

پیرِ کامل ﷺ
از عمیرہ احمد
قسط نمبر_04
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبیحہ سے امامہ کی پہلی ملاقات اتفاقاً ہوئی تھی۔ جویریہ کی ایک کزن صبیحہ کی کلاس فیلو تھی اور اسی کے توسط سے امامہ کی اس سے شناسائی ہوئی۔ وہ ایک مذہبی جماعت کے اسٹوڈنٹ ونگ سے منسلک تھی اور ہفتے میں ایک بار وہ کلاس روم میں اسلام سے متعلق کسی نہ کسی ایک موضوع پر لیکچر دیا کرتی تھی۔ چالیس پچاس کے لگ بھگ لڑکیاں اس لیکچر کو اٹینڈ کیا کرتی تھیں۔
صبیحہ نے اس دن ان سے متعارف ہونے کے بعد انہیں بھی اس لیکچر کے لئے انوائٹ کیا ۔ وہ چاروں ہی وہاں موجود تھیں۔
“میں تو ضرور آؤں گی، کم از کم میری شرکت کے بارے میں آپ تسلی رکھیں۔” جویریہ نے صبیحہ کی دعوت کے جواب میں کہا۔
“میں کوشش کروں گی، وعدہ نہیں کرسکتی۔” رابعہ نے کچھ جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“میرا آنا ذرا مشکل ہے کیونکہ میں اس دن کچھ مصروف رہوں گی۔” زینب نے معذرت کرتے ہوئے کہا۔
صبیحہ مسکراتے ہوئے امامہ کو دیکھنے لگی جو اب تک خاموش تھی۔ امامہ کا رنگ کچھ فق ہوگیا۔
“اور آپ؟ آپ آئیں گی؟” امامہ کی نظر جویریہ سے ملی جو اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
“ویسے اس بار کس موضوع پر کریں گی آپ؟” اس سے پہلے کہ امامہ کچھ کہتی، جویریہ نے صبیحہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ شاید ایسا اس نے دانستہ طور پر کیا تھا۔
“اس بار اسراف کے بارے میں بات ہوگی۔ اس ایک عادت کی وجہ سے ہمارا معاشرہ کتنی تیزی سے زوال پذیر ہورہا ہے اور اس کے سدباب کے لئے کیا کیا جاسکتا ہے۔ اسی موضوع پر گفتگو ہوگی۔” صبیحہ نے جویریہ کو تفصیل سے بتایا۔
“آپ نے بتایا نہیں امامہ! آپ آرہی ہیں؟” جویریہ سے بات کرتے کرتے صبیحہ ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہوگئی۔ امامہ کا رنگ ایک بار پھر بدلا۔ “میں۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ دیکھوں گی۔” اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
“مجھے بہت خوشی ہوگی اگر جویریہ کے ساتھ آپ تینوں بھی آئیں۔ اپنے دین کی بنیادی تعلیمات کے بارے میں ہمیں روز نہیں تو کبھی کبھار کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ صرف میں ہی لیکچر نہیں دیتی ہوں ہم جتنے لوگ بھی اکٹھے ہوتے ہیں ان میں سے کوئی بھی اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لئے آزاد ہوتا ہے جسے ہم نے منتخب کیا ہوتا ہے اور اگر آپ میں سے بھی کوئی کسی خاص موضوع کے حوالے سے بات کرنا یا کچھ بتانا چاہے تو ہم لوگ اسے بھی ارینج کرسکتے ہیں۔” صبیحہ بڑی سہولت سے بات کررہی تھی پھر کچھ دیر بعد جویریہ اور اس کی کزن کے ہمراہ ان کے کمرے سے باہر چلی گئی۔
کوریڈور میں صبیحہ نے جویریہ سے کہا۔ “آپ کم ازکم امامہ کو تو ساتھ لے آئیں۔ مجھے لگا ہے کہ وہ آنا چاہ رہی ہیں۔”
“اس کا عقیدہ بالکل الگ ہے، وہ کبھی بھی ایسی محفلوں میں شرکت نہیں کرے گی۔” جویریہ نے سنجیدگی سے اسے بتایا۔ صبیحہ کچھ حیران ہوئی۔
“آپ کو چاہیے کہ آپ انہیں اسلام کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیں۔ ہوسکتا ہے اس طرح وہ صحیح اور غلط کا فرق کرسکیں۔” صبیحہ نے چلتے ہوئے کہا۔
“میں ایک بار ایسی کوشش کرچکی ہوں۔ وہ بہت ناراض ہوگئی تھی اور میں نہیں چاہتی کہ ہم دونوں کی اتنی لمبی دوستی اس طرح ختم ہو۔” جویریہ نے کہا۔
“اچھے دوست وہی ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو گمراہی سے بچائیں اور آپ پر بھی فرض ہے کہ آپ ایسا ہی کریں۔” صبیحہ نے کہا۔
“وہ ٹھیک ہے مگر کوئی بات سننے پر بھی تیار نہ ہو تو؟”
“تب بھی صحیح بات کہتے رہنا فرض ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی دوسرا آپ کی بات پر غور کرنے پر مجبور ہوجائے۔” صبیحہ اپنی جگہ درست تھی۔ اس لئے وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تم جاؤ گی اس کا لیکچر سننے؟” صبیحہ کے نکلنے کے بعد زینب نے رابعہ سے پوچھا۔
“نہیں، میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ میں ایسے لیکچر ہضم نہیں کرسکتی۔” رابعہ نے اپنی کتابیں اٹھاتے ہوئے لاپروائی سے کہا۔ امامہ، زینب اور جویریہ کے برعکس وہ قدرے آزاد خیال تھی اور زیادہ مذہبی رجحان بھی نہیں رکھتی تھی۔
“ویسے میں نے صبیحہ کی خاصی تعریف سنی ہے۔” زینب نے رابعہ کی بات کے جواب میں کہا۔
“ضرور سنی ہوگی، بولتی تو واقعی اچھا ہے اور میں نے تو یہ بھی سنا ہے کہ اس کے والد بھی کسی مذہبی جماعت سے منسلک ہیں۔ ظاہر ہے پھر اثر تو ہوگا۔” رابعہ نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
امامہ ان سے کچھ دور ایک کونے میں اپنی کتابیں لئے بیٹھی بظاہر ان کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھی مگر ان دونوں کی گفتگو بھی ان تک پہنچ رہی تھی۔ اس نے شکر کیا کہ ان دونوں نے اسے اس گفتگو میں گھسیٹنے کی کوشش نہیں کی۔
تین دن کے بعد امامہ مقررہ وقت پر ان لوگوں سے کوئی بہانہ بنا کر لیکچر اٹینڈ کرنے چلی گئی۔ رابعہ، جویریہ اور زینب تینوں ہی اس لیکچر میں نہیں گئیں پھر اس کا رادہ بدل گیا۔ امامہ نے ان لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ صبیحہ کا لیکچر اٹینڈ کرنے جارہی تھی۔
صبیحہ، امامہ کو دیکھ کر کچھ حیران ہوئی تھی۔
“مجھے بہت خوشی ہورہی ہے آپ کو یہاں دکھ کر۔ مجھے آپ کے آنے کی توقع نہیں تھی۔” صبیحہ نے اس سے گرم جوشی سے ملتے ہوئے کہا۔
یہ پہلا قدم تھا اسلام کی جانب جو امامہ نے اٹھایا تھا۔ اس سارے عرصے میں اسلام کے بارے میں اتنی کتابیں تفاسیر اور تراجم پڑھ چکی تھی کہ کم از کم وہ کسی بھی چیز سے ناواقف اور انجان نہیں تھی۔ اسراف کے بارے میں اسلامی اور قرآنی تعلیمات اور احکامات سے بھی وہ اچھی طرح واقف تھی مگر اس کے باوجود صبیحہ کی دعوت کو رد کرنے کے بجائے قبول کرلینے میں اس کی پیش نظر صرف ایک ہی چیز تھی۔ وہ اپنے مذہب سے اسلام تک کا وہ فاصلہ طے کرنا چاہتی تھی جو اسے بہت مشکل لگتا تھا۔
اور پھر وہ صرف پہلا اور آخری لیکچر نہیں تھا۔ یکے بعد دیگرے وہ اس کا ہر لیکچر اٹینڈ کرتی رہی۔ وہی چیزیں جنہیں وہ کتابوں میں پڑھتی رہی تھی اس کے منہ سے سن کر پراثر ہوجاتی تھیں۔ اس کی صبیحہ سے عقیدت میں اضافہ ہوتاجارہا تھا۔ صبیحہ نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ اس کے عقیدے کے بارے میں جانتی تھی مگر امامہ کو اس کے پاس آتے ہوئے دو ماہ ہوئے تھے جب صبیحہ نے ختم نبوت پر ایک لیکچر دیا۔
“قرآن پاک وہ کتاب ہے جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوئی۔” صبیحہ نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ “اور قرآن پاک میں ہی اللہ
نبوت کا سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیتے ہیں۔ وہ کسی دوسرے نبی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رکھتے۔ اگر کسی نبی یعنی حضرت عیسٰی علیہ السلام کا دوبارہ نزول کا ذکر ہے بھی تو وہ بھی ایک نئے نبی کی شکل میں نہیں ہے بلکہ ایک ایسے نبی کا دوبارہ نزول ہے جن پر نبوت حضرت محمد ﷺ سے بہت پہلے نازل کردی گئی تھی اور جن کا دوبارہ نزول ان کی اپنی امت کے لئے نہیں بلکہ حضرت محمد ﷺ کی امت کے لئے ہی ہوگا اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہی رہیں گے۔ کسی بھی آنے والے دور میں یا کسی بھی گزر جانے والے دور میں یہ رتبہ اور فضیلت کسی اور کو نہیں دی گئی کیا یہ ممکن ہے کہ اللہ ایک پیغمبر کو یہ ربتہ اور درجہ عطا کرتا اور پھر اسے اس سے چھین کر کسی دوسرے شخص کو دے دیتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا کون ہے۔”
“تو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی بات کو خود ہی رد کردیتا اور پھر اگر اللہ کی اس بات کی گواہی حضرت محمد ﷺ خود دیتے ہیں کہ ہاں وہ اللہ کے آخری رسول ﷺ ہیں اور ان کے بعد دوبارہ کوئی نبی نہیں آئے گا تو پھر کیا ہمارے لئے کسی بھی طور پر یہ جائز اور مناسب ہے کہ ہم کسی دوسرے شخص کے نبوت کے دعوے پر غور تک کریں؟ انسان اللہ کی مخلوقات میں سے وہ واحد مخلوق ہے جسے عقل جیسی نعمت سے نوازا گیا اور یہ ایسی مخلوق ہے جو اسی عقل کو استعمال کرکے سوچنے پر آئے تو خود اللہ کے وجود کے لئے ثبوت کی تلاش شروع کردیتی ہے پھر اس سلسلے کو یہیں پر محدود نہیں رکھتی، بلکہ اسے پیغمبروں کی ذات تک دراز کردیتی ہے۔ پہلے سے موجود پیغمبروں کی نبوت کے بارے میں سوال کرتی ہے پھر انہیں پیغمبر مان لیتی ہے اور اس کے بعد قرآن کے واضح احکامات کے باوجود زمین پر مزید پیغمبروں کی تلاش شروع کردیتی ہے اور اس تلاش میں یہ بات فراموش کردیتی ہے کہ نبی بنتا نہیں تھا، بنایا جاتا تھا، اسے مبعوث کیا جاتا تھا اور ہم انسانی evolution کی ان آخری دہائیوں میں کھڑے ہیں جہاں مزید نبیوں کی آمد کا سلسلہ اس لئے ختم کردیا گیا کیونکہ انسان کے لئے ایک دین اور ایک نبی کا انتخاب کرلیا گیا۔
اب کسی نئے عقیدے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف تقلید کی ہے، صرف تقلید یعنی پریکٹس۔۔۔۔۔ اس ایک، آخری اور مکمل دین کی جسے پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیا گیا ہے اب وہ ہر شخص خسارے میں رہے گا، جو دین کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے بجائے تفرقے کی راہ اختیار کرے گا۔ اگر ہماری اعلیٰ تعلیم اور ہمارا شعور ہمیں دین کے بارے میں صحیح اور غلط کی تمیز تک نہیں دے سکتے تو پھر ہم میں اور اس جانور میں کوئی فرق نہیں، جو سبز تازہ گھاس کے ایک گٹھے کے پیچھے کہیں بھی جاسکتا ہے، اس بات کی پرواہ کئے بغیر کہ اس کا ریوڑ کہاں ہے۔”
چالیس منٹ کے اس لیکچر میں صبیحہ نے کسی اور غلط عقیدے یا فرقے کا ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ اس نے جو کچھ کہا تھا بالواسطہ کہا تھا۔ صرف ایک چیز بلاواسطہ کہی تھی اور وہ حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت کا اقرار تھا۔ “اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ تھے جنہوں نے چودہ سو سال پہلے مدینہ میں وفات پائی۔ چودہ سو سال سے پہلے مسلمان ایک امت کے طور پر اسی ایک شخص کے سائے میں کھڑے ہیں۔ چودہ سو سال بعد بھی ہمارے لئے وہ ایک آخری نبی ﷺ ہیں جن کے بعد کوئی دوسرا نبی بھیجا گیا نہ بھیجا جائے گا اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص میں کسی دوسرے نبی کا عکس تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے اسے ایک بار اپنے ایمان کا ازسر نو جائزہ لے لینا چاہیے۔ شاید یہ کوشش اسے اس عذاب سے بچا دے جس میں وہ اپنے آپ کو مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔”
امامہ ہر لیکچر کے بعد صبیحہ سے مل کر جایا کرتی تھی۔ اس لیکچر کے بعد وہ صبیحہ سے نہیں ملی۔ ایک لمحہ بعد وہاں رکے بغیر وہ وہاں سے چلی آئی۔ عجیب سے ذہنی انتشار میں مبتلا ہوکر وہ کالج سے باہر نکل کر پیدل چلتی رہی۔ کتنی دیر فٹ پاتھ پر چلتی رہی اور اس نے کتنی سڑکیں عبور کیں، اسے اندازہ نہیں ہوا۔ کسی معمول کی طرح چلتے ہوئے وہ فٹ پاتھ سے نیچے نہر کے کنارے بنی ہوئی ایک بنچ پر جاکر بیٹھ گئی۔ سورج غروب ہونے والا تھا اور اوپر سڑک پر گاڑیوں کے شور میں اضافہ ہوگیا تھا۔ وہ چپ چاپ نہر کے بہتے ہوئے پانی کو دیکھتی رہی۔
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے بڑبڑاتے ہوئے خود سے پوچھا۔
“آخر میں کر کیا رہی ہوں اپنے ساتھ کیوں اپنے آپ کو الجھا رہی ہوں، آخر کس یقین کی کھوج میں سرگرداں ہوں اور کیوں؟ میں اس سب کے لئے تو یہاں لاہور نہیں آئی۔ میں تو یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہوں۔ مجھے آئی اسپیشلسٹ بننا ہے۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ پیغمبر۔۔۔۔۔ میرے لئے ہر چیز وہاں کیوں ختم ہوجاتی ہے۔”
اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔
“مجھے اس سب سے نجات حاصل کرنی ہے، میں اس طرح اپنی اسٹڈیز پر کبھی توجہ نہیں دے سکتی۔ مذہب اور عقیدہ میرا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ صحیح یا غلط جو میرے بڑوں نے دیا وہی ٹھیک ہے۔ میں اب صبیحہ کے پاس نہیں جاؤں گی۔ میں مذہب یا پیغمبر کے بارے میں کبھی نہیں سوچوں گی۔کبھی بھی نہیں۔” وہاں بیٹھے بیٹھے اس نے طے کیا تھا۔
رات کو آٹھ بجے وہ واپس آئی تو جویریہ اور رابعہ کچھ فکرمند سی تھیں۔
“بس ایسے ہی مارکیٹ چلی گئی تھی۔” اس نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ انہیں بتایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“ارے امامہ! تم تو بہت عرصے بعد آئی ہو نا، آخر آنا کیوں چھوڑ دیا تم نے۔” بہت دنوں بعد ایک بار پھر صبیحہ کے پاس پہنچ گئی۔ صبیحہ کا لیکچر شروع ہونے والا تھا۔
“مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں، آپ اپنا لیکچر ختم کرلیں، میں باہر بیٹھ کر آپ کا انتظار کررہی ہوں۔” امامہ نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
ٹھیک پنتالیس منٹ کے بعد جب صبیحہ اپنا لیکچر ختم کرکے باہر نکلی تو اس نے امامہ کو باہر کوریڈور میں ٹہلتے پایا۔ وہ صبیحہ کے ساتھ دوبارہ اسی کمرے میں آن بیٹھی جو اب خالی تھا۔ صبیحہ خاموشی سے اس کی طرف سے بات شروع کرنے کا انتظار کرتی رہی۔
امامہ چند لمحے کسی سوچ میں ڈوبی رہی پھر اس نے صبیحہ سے کہا۔
“آپ کو پتا ہے میں کس مذہب سے ہوں؟”
“ہاں، میں جانتی ہوں، جویریہ نے مجھے بتایا تھا۔” صبیحہ نے پرسکون انداز میں کہا۔
“میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں کس حد تک فرسٹریٹڈ ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے میں دنیا چھوڑ کر کہیں بھاگ جاؤں۔” اس نے کچھ دیر کے بعد صبیحہ سے کہنا شروع کیا۔ “میں۔۔۔۔۔ میں۔” اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ “مجھے پتہ ہے کہ۔۔۔۔۔” اس نے ایک بار پھر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی پھر خاموشی۔ “مگر میں اپنا مذہب نہیں چھوڑ سکتی۔ میں تباہ ہوجاؤں گی، میرے ماں باپ مجھے مار ڈالیں گے۔ میرا کیرئیر، میرے خواب، سب کچھ ختم ہوجائے گا۔ میں نے تو سرے سے عبادت کرنا تک چھوڑ دی ہے مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھے سکون نہیں مل رہا ہے۔ آپ میری صورت حال کو سمجھیں۔ مجھے لگ رہا ہے یہ سب کچھ غلط ہے اور صحیح کیا ہے، مجھے نہیں معلوم۔”
“امامہ! تم اسلام قبول کرلو۔” صبیحہ نے اس کی بات کے جواب میں صرف ایک جملہ کہا۔
“یہ میں نہیں کرسکتی، میں آپ کو بتا رہی ہوں۔ میں کتنے مسائل کا شکار ہوجاؤں گی۔”
“تو پھر میرے پاس کس لئے آئی ہو؟” صبیحہ اسی پرسکون انداز میں کہا۔ وہ اس کا منہ دیکھنے لگی پھر اس نے بے بسی سے کہا۔
“پتا نہیں میں آپ کے پاس کس لئے آئی ہوں؟”
“تم صرف یہی ایک جملہ سننے آئی ہو جو میں نے تم سے کہا ہے۔ میں تمہیں کوئی دلیل نہیں دوں گی، کیونکہ تمہیں کسی سوال کے جواب کی تلاش نہیں ہے۔ ہر سوال کا جواب تمہارے اندر موجود ہے۔ تم سب جانتی ہو، بس تمہیں اقرار کرنا ہے۔ ایسا ہی ہے نا۔”
امامہ کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ “مجھے لگ رہا ہے میرے پاؤں زمین سے اکھڑ چکے ہیں۔ میں جیسے خلا میں سفر کررہی ہوں۔” اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
صبیحہ نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ وہ بسم اللہ پڑھ رہی تھی۔ امامہ گیلی آنکھوں کے ساتھ اسکا چہرہ دیکھنے لگی۔
“کہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا صبیحہ! کچھ بھی نہیں۔” اس نے اپنے ہاتھوں کی پشت سے اپنے آنسوؤں کو صاف کیا۔
“لاالہ الا اللہ۔” صبیحہ کے لب آہستہ آہستہ ہلنے لگے۔ امامہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور وہ روتے ہوئے صبیحہ کے پیچھے کلمے کے الفاظ دہرا رہی تھی۔ “محمد رسول اللہ” امامہ نے اگلے الفاظ دہرائے۔ اس کی آواز بھرا گئی۔
امامہ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اسے اتنا رونا کیوں آرہا تھا۔ اسے کوئی پچھتاوا، کوئی افسوس نہیں تھا مگر پھر بھی اسے اپنے آنسوؤں پر قابو پانا مشکل ہورہا تھا۔ بہت دیر تک روتے رہنے کے بعد اس نے جب سر اٹھایا تو صبیحہ اس کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ امامہ گیلے چہرے کے ساتھ اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رابعہ اور جویریہ ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہی تھیں اور امامہ اپنے پاؤں کے انگوٹھے کے ساتھ فرش کو رگڑتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
“تمہیں یہ سب کچھ ہمیں پہلے ہی بتا دینا چاہئے تھا۔” جویریہ نے ایک طویل وقفے کے بعد اس خاموشی کو توڑا۔ امامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور پرسکون انداز میں کہا۔
“اس سے کیا ہوتا؟”
“کم از کم ہم تمہارے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار تو نہ ہوتے اور تمہاری مدد کرسکتے تھے ہم دونوں۔”
امامہ سر جھٹکتے ہوئے عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ “اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔”
“مجھے تو بہت خوشی ہے امامہ! کہ تم نے ایک صحیح راستے کا انتخاب کیا ہے۔ دیر سے سہی مگر تم غلط راستے سے ہٹ گئی ہو۔” جویریہ نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ “تم اندازہ نہیں کرسکتیں کہ میں اس وقت تمہارے لئے اپنے دل میں کیا محسوس کررہی ہوں۔” امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔
“تمہیں اگر ہم دونوں کی طرف سے کسی بھی مدد کی ضرورت ہو تو ہچکچانا مت، تمہاری مدد کرکے ہمیں خوشی ہوگی۔”
“مجھے واقعی تم لوگوں کی مدد کی بہت ضرورت ہے، بہت زیادہ ضرورت ہے۔” امامہ نے کہا۔
“میری وجہ سے اگر تم نے اپنے مذہب کی اصلیت جانچ کر اسے چھوڑ دیا ہے تو۔۔۔۔۔” جویریہ کہہ رہی تھی۔
“امامہ اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ “تمہاری وجہ سے؟” اس نے جویریہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے سوچا۔ اس کا ذہن اسے کہیں اور لے جارہا تھا۔
دھند میں اب ایک اور چہرہ ابھر رہا تھا۔ وہ اسے دیکھتی رہی، وہ چہرہ آہستہ آہستہ واضح ہورہا تھا، زیر آب ابھرنے والے کسی نقش کی طرح۔۔۔۔۔ چہرہ اب واضح ہوگیا تھا۔ امامہ مسکرائی وہ اس چہرے کو پہچان سکتی تھی۔ اس نے اس چہرے کے ہونٹوں کو ہلتے دیکھا۔ آہستہ آہستہ وہ آواز سن سکتی تھی۔ وہ آواز سن رہی تھی۔
قطرہ مانگے جو تو اسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے اپنی تمنا دے دے
“میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم لوگ کسی کو کچھ نہ بتاؤ، زینب کو بھی نہیں۔” اپنے سر کو جھٹکتے ہوئے اس نے جویریہ اور رابعہ سے کہا تھا۔ ان دونوں نے اثبات میں سر ہلادیا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کف پا تیرا
پورے قد سے میں کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
وہ اس آواز کو پہچانتی تھی۔ یہ جلال انصر کی آواز تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امامہ میڈیکل کالج میں چند روز ہوئے تھے جب ایک ویک اینڈ پر اسلام آباد آنے بعد اس نے رات کو زینب کے گھر لاہور فون کیا۔
“بیٹا! میں زینب کو بلاتی ہوں، تم ہولڈ رکھو۔” زینب کی امی فون رکھ کر چلی گئیں۔ وہ ریسیور کان سے لگائے انتظار کرنے لگی۔
کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
مردانہ آواز میں فون پر سنائی دینے والی وہ نعت امامہ نے پہلے بھی سنی تھی مگراس وقت جو کوئی بھی اسے پڑھ رہا تھا وہ کمال جذب سے اسے پڑھ رہا تھا
پورے قد سے کھڑا ہوں تو یہ تیرا ہے کرم
مجھ کو جھکنے نہیں دیتا ہے سہارا تیرا
اسے اندازہ نہیں تھا کہ کسی مرد کی آواز اتنی خوب صورت ہوسکتی ہے۔ اس قدر خوب صورت کہ پوری دنیا اس آواز کی قید میں لگے۔ امامہ نے اپنا سانس روک لیا یا شاید وہ سانس لینا بھول گئی۔
لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا
میں کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا
انسان کی زندگی میں کچھ ساعتیں سعد ہوتی ہیں۔ شبِ قدر کی رات میں آنے والی اس سعد ساعت کی طرح جسے بہت سے لوگ گزر جانے دیتے ہیں، صرف چند اس ساعت کے انتظار میں ہاتھ اٹھائے اور جھولی پھیلائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اس ساعت کے انتظار میں جو چلتے پانی کو روک دے اور رکے ہوئے پانی کو رواں کردے، جو دل سے نکلنے والی دعا کو لبوں تک آنے سے پہلے مقدر بنا دے۔
امامہ ہاشم کی زندگی میں وہ سعد ساعت شبِ قدر کی کسی رات کو نہیں آئی تھی۔ نہ اس نے اس سعد ساعت کے لئے ہاتھ اٹھائے تھے نہ جھولی پھیلائی تھی پھر بھی اس نے زمین و آسمان کی گردش کو کچھ دیر کے لئے تھمتے دیکھا تھا۔ پوری کائنات کو ایک گنبد ِبے در میں بدلتے دیکھا تھا جس کے اندر بس ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔
دست گیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
وہ اندھیروں سے بھی دزانہ گزر جاتے ہیں
جن کے ماتھے پہ چمکتا ہے ستارا تیرا
آواز بہت صاف اور واضح تھی۔ امامہ بت کی طرح ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھی رہی۔
“ہیلو امامہ!” دوسری طرف زینب کی آواز گونجی اور وہ آواز میں گم ہوگئی۔ چند لمحوں کے لئے زمین کی رکی ہوئی گردش دوبارہ بحال ہوگئی۔
“ہیلو امامہ! آواز سن رہی ہو میری؟” وہ ایک جھٹکے سے ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔
“ہاں، میں سن رہی ہوں۔”
“میں نے سوچا لائن کٹ گئی۔” دوسری طرف سے زینب نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔ امامہ اگلے چند منٹ اس سے بات کرتی رہی مگر اس کا دل و دماغ کہیں اور تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جلال الدین انصر زینب کا بڑا بھائی تھا اور امامہ غائبانہ طور پر اس سے واقف تھی۔ زینب اس کی کلاس فیلو تھی اور اس سے امامہ کا تعارف وہیں میڈیکل کالج میں ہواتھا۔ چند ماہ میں ہی یہ تعارف اچھی خاصی دوستی میں بدل گیا۔ اس تعارف میں اسے یہ پتا چلا کہ وہ لوگ چار بھائی بہن تھے۔ جلال سب سے بڑا تھا اور ہاؤس جاب کررہا تھا۔ زینب کے والد واپڈا میں انجینئر تھے اور ان کا گھرانہ کافی مذہبی تھا۔
اسلام آباد سے واپسی پر اس نے زینب سے نعت پڑھنے والے اس شخص کے بارے میں پوچھا۔
“زینب! اس رات میں نے تمہیں فون کیا تو کوئی نعت پڑھ رہا تھا، وہ کون تھا؟” اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان نارمل رکھتے ہوئے کہا۔
“وہ۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ جلال بھائی تھے۔۔۔۔۔ ایک مقابلہ میں حصہ لینے کے لئے وہ نعت یاد کررہے تھے۔ فون کوریڈور میں ہے اور ان کے کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس لئے آواز تم تک پہنچ گئی۔” زینب نے تفصیل سے بتایا۔
“بہت اچھی آواز ہے ان کی۔”
“ہاں،آواز تو بہت اچھی ہے ان کی۔ قرات تو نعت سے بھی زیادہ خوبصورت کرتے ہیں۔ بہت سے مقابلوں میں انعام بھی لے چکے ہیں۔ ابھی بھی کالج میں ایک مقابلہ ہونے والا ہے تم اس میں انہیں سننا۔”
زینب تب یہ نہیں جانتی تھی کہ امامہ کس مذہب کی تھی، وہ جس طرح پردے کا خیال رکھتی تھی زینب کا خیال تھا کہ وہ کسی مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ خود زینب بھی خاصے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور چادر اوڑھا کرتی تھی۔
دو تین دن کے بعد امامہ جلال انصر کی نعت سننے کے لئے اپنی فرینڈز کو بتائے بغیر کلاسز بنک کرکے نعتوں کے اس مقابلے میں چلی گئی تھی۔
جلال انصر کو اس دن پہلی بار اس نے دیکھا تھا۔ کمپئیر نے جلال انصر کا نام پکارا اور امامہ نے تیز ہوتی ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ زینب سے مشابہت رکھنے والے عام سی شکل و صورت اور داڑھی والے ایک چوبیس پچیس سالہ لڑکے کو اسٹیج پر چڑھتے دیکھا۔ اسٹیج پر سیڑھیاں چڑھنے سے لے کر روسٹرم کے پیچھے آکر کھڑے ہونے تک امامہ نے ایک بار بھی اپنی نظر جلال انصر کے چہرے سے نہیں ہٹائی۔ اس نے اسے سینے پر ہاتھ باندھتے اور آنکھیں بند کرتے دیکھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقشِ کفِ پا تیرا
امامہ کو اپنے پورے وجود میں ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی۔ ہال میں مکمل خاموشی تھی اور صرف اس کی خوبصورت آواز گونج رہی تھی۔ وہ کسی سحر زدہ معمول کی طرح بیٹھی اسے سنتی رہی۔ اس نے کب نعت ختم کی، کب وہ اسٹیج سے اتر کر واپس ہوا، مقابلے کا نتیجہ کیا نکلا، اس کے بعد کس کس نے نعت پڑھی، کس وقت سارے اسٹوڈنٹ وہاں سے گئے اور کس وقت ہال خالی ہوگیا امامہ کو پتا نہیں چلا۔
بہت دیر کے بعد اسے یکدم ہوش آیا تھا۔ اس وقت اپنے اردگرد دیکھنے پر اسے احساس ہوا کہ وہ ہال میں اکیلی بیٹھی تھی۔
“میں نے کل تمہارے بھائی کو نعت پڑھتے سنا۔” امامہ نے اگلے دن زینب کو بتایا۔
“اچھا۔۔۔۔۔ انہیں پہلا انعام ملا ہے۔” زینب نے اس کی بات پر مسکرا کر اسے دیکھا۔
“بہت خوبصورت نعت پڑھی تھی انہوں نے۔” کچھ دیر کی خاموشی کے بعد امامہ نے پھر اس موضوع پر بات کی۔
“ہاں! وہ بچپن سے نعتیں پڑھتے آرہے ہیں۔ اتنے قرات اور نعت کے مقابلے جیت چکے ہیں کہ اب تو انہیں خود بھی ان کی تعداد یاد نہیں ہوگی۔” زینب نے تفاخر سے کہا۔
