کہیں کچھ غلط تھا ۔ بہت غلط فرشتے نے آہستہ سے گردن اس کی طرف موڑی- اس کی سنہری انکھوں میں گلابی سی نمی ابھر آئ تھی- محمل! تمہیں کچھ یاد نہیں؟ کیا ۔ کیا یاد نہیں؟ میرا بچہ کہاں ہے؟ وہ گھٹی گھٹی سی سسک اتھی-کچھ تھا جو اس کا دل ہولا رہا تھا- محمل۔۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر گال پہ لڑھکنے لگے، بے اختیار اس نے محمل کے ہاتھ تھام لیے-تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا تھا- فرشتے میں پوچھ رہی ہوں کہ میرا بیٹا کہاں ہے؟ تمہارے سر پہ چوٹ آئی تھی، تمہارا اسپائنل کارڈ ڈیمج ہوا تھا- فرشتے میرا بچہ-اس کی آواز ٹوٹ گئی- وہ بے قراری سے فرشتے کی بھیگی آنکھوں کو دیکھ رہی تھی- محمل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل! تم بے ہوش ہوگئی تھیں-تم کوما میں چلی گئی تھی، مجھے پتا ہے میرا صبح ایکسیڈنٹ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ صبح نہیں تھا وہ سات سال پہلے تھا- وہ سکتے کے عالم میں اسے دیکھتی رہ گئی- وقت سات سال آگے بڑھ گیا ہے-تمہیں کچھ یاد نہیں؟وہ ساری باتیں جو میں اتنے برس تم سے کرتی رہی؟وہ دن وہ راتیں جو میں نے ادھر تمہارے ساتھ گزاریں،تمہیں کچھ یاد نہیں؟ وہ پتھر کا بت بن گئی تھی-فرشتے کو لگا وہ اس کی بات نہیں سن رہی ہے- ڈاکٹرز کہتے تھے- تم کبھی بھی ہوش میں آسکتی ہو-ہم نے بہت ویٹ کیا تمہارا محمل بہت زیادہ- آنسو متواتر اس کے دمکتے چہرے پہ گر رہے تھے- وہ گم صم سی اسے دیکھے گئی-گویا وہ وہاں تھی ہی نہیں- میں نے تمہارے اٹھ جانے کی بہت دعائیں کی محمل! میں نے اپنا پی ایچ ڈی بھی چھوڑ دیا،تمہارے ایکسیڈنٹ کے دوسرے مہینے میں آگئی تھی، دو ماہ رہی، پھر واپس گئی، مگر دل ہی نہیں لگ سکا- میں پڑھ ہی نہیں سکی، پھر میں نے سب پڑھائی چھوڑ دی اور تمہارے پاس آگئی- اتنے برس محمل ، اتنے برس گزر گئے،تمہیں کچھ بھی یاد نہیں ؟ محمل-“ فرشتے نے ہولے سے اس پتھر کے مجسمے کا شانہ ہلایا- وہ ذرا سی چونکی، پھر اس کے لب کپکپائے- میرا ۔۔۔ میرا تیمور؟ یہ تیمور تھا نہ سنی، ہم اسے سنی کہتے ہیں- مگر وہ کیسے مانتی؟وہ جسے کوئی کالونی کابچہ سمجھی تھی، وہ اس کا اپنا بچہ تھا-یہ کیسے ممکن تھا؟اسے تو لگا تھا کہ وہ تو بس ایک دن کے لیے سوئی ہے یا شاید دن ایک حصہ- پھر صدیاں کیسے بیت گئیں؟اسے کیوں نہیں پتا چلا؟ اور تیمور ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں- اسے کاٹ میں لیٹا اپنا نومولود بیٹا یاد آیا- فرشتے وہ میرا بچہ ہے- اف میرے خدایا- اس نے بے یقینی سے آنکھیں موند کر کھولیں- وہ اتنا بدل گیا ہے؟ بہت کچھ بدل گیا ہے محمل!کیونکہ وقت بدل گیا ہے -وقت ہر شے پہ اپنا نشان چھوڑ جاتا ہے- ہمایوں؟ اس کے لب پھڑپھڑائے-ہمایوں کہاں ہے؟ نرس نے جب بتایا تو میں نے اسے کال کر دیا تھا- مگر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ لمحے بھر کو ہچکچائی- وہ میٹنگ میں تھا، رات تک آسکے گا- نہیں فرشتے ، تم اس کوبلاؤ پلیز بلاؤ اس سے کہو محمل جاگ گئی ہے،محمل اس کا انتظار کر رہی ہے-وہ میرے ایک فون پہ ہی دوڑتا چلا اآتا تھا- وہ سات سال پہلے کی بات تھی محمل! وقت کے ساتھ یہاں بہت کچھ بدلتا ہے محمل لوگ بھی بدل جاتے ہیں- وہ کیوں نہیں آیا؟وہ کھوئی کھوئی سی بولی تھی-عجیب بے یقینی سی بے یقینی تھی- محمل! پریشان نہ ہو پلیز دیکھو- وقت ہمایوں کو نہیں بدل سکتا – میرا ہمایوں ایسا نہیں ہے، میرا تیمور ایسا نہیں ہے- وہ ہذیانی انداز میں چلائی- اتنی بے یقینی تھی کہ اسے رونا بھی نہیں آرہا تھا- فرشتے تاسف سے اسے دیکھتی رہی- ابھی اسے سنبھلنے میں وقت لگے گا ، وہ جانتی تھی- ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ فرشتے چلی گئی اور وہ منہ پہ چادر ڈالے انکھیں موندے لیٹی رہی ۔ اسے یقین نہ تھا کہ فرشتے نے اس سے سچ بولا ہے، اسے لگ رہا تھا کہ یہ سب ایک بھیانک خواب ہے اور ابھی وہ آنکھ کھولے گی تو وہ خواب ٹوٹ جائے گا- پھر اس نے آنکھ ہی نہ کھولی، اسے ڈر تھا کہ اگر خواب ٹوٹا تو وہ ٹوٹ جائے گی- جانے کتنا وقت گزرا، وہ لمحوں کا حساب نہ رکھ پائی-اور اب کون سے حساب باقی رہ گئے تھے؟ دروازے پہ ہولے سے دستک ہوئی-اس نے لمحے بھر کو آنکھیں کھولیں-ہوا سے چہرے پہ پڑی چادر سرک گئی تھی، منظر صاف واضح تھا- کھلے دروازے کے بیچ وہ کھڑا تھا- اس کی نگاہیں وہیں ٹھہر سی گئیں- وقت تھم گیا،لمحے ساکن ہوگئے- وہ اسے ویسا ہی لگا تھا-اتنا ہی وجیہہ اور شاندار، مگر اس کا جذبات سے عاری چہرہ اس پر چھائی سنجیدگی نہیں وہ شاید ویسا نہیں رہا تھا- وہ آہستہ سے قدم اٹھاتا بیڈ کےقریب آیا اور پائنتی کے ساتھ رک گیا- ہمایوں! تڑپ کر رہ گئی-بے اختیار آنکھوں سے آنسو گرنے لگے- ہوں،کیسی ہو؟وہ پائنتی کے قریب کھڑا رہا، اس سے آگے نہیں بڑھا، آواز میں بھی عجیب سرد مہری تھی- ہمایوں! وہ رونے لگی تھی-یہ سب کیا ہے؟یہ کہتے ہیں اتنے سال گزر گئے میری نیند اتنی لمبی کیوں ہوگئی؟ معلوم نہیں-ڈاکٹرز کب تمہیں ڈسچارج کریں گے؟وہ کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھ رہا تھا- جیسے جانے کی جلدی ہو،اس کے لہجے میں کوئی ناراضی کا عنصر نہ تھا، بلکہ بہت ہموار لہجہ تھا- لیکن شاید ان کے درمیاں کچھ بھی باقی نہ رہا تھا- میں ٹھیک ہوجاؤں گی نا ہمایوں؟جیسے وہ تسلی کے دو بول سننا چاہتی تھی- ہوں-وہ اب جیبوں میں ہاتھ ڈالے تنقیدی نگاہوں سے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا- یہ سب کیا ہورہا تھا اس کے ساتھ؟ہمایوں اور تیمور ۔۔ وہ اس کے ساتھ یوں کیوں کر رہے تھے؟ ہمایوں ۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بات تو کریں- ہاں کہو ، میں سن رہا ہوں – وہ متوجہ ہوا، لمحے بھر کو نگاہ اس پہ جھکائی- اس کے آنسو تھم گئے- وہ بالکل چپ ہو کر رہ گئی- یہ تو محبت کی نگاہ نہ تھی، یہ تو خیرات تھی-بھیک تھی- وہ چند لمحے منتظر سا اسے دیکھتا رہا، پھر جانے کو مڑا- اسی پل دروازے میں فرشتے کا سراپا ابھرا – وہ ہاتھ میں فروت باسکٹ پکڑے تیزی سے اندر آرہی تھی- ہمایوں اس کے ایک طرف سے نکل کے باہر چلا گیا- فرشتے نے پلٹ کر اسے جاتا دیکھا- ہمایوں ابھی تو آیا تھا؟ چلا بھی گیا؟ کیا کہہ رہا تھا؟ اچنبھے سے کہتے ہوئے اس نے گردن اس کی جانب موڑی- محمل کے چہرے پہ کچھ تھا وہ لمحے بھر کو چپ سی ہوگئی- فکر مت کرو وہ ہر کسی سے ایسے ہی بی ہیو کرتا ہے- وہ ماحول کو خوشگوار کرنے کے لیے کہتی آگے بڑھی اور فروٹ باسکٹ سائیڈ ٹیبل پہ رکھی- مگر میں کسی تو نہیں تھی فرشتے-“وہ ابھی تک نم انکھوں سے کھلے دروازے کو دیکھ رہی تھی- ٹھیک ہوجائے گا سب کچھ تم کیوں فکر کرتی ہو؟ مگر وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا تھا؟اس کی آنکھیں پھر سے ڈبڈبائیں- محمل دیکھو اس تبدیلی نے وقت لیا ہے تو اس کو ٹھیک ہونے میں بھی وقت لگے گا- تم اس کو کچھ وقت دو- وہ اس کے ریشمی بھورے بال نرمی سے ہاتھ میں لیے برش کر رہی ھتی- وقت ، وقت، وقت۔ وہ ایک ہی تکرار ہر جگہ دہرائی جا رہی تھی- اس وقت نے کیا کچھ بدل دیا تھا، اسے اس کا اندازہ آہستہ آہستہ ہورہا تھا- وہ اپنے نچلے دھڑ کو حرکت نہیں دے سکتی تھی، وہ اپنے پاؤن نہیں ہلا سکتی تھی- اٹھ بیٹھ نہیں سکتی تھی- خود کھانا نہیں کھا سکتی تھی- اپنے پاؤں پہ کھڑی ہونے کے قابل نہیں رہی تھی- یہ سب کیا ہوگیا تھا- اس دن اس دن جب میں گھر سے نکلی تھی تو میں نے صبح کی دعائیں نہیں پڑھی تھیں-یہ سب اسی لیے ہوا ہے فرشتے کہ میں دعائیں پڑھے بغیر گھر سے نکلی تھی، ہے نا- وہ نرمی سے اس کے بال سلجھا رہی تھی، جب وہ بھیگی آنکھوں اور رندھے گلے سے کہنے لگی- فرشتے نے گہری سانس لی کہا کچھ نہیں- نہ تھا کہ اس کو اللہ سے کام آتا کچھ بھی مگر حاجت تھی یعقوب علیہ السلام کے دل میں تو اس نے اسے پورا کیا-بہت دھیرے سے اس کے دل میں کسی نے سرگوشی کی تھی-وہ یکلخت چونک سی گئی- نہ تھا کہ اس کو اللہ سے کام آتا کچھ بھی مگر ایک حاجت تھی یعقوب علیہ السلام کے دل میں تو اس نے اسے پورا کیا- اس نے سننے کی کوشش کی-کوئی اس کے اندر مسلسل یہ الفاط دہرا رہا تھا-دھیمی مدھر آواز، ترنم اور پر سوز سے پر- اس کا دل دھڑکنا بھول گیا-وہ ایک دم سناٹے میں آگئی- یہ الفاظ یہ بات یہ سب بہت جانا پہچانا تھا- شاید یہ ایک آیت تھی- ہاں یہ آیت تھی، سورہ یوسف ، تیرہواں سپارہ، جب یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کو غالبا نظر بد سے بچاؤ کے لیے احتیاطا شہر کے مختلف دروازوں سے داخل ہونے کی تاکید کی تھی تو اس پہ اللہ نے جیسے تبصرہ کیا تھا کہ ان بھائیوں کو اگر اللہ کی مرضی اور منشاء ہوتی تو پھر اللہ کے فیصلے سے کوئی بھی بچا نہ پاتا، مگر وہ احتیاط تو یعقوب علیہ السلام کے دل کی ایک حاجت تھی، تو یعقوب علیہ السلام نے اسے پورا کیا- ایک خاموش لمحے میں اس پر کچھ آشکار ہوا تھا-یہ جو ہو تھا اسے ایسا ہی ہونا تھا، وہ جو کرلیتی ،یہ اللہ کی مرضی تھی،یہ اس کی تقدیر تھی شاید اس کی دعاؤں نے اسے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ہو، مگر کیا اس سے بھی کوئی بڑا نقصان ہو سکتا تھا؟