

پیرِ کامل ﷺ
عمیرہ احمد
قسط نمبر_07
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے دو دن ہاسپٹل میں گزارے تھے۔ وہاں سے گاڑی میں گزرنے والے کسی جوڑے نے اسے گرتے دیکھا تھا اور وہی سے اُٹھا کر ہاسپٹل لے آئے تھے۔ ڈاکٹرز کے مطابق وہ فوڈ پوائزن کا شکار ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوش میں آگیا تھا اور وہاں سے چلے جانے کی خواہش رکھنے کے باجود وہ جسمانی طور پر اپنے آپ کو اتنی بری حالت میں محسوس کر رہا تھا کہ وہاں سے جا نہیں سکا ۔
اگلے دن شام تک اس کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی مگر ڈاکٹرز کی ہدایت پر سالار نے وہ رات بھی وہیں گزاردی۔ اتوار کو سہ پہر وہ گھر آگیا تھا اور گھر آتے ہی اس نے ٹور آپریٹر کے ساتھ طے پایا جانے والا پروگرام چند دنوں کے لئے ملتوی کر دیا۔اسے پیر کی صبح نکلنا تھا اور اس نے طے کیا تھا کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سینڈرا کو کال کرے گا لیکن اب پروگرام کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اس کو یا بلکہ کسی بھی دوست کو کال کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔
ایک ہلکے سینڈوچ کے ساتھ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد اس نے سکون آور دوا لی اور سونے کے لئے چلا گیا۔
اگلے دن جب اس کی آنکھ کھلی اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ سالار کو نیند سے بیدار ہوتے ہی سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اپنا ہاتھ بڑھا کر اس نے اپنا ماتھا اور جسم چھوا ، اس کا ماتھا بہت زیادہ گرم تھا۔
“کم آن! “وہ بیزاری سے بڑبڑایا۔ پچھلے دو دن کی بیماری کے بعد وہ اگلے دو دن پستر پر پڑے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا تھا اور اس وقت اسے اس کے آثار نظر آرہے تھے۔
جوں توں بیڈ سے نکل کر وہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر ایک بار پھر کچن میں آگیا کافی بننے کے لئے رکھ کر وہ آکر answerphone پر ریکارڈ کالز سننے لگا۔ چند کالز سعد کی تھیں جس نے واپس پاکستان جانے سے پہلے اس سے ملنے کے لئے بار بار اسے رنگ کیا تھا اور پھر آخری کال میں اس کے اس طرح غائب ہونے پر اسے اچھی خاصی صلواتیں سنائی تھیں۔
سینڈرا کا اندازہ تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر سکینگ کے لئے چلا گیا تھا۔ یہی خیال سکندر اور کامران کا تھا۔ انہوں نے بھی اسے چند کالز کی تھیں۔ چند کالز اس کے کچھ کلاس فیلوز کی تھیں۔ وہ بھی چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے کی گئی تھیں۔ ہر ایک نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ انہیں جوابی کال کرے مگر اب وہ جانتا تھا کہ اب وہ سب واپس جا چکے ہوں گے البتہ وہ سکندر اور کامران اور سعد کو پاکستان میں کال کرسکتا تھا مگر اس وقت وہ یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
کافی کے ایک مگ کے ساتھ دو سلائس کھانے کے بعد اس نے گھر پر موجود چند میڈیسنز لیں اور پھردوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بخار کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور شام تک وہ اگر مکمل طور نہیں تو کافی حد تک ٹھیک ہوچکا ہوگا۔
اس کا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا ۔ شام کے وقت میڈیسن کے زیر اثر آنے والی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اس کی زبان اور ہونٹ خشک تھے اور اسے اپنا حلق کانٹوں سے پھرا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پورے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا سر درد بھی شدید درد کی گرفت میں تھا اور شاید اس کے اس طرح بیدار ہونے کی وجہ یہ شدید بخار اور تکلیف ہی تھی۔
اس بار وہ اوندھے منہ بیڈ پر لیٹےہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر ماتھے کے نیچے رکھتے ہوئے ہاتھوں کے انگوٹھوں سے کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے سر میں اُٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہا۔ چہرہ تکیے میں چھپائے وہ بے حس و حرکت پڑا رہا۔
تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش میں وہ کب دوبارہ نیند کی آغوش میں گیا اسے اندازہ نہیں ہوا۔ پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ رات ہوچکی تھی اور صرف کمرہ ہی نہیں پورا گھر تاریک تھا وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ چند منٹوں تک بیڈ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ دوبارہ لیٹ گیا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ذہن کو تاریکی میں ڈوبتے محسوس کیا مگر اس بار یہ نیند نہیں تھیں۔ وہ غنودگی کی کسی درمیانی کیفیت میں گزر رہا تھا ۔ وہ اب خود کو کراہتے ہوئے سن رہا تھا مگر وہ اپنی آواز کا گلا نہیں گھونٹ پارہا تھا۔ سینٹرل ہیٹنگ ہونے کے باجود اسے بے تحاشا سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور کمبل اس کی کپکپاہٹ کو ختم کرنے میں ناکام تھا وہ جسمانی طور پر خود کو اٹھ کر کچھ بھی پہننے یا اوڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اسے اپنے سینے اور پیٹ میں ایک بار پھر درد محسوس ہونے لگا۔
اس کی کراہوں میں اب شدت آتی جارہی تھی۔ ایک بار پھر متلی محسوس کرنے پر اس نے اٹھنے اور تیزی سے واش روم تک جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔ چند لمحوں کے لئے وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کرتا اسے ایک زور کی ابکائی آئی۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اندر رہ جانے والی تھوڑی بہت خوراک بھی باہر آگئی تھی ۔ وہ غشی کے عالم میں بھی اپنے کپڑوں اور کمبل سے بے نیا ز نہیں تھا مگر وہ مکمل طور پر گندگی سے لتھڑے ہوئے بے بس تھا اسے اپنا پورا وجود مفلوج محسوس ہورہا تھا۔ بے جان سی حالت میں وہ اسی طرح دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ ارد گرد کے ماحول سے مکمل طور بے نیاز ہوچکا تھا۔ غشی کی کیفیت میں کراہوں کے ساتھ اس کے منہ میں جو کچھ آرہا تھا وہ بولتا جارہا تھا۔
غشی کا یہ سلسلہ کتنے گھنٹے جاری رہا تھا اسے یاد نہیں۔ ہاں البتہ اسے یہ ضرور یا د تھا اس کی کیفیت کے دو ران اسے ایک بار یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ مر رہاہے اور اسی وقت زندگی میں پہلی بار موت سے عجیب سا خوف محسوس ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح فون تک پہنچنا چاہتا تھا وہ کسی کو بلانا چاہتا تھا مگر وہ بستر سے نیچے نہیں اتر سکا ۔ شدید بخار نے اسے مکمل طور مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
اور پھر بالاآخر وہ خود ہی اس کیفیت سے باہر آگیا تھا اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب وہ اس غنودگی سے باہر نکلا تھا۔ آنکھیں کھولنے پر اس نے کمرے میں وہی تاریکی دیکھی تھی مگر اس کا جسم اب پہلے کی طرح گرم نہیں تھا۔ کپکپی مکمل طور پر ختم ہوچکی تھی اس کے سر اور جسم میں ہونے والا درد بھی بہت ہلکا تھا۔
کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورنے کے بعد اس نے لیٹے لیٹے اندھیرے میں سائیڈ لیمپ کو ڈھونڈ کر آن کردیا۔ روشنی نے کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھوں کو چندھیا کر بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر آنکھوں کے بند پپوٹوں کو چھوا۔ وہ سوجے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چبھن ہورہی تھی۔ سوجے ہوئے تمام پپوٹوں کو بمشکل کھلے رکھتے ہوئے وہ اب ارد گرد کی چیزوں پر غور کرتا رہا تھا اور اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ہلکے ہلکے جھماکوں کے ساتھ اسے سب کچھ یاد آتا جارہا تھا۔
اسے بے اختیار اپنے آپ سے گھن آئی بیڈ پر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر پھینک دیا۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ سے اتر گیا اور کمبل اور بیڈ شیٹ بھی کھینچ کر اس نے بیڈ سے اتار کر فرش پر ڈال دئیے۔
ان ہی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سوچے سمجھے بغیر باتھ روم میں گھس گیا۔
باتھ روم میں موجود بڑے آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے جیسے شاک لگا تھا۔ اسکی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں اور ان کے گرد پڑنے والے حلقے بہت نمایاں تھے اور چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اسے اس وقت دیکھنے والا یہی سوچتا کہ وہ کسی لمبی بیماری سے اٹھا ہے۔
“چوبیس گھنٹوں میں اتنی شیو بڑھ گئی ہے؟” اس نے حیرانی کے عالم میں اپنے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔” اتنی بری شکل تو میری فوڈ پوائزنگ کے بعد ہاسپٹل میں رہ کر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی ایک دن کے اس بخار نے کردی ہے۔”
وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے حلقوں کو دیکھتے ہوئے بڑ بڑایا۔ ٹب میں پانی بھر کر وہ اس میں لیٹ گیا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی کہ بخار کی حالت میں بھی اس نے فوری طور اسی وقت اپنے کپڑے کیوں نہیں بدل لئے وہ کیوں وہیں پڑا رہا۔
باتھ روم سے نکلنے کے بعد بیڈ روم میں رہنے کے بجائے وہ کچن میں چلا گیا۔ اسے بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے نوڈلز بنائے اور انہیں کھانے لگا۔” مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس جا کر اپنا تفصیلی چیک اپ کروانا چاہیئے۔ اس نے نوڈلز کھاتے ہوئے سوچا۔ تھکن ایک بار پھر اس کے اعصاب پر سوار ہورہی تھی۔ نہانے کے بعد اسے اگرچہ اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا مگر اس کی نقاہت ختم نہیں ہوئی تھی۔
نوڈلز کھانے کے دوران اس نے ٹی وی آن کردیا اور چینل سرچ کرنے لگا۔ ایک چینل پر آنے والا ٹاک شو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ رکھ دیا اور پھر نوڈلز کے پیالے پر جھک گیا۔ اس نے ابھی نوڈلز کا دوسرا چمچہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ وہ بے اختیار رک گیا۔ الجھی ہوئی نظروں سے ٹاک شو کو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر اٹھالیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک بار پھر چینل سرچ کرنے لگا مگر اس بار وہ ہر چینل کو پہلے سے زیادہ ٹھہر ٹھہر کر دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
“یہ کیا ہے؟” وہ بڑ بڑایا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا وہ جمعہ کی رات کو سڑک پر بے ہوش ہونے کے بعد ہاسپٹل گیا تھا۔ ہفتہ کا سارا دن اس نے وہیں گزارا تھا اور اتوار کی سہ پہر کو وہ واپس آیا تھا۔ اتوار کی سہ پہر کو سونے کے بعد وہ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اٹھا تھا۔ پھر اسی رات اسے بخار ہوگیا تھا۔ شاید اس نے منگل کا سارا دن بخار کی حالت میں گزارا تھا اور اب یقیناً منگل کی رات تھی مگر ٹی وی چینلز اسے کچھ اور بتارہے تھے وہ ہفتہ کی رات تھی اور اگلا طلوع ہونے والا دن اتوار کا تھا۔
اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی جو لونگ روم کی میز پر پڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے نوڈلز کا پیالہ میز پر رکھ دیا یک لخت ہی جیسے اس کی بھوک اڑ گئی تھی۔ وہاں موجود تاریخ نے اسے جیسے ایک اور جھٹکا دیا تھا۔
“کیا مطلب ہے ، کیا میں پانچ دن بخار میں مبتلا رہا ہوں۔ پانچ دن ہوش و حواس سے بے خبر رہا ہوں ؟ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟” وہ بڑا بڑارہا تھا۔
“پانچ دن ، پانچ دن تو بہت ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے، مجھے پانچ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلے۔۔۔۔۔ میں پانچ دن تک اس طرح بے ہوش کیسے رہ سکتا ہوں۔”
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ تیزی سے answer phone کی طرف بڑھ گیا، فون پر اس کے لئے کوئی ریکارڈ پیغام نہیں تھا۔
“پاپا نے مجھے کوئی کال نہیں کی اور۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔ سعد سب کو کیا ہو گیا۔۔۔۔۔کیا میں انہیں یاد نہیں رہا۔”
اسے جیسے کوئی پیغام نہ پا کر شاک لگا تھا۔ وہ بہت دیر تک بالکل ساکت فون کے پاس بیٹھا رہا۔
“یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ پاپا کو میرا خیال ہی نہ رہا ہو، یا کسی اور فرینڈ کو۔۔۔۔۔ یا پھر کسی اور کو۔۔۔۔۔اس طرح مجھے کیسے چھوڑ دیا انہوں نے۔ اور اس وقت اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ ایک بار پھر کپکپا رہے تھے۔ وہ نقاہت یا کمزوری نہیں تھی پھر وہ کیا تھا جو اسے کانپنے پر مجبور کر رہا تھا۔ وہ اٹھ کر واپس صوفے کی طرف چلا آیا۔
نوڈلز کے پیالے کو ہاتھ میں لے کر وہ ایک بار پھر انہیں کھانے لگا اس بار نوڈلز میں چند منٹ پہلے کا ذائقہ بھی ختم ہو چکا تھا۔ اسے لگا وہ بے ذائقہ ربڑ کے چند نرم ٹکڑوں کو چبا رہا ہے۔چند چمچے لینے کے بعد اس نے پیالہ دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اسے کھا نہیں پا رہا تھا۔ وہ اب بھی عجیب سی بے یقینی کی گرفت میں تھا۔ کیا واقعی وہ پانچ دن یہاں اکیلا اس طرح پڑا رہا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں پتا تھا اور نہ ہی کسی اور کو۔
وہ ایک بار پھر واش روم میں چلا گیا۔ اس کا چہرہ کچھ دیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا۔ نہانے سے وہ کچھ بہتر ہو گیا تھا مگر اس کی شیو اور آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے اب بھی اسی طرح موجود تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر وہ کچھ دیر تک اپنی آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقوں کو چھوتا رہا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے یا پھر اس کا وہم ہے۔ اسے یک دم اپنے چہرے پر موجود بالوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے شیونگ کٹ نکالی اور شیو کرنے لگا۔ شیو کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اسے تین کٹ لگے۔ اس نے شیو کے بعد اپنا چہرہ دھویا اور اس کے بعد تولیے سے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اسے خشک کرنے لگا۔ جب اسے ان زخموں سے رستے ہوئے خون کا احسا س ہوا تو اس نے چہرے کو تولیے سے تھپتھپانا بند کر دیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھنے لگا۔
اس کے گالوں پر آہستہ آہستہ ایک بار پھر خون کے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ گہرا سرخ رنگ، وہ پلکیں جھپکائے بغیر ان قطروں کو دیکھتا رہا۔ تین ننھے ننھے سرخ قطرے۔
“What is next to estacy?”
“Pain”
سرد اور مدھم آواز آئی ۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت ہو گیا۔
“What is next to pain?”
