کیا بکواس ہے؟ وہ بھڑک اٹھے- تمہیں ہماری بات کا اعتبار نہیں؟ نہیں ہے! تم! وہ غصہ ضبط کرتے مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے- تب ہی نگاہ فرشتے پر پڑی تو اس نے فورا شانے اچکا دیے- میں نے تو کچھ نہیں کیا کریم چچا! تم سے تو میں بعد میں ۔۔۔۔ آپ لوگ گواہی دیں گے یا نہیں؟َ وہ ان کی با ت کاٹ کر زور سے بولی تھی-پھر چہرے کا رخ صوفوں پہ بیٹھے نفوس کی طرف موڑا-کون کون تھا اس وقت آپ میں سے ادھر؟کون دے گا گواہی؟کون اٹھائے گا قسم ۔ بولیے جواب دیجیے- سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے-اسے اس کے سارے جواب مل گئے تھے-کاش وہ پہلے اس آیت کو پڑھ لیتی تو اتنا غلط فیصلہ نہ کرتی،صحیح کہتا ہے اللہ تعالی ہماری بہت سی مصیبتیں ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہیں- تو آپ لوگوں نے مجھ سے جھوٹ بولا،بہت بہتر مجھے اب کوئی شادی نہیں کرنی-اس نے ماتھے پہ جھولتا ٹیکہ نوچ کر سامنے پھینکا-نازک سا ٹیکہ ایک آواز کے ساتھ میز پر گرا- اب میرا فیصلہ بھی سن لو- آغا جان نے ایک گہری سانس لی-مگر پہلے تم لڑکی! انہوں نے حقارت سے فرشتے کو اشارہ کیا-مجھے تم یہاں سے چلتی نظر آؤ- میرے باپ کا گھر ہے ، میں تو کہیں نہیں جاؤں گی- ٹھیک ہے فواد-انہوں نے فواد کو اشارہ کیا-وہ سر ہلا کے آگے بڑھا اور صوفے پہ بیٹھی فرشتے کو ایک دم بازو سے کھینچا- چھوڑو مجھے-وہ اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تھی،بے اختیار چلا کر خود کو چھڑانے لگی،مگر وہ اسے بازو سے کھینچ کر گھسیٹتا ہوا باہر لے جانے لگا-اسی پل آغا جان محمل کی طرف بڑھے- تو تم یہ شادی نہیں کروگی؟ ہاں ہرگز نہیں کروگی-میری بہن کو چھوڑ دو- وہ غصے سے فواد پہ جھپٹنا ہی چاہتی تھی جو فرشتے کو باہر لے کے جا رہا تھا،مگر اس سے پہلے ہی آغا جان نے اس کو بالوں سے پکڑ کے واپس کھینچا- تو تم شادی نہیں کرو گی؟انہوں نے اس کے چہرے پہ تھپڑ مارا-وہ چکرا کر گری- تمہیں لگتا ہے ہم پاگلوں کی طرح تمہاری منتیں کریں گے؟تمہارے آگے ہاتھ جوڑیں گے؟نہیں بی بی شادی تو تمہیں کرنی پڑے گی،ابھی اور اسی وقت- اسد نکاح خواں کو ابھی بلواؤ-میں بھی دیکھتا ہوں یہ کیسے شادی نہیں کرتی- میں نہیں کروں گی سنا آپ نے-وہ روتے ہوئے بولی،وہ مسلسل اسے تھپڑوں اور مکوں سے مار رہے تھے- میری بہن کو چھوڑ دو- خود کو چھڑاتی فرشتے محمل کو پٹتے دیکھ کر لمحے بھر کو سکتہ میں رہ گئی تھی،اور پھر دوسرے ہی پل اس نے زور سے فواد کو دھکا دینا چاہا۔ مگر وہ مرد تھا،وہ اس کو دھکیل نہ سکتی تھی،وہ اس کو بازو سے پکڑتے ہوئے دروازے سے باہر نکال رہا تھا- فواد اسے چھوڑ دو-یکدم حسن نے فواد کو پوری قوت کے ساتھ دھکیلا تھا-فواد اس حملے کے لیے تیار نہ تھا، ایک دم بوکھلا کر پیچھے کو ہٹا -اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، اور فرشتے بازو چھراتی محمل کی طرف بھاگی، جسے آغا جان ابھی تک مار رہے تھے-فواد نے غصے سے حسن کو دیکھامگر اس سے پہلے اسے کچھ سخت کہتا فضہ نے بازو سے پکڑ کر حسن کو ایک طرف کر دیا-میری بہن کو چھوڑیں ہٹیں- وہ چیختی ہوئی آغآاجان کا ہاتھ روکنے لگی،مگر ساتھ ہی انہوں نے ایک زور دار طمانچہ اس کے منہ پہ بھی مارا-فرشتے تیورا کر ایک طرف گری- منہ میز کے کونے سے لگا -ہونٹ کا کنارہ پھٹ گیا-لمحے بھر کو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا،اگلے ہی پل وہ خود کو سنبھالتی ہوئی تیزی سے اٹھی- محمل اپنے بازو چہرے پہ رکھے ، روتی ہوئی اپنا کمزور سا دفاع کر رہی تھی-اب کی بار فرشتے نے آغا جان کا ہاتھ نہیں روکا،بلکہ محمل کو پیچھے سے پکڑ کے کھینچا- محمل گٹھڑی بنی چند قدم پیچھے کھینچتی گئی-اس کا دوپٹہ سر سے اتر کر پیچھے ڈھلک گیا تھا،بالوں کی لٹیں جوڑے سے نکل کر چہرے پہ بکھر گئیں- اس سے پہلے کہ آغآ جان اپنے اور محمل کے درمیاں چند قدم کا فاصلہ عبور کرتے فرشتے ان کے اور محمل کے درمیان آکھڑی ہوئی- ہاتھ مت لگائیے میری بہن کو-اپنے پیچھے گٹھڑی بنی بیٹھی محمل کے سامنے وہ اپنے دونوں بازو پھیلائے چیخ پڑی تھی-آپ لوگ اس حد تک گر جائیں گے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی-کیا بگاڑا ہے اس نے آپ کا؟ سامنے سے ہٹ جاؤ ورنہ تم آج میرے ہاتھوں سے ختم ہو جاو گی! وہ غصے سے ایک قدم آگے بڑھے ہی تھےکہ فواد نے ان کا بازو تھام لیا- آرام سے آغآ جان!آپ کا بی پی شوٹکر جائے گا-ان کو سہارا دے کر وہ نرمی سے بولا تھا-محمل ابھی تک گھٹنوں پہ سر رکھے رو رہی تھی، جبکہ فرشتے اس کے آگے بازو پھیلائے کھڑی تھی-فواد چاہتا تو اسے پھر پکڑ لیتا، مگر جانے کیوں وہ آغآ جان کو سہارا دئیے وہی کھڑا تھا-اس کے طرف نہیں بڑھا- میں اب محمل کو ادھر نہیں رہنے دوں گی- اٹھو محمل! اپنا سامان پیک کرو، اب تم میرے ساتھ رہو گی- چلو- اس نے محمل کو اٹھانا چاہا مگر وہ ایسے ہی گری روتی جا رہی تھی- آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ اسے لے گئیں تو ہم لوگوں کو کہیں گے کہ محمل کی نام نہاد بہن اسے لے گئی اور بس؟ محمل کو بازو سے پکڑ کر اٹھاتے اس کے ہاتھ ایک ثانیے کو تھم گئے اس نے قدرے الجھ کے سر اٹھایا اور فواد کو دیکھا-چہرے پہ چھایا غصہ ایک دم الجھن میں ڈھلا تھا- کیا مطلب؟ مطلب محمل وہ لڑکی ہے نا جو ایک بار پہلے بھی ایک رات باہر گزار چکی ہے؟ تو اس کے لیے اگر یہ کہا جائے کہ یہ نکاح سے پہلے کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے تو فورا یقین کر لیا جائے گا نا؟ اس کے چہرے پہ شاطرانہ مسکراہٹ تھی- نہیں- محمل نے تڑپ کے آنسوؤں سے بھیگا چہرہ اٹھایا – تمہارے نہیں کہنے سے یہ بدنامی ٹل تو نہیں جائے گی ڈیر کزن!تم اپنی بہن کے ساتھ گئیں تو ہم تمہیں پورے خاندان میں بدنام کر دیں گے-اور پھر یہ تمہیں کتنا عرصہ سنبھالے گی؟اس کے بعد تم کہاں جاؤ گی؟ محمل پھٹی پھٹی نگاہوں سے فواد کا چہرہ دیکھ رہی تھی- خود فرشتے بھی سن رہ گئی- اگر تم نے اس گھر سے قدم بھی باہر نکالا تو تم بدنام ہوجاؤ گی-پورا خاندان تھوکے گا تم پر کہ ماں کے مرتے ہی کھلی چھوٹ۔۔۔۔۔ نہیں ، نہیں۔۔۔ میں نہیں جاؤں گی- وہ خوف زدہ سی گھٹی گھٹی آواز میں بمشکل بول پائی- یعنی تم وسیم سے شادی کرنے پہ تیار ہو-ویری گڈ کزن! وہ اسی عیاری سے مسکرایا- اسد چچا یقینا نکاح خواں کو لاتے ہی ہوں گے-وسیم کدھر ہے کوئی اسے بھی بلائے- ہرگز نہیں-فرشتے نے غصے میں تڑپ کے اسے دیکھا-محمل کی شادی تمہارے بھائی سے ہرگز ہونے نہیں دوں گی-تم لوگ یہ سب صرف اس کی جائیداد ہتھیانے کے لیے کر رہے ہو- میں جانتی ہوں تم شادی کے بعد اس سے جائیداد اپنے نام لکھواؤ گے، اسے طلاق دلا کر گھر سے باہر نکال دو گے- ہان بالکل ہم یہی کریں گے-وہ بہت سکون سے بولا-گو کہ یہ بات فرشتے نے خود کہی تھی مگر اسے فواد سے اعتراف کی توقع نہیں تھی-وہ اپنی جگہ ششدر رہ گئی- تو تم واقعی۔۔۔۔ ہاں- ہم اس لیے تو محمل کی شادی وسیم سے کروانا چاہتے ہیں- فواد! آغآ جان نے تنبیہیی ــــــ نظروں سے اسے ٹوکنا چاہا- مجھے بات کرنے دیں آغا جان! ہاں تو محمل ! ہم اسی لیے تمہاری شادی وسیم سے کروا رہے ہیں-تمہیں منظور ہے نا؟کیونکہ فرشتے کے ساتھ تو تم جا نہیں سکتیں-اب تمہیں شادی تو کرنا ہی ہوگی- نہیں ۔ نہیں- وہ بے اختیار وحشت سے چلائی – میں نہیں کروگی شادی- محمل تمہارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے- تمہیں شادی کرنا پڑے گی- وہ بغور اس کی انکھوں میں دیکھ کر کہتا آہستہ آہستہ اس کے چاروں طرف سے گھیر رہا تھا- کاش میں تمہیں بد دعا دے سکتی آغآافواد! مگر میں عاملین قرآن میں سے ہوں، ایسا نہیں کروں گی،کیا تمہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟َ فرشتے نے تنفر سے اسے دیکھا- میں نے کچھ غلط تھوڑی کہا ہے- تم غلط کر رہے ہو ایک یتیم لڑکی کے ساتھ- یہ تو ہم کافی سالوں سے کر رہے ہیں-یقین کیجیے ہم پر کبھی کوئی طوفان نہیں آیا- تمہیں اس طوفان کی خبر تب ہوگی جب وہ تمہارے سر پر پہنچ چکا ہوگا- اللہ سے ڈرو- تمہیں اس یتیم پر ظلم کرکے کیا ملے گا؟ تو آپ اس ظلم کو اپنے حق میں کیوں نہیں بدل لیتیں؟ کیا مطلب؟ وہ چونکی- وہ جواب دیے بنا اس پر ایک نطر ڈالتا محمل کی طرف متوجہ ہوا جو زمین پر بیٹھی سر اٹھائے اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی- ایک صورت میں میں تمہاری شادی محمل سے روک دوں گا، اور چاہو تو تم اپنی بہن کے ساتھ چلی جاؤ-ہم خاندان والوں کو کچھ نہیں بتایں گے-پھر فرشتے جہاں چاہے تمہاری شادی کروا دے، ہم کیا پورا خاندان شریک ہوگا-کیا تم وہ صورت اختیار کرنا چاہو گی؟ محمل کے چہرے پہ بے یقینی اتر آئی- وہ بنا پلک جھپکے فواد کا چہرہ دیکھنے لگی – سدرہ میری بیڈ سائیڈ ٹیبل پر کاغذ پڑا ہے وہ لے کر آؤ اور ساتھ پین بھی-اس نے مہرین اور ندا کے ساتھ دیوار سے لگی خاموش کھڑی سدرہ کو اشارہ کیا جو اس کی بات سن کر سر ہلاتے ہوئے تیزی سے سیڑھیوں کی طرف لپکی- تم کیا کہنا چاہتے ہو؟خطرے کا الارم دور کہیں بجتا فرشتے کو سنائی دے رہا تھا- یہی کہ محمل کی شادی رک سکتی ہے وہ تمہارے ساتھ جا سکتی ہے اگر ۔۔۔۔۔ اس نے سیڑھیوں سے اترتے سدرہ کو دیکھا جو بھاگتی ہوئی آئی اور اسے کاغذ قلم پکڑا دیا- اگر تم دونوں یہ پیپر سائن کردو – یہ کیا ہے فرشتے کا لہجہ محتاط تھا- مجھے معلوم تھا کہ آپ نکاح کے وقت ڈرامہ کرنے ضرور آئیں گی اسی لیے ہم نے پہلے سے انتظام کر رکھا تھا-آپ کو کیا لگتا ہے ہمیں علم نہیں تھا کہ آپ محمل سے مل کے اسے کیا پٹیاں پڑھا رہی ہیں-ہمیں سب پتہ تھا محترمہ!یہ بھی کہ محمل کب کب آپ کے کزن سے ملتی رہی ہے-مگر اس وقت کے لیے ہم نے آنکھ بند کر رکھی- آپ کی کیا شرط ہے وہ بات کریں-وہ سرد لہجے میں بولی- یہ فرشتے ابراہیم اور محمل ابراہیم کااعلان دستبرداری ہے-اس گھر فیکٹری اور آغآ ابراہیم کی تمام منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے یہ دونوں دستبرداری کا اعلان کرتی ہیں اور ہر چیز ہمارے حوالے کرتی ہیں-یہ کبھی بھی ہم سے کسی بھی موروثی ملکیت سے حصہ مانگنے نہیں آئیں گی اور آپ جانتی ہیں کہ بدلے میں ہم وسیم کی شادی محمل سے نہیں کریں گے- آف کورس یہ آخری بات اس کاغذ میں نہیں لکھی گئی- فرشتے کے چہر ےپہ پہلے الجھن ابھری پھر حیرت اور پھر واضح بے یقینی- تم ۔ تم ہمیں ہمارے حق سے ہمارے گھر سے بے دخل کرنا چاہتے ہو؟ بالکل صحیح- تم ایسا کیسے کر سکتے ہو آغا فواد! تم ۔۔۔ اس کی بے یقینی اور تحیر غصے میں بدل گیا- تم ہمیں ہمارے گھر سے بے دخل کیسے کر سکتے ہو؟یہ ہمارا گھر ہے- ہمارے باپ کا گھر ہے،اس پہ ہمارا حق ہے،ہمیں ضرورت ہے پیسوں کی،محمل کی پڑھائی اور پھر اس کی شادی کے لیے۔۔۔ ہمیں ان سب کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے- یہ ہمارا درد سر نہیں ہے-تم یہ سائن کردو تو محمل کی جان وسیم سے چھوٹ جائے گی- مگر ہم تمہیں اپنا حق کیوں دیں؟ کیونکہ ان سب پر میرے شوہر اور بیٹوں کا حق ہے- تائی مہتاب چمک کر کہتی آگے بڑھیں-ابراہیم کی وفات کے وقت یہ بزنس دیوالیہ ہوچکا تھا-میرا شوہر دن رات محنت نہ کرتا تو یہ بزنس کبھی اسٹیبلش نہ ہوسکتا تھا- اگر اتنے ہی محنتی تھے آپ کے شوہر اور بیٹے تو میرے ابا کی ڈیتھ کے وقت تک روزگار کیوں پھر رہے تھے؟اور تم ؟ وہ فواد کی طرف پلٹی- اور وارث تو اللہ نے بنائے ہیں ہم کیوں اپنا حق نہ لیں- فرشتے بی بی! یہ پراپرٹی تو آپ کو چھوڑنا ہی پڑے گی-کچھ دیر میں مہمانوں کی آمد شروع ہوجائے گی-شادی والا گھر ہے،ذرا سی بات کا بتنگر بن جائے گا اور بدنامی کس کی ہوگی؟صرف محمل کی! اول تو وسیم سے شادی کرنی ہی پڑے گی،لیکن اگر آپ یونہی اڑی رہیں تو ٹھیک ہے ہم خاندان سے کہہ دیں گے کہ محمل کسی کے ساتھ بھاگ گئی-کس کا خاندان چھوٹے گا، کس کا میکا بدنامی کے باعث چھوٹے گا آپ فیصلہ کر سکتی ہیں- وہ کہتے کہتے ذرا دیر کو رکا- وہ تاسف سے اسے دیکھ رہی تھی- آغا فواد تمہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟ وہ ہولے سے مسکرا دیا-ہم کوئی غلط بات تھوڑی کر رہے ہیں؟اپنا حق ہی مانگ رہے ہیں-خیر دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اور محمل اس پر سائن کریں اور اپنے حصے سے دستبردار ہو جائیں، ہم باعزت طریقے سے شادی کینسل کر دیں گے، آپ محمل کو اپنے ساتھ لے جائیے گا،آپ جس سے چاہیں جب چاہیں اس کا نکاح کرا دیں،ہم بھرپور شرکت کریں گے، بلکہ پورا خاندان شرکت کرے گا- یہ گھر محمل کا میکہ رہے گا، وہ جب چاہے ادھر آسکتی ہے ، مگر اس کی ملکیت میں آپ دونوں میں سے کسی کا حصہ نہیں ہوگا لیجیے! اس نے کاغذ قلم اس کے سامنے کیے-کر دیجئیے سائن- مگر فواد ۔۔۔۔ آغآ جان نے کچھ کہنا چاہا لیکن تائی مہتاب نے ان کا بازو تھام لیا- اسے بات کرنے دیں وہ ٹھیک کہہ رہا ہے- ہونہہ- فرشتے نے سر جھٹکا- آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں آپ کی اس بلیک میلنگ میں آجاؤں گی؟ آپ کو تو ۔۔۔۔ اس کی بات ابھی ادھوری تھی کہ اسے اپنے دائیں ہاتھ پر دباو محسوس ہوا- اس نے چونک کر دیکھا- محمل اس کا ہاتھ پکڑ کر کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی تھی- اس کا کام دار دوپٹہ سر سے ڈھلک گیا تھا، بھوری لٹین گالوں کو چھو رہی تھیں-آنسوؤں نے کاجل دھو ڈالا تھا-وہ بدقت فرشتے کا سہارا لے کر کھڑی ہوئی، اس کے انداز میں کچھ تھا کہ اس کا ماتھا ٹھنکا اور اس سے پہلے کہ فرشتے اس کو روک پاتی اس نے جھپٹ کر فواد کے ہاتھ سے کاغذ چھینا- کدھر کرنے ہیں سائن؟بتاؤ مجھے! وہ ہذیانی کیفیت میں چلائی تھی-فواد ذرا سا مسکرایا اور اپنی انگلی کاغذ پہ ایک جگہ رکھی- نہیں محمل! فرشتے کو جھٹکا لگا تھا-ہمارے پاس کئی راستے ہیں،ہمیں ان کی بلیک میلنگ میں آنے کی ضرورت نہیں ہے- مگر فرشتے مجھے ہے!میں اب تنگ آ چکی نہین چاہیئے مجھے کوئی جائیداد ، کوئی دولت- مجھے کچھ نہیں چاہیئے – لے لیں سب- وہ دھرا دھر سائن کرتی جا رہی تھی- آنسو اس کی آنکھوں سے برابر گر رہے تھے- فرشتے ساکت سی اسے دیکھے گئی-اس نے تمام دستخط کر کے کاغذ اور قلم فواد کی طرف اچھال دیئے- لے لو سب کچھ-تم لوگوں کو اللہ سے ڈر نہیں لگتا- میں اب تم سے اپنا کوئی حق نہیں مانگوں گی- چھوڑتی ہوں میں اپنے سارے حقوق- وہ کہتے کہتے نڈھال سی صوفے پہ گر گئی اور گہری سانسیں لینے لگی- وہ واقعی تھک چکی تھی ٹوٹ چکی تھی- فواد نے کاغذ سیدھا کر کے دیکھا، پھر فاتحانہ مسکراہت کے ساتھ اردگر خاموش اور بے یقین بیٹھے حاضرین پہ ایک نگاہ ڈالی ، پھر فرشتے کی طرف پلٹا- محمل نے دستخط کر دئیے اب آپ بھی کر دیں- اس نے کاغذ قلم اس کی طرف بڑھایا مگر فرشتے نے اسے نہیں تھاما- وہ ابھی تک سکتے کے عالم میں محمل کو دیکھ رہی تھی- دستخط کرو بی بی اور اسے لے جاؤ-تائی مہتاب نے آگے بڑھ کر اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی، پھر ناگواری سے ان کا ہاتھ ہٹایا اور فواد کے بڑھتے ہاتھ کو دیکھا- نہیں- تم محمل کو نفسیاتی طور پہ گھیر کر بے وقوف بنا سکتے ہو- یہ چھوٹی ہے، کم عقل ہے مگر فرشتے ایسی نہیں ہے-میں تمہاری بلیک میلنگ میں نہیں آؤں گی-میں ہرگز سائن نہیں کروں گی اور میں کیوں کروں سائن؟ مجھے ضرورت ہے اپنے حصے کی، مجھے پی ایچ ڈی بھی کرنا ہے- مجھے باہر جانا ہے میں ۔۔۔۔ اس کی بات ادھوری رہ گئی-فواد نے کاغذ قلم میز پر پھینکا اور صوفے پر بیٹھی محمل کو گردن سے دبوچ کر اٹھایا اور اپنے سامنے ڈھال کی طرح رکھتے ہوئے جانے کہاں سے پستول نکال کر اس کی گردن پر رکھا- اب بھی نہیں کرو گی تم سائن؟ وہ غرایا- فرشتے سناٹے میں آگئی- فواد نے بازو کے حلقے میں اس کی گردن دبوچ رکھی تھی-وہ شاک کے باعث اس کی آنکھیں ابل کر باہر آنے لگیں -بے اختیار وہ کھانسی- اپنی بہن سے کہو شرافت سے سائن کردے ورنہ میں واقعی گولی چلا دوں گا اور تم جانتی ہو کہ میں قانون کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہوں-یہی کہا تھا نہ تم نے میرے بارے میں؟اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر اس کے بظآہر سرگوشی میں کہا مگر سب کے کانوں تک اس کی سرگوشی پہنچ گئی- سب کو گویا سانپ سونگھ گیا-حسن نے آگے بڑھنا چاہا مگر فضہ چچی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا- کیا کر رہے ہو۔