مجھے ہمایوں نے کچھ بتایا تھا-وہ کہنے لگی تو محمل خاموشی سے اسے دیکھنے لگی- لمبے سیدھے بھورے بال جو اس نے کانوں کے پیچھے کر رکھے تھے- دمکتی رنگت والا چہرہ اور کانچ سی سنہری آنکھیں، اس کے نقش مختلف تھے،مگر آنکھیں اور بال یوں تھے جیسے آئینہ دیکھ رہی ہو- تو تمہارا رشتہ انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ طے کر دیا ہے؟ محمل نے اثبات مین سر ہلایا- تو تم انکار کر دو- کس کے لیے انکار کروں؟ اس کے لیے جو بیچ راہ میں چھوڑ جاتا ہے؟وہ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہ سکی-یہ تو ابھی اس نے اپنے دل سے بھی نہیں کہا تھا،فرشتے سے کیسے کہتی؟ میں کیوں انکار کروں؟کیا میں صبر کر کے اجر نہ لوں؟ محمل ! مظلومیت اور صبر میں فرق ہوتا ہے-اور وہ فرق احتجاج کرنے کا حق رکھنے کا ہوتا ہے-بجائے اپنی زندگی خراب کرنے کے،تم ایک بہتر راستہ چن لو،صاف صآف انکار کر دو- مجھے ان کے ری ایکشن سے ڈر لگتا ہے- اس پہ تم صبر کر لینا-وہ ہلکی سی مسکرائی-رشتے داروں ساتھ بہت صبر سے گزارہ کرنا پڑتا ہے لڑکی- آپ کرتی ہیں صبر؟ کیا مطلب؟ آپ کے رشتے دار ہیں فرشتے؟آپ کے پیرنٹس؟اور ہمایوں کے پیرنٹس-اس نے سوال ادھورا چھوڑ دیا-جانتی تھی فرشتے کو ادھورے سوال پڑھنے آتے ہیں- میری امی کی ایک ہی بہن تھی-ہمایوں ان کا بیٹا ہے-ان کی ڈیتھ کے بعد امی نے ہمایوں کو گود لے لیا تھا-بہت پرانی بات ہے- ڈیڑھ سال پہلے میری امی کی ڈیتھ ہوگئی- پھر میں نے اور ہمایوں نے فیصلہ کیا کہ گھر میں ہمایوں رہے اور میں ہاسٹل میں رہوں- اور آپ کے ابو؟ میں میٹرک میں تھی جب ان کی ؔڈیتھ ہوگئی تھی- آپ کے ابو کی کوئی بہن تو ہوگی؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا- ہاں ایک بہن ہیں-فرشتے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی- کدھر رہتی ہیں؟ یہیں اسی شہر میں- وہ آپ سے ملتی ہیں؟ نہیں کچھ پرابلمز کی وجہ سے وہ لوگ مجھ سے نہیں ملتے- اور آپ؟” میں کوشش تو کرتی ہوں ہر عید پر ان کے گھر ہو آؤں،لیکن وہ میرے اوپر دروازے بند کر دیتے ہیں- پھر؟وہ بنا پلک جھپکے اس کو دیکھتی آگے ہوئی-پھر میں کیک اور پھول دے کے واپس آجاتی ہوں-میری اتنی ہی استطاعت ہے آگے کیا کر سکتی ہوں؟ وہ سادگی سے مسکرائی- (کیک اور پھول؟عید پہ بہت سی جگہوں سے مٹھائی اور کیک پھول وغیرہ آتے تھے،کیا وہ بھی بھیجتی تھی؟) آپ کی پھپھو کے کتنے بچے ہیں؟ ایک ہی بیٹی ہے-اور اسے پتہ تھا فرشتے جھوٹ نہیں بولتی،اس کا تجسس تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا- کیا عمر ہوگی اس کی؟ مجھ سے تو چند سال چھوٹی ہی ہے- نام کیا ہے؟ یہ ضروری تو نہیں ہے محمل!فرشتے ذراسی مضطرب ہوئی تھی- ” ہوسکتا ہے میں آپکی فیمیلز کو لانے میں مدد کر سکوں؟ نہیں-فرشتے نے بغور اسے دیکھتے نفی میں سر ہلایا-تم میری پھپھو کی بیٹی کو نہیں جانتیں- پھر بھی۔۔۔۔۔ کیا ہم ٹاپک چینج کر سکتے ہیں؟ اس کے ٹھوس ازلی اور قطعی انداز پہ وہ گہری سانس لے کر رہ گئی- “یہ کھڑکیاں بہت خوبصورت ہیں-وہ کہہ کر پر سوچ انداز میں کھڑکی کے باہر اترتی صبح کو دیکھنے لگی- رات کھانے کے بعد اس نے سب کے کمروں میں چلے جانے کا انتظآر کیا،یہاں تک کہ لاؤنج میں ٹی وی کے سامنے جمی بیٹھی لڑکیاں بھی اٹھ اٹھ کے جانے لگیں،اور لاؤنج خالی رہ گیا تو وہ دبے قدموں باہر نکلی-آج اسے آغآ جان کو صاف انکار کرنا تھا- لاؤنج اندھیرے میں ڈوبا تھا-آغآ جان کے بیڈ روم کے دروازے سے روشنی کی لکیر آرہی تھی-وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے تک آئی-قریب تھا کہ دستک دیتی اندر سے آتی آوازوں نے اس کا ہاتھ روک لیا- کون فرشتے؟تائی کا حیران کن لہجہ-پھر وہی پرانی بات کرنے کہ محمل کی جائیداد میں اس کا بھی حصہ نکالیں؟ محمل کو لگا پوری چھت اس پر آن گری ہے- ہاں، آج وہ آفس آئی تھی، اور یہ بھی کہہ رہی تھی اگر ہم نے وسیم سے محمل کا رشتہ کرنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تایا جان کچھ کہہ رہے تھے اور چند دن پہلے کی پڑھی حدیث اس کے کانوں میں گونج رہی تھی-جس کا فہم کچھ اس طرح تھا، ک اگر کوئی تمہاارے گھر میں جھانکے اور تم پتھر مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں- نہیں- وہ گھبرا اٹھی اسے نہیں دیکھنا چاہیئے-وہ غلط کر رہی ہے،وہ کسی کی پرائیویسی میں جھانک رہی ہے-اگلے ہی لمحے وہ واپس کمرے کی طرف بھاگی تھی- دروازے کی کنڈی لگا کر وہ پھولی سانسوں کو قابو کرکے بیڈ پہ گر سی گئی، او دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا- محمل کی جائیداد میں فرشتے کا حصہ؟ گوکہ اسے شک تھا فرشتے کا اس سے تعلق ضرور ہے اور شاید بلکہ یقینا وہ اس کے ان ننھیالی رشتہ داروں میں سے ہے جو ان سے قطع تعلق کیے ہوئے ہیں،لیکن پھر بھی تائی کے منہ سے اس کا نام سن کر اسے بہت بڑا جھٹکا لگا تھا-اس سے بھی بڑا جھٹکا فرشتے کا مطالبہ جان کر،کیا فرشتے نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ محمل کے حصے میں سے اسے بھی کچھ دیا جائے؟مگر کیوں؟فرشتے ایسے کیوں کرے گی؟ اس کی نگاہوں میں ایک سراپا لہرایا- سیاہ عبایا میں ملبوس گرے اسکارف میں ملائم چہرے کو مقید کیے سنہری آنکھین جھکائے دونوں ہاتھوں میں چھوٹا قرآن پکڑے بال پوائنٹ سے صفحے پہ کچھ مارک کرتی فرشتے- وہ کون تھی؟اس کا پورا نام کیا تھا؟وہ ہمایوں سے زیادہ ملتی نہ تھی-مگر محمل کے متعلق ہر خبر اس کے پاس ہوتی تھی-اور وہ کیوں آغا جان سے ملتی تھی؟ بہت سی الجھنوں کے سرے وہ سلجھا نہ پا رہی تھی-لیکن ایک بات طے تھی فرشتے کا عظمت بھرا وہ تصور جو اس نے ذہن میں بنا رکھا تھا گر کر پاش پاش ہوگیا تھا،پتا نہیں کیوں- وہ چینی کی پلیٹیں احتیاط سے کیبنٹ سے نکال کر کاؤنٹر پہ رکھ رہی تھی-جب آہٹ پہ چونک کر پلٹی-کچن کے کھلے دروازے میں فضہ چاچی کھڑی اس کو بغور دیکھ رہی تھیں- جی چچی؟وہ قدرے الجھی-پھر ایک نظر خود پہ ڈالی،سادہ سی شلوار قمیض پر سیاہ دوپٹی کاندوٓھوں پہ لپیٹے سلکی بالوں کو اونچی پونی ٹیل میں مقید کیےوہ ہر دن کی طرح ہی لگ رہی تھی،پھر چچی کو کیا ہوا تھا؟ کچھ چاہیئے چچی؟اس نے پھر پوچھا-ان کی نطریں اب اس کو پریشان کرنے لگی تھیں- ہوؐ،نہیں-فضہ چچی نے سر جھٹکا اور واپس چلی گئیں- جاتے سمے اسے ان کے چہرے پہ ہلکا سا تنفر نظر آیا تھا- ان کو کیا ہوا ہے؟وہ پلیٹیں کپڑے سے صاف کرتے ہوئے سوچنے لگی،پھر شانے اچکا کر کام میں مصروف ہوگئی-ڈنر کا ٹائم ہونے والا تھا اور اسے میز لگانی تھی–سب آتے ہی ہونگے- ” میں نے اور مسرت نے وسیم اور محمل کا رشتہ طے کردیا ہے-آپ سب کو یقینا علم ہوگا-وہ رائتہ کا ڈونگا میز پر رکھ رہی تھی-جب آغا جان نے سب کو مخاطب کیا- ڈائننگ ہال میں سناٹا چھاگیا-گو کہ سب کو معلوم ہی تھا- پھر بھی سب چپ تھے-وہ سر جھکائے اپنی آخری کرسی پر آبیٹھی اور پلیٹ اپنی جانب کھسکائی- یہ فیصلہ آپ نے بالا ہی بالا کر لیا مسرت چاچی سے پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کی؟حسن کے طنزیہ لہجے نے سب کو چونکا دیا تھا-وہ بھی بے اختیار سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی،جو اکھڑے تیوروں کے ساتھ آغا جان کو دیکھ رہا تھا- کیا مطلب؟مسرت کی مرضی سے ہوا ہے اشتہ-آغا جان برہم بھی ہوئے اور حیران بھی- کیوں چچی؟اس نے خاموشی سے سر جھکائے بیبیٹھی مسرت کو مخاطب کیا-آپ کو اس وسیم کا رشتہ منظور ہے جس خاندان میں کوئی بیٹی دینے کو تیار نہیں ہے؟ مسرت کا جھکا سر مزیڈ جھک گیا،فضہ نے ناگواری سے پہلو بدلا- بتائیے چچی!اگر آپ خاموش رہیں تو اس کا مطلب آغا جان نے آپ کے ساتھ زبردستی کی ہے- کیا بکواس ہے یہ حسن؟ آغآ جان مجھے مسرت چچی سے بات کرنے دیں-حسن کی آواز بلند ہونے لگی تھی-سب دم بخود اسے دیکھ رہے تھے-بتائیے چچی آپ کو یہ رشتہ منظور ہے؟ نہیں! محمل نے قطعی انداز میں کہا-اسے معلوم تھا اس کی ماں کچھ بھی نہ بول سکے گی- سب نے چونک کر اسے دیکھا-خود حسن بھی قدرے ٹھٹکا- تم بیچ میں مت بولو-آغآ جان برہم ہوئے- ” ابھی نہیں بولی تو نکاح کے وقت انکار کردوں گی- یہ حق مجھے میرے دین نے دیا ہے-آپ نے میرے ساتھ زبردستی کی تو میں کورٹ تک چلی جاوں گی- مگر تمہیں کیا مسئلہ ہے وسیم سے؟غفران چچا جھنجھلائے-ایسی ہی جھنجھلاہٹ فضہ چچی کے چہرے پر بھی تھی- “اگر وسیم اتنا ہی اچھا ہے تو غفران چچا آپ ندا یا سامیہ باجی کا رشتہ کیوں نہیں کر دیتے اس کے ساتھ؟ بہت دنوں بعد پورے گھر نے پرانی محمل دیکھی تھی- شتاپ! میں انکار کر چکی ہوں،اگر آپ لوگوں کو اپنی بے عزتی کروانے کا شوق ہے تو میں نکاح والے دن اس سے بھی زور دار انکار کروں گی- “ارے شکر کرو ہم تمہیں اپنی بہو بنا رہے ہیں-بہت دیر سے خاموش بیٹھی تائی مہتاب ضبط نہ کر پائیں- جو لڑکی ایک رات گھر سے باہر رہ چکی ہو اسے کوئی نہیں قبول کرتا،ہم بہو نہ بنائیں تو کون قبول کرے گا تمہیں- میں!حسن جیسے بھڑک کر بولا تھا-میں قبول کروں گا محمل کو-وہ وسیم سے شادی نہیں کرنا چاہتی میں اپنا نام مسرت چچی کے سامنے رکھ رہا ہوں اور چچی!میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گاا- ہرگز نہیں فضہ پھٹ پڑیں-میں اس لڑکی کو کبھی قبول نہیں کروں گی جو کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی- ممی! وہ زور سے چیخاتھا- اس سے مزید کچھ سنا نہیں گیا، وہ کرسی دھکیل کر بھاگتی ہوئی ڈائننگ ہال سے باہر نکل گئی- بریگیڈئیر فرقان کا بنگلہ،جس کے ٹیرس پہ بوگن ویلیا کی بیلوں کا راج تھا،آج بھی اسے ویسا ہی اداس اور ویران لگا تھا،بلکہ وہ شاید ہمیشہ ہی ایسا ہوتا تھا-مکین کے خود قرآن پڑھنے اور مکان کو محض سنوانے میں بہرحال فرق تو ہوتا ہے- آج پھر وہ چند پمفلٹس ہاتھ میں پکرے ان کے گیٹ پہ کھڑی تھی- بیل پر ملازم نے بھاگ کے چھوٹا دروازہ کھولا- جی بی بی اس نے سر باہر نکالا- “مجھے بریگیڈئیر فرقان سے ملنا ہے وہ اندر ہیں؟ جی وہ کام کر رہے ہیں- ان سے کہو محمل آئی ہے!قدرے تحکم سے کہہ کر وہ سینے پہ ہاتھ باندھے وہی کھڑی ہوگئی-فورا ملازم اندر کو دوڑا-چند لمحے ہی بعد اس کی واپسی ہوگئی-صاحب کہہ رہے ہیں آپ اپنے یہ کاغذ لے لیں-اس نے پرانے پمفلٹس اس کی طرف بڑھائے- انہوں نے پڑھ لیے ہیں؟ نہیں جی وہ مصروف تھے- اپنے صاحب کو بولو یہ ان پر میری امانت تھی- جب انہوں نے لیے تھے تو ان پر سونپی گئی میری ذمے داری بھی انہیں نبھانی تھی،ورنہ لینے سے انکار کر دیتے-انہوں نے خیانت کر کے یہ لوٹائے ہیں اور اگر میں نے معاف نہیں کیا تو انہیں معافی نہیں ملے گی-ملازم ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگا اور پھر اندر کی طرف لپکا- صاحب آپ کو اندر بلا رہے ہیں-وہ پیغام دے کر جلد ہی اندر آیا تھا- شکریہ- وہ پورے اعتماد سے اندر چلی آئی- اسٹڈی کا دروازہ کھلا تھا-محمل نے چوکھٹ پہ کھڑے کھڑے دروازہ انگلی سے بجایا- اسٹڈی ٹیبل کے پیچھے ریوالونگ چئیر پہ بیٹھےبریگیڈئیر فرقان نے کتاب پہ جھکا سر اٹھایا اور عینک کے پیچھے سے اسے دیکھا جو دروازے کے بیچ کڑی تھی- یونیفارم کی سفید قمیض اور چہرے کے گرد نفاست سے لپیٹا تروتازہ گلابی اسکارف جہ پیچھے سے جو پیچھے سے اونچی پونی کے باعث ذرا سا اٹھ گیا تھا-ہاتھ میں چند پمفلٹس پکڑے وہ دراز قد سنہرئ آنکھوں والی لڑکی منتظر کھڑی تھی- کم ان-بریگیڈئیر فرقان نے چشمہ اتار کے میز پہ رکھا،کتاب بند کی اور کرسی پہ قدرے پیچھے کو ٹیک لگائی- میں کچھ پمفلٹس دے کے گئی تھی- اور میں نے واپس کر دیے تھے،اور کچھ؟ان کے بارعب چہرے پہ قدرے ناگواری تھی- “جی یہ کچھ اور ہیں-وہ آگے بڑھی اور چند پمفلٹس ان کی میز پر رکھ دئیے-یہ آپ پڑھ کر مجھے واپس کر دیجیئے گا- مگر مجھے یہ نہیں چاہیئے-وہ بے زار سے بولے- میں نے آپ کو چوائس تو نہیں دی سر!آپ کو یہ لینے پڑئں گے،میں کچھ عرصہ بعد آ کے لے جاؤں گی- پڑھ کر سنبھال لیجیئے گا- ان پر اللہ کا نام لکھا ہے،امید ہے آپ پھینکیں گے نہیں، وہ کھڑی کھڑی کہہ کر واپس پلٹ گئی- برگیڈئیر فرقان نے تلملا کر ایک نظر ان پمفلٹس کو دیکھا،پھر دراز میں ڈال کر اپنی عینک اٹھائی اور کچھ بڑ بڑاتے ہوئے کتاب کھول لی- وہ اپنی دھن میں راہداری میں چلتی جارہی تھی-کہ اچانک دوسری طرف سے آتی فرشتے پر نگاہ پڑی،اس کے لب بھینچ گئے،بے اختیار ہی وہ پیچھے ہوئی تھی- فرشتے نے اسے نہیں دیکھا تھا-وہ اپنے ساتھ ساتھ چلتی ٹیچر سے کچھ فکر مندی سے کہتی جا رہی تھی–محمل الٹے قدموں واپس ہوئی اور برآمدے میں رخ موڑ کر کھڑی ہوگئی-توقع کے عین مطابق فرشتے نے اس کی موجودگی نوت نہیں کی-ساتھی ٹیچر کے ساتھ پرئیر ہال کی سیڑھیاں اترتی چلی گئی تھی- پرئیر ہال میں ملک کے نامور مذہبی اسکالر ڈاکٹر سرور مرزا کے لیکچر کا انعقاد تھا-وہ بھی سست روی سے چلتی ہوئی ایک درمیانی نشست پہ آبیتھی-ابھی لیکچر شروع نہیں ہوا تھا-محمل نے ہاتھ مین پکڑا پاکٹ سائز قرآن کھولا اور یونہی پڑھنے کے لیے صفحے پلٹنے لگی- فرشتے نے ایسا کیوں کیا؟یہ سوال مسلسل اس کے ذہن میں گردش کر رہا تھا- اس نے آغا جان سے محمل کی جائیداد میں سے حصہ کیوں مانگا؟فرشتے جیسی لڑکی اتنی مادہ پرست ہوسکتی ہے؟وہ تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی- اس نے مظلوبہ صفحہ پلٹا اور وہ آیات نکالیں جو آج پڑھائی جانے والی تھی- مگر ڈالٹر سرور کے لیکچر کے باعث آج تفسیر کی کلاس نہیں ہونا تھی- ” اور ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کرو جو اگر ظآہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں- اوہ!گہری سانس لے کر محمل نے قرآن بند کر دیا- میرا کچھ بھی پرائیویٹ نہیں ہے-اس نے آہستہ سے گردن اوپر کو اٹھائی، اور پھر اوپر دیکھتے ہوئے مسکرا کر سر جھٹکا، جب بھی اایسا کچھ ہوتا ہے قرآن پر بے حد پیار آتا تھا-اسے لگتا تھا دنیا میں اس سے بڑا کوئی کمیونیکیشن ایجاد نہیں ہوا تھا- مگر ایسا کیا ہے جو مجھے اس سوال کا جواب برا لگے گا؟ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پھر سے سوچنے لگی تھی- ڈاکٹر سرور لیکچر شروع کر چکے تھے پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، دور دور تک پنک اسکارف سے ڈھکے سر دکھائی دے رہے تھے-اسٹیج کے قریب چئیرز پر اسٹاف موجود تھا-فرشتے بھی وہی ایک کرسی پہ بیٹھی تیز تیز ڈائری پہ لیکچر نوٹ کر رہی تھی- اسے نوٹس لیتے دیکھ کر وہ بھی چونک کے ڈاکٹر سرور کی طرف متوجہ ہوئی جو روسٹرم پہ کھڑے تھے- سر پہ جناح کیپ، سفید داڑھی، شلوار قمیض اور واسکٹ میں ملبوس وہ خاصے منجھے ہوئے اسکالر تھے وہ اکثر ان کو ٹی وی پہ دیکھتی رہتی تھی- اپنی سوچوں کو جھٹک کر وہ بغور لیکچر سننے لگی- بعض لوگ قرآن پر کر بھٹکتے ہین-واقعی ایسا ہوتا ہے-وہ اپنے مخصوص انداز میں کہہ رہی تھے “اس لیے بہتر ہے کہ قرآن کسی اچھے غیر متعصب عالم سے زندگی میں ایک بار ضرور پڑھ لینا چاہیئے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کسی کا دامن پکڑنا ضروری ہے-نہیں- بلکہ کسی غیر متعصب تفسیر کو پڑھ کر بھی کسی حد تک قرآن کی سمجھ بوجھ پیدا کی جا سکتی ہے-؎ قرآن کو پڑھ کر ہم ہر آیت کے اپنے حالات کے مطابق کئی مطلب نکال لیتے ہیں، وہ مطلب نکالنا غلط نہیں ہے،مگر ظآہر کو باطن سے تشبیہہ دینا قطعا غلط ہے- مثلا بنی اسرائیل کو جو گائے ذبح کرنے کا حکم اللہ سبحآنہ و تالی’ نے موسی ؐ کے ذریعے دیا تھا،وہ ہم سب جانتے ہیں-اس واقع سے ہم یہ سبق تو نکال سکتے ہیں کثرت سوال سے حکم مشتبہہ ہوجاتا ہے-مگر اس سے یہ مطلب ہرگز نہیں نکلتا کہ وہاں گائے سے مراد ایک صحابیہ ہیں نعوذ باللہ،معض لوگوں نے واقعتا یہاں گائے سے مراد صحانیہ کو لیا ہے-ایک اور مثال سورہ ہجر کی آخری آیات میں ہے کہ اپنے رب کی عبادت کرو، یہاں تک کے تمہارے پاس یقین آجائے- اب یہاں یقین سے مراد موت ہے-یعنی موت آنے تک عبادت کرتے رہو-مگر بعض لوگ یہاں یقین سے مراد belief لے کر اپنی عبادت کو کافی سمجھ کر بس کر دیتے ہیں کہ جی، ہمیں اپنی عبادت پر یقین آگیا ہے تو سب عبادتین بس ختم! سورہ حجر کہاں تھی بھلا؟اس نے آہستہ سے اپنا چھوٹا قرآن کھولا اور صفحے پل؎ٹنے لگی-سورہ حجر ملی تو اس نے اس کی آخری آیات کھولیں-آیت وہی تھی جو وہ کہہ رہے تھے- مگر آخر تین الفاظ حتی یاتی الیقین تھے-(حتی کہ یقین آجائے) یقین؟ اس نے الیقین پہ انگلی پھیری، پھر الجھ کر ڈاکٹر سرور کو دیکھا- وہ کہہ رہے تھے- یہاں پہ یقین سے مراد یقین نہیں بلکہ موت ہے- سو اس طرح کے الفاظ کا من چاہا مطلب نکالنا انسان کو بھٹکا سکتا ہے-اینی کوئسچن؟انہوں نے رک کر ایک گہری نظر ہال پہ ڈالی-محمل نے ہاتھ ہوا میں بلند کیا- یس؟انہوں نے سر کے اشارے سے اجازت دی، وہ ہاتھ میں قرآن پکڑے اپنی نشست سے اٹھی- سر مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی میرے پاس بغیر ترجمے والا مصحف ہے، اس میں مذکورہ آیت میں واقعتا “یقین” کا لفظ استعمال ہوا ہے-سو اس کا مطلب موت کیسے ہوا؟دونوں الفاظوں میں خاصآ فرق ہے-“ اس کا مطلب موت ایسے ہے کہ-وہ ذرا دیر کو رکے،اور بغور اسے دیکھا”میں نے اس کا مطلب موت نکالا ہے- جی سر میرا یہی سوال ہے کہ کیسے؟اس کی دلیل کیا ہے؟ “دلیل یہ ہے کہ میں نے ڈاکٹر سرور مرزا نے اس کا مطلب موت نکالا ہے-میں اس ملک کا سب سے بڑا اسلامی اسکالر ہوں- آپ میرے کیڈنشلز اتھا کے دیکھیں،میری ڈگریز دیکھیں-کیا میری بات بطور ایک ٹھوس دلیل کے کافی نہیں؟ اگلی صفحوں میں بیٹھی لڑکیاں اسے گردنیں موڑ کر دیکھنے لگیں- جو ہاتھ میں چھوٹا قرآن پاک پکڑے کھڑی تھی- سر آپ کی بات یقینا اہم ہے مگر قرآن کا بعض اس کے بعض کی تفسیر کرتا ہے،حدیث بھی یہ کرتی ہے-کیا قرآن حدیث میں کہیں یہ زکر ہے کہ یہاں یقین سے مراد موت ہے؟وہ بہت شائستگی و لحاظ سے مؤدب سی پوچھ رہی تھی-ڈاکٹر سرور کے چہرے پر واضح ناگواری ابھری- یعنی اگر میں آپ کو اس بات مطلب کی دلیل نہ دوں تو اسے محض میری بات سمجھ کر جھٹلا دیں گی؟ یعنی آپ کو میری بات کے مزید دلیل چاہیئے؟ جی! اس نے ہولے سے سر ہلا دیا- پورے ہال میں ایک اضطراب کی لہر دوڑ گئی- لڑکیاں قدرے پریشان ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں- “یعنی آپ ایک دینی اسکالر کو چیلنج کر رہی ہیں؟ ” سر میں بہت ادب سے صرف دلیل مانگ رہی ہوں- اگر اس کی دلیل قرآن حدیث میں نہ ہو تو کیا آپ یقین کا مطلب “موت تسلیم کریں گی؟ نہیں سر کبھی بھی نہیں- ہوں ڈاکٹر سرور نے ایک گہری سانس لے کر ہال پر نظر دوڑائی،کیا کوئی اور بھی ہے جو اپنی عمر سے زیادہ طویل تجربے کے حامل ایک اسکالر کو چیلنج کرے؟ کسی اور کو بھی دلیل چاہیئے؟ بہت سے سر نفی میں ہل گئے، وہ اکیلی کھڑی تھی- یعنی تین سو لڑکیوں میں سے ایک کو دلیل چاہیئے،یہی پڑھا رہے ہیں آپ لوگ اس مسجد میں؟کون ہے آپ کی کلاس انچارج؟ میڈم مصباح کھڑی ہوئیں- کیا آپ اس ناکام کلاس رپورٹ کی ذمے داری لیتی ہیں؟ ون آؤٹ آف تھری ہنڈرٹ کی؟ جی سر! میڈم مصباح کا سر قدرے جھک گیا-ڈاکٹر سرور نے محمل کو دیکھا-کیا آپ کو ابھی بھی دلیل چاہیئے؟ جی سر! وہ کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے،پھر ہلکے مسکرائے- المدثر آیت 47-43 میں یقین کا لفظ موت کے لیے استعمال ہے،وہاں سے ہم دلیل لیتے ہیں کہ یہاں بھی یقین سے مراد موت ہی ہے-مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مرغوب ہوئے بغیر ادب کے دائرے میں رہ کر مجھ سے دلیل مانگی،اور مجھے افسوس ہے کہ صرف ایک بچی نے یہ جرآت کی باقی سب خاموش رہیں-دو سو ننانوے لڑکیوں میں یقینا ابھی یہ کمی موجود ہے- جو کہ ایک قرآن کلاس کی ناکام کار کردگی کا ثبوت ہے- کیا کوئی شخص ڈگڑیوں کا پلندہ لے کر آپ کے پاس آئے- خود کو سب سے بڑا مذہبی اسکالر بتائے-تو آپ اس کی بات کو بطور دلیل مان لیں گے،کیا آپ کو پہلے ہی دن نہیں بتایا گیا تھا کہ دلیل صرف قرآن یا حدیث ہوتی ہے؟کسی عالم کی بات دلیل نہیں ہوتی پھر؟ بہت سے گلابی اسکارف میں لپٹے سر جھک گئے- محمل سرخرو سی اپنی نشست پہ بیٹھی گئی- ڈاکٹر سرور اور بھی بہت کچھ کہہ رہے تھے،مگر وہ سورہ المدثر کھول کر اس آیت کو کاؤنٹر چیک کر رہی تھی- (سورہ المدثر کی 43-47 تک کا ترجمہ ڈاکٹر سرور کی تصدیق کر رہا تھا) محمل! لیکچر کے بعد کاریڈور سے گزر رہی تھی-جب فرشتے نے پیچھے سے اسے پکارا-اس کے قدم وہیں تھم گئے-مگر وہ مڑی نہیں-فرشتے تیز تیز چلتی اس کے قریب آئی- آئی ایم پراؤڈ آف یو محمل!وہ یقینا بہت خوش تھی-گرے اسکارف میں مقید اس کا چہرہ دمک رہا تھا- محمل اجنبی نظروں سے اسے دیکھتی رہی- ڈاکٹر سرور تم سے بہت خوش ہیں،انہوں نے ایک سیمینار کے لیے تمہارا نام دے دیا ہے،اور تم میرے ساتھ جا کر ادھر اسپیچ کروگی، آپ کے ساتھ؟وہ بولی تو اس کی آواز میں خزاؤں جیسی خشکی تھی،پھر مجھے نہیں جانا- کیا مطلب؟فرشتے کی مسکراہٹ پہلے مدھم ہوئی پھر آنکھوں میں حیرت ابھری- مجھے جھوٹے لوگ سخت ناپسند ہیں! محمل ! وہ ششدر رہ گئی،میں نے کون سا جھوٹ بولا ہے؟ یہ سوال آپ خود سے کیوں نہیں کرتیں؟ تم سے کسی نے کچھ کہا ہے؟ میں بچی نہیں ہوں فرشتے- وہ گویا پھٹ پڑی تھی- اندر ابلتے لاوے کو باہر کا راستہ مل گیا تھا- آپ کیوں گئی میرے آغآ جان کے پاس ؟کیا لگتے ہیں وہ آپ کے؟میں ایک یتیم لڑکی ہوں،کیا آپ کو یتیم کے مال میں سے حصہ چاہیئے؟کیوں کی آپ نے ایسی حرکت؟آپ کو جانے کس اونچی مسند پہ بٹھا رکھا تھا میں نے،بہت بری طرح گرایا ہے خود کو آپ نے- میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی آپ ایسے کریں گی،کیا رشتہ ہے آپ کا مجھ سے؟آپ جھوٹ نہیں بولتیں مگر سچ چھپانا بھی تو جھوٹ ہی ہوتا ہے؟میں نے پوچھا آپ کی پھپھو کی بیٹی کا کیا نام ہے آپ نے نہیں بتایا آخر کیوں؟ فرشتے کا چہرہ سفید پڑگیا تھا-جذبات سے عاری بالکل ساکت ،جامد وہ بنا پلک جھپکے محمل کو دیکھ رہی تھی-کتنی ہی دیر وہ کچھ کہہ نہ سکی پھر آہستہ سے لب کھولے- کیونکہ میری پھپھو کی بیٹی کا نام فائقہ ہے- جی؟اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا- میں نے کہا تھا نہ کی تم نہیں جانتیں-میری پھپھو کی بیٹی کا نام فائقہ ہے- میں فرشتے ابراہیم ہوں، آغآ ابراہیم کی بیٹی جاؤ اپنے گھر میں سے کسی سے بھی پوچھو،مگر وہ کیوں بتائیں گے؟