“Nothingness”
اسے ایک ایک لفظ یاد تھا
“Nothingness”
وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے گالوں کی حرکت سے خون کے قطرے اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔
“And what comes next to nothingness”
“Hell”
سالار کو یک دم ابکائی آئی۔وہ واش بیسن پر بے اختیار دوہرا ہو گیا۔ چند منٹ پہلے کھائی گئی خوراک ایک بار پھر باہر آ گئی تھی۔ اس نے نل کھول دیا۔ اس نے اس کے بعد کیا پوچھا تھا۔ اس نے اس کے جواب میں کیا کہا تھا اسے یاد تھا۔
“ابھی تمہیں کوئی چیز سمجھ میں نہیں آ رہی۔ آئے گی بھی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کچھ سمجھ جاؤ گے۔ ہر شخص پر ایک وقت آتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ جب کوئی معمہ، معمہ نہیں رہتا۔ میں اس دور سے گزر رہی ہوں۔ تم پر وہ دور آئندہ کبھی آئے گا۔ اس کے بعد تم دیکھنا۔ کیا تمہیں ہنسی آتی ہے۔”
سالار کو ایک اور ابکائی آئی، اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔
“زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔ کوئی ماں باپ ، کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سر کے اوپر کوئی آسمان، بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں بھی تھامے ہوئے ہے۔ پھر پتا چلتا ہے ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کردار ختم ہو جاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔”
سالار کو اپنے سینے میں عجیب سا درد محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی کو منہ میں ڈالا اسے ایک بار پھر ابکائی آئی۔
“اس کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آ جاتی ہے۔”
وہ اس آواز کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسے حیرانی ہو رہی تھی وہ اسے اس وقت کیوں یاد ئی تھی۔
اس نے پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مارنے شروع کر دئیے۔ چہرے کو ایک بار پھر پونچھنے لگا۔ آفٹر شیو کی بوتل کھول کر اس نے گالوں پر موجود ان زخموں پر لگانا شروع کر دیا جہاں اب اسے پہلی بار تکلیف ہو رہی تھی۔
واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے ہیں۔
“مجھے ڈاکٹر کے پاس چلے جانا چاہئیے۔” وہ اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔” مجھے مدد کی ضرورت ہے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔”
وہ نہیں جانتا تھا اسے یک دم وہاں وحشت کیوں ہونے لگی تھی۔ اسے اپنا سانس وہاں بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ یوں جیسے کوئی اس کی گردن پر پاؤں رکھے آہستہ آہستہ دباؤ ڈال رہا تھا۔
“کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ مجھے اس طرح بھول جائیں۔ اس طرح۔۔۔۔۔”
اس نے اپنی وارڈروب سے نئے کپڑے نکال کر ایک بار پھر کچھ دیر پہلے کا پہنا ہوا لباس بدلنا شروع کر دیا۔ وہ جلد از جلد ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا تھا اسے اپنے اپارٹنمٹ سے یک دم خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
اس رات گھر آ کر وہ تقریباً ساری رات جاگتا رہا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت نے اسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ اس کا ذہن یہ تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ اسے اس طرح بھلا دیا گیا ہے۔ وہ ماں باپ کی ضرورت سے زیادہ توجہ ہمیشہ حاصل کرتا رہا تھا۔ کچھ اس کی حرکتوں کی وجہ سے بھی سکندر عثمان اور طیبہ کو اس کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑا تھا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے بارے میں فکر مند رہے تھے، مگر اب یک دم چند دنوں کے لئے وہ جیسے سب کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ دوستوں کی، بہن بھائیوں کی، ماں باپ کی۔وہ اگر اس بیماری کے دوران وہاں اس اپارٹمنٹ میں مر جاتا توکسی کو پتا تک نہیں چلتا شاید تب تک جب تک اس کی لاش گلنے سڑنے نہ لگتی اور اس موسم میں ایسا ہونے میں کتنے دن لگتے۔
وہ اس رات ایک ایک گھنٹے کے بعد اپنے answer phone کو چیک کرتا رہا۔ اگلا پورا ہفتہ اس نے اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے اپارٹمنٹ میں گزارا، پورے ہفتے کے دوران اسی کہیں سے کوئی کال نہیں ملی۔
“کیا یہ سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں؟”
وہ وحشت زدہ ہو گیا۔ ایک ہفتہ تک بے وقوفوں کی طرح کسی کی کال کا انتظار کرتے رہنے کے بعد اس نے خود سب سے رابطہ کی کوشش کی۔
وہ ا نہیں فون پر بتانا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزرا تھا۔ وہ ان کے ساتھ شکوہ کرنا چاہتا تھا ، مگر ہر ایک سے رابطہ کرنے پر اسے پہلی بار یوں محسوس ہوا جیسے کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی مصروفیات کی تفصیلات تھیں۔
سکندر اور طیبہ اسے اسٹریلیا میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ وہاں کیا کر رہے تھے، کتنا انجوائے کر رہے تھے۔ وہ کچھ غائب دماغی کے عالم میں ان کی باتیں سنتا رہا۔
“تم انجوائے کر رہے ہو اپنی چھٹیاں؟”
بہت لمبی چوڑی بات کے بعد طیبہ نے بالآخر اس سے پوچھا۔
“میں؟ہاں، بہت۔۔۔۔۔” وہ صرف تین لفظٖ بول سکا۔
وہ واقعی نہیں جنتا تھا کہ اسے طیبہ سے کیا کہنا، کیا بتانا چاہئیے۔”
باری باری سب سے بات کرتے ہوئے وہ پہلی بار اس قسم کی صورت حال اور کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بنیادی طور پر صرف زپنی زندگی سے دلچسپی تھی۔ شاید وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتاتا تو وہ اس کے لئے تشویش کا اظہار کرتے۔ پریشان ہو جاتے مگر وہ سب بعد میں ہوتا۔ اس کے بتانے کے بعد، اس سے پہلے ان کی زندگی کے دائرے میں اس کی زندگی کہاں آتی تھی۔ کس کو دلچسپی تھی یہ سننے میں کہ اس کے چند دن کس طرح غائب ہو گئے۔
اور شاید تب ہی اس نے پہلی بار سوچا اگر میری زندگی ختم بھی ہو گئی تو کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ دنیا میں کیا تبدیلی آئے گی؟ میرا خاندان کیا محسوس کرے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ چند دنوں کے دکھ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور دنیا میں تو شاید چند لمحوں کے لئے بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔
سالار سکندر اگر غائب ہو جائے تو واقعی کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چاہے اس کا آئی کیو لیول +150 ہو۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا مگر ایسی مایوسی اور اس طرح کی ذہنی حالت۔۔۔۔۔ آخر مجھے ہو کیا گیا ہے اگر سب لوگ کچھ دنوں کے لئے مجھے بھول بھی گئے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے میں بھی تو بہت بار بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ پاتا۔ پھر اگر میرے ساتھ ایسا ہو گیا تو۔
مگر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اور اگر واقعی میں، میں اس بے ہوشی سے واپس نہ آتا تو۔۔۔۔۔اگر میرا بخار کم نہ ہواتا اگر سینے یا پیٹ کا وہ درد ختم نہ ہوتا۔۔۔۔۔ اپنے ذہن سے وہ یہ سب کچھ جھٹکنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا یہ تکلیف سے زیادہ خوف تھا جس کا شکار وہ اس اچانک بیماری کےدوران ہوا تھا۔”شاید میں کچھ زایدہ حساس ہوتا جا رہا ہوں۔” وہ سوچتا ورنہ ایک معمولی سی بے ہوشی کو خواہ مخواہ ہوا بنا کر سر پر کیوں سورا کر رہا ہوں۔
وہ جھنجھلاتا۔
“کم از کم اب تو ٹھیک ہو چکا ہوں پھر آخر اب مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس طرح موت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آخر پہلے بھی تو کئی بار بیمار ہو چکا ہوں۔ خود کشی کی کوشش کر چکا ہوں، جب مجھے کسی خوف نے تنگ نہیں کیا تو اب کیوں مجھے اس طرح کے خوف تنگ کرنے لگے ہیں۔”
اس کی الجھن اور اضطراب میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
“اور پھر مجھے تو بخار کی وہ تکلیف ٹھیک سے یاد بھی نہیں۔ میرے لئے تو یہ صرف خواب یا کوما کی طرح ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں”۔ وہ مسکرانے کی کوشش کرتا۔
“کیا چیز ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہو۔ کیا بیماری؟ یا پھر یہ بات کہ کسی کو میری ضرورت نہیں پڑی۔ کسی کو میری یاد نہیں آئی۔ خیال تک نہیں، میرے اپنے لوگوں کو بھی، میرے فیملی ممبرز کو، دوستوں کو۔۔۔۔۔”
“مائی گاڈ۔۔۔۔۔ تمہیں کیا ہوا ہے سالار؟”یونیورسٹی کھلتے ہی پہلے ہی دن سینڈرا نے اسے دیکھتے ہی کہا۔
“مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔” سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“تم بیمار رہے ہو؟” اسے تشویش ہوئی۔
“ہاں تھوڑا بہت۔”
“مگر مجھے تو نہیں لگتے کہ تم تھوڑے بہت بیمار رہے ہو۔ تمہارا وزن کم ہو گیا ہے اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا بیماری تھی تمہیں؟”
“کچھ نہیں۔ تھوڑا سا بخار اور فوڈ پوائزننگ۔۔۔۔۔” وہ پھر مسکرایا۔
“تم پاکستان گئے ہوئے تھے؟”
“نہیں ، یہیں تھا۔”
“مگر میں نے تو تمہیں نیو یارک جانے سے پہلے کئی بار رنگ کیا۔ ہمیشہ answer phone ہی ملا۔ تم یہ ریکارڈ کروا دیتے کہ تم پاکستان جا رہے ہو۔”
“جسٹ سٹاپ اٹ!” وہ بے اختیار جھنجھلایا۔”سوال پر سوال کرتی جا رہی ہوتم۔”
سینڈرا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔”تم میری بیوی تو نہیں ہو کہ اس طرح بات کر رہی ہو مجھ سے؟”
“سالار کیا ہوا؟”
“کچھ نہیں ہوا، بس تم ختم کرو یہ ساری بات۔ کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کہاں رہے؟ کیوں رہے، ربش۔”
سینڈرا چند لمحے بول نہیں سکی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرے گا۔
سینڈرا اس دن اس سے یہ سارے سوال پوچھنے والی اکیلی نہیں تھی۔ اس کے تمام دوستوں اور جاننے والوں نے اسے دیکھتے ہی کچھ اس طرح کے سوال، تبصرے یا تاثرات دئیے تھے۔
وہ دن ختم ہونے تک بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہو چکا تھا اور کسی حد تک مشتعل بھی۔ وہ کم از کم ان سوالوں کو سننے کے لئے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے اسے بار بار یادہانی کروا رہے تھے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہو چکا ہے اور وہ ان احساسات سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مووی دیکھنے کا پروگرام ہے اس ویک اینڈ پر، چلو گے؟” دانش اس دن اس کے پاس آیا ہوا تھا۔
“ہاں چلوں گا۔” سالار تیار ہو گیا۔
“پھر تم تیار رہنا، میں تمہیں پک کر لوں گا۔” دانش نے پروگرام طے کیا۔
دانش پروگرام کے مطابق اسے لینے کے لئے آ گیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد کسی سینما میں مووی دیکھنے کے لئے آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کم از کم اس رات وہ ایک اچھی تفریح میں کچھ وقت گزار سکے گا مگر مووی شروع ہونے کے دس منٹ بعد اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک شدیش قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی۔ سامنے اسکرین پر نظر آنے والے کردار اسے کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے جن کی حرکات اور آوازوں کو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر بہت آہستگی کے ساتھ اٹھ کر باہر آ گیا۔ وہ پارکنگ میں بہت دیر تک دانش کی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا رہا، پھر ایک ٹیکسی لے کر اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پروفیسر روبنسن اپنا لیکچر شروع کر چکے تھے۔ سالار نے اپنے سامنے پڑے پیپر پر تاریخ اور ٹاپک لکھا۔ وہ اکنامک Recession کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔ سالار ہمیشہ کی طرح ان پر نظریں جمائے ہوئے تھا مگر اس کا ذہن غیر حاضر تھا اور یہ اس کے ساتھ زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ وہ انہیں دیکھتے ہوئے کہیں اور پہنچ گیا تھا۔ کہاں، وہ یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا۔ ایک امیج سے دوسرے امیج، دوسرے سے تیسرے۔۔۔۔۔ ایک سین سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے۔۔۔۔۔ ایک آواز سے دوسری، دوسری سے تیسری۔۔۔۔۔ اس کا سفر کہاں سے شروع ہوا، کہاں نہیں۔
“سالار، چلنا نہیں ہے؟” سینڈرا نے اس کا کندھا ہلایا۔
وہ چونک گیا، کلاس خالی تھی، صرف سینڈرا اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بے یقینی سے خالی کلاس کو اور پھر وال کلاک کو دیکھا پھر اپنی رسٹ واچ کو۔
“پروفیسر روبنسن کہاں گئے؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
“کلاس ختم ہو گئی، وہ چلے گئے۔” سینڈرا نے کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔
“کلاس ختم ہو گئی؟” اسے جیسے یقین نہیں آیا۔
“ہاں!” سالار نے بے اختیار اپنی آنکھوں کو مسلا اور پھر اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا لی۔ واحد چیز جو اسے پروفیسر روبنسن کے لیکچر کے بارے میں یاد تھی، وہ صرف ٹاپک تھا۔ اس کے بعد وہ نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔
“تم کچھ اپ سیٹ ہو؟” سینڈرا نے پوچھا۔
“نہیں، کچھ نہیں، میں کچھ دیر کے لئے یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔”
“اوکے۔” سینڈرا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چیزیں اٹھا کر باہر چلی گئی۔
وہ اپنے سینے پر بازو باندھے سامنے نظر آنے والے رائیٹنگ بورڈ کو دیکھنے لگا۔ آج یہ تیسری کلاس تھی جس میں اس کے ساتھ یہ ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرنے کے بعد سب کچھ معمول پر آ جائے گا، وہ ڈیپریشن کے اس فیز سے باہر آ جائے گا جس کا وہ تب تک شکار تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ وہ یوینورسٹی میں بھی مکمل طور پر اس ذہنی انتشار کا شکا تھا جس میں وہ اتنے دنوں سے تھا پہلی بار اس کا دل پڑھائی سے بھی اچاٹ ہو رہا تھا۔ وہاں ہر چیز اسے مصنوعی لگ رہی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار صحیح معنوں میں ڈیپریشن کا شکار ہوا تھا۔ اسٹڈیز، یونیورسٹی، فرینڈز، کلب ، پارٹیز، ریسٹورنٹس، سیرو تفریح ہر چیز اس کے لئے بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔ اس نے دوستوں سے ملنایک دم چھوڑ دیا۔ answer phone پر اکثر اس کا پیغام ہوا کرتا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔وہ فرینڈز کے اصرار پر ان کے ساتھ کہیں جانے کا پروگرام بنا لیتا تھا اور پھر ایک دم جانے سے انکار کر دیتا۔ چلا بھی جاتا تو کسی وقت بھی بغیر بتائے اٹھ کر واپس آ جاتا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی یہی کر رہا تھا۔ ایک دن جاتا، دو دن غائب رہتا۔ ایک پیریڈ لیتا، اگلے دو پیریڈ چھوڑ دیتا۔
اپنے اپارٹمنٹ میں کبھی کبھار وہ سارا دن بیڈ پر لیٹے ہوئے گزار دیتا، بعض دفعہ وہ فلم دیکھنا شروع کرتا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد بھی اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز گھماتے ہوئے وہ اسی کیفیت کا شکار رہتا۔ اس کی بھوک ختم ہو گئی تھی۔ وہ کوئی چیز کھانا شروع کرتا اور پھر یک دم اس کا دل ڈوب جاتا۔ وہ اسی طرح اسے چھوڑ دیتا ۔ بعض دفعہ وہ پورا پورا دن کچھ بھی نہیں کھاتا تھا۔ صرف یکے بعد دیگرے کافی کے کپ اپنے اندر انڈیلتا رہتا۔
وہ چین سموکر نہیں تھا مگر ان دنوں بن گیا تھا۔ وہ اپنی چیزیں بہت قرینے سے رکھنے کا عادی تھا مگر ان دنوں اس کا اپارٹمنٹ گندگی کی مثال تھا اور اسے ان بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھ کر کوئی الجھن نہیں ہوتی تھی۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے بھی گفتگو بہت مختصر کر دی تھی۔ وہ فون پر بولتے رہتے، وہ دوسری طرف کچھ بھی کہے بغیر خاموشی سے سنتا رہتا یا ہوں ہاں میں جواب دے دیتا۔ اس کے پاس انہیں بتانے کے لئے، ان کے ساتھ شئیر کرنے کے لئے یک دم سب کچھ ختم ہو گیا تھا اور اسے ان میں سے ایک بات کی بھی وجہ معلوم نہیں تھی۔
اور اسے یہ بات بھی معلوم تھی کہ اس کی ان تمام کیفیات اور حالت کا تعلق امامہ ہاشم سے ہے۔ نہ وہ اس کی زندگی میں آتی نہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا۔ پہلے وہ اسے ناپسند کرتا تھا اب اسے امامہ سے نفرت ہونے لگی تھی۔ پچھتاوے کا جو ہلکا سا احساس کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہا تھا وہ غائب ہو گیا تھا۔
“اس کے ساتھ جو ہوا، ٹھیک ہوا۔ میں نے اس کے ساتھ جو کیا، ٹھیک کیا۔ اس کے ساتھ اس سے زیادہ برا ہونا چاہئیے تھا۔”
وہ خود بخود ہی اپنے آپ سے کہتا رہتا۔ اسے امامہ ہاشم کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ، ہر حرف، ہر جملے سے نفرت تھی۔ اسے اس کی باتیں یاد آتیں اور اس کی نیند غائب ہو جاتی۔ ایک عجیب سی وحشت اسے گھیر لیتی۔ اس نے اس رات جن باتوں کا مذاق اڑایا تھا، وہ اب ہر وقت اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔
“کیا میں پاگل ہو رہا ہوں، کیا میں اپنے ہوش و حواس آہستہ آہستہ کھوتا جا رہا ہوں، کیا میں شیزوفرینیا کا شکار ہوں۔” بعض دفعہ اسے بیٹھے بٹھائےخوف محسوس ہونے لگتا۔
ہر چیز کی بے معنویت بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر چیز کی بے مقصدیت اور عیاں ہو رہی تھی۔ وہ کہاں تھا، کیا تھا، کیو ں تھا، کہاں کھڑا تھا، کیوں کھڑا تھا؟ اسے ہر وقت یہ سوالات تنگ کرنے لگے۔ کیا ہو گا اگر میں Yale سے ایک ایم بی اے کی ڈگری لے لوں گا۔ بہت اچھی جاب مل جائے گی، کوئی فیکڑی شروع کو لوں گا پھر۔۔۔۔۔ کیا یہ وہ کام تھا جس کے لئے مجھے زمین پر اتارا گیا۔۔۔۔۔+150 آئی کیو لیول کے ساتھ۔۔۔۔۔ کہ میں چند اور ڈگریاں لوں، شاندار سا بزنس کروں، شادی کروں، بچے پیدا کروں، عیش کروں پھر مر جاؤں، بس۔۔۔۔۔
