اس وقت کون کہتے کہتے اس نے اسکرین کو دیکھا اور جلدی سے سیل کان کے ساتھ لگا لیا- جی ملک صاحب؟خیریت؟جی کیا مطلب اس نے لب بھینچ کر کچھ دیر دوسری طرف ہونے والی بات سنی-مگر آپ نے ان کو بتایا آپکو میں نے ہی بھیجا ہے؟ مگر کیوں؟انہوں نے سائن کیوں نہیں کیے؟اور اسے ایک دم فواد کے چہرے پر ابھرتی غصے کی لہر دکھائی دی-آپ سینئر آفیسر ہیں یا جونیئر انہیں اس سے کیا غرض؟ آپ کو پتہ ہے ملک صاحب اگر انہوں نے فائل سائن نہ کی تو صبح تک ہماری فیکٹری ڈوب جائے گی- ہم برباد ہو جائیں گے- اس نے رک کر کچھ سنا اور ایک دم بدکا-کیا مطلب میں اس وقت کیسے آسکتا ہوں اتنی دور؟میری میٹنگ ہے صدیق صاحب کے ساتھ- چھے سے سات میں ابھی اے ایس پی صاحب سے کیسے مل سکتا ہوں؟کیا بکواس ہے اس نے جھلا کر فون بند کر دیا- کیا ہوا؟ وہ گھبرا کر قریب آئی- “معلوم نہیں کیا ہوگا اب-وہ پریشانی سے دوسرا نمبر پریس کرنے لگا-لمحے بھر کو تو وہ جیسے بھول ہی گیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ کھڑی ہے- جی راؤ صآحب میں نے ملک الیاس کو بھیجا تھا آپ کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر راؤ صاحب اتنی بھی کیا بے اعتباری؟اسنے رک کر دوسری طرف سے سنا اور جیسے ضبط کرتا ہوئے بے بسی سے بولا- آپ کے اے ایس پی کا دماغ تو ٹھیک ہے؟اس کا باپ جاگیردار ہوگا گاؤں کا ہم اس کے مزارعے نہیں ہیں-بورڈ آف ڈائریکٹر میں سے کسی کے پاس بھی اتنا ٹائم نہیں ہے کہ ان کے ایک فون کال پر بھاگا چلا آئے اور نہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لمحے بھر کو رکا اور پھر میں کچھ دیر میں آپ کو بتاتا ہوں- کہہ کر وہ اب کوئی اور نمبر ملانے لگا تھا- اے ایس پی ہمایوں داؤد نہ جانے کیا مسئلہ ہے اس بندے کا- محمل بددل سی اس کے ساتھ گاڑی کے باہر کھڑی تھی-نجانے کیا ہوا تھا -دل میں عجیب عجیب سے وسوسے آرہے تھے- خیریت ہے فواد بھائی- “خیریت ہی تو نہیں ہے-اے ایس پی جان کو آگیا ہے-کہتا ہے کمپنی کے مالکوں کو بھیجو تو فائل اپروو ہوگی-میں ملازموں سے بات نہیں کرتا-اب کس کو بھیجوں ادھر؟ وہ ابھی اسی وقت بلا رہا ہے-اور اس کے گھر پہنچنے کے لئے آغآ جان یا حسن کو ڈیڑھ گھنٹہ تو لگ جائے گا-اور اگر نہ پہنچے تو میرا کڑوڑوں کا پروجیکٹ ڈوب جاۓ گا-؎ وہ جھنجھلا کر کسی کو بار بار فون ملاتا بہت بے بس لگ رہا تھا-اب یہی حل ہے میں ابھی اس کے پاس چلا جاؤں-اور واپس آکر صدیقی صاحب سے میٹنگ کر لوں- اور ڈنرکینسل؟اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا تھا- کرنا پڑے گا محمل- اس نے ہاتھ روک کر محمل کا تاریک پڑتا چہرہ دیکھا-آئی ایم سوری میں یوں تمہیں ہرٹ کرنا نہیں چاہتا تھا-مگر میری مجبوری ہے-وہ ملازم سے بات نہیں کرے گا-گھر کے بندے کو ہی جانا پڑے گا- میں بھی ملازم ہوں فواد بھائی؟ایک خیال سا محمل کے دماغ میں میں ابھرا کیا مطلب وہ جیسے چونکا- اگر۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں آپ کے دو کاموں میں سے ایک کر دوں تو تب تو ہم ڈنر پر جا سکتے ہیں نا؟ وہ ہچکچا کر بولی کہ کہی برا نہ مان جائے- “ارے مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟تم بھی تو کمپنی کی اونرز میں سے ہو-تم بھی تو یہ فائل سائن کروا سکتی ہو-بلکہ یوں کرتے ہیں تم فائل کو لے کر ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ- جب تک میں صدیقی صاحب سے نپٹ لیتا ہوں- اور پھر ڈرائیور تمہیں ہوٹل لے آئے گا ٹھیک؟ اس نے منٹوں میں سارا پلان ترتیب دے لیا-وہ گہری سانسیں بھر کے رہ گئی- :ٹھیک ہے میں پھر چینج کر لوں؟ “نہیں نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے-اس طرح تو تم واقعی پر اعتماد ایگزیکٹو لگ رہی ہو- یہ ساری بزنس وومن فارملی ایسے ہی ڈریس اپ ہوتی ہیں- میں ڈرایور کو کال کر لوں- وہ مطمئن تھا مگر محمل کو قدرے عجیب لگ رہا تھا-وہ اتنی قیمتی اور جھلملاتی ساڑھی میں کسی فنکشن کے لیئے تیار ہوئی لگ رہی تھی-کسی آفیشل معاملے کے لیئے موزوں نہیں-لیکن اگر فواد کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی کہہ رہا ہو گا- سارا رستہ وہ پچھلی سیٹ سے سر ٹکاے آنکھیں بند کئے ہیرے کی انگوٹھی کے متعلق سوچ رہی تھی- جو فواد نے یقینا اس کے لیئے لے لی ہوگی-اور جب وہ تائی اماں کے سامنے کھڑا محمل سے شادی کا کہہ رہا ہوگا- تب تو گھر میں سچی میں طوفان آجائے گا-مگر اچھا ہے-ایسا ایک طوفان ان فرعونوں کو لرزانے کے لیئے آنا چاہیئے- وہ پرسکون پر اعتماد اور مطمئن تھی- گاڑی طویل ڈرائیو وے عبور کر کے پورچ میں داخل ہوئی-تو وہ ایک پر ستائش نگاہ خوبصورت سے لان پر ڈال کر گاڑی سے اتری- مین ڈور پر جیسے ایک سوٹڈبوٹڈ ادھیڑ عمر شخص جیسے اس کا منتظر کھڑا تھا- “اے ایس پی ہمایوں داؤد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ذہن میں اندازہ لگایا-اور فائل ہاتھ میں پکڑے اعتماد سے چلتی ان کے قریب ائی- ” میں آغآ گروپ آف انڈسٹریز سے- جی میڈم محمل ابراہیم- آئیے اے ایس پی صاحب آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں-اس نے دروازہ کھول کر راستہ دیا-وہ لمحے بھر کو ہچکچائی پھر خود کو ڈپٹتے ہوئے آگے بڑھی- روشنیوں سے گھرا بے حد نفیس اور قیمتی سامان سے آراستہ گھر اندر سے اتنا خوبصورت تھا کہ خود کو سنجیدہ رکھنے کے باوجود اس کی نظر بار بار بھٹک کر آس پاس کا جائزہ لینے لگتی- اے ایس پی صاحب کدھر ہیں؟وہ اندر آپکا انتظار کر رہے ہیں-وہ اس کے اگے تیز تیز چلتا ہوا لاؤنج میں لے آیا-سر یہ پہنچ گئی ہیں اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تو ایک شخص کو اپنی طرف متوجہ پایا- وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے صوفے پہ بیٹھا تھا-تھوڑی تھوڑی سی شیو بڑھی ہوئی تھی- اور بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے- بلیک کوٹ میں ملبوس جس کے اندر سفید شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھلے تھے-ایک ہاتھ میں اورنج جوس سے بھرا وائن گلاس لیئے وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا- ایک لمحے کو تو محمل کے قدم ڈگمگائے-اس کا پالا تو ابھی تک بس گھر کے لڑکوں سے پرا تھا-فواد اور حسن خوش شکل تھے-کچھ دولت کی چمک دمک سے بھی سٹائلش لگتے تھے-باقی اس کے چچاؤں میں سے بھی کہئی متاثر کن شخصیت کا مالک نہیں تھا- جتنا صوفے پر بیٹھا وہ مغرور سا دکھنے والا شخص تھا-ہینڈ سم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے حد ہینڈ سم۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا وجیہہ مرد اس نے پہلی بار دیکھا تھا- وہ نہ چاہتے ہوئئے بھی مرعوب ہوگئی- وہ خاموشی سے اسے بغور جانچتی نگاہوں سے دیکھتا رہا-یہاں تک کہ وہ آکر سیدھی سامنے والے صوفے پر بیٹھی اور فائل میز پر رکھ دی-یہ فائل اپروو کروانی تھی اے ایس پی صاحب- وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے اس کے مقابل بیٹھی خاصے اعتماد سے بولی-تو وہ ذرا سا مسکرایا اور پاس کھڑے سوٹڈ بوٹڈ شخص کی طرف دیکھا- ان کو آغا فواد کریم نے ہی بھیجا ہے راؤ صآحب؟ مسکرا کر کہتے اس نے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا- محمل نے چونک کر راؤ کو دیکھا- وہ بھی مسکرا دیا تھا- کچھ تھا ان دونوں کی معنی خیز مسکراہٹ میں-کہ دور اس کے ذہن میں خطرے کا الارم بجا- تو آپ فائل اپروو کروانے آئی ہیں؟وہ استہزائیہ مسکراتی نگاہوں سے کہہ رہا تھا- محمل کو الجھن ہونے لگی- “جی یہ آغآ انڈسٹریز کی فائل ہے اور۔۔۔۔۔۔ “اور آپ کی اپنی فائل وہ کہاں ہے؟اس نے گلاس سائیڈ پر رکھ کر جھک کے فائل اٹھائی- میری کون سی فائل؟کچھ تھا جو اسے کہیں غلط لگ رہا تھا-کہیں کچھ بہت غلط لگ رہا تھا- “آپ جائیں راؤ صاحب-اس نے فائل کے صفحے پلٹا کر ایک سرسری سی نظڑ ڈآلی-اور پھر فائل اس کی طرف بڑھائی- محمل لینے کے لیئے اٹھی مگر بہت تیزی سے راؤ صاحب نے آگے بڑھ کر فائل تھامی- اور جا کر آغآ فواد کے ڈرائیور سے کہیں کہ فائل اپرووڈ ہے صبح انہیں رسید مل جائے گی- بہتر سر! راؤ صاحب فائل لے کر پلٹے تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی- “مجھے دے دیں میں لے جاتی ہوں- وہ دونوں ایک دم چونکے تھے-اور پھر رک کر ایک دوسرے کو دیکھا-ہمایوں نے اشارہ کیا تو راؤ صاحب مسکرا کر باہر نکل گئے- آپ بیٹھیئے مادام ڈرائیور دے آئے گا- ایک دم ہی اس کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی زور زور سے بجے لگی- اسے لگے وہ غلط وقت پر غلط جگہ اور غلط لوگوں میں آگئی ہے-اسے وہاں نہیں آنا چاہیئے تھا- نہیں میں چلتی ہوں-وہ پلٹنے ہی لگی تھی کہ وہ تیزی سے اٹھا اور زور سے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف گھمایا-اس کے لبوں سے چیخ نکلی- ” زیادہ اوور سمارٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے-جو کہا جا رہا ہے ویسے ہی کرو-اس کے بازو کو وہ اپنی آہنی گرفت میں لیئے غرایا تھا-لمحے بھر کو تو زمین آسمان محمل کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا تھا- ” چھوڑیں مجھے- وہ سنبھل ہی نہیں پائی تھی کہ ہمایوں داؤد نے اس کے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر جھٹکے سے اسے اپنے سامنے کیا- “زیادہ چالاکی دکھائی تو اپنے پیروں پر گھر نہیں جاؤ گی- مم۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑیں -مجھے گھر جانا ہے محمل نے اسے دھکیلنا چاہا-مگر اس کی گرفت بہت مضبوط تھی- گھر جانا ہے؟گھر ہی جانا تھا تو یہ اتنا بناؤ سنگھار کس لیئے کیا تھا ہوں؟ اس نے ہولے سے اس کی ٹھوڑی انگلی سے اوپر کی-دوسرے ہاتھ سے کہنی اتنی مضبوطی سے پکڑی تھی کہ وہ ہل نہیں پائی اور گھبرا کر چہرہ پیچھے کیا- میں فنکشن پر جا رہی تھی-آپ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں میں ایسی لڑکی نہیں ہوں-آپ فواد بھائی سے میری بات کروائیں- انہیں بتائیں کہ میں۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ چونکا آغآ فواد تیرا بھائی ہے؟ جی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرے بھائی ہیں-آپ بے شک ان سے پوچھ لیں-مجھے یہاں نہیں آنا تھا فواد بھائی کو خود آنا تھا-مگر ان کی میٹنگ تھی- وہ ایک دم رونے لگی تھی-آپ پلیز مجھے گھر جانے دیں میں غلط لڑکی نہیں ہوں میں ان کی بہن ہوں- “جھوٹ بول رہی ہے-راؤ پیچھے آ کھڑا ہوا تھا- اسی کو ادھر آنا تھا چار ہفتے پہلے تو ڈیل ہوئی تھی سر اور اسی کے نام سے ہوئی تھی-کم عمر خوبصورت اور ان چھوئی-آغآ نے کہا تھا یہ ہماری ڈیمانڈ پہ پوری اترتی ہے-راؤ کا لحجہ سپاٹ تھا- محمل ابراہیم نام ہے نا تمہارا؟ تم آغآ کی بہن کیسے ہوسکتی ہو؟ وہ تین کڑوڑ کے نفع کے لیے اپنی بہن کو ایک رات کے لیے نہیں بیچ سکتا-
اس کے اردگرد جیسے دھماکے ہورہے تھے-اسے بہت زور کا چکر آیا تھا- وہ گرنے ہی لگی تھی کہ ہمایوں نے اس کی دوسری کہنی سے پکڑ کر اسے کھڑا رکھا- “اب سیدھی طرح بتاؤ تم ہمیں بے وقوف بنا رہی ہو یا آغآ نے تمہیں بے وقوف بنایا ہے-تم محمل ابراہیم ہو اور وہ فواد کریم-وہ تمہارا سگا بھائی ہے؟اتنے عرصے سے لڑکیاں فراہم کر رہا ہے تو کبھی اپنی بہن کا سودا نہیں کیا-“ “نہیں- اس نے بے یقینی میں نفی میں سر ہلایا-آپ جھوٹ بول رہے ہیں-فواد بھائی میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے-آپ میری ان سے بات کروائیں- آپ خود سن لینا وہ میرا ویٹ کر رہے ہیں- ہمیں ایک فنکشن پہ جانا تھا- عام انسان کی طرح محمل کو بھی ہلکی پھلکی جھوٹ کی عادت تو تھی ہی-اور اسی پرانی عادت کا کمال تھا کہ اس کے لبوں پپے خود بخود ڈنر کی جگہ فنکشن نکلا تھا- کہیں لا شعوری طور پر اسے احساس تھا کہ اگر فواد اور اپنے خاص ڈنر کا بتاتی تو وہ اسے بری لڑکی سمجھتا- راؤ صاحب آغآ فواد کو فون ملائیں- “رائٹ سر! راؤ موبائل پر نمبر مملانے لگا- اور اسپیکر آن رکھیں-اس نے کہہ کر ایک گہری نظر محمل پر ڈالی-جو بے قرار اور ہراساں سی کھڑی راؤ کے ہاتھ میں پکڑے فون کو دیکھ رہی تھی- “جی راؤ صاحب- ؟” ایک دم کمرے میں فواد کی آواز گونجی- مال پہنچ گیا؟ “پہنچ تو گیا ہے مگر پرزے آواز بہت دیتے ہیں-آپ بات کر لیں-اس نے فون اگے پڑھا کر محمل کے کان سے لگایا- ہیلو فواد بھائی! وہ رو پڑی تھی-فواد بھائی یہ لوگ مجھے غلظ سمجھ رہے ہیں-آپ پلیز ان کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بکواس مت کرو اور میری بات غور سے سنو- تمہیں وہ ڈائمنڈ رنگ چاہیے یا نہیں؟چاہیئے نا؟تو جیسے اے ایس پی صاحب کہتے ہیں کرتی جاؤ- فواد بھائی! وہ حلق کے بل چلائی-یہ میرے ساتھ کچھ غلط کر دیں گے- وہ جو کرتے ہیں کرنے دو-ایک رات کی ہی تو بات ہے- اب زیادہ بک بک مت کرنا صبح تمہیں ڈرائیور لینے آجائے گا- ساتوں آسمان اس کے سر پر ٹوٹے تھے- وہ ساکت سی کھڑی رہ گئی- “صرف ایک رات ہی کی تو بات ہے-صسرف ایک رات ہی کی تو بات ہے- اس کی آواز اس کے ذہن پر ھتوڑے برسا رہی تھی- بس ایک ڈائمنڈ رنگ کا لارا دیا ہے اس نے تمہیں؟اور تم تو کہتی ہو وہ تمہارا بھائی ہے؟فون اس کے کان سے ہٹا کر بند کرتے ہوۓ ہمایوں نے ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا- وہ اسی طرح پتھر کا بت بنی کھڑی تھی- اس کا ذہن،دل کان آنکھیں سب بند ہو چکے تھے- “راؤ صاحب پتہ کروائیں یہ واقعی فواد کریم کی بہن ہے یا نہیں؟ اور اس کی بات میں کتنی سچائی ہے،یہ تو ہم بعد میں خود معلوم کر لیں گے-شمس بچل اس نے زور سے آواز لگائی- اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے تھے-ساکت کھڑے وجود سے سہمی سہمی جان آہستہ آہستہ نکل رہی تھی-اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرے بادل چھانے لگے تھے- دو گن مین دوڑتے ہوئے اندر آئے تھے- “شمس اسے اوپر والے کمرے میں بند کردہ، اور دھیان کرنا بھاگ نہ پائے بچل۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ اس کا فقرہ مکمل ہوتا محمل چکرا کر گری اور اگر اس نے اسے دونوں بازوؤں سے تھام نہ رکھا ہوتا تو وہ نیچے گر پڑتی- محمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل! وہ اس کا چہرہ تھپتھپا رہا تھا- اس کی آنکھیں بند ہوتیی گئیں-اور ذہن گہرے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا-