“ان کی آواز بہت خوب صورت ہے۔” امامہ نے پھر کہا۔ “ہاں خوبصورت تو ہے مگر ساری بات اس محبت اور عقیدت کی ہے، جس کے ساتھ وہ نعت پڑھتے ہیں۔ انہیں حضورﷺ سے عشق ہے۔ اتنی محبت کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ قرات اور نعت کے علاوہ انہوں نے کبھی کوئی اور چیز نہیں پڑھی، حالانکہ اسکول اور کالج میں انہیں بہت مجبور کیا جاتا رہا مگر ان کا ایک ہی جواب ہوتا کہ میں جس زبان سے حضرت محمد ﷺ کا قصیدہ پڑھتا ہوں اس زبان سے کسی اور شخص کا قصیدہ نہیں پڑھ سکتا۔ محبت تو ہم بھی حضور ﷺ سے کرتے ہیں مگر جیسی بھائی کرتے ہیں ویسی محبت تو ہم میں سے کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ پچھلے دس سالوں میں ایک بار بھی انہوں نے نماز قضا نہیں کی۔ ہر ماہ ایک قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ تم تو نعت کی تعریف کررہی ہواگر ان سے تلاوت سن لو تو۔”
وہ بڑے فخر سے بتا رہی تھی۔ امامہ چپ چاپ اسے دیکھ رہی تھی۔ اس نے زینب سے اس کے بعد کچھ نہیں پوچھا۔
اگلے دن وہ صبح کالج جانے کے لئے تیار ہونے کی بجائے اپنے بستر میں گھسی رہی۔ جویریہ نے خاصی دیر کے بعد بھی اسے بستر سے برآمد نہ ہوتے دیکھ کرجھنجھوڑا۔
“اٹھ جاؤ امامہ! کالج نہیں جانا کیا۔ دیر ہورہی ہے۔”
“نہیں، آج مجھے کالج نہیں جانا۔” امامہ نے دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔
“کیوں؟” جویریہ کچھ حیران ہوئی۔
“میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔” امامہ نے کہا۔
“آنکھیں تو بہت سرخ ہورہی ہیں تمہار، رات کو سوئیں نہیں تم؟”
“نہیں، نیند نہیں آئی اور پلیز اب مجھے سونے دو۔” امامہ نے اس کے کسی اور سوال سے بچپن کے لئے کہا۔ جویریہ کچھ دیر اسے دیکھتے رہنے کے بعد اپنا بیگ اور فولڈر اٹھا کر باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد امامہ نے آنکھیں کھول دیں۔ یہ بات ٹھیک تھی کہ وہ ساری رات سو نہیں سکی تھی اور اس کی وجہ جلال انصر کی آواز تھی۔ وہ اپنے ذہن کو اس آواز کے علاوہ اور کہیں بھی فوکس نہیں کر پارہی تھی۔
“جلال انصر!” اس نے زیر لب اس کا نام دہرایا۔ “آخر اس کی آواز کیوں مجھے اس قدر اچھی لگ رہی ہے کہ میں۔۔۔۔۔ میں اسے اپنے ذہن سے نکال نہیں پارہی؟” اس نے الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ بستر سے نکلتے ہوئے سوچا۔ وہ اپنے کمرے کی کھلی ہوئی کھڑکی میں آکر کھڑی ہوگئی۔
“میرے بھائی کی آواز میں ساری تاثیر حضرت محمدﷺ کے عشق کی وجہ سے ہے۔” اس کے کانوں میں زینب کی آواز گونجی۔
“آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔ اور عشق؟” اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ “سوز،گداز، لوچ، مٹھاس۔۔۔۔۔ آخر کیا تھا اس آواز میں؟” وہ اٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ “دنیا عشق اللہ سے شروع ہوتی ہے اور عشق رسول ﷺ پر ختم ہوجاتی ہے۔” اسے ایک اور جملہ یاد آیا۔
“عشق رسول ﷺ؟” اس نے حیرانی سے سوچا۔ “عشق رسول ﷺ یا عشق محمد ﷺ؟” یکدم اسے اپنے ایک عجیب سا سناٹا اترتا محسوس ہوا۔ اس نے اس سناٹے اور تاریکی کو کوجھنا شروع کیا۔ اپنے اندر سیڑھی درسیڑھی اترنا شروع کیا۔ اسے کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آئی۔ “آخر وہ کیا چیز ہوتی ہے جو حضرت محمد ﷺ کا نام سننے پر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر درود لے آتی ہے۔ عقیدت، عشق، محبت۔۔۔۔۔ ان میں سے کیا ہے؟ مجھے کچھ کیوں محسوس نہیں ہوتا۔ میری آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آتے؟ میرے ہونٹوں پر درود کیوں نہیں آتا؟ میری آواز میں تاثیر۔۔۔۔۔” وہ لمحہ بھر کے لئے رکی اس نے زیر لب پڑھا۔
کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
اس کی دولت ہے فقط نقش کف پا تیرا
اسے اپنی آواز بھرائی ہوئی محسوس ہوئی۔ “شاید ابھی جاگی ہوں، اس لئے آواز ایسی ہے۔” اس نے اپنا گلا صاف کرتے ہوئے سوچا۔ اس نے ایک بار پھر پڑھنا شروع کیا۔
“کچھ نہیں مانگتا۔۔۔۔۔” وہ ایک بار پھر رک گئی۔ اس بار اس کی آواز میں لرزش تھی۔ اس نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا۔ “کچھ نہیں مانگتا ہوں شاہوں سے یہ شیدا تیرا۔” کھڑکی سے باہر نظریں مرکوز رکھتے ہوئے اس نے لرزتی بھرائی آواز اور کانپتے ہونٹوں کے ساتھ پہلا مصرع پڑھا پھر دوسرا مصرع پڑھنا شروع کیا اور رک گئی۔ کھڑکی سے باہر خلا میں گھورتے ہوئے وہ ایک بار پھر جلال انصر کی آواز اپنے کانوں میں اترتی محسوس کررہی تھی۔
بلند، صاف، واضح اور اذان کی طرح دل میں اتر جانے والی مقدس آواز۔۔۔۔۔ اسے اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوئی۔
یکدم وہ اپنے ہوش و حواس میں آئی اور پتا چلا کہ وہ رو رہی تھی۔ کچھ دیر جیسے بے یقینی کے عالم میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دونوں آنکھوں پر رکھے دم بخود کھڑی رہی۔ اس نے اپنے آپ کو بے بسی کی انتہا پر پایا۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا۔
انسان کے لئے سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب اس کا دل کسی چیز کی گواہی دے رہا ہو مگر اس کی زبان خاموش ہو جب اس کا دماغ چلا چلا کر کسی چیز کی صداقت کا اقرار کررہا ہو مگر اس کے ہونٹ ساکت ہوں، امامہ ہاشم کی بھی اپنی زندگی اسی مرحلے پر آن پہنچی تھی، جو فیصلہ وہ پچھلے دو تین سالوں سے نہیں کر پارہی تھی وہ فیصلہ ایک آواز نے چند دنوں میں کروا دیا تھا۔ یہ جانے، یہ کھوجے، یہ پرکھے بغیر کہ آخر لوگ کیوں حضرت محمد ﷺ سے اتنی عقیدت رکھتے ہیں۔ آخر کیوں عشق رسول ﷺ کی بات کی جاتی ہے۔ اس نے اتنے سال اپنے نبی کے قصیدے سنے تھے، اس پر کبھی رقت طاری نہیں ہوئی تھی، کبھی اس کا وجود موم بن کر نہیں پگھلا تھا، کبھی اسے کسی پر رشک نہیں آیا تھا مگر ہر بار حضرت محمد ﷺ کا نام پڑھتے، دیکھتے اور سنتے ہوئے وہ عجیب سی کیفیات کا شکار ہوتی تھی۔ ہر بار، ہر دفعہ اس کا دل اس نام کی طرف کھنچتا چلا جاتا تھا اور صبیحہ کے پاس نہ جانے کے اس کے سارے ارادے بھاپ بن کر اڑ گئے تھے۔ جلال انصر کی آواز تاریکی میں نظر آنے والے جگنو کی طرح تھی جس کے تعاقب میں وہ بنا سوچے سمجھے چل پڑی تھی۔
میں تجھے عالمِ اشیا میں بھی پا لیتا ہوں
لوگ کہتے ہیں کہ ہے عالم بالا تیرا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امامہ کے لئے وہ ایک نئے سفر کا آغاز تھا۔ وہ پہلے کی طرح باقاعدگی سے صبیحہ کے پاس جانے لگی۔ ان اجتماعات میں شرکت نے اسے اگر ایک طرف اپنے فیصلے پر استقامت بخشی تو دوسری طرف اس باقی ماندہ شبہات کو بھی دور کردیا۔
مذہب تبدیل کرنے کا فیصلہ امامہ کے لئے کوئی چھوٹا یا معمولی فیصلہ نہیں تھا، اس ایک فیصلے نے اس کی زندگی کے ہر معاملے کو متاثر کیا تھا۔ وہ اب اسجد سے شادی نہیں کرسکتی تھی کیونکہ وہ غیر مسلم تھا۔ اسے جلد یا بدیر اپنے گھر والوں سے علیحدگی بھی اختیار کرنی تھی کیونکہ وہ اب ایسے کسی ماحول میں رہنا نہیں چاہتی تھی جہاں اسلام شعائر اور عقائد میں اتنے دھڑلے سے تحریفات کی جاتی تھیں۔ وہ اس پیسے کے بارے میں بھی شکوک کا شکار ہونے لگی تھی جو اسے اپنی تعلیم اور دوسرے اخراجات کے لئے ہاشم مبین کی طرف سے ملتے تھے۔ چند سال پہلے تک پریوں کی کہانی نظر آنے والی زندگی یکدم ایک ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہوگئی تھی اور زندگی کے اس مشکل راستے کا انتخاب اس نے خود کیا تھا۔ اسے بعض دفعہ حیرت ہوتی کہ اس نے اتنا بڑا فیصلہ کس طرح کرلیا۔ اس نے اللہ سے استقامت ہی مانگی تھی اور اسے استقامت سے نوازا گیا تھا مگر وہ ابھی اتنی کم عمر تھی کہ خدشات اور اندیشوں سے مکمل پیچھا چھڑا لینا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔
“امامہ! تم فی الحال اپنے والدین کو مذہب کی تبدیلی کے بارے میں نہ بتاؤ۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہوجاؤ۔ اس وقت نہ صرف تم آسانی سے اسجد سے شادی سے انکار کرسکتی ہو بلکہ انہیں اپنے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں بھی بتا سکتی ہو۔”
صبیحہ نے ایک بار اس کے خدشات سننے کے بعد اسے مشورہ دیا۔
“میں اس پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرنا نہیں چاہتی جو میرے بابا مجھے دیتے ہیں، اب جبکہ میں جانتی ہوں کہ میرے والد ایک جھوٹے مذہب کی تبلیغ کررہے ہیں یہ جائز تو نہیں ہے کہ میں ایسے شخص سے اپنے اخراجات کے لئے رقم لوں؟”
“تم ٹھیک کہتی ہو مگر تمہارے پاس فی الحال کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ بہتر ہے تم اپنی تعلیم مکمل کرلو، اس کے بعد تمہیں اپنے والد سے بھی کچھ نہیں لینا پڑے گا۔” صبیحہ نے اسے سمجھایا۔ صبیحہ اگر اسے یہ راہ نہ دکھاتی تب بھی امامہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔ اس میں فی الحال اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش چھوڑ دیتی۔”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس وقت رات کے دس بجے تھے جب وہ سینما سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اب بھی پاک کارن کا پیکٹ تھا اور وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا پاپ کارن کھاتے ہوئے سڑک پر چل رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ تک سڑکیں ناپتے رہنے کے بعد اس نے ایک بہت بڑے بنگلے کی گھنٹی بجائی تھی۔
“صاحب کھانا لگاؤں؟” لاؤنج میں داخل ہونے پر ملازم نے اسے دیکھ کر پوچھا۔
“نہیں۔” اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
“دودھ؟”
“نہیں۔” وہ رکے بغیر وہاں سے گزرتا چلا گیا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوکر اس نے دروازہ بند کرلیا۔ کمرے کی لائٹ آن کرکے وہ کچھ دیر بے مقصد ادھر اُدھر دیکھتا رہا پھر باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔ شیونگ کٹ نکال کر اس کے اندر سے ایک ریزر بلیڈ نکال لیا اور اسے لے کر بیڈروم میں آگیا۔ اپنے بیڈ پر بیٹھ کر اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا لیمپ جلا لیا اور بیڈروم کی ٹیوب لائٹ بند کردی۔ ریزر بلیڈ کے اوپر موجود ریپر کو اتار کر وہ کچھ دیر لیمپ کی روشنی میں اس کی تیز دھار کو دیکھتا رہا پھر اس نے بلیڈ کے ساتھ اپنے دائیں ہاتھ کی کلائی کی رگ کو ایک جھٹکے سے کاٹ دیا۔ اس کے منہ سے ایک سسکی نکلی اور پھر اس نے ہونٹ بھینچ لیے۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کی کلائی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھی اور خون کی دھار اب سیدھا کارپٹ پر گر کر اس میں جذب ہورہی تھی۔
اس کا ذہن جیسے کسی گہری کھائی میں جارہا تھا پھر اس نے کچھ دھماکے سنے۔ تاریکی میں جاتا ہوا ذہن ایک بار پھر جھماکے کے ساتھ روشنی میں آگیا۔ شور اب بڑھتا جارہا تھا۔ وہ فوری طور پر شور کی وجہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھیں کھول دیں مگر وہ کسی چیز کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ سورہی تھی جب ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ کوئی اس کا دروازہ بجا رہا تھا۔
“امامہ! امامہ!” وسیم دروازہ بجاتے ہوئے بلند آواز میں اس کا نام پکاررہا تھا۔
“کیا ہوا ہے؟ کیوں چلا رہے ہو؟” دروازہ کھولتے ہی اس نے کچھ حواس باختگی کے عالم میں وسیم سے پوچھا جس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔
“فرسٹ ایڈ باکس ہے تمہارے پاس؟” وسیم نے اسے دیکھتے ہی فوراً پوچھا۔
“ہاں، کیوں؟” وہ مزید پریشان ہوئی۔
“بس اسے لے کر میرے ساتھ آجاؤ۔” وسیم نے کمرے کے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
“کیا ہوا؟” اس کے پیروں کے نیچے سے جیسے زمین کھسکنے لگی۔
“چوچو نے پھر خودکشی کی کوشش کی ہے۔ اپنی کلائی کاٹ لی ہے اس نے۔ ملازم آیا ہوا ہے نیچے اس کا، تم میرے ساتھ چلو۔” امامہ نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
“تمہارے اس دوست کو مینٹل ہاسپٹل میں ہونا چاہئیے جس طرح کی یہ حرکتیں کرتا پھرتا ہے۔” امامہ نے ناگواری سے اپنے بیڈ پر پڑا ہوا دوپٹہ اوڑھتے ہوئے کہا۔
“میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ہوں، ابھی وہ ہوش میں تھا۔” اس نے مڑ کر امامہ کو بتایا۔ وہ دونوں اب آگے پیچھے سیڑھیاں اتر رہے تھے۔
“تم اسے ہاسپٹل لے جاتے۔” امامہ نے آخری سیڑھی پر پہنچ کر کہا۔
“وہ بھی لے جاؤں گا، پہلے تم اس کی کلائی وغیرہ تو باندھو، خون تو بند ہو۔”
“وسیم! میں اسے کوئی بہت اچھی قسم کی فرسٹ ایڈ نہیں دے سکتی۔ پتا نہیں اس نے کس چیز سے کلائی کاٹی ہے اور زخم کتنا گہرا ہے۔ اس کے اپنے گھر والے کہاں ہیں؟” بات کرتے کرتے امامہ کو خیال آیا۔
“اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے، صرف ملازم ہیں۔ وہ تو کوئی فون کال آئی تھی جس پر ملازم اسے بلانے کے لئے گیا اور جب اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تو پریشان ہوکر دوسرے ملازموں کے ساتھ مل کر اس نے دروازہ توڑ دیا۔” وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے اب اپنے گھر سے باہر نکل آئے۔
“تمہارا یہ دوست جو ہے نا۔۔۔۔۔” امامہ نے کچھ ناراضی کے عالم میں وسیم کے ساتھ چلتے ہوئے سالار کے بارے میں کچھ کہنا چاہا مگر وسیم نے غصے میں پلٹ کر اس کو جھڑک دیا۔
“فار گاڈ سیک۔ اپنی لعنت ملامت بند نہیں کرسکتیں تم۔ اس کی حالت سیریس ہے اور تم اس کی برائیوں میں مصروف ہو۔”
“ایسی حرکتیں کرنے والوں کے لئے میرے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے۔” وہ دونوں اب سالار کے لاؤنج میں پہنچ چکے تھے۔
چند قدم چلنے کے بعد وسیم ایک موڑ مڑا اور کمرے کے اندر داخل ہوگیا۔ امامہ اس کے پیچھے ہی تھی مگرپھر جیسے کرنٹ کھا کر رک گئی۔ کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی سامنے قد آدم کھڑکیوں پر کچھ ماڈلز اور ایکٹریسز کی بڑی بڑی عریاں تصویریں اس طرح لگائی گئی تھیں کہ ایک لمحے کے لئے امامہ کو یوں لگا جیسے وہ تمام لڑکیاں حقیقی طور پر اس کمرے میں موجود ہیں۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ایک طرف بیڈ پر پڑے ہوئے زخمی کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور خراب ہوگئی۔ وہ تصویریں اس کے کردار کی پستی کا ایک اور ثبوت تھیں اور کمرے میں تین چار لوگوں کی موجودگی میں اس کے لئے وہ تصویریں خاصی خفت اور شرمندگی کا باعث بن رہی تھیں۔ ان تصویروں سے نظریں چراتے ہوئے وہ تیز رفتاری سے ڈبل بیڈ کی طرف آگئی جہاں سالار سکندر لیٹا ہوا تھا۔ وسیم اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا فرسٹ ایڈ باکس کھول رہا تھا جبکہ امامہ کا بڑا بھائی سالار کی اس کلائی کو بیڈ شیٹ کے ایک لٹکے ہوئے کونے کے ساتھ دبا کر خون روکنے کی کوشش کررہا تھا جبکہ خود سالار نشے میں ڈوبے ہوئے کسی انسان کی طرح اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا۔ وہ وسیم اور وہاں ملازموں سے کچھ کہہ بھی رہا تھا۔
امامہ کے آگے بڑھتے ہی اس کے بڑے بھائی نے اس کرسی کو چھوڑ دیا، جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔
“اس کے زخم کو دیکھو، میں نے چادر سے خون روکنے کی کوشش کی ہے مگر میں کامیاب نہیں ہوا۔” انہوں نے اس کی کلائی امامہ کو تھماتے ہوئے کہا۔ امامہ نے کرسی پر بیٹھتے ہی اس کی کلائی کے گرد لپٹا ہوا کونہ ہٹایا۔ زخم بہت گہرا اور لمبا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا۔
سالار نے پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی مگر امامہ مضبوطی سے کلائی کے کچھ نیچے سے اس کا بازو پکڑے رہی۔
“وسیم! بس بینڈیج نکال دو۔ یہ زخم بہت گہرا ہے۔ یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔ بینڈیج کرنے سے خون رک جائے گا پھر تم لوگ اسے ہاسپٹل لے جاؤ۔”اس نے ایک نظر نیچے کارپٹ پر جذب ہوتے خون پر ڈالی۔ وسیم تیزی سے فرسٹ ایڈ باکس میں سے بینڈیج نکالنے لگا۔
سالار نے بیڈ پر لیٹے لیٹے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اب دھندلاہٹ سی تھی مگر اس کے باوجود اس نے اپنے بیڈ سے کچھ فاصلے پر بیٹھی ہوئی اس لڑکی اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنے بازو کو دیکھا۔
کچھ مشتعل ہو کر اس نے ایک اور جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ اس لڑکی کے ہاتھ سے آزاد کرانے کی کوشش کی۔ ہاتھ آزاد نہیں ہوا مگر درد کی ایک تیز لہر نے بے اختیار اسے کراہنے پر مجبور کیا تھا۔ اسے چند لمحوں کے لئے یہی محسوس ہوا تھا جیسے اس کی جان نکل گئی مگر اگلے ہی لمحے وہ ایک بار پھر ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
“تم لوگ دفع ہو۔۔۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔ کہاں سے۔۔۔۔۔ آ گئے۔۔۔۔۔ ہو؟” اس نے کچھ مشتعل ہو کر لڑکھڑاتے لہجے میں کہا۔” یہ میرا۔۔۔۔۔ کمرہ ہے۔۔۔۔۔تم لوگوں۔۔۔۔۔ کو اندر۔۔۔۔۔آنے کی جرات کیسے۔۔۔۔۔ ہوئی۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔ وسیم تم۔۔۔۔۔دفع۔۔۔۔۔ ہو جاؤ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔جسٹ ۔۔۔۔۔ گیٹ لاسٹ۔۔۔۔۔بلڈی باسٹرڈ۔”
اس نے بلند آواز میں مگر لڑکھڑاتی زبان سے کہا۔امامہ نے اس کے منہ سے نکلنے والی گالی کو سنا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے چہرے کا رنگ بدلا مگر وہ پھر اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے بیٹھی رہی۔ اس نے وسیم سے کاٹن لے کے کراہتے ہوئے سالار کی کلائی کے زخم پر رکھ دی جو ہاتھ کو کھینچنے اور ہلانے سے باز نہیں آ رہاتھا اور وسیم کے ہاتھ سے لے کر لپیٹنا شروع کر دیا۔ سالار نے دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنی کلائی کے گرد کسی چیز کی نرمی کو محسوس کیا۔
کچھ بے بسی اور جھنجھلاہٹ کے عالم میں سالار نے اپنے بائیں ہاتھ کے زور سے اپنے دائیں ہاتھ کو چھڑانے کی کوشش کی تھی۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کا آگے بڑھنے والا بایاں ہاتھ لڑکی کے سر سے ٹکرایا تھا۔ اس کے سر سے نہ صرف دوپٹہ اترا تھا بلکہ اس کے بال بھی کھل گئے تھے۔
امامہ نے ہڑبڑا کر اسے دیکھا جو ایک بار پھر اپنا بایاں ہاتھ آگے لا رہا تھا۔ امامہ نے اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی کلائی کو پکڑے رکھا جبکہ دائیں ہاتھ میں پکڑی ہوئی بینڈیج چھوڑ کر اپنی پوری قوت سے اپنا دایاں ہاتھ اس کے دائیں گال پر سے مارا۔ تھپڑ اتنا زناٹے دار تھا کہ ایک لمحے کے لئے سالار کی آنکھوں کے سامنے چھائی ہوئی دھند چھٹ گئی۔ کھلے منہ اور آنکھوں کے ساتھ دم بخود اس نے اس لڑکی کو دیکھا تھا جو سرخ چہرے کے ساتھ بلند آواز میں اس سے کہہ رہی تھی۔
اب اگر تم ہلے تو میں تمہارا دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دوں گی، سنا تم نے۔”
سالار نے اس لڑکی کے عقب میں وسیم کو کچھ کہتے سنا مگر وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب رہا تھا مگر اس نے پھر ایک آواز سنی، نسوانی آواز۔” اس کا بلڈ پریشر چیک کرو۔۔۔۔۔” سالار کو بے اختیار چند لمحے پہلے اپنے گال پر پڑنے والا تھپڑ یاد آیا۔ وہ چاہنے کے باوجود آنکھیں نہیں کھول سکا۔ وہی نسوانی آواز ایک بار پھر گونجی تھی مگر اس بار وہ اس آواز کو کوئی مفہوم نہیں پہنا سکا۔ اس کا ذہن مکمل طور پر تاریکی میں ڈوب گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی بار جب اسے ہوش آیا تو وہ ایک پرائیویٹ کلینک میں موجود تھا۔ آنکھیں کھول کر اس نے ایک بار پھر اپنے اردگرد دیکھنے کی کوشش کی۔ کمرے میں اس وقت ایک نرس موجود تھی جو اس کے پاس کھڑی ڈرپ کو صحیح کرنے میں مصروف تھی۔ سالار نے اسے مسکراتے دیکھا تھا وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر اس کا ذہن ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔
دوسری بار اسے کب ہوش آیا، اسے اندازہ نہیں ہوا مگر دوسری بار آنکھیں کھولنے پر اس نے اس کمرے میں کچھ شناسا چہرے دیکھے تھے۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر ممی اس کی طرف بڑھ آئی تھیں۔
“کیسا محسوس کر رہے ہو تم؟” انہوں نے اس پر جھکتے ہوئے بے تابی سے کہا۔
“جسٹ فائن۔” سالار نے دور کھڑے سکندر عثمان کو دیکھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔ اس سے پہلے کہ اس کی ممی کچھ اور کہتیں کمرے میں موجود ایک ڈاکٹر آگے آ گیا تھا۔ وہ اس کی نبض چیک کرنے لگا تھا۔
ڈاکٹر نے انجکشن لگانے کے بعد ایک بار پھر اسے ڈرپ لگائی۔ سالار نے کچھ بیزاری کے ساتھ یہ کاروائیاں دیکھیں۔ ڈرپ لگانے کے بعد وہ سکندر عثمان اور اس کی بیوی سے باتیں کرنے لگا۔ سالار اس گفتگو کے دوران چھت کو گھورتا رہا پھر کچھ دیر بعد ڈاکٹر کمرے سے نکل گیا۔
کمرے میں اب بالکل خاموشی تھی۔ سکندر عثمان اور اس کی بیگم اپنا سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ان کی تمام کوششوں اور احتیاط کے باوجود یہ سالار سکندر کی خود کشی کی چوتھی کوشش تھی اور اس بار وہ واقعی مرتے مرتے بچا تھا۔ ڈاکٹرزکے مطابق اگر چند منٹو ں کی تاخیر ہوجاتی تو وہ اسے نہیں بچا سکتے تھے۔
سکندر اور ان کی بیوی کو ملازم نے رات کے دو بجے سالار کی خودکشی کی اس کوشش کے بارے میں بتایا تھا اور وہ دونوں میاں بیوی پوری رات سو نہیں سکے تھے۔ سکندر عثمان نے صبح فلائٹ ملنے تک تقریباً ڈیڑھ سو سگریٹ پھونک ڈالے تھے، مگر اس کے باوجود ان کی بے چینی اور اضطراب میں کمی نہیں ہو پار رہی تھی۔
“میری سمجھ میں نہیں آتا یہ آخر اس طرح کی حرکتیں کیوں کرتا ہے۔ آخر اس پر ہماری نصیحتوں اور ہمارے سمجھانے کا اثر کیوں نہیں ہوا۔” سکندر عثما ن نے دوران سفر کہا۔”میرا تو دماغ پھٹنے لگتا ہے جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں۔ کیا نہیں کیا میں نے اس کے لئے۔ ہر سہولت، بہترین تعلیم حتیٰ کہ بڑے سے بڑے سائیکاٹرسٹ کو دکھا چکا ہوں مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔۔۔۔۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھ سے کیا غلطی ہو گئی ہے جو مجھے یہ سزا مل رہی ہے۔ جاننے والوں کے درمیان مذاق بن گیا ہوں میں اس کی وجہ سے۔” سکندر عثمان بہت پریشان تھے۔” ہر وقت میرا دم حلق میں اٹکا رہتا ہے کہ پتا نہیں وہ کس وقت کیا کر گزرے۔ اتنی احتیاط برتنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک بار ہم غافل ہوئے اور وہ پھر وہی حرکت کر گزرا ہے۔” طیبہ نے اپنی آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کو ٹشو کے ساتھ صاف کیا۔ وہ دونوں اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد آئے تھے مگر سالار کے سامنے آ کر دونوں کو چپ لگ گئی تھی۔ ان دونوں ہی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس حالت میں اس سے کیا کہیں۔
سالار کو ان کی دلی اور ذہنی کیفیات کا اچھی طرح اندازہ تھا اور ان کی خاموشی کو وہ غنیمت جان رہا تھا۔ انہوں نے اس دن اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ اگلے دن بھی وہ دونوں خاموش ہی رہے تھے۔
مگر تیسرے دن ان دونوں نے اپنی خاموشی توڑ دی تھی۔
“مجھے صرف یہ بتاؤ کہ آخر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟”سکندر نے اس رات بڑی تحمل مزاجی سے اس کے ساتھ گفتگو کا آغاز کیا تھا۔” آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ تم نے وعدہ کیا تھا کہ تم ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ میں نے اسی وعدے پر تمہیں اسپورٹس کار بھی لے کر دی تھی۔ ہر بات مان رہے ہیں ہم لوگ تمہاری، پھر بھی تمہیں قطعاً احساس نہیں ہے ہم لوگوں کا، نہ خاندان کی عزت کا۔” سالار اسی طرح چپ بیٹھا رہا۔
“کسی اور کا نہیں تو تم ہم دونوں کا ہی خیال کرو۔ تمہاری وجہ سے ہماری راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔” طیبہ نے کہا۔” “تمہیں کوئی پریشانی، کوئی پرابلم ہے، تو ہم سے ڈسکس کرو، ہم سے کہو۔۔۔۔۔ مگر اس طرح مرنے کی کوشش کرنا۔۔۔۔۔ تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر تم ان کوششوں میں کامیاب ہو جاتے تو ہمارا کیا ہوتا۔” سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔ ان کی باتوں میں کچھ بھی نیا نہیں تھا۔ خود کشی کی ہر کوشش کے بعد وہ ان سے اسی طرح کی باتیں سنتا تھا۔
“کچھ بولو، چپ کیوں ہو؟ کچھ سمجھ میں آ رہا ہے تمہیں؟” طیبہ نے جھنجھلا کر کہا۔ وہ انہیں دیکھنے لگا۔” ماں باپ کو اس طرح ذلیل کر کے بڑی خوشی ملتی ہے تمہیں۔”
“اس قدر شاندار مستقبل ہے تمہارا اور تم اپنی احمقانہ حرکتوں سے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہو۔ لوگ ترستے ہیں اس طرح کے اکیڈمک ریکارڈ کے لئے۔” سکندر عثمان نے اسے اس کا اکیڈمک ریکارڈ یاد دلانے کی کوشش کی۔سالار نے بے اختیار ایک جماہی لی۔ وہ جانتا تھا اب وہ اس کے بچپن سے لے کر اس کی اب تک کی کامیابیوں کو دہرانا شروع کریں گے۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ اگلے پندرہ منٹ اس موضوع پر بولنے کے بعد انہوں نے تھک کر پوچھا۔
“آخر تم کچھ بول کیوں نہیں رہے ، بولو”
“میں کیا بولوں، سب کچھ تو آپ دونوں نے کہہ دیا۔” سالارنے کچھ اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔” میری زندگی میرا پرسنل معاملہ ہے پھر بھی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ دراصل میں مرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔۔” سکندر نے اس کی بات کاٹی۔
“تم جو بھی کر رہے تھے، وہ مت کرو، ہم پر کچھ رحم کھاؤ۔” سالار نے ناراضی سے باپ کو دیکھا۔