اس نے زندگی میں چار دفعہ صرف اپنے تجسس کے لئے موت کے تجربے سے گزرنے کی کوشش کی تھی مگر اب شدید ڈیپریشن کے عالم میں بھی وہ خود کشی کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ چوبیس گھنٹے موت کے بارے میں سوچنے کے باوجود بھی وہ اسے چھونا نہیں چاہتا تھا۔
لیکن اگر اس سے کوئی یہ پوچھ لیتا کہ کیا وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ ہاں میں جواب دینے میں بھی تامل کرتا۔ وہ زندہ رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ زندگی کے مفہوم کو نہیں جانتا تھا۔
وہ مرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ موت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں تھا۔
وہ کسی خلا میں معلق تھا، کسی درمیان والی جگہ میں، کسی بیچ والی کیفیت میں۔ زندہ رہتے ہوئے مردہ، مردہ ہوتے ہوئے زندہ۔۔۔۔۔ وہ سرشاری کی انتہا پر پہنچ رہا تھا لمحہ بہ لمحہ۔ +150 آئی کیو لیول رکھنے والا وہ شخص جو اپنے سامنے کہی اور سنی جانے والی کوئی بھی چیز نہیں بھلا سکتا تھا۔ سگریٹ کا دھواں اڑاتے، بئیر کے گھونٹ لیتے، نائٹ کلب میں رقص کرتے، مہنگے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے، اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ وقت گزارتے، وہ صرف ایک بات سوچتا رہتا۔
“کیا زندگی کا مقصد یہی ہے؟”
“عیش اور آسائش۔۔۔۔۔؟ شاندار لباس، بہترین خوراک، اعلیٰ ترین سہولتیں۔ ساٹھ ستر سال کی ایک زندگی اور پھر؟”
اس کے بعد اس پھر کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔ مگر اس”پھر” کی وجہ سے اس کی زندگی کے معمولات بگڑ گئے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ بے خوابی کا شکار ہو رہا تھا اور یہ ان ہی دنوں تھا کہ اس نے اچانک مذہب میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ڈیپریشن سے نجات کے لئے وہ بہت سے لوگوں کو یہی کام کرتے دیکھتا تھا۔ اس نے بھی یہی کام شروع کر دیا۔ اس نے اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنے کی کوشش کی۔ تمام کتابیں اس کے سر کے اوپر سے گزر گئیں۔ کوئی لفظ، کوئی بات اسے اپنی طرف نہیں کھینچ رہی تھی۔ وہ خود پر جبر کر کے چند صفحات پڑھتا اور ان کتابوں کو رکھ دیتا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر اٹھاتا پھر رکھ دیتا۔
“نہیں، شاید مجھے عملی طور پر عبادت شروع کرنی چاہئیے۔ اس سے ہو سکتا ہے کہ مجھے کچھ فائدہ ہو۔”
وہ اپنے آپ کو خود ہی سمجھاتا اور ایک دن جب وہ سعد کے پاس تھا تو اس نے یہی کیا۔
“میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔” اس نے سعد کو باہر نکلتے دیکھ کر کہا۔
“مگر میں تو عشاء کی نماز پڑھنے جا رہا ہوں۔” سعد نے اسے یادہانی کروائی۔
“میں جانتا ہوں۔” اس نے اپنے جاگرز کے تسمے کستے ہوئے کہا۔
“میرے ساتھ مسجد چلو گے؟” وہ حیران ہوا۔
“ہاں۔” وہ کھڑا ہو گیا۔
“نماز پڑھنے کے لئے؟”
“ہاں!” سالار نے کہا۔” اس طرح دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، میں کافر تو نہیں ہوں۔”
“کافر تو نہیں ہو مگر۔۔۔۔۔ چلو خیر، پڑھ لینا آج۔” سعد نے کچھ کہتے کہتے بات بدل دی۔
“میں تو تمہیں پہلے ہی کتنی بار ساتھ چلنے کے لئے کہہ چکا ہوں۔”
سالار نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے چلتے ہوئے اس کے ساتھ باہر آ گیا۔
“اب اگر آج مسجد جا ہی رہے ہو تو پھر جاتے رہنا۔ یہ نہ ہو کہ بس آج پہلا اور آخری وزٹ ہی ہو۔” سعد نے عمارت سے باہر نکلتے ہوئے اس سے کہا۔ باہر اس وقت برف باری ہو رہی تھی۔ مسجد، رہائش کی عمارت سے کچھ فاصلے پر تھی۔ وہ ایک مصری خاندان کا گھر تھا جس کا نچلا حصہ مسجد کے طور پر ان لوگوں نے استعمال کے لئے دیا ہوا تھا جبکہ اوپر والے حصے میں وہ لوگ خود رہتے تھے۔ بعض دفعہ وہاں نمازیوں کی تعداد دس پندرہ کے درمیان ہی رہتی تھی۔
سعد مسجد تک پہنچنے تک سالار کو ان تفصیلات سے آگار کرتا رہا۔ سالار خاموشی اور کچھ لاتعلقی کے عالم میں سڑک پر احتیاط سے پھسلتی گاڑیوں اور ہر طرف موجود برف کے ڈھیر پر نظریں دوڑاتا اس کے ساتھ چلتا رہا۔
پانچ سات منٹ چلتے رہنے کے بعد ایک موڑ مڑ کر سعد ایک گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ دروازہ بند تھا مگر لاک نہیں تھا اور سعد نے دروازے پر دستک دی تھی نہ ہی کسی سے اجازت مانگی تھی۔ بڑے مانوس سے انداز میں اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور پھر اندر داخل ہو گیا۔ سالار نے اس کی پیروی کی۔
“تم وضو کر لو۔” سعد نے اچانک اسے مخاطب کیا اور پھر اسے ساتھ لے کر ایک دروازہ کھول کر ایک باتھ روم میں داخل ہو گیا۔
سعد کی زیر نگرانی جب تک وہ وضو کے آخری حصے تک پہنچتا، ٹھنڈا پانی گرم میں تبدیل ہو چکا تھا۔ اپنے بالوں کا مسح کرتے کرتے وہ ایک بار پھر ٹھٹکا۔ سعد سمجھا اسے صحیح طریقہ نہیں پتا، اس نے ایک بار پھر اسے ہدایت دی۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو ایک بار پھر حرکت دینے لگا۔
گدی تک ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کا ہاتھ گردن میں موجود زنجیر سے ٹکرایا تھا۔ اس کی نظر بے اختیار سامنے آئینے میں گئی۔ وہ ایک بار پھر کہیں اور پہنچ چکا تھا۔ سعد نے اس سے کچھ کہا تھا۔ اس بار اس نے نہیں سنا۔
کمرے میں موجود دس افراد دو صفوں میں کھڑے ہو رہے تھے۔ وہ سعد کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہو گیا۔ امام صاحب نے امامت شروع کر دی، سب کے ساتھ اس نے بھی نیت کی۔
“نماز سے واقعی سکون ملتا ہے؟” اس نے کوئی دو ہفتے پہلے ایک لڑکے کو نامز کے مسئلے پر سعد کے ساتھ بحث میں الجھا پایا تھا۔
“مجھے تو ملتا ہے۔” سعد نے کہا۔
“میں تمہاری بات نہیں کر رہا، میں سب کی بات کر رہا ہوں، سب کو ملتا ہے؟” اس لڑکے نے کہا تھا۔”یہ منحصر ہے کہ سب کتنا انوالو ہو کر نماز پڑھتے ہیں۔”
سالار بڑے اکتائے ہوئے انداز میں ان کی بحث کسی مداخلت یا تبصرے کے بغیر سنتا رہا تھا۔ اس وقت وہ لاشعوری طور پر نماز میں انہماک پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
“سکون؟ میں واقعی دیکھنا چاہتا ہوں کہ نماز سے سکون کیسے ملتا ہے۔” اس نے رکوع میں جاتے ہوئے اپنے دل میں سوچا پھر اس نے پہلا سجدہ کیا۔ اس کے اضطراب اور بے چینی میں یک بہ یک اضافہ ہو گیا۔ جن الفاظ کو وہ امام صاحب کی زبان سے سن رہا تھا، وہ بہت نامانوس لگ رہے تھے، جو لوگ اس کے اردگرد کھڑے تھے وہ اسے ناآشنا لگ رہے تھے، جس ماحول میں وہ موجود تھا وہ اسے غیر فطری لگ رہا تھا اور جو کچھ وہ کر رہا تھا وہ اسے منافقت محسوس ہو رہی تھی۔
ہر سجدے کے ساتھ اس کے دل و دماغ کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے پہلی چار رکعتیں بمشکل ختم کیں۔ سلام پھیرنے کے دوران اس نے اپنے دائیں جانب والے ادھیڑ عمر شخص کے گالوں پر آنسو دیکھے، اس کا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا۔ وہ جی کڑا کر کے ایک بار پھر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک بار پھر نماز میں پوری طرح منہمک ہونے کی کوشش کی۔
“اس بار میں پڑھی جانے والی آیات کے ہر لفظ پر غور کروں گا۔ شاید اس طرح۔۔۔۔۔” اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ نیت کی جا رہی تھی۔ اس کا دل مزید اچاٹ ہو گیا۔ سر کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ اس نے آیات کے مفہوم پر غور کرنے کی کوشش کی۔
“الحمدللہ رب العالمین۔” سورۃ فاتحہ کی تلاوت شروع ہوئی۔
“الرحمنٰ الرحیم۔” اس نے توجہ مزکور رکھنے کی پوری کوشش کی۔
“مالک یوم الدین۔” توجہ بھٹکی۔
“ایاک نعبد و ایاک نستعین۔” اسے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ آتا تھا۔ اس نے چند دن پہلے ہی پڑھا تھا۔
“اھدنا الصراط المستقیم۔”(سیدھا راستہ) اس نے ذہن میں دہرایا۔
” لصراط المستقیم۔۔۔۔۔ سیدھا راستہ؟” اس کا دل چاہا وہاں سے بھاگ جائے۔ اس نے وہاں نماز جا ری رکھنے کی ایک آخری کوشش کی۔
“صراط الذین انعمت۔” اس کا ذہن ایک بار پھر پیچھے گیا۔
“علیہم غیر المغضوب علیہم و الضالین۔” اس نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ کھولے، وہ آخری صف میں کھڑا تھا، بہت آہستگی سے چند قدم پیچھے گیا اور صف سے نکل گیا۔
“یہ کام میں نہیں کر سکتا، میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔” اس نے جیسے اعتراف کیا۔ بہت خاموشی کے ساتھ وہ پیچھے ہوتا گیا۔ باقی لوگ اب رکوع میں جا رہے تھے، وہ مڑ کر دبے قدموں مگر تیز رفتاری سے باہر نکل گیا۔
مسجد سے نکلتے ہوئے اس کے جاگرز اس کے ہاتھ میں تھے۔ غائب دماغی کے عالم میں وہ باہر سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر چند لمحے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ سیڑھیاں اتر گیا۔ پاؤں میں جرابیں اور ہاتھ میں جاگرز پکڑے وہ خالی الذہنی کے عالم میں عمارت کی عقبی دیوار کی طرف آ گیا۔ وہاں بھی ایک دروازہ اور کچھ سیڑھیاں نظر آ رہی تھیں مگر وہ سیڑھیاں برف سے اٹی ہوئی تھیں۔ دروازے پر موجود لائٹ بھی روشن نہیں تھی۔ اس نے جھک کر سب سے اوپر والی سیڑھی کو اپنے جاگرز کے ساتھ صاف کیا اور برف صاف کرنے کے بعد وہاں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر پہلے ہونے والی برف باری اب ختم ہو چکی تھی۔ اس نے سیڑھی پر بیٹھ کر اپنے جاگرز پہن لئے۔ تسمے کسنے کے بعد وہ ایک بار پھر سیدھا ہو کر دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں تھے۔ جیکٹ سے ساتھ لگے ہوئے hoed کو وہ سر پر چڑھا چکا تھا۔ سامنے سڑک پر اِکا دُکا گاڑیوں کی آمدورفت جا ری تھی۔
وہ سیڑھیوں پر اپنی ٹانگیں پھیلائے اپنی پشت دروازے سے ٹکائے ان اِکا دُکا گاڑیوں اور فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ وہاں اس سرد اور کہر آلود رات میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے وہ کچھ دیر پہلے مسجد کے گرم کمرے میں زیادہ سکون محسوس کر رہا تھا یا کم از کم بہتر ضرور محسوس کر رہا تھا۔
اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر لائیٹر نکال لیا اور اسے جلا کر اپنے پیروں کے قریب سیڑھیوں پر پڑی برف کو پگھلانے لگا، کچھ دیر تک وہ اسی سرگرمی میں مشغول رہا پھر جیسے اس نے اکتا کر لائیٹر دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔ جس وقت وہ سیدھا ہوا اس نے اپنے بالکل سامنے ایک عورت کو کھڑا پایا۔ وہ یقیناً اس وقت وہاں آ کر کھڑی ہوئی تھی جس وقت وہ سیڑھیوں پر جھکا اپنے دونوں پاؤں کے درمیان موجود برف کو لائیٹر سے پگھلا رہا تھا۔ وہ نیم تاریکی میں بھی اس کے چہرے کی مسکراہٹ کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ منی اسکرٹ اور ایک مختصر بلاؤز میں ملبوس تھی۔ اس نے فرکوٹ پہنا ہوا تھا مگر وہ فرکوٹ آگے سے دانستہ طور پر کھلا چھوڑا گیا تھا۔
وہ فرکوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے سالار کے بالکل سامنے بڑے سٹائل سے کھڑی تھی۔ سالار نے سر سے لے کر پاؤں تک اسے دیکھا۔ اس کی لمبی ٹانگیں اس سردی میں بھی برہنہ تھیں۔ اس کے عقب میں موجود دوکانوں کی روشنیوں کے بیک گراونڈ میں اس کی ٹانگیں یک دم بہت نمایاں ہو رہی تھیں اور اس کی ٹانگیں بہت خوبصورت تھیں۔ کچھ دیر تک وہ ان سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ اس عورت کے پیروں میں بوٹ نماہائی ہیل کے جوتے تھے۔ سالار حیران تھا وہ برف کے اس ڈھیر پر ان جوتوں کے ساتھ کس طرح چلتی ہو گی۔”۔I charge 50 for one hour”
اس عورت نے بڑے دوستانہ انداز میں کہا۔ سالار نے اس کی ٹانگوں سے نظریں ہٹا کر اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی نظریں ایک بار پھر اس کی ٹانگوں پر گئیں۔ کئی سالوں میں پہلی بار اسے کسی پر ترس آیا۔ کیا مجبوری تھی کہ وہ اس برف باری میں بھی اس طرح برہنہ پھرنے پر مجبور تھی، جبکہ وہ اس موٹی جینز میں بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستے محسوس کر رہا تھا۔”Ok 40 dollars۔”
اس خاموش دیکھ کر اس عورت کو اندیشہ ہوا کہ شاید وہ قیمت اس کے لئے قابلِ قبول نہیں تھی، اس لئے اس نے فوراً اس میں کمی کر دی۔ سالار جانتا تھا چالیس ڈالرز بھی زیادہ تھے۔ وہ سڑک پر بیس ڈالرز میں بھی ایک گھنٹہ کے لئے کسی لڑکی کو حاصل کر سکتا تھا وہ پینتیس چالیس سال کی تھی اور بات کرتے ہوئے محتاط نظروں سے سڑک پر اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ سالار جانتا تھا یہ احتیاط کسی پولیس کا یا پولیس والے کے لئے تھی۔
“Ok 30…. No more bargaining۔”
“Take it or leave it”
سالار کی خاموشی نے اس کی قیمت کو کچھ اور کم کیا۔ سالار نے اس بار کچھ بھی کہے بغیر اپنی جیکٹ کی اندر کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور وہاں موجود چند کرنسی نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دئیے۔ اس کے پاس اس وقت والٹ نہیں تھا۔ اس عورت نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر ان نوٹو ں کو اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔ وہ پہلا گاہک تھا، جو اسے ایڈوانس پے منٹ کر رہا تھا اور وہ بھی پچاس ڈالرز، جبکہ وہ اپنی قیمت کم کر چکی تھی۔
“تم میرے ساتھ چلو گے، یا میں تمہارے ساتھ۔” وہ ا ب بڑی بے تکلفی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
“نہ میں تمہارے ساتھ چلوں گا، نہ تم میرے ساتھ۔ بس تم یہاں سے جاؤ۔” سالار نے ایک بار پھر سڑک کے دوسری طرف موجود دکانوں پر نظریں جماتے ہوئے کہا۔
وہ عورت بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔
“واقعی؟”
“ہاں۔”سالار نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
“تو پھر تم نے یہ کیوں دئیے ہیں؟” اس عورت نے اپنے ہاتھ میں پکڑے نوٹوں کی طرف اشارہ کیا۔
“تاکہ تم میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، میں سڑک کے اس پار دکانیں دیکھنا چاہتا ہوں اور تم اس میں رکاوٹ بن گئی ہو۔” اس نے سرد مہری سے کہا۔
عورت بے اختیار قہقہہ لگا کر ہنسی۔” تم اچھا مذاق کر لیتے ہو، کیا میں واقعی چلی جاؤں؟’
“ہاں۔”
وہ عورت کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔” اوکے، تھینک یو ہنی۔” سالار نے اسے مڑ کر سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ لاشعوری طور پر اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ سڑک پار کر کے ایک دوسرے کونے کی طرف جا رہی تھی، وہاں ایک اور آدمی کھڑا تھا۔
سالار نے دوبارہ نظریں ان دوکانوں پر جما لیں، برف باری ایک بار پھر شروع ہو چکی تھی۔ وہ پھر بھی اطمینان سے وہیں بیٹھا رہا۔ برف اب اس کے اوپر بھی گر رہی تھی۔
وہ رات کے ڈھائی بجے تک وہیں بیٹھا رہا جب سڑک کے پار دوکانوں کے اندر کی لائیٹس اس نے یک بعد دیگرے بند ہوتے دیکھیں تو وہ اپنی جیکٹ اور جینز سے برف جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر وقفے وقفے سے وہ اپنی ٹانگیں ہلا نہ رہا ہوتا تو اس وقت تک وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے باوجود کھڑا ہو کر قدم اٹھانے میں اسے کچھ دقت ہوئی۔ چند منٹ وہیں کھڑا اپنے پیروں کو جھٹکتا رہا اور پھر اسی طرح جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر واپس اپارٹمنٹ کی طرف جانے لگا۔ وہ جانتا تھا سعد نے اسے مسجد سے نکل کر بہت ڈھونڈا ہو گا اور اس کے بعد وہ واپس چلا گیا ہو گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کہاں چلے گئے تھے تم؟”سعد اسے دیکھتے ہی چلایا۔ وہ کچھ کہے بغیر اندر چلا آیا۔
“میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔” سعد دروازہ بند کر کے اس کے پیچھے آ گیا۔ سالار اپنی جیکٹ اتار رہا تھا۔
“کہیں نہیں گیا تھا۔” اس نے جیکٹ لٹکاتے ہوئے کہا۔
“تمہیں پتا ہے کہ میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا ہے، کہاں کہاں فون کئے ہیں اور اب تو میں اتنا پریشان ہو چکا تھا کہ پولیس کو فون کرنے والا تھا۔۔۔۔۔ تم آخر اس طرح نماز چھوڑ کر گئے کہاں تھے؟”
سالار کچھ کہے بغیر اپنے جاگرز اتارنے لگا۔
“میں نے تمہیں بتایا ہے، کہیں نہیں۔”
“تو پھر اب تک کہاں تھے؟” سعد اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔
“وہیں تھا، مسجد کے پچھلے حصے میں فٹ پاتھ پر۔” اس نے اطمینان سے کہا۔
“واٹ! اتنے گھنٹے تم وہاں فٹ پاتھ پر برف میں بیٹھے رہے ہو۔” سعد دم بخود رہ گیا۔
“ہاں!”
“کوئی تک بنتی ہے اس حرکت کی۔” وہ جھلایا۔
“نہیں ، کوئی تک نہیں بنتی۔” سالار نے اسی طرح سیدھا بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
“کچھ کھایا ہے؟”
“نہیں۔”
“تو کھانا کھا لو۔”
“نہیں، بھوک نہیں ہے۔” وہ اب چھت پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ سعد اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔
“تمہارے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ بتا سکتے ہو مجھے۔” سالار نے گردن کو ہلکی سی حرکت سے کر اسے دیکھا۔
“کوئی مسئلہ نہیں ہے۔” بے تاثر لہجے میں کہا گیا۔” میں سمجھا، تم اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے ہو، مگر وہاں بار بار رنگ کرنے پر بھی تم نہ ملے۔” سعد بڑبڑا رہا تھا۔ سالار کی نظریں چھت پر ہی تھیں۔
“اس سے بہتر تھا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ نماز پڑھنے لے کر ہی نہ جاتا۔ آئندہ میرے ساتھ مت جانا تم۔” سعد نے ناراضی سے کہا۔ وہ اب اس کے بیڈ سے اٹھ گیا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اپنے کام نبٹاتا رہا پھر وہ نائٹ بلب آن کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس نے ابھی آنکھیں بند کی تھیں، جب اس نے سالار کی آواز سنی۔
“سعد!”
