بےاختیار وہ گود میں رکھے قرآن کے صفحے پلٹنے لگی- وہ بنی اسرائیل کے ہیکل میں داخل ہونے کا قصہ تھا- سورۃ البقر کی 58 آیت، جب انہوں نے حطتہ کے بجائے حنطتہ کہا تھا- محمل کو کبھی یہ قصہ سمجھ میں نہیں ایا تھا- اب بھی وہ الجھ سی گئی اور صفحہ نکالا- اس میں اس نے کوئی خاص نوٹس نہیں لکھے تھے- شاید پرانے رجسٹر میں ہوں جو الگ سے تھے-اس نے اپنی وہیل چئیر کا رخ موڑا اور اندر لے گئی – اسٹڈی میں ایک جگہ اس نے اپنے پرانے نوٹس رکھے تھے-وہ انہیں کو ڈھونڈنے اسٹڈی میں ائی- دروازہ ادھ کھلا تھا وہ اندر آگئی- ہمایوں اس کی طرف پشت کیے ریک میں سے کوئی بک نکال رہا تھا- آہٹ پہ پلٹا- ایک نظر اسے دیکھا اور پھر واپس کام میں لگ گیا – اجنبیت ، سرد مہری ، بے حسی ، مگر ذیادہ دل جلائے بغیر وہ مطلوبہ حصے کی طرف بڑھ گئی- اس کے نوٹس وہیں رکھے تھے- گرد کی ایک تہ ان پر جمی ہوئی تھی، جیسے ان گزرے برسوں میں بس واجبی سی صفائی کی جاتی رہی ہو-ظاہر ہے فرشتے کیا کیا دیکھے، اسے کسی دن اسٹڈی کی صفائی کروانا چاہیئے- وہ سوچتی ہوئی مطلوبہ رجسٹر ڈھونڈنے لگی- بغیر کسی دقت کے اسے وہ رجسٹر سامنے ہی مل گیا – اس پر ہلکی ہلکی سی گرد کی تہ جمی تھی-محمل نے وہ ترچھا کر کے چہرے کے سامنے کیا اور پھونک ماری، گرد اڑ کر دور بکھر گئی- میں تمہیں چھوڑنا چاہتا ہوں- ہمایوں بغیر کسی تمہید کے کھڑے کھڑے کتاب کے صفحے الٹ پلٹ کرتے بولا تھا- لمحے بھر کو محمل کو لگا وہ دھول مٹی ار کر ہر طرف چھانے لگی ہے-اس نے بمشکل رخ موڑ کر اسے دیکھا- وہ بے نیاز سا کتاب کے ورق پلٹ رہا تھا- میرا مطلب مکمل علیحدگی سے ہے- میں اب یہ رشتہ مزید نہیں نبھانا چاہتا-سو مجھے اپنے پیروں کی زنجیر کھولنے دو-سنی ہم دونوں کا بیٹا ہے اور سات سال کا ہو چکا ہے- اس کی کسٹڈی اسے خود ڈیسائیڈ کرنے دینا- دھول شاید اس کی آنکھوں میں بھی پر گئی تھی-وہ سرخ پڑنے لگی تھیں- وہ لب کچلتی اس کی بات سن رہی تھی- اگر سنی تمہارے ساتھ رہنا چاہے تو میں اسے مجبور نہیں کروں گا کہ وہ میرے ساتھ رہے اگر وہ میرے ساتھ رہنا چاہے تو تم اسے مجبور نہیں کرنا، جو بھی فیصلہ کرو مجھے بتا دینا، لیکن میں فیصلہ کر چکا ہوں،اس نے کتاب ریک میں رکھی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا- وہ شدید صدمے کے زیر اثر پتھر بنی وہیں بیٹھی رہ گئی- کیا ہمایوں اس طرح اسے اپنی زندگی سے دور کر سکتا ہے؟ اگر کرتا ہےا تو کرنے دو میں مر نہیں جاؤں گی اس کے بغیر- ایک دم اس نے سر جھٹکا- آنکھ آنسو بہاتی ہے- اور دل غمگین ہوتا ہے- مگر ۔۔۔۔۔ ہم زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو- بے اختیار ہی مدھم آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی تھی-اس کے دل کو جیسے قرار سا آگیا- اس نے رجسٹر کھولا نوٹس میں اس واقعے کے متعلق بس اتنا لکھا تھا کہ ہیکل میں داخلے سے قبل جب بنی اسرائیل کو کہا گیا کہ سواریوں پہ جھکتے ہوئے عاجزی سے حطتہ یعنی بخشش کہتے ہوئے داخل ہو ، تو تمسخر اڑاتے ہوئے زبانیں مروڑ کر حنطتہ حنطتہ کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے- آگے لکھا تھا- حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن- اس سے ؟آگے صفحہ ختم تھا- اس نے ذہن سے تمام سوچوں کو جھتک کے ان الفاظ پہ غور کیا اور پھر نئے سرے سے الجھ گئی- وہ واقعہ اسے بہت عجیب سا لگ رہا تھا- بنی اسرائیل جتنی جینئیس اور عقل مند قوم نے ایسا کیوں کیا؟انہوں نے گن کس چیز کو کہا؟جب ان کو سیدھے طریقے سے بتایا گیا تھا کہ وہ بخشش مانگیں تو انہوں نے گن گن کیوں کہا؟ ایک طرف وہ اتنے ذہین تھے کہ حطتہ سے ملتا جلتا لفظ ڈھونڈ لائے، اور پھر دوسری طرف اس لفظ کو کہنے کا مطلب ہی نہیں بنتا تھا-آخر کیوں انہوں نے صحیح لفظ نہ بولا ؟حنطتہ کیوں کہا؟ وہ سمجھ نہ پائی اور پھر قرآن بند کر کے رکھ دیا- دل اتنا خالی تھا کہ تفسیر کھول کر تفصیل پڑھنے کو بھی نہیں چاہا- کانوں میں ابھی تک ہمایوں کے الفاظ گونج رہے تھے- ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکلا اور رخسار پہ پھسلتا گیا- تو جس حال میں رکھے میرے مالک میں تجھ سے راضی ہوں-اور نہایت بے دردی سے اس نے ہتھیلی کی پشت سے آنسو رگڑ ڈالا تھا- تیمور توس کے چھوٹے چھوٹے لقمے لے رہا تھا- ڈائننگ ٹیبل پہ اس کے علاوہ اور کوئی نہ تھا- وہ اپنی وہیل چئیر گھسیٹتی دائننگ ہال میں داخل ہوئی وہ آہت پہ چونکا-لقمہ توڑتے چھوٹے چھوٹے ہاتھ رکے اور سر اٹھایا-محمل کو اتے دیکھ کر اس کے ماتھے پہ بل پڑ گیا-اس نے توس کا بچا ٹکڑا زور سے واپس پلیٹ میں پھینکا اور کرسی پیچھے کو دھکیلی- بیٹھو تیمور مجھے تم سے بات کرنا ہے- آئی ڈونت وانت ٹو ٹاک یو- (میں آپ سے بات نہیں کرنا چاہتا) وہ کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہوا تھا- مگر مجھے کرنا ہے، اور یہ تمہارے ڈیڈ کا میسج ہے میرا نہیں- واٹ؟وہ لمحے بھر کو رکا، ماتھے پہ بل اور بھنویں تنی ہوئی- شاید میں اس گھر سے چلی جاؤں، شاید اب ہم ساتھ نہ رہیں، میں اور تمہارے ڈیڑی- آئی ڈونت کئیر! ” تیمور تم کس کے ساتھ رہنا چاہو گے؟میرے ساتھ یا ڈیڈی کے ساتھ؟وہ جانتی تھی کہ تیمور کا جوام کم از کم اس کے حق میں نہیں ہوگا، پھر بھی پوچھ لیا- کسی کے ساتھ بھی نہیں-اس نے بے زاری سے شانے اچکائے تھے- مگر بیٹا اپ کو کسی کے ساتھ تو رہنا ہی ہوگا- میں اپ کا نوکر ہوں جو کسی کے ساتھ رہوں؟ جسٹ لیو می آلون- وہ ایک دم زور سے چیخا تھا اور پھر کرسی کو ٹھوکر مارتا اندر چلا گیا- وہ تاسف سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی- یہ تلخ لہجہ ، یہ بد مزاجی، یہ اندر بھرا زہر۔۔۔۔۔ یہ کس نے تیمور کے اندر ڈالا- اور اس سے پہلے کہ وہ اس کے باپ کو مورد الزام ٹھہراتی ایک منظر سا اس کی نگاہوں کے سامنے بننے لگا- جینز کرتے میں ملبوس ، اونچی پونی تیل والی ایک لڑکی چہرے ہی ڈھیروں بے زاری سجائے چلا رہی تھی- ” میں اپ کے باپ کی نوکر ہوں جو یہ کروں؟ اس کے مخاطب بہت سے چہرے تھے، کبھی تائی مہتاب ، کبھی مسرت، کبھی کزنز تو کبھی کوئی چچا- اسے وہ منہ پھٹ بد تمیز اور تلخ لڑکی یاد ائی اور اس کا رواں رواں کانپ اٹھا- ہاں۔۔۔۔ جو اپنے بڑوں کے ساتھ جیسا کرتے ہے اس کے چھوٹے بھی اس کے ساتھ ویسا ہی کرتے ہیں-کوئی اس کے اندر بولا تھا- راستہ ایک ہی ہے، اس پہ انسان ایک وقت تک چلتا ہے، اور پھر آکر واپس اپنے قدموں کے نشانوں پہ لوٹتا ہے جو ببول اگا کر جاتے ہیں ان کو لہولہان کرنے والے کانٹے ہی ملتے ہیں اور جنہوں نے پھول بکھیرے ہوںان کا انتظار گلستان کر رہے ہوتے ہیں- محمل! کسی نے پکارا تو وہ خیالوں سے جاگی اور پھر سختی سے اپنی انکھیں رگریں- کیا میں نے ٹھیک سنا؟فرشتے جیسے بے یقین سی اس کے سامنے آئی- کیا؟اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے سر اٹھایا- محمل! تم اور ہمایوں۔۔۔۔۔۔ تم الگ ہو رہے ہو؟ وہ متحیر سی کہتی اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھی اور دونوں ہاتھ اس کی گود میں دھرے ہاتھوں پہ رکھے- ہاں ۔۔ شاید-“ مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر تم نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟وہ مضطرب سی اس کی آنکھوں میں دیکھتی جواب تلاش کر رہی تھی- میں نے نہیں کیا ۔۔۔ ہمایوں نے کیا ہے- کیا اس نے خود تمہیں ایسا کہا ہے؟ ہاں۔۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے مان لیا؟وہ بے یقین تھی- میرے پاس چوائس بچی ہے کیا؟ فرشتے ٹکر ٹکر اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی- فرشتے! میرے اختیار میں نہ کل کچھ تھا ، نہ آج ہے-ہمایوں نے فیصلہ سنانا تھا سنا دیا-اگر وہ میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو کیا میں اسے مجبور کروں؟ نہیں-اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا-اگر وہ علیحدگی ہی چاہتا ہے تو ٹھیک ہے-میں مصالحت کی آخری کوشش ضرور کروں گی، مگر اس سے بھیک نہیں مانگوں گی- پھر ۔۔۔ پھر کیا کرو گی کدھر جاؤ گی؟ فرشتے! میں ہمایوں کی محتاج نہیں ہوں-اللہ کی دنیا بہت بڑی ہے-میں اپنے بیٹے کو لے کر کہیں بھی چلی جاؤں گی- تم اس کے بغیر رہ لو گی؟ کیا وہ میرے بغیر نہیں رہ رہا؟ وہ پھیکا سا مسکرائی- مگر کیا تم خوش رہو گی؟ اگر اللہ نے میرے مقدر میں خوشیاں لکھی ہیں تو وہ مجھے مل ہی جائیں گی،بھلے ہمایوں میرے ساتھ ہو یا نا ہو- فرشتے تاسف سے اسے دیکھتی رہی- آئی ایم ویری سوری محمل اگر تم کہو تو میں اس کا فیصلہ بدلنے کو۔۔۔۔۔۔ نہیں – اس نے تیزی سے اس کی بات کاٹی-آپ اس معاملے میں نہیں بولیے گا- مگر ایک بار مصالحت کی ایک کوشش تو- پلیز فرشتے مجھے بھکاری مت بنائیں!اس نے کچھ ایسی بے بسی سے کہا کہ فرشتے لب کاٹتی رہ گئی- مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟کیا اس نے تمہیں وجہ بتائی ہے؟ کیا میں نہیں جانتی؟ ہونہہ ! اس نے تلخی سے سر جھٹکا- وہ ایک معذور عورت کے ساتھ کب تک رہے،کب تک میری خدمت کرے، وہ میری بیماری سے اکتا گیا ہے،میں جانتی ہوں- کیا یہی واحد وجہ ہے؟ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے؟ وللہ اعلم ۔ خیر جو بھی کرنا سوچ سمجھ کر کرنا، اگر تم نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس پہ اپنے دل کو بھی راضی کر لینا-لو یو سسٹر!اس نے اپنے ہاتھ محمل کے ہاتھوں سے ہٹائے اور ہولے سے اس کا گال تھپتھپاتی کھڑی ہوگئی- بس یہ یاد رکھنا میں تم سے بہت پیار کرتی ہوں اور جب تک تم ٹھیک نہیں ہو جاتیں، میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی- اوکے- محمل نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا- جب سے ہمایوں نے علیحدگی کی بات کی تھی فرشتے کے سامنے وہ لاکھ خود کو صابر شاکر ظاہر کرتی مگر اندر سے وہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی-اس کی یاد داشت میں ہمایوں کے ساتھ بیتا ایک ہی سال تھا- باقی کے ماہ و سال ذہن کے پردے پہ اترے بغیر ہی سرک گئے تھے- اور وہ ایک سال جو اس نے اس گھر میں محبتوں اور چاہتوں کے بیچ گزارا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتے تھے-وہ کیندل لائٹ ڈنرز، وہ لانگ ڈرائیوز، وہ روز ہمایوں کے لیے تیار ہونا، وہ ٹیرس پہ جا کر رات کو باتیں کرنا وہ ایک ساتھ کی گئی شاپنگز۔۔۔۔۔۔ ہر شے اس کی یاد داشت سے فلم کی طرح گزرتی تھی اور ہر یاد اس کے دل پہ مزیڈ آنسو گرا جاتی تھی- اور اگر تیمور بھی اس کے ساتھ نا رہا، تب وہ کیا کرے گی؟ کدھر جائے گی؟اگر ہمایوں نے اسے گھر سے نکال دیا، تو وہ کہاں رہے گی؟ کیا اپنے چچاؤں کے پاس؟ کیا وہ اسے رکھیں گے؟فرشتے کے ساتھ؟ مگر فرشتے تو خود تنہا تھی-ہمایوں کے گھر میں مہمان تھی -پھر وہ کیا کرے گی؟ یوں لگتا تھا چلچلاتی دھوپ میں اسے لا کھڑا کر دیا گیا ہے-نہ چھت نہ سائبان،مستقبل کا خوف کسی بھیانک آسیب کی طرح اس کے دل کے ساتھ چمٹ گیا تھا- بار بار یہ سوال ذہن میں اٹھتے اور وہ بمشکل اس کو جھٹلا پاتی- اور پھر آخر کب تک وہ ان کو یوں جھٹکے گی؟کبھی نہ کبھی تو اسے ان کا جواب چاہیئے ہو گا اور جس کتاب سے جواب مل جایا کرتے تھے، اس کے صفحے بار بار ایک ہی ایت سے کھل جاتے تھے-کبھی ایک جگہ سے کھل جاتے تو کبھی دوسری جگہ سے اور یہی صفحہ سامنے آجاتا- اور داخل ہو جاؤ دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے اور کہو حطۃ- مگر ہیکل سلیمانی کا دروازہ کہاں تھا؟وہ تو بن سواری کے شہر سے باہر نکال دی جا رہی تھی-اندر کیسے جاتی؟ وہ سہ پہر بہت زرد سی اتری تھی- بلقیس نے اسے بیڈ سے وہیل چئیر پہ بٹھایا اور باہر لے آئی- تیمور لاؤنج میں صوفے پہ کتابیں پھیلائے بیٹھا تھا-اسے آتا دیکھ کر ایک خاموش نگاہ اس پہ ڈالی۔ اور پھر نگاہیں کتاب پہ جما لی-وہ پیاسی نگاہوں سے اسے تکتی رہی، یہاں تک کہ بلقیس وہیل چئیر لاؤنج کے داخلی دروازے تک لے آئی- دروازے کی چوکھٹ پہ لگے بیل بوٹوں اور نقش و نگار کے درمیان اسے صوفے پہ بیٹھے تیمور کا چہرہ نظرآیا، جو بہت غور سے اسے باہر جاتے دیکھ رہا تھابلقیس وہیل چئیر لان میں لے آئی تازہ ہوا کا جھونکا چہرے سے ٹکرایا تو بال پیچھے کو اڑنے لگے- اسنے آنکھیں موند کے لمحے بھر کو موسم کی تازگی اپنے اندر اتارنا چاہی-تب ہی دیوار کے اس پار سے مدھم مدھم سی بھنبھناہٹ سماعت میں اتری- اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جاتی ہے- اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں-اسے گھر آئے ہوئے مہینہ ہونے کو آیا تھا مگر وہ کبھی مسجد نہیں گئی تھی-نہ جانے کیوں؟ بلقیس مجھے مسجد لے چلو-ایک دم سے اس کا دل مچل گیا تھا- بلقیس نے فرمانبرداری سے سر ہلا کر وہیل چئیر کا رخ موڑ دیا- فرشتے کدھر ہے؟اس نے سوچا کہ اسے بھی ساتھ لے لے- وہ کھانا کھا کر سو گئی تھیں- چلو ٹھیک ہے-وہ جانتی تھی فرشتے تھکی ہوئی ہوگی- صبح بھی وہ فزیو تھراپست کے ساتھ محمل کی ایکسرسائزز اور پھر مساج کرنے میں لگی رہی تھی-پھر سبزی لانا اور گھر کی نگرانی-وہ شام کو مسجد جائے گی ہی، پھر ابھی اسے کیوں تھکائے سو اس نے فرشتے کو بلانے کا ارادہ ترک کردیا- مسجد کا ہرا بھرا گھاس سے مزین لان ویسا ہی خوبصورت تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی-سفید ستونوں پہ کھڑی عالیشان اونچی عمارت ، چمکتے سنگ مر مر کے برآمدے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کونوں میں رکھے سبز لہلہاتے گملے شور مچاتی دنیا سے دور ، ہنگامے سے پاک ، ٹہرا ہو ، کونا کونا سکون میں ڈوبا ہوا ماحول- مسجد کے اندر کوئی اور ہی دنیا تھی-ٹھنڈی تازگی بھری، باوقار سی دنیا-اس کے درو دیوار سے سکون ٹپکٹا تھا- وہ جیسے بچوں کی طرح کھل اتھی تھی-آنکھوں میں چمک اگئی اور بے اختیار گردن ادھر ادھر گھماتی وہ ہر شے دیکھ لینا چاہتی تھی-بلقیس آہستہ آہستہ وہیل چئیر اگے بڑھا رہی تھی- برآمدے میں سنگ مر مر کی چمکتی سیڑھیاں تھیں-ان پہ مسلسل لڑکیاں اوپر نیچے آ جا رہی تھیں-سفید یونیفارم کے اوپر لائٹ گرین اسکارف پہنے، وہ مسکراتی ہوئی خوش باش لڑکیاں ، ہاتھوں میں قرآن اورکتابیں پکڑے ہر کسی کو مسکرا کر سلام کرتیں، آس پاس نظر آرہی تھیں- وعلیکم السلام ۔ وعلیکم السلام ۔۔۔۔۔ وہ مسکرا کر ہر کسی کے سلام کا جواب دے رہی تھی-وہ وہاں کسی کو نہیں جانتی تھی اور کوئی اسے نہیں جانتا تھا پھر بھی سلام کرنا اور سلام میں پہل کرنے کا حرص رکھے ہر کوئی پاس سے گزرتے ہوئے سلام کرتا تھا-اسکا پور پور خوشی میں ڈوب رہا تھا- یہ ماحول یہ درو دیوار -یہ تو اس کی ذات کا حصہ تھے-وہ کیسے اتنا عرصہ ان سے کٹی رہی؟ وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے وہیل چئیر پہ بیٹھی مسلسل سب کے سلام کا جواب دے رہی تھی- نہ کسی نے رک کر ترس کھا کر پوچھا کی اسے کیا ہوا ہے -نہ کسی نے ترحم بھری نگاہ ڈالی- نہ کوئی تجسس نہ کرید -وہ کونے میں وہیل چئیر پہ بیٹھی ساری چہل پہل دیکھ رہی تھی- پھر کتنے ہی دیر وہ ایسے ہی بیٹھی رہی یہاں تک کہ بلقیس نے مرکز تک جانے کی اجازت مانگی- رات صاحب کے کوئی سرکاری مہمان آنے ہیں اور فرشتے بی بی نے مجھے گوشت بنوانے کو کہا تھا، میں بھول ہی گئی- آپ بیٹھو میں لے اتی ہوں- نہیں میں بھی تمہارے ساتھ جاؤں گی، آج دل کر رہا ہے دنیا کو پھر سے دیکھنے کا- ایک الوہی سی چمک نے محمل کے چہرے کا احاطہ کر رکھا تھا-وہ اس ماحول میں آ کے جیسے بہت خوش تھی اور اس خوشی کو اپنے اندر سمیٹ کر اب وہ دنیا کا مقابلہ کرنے کو تیار تھی- آج اسے بازار جانے سے ڈر نہیں لگ رہا تھا- بلقیس عادتا چھوٹی موتی ادھر ادھر کی باتیں کرتی اس کی وہیل چئیر چلاتی مرکز تک لے آئی-مرکز وہاں سے بہت قریب پڑتا تھا-وہ گوشت بنوانے دکان میں چلی گئی جبکہ محمل باہر بیٹھی رہی- گاڑیاں بہت تیزی سے گزر رہی تھیں، لوگ بہت اونچا بول رہے تھے- موٹر سائیکلیں بہت شور مچا رہی تھیں-روشنیاں بہت تیز تھیں- ذرا سی دیر میں ہی سارا سکون ہوا ہو گیا-اس کا دل گھبرانے لگا- جلدی کرو بلقیس!وہ لفافے تھامےے دکان سے باہر آئی تو محمل سخت اکتا چکی تھی- بس بی بی! ئی سامنے والے پلازہ میں ہوٹل ہے ، ےیمور بابا کے لیے پزا لے لوں-ورنہ بابا کھانا نہیں کھائے گا-بس بی بی پانچ منٹ- وہ تیزی سے وہیل چئیر دھکیلتی کہہ رہی تھی-محمل نے بے زاری اور بے چینی سے سڑک کو دیکھا-وہ فراٹے بھرتی گاڑیاں اسے بہت بری لگ رہی تھیں- ایسے ہی کسی گاڑی نے اسے ٹکر ماری تھی- بلقیس ایک فاسٹ فوڈ کے سامنے اسے کھڑا کر کے اندر چلی گئی، اور وہ اس ریسٹورنٹ کی گلاس والز کو تکتے اس گاڑی کو یاد کرنے لگی جس نے اسے ٹکر ماری تھی-نا جانے وہ کون تھا یا تھی؟پکڑا بھی گیا یا نہیں؟ کیا ہمایوں نے اس پہ مقدمہ کیا ہوگا؟اسے جیل بھیجا ہوگا؟مگر یوں مقدمہ کرنے سے اس کا نقصان پورا تو نہیں ہو سکتا تھا – خیر جانے دو میں نے معاف کیا سب کو- اس نے سر جھٹکا اور پھر بے چین اور منتظر نگاہوں سے ریسٹورنٹ کی گلاس وال کو دیکھنے لگی-بلقیس جانے کہاں گم ہوگئی تھی- وہ یونہی بے زار سی نگاہیں ادھر ادھر گھماتی رہی اور دفعتا بری طرح ٹھٹکی-ریسٹورنٹ کی گلاس وال کے اس طرف کا منظر بالکل واضح تھا- کونے وال میز پہ بیٹھا مسکراتے ہوئے والٹ کھولتا ہمایوں ہی تھا-وہ یک ٹک اس کی مسکراہٹ کو دیکھے گئی-کیا اسے مسکرانا یاد تھا؟کیا اسے مسکرانا آتا تھا؟ اور تب اس کی نظر ہمایوں کے مقابل بیٹھی لڑکی پر پھسلی-شولڈر کٹ بال ، سلیو لیس شرٹ ، دوپٹہ ندارد کمان کی طرح پتلی آئی بروز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے کچھ کہہ رہی تھی ، اور ہمایوں سر جھٹک کر مسلسل مسکرائے جا رہا تھا- اس لڑکی کو وہ اچھی طرح پہچانتی تھی-وہ آرزو تھی-وہ واقعی آرزو ہی تھی- ہمایوں اب والٹ سے چند نوٹ نکالتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا جبکہ وہ ہنستے ہوئے نفی میں سر ہلا رہی تھی- دونوں کے درمیان بے تکلفی واضح اور عیاں تھی- تو یہ بات تھی ہمایوں داؤد ! تمہیں آرزو ہی ملی تھی؟اس نے غم سے لب کاٹتے ہوئے سر جھٹکا تھا- فرشتے ٹھیک کہتی تھی-یقینا وجہ کوئی اور تھی-اس کی معذوری کا توبہانہ تھا-اصل وجہ تو وہ پتلی کمان سی ابرو والی شاطر لڑکی تھی جو اس کے شوہر کے ساتھ سر عام لنچ کر رہی تھی- اس نے کہا تھا وہ ہمایوں کو اس سے چھین لے گی اس نے ٹھیک کہا تھا- محمل نے کرب سے سوچا- مغرب کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں، جب بلقیس اس کی وہیل چئیر دھکیلتی گھر کے گیٹ میں داخل ہوئی- اس کے سامنے ایک ہی منظر تھا کونے کی ٹیبل پہ بیٹھے ،ہنستے مسکراتے دو نفوس، ایک جانا پہچانا سا فرد اور ایک جانی پہچانی سی عورت- وہ اجڑی اجڑی سی صورت لیے گم صم سی وہیل چئیر پہ بیٹھی تھی-بلقیس کب اسے کمرے میں لائی اسے کچھ علم نہیں تھا- کسی نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی، اور پھر گردن اٹھا کر سامنے دیکھا- فرشتے حیران سی اس کے سامنے کھڑی تھی-زرد شلوار قمیض میں ملبوس، دوپٹہ شانوں پہ پھیلائے اس نے گیلے بھورے بال سمیٹ کر دائیں شانے پہ ڈال رکھے تھے-شاید ابھی وہ نہا کر آئی تھی- کدھر گم ہو محمل؟ کب سے تمہیں بلا رہی ہوں- وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے کارپٹ پہ بیٹھی اور اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے- دائیں شانے پہ پڑے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک کر اس کا دامن بگھو رہے تھے- آپ ؟ٹھیک کہتی تھں فرشتے- وہ جیسے ہار گئی تھی-فرشتے کو لگا وہ رو رہی ہے، مگر اس کے آنسو باہر نہیں اندر گر رہے تھے- میں نے آج خود ان دونوں کو دیکھا ہے- کن دونوں کو؟وہ بری طرح چونکی- ہمایوں اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آرزو کو- آرزو اسد انکل کی بیٹی آرزو؟ ہاں وہی-کیا اسد چچا کی ڈیتھ ہوگئی ہے؟ تم نے انہیں کدھر دیکھا؟وہ اس کا سوال نظر انداز کر گئی تھی- مرکز کے ایک ریسٹو رنٹ میں- وہ دونوں لنچ کر رہے تھے یا شاید ہائی ٹی- فرشتے!ہمایوں ہنس رہے تھے ، میں تو سمجھی تھی وہ ہنسنا بھول گئے ہیں- مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ پتا نہیں مگر ۔۔۔۔۔۔۔ وہ متذبذب تھی کچھ کہتے کہتے رک گئی- مجھے پتا ہے وہ آرزو کی وجہ سے میرے ساتھ یوں کر رہے ہیں-اس نے کہا تھا وہ ہمایوں کو مجھ سے چھین لے گی-اور اس نے یہ کر دکھایا- کیا وہ کبھی اس گھر میں آئی ہے؟ ہاں وہ اکثر آتی رہتی ہے، مگر تمہارے گھر شفٹ ہو جانے کے بعد وہ کبھی نہیں ائی- واقعی ؟ اسے حیرت بھی ہوئی اور غصہ بھی آیا- آخر وہ کس حیثیت سے آئی تھی اس گھر؟ آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ اندر کیوں آنے دیا؟ یہ میرا گھر نہیں ہے محمل! مجھے اس کا حق نہیں ہے- محمل چپ سی ہوگئی-اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا تھا- ہمایوں کے کچھ گیسٹ آنے ہیں چائے پہ- ابھی پہنچنے والے ہونگے، میں ذرا کچن دیکھ لوں-وہ اس کے ہاتھوں سے ہاتھ نکال کے کھڑی ہوگئی-گیلے بال شانے سے پھسل کر کمر پہ جا گرے- آپ۔۔۔۔۔ آپ بہت اچھی ہیں فرشتے- وہ کہے بغیر نہ رہ سکی- وہ تو مجھے پتا ہے- وہ نرمی سے مسکرائی اور زرد دوپٹے کا پلو سر پہ ڈالا، پھر اچھی طرح چہرے کے گرد حصار بنا کر دایاں پلو کندھے پہ ڈال لیا- یوں کہ بال اور کان چھپ گئے- تم آرام کرو-وہ باہر نکل گئی اور محمل وہیں اداس ویران سی بیٹھی رہ گئی باہر سے چہل پہل کی مدھم سی آوازیں ارہی تھیں-کافی دیر بعد اس نے کھڑکی سے ہمایوں کی گاڑی کو آتے دیکھا تھا-اس کے ہمراہ دو تین معزز اشخاص بھی تھے،ہمایوں اسی لباس میں تھا جس میں وہ شام کو آرزو کے ساتھ ریسٹو رنٹ میں تھا-گویا وہ واقعی وہی تھا، یہ اس کا واہمہ نہیں تھا- وہ حسرت و یاس سے کھڑکی سے لگی ان کو اندر جاتے دیکھتی رہی-اس کے کمرے میں اندھیرا اتر آیا تھا- باہر روشنی تھی-باہر والے اسے نہیں دیکھ سکتے تھے، اور وہ باہر والا ” تو شاید اب کبھی بھی اسے نہ دیکھ سکے-اس کے پاس اب بہتر انتخاب تھا، جوان اسٹائلش، زندگی سے بھرپور عورت،بے شک وہ محمل کی طرح خوبصورت نہ تھی ، مگر اس کی تراش خراش کی گئی شکل اب محمل سئ حسین لگتی تھی- کیا کبھی حالات بدلیں گے ، کیا کبھی ہمایوں لوٹے گا ؟ کیا کبھی اس کی معذوری ختم ہوگی؟کیا کبھی تیمور اس کے پاس آئے گا؟کیا یہ گھر اس کا رہ سکے گا؟کیا وہ دربدر کردی جائے گی؟کیا وہ بے سہارا چھوڑ دی جائے گی؟ اندر کا خوف اور بے بسی آنسوؤں کی صورت میں آنکھوں سے نکل کر چہرے پہ لڑھکنے لگی- مستقبل ایک بھیانک سیاہ پردے کی مانند ہر طرف چھاتا دکھائی دے رہا تھا، اس نے کرب سے آنکھیں میچ لیں- اللہ اس چیز سے بڑا ہے، جس سے میں ڈرتی اور خوف کھاتی ہوں- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کا وہ ایک کلمہ وہ زیر لب بار بار دہرا رہی تھی-یہاں تک کے اندر کا کرب قدرے کم ہوا اور ذرا سکون آیا تو اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے- اگر ان لوگوں نے مجھے چھوڑ ہی دینا ہے نکال ہی دینا ہے تو مجھے کسی بے قدرے کے حوالے مت کرنا، میرے مالک کوئی امید کا سرا دکھا دے، کوئی روشنی دکھا دے- وہ بنا لب ہلائے دعا کے لیے اتھے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی-آنکھوں سے آنسو اسی طرح بہہ رہے تھے- پھر جب بہت رو چکی، تو چہرہ پونچھا اور سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اپنا سفید کور والا قرآن اتھایا، اس کے فرنٹ کور پہ مٹا مٹا سا “م ” اسی طرح لکھاتھا- اسے یاد نہیں تھا اس نے آخری بار تلاوت کدھر چھوڑی تھی، پتا نہیں نشان کہیں لگایا تھا یا نہیں- بس جہاں سے صفحہ کھلا اس نے پڑھنا شروع کر دیا- لا شعوری طور پر وہ اللہ تعالی سے رہنمائی چاہتی تھی- ” اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہت،جو اللہ کی طرف بلائے اور اچھے عمل کرے اور کہے ، بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں- اس نے اگلی ایت پڑھی- اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی سو ( برائی کو ) اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو پھر دفعتا وہ شخص جس کے اور تمہارے دریان عداوت ہے ،یوں ہو جائے گا گویا کہ تمہارا حمیم ( گہرا جاں نثار دوست) ہو- اس نے اچنبھے سے ان آیات کو دیکھا، کیا اب بھی کوئی امید تھی کہ وہ شخص اس کا حمیم ( گہرا جان نثار دوست) بن سکتا ہے؟اب تو کچھ باقی نہیں رہا تھا، سب ختم ہوگیا تھا- اس نے اس آیت کو دوبارہ پڑھا- بہت ہی عجب ماجرا تھا- آج وہ اپنے شوہر کو کسی دوسری عورت کے ساتھ خوش گپیاں کرتے ہوئے دیکھ آئی تھی، اپنے اس شوہر کو جو برملا اس سے علیحدگی کا کہہ چکا تھا-اس کا اپنا بچہ اس سے بکتا تھا-اس سے نفرت کرتا تھا- اس کی بے انتہا پر امید رہنے والی بہن بھی آج خاموش تھی، آج اس نے بھی امید نہیں دلائی تھی کہ ہمایوں کا رویہ سب کے سامنے تھا- اس نے پھر پڑھا- پھر دفعتا وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے ، یوں ہو جائے گا گویا تمہارا حمیم ہو ، اور اس (خوبی ) کو ان لوگوں کے سوا کوئی نہیں حاصل کر سکتا جو بہت صبر کرتے ہیں اور اس ( خوبی ) کو ان کے علاوہ کوئی نہیں حاصل کر سکتا جو بڑی قسمت والے ہوتے ہیں- میں اتنی صبر کرنے والی اور قسمت والی کہاں ہوں اللہ تعالی؟اس نے پاس سے سوچا تھا-کیا واقعی کبھی بھی ان عداوتوں کو پگھلا نہیں سکے گی؟کیا اسے مایوس ہو جانا چاہیئے؟ باہر سے چہل پہل کی اوازیں بدستور ارہی تھیں-محمل کے کمرے کے سامنے ہی ڈرائنگ ہال اور ڈائننگ روم تھا- اس نے قرآن بند کر کے شیلف پہ رکھا، اور وہیل چئیر کو گھسیٹتی ہوئی کھڑکی کے پاس لے آئی- قد آور کھڑکی کے شفاف شیشوں کے اس پار ڈوبتی شام کا منظر نمایاں تھا- دور اوپر کہیں آدھا چاند بادلوں سے جھانک رہا تھا-یہاں تک کہ شام ڈوب گئی اور چاندنی سے کھڑکی کے شیشے روشن ہوگئے-وہ اسی طرح اندھیرے میں ڈوبے کمرے میں بیٹھی ، گردن اٹھائے چاند کو دیکھ رہی تھی- “ادفع بالتی احسن – (دور کرو اسے اس طریقے سے جو بہترین ہو-) جو بہترین ہو- جو بہترین ہو- ایک آواز بار بار اس کی سماعت میں گونج رہی تھی-وہ چپ چاپ چاند کو دیکھتی کچھ سوچے گئی- اس نے دیوار پہ آویزاں گھڑی پہ نگاہ دوڑائی-ایک بجنے میں ابھی چند منٹ تھے اور ہمایوں ڈیڑھ بجے تک گھر آجاتا تھا- وہ وہیل چئیر گھسیٹتی سنگھار میز کے سامنے لے آئی اور قد آور آئینے میں اپنا عکس دیکھا- وہیل چئیر پہ بیٹھی ایک کمزور سی لڑکی جس کے گھٹنوں پہ چادر پڑی تھی اور گیلے بال شانوں پہ بکھرے تھے-چہرے کی سپید رنگت میں زردی کھنڈی تھی اوور بھوری آنکھوں تلئ حلقے تھے- اس نے ہئیر برش اٹھایا اور آہستہ آہستہ بالوں میں اوپر سے نیچے کنگھی کرنے لگی-گیلے بالوں سے موتیوں کی طرح ٹپکتے قظرے اس کی سرخ قمیض کو بھگو رہے تھے-یہ خوبصورت جوڑا فرشتے نے اس کے لیے بنوایا تھا، اور آج بہت شوق سے اس نے پہنا تھا- بال سلجھ گئے تو اس چہرے پہ ہلکا سا فاؤنڈیشن لگایا ، پھر گلابی سا بلش آن بکھیرا ، آنکھوں میں گہرا کاجل اور اوپر لائٹ پنک آئی شیڈو پھر پنک اور ریڈ لپ آسٹک ملا کر لبوں پہ لگائی ، یوں کہ اوور بھی نہ لگے اور بہت پھیکی بھی نہیں-بال ذرا ذرا سوکھنے لگے تھے-اس نے ان کو برش سے سمیٹا ، پھر دونوں ہاتھوں میں پکڑے اونچا کیا، اور پونی میں باندھا، یوں کہ اونچی پونی ٹیل اس کی گردن پہ جھولنے لگی- محمل کی یادگار پونی ٹیل- وہ اسے دیکھ کر اداسی سے مسکرادی–پھر ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھا جیولری باکس کھولا اور لٹکتے سرخ یاقوت کا سونے کا سیٹ نکالا- کانوں میں آویزے پہنے، اور گردن میں نازک سا نیکلس ، اب اپنا عکس دیکھا تو