یہ تو مجھے نہیں پتہ-صرف لنچ ہے آنٹی نے کہا اگر میں آجاؤن تو اچھا ہے،اماں کی کچھ پرانی فرینڈز سے بھی مل لوں گی-تم چلوگی؟ شیور! وہ پورے دل سے مسکرائی، اور پھر کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلی آئی- اتوار کی دوپہر مقررہ وقت پہ مدرسے کے برآمدے میں کھڑی تھی-سیاہ عبایا میں ملبوس سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹے، وہ کھڑی بار بار کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھتی تھی-عبایا وہ اب کبھی کبھی باہر پہنتی تھی-، ہاں نقاب نہیں کرتی تھی، صرف حجاب لے لیا کرتی تھی- دفعتا اوپر سیڑھیوں پہ آہٹ ہوئی-محمل نے سر اٹھایا- فرشتے تیزی سے زینے اتر رہی تھی-ایک ہاتھ سے چابی پکڑے دوسرے سے وہ پرس میں کچھ کنگھال رہی تھی- “السلام علیکم،تم پہنچ گئیں، چلو! عجلت میں کہتے ہوئے اس نے پرس بند کیا، اور برآمدے کی سیڑھیاں اتر گئی-محمل اس کے پیچھے ہو لی- ہمایوں گھر میں ہی ہوگا مل نہ لیں؟وہ گیٹ کے باہر رک کر بولی تو محمل مسکرا دی- شیور! وہ لاؤنج میں ہی تھا، صوفے پہ بیٹھے پاؤں میز پہ رکھے،چند فائلز کا سرسری سا مطالعہ کر رہا تھا-انہین آتے دیکھا تو فائلز رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا- خوش آمدید! فرشتے کے پیچھے محمل کو اتا دیکھ کر وہ مسکرا دیا تھا-اس کا چہرہ پہلے سے قدرے کمزور لگ رہا تھا، مگر ہسپتال میں پڑے ہمایون سے وہ خاصا بہتر تھا- میں ہمایوں کو اتنے سالوں میں بھی السلام علیکم کہنا نہیں سکھا سکی، محمل ! اور کبھی تو مجھے لگتا ہے میں اسے کچھ بھی نہ سکھا سکوں گی- “اچھا بھئی السلام علیکم – وہ ہنس دیا تھا- بیٹھو- وہ اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی مگر فرشتے کھڑی رہی- نہیں ہمایوں ہمارے پاس بیٹھنے کا وقت نہیں ہے- مگر تمہاری بہن تو بیٹھ گئی ہے- فرشتے نے مڑ کر محمل کو دیکھا جو آرام سے صوفے پہ بیٹھی تھی- بہن! اٹھو ہم بیٹھنے نہیں آئے- محمل ایک دم گڑبڑا کر کھڑی ہوگئی- فرشتے ہمایون کی طرف پلٹی- ہم بس تمہارا حال پوچھنے آئے تھے-تم اب ٹھیک ہو؟ میں ٹھیک ہوں ، مگر بیٹھو تو سہی- ” نہیں ۔۔۔۔ ہمیں لنچ پہ جانا ہے،نسیم آنٹی کی طرف- اماں کی کچھ فرینڈز سے بھی مل لیں گے- اور محمل؟اس نے سوالیہ ابرو اٹھائی- محمل ظاہر ہے میری بہن ہے تو میرے ساتھ ہی رہے گی نا- وہ بے اختیار مسکرا دیا- عبایا میں ملبوس وہ دونوں دراز قد لڑکیاں اس کے سامنے کھڑی تھیں- سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیتے دونوں کی ایک جیسی سنہری آنکھیں تھیں، یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے کون زیادہ خوبصورت ہے-ہاں فرشتے دو انچ زیادہ لمبی ضرور تھی-اس کے چہرے پہ ذرا سنجیدگی تھی- جبکہ محمل کے چہرے پہ کم عمری کی معصومیت برقرار تھی- ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ وہ محمل تو نہ تھی جس سے وہ پہلی بار اس لاؤنج میں ملا تھا-سیاہ مقیش کی ساڑھی،چھوٹی آستینوں سے جھلکتے گداز بازو، اور اونچے جوڑے سے نکللتی گھنگھریالی لٹوں والی-اسے اس کا ایک ایک نقش یاد تھا-وہ کوئی اور محمل تھی،اور یہ عبایا اور حجاب والی کوئی اور تھی- ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ یہی کہ تم نے محمل کو اپنے رنگ میں رنگ لیا ہے- یہ میرا رنگ نہیں ہے یہ صبغت اللہ ہے ،اور اللہ کے رنگ سے بہتر کون سا رنگ ہوسکتا ہے-چلو محمل-اوکے ہمایوں اپنا خیال رکھنا- السلام علیکم- وہ محمل کا بازو تھامے مڑی ہی تھی کہ وہ پکار اٹھا- سنو فرشتے! ہاں! وہ دونوں ساتھ ہی پلٹیں- تم بولتی بہت ہو،اور تم نے محمل کو ایک لفظ بھی نہیں بولنے دیا-تمہیں معلوم ہے؟ ” مجھے معلوم ہے اور تم نے ساری عمر تو اسی کو سننا ہے،یہ کم ہے کہ میں نے تمہیں اس سے ملوا دیا ہے؟ مگر نہیں- بے شک انسان بہت ناشکرا ہے، چلو محمل! وہ محمل کو بازو سے تھامے اسی عجلت میں واپس لے گئی-اور وہ حیرتوں میں گھرا کھڑا رہ گیا- پھر سر جھٹک کر مسکرا دیا تھا-یہ فرشتے کو کس نے بتایا؟ اس گول میز کے گرد دونوں اپنی نشستوں پہ بور سی بیٹھی تھیں- باقی کرسیوں پر آنٹی ٹئپ کچھ خواتین جلوہ افروز تھیں-محمل بار بار کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتی-وہ واقعی بہت بور ہو رہی تھی- فرشتے ہی تھی جو اپنے ساتھ بیٹھی نسیم آنٹی سے کوئی نہ کوئی بات کر لیتی تھی، ورنہ وہ تو مسلسل جماہی روکتی بے زاری سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی- اس ملک میں عورتوں کو وہ حقوق حاصل نہیں جو مردوں کو ہیں- وہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسز رضی کی طرف متوجہ ہوگئی جو ناک چڑھائے اپنا انگوٹھیوں سے مزین ہاتھ ہلا کر کہہ رہی تھیں- اور یہ اس صدی سب سے بےوقوفانہ بات ہے، اگر کوئی کہے کہ مرد عورت سے برتر ہے-میں تو نہیں مانتی ایسی باتوں کو! بالکل!وہ سب غرور و تفاخر میں ڈوبی عورتیں ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملا رہیں تھی-محمل کا پرس میز پہ رکھا تھا-اس نے اس کو اٹھا کر گود میں رکھا پھر اندر سے اپنا سفید کور والا قرآن نکالا جو ہمیشہ ساتھ رکھتی تھی- یہ سب جہالت کی باتیں ہیں مسز رضی،جب تک اس ملک میں تعلیم عام نہیں ہوگی،لوگ عورتوں اور مردوں کے برابر حقوق تسلیم نہ کر سکیں گے- اور نہیں تو کیا اسی قدامت پرستی کی وجہ سے ہم آج یہاں ہیں- اور دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے- اس نے سر اٹھایا اور ذرا سا کھنکاری- مجھے آپ لوگوں سے اتفاق نہیں ہے- تمام خواتین چونک کر اسے دیکھنے لگیں- اور میرے پاس اس کے لیے دلیل بھی ہے ، یہ دیکھیں-اس نے گود میں رکھا قرآن پاک اوپر کیا،”ادھر سورہ نسا میں- نہیں پلیز! اف نہیں! ناٹ اگین- اوہ پلیز ڈونٹ اوپن اٹ، ملی جلی ناگوار،مضطرب سی آوازوں پہ رک کر ناسمجھی کے عالم میں انہیں دیکھنے لگی- جی؟ خدا کے لیے اس کو مت کھولیں- وہ کہہ رہی تھی اور وہ حق دق بیٹھی رہ گئی- یہ مسلمان عورتیں تھیں؟یہ واقعی مسلمان عورتیں تھیں؟ان کو آسمانی کتابوں پہ ایمان نہ تھا؟یہ قرآن کو نہیں سننا چاہتی تھیں جس نے ان کو ان کا مال اور حسن دیا تھا۔۔۔؟جو چاہتا تو ان کی سانسیں روک دیتا،ان کے دل بند کر دیتا-مگر اس نے ان کو ہر نعمت دے رکھی تھی-پھر بھی وہ اس کی بات نہیں سننا چاہتی تھین؟ یہ تو قرآن کی بات ہے اللہ کا کلام ہے آپ سنیں تو سہی، یہ تو-اس نے کہنا چاہا- پلیز آپ ہماری ڈسکشن میں مخل نہ ہوں- اور وہ خاموش ہوگئی-اتنی ہٹ دھرمی-شاید وہ بد نصیب عورتیں تھیں،جب کو اللہ اپنی بات سنوانا نہیں چاہتا تھا- اور ہر وہ شخص جو روز قرآن نہین پڑھتا وہ بد نصیب ہوتا ہےاللہ اس سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا- پھر وہ ادھر نہیں بیٹھی،تیزی سے اٹھی قرآن بیگ میں رکھا اور فرشتے سے میں گھر جارہی ہوں کہہ کر بغیر کچھ سنے وہاں سے چلی ائی، اس کا دل جیسے درد سے پھٹا جا رہا تھا-آنسو ابلنے کو بے تاب تھے- سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیسے اس غم کو قابو کرے،کیسے-کیسے مسلمان ہوکر وہ یہ سب کہہ سکتی تھیں؟اسے ابھی تک یقین نہیں ارہا تھا- دل بہت بھر آیا تو آنسو بہہ پڑے، وہ چہرہ پھیرے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی-سڑک کے ایک جانب درخت پیچھے کو بھاگ رہے تھے،گاڑی ڈرائیور چلا رہا تھا جسے وہ ساتھ لے کر آئی تھی-تائی مہتاب کی بہو بننے پہ اعزاز تو اسے ملنا ہی تھا-اور روک ٹوک بھی قدرے کم ہوگئی تھی-مگر ابھی وہ ان باتوں کو نہیں سوچ رہی تھی-اس کا دل تو ان عورتوں کے رویوں پہ اٹک سا گیا تھا- اسے لگا- ایک دم گاڑی جھٹکے سے رکی-وہ چونک کر آگے دیکھنے لگی- کیا ہوا؟ بی بی! گاڑی گرم ہوگئی ہے ،شاید ریڈی ایٹر میں پانی کم ہے،میں دیکھنا بھول گیا تھا-ڈرائیور پریشانی سے کہتا باہر نکلا-وہ گہری سانس لے کر رہ گئی- سڑک سنسان تھی گو وقفے وقفے سے گاڑیاں گزرتی دکھائی دیتی تھیں مگر ارد گرد آبادی کم تھی-وہ کوئی انڈسٹریل ایریا تھا-بہت دور اونچی عمارتیں دکھائی دیتی تھیں-ڈرائیور بونٹ کھول کر چیک کرنے لگ گیا تو وہ سر سیٹ سے ٹکائے، آنکھں موندے انتظآر کرنے لگی- بی بی!تھوڑی دیر بعد اس کی کھڑکی کا شیشہ بجا- اس نے چونک کے آنکھیں کھولیں-باہرڈرائیور کھڑا تھا- کیا ہوا؟ اس نے شیشہ نیچے کیا- انجن گرم ہوگیا ہے،میں کہیں سے پانی لے کر آتا ہوں،آپ اندر سے سارے دروازے لاک کر لیں،مجھے شاید تھوڑی دیر لگ جائے- ہوں ٹھیک ہے جاؤ- اس نے شیشہ چڑھایا، سارے لاک بند کیے اور چہرے پہ حجاب کا ایک پلو گرا کے آنکھیں پھر سے بند کر لیں، ادھیڑ عمر ڈرائیور چھے سات برسوں سے ان کے ہاں ملازمت کر رہا تھا،اور خاصا شریف النفس انسان تھا سو وہ مطمئن تھی- وہ گرمیوں کی دوپہر تھی-تھوڑی ہی دیر میں گاڑی حبس زدہ ہوگئی-گھٹن اور حبس اتنا شدید تھا کہ اس نے شیشہ کھول دیا- ذرا سی ہوا اندر آئی مگر گاڑی کے ساکن ہونے کی وجہ سے ماحول پہلے سے زیادہ گرم ہوگیا- وہ تھوڑی ہی دیر میں پسینہ پسینہ ہوگئی-بے اختیار سیٹ پر تہہ کر کے رکھا دوپٹہ اٹھایا اور اس سے ہوا جھلنے لگی-گرمی اتنی شدید تھی کہ اسے لگا وہ بھٹی میں جل رہی ہے- کافی دیر گزر گئی مگر ڈرائیور کا کوئی نامو نشان نہ تھا- بے اختیار وہ سورہ طلاق کی تیسری آیت آخر سے پڑھنے لگی-جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے راستہ بنا ہی دیتا ہے- ڈیڑھ گھنٹے سے اوپر ہونے کو آیا تھا،وہ گرمی سے نڈھال، پسینے میں شرابور کتنی ہی دیر سے دعائیں کر رہی تھی-مگر جانے کیوں آج کوئی راستہ نہیں کھل رہا تھا- پھر جب سورج سر پہ پہنچ گیا اور باہر سے آتی دھوپ و گرمی میں اضافہ ہوتا چلا گیا تو اس نے گھبرا کر شیشے بند کر دئیے- اور پھر سے وہی ہوا،گھٹن زدہ اور حبس زدہ بند گاڑی جیسے ڈبہ ہو یا قبر ۔۔۔۔۔ یا سمندر میں تیرتی کسی مچھلی کا پیٹ! مچھلی کا پیٹ؟اس نے حیرت سے دہرایا-یہ میرے دل میں کیسے خیال آیا کہ یہ مچھلی کا پیٹ ہے؟وہ الجھی اور پھر سے اسے وہ کلب کی عورتین یاد آئیں اور ان کا وہ گھمنڈی رویہ!اس کے خیال کی رو بھٹکنے لگی-پتا نہیں وہ کیوں اس رب کی بات سننا نہیں چاہتی تھیں جس کے ہاتھ میں ان کی سانسیں ہیں،اگر وہ چاہیں تو ان منکرین کی سانسیں روک دے،مگر وہ ایسا نہیں کرتا- “کیوں؟اس نے خود سے سوال کیا-اس کی آواز بند شیشوں سے ٹکرا کر پلٹ ائی- باہر فضا صاف دکھائی دے رہی تھی-دور سے جھلکتی اونچی عمارتیں،ان کے اوپر آسمان۔جہاں سے پرندے اڑتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے، یہ عمارتیں یہ آسمان زمین یہ اڑتے پرندے ،یہ زمین کو روندتے ہوئے چلتے متکبر لوگ ،وہ سب زندہ تھے-ان کی سانسیں اپنے انکار کے باوجود نہیں رکتی تھیں- کیوں؟ کیونکہ ان کی سانسیں انکو ملی مہلت کی علامت ہے-محمل بی بی!کسی کے گناہ کتنے ہی شدید ہوں، اگر سانس باقی ہے تو امید ہے شاید کہ وہ لوٹ آئیں-وہ رب تو ان نافرمانوں سے مایوس نہیں ہوا،پھر تم کیوں ہوئیں؟کوئی اس کے اندر بولا تھا- وہ جیسے سناٹے میں اگئی- کتنی جلدی وہ نہ ماننے والوں سے مایوس ہوگئی؟ “ان پہ کڑھنے لگی؟پھر کیوں وہ کسی کی ہٹ دھرمی دیکھ کر یہ فرض کر بیٹھی کہ وہ کبھی بدل نہیں سکتیں کیوں اس نے مایوس ہوکر بستی چھوڑ دی- اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑے-بے اختیار اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے- نہیں کوئی اللہ تیرے سوا،پاک ہے تو بے شک میں ہی ظالموں میں سے ہوں- ندامت کے آنسو اس کے گال پہ لڑھک رہے تھے-اسے بستی نہیں چھوڑنی چاہیئے تھی-اگر کچھ لوگ قرآن نہیں سننا چاہتے تو کہیں تو ھوگا جو سننا چاہے گا-خود وہ کیا تھی؟قرآن کو اس روز چھت پر کھلتے ہی بدکنے والی،آج کدھر تھی!صرف اس سیاہ فام لڑکی کی ذرا سی کوشش ذرا سے تجسس کو بھڑکانے والے عمل سے وہ کسی نہ کسی طرح آج ادھر پہنچ گئی تھی- کہ اللہ اس سے بات کرتا تھا،پھر اپنی پارسائی پہ غرور اور دوسرے کی تحقیر کیسی؟ اس کے آنسو ابھی بہہ رہے تھے کہ ڈرائیور سامنے آتا دکھائی دیا-اس کے دونوں ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں تھیں- اور جو اللہ سے ڈرتا ہے،اللہ اس کے لیے راستہ نکال ہی دیتا ہے- بے اختیار اس کے لبوں سے نکلا تھا-اسے لگا اس کی توبہ شاید قبول ہوگئی تھی-کبھی کبھی اسے لگتا تھا ایمان اور تقوی بھی سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح ہوتا ہے۔ایک صحیح قدم کسی معراج پہ پہنچا دیتا ہے تو دوسرا غلط قدم گہری کھائی میں،اس نے بے ساختہ سوچا تھا- گاڑی گھر کے سامنے رکی،اور ڈرائیور نے ہارن بجایا-چوکیدار گیٹ کھول ہی رہا تھا جب اس کی نظر ساتھ والے بنگلے پر پڑی- تم جاؤ میں آتی ہون-وہ سبک رفتاری سے باہر نکلی- بریگیڈئیر صاحب کا چوکیدار وہی گیٹ ہی کھڑا تھا-اس نے فورا بیگ کھنگالا- سنو یہ اپنے صاحب کو دے دینا-اور چند پمفلٹس نکال کے اس کی طرف بڑھائے-ان سے کہنا یہ امانت ہے چاہیں تو پڑھ لیں، کوئی دباؤ نہیں، مگر میں واپس ضرور لینے آؤں گی، پکڑ لو نا۔