“ہاں!” اس نے آنکھیں کھول دیں۔
“یہ “صراطِ مستقیم ” کیا ہوتا ہے؟”
سادہ لہجے میں پوچھے گئے سوال نے سعد کو حیران کر دیا۔ اس نے گردن موڑ کر بائیں جانب بیڈ پر سیدھا لیٹے ہوئے سالار کو دیکھا۔
“صراطِ مستقیم۔۔۔۔۔ سیدھے راستے کو کہتے ہیں۔”
“جانتا ہوں مگر سیدھا راستہ کیا ہوتا ہے؟” اگلا سوال آیا۔
سعد نے اس کی طرف کروٹ لے لی۔” سیدھا راستہ۔۔۔۔۔ مطلب نیکی کا راستہ۔۔۔۔۔”
“نیکی کیا ہوتی ہے؟” لہجہ ابھی بھی بے تاثر تھا۔
“اچھے کام کو نیکی کہتے ہیں۔”
“اچھا کام۔۔۔۔۔ کوئی ایسا کام جو کسی دوسرے کے لئے کیا گیا ہو۔ کسی کی مدد کی گئی ہو، کسی پر مہربانی کی گئی ہو، وہ اچھا کام ہوتا ہے اور ہر اچھا کام نیکی ہوتی ہے۔”
“ابھی کچھ گھنٹے پہلے میں نے فٹ پاتھ پر ایکhooker کو پچاس ڈالر دئیے، جبکہ وہ صرف تیس ڈالر مانگ رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے یہ نیکی ہوئی؟’
سعد کا دل چاہا وہ ایک گھونسا اس کے منہ پر کھینچ مارے، وہ عجیب آدمی تھا۔
“بکواس بند کرو اور سو جاؤ، مجھے بھی سونے دو۔” اس نے کمبل لپیٹ لیا۔
سالار کو حیرت ہوئی، وہ کس بات پر حیران ہوا تھا۔”تو یہ نیکی نہیں ہوئی؟”
“میں نے تم سے کہا ہے، اپنا منہ بند کرو اور سو جاؤ۔” سعد ایک بار پھر دھاڑا۔
“اتنا ناراض ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے، میں نے تم سے ایک بہت معمولی سا سوال کیا ہے۔” سالار نے بڑے تحمل سے کہا۔
سعد یک دم کچھ مشتعل ہوتے ہوئے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے لیمپ آن کر دیا۔
“تمہارے جیسے آدمی کو میں کیا صراطِ مستقیم سمجھاؤں۔ کیا تم پاگل ہو یا جاہل ہو۔۔۔۔۔ یا غیر مسلم ہو۔۔۔۔۔ کیا ہو۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو تمہیں خود پتا ہونا چاہئیے کہ صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے مگر تم جیسا آدمی جو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نماز درمیان میں چھوڑ کر چلا آتا ہے، وہ کیسے جان سکتا ہے یہ۔”
“میں نماز اس لئے چھوڑ کر چلا آیا کیونکہ تم کہتے ہو اس میں سکون ملے گا، مجھے سکون نہیں ملا، میں چھوڑ آیا۔” اس کے پرسکون انداز میں کہے ہوئے جملے نے سعد کو مزید مشتعل کر دیا۔
“تمہیں نماز میں اس لئے سکون نہیں ملا، کیونکہ مسجد تمہاری جگہ نہیں ہے، تمہارے لئے سکون کی جگہیں سینما، تھیٹر، بار اور کلب ہیں۔ مسجد تمہارے لئے نہیں ہے۔ تمہیں نماز میں سکون کہاں سے مل جاتا۔۔۔۔۔ اور تم چاہتے ہو میں تمہیں بتاؤں صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے۔”
وہ بیڈ پر سیدھا لیٹا پلکیں جھپکائے بغیر سعد کو دیکھتا رہا۔
“تمہارے جیسا شخص جو نماز سے بھاگ جاتا ہے، شراب پیتا ہے اور زنا کرتا ہے۔ وہ صراط ِ مستقیم کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے نہ اس پر آ سکتا ہے۔”
“تمہارا مطلب ہے جو شراب پیتے ہیں اور زنا کرتے ہیں مگر نماز سے بھاگتے نہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، وہ صراطِ مستقیم کا مطلب سمجھتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر ہیں۔”
سعد کچھ بول نہیں سکا۔ مدھم آواز اور بے تاثر لہجے میں کئے گئے ایک ہی سوال نے اسے خاموش کر دیا تھا۔ سالار اب بھی اسی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔
“تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے سالار!” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ سالار کے کانوں میں ایک جھماکے کے ساتھ ایک دوسری آواز گونج اٹھی تھی۔
“ہاں، میں واقعی نہیں سمجھ سکتا۔ لائٹ آف کر دو، مجھے نیند آ رہی ہے۔” اس نے مزید کچھ کہے بغیر آنکھیں بند کر لیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ تم اپنے اپارٹمنٹ پر ہی ہو گے، صرف تم نے جان بوجھ کر answer phone لگا دیا ہو گا۔”
سعد اگلےب دن دس بجے سالار کے اپارٹمنٹ پر موجود تھا۔ سالار نے نیند میں اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔
“تم اس طرح بغیر بتائے بھاگ کیوں آئے میرے اپارٹمنٹ سے۔” سعد نے اندر آتے ہوئے جھاڑا۔
“بھاگا تو نہیں، تم سو رہے تھے، میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔” سالار نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
“کس وقت آئے تھے تم؟”
“شاید چار پانچ بجے۔”
“یہ جانے کا کون سا وقت تھا؟” سعد نے تنک کر کہا۔
“اور تم اس طرح آئے کیوں؟” سالار کچھ کہنے کے بجائے لونگ روم کے صوفہ پرجا کر اوندھے منہ لیٹ گیا۔
“شاید میری باتوں سے تم ناراض ہو گئے تھے، میں اسی لئےا یکسکیوز کرنے آیا ہوں۔” سعد نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“کون سی باتوں سے؟” سالار نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کرتے ہوئے اسی طرح لیٹے سعد سے پوچھا۔
“وہی سب کچھ جو میں نے کچھ غصے میں آ کر رات کو تم سے کہہ دیا۔” سعد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
“نہیں ، میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ناراض نہیں ہو سکتا۔ تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر تمہیں ایکسکیوز کرنے کے لئے یہاں آنا پڑتا۔” سالار نے اسی کے انداز میں کہا۔
“پھر تم اس طرح اچانک میرے اپارٹمنٹ سے کیوں آ گئے؟” سعد بضد ہوا۔
“بس میرا دل گھبرایا اور میں یہاں آ گیا اور چونکہ سونا چاہتا تھا اس لئے answer phone لگا دیا۔”
سالار نے پرسکون انداز میں کہا۔”پھر بھی میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ مجھے تم سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہئیے تھی۔ میں صبح سے بہت پچھتا رہا ہوں۔”
“جانے دو اسے۔” اس نے اسی طرح چہرہ صوفے پر چھپائے کہا۔
“سالار! تمہارے ساتھ آج کل کیا پرابلم ہے؟”
“کچھ نہیں۔”
“نہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ کچھ عجیب سے ہوتے جا رہے ہو تم۔”
اس بار سالار یک دم کروٹ بدلتے ہوئے سیدھا ہو گیا۔ چت لیٹے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
“مثلاً کون سی بات عجیب سی ہوتی جا رہی ہے مجھ میں۔”
“بہت ساری ہیں، تم بہت چپ چپ رہنے لگے ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگے ہو۔ عباد مجھے بتا رہا تھا کہ یونیورسٹی جانا بھی چھوڑا ہوا ہے تم نے اور سب سے بڑی بات کہ مذہب میں دلچسپی لے رہے ہو۔” اس کے آخری جملے سے سالار کے ماتھے پر تیوریاں آ گئیں۔
“مذہب میں دلچسپی؟ یہ تمہیں غلط فہمی ہے۔ میں مذہب میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کر رہا، میں صرف سکون حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ میں بہت ڈپریس ہوں۔ مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کا۔۔۔۔۔ اور اس حد تک ڈپریشن نہیں ہوا جس کا شکار میں آج کل ہوں اور میں صرف اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے رات نماز پڑھنے کے لئے گیا تھا۔” اس نے بہت ترشی سے کہا۔
“ڈپریشن کیوں ہے تمہیں؟” سعد نے پوچھا۔
“اگر یہ مجھے پرا ہوتا تو مجھے یقیناً ڈپریشن نہ ہوتا۔ میں اب تک اس کا کچھ نہ کچھ کر چکا ہوتا۔”
“پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی، یوں بیٹھے بٹھائے ڈپریشن تو نہیں ہو جاتا۔” سعد نے تبصرہ کیا۔
سالار جانتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، مگر اسے وجہ بتا کر خود پر ہنسنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“کسی دوسرے کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں، مگر مجھے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہو جاتا ہے۔” سالار نے کہا۔
“تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔” سعد نے کہا۔
“میں ان کا ڈھیر کھا چکا ہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔”
“تو تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لیتے۔”
“میں یہ کام تو کبھی نہیں کروں گا، میں تنگ آ چکا ہوں ان لوگوں سے ملتے ملتے۔ کم از کم اب تو میں نہیں ملوں گا۔” سالار نے بے اختیار کہا۔
“پہلے کس سلسلے میں ملتے رہے ہو تم؟” سعد نے کچھ چونک کر تجسس کے عالم میں پوچھا۔” بہت سی باتیں تھیں، تم انہیں رہنے دو۔” وہ اب چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔
“تو پھر تم ایسا کیا کرو کہ عبادت کیا کرو، نماز پڑھا کرو۔”
“میں نے کوشش کی تھی مگر میں نماز نہیں پڑھ سکتا نہ تو مجھے وہاں کوئی سکون ملا نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ میں جو پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے، کیوں پڑھ رہا ہوں۔”
“تو تم یہ جاننے کی کوشش کرو کہ۔۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔” اب پھر رات والی بحث شروع ہو جائے گی، صراطِ مستقیم والی اور پھر تمہیں غصہ آئے گا۔”
“نہیں، مجھے غصہ نہیں آئے گا۔” سعد نے کہا۔
“جب مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے تو پھر میں نماز کیسے پڑھ سکتا ہوں۔”
“تم نماز پڑھنا شروع کرو گے تو تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔”
“کیسے؟”
“تم خود ہی غلط کاموں سے بچنے لگو گے، اچھے کام کرنے لگو گے۔” سعد نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
“مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اچھے کام کرنے کی خواہش ہے۔ میری زندگی نارمل ہے۔”
“تمہیں یہ احساس ہو بھی نہیں سکتا کہ تمہارا کون سا کام صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جب تک کہ۔۔۔۔۔”سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
“صحیح اور غلط کام میرا مسئلہ نہیں ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو مجھے بس بے سکونی رہتی ہے اور اس کا تعلق میرے کاموں سے نہیں ہے۔”
“تم وہ تمام کام کرتے ہو جو انسان کی زندگی کو بے سکون کر دیتے ہیں۔”
“مثلاً۔” سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
“تم پورک کھاتے ہو۔”
“کم آن۔” وہ بے اختیار بلبلایا۔” پورک یہاں کہاں آ گیا، تم مجھے ایک بات بتاؤ۔” سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔”تم تو بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہو، بڑی عبادت کرتے ہو، نماز نے تمہاری زندگی میں کون سی تبدیلیاں کر دیں؟”
“مجھے بے سکونی نہیں ہے۔”
“حالانکہ تمہارے فارمولے کے مطابق تمہیں بھی بے سکونی ہونی چاہئیے، کیونکہ تم بھی بہت سے غلط کام کرتے ہو۔” سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
“مثلاً۔۔۔۔۔ میں کیا غلط کام کرتا ہوں؟”
“تم جانتے ہو، میرے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
“میں۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا، تم دہراؤ۔” سعد نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
سالار اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔” میں نہیں سمجھتا سعد کہ صرف عبادت کرنے سے زندگی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، اچھے کاموں یا کردار کا تعلق عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہو تا۔”
سعد نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں اسی لئے تم سے کہتا ہوں کہ اپنے مذہب میں کچھ دلچسپی لو اور اسلام کے بارے میں کچھ علم حاصل کرو تاکہ اپنی اس غلط قسم کی فلاسفی اور سوچ کو بدل سکو۔”
“میری سوچ غلط نہیں ہے، میں نےمذہبی لوگوں سے زیادہ چھوٹا، منافق اور دھوکے بار کسی کو نہیں پایا۔ میں امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گے، مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے تین ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو بہت مسلمان بنتے ہیں اور اسلام کی بات کرتے ہیں اور تینوں fake(منافق) ہیں۔” وہ بڑی تلخی سے کہہ رہا تھا۔
“سب سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملا، وہ بھی بڑی مذہبی بنتی تھی، پردہ کرتی تھی، بڑی پارسا اور پاک باز ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی اور ساتھ میں ایک لڑکے کے ساتھ افئیر چلا رہی تھی، اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے اس کے لئے گھر سے بھاگ بھی گئی۔ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ایک ایسے شخص کی بھی مدد لی جسے وہ برا سمجھتی تھی یعنی اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا، ان محترمہ پارسا خاتون نے۔” اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
“اس کے بعد میں ایک اور آدمی سے ملا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بڑا پکا اور سچا قسم کا مسلمان تھا وہ بھی لیکن اس نے اس لڑکی کی مدد نہیں کی، جس نے اس سے بھیک مانگنے کی حد تک مدد مانگی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی جسے وہ محبت کے نام پر بے وقوف بناتا رہا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے میں یہاں امریکہ میں اس سے ملا تو اس کی داڑھی بھی غائب ہو چکی تھی، شاید اس کے اسلام کے ساتھ۔”
وہ ہنسا۔” اور تیسرے تم ہو۔۔۔۔۔ تم پورک نہیں کھاتے صرف یہ ایک حرام کام ہے جو تم نہیں کرتے، باقی سب تمہارے لئے جائز ہے۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، زنا کرنا، کلب میں جانا۔۔۔۔۔ غیبت کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، حالانکہ ویسے تم بڑے نیک ہو، تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، تم ہمارا دماغ کھا جاتے ہو اسلام کی باتیں کر کر کے۔ زبردستی نماز پڑھانے پر تلے رہتے ہو، ہر بات میں مذاہب کا حوالہ لے آتے ہو۔ یہ آیت اور وہ حدیث۔۔۔۔۔ وہ آیت اور یہ حدیث۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ تمہاری زبان پر اور کچھ ہوتا ہی نہیں اور جب میں تمہارا عمل دیکھتا ہوں تو میں ذرہ بھر بھی تم سے متاثر نہیں ہوتا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے اسلام کے بارے میں تمہارا لیکچر سننا، میں تمہیں بتا نہیں سکتا۔ مجھ میں اور تم میں زیادہ فرق تو نہیں ہے۔ تم داڑھی رکھ کر اور اسلام کر کر کے وہ سارے کام کرتے ہو جو میں ڈارھی کے اور اسلام کی بات کئے بغیر کرتا ہوں۔ عبادت نے کیا انقلاب برپا کیا ہے تمہاری زندگی میں، سوائے اس کے کہ تمہیں ایک خوش فہمی ہو گئی ہے کہ تم تو سیدھے جنت میں جاؤ گے اور ہم سارے دوزخ میں۔ تمہارے قول اور فعل میں اگر یہ تضاد نہ ہو تو میں کبھی تم سے یہ سب نہ کہتا مگر میں ریکویسٹ کرتا ہوں کہ تم دوسروں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم خود بھی مذہب کے صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہو۔ اب میری ان ساری باتوں کو مائنڈ مت کرنا۔”
سالار اب ٹیبل پر پڑا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ سعد تقریباً گونگا ہو گیا تھا۔
“ٹھیک ہے، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو جاتی ہیں، مگر اللہ انسان کو معاف کر دیتا ہے اور میں نے کبھی یہ تو نہیں کہا کہ میں بہت ہی اچھا مسلمان ہوں اور میں ضرور جنت میں جاؤں گا لیکن میں اگر ایک اچھا کام کرتا ہوں اور دوسروں کو اس کی ہدایت کرتا ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے۔”
سعد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا۔
“سعد! تم خواہ مخواہ دوسروں کی ذمہ داری اپنے سر پر مت لو۔ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو تاکہ کوئی تمہیں منافق نہ کہہ سکے اور جہاں تک اللہ کے معاف کر دینے کا تعلق ہے تو اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہاری غلطیوں کو معاف کر سکتا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی معاف کر سکتا ہے۔ ہمارے گناہوں کے لئے تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہو گا اور تم اپنے گناہوں سمیت اللہ کے قریب ہو جاؤ گے تو ایسا نہیں ہو گا۔ بہتر ہے تم اپنا ٹریک ریکارڈ ٹھیک کرو، صرف اپنے آپ کو دیکھو، دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش نہ کرو،ہمیں برا ہی رہنے دو۔”
اس نے ترشی سے کہا۔ اس لمحے اس کے دل میں جو آیا اس نے سعد سے کہہ دیا۔ جب وہ خاموش ہوا تو سعد اٹھ کر چلا گیا۔
اس دن کے بعد اس نے دوبارہ کبھی سالار کے سامنے اسلام کی بات نہیں کی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ اس ویک اینڈ پر بہت دنوں کے بعد کسی ریسٹورنٹ گیا تھا۔ اپنا آرڈر ویٹر کو نوٹ کروانے کے بعد وہ ریسٹورنٹ کے شیشوں سے باہر سڑک کو دیکھنے لگا۔ وہ جس میز پر بیٹھا تھا وہ کھڑکی کے قریب تھی اور قد آدام کھڑکیوں کے شیشوں کے پاس بیٹھ کر اسے یونہی محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا تھا۔
کسی لڑکی کی سسکیوں نے اس کی محویت کو توڑا تھا، اس نے بے اختیار مڑ کر دیکھا۔ اس سے پچھلی میز پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی کسی بات پر روتے ہوئے سسکیاں لے رہی تھی اور ٹشو کے ساتھ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ لڑکا اس کےہاتھ کو تھپتھپاتے ہوئے شاید اسے تسلی دے رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اتنا چھوٹا اور ٹیبلز اتنی قریب قریب تھیں کہ وہ بڑی آسانی سے ان کی گفتگو سن سکتا تھا مگر وہ وہاں اس کام کے لئے نہیں آیا تھا، وہ سیدھا ہو گیا۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر سے اٹھی تھی۔ اسے اس طرح کے تماشے اچھے نہیں لگتے تھے۔ اس کا موڈ خراب ہو رہا تھا، وہ وہاں سکون سے کچھ وقت گزارنے آیا تھا اور یہ سب کچھ۔ اس کا دل اچاٹ ہونے لگا۔ وہ دونوں رشین تھے اور اسی زبان میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا مگر غیر محسوس طور پر اس کی سماعتیں ابھی بھی ان ہی سسکیوں کی طرف مرکوز تھیں۔ اس نے کچھ دیر بعد مڑ کر ایک بار پھر اس لڑکی کو دیکھا۔ اس بار اس کے مڑنے پر لڑکی نے بھی انظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے ان دونوں کی نظریں مل تھیں اور وہ چند لمحے اس پر بہت بھاری گزرے تھے۔ اس کی آنکھیں متورم اور سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے یک دم ایک اور چہرہ یاد آیا۔ امامہ ہاشم کا چہرہ، اس کی متورم آنکھیں۔
ویٹر اس کا آرڈر لے کر آ چکا تھا اور وہ اسے سرو کرنے لگا۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ذہن سے اس چہرے کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس نے چند گہرے سانس لئے۔ ویٹر نے اپنا کام کرتے کرتے اسے غور سے دیکھا مگر سالار کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
“آج موسم بہت اچھا ہے اور میں یہاں اچھے لمحے گزارنے آیا ہوں، ایک اچھا کھانا کھانے آیا ہوں، اس کے بعد میں یہاں سے ایک فلم دیکھنے جاؤں گا، مجھے اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئیے، کسی بھی طرح نہیں۔ وہ پاگل تھی، وہ بکواس کرتی تھی اور مجھے اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہئیے۔ مجھے کیا پتا وہ کہاں گئی، کہاں مری، یہ سب اس نے خود کیا تھا۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ مجھ سے رابطہ کرتی تو میں اسے طلاق دے دیتا۔”
لاشعوری طور پر خود کو سمجھاتے سمجھاتے ایک بار پھر اس کا پچھتاوا اس کے سامنے آنے لگا تھا۔ پیچھے بیٹی ہوئی لڑکی کی سسکیاں اب اس کے دماغ میں نیزے کی انی کی طرح چبھ رہی تھیں۔
“میں اپنی ٹیبل تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے بہت کھردرے انداز میں ویٹر کو مخاطب کیا۔ ویٹر حیران ہو گیا۔
“کس لئے سر؟”
“یا تو ان دونوں کی ٹیبل تبدیل کر دو یا میری۔” اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ویٹر نے ایک نظر اس جوڑے کو دیکھا پھر وہ سالار کا مسئلہ سمجھا یا نہیں مگر اس نے کونے میں لگی ہوئی ایک ٹیبل پر سالار کو بٹھا دیا۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے وہاں آ کر واقعی سکون ملا تھا۔ سسکیوں کی آواز اب وہاں نہیں آ رہی تھی مگر اب اس لڑکی اک چہرہ بالکل اس کے سامنے تھا۔ چالوں کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اس کی نظر اس لڑکی پر دوبارہ پڑی۔
وہ ایک بار پھر بدمزہ ہو گیا اسے ہر چیز یک دم بے ذائقہ لگنے لگی۔یہ یقیناً اس کی ذہنی کیفیت تھی، ورنہ وہاں کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا۔
“انسان نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی حس ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ اچھا کھانا کھا کر خوشی محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔”
اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی تھی اور یہ شاید انتہا ثابت ہوئی۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے پوری قوت سے چمچ اپنی پلیٹ میں پٹخا اور بلند آواز میں دھاڑا۔
“شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔” ریسٹورنٹ میں یک دم خاموشی چھا گئی۔
“یو بچ۔۔۔۔۔ باسٹرڈ، جسٹ شٹ اپ۔” وہ اب اپنی سیٹ سے کھڑا ہو گیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
“تم میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟”
دونوں کنپٹیوں پر ہاتھ رکھے ہوئے وہ چلایا۔
“میں تمہیں مار ڈالوں گا، اگر تم مجھے دوبارہ نظر آئیں۔”
وہ ایک بار پھر چلایا اور پھر اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر پانی پیا اور اس وقت پہلی بار اسے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں، ان کی نظروں کا احسا س ہوا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک ویٹر اس کی طرف آ رہا تھا، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
“آپ کی طبیعت ٹھیک ہے سر!”
