اسے یاد تھا کہ تیمور کی پریگننسی میں وہ ہر جمعہ کو یوں ہی بیٹھ کر انکھیں موند ے بلند آواز میں سورۃ کہف پڑھا کرتی تھی، تاکہ وہ جنم لینے سے قبل ہی قرآن کا عادی ہو اور شاید وہ واقعی عادی ہوگیا تھا ، اور شاید سات سال بعد اس نے یہ آواز سنی تھی- تمہیں اور سورتیں آتی ہیں؟ اس نے پھر نفی میں سر ہلایا-وہ اپنے ہاتھ ابھی تک محمل کے ہاتھ میں دیے کھڑا تھا- تمہیں قرآن پڑھنا اتا ہے؟ اس نے اثبات میں گردن کو جنبش دی- مسجد جاتے ہو یا کہیں اور سے سیکھا ہے؟ گھر پہ قاری صاحب لگوائے تھے ڈیڈی نے- کتنی دفعہ قران ختم کیا ہے؟ ٹو ٹائمز- ” کیا قاری صاحب کا قران بھی یونہی سنا کرتے تھے جیسے میرا سنتے ہو؟ نہیں- وہ بالکل اچھا نہیں بولتے تھے- اور میں ؟ آپ ۔۔۔۔ آپ اچھا بولتی ہو- وہ اب بھی اٹک اٹک کر بول رہا تھا- اور فرشتے کا اچھا لگتا ہے؟ she never reads” ( وہ کبھی نہیں پڑھتیں) وہ recite (تلاوت کو) read (پڑھنا) کہہ رہا تھا۔ مگر وہ وقت اس کی غلطی نکالنے کا نہیں تھا، نہ ہی یہ بتانے کا کہ وہ کونسا پڑھتی ہوگی، وہ لمحے تو بہت خاس تھے، ان کو ضائع نہیں کرنا تھا- تم ایسا پڑھ سکتے ہو؟ نو! اس نے نفی میں گردن ہلائی- پڑھنا چاہتے ہو؟ وہ خاموش کھڑا اسے دیکھتا رہا – محمل نے آہستہ سے اس کے ہاتھ چھوڑے- چلو کل صبح پھر پڑھیں گے- اور سر وہیل چئیر کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں-اس نے سوچا کہ اسے کھلا چھوڑ دے-اگر وہ اس کا ہوا تو واپس اجائے گا، نہ ہوا تو نہ آئے گا- کافی دیر بعد اس نے انکھیں کھولی تو تیمور ادھر نہیں تھا- فرش کا پانی سوکھ چکا تھا- چڑیاں اڑ گئی تھیں-سرخ کیڑے اپنے بلوں میں جا چکے تھے- چیونٹیاں بکھر گئی تھیں، سفید بلی بھی واپس چلی گئی تھی- اور اللہ کی طرف بلانے والی بات سے اچھی بات کس کی ہو سکتی ہے بھلا- اس نے بے اختیار سوچا تھا- دشمن کو دوست بنانے کا احسن طریقہ تو اسی ایت میں دے رکھا تھا، اس کی سمجھ میں ذرا دیر سے آیا تھا- اگلی صبح وہ لان میں پہلے سے موجود تھی-لان میں لاؤنج کی کھڑکی کھلتی تھی اور اس کے سامنے تیمور کا کمرہ تھا -آواز کا راستہ صاف اور کھلا تھا- پچھلا پورا دن اس نے دانستہ تیمور کا سامنا نہیں کیا-وہ بھی کمرے سے باہر نہیں نکلا- اس کی غالبا چھٹیاں تھیں، سو آج کل گھر پہ ہی ہوتا تھا- وہ جانتی تھی کل قرآن سنا کر تیمور کو اس نے ذہنی طور پر ڈسٹرب کر دیا ہے-اگر واقعی وہ قران کی چاہ رکھتا ہے تو اس کے اندر مزید سننے کی خواہش ضرور بھڑکے گی اور وہ خود ہی چل کر ائے گا- اس نے نو ماہ اسے قرآن سنایا تھا- وہ سات سالوں میں اسے کیسے بھول سکتا تھا؟ بلقیس نے اسے لان میں ہی ٹیپ ریکارڈر سیٹ کر کے دے دیا تھا- اسے معلوم نہ تھا کہ تیمور ابھی جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے، پھر بھی اس نے پلے کا بٹن دبایا اور انچی اواز کر دی- قاری المشاری کی سورہ کہف چلنے لگی تھی-گو کہ قاری حضرات اور بھی بہت اچھے تھے- مگر جو بات قاری مشاری کے دھیمے ، پر سوز انداز میں تھی، وہ اسے دنیا میں کہیں نہیں لی تھی-اور سورۃ کہف تو شروع ہوتی اور اس کے آنسو بہنے لگتے تھے- پہلا رکوع ابھی ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ برآمدے کا دروازہ کھلا اور تیمور بھاگتا ہوا بڑامدے کی سیڑھیاں اتر کر گھاس پہ ایا- پھر اسے بیٹھے دیکھ کر اس کے قدم سست پڑ گئے- وہ کہنیوں تک آستین فولڈر کیے ہوئے تھا-جن کے کنارے اور اس کے بازو گیلے تھے-پاؤں بھی دھلے لگ رہے تھے-شاید وضو کر کے آیا تھا- اس نے مسکرا کر سر خم کر کے اسے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا-وہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا ہوا قریب ایا اور سامنے والی کرسی پہ بیٹھ گیا- دونوں خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے وہ مدھر ، مترنم سی اواز سنتے رہے جو غار والوں اور کتے والوں کا قصہ بیان کر رہی تھی- ان چند نوجوانوں کا قصہ جو کہیں چلے گئے تھے-اور دو باغوں کے مالک کا قصہ جسے اپنے مال اور اولاد پہ بہت غرور تھا-اور موسی علیہ السلام کا قصہ جو اللہ کہ ایک بندے سے ملنے اس جگہ کو ڈھونڈ رہے تھے جہاں مچھلی نے سمندر میں راستہ بنایا تھا-اور اس گردش کرنے والے آدمی کا قصہ جو سفر کرتا ہوا مشرق سے مغرب جا پہنچا تھا- وہ چار قصے تھے جو قرآن کے درمیاں مں رکھ دیے گئے تھے-جب وہ ختم ہوئے تو تیمور نے سر اٹھایا- محمل اب اسٹاپ کا بٹن دبا رہی تھی- تمہیں پتا ہے یہ کس کی آواز ہے؟ تیمورنے نفی میں سر ہلایا- یہ قاری مشاری تھے-تمہیں پتا ہے وہ کون ہیں؟ اس نے پھر گردن دائیں سے بائیں ہلائی- پہلے وہ سنگر تھے- پھر انہوں نے قرآن پڑھا تو گلوکاری چھوڑ دی اور قاری بن گئے-اان کے گیارہ مختلف ٹون میں قرآن مجید موجود ہیں۔ مگر مجھے یہ والی ٹون سب سے زیادہ پسند ہے، تمہیں پسند ائی؟ جی!