وہ میری تسلیم نہیں کرتے تو کیسے بتائیں گے- وہ تھکے تھکے انداز میں کہہ کر اس کے ایک جانب سے نکل کر چلی گئی- محمل مڑ کر اسے جاتا بھی نہ دیکھ سکی -اسے تو جیسے ادھر ہی کسی نے برف بنا دیا تھا-وہ دھواں دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ بیچ کاریڈور می بت بنی کھڑی تھی- فرشتے ابراہیم- آغآ ابراہیم کی بیٹی- اسے پوری مسجد میں ان الفاظ کی گونج پلٹ پلٹ کر سنائی دے رہی تھی- اسے نہیں معلوم وہ کن قدموں پہ چل کر مسجد کے گیٹ تک آئی تھی-بس وہ پتھر کا بت بنی خود کو گھسیٹتی ہر شے سے غآفل چلتی جارہی تھی- اس کا بیگ اور کتابیں کلاس میں رہ گئیں تھیں-اس نے اہیں ساتھ نہیں لیا تھا-اسے لگا تھا اس کا بہت کچھ مسجد میں کھو گیا ہے وہ کیا کیا سمیٹتی؟ برابر والے بنگلے ساتھ نصب بینچ پر وہ گر سی گئی- آغآ ابراہیم کی بیتی-فرشتے ابراہیم- اس کا دماغ انہیں دو جملوں پہ منجمد ہوگیا تھا-آگے بڑھتا تھا نہ پیچھے- دور کہیں یاد کے پردے پر آغا جان کی آواز لہرائی- اس لڑکی سے کچھ بعید نہیں آج پھر میرے آفس میں آگئی تھی- پھر آگئی تھی-اس کا ذہن جیسے چونک کر بیدار ہونے لگا تھا-پھر کا مطلب تھا،وہ پہلے بھی ادھر جاتی رہتی تھی-وہ سب اس کو جانتے تھے-اور شاید اس سے خائف بھی تھے- تو کیا وہ واقعی آغا ابراہیم کی بیٹی تھی؟ نہیں! اس نے تنفر سے سر جھٹکا ” آغا ابراہیم کی صرف ایک بیٹی ہےاور وہ ہے محمل ابراہیم-میری کوئی بہن نہیں ہے-میں نہیں مانتی- وہ زور زور سے نفی میں سر ہلا رہی تھی-اسے لگ رہا تھا آج اس کے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی-غصہ تھا کہ اندر ہی اندر ابلا جا رہا تھا- کیا واقعی وہ ابا کی بیٹی ہے؟مگر اس کی ماں کون ہے؟ میری اماں ۔۔۔۔۔؟ نہیں ۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے کون بتائے گا؟آغا جان اور تائی تو کبھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اماں کو تو شاید پتہ بھی نہ ہو! پھر کس سے پوچھوں؟ وہ چکرا کر رہ گئی اور سر دونوں ہاتھوں میں گرا دیا- مگر اگلے ہی لمحے جیسے جھٹکے سے سر اٹھایا- ہمایوں! اور پھر اس نے کچھ نہیں سوچا اور گیٹ کی طرف لپکی- صاحب اندر ہیں؟ مجھے اندر جانا ہے- ” جی آپ چلی جاؤ- چوکیدار فورا سامنے سے ہٹا-وہ اندر کی طرف دوڑی-شاہانہ طرز کا لاؤنج خالی تھا-وہ ادھر ادھر دیکھتی آگے بڑھی پھر کچن کے کھلے دروازے کو دیکھ کر رک گئی- کچھ سوچ کر وہ کچن میں آئی- ماربل فلور کا چمکتا صاف ستھرا کچن خالی پڑا تھا- چمچوں کا اسٹینڈ سامنے ہی تھا-اس نے لپک کر ایک بڑی چھری نکالی اور آستین میں چھپا کر باہر آئی- ہمایوں؟لاؤنج میں کھڑے ہو کر گردن اوپر کر کے اس نے پکارا-آواز گونج کر لوٹ آئی- اس کا کمرہ اوپر تھا – اسے یاد تھا-وہ تیز تیز سیڑھیاں چڑنے لگی-سیاہ ماربل کی چمکتی سیڑھیاں گولائی میں اوپر جا رہیں تھیں-وہ بالائی منزل پر رکی،ادھر ادھر جھانکا،پھر تیسری منزل کی سیڑھیوں کی طرف جانے لگی-دفعتا سامنے والے کمرے سے اس کی آواز آئی- بلقیس؟وہ اندر سے غالبا ملازمہ کو آواز دے رہا تھا-وہ دوڑ کر اس کمرے کے دروازے تک آئی- دروازہ کھولیں!اس نے دروازہ زور سے بجایا اور پھر دھرا دھر بجاتی چلی گئی- کون؟ہمایوں نے حیران سا ہوکر دروازہ کھولا-اسے دیکھ کر وہ بری طرح چونکا تھا- تم خیریت؟ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے،ٹھیک ٹھیک بتائیے گا- ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا! وہ اتنے جارحانہ انداز میں غرائی تھی کہ وہ پریشان ہی ہوگیا- کیا ہوا محمل؟ میری بات کا جواب دیں- اچھا اندر آجاؤ-وہ اسے راستہ دیتے ہوئے پیچھے ہوا-بلیک ٹراؤزر پر گرے آدھے بازوؤں والی شرٹ پہنے،ہاتھ میں تولیہ پکڑے وہ غالبا ابھی نہا کر نکال تھا- ماتھے پہ بکھرے گیلے بالوں سے پاتی کے قطرے ٹپک رہے تھے وہ دو قدم اندر آئی،یوں کہ اب دروازے کی چوکھٹ میں کھڑی تھی- آپ فرشتے کے کزن ہیں؟ ہاں کیوں؟ فرشتے کس کی بیٹی ہے؟اس کا باپ کون ہے؟ باپ؟وہ ذرا سا چونکا،اس نے تم سے کچھ کہا ہے؟ میں نے پوچھا ہے-فرشتے کس کی بیٹی ہے؟وہ دبی دبی سی غرائی تھی- ادھر بیٹھو، آرام سے بات کرتے ہیں-وہ اس کو راستہ دیتا اس کی بائیں طرف سے قریب آیا- میں بیٹھنے نہیں آئی مجھے جواب چاہیئے؟ ادھر بیٹھو تو سہی،ٹھنڈے دماغ سے میری بات سنو-وہ بچوں کی طرح اسے بہلاتے ہوئے آگے بڑھا- اور نرمی سے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا- ہاتھ مت لگائیں مجھے-وہ بدک کر پیچھے ہٹی- محمل ادھر آؤ-وہ دو قدم آگے اس کے قریب آیا ہی تھا کہ محمل نے اچانک آستین میں چھپی چھری نکال لی- مجھے آپ پہ ذرا بھروسہ نہیں ہے-دور رہیں – وہ چھری کی نوک اس کی طرف کیے مزید دوقدم پیچھے ہٹی تھی- چھری کیوں لائی ہو؟مجھے مارنے؟اس کے ماتھے پہ بل پڑے اور آنکھوں میں غصے کی لہر ابھری-وہ تیزی سے بڑھا اور محمل کا چھری والا ہاتھ مڑورا- چھوڑیں مجھے، ورنہ میں آپ کو مار دوں گی-وہ اس کی مضبوط گرفت کے باوجود کلائی چھروانے کی کوشش کر رہی تھی-دوسرے ہاتھ سے اس نے اس کے کندھے کو پیچھے دھکیلنے چاہا-ہمایوں اس کے چھری والے ہاتھ کا رخ دوسری طرف موڑ رہا تھا،اور پھر اسے پتہ بھی نہیں چلا چھری کی تیز دھار گوشت میں گھسی چلی گئی- محمل کو لگا وہ مرنے والی ہے-اس نے خون ابلتے ہوئے دیکھا-اور پھر اپنی چیخ سنی-مگر نہیں اسے چھری نہیں لگی تھی- پھر؟ وہ کراہ کر پیچھے ہٹا تو محمل کی کلائی آزاد ہوگئی-ہمایوں کے دائیں پہلو میں سے خون ابل رہا تھا-وہ چھری پہ ہاتھ رکھے لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہٹا تھا- اوہ میرے خدا یہ میں نے کیا کر دیا- خوف سے اس کی آنکھیں پھٹ گئیں- چھری پہ رکھا ہمایوں کا ہاتھ خون سے سرخ پڑنے لگا تھا-وہ درد کی شدت سے دیوار کے ساتھ بیٹھتا چلا گیا- وہ وہشت زدہ سی اسے دیکھ رہی تھی- اس کا پورا جسم کانپنے لگا تھا-یقین ہی نہیں آرہا تھا یہ سب اس نے کیا ہے خدایا یہ اس نے کیا کر دیا تھا- وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھتی قدم قدم ہٹنے لگی اور پھر ایک دم مڑی اور سیڑھیاں پھلانگتی گئی- پوری قوت سے لاؤنج کا دروازہ کھول کر باہر بھاگی تھی- چوکیدار گیٹ پہ نہیں تھا،کہاں تھا اسے پرواہ نہیں تھی-وہ تیز دوڑتی ہوئی مسجد میں داخل ہوئی تھی- فرشتے فرشتے کدھر ہیں؟ پھولی سانسوں کے ساتھ درمیان پوچھتی وہ ذرا دیر کو ریسپشن پہ رکی تھی- فرشتے باجی لائبریری میں ہونگی یا اس نے پوری بات نہیں سنیں اور راہداری میں دوڑتی گئی- لایبریری کے اسی کونے میں وہ دونوں ہاتھوں میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی–وہ بدحواس سی بھاگتی ہوئی اس کے سامنے جا رکی- آہٹ پر فرشتے نے چہرے سے ہاتھ ہٹائے اسے دیکھ کر اس کی نگاہیں جھک گئیں- میں جانتی ہوں تم ہرٹ ہوئی ہو- ایک گہری سانس لے کر وہ اپنی رو میں کہنے لگی تھی-اور میں اسی ڈر سے تمہیں یہ پہلے نہیں بتا رہی تھی-کہتے کہتے فرشتے نے نگاہیں اٹھائیں اور پھر اگلے الفاظ اس کے لبوں پہ دم توڑ گئے- محمل کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں- میں جانتی ہوں تم ہرٹ ہوئی ہو- ایک گہری سانس لے کر وہ اپنی رو میں کہنے لگی تھی-اور میں اسی ڈر سے تمہیں یہ پہلے نہیں بتا رہی تھی-کہتے کہتے فرشتے نے نگاہیں اٹھائیں اور پھر اگلے الفاظ اس کے لبوں پہ دم توڑ گئے- محمل کے چہرے پہ ہوائیاں اڑ رہی تھیں- “محمل کیا ہوا؟” وہ پریشان سی کھڑی ہوئی- فرشتے- فرشتے-۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہمایوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رو دینے کو تھی- کیا ہو ہمایوں کو؟ بتاؤ محمل؟