-متذبذب کھڑے چوکیدار کو پمفلٹس زنردستی تھمائے، اور واپس گھر کی جانب ہو لی- کوئی تو ہوگا جو اسے سننا چاہے گا-آج نہیں – کل نہیں مگر کبھی تو وہ ان پمفلٹس کو کھولیں گے- کاریڈور میں لگا سافٹ بورڈ آج کچھ زیادہ ہی چمک رہا تھا یا شاید وہ اس کیلی گرافی کے کناروں پہ لگی افشاں کی چمک تھی-وہ سافٹ بورڈ کے وسط میں آویزاں تھی-وہ آہستہ آہستہ چلی ہوئی دیوار کے قریب آئی-کیلی گرافی بہت خوبصورت تھی-اس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنے بیٹے ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر کہے گئے الفاظ رقم تھے-وہ گردن اٹھائے ان الفاط کو پڑھنے لگی- “عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ بھی روتے ہیں؟آپ نے فرمایا اے ابن عوف،یہ رحمت اور شفقت ہے-اور آپ پھر سے رو پڑے اور فرمایا- بے شک انکھ آنسو بہاتی ہے-اور دل غمگین ہے-لیکن ہم زبان سے وہی بات نکالیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو-اے ابراہیم بے شک ہم تیری جدائی پہ بہت غم زدہ ہیں- وہ مسحور سی اسی طرح گردن اونچی اٹھائے بار بار الفاظ پڑھتی گئی-کچھ تھا ان میں جو اسے بار بار کھینچتا تھا-وہ وہاں سے جا ہی نہ پا رہی تھی-جانے کے لیے الفاظ اٹھاتی مگر وہ الفاظ اسے روک دیتے اور واقعی پھر سے رک جاتی- جب تفسیر کی کلاس کا وقت ہونے لگا وہ بمشکل خود کو وہاں سے کھینچ لائی-قرآن کھولتے ہوئے نظر درمیان کے کسی صفحے پر پڑی- ہر نفس موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے- وہ صفحے پیچھے پلٹنے لگی-انگلی سے صفحے پلٹتے ہوئے ایک جگہ اور یونہی نظر پھسلی- آج تم ایک موت نہ مانگو، بلکہ آج تم کئی موتیں مانگو،- وہ سر جھٹک کر اپنے سبق پہ آئی- آج کی پہلی ایت ہی یہی تھی- اے لوگو جو ایمان لائے ہو،جب تم میں سے کسی ایک پر موت حاضر ہوجائے- اوہو، مجھے کیا ہوگیا ہے؟وہ بے بسی سے مسکرا کر رہ گئی-آج تو ساری موت کی آیتیں پڑھ رہی ہوں،کہیں میں مرنے تو نہیں والی؟اف محمل فضول مت سوچو اور سبق پہ توجہ دو- وہ سر جھتک کر نوٹس لینے لگی-موت کی وصیت کے متعلق آیات پڑھی جا رہی تھیں- اسے یاد آیا، ابھی اس نے ایک حدیث بھی کچھ ایسی ہی پڑھی تھی- اچانک لکھتے لکھتے اس کا قلم پھسل گیا-وہ رک گئی اور پھر آہستہ سے سر اٹھایا- کیا کوئی مرنے والا ہے؟اس کا دل زور سے دھڑکا تھا-وہ جو قرآن میں پڑھتی تھی اس کے ساتھ وہ پیش آجاتا تھا،یا آنے والا ہوتا تھا-کبھی ماضی ، کبھی حال، اور کبھی مستقبل-کوئی لفظ بے معنی بے مقصد اس کی آنکھوں سے نہیں گزرتا تھا- پھر آج وہ کیوں ایک ہی طرح کی آیت پڑھی جا رہی تھی-کیا کوئی مرنے والا ہے؟کیا کوئی اسے چھوڑ کر جانے والا ہے؟کیا اسے قرآن ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے؟اسے صبر کرنے کو کہہ رہا ہے،مگر کیوں ؟ کیا ہونے والا ہے؟ وہ بے چینی سے قرآن کے صفحے آگے پلٹنے لگی- اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے- ایک سطر پڑھ کر اس نے ڈھیر سارے صفحے پلٹے- صبر کرنے والے اپنا صلہ۔۔۔ پورا پڑھے بغیر اس نے آخر سے قرآن کھولا- اور ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہو- اور پھر وہ صفحے تیز تیز پلٹتی ایک نظر سے سب گزارتی جا رہی تھی- اور کوئی نہیں جانتا وہ کونسی زمین پر مرے گا- محمل کا دم گھٹنے لگا تھا-بے اختیار گھبرا کر اس نے قرآن بند کیا-اسے پسینہ آرہا تھا-دل زور زور سے دھڑک رہا تھا-کچھ ہونے والا تھا-کیا وہ برداشت کر پائے گی؟شاید نہیں اس میں اتنا صبر نہیں ہے-وہ کچھ نہ برداشت کر پائے گی-کبھی بھی نہیں-اس نے وحشت سے ادھر ادھر دیکھا- میڈم مصباح کا لیکچر جاری تھا-لڑکیاں سر جھکائے نوٹس لے رہیں تھیں-کوئی اس کی طرف متوجہ نہ تھا-اس نے ذرا سی گردن اوپر کو اٹھائی-اوپر چھت تھی- چھت کے پار آسمان تھا-وہاں کوئی اس کی طرف ضرور متوجہ تھا مگر وحشت اتنی تھی کہ دعا بھی نہ مانگ سکی- تب ہی آیا اماں اسے دروازے میں نظر آئیں-ان کے ہاتھ میں ایک چٹ تھی-وہ میڈم مصباح کے پاس گئیں اور چٹ ان کی طرف بڑھا دی-میڈم نے لیکچر روک دیا اور چٹ تھامی- محمل بنا پلک جھپکے ان کو دیکھ رہی تھی- میڈم مصباح نے چٹ پڑھ کر سر اٹھایا،ایک نگاہ پوری کلاس پہ ڈالی، پھر چہرہ مائیک کے قریب کیا- محمل ابراہیم پلیز ادھر آجائیں- اور اسے لگا وہ اگلا سانس نہیں لے سکے گی-وہ جان گئی تھی -کوئی مرنے والا نہیں تھا-اب کسی کو نہیں مرنا تھا-اس کا نام پکارا جا رہا تھا اور اس کی ایک ہی وجہ تھی- جسے مرنا تھا ، وہ مر چکا تھا-کہیں کوئی اس کا پیارا وپر چکا تھا- وہ نیم جاں قدموں سے اٹھی اور میڈم کی طرف بڑھی- آنکھ آنسو بہاتی ہے- دل غمگین ہے- مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو- اے ابراہیم- ۔۔۔۔۔۔ بے شک ہم تیری جدائی پہ بہت غمزدہ ہیں- صدیوں پہلے کسی کے کہے گئے الفاظ کی باز گشت اسے سارے ہال میں سنائی دے رہی تھی-باقی ساری آوازیں بند ہوگئی تھیں-اس کے کان بند ہوگئے تھے- زبان بند ہوگئی تھی- بس وہ ایک آواز اس کے ذہن میں گونج رہی تھی- آنکھ آنسو بہاتی ہے- دل غمگین ہوتا ہے- دل غمگین ہوتا ہے- دل غمگین ہوتا ہے- وہ بمشکل میڈم مصباح کے سامنے کھڑی ہوئی- جی میڈم؟ آپ کا ڈرئیور آپ کو لینے ایا ہے، ایمرجنسی ہے،آپ کو گھر جانا۔۔۔ مگر وہ پوری بات سنے بغیر ہی سیڑھیوں کی طرف بھاگی-ننگے پاؤں زینے پھلانگتی وہ تیزی سے اوپر آئی تھی-جوتوں کا ریک ایک طرف رکھا تھا،مگر محمل کو اس وقت جوتوں کا ہوش نہ تھا-وہ سنگ مر مر کے فرش پر ننگے پاؤں دورتی جا رہی تھی- غفران چچا کی اکارڈ سامنے کھڑی تھی-ڈرائیور دروازہ کھولے منتظر کھڑا تھا،اس کا دل ڈوب کر ابھرا- بی بی اپ ۔۔۔۔۔۔۔ پلیز خاموش رہو- وہ بمشکل ضبط کرتی اندر بیٹھی-اور جلدی چلو- اس کا دل یوں دھڑک رہا تھا گویا ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آجائے گا- آغآ ہاؤس کا مین گیٹ پورا کھلا تھا،باہر گاڑیوں کی قطار لگی تھی- ڈرائیو وے پہ لوگوں کا جم غفیر اکتھا تھا- گاڑی ابھی گیٹ کے باہر سڑک پہ ہی تھ کہ وہ دروازہ کھول کر باہر بھاگی-ننگے پاؤں تارکول کی سڑک پہ جلنے لگے،مگر اس وقت جلن کی پرواہ کسے تھی، اس نے رش میں گھرےآغا جان کو دیکھا،غفران چچا کو دیکھا،حسن کو دیکھا، وہ سب اس کی طرف بڑھے تھے،مگر وہ اندر کی طرف لپک رہی تھی-لوگوں کو ادھر ادھر ہٹاتی وہ ان کی آوازوں تک پہنچنا چاہتی تھی- جو لان سے آرہی تھیں-عورتوں کے بین ، رونے آہ و بکا کی آوازیں- لوگ ہٹ کر اس سفید یونیفارم اور گلابی اسکارف والی لڑکی کو راستہ دینے لگے تھے-وہ بھاگتی ہوئی لان تک ائی اور پھر گھاس کے دہانے پہ بے اختیار رک گئی- لان میں عورتوں کا ایک ہجوم اکٹھا تھا-درمیاں میں چارپائی رکھی تھی،اس پہ کوئی سفید چادر اوڑھے لیتا تھا- چار پائی کے چاروں طرف عورتیں رو رہی تھیں-ان کے چہرے گڈ مد سے ہو رہے تھے-ایک فضہ چچی تھیں،اور ہاں ناعمہ چچی بھی تھیں، اور وہ سینے پہ دو ہتھڑ مار کر روتی رضیہ پھپھو تھیں،اور وہ اونچی آواز میں بین کرتی تائی مہتاب تھیں-سب تو ادھر موجود تھے- پھر کون تھا اس چارپائی پہ؟کون۔۔۔۔۔۔۔ کون تھا وہ؟ اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی،وہاں سارا خاندان اکٹھا تھا بس ایک چہرہ نہ تھا- اماں! اس کے لب پھڑ پھڑائے- اس نے انہیں پکارنے کے لیے لب کھولے،مگر آواز نے گویا ساتھ چھوڑ دیا-وہ وحشت سے ادھر ادھر دیکھنے لگی، شاید اس کی ماں کسی کونے میں بیٹھی ہو،مگر وہ کہیں نہ تھیں-اس کی ماں کہیں نہ تھی- محمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل- وہ عورتیں اسے پکار رہی تھیں-اٹھ اٹھ کر اسے گلے سے لگا رہی تھیں،کسی نے راستہ بنا دیا ،تو کوئی میت کے پاس سے ہٹ گیا،کوئی اسے ہاتھ سے پکر کر چار پائی کے قریب لے آیا،کسی نے شانوں پہ زور دے کے اسے بٹھایا،کسی نے میت کے چہرے سے چادر ہٹا دی-کون کیا کر رہا ہے اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا،ساری آوازیں آنا بند ہوگئیں،اردگرد کی عورتوں کے لب ہل رہے تھے،مگر وہ سن نہ پا رہی تھی کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں،رو رہی ہیں یا ہنس رہی ہیں، وہ تو بس یک ٹک بنا پلک جھپکے اس زرد چہرے کو دیکھ رہی تھی جو چار پائی پہ آنکھیں موندے لیٹا تھا-نتھنوں میں روئی ڈالی گئی تھی-اور چہرے کے گرد سفید پٹی تھی-وہ چہرہ واقعی اماں سے بہت ملتا تھا-بالکل جیسے اماں کا چہرہ ہو اور شاید۔۔۔۔۔۔۔ شاید وہ اماں کا چہرہ ہی تھا- اسے بس ایک پل لگا تھا تھا یقین آنے میں اور پھر اس نے چاہا کہ وہ بھی دھاڑیں مار کر رونے لگے،نوحہ کرے بین کرے، زور زور سے چلائے،مگر وہ رحمت العالمین کے کہے الفاظ۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو- اور اس کے لب کھلے رہ گئے،آواز حلق میں ہی دم تور گئی-زبان ہلنے سے انکاری ہوگئی- اس کا شدت سے دل چاہا کہ اپنا سر پیٹے،سینے پہ دو ہتھڑ مار کر بین کرے-دوپٹہ پھاڑ ڈالے اور اتنا چیخ چیخ کہ روئے کہ آسمان ہل جائے،اور پھر اس نے ہاتھ اٹھائے بھی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نوحہ کرنے والی اگر توبہ کیے بغیر مر گئی تو اس کے لیے تارکول کے کپڑے اور اگ کے شعلے کی قمیض ہوگی- جو گریبان چاک کرے اور رضساروں پر طمانچے مارے اور بین کرے ہم میں سے نہیں- یہ ہدایت تو ابد تک کے لیے تھی- اس کے ہاتھ اٹھنے سے انکاری ہوگئے-آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے لیکن لب خاموش تھے- اسے رلاؤ ، اسے کہو اونچا رو لے، ورنہ پاگل ہو جائے گی- اس سے کہو دل ہلکا کر لے- بہت سی عورتیں اس کے قریب زور زور سے کہہ رہی تھیں- میری بچی! تائی مہتاب نے روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا-وہ اسی طرح ساکت سی بیٹھی ماں ک میت کو دیکھ رہی تھی- آنکھوں سے آنسو گر کر گردن پہ لڑھک رہے تھے-اس کا پورا چہرہ بھیگ گیا تھا،مگر زبان۔۔۔۔۔۔ زبان نہین ہلتی تھی- مسرت تو ٹھیک ٹھاک تھی پھر کیسے۔۔۔۔ بس صبح کہنے لگی سینے میں درد ہے، ہم فورا ہسپتال لے گئے مگر- ادھوری ادھوری سی آوازیں اس کے اردگرد سے آرہی تھیں،مگر اسے سنائی نہ دے رہی تھی،اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا-اسے لگا اسے چکر آرہے ہیں،عجیب سی گھٹن تھی،اس کا سانس بند ہونے لگا تھا- وہ ایک دم اتھی اور عورتوں کو ہٹاتی اندر بھاگ گئی- کسی نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی- ایک دفعہ، دو دفعہ ، پھر تیسری دفعہ،اس نے گھٹنوں پہ رکھا سر ہولے سے اٹھایا-دروازہ بج رہا تھا-وہ آہستہ سے اتھی،بیڈ سے اتری، سلیپر پاؤں میں ڈالے اور کنڈی کھولی،باہر فضہ چچی کھڑی تھیں- محمل بیٹا تمہارے آغا جان تمہیں بلا رہے ہیں- آتی ہوں-اس نے ہولے سے کہا تو فضہ چچی پلٹ گئیں-وہ کچھ دیر یونہی ادھر کھڑی رہی،پھر باہر آگئی- سیڑھیوں کے قریب لگے ہوئے آئینے کے پاس سے گزرتی ہوئی وہ پل بھر کو رکی،اس کا عکس بھی رک کر اسے دیکھ رہا تھا- ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیض پہ سفید ململ کا دوپٹہ سر پہ لیے وہ کمزور یژمردہ سی محمل ہی تھی؟ہاں شاید وہ ہی تھی-سفید دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ کملایا ہوا لگ رہا تھا-آنکھوں کے گرد گہرے حلقے تھے،وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی- آغا جان کے کمرے میں سب چچا اور چچیاں موجود تھیں، وسیم بھی ایک طرف کھڑا تھا- آؤ محمل! اسے اتے دیکھ کر اغا جان نے سامنے صوفے کی طرف اشارہ کیا- آج اماں کو گزرے چوتھا دن تھا، اور گھر والوں کا رویہ پہلے کی نسبت اب کافی نرم تھا- وہ چپ چاپ صوفے پر بیٹھ گئی- اس صبح جب مسرت کی ڈیتھ ہوئی ، اس نے درد زروع ہوتے ہی یہ کچھ چیزیں وصیت کی تھیں تمہارے لیے-( اسے لگ رہا تھا وہ اب مزید نہیں جی پائے گی)ہم نے سوچا کہ تمہیں دے دی جائیں-انہوں نے ایک طرف رکھا ڈبہ اٹھایا-محمل نے سر اٹھا کر ڈبے کو دیکھا-یہ ڈبہ اماں کے زیورات کا تھا-وہ ہمیشہ اسے تالا لگا کر الماری کے نچلے حصے میں رکھا کرتی تھیں- یہ ایک ڈبہ تھا اس کی یہ چابی ہے،تم خود دیکھ لو اور ساتھ یہ کچھ رقم تھی،اس کی جمع پونجی، اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارے اکاؤنٹ میں جمع کروا دوں مگر میں نے سوچا یہ تمہارے حوالے ہی کر دوں، تم بہتر فیصلہ کر سکتی ہو- انہوں نے ایک پھولا ہوا لفافہ ڈبے کے اوپر رکھا-محمل نے آہستہ سے لفافہ اٹھایا اور کھول کر دیکھا-اندر ہزار ہزار کے کئی نوٹ تھے-شاید اماں نے اس کے جہیز کے لیے رکھے تھے-اس کا دل بھر ایا-اس نے لفافہ ایک طرف رکھا اور چابی سے کاسنی ڈبے کا تالا کھولا- اندر کچھ زیورات تھے-خالص سونے کے جڑاؤ زیورات،اس نے ڈبہ بند کردیا-معلوم نہیں اماں نے کب سے سنبھال کر رکھے تھے- وسیم سمیت تمام لوگ اس وصیت کے وقت موجود تھے،تم سب سے پوچھ سکتی ہو میں نے تمہارا حق پورا ادا کر دیا ہے، یا نہیں- اس نے بھیگی آنکھیں اٹھائیں،سامنے صوفوں اور کرسیوں پہ بیٹھے تمام نفوس کے چہرے مطمئن تھے،مطمئن اور بے نیاز- چیزیں تو آپ نے ادا کر دیں ہیں آغآ بھائی،مگر مسرت کی وصیت ؟ دفعتا فضہ چچی نے اضطراب سے پہلو بدلا- اوہو فضہ ! ابھی اس کی ماں کو گزرے دن ہی کتنے ہوئے ہیں-تائی مہتاب نے نگاہوں سے تنبیہہ کی- مگر بھائی مسرت نے کہا تھا جلد از جلد- رہنے دو فضہ !ہم اس کا فیصلہ محمل پہ چھوڑ چکے ہیں-اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا- مگر ایٹ لیسٹ اسے بتا تو دیں- ابھی اس کا غم ہلکا تو ہونے دو پھر۔۔۔۔۔ ان کی دبی دبی سرگوشیاں اسے بے چین کر گئیں- تائی اماں! کیا بات ہے؟اماں نے کچھ اور بھی کہا تھا؟ سب ایک دم خاموش سے ہو کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے- محمل میں تمہیں کچھ دن تک بتاؤں گی، ابھی اس قؔصے کو چھوڑ دو- پلیز تائی اماں مجھے بھی بتائیں- مگر تمہارا غم ابھی۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں مجھے بتائیں-اس نے بے چینی سے بات کاٹی- تائی مہتاب نے ایک نظر سب کو دیکھا،پھر قدرے ہچکچا کر گویا ہوئیں، بات یہ ہے کہ مسرت نے مرنے سے پہلے وسیم کو بلوا کر سب کے سامنے تمہارے آغا جان سے کہا کہ اگر وہ بچ نا سکی تو جلد از اجلد محمل کو وسیم کی دلہن بنا کر سہارا دیں،اس کو بے آسرا نہ چھوڑیں،اور تمہارےآغآ جان نے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے، وہ اپنی جگہ سن سی ہوگئی،زمین جیسے قدموں تلے سے سرکنے لگی تھی- اور آسمان سر سے ہٹنے لگا تھا- اماں نے یہ سب کہا؟ ہاں یہ سب لوگ جو یہاں ہیں اس بات کے گواہ ہیں،تم کسی سے بھی پوچھ لو- وہ ایک دم بالکل چپ سی ہوگئی-عجیب سی بات تھی اسے یقین نہ ارہا تھا- لیکن محمل! ہم نے یہ فیصلہ تم پہ چھوڑ دیا ہے،تم چاہو تو یہ شادی کرو چاہو تو نہ کرو،ہم نے اس لیے تمہیں آگاہ کر دیا کیونکہ یہہ تمہاری ماں کی آخری خواہش تھی- یہ تم پر منحصر ہے تم اس ک بات رکھتی ہو کہ نہیں-ہم میں سے کوئی تم پر زور نہیں ڈالے گا- وہ سر جھکائے کاسنی ڈبے کو دیکھ رہی تھی-ذہن میں جیسے جھکڑ چل رہے تھے- مگر یہ ڈبہ اور یہ لفافہ ثبوت تھا کہ یہ وصیت واقعی اس کی ماں نے کی تھی- اگر تمہیں منظور ہے تو ہم اگلے جمعے نکاح رکھ لیتے ہیں کہ مسرت کی خواہش تھی یہ کام جلد از جلد کیا جائے،اگر نہیں تو کوئی بات نہیں، تم جو چاہو گی وہی ہوگا-تائی مہتاب اتنا کہہ کر خاموش ہوگئیں- اس نے ہولے سے سر اٹھایا-سنہری آنکھیں پھر سے بھیگ چکی تھیں-کمرے میں موجود تمام نفوس دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے- میں اپنی ماں کی بات کا مان رکھوں گی-آپ جب کہیں گی میں شادی کے لیے تیار ہوں- پھر وہ رکی نہیں،ڈبہ اور لفافہ اٹھا کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی- وہ کچن میں کرسی پہ بیٹھی تھی،ہاتھ میں صبح و شام کی دعاؤں اور اذکار کی کتاب تھی،اور وہ منہمک سی پڑھ کر دعا مانگ رہی تھی- ہم نے صبح کی فطرت اسلام پہ اور کلمہ اخلاص پہ اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین پہ اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پہ جو یکسو مسلمان تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے”- محمل۔! کسی نے زور سے کچن کا دروازہ کھولا- اس نے چونک کر سر اٹھایا-سامیہ عجلت میں اندر داخل ہوئی تھی- تم سے کوئی ملنے آیا ہے ڈرائنگ روم میں ہے جاؤ مل لو- کون ہے؟ وہی پولیس والا! وہ کہہ کر پلٹ گئی- ہمایوں آیا ہے؟وہ کتنی ہی دیر کتاب ہاتھ میں لیے بیٹھی رہی،پھر آہستہ سے اسے بند کیا،سلیب پہ رکھا، لباس کی شکنیں درست کیں اور سیاہ دوپٹہ ٹھیک سے سر پہ لے کر باہر آگئی- ڈرائنگ روم سے باتوں کی آواز ارہی تھی جیسے دو لوگ گفتگو میں مشغول ہوں-یہ ہمایوں سے کون باتیں کر رہا ہے؟وہ الجھتی ہوئی اندر آئی ڈرائنگ روم اور ڈائننگ ہال کے درمیان سفید جالی دار پردہ تھا-وہ پردے کے پیچھے ذرا دیر کو رکی- سامنے بڑے صوفے پہ ہمایوں بیتھا تھا-اس کے بالکل مقابل سنگل صوفے پر آرزو بیٹھی تھی-ٹانگ پہ ٹانگ رکھے،آدھی پنڈلی تک ٹراؤزر پہنے وہ اپنے مخصوص بے نیاز حلیے میں تھی-کٹے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ ہنس ہنس کر ہمایوں سے کچھ کہہ رہی تھی- جانے کیوں اسے یہ اچھا نہ لگا-اس نے ہاتھ سے پردہ سمیٹا اور اندر قدم رکھا- وہ جیسے اسے دیکھ کر کچھ کہتے کہتے رکا اور پھر بے اختیار کھڑا ہوگیا-بلیو شرٹ اور گرے پینٹ میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح بہت شاندار لگ رہا تھا-آغا جان اسے پسند نہیں کرتے تھے،مگر پھر بھی اسے اندر آنے دیا گیا-شاید اس لیے کہ اب وہ ان کی بہو بننے والی تھی- اور اس کو وہ ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے- السلام علیکم-وہ آہستہ سے کہہ کر سامنے صوفے پہ بیٹھی گئی-آرزو کے چہرے پہ ذرا سی ناگواری ابھری-،جسے ہمایوں نے نہیں دیکھا تھا،وہ پوری طرح محمل کی طرف متوجہ تھا- مجھے مسز ابراہیم کی ڈیتھ کا پتہ بہت دیر بعد چلا ، میں کراچی گیا ہوا تھا، آج ہی آیا ہوں،فرشتے نے جیسے ہی بتایا میں آگیا،آئی ایم ویری سوری محمل! واپس صوفے پہ بیٹھتے ہوئے وہ بہت تاسف سے کہہ رہا تھا- محمل نے جواب دینے سے پہلے ایک نظر آرزو کو دیکھا- آرزو باجی !آپ جا سکتی ہیں، اب میں آگئی ہوں- ہاں شیور- آرزو اٹھ کھڑی ہوئی-مگر جاتے ہوئے ان کو شادی کا کارڈ دے دینا-استہزائیہ مسکرا کر وہ گویا جتا گئی تھی-محمل کے سینے میں ہوک سی اٹھی- کس کی شادی وہ چونکا تھا- محمل کی شادی وسیم کے ساتھ آپ کو نہیں پتا اے ایس پی صاحب؟اسی فرائیڈے ان کا نکاح ہے،آپ ضرور آئیے گا میں آپ کا کارڈ نکلوا دیتی ہوں،ٹھہریے ! وہ خوشدلی سے کہتی باہر نکل گئی- کتنے ہی لمحے خاموشی کی نظر ہوگئے- یہ کیا کہہ رہی تھی؟وہ بولا تو اس کی آواز میں حیرت تھی- بے پناہ حیرت- ٹھیک کہہ رہی تھی-وہ سر جھکائے ناخن کھرچتی رہی۔ محمل کی شادی وسیم کے ساتھ آپ کو نہیں پتا اے ایس پی صاحب؟اسی فرائیڈے ان کا نکاح ہے،آپ ضرور آئیے گا میں آپ کا کارڈ نکلوا دیتی ہوں، زراٹھہریے ! وہ خوشدلی سے کہتی باہر نکل گئی- کتنے ہی لمحے خاموشی کی نظر ہوگئے- یہ کیا کہہ رہی تھی؟