آئی تھاٹ آپکو پتا ہے، میں نے آپ کہ کہا تو تھا کہ ڈیڈی اس چڑیل سے شادی کر رہے ہیں- اور تیمور فرشتے کو بھی چڑیل کہتا تھا، وہ کیوں بھول گئی؟اس کا دماغ بری طرح چکرانے لگا تھا- نہیں تیمور وہ میری بہن ہے- اس کی زبان لڑ کھڑائی- وہ اسی لیے تو ادھر ہمارے ساتھ رہتی ہے، تا کہ جب آپ چلی جائیں تو وہ ڈیڈی سے شادی کر لے- تیمور وہ میری بہن ہے- اس کی آواز ٹوٹن لگی تھی- آپ نے نہیں دیکھا، جب وہ ڈیڈی کے ساتھ شام کو باہر جاتی ہے؟ایک دفعہ وہ مجھے بھی لے گئے تھے، وہ سمجھتے ہیں میں بچہ ہوں، مجھے کچھ پتہ نہیں چلتا- مگر تیمور! وہ تو میری بہن ہے-وہ بکھری، شکست خوردہ سی گھٹی گھٹی آواز میں چلائی تھی- اسے لگ رہا تھا ، کوئی دھیرے دھیرے اس کی جان نکال رہا ہے- تیمور کیا کہہ رہا تھا اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا- ” مجھے اسی لیے وہ اچھی نہیں لگتی ، وچ نمبر ون، اس کی وجہ سے ڈیڈی آپ کو سیپریٹ کر رہے ہیں-آپ نے نہیں دیکھا، شام کو ڈیڈی کے ساتھ جب وہ ریسٹورنٹ جاتی ہے؟ نہیں، تم غلط کہہ رہے ہو، شام کو تو وہ مسجد جاتی ہے، وہ ادھر پڑھاتی ہے- اسے یاد آیا شام کو فرشتے مسجد جاتی تھی- یقینا تیمور کو غلط فہمی ہوئی ہوگی، اس نے غلط سمجھا ہوگا- مسجد؟اس نے حیرت سے پلکیں جھپکائیں- یہ ساتھ والی مسجد ماما؟ آپ کدھر رہتی ہیں؟فرشتے تو کبھی مسجد نہیں گئی- وہ ۔۔۔۔۔ وہ ادھر قرآن پڑھاتی ہے، تمہیں نہیں پتا تیمور وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ تو کبھی قرآن نہیں پڑھتی، میں نے آپ کو بتایا تھا- نہیں وہ مجھ سے اور تم سے زیادہ قرآن پڑھتی ہے-اس نے ۔۔۔۔ اس نے ہی تو مجھے قرآن سکھایا تھا- تم غلط کہہ رہے ہو، وہ ایسے نہیں کر سکتی- وہ نفی میں سر ہلاتے ، اسے جھٹلا رہی تھی- آپ نے کبھی اس کو قرآن پڑھتے دیکھا؟ وہ۔۔۔۔۔۔ وہ جو فرشتے کے دفاع میں تیمور کو کچھ کہنے لگی تھی ایک دم رک گئی- اس نے اسپتال سے آ کے کبھی فرشتے کو مسجد جاتے نہیں دیکھاتھا-ہاں نمازیں وہ ساری پڑھتی تھی- کم آن ماما، آپ بلقیس بوا سے پوچھ لیں، وہ مسجد نہیں جاتی، کیا آپ کو اس نے خود کہا کہ وہ مسجد جاتی ہے؟اور تیمور کے سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا- اسپتال کی وجہ سے صبح کی کلاسز لینا ممکن نہیں تھا- فرشتے نے تو اس کے استفسار پہ مبہم سا جواب دیا تھا- باقی سب اس نے خود فرض کر لیا تھا- تو کیا تیمور سچ کہہ رہا تھا؟نہیں ہرگز نہیں، فرشتے اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی تھی-وہ تو اس کی بہت پیاری ، بہت خیال رکھنے والی بہن تھی، وہ بھلا کیسے – وہ مسجد نہیں جاتی ،وہ ڈیڈی کے ساتھ جاتی ہے، پہلے ڈیڈی گاڑی پہ نکلتے ہیں، پھر وہ باہر نکلتی ہے، اور کالونی کے اینڈ پہ ڈیڈی اس کو پک کر لیتے ہیں، تا کہ بلقیس بوا کو پتا نہ چلے -میں نے ٹیرس سے بہت دفعہ دیکھا ہے، صبح بھی وہ ڈیڈی کے ساتھ ہی گئی تھی- وہ پتھر بنی سن رہی تھی- جب آپ اسپتال میں تھیں تب بھی وہ یوں ہی کرتے تھے- پر میں کوئی چھوٹا بے بی تو نہیں ہوں، مجھے سب سمجھ آتا ہے- یہ سب کب ہوا کیسے ہوا؟وہ متحیر ، بے یقین سی سکتے کے عالم میں بیٹھھی تھی- تیمور آگے بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا، مگر وہ نہیں سن رہی تھی، تمام آوازیں بند ہوگئیں تھی-سب چہرے مٹ گئے تھے- ہر طرف اندھیرا تھا- سناٹا تھا- ماما! آپ ٹھیک ہو؟ تیمور نے پریشانی سے اس کا ہاتھ ہلایا- وہ ذرا سا چونکی- آنکھوں کے آگے جیسے دھند سی چھا رہی تھی- مجھے۔۔۔۔ مجھے اکیلا چھوڑ دو بیٹا- اس نے بے اختیار چکراتا ہوا سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا- ابھی۔۔۔۔ ابھی جاؤ یہاں سے پلیز- چند لمحے وہ اداسی سے اسے دیکھتا رہا، پھر جھک کر گھاس پہ بیٹھی موٹی سفید بلی اٹھائی اور واپس پلٹ گیا- کیا یہی واحد وجہ ہے؟ کیا تمہیں بالکل امید نہیں ہے کہ وہ رجوع کرے گا؟ کیا تم خود کو اتنا اسٹرونگ فیل کرتی ہو کہ حالات کا مقابلہ کر لوگی؟اس کے ذہن میں فرشتے کی باتیں گونج رہیں تھی- ہر شام ہمایوں گھر سے چلا جاتا- کسی دوست کے پاس، ہر شام فرشتے بھی گھر سے چلی جاتی -اس نے کبھی نہیں بتایا کہ وہ کدھر جاتی ہے-اس نے کبھی نہیں بتایا کہ محمل کی عدت ختم ہونے کے بعد وہ کدھر جائے گی؟اور وہ ابھی تک ادھر کیوں رہ رہی تھی؟کیا صرف محمل کی کئیر کے لیے؟وہ کئیر تو کوئی نرس بھی کر سکتی تھی-پھر وہ کیوں ان کے گھر میں تھی؟ اس نے کبھی فرشتے کو قرآن پڑھتے نہیں دیکھا تھا- جس روز وہ مسجد گئی تھی- فرشتے ادھر نہیں تھی-وہ شام تک وہی رہی ، مگر وہ ادھر نہیں آئی- وہ غلط فہمی کا شکار رہی اور فرشتے نے اس کئ غلط فہمی نہیں دور کی- اور آرزو؟اس کا کیا قصہ تھا؟وہ گواہ تھی کہ ہمایوں اس سے شادی کر رہا تھا-اس نے خود آرزو سے یہی کہا تھا مگر جب محمل نے پوچھا تھا تب اس نے کیا کہا تھا، یہ بتانا ضروری نہیں ہے-اس نے کبھی نہیں کہا کہ وہ آرزو سے شادی کررہا ہے-فرشتے نے کبھی اس کے اور آرزو کے غیر واضح تعلق پہ فکر مندی ظاہر نہیں کی- وہ سب کسی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھا- وہ دونوں جانتے تھے اور ایک اسی کو بے خبر رکھا تھا- وہ تم سے بہتر ہے- یہ ہی کہا تھا ہمایوں نے، اور یقینا فرشتے کی بات کر رہا تھا- لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟وہ اس کے گھر میں خیانت کیسے کر سکتی ہے؟وہ تو قرآن کی طالبہ تھی، وہ تو سچی تھی امانت دار تھی- پھر وہ کیوں بدل گئی؟وہ جو لمحوں کی امانت کا خیال رکھتی تھی رشتوں میں خیانت کیسے کر گئی؟ سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹا جا رہا تھا- دل ڈوبا جا رہا تھا- آج اسے لگا تھا کہ سب دھوکے باز نکلے تھے، سب خود غرض نکلے تھے-ہر شخص اپنی زمین کی طرف جھکا تھا- اس کا کوئی نہیں تھا،کوئی بھی نہیں، وہ کتنی ہی دیر ہاتھوں میں سر گرائے بیٹھی رہی- بہت سے لمحے سرکے ، تو اسے یاد ایا کہ جہاں سب بدل گئے تھے ، وہاں کوئی نہیں بدلا تھا-جہاں سب نے دھوکا دیا ، وہاں کسی نے اس کا خیال بھی رکھا تھا-جہاں سب چھوڑ گئے – وہاں کسی نے سہارا بھی دیا تھا- اوہ !اس نے آہستہ سے سر اٹھایا اور پھر دھیرے سے وہیل چئیر کے پہیوں کو اندر کی جانب موڑا- اس کے کمرے میں شیلف کے اوپر اس کا سفید کور والا مصحف پڑا تھا، اس نے سرعت سے اسے اٹھایا اس وقت اسے اس کی بے حد ضرورت تھی- مصحف کے نیچے اس کا پرانا رجسٹر رکھا تھا-اس نے قرآن اتھایا تو رجسٹر پھسل کر نیچے گر گیا- محمل نے ہاتھ میں قرآن پکڑے ، جھک کر رجسٹر اٹھایا- وہ درمیان سے کھل گیا تھا- اسے بند کر کے رکھتے ہوئے ٹھہر سی گئی، کھلے صفحے پہ سورہ بقرہ کی اس آیت کی تفسیر لکھی تھی جس پہ وہ ہمیشی الجھتی تھی- حطتہ اور حنطتہ- یہ صفحہ بہت دفعہ کھولنے کے باعث اب رجسٹر کھولتے ہی یہ کھل جاتا تھا- کھلا ہوا رجسٹر اس کے دائیں ہاتھ میں تھا، اور قرآن بائیں ہاتھ میں، دونوں اس کے بالکل سامنے تھے-رجسٹر کی سطر حنطتہ کا مطلب ہوتا ہے گن – کے اگے صفحہ ختم تھا-وہ بے اختیار اس سطر کو قرآن کے سفید کور کے قریب لائی جہاں مٹا مٹا سا “م” لکھا تھا- اس نے گن اور م کو ملایا- دونوں کے درمیان ایک ننھا سا نقطی تھا-اس نے نقطوں کو جوڑا، ادھورا لفظ مکمل ہوگیا- گندم- وہ ننھے نقطے دال کے دو حصے تھے- اسے یاد آیا وہ غلطی سے قرآن پہ رجسٹر رکھ کر لکھ رہی تھی- صفحی ختم ہوا تا لا شعوری طور پہ اس نے لفظ قرآن کے کور پہ مکمل کردیا-اسی وقت اسے کلاس انچارج سے ڈانٹ پڑی تو یہ بات ذہن سے محو ہو گئی – وہ کبھی جان ہی نہ پائی کہ یہ مٹا مٹا سا م اس ادھورے لفظ کی تکمیل تھا- آج برسوں بعد وہ قصہ مکمل ہوگیا تھا-اس کے ذہن میں ایک روشنی کا کوندا سا لپکاتھا اور ساری گتھیاں سلجھ گئی تھیں- بنی اسرائیل کو شہر کے دروازے میں داخل ہونے سے قبل بخشش مانگنے کا حکم ملا تھا-مگر وہ گندم مانگتے رہے-بخشش نہیں مانگی-یہ بنی اسرائیل کی ریت تھی اور یہ ہی ریت خود اس نے بھی دہرائی تھی- ہم زمانہ جاہلیت سے دور اسلام میں آکر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں، مگر بار بار کی توبہ بھول جاتے ہیں، ہم ایک کھائی سے بچ کر سمجھتے ہیں زندگی میں پھر کبھی کھائی نہیں آئے گی اور اگر آئی تو بھی ہم بچ جائیں گے-ہم ہمیشہ نعمتوں کو اپنی نیکیوں کو کا انعام سمجھتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہ کی سزا۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بھی امتحان ہوتا ہے، نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا اور زندگی کے کسی نئے امتحان میں داخل ہوتے ہی منہ سے پہلا کلمہ حطتہ کا نکلنا چاہیئے- مگر ہم وہاں بھی گندم مانگتے رہتے ہیں- اللہ اسے زندگی کے ایک مختلف فیز میں لایا تو اسے بخشش مانگنی چاہیئے تھی-مگر وہ ہمایوں اور تیمور کو مانگتی رہی – حنطتہ حنطتہ کہنے لگ گئی-گندم مانگنا برا نہیں تھا-مگر پہلے بخشش مانگنا تھی، وہ پہلا زینہ چڑھے بغیر دوسرے کو پھلانگنا چاہتی تھی اور ایسے پار کب لگا جاتا ہے؟ اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر تک میز پہ سر رکھے زارو قطار روتی رہی ، آج اسے اپنے سارے گناہ پھر سے یاد ارہے تھے-آج وہ پھر سے توبہ کر رہی تھی- وہ توبہ جو بار بار کرنا ہم نیک ہونے کے بعد بھول جاتے ہیں- زندگی میں بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب آپ سے خود قرآن نہیں پڑھا جاتا- اس وقت اپ کسی اور سے قرآن سننا چاہتے ہیں-آپ کا دل کرتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے کتاب اللہ پڑھتا جائے اور آپ روتے جائیں-بعض دفعہ آپ خوش ہونے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ صرف رونے کے لیے- اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ خوب روئے- قرآن سنتی جائے اور روتی جائے- تلاوت کی کیسٹوں کا ڈبہ قریب ہی رکھا تھا- ٹیپ ریکارڈ بھی ساتھ تھا-اس نے بنا دیکھے آخر سے ایک کیسٹ نکالی اور بنا دیکھے ہی ڈال دی- ابھی نہ معافی جاننا چاہتی تھی، نہ ہی فہم پہ غور و فکر کرنا چاہتی تھی-ابھی وہ صرف سننا چاہتی تھی – اس نے پلے کا بٹن دبایا اور میز پہ رکھ دیا- آنسو اس کی آنکھون سے ٹپک کر میز کے شیشے پر گر رہے تھے- قاری صہیب احمد کی مدھم ، پر سوز آواز دھیرے سے کمرے میں گونجنے لگی تھی- والضحی ۔۔۔۔۔۔ قسم ہے دن کی- وہ خاموشی سے سنتی رہی-اسے اپنی زندگی کے روشن دن یاد آرہے تھے ، جب وہ اس گھر کی ملکہ تھی- اور قسم ہے رات کی جب جب وہ چھا جائے- اسکو وہ سناٹے بھری رات یاد آئی جب ہمایوں نے اسے طلاق دی تھی، وہ رات جب وہ یہیں بیٹھی چھت کو دیکھتی رہی تھی- تمہارے رب نے تمہیں اکیلا نہیں چھوڑا اور نہ ہی ناراض ہے- ( الضحی ، 3) اس کے آنسو روانی سے گرنے لگے تھے- یہ کون تھا جو اس کی ہر سوچ پڑھ لیتا تھا؟ یہ کون تھا؟ یقینا تمہارے لیے انجام آغاز میں بہتر ہوگا- (الضحی 4) اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں- کیا واقعی اب بھی اس سارے کا انجام اچھا بھی ہو سکتا تھا؟ تمہارا رب بہت جلد تمہیں وہ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے- (الضحی 5) ذرا چونک کر بہت آہستہ سے محمل نے سراٹھایا – اللہ کو اس کی اتنی فکر تھی کہ وہ اس کے اداس دل کو تسلی دینے کے لیے یہ سب اسے بتا رہا تھا؟کیا واقعی اس نے اسے چھوڑا نہین تھا؟ کیا اس نے تمہیں یتیم پا کر ٹھکانا نہیں دیا؟ (الضحی 6) وہ اپنی جگہ سن سی رہ گئی – یہ ۔۔۔۔۔۔ یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا واضح ،اتنا صاف ، یہ سب اس کے لیے اترا تھا؟کیا وہ اس قابل تھی؟ کیا اس نے تمہیں راہ گم پا کر ہدایت نہیں دی؟ (الضحی 7) وہ ساکت سی سنے جا رہی تھی، ہاں یہی تو ہوا تھا- اور تمہیں نادار پا کر غنی نہیں کردیا ؟(الضحی 8) اس کے آنسو گرنا رک گئے تھے- کپکپاتے لب ٹھہر گئے تھے- پس تم بھی یتیم سے سختی نہ کرنا، اور سائل کو مت ڈانٹنا- اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا- (الضحی 9) سورۃ الضحی ختم ہو چکی تھی- اس کی زندگی کی ساری کہانی گیارہ آیتوں میں سمیٹ کر اسے سنا دی گئی تھی- وہ سورہ جیسے ابھی ابھی اسمانوں سے اتری تھی، اس کے لیے صرف اس کے لیے- اس نے تھک کر سر کرسی کی پشت سے ٹکا لیا، اورآنکھیں موند لیں-وہ کچھ دیر ہر سوچ سے بے نیاز سونا چاہتی تھی-پھر اٹھ کر اسے فرشتے سے ملنا تھا- بادل زور سے گرجے تھے- محمل نے ایک نظر کھڑکی سے باہر پھسلتی شام پہ دالی اور دوسری بند دروازے پہ-اس کی دوسری طرف اسے قدموں کی چاپ کی آواز سنائی دے رہی تھی- ابھی چند منٹ قبل اس نے فرشتے کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکھا تھا-اس کے آنے کے کچھ دیر بعد ہمایوں کی گاڑی اندر داخل ہوئی تھی-البتہ وہ پانچ منٹ بعد ہی کچھ کاغذات اٹھا کر واپس چلا گیا تھا-اس کی گاری ابھی ابھی نکلی تھی- وہ کھڑکی کے اس طرف چوکیدار کو گیٹ بند کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی، جب دروازہ ہولے سے بجا- محمل؟فرشتے نے اپنے مخصوص نرم انداز میں پکارا،پھرہولے سے دروازہ کھولا- اب وہ کثرت سے سلام نہیں کرتی تھی-محمل نے گردن موڑ کر دیکھا-وہ دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی- دراز قد کانچ سی سنہری آنکھوں والی لڑکی، جو کھلتے گلابی رنگ کے لباس میں، سر پہ دوپٹہ لیے کھڑی تھی- وہ کون تھی-اسے لگا وہ اسے نہیں جانتی- کیسی ہو؟نرم سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے وہ اندر داخل ہوئی- بلقیس بتا رہی تھی تم میرا پوچھ رہی تھی- وہ آگے بڑھ کر عادتا شیلف پہ پڑی کتابیں ، رجسٹر اور ٹیپ وغیرہ سلیقے سے جوڑنے لگی تھی- اس کے بھورے بال کھلے تھے اور اس نے انہی پہ دوپٹہ لے رکھا تھا، ایسے کہ چند لٹیں باہر گر رہی تھیں-گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا- جی-مجھے پتا نہیں کی آپ کدھر ہیں- محمل نے بغور اس کو دیکھا، جو اس کے سامنے سر جھکائے کتابیں سیٹ کر رہی تھی- اسے ابھی بھی تیمور کی بات پر مکمل یقین نہیں تھا-فرشتے ایسا نہیں کر سکتی تھی، کبھی بھی نہیں، یقینا تیمور کو سمجھنے میں غلطی ہوئی تھی- میں ایک دوست کے ساتھ تھی کچھ شاپنگ کرنا تھی- بے حد رسانیت سے بتا کر اس نے رجسٹر ایک دوسرے کے اوپر رکھے- نہ اس نے جھوت بولا نہ سچ بتایا- اس کا یقین ڈگمگانے لگا- آپ نے آگے کا کیا سوچا ہے فرشتے؟ میرے جانے کے بعد آپ کیا کریں گی؟ ابھی پلان کروں گی دیکھو کیا ہوتا ہے-وہ اب گلدان میں رکھے سوکھے پھول احتیاط سے نکال رہی تھی- اس کے جواب مبہم تھے۔۔۔۔ نہ سچ نہ جھوٹ- اور تم سارا دن کیا کرتی رہیں؟اس نے چڑمڑائے سوکھے پھول ڈست بن میں ڈالے – کچھ خاص نہیں- دونوں خاموش ہوگئیں، اپنی اپنی سوچوں میں گم- اب اس کے پاس حقیقت جاننے کا ایک ہی راستہ تھا اور اس نے استعمال کرنے کا ارادہ کیا- فرشتے، وہ جسم کس کی کرسی پہ ڈالاگیا تھا؟ کون سا جسم ؟فرشتے نے پلٹ کر اسے دیکھا- پلٹنے سے اس کا دوپٹہ سرکنے سے بھورے بال جھلکنے لگے تھے- قرآن میں ایک جگہ ایک جسم کا ذکر ہے جو کسی کی کرسی پہ ڈالا گیا تھا- آپ کو یاد ہے وہ کس کا جسم تھا؟اس کا انداز یوں تھا جیسے بھول گئی ہو- فرشتے نے الجھ کر چند لمحے سوچا، پھر نفی میں سر ہلادیا- نہیں مجھے نہیں یاد آرہا- اور محمل کو سارے جواب مل گئے تھے- فرشتے قرآن بھول گئی تھی- اگر وہ اسے پڑھتی رہتی تو اسے یاد رہتا ، لیکن وہ اسے پڑھنا چھوڑ چکی تھی اور قرآن تو چند دن کے لیے بھی چھوڑ دیا جائے تو وہ فورا ذہنوں سے مکمل طور پہ محو ہو جاتا ہے-یہ کتاب اللہ کی سنت تھی اور کبھی یہ تبدیل نہیں ہوگی- اس نے گہری سانس لی- وہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی تھی جس پہ ایک جسم ڈال دیا گیا تھا- اوہ اچھا- فرشتے نے میز پہ گرے پانی کے قطرے ٹشو سے صاف کیے- کیوں کیا آپ نے ایسے فرشتے؟ وہ بہت دکھ سے بولی تھی، اب وقت آگیا تھا کہ چوہے بلی کا کھیل بند کردے- کیاَفرشتے نے سر اٹھا کر اسے دیکھا-اس کے چہرے پر صرف استفسار تھا- وہ جو اس گھر میں ہوتا رہا میں وہ سب جاننا چاہتی ہوں؟ مثلا؟اس نے ابرو اٹھائی ، اس کے چہرے پہ وہ ہی نرم سا تاثر تھا- سب کچھ! سب کچھ؟ کس بارے میں میری اور ہمایوں کی شادی کے بارے میں؟اس کے انداز میں ندامت تھی، نہ پکرے جانے کا خوف، وہ بہت آرام سے پپوچھ رہی تھی- سب کچھ! اس نے آہستہ سے دہرایا- جب ہمایوں کراچی سے آیا تو اس نے مجھے پرپوز کیا-وہ تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتا تھا، مگر طلاق سے قبل وہ مجھ سے شادی نہیں کر سکتا تھا- سو ہم نے ڈیسائیڈ کیا جب تم ہوش میں آؤ گی وہ تمہیں ڈائیورس دے گا اور ہم شادی کر لیں گے- وہ جیسے موسم کی کوئی خبر سنا رہی تھی- وہ کہتا تھا علماء سے فتوی لے لیتے ہیں، مگر میرا دل نہیں مانا ، میں نے سوچا کہ کچھ وقت اور انتظار کر لیتے ہیں – اور پھر تم ہوش میں آگئیں- سو اس نے ڈائیورس پیپرز سائن کر دیے- مجھے پرپوز کرنے سے قبل ہی وہ تمہیں ڈائیورس دینے کا فیصلہ کر چکا تھا، اگر یہ ضروری نہ ہوتا وہ تب بھی ایسے ہی کرتا، کیونکہ وہ یہ شادی رکھنے کو راضی نہیں تھا- وہ بہت سکون اور اطمینان سے میز سے ٹیک لگائے کھڑی اس کے بارے میں ان کہے سوالات کے جوابات دے رہی تھی- میں نے اس کا پرپوزل اس لیے قبول کرلیا کیونکہ طلاق کے بعد اسے بھی کسی نہ کسی سے شادی کرنا ہی تھی، اور مجھے بھی اور چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح سے جانتے اور سمجھتے تھے، سو اس کے پرپوزل میرے لیے بہترین چوائس تھا- میں اس کو تمہارے ساتھ تعلق قائم رکھنے کے لیے مجبور بہیں کر سکتی تھی، نہ ہی وہ کسی کی مانتا ہے-سو شرعی لحاظ سے میرے پاس پرپوزل قبول کرنے کا حق تھا سو میں نے وہ استعمال کیا- اس کے پاس دلائل تھے، توجیہات تھیں، ٹھوس اور وزنی شرعی سہارے تھے-محمل خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتی رہی ، وہ ذرا دیر کو چپ ہوئی تو اس نے لب کھولے- اور جب ہمایوں نے آپ سے میرے اور فواد کے تعلق کی نوعیت اور ان تصاویر کے بارے میں پوچھا تھا تب آپ نے کیا کہا تھا؟