،اس نے فکر مندی سے محمل کو دونوں شانوں سے تھام کر پوچھا، وہ ہمایوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمایوں مر گیا” محمل کے شانوں پہ اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی- اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے پائے گی- یہ کیا کہہ رہی ہو؟ میں نے جان۔۔۔۔۔۔ جان بوجھ کے نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہمایوں کو- وہ اسے چھری لگ گئی-میں نے غلطی سے اسے میری- وہ کدھر ہے ابھی ؟فرشتے نے تیزی سے بات کاٹی- اپنے گھر بیڈ روم میں- فرشتے نے اگلا لفظ نہیں سنا اور تیزی سے باہر کی طرف بھاگی تھی-وہ کہیں بھی جاتی تھی تو ہمیشہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ساتھ لے کر جاتی تھی-آج اس نے اس کا ہاتھ نہیں تھاما تھا-آج وہ اکیلی بھاگی تھی- اسے خود بھی کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، بس وہ بھی فرشتے کے پیچھے لپکی تھی- ہمایوں—— ہمایوں- وہ محمل کے آگے بھاگتی ہوئی ہمایوں کے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی-اور اسے آوازیں دیتی سیڑھیاں چڑھنے لگی- ہمایوں؟ وہ آگے پیچھے گول سیڑھیوں کے دہانے رکی تھیں- ہمایوں کمرے کی بیرونی دیوار کے ساتھ لگا زمین پہ بیٹھا تھا-خون آلودہ چھری اس کے ایک طرف رکھی تھی-ہمایوں تم ٹھیک ہو؟ وہ پریشان سی گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی ، اس نے جیسے چونک آنکھیں کھولیں- تم ادھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟اپنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی فرشتے سے اس کی نظر کے پیچھے کھڑی محمل پہ جا رکی- مجھے محمل نے بتایا کہ- فرشتے تم جاؤ اس بے وقوف لڑکی کو بھی لے جاؤ- مگر ہمایوں- میں نے احمر کو کال کر دیا ہے، پولیس پہنچنے والی ہے،تم دونوں کی ادھر موجودگی ادھر ٹھیک نہیں ہے، جاؤ۔۔۔۔ درد کی شدت سے بدقت بول پا رہا تھا- مگر ۔۔۔۔۔ فرشتے نے تذبذب سے گردن موڑ کر محمل کو دیکھا جو سفید پڑتا چہرہ لیے ادھر کھڑی تھی-اس کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا-وہ اس وقت کیا کرے- میں نے کہا نہ جاؤ-وہ گھٹی گھٹی آواز میں چلایا تھا- اچھا وہ گھبرا کر کھڑی ہوئی- نہیں میں نہیں جاؤں گی-بے شک مجھے پولیس پکڑ لے مگر میں- محمل جاؤ!!!!!!! وہ زور سے چیخا تھا- چلو محمل-“فرشتے نے جیسے فیصلہ کر کے اس کا ہاتھ پکڑا اور سیڑھیاں اترنے لگی- ہمایوں میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا آئی ایم سوری-۔۔ آئی ایم رئیلی- فر شتے اس سے آگے اس کا ہاتھ کھینچتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی-مگر وہ اسی طرح گردن موڑ کر ہمایوں کو دیکھتی روہانسی سی کہے جا رہی تھی- جسٹ گو!وہ وہی سے جھنجھلا کر بولا تھا – وہ اب سیڑھیوں کے درمیان میں تھی-وہاں اسے ہمایوں کا چہرہ نظر نہیں آرہا تھا، آنسو اس کی آنکھوں سے ابل پڑے تھے – فرشتے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے باہر لے آئی تھی- تم کیوں گئی اس کے گھر محمل؟مجھے بتاؤ، ادھر کیا ہوا تھا ؟مسجد کے گیٹ پر فرشتے نے پوچھا تو اس نے اپنا ہاتھ زور سے چھرایا- محمل ! ناراض مت ہو- ابھی وہاں میری اور تمہاری موجودگی ٹھیک نہیں ہے- وہ ادھر مر رہا ہے اور آپ۔ اس کی آنکھوں سے متواتر آنسو گر رہے تھے- وہ ابھی اسے ہسپتال لے جائیں گے- زخم بہت زیادہ نہیں تھا، وہ ٹھیک ہو جاۓ گا مگر تم نے کیوں مارا اسے؟ بھلا یوں ہمایوں کو مار سکتی ہوں-میں کر سکتی ہوں ایسا؟وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی-فرشتے بری طرح چونکی تھی-محمل کے چہرے پہ چھایا حزن ملال اور آنسو-وہ عام آنسو نہیں تھے-میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ایسا-آئی سوئیر- اچھا اندر آؤ،آرام سے بات کرتے ہیں-اس نے خود کو سنبھال کر کہنا چاہا مگر وہ کچھ سننے کو تیار ہی نہیں تھی- انہوں نے بھی یہی کہا تھا- میرا قصور نہیں تھا- وہ اسی طرح گیٹ پہ کھڑی روۓ چلی جا رہی تھی- ، وہ ٹھیک تو ہو جائے گا فرشتے؟ ہوں-فرشتے نے شاید اس کی بات نہیں سنی تھی بس گم صم اس کی آنکھوں سے گرتے آنسو دیکھ رہی تھی-وہ واقعی عام آنسو نہیں تھے- میں گھر جا رہی ہوں پلیز-آپ مجھےہمایوں کے بارے میں بتاتی رہیئے گا- اچھا-اس نے غائب دماغ سے سر ہلا دیا- محمل اب درختوں کے باڑ کے ساتھ دوڑتی ہوئی دور جا رہی تھی- وہ جیسے نڈھال سی گیٹ سے لگی یک ٹک اسے دیکھے گئی– ہاں وہ آنسو بہت خاص تھے- ہسپتال کا ٹائلز سے چمکتا کاریڈور خاموش پڑا تھا- کاریڈور کے اختتام پر وہ بینچ پہ سر جھکائے بیٹھی تھی- محمل جو دوڑتی ہوئی ادھر آرہی تھی- اسے بیٹھے دیکھ کر لمحے بھر کو ٹھٹکی رکی،پھر بھاگتی ہوئی اس کے قریب آئی- فرشتے-فرشتے-“ فرشتے نے ہاتھوں میں گرا سر اٹھایا”وہ کیسا ہے؟ محمل اس کے سامنے پنجوں کے بل بیٹھی اور دونوں ہاتھ اس کے گھٹنوں پہ رکھے- بنائیں نا، وہ کیسا ہے؟وہ بے قراقری سے اس کی سنہری آنکھوں میں دیکھتی جواب تلاش کر رہی تھی، ٹھیک ہے – زخم زیادہ گہرا نہیں ہے-وہ بھی محمل کی بھوری آنکھوں میں کچھ تلاش کر رہی تھی- میں اس سے مل سکتی ہوں؟ ابھی وہ ہوش میں نہیں ہے- کیوں؟وہ تڑپ کر بولی تھی،وہ فجر کا وقت تھا،اور جیسے ہی فرشتے نے اسے اطلاع دی تھی-وہ بھاگتی ہوئی آئی تھی- ڈاکٹرز نے خود اسے سلایا رکھا ہے-وہ ٹھیک ہوجائے گا محمل تم پریشان نہ ہو- میں کیسے پریشان نہ ہوں؟َ میں نے ان کو چھری ماری ہے- میں ۔ ایسا کیا ہوا تھا محمل؟تم نے کیوں کیا ایسے؟ میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا- میں ان سے پوچھنے گئی تھی-وہ لب کچلتی ڈبڈباتی آنکھوں سے کہتی چلی گئی-فرشتے اسی تھکے تھکے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی- تم مجھ سے پوچھ لیتی محمل! اس کو۔۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑ دو کوئی بات نہیں- چند لمحے یونہی سرک گئے وہ اسی طرح فرشتے کے سامنے فرش پر دوزانوں بیٹھی تھی-اس کے ہاتھ ابھی تک فرشتے کے گھٹنوں پر تھے-بہت دیر بعد اس نے خاموشی کو چیر دیا- آپ نے کہا آپ آغآ ابراہیم کی بیٹی ہیں؟ ہاں میں آغآ ابراہیم کی بیٹی ہوں- میرے ابا کی،،،،،،،، اس کا گلا رند گیا- تمہیں یہ انہونی کیوں لگتی ہے؟سوائے تمہارے، تمہارے سب بڑوں کو علم ہے-تمہاری امی کو بھی- امی کو بھی؟اسے جھٹکا لگا تھا- ہاں-ابا مجھ سے ملتے تھے–میری امی ان کی فرسٹ وائف تھیں- ڈائیورس کے بعد امی اور ابا الگ ہوگئے تھے- پھر انہوں نے تمہاری امی سے شادی کی- دونوں ان کی پسند کی شادیاں تھیں،ہے نا عجیب بات؟خیر مجھ سے وہ ہر ویک اینڈ پہ ملنے آتے تھے، میں اپنے چچاؤں سے متعارف تو نہ تھی مگر وہ سب جانتے تھے کہ میں کون ہوں، کدھر رہتی ہوں مگر ابا کی ڈیتھ کے بعد انہوں نے مجھے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا میں بہت دفعہ اپنا حق مانگنے گئی- مگر وہ نہیں دیتے- ابا کی پہلی شادی خفیہ تھی، سواۓ ہمارے بڑوں کے خاندان میں کسی کو علم نہ تھا تم سے بھی چھپا کر رکھا گیا کہ کہیں تم میرے ساتھ مل کر حصہ نہ مانگنے کھڑی ہوجاؤ- آپ نے کیس کیوں نہیں کیا ان پہ؟َبہت دیر بعد وہ بول پائی تھی- مجھے جائیداد سے حق نہیں رشتوں سے حق چاہیئے-محمل میں بہت دفعہ تمہارے گھر پہ گئی ہوں مگر اندر داخلہ – خیر یہ لمبی کہانی ہے،کئی برسوں سے اپنے حق کی جنگ لڑ رہی ہوں- وارث اللہ نے بناۓ ہیں، میں ابا کی وارث ہوں-یہی سوچ کر اب میں جائیداد سے حصہ مانگتی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بات ادھوری چھوڑ گئی- آپ کو پتہ تھا میں آپ کے بارے میں نہیں جانتی؟ ہاں مجھے پتہ تھا-میں نے جب بھی تم سے ملنے کی کوشش کی، کریم تایا نے یہی کہہ کر روک دیا کہ محمل ذہنی طور پہ ڈسٹرب ہوجائے گی اور ابا سے نفرت کرے گی،پھر میں نے صبر کر لیا- میں جانتی تھی جو رب بن یامیں کو یوسف علیہ السلام کے پاس لا سکتا ہے وہ محمل کو بھی میرے پاس لے آئے گا- وہ ہلکا سا مسکرائی تھی- محمل کو لگا اس کی سنہری آنکھیں ببھیگنے لگی تھیں- فواد بھائی ان کا کیس- ہمایوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے کزن فواد نے اس کے ساتھ کسی لڑکی محمل کا معاملہ طے کیا ہے -کم عمر ہے اور خوبصورت بھی- میرا دل تب ہی سے کھٹک گیا تھا-مگر ہمایوں ماننے کو تیار نہیں تھا کہ فواد تمہارے ساتھ یہ کر سکتا ہے، اسے گمان تھا وہ کوئی اور لڑکی ہوگی مگر جس لمحے میں نے مسجد کی چھت پہ تمہیں دیکھا تھا میں تمہیں پہچان گئی تھی- آپ نے تو مجھے کبھی نہیں دیکھا تھا ،پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھا تھا، ایک دفعہ تمہارے اسکول آئی تھی تم سے ملنے-بینچ پہ بیٹھتی تمہیں دیکھتی ہی رہی، تم الجھی الجھی چڑچڑی سی لگ رہی تھی- مجھ سے تمہیں مزید ذہنی ازیت نہیں دی گئی، سو واپس پلٹ گئی- فرشتے تھک کر چپ ہوگئی-شاید اب اس کے پاس کہنے کو کچھ نہ بچا تھا، وہ یاسیت سے اسے دیکھے گئی جو بہت تھکی تھکی نظر آرہی تھی، بہت دیر بعد اس نے پھر لب کھولے- تم خوش قسمت ہو محمل!کہ تم رشتوں کے درمیاں رہی ہو-تم یتیم نہیں رہی ہو- یتیموں والی زندگی تو میں نے گزاری ہے-اس کے باوجود میں نے کبھی یتیمی کا لیبل خود پہ نہیں لگایا- میری خالہ اور ہمایوں یہی تھے میرے رشتے اور اب میرے پاس کھونے کو مزید رشتے نہیں بچے ، ایک چیز مانگوں تم سے؟کبھی مجھے اس آزمائش میں مت ڈالنامیں مزید رشتے نہیں کھونا چاہتی- اے ایس پی صاحب کے ساتھ آپ ہیں؟آواز پہ ان دونوں نے چونک کے سر اٹھایا- سامنے یونیفارم میں ملبوس نرس کھڑی تھی- جی- محمل اس کے گھٹنوں سے ہاتھ ہٹاتی بے چینی سے گھبرا کے اٹھی- ان کو ہوش آگیا ہے، اب خطرے سے باہر ہیں۔آپ ان کی؟ میں۔۔۔۔ میں ان کی فرینڈ ہوں-اس نے جلدی سے فرشتے کی طرف اشارہ کر کے بتایا یہ ہمایوں صاحب کی بہن ہیں- بہن؟اس نے چونک کر محمل کو دیکھا، مگر وہ نرس کی طرف متوجہ تھی-بہن؟وہ ہولے سے زیر لب بڑبڑائی- پھر ہلکا سا نفی میں سر ہلایا-وہ کچھ کہنا چاہتی تھی، مگر محمل نرس کے پیچھے جارہی تھی- اس نے کچھ بھی نہ سنا- وہ خالی ہاتھ بیٹھی رہ گئی-اس کی سنہری آنکھوں میں شام اتر آئی تھی، محمل وہ شام نہ دیکھ سکی تھی-وہ دروازہ کھول کر ہمایوں کے کمرے میں داخل ہورہی تھی- وہ بیڈ پہ آنکھ موندے لیٹا تھا، اور چادر منہ پہ اوڑھی تھی – آہٹ پہ قدرے نقاہت سے آنکھیں کھولے اسے دیکھ کر حیران رہ گیا- محمل! وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے سامنے جا رکی- بھورے سلکی بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے فیروزی شلوار قمیض ہم رنگ دوپٹہ شانوں پہ پھیلائے وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی- آئی ایم سوری ہمایوں! آنسو آنکھوں سے پھسل پڑے تھے-وہ فقت مسکرایا- ادھر آؤ- وہ چند قدم آگے برھی- اتنی غصے میں کیوں تھیں- مجھے معاف کردیں پلیز-اس نے بے اختیار دونوں ہاتھ جوڑ دئیے- ہمایوں نے بایاں ہاتھ اٹھایا اور اس کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو تھام لیا- تم نے کیوں کہا، تمہیں مجھ سے کوئی امید نہیں؟ تو کیا رکھتی؟اس کے دونوں ہاتھ اور ہمایوں کا ہاتھ اوپر تلے ایک دوسرے میں بند ہوگئے تھے- تمہیں لگتا ہے میں بیچ راہ میں چھوڑ دینے والوں میں سے ہوں؟ کیا نہیں ہیں؟آنسو اسی طرح اس کی آنکھوں سے ابل رہے تھے- کیوں اتنی بدگمان رہتی ہو مجھ سے؟ بدگمان تو نہیں بس۔۔۔۔ پھر چھری کیوں لائی تھیں؟تمہیں لگتا تھا تم میرے گھر غیر محفوظ ہوگی؟ وہ نرمی سے کہہ رہاتھا- آپ مجھے معاف کردیں پلیز،آپ نے معاف کردیا تو اللہ بھی مجھے معاف کردے گا- کہہ کہ وہ لمحے بھر کو خود بھی چونک گئی- آخری فقرہ ادا کرتے ہوئے دل میں عجیب سا احساس ہوا تھا-ایک دم اس نے اپنے ہاتھ چھڑاۓ تھے،یہ سب ٹھیک نہیں تھا- آپ آرام کریں، مجھے مدرسہ بھی جانا ہے-وہ دروازے کی طرف لپکی تھی- مت جاؤ-وہ بے اختیار پکار اٹھا تھا- میں گھر سے مدرسہ کا کہہ کر نکلی تھی،اگر نہ گئی تو یہ خیانت ہوگی اور پل صراط پہ خیانت کے کانٹے ہوں گے،مجھے وہ پل پار کرنا ہے- تھوڑی دیر رک جاؤ گی تو کیا ہوجائے گا؟وہ جھنجھلایا تھا- یہ حقوق العباد کا معاملہ اور ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ٹھیک ہے مادام آپ جا سکتی ہیں- وہ مسکراہٹ دبا کر بولا تو اسے لگا وہ کچھ زیادہ ہی بول گئی ہے- سوری-ایک لفظ کہہ کر دروازہ کھول کر باہر نکل آئی- فرشتے اسی طرح بینچ پہ بیٹھی تھی-آہٹ پر سر اٹھایا- میں چلتی ہوں فرشتےمجھے مدرسے جانا ہے،نا محسوس انداز میں اس نے اپنا ہاتھ دوپٹے کے اندر کیا کہ اس پہ وہ کسی کا لمس نہ دیکھ لے- مل لیں ہمایوں سے؟اس کی آواز بہت پست تھی–ہاں اس نے بے اختیار نگاہیں چرائیں فرشتے اسی طرح گردن اٹھا کر اسے دیکھتی جانے اس کے چہرے پہ کیا کھوج رہی تھی- وہ جیسے گھبرا کر جانے کو پلٹی- محمل سنو!” وہ جیسے بے چینی سے پکار اٹھی اور اس سے پہلے کہ وہ پلٹتی اس نے نفی میں سر ہلاتے دھیرے سے کہا-نہیں کچھ نہیں جاؤ- جاؤ تمہیں دیر ہورہی ہے- اوکے السلام علیکم -وہ راہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتی دور ہوتی گئی-فرشتے نے پھر سے سر ہاتھوں میں گرا لیا- اس کا دل بہت بوجھل سا ہورہا تھا-مدرسہ آ کر بھی اسے سکون نہ مل رہا تھا-اسے تھوڑی دیر ہوگئی تھی-اور تفسیر کی کلاس وہ مس کر چکی تھی-سارا دن وہ یونہیں مضحل سی پھرتی رہی-بریک میں سارہ نے اسے جا لیا-وہ برآمدے کے اسٹیپس پہ بیٹھی تھی-گود میں کتابیں رکھے چہرے پہ بیزاری سجائے- تمہیں کیا ہوا ہے؟سارہ دھپ سے ساتھ آ بیٹھی- پتا نہیں-وہ جھنجھلائے ہوئے گود میں رکھی کتاب کھولنے لگی- پھر بھی کوئی مسئلہ ہے؟ ہاں ہ- کیا ہوا ہے؟ اللہ تعالی۔۔۔۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سر جھٹک کر صفحے پلٹنے لگی- بتاؤ نا؟ اللہ تعالی ناراض ہیں،دیٹس اٹ!زور سے اس نے کتاب بند کی- اوہو – تم خواہ مخواہ قنوطی ہورہی ہو-اللہ تعالی کیوں ناراض ہونگے بھلا؟ بس ہیں نا! اتنی مایوسی اچھی نہیں ہوتی- تمہیں کیسے پتہ کہ وہ ناراض ہیں؟ ایک بات بتاؤ!وہ جیسے کوفت زدہ سی اس کیطرف گھومی-اگر تم چوبیس گھنٹے کسی کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہو،گھر میں داخل ہوتے ہی تمہیں اس شخص کا موڈ دیکھ کر پتہ نہیں چل جاتا کہ وہ ناراض ہے؟ بھلے وہ منہ سے کچھ نہ کہے،بھلے تمہیں اپنی غلطی بھی سمجھ میں نہ آرہی ہو مگر تم جان لیتی ہو کہ ماحول میں تناؤ ہے اور پھر تم دوسروں سے پوچھتی پھرتی ہو کہ اسے کیا ہوا ہے؟اور پھر تم اپنی غلطی سوچتی ہو-میں بھی اس وقت یہی کر رہی ہوں سو مجھے کرنے دو! مگر محمل” تمہیں پتا ہے اتنے عرصے سے میں روز ادھر آکر قرآن سنتی تھی-آج میری تفسیر کی کلاس مس ہوگئی ہے-آج میں قرآن نہیں سن سکی-تمہیں پتہ ہے کیوں؟