وہ بولا تو اس کی آواز میں حیرت تھی- بے پناہ حیرت- ٹھیک کہہ رہی تھی-وہ سر جھکائے ناخن کھرچتی رہی مگر کیوں محمل؟ آپ غالبا تعزیت کے لیے آئے تھے- پہلے میری بات کا جواب دو،تم ایسا کیسے کر سکتی ہو؟ میں آپ کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں-اس نے تلملا کر سر اٹھایا-یہ میری ماں کی آخری خواہش تھی-مرتے وقت انہوں نے یہی وصیت کی تھی- تمہیں کیسے پتہ تم تو ان کی ڈیتھ کے وقت مدرسے میں تھی، ہاں مگر انہوں نے آغا جان سے کہا تھا،سب لوگ وہاں موجود تھے سب گواہ ہیں۔۔۔ تم! وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا-اس کا بس نہیں چل رہا تھا،وہ کیا کر ڈالے-تم انتہائی بے وقوف اور احمق ہو- میں اپنی ماں کی بات کا مان رکھنا چاہتی ہوں،اس میں کیا حماقت ہے؟وہ چڑ گئی- نادان لڑکی!تمہیں یہ لوگ بے وقوف بنا رہے ہیں،استحصال کر رہے ہیں- کرنے دیں آپ کو کیا ہے؟وہ پیر پٹخ کر کھڑی ہوگئی-آپ میرے کون ہو جو مجھ سےپوچھ گچھ کر رہے ہو؟ میں جو بھی ہوں مگر تمہارا دشمن نہیں ہوں-وہ بھی ساتھ ہی کھڑا ہوا،اس کی آواز میں بے بسی تھی-کبھی یہی بات اس نے بہت اکھڑ لہجے میں بھی کہی تھی-جب وہ مدرسے کے باہر اسے لینے آیا تھا، اس رات کی صبح جو اس کی زندگی اجاڑ گئی تھی- اگر آپ کے دل میں میری ماں کا ذرا سا بھی احترام ہے تو مجھے وہ کرنے دیں جو میری ماں چاہتی تھی- ماں باپ کبھی اولاد کا برا نہیں چاہتے-اسی میں کوئی بہتری ہوگی، آپ جا سکتے ہیں-وہ ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہوگئی- اسی پل پردہ ہٹا کر آرزو نمودار ہوئی- آپ کا کارڈ،آائیے گا ضرور-اس نے مسکرا کر کارڈ ہمایوں کی طرف بڑھایا-ہمایوں نے ایک قہر آلود نظر محمل پہ ڈالی، اور دوسری محمل پہ اور لمبے ڈگ بھرتا ہوا باہر نکل گیا- نو پرابلم- آرزو شانے اچکا کر کارڈ لیے واپس مڑگئی- اماں ! وہ کراہ کر صوفے پہ گر سی گئی-یہ اماں اسے کس منجھدھار میں چھوڑ کے چلی گئی تھیں؟کیوں کیا انہوں نے یہ فیصلہ؟کیوں اماں؟دونوں ہاتھوں میں سر جھکائے وہ سوچتی رہ گئی- سارے گھر میں دبا دبا سا شادی کا شور اٹھ چکا تھا،گو کہ ابھی ؟صرف نکاح تھا،مگر مہتاب تائی بھرپور تیاریاں کر رہی تھیں-شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فواد جلد ہی گھر واپس آرہا تھا-اس خبر سے محمل پہ تو کوئی اثر نہ ہوا،البتہ مہتاب تائی اپنی اندرونی خوشی چھپائے سب کچھ محمل پہ ڈال گئی تھیں، سوچ رہیں ہیں تھوڑا سا گہما گہمی والا فنکشن رکھیں، تاکہ محمل کا دل بہل جائے،ورنہ سچ پوچھو تو مسرت کے جانے کے بعد وہ بجھ سی گئی ہے-اب ہمارا دل نہیں چاہتا کہ شور ہنگامہ ہو۔مگر بس محمل اچھا محسوس کرے ، اس لیے- وہ کسی نہ کسی کو ہر وقت فون پہ وضاحتیں دے رہی ہوتی تھیں- محمل چپ چاپ کچن میں کام نمٹا تی رہتی،جیسے وہ خاموش ماتم کر رہی تھی،نمازیں، تسبیحات ، دعائیں،وہ سب کر رہی تھی،ہاں مدرسے وہ ابھی نہیں جا رہی تھ،وہ صرف اور صرف ماتم چاہتی تھی-مسر ت کا یا شاید اپنا،وہ نہیں جانتی تھی- فون کی گھنٹی بجی تو وہ جو رومال سے میز صاف کر رہی تھ،آہستہ سے رومال چھوڑ کے اٹھی- اسٹینڈ پہ رکھا فون مسلسل بجے جا رہا تھا-وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی قریب آئی اور رسیور اٹھایا- السلام علیکم! وعلیکم السلام، محمل؟نسوانی آواز رسیور میں گونجی،وہ لمحے بھر میں ہی پہچان گئی- فرشتے کیسی ہیں آپ؟ میں ٹھیک ہوں،ہمایوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے قدرے پریشانی سے کہہ رہی تھی کہ اس نے تیزی سے بات کاٹی- ہمایوں ہر بات آپ کو کیوں جا کے بتاتے ہیں؟ان سے کہیں ایسا مت کیا کریں- مگر محمل تم اس طرح سے کیسے؟ آپ لوگ مجھے احمق کیوں سمجھتے ہیں؟کیوں میرے لیے پریشان ہورہے ہیں؟میری ماں میرے لیے کچھ غلط نہیں سوچ سکتی،پلیز مجھے میری زندگی کے فیصلے خود کرنے دیں- محمل اب میں تمہیں کیا کہوں!اچھا ٹھیک ہے جو کرنا ، سوچ سمجھ کے کرنا، اوکے،چلو اب ہمایوں سے بات کرو- ارے نہیں-وہ روکتی رہ گئی،مگر فرشتے نے فون اسے پکڑا دیا تھا- ” اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے اور تمہارے وہ فیری ٹیل سسرال والے اجازت دیں تو کیا میں اور فرشتے تمہاری شادی کے فنکشن میں آ سکتے ہیں؟ اونہوں ہمایوں! پیچھے سے فرشتے کی تنبیہی آواز ابھری- ہاں شیور کیوں نہیں-جمعہ کو رات آٹھ بجے فنکشن ہے-ضرور آئیے گا اللہ حافط- اس نے کھٹ سے فون بند کردیا-غصہ اتنا ابل رہا تھا کہ فرشتے سے بھی بات کرنے کو جی نہیں چاہا تھا- فون کی گھنٹی پھر سے بجنے لگی،مگر وہ سر جھٹک کر میز کی طرف بڑھ گئی جہاں جھاڑ پونچھ کا رومال اس کا انتظار کر رہا تھا- بیوٹیشن نے کام دار دوپٹہ اس کے سر پہ رکھا۔اور پھر اسے ایک ہاتھ سے پکڑے،وہ جھک کر ڈریسنگ ٹیبل سے پنیں اٹھانے لگی-محمل بت بنی اسٹول پہ بیٹھی سامنے آئینے میں خود کو دیکھ رہی تھی،بیوٹیشن اس کے پیچھے کھڑی اس کا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی- وہ کام دار شلوار قمیض گہرے سرخ رنگ کی تھی- جس پہ سلور سلمہ ستارے کا کام تھا-دوپٹے کے بارڈر پہ بھی چوڑی پٹی کی صورت میں سلور کام کیا گیا تھا-ساتھ میں نازک سا وائٹ گولڈ اور روبی کا نیکلس تھا اور ایک خوبصورت قیمتی سا ٹیکہ جس میں بڑا سا سرخ روبی جڑا تھا،اس کے ماتھے پہ سجا تھا-جانے تائی نے کب یہ سب بنوایا تھا،وہ بھی چپ چاپ ہر چیز پہنتی گئی- گھر میں ہونے والے ہنگاموں سے کہیں نہیں لگتا تھا کہ مسرت کو مرے ابھی بیس دن بھی نہیں ہوئے، مگر وہ شکوہ کس سے کرتی؟مسرت کی زندگی میں بھی ان کی اتنی اہمیت کہاں تھی کہ مرنے کے بعد کوئی انہیں یاد رکھتا؟اور سنا تھا آج تو فواد بھی گھر آگیا تھا،پھر کاہے کا ماتم؟ وہ اپنے کمرے کی بجائے تائی کے کمرے میں تھی، تاکہ وہ ٹھیک سے تیار ہو جائے-اسے تیار کرنے کے لیے تائی نے وہ ماہر بیوٹیشن بلوائی تھی جو کافی دیر سے اس پہ لگی ہوئی تھی- دقعتا باہر لاؤنج سے چند آوازیں گونجیں-وہ ذرا سی چونکی، کیا فواد آگیا تھا؟مگر نہیں، یہ آواز تو ۔۔۔۔۔۔ سنو،یہ دروازہ تھورا سا کھول دو-بے چینی سے اس نے بیوٹیشن سے کہا،تو وہ سر ہلاتی آگے بڑھی اور لاؤنج میں کھلنے والا دروازہ آدھا کھول دیا- سامنے لاؤنج کا منظر آدھا نظر آرہا تھا اور اس کا شک درست تھا- تم ۔۔۔۔۔۔۔ تم ادھر کیوں آئی ہو؟