وہ بے ساختہ کہہ اٹھا- کون کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی چیختا چلاتا بدتمیزی کرتا بچہ تھا ، جو اب جاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا- چند لمحے وہ خاموشی سے اپنے بیتے کو دیکھتی رہی- (آخر تھا تو وہ بچہ ہی، کتنا ناراض رہ سکتا تھا بھلا؟)اور پھر آہستہ سے بولی- مجھ سے ابھی تک خفا ہو؟ تیمور نے آنکھیں اٹھا کر خاموشی سے اسے دیکھا، منہ سے کچھ نہ بولا- کیوں خفا تھے مجھ سے؟ وہ چپ رہا بالکل چپ- تمہیں میں بری لگتی ہوں؟تمہارا دل کرتا ہے تم مجھے قتل کردو؟ نو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیور! وہ گھبرا کر کہہ اٹھا، پھر ایک دم چپ ہو کر لب کاتنے لگا- تم پہلے تو ایسے نہیں تھے-تم اسپتال میرے لیے پھول لے کے اتے تھے، مجھ سے اتنی باتیں کرتے تھے، تمہیں بھول گیا ہے؟ اس کی بھوری انکھوں میں استعجاب پھیل گیا- آپ کو سنائی دیتا تھا سب؟ زندگی میں پہلی دفعہ اس نے محمل سے یوں بات کی، وہ اندر سے تڑپ کر رہ گئی- تمہیں لگتا تھا کہ میں اپنے تیمور کی باتیں نہیں سنوں گی؟کیا ایسا ہو سکتا ہے؟اس نے الٹا سوال پوچھا-تردید نہیں کی، نہ جھوٹ بولنا چاہتی تھی، نہ ہی اسے مایوس کرنا چاہتی تھی- آپ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ پھر اس رات بولتی کیوں نہیں تھی جب ڈیڈی نے مجھے مارا تھا؟ آپ کو سب سنتا تھا تو آپ بولتی کیوں نہیں تھیں؟اس کی آوازبلند ہونے لگی تھی غصے سے نہیں دکھ سے – میں بول نہیں سکتی تھی ، بیمار تھی- اور۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔۔ ڈیڈی نے تمہیں مارا کیوں تھا؟ وہ تڑپ کر رہ گئی مگر بظاہر خود کو کمپوزڈ رکھا- وہ اس چریل (چڑیل ) سے شادی کر رہے تھے- میں نے ان سے بہت لڑائی کی تھی- اس کی موٹی موٹی بھوری آنکھیں ڈبڈبا گئیں- وہ کہتے تھے وہ اس بچ سے شادی کر لیں گے- وہ آپ کو ڈائیورس کر دیں گے- میں ان سے بہت لڑا تھا- اور ایک دم وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا- “تیمور ! وہ متحیر رہ گئی-اس نے کبھی اسے روتے نہیں دیکھا تھا-محمل نے بے اختیار بازو بڑھا کر اس کے ہاتھ تھامے- میرے پاس آؤ-اسے ہاتھوں سے تھام کر کھڑا کیا اور خود سے قریب کیا- ڈیڈی نے کیوں مارا تمہیں؟ میں نے کہا تھا کہ میں ان کو اور اس وچ کو گھر میں نہیں رہنے دوں گا–انہوں نے کہا کہ تمہاری ماں ایک بری عورت ہے-میں نے ان پہ بہت شاؤٹ کیا،تو انہوں نے مجھے ادھر تھپڑ مارا-اس نے ہاتھ اہنے آنسوؤں سے بھیگے گال پہ رکھا- محمل نے بے اختیار اس کا گال چوما- وہ بیٹھی تھی، اور وہ اس کے ساتھ کھڑا رو رہا تھا- تم میرے پاس ائے تھے؟ ہاں ، میں اتنی دیر آپ کے پاس روتا رہا تھا-بٹ یو ور سلیپنگ-آپ نے مجھے جواب نہیں دیا،آپ نے مجھے اکیلا چھوڑ دیا، آپ بولتی نہیں تھی،آپ نے مجھے پیار بھی نہیں کیا- اور تم مجھ سے ناراض ہو گئے؟وہ ہچکیوں کے درمیان آنسو پونچھ رہا تھا- میں تب بیمار تھی بول نہیں سکتی تھی، لیکن اب میں تمہارے پاس ہوں نا، اب تو تم ناراض نہیں ہو ؟ ہتھیلی کی پشت سے آنکھیں صاف کرتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا -اس نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا- ایک دم ہی اس کے ادھورے وجود میں ٹھنڈک اتر آئی-اسے لگا وہ مکمل ہوگئی ہے، اب اسے کسی ہمایوں داؤد نامی شخص کی ضرورت نہیں تھی-اسے اس کا تیمور واپس مل گیا تھا- وہ دن بہت خوبصور ت دن تھا – جب وہ دونوں خوب رو چکے تو مل بیٹھ کر خوب باتیں کیں،کبھی لان میں ، کبھی ڈائننگ ٹیبل پہ ، کبھی لاؤنج میں اور پھر تیمور کے کمرے میں- اس سے بات کر کے محمل کو پتہ چلا تھا کہ اس کا یہ رویہ اس رات کا رد عمل تھا جو اس نے ہمایوں سے تھپڑ کھانے کے بعد محمل کو پکارتے گزاری تھی-شاید وہ ساری رات روتا رہا تھا،مگر اس کی ماں نے جواب نہیں دیا تھا تو وہ بدظن ہو گیا تھا-مگر بچہ تھا آخر کتنی دیر ناراض رہ سکتا تھا-بالآخر اپنے اندر کا سارا لاوا نکال کر اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا اور یہ بد گمانی کی عادت تو اس نے اپنے ماں اور باپ دونوں سے ورثے میں ملی تھی-اس کا قصور نہیں تھا – اس کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ وہ آرزو اور ہمایوں کے تعلق کے بارے میں بھی جانتا تھا-مگر محمل دانستہ اس موضوع کو نہیں چھیڑتی تھی- محمل کو اب احساس ہوا تھا کہ ےیمور غیر معمولی ذہن اور سمجھدار لڑکا تھا-وہ ایک ایک چیز کے بارے میں خبر رکھتا تھا-اسے معلوم تھا کہ کب ہمایوں نے اسے طلاق دی ، کب جھڑکا، کب اس پہ چلایا اور دوسری ہو شئے جو ان دونوں کے درمیان تھی، وہ ظاہر کرتا تھا کہ اسے اس سے نفرت ہے،مگر اس کے باوجود وہ اس کے ہر پل کی خبر رکھتا تھا- اگر ڈیڈی نے آپ کی ڈائیورس واپس نا لی تو آپ یہاں سے چلی جائیں گی؟وہ دونوں تیمور کے کمرے میں بیٹھے تھے،جب اس نے بے حد اداسی سے کہا- جانا تو ہے- مگر ابھی ٹو اینڈ ہاف منتھ آپ ادھر ہی ہیں نا؟ آپ کی ڈائیورس کے تھری منتھس بعد تک اپ نے یہیں رہنا ہے نا؟ وہ اپنی باتوں سے اسے حیران کر دیتا تھا-اس کی عمر اتنی نہیں تھی ، مگر وہ ہر بات سمجھتا تھا- ہاں۔۔۔۔۔۔ ابھی تو ہاف منتھ ہوا ہے،ابھی تو ٹائم ہے،کیا پتا ڈیڈی – ڈائیورس واپس لے لیں- اس نے سوچا کہ اسے سمجھائے کہ پہلی طلاق واپس نہیں ہوتی ، بلکہ اس میں رجوع ہو سکتا ہے، مگر اس کے ننھے دماغ کو خواہ مخواہ کہاں الجھاتی ، سو بات بدل دی- مجھے اپنی بکس دکھاؤ- آپ ٹاپک مت چینج کریں، میں آپ کو ساری بکس دکھا چکا ہوں- اوہ میرا مطلب تھا کاپیز دکھاؤ- محمل۔۔۔۔۔۔۔۔ محمل- اس سے پہلے کہ تیمور جواب دیتا ، اس نے فرشتے کی آواز سنی جو باہر اسے پکار رہی تھی-اس کی وہیل چئیر دروازے سے ذرا دور تھی- سو اس نے تیمور کو اشارہ کیا- بیٹا! دروازہ کھولو- پلیز نو! اس نے برا سا منہ بنایا اور وہیں بیڈ پہ بیٹھا رہا- محمل – فرشتے کی آواز میں پریشانی تھی- تیمور پلیز دروازہ کھولو خالہ بلا رہی ہیں-وہ چاہتی تو فرشتے کو آواز دے لیتی ، مگر ابھی تیمور کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی- شی از ناٹ مائی خالہ- وہ منہ ہی منہ میں بدبداتا اٹھا ، دروازہ آدھا کھول کر سر باہر نکالا اور غصے سے بولا- واٹس رانگ ود یو؟ اوہ سوری سنی میں محمل کو ڈھوند رہی تھی- فرشتے کی خجل سی آواز آئی- شی از ود می، پلیز ڈونٹ ڈسٹرب از- اس نے زور سے دروازہ بند کیا- پھر واپس مڑا تو محمل قدرے خفا سی اس کو دیکھ رہی تھی- وہ میری بہن ہے، تم اسے مجھ سے بات بھی نہیں کرنے دو گے یٹا؟ آپ کیوں اس وچ نمبر ٹو کو پسند کرتی ہیں؟ میرا تو دل کرتا ہے اسے کہوں اپنا بروم اسٹک اٹھائے اور یہاں سے چلی جائے-بگڑ کر کہتے ہوئے اس نے پلٹ کر دروازہ کھولا- آجاؤ – فرشتے کا چہرہ دکھائی دیا تو محمل نے مسکرا کر کہا- وہ حیران سی دروازے میں کھڑی تھی- تم اور سنی ۔۔۔۔۔۔ اوہ گاڈ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیسے ہوا ؟وہ حیرت زدہ بھی تھی اور خوش بھی- بس اللہ کا شکر ہے!اس نے مسکراہٹ دبا کر کندھے اچکائے، جیسے خود بھی اس خوش گوار واقعے پہ لا جواب ہوگئی ہو- آئی ایم سو ہیپی محمل!فرط جذبات سے محمل کی انکھیں ڈبڈبا گئیں-اور اس سے پہلے کہ محمل جوابا کچھ کہہ پاتی تیمور زور سے بولا ــــــــــ نو یو آر ناٹ، آپ جھوٹ بولتی ہو، مجھے سب پتا ہے-فرشتے کا چہرہ ماند پڑ گیا- سنی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یو کین گو ناؤ، جسٹ گو اوے! وہ ایک دم زور سے چلایا- فرشتے لب کاٹتی ایک دم پلٹی اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف چلی گئی- تیمور بھی غصے میں مٹھیاں بھینچ رہا تھا-وہ گئی تو اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور قریب رکھا کاغذ پھاڑ ڈالا- پھر اس کے ٹکڑے دروازے پہ دے مارے- محمل بغور اس کا رویہ دیکھ رہی تھی-وہ واپس آکر بیڈ پہ بیٹھا تو اس نے اس کی رف کاپی اٹھائی ، تین صفحے نکال کر اسے پکڑاتی جا رہی تھی اور وہ وحشیانہ انداز میں اسے پھاڑتا جا رہا تھا-یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور سر ہاتھوں پہ گرا دیا – محمل نے اس کی کاپی بند کر کے بیڈ پہ ڈال دی – اٹھو پانی پیو اور مجھے بھی پلاؤ- اس کے اندر کا لاوا باہر اچکا تھا- سو خاموشی سے اٹھا اور باہر چلا گیا- چند لمحوں بعد واپس ایا تو اس کے ہاتھ میں پانی سے بھرا شیشے کا گلاس تھا-محمل نے گلاس تھاما، پانی پیا اور پھر گلاس واپس اس کی طرف بڑھا یا- اس کو بھی دیوار پہ مارو اور توڑ دو- تیمور لب کاٹتے اسے دیکھتا رہا ، گلاس لینے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا- اسے توڑنا چاہتے ہو؟ نو- اب وہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا – چلو لان میں چلتے ہیں، میں تمہیں ایک سٹوری بھی سناؤں گی- اس کی بات پہ وہ مسکرا دیا ، اور گلاس اس سے لے کر دروازہ کھولا ، پھر ایک طرف ہٹ کر اسے راستہ دیا – وہ آسودگی سے مسکراتی وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں ہاتھوں سے گھماتی آگے بڑھنے لگی- وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھے تھے- محمل کے ہاتھوں میں قرآن کے قصوں کی کتاب تھی اور وہ موسی علیہ السلام کا قصہ تیمور کو سنا رہی تھی-ان گزرے کچھ دنوں میں اس نے آہستہ آہستہ بہت سے قصے تیمور کو سنا ڈالے تھے-وہ چاہتی تھی کہ تیمور میں قرآن کا شوق پیدا ہو جائے- اور پھر موسی علیہ السلام کی ماں کا دل خالی ہو گیا- دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ لا شعوری طور پر رک گئی- جانتی تھی اس وقت کون ایا ہوگا- بھاری قدموں کی چاپ سنائی دی تھی-اس نے سر نہیں اٹھایا- آگے بتائیں نا ماما!تیمور چند لمحو ں کے انتظار کے بعد بے چین ہو گیا، اسی پل ہمایوں اندر داخل ہوا ،بے ساختہ ہی محمل نے سر اٹھا لیا- وہ تھکا تھکا سا سرخ آنکھیں لیے ، آستین کہنیوں تک فولڈ یے چلا آرہا تھا-ان دونوں کو یوں اکٹھا بیٹھے دیکھ کر ایک دم ٹھٹک کر رکا- آنکھون میں واضح حیرت اور الجھن ابھری-وہ پچھلے دنوں کافی دیر سے گھر ارہا تھا اور سوئے اتفاق وہ ان کی اس دوستی کے بارے میں کچھ جان سکا نہ ہی دیکھ سکا- محمل نے نگاہیں کتاب پر جھکا لیں اور آگے پڑھنے لگی- اسی لمحے فون کی گھنٹی بجی-تیمور صوفے سے اٹھا اور لپک کر فون ریسیور اٹھایا- ہیلو؟ کچھ دیر تک وہ دوسری طرف سنتا رہا، پھر سر ہلایا، جی وہ ہیں ، ایک منٹ! وہ ریسیور ہاتھ میں پکڑے محمل کی طرف گھوما-اسی پل ہمایوں کے کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز ائی- ماما! آپ کا فون ہے- کون ہے؟وہ ذرا حیران ہوئی-اس کے لیے بھلا کہاں فون آتے تھے- وہ کہہ رہے ہیں ان کا نام آغا فواد ہے-تیمور نے ریسیور اس کی طرف بڑھایا- تار لمبی تھی ریسیور اس تک پہنچ ہی گیا- آغافواد؟ وہ بے یقینی سے بڑ بڑائی، پھر ریسیور تھاما-کتنی ہی دیر وہ سن سی اسے کان کے ساتھ لگائے بیٹھی رہی- ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہیلو” اور پھر بمشکل لفظ ہونٹوں سے نکل ہی پایا تھا کہ کسی نے سختی سے ریسیور اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا- محمل نے بری طرح چونک کر پیچھے دیکھا- میرے گھر میں یہ سب نہیں ہوگا، یہاں سے جا کر جو بھی کرنا ہو کر لینا-ریسیور ہاتھ میں لیے ہوئے درشتی سے کہتا ہوا وہ محمل کے ساتھ آغآ فواد کو بھی سنا چکا تھا- وہ ششدر سی بیٹھی رہ گئی-ہمایوں نے ایک شعلہ بار نگاہ اس پہ ڈالی اور ریسیور کھٹاک سے کریڈل پہ ڈال دیا-پھر جیسے آیا تھا اسی طرح تیز تیز سیڑھیاں چڑھتا گیا- تیمور خاموشی سے مگر بغور سب دیکھ رہا تھا، ہمایوں واپس ہو لیا تو وہ آہستہ سے محمل کی طرف بڑھا- ماما! اس نے ہولے سے محمل کا ہاتھ چھوا،پھر ہلایا- وہ اسی طرح شل سی بیٹھی تھی- ” ایک بار پہلے بھی ان کا فون آیا تھا اپ کے لیے، ڈیڈی نے تب ان کو کہا تھا یہاں کوئی محمل نہیں رہتی، ماما! ڈیڈی ان کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں؟وہ تو آپ کے کزن ہیں نا؟ وہ ابھی تک سن تھی، پہلی بار ہمایوں نے اتنی زہریلی بات کی تھی-یہ اتنا سارا زہر اس کے اندر کس نے بھر دیا تھا؟ اچھا چھوڑیں نا، مجھے اسٹوری اگے سنائیں-وہ اس کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ ہلا کر اسے متوجہ کیا- محمل نے سر جھٹک کر کتاب اٹھا لی- وہ لان میں بیٹھی تھی اور تیمور پانی کا پائپ اٹھائے گھاس پہ پانی کا چھڑکاؤ کر رہا تھا-قطرے موتیوں کی طرح سبز گھاس پہ گر رہے تھے-جب اسے زندگی میں گھپ اندھیرا نظر آنے لگا تھا ،وہیں پہ فجر کی پہلی کرن چمکی تھی-ہمایوں کی بے وفائی کا غم اب اتنا شدید نہیں رہا تھا جتنا اس سے قبل تھا-تیمور کی محبت مرہم کا کام کر رہی تھی- شام اتر رہی تھی جب اس نے گیٹ پر آہٹ سنی تو گردن موڑ کے دیکھا، فرشتے نے باہر سے ہاتھ اندر کر کے گیٹ کا ہک کھولا تھا اور اب وہ دروازہ کھول کے داخل ہوئی تھی-اس کے ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھا اور وہ اپنے مخصوص سیاہ عبایا اور اسکارف میں ملبوس تھی- جس میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا- وہ غآلبا مسجد سے آرہی تھی-اس وقت وہ ادھر پڑھانے جاتی تھی- السلام علیکم، جلدی آگئیں؟اسے آتے دیکھ کر محمل نے مسکرا کر مخاطب کیا- ہاں بس ذرا تھک گئی تھی-وہ تھکان سے مسکراتی اس کی طرف چلی ائی- کھانا کھا لیں، آپ نے دوپہر میں بھی نہیں کھایا تھا- ہاں کھاتی ہوں- اس نے تھکے تھکے انداز میں کہہ کر انگلی سے کنپٹی سہلائی-اس کی مخروطی انگلی میں چاندی کی وہی انگوٹھی تھی جو وہ اکثر دیککھتی تھی-جانے کیوں وہ محمل کو قدرے پریشان لگ رہی تھی- خیریت فرشتے؟مجھے آپ ٹینس لگ رہی ہیں- نہیں تو- وہ پھیکا سا مسکرائی-تب ہی فاصلے پہ کھڑے تیمور نے پائپ پھینکا اور ان کی طرف آیا – وہ ٹینس بھی ہیں تو آپ کیوں کئیر کرتی ہیں؟جسٹ لیو ہر الون! وہ بہت غصے اور بد تمیزی سے بولا تھا- محمل نے فرشتے کی مسکراہٹ کو واضح ماند پڑتے دیکھا، اس کا دل دکھا- تیمور بیٹا ! وہ تمہاری خالہ ہیں ایسے بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسٹ گو! چلی جاؤ آپ یہاں سے -وہ پیر پٹخ کر چیخا -بالکل ہمایوں کا پرتو- سوری سنی! وہ شکستگی سے اٹھی، بیگ ہاتھ میں لیا اور تیز تیز قدموں سے لان کی روش پار کر گئی- اور جہاں میری ماما ہوں وہاں مت ایا کرو-وہ اس کے پیچھے چلایا تھا- محمل نے تاسف سے برآمدے میں دیکھا، جہاں فرشتے دروازہ بند کر کے غائب ہو گئی تھی- تیمور ابھی تک لب بھینچے دروازے کو دیکھ رہا تھا- اف۔۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکا ۔۔۔۔۔۔ کیسے سمجھاؤں اسے کہ تمہارے بڑے تمہارے دشمن نہیں ہیں- وہ سر جھٹک کر رہ گئی- وہ کچن میں اپنی وہیل چئیر پہ بیٹھی تھی-گود میں ٹوکری تھی جس میں مٹر رکھے تھے-تیمور بلقیس کے ساتھ مرکز تک گیا تھا-وہ مٹر چھیلتے ہوئے لا شعوری طور پر اس کا انتظار کر رہی تھی- کچن کا دروازہ نیم وا تھا-وہ ویسے بھی اس سمت میں بیٹھی تھی کہ لاؤنج میں نظر نا آسکتی تھی- تب ہی اسے بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز ائی اور ساتھ قدموں کی چاپ بھی پھر قریب اتی آوازیں ۔۔۔۔ مٹر چھیلتے اس کے ہاتھ ٹھہر گئے۔۔۔۔۔۔ ایسا کب تک چلے گا ہمایوں؟وہ آرزو تھی اور تنک کر کہہ رہی تھی- کیا؟ انجان مت بنو-ہم کب شادی کر رہے ہیں؟ان کی آواز قریب آرہی تھیں-وہ دم سادھے بیٹھی رہ گئی-مٹر کے دانے ہاتھ سے پھسل گئے- کر لیں گے- اتنی جلدی بھی کیا ہے- کیا مطلب جلدی؟اتنا عرصہ ہو گیا ہے تمہیں اسے طلاق دیئے ہوئے- اس کی عدت ختم ہو لینے دو- اور کب ختم ہوگی وہ؟ ایک دو ہفتے رہتے ہیں- وہ رسان سے کہہ رہا تھا- وہ دونوں وہیں لاؤنج کے وسط میں کھڑے باتیں کر رہے تھے- کیا اس کی عدت ختم ہونے سے پہلے ہم شادی نہیں کر سکتے؟ نہیں ! اس کا انداز اتنا سرد مہر اور قطعی تھا کہ پل بھر کو آرزو بھی چپ رہ گئی- مگر ہمایوں۔۔۔۔۔۔ ! اس نے کہنا چاہا- کہا نا نہیں! وہ اب سختی سے بولا تھا- اگر تمہیں منظور نہیں ہے تو بے شک شادی نہ کرو- جاؤ چلی جاؤ- وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا- نہیں ، ہمایوں ، سنو ، رکو- وہ بوکھلائی ہوئی سی اس کے پیچھے لپکی- سیڑھیاں چڑھنے کی اواز مدھم ہو گئیں۔۔۔۔ وہ دونوں اب اس سے دور جا چکے تھے- ماما!کتنی ہی دیر بعد تیمور نے اسے پکارا تو اس نے چونک کر سر اٹھایا -وہ اس کے سامنے کھڑا تھا- تم کب آئے؟ وہ سنبھلی- ماما! وہ آہستہ سے اس کے قریب آیا – آپ رو رہی ہیں؟ اس نے اپنے ننھے ننھے ہاتھ اس کے چہرے پہ گرتے آنسوؤں پہ رکھے- وہ حیران رہ گئی- پتا نہیں کب یہ آنسو پھسل پڑے تھے- آپ نہ رویا کریں- وہ اب آہستہ سے اس کے آنسو صاف کر رہا تھا – محمل بھگی آنکھوں سے مسکرائی اور اس کے ہاتھ تھام لیے- میں تو نہیں رو رہی- آپ رو رہی ہیں- میں بچہ تھوڑی ہوں- وہ اس کی غلط بیانی پر خفا ہوا – اچھا اب تو نہیں رو رہی – اور شاپ سے کیا لائے ہو؟ چپس! اس نے چپس کا پیکٹ سامنے کیا- اور میں اتنی دیر سے گیا ہوا ہوں پر آپ نے ابھی تک مٹر نہیں چھیلے یو آر ٹو سلو ماما! اس نے مٹر کی ٹوکری اس کی گود سے اٹھائی اور کاؤنٹر پر رکھ دی – آئیں باہر چلتے ہیں- رہنے دو تیمور میرا دل نہیں کر رہا – بلقیس بوا! اس کی سنے بغیر بلقیس کو پکارنے لگا ماما کو باہر لے اؤ- اور وہ اپنی نا قدری کا غم اندر ہی اندر دباتی رہ گئی- بڑے عرصے سے لائبریری کی صفائی نہیں ہوئی تھی- وہ کتنے دنوں سے سوچ رہی تھی کہ کسی دن کروالے ، آج ہمت کر ہی لی- بلقیس کو تو کہنے کی دیر تھی- وہ فورا لگ گئی- وہ دروازے کی چوکھٹ پہ وہیل چئیر پہ بیٹھی ہدایات دے رہی تھی- یہ والی بکس اندر رکھ دو ، اس طرف والی سامنے کر دو- میز سے یہ سب ہٹا لو اور اس والے شیلف میں رکھ دو- جھاڑ پونجھ سے گرد آڑ رہی تھی- سالوں سے کسی نے کتابوں کو صاف نہیں کیا تھا- بیبی ان کو تو کیڑا لگ گیا ہے-وہ پریشان سی کچھ کتابوں کے کنارے دکھا رہی تھی- تاریخ کی پرانی کتابیں- ان کو الگ کر دو- اور وہ دراز خالی کرو،یہ اس میں رکھ دیں گے- اچھا جی! بلقیس اب اسٹڈی ٹیبل کی درازوں سے کتابیں نکال رہی تھی- ان کو اس آخری شیلف پہ نا سیٹ کردوں؟ اس نے دراز سے نکلنے والی کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا- ہاں کردو- اسے بھلا کیا اعتراض تھا- بلقیس پھرتی اور انہماک سے کتابیں صاف کر کے اوپر لگانے لگی – ڈھیر ذرا ہلکا ہوا تو اسے اس کتابوں کے بیچ ایک بھولا ہوا خاکی لفافہ رکھا نظر آیا- یہ لفافہ اٹھا کر دو- شاید ہمایوں کے کام کا ہو- کتابیں سیٹ کرتی بلقیس رکی اور خاکی لفافہ اٹھا کر اسے تھمایا- لفافہ وزنی نہیں تھا ، مگر بھولا ہوا تھا- اس نے الٹ پلٹ کر دیکھا- کوئی نام پتہ نہیں لکھا تھا- اوپر اکھڑی ہوئی سی ٹیپ لگی تھی جیسے کھول کر پھر لگا دی گئی ہو- پتا نہیں کس کا ہے- بنا کسی تجسس کے ٹیپ اتاری اور لفافہ گود میں الٹ دیا – ایک عدالتی کاغذ اور ساتھ ایک سفید خط کا کور گود میں گرا- اس نے زرد عدالتی کاغذ اٹھایا- اس کی تہیں کھولیں اور چہرے کے سامنے کیا- اسٹمپ پیپر کی تحریر کے نیچے بہت واضح دستخط تھے- محمل ابراہیم- فرشتے ابراہیم- وہ بری طرح سے چونکی اور تیزی سے اوپر تحریر پہ نگاہیں دوڑائیں- یہ وہی کاغذ تھا جو فواد نے اس سے اور فرشتے سے سائن کروایا تھا- وسیم سے نکاح نہ کروانے کی شرط پہ، اس کی گردن پستول رکھ کر- مگر یہ ادھر ہمایوں کی لائبریری میں کیا کر رہے ہیں؟وہ تو اس معاملے سے قطعی لا علم تھا-یہ موضوع کبھی زیر بحث ایا ہی نہیں، بس ایک دفعہ آغآ جان کے گھر سے واپسی پہ ہمایوں نے اسے اپنا حصہ لینے کے لیے کہا تھا مگر وہ ٹال گئی تھی-اگر وہ روہ راست پوچھتا تو وہ بتا دیتی -پھر فرشتے نے بھی نہیں بتایا کہ یہ کاغذ اس کے ہاتھ کیسے لگا اور کیا وہ اس کی وجہ سے اس سے بدظن تھا؟مگر یہ اتنی بڑی وجہ تو نہیں تھی-اور یہ کاغذ ہمایوں کے ہاتھ لگا بھی کیسے یہ تو اس کے پاس تھا- اس نے دوسرا سفید لفافہ اٹھایا- وہ بے دردی سے چاک کیا گیا تھا اس نے اس کے کھلے منہ میں جھانکا اندر کچھ فوٹو گراف تھے شاید- محمل نے لفافہ گود میں الٹ دیا- چند تصویریں اس کے گھٹنے پر پھسلتی فرش پہ جا گریں اس نے ہاتھ جھکا کر تصویروں کو اٹھایا اور سیدھا کیا- وہ فواد اور محمل کی تصاویر تھیں-فواد۔۔۔۔۔۔۔ اور محمل ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ساکت سی ان تصویروں کو دیکھ رہی تھی-ان میں وہ کچھ تھا جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا تھا- گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا فواد اور اس کے کندھے پہ سر رکھے محمل۔۔۔۔۔ ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتا فواد اور محمل۔۔۔۔۔ ایک ساتھ کسی شادی میں رقص کرتے ۔۔ قابل اعتراض تصاویر۔۔قابل اعتراض مناظر۔۔ وہ سب جو کبھی نہیں ہوا تھا۔۔۔ اس نے پھر سے تصویر کو الٹ پلٹ کر دیکھا- اس کا لباس اور چہرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر تصویر میں ذرا الگ تھا-کوئی بچہ بھی بتا سکتا تھا کہ وہ کوئی فوٹؤ شاپ یا ایسی ہی کسی ٹرک کا کمال ہے-پہلی نظر میں واقع پتا نہیں چلتا تھا-مگر بغور دیکھنے سے سب ظاہر ہو جاتا تھا کہ وہ سب نقلی ہے ہمایوں خود ایک پولیس آفیسر تھا، وہ ان بچوں والی باتوں میں نہیں آسکتا تھا-اور کس نے لا کر دیں اس کو یہ تصاویر؟ کیا معیز جو ایک دفعہ آیا تھا، اسی لیے آیا تھا؟اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا- پزل کے سارے ٹکڑے ایک ساتھ جڑنے لگے- آرزو نے کہا تھا کہ وہ ہمایوں کو اس سے چھین لے گی- محمل کو سجا سنورا اور ہنستا بستا دیکھ کر شاید شدید حسد کی آگ میں جلنے لگی تھی-اس سے اس کی خوشیاں برداشت نہیں ہو رہی تھیں، پھر اسد چچا کی ناگہانی موت کے بعد یقینا وہ لوگ مالی کرائسز کا شکار ہوئے ہونگے-ایسے میں محمل کی طویل بے ہوشی نے آرزو کو امید دلائی ہوگی-اور شاید یہ سب ایک سوچا سمجھا پلان تھا- یہ جعلی تصاوہر بنا کر، محمل اور فرشتے کا دستخط شدہ کاغذ ہمایوں کو دکھا کر اس نے ہمایوں کو بھڑکایا ہوگا- مگر کیا ہمایوں چھوٹا بچہ تھا جو ان کی باتوں میں آجاتا؟کیا ایک منجھا ہوا پولیس آفیسر اس قسم کے بچکانہ کھیل کا شکار بن سکتا تھا؟کیا بس اتنی سی باتوں پہ ہمایوں اتنا بدظن ہو گیا تھا؟اپنی بیوی سے دوری اور آرزو سے بڑھتا ہوا التفات۔۔۔۔۔۔۔۔ پزل کا کوئی ٹکڑا اپنی جگہ سے غائب تھا-پوری تصویر نہیں بن رہی تھی- اس نے بے اختیار ہو کر سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا-دماغ چکرا کر رہ گیا تھا- بی بی تسی ٹھیک ہو؟بلقیس نے اس کا شانہ ہلایا تو وہ چونکی- ہاں مجھے باہر لے جاؤ-اس نے جلدی سے تصویریں لفافے میں ڈالیں،مبادا بلقیس انہیں دیکھ نہ لے- پزل کا کوئی ٹکڑا واقعی غائب تھا- شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، جب بیرونی گیٹ پہ ہارن کی آواز سنائی دی- وہ جو دانستہ لاؤنج میں بیٹھی تھی، فورا الرٹ ہوگئی- ہمایوں کی گاڑی زن سے اندر داخل ہونے کی آواز آئی- پھر لاک کی کھٹ کھٹ، وہ سر جھکائے بیٹھی تمام آوازیں سنتی گئی، یہاں تک کہ دروازے کے اس طرف بھاری بوٹوں کی چاپ قریب آگئی -اس نے بے چینی سے سر اٹھایا- وہ اندر داخل ہو رہا تھا،یونیفارم میں ملبوس ، کیپ ہاتھ میں لیے ، وہ چند قدم چل کر قریب آیا، اسے وہاں بیتھا دیکھ کر لنحے بھر ککو رکا- السلام علیکم۔مجھے آپ سے بات کرنی ہے-اس نے آہستہ سے کہا- بولو-وہ اکھڑے تیوروں سے سامنے اکھڑا ہوا- آپ بیٹھ جائیں- میں ٹھیک ہوں بولو- محمل نے گہری سانس لی اور الفاظ ذہن میں مجتمع کیے- مجھے صرف ایک بات کا جواب چاہیئے ہمایوں!بس ایک بار مجھے بتا دیں کہ میرے ساتھ اپ ایسا کیوں کر رہے ہیں-آنسوؤں کا گولا اس کئ حلق میں پھنسنے لگا تھا- کیا کر رہا ہوں؟ آپ کو لگتا ہے آپ کچھ نہیں کر رہے؟ علیحدگی چاہتا ہوں ، یہ کیا کوئی جرم ہے؟وہ سنجیدہ اور بے نیاز تھا- مگر۔۔۔۔۔۔ آپ اتنے بدل کیوں گئے ہیں؟آپ پہلے تو ایسے نہیں تھے-نہ چاہتے ہوئے بھی وہ شکوہ کر بیٹھی- پہلے میں کاٹھ کا الو تھا،جس کی انکھ پہ پٹی بندھی تھی-ہوش اب ایا ہے، دیر ہوگئی ، مگر خیر- ہو سکتا ہے کسی نے اب آپ کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی ہو-آپ مجھے صفائی کا ایک موقع تو دیں- اس نے سوچا تھا وہ اس کی منت نہیں کرے گی ، مگر اب وہ کر رہی تھی،یہ وہ شخص تھا جس سے اسے بے حد محبت تھی،وہ اسے نہیں چھوڑنا چاہتی تھی- صفائی کا موقع ان کو دیا جاتا ہے جن پر شک ہو-مگر جن پر یقین ہو، ان پہ صرف حد جاری ہوتی ہے-وہ بہت چبا چبا کر بولا تھا- یہ آپ کی اپنی بنائی گئی حدود ہیں ایس پ صاحب!لوگوں کو ان کے اوپر نہ پرکھیں-کھوٹے کھرے کو الگ کرنے کا پیمانہ دل میں ہوتا ہے،ہاتھوں میں نہیں،کہیں آپ کو پچھتانا نہ پڑ جائے- کھوٹے کھرے کی پہچان مجھے بری دیر سے ہوئی ہے محمل بی بی!