سالار نے کچھ بھی کہے بغیر اپنا والٹ نکالا اور چند کرنسی نوٹ ٹیبل پر رکھ دئیے۔ ایک لفظ بھی مزید کہے بغیر وہ ریسٹورنٹ سے نکل گیا۔
وہ امامہ نہیں تھی، ایک بھوت تھا جو اسے چمٹ گیا تھا۔ وہ جہاں جاتا وہ وہاں ہوتی۔ کہیں اس کا چہرہ، کہیں اس کی آواز اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں وہاں سالار کا پچھتاوا ہوتا۔ وہ ایک چیز بھولنے کی کوشش کرتا تو دوسری چیز اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو جاتی، بعض دفعہ وہ اتنا مشتعل ہو جاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ اسے دوبارہ ملے تو وہ اس کا گلا دبا دے یا اسے شوٹ کر دے۔ اسے اس کی ہر بات سے نفرت تھی۔ اس رات اس کے ساتھ سفر میں گزارے ہوئے چند گھنٹے اس کی پوری زندگی کو تباہ کر رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مگر آپ کیوں آ رہے ہیں؟” وہ دونوں فون پر بات کر رہے تھے اور اس نے سالار کو چند دنوں بعد نیو ہیون آنے کی اطلاع دی تھی۔ سالار اس قت روٹین کی زندگی گزار رہا ہوتا تو وہ اس اطلاع پر یقیناً خوش ہوتا مگر وہ اس وقت ذہنی ابتری کے جس دور سے گزر رہا تھا اس میں کامران کا آنا اسے بے حد ناگوار گزر رہا تھا اور وہ یہ ناگواری چھپا بھی نہیں سکا۔
“کیا مطلب ہے تمہارا، کیوں آ رہے ہیں۔ تم سے ملنے کے لئے آ رہا ہوں۔” کامران اس کے لہجے پر کچھ حیران ہوا۔” اور پاپا نے بھی کہا ہے کہ میں تم سے ملنے کے لئے جاؤں۔” وہ ہونٹ بھینچے اس کی بات سنتا رہا۔
“تم مجھے ائیر پورٹ سے پک کر لینا، میں تمہیں ایک دن پہلے اپنی فلائٹ کی ٹائمنگ کے بارے میں بتا دوں گا۔”
کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہنے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔
چار دن کے بعد اس نے کامران کو ائیر پورٹ سے ریسیو کیا۔ وہ سالار کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
“تم بیمار ہو؟” اس نے چھوٹتے ہی سالار سے پوچھا۔
“نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔” سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“لگ تو نہیں رہے ہو۔” کامران کی تشویش میں کچھ اور اضافہ ہونے لگا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتا تھا، آج خلاف معمول وہ آنکھیں چرا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی وہ بہت غور سے سالار کو دیکھتا رہا۔ وہ بے حدا حتیاط سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ کامران کو حیرانی ہوئی وہ اس قدر ریش ڈرائیو کرتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے بڑے سے بڑا جی دار آدمی ڈرتا تھا۔ کامران کو یہ ا یک مثبت تبدیلی لگی تھی مگر یہ واحد مثبت تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی، باقی تبدیلیاں اس کو پریشان کر رہی تھیں۔
“اسٹڈیز کیسی جا رہی ہیں تمہاری؟”
“ٹھیک ہیں۔”
اسے سفر کے دوران بھی اسی طرح کے جواب ملتے رہے تھے۔ یہ اس کے اپارٹمنٹ کی حالت تھی جس نے کامران کے اضطراب کو اتنا بڑھایا تھا کہ وہ کچھ مشتعل ہو گیا تھا۔
“یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے سالار۔۔۔۔۔ مائی گاڈ۔”سالار کے پیچھے اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی وہ چلا اٹھا تھا۔ سالار اپنی چیزوں کو جس طرح منظم رکھنے کا عادی تھا وہ نظم و ضبط وہاں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہاں ہر چیز ابتر حالت میں نظر آ رہی تھی۔ جگہ جگہ اس کے کپڑے، جرابیں اور جوتے بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں ، اخباروں اور میگزینز کا بھی یہی حال تھا۔ کچن کی حالت سب سے بری تھی اور باتھ روم کی اس سے بھی زیادہ۔ کامران نے کچھ شاک کی حالت میں پورے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔
“کتنے ماہ سے تم نے صفائی نہیں کی ہے؟”
“میں ابھی کر دیتا ہوں۔” سالار نے سردمہری کے عالم میں چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
“تم اس طرح رہنے کے عادی تو نہیں تھے اب کیا ہوا ہے؟”کامران بہت پریشان تھا۔ کامران نے اچانک ایک میز پر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے کے پاس جا کر سگریٹ کو ٹکڑوں کو سونگھنا شروع کر دیا۔ سالار نے چبھتی ہوئی تیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ کامران نے چند لمحوں کے بعد وہ ایش ٹرے نیچے پٹخ دیا۔
“Salar! What are you up to this time? “
“مجھے صاف صفاف بتاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ ڈرگز استعمال کر رہے ہو تم؟”
“نہیں، میں کچھ استعمال نہیں کر رہا۔” اس کے جواب نے کامران کو خاصا مشتعل کر دیا۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے باتھ روم کے آئینے کے سامنے لے آیا۔
“شکل دیکھو اپنی، ڈرگ ایڈکٹ والی شکل ہے یا نہیں اور حرکتیں تو بالکل ویسی ہی ہیں۔ دیکھو، نظریں اٹھاؤ اپنی، چہرہ دیکھو اپنا۔”
وہ اب اسے کالر سے کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے بغٖیر بھی جانتا تھا کہ وہ اس وقت کیسا نظر آ رہا ہو گا۔ گہرے حلقوں اور بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ وہ کیسا نظر آ سکتا تھا۔ رہی سہی کسر ان مہاسوں اور ہونٹوں پر جمی ہوئی پٹریوں نے پوری کر دی تھی جو بے تحاشا کافی اور سگریٹ پینے کا نتیجہ تھے۔ مہاسوں کی وجہ سے اس نے روز شیو کرنی بند کر دی تھی۔ کچھ ناراضی کےعالم میں اس نے کامران سے اپنا کالر چھڑایا اور آئینے پر نظریں دوڑائے بغیر باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی۔
“لعنت برس رہی ہے تمہاری شکل پر۔”
لعنت وہ لفظ تھا جو کامران اکثر استعمال کیا کرتا تھا سالار نے پہلے کبھی اس لفظ کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اس وقت کامران کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ جیسے بھڑک اٹھا تھا۔
“ہاں، لعنت برس رہی ہے میری شکل پر تو؟” وہ قدرے بھپرے ہوئے انداز میں کامران کے سامنے تن کر کھڑا ہو گیا۔
“جب میں کہہ رہا ہوں کہ میں ڈرگز نہیں لے رہا تو میں نہیں لے رہا۔ آپ کو میرا یقین کرنا چاہئیے۔”
“تم پر یقین۔۔۔۔۔”
کامران نے طنزیہ لہجے میں اس کے پیچھے باتھ روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔ اس نے ہونٹ بھینچ لئے اور کمرے کی چیزیں سمیٹنے کا کام جا ری رکھا۔
“یونیورسٹی جا رہے ہو تم؟” سعد کو اچانک ایک اور اندیشہ ہوا۔
“جا رہا ہوں۔” وہ چیزیں اٹھاتا رہا، کامران کو تسلی نہیں ہوئی۔
“میرے ساتھ ہاسپٹل چلو، میں تمہارا چیک اپ کروانا چاہتا ہوں۔”
“اگر آپ یہ سب کرنے آئے ہیں تو بہتر ہے واپس چلے جائیں میں کوئی کنڈر گارٹن کا بچہ نہیں ہوں۔ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔” کامران نے اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر چیزیں اٹھانی شروع کر دیں۔ سالار نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ اس معاملے پر دوبارہ بحث نہیں کرے گا مگر اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ کامران نے اس کے پاس اپنے قیام کو لمبا کر دیا۔ دو تین دن کے بجائے وہ پورا ایک ہفتہ وہاں رہا۔ سالار اس کے قیام کے دوران باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتا رہا مگر کامران اس دوران اس کے دوستوں اور پروفیسرز سے ملتا رہا۔ سمسٹر میں فیل ہونے کی خبر بھی اسے سالار کے دوستوں سے ہی ملی تھی اور کامران کے لئے یہ ایک شاک تھا۔ سالار سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی تھی، مگر سمسٹر میں فیل ہونا وہ بھی اس بری طرح سے جبکہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کے پچھلے ریکارڈ بریک کرتے ہوئے ٹاپ کر رہا تھا۔
اس بار اس نے سالار سے اس معاملے کو ڈسکس نہیں کیا بلکہ پاکستان سکندر عثمان کو فون کر کے اس سارے معاملے سے آگاہ کر دیا۔ سکندر عثمان کے پیروں تلے سے ایک بار پھر زمین نکل گئی تھی۔ سالار نے اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا تھا۔ وہ ایک ڈیڑھ سال کے بعد ان کے لئے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کرتا رہتا تھا اور ہاشم مبین والے معاملے کو بھی اتنا ہی عرصہ ہونے والا تھا۔
“آپ ابھی اس سے اس معاملے پر بات نہ کریں۔ یونیورسٹی میں کچھ چھٹیاں ہونے والی ہیں، آپ اسے پاکستان بلا لیں، کچھ عرصے کے لئے وہاں رکھیں پھر ممی سے کہیں کہ وہ اس کے ساتھ واپسی پر یہاں آ جائیں اور جب تک اس کی تعلیم ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ رہیں۔” کامران نے سکندر عثمان کو سمجھایا۔
سکندر نے اس بار ایسا ہی کیا تھا۔ وہ بغیر بتائے چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے نیو ہیون پہنچ گئے۔
اس کا حلیہ دیکھ کر سکندر عثمان کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگی تھیں مگر انہوں نے کامران کی طرح اس سے بحث نہیں کی۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لئے کہا۔ اس کے احتجاج اور تعلیمی مصروفیات کے بہانے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے زبردستی اس کی سیٹ بک کرا دی اور اسے پاکستان لے آئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ رات ایک بجے پاکستان پہنچے۔ سکندر اور طیبہ سونے کے لئے چلے گئے۔ وہ اپنے کمرے میں آ گیا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد اپنے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ لائٹ آف کر کے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ وہ فلائٹ کے دوران سوتا رہا تھا، اس لئے اس وقت اسے نیند محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ جغرافیائی تبدیلی تھی جس کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا تھا۔
“میں واقعی آہستہ آہستہ بے خوابی کا شکار ہو جاؤں گا۔”
اس نے تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر اسی طرح بیڈ پر کروٹیں بدلتے رہنے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا۔ کمرے کی کھڑکیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے پردوں کو ہٹا دیا۔ اس کی کھڑکیوں کے پار وسیع سائیڈ لان کے دوسرے طرف ہاشم مبین کا گھر نظر آ رہا تھا۔ اس نے اتنے سالوں اس کھڑکی کے پردے آگے پیچھے کرتے کبھی ہاشم مبین کے گھر پر غور نہیں کیا تھا، مگر اس وقت وہ بہت دیر تک تاریکی میں اس گھر کے اوپر والے فلور کی لائٹس میں نظر آنے والی اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ بہت ساری باتیں اسے یک دم یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے پردے ایک بار پھر برابر کر دئیے۔
“وسیم کے گھر والوں کو امامہ کا پتا چلا؟”
اس نے اگلے دن ناصرہ کو بلا کر پوچھا۔ ناصرہ نے اسے کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
“نہیں جی، کہاں پتا چلا۔ انہوں نے تو ایک ایک جگہ چھان ماری ہے، مگر کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا۔ انہیں شک ابھی بھی آپ پر ہی ہے۔ سلمیٰ بی بی تو بہت گالیاں دیتی ہیں آپ کو۔” سالار اسے دیکھتا رہا۔
“گھر کے نوکروں سے بھی پولیس نے بڑی پوچھ گچھ کی تھی مگر میں نے تو مجال ہے ذرا بھی کچھ بتایا ہو۔ انہوں نے مجھے کام سے بھی نکال دیا تھا۔ مجھے بھی، میری بیٹی کوبھی، پھر بعد میں دوبارہ رکھ لیا۔ آپ کے بارے میں، مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں۔ شاید رکھا بھی ان لوگوں نے دوبارہ اسی لئے ہے کہ یہاں کی خبریں میں وہاں دیتی رہوں۔ میں بھی آئیں بائیں شائیں کر کے ٹال دیتی ہوں۔” وہ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی تھی۔
سالار نے فوراً مداخلت کی۔” پولیس ابھی بھی ڈھونڈ رہی ہے؟”
“ہاں جی، ابھی بھی تلاش کر رہے ہیں۔ مجھے زیادہ تو پتا نہیں، وہ لوگ ہر چیز چھپاتے ہیں نوکروں سے۔ امامہ بی بی کی بات بھی نہیں کرتے ہمارے سامنے مگر پھر بھی کبھی کبھار کوئی اڑتی اڑتی خبر مل جاتی ہے ہمیں۔ سالار صاحب! کیا آپ کو بھی امامہ بی بی کا پتا نہیں ہے؟”
ناصرہ نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا۔
“مجھے کیسے پتا ہو سکتا ہے؟” سالار نے ناصرہ کو گھورا۔
“ایسے ہی پوچھ رہی ہوں جی! آپ کے ساتھ ان کی دوستی تھی، اس لئےمیں نے سوچا شاید آپ کو پتا ہو۔ وہ جو ایک بار آپ نے میرے ہاتھ کچھ کاغذات بھجوائے تھے، وہ کس لئے تھے؟” اس کا تجسس اب تشویش ناک حد تک بڑھ چکا تھا۔
“اس گھر کے کاغذات تھے، میں نے یہ گھر اس کے نام کر دیا تھا۔” ناصرہ کامنہ کھلے کاکھلا رہ گیا پھر وہ کچھ سنبھلی۔
“پر جی! یہ گھر تو سکندر صاحب کے نام پر ہے۔”
“ہاں، مگر یہ مجھے تب پتا نہیں تھا۔ یہ بات تم نے ان لوگوں کو بتائی ہے کہ تم یہاں سے کوئی کاغذ لے کے اس کے پاس گئی تھی۔” ناصرہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
“توبہ کریں جی! میں نے کیوں بتانا تھا۔ میں نے تو سکندر صاحب کو نہیں بتایا۔”
“اور یہ ہی بہتر ہے کہ تم اپنا منہ اسی طرح ہمیشہ کے لئے بند رکھو، اگر یہ بات ان کو پتا چلی تو پاپا تمہیں سامان سمیت اٹھا کر گھر سے باہر پھینک دیں گے۔ تم ان کے غصے کو جانتی ہو، جاؤ اب یہاں سے۔”
سالار نے ترشی سے کہا۔ ناصرہ خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ویک اینڈ پر کبھی کبھار ہائکنگ کے لئے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جایا کرتا تھا۔ وہ ویک اینڈ نہیں تھا مگر اچانک ہی اس کا موڈ وہاں جانے کا بن گیا۔
ہمیشہ کی طرح گاڑی نیچے پارک کر کے وہ ایک بیگ اپنی پشت پر ڈالے ہائکنگ کرتا رہا۔ واپسی کا سفر اس نے تب شروع کیا جب سائے لمبے ہونے لگے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اسے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے۔ واپسی کے سفر کو کچھ تیزی سے طے کرنے کے لئے وہ سڑک پر آ گیا جہاں سے عام طور پر لوگ گزرتے تھے۔ اس نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا جب اسے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز سنائی دی۔ سالار نے ایک نظر مڑ کر دیکھا۔ وہ دو لڑکے تھے جو اس سے کافی پیچھے تھے، مگر بہت تیزی سے آگے آ رہے تھے۔
سالار نے گردن واپس موڑ لی اور اسی طرح اپنا نیچے کا سفر جا ری رکھا۔ اسے اپنے حلیے سے وہ لڑکے مشکوک نہیں لگے تھے۔ جینز اور شرٹس میں ملبوس ان کا حلیہ عام لڑکوں جیسا تھا مگر پھر چلتے چلتے اسے یک دم کوئی اپنے بالکل عقب میں محسوس ہوا۔ وہ برق رفتاری سے پلٹا اور ساکت ہو گیا۔ ان دونوں لڑکوں کے ہاتھ میں ریوالور تھے اور وہ اس کے بالکل سامنے تھے۔
“اپنے ہاتھ اوپر کرو ورنہ ہم تمہیں شوٹ کر دیں گے۔”
ان میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دئیے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور بہت تیزی سے اس نے اسے کھینچتے ہوئے دھکا دیا۔ سالار لڑکھڑایا مگر سنبھل گیا۔
“ادھر چلو۔” سالار نے کسی قسم کی مزاحمت کئے بغیر اس طرف جانا شروع کر دیا جہاں وہ اسے سڑک سے ہٹانا چاہتے تھے، تاکہ کوئی یک دم وہاں نہ آ جائے۔ ان میں سے ایک تقریباً اسے دھکیلتے ہوئے اس راستے سے ہٹا کر جھاڑیوں اور درختوں کے بہت اندر تک لے گیا۔
“گھٹنوں کے بل بیٹھو۔” ایک نے درشتی سے اس سے کہا۔
سالار نے خاموشی سے اس کے حکم پر عمل کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ اس کی چیزیں چھینیں گے اور پھر اسے چھوڑ دیں گے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا، جس پر وہ دونوں مشتعل ہو کر اسے نقصان پہنچاتے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور اس نے اس کی پشت پر لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتار لیا۔ اس بیگ میں ایک کیمرہ، چند فلم رول، بیٹری ، ٹیلی اسکوپ، فرسٹ ایڈکٹ، والٹ، پانی کی بوتل اور چند کھانے کی چیزیں تھیں جس لڑکے نے بیگ اتارا تھا وہ بیگ کھول کر اندر موجود چیزوں کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے والٹ کھول کر اس کے اندر موجود کرنسی نوٹ اور کریڈٹ کاررڈز کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس نے بیگ میں سے ٹشو کا پیکٹ نکال لیا اور پھر فرسٹ ایڈکٹ بھی نکال لی۔
“اب تم کھڑے ہو جاؤ۔” اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار اس طرح ہاتھ سر سے اوپر اٹھائے کھڑا ہو گیا۔ اس لڑکے نے اس کی پشت پر جا کر اس کی شارٹس کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں ٹٹولا اور اس میں موجود گاڑی کی چابی نکال لی۔
“گڈ! کار ہے؟” سالار کو پہلی بار کچھ تشویش ہوئی۔
“تم لوگ میرا بیگ لے جاؤ مگر کار کو رہنے دو۔” سالار نے پہلی بار انہیں مخاطب کیا۔
“کیوں؟ کار کو کیوں رہنے دیں۔ تم ہماری خالہ کے بیٹے ہو کہ کار کو رہنے دیں۔” اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا۔
“تم لوگ اگر کار لے جانے کی کوشش کرو گے تو تمہیں بہت سے پرابلمز ہوں گے۔ صرف کار کی چابی مل جانے سے تم کار نہیں لے جا سکو گے۔ اس میں اور بھی بہت سے لاکس ہیں۔” سالار نے ان سے کہا۔
“وہ ہمارا مسئلہ ہے، تمہارا نہیں۔” اس لڑکے نے اس سے کہا اور پھر آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں سے گلاسز کھینچ لئے۔
“اپنے جاگرز اتار دو۔”سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
“جاگرز کس لئے؟” اس بار اس لڑکے نے جواب دینے کے بجائے پوری وقت سے ایک تھپڑ سالار کے منہ پر مارا۔ وہ لڑکھڑا گیا، چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔
“دوبارہ کوئی سوال مت کرنا، جاگرز اتارو۔”
سالار خشمگیں نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ دوسرے لڑکے نے اس پر تانے ہوئے ریوالور کے چیمبر کو ایک بار جتانے والے انداز میں حرکت دی۔ پہلے لڑکے نے ایک اور تھپڑ اس بار سالار کے دوسرے گال پر دے مارا۔
“اب دیکھو اس طرح۔۔۔۔۔ جاگرز اتارو۔” اس نے سختی سے کہا۔ سالار نے اس بار اس کی طرف دیکھے بغیر نیچے جھک کر آہستہ آہستہ اپنے دونوں جاگرز اتار دئیے۔ اب اس کے پیروں میں صرف جرابیں رہ گئی تھیں۔
“اپنی شرٹ اتارو۔” سالار ایک بار پھر اعتراض کرنا چاہتا تھا مگر وہ دوبارہ تھپڑ کھانا نہیں چاہتا تھا۔ اگر ان دونوں کے پاس ریوالور نہ ہوتے تو وہ جسمانی طور پر ان سے بہت بہتر تھا اور یقیناً اس وقت ان کی ٹھکائی کر رہا ہوتا، مگر ان کے پاس ریوالور کی موجودگی نے یک دم ہی اسے ان کے سامنے بے بس کر دیا تھا۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔
“نیچے پھینکو۔” اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار نے شرٹ نیچے پھینک دی۔ اس لڑنے نے اپنے بائیں ہاتھ کو جیب میں ڈال کر کوئی چیز نکالی۔ وہ پلاسٹک کی باریک ڈوری کا ایک گچھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سالار کی سمجھ میں آ گیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بے اختیار پریشان ہوا، شام ہو رہی تھی، کچھ ہی دیر میں وہاں اندھیرا چھا جاتا اور وہ وہاں سے رہائی کس طرح حاصل کرتا۔
“دیکھو، مجھے باندھو مت، میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تم میرا بیگ اور میری کار لے جاؤ۔” اس بار اس نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
اس لڑکے نے کچھ بھی کہے بغیر پوری قوت سے اس کے پیٹ میں ایک گھونسہ مارا۔ سالار درد سے دہرا ہو گیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی۔
“کوئی مشورہ نہیں۔”
اس لڑنے نے جیسے اسے یاد کروایا اور زور سے ایک طرف دھکیلا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے سالار نے اندھوں کی طرح اس کی پیروی کی۔ ایک درخت کے تنے کے ساتھ بٹھا کر اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اس کے دونوں بازوؤں کو پتلے سے تنے کے پیچھے لے جا کر اس کی کلائیوں پر وہ ڈوری لپیٹنا شروع کر دی۔ دوسرا لڑکا سالار سے ذرا فاصلے پر اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتے ہوئے سالار پر ریوالور تانے رہا۔
اس کے ہاتھوں کو اچھی طرح باندھنے کے بعد اس لڑکے نے سامنے آ کر اس کے پیروں کی جرابیں اتاریں اور پھر فرسٹ ایڈکٹ میں موجود قینچی سے اس نے سالار کی شرٹ کی پٹیاں کاٹنی شروع کر دیں۔ ان میں سے کچھ پٹیوں کو اس نے ایک بار پھر بڑی مہارت کے ساتھ اس کے ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ لگا دی پھر اس نے ٹشو کا پیکٹ کھولا اور اس میں موجود سارے ٹشو باہر نکال لئے۔
منہ کھولو۔”سالار جانتا تھا، وہ اب کیا کرنے والا ہے۔ وہ جتنی گالیاں اسے دل میں دے سکتا تھا اس وقت دے رہا تھا ۔ اس لڑکے نے یکے بعد دیگرے وہ سارے ٹشو اس کے منہ میں ٹھونس دئیے اور پھر شرٹ کی واحد بچ جانے والی پٹی کو گھوڑے کی لگام کی طرح اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے اسے باندھ دیا۔
دوسرا لڑکا اب اطمینان سے بیگ بند کر رہا تھا، پھر چند منٹوں کے بعد وہ دونوں وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ ان کے وہاں سے جاتے ہی سالار نے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش شروع کر دی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے باندھا تھا، وہ صرف ہلنے جلنے کی کوشش سے خود کو آزاد نہیں کر سکتا تھا، نہ ہی ڈوری ڈھیلی کر سکتا تھا۔ وہ ڈوری اس کے حرکت کرنے پر اس کے گوشت کے اندر گھستی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کی حالت اس وقت بے حد خراب تھی۔ وہ نہ کسی کو آواز دے سکتا تھا نہ دوسرے طریقے سے خود اپنی طرف کسی کو متوجہ کر سکتا تھا۔
اس کے اردگرد قد آدم جھاڑیاں تھیں اور شام کے ڈھلتے سایوں میں ان جھاڑیوں میں اس کی طرف کسی کا متوجہ ہو جانا کوئی معجزہ ہی ہو سکتا تھا۔ اس کے جسم پر اس وقت لباس کے نام پر صرف گھٹنوں سے کچھ نیچے تک لٹکنے والی برمودا شارٹس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور شام ہونے کے ساتھ ساتھ خنکی بڑھ رہی تھی۔ گھر میں کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ہائکنگ کے لئے آیا ہوا ہے اور جب گھر نہ پہنچنے پر اس کی تلاش شروع ہو گی تب بھی یہاں اس تاریکی میں درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بندھے ہوئے اس کے وجود تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
آدھے گھنٹے کی جدوجہد کے بعد جب اپنے پیروں کے گرد موجود پٹیوں کو ڈھیلا کرنے اور پھر انہیں کھولنے میں کامیاب ہوا، اس وقت سورج مکمل غروب ہو چکا تھا اگر چاند نہ نکلا ہوتا تو شاید وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور اردگرد کے ماحول کو بھی نہ دیکھ پاتا۔اِکا دُکا گزرنے والی گاڑیوں اور لوگوں کا شور اب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے اردگرد جھینگروں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور وہ گردن سے کمر تک اپنی پشت پر درخت کے تنے کی وجہ سے آنے والی رگڑ اور خراشوں کو بخوبی محسوس کر سکتا تھا۔ درخت کے دوسری طرف اس کےہاتھوں کی کلائیوں میں موجود ڈوری اب اس کے گوشت میں اتری ہوئی تھی۔ وہ ہاتھوں کو مزید حرکت دینے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ کلائیوں سے اٹھتی ٹیسیں برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے منہ کے اندر موجود ٹشوز اب گل چکے تھے اور ان کے گلنے کی وجہ سے وہ منہ میں لگام کی طرح کسی ہوئی پٹی کو حرکت دینے لگا تھا مگر وہ گلے سے آواز نکالنے میں اب بھی بری طرح ناکام تھا کیونکہ وہ ان گلے ہوئے ٹشوز کو نہ نگل سکتا تھا، نہ اگل سکتا تھا۔ وہ اتنے زیادہ تھے کہ وہ انہیں چیونگم کی طرح چبانے میں بھی ناکام تھا۔
اس کے جسم پر کپکپی طاری ہو رہی تھی۔ وہ صبح تک اس حالت میں وہاں یقیناً ٹھٹھر کر مر جاتا اگر خوف یا کسی زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے نہ مرتا تو۔ اس کے جسم پر اب چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے اور بار بار وہ اسے کاٹ رہے تھے۔ وہ اپنی برہنہ ٹانگوں پر چلنے اور کاٹنے والے کیڑوں کو جھٹک رہا تھا مگر باقی جسم پر رینگنے والے کیڑوں کو جھٹکنے میں ناکام تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ ان چھوٹے کیڑوں کے بعد اسے اور کن کیڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر وہاں بچھو اور سانپ ہوتے تو۔۔۔۔۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہو رہی تھی۔” آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ آخر میں نے کیا کیا ہے؟” وہ بے چارگی سے سوچنے میں مصروف تھا۔” اور میں یہاں مر گیا تو۔۔۔۔۔ تو میری لاش تک دوبارہ کسی کو نہیں ملے گی۔ کیڑے مکوڑے اور جانور مجھے کھا جائیں گے۔”
اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ ایک عجیب طرح کے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا۔ تو کیا میں اس طرح مروں گا، یہاں۔۔۔۔۔ اس حالت میں۔۔۔۔۔ بے لباس۔۔۔۔۔ بے نشان۔۔۔۔۔ گھر والوں کو پتا تک نہیں ہو گا میرے بارے میں۔ کیا میرا انجام یہ ہونا ہے۔۔۔۔۔ اس کے دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ اسے اپنی موت سے یک دم خوف آیا اتنا خوف کہ اسے سانس لینا مشکل لگنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے موت اس کے سامنے اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو۔ اس کے انتظار میں۔ یہ دیکھنے کہ وہ کس طرح سسک سسک کر مرتا ہے۔
وہ درد کی پرواہ کئے بغیر ایک بار پھر اپنی کائیوں کی ڈوری کو توڑنے یا ڈھیلی کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کے بازو شل ہونے لگے۔
پندرہ منٹ بعد اس نے ایک بار پھر اپنی جدوجہد چھوڑ دی اور اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس کے منہ کی پٹی ڈھیلی ہو گئی تھی، وہ گردن کو ہلاتے ہوئے اسے منہ سے نکال سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے ٹشوز نکال دئیے تھے۔ اگلے کئی منٹ وہ گہرے سانس لیتا رہا پھر وہ بلند آواز میں اپنی مدد کے لئے آوازیں دینے لگا۔ اتنی بلند آواز میں جتنی وہ کوشش کر سکتا تھا۔
اس کا انداز بالکل ہذیانی تھا۔ آدھے گھنٹے تک مسلسل آوازیں دیتے رہنے کے بعد اس کی ہمت اور گلا دونوں جواب دے گئے۔ اس کا سانس پھول رہا تھا، یوں جیسے وہ کئی میل دوڑتا رہا ہو مگر اب بھی کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ کلائی کے زخم اب اس کے لئے ناقابل برداشت ہو رہے تھے اور کیڑے اب اس کے چہرے اور گردن پر بھی کاٹ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتا تھا یک دم اسے کیا ہوا، بس وہ بلند آواز میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ زندگی میں پہلی بار بری طرح رو رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بے بسی کا احساس ہو رہا تھا اور اس وقت درخت کے اس تنے کے ساتھ بندھے سسکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ وہ مرنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ موت سے اسی طرح خوف زدہ ہو رہا تھا جس طرح، نیو ہیون میں ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا وہ کتنی دیر اسی طرح بے بسی کے عالم میں بلند آواز میں روتا رہا پھر اس کے آنسو خشک ہونے لگے۔ شاید وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اب رونا بھی اس کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔ نڈھال سا ہو کر اس نے درخت کے تنے سےسر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے کندھوں اور بازوؤں میں اتنا درد ہو رہا تھا کہ اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر میں مفلوج ہو جائیں گے پھر وہ کبھی انہیں حرکت نہیں دے سکے گا۔
“میں نے کبھی کسی کے ساتھ اس طرح نہیں کیا پھر میرے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟” اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے۔
“سالار! میرے لئے پہلے ہی بہت پرابلمز ہیں، تم اس میں اضافہ نہ کرو، میری زندگی پہلے بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اور مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ کم از کم تم تو میری سچویشن کو سمجھو، میری مشکلات کو مت بڑھاؤ۔” درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائے سالار نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔نیچے، بہت نیچے، بہت دور۔۔۔۔۔اسلام آباد کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں۔
“میں تمہارے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں؟میں۔۔۔۔ مائی ڈئیر امامہ ! میں تو تمہاری مدد میں گھل رہا ہوں۔ تمہارے مسائل ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم خود سوچو، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزار سکتی ہو۔” سالار نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
“سالار! مجھے طلاق دے دو۔”بھرائی ہوئی لجاجت آمیز آواز۔
“سویٹ ہارٹ! تم کورٹ میں جا کر لے لو۔ جیسا کہ تم کہہ چکی ہو۔”
وہ اب چپ چاپ خود سے بہت دور نظر آنے والی روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی اس کے سامنے جیسے آئینہ لے کر کھڑا ہو گیا تھا جس میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کا بھی۔
“میں نے امامہ کے ساتھ صرف مذاق کیا تھا۔” وہ بڑ بڑایا۔
“میں۔۔۔۔ میں اسے کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔” اسے اپنے الفاظ کھوکھلے لگے۔
وہ پتا نہیں کس کو وضاحت دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔
“میں مانتا ہوں، مجھ سے کچھ غلطیاں ہو گئیں۔”
اس بار اس کی آواز بھرائی ہوئی سرگوشی تھی۔” میں نے جانتے بوجھتے اس کے لئے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے دھوکا دیا مگر مجھ سے غلطی ہو گئی اور مجھے پچھتاوا بھی ہے۔ میں جانتا ہوں میرے طلاق نہ دینے سے اور جلال کے بارے میں جھوٹ بول دینے سے اسے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہو گا۔ مجھے واقعی پچھتاوا ہے اس سب کے لئے مگر اس کے علاوہ تو میں نے کسی اور کو کبھی دھوکا نہیں دیا، کسی کے لئے پریشانی کھڑی نہیں کی۔”
وہ ایک بار پھر رونے لگا۔
“میرے خدا۔۔۔۔۔ اگر ایک بار میں یہاں سے بچ گیا، میں یہاں سے نکل گیا تو میں امامہ کو ڈھونڈوں گا، میں اسے طلاق دے دوں گا، میں جلال کے بارے میں بھی اسے سچ بتا دوں گا۔ بس ایک بار آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔”
وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔ پہلی بار اسے احساس ہو رہا تھا کہ امامہ نے اس کے طلاق دینے سے انکار پر کیا محسوس کیا ہو گا۔ شاید اسی طرح اس نے بھی اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کئے ہوں گے جس طرح وہ کر رہا تھا۔
وہاں بیٹھے ہوئے پہلی بار وہ امامہ کی بے بسی، خوف اور تکلیف کو محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے جلال انصر کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے جھوٹ پر امامہ کے چہرے کا تاثر اسے اب بھی یاد تھا۔ اس وقت وہ اس تاثر سے بے حد محظوظ ہوا تھا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور تک تقریباً پوری رات روتی رہی تھی اور وہ بے حد مسرور تھا۔
وہ اس وقت اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا اندازہ کر سکتا تھا۔ اس اندھیری رات میں اس گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسے اپنے آگے اور پیچھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہو گا۔ واحد پناہ گاہ، جس کا وہ سوچ کر نکلی تھی وہ جلال انصر کا گھر تھا اور سالار سکندر نے اسے وہاں جانے نہیں دیا تھا۔ وہ رات کے اس پہر وہاں اعصاب میں اترنے والی تاریکی میں بیٹھ کر ان اندیشوں اور خوف کا اندازہ کر سکتا تھا جو اس رات امامہ کو رلا رہے تھے۔
“مجھے افسوس ہے، مجھے واقعی افسوس ہے لیکن۔۔۔۔۔لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔اگر۔۔۔۔۔ اگر وہ مجھے دوبارہ ملی تو میں اس سے ایکسکیوز کر لوں گا۔ میں جس حد تک ممکن ہوا اس کی مدد کروں گا مگر اس وقت۔۔۔۔۔ اس وقت تو میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اگر۔۔۔۔ اگر میں نے کبھی۔۔۔۔۔۔ کبھی کوئی نیکی کی ہے تو اس کے بدلے رہائی دلا دے۔ اوہ گاڈ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ پلیز۔” اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اپنی نیکیاں گننے کی کوشش کی جنہیں کو گنوا سکے۔ اس وقت پہلی بار اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ اس نے زندگی میں اب تک کوئی نیکی نہیں کی تھی۔ کوئی نیکی جسے وہ اس وقت اللہ کے سامنے پیش کر کے اس کے بدلے میں رہائی مانگتا۔ ایک اور خوف نے پھر اس کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی خیرات نہیں کی تھی اور وہ اس پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں ٹپ خوش دلی سے دیا کرتا تھا، مگر کبھی کسی فقیر کے ہاتھ پھیلانے پر اس نے اسے کچھ نہیں دیا تھا۔
اسکول کالج میں مختلف کاموں کے لئے جب فنڈ جمع ہوتے تب بھی وہ ٹکٹس خریدنے یا بیچنے سے صاف انکار کر دیتا۔
“میں چیریٹی پر یقین نہیں رکھتا۔” اس کی زبان پر روکھے انداز میں صرف ایک ہی جملہ ہوتا۔
“میرے پاس اتنی فالتو رقم نہیں ہے کہ میں ہر جگہ لٹاتا پھروں۔” اس کا یہ رویہ نیو ہیون میں بھی جاری رہا تھا۔ یہ سب صرف چیریٹی تک ہی محدود نہیں تھا۔ وہ چیریٹی کے علاوہ بھی کسی کی مدد کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اسے کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آیا، جب اس نے کسی کی مدد کی ہو، صرف امامہ کی مدد کی تھی اور اس مدد کے بعد اس نے جو کچھ کیا تھا اس کے بعد وہ اسے نیکی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ عبادت کرنے کا بھی عادی نہیں تھا۔ شاید بچپن میں اس نے چند بار سکندر کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ہو مگر وہ بھی عبادت سے زیادہ ایک رسم تھی۔ اسے نیو ہیون میں وہ رات یاد آئی جب وہ عشاء کی نماز ادھوری چھوڑ کر بھاگ آیا تھا اور اس کے ساتھ اسے اس hooker کو دئے ہوئے 50 ڈالرز بھی یاد آئے۔ شاید وہ واحد موقع تھا جب اسے کسی پر ترس آیا تھا۔ وہ مستقل اپنے ذہن کو اپنی کسی نیکی کی تلاش میں کھنگالتا رہا مگر ناکام رہا۔
اور پھر اسے اپنے گناہ یاد آنے لگے۔ کیا تھا جو وہ نہیں کر چکا تھا۔ اس کے آنسو ، گڑگڑانا، رونا سب کچھ یک دم ختم ہو گیا۔ حساب کتاب بالکل صاف تھا۔ وہ اگر آج اس حالت میں مر جاتا تو اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوتی۔ بائیس سال کی عمر میں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے صرف کرنے پر بھی جس شخص کو اپنی کوئی نیکی یاد نہ آئے جبکہ اس شخص کا آئی کیو لیول 150 ہو اور اس کی میموری فوٹوگرافک۔۔۔۔۔ وہ شخص اللہ سے یہ چاہتا ہو کہ اسے اس کی کسی نیکی کے بدلے اس آزمائش سے رہا کر دیا جائے جس میں وہ پھنس گیا ہے۔
“What is next to ecstasy?”