تائی مہتاب کی تلملاتی بلند آواز اندر تک سنائی دے رہی تھی- فکر مت کریں میں رنگ میں بھنگ ڈالنے نہیں آئی،محمل کی شادی ہے میرا آنا فرض بنتا تھا- وہ اطمینان سے کہتی باہر صوفے پہ بیٹھ گئی تھی-ادھ کھلے دروازے سے وہ محمل کو صاف نظر آرہی تھی- سیاہ عبایا کے اوپر سیاہ حجاب ک تنگ ہالے کو چہرے کے گرد لپیٹے وہ اب بے نیازی سے ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی اطراف کا جائزہ لے رہی تھی- محمل نے لمحے بھر کو محسوس کرنا چاہا کہ اسے فرشتے کے آنے کی خوشی ہوئی ہے-،مگر اسے اپنے محسوسات بہت جامد لگے تھے،برف کی طرح ٹھنڈے- اندر باہر خاموشی ہی خاموشی تھی،فرشتے آئے یا فواد اب اسے کوئی فرق نہ پڑتا تھا- مگر ہم تمہارا اس گھر سے کوئی رشتہ تسلیم نہیں کرتے- نہ کریں مجھے پرواہ نہیں ہے-وہ اب ہاتھ میں پکڑے موبائل کے بٹن دباتی اس کی طرف یوں متوجہ تھی جیسے سامنے غصے سے بل کھاتی تائی مہتاب کی کوئی اہمیت نہ ہو-فرشتے کے پاس موبائل نہیں تھا،وہ شاید ہمایوں کا موبائل لے کر آئی تھی- دیکھو لڑکی تمہارا محمل سے کوئی تعلق نہیں ہے،بہتر ہے کہ تم چلی جاؤ اس سے پہلے کہ میں گارڈ کو بلواؤں- پھر آپ گارذ کو بلوا لیں،کیونکہ میں تو ایسے جانے والی نہیں ہوں، سوری- مسز کریم! میں موبائل پہ بزی ہوں،آپ دیکھ رہی ہیں،مجھے ڈسٹرب مت کریں،اور پلیز محمل کو بلا دیں- وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھی موبائل پہ چہرہ جھکائے ہوئے مصروف تھی،محمل کے لبوں کو ہلکی سی مسکراہٹ چھو گئی-فرشتے بدتمیز یا بد لحاظ نہ تھی، بلکہ ازلی ٹھنڈے اور باوقار انداز میں تائی مہتاب کو بہت آرام سے جواب دے رہی تھی-البتہ محمل بدتمیزی کر جاتی تھی،اسے لگتا تھا وہ کبھی بھی فرشتے کی طرح پر اعتماد اور باوقار نہیں بن سکے گی- محمل تم سے نہیں ملے گی، تم جا سکتی ہو- آغآ جان کی آواز پہ موبائل پہ مصروف فرشتے نے چونک کر سر اٹھایا-وہ سامنے سے چلے آرہے تھے-کلف لگے شلوار قمیض میں ملبوس کمر پہ ہاتھ باندھے وہ غیض و غضب کی تصویر بنے ہوئے تھے- السلام علیکم چچا! وہ موبائل رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی-چہرے پر ازلی اعتماد اور سکون تھا- فرشتے تم یہاں سے جا سکتی ہو- آپ مجھے نکال سکتے ہیں؟ وہ ذرا سا مسکرائی-آپ کو لگتا ہے کریم چچا کہ آپ مجھے نکال سکتے ہیں؟ میں نے کہا یہاں سے جاو-وہ ایک دم غصے سے ڈھارے تھے- میں بھی اتنا ہی اونچا چیخ سکتی ہوں،مگر میں ایسا نہیں کروں گی،میں یہاں یہ کرنے نہیں آئی،میں صرف محمل سے ملنے آئی ہوں-وہ سینے پہ ہاتھ باندھے پر اعتماد سی ان کے سامنے کھڑی تھی- لاؤنج میں سب اکٹھے ہونے لگے تھے-لڑکیاں ایک طرف لاعلم سی کھڑیں اشاروں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہیں تھیں،حسن بھی شور سن کے سیڑھیوں سے نیچے اتر آیا تھا- لاؤنج کے بیچوں بیچ آغآ جان کے سامنے کھڑی وہ دراز قد سیاہ عبایا والی لڑکی کون تھی-؟ بہت سی آنکھوں میں سوال تھا- تمہارا محمل سے کوئی تعلق نہیں ہے،وہ تم سے نہیں ملے گی سنا تم نے؟ آپ یہی بات محمل کوبلوا کر پوچھ لیں نا کریم چچا! کہ وہ مجھ سے یہ ملے گی یا نہیں- ہم تمہیں نہیں جانتے کہ تم کون ہو،کہاں سے اٹھ کر اگئی ہو- تم فورا نکل جاؤ، ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا- آغآ جان! یہ کون ہیں؟حسن الجھا ہو آگے بڑھا- تم بیچ میں مت بولو-انہوں نے پلٹ کر اتنی بری طرح سے جھڑکا کہ حسن خائف ہوگیا- ہٹو-بیوٹیشن کا ہاتھ ہٹا کر وہ اٹھی اور کامدار دوپٹہ سنبھالتی ننگے پاؤں باہر لپکی- آپ مجھ سے ملنے ائی ہیں؟لاؤنج کے سرے پہ وہ رک کر بولی تو سب نو چونک کر اس کی طرف دیکھا -فرشتے ذرا سا مسکرائی- کریم چچا کہہ رہے تھے کہ تم مجھ سے نہیں ملو گی؟ محمل! تم اندر جاؤ-تائی مہتاب پریشانی سے آگے بڑھیں- آغآ جان! تائی اماں! فرشتے کو میں نے خود شادی میں انوائیٹ کیا ہے،آپ گھر آئے مہمان کو کیسے نکال سکتے ہیں؟ تم نے؟ تائی مہتاب بھونچکی رہ گئی-تم جانتی ہو اسے؟ ہاں میں انہیں جانتی ہوں- اور یہ کیسے نہیں جانتی ہونگی،ان کے اس عاشق کی عزیزہ ہیں نا یہ۔۔۔ کوئی تمسخرانہ انداز میں کہتا ہوا سیڑھیوں سے اتر رہا تھا- محمل نے چونک کر گردن اٹھائی-وہ فواد تھا-ہشاش بشاش چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ لیے ،وہ ان کے سامنے آکھڑا ہوا تھا- یہ کون ہیں؟فرشتے نے قدرے ناگواری سے اسے دیکھ کر محمل کو مخاطب کیا- یہ اس ملک میں قانون کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے،جن کو قانون زیادہ دیر تک حراست میں نہ رکھ سکتا،،، ایک جتاتی نگاہ فواد پہ ڈال کر اس نے چہرہ موڑ لیا تھا-آپ اندر آجائیں فرشتے! بیٹھ کر بات کرتے ہیں- ہرگز نہیں-تائی تیزی سے اگے بڑھیں- محمل! یہ لڑکی فراڈ ہے، یہ صرف ابراہیم کی جائیداد کے پیچھے ہے- وہ تو آپ بھی ہیں مہتاب آنٹی!اور شاید اسی لیے آپ محمل کو بہو بنا رہی ہیں؟ اس نے فرشتے کو کسی سے اتنا درشتی میں بات کرتے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا،مگر اسے حیرت نہیں ہوئی تھی- یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے، تم بیچ میں مت بولو- میں بیچ میں بولوں گی،محمل کے لیے میں ضرور بولوں گی! وہ پلٹی اور محمل کو دونوں کندھوں سے تھام کر اپنے سامنے کیا- محمل! مجھے بتاؤ ان لوگوں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے؟یہ تمہیں کیوں مجبور کر رہے ہیں اس شادی کے لیے؟ مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا یہ میرا اپنا فیصلہ ہے،میں اس پہ خوش ہوں- فرشتے ایک دم چپ ہوگئی-اس کے شانوں پہ اس کے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے- سن لیا تم نے؟اب جاؤ- آغآ جان استہزائیہ سر جھٹکا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا، مگر وہ ان کی طرف متوجہ نہ ہوئی- محمل تم نے اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کیسے کر لیا؟وہ دکھ سے اسے دیکھ رہی تھی- جب کسی کو اپنا مخلص دوست کہا جاتا ہے اور اپنے دوست کی محبت اور خلوص کے دعوے کیے جاتے ہیں تو اتنے بڑے فیصلوں سے قبل اسے مطلع بھی کیا جاتا ہے- میں آپ کو بتانے ہی۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنی بات نہیں کر رہی- پھر ؟ کون؟ وہ چونکی- کیا ہمایوں؟