جلدی ہوتی تو اتنا نقصان نہ اٹھاتا- ان تین ماہ میں پہلی دفعہ اس نے محمل کا نام لیا تھا-وہ اداسی سے مسکرا دی- “اگر میں کھوٹی ہوں تو جس کے پیچھے مجھے چھوڑ رہے ہیں ، اس کے کھرے پن کو بھی ماپ لیجئے گا-کہیں پھر دھوکا نہ ہوجائے- وہ تم سے بہتر ہے-چند لمحے خاموش رہ کر وہ سرد لہجے میں بولا اور ایک گہری چبھتی ہوئی نگاہ اس پہ ڈال کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا- وہ نم آنکھوں کے ساتھ اسے زینے چڑھتے دیکھتی رہی- آج ہمایوں نے اپنی بے وفائی پہ مہر لگادی تھی- وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے برش لیے مغموم ، گم صم سی بیتھی تھی، جب فرشتے نے کھلے دروازے سے اندر جھانکا- میری چھوٹی بہن کیا کر رہی ہے؟اس نے چو کھٹ سے ٹیک لگا کے مسکراتے ہوئے پوچھا- کچھ خاص نہیں- محمل نے مسکرا کے گردن موڑی-اس کے کھلے بال شانوں پہ گرے تھے- تو کچھ خاص کرتے ہیں-وہ اندر چلی آئی-فیروزی شلوار قمیض پہ سلیقے سے دوپٹہ لیے ہوئے وہ ہمیشہ کی طرح بہت ترو تازہ لگ رہی تھی- تمہارے بال ہی بنا دوں لاؤ-اس نے رسان سے کہتے ہوئے برش محمل کے ہاتھ سے لےا لیا اور اس کے کھلے بالوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیتا – بس اب تم بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گی- وہ اب پیار سے اس کے بالوں میں اوپر سے نیچے برش کر رہی تھی-وہ محمل کی وہیل چئیر کے پیچھے کھڑی تھی،محمل کو ائینے میں اس کا عکس دکھائی دے رہا تھا- تم نے اگے کا کیا سوچا؟ پتا نہیں ، جب عدت ختم ہو جائے گی تو چلی جاؤں گی- وہ بے زار سی ہوئی- لیکن کدھر؟فرشتے نے اس کے بالوں کو سلجھا کر سمیٹ کر اونچا کیا- اللہ کی دنیا بہ وسیع ہے ، پہلے اغا جان کو ڈھونڈوں گی، اگر وہ نہ ملے تو مسجد چلی جاؤں گی-مجھے امید ہے کہ مجھے ہاسٹل میں رہنے دیا جائے گا- ہوں-اس نے اونچی سی پونی باندھی، پھر ان بالوں کو دوبارہ سے ذرا سا برش کیا- اور آپ نے کیا سوچا؟میرے بعد تو آپ کو بھی جانا ہگا- میں شاید ورکنگ ویمن ہاسٹل چلی جاؤں, پتا نہیں ابھی کچھ ڈیسائیڈ نہیں کیا، خیر چھوڑو، آج میں نے چائینیز بنایا ہے، تمہیں منچورین پسند ہے نا؟اب فٹا فٹ چلو کھانا کھاتے ہیں-اس نے محمل کی وہیل چئیر پیچھے سے تھام کر اس کا رخ موڑا- اب وہ کیا بتاتی کہ عرصہ ہوا ذائقے محسوس کرنا چھوڑ دیئے ہیں، اسی لیے چپ رہی-ہمایوں کی طرف سے دل اتنا دکھا ہوا تھا کہ ایسے میں فرشتے کا دھیان بٹانا اچھا لگا- ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا لگا ہوا تھا-گرم گرم چاولوں کی خوشبو سارے میں پھیلی ہوئی تھی- تیمور کدھر ہے؟وہ پوچھتے پوچھتے رک گئی- پھر تھک کر بولی – میں کیا کروں جو وہ آپ کو نا پسند کرنا چھوڑ دے؟ یہ چاول کھاؤ بہت اچھے بنے ہیں- فرشتے نے مسکرا کر ڈش اس کے سامنے رکھی ، اس کا ضبط بھی کمال کا تھا- تیمور کی ساری بد لحاظیوں پہ میں آپ سے معافی مانگتی ہوں-نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا لہجہ بھیگ گیا-اونہوں، جانے دو ، میں مائنڈ نہیں کرتی ، خالہ بھی ماں جیسی ہی ہوتی ہے- محمل بھیگی آنکھوں سے ہنس دی- فرشتے نے رک کر اسے دیکھا- کیوں؟کیا نہیں ہوتی؟ میرے بھانجے نہیں ہیں، ورنہ ضرور اپنی رائے دیتی۔لیکن چونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا ہے تو آف کورس ، ٹھیک ہے- کیا؟فرشتے الجھی- یہ ہی کہ خالہ ماں جیسی ہوتی ہے-یہ ایک حدیث ہے نا- اوہ اچھا؟مجھے بھول گیا تھا- فرشتے سر جھٹک کر مسکرا دی اور چاول اپنی پلیٹ میں نکالنے لگی- وہ اپنی دانست میں ” ہمایوں کے گھر میں” اسکا آخری دن تھا-کل دوپہر اس کی عدت کو تین قمری ماہ مکمل ہوجانے تھے اور تب وہ شرعی طور پر ہمایون کی بیوی نہ رہتی اور پھر اس گھر میں رہنے کا جواز بھی ختم ہو جاتا- آج وہ صبح اترتے ہی لان میں آبیٹھی تھی- چڑیاں اپنی مخصوص بولی میں کچھ گنگنا رہی تھیں- گھاس شبنم سے گیلی تھی- سیاہ بادلوں کی ٹکڑیاں آسمان پہ جابجا بکھری تھیں-امید تھی کہ اج رات بارش ضرور ہو گی- شاید اس کی اس گھر میں آخری بارش- فرشتے صبح جلدی ہی کسی کام سے باہر گئی تھی-ہمایوں رات دیر سے گھر آیا تھا اور صبح سویرے نکل گیا تھا- تیمور اندر سو رہاتھا-بلقیس اپنے کواٹر میں تھی-سو وہ لان میں تنہا اور مغموم بیٹھی چڑیوں کے اداس گیت سن رہی تھی-آنسو قطرہ قطرہ اس کی کانچ سی بھوری آنکھوں سے ٹوٹ کر گر رہے تھے- اس گھر کے ساتھ اس کی بہت سی یادیں وابستہ تھیں-زندگی کا ایک بے حد حسین اور پھر ایک بے حد تلخ دور اس نے اس گھر میں گزارا تھا-یہاں اسی ڈرائیو وے پہ وہ پہلی بار سیاہ ساڑھی میں اتری تھی، اس رات جب اس کی مشکلات کا آغاز ہوا تھا-پھر ادھر ہی وہ سرخ کامدار جوڑے میں دلہن بنا کر لائی گئی تھی- کبھی وہ ادھر ملکہ کی حیثیت سے بھی رہی تھی، مگر خوشی کے دن جلدی گزر جاتے ہیں، اس کے بھی گزر گئے تھے-ایک سیاہ تاریک نیند کا سفر تھا اور وہ بہت نیچے لا کر پھینک دی گئی تھی- ماما- تیمور نیند بھری آنکھیں لیے اس کا شانہ جھنجھوڑ رہا تھا- اس نے چونک کر اسے دیکھا، پھر مسکرا دی- ہاں بیٹا! اس نے بے اختیار پیار سے اس کا گال چھوا- کیوں رو رہی ہیں اتنی دیر سے ؟