کیونکہ اللہ تعالی مجھ سے ناراض ہیں،وہ مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتے- سو ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دو! سارہ کے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ کتابیں سنبھالتی اٹھی اور تیز تیز قدموں سے چلتی اندر آگئی- پرئیر ہال خالی پڑا تھا-بتیاں بجھی تھیں-وہ کھڑکی کے ساتھ آ بیٹھی-کھڑکی کے شیشے سے روشنی چھن کر اندر آرہی تھی-اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے- اللہ تعالی۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ لبوں پہ ٹوٹ گئے-آنسو ٹپ ٹپ گالوں پہ گرنے لگے-اس نے دعا کے لیے اٹھتے ہاتھوں کو دیکھا-یہ ہاتھ چند گھنٹے پہلے ہمایوں کے ہاتھ میں تھے-لڑکے لڑکی ہاتھ پکڑنا تو اب عام سی بات ہوگئی تھی-مگر قرآن کی طالبہ کے لیے وہ عام سی بات نہ تھی -وہ جیسے جذبات کے ریلے میں بہہ آئی کہ خیال ہی نہ آیا کہ اسے یوں تنہا کسی کے ساتھ نہیں ہونا چاہیئے-ہمایوں نے خود کو کیوں نہ روکا؟ مگر نہیں وہ ہمایوں کو کیوں الزام دے؟وہ تو قرآن کا طالب علم نہ تھا،طالبہ تو وہ تھی-سمعنا واطعنا (ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی)کا وعدہ تو اس نے رکھا تھا-پھر؟ آنسو اسی طرح اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے-وہ سر جھکائے آج کا سبق کھولنے لگی- اللہ تعالی پلیز مجھے معاف کردے ۔ مجھے ہدایت پہ قائم رکھ وہ دل ہی دل میں دعا مانگتے ہوئے مطلوبہ صفحہ کھولنے لگی کس طرح اللہ اس قوم کو ہدایت دے سکتا ہے جو ایمان لانے کے بعد کفر کریں اس کے آنسو پھر سے گرنے لگے ۔ اس کا رب اس سے بہت ناراض تھا اسکی معافی کافی نہ تھی ۔ وہ سسکیوں کے درمیان پھر سے استغفار کرنے لگی اور انہوں نے رسول کے برحق ہونے کی گواہی دی تھی اور انکے پاس روشن نشانیاں آئی تھیں اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا وہ جیسے جیسے پڑھتی جارہی تھی اس کا رواں رواں کانپنے لگا تھا ۔ قران وہ آئینہ تھا جو بہت شفاف تھا ۔ اس میں سب کچھ صاف نظر آتا تھا ۔ اتنا صاف کہ کبھی کبھی دیکھنے والے کو خود سے نفرت سی ہونے لگتی تھی ۔ ان لوگوں کی جزا یہ ہے کہ بے شک ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب کے سب لوگوں کی ۔ ہمیشہ رہنے والے ہیں اس میں ، نہ ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ ہی وہ مہلت دیے جائیں گے ۔ اس نے قران بند کردیا ۔ یہ خالی زبانی استغفار کافی نہ تھا ۔ اس نے نوافل کی نیت باندھی اور پھر کتنی ہی دیر وہ سجدے میں گر کر روتی رہی۔ جس کے ساتھ ہر پل رہو جو رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہو اسکی ناراضی دور کرنے کے لیے اتنا ہی کوشش کرتا ہے جتنی وہ اس سے محبت کرتا ہے جب دل کو کچھ سکون آیا تو اس نے اٹھ کر آنسو پونچھے اور قران اٹھا کر ٹھیک اسی آیت کو کھولا جہاں سے چھوڑا تھا ۔ آیت روز اول کی طرح روشن تھی ۔ مگر اس کے بعد جن لوگوں نے توبہ کرلی۔۔۔۔۔ (اسکا دل زور سے دھڑکا ) اور انہوں نے اصلاح کرلی تو بے شک اللہ بخشنے والا ، مہربان ہے بہت دیر سے روتے دل کو ذرا امید بندھی ۔ ذرا قرار آیا یہ توبہ کی قبولیت کی نوید تو نہ تھی ، مگر امید ضرور تھی ۔ اس نے آہستہ سے قران بند کیا ۔ میڈم مصباح کہتی تھیں اگر قران کی آیات میں آپ کے لیے ناراضی کا اظہار ہو تو بھی بخشش کی امید رکھا کریں کم از کم اللہ آپ سے بات تو کررہا ہے ۔ وہ ٹھیک ہی کہتی ہیں ۔ محمل نے اٹھتے ہوئے سوچا تھا مہتاب تائی نے کمرے کے کھلے دروازے سے اندر جھانکا- محمل سے کہو شاپنگ کے لیے چلے-اس کے جوتے کا ناپ لینا ہے-ورنہ بعد میں خود کہے گی کہ پورا نہیں آیا- وہ بیڈ پر کتابیں کھولے بیٹھی تھی-جبکہ مسرت الماری سے کچھ نکال رہی تھی-تائی کی آواز پر دونوں نے بری طرح چونک کر دیکھا تھا،جو اسے نظر انداز کیے مسرت سے مخاطب تھی- (تو وہ وسیم والا قصہ ابھی تک باقی ہے؟)اس نے کوفت سے سوچا تھا-پچھلے کچھ دنوں میں پے درپے واقعات نے اسے وہ معاملہ بھلا دیا تھا-یہ بھی کہ حسن کی مخالفت ابھی برقرار تھی-“مگر تائی اماں میں انکار کر چکی ہوں- لڑکی! میں تمہاری ماں سے بات کر رہی ہوں-اس کا لہجہ نرم مگر مضبوط تھا- مسرت؟اس سے کہو تیار ہوجائے، میں گاڑی میں اس کا ویٹ کر رہی ہوں-وہ کھٹ کھٹ کرتی وہاں سے چلی گئیں-اس نے بے بسی سے ماں کو دیکھا-وہ اس سے بھی زیادہ بے بس نظر آرہی تھیں- اماں آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی چلی جاؤ محمل!ورنہ وہ ہنگامہ کر دیں گی- یہ سمجھتی کیوں نہین ہیں؟وہ زچ سی ہوکر کتابیں رکھنے لگی- شاید حسن کچھ کر سکے-مجھے حسن سے بہت امید ہے-“ اور مجھے اللہ سے ہے! وہ کچھ سوچ کر عبایا پہننے لگی-پھر سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹا اور پن لگائی-خواہ مخواہ ہنگامہ کرنے کا فائدہ نہ تھا، چلی ہی جائے تو بہتر ہے-باقی بعد میں دیکھا جائے گا- لاؤنج میں سیڑھیوں کے پاس لگ آئینے کے سامنے وہ رکی -ایک نظر اپنے عکس کودیکھا-سیاہ حجاب میں سنہری چہرہ دمک رہا تھا-اونچی پونی ٹیل سے حجاب پیچھے سے اٹھ سا گیا تھا وہ بہت اچھا لگ رہا تھا-وہ یونہی خود کو دیکھتی پلٹی ہی تھی کہ سیڑھی اترتے حسن پہ نظر پڑی- کدھر جا رہی ہو؟ تائی اماں کے ساتھ شادی کی شاپنگ پہ- تم راضی ہو محمل؟وہ بھونچکا سا اس کے قریب آیا-وہ بے اختیار دو قدم پیچھے ہٹی اس گھر میں مجھے اپنی رضا سے اس فیصلے کا حق نہیں ملا حسن بھائی- وہ کتنے ہی لمحے خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا-پھر آہستہ سے لب وا کیے- ہم کورٹ میرج کر لیتے ہیں- اور محمل کو لگا اس نے تھپڑ دے مارا ہے- آپ کو پتہ ہے آپ کیا کہہ رہے ہو؟وہ بمشکل ضبط کر پائی تھی- ہاں میں تمہیں اس دلدل سے نکالنے کی بات کر رہا ہوں- آپ کورٹ میرج کی بات؟ اناللہ وانا الیہ راجعون-میں سوچ بھی نہین سکتی تھی کہ آپ مجھ سے یہ بات کریں گے- تمہیں اعتراض کیوں ہے محمل!یہ زبردستی تمہاری شادی وسیم سے کردیں گے اور تم ۔۔۔۔۔۔۔ حسن بھائی پلیز،آپ کو پتہ ہے کورٹ میرج کیا ہوتی ہے؟سرکاری شادی،کاغذوں کی شادی-میں ایسی شادی کو نہیں مانتی جس میں لڑکی کے ولی کی مرضی شامل نہ ہو- اور میں کیون یوں چھپ کر شادی کروں گی؟نہ اپ سے نہ وسیم سے-میرا رستہ چھوڑیں-وہ بے بس سا سامنے سے ہتا تو وہ تیزی سے باہر نکل گئ- گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھی تائی مہتاب اس کا انتظار کر رہی تھی-وہ اندر بیٹھی اور دروازہ ذرا زور سے بند کیا- اسی پل ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر کوئی اندر بیٹھا-اس نے ڈرائیور سمجھ کر یونہی بیک ویو میں دیکھا تو جھٹکا سا لگا- وہ وسیم تھا-اپنے ازلی معنی خیز انداز میں مسکراتے،وہ گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا-اسے لگا اس سے غلطی ہوچکی ہے،مگر اب کیا کیا جا سکتا تھا،،؟ لب کچلتی وہ کھڑکی سے باہع دیکھنے لگی- تائی مہتاب منگنی کی شاپنگ کر رہین تھیں یا شادی کی،وہ کچھ نہ سمجھ سکی-بس چپ چاپ ان کے ساتھ میٹرو میں چلی آئی-وہ جہاں بیٹھی ان کے ساتھ بیٹھی گئی- سنا ہے تم نے بہت شور ڈالا تھا-تائی اٹھ کر ایک شو کیس کے قریب گئیں تو وہ اس کے ساتھ صوفے میں دھنس کر بیٹھا- محمل بدک اٹھی- ارے بیٹھو بیؔٹھو تم سے بات کرنی ہے- شاپ کی تیز پیلی روشنیاں وسیم کے چہرے پہ پڑ رہی تھیں،گریبان کے کھلے بٹن ، گردن سے لپٹی چین،اور شوخ رنگ کی شرٹ اف،اسے اس سے کراہت آئی تھی- تم مجھ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو کس سے کرنا چاہتی ہو؟ وہ استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھ رہا تھا- اس کے ذہن کے پردے پہ ایک چہرہ سا ابھرا- ایک اندرونی خواہش-ایک دبتی دباتی محبت کی ادھوری داستان،اس نے بے اختیار سر جھٹکا- نہ اپ سے نہ کسی اور سے-آپ میرا پیچھا چھوؔر کیوں نہیں دیتے؟ ایسے نہیں محمل ڈئیر،ابھی تو ہم نے بہت وقت ساتھ گزارنا ہے،وہ کھڑے ہو کر اس کے قریب ایا-وہ پھر دو قدم پیچھے ہتی دکان لوگوں سے بھری ہوئی تھی-پھر بھی محمل کو اس کے بے باک انداز سے خوف اتا تھا-نہ معلوم وہ کیا کر ڈالے- اچھا ادھر آؤ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے-وہ قدم اٹھاتا اس کے نزدیک ارہا تھا”ادھر آئس کریم پارلر میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں- تائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تائی اماں- بے بس سی وہ بھیڑ میں تائی مہتاب کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھنے لگی- تمہاری تائی کو ان کی کوئی فرینڈ مل گئی ہے-وہ ابھی نہیں ائیں گی-تم ادھر قریب تو آؤ نا محمل ڈئیر-وسیم نے ہاتھ بڑھا کر اس کی کلائی تھامنا چاہی،اس کی انگلیاں اس کے ہاتھ سے ذرا سی مس ہوئیں- محمل کو جیسے کرنٹ لگا تھا،ہاتھ میں پکڑا ہیند بیگ اس نے پوری قوت کے ساتھ وسیم کے منہ پر دے مارا- بیگ اس کی ناک پہ زور سے لگا تھا،وہ بلبلا کر پیچھے ہٹا-شور کی آواز پر بہت سے لوگ ادھر متوجہ ہوئے، سیلز بوائے کام چھوڑ کر ادھر لپکے- یو ۔۔۔۔۔۔۔۔ یو بچ ۔۔۔! وسیم غصۓ سے پاگل ہوگیا-ناک پہ ہاتھ رکھے وہ جارحانہ انداز میں اس کی طرف لپکا ہی تھا کہ ایک لڑکے نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا- کیا تماشا ہے؟ کیوؐں بچی کو تنگ کر رہے ہو؟ میڈم کیا ہوا ہے؟یہ بندہ تنگ کر رہا تھا آپ کو؟ بہت سی اوازیں آس پاس ابھریں-کچھ لڑکون نے وسیم کو بازوؤں سے پکڑ رکھا تھا- یہ مجھے تنگ کر رہا تھا اکیلی لڑکی جان کر-اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور کہہ کر پیچھے ہٹ گئی-اسے معلوم تھا اب کیا ہوگا-اور واقعی وہی ہوا،اگلے ہی لمحے وہ لڑکے وسیم پر پل پڑے-وہ گالیاں بکتا خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا،مگر وہ سب بہت زیادہ تھے-مارو اسے اور مارو شریف لڑکیوں کو چھیڑتا ہے- ایک عمر رسیدہ صاحب ہجوم کے پاس کھرے غصۓ سے کہہ رہے تھے- زور سے مارو اسے عبرت کی مثال بنا دو- اپنے گھر ماں بہن نہیں ہے کیا۔۔۔؟ اور وہ ماں جب تک دوکان میں لگے ہجوم تک پہنچی،وہ وسیم کو مار کر ادھ پوا کر چکے تھے- تائی اس کی طرف لپکیں-تھوڑی ہی دور صوفے پر محمل بیٹھی تھی-ٹانگ پہ ٹانگ رکھے مطمئن سی وسیم کو پٹتے دیکھ رہی تھی- محمل یہ اسے کیوں مار رہے ہیں؟ کیوں کہ اس کے باپ کے کہنے پر کبھی مجھے ایسے ہی مارا گیا تھا- بکواس مت کرو- بڑی دلچسپ بکواس ہے یہ،آپ بھی انجوائے کریں نا۔۔۔۔ وہ محفوظ سی وسیم کو پٹتے دیکھ رہی تھی- شاپ کا بوکھلایا ہوا مینجر اور سیلز بوائز،مشتعل نوجوانوں کو چھروانے کی کوشش کر رہے تھے- سر پلیز- سر دیکھیں-سیلز بوائز کی منت کے باوجود لڑکے ان کو دیکھنے کی ذحمت ہی نہیں کر رہے تھے-حواس باختہ سی تائی مہتاب ان کی طرف دوڑیں- میرے بیٹے کو چھوڑو، پڑے ہتو مردعدو! وہ چلا چلا کر ان لڑکون کو ہٹانے کی سعی کر رہی تھیں- صوفے پہ بیٹھی محمل مسکراتے ہوئے چپس کا پیکٹ کھول رہی تھی- اب یہ مرتے دم تک مجھے ساتھ نہین لائیں گی-ساری صورتحال سے لطف اندوز ہوتی وہ چپس نکال کر کترنے لگی- اس نے دروازہ ہولے سے بجایا- مدھم دستک نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا- آجاو محمل! اندر فرشتے کی تھکن زدہ مسکراتی آواز آئی اس نے حیرت دروازہ کھولا- السلام علیکم- اور آپ کو کیسے پتہ یہ میں ہوں؟ میں تمہاری چاپ پہچانتی ہوں-وہ بیڈ ہر بیٹھی تھی-گھٹنوں پہ لحاف پڑا تھا-ہاتھ میں کوئی کتاب تھی-بھورے سیدھے بال شانون پہ تھے-اور چہرے پہ ذرا سی تکان تھی- محمل اندر داخل ہوئی تو فرشتے نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی-اور ذرا سا کھسک کر جگہ بنائی- آؤ بیٹھو- نائس روم فرسٹ ٹائم ائی ہوں آپ کے ہاستل ! محمل ستائشی نظریں اطراف میں ڈالتی بیڈ کی پائنتی کے قریب بیٹھی-وہ اسکول یونیفارم میں ملبوس تھی-، جبکہ فرشتے بالکل مختلف گھر والے حلیئے میں تھی- پھر کیسا لگا ہاسٹل؟ بہت اچھا اور آپ آج اسکول کیون نہیں ائیں؟ یونہی طبیعت ذرا مضحل سی تھی- وہ تکان سے مسکرائی-اس کا چہرہ محمل کو بہت ذرد سا لگا تھا- شاید وہ بیمار تھی- اپنا خیال رکھا کرین-پھر قدرے توقف سے گویا ہوئی،آپ ہمارے ساتھ ہمار گھر میں جا کر کیوں نہیں رہتیں؟وہ آپ کا بھی گھر ہے آپ کا حق ہے اس پہ،آپ کو اپنے اس گھر میں سے حصہ مانگنا چاہیئے- تو ان پر زور دیں نا- کوئی اور بات کرو محمل! اف! وہ ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی- مجھے علم ہی نہیں تھا کہ میری ایک بہن بھی ہے اور ساری عمر میں بہن کے لیے ترستی رہی- ہم لوگوں کے ساتھ کے لیے نہیں ترستے محمل،ہم لوگوں کے ساتھ کی چاہ کے لیے ترستے ہیں،اور اسی چاہ سے محبت کرتے ہیں-وہ لوگ مل جاتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ وہ تو کچھ نہ تھے-سب کچھ تو وہ چاہ تھی جس کی ہم نے صدیوں پرستش کی تھی- آپ بیمار ہو کر کافی فلسفی ہوگئی ہیں،سو پلیز، اچھا سنیں، ایک بات بتاؤں-وہ پر جوش سی بتانے لگی-کل تائی اماں مجھے وسیم کے ساتھ شاپنگ پہ لے گئیں،اور میں نے اسے شاپ میں لوگوں سے پٹوایا- بری بات-قرآن کی طالبہ ایسی ہوتی ہے کیا؟ ارے اس نے میرے ساتھ بدتمیزی کی تھی،، اور اسے سبق سکھانے کے لیے یہ ضروری تھا ، یو نو سیلف ڈیفنس! ہمایوں کیسا ہے؟ایک دم اس نے پوچھا اور خود بھی حیران رہ گئی- اب بہتر ہے- اوہ شکر الحمد اللہ-وہ واقعتا خوش ہوئی تھی-چہرہ جیسے کھل اٹھا تھا-فرشتے بغور اس کے تاثرات جانچ رہی تھی- تم اسے پسند کرتی ہو رائٹ؟ اس کی نگاہیں بے اختیار جھک گئیں-رخسار گلابی پڑگئے-اسے توقع نہ تھی کہ فرشتے اتنےآرام سے اسے پوچھ لے گی- بتاؤ نا-فرشتے ٹیک چھوڑ کر سیدھی ہوئی اور غور سے اس کا چہرہ دیکھا- پتا نہیں! مجھے سچ بولنے والی محمل پسند ہے- ہاں شاید-اس نے اعتراف کرتے ہوئے پل بھر کو نگاہیں اٹھائیں-فرشتے ہنوذ سنجیدہ تھی- “اور ہمایوں؟ ہمایوں؟اس کے لب مسکرا دئے-وہ کہتا ہے وہ بیچ راہ میں چھوڑ دینے والون میں سے نہیں ہے- وہ سر جھکائے مسکراتی ہوئی بیڈ شیٹ پہ انگلی پھیر رہی تھی-دوسری طرف دیر تک خاموشی چھائی رہی و اس نے چونک کر سر اٹھایا- فرشتے بالکل خاموش تھی-اس کے دل کو یونہی شک سا ہوا”کہیں فرشتے تو ہمایوں سے ۔۔۔۔۔۔؟آخر وہ دونوں ساتھ پلے بڑھے ہیں-اس کا دل زور سے دھڑکا- کیا سوچ رہی ہیں؟ یہی کہ جب میں ہمایوں کے لیے تمہارا رشتہ لینے جاؤں گی تو کریم چچا مجھے شوٹ تو نہین کر دیں گے؟آخر میں ہمایوں کی بہن ہوں نا! اور محمل کھلکھلا کر ہنس دی-سارے وہم شک و شبے ہوا ہو گئے-فرشتے بھلا ایسی فیلنگز کیسے رکھ سکتی تھی؟وہ عام لڑکیوں سے بہت مختلف تھی- اچھا یہ دیکھو- اس نے کتاب میں سے ایک لفافہ نکالا- ایک لنچ انوی ٹیشن ہے- مجھے انوائٹ کیا ہے نسیم آنتی نے-وہ اماں کی ایک پرانی فرینڈ ہیں،ان ہی کے کلب میں ہ اس سنڈے کو – تم چلوگی-؟ مگر ادھر کیا ہوگا؟ یہ تو مجھے نہیں پتہ-صرف لنچ ہے آنٹی نے کہا اگر میں آجاؤن تو اچھا ہے،اماں کی کچھ پرانی فرینڈز سے بھی مل لوں گی-تم چلوگی؟ شیور! وہ پورے دل سے مسکرائی، اور پھر کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلی آئی-