خوشگوار سی حیرت ہوئی-وہ واقعی بہت اچھی لگ رہی تھی-ترو تازہ اور خوبصورت- جیولری باکس کے ساتھ ہی اس کی کانچ کی سرخ چوڑیاں پڑی ہوئی تھیں-وہ ایک ایک چوڑی اٹھا کر کلائی میں ڈالتی گئی-یہاں تک کہ دونوں کلائیاں بھر گئیں اور جب اس نے سرخ بڑے سے یاقوت کی انگوٹھی اٹھائی تو اسے پہنتے ہوئے چوڑیاں بار بار کھنک اٹھتیں- ڈیڑھ بجنے والا تھا، اس نے ایک نظر گھڑی کو دیکھا اور پھر پرفیوم اسپرے کر کے خود کو باہر نکال لائی- ہمایوں ابھی تک نہیں ایا تھا-وہ بے چین سی لاؤنج میں بیٹھی تھی-کبھی آویزے درست کرتی کبھی چوڑیاں ٹھیک کرتی اور بار بار دروازے کو دیکھتی- دو بجنے والے تھے جب اس نے گاڑی کی آواز سنی- ایک دم اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا- یہ ہی طریقہ اسے بہترین لگا تھا سو اس نے اسی کو اپنایا تھا- قدموں کی آواز اسے قریب ہوتی سنائی دی- وہ خواہ مخواہ گود میں دھرے ہاتھوں کو دیکھنے لگی- وہ نروس ہو رہی تھی اور یہ وہ جانتی تھی- دروازہ کھلا اور اسے ہمایوں کے بھاری بوٹوں کی چاپ سنائی دی-مگر نہیں ، ساتھ میں نازک ہیل کی تک ٹک بھی تھی- اس نے حیرت سے سر اٹھایا اور اگلے ہی پل زور کا جھٹکا لگا- ہمایوں اور آرزو آگے پیچھے اندر داخل ہوئے- وہ یونیفارم میں ملبوس تھا، ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھا اور وہ آرزو سے بغیر کچھ سنے چلا آرہا تھا- وہ اس کے ہم قدم مسرور سی چل رہی تھی-وائٹ ٹراؤزر پہ پنک گھٹنوں تک اتی شرٹ ، اور دوپٹہ نا پید ، کمان پتلی ابروز اور تیکھی نگاہیں- اسے سامنے بیٹھے ، گردن اٹھائے خود کو دیکھتے ، ان دونوں کے قدم ذرا سست پڑ گئے- چند لمحے وہ شدید صدمے کی حالت میں رہی تھی-مگر پھر سنبھل گئی – بظآہر سکون سے ان دونوں کو آتے دیکھا اور اسی سکون سے سلام کیا- السلام علیکم! وعلیکم السلام – ہمایوں نے جواب دے کر ایک نظر آرزو کو دیکھا جو سینے پہ بازو باندھے تیکھی نگاہوں سے محمل کو دیکھ رہی تھی-اس کی نگاہوں میں واضح استہزا تھا- میں اپ کا انتظار کر رہی تھی ہمایوں!مجھے آپ سے بات کرنی ہے-وہ آرزو کو یکسر نظر انداز کیے سپاٹ لہجے میں ہمایوں سے مخاطب تھی- مجھے بھی تم سے بات کرنی ہے- وہ سنجیدگی سے کہتا اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھا ، خاکی لفافہ ابھی تک اس کے ہاتھ میں تھا- ٹھیک ہے آپ بتائیں- وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے تھے، اور آرزو اسی طرح سینے پہ بازو لپیٹے اکھڑی اکھڑی سی کھڑی تھی- چند لمحے خاموشی حائل رہی -ہمایون ہاتھ میں پکے خاکی لفافے کو دیکھتا رہا ، جیسے کچھ کہنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہا ہو- اس نے سر اٹھایا اور ان ہی سنجیدہ نگاہوں سے محمل کا چہرہ دیکھا- میں شادی کر رہا ہوں- ایک لمحے کو سکوت چھا گیا، مگر نہ آسمان گرا نہ زمین پھٹی نہ ہی کوئی طوفان ایا- اس نے بہت صبر سے اس کی بات سنی اور پھر سوالیہ ابرو اٹھائے- تو؟ تو یہ کہ ہم دونوں کو الگ ہو جانا چاہیئے- یہ لو- اس نے خاکی لفافہ محمل کی طرف بڑھایا، جسے اس نے دایاں ہاتھ بڑھا کر تھاما-دونوں لمحے بھر کو رکے، دونوں اسی وقت خاکی لفافہ تھام رکھا تھا-مگر وہ بس ایک لمحے کا فسوں تھا- پھر ہمایوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور محمل نے سفاکی سے لفافہ چاک کیا- کیا ہے اس میں ہمایوں صاحب؟ کیا میرا طلاق نامہ ہے؟اندر سے تہ شدہ کاغذ نکالتے ہوئے ہوئے وہ بہت آرام سے بولی تھی-وہ خاموش رہا- محمل نے کاغذ کی تہیں کھولیں- وہ واقعی طلاق نامہ تھا-ہمایوں کے دستخط ، محمل کا نام- نہ اس کے ہاتھ سے کاغذ پھسلا نہ وہ چکرا کر گری- بس ایک نظر میں پورا صفحہ پڑھ ڈالا اور پھر گردن اٹھائی-لمحوں میں ہی اس نے سارے فیصلے کر لیے تھے- اس پہلی طلاق کا شکریہ ہمایوں داؤد ! جس عالم نے آپ کو یہ بتایا کہ تین طلاقیں اکٹھی دینا ایک قبیح عمل ہے- سو طلاق ایک ہی دینا بہتر ہے، تو اس نے یقینا یہ بھی بتایا ہوگا کہ اب عدت کے تین ماہ میں اسی گھر میں گزاروں گی، کیا نہیں بتایا؟ مجھے معلوم ہے ، تم تین ماہ ادھر ہی رہ سکتی ہو، اس کے بعد میں شادی کر لوں گا- وہ کھڑا ہو گیا- محمل نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا جس کے بے وفا چہرے پہ کوئی پچھتاوا کوئی ملال نہ تھا- پوچھ سکتی ہوں آپ دوسری شادی کس سے کر رہے ہو؟ ہمایوں نے ایک نظر سامنے کھڑی آرزو کو دیکھا اور پھر شانے جھٹکے- یہ بتانا ضروری نہیں ہے-میں ذرا چینج کر کے آتا ہوں-آخری فقرہ آرزو سے کہہ کر وہ تیزی سے سیڑھیاں چرھتا گیا- وہ چند لمحے اسے اوپر جاتے دیکھتی رہی – زندگی میں پہلی بار اسے ہمایوں داؤد سے نفرت محسوس ہوئی تھی، شدید نفرت- آپ تو اپاہج ہو کر بھی خوب بنی سنوری رہتی ہو-آرزو کی طنزیہ آواز پہ اس نے چہرہ اس کی جانب موڑا- اگر شکل اچھی ہو تو معذوری میں بھی اچھی ہی لگتی ہے۔ آرزو بی بی ورنہ لوگ تو گھنٹوں کی تراش خراش کے بعد بھی خوبصورت نہین لگتے- چچ چچ- رسی جل گئی ، بل نہیں گئے-وہ اس کے سامنے والے صوفے پہ بیٹھ گئی- دائیں ٹانگ بائیں ٹانگ پہ چڑھائی اور بڑے استحقاق سے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا ہمایوں کا مو بائل اٹھایا جو اس نے بیٹھتے ہوئے ادھر رکھا تھا- وہ خاموش رہی- میں نے تم سے کہا تھا نا محمل! مجھے اس سے پیار ہوگیا ہے، لو ایٹ فرسٹ سائیٹ، میں اسے حاصل کر ہی لوں گی- اور میں نے بھی تب کہا تھا آرزو! کہ تم خدا نہیں ہو جو ہر چیز تمہاری مرضی سے ہو -آج وہ تمہارے لیے مجھے چھوڑ رہا ہے، کل کو کسی اور کے لیے تمہیں بھی چھوڑ دے گا ، تب میں تمہاری آہیں سننے ضرور آؤں گی- آرزو بے اختیار محفوظ سی ہنس پڑی- اس کا انداز محمل کے اندر آگ لگا گیا، مگر اس نے آگ چہرے پہ نہ آنے دی – وہ بہت کمال ضبط کا وقت تھا- تمہارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے جس سے میں جیلس ہوں-رہا ہمایوں تو تم شوق سے اسے لے لو، مجھے کھنکتی مٹی کے اس پیلے کا کیا کرنا جس میں وفا نہ ہو- تمہاری اکڑ ابھی تک نہیں گئی محمل- اور میری یہ اکڑ جائے گی بھی نہیں، تمہیں کیا لگتا ہے، محمل ہمایوں کے بغیر مر جائے گی؟ ہونہہ- اس نے تلخی سے سر جھٹکا- میں سات سال کوما میں پڑی رہی ، تب میرے پاس ہمایون نہیں تھا، میں تب بھی نہیں مری تو اب اس کے بغیر کیوں مروں گی؟خیر اگر تم نے بیٹھنا ہے تو بیٹھو، کھانے پینے آئی ہو تو سامنے کچن ہے، ویسے بھی دوسروں کا مال کھانے کی تمہاری خاندانی عادت ہے اور ہمایوں کی خیرات کرنے کی- جو کھانا ہو کھا لینا ٹیک کئیر- اس نے دانستہ اسلام علیکم کہنے سے احتراز برتا- کم از کم اس وقت وہ آرزو پہ سلامتی نہیں بھیج سکتی تھی، اور وہیلل چئیر کا رخ اپنے کمرے کی طرف موڑ دیا- تہ شدہ زرد کاغذ ادھ کھلا اس کی گود میں رکھا تھا- اسے آرزو کے بڑ بڑانے ، اٹھنے اور سیڑھیاں چڑھنے کی آواز سنائی دی تھی-اس کا گھر تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا تھا-اب کچھ باقی نہیں رہا تھا- کمرے میں اکر اس نے دروازہ بند کردیا- لاک نہیں لگایا، اب کس کو ادھر انا تھا بھلا؟ سب کچھ بکھر گیا تھا- وہ وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں ہاتھوں سے گھسیٹتی سنگھار میز کے سامنے لائی -کمرے کی بتی بجی تھی کھڑکی ک آگے پردہ گرا تھا، کہیں درزوں سے زرد سی روشنی جھانک رہی تھی، جس سے کمرے میں نیم اندھیرا سا تھا- وہ اس نیم تاریک ماحول میں اپنا عکس آئینے میں دیکھے گئی- ہر شئے اجڑ گئی تھی ، سب ختم ہوگیا تھا- راکھ کا ڈھیر لگا تھا اور اس میں کوئی چنگاری نہیں بچی تھی- اپنے عکس کو دیکھتے اس کا دل چاہا، وہ کانوں سے آویزے نوچ پھینکے ، نازک سا ہار اتار کر دیوار پہ مارے ، چوڑیاں توڑ دے – زور زور سے چلائے- دھاریں مار مار کر روئے- اس نے ہاتھ آویزوں کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ دفعتا نیم تاریک کمرے میں ایک مدھم سی آواز ابھری- آنکھ آنسو بہاتی ہے- اور دل غمگین ہے- مگر زبان سے وہی کہیں گے جس پہ ہمارا رب راضی ہو- آویزے کو پکڑے اس کا ہاتھ بے دم سا گر گیا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا صبر، صدمے کی پہلی چوٹ پہ ہوتا ہے-اور انہوں نے یہ بھی کہا تھا ، کہ جو شخص گریبان چاک اور رخساروں پہ طمانچے مارے اور جاہلیت کی طرح بین ( نوحہ) کرے- وہ ہم میں سے نہیں ہے- اس نے سر وہیل چئیر کی پشت پہ ٹکا دیا اور آنکھیں موندلیں-قطرہ قطرہ آنسو بند آنکھوں سے ٹپکنے لگے-وہ بے آواز روتی رہی بلکتی رہی- اندھیرے کمرے میں بیٹھی ایک معذور ، کمزور لڑکی جو بے آواز روتے ہوئے بس ایک ہی لفظ دہرائے جا رہی تھی- یارب المستفعفین۔۔۔۔۔۔۔ اے کمزوروں کے رب۔۔۔۔۔۔ اے کمزوروں کے رب- دوپہر دم توڑ گئی شام ڈوب گئی اور ہر سو رات چھانے لگی-جانے رات کا کون سا پہر تھا جب کسی نے دروازے پہ دستک دی اور پھر چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ وہ کھلتا چلا گیا- اس نے گردن موڑ کر نہیں دیکھا-اسے اب کوئی خوش فہمی نہ تھی کہ ہمایوں کبھی اس کے پاس آئے گا- قدموں کی چاپ سنائی دی اور ایک ہیولا سا اس کے سامنے آکھڑا ہوا- محمل! وہ فرشتے کی آواز تھی- وہ چپ چاپ آنکھیں چھت پہ جمائے بیٹھی رہی- محمل کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو؟ چند لمحے کی خاموشی کے بعد اس کی متفکر سی آواز ابھری- محمل تم ٹھیک ہو؟ اس نے دھیرے سے چہرہ اٹھایا اور متورم آنکھوں سے اندھیرے میں کھری فرشتے کو دیکھا- اس نے سیاہ جوڑا پہن رکھا تھا سیاہ دوپٹے کے ہالے میں مقید اس کا چہرہ دمک رہا تھا- محمل! ہمایوں نے مجھے طلاق دے دی ہے- وہ دھیرے سے بولی تو آواز میں آنسوؤں کی نمی تھی- کتنے ہی پل ماحول پہ سکتہ چھایا رہا – کب؟ آج دوپہر میں، میں عدت اس گھر میں پوری کروں گی، پھر اس کے بعد میں چلی جاؤں گی اور وہ شادی کر لے گا- اس نے رخ فرشتے سے موڑ لیا تھا تا کہ وہ اس کا چہرہ نہ دیکھ سکے- آئی ایم ویری سوری محمل- وہ ماسف کھڑی تھی- تم عدت کے بعد کہاں جاؤ گی- کیا تم خود کو اتنا اسٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کرلو گی؟ ہاں میں کر لوں گی، آپ جائیں ، مجھے اکیلا چھوڑ دیں پلیز- فرشتے نے سمجھ کر سر ہلایا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دروازے کی طرف بڑھ گئی-دروازے کے بند ہونے کی آواز پہ اس نے چہرہ موڑا- کمرہ پھر سے سنسان ہو چکا تھا وہ جا چکی تھی- وہ رات بہت عجیب تھی- محمل نے اتنی ویران رات کبھی نہیں گزاری تھی- تب بھی نہین جب وہ مسجد کی دیوار پھلانگ رہی تھی-تب بھی نہیں جب اسے اس کی جائیداد اور گھر سے محروم کر کے نکال دیا گیا تھا-تب بھی نہیں جب اس کی ماں مری تھی، اور تب بھی نہیں جب وہ سات سال بعد کومے سے جاگی تھی-ایسی رات پہلے کبھی نہیں آئی تھی- وہ وہیل چئیر کی پشت سے سر ٹکائے چھت کو دیکھ رہی تھی-پردوں سے چھن چھن کر اندر آتی چاندنی میں پردے یوں چمک رہے تھے جیسے چاندی کے ورق ہوں- زندگی ایک دم گویا ختم سی ہوگئی تھی- ہر طرف اندھیرا تھا- اس کے پاس آگے چلنے کو کوئی امید نہ تھی-ہمایوں اس کا نہیں رہا تھا، تیمور اس کا نہیں رہا تھا، نہ کسی رشتے دار کا آسرا تھا اور رہی فرشتے تو وہ اس کے جانے کے بعد مسجد شفٹ ہو جاتی، وہ کب تک فرشتے کو اپنی وجہ سے پابند رکھتی؟ رات یونہی خاموشی سے بیتتی گئی-وہ اسی طرح برف کا مجسمہ بنی وہیل چئیر پہ بیٹھی رہی-پردوں کی چمک ختم ہوگئی تھی اور کمرے میں مہیب گھپ اندھیرا چھا گیا- اسے اس اندھیرے سے خوف آنے لگا ، وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اندھیرے میں دیکھنے کی سعی کرنے لگی ، اور تب ہی کھڑکی کے کناروں میں صبح کاذب کی نیلاہٹ ابھرنے لگی- دور کہیں فجر کی آذانیں بلند ہو رہی تھیں- اس کے برف بنے وجود میں پہلی بار جنبش ہوئی- اس نے اپنے سن ہوتے ہوئے ہاتھ اٹھائے اور پہیوں کو آگے کی طرف گھسیٹا – شیلف پہ ایک طرف وضو کے پانی کابرتن رکھا تھا- محمل نے وضو کیا اور نماز پڑھی- پھر جب دعا کے لیے ہاتھ اتھائے تو کوئی دعا ذہن میں ہی نہ آئی، بس ایک وہی لفظ- اے کمزوروں کے رب ! لبوں پہ اترا- اس نے کئی بار اسے دہرایا، آنکھوں سے ٹپ ٹپ انسو گرنے لگے تو اس نے آمین کہہ کر چہرے پہ ہاتھ پھیر لیے- کمرے میں ہلکی ہلکی نیلاہٹ اترنے لگ تھی – وہ وہیل چئیر کو شیلف کے قریب لائی ، جہاں ٹیپ ریکارڈر اور ساتھ کیسٹون کا ڈبہ رکھا تھا-اس نے بنا دیکھے ایک کیسٹ لگا لی اور ٹیپ میں ڈال کر پلے کا بٹن دبا یا- کہیں درمیان سے تلاوت شروع ہوگئی تھی- اور کس کی بات اس شخص کی بات سے زیادہ اچھی ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے؟ وہ حیرت سے چونکی، یہ آیت تو پرسوں اس نے پڑھی تھی، پھر یہی کیوں لگ گئی؟ “اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتیں- وہ حیران سی سن رہی تھی-اللہ اسے یہ آیت پھر سے کیوں سنوا رہا تھا؟یہ آیات تو گزر چکی تھیں، پھر دوبارہ کیوں؟ برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو؟ قاری صاحب کی آواز پڑھتے ہوئے بھرا گئی تھی- وہ الجھ سی گئی-اللہ اسے پھر سے کیوں وہی بات بتا رہا تھا؟وہ شخص تو اب سارے تعلق کاٹ چکا تھا، اب تو کوئی امید نہیں رہی تھی۔ پھر کیوں اسے برائی کو بہترین طریقے سے دور کرنے کو کہا جا رہا تھا؟ وہ میرا حمیم میرا جان نثار نہیں بن سکتا اللہ تعالی! اس نے مجھے طلاق دے دی ہے، وہ مجھے تین ماہ بعد گھر سے نکال دے گا-اب تو درمیان کا کوئی راستہ نہیں رہ گیا،پھر آپ کیوں مجھے عداوت کو دور کرنے کا کہہ رہے ہیں؟وہ ایک دم رو پڑی تھی- پردوں کے دوسری جانب روشنی جھانکنے لگی تھی-اس نے ہاتھ بڑھا کر پردے ہؔٹا دیئے- باہر لان میں صبح اتر ائی تھی۔ گہری سیاہ رات کے بعد اترتی صبح- برائی کو اس طریقے سے دور کرو جو بہترین ہو- گھاس پہ تیمور بیٹھا تھا-نیکر شرٹ میں ملبوس سوئی سوئی آنکھیں لیے وہ گھاس پہ بیٹھی بلی کی کمر پہ پیار سے ہاتھ پھیر رہا تھا-شاید اس کے ہاتھ میں کچھ تھا جو وہ بلی کو کھلانے لایا تھا- پھر دفعتا وہ شخص۔۔۔۔۔ پھر دفعتا وہ شخص- پھر دفعتا وہ شخص- قاری صاحب کی آواز اور اس کی سوچیں آپس میں گڈ مد ہو رہی تھیں- تیمور اب بلی کے منہ میں روٹی کا ٹکڑا ڈالنے کی کو شش کر رہا تھا- وہ شخص جس کے اور تمہارے درمیان عداوت ہے- وہ الفاظ کمرے کی دیواروں کے ساتھ ٹکرا رہے تھے- وہ بنا پلک جھپکے تیمور کو دیکھ رہی تھی-اس اترتی نیلی صبح میں اس پہ اچانک سے آشکار ہوا تھا-وہ شخص ہمایوؔں نہیں تھا، نہیں تھا، نہیں تھا- وہ شخص تیمور تھا- اس کا بیٹا، اس کا خون ، اس کے جسم کا ٹکڑا ، کیا وہ اس کا حمیم اس کا (جان نثار دوست)بن سکتا تھا؟ کیا واقعی ؟ کیا وہ ایسی قسمت والی ہے؟کیا ایسا ممکن ہے؟ وہ ایک نئی آگہی کے احساس کی ساتھ حیرت میں گھری بیٹھی تھی- اس کا بیٹا، اس کا خون ، اس کے جسم کا ٹکڑا ، کیا وہ اس کا حمیم اس کا (جان نثار دوست)بن سکتا تھا؟ کیا واقعی ؟ کیا وہ ایسی قسمت والی ہے؟کیا ایسا ممکن ہے؟ وہ ایک نئی آگہی کے احساس کی ساتھ حیرت میں گھری بیٹھی تھی- تیمور اب روٹی کے چھوتے چھوٹے ٹکڑے کرکے سامنے گھاس پہ ڈال رہا تھا، بلی لپک کر آگے گئی اور گھاس پہ منہ مارنے لگی- بلقیس کرسی پہ چڑھی اوپر بنے کیبنٹ کو کھولے کھڑی تھی،جبکہ وہ سامنے وہیل چئیر پہ بیٹھی ، گردن اوپر اٹھائے اسے ہدایات دے رہی تھی- اس کے اور ہمایوں کے ٹوٹے تعلق کی بات ابھی ملزموؔں تک نہیں پہنچی تھی- بلیو کلر کا ویلوٹ کور کا البم ہوگا، سائیڈ پہ دیکھو- یہ والا بی بی؟اس نے البم نکال کے وہی سے لہرایا- یہ مہرون ہے بلقیس ، میں بلیو کہہ رہی ہوں، نیلا آسمانی رنگ-وہ اس البم کی تلاش میں اسٹڈی کے کئی دراز اور شیلف چھنوا چکی تھی-اب اوپر والے کیبنٹ کی باری ائی تھی- ایک منٹ جی- شاید اسے کچھ نظر آیا تھا، کچھ دیر اندر سر گھسائے ہاتھ مارتی رہی ، پھر کہیں پیچھے سے کھینچ کے البم نکالا- یہ ہی ہے ، لاؤ مجھے دو- اس نے سکون کی گہری سانس اندر کو کھینچی- یہ لیں جی-بلقیس نے ننگے پاؤں زمین پہ رکھے،اور البم اس کو پکڑا کے چپل اڑسنے لگی-میں ذرا ہانڈی دیکھ لوں- ہاں جاؤ-اسنے البم دونوں ہاتھوں میں لیا ، اس پہ جمی گرد جھاڑی اور پہلا صفحہ کھولا- یہ آغا ہاؤس میں کھینچی گئی ملی جلی تصاویر کا البم تھا-جب وہ اپنی شادی کے سال بعد آغآ ہاؤس گئ تھی تو واپسی میں اپنی کچھ دوسری چیزوں کے ساتھ اسے بھی لے ائی تھی-اس میں ذیادہ تصاویر اس کی اپنی تھیں-کہیں وہ تیرہ سال کی تھی تو کہیں انیس سال کی-کچھ تصاویر خاندان میں ہونے والی شادیوں کی بھی تھیں، وہ محو سی اس کو دیکھتی صفحے پلٹنے لگی- معلوم نہیں یہ سب لوگ اب کدھر ہونگے-سوائے آرزو کے ، کسی کا کچھ پتا نہیں تھا اور آرزو سے ان کا پتا وہ کرنا نہیں چاہتی تھی-ویسے بھی اس روز کے بعد آرزو ادھر نہیں ائی تھی-یاں ہر شام ہمایوں کہیں باہر کسی دوست کے ساتھ اس وقت شام کی چائے پیتے ہیں، اور دوستی کا ایک نظارہ تو وہ اس روز مرکز کے ریسٹورنٹ میں دیکھ ہی چکی تھی-سو اب مزید کریدنے کی حاجت نہیں رہی تھی- اور رہے یہ لوگ تو ان کی تصویریں دیکھتے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح یہی سوچ رہی تھی کہ ان کا کیا بنا؟کیا وہ ابھی تک بے مہار گھوم رہے ہیں یا اللہ نے ان کی رسی کھینچی؟ظلم اور والدین کی نافرمانی دو ایسے گناہ ہیں جن کی سزا دنیا میں بھی لازمی ملتی ہے، تو کیا ان کو سزا ملی؟کیا ان کو احساس ہوا؟اور سب سے بڑھ کر کیا اس شخص کو سزا ملی جو اس وقت اس کے سامنے تصویر میں مسکرا رہا تھا؟ آغا فواد کریم، آغآ جان کا ولی عہد، جس نے اس کو بکاؤ مال بنایا، بلیک میل کر کے تمام جائیداد انے نام لکھوائی اور پھر اس کی گردن پہ پستول رکھ کے فرشتے کو دھمکایا، گھر سے نکلوایا اور بعد میں جانے وہ ہمایوں کو آکر کیا کہہ گیا تھا کہ ہمایوں اس کی شکل دیکھنے کا روادار نہیں تھا- ہانڈی نہیں لگی تھی ، شکر مالک کا-بلقیس تیزی سے اندر داخل ہوئی، اس نے خیالات سے چونک کر سر اٹھایا- ہائے کتنے سوہنے فوٹو ہیں، یہ آپ کے گھر والوں کے ہیں جی؟وہ کھلے البم کو اشتیاق سے دیکھ کر اس کے کندھے کے ساتھ کھڑی ہوگئی اور سر جھکائے دیکھنے لگی- ہاں میرے رشتے دار ہیں-اس نے صفحہ پلتا- اگلے صفحے پہ آرسو اور فواد، تائی اماں کے ساتھ کھڑے تھے-یہ خاندان کی کسی شادی کا فوٹو تھا- یہ تو وہ ہیں! بلقیس گویا حیرت زدہ رہ گئی- تب اسے یاد ایا بلقیس نے ہی تو اسے فواد کے آنے کا بتایا تھا، شاید وہ اسے پہچان گئی تھی- یہ اپ کے رشتے دار ہیں جی؟یہ تو ادھر اتی رہتی ہیں ، کمال ہے مجھے تو پتا ہی نہیں تھا- کون؟ یہ لڑکی؟اسے حیرت ہوئی ، وہ تو سمجھی تھی بلقیس فواد کی بات کر رہی ہے- ہاں جی! یہ آرزو بی بی! اس نے آرزو کے چہرے پہ انگلی رکھی- ہاں یہ میری کزن ہے اور یہ ساتھ فواد ہے جو ہمایوں کے پاس آیا تھا- آیا ہوگا جی- وہ ابھی تک اشتیاق سے آرزو کے کپڑے دیکھ رہی تھی-اس کے انداز میں ذرا سی لاپرواہی تھی-یک دم محمل کو کچھ کھٹکا- اسے لگا وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے- بلقیس، یہ وہی بندہ ہے جو اس روز ہمایوں کے پاس آیا تھا، جب ہمایوں نے فرشتے کو ڈانتا تھا؟اس نے البم ذرا اس کے قریب کیا- تمہیں یاد ہے تم نے مجھے بتایا تھا؟ نا جی، یہ تو کبھی نہیں آیا- یہ۔۔۔۔۔ یہ کبھی نہیں آیا؟اسے جھٹکا لگا تھا-تو پھر وہ کون تھا؟ پتا نہیں جی کوئی اپ کا رشتے دار تھا-آپ کے چچا تایا کسی کا بیٹا تھا- میرے چچا کا بیٹا؟ ایک منٹ، یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھو- وہ جلدی جلدی البم کےصفھے پیچھے کو پلٹنے لگی- پھر حسن کی تصویر پہ رکی- یہ تھا؟ نہیں جی ، یہ تو بڑا بابو لوگ ہے بی بی، وہ تو عمر میں کم تھا- کیا مطلب کم تھا؟وہ الجھی-بلقیس متذبذب سی کھڑی تھی، جیسے اپنی بات سہی نا پہنچا پا رہی ہو- اچھا یہ تو نہیں تھا؟اس نے ساتھ لگی وسیم کی تصویر کی طرف اشرہ کیا-بلقیس پہلے نا جی میں سر ہلانے لگی، پھر ئک دم رک گئی، اور چہرہ جھکا کر غور سے تصویر کو دیکھا-کافی دیر وہ تصویر کو بغور دیکھے گئی- ہاں ی یہ والا تھا، یہ ہی تھا- تو کیا وسیم؟ وہ ابھی حیران بھی نہ ہو پائی تھی کہ بلقیس نے معیز کی شکل پہ انگلی رکھی جو تصویر میں وسیم کے ساتھ کھڑا تھا-یہ سدرہ کی منگنی کی تصویر تھی- معیز؟ وہ معیز تھا؟ معیز آیا تھا؟وہ ششدر رہ گئی- یہ ہی تھا بی بی، مجھے اچھی طرح یاد ہے، ابھی ذرا بچہ لگ رہا ہے مگر شاید یہ پرانی تصویر ہے جی جب ادھر ایا تھا تو اس سے بڑا تھا، مسیں بھیگ رہی تھی قد بھی اونچا لمبا تھا، میں آپ کو کہہ رہی تھی نا کہ عمر میں کم تھا- اور وہ ایسی دم بخود بیٹھی تھی کہ کچھ کہہ ہی نا سکی-تصویر میں معیز بارہ سال کا تھا، اب بیس کا ہوگا اور جب وہ ادھر ایا تھا تو یقینا سترہ برس کا ہوگا-مگر وہ کیوں آیا؟