اس نے ٹین ایج میں کوکین پیتے ہوئے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا تھا، وہ بھی کوکین لے رہا تھا۔
“more ecstasy”
اس نے کہا تھا۔ اس نے کوکین لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
There is no end to ecstasy, it is preceded by pleasure and followed by more ecstasy.
وہ نشے کی حالت میں اس سے کہہ رہا تھا۔ سالار مطمئن نہیں ہوا۔
No, it does end. What happens when it ends? When it really ends?
اس کے دوست نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔
You know it yourself, don’t you? You have been through it off and on.
سالار جواب دینے کے بجائے دوبارہ کوکین لینے لگا تھا۔
اس کی کلائیوں کے گوشت میں اترتی ڈوری اسے اب جواب دے رہی تھی۔
“Pain” (درد)
What is next to pain?
اس نے مضحکہ خیز لہجے میں اس رات امامہ ہاشم سے پوچھا تھا۔
Nothingness
رسی نما کوئی چیز لہراتے ہوئے اس کے جسم پر گری تھی۔ اس کے سر، چہرے،گردن، سینے، پیٹ۔۔۔۔۔اور وہاں سے تیز رفتاری سے رینگتی ہوئی اتر گئی۔ سالار نے کانپتے جسم کے ساتھ اپنی چیخ روکی تھی۔ وہ کوئی سانپ تھا جو اسے کاٹے بغیر چلا گیا تھا۔ اس کا جسم پسینے میں نہا گیا تھا۔ اس کا جسم اب جاڑے کے مریض کی طرح تھرتھر کانپ رہا تھا۔
“Nothingness”
آواز بالکل صاف تھی۔
“And what is next to nothingness?”
تحقیر آمیز آواز اور مسکراہٹ اس کی تھی۔
“Hell”
اس نے یہی کہا تھا۔ وہ پچھلے آٹھ گھنٹے سے وہاں بندھا ہوا تھا۔ اس ویرانے، اس تاریکی ، اس وحشت ناک تنہائی میں۔ وہ پورا ایک گھنٹہ حلق کے بل پوری وقت سے مدد کے لئے پکارتا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا حلق آواز نکالنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
Nothingness سے Hell وہ ان دونوں کے بیچ کہیں معلق تھا یا شاید Nothingness میں داخل ہونے والا تھا اور Hell تک پہنچنے والا تھا۔
“تمہیں خوف نہیں آتا یہ پوچھتے ہوئے کہ Hell کہ بعد کیا آئے گا؟ دوزخ کے بعد آگے کیا آ سکتا ہے؟ انسان کے معتوب اور مغضوب ہوجانے کے بعد باقی بچتا ہی کیا ہے جسے جاننے کا تمہیں اشتیاق ہے؟”
سالار نے وحشت بھری نظروں سے اردگرد دیکھا۔ وہ کیا تھا قبر یا دوزخ یا زندگی میں اس کا ایک منظر۔۔۔۔۔بھوک ، پیاس، بےبسی، بے یاری ومددگاری، جسم پر چلتے کیڑے جنہیں وہ خود کو کاٹنے سے روک تک نہیں پا رہا تھا۔ مفلوج ہوتے ہوئے ہاتھ پاؤں، پشت اور ہاتھوں کی کلائیوں پر لمحہ بہ لمحہ بڑھتے ہوئے زخم۔۔۔۔ خوف تھا یا دہشت، پتا نہیں کیا تھا مگر وہ بلند آواز میں پاگلوں کی طرح چیخیں مارنے لگا تھا۔ اس کی چیخیں دور دور تک فضا میں گونج رہی تھیں۔ ہذیانی اور جنونی انداز میں بلند کی جانے والی بے مقصد اور خوفناک چیخیں۔ اس نے زندگی میں اس طرح کا خوف کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ کبھی بھی نہیں۔ اسے اپنے اردگرد وعجیب سے بھوت چلتے پھرتے نظر آنے لگے تھے۔
اسے لگا رہا تھا اس کے دماغ کی رگ پھٹنے والی ہے یا پھر نروس بریک ڈاون، پھر اس کی چیخیں آہستہ آہستہ دم توڑتی گئیں۔ اس کا گلا پھر بند ہو گیا تھا۔ اب صرف سرسراہٹیں تھیں جو اسے سنائی دے رہی تھیں۔ اسے یقین ہو چکا تھا کہ وہ اب مر رہا ہے۔ اس کا ہارٹ فیل ہو رہا ہے یا پھر وہ اپنا ذہنی توازن کھو دینے والا ہے اور اسی وقت اچانک تنے کے پیچھے بندھی ہوئی کلائیوں کی ڈوری ڈھیلی ہو گئی۔ ہوش و حواس کھوتے ہوئے اس کے اعصاب نے ایک بار پھر جھٹکا لیا۔
اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دباتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو حرکت دی۔ ڈوری اور ڈھیلی ہوتی گئی۔ شاید مسلسل تنے کی رگڑ لگتے لگتے درمیان سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس نے ہاتھوں کو کچھ اور حرکت دی اور تب اسے احساس ہوا کہ وہ درخت کے تنے سے آزاد ہو چکا تھا۔
اس نے بے یقینی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو سیدھا کیا۔ درد کی تیز لہریں سے کے بازوؤں سے گزریں۔
“کیا میں، میں بچ گیا ہوں؟”
“کیوں؟ کس لئے؟”ماؤف ہوتے ہوئے ذہن کے ساتھاس نے اپنی گردن کے گرد موجود اس پٹی کو اتارا جو پہلے اس کے منہ کے گرد باندھی گئی تھی، بازوؤں کو دی گئی معمولی حرکت سے اس کے منہ سے کراہ نکلی تھی۔ اس کے بازوؤں میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ اتنی تکلیف کہ اسے لگ رہا تھا وہ دوبارہ کبھی اپنے بازو استعمال نہیں کر سکے گا۔ اس کی ٹانگیں بھی سن ہو رہی تھیں۔ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔ وہ لڑکھڑا کر بازوؤں کے بل زمین پر گرا۔ ہلکی سی چیخ اس کے منہ سے نکلی۔ اس نے دوسری کوشش ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل کی۔ اس بار وہ کھڑا ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
وہ دونوں لڑکے اس کے جاگرز اور گھڑی بھی لے جا چکے تھے۔ اس کی جرابیں وہیں کہیں پڑی تھیں۔ وہ اندھیرے میں انہیں ٹٹول کر پہن سکتا تھا مگر بازوؤں اور ہاتھوں کو استعمال میں لانا پڑتا اور وہ اس وقت یہ کام کرنے کے قابل نہیں تھا نہ جسمانی طور پر، نہ ذہنی طور پر۔
وہ اس وقت صرف وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ ہر قیمت پر، اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتا، جھاڑیوں سے الجھتا، خراشیں لیتا وہ کسی نہ کسی طرح اس راستے پر آ گیا تھا جس راستے سے وہ دونوں ہٹا کر اسے وہاں لے آئے تھے اور پھر ننگے پاؤں اس نے نیچے کا سفر طے کیا۔ اس کے پیروں میں پتھر اور کنکریاں چبھ رہی تھیں مگر وہ جس ذہنی اور جسمانی اذیت کا شکا تھا اس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وقت کیا ہوا تھا مگر اسے یہ اندازہ تھا کہ آدھی رات سے زیادہ گزر چکی ہے۔ اسے نیچے آنے میں کتنا وقت لگا اور اس نے یہ سفر کس طرح طے کیا۔ وہ نہیں جانتا۔۔۔۔۔ اسے صرف یہ یاد تھا کہ وہ پورے راستے بلند آواز سے روتا رہا تھا۔
اسلام آباد کی سڑکوں پر آ کر اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں بھی اس نے اپنے حلیے کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی کہیں رکنے کی خواہش کی نہ ہی کسی کی مدد لینے کی۔ وہ اسی طرح روتا ہوا لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر چلتا رہا۔
وہ پولیس کی ایک پٹرولنگ کار کی جس نے سب سے پہلے اسے دیکھا تھا اور اس کے پاس آ کر رک گئی۔ اندر موجود کانسٹیبل اس کے سامنے نیچے اترے اور اسے روک لیا۔ وہ پہلی بار حوش و حواس میں آیا تھا مگر اس وقت بھی وہ اپنی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں پر قابو پانے میں ناکام ہو رہا تھا وہ لوگ اب اس سے کچھ پوچھ رہے تھے، مگر وہ کیا جواب دیتا۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
“ابھی اور کتنی دیر اسے یہاں رکھنا پڑے گا؟”
“زیادہ دیر نہیں، جیسے ہی ہوش آتا ہے ہم دوبارہ چیک اپ کریں گے، پھر ڈسچارج کر دیں گے زیادہ شدید قسم کی انجریز نہیں ہیں۔ بس گھر میں کچھ دنوں تک مکمل طور پر ریسٹ کرنا پڑے گا۔
اس کا ذہن لاشعور سے شعور کا سفر طے کر رہا تھا۔ پہلے جو صرف بے معنی آوازیں تھیں اب وہ انہیں مفہوم پہنا رہا تھا۔ آوازوں کو پہچان رہا تھا ان میں سے ایک آواز سکندر عثمان کی تھی۔ دوسری یقیناً کسی ڈاکٹر کی۔سالار نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھیں یک دم چندھیا گئی تھیں۔کمرے میں بہت تیز روشنی تھی یا کم از کم اسے ایسا ہی لگا تھا۔ وہ ان کے فیملی ڈاکٹر کا پرائیویٹ کلینک تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی یہاں ایسے ہی ایک کمرے میں رہ چکا تھا اور یہ پہچاننے کے لئے ایک نظر ہی کافی تھی اس کا ذہن بالکل صحیح کام کر رہا تھا۔
جسم کے مختلف حصوں میں ہونے والے درد کا احساس اسے پھر ہونے لگا تھا۔ اس کے باوجود کہ اب وہ ایک بہت نرم اور آرام دہ بستر میں تھا۔
اس کے جسم پر وہ لباس نہیں تھا جو اس نے اس سرکاری ہسپتال میں پہنا تھا، جہاں سے لے جایا گیا تھا۔ وہ ایک اور لباس میں ملبوس تھا اور یقیناً اس کے جسم کو پانی کی مدد سے صاف بھی کیا گیا تھا کیونکہ اسے آدھے بازوؤں والی شرٹ سے جھانکتے اپنے بازوؤں پر کہیں بھی مٹی یا گرد نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس کی کلائیوں کے گرد پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس کے بازوؤں پر چھوٹے چھوٹے بہت سے نشانات تھے۔ بازو اور ہاتھ سوجے ہوئے تھے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ ایسے ہی بہت سے نشانات اس کے چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی ہوں گے۔ اسے اپنی ایک آنکھ بھی سوجی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور اس کے جبڑے بھی دکھ رہے تھے مگر اس سے بھی زیادہ برا حال گلے کا تھا۔ اس کے بازو میں ایک ڈرپ لگی ہوئی تھی جو اب تقریباً ختم ہونے والی تھی۔
پہلی بار اس کو ہوش میں ڈاکٹر نے ہی دیکھا تھا۔ وہ ان کا فیملی ڈاکٹر نہیں تھا۔ شاید اس کے ساتھ کام کرنے والا کوئی اور فزیشن تھا۔ اس نے سکندر کو اس کی طرف متوجہ کیا۔
“ہوش آ گیا ہے؟” سالار نے ایک صوفے پر بیٹھی طیبہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا مگر سکندر آگے نہیں آئے تھے۔ڈاکٹر اب اس کے پاس آ کر اس کی نبض چیک کر رہا تھا۔
“اب تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟”
سالار جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے حلق سے آواز نہیں نکل سکی۔ وہ صرف منہ کھول کر رہ گیا۔ ڈاکٹر نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ، سالار نے تکیے پر رکھا ہوا اپنا سر نفی میں ہلایا۔” بولنے کی کوشش کرو۔” ڈاکٹر شاید پہلے ہی اس کے گلے کے پرابلم کے بارے میں جانتا تھا۔ سالار نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر نے نرس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے سے ایک ٹارچ نما آلہ اٹھایا۔
“منہ کھولیں۔” سالار نے دیکھتے جبڑوں کے ساتھ اپنا منہ کھول دیا۔ ڈاکٹر کچھ دیر اس کے حلق کا معائنہ کرتا رہا پھر اس نے ٹارچ بند کر دی۔
“گلے کا تفصیلی چیک اپ کرنا پڑے گا۔”اس نے مڑ کر سکندر عثمان کو بتایا پھر اس نے ایک رائٹنگ پیڈ اور پین سالار کی طرف بڑھایا۔ نرس تب تک اس کے بازو میں لگی ڈرپ اتار چکی تھی۔
“اٹھ کر بیٹھو اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔ گلے کو۔” اسے اٹھ کر بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ نرس نے تکیہ اس کے پیچھے رکھ دیا تھا اور وہ رائٹنگ پیڈ ہاتھ میں لئے سوچتا رہا۔
“کیا ہوا تھا؟ گلے کو، جسم کو، دماغ کو۔” وہ کچھ بھی لکھنے کے قابل نہیں تھا۔ سوجی ہوئی انگلیوں میں پکڑے پین کو وہ دیکھتا رہا۔ اسے یاد تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اسے اپنی وہ چیخیں یاد آ رہی تھیں جنہوں نے اب اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ کیا لکھا جائے یہ کہ مجھے ایک پہاڑ پر ساری چیزیں چھین کر باندھ دیا گیا تھا یا پھر یہ کہ مجھے چند گھنٹوں کے لئے زندہ قبر میں اتار دیا گیا تھا تاکہ مجھے سوالوں کا جواب مل جائے۔
“What is next to ecstasy?”