کوما معزوری، بے زار شوہر، بدکتا بچہ- اب کیا رہ گیا تھا زندگی میں- کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو! کسی نےپھر اسے ذرا خفگی سے مخاطب کیا تھا-وہ پھر سے چونکی اور قدرے مضطرب ہوئی- یہ کون اسے بار بار اندر ہی اندر مخاطب کرتا تھا؟یہ کون تھا؟ فرشتے پلیز مجھے کچھ دیر کے لیے، پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو-وہ بہت بے بسی سے بولی تو فرشتے کا اس کے بالوں میں برش کرتا ہاتھ رک گیا-پھر اس نے جیسے سمجھ کر سر ہلا دیا- اوکے – اس نے برش سائیڈ پہ رکھا اور اٹھ کر باہر نکل گئی- ہم نے بسایا تم کو زمین میں اور ہم نے تمہارے لیے اس میں زندگی کے سامان بنائے، کتنا کم تم شکر ادا کرتے ہو- (سورہ اعراف) کوئی اس کے اندر ہی اندر اسے جھنجھوڑ رہا تھا، پکار رہا تھا-اس کے اندر باہر اتنا شور تھا کہ وہ سن نہ پا رہی تھی-سمجھ نا پا رہی تھی-فرشتے گئی تو اس نے آنکھیں موندلیں- اب اس کے ہر سو اندھیرا اتر آیا، خاموشی اور تنہائی ، اسے غور سے سننا چاہا، چند ملی جلی اوازیں بار بار گونج رہی تھیں- ہم تم میں سے ہر ایک کو آزمائیں گے، شر کے ساتھ اور خیر کے ساتھ- کہہ دو بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے جو رب ہے تمام جہانوں کا- اس کے ذہن میں جیسے جھماکا سا ہوا، ایک دم اندر باہر روشنی بکھرتی چلی گئی،اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں- میرا قرآن ۔۔۔۔۔ میرا کلام پاک، میرا مصحف۔۔۔۔۔۔۔ وہ کبھی قرآن کے بغیر گھر سے نہیں نکلتی تھی- اس روز بھی وہ اس کے ہاتھ میں تھا-بلکہ بیگ میں رکھا تھا-جب ایکسیڈنٹ کے بعد ادھر لائی گئی ہوگی یقینا وہ بھی ساتھ لایا گیا ہوگا،پھر اسے ادھر ہونا چاہیئے- مگر سات سال اسے یاد آیا،وہ سات سال درمیاں میں آگئے تھے-ان کے پیچھے تو ہر شئے گویا دھول میں گم ہوگئی تھی اوہ خدایا وہ کیا کرے- اس نے تھک کر آنکھیں موند لیں- یہ ایسی عجیب سی بات تھی، جس پہ اسے یقین ہی نہیں اتا تھا- وہ جتنا سوچتی اور الجھ جاتی- تب ہی دروازہ ہولے سے کھلا، اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں- تیمور دروازے میں تھا،جینز شرٹ پہنے اس کے بھورے بال ماتھے پہ کٹ کر گر رہے تھے- اس کی ناک بالکل ہمایوں کی طرح تھی،کھڑی مغرور ناک اور آنکھیں محمل کی سی سنہری چمکتے کانچ جیسی- اور ماتھے کے وہ بل ،وہ نہ جانے کس جیسے تھے! تیمور- اس کو دیکھ کر محمل کی آنکھیں جگمگا اٹھی تھیں-وہ اس کا بیٹا تھا اس کا تیمور تھا- ادھر آؤ بیٹا- وئیر از مائی ڈیڈ؟ (میرے ڈیڈ کہاں ہیں) وہ اسی تنفر سے چبھتے ہوئے انداز میں بولا تھا- منہ پھٹ، اکھڑ، بد تمیز ، اگر وہ اس کی ماں نہ ہوتی تو یہ تین الفاظ اس کے ذہن میں اس کے متعلق فورا ابھرتے- وہ ابھی آئے تھے پھر چلے گئے-تم ماما سے نہیں ملو گے؟اس نے ممتا سے مجبور اپنے بازو پھیلائے- نہیں- اس نے باہر نکل کے زور سے دروازہ بند کردیا- وہ سن ہوکر رہ گئی-بازوآہستہ سے پہلو میں آن گرے- یہ سات سال کا بچہ ۔۔۔۔ اس کے دل میں اتنی نفرت، اتنی کڑواہٹ کیسے آگئی؟کیا قصور تھا اس کا کہ وہ اس طرح سے اس سے متنفر تھا؟اور صرف اس سے نہیں بلکہ فرشتے سے بھی- بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے- اور پھر کب وہ روتی سو گئی ، اسے پتا بھی نہیں چلا- ٭٭٭٭٭٭ فریو تھراپستٹ اسے ایکسرسائز کرانے کی ناکام کوشش کرانے کی ناکام کوشش کر کے جا چکی تھی- وہ اسی طرح دنیا سے بے زار آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹی تھی-یہ دایاں بازو تو بالکل ٹھیک کام کرتا تھا-بایاں البتہ ذرا سا ڈھیلا تھا،مگر امید تھی کہ وہ بھی جلد ہی ٹھیک ہوجائے گا-ٹانگوں کے متعلق کچھ کہنے سے ڈاکٹرز ابھی قاصر تھے-کبھی وہ کہتے کہ فریو تھراپی سے آہستہ آہستہ وہ ٹھیک ہوجائے گی اور بعض اوقات ان سب کا انحصار وہ وہ اس کی خود کی قوت ارادی پہ گردانتے-وہ قوت ارادی جس کو استعمال کرنے کی سعی وہ ابھی نہیں کر رہی تھی- ایک دم پھولوں کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی تو اس نے دھیرے سے بازو ہٹایا اور آنکھیں کھولیں- فرشتے بڑا سا سرخ گلابوں کا بوکے لیے اندر داخل ہوئی تھی-اس کے سیاہ اسکارف میں مقید دمکتے چہرے پہ وہی ٹھنڈی ٹھندی مسکراہٹ تھی- السلام علیکم مائی سسٹر!کیسی ہو ؟ اور یہ فزیو تھراپسٹ کو کیوں تم نے بھگا دیا؟ وہ کانچ کے گلدان میں گلدستہ لگاتے ہوئے بولی تھی- مجھے کسی فزیو کی ضرورت نہیں ہے- میں ٹھیک ہوں،یہ لوگ مجھے گھر کیوں نہیں جانے دے رہے؟ میں نے ڈاکٹرز سے بات کی ہے وہ کہتے کہ تمہیں عنقریب گھر شفٹ کر دیں گے– شاید ایک ہفتے تک تم مینٹلی بالکل ٹھیک ہو اور تمہیں مزید اسپتال میں رکھنے کی ضرورت نہیں ہے- وہ پھول سیٹ کر کے شاپر سے کچھ اور نکالنے لگی- اور تیمور نہیں آیا؟ اسے آنا تھا کیا؟اس کا دل ڈوب کے ابھرا- ہاں میں اسے روز ساتھ ہی لاتی ہوں پتا نہیں شاید لان میں بیٹھا ہو ابھی آجائے گا- وہ کہہ کر خود ہی شرمندہ ہوئی- محمل نے پھر سے چہرے پہ بازو رکھ لیا-وہ اب یوں ہی ساری دنیا سے چھپ جانا چاہتی تھی- فرشتے روز صبح آتی تھی -پھر دوپہر میں چلی جاتی اور گھنٹے بھر بعد تیمور کو ساتھ لے آتی-وہ باہر ہی پھرتا رہتا اندر نہ آتا ، پھر عصر کے وقت فرشتے چلی جا تی غالبا اسے مسجد جانا ہوتا تھا،رات کو وہ پھر ایک چکر لگا لیتی-چھٹی کے دن وہ تیمور کو صبح ہی ساتھ لے آتی اور باقی دنوں میں اس کے اسکول کے باعث دوپہر کو لاتی،ہاں رات کو تیمور اس کے ساتھ نہیں آتا تھا-اور ہمایوں، وہ تو بس ایک دفعہ آیا تھا- پھر اس کے بعد ہمیشہ وہ شاید بزی ہوگا، والا جواب فرشتے خوب شرمندہ ہو کر دیتی- وہ دن میں تین تین چکر لگاتی، گویا گھن چکر بنی رہتی-محمل کا ہر چھوٹا بڑا کام کرتی اور نہیں تو اس کے ساتھ بیٹھی تسلی اور پیار بھری باتیں کرتی رہتی-اب بھی وہ جانے کیا چیز الٹ پلٹ کر رہی تھیں- مگر وہ یونہی بے زار سی منہ پہ بازو رکھے لیٹی رہی-محمل کو کھٹ کھٹ کی آواز یں آرہی تھیں مگر وہ ویسے ہی لیٹی رہی-اور پھر آہستہ سے وہ مترنم آواز پورے کمرے میں گونجنے لگی تھی- سب تعریف اس اللہ کی ، وہ ذات جس نے اپنے بندے پہ کتاب اتاری اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں بنایا- اس نے جھٹکے سے بازو ہٹایا- فرشتے ٹیپ ریکارڈر بند کرکے ہاتھ میں پکڑے کیسٹ کور بند کر رہی تھی-محمل کی طرف اس کی پشت تھی-درست کرنے والی (کتاب ) تاکہ وہ اپنے پاس موجود سخت عذاب سے ڈرائے،اور خوش خبری دے ان مومنوں کو جو اچھا کام کرتے ہیں کہ بے شک ان کے لیے اچھا اجر ہے- وہ یہ آواز لاکھوں میں پہچان سکتی تھی قاری مشاری کی سورہ الکہف- وہ رہنے والے ہیں اس میں ہمیشہ اور ڈرائے ان لوگوں کو جنہوں نے کہا کہ اللہ نے بیٹا بنا لیا ہے- لفظ بوند بوند اس کی سماعت میں اتر رہے تھے- آج جمعہ تھا اور وہ ہمیشہ جمعے کو سورہ کہف پڑھا کرتی تھی- نہ ان کے پاس اس کا کوئی علم ہے نہ ہی ان کے اباؤ اجداد کے پاس ہے- ان کے منہ سے یہ بہت بڑی بات نکلی ہے وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں کہتے- کھٹ سے فرشتے نے اسٹاپ کا بٹن دبایا تو آواز رک گئی اس نے تڑپ کر فرشتے کو دیکھا- لگائیں نا بند کیوں کر دی؟ اوہ تم جاگ رہی تھیں-وہ چونک کر پلٹی-میں سمجھی تم سو گئی ہو ،میں نے سوچا تمہیں تنگ نہ کروں- کوئی قاری مشاری کی سورہ کہف سے بھی تنگ ہوسکتا ہے بھلا؟ اس میں تو میری جان مقید ہے فرشتے! آپ کو یاد ہے جب جمعے کو کلاس میں سورہ کہف شروع ہوئی تھی تو الحمد للہ الزی پہ ہی میرے آنسو گرنے لگتے تھے- تمہارے آنسو اب بھی گر رہے ہیں محمل! وہ آہستہ سے اس کے قریب آبیٹھی اور اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے- محمل کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا تھا- ” میں جانتی ہوں تم تیمور اور ہمایوں کی وجہ سے اپ سیٹ ہو- بھول جاؤ ان کی نا قدریاں محمل!وہ نا سمجھ ہیں،ان کی وجہ سے اپنا چین سکون برباد نہ کرو،وہ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ جائیں گے،مگر ایک بات تمہیں ذہن میں بٹھا لنی چاہیئے ، کہ تمہاری زندگی ان پہ انحصار نہیں کرتی،تم ان کے بغیر مر نہیں جاؤ گی،ان کے بغیر جینا سیکھو محمل۔ خود کو اسٹرانگ کرو اور۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے اس نے تیزی سے بات کاٹی،مگر ابھی آپ سورہ کہف لگائیں نا پلیز مجھے سننا ہے- فرشتے ذرا سی حیران ہوئی، پھر گہری سانس لے کراٹھ کھڑی ہوئی- اٹھ کھڑی ہوئی-اچھا ٹھیک ہے میں لگاتی ہوں- اور میرا قرآن ؟ ہاں -وہ میں کل ڈھونڈ کے لے آؤں گی،ابھی تم یہ سنو۔میں تیمور کو ڈھونڈتی ہوں-اس نے پلے کا بٹن دبایا اور خود باہر نکل گئی- “بس شاید تم ان کے پیچھے خود کو ہلاک کرنے والے ہو،اگر وہ اس کلام کے ساتھ ایمان نہ لائے،بہت افسوس کے ساتھ،بے شک جو بھی زمین پہ ہے،ہم ان لوگوں کو آزمائیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے کام کرتا ہے-اور بے شک ہم اس کو بنجر صاف میدان بنانے والے ہیں- اس نے آنکھیں موند لیں-آنسو آہستہ آہستہ اس کے تکیے کو بھگونے لگے تھے- سورہ کہف کے ساتھ اسے وہ تمام مناظر یاد آنے لگے تھے جو کبھی اس کی زندگی کا حصہ تھے- سنگ مر مر کی چمکتی راہداریاں،روشنیوں سے گھرا ہال،جو اونچے اونچے ستونوں پہ کھڑا تھا-مسجد کے برآمدے کے سامنے ہری گھاس سے بھرا لان،وہ پنک اسکار ف میں لپٹے بہت سے جھکے سر،جو تیزی سے نوٹس لینے میں مصروف ہوتے،لائبریری کی اونچی گلاس ونڈوز جن سے فیصل مسجد دکھائی دیتی تھی- وہ کالونی کی سڑک پہ چرختوں کی باڑ، یادوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جو امڈ کر اس کے ذہن میں آیا تھا-ڈاکٹرز صحیح کہتے تھے وہ ذہنی طور پر بالکل ٹھیک تھی- سورہ کہف ختم ہوئی تو کیسٹ رک گئی-اس نے بے بسی سے ٹیپ کو دیکھا-وہ اس سے خاصے فاصلے پر تھا،وہ اٹھ کر اس کو ری پلے بھی نہیں کر سکتی تھی-کیسی بے بسی تھی کیسی لاچاری تھی- اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے-ہر راہ بند ہوتی دکھائی دینے لگی-ہر دروازے کے سامنے اندھیرا چھانے لگا-اسے لگا وہ اب ہمیشہ کسی اندھیرے بند کہف میں مقید رہے گی- تیمور اور ہمایوں سے دور ۔۔۔۔ بہت دور۔۔۔۔۔۔۔۔ ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ صبح وہ سو کر خاصی دیر سے اٹھی،رات بھر سو نہ سکی تو فجر کے قریب ہی آنکھ لگی تھی- سسٹر میرین بیڈ ٹیبل پہ دوائیں رکھ رہی تھی،اسے جاگتے دیکھ کر مسکرائی- گڈ مارننگ مسز ہمایوں،ہاؤ آر یو؟ فائن-وہ جبرا مسکرائی،کس کا نام اس کے نام کے ساتھ جڑتا تھا،وہ جو خود ہی اس سے دور بھاگنے لگا تھا- آپ کی سسٹر صبح آئی تھیں،آپ سو رہی ھیں،وہ یہ بک دے کر گئی ہیں-اس نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی کتاب کی طرف اشارہ کیا- فرشتے آئی تھی؟وہ چونکی،پھر اس کی اشارہ کردہ کتاب کی طرف دیکھا تو ٹھہر سی گئی- سیاہ سادہ جلد والی دبیز کتاب،اس کا سانس رک گیا،دل جیسے دھڑکنا بھول گیا- مصحف قرآنی-وہ زیر لب بڑبڑائی- یہ آپ کا قرآن ہے میڈم؟سسٹر میرین نے اسے متوجہ پاکر احتیاط سے قرآن اٹھا کر اس کے سامنے کیا-اس نے بے قراری سے اسے تھاما اور سینے سے لگا لیا- ” یو لو یور ہولی بک ٹو مچ، رائٹ؟ وہ مسکرا کر کہتی اسے بیٹھنے میں مدد دینے لگی- آف کورس سسٹر! وہ بہت خوش تھی- پھر وہ بیٹھ گئی تو سسٹر میرین نے اس کے پیچھے تکیے سیٹ کردیئے- پھر سسٹر جانے کب وہاں سے گئی-اسے پتہ بھی نہیں چلا،وہ بس اپنے قرآن میں گم تھی- اس نے دھیرے سے پہلا صحفہ کھولا تو عربی عبارات سے مزین اوراق سامنے آۓ-اس کا دل ایک دم رعب سے بھر گیا-ہاتھ ذرا سے کپکپائے،لب لرزے ،آنکھوں کے گوشے بھیگتے چلے گئے- اوہ خدا وہ کتنی نوازی گئی تھی-اسے اللہ نے اپنے کلام کو تھامنے کا موقع دے دیا تھا-وہ اس کی سن لیتا تھا اور مخاطب بھی کرتا تھا-برسوں کا یہ ساتھ بھلا کیسے ٹوٹ سکتا تھا؟ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے- وہ اسے بھولا نہیں تھا،اس نے اسے یاد رکھا تھا- محمل ابراہیم اپنے رب تعالی کو یاد تھی-کیا اسے واقعی اب کچھ اور چاہیئے؟ اس نے شروع کے چند صفحے پلٹے-سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر سے پڑھنا شروع کرے-پھر اس نے آغآز میں رکھے ایک بک مارک سے کھولا تھا-دوسرے سیپارے کے اوائل سے-برسوں پرانا بک مارک نا جانے کب اس نے رکھا تھا؟ اس نے دھڑکتے دل سے پڑھنا شروع کیا- بس تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا،اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری مت کرنا- آنسو اس کی رخساروں سے پھسل کر گردن پہ لڑھک رہے تھے، وہ کہنا چاہتی تھی میں نے آپ کو خوشی میں یاد رکھا،آپ مجھے غم میں مت بھولیے گا،مگر لب کھل نہ پائے- اس نے آگے پڑھا – اے ایمان والو تم صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو،بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے-ساتھ ہی حاشئیے میں پین کے ساتھ چھوٹا چھوٹا کچھ لکھا ہوا تھا- اس نے قرآن قریب کر کے پڑھنا چاہا-وہ اس کے اپنے لکھے تفسیر نوٹس سے- مصیبت میں صبر اور نماز وہ دو کنجیاں ہیں جو آپ کو اللہ تعالی کا ساتھ دلواتی ہیں-ان کے بغیر یہ ساتھ نہیں ملتا-اس لیے کوئی مصیبت آئے تو نماز میں زیادہ توجہ اور لگن ہونا چاہیئے- مصیبت میں خاموشی کے ساتھ اللہ کی رضا پر راضی ہوکر جو کچھ موجود ہے اس پر شکر کرنا اور آگے اچھے کی امید رکھنا صحیح معنی میں صبر ہے- یہ سب اس نے لکھا تھا؟وہ اپنے لکھے پہ حیرت زدہ سی رہ گئی-کلاس میں آگے بیٹھنا ٹیچر کی ہر ایک بات نوٹ کرنا،وہ سب اسے کتنا فائدہ دے گا اس نے تو کبھی تصور بھی نہ کیا تھا- اس نے قدرے آگے پڑھا- اور البتہ ہم تمہیں کچھ چیزوں کے ساتھ ضرور آزمائیں گے-(یعنی)خوف سے اور بھوک سے جانوں اور مالوں کے نقصان سے۔۔۔۔۔ اور خوشخبری دے دو ان کو جو صبر کرنے والے ہیں،ان ہی لوگوں پہ ان کہ رب کی طرف سے عنائیتیں اور رحمت ہے اور یہ ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں- اس نے ساتھ حاشیے میں لکھے اپنے الفاظ پڑھے- صابرین کا مصیبت میں بس انا للہ و انا الیہ راجعون کہہ دینا کافی نہیں ہے،، بلکہ یہ الفاظ ان دو عقائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن پہ جمے بغیر کوئی صبر نہیں کر سکتا-انا للہ ( بے شک ہم اللہ کے لیے ہے)عقیدہ تو حید ہے اور وانا الیہ راجعون (بے شک ہم اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے)عقیدہ اخرت پہ ایمان ہے کہ ہر دکھ اور ہر مصیبت ایک دن ختم ہوجائے گی اور اگر کچھ ساتھ رہے گا تو صرف آپ کے صبر کا اجر۔۔۔۔۔۔ اس نے اگلی آیت پڑھی-بے شک صفا اور مروہ شعائر اللہ میں سے ہیں تو جو کوئی حج کا ارادہ کرے- صبر کے فورا بعد صفا مروہ اور حج کا ذکر؟وہ ذرا حیرا ہوئی۔