا ک ہاتھوں میں تو بہت ذائقہ ہے کہہ کر پیش کرتی،اس پر مہتاب تائی ان کی تعریف کرتی اور محمل کو کاہلی کے وہ طعنے ملتے اس سارے قصے سے بچنے کے لیئے محمل نے کبھی ان دونوں کو بلانے کی غلطی نا کی تھی، مگر فضی چاچی کی یہ میٹھی زبان ہی تھیک نی وہ کبھی ان کو پلٹ کے جواب دے سکی نہ ہی کچھ جتا سکی وہ موقع ہی نہ دیتی، لاو لاو جلدے لاو دونوں ماں بیٹی لگتی ہیں پھر بھی گھنٹہ لگ جاتا ہے، تائی آپ کوئی ملازمہ کیوں نہیں رکھ لیتی کم سے کم آپ کو ہم ماں بیٹی پر چلانا تو نہیں پرے گا-وہ تیزی سے کہہ کر ٹرالی چھوڑ کر واپس گئی، سب باتیں چھوڑ کر اس طرف دیکھنے لگے تھے-احسان کرنے کا تو زمانہ ہی نہیں رہا،تائی نے ٹرالی اپنی طرف کھینچی،آغآ کریم نگاہیں چرا کر پھر سے اخبار میں گم ہو چکے تھے، وہ کچن کی طرف واپس آئی تو فواد تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا نیچے آرہا تھا- چائے لگ گئی؟آخری سیڑھی پر اترتے مصروف سے انداز میں کہتے وہ کلائی پر گھڑی باندھ رہا تھا “اسنیکس رکھ آئی ہوں،چائے لاتی ہوں،وہ زیادہ غور سے سنے بغیر نکل گیا-محمل نے لمحہ بھر کو رک کے اسے جاتے دیکھا،،،،،،،،،،،، وہ مہتاب تائی کا برا بیٹا تھا-حنان وسیم اس کے بعد تھےاور سدرہ مہرین سب سے چھوٹی تھی،فواد آغا جان کے آفس جاتا تھا اونچا لمبا خوش شکل تو تھا ہی مگر ڈریسنگ اور دولت کی چمک دمک سے مزید پرکشش اور ہینڈسم لگتا تھا-خاندان کا سب سے ہینڈسم اور پاپولر لڑکا،جس پہ ہر لڑکی کا دل اور اور لڑکی کی ماں کی نظر تھی ندا اور سامیہ ہوں یا ناعمہ چاچی کی مغرور نخریلی آرزو سب فواد کے آگے پیچھے پھرتیں رضیہ پھپھو تو اپنی اکلوتی فائقہ کے لیئے کبھی فواد کو دنر پر بلا رہی ہوتی۔تو کبھی فائقہ انڈوں کا حلوہ بنا کے لا رہی ہے-فواد میٹھا شوق سے کھاتا تھا سو یہ لڑکیاں ماؤں ک بنائے کو اپنا کہہ کر بہت شوق سے پیش کرتی تھیں- بگر وہ بھی سدا کا بے نیاز تھا- اپنی اہمیت کا احساس تھا کہ بے زاریاور اتراہٹ کم نہ ہوتی تھی،ورنہ حنان تو بمشکل ایف اے کر کے دبئی ایسا گیا کہ نہ تو پھر خط پتر بھیجا نا پھوٹی کوڑی گھر بھیجی- تعلیمی ریکارڈ اس کا اتنا برا تھا کہ تائی کڑھتی رہتی تھیں-مگر یہ وسیم تھا جس نے تائی اور آغا کریم کا ہر جگی سر شرم سے جھکایا تھا- نالائق نکما ایف اے میں دو بار فیل ہو کر پڑھائی چھوڑ کر آوارہ گردی میں مشغول سگریٹ کا عادی۔۔۔۔۔۔۔ اور کہنے والے تو دبے لفظوں کہہ بھی دیتےتھے-کہ ان گلیوں کا بھی پرانا شناسا ہےجہاں دن سوتے اور راتیں جاگتی ہیں- وہ سر جھٹک کر کچن میں ائیتو مسرت جلدی جلدی کپڑے سے سلیب صاف کر رہی تھیں-ان کی پیالی میں آدھا کپ چائے پڑی تھی-ان سے کچھ کہنا بے کار تھا اس نے ٹرے اٹھا لی- لان میں فضہ چاچی کے ساتھ والی کرسی پر فواد بیٹھا تھا-وہ اسے مسکرا ک بیت توجہ سے کچھ بتا رہی تھیں-اور وہ لاپرواہی سے سن رہا تھا- محمل اس کے کپ میں چائے انڈیل ہی رہی تھی کہ وہ کہہ اٹھا- میرے کپ میں چینی مت ڈالنا نہیں ڈالی-وہ پنجوں کے بل گھاس پہ بیٹھی سب کو چائے اٹھا کر دے رہی تھی- ارے بیٹا چینی کیوں نہیں پی رہے؟