اس نے اندھیرے میں تیر چلایا تھا- وہ ہی جو سچ تھا- وہ اب بھی پرسکون تھی- اس کو معیز نے کچھ تصاویر اور ایگری منٹ لا کر دکھایا تھا جو ہم نے فواد سے طے کیا تھا-میں سمجھتی تھی کہ تم نے اس کے بارے میں ہمایوں کو بتا دیا ہو گا، میں نے اس کے غصے کے ڈر سے خود نہیں بتایا تھا- مگر تم نے بھی نہیں بتایا تو اس کا غصہ کرنا لازمی تھا – اس نے مجھے بلایا ، پھر وہ مجھ پر چیخا ، چلایا،میں چپ کر کے سنتی رہی، اس نے پوچھا کہ یہ ایگری منٹ سچا ہے یا جھوٹا- میں نے سچ بولا- وہ غصے میں چلاتا رہا ، اسے دکھ تھا کہ ہم دونوں نے اس پہ ٹرسٹ نہیں کیا- پھر اس نے وہ تصویریں مجھے دکھائیں اور پوچھا کہ وہ سچ ہے یا جھوٹَ میں نے سچ ہی بولا- کیا بولا؟ محمل نے تیزی سے اس کی بات کاٹی-یہی کہ مجھے معلوم نہیں اور مجھے واقعی معلوم نہیں تھا- اور وہ اسے دیکھتی رہ گئی،یہ فرشتے کا سچ تھا؟ پھر اس نے پوچھا معیز اسے جو باتیں بتا کر گیا وہ سچ ہیں یا جھوٹ؟وہ اسے یہ بتا کر گیا تھا کہ تمہارا اور فواد کا افیر تھا اس رات فواد نے تمہیں پرپوز کرنا تھا ، کوئی رنگ بھی دی تھی غالبا اور پھر اس نے تمہیں بہانے سے ہمایوں کے گھر بھیج دیا -اس رنگ کا ذکر فواد کی اس فون کال میں بھی تھا جو ہمایوں نے ٹیپ کی تھی- یہ بات اس نے پہلے اگنور کردی تھی، پھر ظاہر ہے معیز نے یاد دلایا تو وہ الجھ گیا-اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے سچ بولا- اب کی بار وہ خاموش رہی- اس نے نہیں پوچھا کہ فرشتے کا سچ کیا تھا- وہ جان گئی تھی کہ وہ کیا کہنے جا رہی ہے- میں نے اسے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی ، نہ ہی تم نے کبھی مجھے اس معاملے میں راز دار بنایا ہے-اس نے اس رات کے متعلق پوچھا تو میں نے سچ سچ بتا دیا کہ فواد تمہیں پرپوز کرنے کے بہانے ڈنر پہ لے جا رہا تھا- تم نے مجھے یہی بتایا تھا سو میں نے یہی بتا دیا – وہ چپ چاپ یک لخت سامنے کھڑی مطمئن سی لڑکی کو دیکھتی رہی -جس کے چہرے پر ملال تک نہ تھا-وہ اس کا ایک راز تک نہ سنبھال سکی تھی- وہ سچ کیسے ہو سکتا ہے، جس میں کسی امانت کا خون شامل ہو؟وہ تو اسے جانتی تھی، وہ اس کی بہن تھی،کیا وہ اسکی پردہ پوشی نہیں کر سکتی تھی؟فواد نے کبھی نہیں کہا تھا کہ وہ اسے پرپوز کرنے جا رہا ہے-یہ سب تو اس نے خود اخذ کیا تھا-اس سے ایک غلطی ہوئی تھی- وہ سمجھی کہ وقت کی دھول نے اس کی غلطی کو دبا دیا ہوگا، مگر لڑکیوں کی کچی عمر کی نادانیاں اتنی آسانی سے کہاں دبتی ہیں- اس ٹیپ میں کسی رنگ کابھی ذکر تھا-ہمایوں نے اسے بار بار سنا، وہ مجھ پر غصہ ہوتا رہا کہ میں نے اسے بے خبر کیوں رکھا،پھر اس نے اپنا ٹرانسفر کراچی کروالیا- وہ اب کھڑکی سے باہر لان میں دیکھتے ہوئے کہہ رہی تھی- وہاں کراچی میں اسے آرزو ملی-اس کے فادر کی ڈیتھ کے بعد کریم چچا اور غفران چچا نے اس کا حصہ بھی دبا لیا تھا-سو اس نے سوچا کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں-اس نے فواد سے تمہارا اور میرا سائن کردہ کاغذ لیا اور معیز کے ہاتھوں ہمایوں کوبھجوادیا- فواد آرزو کو پسند کرنے لگا تھا، وہ اب اس سے شادی کرنا چاہتا تھا، وہ اسے اپنانے کے لیے تڑپ رہا تھا- مگر آرزو کو ہمایوں بہتر لگا، سو اس نے چاہا کہ ہمایوں تمہارا حصہ قانونی طور پر آغآ کریم سے واپس لے ، اس کا حصہ لینے میں بھی مدد کرے تو تمہارے حصے پہ بھی وہ قابض ہو سکے جو ہمایوں کی ملکیت میں ہوگا، اور نیچرلی ، تمہارے بارے میں وہ پر یقین تھی کہ تم کبھی نہیں اٹھو گی- بادل ایک دفعہ پھر زور سے گرجے، دور کہیں بجلی چمکی تھی،شام کی نیلاہٹ سارے میں بھر رہی تھی- وہ ابھی تک خاموشی سے فرشتے کو سن رہی تھی- مگر ہمایوں کو فواد سے ضد ہو گئی تھی-صرف اس لیے کہ فواد آرزو کو پسند کرتا تھا- اس نے آرزو کو اپنے قریب آنے دیا- فواد ہمایوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ آرزو کو چھوڑ دے ، مگر ہمایوں اس سے اپنے سارے بدلے چکانا چاہتا تھا-وہ کہتا تھا کہ فواد نے اس کی محبت کو اس سے چھینا ہے، وہ بھی اس کی محبت کو ویسے ہی چھینے گا- وہ آرزو سے کبھی بھی شادی نہیں کر رہا تھا، مگر اس نے آرزو کو دھوکے میں رکھا ابھی مجھے ڈراپ کر کے وہ آرزو کے پاس ہی گیا ہے، اس کو بتانے کہ جیسے وہ اس کو استعمال کر رہی تھی ، ویسے ہی وہ بھی اس کو استعمال کر رہا تھا-وہ شدت پسند لڑکی ہے جانے غصے میں کیا کر ڈالے- مگر جو بھی ہو وہ آج اسے آئینہ دکھا کر ہی واپس آئے گا- کھڑکی کے بند شیشے پہ کسی چڑیا نے زور سے چونچ ماری، پھر چکرا کر پیچھے کو گری ، بادل وقفے وقفے سے گرج رہے تھے- شاید تم یہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ برا کیا ہے یا یہ کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا-لیکن تم یہ سوچو میں پھر اور کیا کرتی؟میں ہمایوں سے بہت محبت کرتی تھی اور کرتی ہوں-مگر جب مجھے لگا تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو تو میں درمیان سے نکل گئی،لیکن اب وہ تمہیں نہیں چاہتا، اور مجھے بھی کسی نا کسی شادی تو کرنا تھی-مجھے بتاؤ میں نے کیا غلط کیا؟ میرے دین نے مجھے پرپوزل سلیکٹ کرنے کا اختیار دیا تھا- سو میں نے اسے استعمال کیا-تم کسی بھی مفتی سے پوچھ لو، اگر کوئی عورت شوہر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہیں رہی ہو تو شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے،اور اس میں کسی کی حق تلفی کی کوئی بات نہیں ہے-نہ ہی قطع رحمی کا عنصر شامل ہے، یاد کرو سورۃ نساء میں ہم نے کیا پڑھا تھا؟کہ اگر کوئی ایک حقوق ادا نہ کر سکے تو پھر اپنے حقوق چھوڑ دے، الگ ہو جائے کہ اللہ دونوں کے لیے وسعت پیدا کر دے گا- اپنے مطلب کی آیات اسے آج بھی یاد تھیں- آئی ہوپ کہ اب تمہاری کنفیوژن اور اعتراضات دور ہوگئے ہونگے-میں نے سات سال تمہاری خدمت کی،حالانکہ یہ میرا فرض نہیں تھا،مگر اس لیے کہ تم کبھی یہ نہ سمجھو کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی ہوں-تم نے ایک بار مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر تم میرے لیے اپنا حق چھوڑ دوگی،فواد نے تمہاری گردن پہ پستول رکھا تھا، تمہیں بچانے کے لیے میں نے اپنا حق چھوڑ دیا تھا-یہ باتیں میں نے آج کے دن کے لیے سنبھال کر رکھی تھیں، تا کہ آج میں تم سے تمہارے وعدے کی وفا مانگ سکوں- وہ خاموش ہو گئی- اب محمل کے بولنے کی منتظر تھی- محمل چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہی ، پھر آہستہ سے لب کھولے – آپ نے کہہ لیا جو آپ نے کہنا تھا؟ ہاں- تو پھر سنیئے’ اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم-اس نے تعوذ پڑھا تو فرشتے نے الجھ کر اسے دیکھا- مگر وہ رکی نہیں تھی-بہت دھیمے مگر مضبوط لہجے میں وہ عربی میں اسے کچھ سنانے لگی تھی-وہ عربی جو ان دونوں کی سمجھ میں آتی تھی- اور اسی طرح ہم کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں، شاید کہ وہ پلٹ آئیں۔۔۔۔۔ شاید کہ وہ پلٹ آئیں- فرشتے کی آنکھوں میں الجھا سا تاثر ابھرا-محمل بنا پلک جھپکے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پڑھتے جا رہی تھی- ” ان لوگوں کو اس شخص کی خبر سناؤ جس کو ہم نے اپنی ایات دی تھیں-پھر وہ ان سے نکل بھاگا تو اس کے پیچھے شیطان لگ گیا، تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا- فرشتے کی بھوری آنکھون میں بے چینی ابھری تھی- محمل! میری بات سنو- مگر وہ نہیں سن رہی تھی- وہ پتلیوں کو حرکت دئیے بنا نگاہیں اس پہ مرکوز کیے کہتی جا رہی تھی- تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا- اس کی آواز بلند ہو رہی تھی-اور اگر ہم چاہتے تو اس ان ہی آیات کے ساتھ بلندی عطا کرتے ، لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا- محمل چپ کرو- وہ زیر لب بڑ بڑائی تھی، مگر محمل کی اواز اونچی ہو رہی تھی- لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی-تو اس کی مثال کتے جیسی ہے-تو اس کی مثال کتے جیسی ہے- اگر تم اس پہ حملہ کرو تو اپنی زبان باہر نکالتا ہے، یا تم اس کو چھوڑ دو ، تو بھی وہ زبان باہر نکالتا ہے- خاموش ہو جاؤ! خدا کے لیے خاموش ہا جاؤ! اس نے تڑپ کر محمل کے منہ پر ہاتھ رکھنا چاہا، اس دوپٹہ کندھوں سے پھسل گیا تھا، کھلے بال شانوں پہ آگرے تھے- محمل نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹکا- اسی میکانکی انداز میں اسے دیکھتی پڑھتی جا رہی تھی- جسے اللہ ہدایت بخشے ، پس وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھتکا دے ، بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہے اور بھٹکا دے، بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں-“ اس کے ہاتھ بے دم ہو کر اپنی گود میں آگرے تھے- وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھتی ، گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں گری تھی- بے شک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنوں میں سے اور بہت سے انسانوں میں سے پیدا کیے ہیں- ان کے لیے دل ہیں- وہ ان سے کچھ نہیں بھی نہیں دیکھتے – اور اور ان کے لیے کان ہیں- وہ ان سے کچھ بھی نہیں سنتے -یہی لوگ مویشیوں کی طرح ہیں،بلکہ یہ تو زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں-یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں جو غافل ہیں، جو غافل ہیں- وہ کسی معمول کی طرح باربار وہی الفاظ دہرا رہی تھی- فرشتے سفید چہرہ لیے بے دم سی بیٹھی تھی-اس کے لب ہولے ہولے کپکپا رہے تھے- محمل نے آہستہ سے پلک جھپکی تو دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے- اور اسی طرح کھول کھول کر آیات بیان کرتے ہیں شاید کہ وہ پلٹ آئیں! اس نے وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں اطراف سے تھاما اور اس کا رخ کھڑکی کی طرف موڑا وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر کو کھڑکی کی طرگ بڑھانے لگی – فرشتے پیچھے بیٹھی رہ گئی تھی-محمل نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا-وہ ابھی پلٹنا بھی نہیں چاہتی تھی- اور اسی طرح ہم کھول کھول کر ایات بیان کرتے ہیں ، شاید کہ وہ پلٹ آئیں –! وہ کھڑکی کے پار دیکھتے ہوئے زیر لب بڑ بڑائی تھی- فرشتے سے مزید کچھ نہیں سنا گیا- وہ تیزی سے اٹھی ، اور منہ پہ ہاتھ رکھے بھاگتی ہوئی باہر نکل گئی- محمل اسی طرح نم آنکھوں سے باہر چمکتی بجلی کو دیکھتی رہی- وہ تب بھی کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی جب ہمایوں کی گاڑی اندر آئی – اور تب بھی ، جب رات ہر سو چھا گئی- اس کی اس گھر میں آخری رات۔۔۔ اور وہ اسے سکون سے گزارنا چاہتی تھی-تب اس نے بلقیس کو بلوایا جس نے اسے بستر میں لیٹنے میں مدد دی- پھر وہ آنکھوں پہ ہاتھ رکھے کب گہری نیند میں چلی گئی اسے پتا ہی نہیں چلا- اس کے زہن میں اندھیرا تھا، گھپ اندھیرا جب اس نے وہ آواز سنی- تاریکی کو چیرتی ، مدھر آواز آپنی جانب کھینچتی آواز- محمل نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں- کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا- کھڑکی کے اگے پردے ہٹے تھے- وہ رات کے وقت شیشے کے پٹ کھول کر رکھتی تھی تا کہ جالی سے ہوا اندر ائے- وہیں باہر سے کوئی آواز اندر ارہی تھی اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ ہاتھ مارا، اور بٹن دبایا- ٹیبل لیمپ فورا جل اٹھا- روشنی سامنے دیوار گیر گھڑی پہ پڑی – رات کا ایک بج رہا تھا- وہ مدھم سی دکھ بھری آواز ابھی تک آرہی تھی- اس نے رک کر سننا چاہا- لفظ کچھ کچھ سنائی دینے لگے تھے- اللھم جعل فی قلبی نورا (اے اللہ میرے دل میں نور ڈال دے) محمل نے بے اختیار سائیڈ ٹیبل پہ رکھی بیل پہ ہاتھ مارا- وفی بصری نورا (اور میری بصیرت میں نور ہو) بلقیس تیزی سے دروازہ کھول کر اندر آئی تھی- محمل کی وجہ سے وہ کچن میں ہی سوتی تھی- جی بی بی؟ مجھے بٹھا دو ،بلقیس ! اس نے بھرائی ہوئی آواز میں وہیل چئیر کی طرف اشارہ کیا- بلقیس سر ہلا کر آگے بڑھی، تب ہی کھڑکی کے اس پار سے آواز ائی- وفی سمعی نورا (اور میری سماعت میں نور ہو) بلقیس چونک کر کھڑکی کو دیکھنے لگی ، پھر سر جھٹک کر اس کی طرف ائی- وعن یمنی نورا وعن یساری نورا (اور میرے دائیں جانب اور بائیں جانب نور ہو) بہت احتیاط سے بلقیس نے اسے وہیل چئیر پہ بٹھا دیا- اب تم جاو- اس نے اشارہ کیا – بلقیس سر ہلاتی متذبذب سی واپس پلٹی – وفوقی نورا وتحتی نورا (اور میرے اوپر اور نیچے نور ہو) مدھم چاندنی کی چاشنی میں ڈوبی آواز ہر شے پہ چھا رہی تھی- محمل نے وہیل چئیر کا رخ باہر کی جانب موڑا- وامامی نورا وخلفی نورا ( اور میرے آگے پیچھے نور ہو) آواز میں اب آنسو گرنے لگے تھے – وہ وہیل چئیر کو بمشکل گھسیٹتی باہر لائی- واجعل لی نورا) ( اور میرے لیے نور بنا دے) چاندنی میں ڈوبا برآمدہ سنسان پڑا تھا- وہ مترنم ، غم زدہ آواز لان سے آرہی تھی- وفی لسانی نورا وعصبی نورا ( اور میری زبان اور اعصاب میں نور ہو ) اس نے سوز میں پڑھتے ذرا سی ہچکی لی- محمل آہستہ آہستہ برآمدے کی آرام دہ ڈھلان سے نیچے وہیل چئیر کو اتارنے لگی – یہ ڈھلان فرشتے نے ہی اس کے لیے بنوائی تھی- ولحمی نورا ودمی نورا (اور میرے گوشت اور لہو میں نور ہو ) لان کے آخری سرے پہ دیوار سے ٹیک لگائے ایک لڑکی بیٹھی تھی -اس کا سر نڈھال سا دیوار کے ساتھ ٹکا تھا- آنکھیں بند تھیں جب سے قطرہ قطرہ آنسو ٹوٹ کر رخسار پہ گر رہے تھے- لمبے بھورے بال شانوں پہ گرے تھے- وشعری نورا وبشری نورا ( اور میرے بال و کھال میں نور ہو ) محمل وہیل چئیر کو گھاس پہ آگے بڑھانے لگی گھاس کے تنکے پہیوں کے نیچے چرمڑانے لگے تھے- میرے نفس میں نور ہو اور میرے لیے نور کو بڑھا دے ) وہ اسی طرح آنسو بہاتی بند آنکھوں سے بے خبر سی پڑھتی جا رہی تھی- محمل وہیل چئیر اس کے بالکل سامنے لے ائی- اللھم اعطنی نورا (اے اللہ ، مجھے نور عطا کردے!) چاندنی میں اس کے آنسو موتیوں کی طرح چمک رہے تھے- فرشتے! اس نے ہولے سے پکارا- فرشتے کی آنکھوں میں جنبش ہوئی- اس نے پلکیں جدا کیں اور محمل کو دیکھا- وہ شاید بہت روئی تھی- اس کی آنکھیں متورم ، سرخ تھیں- کیوں رو رہی ہیں؟اس کے اپنے آنسو گرنے لگے تھے- یہ وہ لڑکی تھی جس نے اسے قرآن سنایا تھا، قرآن پڑھایا تھا- اس کی جان ان لوگوں سے چھڑائی تھی سات سال اس کی خدمت کی تھی- بہت احسان تھے اس کے محمل پہ- اور آج اس نے اسے رلا دیا! مجھے رونا ہی تو چاہیے ، وہ سر اٹھا کر چاند کو دیکھنے لگی، میں نے بہت زیادتی کی ہے محمل، بہت زیادتی- وہ خاموشی سے اس کو سنے گئی – شاید ابھی فرشتے نے بہت کچھ کہنا تھا وہ سب جو وہ پہلے نہیں کہہ سکی- میں نے سات سال توجیہات جوڑیں، دلیلیں اکٹھی کیں اور تم نے سات آیتوں میں انہیں ریت کا ڈھیر بنا دیا – میں نے خود کو بہت سمجھایا تھا – بہت یقین دلایا تھا کہ یہی صحیح ہے مگر آج میرا یقین ٹوٹ گیا ہے محمل میں خود غرض ہو گئی تھی ، کتے کی طرح خود غرض ، جو ہڈی ڈالنے پر بھی زبان نکالتا ہے- اس کے اوپر چاند کو تکتی آنکھوں سے قطرے گر رہے تھے کبھی تم نے میری چاندی کی وہ انگوٹھی دیکھی ہے محمل؟تم نے کبھی نہیں پوچھا کہ وہ مجھے کس نے دی تھی- جانتی ہو، وہ مجھے میری خالہ نے دی تھی – وہ انہوں نے اپنی بہو کے لیے رکھی تھی، اور اپنی وفات سے قبل وہ بیمار تھیں،انہوں نے مجھے وہ پہنا دی- میری امی ان کا مطلب سمجھتی تھیں، مگر خاموش رہیں- وہ وقت آنے پہ ہمایوں سے بات کرنا چہاتی تھیں ، مگر وقت نہیں آیا- آہی نہ سکا- امی فوت ہوئیں تو میں چپ چاپ مسجد چلی گئی- میں برسوں انتظار کرتی رہی کہ ہمایوں کبھی تو اس انگوٹھی کے بارے میں پوچھے گا، مگر اس نے نہیں پوچھا- پھر میں نے صبر کر لیا، مگر انتظار تو مجھے تھا نا-میں نے بچپن سے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام سنا تھا مجھے اس پہ اپنا ہی حق لگتا تھا-اور جب ایک روز ہمایوں نے مجھے کہا کہ مجھے شادی کے بارے میں سوچنا چاہیئے ، تو میں نے اس کو خالہ کی خواہش کے بارے میں بتانے کا سوچا- اس رات میں بہت دیر تک مسجد کی چھت پہ بیٹھی رہی تھی، اور جب میں فیصلہ نہ کر پائی تو دعائے نور پڑھنے لگی -تمہیں پتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا کا ایک حصہ سجدے میں پڑھا کرتے تھے؟ اور یہ دعا قرآن سمجھنے میں مدد دیتی ہے میں جب بھی فیصلہ نہ کر پاتی اس دعا کو پڑھتی- اس رات بھی میں پڑھ کر ہٹی ہی تھی کہ تم ہماری چھت پہ آئیں، اور پھر تم ہماری زندگی میں بھی آگئیں- میں نے آج تک تمہارے لیے جو بھی کیا ہے وہ اللہ کے لیے کیا ہے-مجھے یاد بھی نہیں کہ میں نے کیا کیا تھا، پھر جب میں نے ہمایوں کو تمہارے لیے مسکراتے دیکھا اور اس کے لیے تمہاری آنکھوں کو چمکتے دیکھا تو میں نے سوچا کہ تمہیں آگاہ کر دوں، اور تمہیں یاد ہے جب تم اسپتال میں ہمایوں کو دیکھنے آئی تھیں، تو میں تمہیں بتانے ہی والی تھی- مگر تم نے نہیں سنا ، تب میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں گی-قربانی دے دوں گی- تب میرا جینا، اور میرا مرنا۔ اور میری نماز اور میری قربانی صرف اللہ کے لیے تھی- میں نے ہر چیز بہت خلوس دل دے کی تھی -خود تمہاری شادی کروائی اور اپنے تئیں میں مطمئن تھی لیکن- جب تمہارا ایکسیڈنٹ ہوا اور میں پاکستان واپس آئی تو مجھے پہلی دفعہ لگا شاید تم زندہ نہ رہ سکو، اور ہمایوں میرا نصیب۔۔۔۔ اور اس سے آگے سوچنے سےبھی میں ڈرنے لگی تھی-سو واپس چلی گئی- مگر ہمایوں جب بھی کال کرتا اور تمہاری مایوس کن حالت کی خبر دیتا تو مجھے لگتا کہ یہی تقدیر ہے-شاید تم ہمیں چھوڑ جاؤ، تب ہمایوں میرے پاس واپس آجائے، مجھے لگا میری قربانی قبول ہوگئی ہے-اس کا انعام مجھے دیا جانے لگا ہے-مجھے بھول گیا کہ وہ قربانی تو اللہ کے لیے تھی، اللہ کو پانے کے لیے تھی، دنیا کے لیے یا ہمایوں کے لیے تو نہ تھی-مگر تمہاری طرف سے ہم اتنے مایوس ہو گئے تھے کہ آہستہ آہستہ مجھے سب بھولتا گیا- میں ہر نماز میں ، ہر روز تلاوت کے بعد ہمایوں کو خدا سے مانگنے لگی – میں آہستہ آہستہ زمین کی طرف جھکنے لگی تو میرے ساتھ شیطان لگ گیا- اس کی اٹھی لمبی گردن پہ آنکھوں سے نکلتے آنسو پھسل رہے تھے- اس کی نگاہیں ابھی بھی اوپر چاند پہ ٹکی تھیں- شاید وہ ابھی محمل کو نہیں دیکھنا چاہتی تھی- جب میں دوبارہ واپس آئی تو اپنی زمین کی طرف جھکی ہوئی آئی ، اس امید پر تمہاری خدمت کرنے لگی کہ شاید یہی دیکھ کر ہمایوں کا دل میری طرف کھنچ جائے- میری اس انتھک خدمت میں ریا شامل ہوگئی- مجھے اس وقت سےڈر نہیں لگا جب میں حشر کے روز اپنے اعمال نامے پہ ان بڑی بڑی نیکیوں پہ کاٹا لگے دیکھوں گی کہ یہ تو ریا کے باعث ضائع ہو گئیں.. جب میں دوبارہ واپس آئی تو اپنی زمین کی طرف جھکی ہوئی آئی ، اس امید پر تمہاری خدمت کرنے لگی کہ شاید یہی دیکھ کر ہمایوں کا دل میری طرف کھنچ جائے- میری اس انتھک خدمت میں ریا شامل ہوگئی- مجھے اس وقت سےڈر نہیں لگا جب میں حشر کے روز اپنے اعمال نامے پہ ان بڑی بڑی نیکیوں پہ کاٹا لگے دیکھوں گی کہ یہ تو ریا کے باعث ضائع ہو گئیں، قبول ہی نہیں کی گئیں- مجھے ڈر نہیں لگا- میں ریا کاری کرتی گئی مگر یقین کرو، قرآن مجھ سے نہیں چھوٹا- میں تب بھی روز اسے پڑھتی تھی مگر میرا جینا مرنا نماز اور قربانی ہمایون کے لیے ہو گئی- یکدم بادل زور سے گرجے اور اگلے ہی لمحے بارش کے ٹپ ٹپ قطرے گرنے لگے مگر وہ دونوں بے خبر بیٹھی تھیں- پھر ایک دن معیز چلا آیا، اسے آرزو نے بھیجا تھا- وہ ان گزرے سالوں میں کئی دفعہ ہمایوں سے رابطے کی کوشش کر چکی تھی مگر جب اس نے توجہ نہ دی تو اس نے معیز کو بھیجا تھا–اس کے پاس تصویریں تھیں اور وہ کاغذ -ہمایوں نے مجھ سے پوچھا تو کاغذ کی بابت میں نے سچ بولا، مگر جب اس نے تصویریں میرے سامنے پھینکیں تو میں خاموش ہوگئی- مجھے یقین تھا کہ وہ جعلی ہیں، مگر ٹیکنیکلی – میں نہیں جانتی تھی کہ وہ سچ ہیں یا نہیں- میرے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا مگر میرا دل ۔۔۔۔ بار بار کوئی میرے اندر وہ آیت دہرا رہا تھا کہ کیوں نہیں تم نے کہا کہ یہ کھلم کھلا بہتان ہے- وہ آیت بھی ایک ایسی محترم ہستی کے لیے نازل ہوئی تھی جس کے اوپر لگائے گئے بہتان کی حقیقت سے مومن بے خبر تھے، پھر بھی اللہ نے ان کو سرزنش کی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کردار کی کتنی سچی ہے ، تم نے اس کی حمایت نہیں کی؟ میں ہمایوں کے سامنے سر جھکائے کھڑی تھی-وہ میرے اوپر چلا رہا تھااور میرے اندر مسلسل کوئی میرے اندر کہہ رہا تھا کہ کہو ہذا افک مبین”( یہ بہتان ہے کھلم کھلا) میں نے سر اٹھایا ، ایک نطر ہمایوں کو دیکھا،وہ ہمایوں جس سے میں محبت کرتی تھی اور پھر میں نے کہہ دیا کہ میں اس بارے میں لا علم ہوں- تب ایک دم میرے اندر باہر خاموشی چھا گئی-وہ آواز آنا بند ہو گئی-تب ہمایوں نے معلوم نہیں کہاں سے وہ ٹیپ نکالی اور مجھے سنوائی-اس میں کسی انگوٹھی کا تذکرہ تھا -اس نے معیز کی بات دہرائی کہ کیا اس روز فواد تمہیں پرپوز کرنے کا جھانسہ دے کر باہر لے کر گیا تھا؟تب پھر سے کسی نے میرے اندر کہا – اللہ خیانت کار کی چال کی راہنمائی نہیں کرتا- مگر اب وہ آواز کمزور پڑ چکی تھی-مجھے امانت کے سارے سبق بھول گئے-میں نے اسے وہ بتا دیا جو تم نے مجھے بتایا تھا- تب وہ مجھ پہ بہت چیخا- اس نے کہا کہ میں نے اپنی بہن کو بچانے کے لیے اس کے سر تھوپ دیا ہے-اس نے بہت مشکل سے دل بڑا کر کے اس بات کو نظر انداز کیا تھا کہ تم کس طرح پہلی دفعہ اس کے گھر لائی گئی تھی-مگر یہ بات کہ فواد کا اور تمہارا کوئی افیر تھا-اس کے لیے ناقابل برداشت تھی-میرے ایک فقرے نے ہر چیز پر تصدیق کی مہر لگا دی -وہ مجھ پہ کبھی ایسے نہیں برسا تھا-جیسے اس رات برسا تھا، میں ساری رات روتی رہی – نا معلوم غم کس بات کا زیادہ تھا- خیانت کا یا ہمایوں کے رویے کا-میں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا-مگر ہمایوں نے اگلی صبح مجھ سے ایکسیکوز کر لیا- میں چپ چاپ سنتی رہی -تب آخری دفعہ میرے دل سے آواز ائی کہ اس کو بتا دو کہ تم نے جھوٹ بولا تھا- مگر میں چپ رہی -میں خواہشات کی پیروی میں چلنا شروع کر دیا-اور میں بھٹک گئی – وہ کراچی چلا گیا اور میں کئی دن تک تمہیں دیکھنے اسپتال نہ جا سکی-جس دن میں نے خیانت کی،اس دن سے آج کے دن تک تین ساڑھے تین سال ہونے کو آئے ہیں،میں قرآن نہیں کھول پائی-ہاں نمازیں میری آج بھی ویسی ہی لمبی ہیں، میں سجدوں میں گر کر ہمایوں کو اب بھی مانگتی ہوں، مگر قرآن پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملا-ْ بارش تڑا تڑ برس رہی تھی-فرشتے کے بھورے بال بھیگ چکے تھے-موٹی موٹی لٹیں ، چہرے ک اطراف میں چپک گئی تھی-وہ ابھی تک اوپر چاند کو دیکھ رہی تھی- وہ کراچی سے آیا تو بدل گیا تھا-پھر ایک روز اس نے مجھے پرپوز کیا-اچانک بالکل اچانک سے اور مجھے لگا میری ساری قربانیاں مستجاب ہو گئی ہیں-پھر مڑ کر پیچھے دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا-وہ تم سے بہت بد ظن ہو چکا تھا- مگر میں نے اسے مجبور کیا کہ ،کہ وہ تمہارا علاج کروانا نہ چھوڑے – موسلا دھار بارش میں بار بار بجلی چمکتی تو پل بھر میں سارا لان روشن ہو جاتا- فوادنے کئی دفعہ فون کر کے تمہارا پوچھنا چاہا، میں نے اسے کبھی کچھ نہیں بتایا، بس اس کی بات سن کر کچھ کہے بنا ہی فون بند کر دیتی-وہ بہت بدل گیا ہے-مجھے لگتا تھا کہ اگر اسے اس سارے کھیل کا علم ہو گیا تو وہ ہمایوں پاس آ کر اسے سب بتادے گا- مشکل ہی تھا کہ ہمایوں اس کا یقین کرے مگر اس ڈر سے میں نے اسے کبھی کچھ پتا نہیں لگنے دیا- مجھے ہمایوں نہیں چاہیئے فرشتے! وہ روتے ہوئے بولی تھی، مجھے اپنی بہن چاہیئے! مجھے بھی ہمایوں نہیں چاہیئے – مجھے بھی اپنی بہن ہی چاہیئے! اس نے بھیگی آنکھوں کا رخ پہلی دفعہ محمل کے چہرے کی طرف کیا-محمل نے اس کے گھٹنوں پہ رکھے ہاتھ پکڑ لیے- ان میں آج چاندی کی وہ انگوٹھی نہیں تھی- بارش زور سے ان دونوں پہ برس رہی تھی میں نے فواد کو فون کردیا ہے وہ پہنچنے والا ہوگا – وہ خاصا سمجھدار بندہ ہے ایسے ثبوت لائے گا کہ ہمایوں اس کو جھٹلا نہیں سکے گا -وہ ابھی آ کر ہمایوں کو سب کچھ بتا دے گا-ابھی کل دوپہر میں خاصا وقت ہے-تمہاری عدت ختم نہیں ہوئی – میں جانتی ہوں کہ وہ حقیقت جان کر رہ نہیں پائے گا-اور تمہیں واپس اپنائے گا- آؤ- اندر چلتے ہیں-فرشتے نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے نکالے ، اٹھی اور پھر وہیل چئیر کی پشت تھام لی- بس مجھ پر ایک احسان کرنا – ہمایوں کو مت بتانا کہ میں خیانت کی-میں اس کی نظروں سے گرنا نہیں چاہتی-بظاہر میں نے جھوٹ نہیں بولا مگر مجھے تمہارا راز نہیں کھولنا چاہیئے تھا-میں اس سے کہہ دوں گی کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی، میں فواد کے سامنے تمہاری تائید کرونگی،مگر تم – تم میری عزت رکھ لینا-وہ جانتا ہے- کہ فرشتے جھوت نہیں بولتی ، خیانت نہیں کرتی -اس نے ان تصویروں پہ نہیں مجھ پہ یقین کر کے تمہیں طلاق دی تھی- تم میری عزت رکھ لینا- وہ اسکی وہیل چئیر دھکیلتی آہستہ آہستہ بے خود سی کہہ رہی تھی- محمل نے سر جھکا لیا- وہ فرشتے کو نہیں بتا سکی کہ آج وہ پھر زمین کی طرف جھک رہی ہے مگر اسے پتہ نہیں ہے- تم ہمایوں کو واپس لے لو محمل- وہ تمہارا ہے، اسے تمہارا ہی رہنا چاہیئے- وہ اسے اس کے کمرے میں چھوڑ کر پلٹ گئی- کمرے میں اسی طرح نیم اندھیرا تھا- کھڑکی کے پردے ہٹے تھے- ٹیبل لیمپ ابھی تک جل رہا تھا-وہ خود کو گھسیٹتی آگے بڑھی اور لیمپ کا بٹن بجھایا-ایک دم کمرے میں اندھیرا پھیل گیا-بس کھڑکی کے پار بارش کے قطرے گرتے دکھائی دے رہے تھے- وہ وہیں کھڑکی کے سامنے بیٹھی بارش کو دیکھے گئی- انسان جس سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے، اللہ اسے اسی کے ہاتھوں سے توڑتا ہے، انسان کو اس ٹوٹے ہوئے برتن کی طرح ہونا چاہیئے جس سے لوگوں کی محبت ائے اور باہر نکل جائے- اللہ نے اسے انہی لوگوں کے کے ہاتھوں توڑا تھا جن سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتی تھی- ہمایوں فرشتے اور تیمور! تب ہی گاڑی کا ہارن سنائی دیا- وہ خاموشی سے دیکھتی رہی – وہ گاڑی باربار ہارن بجا رہی تھی- تب اس نے برستی بارش میں ہمایوں کو گیٹ کی جانب جاتے دیکھا-اس نے گیٹ کھولا تو گاڑی زن سے اندر داخل ہوئی- ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر وہ تیزی سے باہر نکلا تھا، وہ فواد ہی تھا ، وہ پہچان گئی تھی- وہ ویسا ہی تھا ، بس آنکھوں پہ فریم لیس گلاسز تھے اور بالوں کا کٹ زیادہ چھوٹا تھا- کیا ہمایوں اس کی بات سن لے گا؟ کبھی بھی نہیں! تب ہی فواد نے لپک کر فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا اور کسی کو بازو سے کھینچ کر باہر نکالا- محمل دھک سے رہ گئی- وہ معیز تھا- پتلا لمبا نوجوان، فواد اس کو پکڑ کر ہمایوں کے سامنے لایا جو قدرے چونکا ہوا کھڑا تھا- برستی بارش کا شور بہت تیز تھا- ان کی باتوں کی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی-وہ تینوں بارش میں بھیگتے کھڑے تھے-فواد زور زور سے کچھ کہہ رہا تھا- ہمایوں سینے پہ ہاتھ باندھے خاموشی سے صرف سن رہا تھا- اس کی محمل کی طرف پشت تھی- وہ اس کے چہرے کے تاثرات نہیں دیکھ سکتی تھی- اور تب اس نے معیز کو ہاتھ جوڑے دیکھا- شاید اس کے چہرے پہ بارش کے قطرے تھے ، یا شاید وہ رو رہا تھا- روتے ہوئئے وہ کچھ کہتے ہوئے وہ ہمایوں سے معافی مانگ رہا تھا-اور تب اس نے فرشتے کو باہر آتے دیکھا- وہ بھی کچھ کہہ رہی تھی- محمل نے ہاتھ بڑھا کر پردہ برابر کردیا- وہ اس منظر کو اب مزید نہیں دیکھنا چاہتی تھی- کتنی ہی دیر بعد اس نے فرشتے کی اواز سنی، وہ فواد اور معیز کو ادھر لا رہی تھی- اس کے کمرے کا دروازہ کھلا، محمل کی اس کی طرف پشت تھی- محمل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فواد کی بھرائی ہوئی آواز اسے سنائی دی- معیز نے ہمایوں کو سب کچھ بتا دیا ہے-اگر مجھے پہلے پتا ہوتا تو۔۔۔ محمل ہمیں معاف کردو- ہم نے تمہارے ساتھ بڑی زیادتی کی- آپا! ہمیں معاف کردو ! وہ معیز تھا وہ رو رہا تھا- اماں اور آرزو آپا نے مجھے یہ سب کرنے کو کہا تھا- آپا! اماں بیمار ہیں- وہ اب پہلے جیسی نہیں ہیں- وہ سارا دن چیختی چلاتی ہیں- آپا۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں – وہ کہہ رہا تھا اور کوئی دھیمے سے اس کے اندر بولا تھا- پس تم یتیم کے ساتھ سختی نہ کرنا- آپا! آرزوآپا نے خود کشی کر لی ہے-آج ہمایوں بھائی نے اس کو ریجیکٹ کر دیا تھا- اماں سنبھل نہیں پا رہیں- ہمیں بدعا مت دینا آپا – جاؤ معیز ! میں نے تمہیں معاف کیا- سب کچھ معاف کیا- وہ کھڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تھی- آپا دعا کرو آرزوآپا بچ جائیں- ان کے لیے بد دعا مت کرنا- میں دعا کروں گی تم جاؤ – اور وہ ویسے ہی الٹے قدموں واپس پلٹ گیا- کیا تم ہمیں معاف کر سکتی ہو محمل؟َوہ شکست خوردہ ،ٹوٹا ہوا آغا فواد ہی تھا- “میں نے معاف کیا سب معاف کیا- وہ اب بھی پیچھے نہیں مڑی تھی- آغآ جان کو آدھے جسم کا فالج ہو گیا ہے- وہ تمہیں بہت یاد کرتے ہیں-ممی ان کے غم کی وجہ سے نہ زندوں میں رہی ہیں نہ مردوں میں- سدرہ کے شوہر کی ڈیتھ ہوگئی ہے اور اس کے وہ خاندانی سسرال والے اس کو میکے نہیں انے دیتے – وہ اور اس کے یتیم بچے اپنے گھر میں اس سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں جو تم نے مسرت چچی نے گزاری تھی- مہرین کو۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ مت بتائیں فواد بھائی- پلیز میں نے معاف کیا – سب معاف کیا- مجھے یہ سب بتا کر اور دکھ نہ دیں- ابھی مجھے اکیلا چھوڑ دیں- اس کے نرم لہجے میں منت تھی- ٹھیک ہے- اور یہ تمہارا حصہ ہے ان میں تمام سالوں کے منافع سمیت – فرشتے کا حصہ میں اسے ادا کر چکا ہوں-ہوسکے تو ہمارے لیے دعا کرنا- وہ ایک فائل اور ایک مہربند لفافہ اس کی بیڈ کی پائنتی پہ رکھ کر واپس مڑگیا تھا- محمل نے گردن پھیر کر دیکھا- وہ سر جھکائے نادم و شکستہ حال جا رہا تھا- وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ آغا فواد کا کیا انجام ہوا؟مگر یہ دنیا انجام کی جگہ تھوڑی ہے؟یہ تو امتحان کی جگہ ہے اپنے گناہ نظر آنا بھی ایک امتحان ہے اصل فیصلہ تو روز حساب ہی ہوگا- اس کے بیڈ کی پائنتی پر چند کاغذ رکھے تھے- وہ کاغذ جوکبھی اس کی زندگی کا محور تھے مگر آج اس نے ان پہ دوسری نظر بھی نہیں ڈالی تھی-انہیں کاغذوں کے لیے اس نے فواد کا جھانسہ قبول کیا تھا، آج فواد نے اسے خود لا دیے تھے مگر کتنی بھاری قیمت تھی اس غلطی کی جو اسے چکانی پڑی تھی- کچی عمر کے کچے سودے۔۔۔۔ بارش دھیمی ہو چکی تھی- کھڑکی کی جالیاں گیلی ہو چکی تھیں-ان سے مٹی کی سوندی خوشبو اندر آرہی تھی-بہت دیر تک وہ وہی بیٹھی خوشبو سونگھتی رہی – اسے لا شعوری طور پر اس کا انتظار تھا- وہ جانتی تھی اب وہ اس کے کمرے میں ضرور آئے گا- کافی لمحے بیت گئے تو اس نے چوکھٹ پرآہٹ سنی- وہ آہستہ سے مڑی- ہمایوں تھکا ہارا سا دروازے میں کھڑا تھا- یہ وہ دروازہ تھا جہ اسنے محمل کی موجودگی میں کبھی پار نہیں کیا تھا- یہ وہ چوکھٹ تھی جس پہ وہ کبھی سوالی بن کر نہیں ایا تھا- مگر آج وہ آیا تھا- اس کے تھکے تھکے ٹوٹے قدم آہستہ آہستہ اندر داخل ہوئے تھے- محمل! ٹوٹی ہوئی آواز میں اس نے پکارا تھا- اور پھر وہ پورے قد سے ،گھٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آن گرا تھا- مجھے معاف کردو محمل !اس کی آنکھیں سرخ تھیں ، اور چہرے پہ صدیوں کی تھکان تھی- مجھے معاف کردو- میں بہت دور چلا گی اتھا- اس نے تاسف سے ہمایوں کو دیکھا- پہلے بھی وہ سب اس سے اس کا سب کچھ چھین کر لے گئے تھے- آج بھی وہ مانگ ہی رہے تھے مانگنے ہی آئے تھے- ہر ایک کو اپنے ضمیر کے بوجھ سے نجات چاہیئے تھی- محمل ابراہیم تو کہیں بھی نہیں تھی! میں نے صرف فرشتے کی بات پر۔۔۔۔۔ اور آج وہ کہہ رہی ہے کہ تم نے اس سے صرف ایک مسئلہ پوچھا تھا، اس نے خود غلط اخذ کیا- میں نے صرف فرشتے کی وجہ سے- کیا آپ نے پہلے زندگی کے سارے فیصلے فرشتے کے دماغ سے کیے تھے ایس پی صاحب ؟ وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی- آپ چھوٹے بچے تھے جو یہ نہیں جانتے تھے کہ میرے رشتے دار میرے کھلے دشمن ہیں؟ آپ ان پڑھ جاہل تھے جو یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایسی محمل ، یقین کرو میں- ایک منٹ ایس پی صاحب ! میں نے کئی مہینے صرف آپ کی سنی ہے- آج اپ میری سنیں گے-آپ کہتے ہیں کہ آپ نے فرشتے کے کہے پہ یقین کرلیا؟ آج میں آپ سے پوچھتی ہوں کہ آپ نے فرشتے سے پوچھا ہی کیوں؟ آپ میری طرف سے اتنے بدگمان تھے کہ آپ کو دوسروں سے پوچھنا پڑا ؟ کیوں نہیں آپ نے تصآویر معیز کے منہ پے دے ماریں؟کیا آپ بہت قابل پولیس آفیسر نہیں تھے؟ کیا اپ کو کھرا اور کھوٹا الگ کرنا نہیں آتا تھا؟ کیا آپ آرزو کی خصلت کو نہیں جانتے تھے؟ یا شاید آپ کی دلچسپی ایک بیمار ،بے ہوش عورت میں ختم ہو گئی تھی- شاید آپ کو میری خدمت سے دور بھاگنے کا ایک موقع چاہیئے تھا- آپ آزاد ہو نا چاہتے تھے- اگر ایسانہ ہوتا تو آپ مجھے صفائی کا موقع تو دیتے – ایک بار تو پوچھتے کہ کیا تم نے ایسا کیا ہے؟ مگر آپ خود بھی مجھ سے تھل گئے تھے- آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا ہمایوں کہ اگر میری جگہ آپ یوں بیمار ہوتے اور میں آپ کے ساتھ یہی کرتی تو آپ کی کیا حالت ہوتی؟ بولتے بولتے اس کا سانس پھول گیا تھا- تب ہی کھلے دروازے سے تیمور اندر آیا- شور سن کر وہ نیند سے جاگا تھا- وہ بھاگ کر اس کے پاس آیا اور اس کے گھٹنوں سے لپٹ گیا- مگر ہمایوں اور محمل اس کو نہیں دیکھ رہے تھے– ” محمل ، مجھے معاف کردو – میں رجوع کرنا چاہتا ہوں-میرے ساتھ چلو- ہمایوں نے اسکا ہاتھ تھامنے کے لیےہاتھ بڑھایا مگر محمل ایک دم پیچھے کو ہوئی- لیکن اب میں ایسا نہیں چاہتی – ٹوٹئ دھاگے کو دوبارہ جوڑا جائے تو اس میں ایک گرہ رہ جاتی ہے-ہمارے درمیان بھی وہ گرہ رہ گئی ہے، سو اس دھاگے کو ٹوٹا رہنے دیں- محمل! وہ بے یقین تھا- معافی کے لیے جڑے اس کے ہاتھ نیچے گر گئے- محمل نے گہری سانس لی – میں نے آپ کو معاف کر دیا ہے ہمایوں! دل سے معاف کردیا ہے-مگر اب رجوع کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے- آپ فرشتے سے شادی کر لیں- آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں- درمیان میں ،میں آگئی تھی- مگر محمل۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر آج وہ نہیں سن رہی تھی- مجھے کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہے-ہمایوں- میرا بیٹا میرے پاس ہے- فواد نے مجھے میرا حصہ بھی دلا دیا ہے- میں لوگوں کی محتاج نہیں رہی ، آپ فرشتے سے شادی کرلیں- وہ آپ کا انتظار کر رہی ہے- اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا- ہمایوں نے گردن موڑ کر دیکھا- فرشتے وہاں کھڑی رو رہی تھی- ہمایوں کو گردن موڑتے دیکھ کر ، وہ منہ پہ ہاتھ رکھے باہر کو بھاگی تھی- آپ اس کا اور امتحان نہ لیں- اس سے شادی کر لیں- میں تیمور ایک دوسرے کو بہت ہیں- ہمارا تیسرا اللہ ہے- آپ ہمیں جانے دیں- اب ہمارا ساتھ نا ممکن ہے- وہ بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا تھا- میں نے تمہاری قدر نہیں کی محمل! وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے اٹھا، اور شکستہ قدموں سے باہر کی جانب بڑھ گیا- دروازہ بند کر جائیے گا- اس کے الفاظ پہ وہ ذرا دیر کو رکا ، مگر پلٹا نہیں- اب شاید وہ پلٹنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تھا- بہت آہستہ سے وہ باہر نکلا اور کمرے کا دروازہ بند کیا- وہ محمل کی زندگی سے جا چکا تھا- فرشتے کہتی تھی کہ اس نے سنا نہیں جب وہ برسوں پہلے اس اسپتال میں ” کچھ ” بتانا چاہتی تھی- حالانکہ وہ منظر تو اسے آج بھی یاد تھا- وہ جو نرس کے پکارنے پہ اٹھی تھی-وہ ہمیشہ سے جانتی تھی کہ فرشتے ہمایوں کو پسند کرتی ہے- مگر جب فرشتے نے خود اپنے رویے سے یقین دلایا تو وہ بھی بظاہر خود کو مطمئن کرنے لگی کہ بھلا فرشتے ایسے جذبات کیوں رکھے گی، مگر دور اندر وہ ہمیشہ سے جانتی تھی- اگر آرزو کو درمیان میں نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہہوتی کہ ہمایوں کس سے شادی کر رہا ہے- ہاں وہ جانتی تھی کہ فرشتے کیوں ان کی شادی کے بعد باہر چلی گئی تھی- وہ سب جانتی تھی- یہ بھی کہ اب وہ معذور ہو گئی تھی- ایک بے کشش عورت بن گئی تھی- ہمایوں نادم ہو کر پلٹا تو تھا – مگر تھا تو مرد ہی – کب تک اس سے بندھا رہتا؟ جا کانوں کا اتنا کچا تھا کہ اس فون کال میں ایک انگوٹھی کا ذکر اس کی سمجھ میں آیا- اور اس کی مسلسل ” فواد بھائی ” کی تکرار میں بھائی کا لفظ سمجھ میں نہیں آیا- وہ کب تک اس کا رہتا؟ایک نہ ایک دن وہ پھر کسی دوسری عورت کی طرف چلا جاتا – تب بھی وہ اکیلی رہ جاتی مگر تب وہ شاید برداشت نہ کر پاتی- اس میں بار بار ٹوٹنے کا حوصلہ نہیں تھا – سو اس نے ٹوٹا ہوا برتن بننے کا سوچا- فرشتے نے اعتراف کیا تھا،معافی نہیں مانگی تھی- ہمایوں نے معافی مانگی تھی مگر اعتراف نہیں کیا تھا- اور وہ دونوں سمجھتے تھے کہ وہ بری الذمہ ہوگئے ہیں- خیر ! تیمور ! اس نے گود میں سر رکھے تیمور کے نرم بھورے بالوں کو پیار سے سہلایا- ہوں؟ وہ کچی نیند میں تھا- تم نے ایک بار مجھ سے پوچھا تھا کہ میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ذکر پہ اداس کیوں ہو جاتی ہوں، ہے نا؟ جی ماما! وہ نیم غنود سا بولا – پتا ہے کیوں اداس ہو جاتی ہوں؟ اس نے اپنے آنسو پونچھے ، کیونکہ وہ بہت صبر کرنے والے تھے اور وہ اپنے والد کے بہت پیارے تھے- اسے بولتے ہوئے کچھ اور بھی یاد آرہا تھا- مگر ان کے اپنے بھایئیوں نے اس کو ایک اندھے کنویں میں ڈال دیا- اس کی آنکھوں کے سامنے کچھ مناظر تیزی سے چل رہے تھے- پھر ان کو درہم کے عوض بیچا گیا- اس پہ بہتان لگایا گیا-ان کو برسوں قید میں رکھا گیا- اور پھر ایک دن آیا جب وہ اسی مصر کے فنانس منسٹر بنے جس میں کبھی ان کو بیچا گیا تھا- ان کو اپنا بچھڑا ہوا بھائی مل گیا- اور وہ جنہوں نے ان پہ تہمتیں لگائی تھیں- اور وہ جنہوں نے ان کو ان کے گھر سے بے دخل کیا تھا، وہ ان کے پاس معافی مانگنے آئے- مگر اس ہستی نے کچھ نہیں جتایا ، کچھ نہیں گنوایا ، سب معاف کردیا- میں اس لیے اداس ہوتی ہوں تیمور کہ میں صبر کے اس مقام تک کبھی نہیں پہنچ سکی – کیا تم سن رہے ہو؟ اس نے چند لمحے اسکے جواب کا انتظار کیا – اور پھر جھک کر اس کے بالوں کو چوما- تیمور گہری نیند سو چکا تھا- ٹی وی لاؤنج کی مرکزی دیوار پہ بڑی سی پلازمہ اسکرین لگی تھی- اس پر ایک خوبصورت منظر پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا- روشنیوں سے منور ایک بڑا ساہال ،ہزاروں لوگوں کا مجمع – اسٹیج پہ بیٹھی نامور دینی شخصیات اور رووٹرم پہ کھڑا وہ شخص جو لیکچر دے رہا تھا- ٹی وہ کے سامنے صوفے پہ بیٹھے ہمایوں داؤد نے ریموٹ اٹھا کر آواز اونچی کی- والیوم کے بڑھتے نقطے اسکرین پہ موجود شخص کے کوٹ پہ نمودار ہوئے تھے- ہمایوں نے ریموٹ رکھ دیا- اب وہ بنا پلک جھپکے ، ساکت بیٹھا اسکرین کو دیکھ رہا تھا- یہ فیصلہ آج نہیں ہوا تھا، بلکہ بیسویں صدی کے اوائل میں ہی ہو گیا تھا کہ قرآن صرف عربی کا قر آن ہے- اس کے تراجم قر آن نہیں ہیں- وہ روشن چہرے والا شخص اپنے خوبصورت انگریزی لب و لہجے میں کہہ رہا تھا- وہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا- چہرے پہ نفاست سے تراشیدہ داڑھی تھی، اور سر پہ سفید جالی دار ٹوپی اس کی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں- کانچ سی بھوری چمکتی ہوئی- اور مسکراہٹ بہت دلفریب تھی-کچھ تھا اس کی مسحور کن شخصیت میں کہ ہزاروں لوگوں سے بھرے ہال میں سناٹا تھا- سب سانس روکے اس کی بات سب رہے تھے- آج کے دور کا مسلم جب قرآن کھولتا ہے تو کہتا ہے کہ اسے اس میں وہ انداز ککلام نظر نہیں ارہا جس کے قصے وہ بچپن سے سنتا آیا ہے وہ انداز کلام جسے سنتے ہی عرب کے لوگ لاجواب ہو جاتے تھے- سجدے میں گرجاتے تھے، فورا ایمان لے آتے تھے- آخر کیا وجہ ہے کہ اس قرآن کا لاکھ انکار کرنے کے باوجود ابوجہل بن ہشام جیسے لوگ بھی چھپ چھپ کر اسے سننے آتے تھے؟اور کیا وجہ ہے کہ ہمیں اس میں وہ بات نہیں نظر آتی جو ان عربوں کو نظر آتی تھی؟ہمیں کیوں یہ صرف قصوں کا مجموعی لگتا ہے جن کے درمیان چند نصیحتیں ہیں اور نماز روزے کے احکام ؟ ہمایوں نے ریموٹ اٹھا کر دوبارہ آواز اونچی کی۔ اور پھر مضطرب انداز میں واپس رکھ دیا – کیا آپ نے ڈاکٹر موریس بکائی کا واقعہ سنا ہے؟ اس نے لمحے بھر کو توقف کیا اور پورے ہال پہ نگاہ دوڑائی -سب دم سادھے اس کو سن رہے تھے- ڈاکٹر موریس بکائی ایک فرنچ ڈاکٹر تھے- وہ اپنے پاس آنے والے ہر مسلمان مریض سے کہتے تھے کہ قرآن حق نہیں ہے بلکہ ایک من گھڑت کتاب ہے- مریض بے چارے آگے سے خاموش ہو جاتے – پھر ایک دفعہ جب شاہ فیصل ان کے پاس زیر علاج تھے- انہوں نے یہی بات شاہ فیصل ان کے پاس زیر علاج تھے- انہوں نے یہی بات شاہ فیصل سے کہی تو انہوں نے پوچھا کیا تم نے قرآن پڑھا ہے اس نے کہا ہاں تو شاہ فیصل نے کہا کہ تم نے صرف قرآن کا ترجمہ پڑھا کیونکہ قرآن صرف عربی میں ہے- ڈاکٹر بکائی نے اس کے بعد دوسال لگا کر عربی سیکھی اور پھر جب انہوں نے اصل قرآن پڑھا تو وہ فوڑا مسلمان ہو گئے- با دراصل یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر لوگوں نے قرآن نہیں پڑھا ہوتا- جو عربی ہم پڑھتے ہیں اس کا لیٹرل ورڈ میننگ ہمیں نہیں آتا ہوتا اور اس کا جو اردو ترجمہ ہم پڑھتے ہیں وہ اللہ نے نہیں اتارا ہوتا- کسی حد تک یہ تراجم اثر کرتے ہیں، لیکن اگر کوئی قرآن کا اصل جاننا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ عربی کا قرآن پڑھے- ہمایوں کے صوفے کے پیچھے جانے کب آہستہ سے فرشتے آکھڑی ہوئی تھی – وہ نا پلک جھپکے اسکرین کو دیکھ رہی تھی- اب اس کے دو طریقے ہیں، یا تو آپ پوری عربی سیکھیں ، یا آپ صرف قرآن کی عربی سیکھیں اور صرف قرآن کی عربی سیکھ کر بھی آپ بالکل درست طور پہ اصل قرآن سمجھ سکتے ہیں – اینی کوئسچن ؟ اس نے رک کر ہال پہ نظر دوڑائی – اسٹیج کے سامنے لگے مایک کے قریب کھڑی ایک پاکستانی لڑکی فورا آگے بڑھی اور مائیک تھاما- السلام علیکم ڈاکٹر تیمور- وعلیکم السلام ! وہ سر کے خفیف اشارے سے جواب دیتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوا- سر! مجھے آپ کی بات سن کر یہ سب بہت مشکل لگ رہا ہے- عربی بہت مشکل زبان ہے اور پیچیدہ اور یہ ہماری مادری زبان نہیں ہے- عام آدمی – اسے کیسے سیکھ سکتا ہے؟ وہ ذرا سا مسکرایا اور اپنا چہرہ مائیک کے قریب لایا- بالکل ایسے جیسے ہمارے ملک کے عام آدمی نے دنیا کا علوم حاصل کرنے کے لیے انگریزی سیکھی ہے- وہ بھی ہماری زبان نہیں ہے- مگر ہمیں آتی ہے- کیا نہیں آتی؟ عربی سیکھنا تو زیادہ آسان اس لیے بھی ہے کہ یہ اردو سے بہت قریب ہے- لڑکی نے لا جواب ہو کر گہری سانس بھری پیچھے پورے ہال میں ایک تبسم بکھر گیا- “میرا ایک کوئسچن ہے سر!” ایک نو عمر،لمبا سا لڑکا مائیک پہ آیا. ” میں نے آپ کے پچھلے لیکچر سے متاثر ہو کر قرآن سیکھنا شروع کیا تھا.مگر قرآن پڑھتے اب مجھ پر پہلے والی کیفیت طاری نہیں ہوتی. دل میں گداز نہیں پیدا ہوتا. میں قرآن پڑھتا ہوں تو میرا ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے.” تیمور نے مائیک قریب کیا، پھر بغور اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے پوچھا.” آپ کہیں جھوٹ تو نہیں بولتے؟” “جی؟” وہ بھونچکا رہ گیا. “ایک بار یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور آمین کے دل میں اترتا ہے. میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علما کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے.” بات کرتے ہوئے تیمور ہمایوں کی کانچ سی بھوری آنکھوں میں ایک کرب ابھرا تھا.اس نے صوفے کی پشت پہ ہاتھ رکھے. فرشتے ساکت کھڑی تھی.اس کے پیچھے دیوار میں شیلف بنا تھا. ایک طرف میز تھی .میز پہ تازہ تہہ کی ہوئی جائے نماز ابھی ابھی رکھی گئی تھی. ساتھ شیلف کے سب سے اوپر والے خانے میں احتیاط سے غلاف میں لپٹی ایک کتاب رکھی تھی. اس کا غلاف بہت خوبصورت تھا. سرخ ویلویٹ کے اوپر سلور ستارے. مگر گذرتے وقت نے غلاف کے اوپر گرد کی ایک تہہ جما دی تھی اور وہ شیلف اتنا اونچا تھا کہ اس تک اسٹول پہ چڑھے بغیر ہاتھ نہیں جاتا تھا. “جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جاتا ہے.” اسکرین پہ وہ روشن چہرے والا شخص کہ رہا تھا. ” ہم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے عرب معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ رکھتے ہیں کہ وہ بہت جاہل اور گنوار لوگ تھے اور بیٹیوں کو زندہ دبانے والے وحشی تھے. لیکن ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں. وہ مہمان نواز تھے، عہد کی پاس داری کرتے تھے. جہاں تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام عرب کے کچھ غریب قبائل کرتے تھے اور اس وقت بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں جو فدیہ دے کر ان بچیوں کو چھڑاتی تھیں. اور رہی بات صداقت کی تو عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح عمل سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس شخص پہ حیران ہوتے تھے جو جھوٹ بولتا ہو. اسی لئے ان لوگوں کو قرآن دیا گیا تھا اور اسی لئے ہم لوگ اس کی سمجھ سے محروم کر دے گئے ہیں، کیوںکہ نہ تو ہم سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت کا خیال رکھتے ہیں بھلے وہ کسی ذمہ داری کی امانت ہو، کسی کی عزت کی یا کسی کے راز کی.” محمل مسکرا کر ٹی وی اسکرین کو دیکھ رہی تھی- وہ سیمینار ملائشیا سے لائیو آرہا تھا- سیمینار ختم ہوتے ہی تیمور نے فلائٹ لینی تھی اور وہ جانتی تھی کہ رات کھانے پہ وہ ان کے ساتھ ہوگا- ابھی اس نے تیمور کے لیے اسپیشل ڈش کی تیاری بھی شروع کرنا تھی وہ پروگرام چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی- تیمور کے لیے کھانا وہ ہمیشہ اپنے ہاتھوں سے بناتی تھی-ایک ایک سبزی خود کاٹتی تھی ہاں ، آغآ جان کا پرہیزی کھانا ملازمہ بنا لیتی تھی- وہ سیڑھیوں کے ایک طرف سے نکلتی ہوئی آغآ جان کے کمرے کے دروازے کے باہر رکی اور ہولے سے کھٹکھٹا کر کھولا- آغآ جان ! آپ نے ناشتہ کر لیا؟ وہ بیڈ پر لیٹے تھے- ان کے ہونٹ فالج کے باعث ذرا ٹیرھے ہو گئے تھے- اس کی آہٹ سن کر انہوں نے آنکھیں کھولیں اور پھر مسکرانے کی کوشش کی- جب سے وہ اپنی اولاد پہ بوجھ بنے تھے، محمل انہیں اپنے پاس لے آئی تھی- تیمور کہہ رہا تھا وہ رات تک پہنچ جائے گا- وہ آگے بڑھی اور کھڑے کھڑے اس کا ہاتھ نرمی سے تھامے بتانے لگی – میں رات کو کچھ اسپیشل بنانے کا سوچ رہی ہوں، کتنے دنوں بعد ہم تینوں اکٹھے کھائیں گے، ہے نا؟ آغا جان نے پھر مسکرانے کی سعی کی، اس کوشش میں ان کیآنکھوں سے دوآنسو ٹوٹ کر گرے- آپ فکر مت کریں، میں ہوں نا آپ کے پاس – جس طرح اللہ نے مجھے شفا دی آپ کو بھی دے گا- اس نے نرمی سے ان کے آنسو صاف کیے، اچھا مجھے مسجد میں ایک لیکچر دینا ہے ، بس گھنٹہ لگے گا، میں ابھی چلتی ہوں ، جلدی آنے کی کوشش کروں گی،پھر ڈنر کی تیاری بھی کرنی ہوگی- وہ گھڑی دیکھتی جانے کو مڑی- آغا جان اب سسک سسک کر رو رہے تھے- باہر آکر وہ سیڑھیوں کے پاس لگے آئینے کے سامنے رکی – سامنے کیل پہ اس کی پونی ٹنگی تھی- اس نے پونی اٹھائی اور لمبے بال سمیٹ کو اونچی پونی میں جکڑے پھر آئینے میں خود کو دیکھا اور مسکا دی- وہ آج بھی اتنی ہی صبیح ، تروتازہ اور خوبصورت تھی جتنی برسوں پہلے لگتی تھی- اورآج بھی ہر صبح وہ اہیں جاتی تھی جہاں پہلے جایا کرتی تھی- اس نے ٹی وی بند کیا- ( تیمور کا پروگرام ختم ہوچکا تھا) اور میز سے اپنا بیگ اور سفید جلد والا قرآن اٹھائے آغآ ہاؤس ، سے باہر نکل آئی- وہ مسجد جانے سے پہلے پندرہ منٹ کے لیے بس اسٹاپ ضرور جایا کرتی تھی- اسے کئی برسوں سے اس سیاہ فام لڑکی کی تلاش تھی- جس نے اس تک قرآن پہنچایاتھا-وہ ایک دفعہ اس سے مل کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی- سنہری سی صبح اتری ہوئی تھی- دور کہیں پرندے بول رہے تھے، وہ دھیمی رفتار سے چلتی ، سفید جلد والا قرآن سینے سے لگائے بینچ پہآبیٹھی- ہر صبح کی طرح آج بھی وہ اسی موہوم – امید پہ ادھر آئی تھی کہ شاید وہ لڑکی آجائے- رات خوب بارش ہوئی تھی- سرمئی سڑک ابھی تک گیلی تھی- وہ سر جھکائے اداس سی بیٹھی سڑک پہ چلتی چیونٹیاں دیکھ رہی تھی- پندرہ منٹ ہونے کو آئے تھے مگر وہ لڑکی کہیں بھی نہیں تھی- مایوس ہو کر محمل نے جانے کے لیے بیگ اٹھایا- تب ہی اسے سڑک پر قدموں کی چاپ سنائی دی – اس نے بے اختیار سر اٹھایا- ایک لڑکی دور سے چلی آرہی تھی- کندھے پہ کالج بیگ ،ہاتھ میں موبائل ، شولڈر کٹ بال کیچر میں جکڑے ہوئے جینز پہ کرتا پہنے چیونگم چباتی ، قدرے جھنجھلاتی ہوئی سی وہ دھپ سے آک اس کے ساتھ بینچ پہ بیٹھی- محمل یک ٹک اسے دئکھے جا رہی تھی- وہ لڑکی روز اس وقت ادھر آتی تھی، مگر آج سے پہلے وہ اسے دیکھ کر اتنی چونکی نہیں تھی- اب پاؤں جھلاتی ہوئی اکتا کر مو بائل کے بتن پریس کر رہی تھی- پتا نہیں کیا سمجھتا ہے خود کو- وہ ذیر لب غصے سے بڑبڑا کر اس نے بٹن زور سے دبایا اور موبائل بیگ میں پھینکا- وہ ابھی تک یونہی لڑکی کو دیکھ رہی تھی- بہت دھیرے سے اسے کچھ یاد آیا تھا- وہ لڑکی ادھر ادھر گردن گھماتی تنقیدی نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی- دفعتا محمل کی نگاہوں کا ارتکاز محسوس کرکے وہ چونکی – محمل نے ذرا سنبھل کر نگاہیں جھکالیں- نیچے اس لڑکی کابیگ پڑا تھا، جس پہ جگہ جگہ چاک سے اس کا نام لکھا تھا- عشاء حیدر- وہ زیر لب مسکرادی ، بہت کچھ یاد آگیا تھا- ایکسکیوزمی ! اس نے چیونگم چبانا روک کر ایک دم محمل کو مخاطب کیا- محملنے نرمی سے نگاہیں اٹھائیں- جی؟ میں روزآپکو دیکھتی ہوں اور۔۔۔۔۔۔۔ اس نے محمل کی فود میں رکھے سفید کور والے قرآن کی طرف اشارہ کیا- اورآپ کی اس بک کو بھی- آپ اتنی کئیر سے اسے رکھتی ہیں، اس میں کیا کچھ خاص ہے؟ محمل نے سر جھکا کر سفید قرآن کو دیکھا، جس کی صاف جلد اب خستہ ہو گئی تھی اور جھلکتے صفحے زرد پڑگئے تھے – وہ دیکھنے سے کوئی قدیم کتاب لگتی تھی- خاص تو ہے- اس نے مسکرا کر سر اٹھایا- اچھا واٹس سو اسپیشل ؟ وہ متجسس ہوئی- اس میں کسی عشاء حیدر کا ذکر ہے، اس کی زندگی کی کہانی ہے اور اس کے لیے کچھ میسیجز ہیں- اس لیے اسپیشل تو پے- وہ لڑکی یک ٹک منہ کھولے اسے دیکھے گئی- کون۔۔۔۔۔۔۔۔ کون عشاء حیدر؟ بہت دیر بعد بمشکل وہ بول پائی تھی- ہے ایک اس زمین پہ بسے والی لڑکی جس کو لوگوں کی بات غمگین کرتی ہیں جس کے کہنے سے قبل کوئی اس کے دل کی با نہیں سمجھتا اور جس کو زندگی سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے- اسی لمحے بس ہارن بجایا – محمل نے بات روک کر دور سے آتی بس کو دیکھا- میں چلتی ہوں ، تمہاری بس آگئی ہے- وہ سفید جلد والی کتاب اٹھائے اٹھ کھڑی ہوئی – وہ لڑکی ابھی تک ششدر سی بیٹھی تھی- بس قریب آرہی تھی- محمل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بینچ سے دور جانے لگی- سنیں ۔۔۔۔۔۔۔ بات سنیں ، ایک منٹ رکیں- یک دم وہ بے چینی سے اٹھی اور تیزی سے اس کے پیچھے لپکی-