پھر اپنے ہاتھ کے لکھے نوٹس پڑھے- صفا اور مروہ دراصل ایک عورت کے صبر کی نشانی ہیں،جب آپ کو بے قصور کسی تپتے صحرا میں چھوڑ دیا جائےاور آپ اس توکل ہر کہ اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا صبر کریں تو پھر زم زم کے میٹھے چشمے پھوٹتے ہیں- اس کے بے قرار دل کو جیسے ڈھیروں ٹھنڈک مل گئی تھی-آنسوؤں کو قرار مل گیا تھا اندر باہر سکون سا اتر گیا-اور اس کے بعد جیسے گہری خاموشی سی چھاگئی- سارے ماتم دم توڑ گئے تھے-اسے صبر آہی گیا تھا- اب رونے کا پہر تمام ہوا تھا-کتاب اللہ اس کے پاس تھی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امتی تھی، دین کا علم اسے عطا کیا گیا تھا-اب کسی شکوے کی گنجائش باقی نہ رہی تھی دور جاہلیت سے نکلنے والے انسان کی زندگی میں مکہ کی سختیاں ،مدینے کی ہجرت،بدر کی جیت اور احد کی شکست آتی ہے-طائف کے پتھر بھی اتے ہیں اور اسری اور معراج کی بلندیاں بھی-مگر آخر میں ایک فتح مکہ بھی ضرور آتا ہے اور اس دور میں کسی کا مکی دور بعد میں آتا ہے اور مدنی دور پہلے آجاتا ہے- وہ ایک سال جو اس نے ہمایوں کے ساتھ اپنے گھر میں گزارا، ایک پرسکون من چاہی ریاست میں،وہ دور ختم ہوچکا تھا-اس کا مکہ اب شروع ہوا تھا-طائف کے پتھر اب لگنے لگے تھے-مگر وہ جانتی تھی کہ وہ کمزوروں کا رب اگر ساتھ ہے تو اسے بھی کسی عتبہ اور شیبہ کے باغ میں پناہ مل جائے گی-اسے بھی انگور کے خوشے مل جائیں گے-اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طائف کی دعا یاد آئی اور اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے-تب ہی دروازہ کھول کر سسٹر اندر داخل ہوئی-اسے جاگتا دیکھ کر ذرا سا مسکرائی اور اگے بڑھی- کیسا فیل کر رہی ہیں اپ؟وہ اس کے ساتھ لگی ڈرپ کو چیک کرنے لگی تھی- ہوں- جیسے کسی خیال سے جاگی – فائن الحمد للہ آپ کو بہت ٹائم بعد ہوش آیا ہے-ڈاکٹرز ہوپ کھو چکے تھے- معلوم نہیں-وہ قدرے بے بسی سے مسکرائی-میں نے تو وقت کا تعین بھی کھودیا تھا- مایوسی کی باتیں مت کریں میم! خداوند آپ کی مدد کرے گا- وہ ذرا سی چونکی یہ انگور کے خوشے لے کر ہمیشہ نینوا کے عداس کیوں آتے ہیں-اس نے بے اختیار سوچا تھا- ہاں” مجھے یقین ہے وہ میری مدد کرے گا،وہ کھل کر مسکرا دی-شاید پہلی دفعہ وہ یوں مسکرائی تھی-تمہارا اس کی مدد پہ کتنا ایمان ہے سسٹر؟ بہت ذیادہ، میم!کرائسٹ مدد مانگنے والوں کو خالی نہیں لوٹاتا- ہوں-وہ نرمی سے مسکراتی اس کا پر یقین چہرہ دیکھے گئی- تم جانتی ہو عیسیٰ علیہ السلام کےبارے میں یہ قرآن کیا کہتا ہے؟ نلکی کو تھامے سسٹر میرین کے ہاتھ لمحے بھر کو تھمے- اس نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا،اس کی سیاہ آنکھوں میں حیرت بھرا سوال ابھرا تھا- محمل نے ایک ثانیے کو اس کی آنکھوں میں دیکھا،پھر آہستہ سے بولی- ہینڈسم ،اے ویری ہینڈ سم مین ہی واز مسیح ، عیسی بن مریم- رئیلی؟سسٹر میرین کی آنکھوں میں دیپ سے جل اٹھے- آف کورس ہماری کتاب میں لکھا ہے کہ وہ بے حد ہینڈسم تھے،بہت وجیہہ صرف بیان نہیں اس کے پاس رائٹنگ پاور بھی تھی-قلم کی طاقت، وہ بہت اچھا لکھتے تھے، اور جانتی ہو وہ اپنے اس ٹیلنٹس اور مریکلز کے بارے میں کیا کہا کرتے تھے؟ کیا؟وہ دم بخود بنا پلک جھپکے سن رہی تھی-وہ کہتے تھے، یہ مجھے میرے رب نے سکھایا ہے-وہ سانس لینے کو رکی،پھر جیسے یاد کر کے بتانے لگی-جب سے مجھے یہ پتا چلا میں اپنی کوئی بھی تعریف سن کر عیسی علیہ السلام کو کوڈ کرتی تھی،کوئی میری تعریف کرتا تو میں کہتی یہ مجھے میرے رب نے سکھایا ہے- بیوٹی فل! سسٹر میرین بے خود سی کہہ اٹھی پھر آہستہ سے چیزیں سمیٹنے لگی- مسر ہمایون آپ پہلی مسلم ہو جس نے بتایا ہے کہ آپ کی ہولی بک یسوع مسیح کے بارے میں کیا کہتی ہے-ورنہ مسلم ہمیشہ بہت سختی سے کہتے ہیں تمہارا عقیدہ غلط ہے- السلام علیکم فرشتے نے جھانکا، تم اٹھ گئیں؟ ہاں کب کی-وہ چونکی پھر سنبھل گئی-فرشتے اندر چلی آئی- عبایا اور سیاہ حجاب کو چہرے کے گرد لپیٹے ہمیشہ کی طرح تازہ اور خوبصورت – آپ نے شادی نہیں کی فرشتے! محمل نے کہا ، اور پھر اس نے دیکھا کہ فرشتے کی سیاہ آنکھوں میں سایہ سا لہرایا ہے- شادی میں کیا رکھا ہے محمل؟وہ پھیکا سا مسکرائی – سنت سمجھ کے کر لیں- وہ سر جھکائے چادر پہ انگلی سے نادیدہ لکیریں کھینچنے لگی- پھر آپ شادی کر لیں گی نا؟ جب تک تم ٹھیک نہیں ہوتیں، میں شادی نہیں کروں گی- اور اگر میں کبھی ٹھیک نہ ہوئی تو؟ تو میرے لیے تم، ہمایوں اور تیمور بہت ہو، مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں ہے،چلو تمہاری فزیو تھراپسٹ آنے والی ہوگی-اس سے بنا کر رکھو،اب اس کو بھگانا نہیں ہے، گھر شفٹ ہو کر بھی روز اس کی شکل دیکھنا ہوگی نا-فرشتے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی- اور وہ ایک خیال اسے اطمینان بخش گیا- گھر ،، اس کا گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا گھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ہفتے وہ واپس چلے جائے گی- اس نے طمانیت سے سوچا تھا-سسٹر میرین فائل ہاتھ میں پکڑے پین سے اس میں کچھ اندراج کر رہی تھی- محمل تکیوں کے سہارے ٹیک لگائے خاموش گم صم سی بیٹھی تھی-اس کے بھورے سیدھے بال شانوں پہ پھسلتے کمر پر گر رہے تھے-یہ بال کبھی بے حد گھنے اور سلکی ہوا کرتے تھے- مگر طویل بیماری نے انہیں بے حد پتلا اور پھول کی پتیوں جیسا کردیا تھا- میڈم! لکھتے لکھتے ایک دم سسٹر نے سر اٹھایا-اسکے چہرے پہ یکایک ڈھیروں تفکر امڈ آیا تھا- ہوں- وہ چونکی- آج کل وہ پکارنے جانے پہ یوںہی چونک اٹھتی تھی- کافی دن ہوگئے ، وہ نہیں آئے- کون؟ وہ کوئی صاحب ہیں کافی عرصے سے آپ کو دیکھتے آرہے ہیں- کافی بڑی عمر کے ہیں، اتنی لمبی داڑھی بھی ہے- بہت کائنڈ اور جینٹل سے ہیں- کب سے آرہے ہیں؟ میں تین سال سے ادھر ہو ں،جب سے انہیں آتا دیکھتی ہوں عموما فرائی ڈے کو اتے ہیں، بس ادھر سے جھانک کر – اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا اور مجھ سے آپ کا حال پوچھ کر چلے جاتے ہیں، کبھی آپ کے پاس رکے نہیں- کیا میرے کوئی رشتہ دار ہیں؟سوال کرنے کے ساتھ ہی اس کے ذہن کے پردے پہ بہت سے چہرے ابھرے – آغآ ہاؤس کے خوش حال و مطمئن چہرے ، ایک کسک سی دل میں اٹھی – کیا ان کو وہ یاد ہوگی؟کیا کبھی اپنے عیش و آرام سے فرصت پا کر انہوں نے اس کے لیے چند لمحے نکالے ہوں گے؟ نہیں ، وہ کہتے تھے کہ وہ آپ کے رشتے دار نہیں ہیں ۔ بس یوں ہی جاننے والے ہیں- فرشتے اور میرے ہزبینڈ جانتے تھے وہ؟ ان کے ہوتے ہوئے وہ کبھی نہیں آئے،ہمیشہ ان کی غیر موجودگی میں اتے ہیں-مگر اب کافی دن ہوگئے نہیں آئے- کوئی نام اتا پتا؟ کبھی بتایا نہیں- سسٹر اب دوبارہ فائل پہ جھکی اندراج کرنے لگی- وہ مایوس سی ہوگئی- جانے کون تھا، کیوں آتا تھا- رات میں فرشتے آئی تو اس نے یونہی پوچھ لیا- مجھے ادھ کون کون دیکھنے آتا تھا فرشتے ہم سب- وہ اس کے بھورے بالوں میں برش کر رہی تھی- آغا جان لوگ کبھی نہیں آئے؟ پتا نہیں-دونوں ہاتھوں میں بال پکڑ کر اس نے اوپر کیے اور پونی باندھی،پھر سیدھی لمبی پونی ٹیل کو احتیاط سے آہستی آہستہ اوپر سے نیچے برش کرنے لگی- کوئی تو آیا ہوگا- میں ان لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی محمل-پلیز مجھے دکھ مت دو- اس کے انداز میں منت بھرا احتجاج تھا،پھر محمل کچھ نہ پوچھ سکی- سر جھکائے بال بنواتی رہی – یہ دیکھو -فرشتے نے پاکٹ مرر اس کے چہرے کے سامنے کیا- اس نے جھکا سر اٹھایا، آئینے میں اپنا عکس دکھائی دیا تو لمحے بھر کو وہ بہچان ہی نا پائی- بے حد کمزور چہرہ ، اندر کے نیچے گہرے جامنی حلقے ، یژمردہ ، بیمار ، روکھا پھیکا سا چہرہ ، اوپر اونچی پونی ٹیل ، جو کبھی اسی تروتازہ محمل ابراہیم پہ بہت اچھی لگا کرتی تھی- اس بیمار لا غر محمل پہ بہت بری لگ رہی تھی- رہنے دیں ، مجھے یہ بال نہیں بنانے- اس نے نے ہاتھ سے پونی پکڑ کر کھینچی- بال شکنجے سے نکل کر شانوں پہ بکھر گئے اور پونی اس کے ہاتھ میں اگئی- کیوں کھول دئیے؟فرشتے کو تاسف ہوا- میں ایسے بال نہیں بنانا چاہتی ، پلیز مجھے دکھ مت دیں- نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کے الفاظ لوٹا گئی- فرشتے چپ سی ہوگئی اور پھر کمرے سے نکل گئی- شاید وہ جانتی تھی کہ اس وقت محمل کو تنہا چھوڑ دینا ہی بہتر ہوگا- ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ ہمایوؔں کا گھر ۔۔۔۔۔۔۔ محمل کا گھر ۔۔۔۔۔ ہمایوں اور محمل کا گھر- وہ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھو ڑ کر گئی تھی-خوب صورتی سے آراستہ، کونا کونا چمکتا ہوا، فانوس کی روشنیاں، جگر جگر کرتی بتیاں، قیمتی پردے، یہ ہی سب پہلے بھی اس کے گھر میں تھا ،اب بھی تھا، مگر رنگ بدل گئے تھے- لاؤنج کے صوفے، پردے یہاں تک کہ گملے بھی بدل گئے تھے-چیزیں رکھی گو اسی ترتیب میں تھیں-جیسے ہمایوں تھا- اپنی جگہ پہ ویسے ہی موجود مگر پھر بھی بدل چکا تھا- کیسا لگا تمہیں اپنا گھر؟ اس کی وہیل چیئر پیچھے سے دھکیلتی فرشتے خوش دلی سے پوچھ رہی تھی- وہ گم صم خالی خالی آنکھوں سے درو دیوار کو دیکھ رہی تھی-سات سال پہلے وہ اس کا گھر تھا-اب شاید وہ صرف ہمایوں کا تھا- ڈاکٹرز نے اس کا مزید اسپتال میں رہنا بے فائدہ کہہ کر اسے گھر شفٹ کر دیا تھا-اس کی بیماری وہیں تھی-دایاں ہاتھ ٹھیک بایاں بازو اور ہاتھ سست اور نچلا دھڑ مکمل طور پر مفلوج ،وہ کہتے تھے کہ اچانک – بھی ٹھیک ہو سکتی ہے اور ساری عمر بھی اس طرح رہ سکتی ہے-بس آپ دعا کریں،اب وہ کیا کہتی ، آپ کو لگتا ہے کہ ہم دعا نہیں کرتے؟ مگر ایسی باتیں کہی کہاں جاتی ہیں- فرشتے اسے لاؤنج کے ساتھ بنے کمرے کی طرف لے گئی- اس وہ اس کے مطابق سیٹ کروا دیا تھا- مگر میرا کمرہ تو اوپر تھا فرشتے- محمل ۔۔۔۔۔۔ سیڑھیاں چڑھنا اس وہیل چئیر کے ساتھ-اس نے بات ادھوری چھوڑ دی-اس نے سمجھ کر سر ہلا دیا- اور ہمایوں کا سامان؟ کچھ دیر چیزوں کا جائزہ لیتے ہوئے وہ پوچھ بیٹھی-ان کا سامان کدھر ہے؟ ہمایوں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا تھا- مگر ۔۔۔۔۔۔ آئی تھنک وہ اپنے کمرے میں زیادہ کمفر ٹیبل ہے- تو وہ یہاں نہیں آئیں گے؟محمل ششدر رہ گئی- کوئی بات نہیں محمل! وہ اسی گھر میں رہتا ہے،کسی بھی وقت آ جا سکتا ہے-فرشتے خواہ مخواہ شرمندہ ہورہی تھی- نہیں فرشتے! تم ان سے کہہ دو مجھے یوں اکیلا نہ کریں- اس نے بے اختیار فرشتے کے ہاتھ پکڑ لیے-اس کے ہوش میں آنے کے بعد وہ صرف ایک بار اس سے ملنے آیا تھا، پھر کبھی نہیں ایا- محمل، پلیز میرے لیے تم دونوں بہت عزیز ہو، وہ کزن ہے اور تم بہن ،اس لیے میں نہیں چاہتی کہ میری کسی بات میں تم ہرٹ ہو-پلیز مجھے اچھا نہیں لگتا میں تم دونوں کے پرسنلز میں دخل دوں، مجھے اس کا کوئی حق نہیں ہے-اس نے بہت نرمی سے اسے سمجھایا-وہ اس کے ہاتھ تھامے گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی تھی- محمل لا جواب سی ہوگئی- اور تیمور؟اس کا کمرہ کدھر ہے؟بے اختیار اسے یاد ایا- لاؤنج کے اس طرف والا کمرہ- ہمایوں اسے اپنے ساتھ نہیں سلاتے؟وہ اتنا چھوٹا ہے، وہ اکیلا کیسے سو سکتا ہے؟اس کا دل تڑپ کر رہ گیا- جن بچوں سے ان کے ماں باپ دونوں چھن جائیں،وہ عادی ہو جاتے ہیں محمل!اگر وہ مجھے پسند کرتا ہوتا تو میں اسے ساتھ سلاتی مگر ۔۔۔۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتا- کیوں؟وہ بنا سوچے بول اٹھی-جوابا فرشتے اداسی سے مسکرائی- وہ تو تمہیں بھی پسند نہیں کرتا کیا اس میں تمہارا قصور ہے؟ محمل کا سر آہستہ سے نفی میں ہل گیا- سو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے،اگر وہ مجھے پسند نہیں کرتا-تم بیٹھو، میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں-اب تم نارمل فوڈ لے سکتی ہو- میں نے ڈاکٹر سے بات کر لی تھی- وہ جانے کے لیے کھڑی ہوی تو محمل بے اختیار کہہ اٹھی- آپ بہت اچھی ہیں فرشتے!میں کبھی آپ کی اس کئیر کا بدلہ نہیں دے سکتی- میں نے بدلہ کب مانگا ہے؟وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر باہر نکل گئی۔ میں نے بدلہ کب مانگا ہے؟وہ نرمی سے اس کا گال تھپتھپا کر باہر نکل گئی دن پژمردگی سے گزرنے لگے-وہ سارا دن کمرے میں پڑی رہتی، یا فرشتے کے زبردستی مجبور کرنے پہ باہر لان میں آتی اور وہاں بھی گم صم ہی رہتی، فرشتے ہی کوئی نہ کوئی بات کرکے ذہن بٹارہی ہوتی اور یہ باتیں عموما فرشتے اس سے نہیں کرتی تھی- بلکہ اس کی وہیل چئیر دھکیلتے ہوئے کبھی کیاری میں گوڈی کرتے مالی سے مخاطب ہوتی، تو کبھی برآمدے کا فرش دھوتی ملازمہ سے ۔ فرشتے اب اتنا نہیں بولتی تھی،جتنا پہلے بولتی تھی-اس کا انداز پہلے سے زیادہ سنجیدہ ہوگیا تھا-اور یہ وقت کا اثر تھا، وہ اثر جو نہ چاہتے ہوئے بھی وقت ہر انسان پہ چھوڑے ہی جاتا ہے- فرشتے نے گھر کو اچھی سے سنبھالا ہوا تھا-گو کہ ہر کام کے لیے جزوقتی ملازمائیں رکھی ہوئیں تھیں- مگر تمام انتظام اس کے ہاتھ میں تھا- اس کے باوجود وہ نہ کسی پہ حکم چلاتی تھی نہ اس گھر کی پرائیوسی میں دخل دیتی تھی-محمل ملازموں سے بات کرنے کے علاوہ زیادہ کلام بھی نہ کرتی تھی،وہ بھی شدید ضرورتا اور تیمور تو ویسے بھی ہر شے سے چڑا ہوا لڑکا تھا-سو وہ اسے مخاطب نہیں کرتی تھی-کبھی جو کر لیتی تو تیمور اس بدتمیزی سے پیش اتا کہ الامان- محمل نے نوٹ کیا تھا کہ تھوڑی بدتمیزی کر کے تیمور چیخنے چلانے پہ آجاتا تھا اور اگر مزید کچھ کہا جائے تو چیزیں اٹھا کرتوڑ پھوڑ کرنے سے بھی گریز نہ کرتا تھا-فرشتے بہت محتاط طریقے سے اس گھر میں رہ رہی تھی،جیسے اس کے ذہن میں تھا اسے جلد ہی یہاں سے چلے جانا ہے- ملازمہ بلقیس نے اسے بتایا تھا کہ فرشتے اپنے پیسوں سے ماہانہ راشن کی چیزیں لے آتی ہے،خصوصا چکن اور گوشت وہ ہمیشہ خود ہی خریدتی تھی-جب ہمایوں کو پتا چلا اور اس نے فرشتے کو روکنا چاہا تو فرشتے نے صاف کہہ دیا کہ اگر اس نے اسے روکا تو وہ واپس اسکاٹ لینڈ چلی جائے گی-نتیجتا ہمایوں خاموش ہوگیا-صاف ظآہر تھا وہ ان پر بوجھ بننا نہیں چاہتی تھی اور شاید اس کے ذہن میں ہو کہ کہیں کوئی اسے مفت خورا نہ سمجھ لے-اپنی عزت نفس اور وقار کو اس نے ہمیشہ قائم رکھا تھا،محمل خود کو اس کا زیر بار سمجھنے لگی، ہمایوں سے اس کی ملاقات نہ ہونے کے برابر ہوتی تھی-وہ کبھی دوپہر میں گھر آتا تو کبھی رات کو-کھانا وہ اپنے کمرے میں کھاتا-اور پھر وہی رہتا اکثر بہت رات گئے گھر واپس اتا -وہ انتظار میں لاؤنج میں وہیل چئیر پہ لاؤنج میں بیٹھی ہوتی-وہ آتا سرسی سا حال پوچھتا اوپر سیڑھیاں چڑھ جاتا اور وہ اس کی پشت کو نم آنکھوں سے دیکھتی رہ جاتی – تیمور دوپہر میں اسکول سے آتا تھا-وہ کھانا ڈائنگ ٹیبل پر اکیلے کھاتا تھا-اگر محمل کو ادھر بیٹھے دیکھتا تو فورا واپس چلا جاتا نتیجتا بلقیس اسے اس کے کمرے میں کھانا دے آتی – وہ جنک فوڈ کھاتا تھا- برگر پنیر کے ڈبوں سے فریزر اور فرنچ فرائیز کے لیے آلوؤں سے سبزی والی ٹوکری بھری رہتی -کھانے پینے کا وہ بہت شوقین تھا- اسکول سے لائے چپس کے پیکٹس اور چاکلیٹس عموما کھاتا نظر آتا -شام کو ٹی وی لاؤنج میں کارٹون لگائے بیٹھا رہتا – اگر محمل کو آتا دیکھتا تو اٹھ کر چلا جاتا- وہ جان ہی نہ پا رہی تھی کہ وہ اتنا ناراض کس بات پہ ہے؟ آخر اس نے کیا ہی کیا ہے؟ اس گھر کے تینوں مکیں اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے، اور اب وہ چوتھی اجنبی ان کی اجنبیت بٹانے اگئی تھی- فرشتے شام میں مدرسے جاتی تھی-وہ غالبا اب شام میں کلاسز لے رہی تھی-محمل نے ایک بار پوچھا تو وہ اداسی سے مسکرا دی تھی- صبح کی کلاسز لینا اسپتال کی وجہ سے ممکن نہ تھا-مختصرا بتا کر وہ حجاب صحیح کرتی باہر نکل گئی تھی- وہ محمل کا بہت خیال رکھتی تھی-اس کی دوا ، مساج ، مفلوج اعضاء کی ایکسر سائز، فریوتھراپسٹ کے ساتھ اس پہ محنت کرنا،پھر غذآ کا خیال ، وہ انتھک لگی رہتی، بلا کسی اجر کی تمنا کیے یا احسان جتائے- اس شام بھی فرشتے مدرسے گئی ہوئی تھی-جب سیاہ بادل آسمان پر چھانے لگے-ہمایوں تو کبھی بھی شام میں گھر نہیں ہوتا تھا-تیمور جانے کہاں تھا-وہ اپنے کمرے سے باہر کا منطر دیکھ رہی تھی- دیکھتے ہی دیکھتے دن میں رات کا سماں بندھ گیا،بادل زور سے گرجنے لگے-موٹی موٹی بوندیں ٹپ ٹپ گرنے لگیں،بجل کڑکتی تو ایک لمحے کو خوف ناک سی روشنی بکھر جاتی- اسے بارش سے پہلے کبھی نہیں ڈر لگا تھا-مگر آج لگ رہا تھا، ہمایوں نہیں تھا، فرشتے بھی نہیں تھی ، اسے لگا وہ اکیلی ہے، تنہا ہے- بجل بار بار کڑک رہی تھی- ساتھ ہی اس کی دھڑکن بھی تیز ہورہی تھی-بے اختیار اسے پسینہ آنے لگا تھا،کیا کرے کسے بلائے؟ وہ تیزی سے دونوں ہاتھو ں سے وہیل چئیر چلاتی لاؤنج میں آئی-فون ایک طرف تپائی پہ دھرا تھا-اس کے ساتھ ہی ایک چٹ بھی تھی جس پر ہمایوں اور فرشتے کا نمبر لکھے تھے-وہ غالبا تیمور کے لیے لکھے گئے تھے-اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے رسیور اٹھایا اور فرشتے کا نمبر ڈائل کیا، پھر رسیور کان کے ساتھ لگایا- گھنٹی جا رہی تھی، مگر وہ اٹھا نہ رہی تھی- غالبا کلاس میں تھی-اس نے مایوسی سے فون رکھ دیا،اس کی نگاہ دوبارہ چٹ پر پڑی- کچھ سوچ کر اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ رسیور دوبارہ اٹھایا- نمبر ڈائل کرتے ہوئے اس کی انگلیاں لرز رہی تھیں- تیسری گھنٹی پر ہمایوں نے ہیلو کہا تھا- ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیوں -وہ بمشکل بول پائی تھی- کون؟ میں محمل- دوسری جانب ایک لمحے کو سناٹا چھا گیا- ہاں بولو- مصروف ، سرد مہر سی آواز ابھری- آپ ۔۔۔۔ آپ کدھر ہیں؟ پرابلم کیا ہے؟قدرے بے زاری- وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ باہر اسٹورم(طوفان) آرہا ہے- مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز آپ گھر آجائیں-اس کا گلا رندھ گیا آنکھیں ڈبڈبا گئیں- اوہو- میں میٹنگ میں بیٹھا ہوں-ابھی کہاں سے آجاؤں- مجھے نہیں پتہ پلیز اجائیں جیسے بھی ہو-باہر طوفان کا شور بڑھ رہا تھا، ساتھ ہی اس کے آنسوؤں میں شدت آگئی تھی- میں نہیں آسکتا، فرشتے یا کسی ملازمہ کو بلالو- وہ جھلایا تھا- فرشتے گھر پہ نہیں ہے، آپ آجائیں ہمایوں پلیز- کیا بکواس ہے؟ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم معذوری کا ڈرامہ رچا کہ میری ہمدردی حاصل کر سکتی ہو تو اس خیال کو دل سے نکال دو اور مجھے میری زندگی جینے دو ، خدا کے لیے اب پیچھا چھوڑ دو میرا -اور ٹھک سے فون بند ہوگیا- وہ سکتے کے عالم میں ریسیور ہاتھ میں لیے سن سی بیٹھی رہ گئی-کتنے لمحے گزرے ، کتنے بادل گرجے کتنی بجلی چمکی ، کتنے قطرے برسے ، وہ ہر شے سے غافل ، بنا پلک جھپکے شل سی بیٹھئ تھی-لب ادھ کھلے آنکھیں پھتی پھٹی اور ہاتھ میں پکڑا رسیور کان سے لگائے۔۔۔۔۔۔ وہ کوئی مجسمہ تھا جو ٹیلی فون اسٹینڈ کے ساتھ اس وہیل چیئر پہ بے حس و حرکت پڑا تھا- پھر کتنی ہی دیر بعد رسیور اس کے ہاتھ سے پھسلا اور نیچے لڑھک گیا-اس کے زمین سے ٹکرانے کی آواز پہ بے اختیار اس نے پلکیں جھپکیں اور آن کی آن میں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہوگئیں- اس کی ہچکی بندھ گئی تھی، اور پورا وجود لرز رہا تھا، وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی- ہمایوں نے اسے وہ سب کہا تھا؟اتنے غصے اور بے زاری سے، جیسے وہ اس سے اکتا چکا تھا- ہاں وہ مرد تھا-وجیہہ ، شان دار سا مرد، کب تک ایک کومے میں بے ہوش پڑی نیم مردہ بیوی کی پٹی سے لگا رہتا؟اس کو اب محمل کی ضرورت نہ تھی-شاید وہ اب اس سے شادی کرنے پہ پچھتا رہا تھا-اپنی وقتی جزباتیت پہ پچھتا رہا تھا- دفعتا آہٹ پہ اس نے آنکھیں کھولیں- تیمور سامنے صوفے کے اس طرف کھڑا اسے دیکھ رہا تھا-چبھتی خاموش نگاہیں جن میں عجیب سا تنفر تھا- “تیمور!” اس کی زخمی مامتا بلبلائی- ادھر میرے پاس آؤ بیٹا! اس نے دونوں ہاتھ پھیلائے-شاید وہ اس کے گلے سے لگ جائے،شاید کہ ہمایون کے روئیے کی تپش کچھ کم پڑ جائے- آئی ہیٹ یو- وہ تڑخ کر بولا اور اسے دیکھتے ہوئے دو قدم پیچھے ہٹا -ہمایوں کے الفاظ کیا کم تھے جو اوپر سے اس سات سالہ لڑکے کا انداز، اس کی روح تک چھلنی ہوگئی- میں نے کیا کیا ہے تیمور؟تم ایسے کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ؟کیوں ناراض ہو مجھ سے؟ یو لیفٹ می وین آئی نیڈ یو-(آپ نے مجھے اس وقت چھوڑا جب مجھے آپ کی ضرورت تھی-) وہ زور سے چیخا تھا-آئی ہیٹ یو فار ایوری تھنگ – اور مڑ کر بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا- لمحے بھر بعد اس نے تیمور کے کمرے کا دروازہ زور سے بند ہوتے سنا- کیا تمہیں چھوڑنے میں میرا اپنا اختیار تھا تیمور؟ تم اتنی سی بات پہ مجھ سے ناراض نہیں ہو سکتے-شاید تمہارے باپ نے تمہیں مجھ سے بد ظن کیا ہے-وہ دکھی دل سے سوچتی واپس کمرے تک ائی تھی-اس کے ripple بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ سیاہ کور والا قرآن رکھا تھا-اس نے آہستہ آہستہ سے اٹھایا اور دونوں ہاتھوں میں تھامے اپنے سامنے کیا- سیاہ کور پہ مدھم سا مٹا مٹا سا “م ” لکھا تھا-جانے اس نے کیوں اور کب ادھر لکھا تھا؟وہ کوشش کے باوجود نا یاد کر پائی،پھر سر جھٹک کر اسے وہاں سے کھولا جہاں سے فجر کے بعد تلاوت چھوڑی تھی-اس نے وہ آیت دیکھی جہاں ایک بار مارک لگا تھا،پھر تعوذ تسمیہ پڑھا اور اگلی آیت سے پڑھنا شروع کیا- ” ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے- اس نے بے یقینی سے اس آیت کو دیکھا- ہم جانتے ہیں کہ تمہیں ان کی بات غمگین کرتی ہے،پس بے شک وہ تمہیں نہیں جھٹلاتے،بلکہ وہ ظالم تو اللہ کی نشانیوں کا انکار کرتے ہیں-اس نے پھر سے پڑھا اور پھر سے دم بخود سی ہو کر ایک ایک حرف کو انگلی سے چھونے لگی-کیا وہ واقعی ادھر لکھا تھا؟ اوہ اللہ تعا لی-اس ک آنسو پھر سے گرنے لگے تھے-آپ کو۔۔۔۔ آپ کو ہمیشہ سے پتا چل جا تا ہے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کبھی بھی آپ سے کچھ نہیں چھپا سکتی-وہ بری طرح رو دی تھی-اب کی بار یہ دکھ کے آنسو نہ تھے،بلکہ خوشی کے تھے،سکون کے تھے رضا کے تھے- اگر آپ مجھ سے یونہی بات کرتے رہیں تو آپ مجھے جس حال میں بھی رکھیں میں راضی ! میں راضی! میں راضی!” اس نے چہرہ اٹھایا اور ہتھیلی کی پشت سے آنسو صاف کیے- اب اسے رونا نہیں تھا-اب اسے صبر کرنا تھا، طائف کے پتھر دراصل اب لگنے شروع ہوئے تھے- صبر اور شکر ۔۔۔۔۔ اس نے ان دو سہاروں کو بالآخر تھام ہی لیا تھا- شام بہت سہانی سی اتری تھی- کالونی کی صاف سڑک کے اطراف سبز درختوں کے تازہ پتوں کی مہک ، ٹھنڈی ہوا سے بکھر گئی تھی- بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی سڑک کے کنارے آگے بڑھ رہی تھی- وہ ساتھ ساتھ چھوٹی موٹی ادھر ادھر کی باتیں بھی کر رہی تھی-مگر محمل کا دھیان کہیں اور تھا-وہ گم صم سی دور افق کو دیکھ رہی تھی-جہاں پرندوں کے غول اڑ رہے تھے-اس روز کے طوفان کے بعد موسم بہت ٹھنڈا ہوگیا تھا اور اس ٹھندی ہوا میں باہر نکلنا بہت اچھا لگ رہا تھا- بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی دور پارک تک لے آئی تھی-اس سے آگے ان کے سیکٹر کا مرکز تھا،وہاں بوتیکس، شاپس اور ریسٹورنٹ کی چہل پہل ہوتی تھی اور ایسی جگہوں پہ جاتے ہوئے اس کا دل گھبراتا تھا، سو اس نے بلقیس کو آگے جانے سے منع کردیا- بس یہیں پارک تک ٹھیک ہے، اسی میں چلتے ہیں- بلقیس سر ہلا کر وہیل چئیر اندر لے جانے لگی – ” جب آپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا نا محمل بی بی تو صاحب بہت روئے تھے-میں نے خود انہیں روتے دیکھا تھا-بہت دھچکا لگا تھا ان کو- کون ؟ ہمایوں ؟ وہ چونکی تھی- ہاں جی! انہوں نے چھٹی لے لی تھی، کئی ماہ تو وہ اسپتال میں آپ کے ساتھ ہی رہے تھے-تیمور بابا کو تو بھلا ہی دیا تھا، میں نے بڑا کیا ہے جی تیمور با با کو-بڑا پیارا بچہ تھا ہمارا بابا،جب چار سال کا تھا تو آپ کے لیے پھول لے کے جاتا تھا، اور وہاں اسپتال میں آپ کے سرہانے بیٹھ کر گھنٹوں بولا کرتا تھا- پھر اب کیا ہوا ہے اسے بلقیس؟ اس نے دکھ سے پوچھا تھا-بلقیس آہستہ آہستہ پارک کی پتھریلی روش پر وہیل چئیر چلا رہی تھی-دور گھاس پر بچے کھیل رہے تھے-ایک طرف ایک بچہ ماں کی انگلی پکڑے رو رہا تھا-اسے ہر بچے میں اپنا تیمور نظر آرہا تھا- تیمور بابا ایسا نہیں تھا بی بی!وہ تو بہت پیار کرنے والا بچہ تھا،مگر پھر اب دو ایک سالوں میں بہت چڑ چڑا ہوگیا ہے-صاحب بھی تو اسے توجہ نہیں دیتے، پہلے تو چھوٹا تھا پر اب بہت سمجھدار ہوگیا ہے، ساری باتیں سمجھتا ہے،اسی لیے سب سے ناراض رہتا ہے- اور تمہارے صاحب؟وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ پتا نہیں بی بی!