“تم آخر یہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ تم آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے۔ فضول میں بحث کیوں کرتے جا رہے ہو؟” اس بار طیبہ نے اس سے کہا۔
“اچھا ٹھیک ہے، نہیں کروں گا، ایسی کوئی بھی حرکت۔” سالار نے بے زاری سے جیسے ان دونوں سے جان چھڑانے کے لئے کہا۔ سکندر نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے وعدے پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ نہ وہ۔۔۔۔۔ نہ ان کی بیوی۔۔۔۔۔ مگر ایسے وعدے لینے کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ بچپن سے اپنے اس بیٹے پر فخر کرتے آ رہے تھے، مگر پچھلے کچھ سالوں سے ان کا وہ فخر ختم ہو گیا تھا۔ جتنا پریشان انہیں سالار نے کیا تھا اتنا ان کے باقی بچوں نے مل کے بھی نہیں کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“اب کیسا ہے تمہارا دوست؟ گئے تھے تم اس کی خیریت دریافت کرنے؟” امامہ وسیم کے ساتھ مارکیٹ جا رہی تھی کہ اچانک اسے سالار کا خیال آیا۔
“پہلے سے تو حالت کافی بہتر ہے اس کی۔ شاید کل پرسوں تک ڈسچارج ہو جائے۔” وسیم نے اسے سالار کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا۔” تم چلو گی واپسی پر اس کو دیکھنے؟” وسیم کو اچانک خیال آیا۔
“میں؟” امامہ حیران ہوئی۔” میں کیا کروں گی جا کر۔۔۔۔۔”
“خیریت دریافت کرنا اور کیا کرنا ہے تمہیں۔” وسیم نے سنجیدگی سے کہا۔
“اچھا۔” امامہ نے کچھ تامل سے کہا۔
“چلو ٹھیک ہے، چلیں گے۔ حالانکہ اس طرح کے مریض کی عیادت کرنا فضول ہے۔” اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
“ایسے مجھے توقع تھی کہ ا س کے پیرنٹس ہمارے گھر آئیں گے، شکریہ وغیرہ ادا کرنے کہ ہم نے ان کے بیٹے کی جان بچا لی۔ کس قدر بروقت مدد کی تھی ہم نے، مگر انہوں نے تو بھولے سے ہمارے گھر کا رخ نہیں کیا۔” امامہ نے تبصرہ کیا۔
“تم ان بیچاروں کی کنڈیشن کا اندازہ ہی نہیں کر سکتیں۔ کس منہ سے وہ شکریہ ادا کرنے آئیں اور پھر اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ آپ کے بیٹے نے ایسی حرکت کیوں کی تو وہ دونوں کیا جواب دیں گے۔۔۔۔۔ وہ بیچارے عجیب مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں۔”
وسیم نے قدرے افسوس کرنے والے انداز میں کہا۔” ویسے اس کے پیرنٹس نے میرا بہت شکریہ ادا کیا ہے اور امی اور بابا پرسوں جب اس کی خیریت دریافت کرنے گئے تھے تو انہوں نے وہاں بھی ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ تو امی اور بابا کی سمجھداری تھی کہ انہوں نے ان سے کوئی سوال نہیں کیا سالار کے بارے میں، ورنہ تو ادھر بھی خاصی خفت کا سامنا کرنا پڑتا انہیں۔” وسیم نے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔
“مگر آخر تمہارے اس دوست کا مسئلہ کیا ہے، کیوں بیٹھے بٹھائے اس طرح کی احمقانہ حرکتیں کرنے لگتا ہے؟” امامہ نے پوچھا۔
“تم مجھ سے اس طرح پوچھ رہی ہو جیسے وہ مجھے سب کچھ بتا کر یہ سب کچھ کرتا ہو گا۔ مجھے کیاپتا وہ کس لئے یہ سب کرتا ہے یا کیوں کرتا ہے۔”
“تمہارا اتنا گہرا دوست ہے، تم پوچھتے کیوں نہیں اس سے؟”
“اتنا گہرا بھی نہیں ہے کہ ایسی باتوں کے بارے میں بھی مجھے بتانے لگے اور ویسے بھی میں کیوں کریدوں، ہو گا اس کا کوئی مسئلہ۔”
“تو پھر بہتر نہیں ہے کہ تم ایسے دستوں سے کچھ فاصلے پر رہو، ایسے لوگوں سے دوستی اچھی نہیں ہوتی۔ اگر کل کو تم نے بھی اس طرح کی حرکتیں شروع کر دیں تو۔۔۔۔۔؟”
“ویسے تم نے اس دن جو حرکت کی تھی وہ اگر اسے یاد رہی تو ہماری دوستی میں خود ہی خاصا فرق آ جائے گا۔” وسیم نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
“میں نہیں سمجھتی کہ ا سے وہ تھپڑ یاد ہو گا۔ وہ صحیح طور پر ہوش میں تو نہیں تھا۔ تم سے ذکر کیا اس نے اس بارے میں؟” امامہ نے پوچھا۔
“نہیں مجھ سے کہا تو نہیں مگر ہو سکتا ہے کہ اسے یاد ہو۔ تم نے اچھا نہیں کیا تھا۔”
“اس نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔ ایک تو اپنا ہاتھ کھینچ رہا تھا دوسرے گالیاں دے رہا تھا اوپر سے میرا دوپٹہ بھی کھینچ لیا۔”
“اس نے دوپٹہ نہیں کھینچا تھا، اس کا ہاتھ لگا تھا۔” وسیم نے سالار کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
“جو بھی تھا، اس وقت تو مجھے بہت غصہ آیا تھا مگر بعد میں مجھے بھی افسوس ہوا تھا اور میں نے تو اللہ کا بہت شکر ادا کیا کہ وہ بچ گیا۔ اگر کہیں وہ مر جاتا تو مجھے تو بہت ہی پچھتاوا ہوتا اپنے اس تھپڑ کا۔” امامہ نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
“چلو تم آج جا رہی ہو تو معذرت کر لینا۔” وسیم نے مشورہ دیا۔
“کیوں ایکسکیوز کروں، ہو سکتا ہے اسے کچھ یاد ہی نہ ہو پھر میں خواہ مخواہ گڑے مردے اکھاڑوں۔ اسے یاد دلاؤں کہ میں نے اس کے ساتھ ایسا کیاتھا۔” امامہ نے فوراً کہا۔
“اور فرض کرو اسے سب کچھ یاد ہوا تو۔۔۔۔۔؟”
“تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا۔۔۔۔۔ وہ کون سا ہمارا رشتہ دار ہے کہ اس سے تعلقات خراب ہو جائیں گے یا میل جول میں فرق پڑے گا۔” امامہ نے لاپرواہی سے کہا۔
شاپنگ کرنے کے بعد سالار اسے کلینک لے آیا جہاں سالار زیر علاج تھا۔
وہ دونوں جس وقت اس کمرے میں داخل ہوئے اس وقت وہ سوپ پینے میں مصروف تھا۔
سالار نے وسیم کے ساتھ آنے والی لڑکی کو دیکھا اور فوراً پہچان لیا تھا۔ اگرچہ اس رات اس حالت میں وہ اسے شناخت نہیں کر سکا مگر اس وقت اسے دیکھتے ہی وہ اسے پہچان گیا تھا۔ اپنی ممی سے یہ بات وہ پہلے ہی جان چکا تھا کہ وسیم کی بہن نے اسے فرسٹ ایڈ دی تھی مگر اسے وہ فرسٹ ایڈ یاد نہیں تھی، بس وہ زناٹے دار تھپڑ یاد تھا جو اس رات اسے پڑا تھا۔ اس لئے امامہ کو دیکھتے ہی وہ سوپ پیتے پیتے رک گیا۔
اس کی چبھتی ہوئی نظروں سے امامہ کو اندازہ ہو گیا کہ اسے یقیناً اس رات ہونے والے واقعات کسی نہ کسی حد تک یاد تھے۔
رسمی علیک سلیک کے بعد اس کی ممی امامہ کا شکریہ ادا کرنے لگیں، جبکہ سالار نے سوپ پیتے ہوئے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ وسیم سے اس کی دوستی کو کئی سال گزر چکے تھے اور اس نے وسیم کے گھر میں امامہ کو بھی کئی بار دیکھا تھا مگر اس نے پہلے کبھی توجہ نہیں دی تھی۔ اس دن پہلی بار وہ اس پر قدرے تنقیدی انداز میں غور کر رہا تھا۔ اس کے دل میں امامہ کے لئے تشکر یا احسان مندی کے لئے کوئی جذبات نہیں تھے۔ اس کی وجہ سے اس کے سارے پلان کا بیڑہ غرق ہو گیا تھا۔
امامہ اس کی ممی سے گفتگو میں مصروف تھی مگر وہ وقتاً فوقتاً اپنے اوپر پڑنے والی اس کی نظروں سے بھی واقف تھی۔ زندگی میں پہلی بار اسے کسی کی نظریں اتنی بری لگی تھیں۔
ایک لمحے کے لئے اس کا دل چاہا وہ اٹھ کر وہاں سے بھاگ جائے۔سالار کے بارے میں اس کی رائے اور بھی خراب ہو گئی تھی۔ وہ اپنے اس تھپڑ کے لئے معذرت کے ارادے سے وہاں آئی تھی مگر اس وقت اس کا دل چاہا اسے دو چار اور تھپڑ لگا دے۔
تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد فوراً ہی وہ واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس جاتے ہوئے اس نے سالار کے ساتھ علیک سلیک کا تکلف بھی نہیں کیا تھا۔ وہ صرف اس کی ممی کے ساتھ دعا سلام کے بعد سالار کی طرف دیکھے بغیر باہر نکل آئی تھی اور باہر آ کر اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
“اس طرح کے دوست بنائے ہوئے ہیں تم نے؟” اس نے باہر نکلتے ہی وسیم سے کہا جس نے کچھ حیرانی سے اسے دیکھا۔
“کیوں ، اب کیا ہوا ہے؟”
“اسے دیکھنے تک کی تمیز نہیں ہے۔ اس بات کا احساس تک نہیں ہے کہ میں اس کے دوست کی بہن ہوں اور اس کے دوست کے ساتھ اس کے کمرے میں موجود ہوں۔”
وسیم اس کی بات پر کچھ خفیف سا ہو گیا۔
“یہ آدمی اس قابل نہیں کہ اس کی عیادت کے لئے جایا جائے اور تم اس کے ساتھ میل جول بند کرو۔”
“اچھا ٹھیک ہے میں محتاط رہوں گا۔ اب تم بار بار اس بات کو نہ دہراؤ۔” وسیم نے موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔ امامہ دانستہ طور پر خاموش ہو گئی مگر سالار اس کے ناپسندیدہ افراد کی لسٹ میں شامل ہو چکا تھا۔
یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ ان دنوں کچھ چھیاں گزارنے اسلام آباد آئی ہوئی تھی ورنہ شاید سالار سے اس کا اتنا قریبی اور اتنا ناپسندیدہ تعارف اور تعلق کبھی پیدا نہ ہوتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام قبول کرنے کے بعد اس نے پہلی بار جلال انصر کو تب قریب سے دیکھا جب ایک دن وہ چاروں کالج کے لان میں بیٹھی گفتگو میں مصروف تھیں، وہ وہاں کسی کام سے آیا تھا۔ رسمی سی علیک سلیک کے بعد وہ زینب کے ساتھ چند قدم دور جا کھڑا ہوا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ ایک عجیب سی مسرت اور سر خوشی کا احساس اسے گھیرے میں لے رہا تھا۔
وہ چند منٹ زینب سے بات کرنے کے بعد وہیں سے چلا گیا۔ امامہ اس کی پشت پر نظریں جمائے اس وقت تک اسی دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ اس کے اردگرد بیٹھی اس کی فرینڈز کیا باتیں کر رہی تھیں، اسے اس وقت اس کا کوئی احساس نہیں تھا جب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوا تو یکدم جیسے دوبارہ اپنے ماحول میں واپس آ گئی۔
جلال انصر سے اس کی دوسری ملاقات زینب کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس دن وہ کالج سے واپسی پر زینب کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی۔ زینب کچھ دنوں سے ان سب کو اپنے ہاں آنے کے لئے کہہ رہی تھی۔ باقی سب نے کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیا تھا، مگر امامہ اس دن اس کے ساتھ اس کے گھر چلی آئی تھی۔ اس کے گھر آ کر اسے عجیب سے سکون کا احساس ہوا تھا۔ شاید اس احساس کی وجہ جلال انصر سے اس گھر کی نسبت تھی۔
وہ ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی اور زینب چائے تیار کرنے کے لئے کچن میں گئی تھی۔ جب جلال ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔ امامہ کو وہاں دیکھ کر کچھ چونک گیا۔ شاید اسے امامہ کو وہاں دیکھنے کی توقع نہیں تھی۔
“السلام علیکم! کیا حال ہے آپ کا؟” جلال نے شاید اس طرح بے دھڑک اندر داخل ہونے پر اپنی جھینپ مٹانے کے لئےکہا۔ امامہ نے رنگ بدلتے چہرے کے ساتھ اس کا جواب دیا۔
“زینب کے ساتھ آئی ہیں آپ؟” اس نے پوچھا۔
“جی۔”
“زینب کہاں ہے۔ میں دراصل اس کو ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گیا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ اس کی کوئی دوست یہاں موجود ہے۔” کچھ معذرت خواہانہ انداز میں کہتے ہوئے وہ پلٹ گیا۔
“آپ بہت اچھی نعت پڑھتے ہیں۔” امامہ نے بے ساختہ کہا۔ وہ ٹھٹک گیا۔
“شکریہ۔” وہ کچھ حیران نظر آیا۔” آپ نے کہاں سنی ہے؟”
“ایک دن میں نے زینب کو فون کیا تھا جب تک فون ہولڈ رہا مجھے آپ کی آواز آتی رہی، پھر زینب سے آپ کے بارے میں پتا چلا۔ میں اس نعتیہ مقابلے میں بھی گئی تھی جہاں آپ نےوہ نعت پڑھی تھی۔”
وہ بے اختیار کہتی چلی گئی۔ جلال انصر کی سمجھ میں نہیں آیا وہ حیران ہو یا خوش۔
“بہت اچھی تو نہیں، بس پڑھ لیتا ہوں۔ اللہ کا کرم ہے۔” اس نے حیرت کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے سفید چادر میں لپٹی اس دبلی پتلی دراز قامت لڑکی کو دیکھا جس کی گہری سیاہ آنکھیں کوئی بہت عجیب سا تاثر لئے ہوئے تھیں۔ اپنی آواز کی تعریف وہ بہت سوں سے سن چکا تھا مگر اس وقت اس لڑکی کی تعریف اس کے لئے قدرے غیر معمولی تھی اور جس انداز میں اس نے یہ کہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ عجیب۔
وہ پلٹ کر ڈرائنگ روم سے باہر نکل گیا۔ وہ ویسے بھی لڑکیوں سے گفتگو میں مہارت نہیں رکھتا تھا اور پھر ایک ایسی لڑکی سے گفتگو جس سے وہ صرف چہرے کی حد تک واقف تھا۔
امامہ ایک عجیب سی مسرت کے عالم میں وہاں بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس نے جلال انصر سے بات کی تھی۔ اپنے سامنے۔۔۔۔۔ خود سے اتنے قریب۔۔۔۔۔ وہ ڈرائنگ روم کے دروازے سے کچھ آگے کارپٹ پر اس جگہ کو دیکھتی رہی جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑا تھا۔ تصور کی آنکھ سے وہ اسے ابھی بھی وہیں دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کی اگلی ملاقات ہاسپٹل میں ہوئی۔ پچھلی دفعہ اگر امامہ دانستہ طور پر زینب کے گھر گئی تھی تو اس بار یہ ایک اتفاق تھا۔ امامہ، رابعہ کے ساتھ وہاں آئی تھی جسے وہاں اپنی کسی دوست سے ملنا تھا۔ ہاسپٹل کے ایک کوریڈور میں فائنل سٹوڈنٹس کے ایک گروپ میں اس نے جلال انصر کو دیکھا۔ اس کی ایک ہارٹ بیٹ مس ہوئی۔ کوریڈور میں اتنا رش تھا کہ وہ اس کے پاس نہیں جا سکتی تھی اور اس وقت پہلی بار امامہ کو احسا س ہوا کہ اسے سامنے دیکھ کر اس کے لئے رک جانا کتنا مشکل کام تھا۔ رابعہ کی دوست کے ساتھ بیٹھے ہوئے بھی اس کا دھیان مکمل طور پر باہر ہی تھا۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ رابعہ کے ساتھ اس کی دوست کے کمرے سے باہر آئی تھی۔ اب وہاں فائنل ائیر کے اسٹوڈنٹس کا وہ گروپ نہیں تھا۔ امامہ کو بے اختیار مایوسی ہوئی۔ رابعہ اس کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے باہر نکل رہی تھی جب سیڑھیوں پر ان دونوں کا آمنا سامنا جلال سے ہو گیا۔ امامہ کے جسم سے جیسے ایک کرنٹ سا گزر گیا تھا۔