وہ کیوں ہمایوں سے لڑا؟وہ دونوں کیوں بلند آواز میں جھگڑتے رہے؟ بہت سے سوال تھے جن کے جواب اسے معلوم نا تھے-بلقیس سے پوچھنا بے کار تھا-اس سے پہلے جب اس کے کزن کا ذکر کیا تھا تو ایسے تعظیم سے ان اور وہ آئے- جیسے الفاظ استعمال کیے تھے کہ وہ بالکل غلط سمجھ بیٹھی- مگر خیر، بلقیس کا قصور نہیں تھا اور پتا نہیں کس کا قسور تھا- اس نے بے دلی سے البم بند کیا اور میز پہ رکھ دیا- چمکیلی صبح برآمدے میں پھسل رہی تھی-بلقیس پائپ لگائے سفید سنگ مر مر کا چمکتا برآمدہ دھو رہی تھی- وہ صبح ناستے کا وقت تھا-ہمایوں کو اس کے کمرے میں ناشتہ دے کر بلقیس اب یہاں مصروف تھی-تیمور کدھر تھا، اسے کچھ پتا نہیں تھا، وہ آج اپنی فجر کی تلاوت نہ کر سکی تھی اب ادھر وہیل چئیر پہ بیٹھ کر وہی کرنا چاہ رہی تھی، مگر بار بار دھیان بٹ جاتا تھا- بلقیس پائپ اٹھائے برآمدے سے نیچے اتر گئی- اب ڈرائیو وے پہ پانی ڈال رہی تھی-برآمد ےکے فرش پہ کہیں کہیں پانی چمک رہا تھا- دقعتا دروازہ کھلا تو وہ چونک کر دیکھنے لگی- ہمایوں عجلت بھرے مصروف نداز میں کف بند کرتا باہر آرہا تھا-اس نے محمل کو ادھر بیٹھے دیکھا کہ نہیں، اس کے بے نیاز انداز سے یہ پتا لگانا مشکل تھا-وہ سیدھا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا- بلقیس نے جھاڑو اٹھائ اور بھاگ کر پائپ ڈرائیو وے سے ہٹایا- چوکیدار جو گھاس کاتٹرہا تھا پھرتی سے اگے بڑھا اور گیٹ کے دونوں پٹ کھول دیے- وہ گاڑی میں بیٹھا ، زور سے گاری کا دروازہ بند کیا اور پیچھے دیکھتا ہوا گاری نکال کر لے گیا- گیٹ کے دونوں پٹ کھلے رہ گئے-چوکیدار نے ابھی انہیں بند نہیں کیا تھا، وہ واپس درانتی اٹھائے گھاس کی طرف آگیا تھا- بلقیس پھر سے پانی کا فوارہ سفید بجری کے ڈرائیو وے پہ ڈالنے لگی- وہ سر جھٹک کر اپنی آیات کی طرف متوجہ ہوئی- مگر پھر پڑھتے پڑھتے نگاہ پھسلی، پہلے ناخنوں کے کناروں کو دیکھا، پھر ہاتھوں کو ، پھران سے ہوتی ہوئی پیروں پہ جا ٹکی اور پھر سے پائپ کے پانی کی طرف بھٹک گئی- کھلے گیٹ کے اس پار سامنے والوں کا گیٹ بھی کھلا نظر ارہا تھا-وہ بے دھیانی میں کسی سوچ میں گم ادھر دیکھے گئی-سامنے والوں کے گیٹ کے پاس ایک لڑکی کھڑی تھی، اس کے کندھے پہ پیارا سا پھولے پھولے گالوں والا بچہ تھا-ساتھ ہی گاری کا دروازہ کھولے ایک گڈ لکنگ سا آدمی مسکرا کر انہیں کچھ کہہ رہا تھا- لڑکی ہنس رہی تھی، پھر وہ آدمی جو غالبا اس کا شوہر تھا، گاری میں بیٹھ گیا اور لڑکی بچے کا ہاتھ پکڑ کر بائے بائے کے انداز میں گاری کی طرف ہلانے لگی-بچہ قلقاریاں مار رہا تھا-آدمی نے مسکرا کر ہاتھ ہلایا اور گاری اسٹارٹ کرنے لگا- ایک مکمل اور خوبصورت فیملی- وہ چپ چاپ ان تینوں کو دیکھے گئی، یہان تک کہ گاڑی فراٹے بھرتی سڑک پہ اگے نکل گئ اور لڑکی بچے کو کندھے سے لگائے گیٹ بند کرنے لگی- اس نے ہولے سے سر جھٹکا اور اپنی خاموش بالکل خاموش نظریں واپس قرآن پہ جھکا دیں اور پڑھا آگے کیا لکھا ہوا تھا- اس کی طرف مت دیکھا کرو جو ہم نے دوسرے جوڑوں کو عطا کیا ہے- محمل نے بے اختیار تھنڈی سانس لے کر سر اتھایا -پھر ادھر ادھر گردن گھمائی، بلقیس اپنے کام میں مگن تھی اور چوکیدار اپنے کام میں،وہاں کسی نے اس کی وہ ایک لمحے کی نظر نہیں پکڑی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر ۔۔۔۔۔ مگر- اس نے ذرا سی گردن اتھا کر اوپرآسمان کو دیکھا- مگر کوئی تھا جو اس کی لمحے بھر کی بھی بھٹکی نگاہ پکڑ لیتا تھا اور کسی دوسرے کو بتاتا بھی نہیں تھا-خاموشی سے اسے تنبیہہ کر دیتا تھا-سمجھا دیتا تھا،بہت احسان تھے اس کے اس پر ،وہ تو شکر بھی ادا نہیں کر سکتی تھی- بلقیس! آج کون سا دن ہے؟ایک دم اسے خیال ایا تو اسے پکارا- جمعہ ہے جی-وہ اب پائپ بند کر کے اسے سمیٹ رہی تھی- اوہ اچھا-اسے یاد ایا، آج سورہ کہف پڑھنی تھی-جانے وہ کیسے بھول گئی، خود کو سرزنش کرتی قرآن کے صفحے پلٹنے لگی- چوکیدار گیٹ بند کر کے اپنے کواٹر میں چلا گیا تھا اور بلقیس اندر، وہ برآمدے میں تنہا رہ گئی تھی، پہلے قران سے پڑھنے کا سوچا، مگر سورہ کہف یاد تھی ہی، سو قران میز پہ رکھا اور سر کرسی کی پشت پہ ٹکا کر آنکھیں موند لیں- کبھی کبھی اس کو لگتا اس کی زندگی مصحف قرانی کے گرد ہی گھومنے لگی ہے-اس کا کوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جس میں اس کا کردار نہ ہو-ہر لمحے ہر وقت وہ قرآن کو اپنے ساتھ رکھتی تھی-اب اس کے بغیر اس کا گزارہ بھی نہیں تھا- آنکھیں موند کے وہ بسم اللہ پڑھ کر سورۃ کہف پڑھنے لگی- اس ٹھندی صبح میں ہر طرف خاموشی اور میٹھی چاشنی چھاگئی تھی-وہ آنکھیں موندے اپنی تلاوت کر رہی تھی- ” ام حسبت ان اصحب الکہف۔۔۔۔۔۔۔ والرقیم۔۔۔ ابھی اس نے نویں آیت آصحب الکہف تک ہی پرھی تھی کہ کسی نے اگلا لفظ ” والرقیم” پڑھ دیا -اس کے ہلتے لب رک گئے-بہت حیرت سے چونکتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں- سامنے کھلے دروازے میں تیمور کھڑا تھا- اپنے نائٹ سوت میں ملبوس، کچی نیند سے خمار آلود آنکھیں لیے وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھ رہا تھا- وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی- چند لمحوں کے لیے سارے میں سناٹا چھا گیا- وہ دونوں بنا پتلیوں کو حرکت دیے ایک دوسرے کی انکھوں میں دیکھ رہے تھے- اور پھر اسی طرح تیمور کی بھوری آنکھوں کو نگاہوں میں لیے اس نے ہولے سے لب کھولے اور پھر سے وہ ایت دہرائی- ام حسبت ان اصحب الکہف- وہ دانستہ رکی تو تیمور کے ننھے سرخ ہونٹ حرکت کیے- والرقیم- “کانومن ایتنا عجبا ” اس نے اسے اپنی نظروں کے حصار میں لیے آیت مکمل کی- تیمور اسی طرح ساکت سا مجسمہ بنے کھڑا تھا جیسے برآمدے اور لان میں مبہوت ہوئی خلق کا حصہ ہو- ادھر اؤ- وہ بنا پلک جھپکے اسے دیکھتے ہوئے بولی- وہ کسی معمول کی طرح آہستہ سے چھوتے چھوتے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا- اس نے اس کے ہاتھ تھامنے کو دونون ہاتھ بڑھائے اور کسی سحر زدہ شخص کی طرح تیمور نے اپنے چھوتے چھوتے ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیے- تمہیں کیسے پتا چلا اصحب الکہف کے بعد والرقیم اتا ہے؟ وہ خاموش کھڑا رہا جیسے اسے خود بھی نا معلوم ہو- ” تمہیں سورہ کہف اتی ہے؟نرمی سے اس کے ہاتھ تھامے محمل نے پوچھا تو- اس نے آہستہ سے سر نفی میں ہلایا- پھر تمہیں کیسے پتا چلا؟ it……. it just slipped (میرے منہ سے نکل گیا)وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا- آنکھیں ابھی تک محمل کے چہرے پہ جمی تھیں- اسے یاد تھا کہ تیمور کی پریگننسی میں وہ ہر جمعہ کو یوں ہی بیٹھ کر انکھیں موند ے بلند آواز میں سورۃ کہف پڑھا کرتی تھی، تاکہ وہ جنم لینے سے قبل ہی قرآن کا عادی ہو اور شاید وہ واقعی عادی ہوگیا تھا ، اور شاید سات سال بعد اس نے یہ آواز سنی تھی-