اس کا نام اس نے آہستہ سے لیا تھا- میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ مزیڈ اس کے قریب آئی اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے دھیرے سے بولی -میں اس مصحف کی بات کر رہی ہوں جس کے اتارنے والے سے تم نے سمعنا واطعنا(ہم نے سنا اور ہم نےاطاعت کی) کا وعدہ کیا تھا-کیا تم نے اسے بتایا؟ فرشتے!وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہی تھی- “اللہ کو سب پتا ہے میں کیا بتاؤں؟ کیا تمہیں دن میں 5 بار اسے اپنی اطاعت کا بتانا نہیں پڑتا؟پھر اپنے فیصلوں میں تم اسے کیسے بھول سکتی ہو؟ محمل ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھنے لگی-اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ فرشتے کیا کہہ رہی ہے،کیا سمجھنا چاہ رہی ہے۔۔۔ مگر میں نے نماز تسبیح کچھ نہیں چھوڑا،میں ساری نمازیں پڑھتی ہوں-وہ دونوں بہت مدھم سرگوشی میں بات کر رہی تھیں- لیکن کیا تم نے اس کی سنی؟اس نے کچھ تو کہا ہوگا تمہارے فیصلے پر-فرشتے نے ابھی تک اسے کندھوں سے تھام رکھا تھا اور وہ یک ٹک اسے تکے جا رہی تھی- محمل! تم اس کی بات سنتی تو سہی، اس سے پوچھتی تو سہی!تم قرآن کھولو اور سورہ مائدہ کا ترجمہ دیکھو- -اس کی آواز میں تاسف گھل گیا-محمل نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ اپنے شانوں سے ہٹائے اسے لگا اس سے غلطی ہو گئی ہے- میں ابھی آتی ہوں آپ جائیے گا نہیں- وہ کام دار دوپٹے کا پلو انگلیوں سے تھامے ننگے پاؤں بھاگتی ہوئی کمرے کی طرف گئی- محترمہ آپ جا سکتی ہیں-فواد نے دروازے کی طرف اشارہ کیا- یہ میرے باپ کا گھر ہے ، اس میں ٹھہرنے کے لیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں، وہ رکھائی سے کہتی صوفے پہ بیٹھی اور پھر سے موبائل اٹھا لیا- فواد اور آغا جان نے ایک دوسرے کو دیکھا،نگاہوں میں ۔۔۔۔۔ اشاروں کا تبادلہ کیا اور آغا جان بھی گہری سانس لیتے ہوئے صوفے پہ بیٹھ گئے-تقریب کے شروع ہونے میں دو ڈھائی گھنتے باقی تھے-مہمانوں آمد کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا- محمل دوڑتے قدموں سے اپنے کمرے میں آئی تھی-دروازے کی چٹخنی چڑھا کر شیلف کی طرف لپکی- سب سے اوپر والے خانے میں اس کا سفید جلد والا مصحف رکھا تھا-اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اوپر رکھا،مصحف اٹھایا اور آہستہ سے اسے دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے چہرے کے سامنے لائی،اسے سب یاد رہا تھا،صرف یہ بھول گیا تھا کیوں؟ وہ اسے مضبوطی سے پکڑے بیڈ پہ آبیٹھی اور کور کھولا- وہ سورہ مائدہ کی 106 آیت تھی- اے ایمان والوں جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو- چند الفاظ پڑھ کر ہی اس کادل بری طرح دھڑکا -اس نے زور سے پلکیں جھپکیں،کیا وہ سب کچھ واقعی ادھر لکھا تھا؟وصیت ۔۔۔ موت کا وقت، وصیت “مسرت نے مرتے وقت وصیت کی تھی۔۔۔۔ تمہارا رشتہ وسیم سے۔۔۔ بہت سی آوازیں ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگیں-وہ سر جھٹک کر پھر سے پڑھنے لگی- اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں دوصاحب عدل آدمی گواہ لے لیے جائیں پھر اگر (ان کی بتائی ہوئی وصیت میں)کوئی شک پڑجائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو ( مسجد میں روک لیا جائے اور وہ قسم کھا کر کہیں کہ ہم کسی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو(ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں)اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں،اگر ہم نے ایسا کیا تو گناہگاروں میں شمار ہوجائیں گے- وہ ساکت سی ان الفاظ کو دیکھ رہی تھی-اس کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں-قرآن کو تھامے دونوں ہاتھ بے جان سے ہوگئے تھے-کیا وہ سب واقعی یہاں لکھا تھا؟مگر ۔۔۔ مگر کیسے؟وصیت ۔۔۔ دو افراد کا قسم کھا کر گواہی۔۔۔ رشتہ دار یہ سب تو ۔۔۔۔ یہ سب تو اس کے ساتھ ہورہا تھا- وہ پلک تک نہ جھپک پارہی تھی-اس کا دل جیسے رعب سے بھر گیا تھا-رعب سے اور خوف سے- یکایک اسے لگا اس کے ہاتھ کپکپا رہے ہیں،اسے ٹھنڈے پسینے آرہے ہیں،وہ بہت بھاری کتاب تھی، بہت بھاری، بہت وزنی وہ جس کا بوجھ پہاڑ بھی نہ اٹھا سکتے ہوں،وہ کیسے اٹھا سکتی تھی؟اسے لگا اس کی ہمت جواب دے جائے گی-وہ اب مزید یہ بوجھ نہیں اٹھا پائے گی-وہ عام کتاب نہ تھی،اللہ کی کتاب تھی۔۔۔ اسے اللہ نے اس کے لیے خاص ، خاص اس کے لیے اتارا تھا-ہر لفظ ایک پیغام تھا-ہر سطر ایک اشارہ تھی- اس نے اتنی زندگی ضائع کردی-اس نے یہ پیغام کبھی دیکھا ہی نہیں- محمل تم نے اتنی عمر بے کار گزار دی-یہ کتاب غلاف میں لپیٹ کر بہت اونچی سجانے کے لیے تو نہ تھی- یہ تو پڑھنے کے لیے تھی- ہر دفعہ کی طرح آج بھی پھر اس کتاب نے اسے بہت حیران کیا تھا-سوچنا سمجھنا تو دور کی بات وہ تو متحیر سی ان الفاط کو تکے جا رہی تھی،یہ سب کیا تھا؟کیسے اس کتاب کو سب پتہ ہوتا تھا؟ کیونکہ یہ اللہ کی کتاب ہے نادان لڑکی! یہ اللہ کی بات ہے،اس کا پیغام ہے، خاص تمہارے لیے،تم لوگ نہ سننا چاہو تو یہ الگ بات ہے-کسی نے اس کے دل سے کہا تھا- وہ کون تھا وہ نہ جانتی تھی ۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز پر سب نے چونک کر اسے دیکھا-وہ آہستہ سے چلی آرہی تھی-کام دار دوپٹے کا کنارہ ٹھوڑی کے قریب سے اس نے دو انگلیوں میں رکھا تھا-اس کے چہرے کی رنگت قدرے سفید پڑی ہوئی تھی یا شاید یہ کچھ اور تھا جو انہیں چونکا گیا تھا،وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی ان کے سامنے آکھڑی ہوئی- آغا جان ! اس نے ان کی آنکھوں میں جھانکا-وہ اس کے اجنبی لہجے پہ چونک سے گئے- ہاں بولو- میری ماں کی وصیت کے وقت موجود لوگوں میں سے کون سے دو لوگ عصر کی نماز کے بعد اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر گواہی دیں گے کہ انہوں نے یہ وصیت کی تھی یا نہیں؟ پل بھر میں لاؤنج میں سکوت سا چھا گیا، فرشتے نے مسکراہٹ دبا کر سر نیچے کر لیا- آغا جان حیران سے کھڑے ہوئے- کیا مطلب؟ آپ کو پتہ ہے سورہ مائدہ میں لکھا ہے نماز کے بعد آپ میں سے دو لوگوں کو اللہ کے نام کی قسم اٹھا کر گواہی دینی پڑے گی- کیا بکواس ہے؟ وہ بھڑک اٹھے- تمہیں ہماری بات کا اعتبار نہیں؟ نہیں ہے! تم! وہ غصہ ضبط کرتے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے- تب ہی نگاہ فرشتے پر پڑی تو اس نے فورا شانے اچکا دیے-