اگر اس نے گولی چلا دی تو وہ مر جائے گی-کیا تم یہی چاہتی ہو؟انہوں نے بیٹے کو گھڑکا تو وہ بے بسی سے کھڑا رہ گیا- بولو فرشتے بی بی تم سائن کروگی یا نہیں؟ اس نے پستول کی ٹھنڈی نال محمل کی گردن پر چبھوئی- وہ سسک کر رہ گئی- بولو فرشتے وہ زور سے چیخا- نہیں! وہ جیسے ہوش میں آئی-میں سائن نہیں کروں گی- اس کا لہجہ اٹل تھا- میں تین تک گنوں گا فرشتے! اگر میں نے گولی چلا دی تو تمہاری بہن کبھی واپس نہیں ائے گی- فرشتے پلیز محمل بلک پڑی-پلیز میری خاطر فرشتے! آج اپ اپنا حق چھوڑ دیں-میں وعدہ کرتی ہوں ، اگر ضرورت پڑی تو میں بھی اپ کے لیے اپنا حق چھوڑ دوں گی- آئی پرا مس- نہیں! میں سائن نہیں کروں گی- ٹھیک ہے میں تین تک گنوں گا- فرشتے نے دیکھا اس کی انگلی ٹرائیگر پر مضبوط ہوئی اور واقعی گولی چلانے والا تھا- ایک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لمحہ بھر کو اس کا دل کانپا- اگر گولی چلا دے تو محمل مر جائے گی پھر بھلے وہ ہمایون کو بھلا لے، کورٹ کچہری میں گواہیاں دیتی پھرے، کچھ بھی کر لے اس کی بہن واپس نہیں آئے گی- دو ۔۔۔۔۔۔۔ بھلے فواد کو پھانسی ہوجائے اور وہ ساری جائیداد کی مالک بن بیٹھے،اس کی بہن واپس نہیں آئے گی- تین۔۔۔۔۔۔۔۔! رکو۔۔۔۔۔! میں سائن کردوں گی-وہ شکست خوردہ لہجے میں بولی”لیکن آپ کو محمل کی شادی اسی وقت وہاں کرنی ہوگی جہاں میں کہوں گی اور اور اس میں نہ صرف آپ سب بلکہ آپ کا پورا خاندان شریک ہوگا-محمل اسی گھر سے رخصت ہوگی- منظور ہے-فواد جھٹ بولا تھا-محمل پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی،فرشتے کیا کہنا چاہ رہی ہے،وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی،پھر اس نے حسن کو دیکھا جو اسی طرح بے بس سا کھڑا تھا،فضہ نے سختی سے اس کا بازو تھام رکھا تھا-بے بس اور کمزور مرد-وہ جو اتنے دعوے کرتا تھا سب بے کار گئے تھے- ٹھیک ہے پھر نکاح خواں کو بلوائیے،میں ہمایوؔں کو بلاتی ہوں-اس نے جھک کر میز پہ رکھا موبائل اٹھایا- ہمایوں؟ ہمایوں داؤد؟فواد کو گویا کرنٹ لگا تھا-جی وہی-فرشتے تلخی سے مسکرا کر سیدھی ہوئی-بولیے اب آپ کو یہ معاہدہ منظور ہے؟ ہمایوں داؤد وہ ای ایس پی؟ وہ پولیس والا؟ نہیں ہرگز نہیں-بہت سی حیران غصیلی آوازیں ابھری تھیں جن میں سب سے بلند آغآ جان کی تھی- وہ شخص اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا جس نے میرے بیٹے کو جیل بھجوایا تھا،تمہیں دستخط نہیں کرنا تو نہ کرو مگر محمل کی شادی کبھی اس سے نہیں کروں گا- میں آپ سے بات نہیں کر رہی کریم چا!میں یہ معاہدہ آغا فواد سے کر رہی ہوں،ان ہی کو بولنے دیجیئے نا- مگر۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں آغا جان کوئی مسئلہ نہیں ہے-آپ بلائیے اس کو ہمیں قبول ہے-وہ سنبھل چکا تھا چہرے کی مسکراہٹ واپس آگئی تھی- مگر فواد یہ کل کو مکر گئی تو؟آغا جان نے پریشانی سے اس کا کندھا پکڑ کر اپنی جانب کیا- یہ نہیں مکریں گی،یہ ماشاءاللہ سے مسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مان ہیں- یہ وعدے سے نہیں پھریں گی-مسلمان کو توڑ کر کہتے ہوئے اس نے استہزائیہ مسکراہٹ فرشتے کی جانب اچھالی-وہ لب بھینچے تنفر سے اسے دیکھتی رہی- ٹھیک ہے- آپ بلائیے اپنے کزن کو-فنکشن تو آج ہونا ہی ہے-اسد اب تک نکاح خواں کا بندوبست کر چکا ہوگا-غفران چچا مصروف سے لہجے میں کہتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ گئے-ان کی جیسے جان چھوٹ گئی تھی-فضہ سے بھی اپنا اطمینان اور خوشی چھپانی مشکل ہورہی تھی-ان دونوں کو گویا اپنا بیٹا واپس مل گیا تھا،پھر بھی وہ حسن کا بازو مضبوطی سے تھامے کھڑی تھیں،مگر اب شاید وہ رسی تڑوا کے بھاگنے کے قابل نہ رہا تھا- اس کا تو آسرا ہی ختم ہوگیا تھا- آؤ اندر چلو- فرشتے نے تھکے تھکے انداز میں محمل کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ لیے اسکے کمرے کی طرف بڑھ گئی- سب گردن موڑ کر انہیں جاتا دیکھنے لگے تھے-پورے گھر میں عجیب سی خاموشی دور گئی تھی- ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وہ سب کسی خواب کی سی کیفیت میں ہوا تھا-شاید وہ ایک حسین خواب ہی تھا جس کی تعبیر کی اسے بہت بھاری قیمت چکانی پڑی تھی-بہت سے خواب توڑنے پڑے تھے، مگر اسے اس وقت وہی صحیح لگا تھا-یہ نہ کرتی تو وہ لوگ اسے خاندان بھر میں بدنام کر دیتے-اس کے مرحوم ماں باپ کا نام اچھالا جاتا یا پھر سب سے بڑی وجہ وہ تھی جو فواد کو بھی معلوم تھی اور جس کو اس نے استعمال کیا تھا-محمل کی دکھتی رگ کہ اس کا خاندان اس کو عزت سے بیاہ دے-اسے دولت سے زیادہ اپنا مقام اور عزت چاہیئے تھی اور فواد نے اسی دکھتی رگ کو ایسے دبایا تھا کہ اس کا دل تڑپ اتھا تھا-وہ فیصلہ جذباتی تھا مگر اسے صحیح لگا تھا- پھر جو بھی ہوا جیسے نیند کی حالت میں ہوا- فرشتے اس کا چہرہ کلینزر سے صاف کرکے بیوٹیشن کے ساتھ اس کا دوپٹہ ٹھیک کر رہی تھی،پھر وہ تائی مہتاب کے زیور اتار کر اس کی ماں کے زیور پہنا رہی تھی،پھر وہ اس کا میک اپ کر رہی تھی،پھر وہ اس کی سینڈل کے اٹریپ بند کر رہی تھی،پھر وہ مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی، اور پھر وہ بہت کچھ کر رہی تھی،مگر اسے آواز نہیں آرہی تھی-ساری آوازیں بند ہوگئی تھین- سارے منظر دھندلا گئے تھے،بس وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی بت بنی بیٹھی تھی- وہ خواب حسین تھا، مگر اس کا دل خالی تھا-سارے جزبات گویا مر سے گئے تھے-خواہش کے جگنو کھو گئے تھے- یا شاید ہمیں خوشی سے محبت نہیں ہوتی،خوشی کی خواہش ” سے محبت ہوتی ہے- ہماری سب محبتیں ، خواہشات سے ہوتی ہیں کبھی کسی کو پانے کی تمنا کبھی کوئی خاص چیز پانے کی آرزو۔۔۔۔ شاید محبت صرف خواہش سے ہوتی ہے،چیزوں یا لوگوں سے نہیں اس نے اپنی خواہش کو اپنے پہلو میں بیٹھا دیکھا،مگر اس کا اپنا سر جھکا تھا،سو زیادہ دیکھ نہ پائی اور اسی جھکے سر کے ساتھ نکاح نامے پہ دستخط کرتی گئی، کرتی گئی ، کرتی گئی- جب اس کا ہاتھ تھامے فرشتے اسے اٹھا رہی تھ تو اس نے لمحے بھر کو اسے دیکھا،جو سامنے لب بھینچے کھڑا تھا-براؤن شلوار کرتے میں ملبوس ، سنجیدہ اور وجیہہ- اس نے نگاہیں جھکا لیں-اسے اس کی سنجیدگی سے خوف آیا تھا-کیا وہ اس پہ مسلط کی گئی تھی؟ان چاہی بے وقعت بیوی؟ اس نے بے عزتی اور توہین محسوس کرنا چاہی مگر دل اتنا خالی تھا کہ کوئی احساس بیدار نہ ہوا- اردگرد لوگ بہت کچھ کہہ رہے تھے مگر اس کی سماعتیں بند ہوگئی تھیں-وہ سر جھکائے ہمایوں کی گاڑی کی بیک سیٹ پہ بیٹھ گئی- اسے لگا اب زندگی کھٹن ہوگی بہت کھٹن- وہ اسی جہازی سائز بیڈ کے وسط میں سر گھٹنوں پہ رکھے گم صم بیٹھی تھی-فرشتے کچھ دیر ہوئی اسے وہاں بٹھا کر نہ جانے کہاں چلی گئی تھی-اور ہمایوں کو تو اس نے گاڑی سے نکل کر دیکھا ہی نہیں تھا-وہ تیزی سے اندر چلا گیا تھا اور پھر دوبارہ سامنے نہیں آیا تھا- اس کے دل میں عجیب عجیب سے خیال آرہے تھے-وہ بار بار اعوذبا اللہ ” پڑھتی مگر وسوسے اور وہم ستانے لگے تھے-شاید وہ اس سے شادی کرنا نہیں چاہتا تھا،شاید وہ اس پہ مسلط کیا گیا تھا-اب شاید اس کے پاس نہیں آئے گا، بلکہ شاید وہ بات تک نہ کرے ، شاید وہ اسے چھوڑ دے، شاید۔۔۔۔۔۔ وہ شاید- بہت سے شاید تھے جن کے آگے سوالیہ نشان تھے-بار بار وہ شاید اس کے ذہن کے پردے پہ ابھرتے اور اس کا دل ڈوبنے لگتا- وہ مایوس ہونے لگی تھی جب دروازہ کھلا- بے اختیار سب کچھ بھلا کر وہ سر اٹھائے دیکھنے لگی- وہ اندر داخل ہو رہا تھا-اس کا دل دھڑککنا بھول گیا-جانے وہ اب کیا کرے گا؟وہ دروازہ بند کر کے اس کی طرف پلٹا،پھر اسے یوں بیٹھا دیکھ کر ذرا سا مسکرایا- السلام علیکم، کیسی ہو؟آگے بڑھ کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل دراز کھولی وہ خاموشی سے کچھ کہے بنا سے دیکھے گئی-وہ اب دراز میں چیزیں الٹ پلٹ کر رہا تھا- تم تھک گی ہوگگی،اتنے بڑے ڈراما سے گزری ہو- پریشان مت ہونا، سب ٹھیک ہوجائے گا-وہ اب نچلے دراز میں کچھ تلاش کر رہا تھا-لہجہ متوازن تھا اور الفاظ۔۔۔۔۔ الفاظ پہ تو اس نے غؤر ہی نہیں کیا،وہ بس اس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو دراز میں ادھر ادھر حرکت کر رہے تھے اور پھر اس نے ان میں ایک میگزین پکڑے دیکھا- (کیا اس میں گولیاں بھی ہیں؟کیا یہ مجھے مارے گا؟) وہ عجیب سی باتیں سوچ رہی تھی- وہ میگزین نکال کر سیدھا ہوا- آئی ایم سوری محمل! ہمیں سب بہت جلدی میں کرنا پڑااور میں جانتا ہوں- تم اس کے لیے تیار نہ تھیں- وہ کہہ رہا تھا ، اور وہ خاموشی سے اس کے ہاتھ میں پکڑا میگزین دیکھ رہی تھی- میں ابھی آن ڈیوٹی ہوں ، اور مجھے ڑیڈ کے لیے جانا ہے-رات فرشتے تمہارے ساتھ رک جائے گی،میں پرسوں شام تک واپس اجاؤں گا،تم پریشان نہ ہونا- وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھے گئی-عجیب شادی، عجیب سی دلہن ، اور عجیب سا دلہا اسے اس کی باتیں بہت عجیب لگی تھیں- تم سن رہی ہو؟وہ اس کے سامنے بیڈ پہ بیٹھا بغور اس کی انکھوں میں دیکھ رہا تھا- وہ ذرا سا چونکی- ہوں جی- جی بے ساختہ نگاہیں جھکا لیں- پھر پتا نہیں وہ کیا کیا کہتا رہا،محمل نظریں نیچی کیے سنتی رہی-الفاظ؟ اس کے کانوں سے ٹکرا کے گویا واپس پلٹ رہے تھے-کچھ سمجھ میں نہیں ارہا تھا-وہ کب خاموش ہوا، کب اٹھ کر چلا گیا، اسے تب ہوش آیا جب پورچ سے گاڑی نکلنے کی آواز آئی- اس نے ویران نظروں سے کمرے کو دیکھا- یہی وہ کمرہ تھا جس کبھی ہمایون نے اسے بند کیا تھا، تب وہ سیاہ ساڑھی میں ملبوس تھی- آج اس نے سرخ شلوار قمیض پہن رکھی تھی- عروسی جوڑا،عروسی زیورات،وہ دلہن تھی اور پتہ نہیں کیسی دلہن تھی-اس نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ وہ اس کمرے میں کبھی یوں ہمایوں کی دلہن بن کر آئے گی-ہاں فواد کے خواب اس نے دیکھے تھے،مگر وہ اس کے دل کا ایک چھپا ہوا راز تھا،جس کی خبر شاید خود فواد کو بھی نہ تھی- اور حسن؟اندر سے کسی نے سرگوشی کی- حسن کے لیے اس کے دل میں کبھی کوئی جذبہ نہ ابھرا تھا اور اچھا ہی ہوا-شام کو جب فواد نے اس کے نام کے ساتھ ہمایوں کا نام لیا تو وہ کیسے چپ ہوگیا تھا-وہ جو ہر موقع پر محمل کے حق کے لیے بولتا تھا، لڑتا تھا،اتنے اہم موقعے پہ یوں کیوں پیچھے ہٹ گیا تھا؟وہ فیصلہ نہ کر سکی- اور فرشتے اس نے کتنی بڑی قربانی دی تھی اس کے لیے-وہ کبھی بھی اس کا احسان نہ اتار سکتی تھی،وہ جانتی تھی،اس نے اپنا حق چھوڑ دیا، کاش فرشتے بھی کبھی اسے موقع دے اور وہ اس کے لیے اپنا حق چھوڑ سکے- اس نے تھک کر سر بیڈ کراؤن سے ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں، اس کا دل اداس تھا، روح بوجھل تھی، سکوں چاہیئے تھا-اپنے خاندان والوں کی قید سے آنکلنے کے احساس کو محسوس کرنے کی حس چاہیئے تھی-اسے غم سے نجات چاہیئے تھی-اس نے ہولے سے لبوں کو حرکت دی اور آنکھیں موندے دھیمی آواز میں دعا مانگنے لگی- یا اللہ،میں آپ کی بندی ہوں اور آپ کے بندے کی بیٹی ہوں اور آپ کی بندی کی بیٹی ہوں- میری پیشانی آپ کے قابو میں ہے،میرے حق میں اپ کا حکم جاری ہے، آپ کا فیصلہ میرے بارے میں انصاف پہ مبنی ہے، میں اپ سے سوال کرتی ہوں، آپ کے ہر اس نام کے واسطے سے جو آپ نے اپنے لیے پسند کیا اپنی کتاب میں اتارا، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا اپنے علم غیب میں آپ نے اس کو اختیار کر رکھا ہے،اس بات کو کہ اپ قران عظیم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور بنا دیں اور میرے فکر اور غم کو لے جانے کا ذریعہ بنا دیں- وہ دعا کے الفاظ بار بار دہراتی گئی، یہاں تک کہ دل میں سکون اتر گیا،اس کی آنکھیں بوجھل ہوگئیں اور وہ نیند سے ڈوب گئی- ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ وہ دو دن فرشتے اس کے ساتھ رہی-ان دو دنوں میں انہوں نے بہت سی باتیں کیں، سوائے اس شام کے ڈرامے کے – وہ ایسا موضوع تھا کہ دونوں ہی کسی خاموش معاہدے کے تحت اس سے احتراز برت رہی تھیں فرشتے نے اسے بہت کچھ بتایا ابا کے بارے میں،اپنی ماں کے بارے میں،ہمایوں کی امی کے بارے میں،اپنی زندگی ، گھر پرانی یادوں کے بارے میں-وہ چائے کا مگ تھامے گھنٹوں لان میں بیٹھی باتیں کرتی رہتیں،چائے ٹھنڈی ہوجاتی،مگر ان کی باتیں ختم نہ ہوتیں- پتا ہے محمل! ادھر لان میں ۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں برآمدے کی سیڑھیوں پہ بیٹھی تھیں-چائے کے مگ ہاتھ میں تھے،جب فرشتے نے بازو لمبا کر کے اشارہ کیا-وہاں ایک جھولا تھا بالکل کونے میں- محمل گردن موڑ کر اس طرف دیکھنے لگی جہاں اب صرف گھاس اور کیاریاں تھیں- ہم بچپن میں اس جھولے پہ بہت کھیلتے تھے اور اس کے اس طرف طوطوں کا پنجرہ تھا-ایک طوطا میرا تھا اور ایک ہمایوں کا-اگر میرا طوطا اس کی ڈالی گئی چوری کھا لیتا تو ہمایوں بہت لڑتا تھا-وہ ہمیشہ سے ہی اتنا غصے والا تھا، مگر غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس سے بڑھ کر لونگ اور کیئرنگ بھی کوئی نہیں ہے- محمل مدھم مسکراہٹ لیے سر جھکائے سن رہی تھی- جب میں بارہ سال کی ہوئی تو ابا نے پوچھا کہ میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں کہ اماں کے ساتھ؟ میں وقتی طور پر ابا کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہو گئی،مگر اس دن ہمایوں مجھ سے بہت لڑا-اس نے اتنا ہنگامہ مچایا کہ میں نے فیصلہ بدل لیا-چائے کا مگ اس کے دونوں ہاتھوں میں تھا اور وہ کہیں دور کھوئی ہوئی تھی- پھر جب ہم بڑے ہوئے اور میں نے قرآن پڑھا تو ہمایوں سے ذرا دور رہنے لگی-وہ خود بھی سمجھدار تھا،مجھے ذیادہ آزمائش میں نہیں ڈالتا تھا-پھر میری اماں کی ڈیتھ ہوئی تو۔۔۔۔۔ دفعتا، گاڑی کا ہارن بجا-وہ دونوں چونک کر اس طرف دیکھنے لگیں-اگلے ہی لمحے گیٹ کھلا اور سیاہ گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی- اگلے ہی لمحےگیٹ کھلا اور سیاہ گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی- چلو تمہارا میاں آگیا،تم اپنا گھر سنبھالو میں اپنا سامان پیک کر لوں-وہ ہنس کر کہتے ہوئے اٹھ کر اندر چلی گئی- محمل متذبذب سی بیٹھی رہ گئی-وہ گاڑی سے نکل کر اس طرف آرہا تھا-یونیفارم میں ملبوس، کیپ ہاتھ میں لیے تھکا تھکا سا-اسے دیکھ کر مسکرا دیا- تو تم میرے انتظار میں بیٹھی ہو، ہوں؟وہ مسکرا کر کہتا اس کے سامنے آکھڑا ہوا تو وہ گڑبڑا کر کھڑی ہوگئی-گلابی شلوار قمیض میں بھورے بالوں کی اونچی پونی ٹیل ، وہ اداس شام کا ایک حصہ لگ رہی تھی- وہ میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ دو کہ تم میرا انتظار نہیں کر رہی تھیں- نہیں – وہ۔ چائے لاؤں؟ اونہوں، یہی کافی ہے- اس نے محمل کے ہاتھ سے مگ لے لیا- ایک گھونٹ بھرا اور مگ لیے دروازے کی طرف بڑھ گیا،پھر جاتے جاتے پلٹا، فرشتے ہے؟ جی، وہ اندر ہیں- اوکے میں شاور لے کر کھانا کھاؤں گا، تم ٹیبل لگا دو-وہ کہہ کر دروازہ کھول کر اندر چلا گیا- وہ چند لمحے خاموش کھڑی کھلے دروازے کو دیکھتی رہی،وہ دروازہ بند کر کے نہیں گیا تھا،کیا اس کا مطلب تھا وہ اندر آجائے؟پہلے بھی تو وہ بغیر اجازت اس کی زندگی میں داخل کر دی گئی تھی-اب بھی چلی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟ اس نے تلخی سے سر جھٹکا اور کھلے دروازے سے اندر چلی آئی- لاؤنج کے سرے پر سیڑھیوں کے قریب فرشتے اور ہمایوں کھڑے تھے-وہ اپنے بیگ کا ہینڈل تھامے سیاہ حجاب چہرے کے گرد لپیٹتے ہوئے انگلی سے ٹھوڑی کے نیچے اڑس رہی تھی- نہیں بس، اب میں چلتی ہوں، کل کلاس لینی ہے- کم از کم کچھ دن تو تمہیں ادھر رہنا چاہیئے- وہ دونوں باتیں کر رہے تھے-ان کی آواز بے حد مدھم تھی،محمل کو اپنا آپ ادھر بے کار لگا تو وہ سر جھکائے کچن میں چلی گئی- بلقیس جا چکی تھی-کچن صاف ستھرا پڑا تھا-اس نے چولہا جلایا اور کھانا گرم کرنے لگی-شاید وہ بھی اس گھر میں بلقیس کی طرح تھی-ایک نوکرانی- محمل! فرشتے نے کھلے دروازے سے جھانکا- محمل نے ہاتھ روک کر اسے دیکھا-وہ جانے کے لیے تیار کھڑی تھی- آپ مت جائیے فرشتے پلیز! وہ بے اختیار روہانسی ہو کر اس کے قریب آئی- اوہو،میرا کزن بہت اچھا انسان ہے-تم کیوں پریشان ہورہی ہو پاگل! اس نے ہولے سے اس کا گال تھپتھپایا-محمل چند لمحے اسے دیکھتی رہی،پھر یکایک اس کی بھوری آنکھیں پانی سے بھر گئیں-وہ جھک کر چولہے کو تیز کرنے لگی- :محمل!