وہ شروع میں آپ کا بہت خیال رکھتے تھے، پھر آپ کے حادثے کے چھٹے برس ان کی پوسٹنگ کراچی ہوگئی تھی-وہ سوا سال ادھر رہے-وہاں سے واپس آئے تو بہت بدل گئے تھے جی-اب تو ڈیڑھ سال ہوگیا ہے جی ان کو واپس آئے ہوئے، مگر اب تو آپ کا یا تیمور بابا کا حال تک بھی نہیں پوچھتے- کراچی میں ایسا کیا ہوا جو بدل گئے؟وہ کھوئی کھوئی سی بولی تھی- معلوم نہیں بی بی ، مگر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ لمحے بھر کو ہچکچائی- ان کے کراچی جانے کے کوئی دو ہفتے پہلے مجھے یاد ہے، ادھر آپ کے گھر آپ کا کوئی رشتے دار آئے تھے، ان سے بہت بہت لڑائی ہوئی تھی صاحب کی- کون ؟ کون آیا تھا؟اس نے وحشت زدہ سی ہو کر گردن گھمائی- بلقیس کے چہرے پر تذبذب کے اثار تھے- اصل میں بی بی! آپ کے رشتے دار کبھی آئے ہی نہیں، تو وہ جو بس ایک ہی دفعہ آئے تو مجھے یاد رہ گیا، آپ کے تایا کے بیٹے تھے- کون؟فو۔۔۔۔ فواد ؟ اس کا دل زور سے دھڑکا تھا-نام وام تو نہیں معلوم ، مگر صاحب نے ان سے بہت لڑائی کی تھی-دونوں بہت دیر تک اونچا اونچا لڑتے رہے تھے- مگر کیا ہوا تھا؟جھگڑا کیوں ہوا ان کا؟وہ مضطرب اور بے چین سی ہوگئی تھی- میں کچن میں تھی بی بی!کچھ سمجھ میں تو نہیں ایا کہ وہ کیوں لڑ رہے تھے، مگر شاید کوئی کچہری وغیرہ کا معاملہ تھا اور دونوں آپ کا نام بار بار لیتے تھے، پھر صاحب نے فرشتے بی بی کو بھی ادھر بلوا لیا-وہ پتا نہیں کچھ بولیں یا نہیں، ان کی اواز ہی نہیں آئی مجھے، پھر وہ آپ کے تایا زاد چلے گئے اور صاحب دیر تک فرشتے بی بی پر چلاتے رہے، میں کھانے کا پوچھنے گئی تو دیکھا فرشتے بی بی رو رہی تھیں اور اپنا سامان پیک کر رہی تھیں، میرے پوچھنے پہ انہوں نے بتایا کہ وہ جا رہی ہیں، میں نے پوچھا کہ کدھر تو بولیں ، پتا نہیں اور روتی جا رہی تھیں، پھر اگلے دن رشید نے بتایا کہ صاحب اپنا ٹرانسفر کراچی کروارہے ہیں، پھر صاحب چلے گئے اور فرشتے بی بی رک گئیں- وہ دم سادھے ساری تفصیلات سن رہی تھی- اس کے پیچھے کیا، کیا ہوتا رہا ، اسے خبر ہی نہیں ہو سکی- کیا فواد نے ہمایوں کو اس کے خلاف بہکایا تھا؟ اور فرشتے کو اس نے ایسی کیا بات کہی کہ وہ روئی؟وہ تو بہت مضبوط لڑکی تھی- یوں کبھی نہیں روتی تھی- اس نے تو اس کی انکھوں میں کبھی آنسو نہیں دیکھے تھے، اوہ خدایا اس نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا- وہ کیا کرے؟ کس سے پوچھے؟ فرشتے تو کبھی نہ بتاتی- ہمایوں سے امید بھی نہ تھی اور تیمور تو اس کا دیکھنے کا روادار نہ تھا پھر؟کیا کرے؟صبر اور نماز کا سہارا- اس کے دل سے آواز اٹھی تھی- بلقیس کو کوئی جاننے والی مل گئی تو وہ اس سے باتیں بگھارنے ذرا فاصلے پر کھڑی ہوگئی- محمل نے قرآن اٹھالی، وہ قرآن لیے گھر سے نہ نکلتی تھی اسے آہستہ سے کھولا- کل جہاں سے تلاوت چھوڑی تھی ان آیت پر نشان لگا تھا-وہ بہت غور سے دھیان سے آگے پڑھنے لگی- اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر ظآہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں (مائدہ 10) لمحے بھر کو اس کا دماغ چکرا کر رہ گیا- مگر فورا خود کو سرزنش کی- یہ کوئ فال نکالنے کی کتاب تو نہیں ہے، اسی لیے اس نے مجھے ایسے سوال کرنے سے منع کیا ہے، میں بھی خواہ مخواہ ۔۔۔۔ وہ سر جھٹک کر آہستہ سے آگے تلاوت کرنے لگی – اگلی ایات دوسری چیزوں کے متعلق تھیں-اس کی سوچوں پہ بالکل خاموش ، لب ــــــ سے کسی اور طرف توجہ مبذول کرواتیں- اس کے الجھے دماغ کو سکون آنے لگا – جو بھی ہوا کبھی نہ کبھی کھل ہی جائے گا، اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہ تھی- وہ زیر لب ترنم سے تلاوت کرنے لگی- رات کے دو بج چکے تھے اور ہمایوں ابھی تک گھر نہیں آیا تھا- وہ مضطرب سی لاؤنج میں بیٹھی تھی-بار بار دیوار ہی آویزاں گھڑی کو دیکھتی اور پھر دروازے کوگھڑی کی سوئیاں آگے بڑھتی جا رہی تھین-مگر درازہ ہنوز ساکت و جامد تھا- باہر بھی خاموشی تھی- اس کے دل میں وسوسے سے آنے لگے تھے-نا جانے وہ ٹھیک بھی ہیں یا نہیں، کیا پتہ اس کی گاڑی خراب ہوگئی ہو، کیا پتا کسی مشکل میں پھنس گئے ہوں-اس نے بے اختیار اس کے لیے دعا کی تھی- دفعتا گاڑی کا ہارن سنائی دیا اور پھر گیٹ کھلنے کی آواز آئی، وہ مڑکر دروازے کو پیاسی نگاہوں سے دیکھنے لگی-قدموں کی آواز اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھاری چر چراہٹ کے ساتھ دروازہ کھلا، کیپ اور اسٹک ہاتھ میں لیے وہ تھکا تھکا سا یونیفارم میں چلا آرہا تھا-اندر داخل ہو کر اس نے مڑ کر دروازہ بند کیا اور پھر چند قدم اگے آیا- دفعتا اسے بیٹھا دیکھ کر ہمایوں کے قدم تھمے- چہرے پہ حیرت بھری ناگواری ابھر آئی- تم ادھر کیوں بیٹھی ہو؟ السلام علیکم، آپ کا ویٹ کر رہی تھی- آپ نے بہت دیر لگا دی – وہ اہستہ سے بولی تھی- میں دیر سے آؤں یا جلدی آؤں خدا کے لیے میرے انتظار میں ادھر مت بیٹھا کرو- اس نے بہت تحمل سے اس کا بے زار لہجہ سنا،پھر دھیرے سے بولی- میں پریشان ہوگئی تھی کہ خیریت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مر نہیں گیا تھا میں سو کام ہوتے ہیں، اگر آئیندہ مجھے تم یہاں بیٹھی ملیں تو میں گھر ہی نہیں آیا کروں گا- خدا کے لیےمیرا پیچھا چھوڑ دو محمل! وہ جھڑک کر کہتا تیزی سے اوپر سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا- اس نے بڑے صبرو ضبط سے آنسو پی لیے ، یہاں تک کہ وہ اپنے دروازے کے پیچھے گم ہوگیا- تب اس نے گود میں دھرے ہاتھ اٹھائے اور اپنی وہیل چئیر کو کمرے کی طرف موڑنے لگی- کبھی تو اسے احساس ہوگا کہ یہ وہی محمل ہے جو کبھی اس کی من چاہی بیوی تھی اور جب وہ یہ محسوس کرے گا تو لوٹ آئے گا- اسے یقین تھا اور یہ ہی یقین اس نے دل میں اٹھتے درد کو دلایا تھا- وہ تارکول کی سڑک پر آج پھر بلقیس کے ساتھ وہیل چئیر پر جا رہی تھی-باہر کا موسم اس کی طبیعت پہ بہت اچھا اثر ڈالتا تھا-یہ الگ بات تھی کہ اس کی معزوری میں رتی بھر بھی فرق نہ آیا تھا- بلقیس ادھر ادھر کی باتیں کرتی اس کی وہیل چئیر دھکیل رہی تھی-وہ آج بھی اسے نہیں سن رہی تھی،بس خاموش مگر پرسکون نگاہوں سے دور افق کو دیکھ رہی تھی- آہستہ آہستہ یہ ٹھہراؤ اس کی شخصیت کا حصہ بنتا جا رہا تھا- بلقیس تمہں میرے تایا کے گھر کا پتا ہے؟ایک دم ہی وہ کسی خیال کے تحت چونکی اور پھر پوچھ لیا- ” نہ بی بی ! میں تو ادھر کبھی نہیں گئی- اچھا۔۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے راستہ یاد ہے، تم مجھے ادھر لے چلو گی؟ پیدل؟ ہاں زیادہ دور نہیں ہے، جتنا فاصلہ یہاں سے مرکز تک ہے اتنا ہی ہے میں پیدل بھی آجایا کرتی تھی- اسے بے اختیار وہ شام یاد ائی جب وسیم سے اپنے رشتے کی بات سن کر روتی ہوئی پیدل ہی مدرسے کے سامنے سڑک پہ اگئی تھی-اور اس نے ہمایوں سے کہا تھا کہ وہ بیچ راہ میں چھوڑ دینے والوں میں سے نہیں ہے اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” چلیں پھر ٹھیک ہے۔ آپ راستہ بتائیں-بلقیس کی آواز پر وہ یادوں کے ہجوم سے باہر نکلی اور راستہ بتانے لگی- چھوٹی سڑک سے ایک راستہ پل سے ہوتا ہوا ان کے سیکٹر میں جا اترتا تھا، جس سے وہ بیس منٹ میں ادھر پہنچ سکتی تھیں- آج وہ بیس منٹ پوری صدی لگ رہے تھے- وہ اس راستے پہ جاتے ہی دور کہیں کھو گئی تھی- نا جانے وہ سب کیسے ہونگے؟اتنے ہی عیش و ارام سے رہ رہے ہونگے؟ جتنے پہلے تھے؟کیا ان میں سے کسی نے اس کو یاد کیا ہوگا؟کبھی وہ اسپتال بھی آئے ہونگے کہ نہیں؟اور نہ جانے فواد نے جا کر ہمایوں سے کیا کہا تھا جس پہ فرشتے روتی رہی؟بہت یاد کرنے پر بھی ایسی کوئی بات ذہن میں نہیں آئی جو وہ ہمایوں سے یوں کہہ سکتا تھا یا شاید اس کی سوچنے کی صلاحیت اب سست ہوتی جا رہی تھی- “یہ آپ کا گھر ہے جی؟ بڑا سوہنا ہے- بلقیس کہہ رہی تھی اور وہ چونک کر اس اونچے عالیشان محل نما گھر کو دیکھنے لگی اس کا پینٹ ، کھڑکیوں کے شیشے اور بیرونی گیٹ بدل گیا تھا- وہ پہلے سے بھی زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا- یہ وہ گھر تھا جہاں اس نے اپنی زندگی کے اکیس سال گزارے تھے اور اسی سے وہ ایک رات نکالی گئی تھی- بظآہر رخصتی کی آڑ میں اسے اس گھر سے بے دخل کر دیا گیا تھا- بیل بجاؤ بلقیس! بلقیس آگے برھی اور گھنٹی بجائی-چند لمحوں بعد قدموں کی چاپ سنائی دی، جیسے کوئی دوڑتا ہوا گیٹ کھولنے آرہا ہو-اس کے دل کی دھڑکن ٹھہر سی گئی-وہ اتنے سالوں بعد کسے دیکھنے جا رہی تھی؟ فواد حسن آغآ جان؟ دروازہ آہستہ سے کھلا اور کسی نے سر باہر نکال کر دیکھا- جی کس سے ملنا ہے؟وہ حلیے اور لہجے سے ملازم لگتا تھا- بلقیس نے جوابا محمل کو دیکھا تو وہ ہمت مجتمع کر کے بولی- آغآ کریم گھر پہ ہیں؟ ملازم کے چہرے پہ ہلکی سی الجھن ابھری- کون آغا کریم؟ آغا۔۔۔۔۔۔ آغاکریم جو اس گھر کے مالک ہیں، جن کا یہ گھر ہے – اور ۔۔۔۔۔۔ یہ ہاؤس نمبر ٹو تھرٹی ہے نا؟ آہو جی یہ ٹو تھرٹی ہے، مگر یہ تو چوہدری نذیر صاحب کی کوٹھی ہے-ادھر تو کوئی آغاکریم نہیں رہتے- بی بی کہیں ہم غلط گھر میں تو نہیں آگئے؟بلقیس نے ہولے سے کہا تو اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا- نہیں یہی گھر ہے، آغا کریم سات سال پہلے ادھر ہی رہتے تھے- سات سال تو بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے میڈم جی جانے اب وہ کدھر گئے- اچھا آپ ٹھہرو، میں بیگم صاحبہ سے پوچھ کر آتا ہوں-وہ انہیں وہیں چھوڑ کر اندر چلا گیا -چند لمحوں بعد اس کی واپسی ایک نوجوان کے ساتھ ہوئی- جی فرمائیے؟وہ بیس اکیس برس کا مہذب اور شائستہ سا نوجوان تھا- وہ ۔ ادھر آغا کریم اور ان کی فیملی رہتی تھی- وہ لوگ کدھر گئے؟ میم! ہم دو سال سے ادھر رہ رہے ہیں، دو سال پہلے ایک شیخ عامر سے ہم نے یہ گھر خریدا تھا- ہو سکتا ہے ان کو آغآ کریم نے یہ بیچا ہو، مگر میں ان کے بارے میں قطعی لاعلم ہوں- آغا جان نے یہ گھر بیچ دیا؟مگر کیوں؟وہ شاکڈ سی رہ گئی- معلوم نہیں میم کیا آپ کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟ اس کا سر نفی میں دائیں سے بائیں ہلا- لڑکا معذرت کر کے واپس چلا گیا اور وہ پریشان سی بیٹھی رہ گئی- بی بی! ہمسایوں سے پوچھتے ہیں-اور اس کے منع کرنے سے قبل بلقیس ساتھ والے گھر کی گھنٹی بجا چکی تھی- اس گھر میں کون رہتا تھا؟خاصا جانا پہچانا سا گھر تھا ، مگر یاد نہیں آرہا تھا- بمشکل ایک منٹ بعد ہی گیٹ کھل گیا -محمل نے گردن اٹھا کر دیکھا- ادھر کھلے گیٹ کے اس پار بریگیڈئیر فرقان کھڑے تھے- شلوار قمیض میں ملبوس، چہرے پر نفاست سے تراشیدہ دارھی اور بھر پور مسکراہٹ لیے وہ اسے دیکھ رہے تھے- انہیں دیکھ کے اسے بہت کچھ یاد انے لگا- السلام علیکم لٹل گرل! میں کافی دیر سے آپ کو ٹیرس سے دیکھ رہا تھا- آئیے اندر آجائیں-انہوں نے گیٹ پورا کھول دیا اور ایک طرف کو ہت گئے- بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی اندر روش پے لے آئی- ادھر آجائے- وہ لان میں گھاس پہ رکھی لان چئیرز کو جوڑنے لگے، یوں کے وہیل چیئر کی جگہ بن جائے- کیسی ہیں اپ؟وہ اس کی سامنے والی کرسی پہ بیٹھے اور بہت ہی شائستگی سے پوچھنے لگے ان کا مخصوص لب و لہجہ اسی طرح بھاری تھا، البتہ سختی کی جگہ نرمی نے لے لی تھی- ٹھیک ہوں الحمد اللہ- وہ ذرا سا مسکرائ اور سر جھکا لیا، پھر کچھ سوچ سوچ کر اسی جھکے سر کے ساتھ کہنے لگی- میرا کچھ سال پہلے ایکسیڈنت ہوگیا تھا، تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ” میں جانتا ہوں، میں آپ کو دیکھنے اسپتال اتا تھا- اس نے ہولے سے سر اٹھایا- سنہری آنکھوں میں حیرت اتر آئی تھی- اچھا؟اور پھر اسے یاد آگیا-ہاں مجھے نرس نے بتایا تھا – تو وہ اپ تھے؟ جی ہاں- وہ دھیمے سے مسکرائے- آپ کی امانت نے میری زندگی بدل دی بیٹا- وہ بنا پلک جھپکے انہیں دیکھ رہی تھی- میں نے دو سال وہ پمفلٹ نہیں کھولے،پھر زندگی میں ایک موڑ ایسا آیا کہ ہر جگہ اندھیرا دکھنے لگا تو نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے ان کو کھول لیا-میرا خیال تھا اس میں کسی تنظیم کا لٹریچر ہوگا یا کسی سیاسی پارٹی کا منشور، مگر ان میں تو صرف قرآن کی آیات تھیں اور ان کا سادہ ترجمہ-میں پڑھتا چلا گیا اور پھر سب بدل گیا، سب ٹھیک ہوگیا- مختصر الفاظ میں انہوں نے ساری بات سمیت دی-وہ چپ چاپ انہیں سنتی چلی گئی- آپ کچھ عرصہ پہلے گھر شفٹ ہوگئی تھیں، مجھے پتا چلا تھا- اب طبیعت کیسی ہے آپ کی؟ ایم فائن-پھر لمحے بھر کے توقف کے بعد بولی- آغآ جان وغیرہ کدھر گئے؟انہوں نے گھر کیوں بیچ دیا؟ جن دنوں وہ گئے تھے میں ملک سے باہر تھا،بس ملازم سے ہی تھوڑا بہت سنا تھا کہ شاید تینوں بھائیوں نے جائیداد کا بٹوارہ کیا ہے اور گھر بیچ کے رقم تقسیم کر کے الگ الگ جگہوں پہ شفٹ ہوگئے ہیں-آپ کے ایکسیڈنٹ کا بھی میرے ملازم نے ہی بتایا تھا- کب کی بات ہے یہ کب بیچا انہوں نے گھر؟ آپ کے ایکسیڈنٹ کے تقریبا سال ڈیڑھ بعد- اوہ! اس کے لب سکڑے اور پھر اس نے ایک گہری سانس لی-کوئی اندازہ ہے آپ کو کہ وہ کہاں گئے؟ اب میں ان سے کدھر ملوں؟ اونہوں قطعی نہیں-انہوں نے معذرت خواہانہ انداز میں نفی میں سر ہلایا-ہمارے کبھی اتنے تعلقات تھے ہی نہیں، ہاں آغا اسد کے بارے میں ، میں نے ایک دوست سے سنا تھا-وہ کلب میں آغا اسد کے ساتھ ہوتا تھا- ان کے الفاظ پہ وہ چونکی، دل زور سے دھڑکا- کیا؟ کیا سنا تھا؟ یہ ہی کہ ان کو کینسر ہوگیا تھا، اور پھر ان کی ڈیتھ ہوگئی- آپ کو نہیں پتا چلا؟ وہ سانس روکے ہکا بکا سی رہ گئی- آئی ایم ویری سوری محمل-انہیں افسوس ہوا- کب؟ کب ہوا یہ؟چند لمحے بعد اس کے لب پھرپھرائے-آنکھیں پتھرا سی گئیں تھیں- غالبا پانچ سال قبل، ان کے گھر بیچنے کے چھ سات ماہ بعد- اور ،، ان کے بچے؟معاذ اور معیز تو بہت چھوٹے تھے- معلوم نہیں یتیم بچے تو پھر مجبورا رشتے داروں کے تسلط میں ہی رہتے ہیں-اللہ ان پر رحم کرے- اور وہ لفظ یتیم بچے محمل کے دل میں کھب گیا- بہت پہلے پڑھی گئی ایک آیت ذہن میں گونجی-ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہیئے کہ اگر وہ اپنے پیچھے کمزور یتیم بچے چھوڑ جاتے- (نساء9) یتیم بچے؟اسد چچا کے بچے یتیم ہوگے؟آرزو معاذ معیز- وہ ابھی تک بے یقین تھی- اور پھر کب وہ بریگیڈئیر فرقان کو خدا حافظ کہہ کر بلقیس کے ہمراہ باہر آئی اسے کچھ پتہ نہ چلا-دل و دماغ بس ایک ہی نقطے پر منجمد ہوگئے تھے-اسد چچا کے بچے یتیم ہوگئے- بے اختیار ہی اسے لاؤنج کا وہ منظر یاد اگیا- صوفے پہ گری محمل اور اس کو تھپڑوں اور جوتوں سے مارتے اسد چچا اور غفران چا- غفران چچا نہ جانے کہاں گئے؟ اور آغآ جان۔۔۔۔۔۔۔ سب کدھر چلے گئے؟وہ ان لوگوں کو کدھر ڈھونڈے؟ مگر وہ ان لوگوں کو کیوں ڈھوندنا چاہتی ہے؟اس نے خود سے پوچھا، کیا وہ یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ان لوگوں کو ان کے کیے کی سزا ملی یا نہیں کہ آخر یہ قانون فطرت ہے-یا وہ ان خون کے رشتوں کی محبت میں انہیں یاد کر رہی تھی-؟ شاید خون کی محبت غالب آگئی تھی یا شاید اپنے سب سے قریبی رشتوں شوہر اور بیٹے کے ٹھکرائے جانے کے بعد اسے کسی رشتے کی ضرورت تھی، ہاں شاید یہی بات تھی- وہ انہیں سوچوں میں الجھتی گھر واپس آئی تھی- سارے میں فجر اتری تھی جب وہ وہیل چیئر کو خود گھسیٹتی کھینچتی لان میں لائی– شبنم کے قطرے گھاس پر بکھرے تھے-دور کہیں پرندوں کی حمد کی آواز سنائی دے رہی تھی-مختلف بولیاں،مگر ایک ہی بات انسانوں کی سمجھ میں نہ ائے، وہ اور بات ہے- تب ہی وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر خود ہی چلاتی دیوار کے ساتھ آگے بڑھنے لگی-دیوار کے اس پار مدرسے کی عمارت تھی-صبح کے وقت مدرسے کے صحن میں ناظرہ کی کلاس ہوتی تھی- وہاں بچے بلند آواز میں قرآن پڑھا کرتے تھے-ان کی تجوید کی ہلکی ہلکی آواز ان کے لان مین بھی سنائی دیتی تھی- وہ آواز آج بھی آ رہی تھی-وہ وہیں دیوار کے ساتھ وہیل چئیر روکے کان لگا کر سننے لگی- وہ سب مل کر بلند آواز میں پڑھ رہے تھے-ترجمہ”اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے، اور کہو حتطۃ-ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے اور عنقریب ہم احسان کرنے والوں کو زیادہ دیں گے- آج اس نے بہت عرصے بعد یہ دعا سنی تھی-