فضہ چاچی بہت زیادہ فکر مند ہوئیں- یونہی کچھ ویٹ لوز کرنے کی کوشش کر رہا ہوں- “اتنے تو سمارٹ ہو اور کیا لوز کرو گے؟: آرزو اسی پل سامنے والی کرسی پہ آ بیٹھی تھی اور میری چائے میں آدھا چمچ چینی محمل: وہ فواد کے بلکل سامنے ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کے بیٹھی تھی-چست سا سفید ٹراؤزر اور اوپر قدرے کھلے گلے والی ریڈ شارٹ شرٹ-کندھوں تک اسٹیپ میں کٹے بال اور گندمی عام سا چہرہ جس کو بہت محنت سے اس نے قدرے پر کشش بنایا تھا مگر پتلی کمان سی آئی برو اس کو بہت شاطر دکھاتی تھیں- فٹ تو رکھنا پڑتا ہے خود کو-محمل یہ کباب پکڑانا- فواد نے ہاتھ بڑھا کر کہا تو محمل نے فورا کباب کی پلیٹ اٹھا کر دینی چاہی اور دیتے دیتے اس کی انگلیاں فواد کے ہاتھ سے مس ہوئیں- وہ چونکا تو گھبرا کر محمل نے پلیٹ چھوڑدی-وہ گر جاتی اگر وہ تھام نہ لیتا-محمل نے فورا ہاتھ کھینچ لیا-وہ پلیٹ پکرے یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا- چونک کر،سب بھول کر،جیسے اسے پہلی دفعہ دیکھا ہو-بس لمحے بھر کا عمل تھا-اس نے رخ پھیر لیا-تو وہ بھی دوسری جانب متوجہ ہوگیا- فضہ چاچی اور آرزو کسی اور جانب متوجہ تھیں-کسی نے بھی وہ لمحی محسوس نہیں کیاتھا جو آکر گزر بھی چکا تھا اور فواد وہ وقفے وقفے سے اس پر ایک نگاہ ڈالتا تھا،جو پنجوں ک بل گھاس پر بیٹھی سب کو چائے سرو کر رہی تھی-ذرا سا سر کو جھکاتی تو بھوری پونی ٹیل اور اونچی لگتی-سر اٹھا تی پونی بھی ساتھ ہی جھولتی اور وہ کانچ سی سنہری آنکھیں ان ساری لڑکیوں کے پاس اس جیسا کچھ بھی نہ تھا- وہ چائے کے سپ لیتا خاموشی سے اسے دیکھتا رہا- شام میں وہ کمرے میں بند پڑھتی تھی پھر مغرب ڈھل گئی تو کچن میں آگئی جہاں مسرت پھرتی سے کٹنگ بورڈ پر بیاز ٹماٹر کاٹتی رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھیںکچن میں اور کوئی نہیں تھا اور سارا پھیلاوا یقینا”انہیں کو سمیٹنا تھا- “اماں!یہ تائی اما اور چاچیوں میں سے کوئی کھانے کی ذمے داری کیوں نہیں لیتا؟ہمیشہ آپ ہی کیوں بناتی ہیں؟ وہ یہ سب دیکھ کر ہول گئی تھی- تو ہمارا گھر ہے بیٹا یہ کر دوں گی تو کیا ہو جائے گا؟ آپ تھکتی نہیں ہیں ان کی خدمت کرتے کرتے؟ نہیں تھکن کیسی؟وہ اب جھک کر چولہا جلا رہی تھی- اچھا بتئیں کیا بنانا ہے؟میں کچھ کروا دوں- بریانی تو بنانی ہی ہے-باقی مہتاب بھابھی سے پوچھتی ہوں-اور اس وقت مہتاب تائی نے کچن کے دروازے سے جھانکا- کھانا بنانا اب شروع بھی کردو مسرت!