“السلام علیکم۔ جلال بھائی! کیسے ہیں آپ؟” رابعہ نے پہل کی تھی۔
“اللہ کا شکر ہے۔”
اس نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔
“آپ لوگ یہاں کیسے آ گئے؟” اس بار جلال نے امامہ کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“میں اپنی ایک فرینڈ سے ملنے آئی تھی اور امامہ میرے ساتھ آئی تھی۔” رابعہ مسکراتے ہوئے بتا رہی تھی جبکہ امامہ خاموشی سے اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
دستگیری میری تنہائی کی تو نے ہی تو کی
میں تو مر جاتا اگر ساتھ نہ ہوتا تیرا
اس کی آواز سنتے ہوئے وہ ایک بار پھر ٹرانس میں آ رہی تھی۔ اس نے بہت کم لوگوں کو اتنے شستہ لہجے میں اردو بولتے ہوئے سنا تھا، جس لہجے میں وہ بات کر رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں ہر بار اس کی آواز سنتے ہی اس کے کانوں میں اس کی پڑھی ہوئی وہ نعت گونجنے لگتی تھی۔ اسے عجیب سا رشک آ رہا تھا اسے دیکھتے ہوئے۔
جلال نے رابعہ سے بات کرتے ہوئے شاید اس کی محویت کو محسوس کیا تھا، اسی لئے بات کرتے کرتے اس نے امامہ کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔ امامہ نے اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔ بے اختیار اس کا دل چاہا تھا وہ اس شخص کے اور قریب چلی جائے۔ جلال سے نظریں ہٹا کر اردگرد گزرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے اس نے تین بار لاحول پڑھی۔”شاید اس وقت شیطان میرے دل میں آ کر مجھے اس کی طرف راغب کر رہا ہے۔” اس نے سوچا مگر لاحول پڑھنے کے بعد بھی اس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اب بھی جلال کے لئے ویسی ہی کشش محسوس کر رہی تھی۔
اسجد سے اتنے سالوں کی منگنی کے بعد بھی کبھی اس نے اپنے آپ کو اس کے لئے اس طرح بےاختیار ہوتے نہیں دیکھا تھا جس طرح وہ اس وقت ہو رہی تھی۔ وہاں کھڑے اسے پہلی بار جلال سے بہت زیادہ خوف آیا۔ میں کیا کروں گی اگر میرا دل اس آدمی کو دیکھ کر اسی طرح بے اختیار ہوتا رہا، آخر اسے دیکھ کر مجھے۔۔۔۔۔ اس نے جیسے بے بسی کے عالم میں سوچا۔ میں اتنی کمزور تو کبھی بھی نہیں تھی کہ اس جیسے آدمی کو دیکھ کر اس طرح۔۔۔۔۔ اس نے اپنے وجود کو موم کا پایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“بھائی! آپ فارغ ہیں؟” اس رات زینب دروازے پر دستک دے کر جلال کے کمرے میں داخل ہوئی۔
“ہاں ، آ جاؤ۔” اس نے اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے گردن موڑ کر زینب کو دیکھا۔
“آپ سے ایک کام ہے۔” زینب اس کے پاس آتے ہوئے بولی۔
“کیا کام ہے؟”
“آپ ایک کیسٹ میں اپنی آواز میں کچھ نعتیں ریکارڈ کر دیں۔” زینب نے کہا۔ جلا ل نے حیرت سے اس کی فرمائش سنی۔
“کس لئے؟”
“وہ میری دوست ہے امامہ اس کو آپ کی آواز بہت پسند ہے اس لئے۔۔۔۔۔ اس نے مجھ سے فرمائش کی اور میں نے ہامی بھر لی۔” زینب نے تفصیل بتائی۔
جلال اس فرمائش پر مسکرایا۔ امامہ سے کچھ دن پہلی ہونے والی ملاقات اسے یاد آ گئی۔
“یہ وہی لڑکی ہے جو اس دن یہاں آئی تھی؟” جلال نے سرسری انداز میں پوچھا۔
“ہاں وہی لڑکی ہے، اسلام آباد سے یہاں آئی ہے۔”
“اسلام آباد سے؟ ہاسٹل میں رہ رہی ہے؟” جلال نے کچھ دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
“جی ہاسٹل میں رہ رہی ہے، کافی اچھا خاندان ہے اس کا، بہت بڑے انڈسٹریلسٹ ہیں اس کے فادر۔۔۔۔۔ مگر امامہ سے مل کے ذرا محسوس نہیں ہوتا۔” زینب نے بے اختیار امامہ کی تعریف کی۔
“کافی مذہبی لگتی ہے۔ میں نے اسے ایک دو بار تمہارے ساتھ کالج میں بھی دیکھا ہے۔ کالج میں بھی چادر اوڑھی ہوتی ہے اس نے۔ یہاں کالج کی”آب و ہوا” کا ابھی تک اثر نہیں ہوا اس پر۔” جلال نے کہا۔
“بھائی! اس کی فیملی بھی خاصی مذہبی ہے کیونکہ وہ جب سے یہاں آئی ہے اسی طرح ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کافی کنزرویٹو لوگ ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی فیملی خاصی تعلیم یافتہ ہے۔ نہ صرف بھائی بلکہ بہنیں بھی۔ یہ گھر میں سب سے چھوٹی ہے۔” زینب نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔” تو پھر آپ کب ریکارڈ کر کے دیں گے؟” زینب نے پوچھا۔
“تم کل لے لینا۔ میں ریکارڈ کر دوں گا۔” جلال نے کہا۔ وہ سر ہلاتے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ جال کچھ دیر کسی سوچ میں ڈوبا رہا پھر دوبارہ اس کتاب کی طرف متوجہ ہو گیا جسے وہ پڑھ رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ان کی اگلی ملاقات لائبریری میں ہوئی تھی۔ اس بار امامہ اسے وہاں موجود دیکھ کر بے اختیار اس کی طرف چلی گئی تھی۔ رسمی علیک سلیک کے بعد امامہ نے کہا۔
“میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔”
جلال نے حیرانی سے اسے دیکھا۔” کس لئے؟”
“اس کیسٹ کے لئے، جو آپ نے ریکارڈ کر کے بھجوائی تھی۔” جلال مسکرایا۔
“نہیں ، اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کبھی کوئی مجھ سے ایسی فرمائش کر سکتا ہے۔”
“آپ بہت خوش قسمت ہیں۔” امامہ نے مدھم آواز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں۔۔۔۔۔ کس حوالے سے؟” جلال نے ایک بار پھر حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
“ہر حوالے سے۔۔۔۔۔ آپ کے پاس سب کچھ ہے۔”
“آپ کے پاس بھی تو بہت کچھ ہے۔”
وہ جلال کی بات پر عجیب سے انداز میں مسکرائی۔ جلال کو شبہ ہوا کہ اس کی آنکھوں میں کچھ نمی نمودار ہوئی تھی مگر وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ وہ اب نظریں جھکائے ہوئے تھی۔
“پہلے کچھ بھی نہیں تھا، اب واقعی سب کچھ ہے۔” جلال نے مدھم آواز میں اسے کہتے سنا وہ نہ سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
“آپ اتنی محبت سے رسوال ﷺ کا نام لیتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ۔۔۔۔۔” اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال خاموشی سے اس کی بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
“مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔” چند لمحے بعد وہ آہستہ سے بولی۔
“سب لوگوں کو تو اس طرح کی محبت نہیں ہوتی جیسی محبت آپ کو حضرت محمد ﷺ سے ہے۔ ہو بھی جائے تو ہر کوئی اس طرح اس محبت کا اظہار نہیں کر سکتا کہ دوسرے بھی رسول ﷺ کی محبت میں گرفتار ہونے لگیں۔ محمد ﷺ کو بھی آپ سے بڑی محبت ہو گی۔” اس نے نظریں اٹھائیں ۔ اس کی آنکھوں میں کوئی نمی نہیں تھی۔
“شاید مجھے وہم ہوا تھا۔” جلال نے اسے دیکھتے ہوئے سوچا۔
“یہ میں نہیں جانتا، اگر ایسا ہو تو میں واقعی بہت خوش قسمت انسان ہوں۔ میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ مجھے واقعی حضور اکرم ﷺ سے بڑی محبت ہے۔ مجھ جیسے لوگوں کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ ہر ایک کو اللہ اس محبت سے نہیں نوازتا۔”
وہ بڑی رسانیت سے کہہ رہا تھا۔ امامہ اس کے چہرے سے نظریں نہیں ہٹا سکی۔ اسے کبھی کسی شخص کے سامنے اس طرح کا احساس کمتری نہیں ہوا تھا، جس طرح کا احساس کمتری وہ جلال انصر کے سامنے محسوس کرتی تھی۔
“شاید میں بھی نعت پڑھ لوں۔ شاید میں بھی بہت اچھی طرح اسے پڑھ لوں مگر میں۔۔۔۔۔ میں جلال انصر کبھی نہیں ہو سکتی۔ کبھی بن ہی نہیں سکتی۔ کبھی میری آواز سن کر کسی کا وہ حال نہیں ہو سکتا جو جلال انصر کی آواز سن کر ہوتا ہے۔” وہ لائبریری سے نکلتے ہوئے مسلسل مایوسی کے عالم میں سوچ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جلال انصر سے ہونے والی چند ملاقاتوں کے بعد امامہ نے پوری کوشش کی تھی کہ وہ دوبارہ کبھی اس کا سامنا نہ کرے، نہ اس کے بارے میں سوچے، نہ زینب کے گھر جائے۔ حتیٰ کہ اس نے زینب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بھی اپنی طرف سے بہت محدود کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس کی ہر حفاظتی تدبیر برے طریقے سے ناکام ہوتی گئی۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ امامہ کی بے بسی میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور پھر اس نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔
“اس آدمی میں کوئی چیز ایسی ہے، جس کے سامنے میری ہر مزاحمت دم توڑ جاتی ہے۔” اور شاید اس کا یہ اعتراف ہی تھا جس نے اسے ایک بار پھر جلال کی طرف متوجہ کر دیا تھا۔ پہلے اس کے لئے اس کی بے اختیاری لاشعوری تھی پھر اس نے شعوری طور پر جلال کو اسجد کی جگہ دے دی۔
“آخر کیا برائی ہے اگر میں اس شخص کا ساتھ چاہوں جس کی آواز مجھے بار بار اپنے پیغمبر ﷺ کی طرف لوٹنے پر مجبور کرتی رہی۔ میں کیوں اس شخص کے حصول کی خواہش نہ کروں جو حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے۔ کیا مضائقہ ہے اگر میں اس شخص کو اپنا مقدر بنائے جانے کی دعا کروں، جس کے لئے میں انس رکھتی ہوں اور جس کے کردار سے میں واقف ہوں۔ کیا برا ہے اگر میں یہ چاہوں کہ میں جلال انصر کے نام سے شناخت پاؤں۔ اس واحد آدمی کے نام سے جسے سنتے، جیسے دیکھتے مجھے اس پر رشک آتا ہے۔” اس کے پاس ہر دلیل، ہر توجیہہ موجود تھی۔
بہت غیر محسوس طور پر وہ ہر اس جگہ جانے لگی جہاں جلال کے پائے جانے کا امکان ہوتا اور وہ اکثر وہاں پایا جاتا۔ وہ زینب کو اس وقت فون کرتی، جب جلال گھر پر ہوتا کیونکہ گھر پر ہوتے ہوئے فون ہمیشہ وہی ریسیو کرتا۔ دونوں کے درمیان چھوٹی موٹی گفتگو رفتہ رفتہ طویل ہونے لگی پھر وہ ملنے لگے۔
جویریہ ، رابعہ یا زینب تینوں کو امامہ اور جلال کے ان بڑھتے ہوئے تعلقات کے بارے میں پتا نہیں تھا۔ جلال اب ہاؤس جاب کر رہا تھا اور امامہ اکثر اس کے ہاسپٹل جانے لگی۔ باقاعدہ اظہار محبت نہ کرنے کے باوجود وہ دونوں اپنے لئے ایک دوسرے کے جذبات کے واقف تھے۔ جلال جانتا تھا کہ امامہ اسے پسند کرتی تھی اور یہ پسندیدگی عام نوعیت کی نہیں تھی۔ خود امامہ بھی یہ جان چکی تھی کہ جلال اس کے لئے کچھ خاص قسم کے جذبات محسوس کرنے لگا ہے۔
جلال اس قدر مذہبی تھا کہ اس نے کبھی اس کا بات کا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ وہ کسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جائے گا، نہ صرف یہ کہ وہ محبت کرے گا بلکہ اس طرح اس سے ملا کرے گا۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کچھ بہت غیر محسوس انداز میں ہوتا گیا۔ اس نے کبھی زینب سے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ اس کے اور امامہ کے درمیان کسی خاص نوعیت کا تعلق ہے۔ اگر وہ یہ انکشاف کر دیتا تو زینب اسے یقیناً امامہ کی اسجد کے ساتھ طے شدہ نسبت سے آگاہ کر دیتی۔ بہت شروع میں ہی وہ امامہ کی ایسی کسی نسبت کے بارے میں جان لیتا تو وہ امامہ کے بارے میں بہت محتاط ہو جاتا پھر کم از کم امامہ کے لئے اس حد تک انوالو ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس حد تک وہ ہو چکا تھا۔
ان کے درمیان ہونے والی ایسی ہی ایک ملاقات میں امامہ نے اسے پرپوز کیا تھا۔ اسے امامہ کی جرات پر کچھ حیرانی ہوئی تھی کیونکہ کم از کم وہ خود بہت چاہنے کے باوجود ابھی یہ بات نہیں کہہ سکا تھا۔
“آپ کا ہاؤس جاب کچھ عرصے میں مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد آپ کیا کریں گے؟” امامہ نے اس دن اس سے پوچھا تھا۔
“اس کے بعد میں سپیشلائزیشن کے لئے باہر جاؤں گا۔” جلال نے بڑی سہولت سے کہا۔
“اس کے بعد؟”
“اس کے بعد واپس آؤں گا اور اپنا ہاسپٹل بناؤں گا۔”
“آپ نے اپنی شادی کے بارے میں سوچا ہے؟” اس نے اگلا سوال کیا تھا۔ جلال نے حیران مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔
“امامہ! شادی کے بارے میں ہر ایک ہی سوچتا ہے۔”
“آپ کس سے کریں گے؟”
“یہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔”
امامہ چند لمحے خاموش رہی۔” مجھ سے شادی کریں گے؟”
جلال دم بخود اسے دیکھنے لگا۔ اسے امامہ سے اس سوال کی توقع نہیں تھی۔” آپ کو میری بات بری لگی ہے؟”
امامہ نے اسے گم صم دیکھ کر پوچھا۔ وہ یک دم جیسے ہوش میں آ گیا۔