اس کی آنکھوں پے کچھ نمی ڈالی گئی تھی-گیلے پن کا احساس تھا یا کچھ اور اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں- اٹھ جاؤ بہت سولیا-” وہ گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر سامنے کرسی پر جا بیٹھا تھا- چند لمحے تو وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھتی رہی،اور جب آہستہ اہستہ ذہن بیدار ہوا تو وہ چونک کر سیدھی ہوئی- وہ بڑا سا پر تعیش بیٹ روم تھا-قیمتی صوفے قالین اور بھاری خوبصورت پردے-وہ ایک بیڈ پر لیٹی تھی-اور اس کے اوپر بیڈ کور ڈالا ہوا تھا- اسے یاد آیا وہ اسے کسی کمرے میں بندھ کرنے کی بات کر رہا تھا-جب وہ شاید بے ہوش ہوگئی تھی-اب وہ کدھر تھی؟اور اسے کتنی دیر بیت چکی تھی- گھر میں سب پریشان ہورہے ہونگے- وہ گھبرا کر قدرے سیدھی ہوکر بیٹھی-وہ ابھی تک اسی سیاہ جھلملاتی ساڑھی میں ملبوس تھی-اور بیوٹیشن کی لگائی ہوئی ساری پینیں ابھی تک ویسے ہی کس کر لگی ہوئی تھیں- مم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کدھر ہوں؟کیا وقت ہوا ہے؟صبح ہوگئی؟وہ پریشان سی ادھر ادھر دیکھنے لگی تو سامنے وال کلاک پر نظر ٹکی- ساڑھے تین بج رہے تھے :ابھی صبح نہیں ہوئی؟اور آپ وہیں ہیں-جہاں آنے کے لیے فواد نے آپ کو ڈائمنڈ رنگ کا لالچ دیا تھا- مجھے فواد بھائی نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا،انہوں نے کہا تھا میں فائل سائن کروا کے واپس آجاؤں- میں جھوٹ نہیں بول رہی- میں کیسے مان لوں کہ تم سچ کہہ رہی ہوَ آغا فواد تو کہتا ہے تم اس کے گھر میں پلنے والی ایک یتیم لڑکی ہو،نہ کہ اس کی بہن۔۔۔۔۔۔ “یتیم ہوں تبھی تو تم جیسے عیاشوں کے ہاتھوں بیچ ڈالا،اس نے مجھے،میرا سگا تایا زاد بھائی تھا-تم سب گدھوں کا بس یتیموں پر ہی تو چلتا ہے-وہ پھٹ پڑی تھی- “مجھے یہ آنسو اور جزباتی تقریریں متاثر نہیں کرتیں-وہ اب اطمینان سے سگریٹ سلگا رہا تھا-مجھے بس سچ سننا ہے وہ بھی ٹھیک ٹھیک نہیں تو تمہیں تھانے لے جا کر تمہاری کھال ادھیڑ دوں گا-“ میں جھوٹ نہیں بول رہی- مجھے یہ بتاؤ اس سے پہلے وہ تمہیں کتنا شئیر دیتا رہا ہے-کدھر کدھر بھیجا ہے اس نے تمہیں- اور تمہارے اس گینگ میں کون کون ہے؟ سگریٹ کا ایک کش لے کر اس نے دھواں چھوڑا تو لمحے بھر کو دھوئیں کے مرغولے ان دونوں کے درمیان حائل ہوگئے- مجھ سے قسم لے لو میں سچ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قسم لے لوں واقعی؟ ہاں لے لیں- سو بندوں کے سامنے عدالت میں اٹھاؤگی قسم؟وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا سگریٹ لبوں میں دبائے کش لے رہا تھا- میں تیار ہوںٓمجھے عدالت میں لے جائیں میں یہ سب دہرانے کو تیار ہوں- وہ تب ہوگا جب میں تیرے کہے پر یقین کروں گا-یقین جو ابھی تک نہیں آیا-اس نے سگریٹ ایش ٹرے پہ جھٹکی-راکھ کے چند ٹکڑے ٹوٹ ک گرے- :میں سچ کہہ رہی ہوں میرا کسی گینگ سی کوئی تعلق نہیں ہے-مجھے فواد بھائی نے کچھ نہیں بتایا تھا- تم اسے بچانے کی کوشش کر رہی ہو میں جانتا ہوں- نہیں پلیز۔۔۔۔۔۔ وہ لحاف اتار کر بستر سے اتری اور گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آبیٹھی- اے ایس پی صاحب! اس نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دئے میں لاعلم تھی کہ آپ کا کیا مقصد ہے-کہ فواد بھائی کا کیا مقصد ہے- میں میرٹ میں ڈنر پہ جانے کے لیئے تیار ہوئی تھی- میرا کوئی قصور نہیں ہے- اس کی کانچ سنہری آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر گرنے لگے تھے اللہ کی قسپ یہ سچ ہے- اللہ کی قسم کھانے کے لیئے آغآ فواد نے کیا پیش کیا تھا؟ڈائمنڈ سیٹ؟ وہی شکی پولیس آفیسر،اور مخصوص طنزیہ انداز-جتنا وہ شخص وجیہہ تھااس کی زبان اس سے بڑھ کر کڑوی تھی-محمل کا دل چاہا اس کا منہ نوچ لے-اور اگلے ہی پل وہ اس پر جھپٹی اور اس کی گردن دبوچنی چاہی مگر ہمایوں نے اس کی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں لےلیں-اسی کشمکش میں محمل کے دو ناخن اس کے گال سے رگڑے گئے- صرف آنکھیں نہیں تمہاری تو حرکتیں بھی بلیوں جیسے ہیں وہ کھڑا ہوا اور اس کو کلائیوں سے پکڑے پکڑے بھی کھڑا کیا پھر جھٹکا دے کر چھوڑا- وہ دو قدم پیچھے جا ہوئی- مجھے گھر جانا ہے- مجھے گھر جانے دو-میں تمہاری منت کرتی ہوں- وہ مڑ کر جانے لگا تو وہ تڑپ کر اس کے سامنے آکھڑی ہوئی-اور پھر سے ہاتھ جور دیئے- صبح ہوگی تو بدنام ہو جاؤں گی- میں نے کہا نہ بی بی مجھے یہ جزباتی تقریر متاثر نہیں کرتیں-اس نے اپنے گال پر ہلکا سا ہاتھ پھیرا پھر استہزائیہ مسکرایا-پھر کہا-تم بہادر لڑکی ہو-میں تمہیں گھر جانے دوں گا مگر ابھی نہیں-ابھی تم ادھر ہی رہو گی کم از کم صبح تک،،،،،، میں بدنام ہو جاؤں گی اے ایس پی صاحب-رات گزر گئی تو میری زندگی تباہ ہو جائے گی- ہوجائے مجھے پروا نہیں ہے-وہ سگریٹ ایش ٹرے میں ڈال کر دروازے کی طرف بڑھا- وہ ہاتھ جوڑے کھڑی رہ گئی اور وہ دروازہ باہر سے بند کر کے جا چکا تھا-دروازے کی جانب وہ لپکی اور ڈور ناب زور سے کھینچا-وہ باہر سے بند تھا- دروازہ کھولو ۔۔۔۔۔۔۔ کھولو- وہ دونوں ہاتھوں سے زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی- مگر جواب ندارد ۔۔۔۔۔ وہ بے بس سی زمین پہ بیٹھتی چلی گئی- فواد ۔۔ فواد اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے؟اسے یقین نہ آتا تھا-اس نے کیا بگاڑا تھا فواد کا جو اس نے چند روپوں کے عوض اسے بیچ دیا؟ وہ گھٹنوں پر سر رکھے،آنسو بہاتی وہ شام یاد کر رہی تھی-جب وہ اسے دیکھتے دیکھتے چونکا تھا اور چائے کا کپ لیتے ہوئے اس کی انگلیاں مس ہوئی تھیں- کم عمر ؛خوبصورت اور ان چھوئی-آغا نے کہا تھا یہ ہماری ڈیمانڈ پر پر پوری اترتی تھی-تو وہ اس لیئے چونکا تھا کہ کسی عیاش شخص کی بتائی گئی ڈیمانڈ پہ اس کے گھر میں پلنے والی یتیم لڑکی پوری اتری تھی- تم کتنی خوبصورت ہو محمل!مجھے پتہ ہی نہیں تھا -اس کے لہجے کا افسوس اور پھر اس کی ساری عنایتیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی کمزوری کیا ہے،اس نے اس کو اس کی من پسند چیزیں دکھائی یہاں تک جب وہ اس کے مکمل قابو میں اگئی تو فواد نے اسے ادھر بھیج دیا اور وہ بھی کتنی بے وقوف اور سادہ تھی،اسے پتہ ہی نہیں چلا-وہ آفس میں اس کو ادھر ادھر چیزیں سائن کروانے بھیج دیتا ہے اور کوئی کام تو اس نے محمل سے لیا ہی نہیں تھا،وہ تب بھی نہ سمجھ سکی؟ اور اب یہ شخص ہمائیوں داؤد وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ آدمی کون تھا-اس سے یہ سب باتیں کون پوچھ رہا تھا-اور اس کا کیا مقصد تھا-اسے صرف علم تھا تو اتنا کہ اگر رات بیت گئی تو صبح اسے کوئی قبول نہیں کرے گا-اور قبول تو شاید اب بھی کوئی نا کرے-کوئی فواد کے خلاف اس کی بات کا یقین نہیں کرے گا، کوئی اسے بے گناہ نہیں مانے گا اور فواد وہ تو شاید سرے سے ہی مکر جائے کہ وہ کبھی محمل کو آفس لے کر ہی نہی گیا-خدایا وہ کیا کرے؟ اس نے بھیگا چہرہ اٹھایا-کمرے قدرے دھندلا سا دکھائی دیتا تھا- اس نے پلکیں جھپکائیں-تو آنسوؤں کی دھند لڑھکتی چلی گئی- کمرہ نہایت خوبصورتی سے آراستہ تھا-قیمتی قالین،خوبصورت فرنیچر،اور بھاری مخملیں پردے؟وہ چونکی-کیا انکے پیچھے کوئی کھڑکی تھی؟ وہ پردوں کی طرف دوڑی اور جھٹکے سے انہیں ایک رخ کھینچا- پردہ کھلتا چلا گیا- باہر ٹیرس تھا-اور اس کی روشنیاں جلی ہوئیں تھیں-جن میں وہ بغیر دقت کے دو گن مین چوکس کھڑے دیکھ سکتی تھی- اس نے گھبرا کر پردہ برابر کیا- اللہ تعالی پلیز! وہ رو کر دعا کرنے لگی اور جب دعا کرتے کرتے تھک گئی تو ۔۔۔۔ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکھڑی ہوئی- اور اپنا عکس دیکھا- رونے سے سارا کاجل بہہ گیا تھا،آنکھیں متورم اور قدرے بھیانک لگ رہی تھیں-جوڑا ڈھیلا ہو کر گردن تک آگیا تھا اور گھنگھریالی لٹوں کے بل سیدھے ہونے لگے تھے- محمل ایک مضبوط اعصاب کی لڑکی تھی،اس کے باوجود فواد کے اس بھیانک روپ کا صدمہ اتنا شدید تھا کہ شروع میں تو اس نے ہمت ہاردی اور اعصاب جواب دے گئے لیکن اب وہ کسی حد تک سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی تھی-فواد سے سارے بدلے تو وہ بعد میں چکائے گی ابھی اسے اس اکھڑ اور سرد مہر اے ایس پی کی قید سے نکلنا تھا- اس نے ادھر ادھر دیکھا،کچھ خاص نظر نہ آیا- تو پھر وارڈ روب کھولا- اندر مردانہ کپڑے ٹنگے ہوئے تھے- اس نے کچھ ہینگرز الٹ پلٹ کیئے اور کچھ سوچ کر ایک کرتا شلوار نکالا-براؤن کرتا اور سفید شلوار کو پہن کر بال سیدھے کر کے بینڈ میں باندھے-اور باتھ روم میں جا کر منہ اچھی طرح دھویا-باہر نکلنے کے لیئے کسی روزن کو تلاشتی اس کی نگاہوں کو باتھ روم کی کوئی کھڑکی دروازہ نظر نہ آیا تو مایوسی سے پلٹنے ہی لگی تھی کہ ایک دم چونکی- ایک دیوار میں شیلف تھا-اس میں شیمپو اور شیو کا سامان رکھا تھا-شیلف کے اندر کا رنگ باقی دیوار سے زیادہ چکنا سفید تھا-بھلا کیوں؟ وہ قریب آئی سارا سامان نیچے اتارا،پھر بغور اندر دیکھتے ہاتھ پھیرا تو احساس ہوا اس خانے کے پیچھے دیوار نہیںبلکہ کارڈ بورڈ کے سفید پھٹے تھے جو میخوں سے جڑے تھے-میخیں کچی اور تازہ لگ رہی تھی- آگے کا کام بہت آسان تھا-اس نے سارے نل کھول دیئے،تاکہ آوازباہر نا جائے اور تھوڑی سی محنت کے بعد پھٹے کھینچ کر اتار لیئے-وہ جلدی میں لگائے لگ رہے تھے،سو اسے زیادہ زور نہیں لگانا پڑا تھا- ان کے پیچھے کھڑکی تھی- اچھی خاصی چوڑی تھی-وہ اس میں سے با آسانی گزر سکتی تھی-بے حد مطمئن ہو کر محمل نے کھڑکی کھولی اور جب باہر جھانکا تو ایک لمحے کو تو سر چکرایا-کھڑکی سے دو فٹ کے فاصلے پر چار دیواری کھڑی تھی-اور چار دیواری کے درمیان صرف خلا تھا-اور نیچے بہت نیچے پکا فرش تھا-وہ اس گھر کی غالبا تیسری منزل پر موجود تھی- شاید اسی لیئے انہوں نے کچے پکے پھٹے لگا دیئے تھے-اندازہ ہو گا کہ وہ یہاں سے نہیں نکل سکتی- اس کا ڈوب کر ابھرا-یہ آخری راستی بھی بند ہوتا نظر آہا تھا-وہ مایوسی سے نل بند کرنے ہی لگی تھی کہ سناٹے میں ہلکی سی آواز سنائی دی تھی- آپ صحن میں کیا کر رہی ہیں؟ باجی وہ میڈم مصباح نے کہا تھا کی ارلی مارننگ منہ پہ گلاس رکھ کر پریکٹس کروں تو آواز اچھی نکلتی ہے-وہی کر رہی ہوں- لڑکیوں کی باتیں کرنے کی آوازیں بہت قریب نہیں تو بہت دور بھی نہیں تھی- وہ چونکی اور پھر باتھ روم کی لائٹ بند کی- باہر کا منظر قدرے واضح ہوا-کھڑکی سے دیوار کا فاصلہ دو فٹ کا تھا،مگر وہ دیوار کی منڈیر تھی-اور وہ آوازیں کہیں نیچے سے نہیں برابر سے آرہی تھی-بالکل برابر یعنی اس باتھ روم کے برابر بالکل سامنے صحن تھا- اگر وہ یہ دیوار پھاند جائے تو ۔۔۔۔۔۔۔؟ اس اچھوتے خیال نے ذہن میں سر اٹھایا تو اس نے جوتے اتارے اور نیچے جھانکا- اگر گر گئی تو نہیں بچے گی-مگر موت اس ذلت سے تو بہتر ہوگی جو صبح یا اس سے بھی بدیر گھر پہنچنے پہ اسے اٹھانی پرے گی- اس نے دوننوں ہاتھ چوکھٹ پر رکھے ہی تھے- کہ کمرے کا دروازہ کسی نے زور زور سے کھٹکھٹایا-دروازے کی وہ اندر سے کنڈی لگا چکی تھی-سو وہ کھول نہ پا رہے تھے-یقینا کسی نے پھٹے اکھاڑنے کی آواز سن لی تھی-وہ لمحے بھر کو بھی نہ گھبرائی اور ہاتھ برھا کر دیوار کو ٹٹولا- وہ قریب ہی تھی- اونہوں ۔۔۔۔ برابر والے صحن میں وہ کھنکھاری تھی-اگلے اور لمحے اس کی مدھر مگر ہلکی آواز اندھیری فضا میں گونجنے لگی- اللھم جعل فی قلبی نورا- (اے اللہ میرے دل میں نور ڈال دے) محمل نے دیوار پہ دونوں ہاتھ رکھے اور نیچے دیکھے بغیر دونوں پاؤن بھی رکھ دیئے وفی بصری نورا وفی سمعی نورا-(اور میری بصارت میری سماعت میں نور ہو) گھوڑے کی پیٹھ پر سوار سی وہ دیوار پر بیٹھی اور نیچے دیکھا- صحن کی زمین بہت قریب تھی-دیوار چھوٹی سی تھی- وعن یمنی نورا وعن یساری نورا-(اور میرے دائیں اور بائیں جانب نور ہو)
اس نے آہستہ سے دونوں پاؤں زمین پر رکھے-وہ بالآخر برابر والی چھت پر اتر آئی تھی-لمحے بھر کو وہ پلٹ کر بے یقین سی دیوار کو دیکھنے لگی-جس کے اس پار اے ایس پی ہمایوں کا گھر تھا-بلکہ قید خانہ جس سے وہ نکل آئی تھی- اسی پل دیواد کے پار سے روشنی سی چمکی وہ ٹھٹھکی یقینا اس نے باتھ روم کی لائٹ آن کی تھی-اپنی بے وقوفی پے اسے غصہ آیا-اسے باتھ روم کا دروازہ بند کر کےنل کھول کے آنا چاہیئے تھا- مگر عادی فراری تو نہ تھی یا پھر اس لڑکی کی آواز کے فسوں میں ایسی کھوئی تھی کہ ہوش نہ رہا تھا- وفوقی نورا وتحتی نورا (اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو-) سامنے ایک برامدہ تھا- جس کے آگے گرل لگی ہوئی تھی-گرل کا دروازہ کھلا تھا اور دروازے سے کافی دور ایک لڑکی زمین پہ بیٹھی،گرل سے ٹیک لگائے-آنکھیں بند کیئے منہ پہ گلاس رکھے گنگنارہی تھی- وہ دیوار کے ساتھ ساتھ گھٹنوں کے بل رینگتی گرل تک آئی- وہ لڑکی دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی مناجات میں گم تھی- واجعل لی نورا- (اور میرے لیے نور بنا دے ۔۔) محمل چاپ پیدا کیے بغیر کھلے دروازے سے اندر رینگ گئی-لڑکی اسی طرح مگن سی تھی- اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ ادھر ادھر دیکھا-لمبا سا برآمدہ خالی تھا-بس دور ایک فریج پڑی تھی- اور اس کے ساتھ ساتھ جالی دار الماری تھی-اندھیرے میں مدھم چاندنی کے باعث اسے بس اتنا نظر آیا-وہ بہت آہستہ سے اٹھی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی فریج کے پاس آئی- ولحمی نورا ودمی نورا-” (اور میرے گوشت اور میرے خون میں نور ہو) فریج اور الماری کے درمیان چھپنے کی جگہ تھی- وہ جھٹ ان کے درمیان آ بیٹھی- مگر سامنے ہی دروازہ تھا- وہ لڑکی واپس آتی تو سیدھی اس پر نظر پڑتی-نہیں اسے یہاں چھپنے کی بجائے نیچے جانا چاہیئے- “وشعری نورا وبشری نورا -(اور میرے بال اور کھال میں نور ہو) اندر جانے والا دروازہ بند تھا-اگر اسے کھولتی تو آواز باہر جاتی-وہ پریشان سی کھڑی ہوئی-تب ہی جالی دار الماری کے دروازے کے ہینڈل سے کچھ لٹکا ہوا نظر آیا-اس نے جھپت کر وہ اتارا سیاہ جاجٹ کا لبادہ- اس نے چاند کی روشنی میں آنکھیں پھاڑ پھار کر دیکھنا چاہا “واجعل فی نفس نورا- (اور میرے نفس میں نور ہو)