کیا ہوا ہے؟تم مجھے پریشان لگ رہی ہو؟وہ ذرا فکر مند سی اس کے پیچھے ائی-محمل کی اس کی طرف پیٹھ تھی،فرشتے اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکتی تھی- کسی کی شادی ایسے بھی ہوتی ہے جیسے میری ہوئی؟ بہت دیر بعد وہ بولی تو آواز میں صدیوں کی یاس تھی-فرشتے۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ نہ بولی تو وہ پلٹی- فرشتے بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی-اسے لگا اس نے کچھ غلط کہہ دیا ہے- کیا؟ وہ گڑبڑا گئی- محمل! تم! حیرت کی جگہ خفگی نے لے لی- کیا ہوا؟ تم بہت ۔۔۔ بہت نا شکری ہو محمل! بہت زیادہ! وہ جیسے غصہ ضبط کرتے ہوئے تیزی سے مڑ گئی- فرشتے رکیں” محمل بوکھلا کر اس کے پیچھے لپکی- وہ تیزی سے باہر نکل رہی تھی ا س نے اسے بازو سے تھاما تو وہ رک گئی چند لمحے -کھڑی رہی پھر گہری سانس لے کر اس کی طرف گھومی- تمہیں ہمایوں مل گیا محمل!تم اب بھی نا خوش ہو؟ وہ بہت دکھی سی ہوکر بولی تھی-محمل نے بے چینی سے لب کچلا -فرشتے اسے غلط سمجھ رہی تھی- ” نہیں میں بس اس خوشی کو محسوس کرنا ۔۔۔۔ جسٹ اسٹاپ اٹ! وہ بہت خفا تھیں-محمل چپ سی ہوگئی-چند لمحے دونوں کے درمیاں خاموشی حائل رہی، پھر فرشتے نے آگے بڑھ کر اس کے دونوں شانوں پہ اپنے ہاتھ رکھے اور اسے اپنے بالکل سامنے لیا- تم واقعی ناخوش ہو؟ نہیں- مگر اس سب سے میرا دل کٹ کر رہ گیا ہے- لوگوں کی روح تک کٹ کے رہ جاتی ہے محمل! سب قربان ہوجاتا ہے او پھر بھی راضی ہوتے ہیں اور تم ۔۔۔۔۔۔ تم اب بھی شکر نہیں کرتیں؟اس کی سنہری آنکھوں میں سرخ سی نمی ابھری تھی- اس کے ہاتھ ابھی تک محمل کے کندھوں پہ تھے- نہیں میں بہت شکر کرتی ہوں ، مگر بس سب کچھ بہت عجیب لگ رہا ہے جیسے ۔۔۔۔۔۔ بس کرو محمل!اس نے تاسف سے سر جھٹک کر اپنے ہاتھ ہٹائے اور تیزی سے بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی-اسے یونہی شک سا گزرا کہ وہ رو رہی تھی- وہ دل مسوس کر رہ گئی-اس نے شاید فرشتے کو ناراض کر دیا تھا، لیکن وہ ٹھیک کہتی تھی،وہ واقعی ناشکری کر رہی تھی-صرف زبان سے الحمد اللہ کہنا کافی نہیں ہوتا، اصل اظہار تو رویے سے ہوتا ہے- کدھر گم ہو؟ آواز پہ وہ چونکی-ہمایوں کاؤنٹر سے ٹیک لگائے بغور اسے دیکھ رہا تھا- وہ جھجک سی گئی- فرشتے چلی گئی؟وہ کاؤنٹر سے ہٹ کر فریج کی طرف بڑھا اور اسے کھول کر پانی کی بوتل نکالی- جی- فرشتے بہت اچھی ہے وہ ہے نا؟اس نے ڈھکن کھول کر بوتل منہ سے لگائی- بیٹھ کر پئیں پلیز-وہ خود کو کہنے سے روک نہ سکی-وہ بوتل منہ سے ہٹا کر ہنس دیا- فرشتے نے تمہیں بھی اچھی لڑکی بنا دیا ہے- تو کیا پہلے میں بری تھی؟وہ برا مان گئی- ارے نہیں تم ہمیشہ سے اچھی تھیں-مسکرا کر کہتے اس نے پھر بوتل لبوں سے لگا لی-محمل نے دیکھا وہ بیٹھا نہیں تھا،اب بھی کھڑا ہو کر پی رہا تھا-خود کو بدلنا بھی آسان نہیں ہوتا مگر دوسرے کو بدلنا بہت ہی کٹھن ہوتا ہے- اچھا یہ بتاؤ تمہارا دل کیوں کٹ کر رہ گیا؟ اف! وہ بری طرح چونکی-وہ تو شاور لینے گیا تھا کب اکر سب سن لیا،اسے تو پتہ ہی نہیں چلا تھا- وہ ۔ دراصل ۔۔۔۔۔ اس کا دل زور سے دھڑکا -گھر سے کسی نے کال نہیں کی تو میں- وہ کیوں کریں گے کال؟ان کی اس شادی میں مرضی شامل نہیں تھی-فرشتے نے بہت مشکل سے انہیں راضی کیا تھا،وہ اس بات پہ ابھی تک غصہ ہیں ، آئی تھنک- وہ یکدم ٹھٹک گئی- فرشتے نے۔۔۔۔۔ اس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا- اس نے کتنی مشکل سے ان کو راضی کیا۔۔۔۔۔۔۔ تم جانتی ہو!وہ پھر بوتل سے گھونٹ بھر رہا تھا- وہ دم بخود سی اسے دیکھ رہی تھی- کیا وہ کچھ نہیں جانتا؟اسے نہیں معلوم کہ کیسے ان دونوں نے فواد کے دیئے کاغذ پہ دستخط کیے تھے؟فرشتے نے اسے کچھ نہیں بتایا؟ مگر کیوں؟ تم فکر مت کرو ہم نے یہ شادی ان سے زبردستی کروائی ہے،ان کو کچھ عرصہ ناراض رہنے دو-ڈونٹ وری- تو وہ واقعی کچھ نہیں جانتا-وہ بتائے یا نہیں؟اس نے لمحے بھر کو سوچا اور پھر فیصلہ کر لیا-اگر فرشتے نے کچھ نہیں بتایا تو وہ کیوں بتائے؟ چھوڑو جانے دو- صرف ان کے ساتھ زبردستی ہوئی ہے یا آپ کے ساتھ بھی؟ تو تم اس لیے پریشان تھیں؟اس نے مسکرا کر سر جھٹکا-تمہیں لگتا ہے کوئی ہمایوں داؤد کو مجبور کر سکتا ہے؟ مجبورا قائل تو کر سکتا ہے! “نہیں کر سکتا- قطعا نہیں- پھر آپ نے۔۔۔۔ آپ نے کیوں شادی کی مجھ سے؟ اگر تم چاہتی ہو کہ میں تم سے کہوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا تھا وغیرہ وغیرہ تو میں ایسا نہیں کہوں گا، کیونکہ واقعی مجھے تم سے کوئی طوفانی قسم کی محبت نہیں تھی-ہاں تم مجھے اچھی لگتی ہو اور میں نے اپنی مرضی سے تم سے شادی کی ہے اور میں اس فیصلے پہ بہت خوش ہوں- اس کا انداز اتنا نرم تھا کہ وہ آہستہ سے مسکرا دی- دل پہ لدا بوجھ ہلکا ہوگیا- یعنی آپ خوش ہیں؟ آف کورس محمل! ہر بندہ اپنی شادی پہ خوش ہوتا ہے-بنیادی طور پر میں بھی پریکٹیکل انسان ہوں-لمبی بات نہیں کرتا اور مجھے بے کار کی مبالغہ آرائی نہیں پسند-میں کوئی دعویٰ کروں کا نہ وعدہ-یہ تم وقت کے ساتھ دیکھ لو گی کہ تم اس گھر میں خوش رہو گی- وہ جیسے کھل کر مسکرا دی-اطمینان و سکون اس کے رگ و پے میں دوڑ گیا تھا- تم اس پہ کچھ نہیں کہو گی؟ میں کیا کہوں؟ میں بتاؤں؟ جی بتائیے-وہ بہت دھیان سے متوجہ ہوئی- سالن جل رہا ہے- اوہ- وہ بوکھلا کر پلٹی-دیگچی سے دھواں اٹھنے لگا تھا-مدھم سی جلنے کی بو سارے میں پھیل رہی تھی- اس نے جلدی سے چولہا بند کیا- ویلکم ٹو پریکٹیکل لائف!وہ مسکرا کر کہتا باہر نکل گیا-وہ گہری سانس لے کر دیگچی کی طرف متوجہ ہوئی سالن جل گیا تھا مگر اس کے اندر ہر سو بہار چھا گئی تھی-وہ مسکراہٹ دبائے دیگچی اٹھا کر سنک کی طرف بڑھ گئی- ” محمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل! وہ نیچے لاؤنج میں کھڑا مسلسل سر اونچا کیے اسے آوازیں دے رہا تھا-جلدی کرو دیر ہورہی ہے- آرہی ہوں بس ایک منٹ-اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے لپ گلوز اٹھایا اور سامنے آئینے میں دیکھتے ہوئے اسے لپ اسٹک پہ لگایا،لپ اسٹک چمک اٹھی تھی- محمل! وہ پھر چلایا تھا۔۔۔ ” بس آگئی- اس نے ایک عجلت بھری نظر سنگھار میز کے آئینے میں جھلکتے اپنے وجود پہ دالی-ٹی پنل بنارسی ساڑھی میں ملبوس، لمبے سیدھے بال کمر پہ گرائے کانوں میں چمکتے ڈائمنڈ کے ائیر رنگز، گردن سے چپکا نازک ہیروں کا سیٹ جو ہمایوں نے اسے تیمور کی پیدائش پہ دیا تھا اور کلائی میں وائٹ گولڈ کے موتی جڑے کنگن،ساتھ مناسب سا میک اپ-وہ مطمئن ہوگئی-بیڈ پہ لیٹے تیمور کو اٹھایا اور باہر نکل آئی- تم اتنی دیر کر رہی ہو کیا ارادہ بدل گیا؟ آخری فقرہ کہتے ہوئے وہ زیر لب مسکرایا-وہ جو تیمور کو اٹھائے سہج سہج سیڑھیاں اتر رہی تھی مسکرا اٹھی- ہرگز نہیں-آخر کو اپنے میکے جا رہی ہوں، ارادہ کیوں بدلوں گی؟وہ سیڑھیاں اتر آئی- وہ مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا-بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس بالوں کو جیل سے پیچھے کیے وہ بہت شاندار لگ رہا تھا- اچھے لگ رہے ہیں- تم بھی! بس اتنی سی تعریف؟اس کا چہرہ اتر گیا- شادی کے ایک سال بعد اب اور میں کیا کہوں؟ وہ دونوں ساتھ ساتھ باہر آئے تھے- ایک سال گزر گیا ہمایوں پتا ہی نہیں چلا – ہے نا؟ وہ فرنٹ ڈور کھولتے ہوئے کھو سی گئی تھی- “ہاں وقت بہت جلدی گزر جاتا ہے-وہ گاڑی سڑک پہ ڈال کے بہت دیر بعد بولا تھا- یوں لگتا ہے جیسے کل کی بات ہے- ہوں- محمل نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکا دیا اور آنکھیں موند لیں- ایک سال گزر بھی گیا، یوں جیسے پتا ہی نہ چلا ہو- پورے ایک برس پہلے وہ بیاہ کے اس گھر میں ائی تھی،آج ہمایوں نے شادی کی سالگرہ پر اسے اسی گھر لے جانے کا تحفہ دیا تھا- پورا سال نہ انہوں نے اس کی خبر گیری کی اور نہ ہی محمل نے فون کیا تھا-شروع میں اسے غصہ تھا،پھر آہستہ آہستہ وہ غم میں ڈھل گیا اور اب ۔۔۔۔۔ اب اسے اپنے فرائض یاد آئے-صلہ رحمی کے احکامات یاد آئے تو اس نے تہیہ کر لیا کہ اپنے رشتے داروں سے پھر سے تعلق جوڑے گی-پہلے بھی یہ خیال کئی بار آیا، مگر ہمایوں جانے پہ راضی نہ ہوتا تھا،لیکن گزرتے وقت کے ساتھ فواد کا کیس اندر ہی اندر دبتا چلا گیا اور پھر ہمایون نے ہی ایک دن اسے بتایا کہ فواد ملک سے باہر چلا گیا ہے- شاید آسٹریلیا-وہ بھی کسی حد تک سکون میں آگئی، نہ جانے کیوں- ہفتہ پہلے ہمایوں کو کہیں آغآ کریم ملے،اس نے محمل کو بتایا کہ وہ بہت خوشدلی سے ملے اور اسے گھر آنے کی دعوت دی-منافقت دنیاداری اور پھر اب وہ کس چیز کابغض چہرے پہ سجائے رکھتے؟فواد تو باہر چلا گیا اور جائیداد انہیں مل گئی،پھر ہمایوں داؤد جیسے بندے کو داماد کہنے میں کیا مضائقہ؟بلکہ فخر ہی تھا- ایک تبدیلی اور بھی آئی تھی-فرشتے اسکاٹ لینڈ چلی گئی تھی-اسے قرآن سائنسز میں میں پی ایچ ڈی کرنا تھی-، خوب سارا علم حاصل کرنا تھا، پھر اس کا تھیسز اور ۔۔۔۔ بہت کچھ – وہ چلی گئی تو مدرسہ میں اس کی جگہ کسی اور نے لے لی- اور رہی محمل تو وہ آج بھی تیمور کو لے کے فجر کی نماز کے ساتھ مدرسہ جاتی تھی–اس کے علم الکتاب کا ابھی آدھا سال رہتا تھا- گاڑی رکی تو وہ چونک کر حال میں آئی-وہ آغا ہاؤس کے پورچ میں کھڑی تھی- وہ تیمور کو اٹھائے باہر نکلی ، اور گم صم سی ادھر ادھرنگاہیں دوڑائیں- لان کے کونے میں مصنوعی آبشار بن چکی تھی،گھر کا پینٹ بدل چکا تھا،پورچ کے ٹائلز بھی نئے اور قیمتی تھے- لاؤنج کے دروازے پہ مہتاب تائی اور آغا جان کھڑے تھے- محمل اور ہمایوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر جیسے گہری سانس لے کر ان کی طرف بڑھے-شال اس نے ایک کندھے پہ ڈا ل لی تھی-بھورے سیدھے بال دونوں کانوں کے پیچھے اڑسے تھے-پورچ کی مدھم لائٹ میں بھی اس کے جگ جگ کرتے ہیرے چمکے تھے- محمل! یہ تم ہو؟کیسی ہو؟تائی مہتاب پر تپاک استقبال کے ساتھ آگے لپکی تھیں- محمل ! میری بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔ آغآ جان نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا- اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے-شاید انہیں احساس ہوگیا تھا کہ انہوں نے اس کے ساتھ کتنا ظلم کیا- دونوں چچیاں اور دوسری لڑکیاں بھی وہیں آگئیں-وہ ان کے ساتھ ان کے سوالوں کاجواب دیتی اندر آئی تھی- ایک تو ہمایوں کی شاندار پرسنلٹی، اوپر سے محمل کا بدلا، سجا سنورا، دولت اور آسائشوں کی فراوانی ظآہر کرتا سراپا-فضہ نے تو ازلی میٹھے انداز میں تعریف کی،البتہ ناعمہ کے تو ماتھے کے بلوؔں میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا-وہ اپنی جلن چھپا نہ پا رہی تھی- لاؤنج کا بھی حلیہ بدلا ہوا تھا-قیمتی فانوس ،پردے، بیش قیمت ڈیکوریشن پیسز،گو کہ پہلے بھی وہاں ہر چیز قیمتی تھی، مگر اب تو جیسے پیسے کی ریل پیل ہوگئی تھی-ایک ایک کونا چمک رہا تھا-شاید اب انہیں کھلا اختیار جو مل گیا تھا- سدرہ باجی کدھر ہیں اور آرزو؟صوفے پہ بیٹھتے ہوئے اس نے متلاشی نگاہ ادھر ادھر دوڑائی- سدرہ کی تو دسمبر میں شادی ہوگئی،وہ کینیڈا چلی گئی-تائ مہتاب نے فخر سے بتایا-چہرے پہ اسے نہ بلانے کی کوئی ندامت نہ تھی-اس کا دل اندر ہی اندر ڈوب کر ابھرا-وہ غلط تھے ان کو کوئی شرمندگی نہ تھی بلکہ نعمتوں کی بے پناہ بارش نے انہیں مزید مغرور کر ڈالا تھا- مہرین کا نکاح پچھلے ماہ ہوا ہے،لڑکا ڈاکٹر ہے،انگلینڈ میں ہوتا ہے، اسی سال شادی کریں گے- اچھا ماشاءاللہ! وہ دل سے خوش ہوئی مگر الجھن بہرحال تھی-انہوں نے اس کے ساتھ کتنا ظلم کیا، پھر بھی ان کی خوشیوں میں اضافہ کیوں ہوتا چلا گیا؟ “ندا کی بھی منگنی ہوگئی-فضہ چچی کیوں پیچھے رہتیں-وہ بھی ڈاکٹر سے،سعودیہ کی رائل فیملی کے ڈاکٹرز میں سے ہے- سامیہ کی بھی آج کل بات چل رہی ہے- اور آرزو؟یونہی اس کے لبوں سے پھسل پڑا-نگاہ سب سے الگ بیٹھی ناعمہ چچی پہ جا پڑی- ان کی کوفت میں جیسے اضافہ ہوا تھا- رشتوں کی لائن لگی ہے میری بیٹی کے لیے، ہر دوسرے دن کسی شہزادے کا رشتہ آجاتا ہے-وہ ہاتھ نچا کر بہت چمک کر بولی تھیں- مگر وہ مانے بھی تو-فضہ چچی نے دھیمی سرگوشی کی، آواز یقینا ناعمہ چچی تک نہیں گئی تھی-مخاطب محمل ہی تھی،جو سن کر ذرا سی چونکی تو فضہ چچی معنی خیز انداز میں مسکرائیں- آرزو باجی کدھر ہیں؟نظر نہیں آرہیں؟اس نے دوسری دفعہ پوچھا تو ناعمہ چچی اٹھیں اور پیر پٹختی ہوئی وہاں سے نکل گئیں- انہیں کیا ہوا؟اس نے حیرت سے تائی مہتاب کو دیکھا،جنہوں نے استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ سر کو جھٹکا- بیٹی کا دل آگیا کسی پہ،اب مان کے نہیں دے رہی – اچھا! اسے حیرت ہوئی-اسی پل سیڑھیوں سے اترتے ہوئے کوئی رکا-آہٹ پہ محمل نے نگاہ اٹھائی، اور بے اختیار شال کا پلو سر پہ پلو ڈال لیا- حسن مبہوت سا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا-کف کا بٹن بند کرتے اس کے ہاتھ وہیں رک گئے تھے- السلام علیکم حسن بھائی- وہ خوشدلی سے مسکرائی تو وہ چونکا،پھر سر جھٹک کر آخری زینہ اترا- وعلیکم السلام ، کیسی ہو محمل، کب آئیں؟وہ ان کی طرف چلا آیا تھا- یہ تمہارا ۔۔۔۔۔۔ بیٹا ہے یا بیٹی؟ بیٹا ہے ، تیمور – اس نے جھک کر اسے پیار کیا، پھر سیدھا ہوا- اکیلی ائی ہو؟ ارے نہیں، ہمایوں اس کے ساتھ آیا ہے، تمہارے آغا جان کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہے- جاؤ مل لو-تائی مہتاب کے کہنے پر وہ سر ہلاتا ڈرائنگ روم کی طرف بڑھا- حسن بھائی کی کہیں منگنی وغیرہ نہیں کی چچی؟وہ سادہ سے لہجے میں فضہ سے مخاطب ہوئی-اسے لگا اس کا جوگ لیے ابھی تک بیٹھا ہوگا- ارے نہیں، حسن کی تو شادی بھی ہوگئی-میری بھانجی طلعت یاد ہے تمہیں؟اسی سے- آ ج کل وہ میکے گئی ہوئی ہے-سامیہ سامیہ ، انہوں نے بیٹی کو پکارا- جاؤ حسن کی شادی کا البم لے آؤ- محمل کو واقتعا جھٹکا لگا تھا مگر پھر وہ سنبھل گئی- وہ جوگ لینے والا بندہ تو نہ تھا، کمزور مرد جو کبھی اس کے لیے مضوط سہارا نہ بن سکتا، لیکن بھلا اسے اس کا تو سہارا چاہیئے بھی کیوں تھا؟کبھی بھی نہیں – اسکی تو حسن کے ساتھ کبھی بھی کوئی جزباتی وابستگی نہ رہی تھی- سو افسوس بھی نہ تھا- پھر انہوں نے اسے حسن اور سدرہ کی شادیوں کے البم دکھائے-وہ تو سجاوٹ اور دھوم دھام دیکھ کر حق دق رہ گئی-دلہنوں کے عروسی لباس اور زیورات تو ایک طرف محض ایونٹ ڈیزائنگ پہ پیسہ پانی کی طرح لٹایا گیا تھا-انہیں محمل نے وہ سب خود دیا تھا،اب بھلا کیوں وہ اس کا پر تپاک استقبال نہ کرتے؟ ڈنر بہت پر تکلف تھا- آغا جان اور ہمایوں کے انداز سے لگ رہا تھا ان کی گہری دوستی رہی ہے-کون کہہ سکتا تھا، کبھی آغا جان اس شخص کا نام نہیں سن سکتے تھے؟ بس اس کے ایک دستخط نے ساری دنیا بدل دی تھی-پھر بھی وہ خوش تھی-اسے میکے کا مان جو مل گیا تھا-چاہے منافقت کا ملمع اوڑھے،جھوٹا ہی سہی ، مگر مان تو تھا نا- بس چند لمحوں کے لیے وہ تیمور کا بیگ لینے گاری تک ائی تھی اور تب اس نے لان میں کرسی پہ بیٹھی آرزو کو دیکھا تو رک گئی-وہ بھی اسے دیکھ چکی تھی ، سو تیزی سے اٹھ کر اس کے پاس چلی آئی- بہت خوب مسز ہمایوں! خوب عیش کر رہی ہو- اس کے قریب سینے پہ بازو لپیٹے کھڑی ، وہ سر سے پاؤں تک اس کا جائزہ لیتے بہت طنز سے بولی تھی-اس نے بمشکل خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا- اللہ کا کرم ہے آرزو باجی! ورنہ میں اس قابل کہاں تھی؟ قابل تو تم خیر اب بھی نہیں ہو،یہ تو اپنی اپنی چالاکی کی با ت ہوتی ہے- مجھے چالاکیاں آتی ہوتیں تو اس گھر سے ایسے ہی رخصت ہوتی جیسے سدرہ باجی ہوئیں- اوہ ڈونٹ پرینٹنڈ ٹو بی انوسینٹ- ( زیادہ معصوم بننے کی کوشش نہ کرو) وہ تیزی سے جھڑک کر بولی- تم جانتی تھی کہ ہمایوں صرف اور صرف میرا ہے، پھر بھی تم نے اس سے شادی کی- تمہیں لگتا ہے میں تمہیں یونہیں چھوڑ دونگی؟ یہ ہمایوں اپ کے کب ہوگئے آرزو باجی؟ نام تک تو آپ ان کا جانتی نہیں تھیں- وہ بھی مجھ سے ہی پوچھا تھا- اپنی چھوٹی سی عقل پہ زیادہ زور نہ دو محمل ڈئیر- اس نے انگلی سے اس کی تھوڑی اٹھائی-اور یاد رکھنا آرزو ایک بار کسی کو چاہ لے تو پھر اس کو حاصل کر کے ہی چھوڑتی ہے- کیوں؟آرزو خدا ہے کیا؟