“نہیں، ایسا نہیں ہے۔” اس نے بے اختیار کہا۔” یہ سوال مجھے تم سے کرنا چاہئیے تھا۔ تم مجھ سے شادی کروگی؟”
“ہاں ۔” امامہ نے بڑی سہولت سے کہا۔
“اور آپ؟”
“میں۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔ ہاں ، آف کورس۔ تمہارے علاوہ میں اور کس سے شادی کر سکتا ہوں۔” اس نے اپنے جملے پر امامہ کے چہرے پر ایک چمک آتے دیکھی۔
“میں ہاؤس جاب ختم ہونے کے بعد اپنے ماں باپ کو تمہارے ہاں بھجواؤں گا۔”
وہ اس بار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے چپ سی ہو گئی۔”جلال! کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں آپ سے اپنے گھر والوں کی مرضی کے بغیر شادی کر لوں؟”
جلال اس کی بات پر ہکا بکا رہ گیا۔” کیا مطلب؟”
“ہو سکتا ہے میرے پیرنٹس اس شادی پر تیار نہ ہوں۔”
“کیا تم نے اپنے پیرنٹس سے بات کی ہے؟”
“نہیں۔”
“تو پھر تم یہ بات کیسے کہہ سکتی ہو؟”
“کیونکہ میں اپنے پیرنٹس کو اچھی طرح جانتی ہوں۔” اس نے رسانیت سے کہا۔
جلال یک دم کچھ پریشان نظر آنے لگا۔” امامہ! میں نے کبھی یہ سوچا ہی نہیں کہ تمہارے پیرنٹس کو ہم دونوں کی شادی پر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔”
“مگر ایسا ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ اس صورت میں مجھ سے شادی کر لیں گے؟”
جلال کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا۔ امامہ اضطراب کے عالم میں اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد جلال نے اپنی خاموشی کو توڑا۔
“ہاں، میں تب بھی تم ہی سے شادی کروں گا۔ میرے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ میں اب کسی دوسری لڑکی سے شادی کر سکوں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ تمہارے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں لیکن اگر وہ نہیں ہوتے تو پھر ہمیں ان کی مرضی کے بغیر شادی کرنی ہو گی۔”
“کیا آپ کے پیرنٹس اس شادی پر رضامند ہو جائیں گے؟”
“ہاں ، میں انہیں منا لوں گا۔ وہ میری بات نہیں ٹالتے۔” جلال نے فخریہ انداز سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ہیلو کی آواز پر پلٹی۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر سالار کھڑا تھا۔ وہ اپنے اسی بے ڈھنگے حلیے میں تھا۔ ٹی شرٹ کے سارے بٹن کھلے ہوئے تھے اور وہ خود جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔ ایک لمحہ کے لئے امامہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کس طرح کے ردِ عمل کا اظہار کرے۔
سالار کے ساتھ تیمور بھی تھا۔
“آؤ۔ اس لڑکی سے ملواتا ہوں تمہیں۔” سالار نے امامہ کو کتابوں کی دوکان پر دیکھا تو قریب چلا آیا۔
تیمور نے گردن موڑ کر دیکھا اور حیرانی سے کہا۔” اس چادر والی سے؟”
“ہاں۔” سالار نے قدم بڑھائے۔
“یہ کون ہے؟” تیمور نے پوچھا۔
“یہ وسیم کی بہن ہے۔” سالار نے کہا۔
“وسیم کی؟ مگر تم اس سے کیوں مل رہے ہو؟ وسیم اور اس کی فیملی تو خاصی کنزرویٹو ہے۔ اس سے مل کر کیا کرو گے؟” تیمور نے امامہ پر دور سے ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
“پہلی بار نہیں مل رہا ہوں، پہلے بھی مل چکا ہوں۔ بات کرنے میں کیا حرج ہے؟” سالار نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
امامہ نے میگزین ہاتھ میں پکڑے پکڑے ایک نظر سالار کو اور ایک نظر اس کے ساتھ کھڑے لڑکے کو دیکھا جو تقریباً سالار جیسے حیلے میں ہی تھا۔
“ہاؤ آر یو؟” سالار نے اسے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر کہا۔
“فائن۔” امامہ نے میگزین بند کرتے ہوئے اسے دیکھا۔
“یہ تیمور ہے، وسیم سے اس کی بھی خاصی دوستی ہے۔” سالار نے تعارف کرایا۔
امامہ نے ایک نظر تیمور کو دیکھا پھر ہاتھ کے اشارے سے شاپنگ سنٹر کے ایک حصے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔” وسیم وہاں ہے۔”
سالار نے گردن موڑ کر اس طرف دیکھا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا اور پھر کہا۔
“مگر ہم وسیم سے ملنے تو نہیں آئے۔”
“تو؟” امامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
“آپ سے بات کرنے آئے ہیں۔”
“مگر میں تو آپ کو نہیں جانتی، پھر آپ مجھ سے کیا بات کرنے آئے ہیں؟”
امامہ نے سردمہری سے کہا۔ اسے سالار کی آنکھوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔ کاش یہ کسی سے نظریں جھکا کر بات کرنا سیکھ لیتا، خاص طور پر کسی لڑکی سے۔ اس نے میگزین دوبارہ کھول لیا۔
“آپ مجھے نہیں جانتیں؟” سالار مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔” آپ کے گھر کے ساتھ ہی میرا گھر ہے۔”
“یقیناً ہے مگر میں آپ کو”ذاتی” طور پر نہیں جانتی۔” اس نے اسی رکھائی سے میگزین پر نظریں جمائے ہوئے کہا۔
“چند ماہ پہلے آپ نے ایک رات میری جان بچائی تھی۔” سالار نے مذاق اڑانے والے انداز میں اسے یاد دلایا۔
“میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا۔ میرے سامنے کوئی بھی مر رہا ہوتا، میں یہی کرتی۔ اب مجھے ایکسکیوز کریں، میں کچھ مصروف ہوں۔”
سالار اس کے کہنے کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوا۔ تیمور نے اس کے بازو کو ہولے سے کھینچ کر چلنے کا اشارہ کیا۔ شاید اسے وسیم کے حوالے سے امامہ کا لحاظ تھا مگر سالار نے اپنا بازو چھڑا لیا۔
“میں اس رات آپ کی مدد کے لئے شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ حالانکہ آپ نے مجھے پروفیشنل طریقے سے ٹریٹمنٹ نہیں دیا تھا۔”
اس بار سالار نے سنجیدگی سے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر میگزین سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا۔
“آپ کا اشارہ اگر اس تھپڑ کی طرف ہے تو ہاں وہ بالکل پروفیشنل نہیں تھا اور میں اس کے لئے معذرت کرتی ہوں۔”
“میں نے اسے مائنڈ نہیں کیا۔ میرا اشارہ اس طرف نہیں تھا۔” سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
“مجھے توقع تھی کہ آپ اس تھپڑ کو مائنڈ نہیں کریں گے۔”(کیونکہ اسی کے مستحق تھے اور ایک نہیں دس) اس نے جملے کا آدھا حصہ ضبط کر لیا۔
“ویسے آپ کا اشارہ کس طرف تھا؟”
“بے حد تھرڈ کلاس طریقے سے بینڈیج کی تھی آپ نے میری اور آپ کو پراپر طریقے سے بلڈ پریشر تک چیک کرنا نہیں آتا۔” سالار نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے چیونگم کی ایک اسٹک اپنے منہ میں ڈالی۔ امامہ کے کان کی لوئیں سرخ ہو گئیں۔ وہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
“افسوس ناک بات ہے کہ ایک ڈاکٹر کو ایسے معمولی کام نہ آتے ہوں، جو کسی بھی عام آدمی کو آتے ہیں۔”
اس بار اس کا انداز پھر مذاق اڑانے والا تھا۔
“میں ڈاکٹر نہیں ہوں، میڈیکل کے ابتدائی سالوں میں ہوں، پہلی بات اور جہاں تک unprofessional ہونے کا تعلق ہے تو اگلی بار سہی، آپ نے تو ابھی اس طرح کی کئی کوششیں کرنی ہیں۔ میں آہستہ آہستہ آ پ پر پریکٹس کر کے اپنا ہاتھ صاف کر لوں گی۔”
ایک لمحہ کے لئے وہ کچھ نہیں بول سکا پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری۔ یوں جیسے وہ اس کی بات پر محظوظ ہوا تھا مگر شرمندہ نہیں اور اس نے اس کا اظہار بھی کر دیا۔
“اگر آپ مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش۔۔۔۔۔”
“کوشش کر رہی ہیں تو آپ اس میں ناکام ہوں گی۔ میں جانتی ہوں، آپ شرمندہ نہیں ہوتے، یہ صفت صرف انسانوں میں ہوتی ہے۔” امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
“آپ کے خیال میں، میں کیا ہو؟” سالار نے اسی انداز میں کہا۔
“پتا نہیں، ایک vet اس بارے میں آپ کو زیادہ بہتر گائیڈ کر سکے گا۔” وہ اس بار اس کی بات پر ہنسا۔
“دو پیروں پر چلنے والے جانور کو ہر میڈیکل ڈکشنری انسان کہتی ہے اور میں دو پیروں پر چلتا ہوں۔”
“ریچھ سے لے کر کتے تک ہر چار پیروں والا جانور دو پیروں پر چل سکتا ہے۔ اگر اسے ضرورت پڑے یا اس کا دل چاہے تو۔”
“مگر میرے چار پیر نہیں اور میں صرف ضرورت کے وقت نہیں، ہر وقت ہی دو پیروں پر چلتا ہوں۔” سالار نے عجیب سے انداز میں اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔
“یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ آپ کے چار پیر نہیں ہیں، اسی لئے میں نے آپ کو vet سے ملنے کو کہا ہے۔ وہ آپ کو آپ کی خصوصیات کے بارے میں صحیح بتا سکے گا۔”
امامہ نے سرد آواز میں کہا۔ وہ اسے زچ کرنے میں واقعی کامیاب ہو چکا تھا۔
“ویسے جتنی اچھی طرح سے آپ جانوروں کے بارے میں جانتی ہیں، آپ ایک بہت اچھی vet ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ کے علم سے خاصا متاثر ہوا ہوں میں۔”امامہ کے چہرے کی سرخی میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔”اگر آپ میری vet بن جاتی ہیں تو میں آپ کے بتائے ہوئے مشورے کے مطابق آپ ہی کے پاس آیا کروں گا تاکہ آپ میرے بارے میں ریسرچ کر کے مجھے بتا سکیں۔”
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکی، صرف اسے دیکھ کر رہ گئی۔ وہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی منہ پھٹ تھا اور ایسے شخص کے ساتھ لمبی گفتگو کرنا آ بیل مجھے مار کہ مترادف تھا اور وہ یہ حماقت کر چکی تھی۔
“ویسے آپ کیا فیس چارج کریں گی؟” وہ بڑی سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
“یہ وسیم آپ کو بتا دے گا۔” امامہ نے اس بار اسے دھمکانے کی کوشش کی۔
“چلیں ٹھیک ہے، یہ میں وسیم سے پوچھ لوں گا۔ اس طرح تو خاصی آسانی ہو جائے گی۔”
وہ اس کی دھمکی کو سمجھنے کے باوجود مرعوب نہیں ہوا اور اس نے امامہ کو یہ جتا بھی دیا۔ تیمور نے ایک بار پھر اس کا بازو پکڑ لیا۔
“آؤ سالار! چلتے ہیں، مجھے ایک ضروری کام یاد آ رہا ہے۔” اس نے عجلت کے عالم میں سالار کو اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹنے کی کوشش کی مگر سالار نے توجہ نہیں دی۔
“چلتے ہیں یار! اس طرح کھینچو تو مت۔”وہ اس سے کہتے ہوئے ایک بار پھر امامہ کی طرف متوجہ ہو گیا۔
“بہرحال یہ سب مذاق تھا، میں واقعی آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ آپ نے اور وسیم نے کافی مدد کی میری، گڈ بائے۔”
وہ کہتے ہوئے واپس مڑ گیا۔ امامہ نے بے اختیار ایک سکون کا سانس لیا۔ وہ شخص واقعی کریک تھا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ وسیم جیسا شخص کیسے اس آدمی کے ساتھ دوستی رکھ سکتا ہے۔
وہ ایک بار پھر میگزین کے ورق الٹنے لگی۔” سالار آیا تھا تمہارے پاس؟” وسیم نے اس کے پاس آ کر پوچھا۔ دور سے سالار اور تیمور کو دیکھ لیا تھا۔
“ہاں۔” امامہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک بار پھر میگزین دیکھنے لگی۔
“کیا کہہ رہا تھا؟” وسیم نے کچھ تجسس سے پوچھا۔
“مجھے حیرت ہوتی ہے کہ تم نے اس جیسے شخص کے ساتھ دوستی کیسے کر لی ہے۔ میں نے زندگی میں اس سے زیادہ بے ہودہ اور بدتمیز لڑکا نہیں دیکھا۔” امامہ نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔”میرا شکریہ ادا کر رہا تھا اور ساتھ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ مجھے بینڈیج تک ٹھیک سے کرنی نہیں آتی، نہ میں بلڈ پریشر چیک کر سکتی ہوں۔”
وسیم کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔” اس کو دفع کرو، یہ عقل سے پیدل ہے۔”
“میرا دل تو چاہ رہا تھا کہ میں اسے دو ہاتھ اور لگاؤں، اس کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ منہ اٹھا کر اپنے دوست کو لے کر پہنچ گیا ہے یہاں۔ بھئی! کس نے کہا ہے تم سے شکریہ ادا کرنے کو اور مجھے تو وہ دوسرا لڑکا بھی خاصا برا لگا اور وہ کہہ رہا تھا کہ تمہاری اس کے ساتھ بھی دوستی ہے۔” امامہ کو اچانک یاد آیا۔
“دوستی تو نہیں، بس جان پہچان ہے۔” وسیم نے وضاحت پیش کی۔” تمہیں ایسے لڑکوں کے ساتھ جان پہچان رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ حلیہ دیکھا تھا تم نے ان دونوں کا۔ نہ انہیں بات کرنے کی تمیز تھی، نہ لباس پہننے کا سلیقہ اور منہ اٹھا کر شکریہ ادا کرنے آ گئے ہیں۔ بہرحال تم اس سے مکمل طور پر قطع تعلق کر لو۔ کوئی ضرورت نہیں ہے اس طرح کے لڑکوں سے جان پہچان کی بھی تمہیں۔”
امامہ نے میگزین رکھتے ہوئے ایک بار پھر اسے تنبیہ کی اور پھر باہر جانے کے لئے قدم بڑھا دئیے۔ وسیم بھی اس کے ساتھ چلنے لگا۔
“مگر میں ایک بات پر حیران ہوں یہ جس حالت میں تھا اسے کیسے یاد ہے کہ میں نے اس کی بینڈیج اچھی نہیں کی تھی یا بلڈپریشر لینے میں مجھے دقت ہو رہی تھی۔” امامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
“میں یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ ایسے ہی ہاتھ پاؤں جھٹک رہا ہے۔ مجھے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ اپنے اردگرد ہونے والی چیزوں کو بھی observe کر رہا ہے۔”