اس نے لبادہ کھولا-وہ سیاہ عبایا تھا اور ساتھ ایک گرے اسکارف-محمل نے پھر کچھ نہیں سوچا اور عبایا پہننے لگی-تبھی اسے احساس ہو وہ مردانہ کرتا شلوار میں کھڑی ہے اور ننگے پاؤں ہے-وہ عبایا بھی اسے غنیمت لگا تھا- ” واعظم لی نورا”-( اور میری ہڈیوں میں نور ہو-) اسکارف کو اس نے بمشکل چہرے کے گرد لپیٹا- عادت نہ تھی تو مشکل لگ رہا تھا-اب اسے کسی طرح نیچے جا کر سڑک تک پہھنچنا تھا-آگے اپنے گھر کا رستہ تو آنکھیں بند کر کے بھی آتا تھا- :الھم اعطنی نورا -” (اے اللہ مجھے نور عطا فرما-) وہ اسی ترنم میں پڑھ رہی تھی-محمل تیزی سے عبایا کے بٹن بند کر کے اسکارف پر ہاتھ پھیر کے درست کر رہی تھی-کہ ایک دم اسے بہت خاموشی لگی- باہر صحن بہت چپ سا پوگیا تھا-شاید اس لڑکی کی دعا ختم ہوگئی تھی- اس نے قدرے گبھراہت قدرے جلد بازی میں دروازہ کھولنا چاہا-اسی پل اس لڑکی نے پیچھے گرل کی چوکھٹ پر قدم رکھا- اسلام علیکم ۔۔۔۔ کون؟ چوکنی سی آواز اس کے عقب میں ابھری-تو اس کے بڑھتے قدم رک گئے- دروازے پر ہاتھ رکھے رکھے وہ گہری سانس لے کر پلٹی۔۔۔۔۔ وہ سامنے شلوار قمیض میں ملبوس’سر پے دوپٹہ لپیٹے، ہاتھ میں کتاب پکڑے، الجھی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی- محمل کا دل زور سے دھڑکا تھا-وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی تھی جانے اب کیا ہوگا؟ وہ میں آپ ک آواز سن کر آئی تھی بہت اچھی تلاوت کرتی ہیں آپ- تلاوت نہیں دعاۓ نور تھی-میری آواز نیچے تک آرہی تھی کیا؟لڑکی کا انداز سادہ مگر محتاط تھا-محمل کا دماغ تیزی سے کال کر رہا تھا-اسے کسی طرح اس لڑکی کو باتوں میں الجھا کر وہاں سے نکلنا تھا-ایک دفعہ وہ سڑک تک پہنچ جائے گھر کے تمام راستے اسے آتے تھے- “خوبصورت آواز ہر جگہ پہنچ جاتی ہے- میں تلاوت سمجھ کر آئی تھی معلوم نہ تھا آپ دعا مانگ رہی ہیں- دعا مانگ نہیں یاد کر رہی تھی- آپ نے بتایا نہیں آپ کا نام؟ شائستگی سے کہتی وہ لڑکی دو قدم آگے آئی تو گرل سے چھن کر آتی چاندنی میں اس کا چہرہ داضح ہوا- چکنی سپید رنگت-بے حد گلابی ہونٹ اور بادامی آنکھیں-جن کی رنگت سنہرے پکھراج کی سی تھی-گولڈن کرسٹل یہ پہلا لفظ محمل کے ذہن میں آیا تھا-اور اسے دیکھتے ہی وہ لمحے بھر کو چونکی تھی- بہت شدت سے محمل کو احساس ہوا تھا کہ اس نے اس لڑکی کو کہیں دیکھا ہوا تھا-کہیں بہت قریب-ابھی کچھ وقت پہلے اس کے نقش یہ بھوری آنکھیں تھیں جو شناسا تھیں- “میں محمل ہوں- جانے کیسے لبوں سے پھسل پڑا-مجھے دراصل راستے نہیں پتا تو بھٹک جاتی ہوں- اوہ آپ ہوسٹل میں نئی آئی ہیں؟ نیو کمر ہیں؟ اور اسے امید کا ایک سرا نظر آگیا-وہ شاید کوئی گرلز ہاسٹل تھا- جی میں شام میں ہی آئی ہوں-نیو کمر اوپر آتو گئی ہو مگر نیچے جانے کا رستہ نہیں مل رہا ۔۔۔۔۔۔ ” نیچے آپ کے رومز تو تھرڈ فلور پر ہی ہے نا؟پھر نیچے ۔۔۔۔۔۔۔ اوہ آپ تہجد پڑھنے کے لیئے اٹھی ہوں گی یقینا – وہ خود سے ہی کہہ کر مطمئن ہوگئی-میں بھی تہجد کے لیئے بڑے ہال میں جا رہی ہوں-آپ میرے ساتھ آجائیں- اس لڑکی نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا’پھر گردن موڑ کر اسے دیکھا- میں فرشتے ہوں-آجا ئیں- وہ دروازہ دھکیل کر آگے بڑھ گئی-تو محمل بھی متذبذب پیچھے ہو لی- سامنے سنگ مر مر کی طویل راہداری تھی-دائیں طرف اونچی کھڑکھیاں تھیں جن سے چھن کر آتی چاندنی سے راہداری کا سفید مرمری فرش چمک رہا تھا- فرشتے راہداری میں تیز تیز آگے چلتی جا رہی تھی- وہ ننگے پاؤں اس کے تعاقب میں چلنے لگی-مردانہ کھلے پائنچے اس کے پاؤن میں آرہے تھے- مگر اوپر عباۓ نے ڈھانپ رکھا تھا- راہداری کے اختتام پر سیڑھیاں تھیں-سفید چمکتے سنگ مر مر کی سیڑھیاں جو گولائی میں نیچے جا رہیں تھی- اس نے ننگے پاؤں زینے پہ رکھے-رات کے اس پہر زینوں کا سنگ مر مر بے حد سرد تھا-یخ ٹھنڈا- وہ محسوس کیے بغیر تیز تیز سیڑھیاں اترنے لگی- تین منزلوں کے زینے ختم ہوئے تو سامنے ایک کشادہ برآمدہ تھا-برآمدے کے آگے بڑے بڑے سفید ستون تھے اور سامنے لان نظر آرہا تھا-ہلکی چاندنی میں برآمدہ نیم تاریک سا لگ رہا تھا- ایک کونے میں چوڑی بے حد چوڑی سیڑھیاں نیچے جاتی دکھائی دے رہی تھیں-فرشتے ان سیڑھیوں کی طرف بڑھی-تو لمحے بھر کو تو اسے خوف آیا-وہ بے حد چوڑی سیڑھیاں کافی نیچے جا رہی تھیں-مدھم چاندنی میں چند زینے ہی دکھائی دیتے تھے-آگے سب تاریکی میں گم تھا جانے کیا تھا نیچے؟ فرشتے کے پیچھے وہ نیم تاریک زینے سہج سہج کے اترنے لگی-بہت نیچے جا کر فرش قدموں تلے آیا تو محسوس ہوا-کہ نیچے نرم سا قالین تھا-جس میں اس کے پاؤں دھنس گئے تھے-وہ ایک بے حد طویل و عریض کمرے میں کھڑی تھی-وہ کدھر شروع کدھر ختم ہوتا تھا کچھ پتہ نہ چلتا تھا-وہ ادھر ادھر گردن گماتی اندھرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی- فرشتے نے دیوار پر ہاتھ مارا-بٹن دبانے کی آواز آئی-اور اگلے ہی لمحے جیسے پورا آسمان روشن ہوگیا-محمل نے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا- وہ ایک بہت بڑا سا ھال تھا-چھت گیر فانوس اور اسپاٹ لائٹس جگمگا اٹھی تھیں-ہال چھے اونچھے ستونوں پہ کھڑا تھا- بے حد سفید ستون ، دیواریں رہشنیوں سے جگمگاتی اونچھی چھت اور دیواروں میں اونچی گلاس ونڈوز- وضو کی جگہ وہ سامنے ہے-فرشتے نے اپنے دوپٹے کو پن لگاتے ہوئے ایک طرف اشارہ کیا-ٓ تو وہ جیسے چونکی -پھر سر ہلا کر اس طرف بڑھ گئی- وضو کی جگی نیم تاریک تھی-سنگ مر مر کی چونکیاں اور سامنے ٹونٹیاں-ایک ایک ٹائل چمک رہی تھی-وہ ہر شئے کو ستائش سے دیکھتی ایک چوکی پر بیٹھ گئی اور جھک کر ٹونٹی کھولی- فواد اور وہ اے ایس پی ۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل ابراہیم کو سب فراموش ہو چکا تھا- سنو کھلے دروازے سے فرشتے نے جھانکا- بسم اللہ پڑھ کر وضو کرنا- محمل نے یونہی سر ہلا دیا-پھر اپنے گیلے ہاتھوں کو دیکھا جن پر ٹونٹی سے پانی نکل کر پھسل رہا تھا-وہ سر جھٹک کر وضو کرنے لگی- فرشتے جیسے اس کے انتظآر میں کھڑی تھی- محمل اس کے برابر نماز کے لیئے کھڑی ہو گئی شاید تہجد پڑھنی تھی- اس نے ہاتھ اٹھائے تو رات بھر کے تمام مناظر ذہن میں تازہ ہو گئے-درد کی ایک تیز لہر سینے میں اٹھی تھی- دھوکہ دہی اعتماد کا خون،فراڈ بے وقوف بنائے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا احساس ،کیا کچھ فواد نے نہیں کیا تھااس کے ساتھ؟وہ کس کس کا ماتم کرتی؟ سلام پھیر کے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے تو ساری عمر کی محرومیاں اور نارسائیاں سامنے آگئیں- میں کیا مانگوں؟مانگنے کی ایک طویل فہرست ہے میرے سامنے-مجھے کبھی وہ نہ ملا جس کی میں نے تمنا کی تھی-جو ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیئے انسان کے پاس ہونا چاہیئے،مجھے کبھی بھی وہ نہ ملا جو لوگ جمع کرتے ہیں-کیوں؟کیوں میرے پاس وہ سب نہیں ہے جو لوگ جمع کرتے ہیں؟ اور جب کوئی جواب نہ دیا تو اس نے چہرے پر ہاتھ پھیر کے آنسو خشک کیئے اور سر اٹھایا- سامنے ہال کے سرے پر ایک بڑا سا اسٹیج بنا تھا-درمیان میں میز اور کرسی رکھی تھی-ایک طرف فاصلے پر ڈائس بھی پڑا تھا-شاید وہاں درس و تدریس کا کام بھی ہوتا تھا- کرسی کے پیچھے دیوار پر ایک بے حد خوبصورت خطاطی سے مذین فریم آویزاں تھا-اس پر وہ سرسری سی نگاہ ڈالتی ایک دم ٹھٹک کر رکی- خوب صورت عربی کے نیچے اردو میں خوشخط لکا تھا- “پس لوگوں کو چاہیئے اسی میں خوشی منائیں- قرآن ان سب چیزوں سے بہتر ہے-جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں- (یونس: 58) وہ یک لخت چونکی- کیا دیکھ رہی ہو محمل؟فرشتے بغور اسے دیکھ رہی تھی- “یہی کہ میں نے بھی ابھی کچھ ایسا سوچا تھا-جو ادھر لکھا ہے کتنا عجیب اتفاق ہے نا- اتفاق کی کیا بات ہے؟یہ فریم اسی لیئے تو ادھر لگا تھا-کیونکہ تم نے آج صبح یہی یہ بات سوچنی تھی- مگر فریم لگانے والے کو تو علم نہیں تھا کہ میں یہی سوچوں گی- لیکن اس آیت کے اتارنے والے کو تو تھا نا-“ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگی-کیا مطلب؟ جس نے قرآن اتارا ہے وہ جانتا ہے تم نے کب کیا سوچنا ہے اور یہ تمہاری سوچ کا جواب ہے-“ “نہیں اس نے شانے اچکائے-میری سوچ کا اس سے کوئی تعلق نہیں،میں تو بہت کچھ سوچتی رہتی ہوں- مثلا کیاَ؟ وہ دونوں دو زانو ہو کر بیٹھی تھیں-اور فرشتے بہت نرمی سے اسے دیکھ رہی تھی- “یہی کہ اچانک کسی بے قصور آدمی پہ مصیبت کیوں آجاتی ہے؟ غلط بالکل غلط ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں مانتی-وہ جیسے بھڑک اٹھی-ایک لڑکی کو اس کا تایا زاد پرپوز کرنے کے بہانے ڈنر کا جھانسہ دے کر خوب بننے سنورنے کا کہہ کر اپنے کسی عیاش دوست کے گھر جا کر ایک رات کے لیئے بیچ آئے یہ خواہ مخواہ کا ظلم خواہ مخواہ کی مصیبت نہیں کیا؟ نہیں-“ “نہیں؟ محمل نے بے یقینی سے پلکیں جھپکائیں- ہاں قطعا نہیں-اسی صورت حال سے بچنے کے لیئے تو اللہ تعالی نے بہت پہلے بتا دیا تھا- یقینا اس لڑکی کو علم ہوگا کہ اسے ایک نامحرم کے لیئے تیار نہیں ہونا چاہیئے-اس کے ساتھ ڈنر پر نہیں جانا چاہیئے-کزن بھی تو نا محرم ہے-اور اسے یہ بھی پتہ ہوگا کہ اسے اپنا چہرہ ایسے ڈھکنا چاہیئے کہ کسی نامحرم بلفرض کزن کو بھی علم نہ ہوسکے کہ وہ اتنی خوبصورت ہے کہ وہ اسے بیچنے کا سوچے- اب یہ بتاؤ ظلم ہے یا اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی؟ وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ بنا پلک جھپکے فرشتے کو دیکھ رہی تھی- اور یقینا “اپنے کزن کے جھانسے میں آنے سے پہلے اللہ کے ؔحکم سے کسی نے اسے خبردار ضرور کیا ہوگا-اس کے ضمیر نے یا شاید کسی انسان نے مگر اس نے پھر بھی نہیں سنا اور اس کے باوجود اللہ تعالی اسے عزت اور حفاظت سے رکھے-یہ تو اللہ تعالی کا بہت بڑا احسان ہےٓ-ہم اتنے بے قصور ہوتے نہیں محمل جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں- وہ کہے جا رہی تھی اور اس کے ذہن میں دھماکے ہو رہے تھے- چچاؤں کا قطیعت سے فواد کے آفس میں کام کرنے سے منع کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن کے الفاظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ تنبیہہ جو سدرہ کی منگنی والے روز اس نے کی تھی- اس نے اپنی دائیں کلائی دیکھی-اس پر ادھ مند مل ہوئے زخم کے نشان تھے-ہاں حسن نے اسے خبردار کیا تھا- میں فرشتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔ واقعی مجھے-“ اپنی نادانیوں پر کسی کو گواہ نہیں بناتے محمل! ــــــــــــــــــــــــــــــ چلو فجر کی اذآن ہورہی ہے نماز پڑھتے ہیں- آگہی کا آئینہ بہت بھیانک تصور پیش کر رہا تھا اسے ایک ایک کر کے تمام باتیں پھر سے یاد آنے لگیں-فرشتے ٹھیک کہہ رہی تھی-سب سے زیادہ قصور تو خود اسی کا تھا-وہ آخر فواد کی گاڑی میں بیٹھی ہی کیوں تھی-اس نے دل اور مصحف میں سے دل کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ اس نے بھیگی آنکھیں اٹھائیں- فرشتے اسی سکون سے رکوع میں کھڑی تھی- اور سامنے وہی الفاظ چمک رہے تھے-قرآن سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ جمع کر رہے ہیں- اس کا دل رو دیا تھا- کیسے ڈھٹائی سے اس نے اس سیاہ فام لڑکی کو مصحف واپس کیا تھا-اس سمے اس کی آواز میں کیسی بے رخی تھی- ٹی وی پر اذان لگتی، یا تلاوت ہوتی تو وہ چینل بدل دیا کرتی تھی- سیپارے پڑھنا کتنا کٹھن لگا کرتا تھا-اور فجر تو سوائے پیپروں کے اس نے کبھی نہیں پڑھی تھی- اب وہی فجر پڑھنے کے لیئے وہ فرشتے کے برابر کھڑی ہو گئی تھی- میرے اللہ مجھے گھر واپس پہنچا دے- وہ پھر سے رو دینے کو تھی- مجھے تیری قسم ہے میں پھر کبھی فواد بھائی کو کہیں بھی اکیلے نہیں ملوں گی- میں قسم کھاتی ہوں آئی سوئیر! دعا مانگ کر قدرے پر سکون ہوئی تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر اٹھی- ایک بات پوچھوں فرشتے؟وہ دونوں ساتھ ساتھ ہال کی سیڑھیاں چڑھ رہیں تھیں- پوچھو! قسم کھانے سے اللہ مان جاتا ہے؟ “قسم نا پسندیدہ چیز ہے یہ قسمت نہیں بدلتی-جو ہونا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے- اور اگر قسم کھا لی جائے تو؟ تو مرتے دم تک اس کو نبھانا پڑتا ہے-آخری سیڑھی چھڑھتے فرشتے ذرا سا چونکی-کوئی الٹی سیدھی قسم مت کھانا کہ یہاں سے رہائی ملنے پہ تم فلاں اور فلاں کام کرو گی- رہائی؟برآمدے کی چوکھٹ پار کرتے ہوئے محمل گڑبڑا گئی-دل زور سے دھڑکا- ہاں تمہیں گھر جانا ہے نا؟میں تمہیں چھوڑ آتی ہوں-وہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی- رک کیوں گئی آؤ نا؟ آپ کو ۔۔۔۔۔۔ آپ کو کیسے پتا چلا؟ بات یہ ہے محمل -اول تو تہجد کے وقت یہاں کوئی عبایا پہن کر نہیں پھرتا-دوم یہ کہ تم نے میرا عبایا اور اسکارف پہن رکھا ہے-اور سوئم میں نے تمہیں صحن پھلانگتے دیکھ لیا تھا- محمل نے بوکھلا کر اپنے جسم پہ موجود عبایا کو دیکھا-جس سے لمبی مردان شلوار کے پائنچے ذرا ذرا سے جھانک رہے تھے- وہ دراصل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ہمایوں کی باتھ روم کی کھڑکی ہماری چھت پر کھلتی ہے- اس نے تمہیں باتھ روم میں بند کر دیا تھا؟میں اس سے بات کروں گی-اسے ایسے نہیں کرنا چاہیئے تھا-تھورا سا خشک مزاج ہے-مگر دل کا برا نہیں ہے-آؤ-پھر اس کی شاکڈ شکل دیکھ کر وضاحت کی- “ہمایوں میرا فرسٹ کزن ہے وہ برا آدمی نہیں ہے آؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی پل گیٹ کسی نے زور سے بجایا- ساتھ ہی بیل بھی دی-فرشتے نے گہری سانس لی-آؤ لڑکی – اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گیٹ تک لائی،پھر ہاتھ چھوڑ کر دروازہ کھولا- فرشتے ادھر وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام علیکم اور یہ کیا غلط حرکت ہے؟