روز دیر ہوجاتی ہے- مسرت چولہا جلاتے فورا پلٹی-جی بھابھی بس شروع کر رہی ہوں آپ بتائے وسیم بیٹا بریانی کا کہہ گیا تھا ساتھ کیا بناؤں؟وہ دوپٹے سے ہاتھ پونچھتے ان کے سامنے جا کر پوچھنے لگیں- ساتھ ہی مٹر قیمہ بنا دو،کباب بھی تل لینا اور دوپہر وا؛ا اروی گوشت بھی گرم کر لینا آلو کا ایک سالن بھی بنا لو سلاد بھی نہیں بھولنا- جی اور میٹھے میں؟ دیکھ لو-وہ بے نیازی اور نخوت سے گویا ہوئیں-پڈنگ بنا لو یا ڈبل روٹی کی کھیر-اور ایک اچٹتی نظر اس پر ڈال کر پلٹ گیئں- ایک تائم میں دیگچے بھر بھر کر آپ تین تین چار چار ڈشز بناتی ہیں مگر رات کے لئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے وہ کلستی بھی تھی اور حیران بھی ہوتی تھی تم خود ہی تو کہتی ہو وہ ہمارا مال حرام طریقے سے کھاتے ہیں-پھر حرام میں کہاں برکت ہوتی ہے بیٹا؟ان کے لہجے میں برسوں کی تھکن تھیاور کہہ کر وہ پھر سے کٹنگ بورڈ پر جھک گئیں- وہ بلکل چپ سی پو گئی-واقعی کیوں یہاں دیگچے کے دیگچے ایک وقت کے کھانے میں ختم ہو جاتے تھے،اس نے تو کبھی اس پہلو پر سوچا ہی نہیں تھااور اماں بھی ان کے ہر ظلم و زیادتی سے آگاہ تھیںپھر بھی چپ چاپ سہے جاتی تھیں ہمارا مال!دل میں ایک کانٹا سا چبھا-گیارہ برس قبل ابا کی ڈیتھ سے پہلے یہ فیکٹریاں یہ جائیدادیں،بینک بیلنس،یہ امپورٹ ایکسپورٹ کی پوری بزنس ائمپائر سب ابا کا تھا اور یہ آگا کریم،یہ راجہ بازار میں کپڑوں کی ایک دکان چلاتے تھے-غفران چاچا ایک معمولی سی کمپنی میں انجینئر بھرتی تھےاور آرزو کے والد اسد چاچاوہ تو وسیم کی طرح تھے بے روزگار،نکمے،نکھٹو اور نالائق پھر کیسے ابا کے چہلم کے بعد وہ اپنے اپنے کرائے ک مکان خالی کر کے باری باری یہاں آن بسے- یہ آغا ابراہیم کا گھر آغا ہاؤس تین منزلہ عالی شان محل نما کوٹھی تھی،نچلی منزل پر آغا جان کی فیملی نے بسیرا جمایا بالائی پر فضہ چاچی نےاور سب سے اوپری منزل پر اسد چچا کی فیملی کا قبضہ تھا- وہ چند دن کے لئے آئے تھے،مگر پھر وہ چند دن کبھی ختم نہ ہوئے-بات بے بات جگہ کی کمی کا رونا رویا جاتا،یہاں تک کے ماسٹر بیڈ روم سے مسرت اور محمل کو نکال کے اسٹور روم میں شفٹ کر دیا گیا- وہ اس وقت چھوٹی تھی،شاید نو دس سال کی مگر جیسے جیسے شعور کی منزلیں طے کی تو اندر ہی اندر لاوا پکتا رہا-اب تو عرصہ ہوا اس نے دبنا چھوڑ دیا تھا- گھر کے مردوں کے سامنے تو خیر وہ زبان بند ہی رکھتی تھی- مگر تائی چاچیوں سے برابر کا مقابلہ کرتی اور کزنز تو کسے کھاتے میں ہی نہیں تھیں-لیکن اس زبان چلانے کے باعث اس پر سختیاں برھتی گئیںٓوہ محض زبان سے جواب دے سکتی تھی- مگر تائی اماں وغیرہ دوسرے حربے بھی استعمال کرتے-جب اس نے اپنے ذاتی جیب خرچ کے لئے اپنی دوست کے والد کی اکیڈمی میں ٹیوشنز دینا شروع کی تھی اس کو گھر واپسی میں دیر ہوجاتیاور نتیجتا” یا قسدا” اس کے لئے