“ایسے بینڈیج واقعی خراب کی تھی تم نے اور اگر میں تمہاری مدد نہ کرتا تو بلڈپریشر کی ریڈنگ لینا بھی تمہیں لینا نہیں آتی۔ کم از کم اس بارے میں وہ جو بھی کہہ رہا تھا ٹھیک کہہ رہا تھا۔” وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“ہاں، مجھے پتا ہے۔” امامہ نے اعتراف کرنے والے انداز میں کہا۔”مگر میں اس وقت بہت نروس تھی۔ میں پہلی بار اس طرح کی صورت حال کا شکار ہوئی تھی پھر اس کے ہاتھ سے نکلنے والا خون مجھے اور خوف زدہ کر رہا تھا اور اوپر سے اس کا رویہ۔۔۔۔۔ کسی خود کشی کرنے والے انسان کو اس طرح کی حرکتیں کرتے نہیں دیکھا تھا میں نے۔”
“اور تم ڈاکٹر بننے جا رہی ہو، وہ بھی ایک قابل اور نامور ڈاکٹر، ناقابل یقین۔” وسیم نے تبصرہ کیا۔
“اب کم از کم تم اس طرح کی باتیں نہ کرو۔” امامہ نے احتجاج کیا۔” میں نے اس لئے تمہیں یہ سب نہیں بتایا کہ تم مذاق اڑاؤ۔” وہ لوگ پارکنگ ایریا میں پہنچ گئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کچھ دنوں سے وہ جلال اور زینب کے رویے میں عجیب سی تبدیلی دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں اس سے بہت اکھڑے اکھڑے رہنے لگے تھے۔ ایک عجیب سا تناؤ تھا، جو وہ اپنے اور ان کے درمیان محسوس کر رہی تھی۔
اس نے ایک دو بار جلال کو ہاسپٹل فون کیا، مگر ہر بار اسے یہی جواب ملتا کہ وہ مصروف ہے۔ وہ زینب کو اگر کالج سے لینے بھی آتا تو پہلے کی طرح اس سے نہیں ملتا تھا اور اگر ملتا بھی تو صرف رسمی سی علیک سلیک کے بعد واپس چلا جاتا۔ وہ شروع میں اس تبدیلی کو اپنا وہم سمجھتی رہی مگر پھر زیادہ پریشان ہونے پر وہ ایک دن جلال کے ہاسپٹل چلی آئی۔
جلال کا رویہ بے حد سرد تھا۔ امامہ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ تک نہیں آئی۔
“کافی دن ہو گئے تھے ہمیں ملے ہوئے، اس لئے میں خود چلی آ ئی۔” امامہ نے اپنے سارے اندیشوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
“میری تو شفٹ شروع ہو رہی ہے۔”
امامہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔”زینب بتا رہی تھی کہ اس وقت آپ کی شفٹ ختم ہوتی ہے، میں اسی لئے اس وقت آئی ہوں۔”
وہ ایک لمحہ کے لئے خاموش رہا پھر اس نے کہا۔” ہاں صحیح ہے، مگر آج میری کوئی اور مصروفیت ہے۔”
وہ اس کا منہ دیکھ کر رہ گئی۔”جلال! آپ کسی وجہ سے مجھ سے ناراض ہیں؟” ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے کہا۔
“نہیں ، میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔” جلال نے اسی رکھائی سے کہا۔
“کیا آپ دس منٹ باہر آ کر میری بات سن سکتے ہیں؟”
جلال کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اس نے اپنا اوور آل اپنے بازو پر ڈال لیا اور کچھ کہے بغیر کمرے سے باہر نکل آیا۔
باہر جاتے ہی جلال نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر ڈوڑائی۔ یہ شاید اس کے لئے بات شروع کرنے کا اشارہ تھا۔”آپ میرے ساتھ اس طرح مس بی ہیو کیوں کر رہے ہیں؟”
“کیا مس بی ہیو کر رہا ہوں؟” جلال نے اکھڑ انداز میں کہا۔
“آپ بہت دنوں سے مجھے اگنور کر رہے ہیں۔”
“ہاں، کر رہا ہوں۔”
امامہ کو توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی صفائی سے اس بات کا اعتراف کر لے گا۔
“کیونکہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتا۔” وہ کچھ لمحوں کے لئے کچھ نہیں بول سکی۔”کیوں؟”
“یہ بتانا ضروری نہیں۔” اس نے اسی طرح اکھڑ انداز میں کہا۔
“میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ کا رویہ یک دم کیوں تبدیل ہو گیا ہے۔ کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی اس کی۔” امامہ نے کہا۔
“ہاں وجہ ہے مگر میں تمہیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح تم بہت سی باتیں مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھتیں۔”
“میں؟” وہ اس کا منہ دیکھنے لگی۔”میں نے کون سی باتیں آپ کو نہیں بتائیں؟”
“یہ کہ تم مسلمان نہیں ہو۔”جلال نے بڑے تلخ لہجے میں کہا۔ امامہ سانس تک نہیں لے سکی۔
“کیا تم نے یہ بات مجھ سے چھپائی نہیں؟”
“جلال! میں بتانا چاہتی تھی۔” امامہ نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
“چاہتی تھی۔۔۔۔۔ مگر تم نے بتایا تو نہیں۔۔۔۔۔ دھوکا دینے کی کوشش کی تم نے۔”
“جلال! میں نے آپ کو دھوکا دینے کی کوشش نہیں کی۔” امامہ نے جیسے احتجاج کیا۔” میں آپ کو کیوں دھوکا دوں گی؟”
“مگر تم نے کیا یہی ہے۔” جلال نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
“جلال میں۔۔۔۔۔” جلال نے اس کی بات کاٹ دی۔
“تم نے جان بوجھ کر مجھے ٹریپ کیا۔” امامہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
“ٹریپ کیا؟” اس نے زیرلب جلال کے لفظوں کو دہرایا۔
“تم جانتی تھیں کہ میں اپنے پیغمبر ﷺ سے عشق کرتا ہوں۔”
وہ شکست خوردہ انداز میں اسے دیکھتی رہی۔
“شادی تو دور کی بات ہے۔ اب جب میں تمہارے بارے میں سب کچھ جان گیا ہوں تو میں تم سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتا۔ تم دوبارہ مجھ سے ملنے کی کوشش مت کرنا۔” جلال نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“جلال! میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔”امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔
“اوہ کم آن۔” جلال نے تحقیر آمیز انداز میں اپنا ہاتھ جھٹکا۔” یہاں کھڑے کھڑے تم نے میرے لئے اسلام قبول کر لیا۔” اس بار وہ مذاق اڑانے والے انداز میں ہنسا۔
“جلال! میں آپ کے لئے مسلم نہیں ہوئی۔ آپ میرے لئے ایک ذریعہ ضرور بنے ہیں، مجھے کئی ماہ ہو گئے ہیں اسلام قبول کیے اور اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں ہے تو میں آپ کو ثبوت دے سکتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔”
اس بار جلال کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھنے لگا۔
“میں مانتی ہوں میں نے آپ کی طرف پیش قدمی خود کی۔ آپ کے بقول میں نے آپ کو ٹریپ کیا۔ میں نے ٹریپ نہیں کیا۔ میں صرف بے بس تھی۔ آپ کے معاملے میں مجھے خود پر قابو نہیں رہتا تھا۔ آپ کی آواز کی وجہ سے، آپ جانتے ہیں میں نے آپ کو بتایا تھا میں نے پہلی بار آپ کو نعت پڑھتے سنا تو میں نے کیا محسوس کیا تھا۔ آپ کو اگر میرے بارے میں پہلے ہی یہ سب کچھ پتا چل جاتا تو آپ میرے ساتھ یہی سلوک کرتے جو اب کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ مجھے صرف اس بات کا اندیشہ تھا جس کی وجہ سے میں نے آپ سے بہت کچھ چھپائے رکھا۔ بعض باتوں میں انسان کو اپنے اوپر اختیار نہیں ہوتا۔ مجھے بھی آپ کے معاملے میں خود پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔”
اس نے رنجیدگی سے کہا۔
“تمہارے گھر والوں کو اس بات کا پتا ہے؟”
“نہیں، میں انہیں نہیں بتا سکتی۔ میری منگنی ہو چکی ہے۔ میں نے آپ کو اس بارے میں بھی نہیں بتایا۔۔۔۔۔” وہ ایک لمحہ کے لئے رکی۔”مگر میں وہاں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ میں آ پ سے شادی کرنا چاہتی ہوں ۔ میں صرف اپنی تعلیم مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہوں۔ تب میں اپنے پیروں پر کھڑی ہو جاؤں گی اور پھر میں آپ سے شادی کروں گی۔”
“چار پانچ سال بعد جب میں ڈاکٹر بن جاؤں گی تو شاید میرے پیرنٹس آپ سے میری شادی پر اس طرح اعتراض نہ کریں جس طرح وہ اب کریں گے۔ اگر مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میری تعلیم ختم کروا کر میری شادی اسجد سے کر دیں گے تو شاید میں انہیں ابھی اس بات کے بارے میں بتا دیتی کہ میں اسلام قبول کر چکی ہوں مگر میں ابھی پوری طرح ان پر ڈپینڈنٹ ہوں۔ میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ آپ وہ واحد راستہ تھے جو مجھے نظر آیا۔ مجھے واقعی آپ سے محبت ہے پھر میں آپ کو شادی کی پیشکش نہ کرتی تو اور کیا کرتی۔ آپ اس صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتے جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔۔۔۔۔ میری جگہ پر ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا کہ میں جھوٹ بولنے کے لئے کتنی مجبور ہو گئی تھی۔”
جلال کچھ کہے بغیر پاس موجود لکڑی کے بینچ پر بیٹھ گیا وہ اب پریشان نظر آرہا تھا۔ امامہ نے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔
“کیا آپ کے دل میں میرے لئے کچھ بھی نہیں ہے؟ صرف اس لئے میرے ساتھ انوالو ہیں، کیونکہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں؟”
جلال نے اس کے سوال کا جواب دینے کے بجائے اس سے کہا۔
“امامہ ! بیٹھ جاؤ۔۔ پورا پینڈورا باکس کھل گیا ہے میرے سامنے۔۔۔۔ اگر میں تمہاری صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکتا تو تم بھی میری پوزیشن کو نہیں سمجھ سکتی۔”
امامہ اس سے کچھ فاصلے پر رکھی بینچ پر بیٹھ گئی۔
“میرے والدین کبھی غیر مسلم لڑکی سے میری شادی نہیں کریں گے۔ قطع نظر اس کے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں یا نہیں۔”
“جلال! میں غیر مسلم نہیں ہوں۔”
“تم اب نہیں ہو مگر پہلے تو تھیں اور پھر تمہارا خاندان۔۔۔۔۔”
“میں ان دونوں چیزوں کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتی۔” امامہ نے بے بسی سے کہا۔
جلال نے جواب میں کچھ نہیں کہا کچھ دیر وہ دونوں خاموش رہے۔
“کیا آپ اپنے پیرنٹس کی مرضی کے بغیر مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟” کچھ دیر بعد امامہ نے کہا۔
“یہ بہت بڑا قدم ہو گا۔” جلال نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔” اور بالفرض میں یہ کام کرنے کا سوچ لوں تو بھی نہیں ہو سکتا۔ تمہاری طرح میں بھی اپنے پیرنٹس پر ڈیپنڈنٹ ہوں۔” جلال نے اپنی مجبوری بتائی۔
“مگر آپ ہاؤس جاب کر رہے ہیں اور چند سالوں میں اسٹیبلش ہو جائیں گے۔” امامہ نے کہا۔
“میں ہاؤس جاب کے بعد اسپیشلائزیشن کے لئے باہر جانا چاہتا ہوں اور یہ میرے پیرنٹس کی مالی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ اسپیشلائزیشن کے بعد ہی میں واپس آ کر اپنی پریکٹس اسٹیبلش کر سکتا ہوں تین چار سال اپنی اسٹڈیز ختم کرنے میں بھی لگ جائیں گے۔”
جلال نے اسے یاد دلایا۔
“پھر؟” امامہ نے اسے مایوسی سے دیکھا۔
“پھر یہ کہ مجھے سوچنے کا وقت دو۔ شاید میں کوئی رستہ نکال سکوں، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا مگر میں اپنا کیرئیر بھی خراب نہیں کر سکتا۔ میرا پرابلم صرف یہ ہے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے جو کچھ ہے ماں باپ کا ہے اور وہ اپنی ساری جمع پونجی مجھ پر خرچ کر رہے ہیں یہ سوچ کر کہ میں کل کو ان کے لئے کچھ کروں گا۔”
وہ بات کرتے کرتے رکا۔”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تمہارے والدین اپنی مرضی سے تمہاری شادی مجھ سے کر دیں۔ اس صورت میں کم از کم میرے والدین کو یہ اعتراض تو نہیں ہو گا کہ تم نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف انہیں بتائے بغیر مجھ سے شادی کی؟”
وہ جلال کا چہرہ دیکھنے لگی۔” میں نہیں جانتی۔۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتی۔ وہ میری بات مانیں گے یا نہیں۔ میں۔۔۔۔۔” امامہ نے کچھ مایوسی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ جلال بات مکمل ہونے کا انتظار کرتا رہا۔
“میری فیملی میں آج تک کسی لڑکی نے اپنی مرضی سے باہر کسی لڑکے سے شادی نہیں کی۔ اس لئے میں یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا ردِعمل کیا ہو گا مگر میں یہ ضرور بتا سکتی ہوں کہ ان کا ردِعمل بہت برا ہو گا۔ بہت برا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن مجھے یہ اجازت نہیں دے سکتے کہ میں اتنا بڑا قدم اٹھاؤں۔ آپ کو اندازہ ہونا چاہئیے کہ میرے بابا کو کتنی شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ صرف میرے لئے تو وہ سب کچھ نہیں بدل دیں گے۔”
“اگر مجھے اپنی فیملی سے مدد کی توقع ہوتی تو میں گھر سے باہر سہاروں کی تلاش میں ہوتی نہ ہی آپ سے اس طرح مدد مانگ رہی ہوتی۔”
دھیمے لہجے میں اپنے آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے اس نے جلال سے کہا۔
“امامہ! میں تمہاری مدد کروں گا۔۔۔۔۔ میرے پیرنٹس میری بات نہیں ٹالیں گے۔ سمجھانے میں کچھ وقت لگے گا مگر میں تمہاری مدد کروں گا۔ میں انہیں منا لوں گا۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ مجھے تمہاری مدد کرنی چاہئیے۔”
وہ پرسوچ مگر الجھے ہوئے انداز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ امامہ کو عجیب سی ڈھارس ہوئی۔ اسے جلال سے یہی توقع تھی۔
امامہ نے سوچا۔” میرا انتخاب غلط نہیں ہے۔”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔۔۔