تمہیں مسئلہ اس کے کزن کے ساتھ ہے تو اس کو کیوں باتھ روم میں بند کیا تھا؟ ” بالکل ٹھیک کیا تھا ہے کدھر وہ؟ وہ جوابا بگڑ کر بولا تھا- محمل سہم کر قدرے اوٹ میں ہوگئی-یہ تو وہی تھا وہ اس کی آواز پہچانتی تھی- وہ میرے ساتھ ہے-مگر تمہیں اس س عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیئے تھا-فرشتے کے لہجے میں دبی دبی سختی تھی- جو بھی ہے تم اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “نہیں ہمایوں! تم اسے مجرم کی طرح ٹریٹ مت کرو-اس کا کیا قصور ہے؟وہ تو اپنے بھائیوں جیسے کزن پر ٹرسٹ کر کے معصومیت میں چلی آئی تھی- وہ حق دق سنے جا رہی تھی-ابھی تو فرشتے کو بالواسطہ ساری کتھا سنا آئی تھی-اور تب فرشتے فواد کو نامحرم کہہ رہی تھی-اور اب ہمایوں کے سامنے اس کی نادانیوں پر کیسے پردہ ڈال رہی تھی- اس کا قصور یہ ہے کہ یہ فواد کریم کی کزن ہے- اسے لے کر آؤ-اب کے ہمایوں داؤد کا لہجہ متوازن تھا-فرشتے اسے راستہ دینے کے لیئے چوکھٹ پار کر کے باہر چلی گئی تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ گیٹ کی اوٹ سے نکلی- سامنے ہی وہ کھڑا تھا-یونیفارم میں ملبوس’مکمل طور پر تیار،اکھڑ تیور اور ماتھے پر بل لیے- جب میں نے بکواس کی تھی کہ وہاں رہو تو تم نے قدم کیوں باہر نکالا؟ نوکر نہیں ہوں میں آپ کی، جو آپ کا حکم مانوں- آپ ہے کون مجھے حکم دینے والے،ہاں؟وہ بھی جوابا غرائی تھی- وہاٹ؟تم-“ زبان سنبھال کر بات کریں اے ایس پی صاحب! میں مسجد میں کھڑی ہوں اور اب آپ کا مجھ پر کوئی زور نہیں ہے-اس نے گیٹ کا کنارہ مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا- تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ سخت کہتے کہتے ضبط کر گیا-پھر فرشتے کی طرف پلٹا جو خاموشی سے سب دیکھ رہی تھی- اس سے کہو میرے ساتھ آئے میں اس کا دشمن نہیں ہوں- فرشتے نے خاموشی سے ہمایوں کی بات سنی اور جب وہ چپ ہوا تو وہ محمل کی طرف مڑی- اس کے ساتھ چلی جاؤ یہ تمہارا دشمن نہیں ہے- مجھے ان پر رتی برابر بھروسہ نہیں ہے- ہونا بھی نہیں چاہیئے مگر تمہارے تنہا گھر جانے اور پولیس موبائل میں جانے میں فرق ہوگا-آگے تم اپنے فیصلوں میں آزاد ہو- بات کچھ ایسی تھی کہ وہ خاموش سی ہو گئی- ٹھیک ہے آئیں- اس نے باہر قدم رکھے،پھر پلٹ کر فرشتے کو دیکھا جو گیٹ کے ساتھ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی تھی- اس کی پشت پر وہ عالیشان تین منزلہ عمات تھی- جس کے اونچے سفید ستون بہت وقار سے کھڑے تھے-جیسے کوئی بلند و بالا سفید محل ہو- اس کا گنبد نہ تھا مگر فرشتے اسے مسجد کہہ رہی تھی- اس سے متصل بنگلہ اپنی خوبصورت آرائش کے ساتھ وہیں موجود تھا-جہاں اس نے رات میں دیکھا تھا- تھینکس وہ کہہ کر رکی نہیں- ہمایوں سامنے کھڑی پولیس موبائل کی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا-وہ اعتماد سے چلتی ہوئی آئی اور فرنٹ ڈور کھول کر نشست سنبھالی- آپ مجھے میرے گھر لے کے جا رہے ہیں؟ نہیں-سرد سا کہہ کر وہ گاڑی سڑک پر ڈال چکا تھا- پھر؟پھر ہم کہاں جا رہے ہیں؟ تھانے! مگر مجھے گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بی بی مجھے بحث پسند نہیں ہے خاموش رہو- اس کو جھڑک کر ہمایوں نے سپیؔڈ اور بڑھا دی- وہ نم آنکھوں سے سامنے سڑک کو دیکھنے لگی- جانے اس کی قسمت اس کو اب کیا کیا دکھانے والی تھی-
آج آغا ابراہیم کی عالیشان محل نما کوٹھی کے لان میں صبح سے ہی سب جمع تھے- آغا ابراہیم چہرے پہ ڈھیروں غیض و غضب لیے پر رعونت انداز میں کرسی پر برا جمان تھے- مہتاب تائی فضہ چاچی اور ناعمہ چاچی بھی پاس ہی کرسیوں پر بیٹھی معنی خیزی سے مدھم سرگوشیاں کر رہی تھیں- غفران چچا اور اسد چچا بھی پاس ہی پریشان بیٹھے تھے- برآمدے کئ مختصر زینے پر آرزو بیٹھی تھی- گھٹنوں پہ پلیٹ رکھے، وہ اپنی ازلی بے نیازی سے توس پر جیم لگا رہی تھی- اس کے پیچھے برآمدے میں بچھی کرسیوں پہ باقی لڑکیاں بیٹھی کھسر پھسر کر رہی تھیں- حسن مضطرب سا گھاس پر ٹہل رہا تھا-بار بار اپنے سیل پر کوئی نمبر پریس کرتا وہ جھنجھلا رہا تھا-وسیم اپنے کمرے میں تھا اور ۔۔۔۔۔۔۔ فواد آغا جان کے برابر کرسی پر بیٹھا سرسری سا اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا- گاہے بگاہے سر اٹھا کر سب کے چہروں کے تاثرات دیکھتا-اس کے انداز میں اطمینان و سرشاری تھی- بس ایک مسرت تھی جو کچن میں کرسی پر بیٹھی خاموش آنسو بہا رہی تھی- اس کی ساری زندگی کی ریاضت رائیگاں گئی تھی-محمل کل اکیڈمی کا کہہ کر باہر نکلی تھی اور جب شام تک واپس نہ آئی تو ان کا دل بیٹھنے لگا تھا- کتنے نوافل پڑھ ڈالے کتنی دعائیں کی مگر وہ واپس نہیں آئی- یہ بات چھپنے والی کہاں تھی بھلا؟سب کو خبر ہو ہی گئی-آغا جان تو سراپا غیض و غضب بن گئے-تھانے جانے کی بات کی تو فواد نے ہی انہیؔؔں سمجھایا کہ گھر کی عزت داؤ پر لگانے کا فائدہ تھوری دیر مزید انتظار کر لیتے ہیں- حسن اور اسد چچا ساری رات اسے ہسپتالوں ،مردہ خانوں اور سڑکوں پر تلاشتے رہے تھے-مگر جب تین بجے کے قریب ناکام گھر واپس لوٹے تو گھر میں جیسے صف ماتم بچھ گیا تھا- عورتوں کی معنی خیز نگاہیں،مردوں کے ملامت بھرے فقرے مسرت کو اپنی روح میں گڑتی محسوس ہوئی تھی- وہ اسی وقت سے روئے چلی جا رہی تھی- کوئی صفائی کوئی دہائی نہیں ،بس لبوں پر ایک دعا محمل کی لاش کسی ندی نالے کسی ہسپتال سے مل جائے-وہ نہ ہو جو ان کی ساری محنت ساری ریاضت رائیگاں جائے- بھاگ گئی کسی کے ساتھ،ارے میں تو پہلے ہی کہتی تھی-صبح کا سورج طلوع ہونے لگا تھا-جب تائی مہتاب کی آواز کچن میں سنائی دی تھی- شک تو مجھے بھی یہی ہے-ناعمہ چاچی نے بلند سر گوشی کی-وہ سب رات سے جاگ رہے تھے- البتہ حسن کے علاوہ دوسرے لڑکے لڑکیاں بھر پور نیند لے کر ابھی بیدار ہوئے تھے- “بس ! آغآ جان ایک دم دھاڑے اندر کچن میں روتی مسرت نے ایک دم دہل کر بھیگا چہرہ اٹھایا- سب نے چونک کر آغآ جان کو دیکھا جن کا سرخ و سفید چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا- “اب اگر وہ زندہ اس دہلیز پر آئی تو میں اسے زندہ یہی گاڑھ دوں گا سن لیا سب نے۔۔۔۔ ارے ایسی بیٹیوں کا تو پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دینا چاہیے-ابراہیم اس کو بھی ساتھ لے کر مرتا ہماری عزٹ داغ دار کرنے کے کیئے چھوڑ گیا اسے توبہ توبہ- ضرور کسی کے ساتھ چکر تھا-قرآن اٹھا کر چھت پر جاتی تھی-تا کہ ہمیں اس پر شک نہ ہو-اسی لیئے تو میں نے اس دن کہا تھا-مگر کوئی سنے تو نہ- تائی مہتاب کو اپنا غم یاد آگیا تھا- مسرت کا دل ڈوبتا چلا گیا- “تم مر جاؤ محمل خدارا مر جاؤ مگر واپس نہ آؤ-ان کا دل درد سے چلا اٹھا- آج کے بعد کوئی اس کا نام اس گھر میں نہیں لے گا اور اگر ۔۔۔۔۔۔ آغآ جان کی بات ادھوری رہ گئی- کسی نے زور سے گیٹ پر دستک دی تھی- سب نے چونک کر گیٹ کو دیکھا،یہاں تک کہ برآمدے کے زینے پر بیٹھی آرزو نے بھی اپنا سر اٹھایا- مسرت دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی-صبح کے سات بجے پہلے تو کبھی ایسے دستک نہیں ہوئیں تھی- حسن دروازہ کھولو- اسد چچا نے کہا تو حسن نے آگے بؔڑھ کر گیٹ کے چھوٹے دروازے کا ہک کھولا اور پیچھے ہوا- دروازہ کھلتا چلا گیا-ایک مرمریں سپید ہاتھ دروازے پہ دھرا اور پھر چوکھٹ پہ اندر آتے سپید ننگے پاؤں دکھائی دیئے- آغا جان بے چینی سے اٹھ کھڑے ہوئے-باقی سب بھی ساتھ ہی اٹھے سب کی نظریں گیٹ پر جم تھیں جہاں چھوٹے دروازے کو کھول کر وہ اندر داخل ہورہی تھی- سیاہ پاؤن تک آتا عبایا اور چہرے کے گرد سختی سے لپیٹا سرمئی اسکارف،ننگے پاؤں ،سر جھکائے محمل ابراہیم نے قدم اندر رکھا- حسن اس سے کہو یہاں سے دفعہ ہو جائے،ورنہ میں اس کا خون کر دونگا-آغآ جان زور سے دھاڑے تھے-ابھی اور اسی وقت یہاں سے نکل جاؤ بے شرم لڑکی ورنہ -“ آپ کے باپ کا گھر ہے جو نکل جاؤں؟ وہ جو سر جھکائے اندر داخل ہوئی تھی ایک دم سر اٹھا کر بے خوفی سے غرائی کہ لمحے بھر کو سب بھونچکا رہ گئے-تائی مہتاب نے تو ششدر سی ہو کر منہ پر ہی ہاتھ رکھ لیا- حسن الجھ کر محمل کو دیکھ رہا تھا اور فواد ۔۔۔ فواد اپنی جگہ ساکت رہ گیا تھا- وہ اب پلٹ کر گیٹ کھول رہی تھی- دوسرے ہی لمحے زن سے پولیس مونائل آگے پیچھے ڈرائیووے پہ اندر آئیں-کھٹا کھٹ دروازے کھلے اور سپاہی اتر کر تیزی سے اردگرد پھیلتے چلے گیے- پورے گھر کی تلاشی لو- بلند حکمیہ کہتا وہ ڈرائیونگ سیٹ سے نیچے اترا-یونیفارم میں ملبوس ،چہرے پر مدھم سی فاتحانہ مسکراہٹ لیئے وہ گھاس پہ کھڑے ان پتھر ہوئے لوگوں کے پاس آیا وہ سب اتنا اچانک اور غیر متوقع تھاکہ کوئی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا-فواد کو ہی سب سے پہلے ہوش آیا-اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگائی جا رہی تھی- کیا بکواس ہے؟اس نے غرا کر ہاتھ پیچھے کرنا چاہے- اس بکواس میں لکھا ہے کہ تمہاری ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہو چکی ہے-اور یہ کہ تمہیں فوری گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے- مسئلہ کیا ہے آفیسر؟کیا کیا ہے میرے بیٹے نے؟ آغا صاحب آپ کے بیؔٹے نے اپنی کزن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمایوں نے ایک نگاہ محمل پہ ڈالی جو گیٹ کے ساتھ سینے پہ ہاتھ باندھے کھڑی نفرت بھری نظروں سے فواد کو دیکھ رہی تھی-محمل ابراہیم کو اپنی ایک پھنسی ہوئی فائل نکلوانے کے عوض ایک رات کے لیئے بیچا اور ابھی ناشتا کرتے ہوئے وہ غالبا اسی فائل کے اپروو ہونے کا انتظار کر رہے تھے- آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے سر میرا بیٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ :آپ کا بیٹا شمالی علاقہ جات کی لڑکیوں کے اغوا اور خریدو فروخت میں ملوث ہے،یہ آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی- اس دفعہ انہوں نے چالاکی کی اپنی کزن کا سودا کر کے انہیں متعلقہ پارٹی کے پاس بھیجا البتہ آپ کی بھتیجی پولیس کی حفاظت میں ہی رہی-کیونکہ وہ سب پولیس کے پلان کے تحت تھا-آغا فواد نے گینگ کو منظر عام پہ نہ لانے کے لیئے ال تو اچھی چلی تھی-مگر ہر چال کامیاب نہیں ہوتی- محمل کا اس اے ایس پی کے ساتھ چکر تھا-فواد خاموشی سے سن کر آرام سے بولا” میں نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑا ہے-اب اپنے کرتوت پر پردہ ڈالنے کے لیئے یہ مجھے پھنسا رہے ہیں تا کہ- خاموش ہو جائیں- وہ پھٹ پڑی تھی-ایک لفظ بھی آپ نے میرے متعلق بولا تو منہ نوچ لوں گی آپ کا-آپ نے میرے ساتھ کیا کیا،آپ کو اندازہ ہے؟ ارے یہ کیا چپ رہے میں بتاتی ہوں تائی مہتاب کو جیسے ہوش آیا تھا-ایک دم سینے پر ہاتھ مارتی سامنے آئیں- سارا فساد اسی لڑکی کا مچایا ہوا ہے-یہ میرے بیٹے کو پھنسا رہی ہے-تا کہ اس کے کرتوت نہ کھلیں،آغا صاحب- انہوں نے تائید طلب نظروں سے آغا جان کو دیکھا اور پھر ادھر ادھر گردن گھنائی-سب خاموش کھڑے تھے- کسی نے ہاں یا ناں نہیں کی- لڑکی کا نام محمل ابراہیم ہے- ہمایوں نے موبائل کا بٹن دبا کر ان کے سامنے کیا-اسپیکر سے آواز گونجنے لگی-فواد کی ؔآواز- جو بنا دقت پہچانی جاتی تھی- ” تین تاریخ،ہفتے کی شام وہ آپ کے پاس ہو گی- معصوم ان چھوئی اور نوجوان ہے- آپ کی ڈیمانڈ پہ پوری اترتی ہے– اور قہقہہ ۔۔۔۔۔۔ محمل کو اپنا چہرہ تمتماتا ہوا محسوس ہوا- ذرا سے وقفے سے مختلف آوازیں گونجی تھیں- فواد بھائی یہ لوگ مجھے غلط سمجھ رہے ہیں- “فواد بھائی یہ لوگ میرے ساتھ کچھ غلط کر دیں گے- بکواس بند کرو اور میری بات غور سے سنو- تمہیؔں وہ ڈائمنڈ رنگ چاہیئے ہے نا؟ تو جیسے وہ کہیں کرتی جاؤ-بس ایک رات ہی کی تو بات ہے-صبح تمہیں ڈرائیور لینے آجئے گا- ہمایوں نے بٹن دبایا،اور موبائل نیچے کیا- فواد نے سر جھٹکا- آڈیو قانون کی عدالت میں قابل قبول نہیں ہوتا اے ایس پی صاحب-“ گھر کی عدالت میں تو ہوتا ہے- اور وہ ٹھیک کہہ رہا تھا-ان سب کو سانپ سونگھ گیا تھا-ہر شخص اپنی جگہ ساکت و متاسف کھڑا تھا- دیکھ لوں گا میں ایک ایک کو دیکھ لوں گا- فی الحال تو تمہیں ایک لمبے عرصے تک جیل کی دیواروں کو دیکھنا ہوگا- اسی دن کے لیئے-حسن ایک دم تیزی سے سامنے آیا اسی دن کے لیئے کہتا تھا کہ اس سے دور رہو،ساری دنیا جانتی ہے یہ کس قماش کا آدمی ہے-لڑکیوں کا کاروبار کرتا ہے-اسی لیئے تمہیں منع کرتا تھا- مجھے منع کر سکتے تھے اس کے ہاتھ نہیں توڑ سکتے تھے؟ میری جگہ اپنی بہن ہوتی تو بھی کچھ نہ کرتے؟وہ جوابا ایسے تڑخ کر بولی کہ حسن کھڑا کا کھڑا رہ گیا-محمل کبھی ایسے نہ بولی تھی- محمل ۔۔ میں- مجھے آپ کی کوئی وضاحت نہیں چاہیئے- سب ایک سے ہیں-اس نے منہ پھیر لیا تھا- ان کے قریب برآمدے کی سیڑھی پہ بیٹھی ؟آرزو بنا پلک جھپکے مبہوت سی اس مغرور اور وجیہہ سے اے ایس پی کو دیکھ رہی تھی-توس کا ٹکڑا اس کئ ہاتھ میں رہ گیا تھا- ؔآغا صاحب ! انہیں روکیں یہ میرے بیٹے کو کدھر لے جا رہے ہیں-وہ فواد کو لے جانے لگے تو تائی مہتاب آغا جان کا بازو جھنجھور کر رو پؔڑی تھیں-آغا جان چپ کھڑے تھے،بالآخر غفران چچا آگے بڑھے- بھابھی بیگم! حوصلہ کریں ان شاءاللہ فواد شام تک گھر ہوگا-ان کی بات پر ہمایوں نے استہزائیہ سر جھٹکا اور پلٹا- ایک منٹ) اے ایس پی صاحب- آغا جان ٹھہرے ہوئے انداز مین مخاطب ہوئے تھے-وہ چونک کر پلٹا- “یہ لڑکی رات باہر گزار آئی ہے-ہم شریف لوگ ہیں اسے قبول نہیں کر سکتے-آپ اسے بھی بھلے ساتھ ہی لے جائیے- محمل ساکت رہ گئی-اسے لگا وہ کبھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پائے گی- واقعی ہمایوں نے ابرو اٹھائی-برآمدے کے ستون سے لگی محمل کے آنسو پھر سے ابل پڑے ۔۔۔۔۔۔۔