میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟ بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے وہ سوچ میں پڑگئی پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے بے بسی سے مسکرائی بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا کیوں مشکل ہے ؟ جویریہ نے اس سے پوچھا کیونکہ میری بہت ساری خواہشات ہیں اور ہر خواہش ہی میرے لیے بہت اہم ہے ۔ اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا وہ دونوں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں دیوار کے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں ایف ایس سی کلاسس میں آج انکا آٹھواں دن تھا اور اس وقت وہ دونوں اپنے فری پیریڈ میں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں آکر بیٹھ گئی تھی ۔ نمکین مونگ پھلی کے دانوں کو ایک ایک کرکے کھاتے ہوئے جویریہ نے اس سے پوچھا تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے امامہ؟ امامہ نے قدرے حیرانگی سے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑگئی پہلے تم بتاؤ تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ امامہ نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کردیا پہلے میں نے پوچھا ہے۔ تمہیں پہلے جواب دینا چاہیے ۔ جویریہ نے گردن ہلائی اچھا ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اور سوچنے دو۔ امامہ نے فورا” ہار مانتے ہوئے کہا ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ؟ وہ بڑبڑائی ۔ ایک خواہش تو یہ ہے کہ میری زندگی بہت لمبی ہو۔ اس نے کہا کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ ہنسی بس پچاس ساٹھ سال کی زندگی مجھے بڑی چھوٹی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ کم از کم سو سال تو ملنے چاہیے انسان کو دنیا میں ۔۔۔۔ اور پھر میں اتنا سب کچھ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ اگر جلدی مرجاؤں گی تو پھر میری ساری خواہشات ادھوری رہ جائیں گی ۔ اس نے مونگ پھلی کا ایک دانہ منہ میں ڈالٹے ہوئے کہا اچھا اور ۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کہا اور یہ کہ میں ملک کے سب سے بڑی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ سب سے اچھی آئی سپشلسٹ۔ میں چاہتی ہوں جب پاکستان میں آئی سرجری کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں میرا نام ٹاپ آف دی لسٹ ہو ۔ اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا ۔ اچھا ۔۔۔۔۔ اور اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکی تو ؟ جویریہ نے کہا ۔ آخر یہ میرٹ اور قسمت کی بات ہے ایسا ممکن ہی نہیں۔ میں اتنی محنت کررہی ہوں کہ میرٹ پر ہرصورت آؤں گی ۔ پھر میرے والدین کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں اگر یہاں کسی میڈیکل کالج میں نہ جاسکی تو وہ مجھے بیرون ملک بھجوا دیں گے پھر بھی اگر ایسا ہوا کہ تم ڈاکٹر نہ بن سکو تو ۔۔۔۔۔۔۔؟ ہوہی نہیں سکتا۔۔۔۔۔ یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے میں اس پروفیشن کے لیے سب کچھ چھوڑسکتی ہوں ۔ یہ میرا خواب ہے اور خوابوں کو بھلا کیسے چھوڑا جاسکتا ہے ۔ امپاسبل امامہ نے قطعی انداز میں سر ہلاتے ہوئے ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں میں سے ایک اور دانہ اٹھا کر منہ میں ڈالا زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ فرض کرو کہ تم ڈاکٹر نہیں بن پاتی تو ۔۔۔۔۔ ؟ پھر تم کیا کرو گی ۔۔۔۔۔؟ کیسے ری ایکٹ کرو گی ؟ امامہ اب سوچ میں پڑگئی پہلے تو میں بہت روؤں گی ۔۔۔ بہت ہی زیادہ ۔۔۔۔۔ کئی دن ۔۔۔۔۔ اور پھر میں مرجاؤں گی۔ جویریہ بے اختیار ہنسی ۔ اور ابھی کچھ دیر پہلے تو تم یہ کہہ رہی تھیں کہ تم لمبی زندگی چاہیتی ہو ۔۔۔۔۔ اور ابھی تم کہہ رہی ہو کہ تم مرجاؤگی ۔ ہاں تو پھر زندہ رہ کرکیا کروں گی ۔ سارے پلانز ہی میرے میڈیکل کے حوالے سے ہیں ۔۔۔۔۔ اور یہ چیز زندگی سے نکل گئی تو پھر باقی رہے گا کیا ؟ یعنی تمہاری ایک بڑی خواہش دوسری بڑی خواہش کو ختم کردے گی ؟ تم یہی سمجھ لو ۔۔۔۔۔ “ تو پھر اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش ڈاکٹربننا ہے، لمبی زندگی پانا نہیں تم کہہ سکتی ہو۔ اچھا ۔۔۔۔۔ اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکی تو پھر مرو گی کیسے ۔۔۔۔۔ خودکشی کروگی یا طبعی موت ؟ جویریہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا طبعی موت ہی مروں گی ۔۔۔۔۔ خودکشی تو کرہی نہیں سکتی ۔ امامہ نے لاپرواہی سے کہا ۔ اور اگر تمہیں طبعی موت آ نہ سکی تو ۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے جلد نہ آئی تو پھر تو تم ڈاکٹر نہ بننے کے باوجود بھی لمبی زندگی گزارو گی ۔ نہیں، مجھے پتا ہے کہ اگر میں ڈاکٹر نہ بنی تو پھر میں بہت جلد مرجاؤں گی ۔ مجھے اتنا دکھ ہوگا کہ میں تو زندہ ہی نہیں رہ سکوں گی ۔ وہ یقین سے بولی ۔ تم جس قدر خوش مزاج ہو، میں کبھی یقین نہیں کرسکتی کہ تم کبھی اتنی دکھی ہوسکتی ہو کہ رو رو کر مرجاؤ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ تم ڈاکٹر نہیں بن سکیں جویریہ نے اس بار اسکا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا تم اب میری بات چھوڑو، اپنی بات کرو ، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے ؟ امامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا رہنے دو ۔۔۔۔۔ کیوں رہنے دوں ۔۔۔۔۔۔۔؟ بتاؤ نا تمہیں برا لگے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا امامہ نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا ۔ مجھے کیوں برا لگے گا جویریہ خاموش رہی ۔ ایسی کیا بات ہے جو مجھے بری لگے گی ؟ امامہ نے اپنا سوال دہرایا بری لگے گی ۔ جویریہ نے مدھم آواز میں کہا آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے کہ میں اس پر برا مانوں گی ۔ امامہ نے اس بار قدرے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا ۔ کہیں تمہاری یہ خواہش تو نہیں ہے کہ میں ڈاکٹر نہ بنوں ؟ امامہ کو اچانک یاد آیا جویریہ ہنس دی ۔ نہیں ۔۔۔۔۔ زندگی صرف ایک ڈاکٹر بن جانے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس نے کچھ فلسفیانہ انداز میں کہا ۔ پہیلیاں بجھوانا چھوڑو اور مجھے بتاؤ ۔ امامہ نے کہا میں وعدہ کرتی ہوں کہ میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے اپنا ہاتھ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ وعدہ کرنے کے باوجود میری بات سننے پر تم بری طرح ناراض ہوگئی ۔ بہتر ہے ہم کچھ اور بات کریں ۔ جویریہ نے کہا ۔ اچھا میں اندازہ لگاتی ہوں ، تمہاری خواہش کا تعلق میرے لئے کسی بہت اہم چیز سے ہے ۔۔۔۔ رائٹ ۔۔۔۔؟ امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔ جویریہ نے سر ہلا دیا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے لیے کون سی چیز اتنی اہم ہوسکتی ہے کہ میں ۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے رک گئی مگر جب تک میں تمہاری خواہش کی نوعیت نہیں جان لیتی ، میں کچھ بھی اندازہ نہیں کرسکتی ۔ بتا دو جویریہ ۔۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔۔ اب تو مجھے بہت ہی زیادہ تجسس ہورہا ہے۔ اس نے منت کی وہ کچھ دیرسوچتی رہی ۔ امامہ غور سے اسکا چہرہ دیکھتی رہی ، پھر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جویریہ نے سر اٹھا کر امامہ کو دیکھا میرے پروفیشن کے علاوہ میری زندگی میں فی الحال جن چیزوں کی اہمیت ہے وہ صرف ایک ہی ہے اور اگر تم اس کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہو میں برا نہیں مانوں گی ۔ امامہ نے سنجیدگی سے اسے دیکھا جویریہ نے قدرے چونک کر اسے دیکھا ، وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی ۔ جویریہ مسکرائی میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے کہ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جویرہ نے اسے اپنی خواہش بتائی امامہ کا چہرہ یک دم سفید پڑگیا ۔ وہ شاکڈ تھی یا حیرت زدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جویریہ اندازہ نہیں کرسکی ۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات یہ ضرور بتا رہے تھے کہ جویریہ کے منہ سے نکلنے والے جملے اس کے ہر اندازے کے برعکس تھے میں نے تم سے کہا تھا نا تم برا مانوگی ۔ جویرہ نے جیسے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی مگر امامہ کچھ کہے بغیر اسے دیکتھی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معیز حلق کے بل چلاتا ہوا درد سے دوہرا ہوگیا، اس کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ پر تھے۔ اس کے سامنے کھڑے بارہ سالہ لڑکے نے اپنی پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کی آستین سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹینس ریکٹ ایک بار پھر پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر دے مارا ۔ معیز کے حلق سے ایک بار پھر چیخ نکلی اور وہ اس بارسیدھا ہوگیا۔ کچھ بے یقینی کے عالم میں اس نے خود سے دو سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جو اب بغیر کسی لحاظ اور مروت کے اسے اس ریکٹ سے پیٹ رہا تھا جو معیز کچھ دیر پہلے اسے پیٹنے کے لیے لے آیا تھا۔ اس ہفتے میں ان دونوں کے درمیاں ہونے والا یہ تیسرا جھگڑا تھا اور تینوں بار جھگڑا شروع کرنے والا اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ معیز اور اسکے تعلقات ہمیشہ ہی ناخوشگوار رہے تھے انکا جھگڑا بچپن سے لے کر اب سے کچھ پہلے تک صرف زبانی کلامی باتوں اور دھمکیوں تک ہی محدود تھا ، مگر اب کچھ عرصہ سے وہ دونوں ہاتھا پائی پر بھی اتر آئے تھے ۔ آج بھی یہی ہوا تھا وہ دونوں اسکول سے اکٹھے واپس آرہے تھے اور گاڑی سے اترتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی نے بڑی درشتی کے ساتھ پیچھے ڈگی سے اس وقت اپنا بیگ کھینچ کر نکالا جب معیز اپنا بیگ نکال رہا تھا ۔ بیگ کھینچتے ہوئے معیز کے ہاتھ کو بری طرح رگڑ آئی ۔ میعز بری طرح تلملایا ۔ تم اندھے ہوچکے ہو ؟ وہ اطمینان سے اپنا بیگ اٹھائے بے نیازی سے اندر جا رہا تھا ۔ معیز کے چلانے پر اس نے پلٹ کر اس کو دیکھا اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا ۔ معیز کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ۔ وہ تیز تیز قدموں سے اس کے پیچھے اندر چلا آیا ۔ اگر تم نے دوبارہ ایسی حرکت کی تو میں تمہارا ہاتھ توڑ دوں گا ۔ اس کے قریب پہنچتے ہوئے معیز ایک بار پھر دھاڑا ۔ اس نے بیگ کندھے سے اتار کر نیچے رکھ دیا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا ۔ نکالوں گا ۔۔۔۔۔ تم کیا کرو گے ۔۔۔۔۔ ؟ ہاتھ توڑدو گے ؟ اتنی ہمت ہے ؟ یہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب تم دوبارہ یہ حرکت کرو گے ۔ معیزاپنے کمرے کی طرف بڑھا مگر اس کے بھائی نے پوری قوت سے اس کا بیگ کھینچتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کردیا ۔ نہیں تم مجھے ابھی بتاؤ ۔ اس نے معیز کا بیگ اٹھا کر دور پھینک دیا ۔ معیز کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے زمین پر پڑا ہوا اپنے بھائی کا بیگ اٹھا کر دور اچھال دیا ۔ ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر اس کے بھائی نے پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری ۔ جوابا” اس نے پوری قوت سے چھوٹے بھائی کے منہ پر مکا مارا جو اسکی ناک پر لگا ۔ اگلے ہی لمحے اسکی ناک سے خون ٹپکنے لگا ۔ اتنے شدید حملے کے باوجود اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی ۔ اس نے معیز کی ٹائی کھینچتے ہوئے اسکا گلا دبانے کی کوشش کی ۔ معیز نے جوابا” اسکی شرٹ کو کالرز سے کھینچا۔ اسے شرٹ کے پھٹنے کی آواز آئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنے چھوٹے بھائی کے پیٹ میں مکا مارا اس کے بھائی کے ہاتھ سے اسکی ٹائی نکل گئی ۔ ٹھہرو میں تمہیں اب تمہارا ہاتھ توڑ کردکھاتا ہوں ۔ معیز نے اسے گالیاں دیتے ہوئے لاؤنج کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ایک ریکٹ کو اٹھالیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مارنے کی کوشش کی ۔ مگر اگلے ہی لمحے ریکٹ اسکے بھائی کے ہاتھ میں تھا ۔ اس نے پوری وقت سے گھما کراتنی برق رفتاری کے ساتھ اس ریکٹ کو معیز کے پیٹ میں مارا کہ وہ سنبھل یا خود کو بچا بھی نہ سکا ۔ اس نے یکے بعد دیگرے معیز کی کمر اور ٹانگ پر ریکٹ برسا دیے ۔ اندر سے ان دونوں کا بڑا بھائی اشتعال کے عالم میں لاؤنج میں آگیا ۔ کیا تکلیف ہے تم دونوں کو ۔۔۔۔۔ گھر میں آتے ہی ہنگامہ شروع کردیتے ہو ۔ اس کو دیکھتے ہی چھوٹے بھائی نے اٹھا ہوا ریکٹ نیچے کرلیا ۔ اور تم ۔۔۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے بڑے بھائی کو مارتے ہو۔ اس کی نظر اب اس کے ہاتھ میں پکڑے ریکٹ پر گئی ۔ نہیں آتی ۔ اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہوئے ریکٹ ایک طرف اچھال دیا اور بڑی بے خوفی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا کر اندر جانے لگا ۔ معیز نے بلند آواز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا تم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ۔ وہ ابھی تک اپنی ٹانگ سہلا رہا تھا ہاں کیوں نہیں ۔ ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے آخری سرے پر رک کر اس نے معیز سے کہا ۔ اگلی بار تم بیٹ لے کر آنا ۔۔۔۔۔ ٹینس ریکٹ سے کچھ مزہ نہیں آیا ۔۔۔۔۔ تمہاری کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی معیز کو اشتعال آگیا ۔ تم اپنی ناک سنبھالو ۔۔۔۔۔ وہ یقینا” ٹوٹ گئی ہے ۔ معیز غصے کے عالم میں سیڑھیوں کو دیکھتا رہا ۔ جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا ۔
مسز سمانتھا رچرڈز نے دوسری رو میں کھڑکی کے ساتھ پہلی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو چوتھی بار گھورا ۔ وہ اس وقت بھی بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا ۔ وقتا” فوقتا” وہ باہر سے نظریں ہٹاتا ۔۔۔۔۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو دیکھتا اس کے بعد پھر اسی طرح باہر جھانکنے لگتا ۔ اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لیے آئی تھیں ۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں ۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں انکے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاں کے سفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں ۔ اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظام دوران خون کی ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے سمجھانا شروع کیا۔ ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا ۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کردیا ۔ کلاس میں یک دم خاموشی چھا گئی ۔ اس لڑکے نے سر گھما کر اندر دیکھا ۔ مسز سمانتھا سے اسکی نظریں ملیں انہوں نے مسکرا کر ایک بار پھر اپنا لیکچر شروع کردیا ۔ کچھ دیرتک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں لڑکے پر رکھیں جو اب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی ،انکا خیال تھا کہ وہ خاصا شرمندہ چکا ہے اس لیے اب دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا ۔ لیکن صرف دو منٹ بعد ہی انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا ۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں ۔ بلا توقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر انکی طرف دیکھا ۔ اس بار مسز سمانتھا مسکرائیں نہیں بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کردیا ۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ پر کچھ لکھنے کے بعد اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا ۔ اس بار انکے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجھلاتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ اور انکے خاموش ہوتے ہی لڑکے نے کھڑکی سے نظریں ہٹا کر انکی طرف دیکھا اس بار لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں ۔ ایک نظر مسز سمانتھا کو ناگواری سے دیکھ کر وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا ۔ اسکا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز رچرڈز کا چہر سرخ ہوگیا ۔ سالار تم کیا دیکھ رہے ہو ۔ انہوں نے سختی سے پوچھا یک لفظی جواب آیا ۔ وہ اب چبھتی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا Nothing تمہیں پتا ہے میں کیا پڑھا رہی ہوں ؟ اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا نے یک دم ہاتھ میں پکڑا ہوا مارکر کیپHope so سے بند کرکے ٹیبل پر پھینک دیا یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایا گرام بنا کر اس کو لیبل کرو ۔ انہوں نے اسفنج کے ساتھ رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا ۔ یک بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے ۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے دیکھا ۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا کو دیکھ رہا تھا ۔ جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا ، تیز تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا ۔ پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پراسی انداز سے اچھالا جس انداز سے سمانتھا نے اچھالا تھا اور انکی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آکر بیٹھ گیا ۔ مسز سمانتھا نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا ۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائی جانے والی اس لیبلڈ ڈایا گرام کو دیکھ رہی تھیں جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لیے تھے اوریہ تین منٹ میں بننے والی ڈایا گرام انکی ڈایا گرام سے زیادہ اچھی تھی ۔ وہ اس میں معمولی سی بھی غلطی نہیں ڈھونڈ سکیں ۔ کچھ خفیف ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر اس لڑکے کی طرف دیکھا تو وہ پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی ۔ اس بار اندر سے امامہ کی آواز سنائی دی کون ہے امامہ ۔ میں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولو ۔ وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا ۔ اندر خاموشی چھا گئی کچھ دیر بعد لاک کھلنے کی آواز آئی ۔ وسیم نے دروازہ کھول دیا ۔ امامہ اسکی جانب پشت کیے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟ آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا ۔ ابھی تو دس بجے ہیں ۔ وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا ۔ بس نیند آرہی تھی مجھے ۔ وہ بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ وسیم اسکا چہرہ دیکھ کر چونک گیا ۔ تم رو رہی تھیں ؟ بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کررہی تھی نہیں رو نہیں رہی تھی بس سر میں کچھ درد ہورہا تھا ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی وسیم نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑ کر ٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی کہیں بخار تو نہیں ہے ۔ اس نے تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا ۔ بخار تو نہیں ہے ۔ پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں میں لے چکی ہوں اچھا تم سو جاؤ ۔ ۔۔۔۔ میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے وسیم نے باہر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی ۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اور وسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر سے لاگ کرلیا ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا ۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیرہ سال کا وہ لڑکا اس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا ۔ جب طیبہ نے اندر جھانکا ۔ بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں یہ کیا ہو رہا ہے ۔ انہوں نے اندر آتے ہی کہا ٹی وی دیکھ رہا ہوں ۔ لڑکے نے ٹی وی سے نطریں نہیں ہٹائیں ٹی وی دیکھ رہا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔۔ فار گاڈ سیک ۔ تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہو رہے ہیں ؟ طیبہ نے اسکے سامنے آتے ہوئے کہا ۔ سو واٹ ۔ لڑکے نے اس بار کچھ خفگی سے کہا ۔ سو واٹ ؟ تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیاں ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے ۔ طیبہ نے ڈانٹا مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں آپ سامنے سے ہٹ جائیں ۔۔۔۔۔ اس کے لہجے میں ناگواری آگئی پھر بھی اٹھو اور اندر جاکر پڑھو ۔ طیبہ نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا ۔ میری اسٹدیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں ۔ آپ کا نہیں ۔ اگر تمہیں اتنی پرواہ ہوتی تو تم اس وقت یہاں بیٹھے ہوتے ؟ اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی سےہاتھ سےStep a side اشارہ کرتے ہوئے کہا آج تمہارے پاپا آ جائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں ۔ طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی ابھی بات کرلیں ۔۔۔۔۔ کیا ہوگیا ؟ پاپا کیا کرلیں گے ۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی تھی میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے ۔ یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں تمہیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے ۔ طیبہ نے اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا ۔ میں کوئی دو چار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو ۔ میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں ۔ اس لیے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے نہ بولا کریں ۔ ایگزام ہورہے ہیں ، اسٹدیز پر دھیان دو ۔ اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے ۔ میں تمہارے فادر سے بات کروں گی What rubbish وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ۔ ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا طیبہ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلومینا فرانسس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے ایک نظر ہال میں دوڑائی ، پیپر شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اور ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کتابیں ، نوٹس اور نوٹ بکس پکڑے تیزی سے صفحے آگے پیچھے کرتے ان پر آخری نظریں ڈال رہے تھے ۔ انکی جسمانی حرکات سے انکی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہورہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ ایک بہت مانوس سین تھا پھر ان کی نظریں ہال کے تقریبا” درمیان میں بیٹھے سالار پر جا ٹھہریں ۔ پچس اسٹوڈنٹس میں اس وقت وہ واحد اسٹوڈنٹ تھا جو اطمینان سے اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں اسکیل پکڑے آہستہ آہستہ اسے اپنے جوتے پر مارتے ہوئے وہ اطمینان سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا ۔ اپنے سات سالہ کیریئر میں انہوں نے پیپرز کے دوران سالار کو اسی بے فکری اور لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے پایا تھا ۔ نو بج کر دو منٹ پر انہوں نے سالار کے پاس سے گزرتے ہوئے اسے تھما دیا ۔ تیس منٹ بعد اسے وہ پیپر ان سے لے لینا تھا ۔ نو بج کر objective paper دس منٹ پر انہوں نے سالار کو اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی ہال میں اس سے پیچھے موجود تمام اسٹوڈنٹس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ وہ پیپر ہاتھ میں لیے فلومینا فرانسس کی طرف جا رہا تھا ۔ فلومینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی یہی دیکھتی آئی تھی ۔ تیس منٹ میں حل کیا جانے والا پیپر وہ آٹھ منٹ میں حل کرکے ان کے سر پر کھڑا تھا ۔ پیپر کو دوبارہ دیکھ لو ۔ انہوں نے یہ جملہ اس سے نہیں کہا ۔ وہ جانتی تھیں کہ اسکا جواب کیا ہوگا۔ میں دیکھ چکا ہوں ۔ وہ اگر اسے ایک بار پھر پیپر دیکھنے پر مجبور کرتی تو وہ ہمیشہ کی طرح پیپر لے جا کر کرسی کے ہتھے پر رکھ دیتا اور بازو لپیٹ کر بیٹھ جاتا ۔ انہیں یاد نہیں تھا کہ کبھی اس نے انکے کہنے پر پیپرز کو دوبارہ چیک کیا ہوا ۔ اور وہ یہ بھی تسلیم کرتی تھیں کہ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی ۔ اس کے پیپر میں کسی ایک بھی غلطی کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا انہوں نے ایک ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پیپر پکڑ لیا ۔ تم جانتے ہو سالار ۔ میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے ؟ انہوں نے پیپر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تمہیں تیس منٹ کا پیپر ۔۔۔۔۔ تیس منٹ کے بعد سبمٹ کرواتے ہوئے دیکھوں وہ انکی بات پر خفیف سے انداز میں مسکرایا ۔ آپ کی یہ خواہش اس صورت میں پوری ہوسکتی ہے میم اگر میں یہ پیپر 150 سال کی عمر میں حل کرنے بیٹھوں نہیں میرا خیال ہے 150 سال کی عمر میں بھی تم یہ پیپر دس منٹ میں کردو گے ۔ اس بار وہ ہنسا اور واپس مڑگیا ۔ فلومینا نے ایک نظر اسکے پیپر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا ۔ ایک سرسری سی نظر بھی انہیں یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ اس پیپر میں کتنے نمبر گنوائے گا ۔۔۔۔۔ زیرو ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلمیٰ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ کو حیرانی سے دیکھا ۔ یہ کیا ہے امامہ؟ تم تو مارکیٹ گئی تھی ۔ شاید کچھ کتابیں لینی تھیں تمہیں ۔ ہاں امی مجھے کتابیں ہی لینی تھیں ۔ مگر کسی کو تحفے میں دینے کے لیے ۔ کس کو تحفہ دینا ہے وہ لاہور میں ایک دوست ہے میری ۔ اسکی سالگرہ ہے اسکی کے لیے خریدا ہے ۔ کوریئر سروس کے ذریعے بھجوادوں گی کیونکہ مجھے تو ابھی یہاں رہنا ہے ۔ لاؤ پھر مجھے دے دو یہ پیکٹ ۔ میں وسیم کو دوں گی وہ بجھوا دے گا نہیں امی ۔ میں ابھی نہیں بھجواؤں گی ۔ ابھی اسکی سالگرہ کی تاریخ نہیں آئی ۔ سلمیٰ کو لگا جیسے وہ یک دم گھبرا گئی ہو ۔ انہیں حیرانی ہوئی ۔ کیا یہ گھبرانے والی بات تھی ؟ تین سال پہلے امامہ کی وجہ سے انہیں اور انکے شوہر ہاشم کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ وہ تب سے اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکرمند تھیں اور ہاشم اس سے بھی زیادہ ۔ مگر پچھلے تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا ۔ وہ دونوں اب اسکی طرف سے مکمل طور پر مطمئن تھے ۔ خاص طور پر اسجد سے اسکی نسبت طے کرکے ۔ وہ جانتی تھیں امامہ اسجد کو پسند کرتی ہے اور صرف وہی نہیں اسجد کو کوئی بھی پسند کرسکتا تھا ۔ وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا ۔ وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ اسجد سے نسبت طے ہونے پر بہت خوش ہوئی تھی ۔ اسجد اور اسکے درمیان پہلے بھی خاصی دوستی اور بے تکلفی تھی مگر بعض دفعہ انہیں لگتا جیسے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ بہت چپ ہوتی جارہی ہے ۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔ مگر اب وہ اسکول جانے والی بچی بھی تو نہیں رہی ۔ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہے ۔ پھر وقت بھی کہاںہ وتا ہے اس کے پاس ۔ ۔۔۔ سلمیٰ ہمیشہ خود کو تسلی دے لییتیں ۔ وہ انکی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑی دونوں بیٹیوں کی وجہ شادی کرچکی تھیں ۔ جب کہ دو بیٹے اور امامہ غیر شادی شدہ تھے ۔ اچھا ہی ہے کہ یہ سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ لڑکیوں کے لیے سنجیدگی اچھی ہوتی ہے ۔ انہیں جتنی جلدی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے ۔ سلمیٰ نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے امامہ سے نظریں ہٹا لیں ۔ وہ چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اور جتنے دن وہ یہاں رہتی انکی نظریں اس پر اسی طرح مرکوز رہتیں پتا نہیں یہ ساجد کہاں رہ گیا ہے ۔ جو بھی کام اس کے ذمے لگاؤ بس بھول ہی جاؤ ۔ انہیں اچانک انہیں ملازم کا خیال آیا ۔ جس کے پیچھے وہ لاؤنج میں آئی تھیں ۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ لاؤنج سے نکل گئیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ نیو ایئر نائٹ تھی ۔ نیا سال شروع ہونے میں تیس منٹ باقی تھے ۔ دس لڑکوں پر مشتمل چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کا وہ گروپ پچھلے دو گھنٹے سے اپنے اپنے موٹرسائیکلز پر شہر کی مختلف سڑکوں پر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھا ۔ ان میں چند نے اپنے ماتھے پر چمکدار بینڈز باندھے ہوئے تھے جن پر نئے سال کے حوالے سے مختلف پیغامات درج تھے ۔ وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے پوش علاقے کی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں موجود تھے اور وہاں وہ مختلف لڑکیوں پر آوازیں کستے رہتے تھے ۔ اپنی بائیکس پر سوار اب وہ مختلف سڑکوں پر چکر لگا رہے تھے ۔ ان کے پاس فائر کریکرز موجود تھے جنہیں وہ وقتا” فوقتا” چلا رہے تھے ۔ پونے بارہ بجے وہ جم خانہ کے باہر موجود تھے جہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر چکا تھا ۔ یہ گاڑیاں ان لوگوں کی تھیں جو جم خانے میں نئے سال کے سلسلے میں ہونے والی ایک پارٹی میں آئے تھے ۔ ان لڑکوں کے پاس بھی اس پرٹی کے دعوتی کارڈ موجود تھے کیونکہ ان میں سے تقریبا” تمام کے والدین جم خانہ کے ممبر تھے وہ لڑکے اندر پہنچے تو گیارہ بج کر پچپن منٹ ہورہے تھے ۔ چند منٹوں بعد ڈانس فلور سمیت تمام جگہوں کی لائٹس آف ہوجانی تھیں ۔ اور اس کے بعد باہر لان میں آتش بازی کے ایک مظاہرہ کے ساتھ نیا سال شروع ہونے پر لائٹس آن ہونا تھیں ۔ اور اسکے بعد تقریبا” تمام رات وہاں رقص کے ساتھ ساتھ شراب پی جاتی ۔ جس کا اہتمام نئے سال کی اس تقریب کے لئے جم خانہ کی انتظامیہ خاص طور پر کرتی تھی۔ لائٹس آف ہونے ہی وہاں ایک طوفان بدتمیزی کا آغاز ہوجاتا تھا ۔ اور وہاں موجود لوگ اسی طوفان بدتمیزی کے لئے وہاں آئے تھے پندرہ سالہ وہ لڑکا بھی دس لڑکوں کے اس گروپ کے ساتھ آنے کے بعد اس وقت ڈانس فلور پر راک بیٹ پر ڈانس کررہا تھا ۔ ڈانس میں اسکی مہارت قابل دید تھی بارہ بجنے میں دس سیکنڈ رہ جانے پر لائٹس آف ہوگئیں اور ٹھیک بارہ بجے لائٹس دوبارہ آن کردی گئی ۔ اندھیرے کے بعد سیکنڈر گننے والوں کی آوازیں اب شور اور خوشی کے قہقہوں اور چیخوں میں بدل گئی تھیں ۔ چند لمحے پہلے تھم جانے والا میوزک ایک بار پھر بجایا جانے لگا ۔ وہ لڑکا اب اپنے دوستوں کے ساتھ باہر پارکنگ لاٹ میں آگیا جہاں بہت سے لڑکے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے ۔ ان ہی لڑکوں کے ساتھ بیئر کے کین پکڑے وہ وہاں موجود ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا ۔ اس لڑکے نے گاڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اپنی جیکٹ کی جیب سے بیئر کا ایک بھرا ہوا کین نکالا اور پوری طاقت سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک گاڑی کی ونڈ اسکرین پر دے مارا ۔ ایک دھماکے کے ساتھ گاڑی کی ونڈ اسکرین چور چور ہوگئی ۔ وہ لڑکا اطمینان کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا کین پیتا رہا۔