دوپہر کا کھانا نہ رکھا جاتا-ایک دفعہ اماں ایک روٹی اور سالن کی پلیٹ بچا کر کمرے میں لے گئیں،مگر مہتاب تائی کی نظر پر گئی اور گھر میں بھونچال آگیا- وہ باتیں سنائیں مسرت کو ایسے ایسے چوری کے الزامات و القابات سے نوازا کہ مسرت پھر کبھی اس کے لیئے کچھ نہ بچا سکیں-تائی یہ سب اس لیئے لرتی تھیں- تا کہ وہ ٹیوشنز چھوڑ دےاور جو پندرہ سو روپیہ اسے ٹیوشنز کا ملتا ہے وہ نہ ملا کرے- اور ٹیوشنز کی اجازت بھی تو اسے کتنی منتوں سے ملی تھی-جب سب کے سامنے ہی اس نے پوچھ لیا تھا تو شروع میں تو سب ہی اکھڑ گئے-لیکن اس کا فقرہ کہ ٹھیک ہے میری پاکٹ منی نکالیئے،لیکن وہ اتنی ہی ہو جتنی سدرہ اور مہرین آپی کو ملتی ہے- کیونکہ اگر مجھے پاکٹ منی نہ ملی تو میں سدرہ اور مہرین کے ہر اچھے اور مہنگے جوڑے کو آگ لگا دوں گی- اور وہ پہلی دفعہ اتنی جنونی ہو کر بولی تھی کہ مزید دس منٹ کی بحث کے بعد اسے اجازت مل ہی گئی تھی اور ابھی جو اما نے یاد دلا دیا کہ وہ لوگ ان کا مال کھاتے ہیں تو وہ یہ سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ کچھ ایسا ضرور ہے کہ آغا جان اس بیس سال کی لڑکی سے ضائف ہیں-اگر کبھی وہ اپنا ھصہ مانگنے کے لئے کھڑی ہوجائے تو-تو کیا ان کا کیس اتنا کمزور ہے کہ وہ عدالت سے اپنے حق میں فیصلہ نا کروا سکیں گے- اور انہیں ہر چیز محمل کے حوالے کرنی پڑے گی؟اور کیا وہ بیس سالہ لڑکی اتنی با ہنت ہے کہ وہ ان سب کو ان شطرنج کے اتنے ماہر اور چالباز کھلاڑیوں کو اپنی انگلیوں پہ نچا سکے؟ جواب ایک زور دار نہیں تھا-وہ کبھی بھی ان ک خلاف کھڑی نہیں ہوسلتی تھی،لیکن۔۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی اس کے ہاتھ ان کی کوئی کمزوری لگ جائے،کوئی دکھتی رگ جسے دبا کر وہ اپنے سارے حساب چکتا کر سکے، تو کتنا مزہ آئے۔۔۔۔۔۔مگر ایسی کیا دکھتی رگ ہو سکتی تھی ان کی؟ بات سنو؟مہتاب تائی نے پھر سے کچن میں جھانکاتو وہ اپنے خیالات کی بہکی رو سے چونکی- فواد کہہ رہا ہے میٹھے میں چاکلیت سوفلے ہونا چاہیئے یوں کرو۔ابھی ساتھ ساتھ شروع کر دو اور ہاں کوئی کمی نہیں ہونی چاہیئے بہت عرصے بعد میرے بیٹے نے کسی خاص میٹھے کی فرمائش کی ہے-بہت مان و فضر اور تنبیہہ بھرے انداز میں کہہ کر وہ بلت گئیں-اور محمل کے ذہن کی بھٹکتی رو اسی ایک نکتے پہ منجمند ہو گئی- “میرا بیٹا۔۔۔۔ میرا بیٹا! تو آغا جان اور مہتاب تائی کی کمزوری دکھتی رگ اور تڑپ کا پتہ سب کچھ فواد ہی تھا- اور اگر۔۔۔۔۔۔۔۔اگر دکھتی رگ اسکی انگلی تلے آجائے۔۔۔۔۔۔ تو؟ محمل!یہ آلو کاٹ دو-میرا خیال ہے آلو انڈے کا سالن بھی بنا لیتے ہیں سب شوق سے کھاتے ہیں- ہوں-“وہ سوچ میں گم ان کے قریب آئی اور آلو چھیلنے لگی- مسرت نے بریانی کا مسالا بنایا،قیمہ مٹر بھی پکنے کے قریب تھا-محمل نے شامی کباب تلے،پھر آلو انڈے کا سالن سلاد رائتہ سب بنا چکی تو مسرت روٹی پکانے لگیں- فواد کے لیئے سوفلے بنا کر فریج میں رکھ دیا تھا نا؟ جی اماں آپ فکر ہی نا کریں-وہ مسکرا کر بولی-اسے شام لان میں فواد کا خود کو چونک کر دیکھنا اور لمحے بھر کو مبہوت ہونا یاد آیا تھا-جو غلطی خاندان کی ساری لڑکیاں کرتی تھی وہ محمل کو نہیں دہرانی تھی اسے اپنی اہمیت نہیں گنوانی تھی،اس نے فیصلہ کر لیا تھا- ذرا دیر کو وہ ہاتھ روک کر مسرت سے نظر بچا کر باہر لاؤنج میں گئی،جہاں تمام لڑکیاں اس وقت بیٹھی تی وی دیکھ رہی تھیں آرزو اسی چست لباس میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھی تھی- فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین بھی پاس ہی تھیں-سدرہ چوبیس برس کی بہت عام شکل کی لڑکی تھی اسی کمی کو پورا کرنے کے لیئے خوب سارا میک اپ اور جیولری گھر میں بھی زیب تن کیے رکھتی-سیا بالوں میں گولڈن اسٹریکنگ بھی کرا رکھی تھی۔پھر بھی زیادہ فرق نہیں پرا تھا- تئیس سالہ مہرین کا البتہ قد چھوٹا تھا،کافی چھوٹا اور بال بے حد گھنگھریالے-وہ سارا سارا دن اپنے بال سیدھے کرنے یا قد لمبا کرنے کے ٹو/تکے آزماتی رہتی -فضہ چچی کی ندا اور سامیہ میں سے ندا بری تھی اور سامیہ چھٹی مگر سامیہ اپنے بے حد لمبے قد کے باعث بڑی لگتی تھی-مہریں اس سے اسی باعث خار کھاتی تھی اور سامیہ بھی اپنی ماں کی طرح میٹھی میٹھی باتوں سے سارا دن مہریں کو مزید اھساس دلاتی رہتی- ندا شکل کی ذرا اچھی تھی سانولی رنگت پر بڑی بڑی آنکھیں اسے قدرے ممتاز بناتی تھی اور تبھی آرزو اسے نا پسند کرتی تھی شاید وہ جانتی تھی فواد کے لئے اس کے مقابلے پے سامیہ کمزور جبکہ ندا ایک مضبوط امیدوار تھی- فواد کی بہنیں سدرہ اور مہرین تو بی اے کر کے ہی پڑھائی چھوڑ چکی تھی جبکہ بائیس سالہ سامیہ تئیس سالہ ندا بی اے کرنے کالج اور اتئیس سالہ آرزو ماسٹرز کے لئے یونیورسٹی جاتی تھی-آرزو مر مر کر پاس ہونے والوں میں سے تھی اور اس کی یونیورسٹی پہنچ جانے کی وجہ آغا جان کی سفارشیں تھی-یہ سفارشیں سدرہ اور مہرین کے وقت بھی کام آجاتی اگر جو انہیں پڑھنے کا رتی بھر بھی شوق ہوتا-بات سنیں-اس نے بظاہر عجلت میں سب کو مخاطب کیا-رات کھانے کے لیے سوفلے بنانا ہے آپ لوگوں میں سے کوئی ہیلپ کرائے گا؟ نہیں- آرزو نے ریموٹ سے چینل بدلتے اسے دیکھنا گوارا نہیں کیا- ندا اپنے ناخنوں پر کیوٹکس رگر رہی تھی،لمبی سی سامیہ فورا فون کی طرف متوجہ ہو گئی-مہرین نے چہرے کے آگے رسالہ کر لیا اور سدرہ بہت انہماک سے اسی وقت ٹی وی دیکھنے لگی- چلیں فائن- وہ واپس کچن میں آگئی- ڈائننگ حآل میں روز کی طرح کھانا کھایا گیا- محمل ہمیشہ کی طرح سب سے آخری کرسی پر بیٹھی تھی جہ آغا جان کی سربراہی کرسی کے بلکل سیدھ میں تھی-مسرت ادھر ادھر چیزیں پکراتی پھر رہی تھی ۔