اس کے اندر غصہ ابلا تھا-بے اختیار اس نے اپنی ٹھوڑی تلے سے اس کی انگلی ہٹائی- یہ تو تمہیں وقت بتائے گا کہ کون خدا ہے اور کون نہیں- وہ تمسخرانہ انداز میں کہتی مڑی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتی اندر چلی گئی- عجیب لڑکی ہے یہ، کسی کے شوہر پہ حق جما رہی ہے- اونہہ! وہ غم و غصے سے کھولتی ہوئی اندر آگئی- تمہاری کزن آرزو کے ساتھ کوئی دماغی مسئلہ ہے کیا؟واپسی پہ ڈرائیو کرتے ہوئے ہمایوں نے پوچھا تھا- وہ بری طرح چونکی- کیوں؟کچھ کہا اس نے؟اس کا دل ایک دم ڈر سا گیا- ہاں عجیب سی باتیں کر رہی تھی- آپ کو کب ملی؟لاؤنج میں تو آئی ہی نہیں- پتا نہیں، عجیب طریقے سے سب مردوں کے درمیان آکر بیٹھ گئی، اور مجھ سے پے در پے سوالات شروع کر دئیے-بہت آکورڈ لگ رہا تھا مگر اس کے باپ کو تو فرق ہی نہیں پڑا- پھر؟وہ دم بخود سی سن رہی تھی- پھر حسن کو برا لگا تو اس نے اسے جھڑکا کہ اندر جاو، بٹ شی واز لائیک کہ میں تمہاری نوکر ہوں جو اندر جاون، عجیب سی سچویشن بن گئی تھی-میں تو فون کا بہانہ کر کے اٹھ گیا، واپس آیا تو وہ نہ تھی- کوئی مسئلہ ہے اس کے ساتھ؟ پتا نہیں وہ لب کچل کر رہ گئی- ایک بات کہوں محمل! ہوں کہیئے- تم یہ مت سمجھنا کہ میں لالچی ہوں مگر حق حق ہوتا ہے-تم نے دیکھا وہ لوگ کیسے تمہاری جائیداد پہ عیش کر رہے تھے-تمہیں ان سے اپنا حصہ مانگنا چاہیئے- رہنے دیں مجھے کچھ نہیں چاہیئے- وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، ہمایوں کو کیسے بتاتی کہ اس کے لیے اپنا حق وہ بہت پہلے چھوڑ چکی ہے- اگر فرشتے نے چھپایا تو اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی- وہ اندر سے ایک دم ہی بہت افسردہ ہوگئی تھی- سو بیگ میں رکھا چھوٹا قرآن نکالا- جس کے سفید کور پہ “م” لکھا تھا- میم یہ ادھر کیوں لکھا ہے؟وہ ہر دفعہ قرآن کھولنے پہ اپنا لکھا “م” پڑھ کر سوچتی اور پھر یاد نہ آنے پہ شانے اچکا کر آگے پڑھنے لگتی-اس نے صبح کی تلاوت پہ لگائے گئے بک مارک سے کھولا- سب سے اوپر لکھا تھا- اور اس نے عطا کیا تم کو ہر اس چیز سے جو تم نے اس سے مانگی تھی-اور اگر تم شمار کرو اللہ کی نعمت کو، اسے تم شمار نہیں کر سکتے – بے اختیار اس کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھر گئی- کیوں مسکرا رہی ہو؟وہ ڈرائیو کرتے ہوئے حیران ہوا تھا- نہیں، نہیں اس کے دل کی تسلی ہوگئی تھی، سو قرآن بند کر کے رکھنے لگی- اسے واقعی ہر وہ چیز مل گئی تھی جو کبھی اس نے مانگی تھی- بتاؤ نا- اصل میں میرے لیے بڑی پیاری آیت اتاری تھی اللہ تعالی نے وہی پڑھ کر ان پہ بہت پیار آیا تھا- وہ سر جھٹک کے ہنس دیا- ہنسے کیوں؟ کم آن محمل! اٹس آل ان یور مائنڈ! کیا! وہ حیران ہوئی اور الجھی بھی- محمل! وہ آیت تمہارے لیے نہیں تھی، یہ الہامی کتاب ہے، اوکے اتنا casually ٹریٹ مت کرو اسے- یہ قرآن پاک ہے-اس میں نماز روزے کے احکام ہیں-اٹس ناٹ اباؤٹ یو- اس نے موڑ کاٹا- کھلی شاہراہ رات کے اس پہر سنسان پڑی تھی- وہ سکتے کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی- تم دیکھو محمل! ایک ہی تصویر کو ہر شخص اپنی زاویے سے دیکھتا ہے، مثلا نقاد اس کی خامی ڈھونڈے گا، شاعر اس کے حسن میں کھوئے گا،سائنس دان کسی اور طرح اسے دیکھیں گا- اٹس آل ان یور مائنڈ- نہیں ہمایوں!قرآن میں وہی کچھ ہوتا ہے جو میں سوچتی ہوں- اس لیے تم وہی پڑھنا چاہتی ہو–تمہیں ہر چیز اپنے سے ریلیٹڈ لگتی ہے کیونکہ تم خود سے ریلیٹ کرنا چاہتی ہو- محمل! یہ سب تمہارے ذہن میں ہے، یہ الہامی کتاب ہے اس میں تمہارا ذکر نہیں ہے- ٹرائی ٹو انڈر اسٹینڈ- دفعتا اس کے موبائل کی گھنٹی بجی – اس نے ڈیش بورڈ پہ رکھا موبائل اٹھایا، چمکتی اسکرین پہ اپنا نمبر دیکھا،اور پھر بٹن دبا کر کان سے لگالیا- جی رانا صاحب۔۔۔۔۔۔۔ وہ محو گفتگو تھا- محمل نے گم صم سی نگاہ گود میں سوئے تیمور پہ ڈالی اور پھر ہاتھوں میں پکرے قرآن کو دیکھا جس کو وہ ابھی بیگ میں رکھنے ہی لگی تھی-اسے لگا ہمایوں کی بات نے اس کی جان ہی نکال لی تھی-روح کھینچ لی تھی-وہ لمحے بھر میں کھوکھلی ہوگئی-اس کا دل کھوکھلا ہوگیا، خیال کھوکھلا ہوگیا- امید کھوکھلی ہوگی- تو کیا اتنا عرصہ وہ یہ سب تصور کرتی آئی تھی-وہ وہی پڑھتی تھی جو وہ پڑھنا چاہتی تھی-اسے وہی دکھائی دیتا جو اس کی خواہش ہوتی ؟وہ ہر چیز کا من چاہا مطلب نکالتی تھی؟ اس کا دل جیسے پاتال میں گرتا گیا-ہمایوں ابھی تک فون پہ مصروف تھا مگر اسے اس کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی-سب آوازیں جیسے بند ہوگئی تھیں-وہ گم صم سی ہاتھوں میں پکڑے قرآن کو دیکھے گئی،پھر درمیاں سے کھول دیا-دو صفحے سامنے روشن ہوگئے- پہلے صفحے کے وسط میں لکھا تھا- بے شک (اس قرآن) میں ذکر ہے تمہارا ۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے پڑھا ہی نہیں گیا-وہ جیسے پھر سے جی اٹھی تھی- ساری اداسی، ویرانی ہوا ہو گئی-دل پھر سے منور ہوگیا-اب اسے کسی کا نظریہ یا رائے خود پہ مسلط نہیں کرنا تھی- اسے اس کا جواب نظر آگیا تھا-دلیل مل گئی تھی- مسکراہٹ لبوں پہ بکھیرے اس نے واپس سنبھال کر قرآن بیگ میں رکھا اور زپ بند کی،پھر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موندلیں- اسے ہمایوں سے بحث نہیں کرنا تھی- اسے کچھ نہیں سمجھانا تھا- وہ اسے سمجھا ہی نہیں سکتی تھی کہ اکثر لوگ نہیں جانتے ، نہیں مانتے- صبح نئی سی اتری تھی-چڑیان چہچہاتے ہوئے اپنی منزلوں کی طرف اڑ رہی تھیں-رات بارش کھل کے برسی تھی،سو سڑک ابھی تک نم تھی-سیاہ بادل اب نیلی چادر سے قدرے سرک گئے تھے اور موسم خاصا خوشگوار ہوگیا تھا- وہ گیٹ پار کر کے باہر نکلی تو درختوں کی باڑ کے ساتھ کاشف سائیکل دوڑاتا آرہا تھا-وہ تیمور کی پرام دھکیلتی سڑک پہ آگے بڑھنے لگی- اس کا رخ کاشف کی طرف تھا- محمل باجی السلام علیکم – کاشف اسے دیکھ کر چہک اٹھا- تیزی سے سائیکل بھگاتا اس کی طرف آیا- وہ کالونی کے ان بچوں میں سے تھا جنہیں شام کو محمل اپنے گھر میں جمع کر کے ناظرہ پڑھاتی تھی- وعلیکم السلام- صبح ہی صبح کدھ جا رہے ہو کاشف؟ وہ رک گئی تھی- ہمارے اسکول کی چھٹیاں ہوگئی ہیں نا، تو صبح فارغ ہوتا ہوں- اس نے اپنی الٹی پی کیپ سیدھی کی- اب وہ سائیکل روک کر اس کے ساتھ کھڑا تھا- حنان اور راحم وغیرہ کی بھی؟ جی باجی، سب آف ہوگیا ہے- تو پھر یوں نہ کریں کہ آئندہ فجر کے بعد کلاس رکھ لیں؟ باجی! میں تو اجاؤں گا مگر ارحم وغیرہ ۔۔۔ اس نے متذبذب سے اپنے ہمسائے کا نام لیا- آپ ان سے خود ہی پوچھ لیجئے گا- کاشف بائیک دوڑاتا دور نکل گیا- اس کا ارادہ سامنے مدرسے جانے کا تھا،مگر پھر نکڑ پہ چھلی والا نظر آگیا- بارش کے بعد کا ٹھنڈا سہانا موسم اور بھنے ہوئے دانے -وہ رہ نہ سکی اور پرام دھکیلتی نکڑ پہ کھڑی ریڑھی کی طرف بڑھ گئی- سڑک سنسان پڑی تھی- چھلی والا خاموشی سے سر جھکائے ریت گرم کر رہا تھا- وہ پرام دھکیلتی آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھی- اسے یادآایا اس نے اج صبح کی دعائیں نہیں پڑھی تھیں- حالانکہ روز پابندی سے صبح و شام کی دعائیں پڑھتی تھی، مگر آج جانے کیسے رہ گئیں-وہ ہولے ہولے تسبیح پڑھنے لگی-تب ہی فاصلہ سمٹ گیا اور وہ ریڑھی کے پاس پہنچی تو دھیان بٹ گیا- ایک چھلی بنا دو، اور ساتھ میں پانچ روپے کے دانے بھی ذرا زیادہ ہو- اس کی تسبیح ادھوری رہ گئی،بوڑھا چھلی والا سر ہلا کہ چھلی بھوننے لگا- وہ محویت سے اسے بھوننے دیکھنے لگی- ؔذہن کے کسی کونے میں اس دن آرزو کی کہی گئی باتیں گونجنے لگی وہ بار بار ا نہیں ذہن سے جھٹکنا چاہتی مگر یونہی ایک دھڑکا سا دل کو لگ گیا تھا-بس ایسے ہی اس کا دل گھبرا سا جاتا- وہ نیند میں ڈر جاتی جانے کیا بات تھی- دس روپے ہوئے بی بی- بوڑھے شخص کی آواز پہ وہ چونکی، پھر سر جھٹک کر ہاتھ میں پکڑا پاؤچ کھولا – اندر سے پیسے اور چند کاغذ، بل وغیرہ رکھے تھے-اس نے دس کا نوٹ نکالنا چاہا تو ایک کاغذ جو نوٹ کے اوپر اڑس کر رکھا گیا تھا، اڑ کر دور سڑک پہ جا گرا- اوہ ایک منٹ- وہ دس کا نوٹ اس کے ہاتھ پہ رکھ کر تیمور کی پرام وہیں چھوڑ ے دوڑتی ہوئی گئی جہاں سڑک کے وسط میں مڑا تڑا سا کاغذ پڑا تھا- اس نے جھک کر کاغذ اتھایا اور اسے کھول کر پڑھا، پھر تحریر دیکھ کر مسکرا دی- اگلے ہی پل سامنے سڑک کے کونے سے آتی گاڑی کی آواز ائی- اس نے گھبرا کر سر اٹھایا- گاڑی تیزی سے اس کی طرف بڑھی تھی- وہ بھاگنا چاہتی تھی، ایک ہی جست میں اڑ کر سڑک پار کرنا چاہتی تھی، مگر موقع نہ ملا- تیز ہارن کی آواز تھی اور کوئی چیخ رہا تھا- اس کے پاؤں حرکت کرنے سے انکاری تھے- اس نے گاڑی کو خود سے ٹکراتے دیکھا،پھر اس نے خود کو پورے قد سے گرتے دیکھا، شور تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت شور اس نے اپنی چیخیں سنیں۔۔۔۔۔۔۔ اپنے سر سے نکل کے سڑک پہ بہتے خون کو دیکھا بہتا ہوا لال خون بے حد لال- اس کی کلائی وہی اس کے چہرے کے ساتھ بے دم سی گر گئی اس نے ہاتھ کھول دیا – مڑا تڑا سا کاغذ نکل کر سڑک پہ لڑھک گیا- اس نے اردگرد لوگوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا- کہیں دور بچہ رورہا تھا- بہت اونچا حلق پھاڑ پھاڑ کر دور ۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو آخری بات اس کے ڈوبتے ذہن نے سوچی تھی، وہ یہ تھی کہ اج اس نے صبح کی دعائیں نہیں پڑھیں تھیں- اس کا ذہن گھپ اندھیرے میں ڈوب چکا تھا- تاریکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاہ کالی مہیب سی تاریکی ، بنا رنگ کے ، بنا شور کے،خاموشی سی تاریکی-اندھیرے پہ اندھیرا،پردے پہ پردہ- اس کا ذہن زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوچکا تھا-پانی پہ بہہ رہا تھا-بادلوں پہ تیر رہا تھا- زمین و آسمان کے درمیان، نہ اوپر نہ نیچے، ہوا کے بیچ کہیں معلق، کہیں درمیان میں کسی تیرتے بادل پہ- پھر آہستہ آہستہ تیرتے بادل کو قرار ایا- ذرا سا جھٹکا لگا اور بادل کسی بلبلے کی طرح پھٹ کر ہوا میں تحلیل ہوگیا- اور ہر طرف روشنی بھرتی گئی، تیز پیلی روشنی اس نے ہولے سے آنکھیں کھولیں- دھندلا سا ایک منظر سامنے تھا- سفید دیواریں، سفید چھت ، چھت سے لٹکتا پنکھا، اس کے تین پر تھے ، ہولے ہولے وہ ایک دائرے میں گھوم رہے تھے-دائرے دائرے بار بار دائرے- وہ کتنی ہی دیر یک ٹک چھت کو دیکھے گئی- وہ کون تھی؟کدھر تھی؟کیوں تھی؟وہ خالی خالی نگاہوں سے چھت کوتکتی رہی- پھر یکایک ادھر ادھر دیکھنا چاہا- اردگرد سفید دیواریں تھیں-قریب ہی ایک کاؤچ رکھا تھا- تپائی پہ سوکھے پھولوں کا گلدستہ سجا تھا-اس نے کہنیوں کے بل اٹھنا چاہا، مگر جسم جیسے بے جان سا ہوگیا تھا یا شاید وہ بے حد تھک چکی تھی-اس نے کوشش ترک کردی اور اپنے باذوؤں کو دیکھا، جن میں بے شمار نالیاں سی پیوست تھیں- ہر نالی کسی نا کسی مشین کے سرے پہ جا رکتی تھی-وہ شاید اسپتال کا کمرہ تھا اور وہ شاید ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ یقینا محمل ابراہیم تھی- خود کو کیسے بھولا جا سکتا ہے بھلا؟آہستہ اہستہ ساری یاد داشتیں ذہن کے گوشے سے ابھرنے لگیں-ایک ایک بات ایک ایک چہرہ اسے یادآتا گیا- تھک کر اس نے آنکھیں موند لیں- آخری بات بھلا کیا ہوئی تھی؟کس چیز نے اسے ادھر اسپتال پہنچایا؟شاید کوئی ایکسیڈنٹ؟ اور اسے دھیرے دھیرے یاد آتا گیا- وہ بھٹہ لینے سڑک کے اس پار گئی تھی- اس کے ساتھ کاشف بھی تھا-وہ سائیکل چلا رہا تھا- وہ نظروں سے اوجھل ہی ہوا تھا کہ وہ ریٹرھی والے کے پاس چلی گئی- پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کچھ ہوا تھا- اسے ٹکر لگی تھی-خون بکھرے کاغذ ۔۔۔۔۔ روتا بچہ- بچہ؟اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں-پھر ادھر ادھر دیکھا کمرہ خالی تھا-وہ ادھر اکیلی تھی- مگر وہ روتا بچہ۔۔۔۔۔۔ وہ آواز جو اسے آخری پل سنائی دی تھی؟ تیمور ۔۔۔۔ تیمور رو رہا تھا- ہاں اسے یاد تھا، کہاں ہے تیمور؟ اس نے متلاشی نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، اسی پل دروازہ کھلا- سفید یونیفارم میں ملبوس نرس اندر داخل ہوئی- اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی-وہ تیزی سے ٹرے لیے بیڈ کی طرف بڑھی، پھر اسے جاگتے دیکھ کر ٹھٹکی- اوہ شکر ہے آپ کو ہوش آگیا، وہ حیران سی کہتی اس کے قریب آئی- تب ہی کھلے دروازے میں ایک بچہ نظر ایا- چھ، سات برس کا، خوب صورت سا بچہ ، شاید وہ کاشف کا ہمسایہ تھا- ہاں وہ ارحم ہی تھا یا شاید راحم کا چھوٹا بھائی، وہ فیصلہ نہ کر پائی- آریو آل رائٹ ؟ نرس نے آہستہ سے اس کے ہاتھ کو چھوا، پھر حیرت سے پوچھا۔۔۔ وہ بنا جواب دیے بچے کا چہرہ دیکھتی رہی،جو عجیب انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا- یہ شاید وہ لڑکا تھا جس کو وہ شاید شام میں ناظرہ پڑھایا کرتی تھی- ہم آپ کی سسٹر کو بلاتے ہیں ابھی،نرس خوشی سے چہکتی باہر کو بھاگی-وہ ابھی تک بچے کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی،جن میں عجیب سی کوفت تھی اور ننھی پیشانی پہ ذرا سے بل ، وہ اس عجیب سی کوفت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا کاؤچ پہ بیٹھا اور کہنیاں گھٹنوں پہ رکھ کر دونوں ہتھیلیوں میں چہرہ گرادیا- وہ ابھی تک اسی طرح اسے دیکھ رہی تھی- “راحم!” اس نے پکارا اسے اپنی آواز بہت ہلکی لگی، پھٹی پھٹی سنائی دی-بچہ اسی طرح سے دیکھتا رہا- “راحم! اس نے پھر سے آواز دی-وہ بمشکل بول پارہی تھی- میں سنی ہوں- پھر لمحے بھر کو رک کر عجیب سے تنفر سے بولا-آئی ڈونٹ لائیک یو- سنی؟ وہ دنگ رہ گئی،اس بچے کو وہ روز ناظرہ پڑھاتی تھی،وہ شاید راحم کا چھوٹا بھائی تھا-پھر وہ ایسے بات کیوں کر رہا تھا اسی پل دروازہ زور سے کھلا- محمل نے چونک کر دیکھا- دروازے میں فرشتے کھڑی تھی- سیاہ عبایا پہ سفید حجاب چہرے کے گرد لپیٹے وہ بے یقینی سے بستر پہ لیتی محمل کو دیکھ رہی تھی- فر ۔۔۔۔۔۔ فرشتے- وہ اپنی جگہ جامد رہ گئی-فرشتے تو باہر تھی وہ پاکستان کب اآئی؟ اوہ میرے اللہ محمل ! اس نے بے اختیار اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا- کتنے ہی پل وہ بے یقین سی کھڑی رہی- اس کا چہرہ کافی کمزور ہوگیا تھا- محمل ! محمل ! ایک دم اس نے آگے بڑھ کے بے قراری سے اس کا چہرہ چھقوا- تم مجھے دیکھ سکتی ہو محمل؟تم مجھے پہچانتی ہو؟تم بول سکتی ہو؟ میں تمہیں کیوں نہیں پہچانوں گی فرشتے؟ تم کب آئیں؟ میں؟ فرشتے متعجب —- نظروں سے اسے تک رہی تھی-میں تو ۔۔۔۔۔ مجھے تو کافی عرصہ ہوگیا محمل! تم، میں نے تم سے اتنی باتیں کیں تم نے ، تم نے سنا؟ کیا؟ وہ الجھ سی گئی- نہیں میں نے تو کوئی بات نہیں سنی میں تو — وہ رک رک کر اٹک اٹک کر بول رہی تھی- میں تو صبح ریڑھی والے کے پاس گئی تھی- مجھے گاڑی نے ٹکر ماردی اور ، اور تم نےبتایا بھی نہیں کہ تم آرہی ہو؟ فرشتے بے یقینی سے پھیلی پھیلی آنکھوں سے اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی- گویا اس کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہ ہو- فرشتے !بولو اسے فرشتے کی یہ حیرت و بے یقینی پریشان کر رہی تھی، کہیں کچھ غلط تھا- محمل تم- وہ کچھ کہتے کہتے پھر رک گئی جیسے سمجھ میں نہ آیا ہو کہ کیا کہے- یو اینڈ یور اوور ایکٹنگ ! ہونہہ- وہ چھوٹا لڑکا بے زاری سے کہہ اٹھا تھا-فرشتے نے چونک کر اسے دیکھا – سیاہ حجاب میں دمکتے فرشتے کے چہرے پہ ہلکی سی ناگواری ابھری- سنی پلیز بیٹا جاؤ یہاں سے، مجھے بات کرنے دو- میں کیوں جاؤں ؟ میری مرضی، آپ دونوں چلی جائیں- فرشتے ! یہ کون ہے؟ کیوں ضد کر رہا ہے؟ وہ الجھ کر پوچھ رہی تھی مگر فرستے دوسری طرف متوجہ تھی- آئی ڈونٹ وانٹ ٹو گو- وہ بد تمیزی سے چیخا تھا- شٹ اپ تیمور! اینڈ گیٹ آؤٹ تم دیکھ نہیں رہے میں ماما سے بات کر رہی ہوں- فرشتے کہہ رہی تھی اور اسے لگا کسی نے اس کے اوپر ڈھیروں پتھر لڑھکا دیے ہیں تم نے ۔۔۔۔۔۔۔ تم نے تیمور کہا فرشتے؟وہ ساکت رہ گئی تھی ہاہ!شی از ناٹ مائی مام! وہ سر جھٹکتا اٹھ کر باہر گیا اور اپنے پیچھے زور سے دروازہ بند کیا- تم نے تیمور کہا؟ نہیں ، یہ تیمور ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔۔۔۔ میرا تیمور کہاں ہے؟ اس کا دل بند ہورہا ہے، کہیں کچھ غلط تھا، کہیں کچھ بہت غلط تھا-