کب سے دیکھ رہی ہوں-وہ معصومیت بھری فکر مندی لیے اس کے ساتھ ابیٹھا- وہ نائٹ سوت میں ملبوس تھا-غالبا ابھی جاگا تھا- نہیں کچھ نہیں- محمل نے جلدی سے آنکھیں رگڑیں- آپ بہت روتی ہیں ماما- ہر وقت روتی رہتی ہیں- وہ خفا تھا- مجھے لگتا ہے آپ دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ روتی ہونگی- نہیں تو اور تمہیں پتا ہے کہ دنیا کے سارے لوگوں سے زیادہ آنسو کس نے بہائے تھے؟ کس نے؟ وہ حیرت اشتیاق سے اس کے قریب ہوا- ہمایرے باپ آدم علیہ السلام نے جب ان سے اس درخت کو چھونے کی غلطی ہوئی تھی- وہ نرمی سے اس کے بھورے بالوں کی سہلاتی بتا رہی تھی، اسے تیمور کو اپنی وجہ سے پریشان نہیں کرنا تھا، اسکا ذہن بٹانے میں وہ کسی حد تک کامیاب ہوگئی تھی- اچھا! وہ حیران ہوا-اور ان کے بعد؟ ان کے بعد داؤد علیہ السلام نے، جب اس سے ایک فیصلے میں ذرا سی کمی رہ گئی تھی- اور ان کے بعد؟ ان کے بعد اس نے گہری سانس لی- پتا نہیں بیٹا ! یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے- آپ بھی بہت روتی ہو مما ، مگر آپ کو پتا ہے آپ جیسی مدر کسی کی نہیں ہیں- میرے کسی فرینڈ کی بھی نہیں، کوئی ٹیچر بھی نہیں- میرے جیسی کیسی ؟ اسے حیرت ہوئی- آپ جیسے nobel اور Honourable- آپ کو پتا ہے میرے لیے پوری دنیا میں سب سے زیادہ آنریبل اور نوبل ہیں- جبکہ میں ایسی نہیں ہوں- تمہیں پتا ہے نوبل کون تھے؟ محمل نے ایک گہری سانس لی- یوسف علیہ السلام جو پیغمبر کے بیٹے ، پیغمبر کے پوتے اور پیغمبر کے پڑ پوتے تھے” وہ کیوں ماما؟ وہ کیوں؟ اس نے زیر لب سوال کو دہرایا- بے اختیار آنکھوں میں اداسی چھاگئی – کیونکہ شاید وہ بہت صبر کرنے والے تھے اور الفاظ لبوں پہ توٹ گئے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہے-ہر بات سمجھانے والی نہیں ہوتی- بتائیں نا ماما- وہ بے چین ہوا- میں جب بھی آپ سے حضرت یوسف کی سٹوری سنتا ہوں آپ یوں ہی اداس ہو جاتی ہیں- پھر کبھی بتاؤں گی، تمہارے اسکول کب کھل رہا ہے؟ اس نے بات پلٹی- منڈے کو- اور تمہارا ہوم ورک ڈن ہے؟ یہ باتیں چھوڑیں ، مجھے پتا ہے آپ اپ سیٹ ہیں – کل آپ اور ڈیڈی ہمیشہ کے لیے الگ ہوجائیں گے،ہے نا؟وہ ہتھیلیوں پہ چہرہ گرائے ، اداسی سے بولا- ہاں! ہو تو جائیں گے، تم میرے ساتھ چلو گے یا ڈیڈی کے پاس رہو گے؟اس نے خود کو بے پرواہ ظاہر کرنا چاہا- میں آپ کے ساتھ جاؤں گا، اس چریل (چڑیل) کے ساتھ نہیں رہوں گا-مجھے پتا ہے ڈیڈی فورا شادی کر لیں گے-اسے شاید آرزو بہت بری لگتی تھی-وہ محمل کو اس پر ترجیح دے رہا تھا-اسے یاد آیا ہمایوں نے کہا تھا وہ اس سے بہتر ہے- وہ مجھ سے بہتر ہے تیمور؟وہ ہمایوں کی اس زہریلی بات کو یاد کر کے پھر سے دکھی ہو گئی- کون؟تیمور کی سفید بلی بھاگتی ہوئی اس کے قدموں میں آ بیٹھی تھی-وہ جھک کر اسے اٹھانے لگا- آرزو- بہت دفعہ سوچا تھا کہ بچے سے یہ معاملہ ڈسکس نہیں کرے گی، مگر رہ نہیں سکی- آرزو آنٹی ؟تیمور بلی کو بازوؤں میں اٹھا کر سیدھا ہوا -وہ جو اپ کی کزن ہیں جو ادھر آتی ہیں؟ ہاں وہی- وہ آپ سے اچھی تو نہیں ، بالکل نہیں-وہ سوچ کر نفی میں سر ہلانے لگا- پھر تمہارے ڈیڈ کیوں اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟کیا تم اسے ماں کے روپ میں قبول کرسکو گےے؟کتنا خود کو سمجھایا تھا کہ بچے کو درمیان میں انوالو نہیں کرے گی، مگر ہمایوں کی اس روز کی بات کہیں اندر چبھ رہی تھی، لیکن پھر کہہ کر خود ہی پچھتائی- چھوڑو جانے دو یہ بلی ادھر دکھاؤ- مگر تیمور الجھا الجھا سا اسے دیکھ رہا تھا-بلی ابھی تک اس کے بازوؤں میں تھی- ڈیڈی آرزو آنٹی سے شادی کر رہے ہیں؟اس کی آواز میں بے پناہ حیرت تھی- تمہیں نہیں پتا؟ آپ کو یہ کس نے کہا ہے؟وہ کنفیوزد بھی تھا اور حیرت زدہ بھی- تمہارے ڈیڈی نے بتایا تھا اور ابھی تم خود کہہ رہے تھے کہ وہ اس سے شادی کر لیں گے- تیمور اسی طرح الجھی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا-موٹی بلی اس کے ننھے ننھے ہاتھوں سے پھسلنے کو بے اب کسمسا رہی تھی- آرزو آنٹی سے ؟ نہیں ماما،ڈیڈی تو ان سے شادی نہیں کر رہے- مگر تم نے-مگر تیمور کی بات ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی- وہ تو فرشتے سے شادی کر رہے ہیں- آپ کو نہیں پتا؟ تیمور!وہ درشتی سے چلائی تھی-تم ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ بلی سہم کر تیمور بازوؤں سے نیچے کودی- آپ کو نہیں پتا ماما؟وہ اس سے بھی زیادہ حیران تھا- تم نے ایسی بات کی بھی کیسے؟مائی گاڈ، وہ میری بہن ہے ، تم نے اتنی غلط بات کیوں کی اس کے بارے میں؟غصہ اس کے اندر سے ابلا تھا-وہ گمان بھی نہیں کر سکتی تھی تیمور ایسے کہہ سکتا ہے- ماما آپ بے شک ڈیڈی سے پوچھ لیں، فرشتے سے پوچھ لیں،وہ دونوں شادی کر رہے ہیں- شٹ اپ جسٹ شٹ اپ تم اس لڑکی کے بارے میں ایسی باتیں کر رہے ہو جو میری بہن ہے؟ جی ماما! اسی لیے تو ڈیڈی نے آپ کو ڈائیورس دی ہے،بی کاز شی از یور سسٹر اور مسلم ایک ٹائم پہ دو سسٹرز سے شادی نہیں کر سکتے- محمل کا دماغ بھک سے اڑ گیا-وہ شل سی بیٹھی رہ گی۔