وہ سفید صاف کاغذکو دیکھتا رہا پھر اس نے مختصر سی تحریر میں اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ تحریر کر دیا۔ ڈاکٹر نے رائٹنگ پیڈ پکڑ کر ایک نظر ان سات آٹھ جملوں پر ڈالی اور پھر اسے سکندر عثمان کی طرف بڑھا دیا۔
“آپ کو چاہئیے کہ فوری طور پر پولیس سے رابطہ کریں، تاکہ کار برآمد کی جا سکے، پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے۔ پتا نہیں وہ گاڑی کہاں سے کہاں لے جا چکے ہوں گے۔” ڈاکٹر نے ہمدردانہ انداز میں سکندر کو مشورہ دیا۔ سکندر نے رائٹنگ پیڈ پر ایک نظر ڈالی۔
“ہاں، میں پولیس سے کانٹیکٹ کرتا ہوں۔” پھر کچھ دیر ان دونوں کے درمیان اس کے گلے کے چیک اپ کے سلسلے میں بات ہوتی رہی پھر ڈاکٹر نرس کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سکندر عثمان نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رائٹنگ پیڈ سالار کے سینے پر دے مارا۔
“یہ جھوٹ کا پلندہ اپنے پاس رکھو۔۔۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اب میں تمہاری کسی بات پر اعتبار کروں گا۔ نہیں کبھی نہیں۔”
سکندر بے حد مشتعل تھے۔
“یہ بھی تمہارا کوئی نیا ایڈونچر ہو گا۔ خود کشی کی کوئی نئی کوشش۔”
وہ کہنا چاہتا تھا۔”فارگاڈسیک۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔”مگر وہ گونگوں کی طرح ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔
“میں کیا کہوں ڈاکٹر سے کہ اس کو عادت ہے ایسے تماشوں اور ایسی حرکتوں کی، یہ پیدا ہی ان کاموں کے لئے ہوا ہے۔”
سالار نے سکندر عثمان کو کبھی اس حد تک مشتعل نہیں دیکھا تھا، اشید وہ واقعی اب اس سے تنگ آ چکے تھے۔ طیبہ خاموشی سے پاس کھڑی تھیں۔
“ہر سال ایک نیا تماشا، ایک نئی مصیبت، آخر تمہیں پیدا کر کے کیا گناہ کر بیٹھے ہیں ہم۔”
سکندر عثمان کو یقین تھا یہ بھی اس کے کسی نئے ایڈونچر کا حصہ تھا۔ جو لڑکا چار بار خود کو مارنے کی کوشش کر سکتا تھا اس کے ہاتھ پاؤں پر موجود ان زخموں کو کوئی ڈکیتی قرار نہیں دے سکتا تھا وہ بھی اس صورت میں جب اس واقعے کاکوئی گواہ نہیں تھا۔
سالار کو”شیر آیا، شیر آیا” والی کہانی یاد آئی۔ بعض کہانیاں واقعی سچی ہوتی ہیں۔ وہ بار بار جھوٹ بول کر اب اپنا اعتبار گنوا چکا تھا۔ شاید وہ سب کچھ ہی گنوا چکا تھا۔ اپنی عزت، خوداعتمادی، غرور، فخر ، ہر چیز وہ کسی پاتال میں پہنچ گیا تھا۔
“کوئی نیا ڈرامہ کئے بڑے دن گزر گئے تھے تمہیں تو تم نے سوچا ماں باپ کو محروم کیوں رکھوں، انہیں خوار اور ذلیل کئے بڑا عرصہ ہو گیا ہے۔ اب نئی تکلیف دینی چاہئیے۔”
“ہو سکتا ہے سکندر! یہ ٹھیک کہہ رہا ہو۔ آپ پولیس کو گاڑی کے بارے میں اطلاع تو دیں۔”
اب طیبہ رائٹنگ پیڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کے بعد سکندر سے کہہ رہی تھیں۔
“یہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟ کبھی آج تک ٹھیک کہا ہے اس نے، مجھے اس بکواس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں ہے۔”
تمہارا یہ بیٹا کسی دن مجھے اپنی کسی حرکت کی وجہ سے پھانسی پر چڑھا دے گا اور تم کہہ رہی ہو پولیس کو اطلاع دوں، اپنا مذاق بنواؤں ۔ کار کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ کیا ہو گا اس نے، بیچ دی ہو گی کسی کو یا کہیں پھینک آیا ہو گا۔”
وہ اب اسے واقعی گالیاں دے رہے تھے۔ اس نے کبھی انہیں گالیاں دیتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ وہ صرف ڈانٹا کرتے تھے اور وہ ان کی ڈانٹ پر بھی مشتعل ہو جایا کرتا تھا۔ چاروں بھائیوں میں وہ واحد تھا جو ماں باپ کی ڈانٹ سننے کا بھی روادار نہیں تھا اور اس سے بات کرتے ہوئے سکندر بہت محتاط ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ کسی بھی بات پر مشتعل ہو جایا کرتا تھا، مگر آج پہلی دفعہ سالار کو ان کی گالیوں پر بھی غصہ نہیں آیا تھا۔
وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس نے انہیں کس حد تک زچ کر دیا ہے۔ وہ پہلی بار اس بیڈ پر بیٹھے اپنے ماں باپ کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کای چیز تھی جو انہوں نے اسے نہیں دی تھی۔ اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے وہ اس کی فرمائش پوری کر دینے کے عادی تھے اور وہ اس کے بدلے میں انہیں کیا دیتا رہا تھا۔ کیا دے رہا تھا،ذہنی اذیت، پریشانی، تکلیف، اس کے علاوہ اس کے بہن بھائیوں میں سے کسی نے ان کے لئے کوئی پریشانی نہیں کھڑی کی تھی۔ صرف ایک وہ تھا جو۔۔۔۔۔
“کسی دن تمہاری وجہ سے ہم دونوں کو خودکشی کرنی پڑے گی۔ تمہیں تب ہی سکون ملے گا،صرف تب ہی چین آئے گا تمہیں۔”
پچھلی رات اس پہاڑ پر اس طرح بندھے ہوئے اسے پہلی بار ان کی یاد آئی تھی۔ پہلی بار اسے پتا چلا تھا کہ اسے ان کی کتنی ضرورت تھی، وہ ان کے بغیر کیا کرے گا، اس کے لئے ان کے علاوہ کون پریشان ہو گا۔
اسے سکندر کے لفظوں سے زندگی میں پہلی بار کوئی بے عزتی محسوس نہیں ہو رہی تھی وہ ہمیشہ سے سکندر کے زیادہ قریب رہا تھا اور اس کے سب سے زیادہ جھگڑے بھی ان ہی کے ساتھ ہوتے رہتے تھے۔
“میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں دوبارہ کبھی تمہاری شکل تک نہ دیکھوں۔ تمہیں دوبارہ وہیں پھنکوا دوں جس جگہ کے بارے میں تم جھوٹ بول رہے ہو۔”
“اب بس کرو سکندر۔” طیبہ نے ان کو ٹوکا۔
“میں بس کروں۔۔۔۔۔ یہ کیوں بس نہیں کرتا، کبھی تو ترس کھا لے یہ ہم لوگوں پر اور اپنی حرکتیں چھوڑ دے۔ کیا اس پر یہ فرض کر کے اسے زمین پر اتارا گیا تھا کہ یہ ہماری زندگی عذاب بنا دے۔”
سکندر طیبہ کی بات پر مزید مشتعل ہو گئے۔
“ابھی وہ پولیس والے بیان لینے آ جائیں گے۔ جنھوں نے اسے سڑک پر پکڑا تھا۔ یہ بکواس پیش کریں گے ان کے سامنے کہ اس بیچارے کو کسی نے لوٹ لیا ہے۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ اس بار واقعی کوئی اسے لوٹتا اور اسے پہاڑ پر سے نیچے پھینکتا تاکہ میری جان چھوٹ جاتی۔”
سالار بے اختیار سسکنے لگا۔ سکندر اور طیبہ بھونچکا رہ گئے، وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے رو رہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار اسے روتا دیکھ رہے تھے اور وہ بھی ہاتھ جوڑے، وہ کیا کر رہا تھا؟کیا چاہ رہا تھا؟ کیا بتا رہا تھا؟ سکندر عثمان بالکل ساکت تھے، طیبہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئیں، انہوں نے سالار کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تھپکنے کی کوشش کی۔ وہ بچوں کی طرح ان سے لپٹ گیا۔
اس کی پائینتی کی طرف کھڑے سکندر عثمان کو اچانک احساس ہوا کہ شاید اس بار وہ چھوٹ نہیں بول رہا۔ شاید اس کے ساتھ واقعی کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ طیبہ کے ساتھ لپٹا ننھے بچوں کی طرح ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ طیبہ اسے چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو کیا بڑی بڑی باتوں پر بھی رونے کا عادی نہیں تھا، پھر آج کیا ہوا تھا کہ اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔
اس سے دور کھڑے سکندر عثمان کے دل کو کچھ ہونے لگا۔
“اگر یہ ساری رات واقعی وہاں بندھا رہا تھا تو۔۔۔۔۔؟”
وہ ساری رات اس کے انتظار میں جاگتے رہے تھے اور بگڑتے رہے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ وہ گاڑی لے کر پھر کہیں لاہور یا کہیں اور آوارہ گردی کے لئے چلا گیا ہو گا۔ انہیں تشویش ہو رہی تھی مگر وہ سالار کی حرکتوں سے واقف تھے۔ اس لئے تشویش سے زیادہ غصہ تھا اور ڈھائی تین بجے کے قریب وہ سونے کے لئے چلے گئے تھے جب انہیں فون پر پولیس کی طرف سے یہ اطلاع ملی۔
وہ ہاسپٹل پہنچے تھے اور انہوں نے اسے وہاں بہت ابتر حالت میں دیکھا تھا مگر وہ یہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے وہ خود کو اذیت پہنچاتا رہا تھا جو شخص اپنی کلائی کاٹ لے، ون وے کو توڑتے ہوئے ٹریفک کی بھیڑ میں اپنی بائیک دے مارے، سلیپنگ پلز لے لے، اپنے آپ کو باندھ کر پانی میں الٹا کود جائے۔ اس کے لئے ایک بار پھر اپنی یہ حالت کرنا کیا مشکل تھا۔
اس کا جسم کیڑوں کے کاٹنے کے نشانات سے جگہ جگہ بھرا ہوا تھا۔ بعض جگہوں پر نیلاہٹ تھی۔ اس کے پیر بھی بری طرح سے زخمی تھے۔ ہاتھوں کی کلائیوں، گردن اور پشت کا بھی یہی حال تھا اور اس کے جبڑوں پر بھی خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود سکندر عثمان کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی کارستانی ہی ہو گی۔
شاید اس وقت وہ بولنے کے قابل ہوتا اور وضاحتیں پیش کرتا تو وہ کبھی بھی اس پر یقین نہ کرتے مگر اسے اس طرح ہچکیوں کے ساتھ روتے دیکھ کر انہیں یقین آنے لگا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
وہ کمرے سے باہر نکل گئے اور انہوں نےموبائل پر پولیس سے رابطہ کیا۔ ایک گھنٹے کے بعد انہیں پتا چل گیا کہ سرخ رنگ کی ایک سپورٹس کار پہلے ہی پکڑی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ دو لڑکے بھی۔ پولیس نے انہیں ایک معمول کی چیکنگ کے دوران لائسنس اور گاڑی کے کاغذات نہ ہونے پر گھبرا جانے پر پکڑا تھا۔ انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ انہوں نے گاڑی کہیں سے چھینی تھی، وہ صرف یہی کہتے رہے کہ وہ گاڑی انہیں کہیں ملی تھی اور وہ صرف شوق اور تجسس سے مجبور ہو کر چلانے لگے چونکہ پولیس کے پاس ابھی تک کسی گاڑی کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرائی گئی تھی اس لئے ان کے بیان کی تصدیق مشکل ہو گئی تھی۔
مگر سکندر عثمان کی ایف آئی آر کے کچھ دیر بعد ہی انہیں کار کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔ اب وہ صحیح معنوں میں سالار کے بارے میں تشویش کا شکار ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر اور طیبہ سالار کو اس رات واپس نہیں لے کر آئے، وہ اس رات ہاسپٹل میں ہی رہا اگلے دن اس کے جسم کا درد اور سوجن میں کافی کمی واقع ہو چکی تھی۔ وہ دونوں گیارہ بجے کے قریب اسے گھر لے آئے۔ اس سے پہلے پولیس کے دو اہلکاروں نے اس سے ایک لمبا چوڑا تحریری بیان لیا تھا۔
سکندر اور طیبہ کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پہلی بار اس نے اپنی کھڑکیوں پر لگی ہوئی مختلف ماڈلز کی ان نیوڈ تصویروں کو دیکھا اسے بے اختیار شرم آئی۔ طیبہ اور سکندر بہت بار اس کے کمرے میں آتے رہے تھے اور وہ تصویریں ان کے لئے کوئی نئی یا قابل اعتراض چیز نہیں تھیں۔
“تم اب آرام کرو۔ میں نے تمہارے فریج میں پھل اور جوس رکھوا دیا ہے۔ بھول لگے تو نکال کر کھا لینا یا پھر ملازم کو بلوا لینا، وہ نکال دے گا۔”
طیبہ نے اس سے کہا۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ دونوں کچھ دیر تک اس کے پاس رہے پھر کھڑکی کے پردے برابر کر کے اسے سونے کی تاکید کرتے ہوئے چلے گئے، وہ ان کے باہر نکلتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے کمرے کے دروازے کو اندر سے لاک کیا۔ کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر اس نے بہت تیزی سے ان پر لگی ہوئی تمام تصویروں کو اتارنا شروع کر دیا۔ پوسٹر، تصویریں، کٹ آؤٹ۔ اس نے چند منٹ میں پورا کمرہ صاف کر دیا تھا، واش روم میں جا کر اس نے باتھ ٹب میں انہیں پھینک دیا۔
واش روم کی لائٹ جلانے پر اس کی نظر اپنے چہرے پر پڑی تھی۔ وہ بری طرح سوجا ہوا اور نیلا ہو رہا تھا وہ ایسے ہی چہرے کی توقع کر رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر واش روم سے نکل آیا۔ اس کے کمرے میں پورنوگرافی کے بہت سے میگزین بھی پڑے تھے۔ وہ انہیں اٹھا لایا۔ اس نے انہیں بھی باتھ ٹب میں پھینک دیا، پھر وہ باری باری اپنے ریک میں پڑی ہوئی گندی ویڈیوز اٹھا کر اس میں سے ٹیپ نکالنے لگا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اس کا کارپٹ ٹیپ کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔
اس نے وہاں موجود تمام ویڈیوز کو ضائع کر دیا اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو اٹھا کر باتھ ٹب میں پھینک دیا اور لائٹر کے ساتھ اس نے انہیں آگ لگا دی۔ ایک چنگاری بھڑکی تھی اور تصویروں اور ٹیپ کا وہ ڈھیر جلنے لگا تھا اس نے ایگزاسٹ آن کر دیا تھا۔ باتھ روم کی کھڑکیاں کھول دیں وہ اس ڈھیر کو اس لئے جلا رہا تھا کیونکہ وہ اس آگ سے بچنا چاہتا تھا جو دوزخ میں اسے اپنی لپیٹوں میں لے لیتی۔
آگ کی لپیٹیں تصویروں اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو کھا رہی تھیں۔ یوں جیسے وہ صرف آگ کے لئے ہی بنائی گئی تھیں۔
وہ پلکیں جھپکے بغیر باتھ ٹب میں آگ کے اس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا یوں جیسے وہ اس وقت کسی دوزخ کے کنارے کھڑا تھا۔ ایک رات پہلے اس پہاڑی پر اس حالت میں اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کی زندگی کی آخری رات تھی اور وہ اس کے بعد دوبارہ کبھی ان روشنیوں کونہیں دیکھ سکے گا۔
اس نے ہذیانی حالت میں گلا پھاڑ کر چیختے ہوئے بار بار کہا تھا۔”ایک بار، صرف ایک بار، مجھے ایک موقع دیں۔ صرف ایک موقع، میں دوبارہ گناہ کے پاس تک نہیں جاؤں گا۔ میں کبھی گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔” اسے یہ موقع دے دیا گیا تھا اب اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت تھا۔ آگ نے ان سب کاغذوں کو راکھ بنا دیا تھا جب آگ بجھ گئی تو اس نے پانی کھول کر پائپ کے ساتھ اس راکھ کو بہانا شروع کر دیا۔
سالار پلٹ کر دوبارہ واش بیسن کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اس کے گلے میں موجود سونے کی چین کو وہ لوگ اتار کر لے گئے تھے مگر اس کے کان کی لو میں موجود ڈائمنڈ ٹاپس وہیں تھا۔ وہ پلاٹینم میں جڑا ہوا تھا اور ان لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ شاید ان کا خیال ہو گا کہ وہ کوئی معمولی پتھر یا پھر زرقون ہو گا یا پھر شاید اس کے لمبے کھلے بالوں کی وجہ سے اس کے کان کی لو چھپی رہی ہو گی۔
وہ کچھ دیر آئینے میں خود کو دیکھتا رہا پھر اس نے کان کی لو میں موجود ٹاپس اٹھا کر واش بیسن کے پاس رکھ دیا شیونگ کٹ میں موجود کلپر اس نے نکالا اور اپنے بال کاٹنے لگا۔ بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ۔ واش بیسن میں بہتا ہوا پانی ان بالوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا تھا۔
ریزر نکال کر اس نے شیو کرنی شروع کر دی۔ وہ جیسے اپنی تمام نشانیوں سے پیچھا چھڑا رہا تھا۔ شیو کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے نکالے اپنے ہاتھوں پر بندھی پٹیاں کھولیں اور شاور کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ پورا ایک گھنٹہ اپنے پورے جسم کے ایک ایک حصے کو کلمہ پڑھ پڑھ کر صاف کرتا رہا۔ یوں جیسے وہ آج پہلی بار اسلام سے متعارف ہوا ہو۔ پہلی بار مسلمان ہوا ہو۔
واش روم سے باہر آ کر اس نے فریج میں رکھے سیب کے چند ٹکڑے کھائے اور پھر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ دوبارہ اس کی آنکھ الارم سے کھلی جسے اس نے سونے سے پہلے لگایا تھا۔ دو بج رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مائی گاڈ سالار! یہ اپنے بالوں کو کیا کیا ہے تم نے؟” طیبہ اسے دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے بھول گئیں کہ وہ بولنے کے قابل نہیں تھا۔ سالار نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے کر دیا۔
“میں مارکیٹ جانا چاہتا ہوں۔” اس پر لکھا ہوا تھا۔
“کس لئے؟” طیبہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
“تم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ہو۔ کچھ گھنٹے ہوئے ہی تمہیں ہاسپٹل سے آئے اور تم ایک بار پھر آوارہ گردی کے لئے نکلنا چاہتے ہو۔” طیبہ نے اسے قدرے نرم آواز میں جھڑکا۔
“ممی! میں کچھ کتابیں خریدنا چاہتا ہوں۔” سالار نے ایک بار پھر کاغذ پر لکھا۔” میں آوارہ گردی کرنے کے لئے نہیں جا رہا۔”
طیبہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔” تم ڈرائیور کے ساتھ چلے جاؤ۔” سالار نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جس وقت مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑی سے اترا شام ہو چکی تھی۔ مارکیٹ کی روشنیاں وہاں جیسے رنگ و نور کا ایک سیلاب لے آئی تھیں۔ وہ جگہ جگہ پھرتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ مغربی ملبوسات میں ملبوس بے فکری اور لاپرواہی سےقہقہے لگاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار اس جگہ سے وحشت ہوئی تھی، وہی وحشت جو وہ اڑتالیس گھنٹے پہلے مارگلہ کی ان پہاڑیوں پر محسوس کرتا رہا تھا۔ وہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک تھا لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والا۔ بلند و بانگ قہقہے لگانے والا، فضول اور بے ہودہ باتیں کرنے والا، اپنا سر نیچے کئے وہ کسی بھی چیز پر دھیان دئیے بغیر سامنے نظر آنے والی بک شاپ میں چلا آیا۔
اپنی جیب سے کاغذ نکال کر اس نے دوکاندار کو اپنی مطلوبہ کتابو ں کے بارے میں بتایا۔ وہ قرآن پاک کا ایک ترجمہ اور نماز کے بارے میں کچھ دوسری کتابیں خریدنا چاہتا تھا۔ دوکاندار نے اسے حیرانی سے دیکھا، وہ سالار کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ وہاں سے پورنوگرافی کے غیر ملکی میگزینز اورسڈنی شیلڈن اور ہیرلڈ روبنز سمیت چند دوسرے انگلش ناولز لکھنے والوں کے ہر نئے ناول کو خریدنے کا عادی تھا۔
سالار اس کی نظروں کے استعجاب کو سمجھتا تھا۔ وہ اس سے نظریں ملانے کے بجائے صرف کاونٹر کو دیکھتا رہا۔ وہ آدمی کسی سیلز مین کو ہدایات دیتا رہا پھر اس نے سالار سے کہا۔
“آپ بڑے دن بعد آئے۔ کہیں گئے ہوئے تھے؟”
“اسٹڈیز کے لئے باہر۔” اس نے سر ہلاتے ہوئے سامنے پڑے ہوئے کاغذ پر لکھا۔
“اور یہ گلے کو کیا ہو؟”
“بس ٹھیک نہیں ہے۔” اس نے لکھا۔
سیلز مین قرآن پاک کا ترجمہ اور اور دوسری مطلوبہ کتابیں لے آیا۔
“ہاں! یہ اسلامی کتابوں کا آج کل بڑا ٹرینڈ چلا ہوا ہے۔ لوگ بہت پڑھنے لگے ہیں، بڑی اچھی بات ہے۔ خاص طور پر باہر جا کر تو ضرور پڑھنا چاہئیے۔” دوکاندار نے بڑے کاروباری انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ سالار نے کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے سامنے پڑی کتابوں پر ایک نظر دوڑانے لگا۔
چند لمحوں کے بعد ا س نے دائیں ہاتھ قرآن پاک کے ترجمے کے ساتھ کاونٹر پر خالی جگہ پر شاپ کیپر نے اس کے سامنے پورنوگرافی کے کچھ نئے میگزینز رکھ دئیے۔ کتابوں کو دیکھتے دیکھتے اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
“یہ نئے آئے ہیں ، میں نے سوچا آپ کو دکھا دوں۔ ہو سکتا ہے آپ خریدنا پسند کریں۔”
سالار نے ایک نظر قرآن پاک کے ترجمے کو دیکھا دوسری نظر چند انچ دور پڑے ان میگزینز کو دیکھا، غصے کی ایک لہر سی اس کے اندر اٹھی تھی۔”کیوں؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے ان میگزینز کو اٹھا کر وہ جتنی دور اس شاپ کے اندر پھینک سکتا تھا اس نے پھینک دئیے۔ چند لمحوں کے لئے پوری شاپ میں خاموشی چھا گئی۔
سیلز مین ہکا بکا کھڑا تھا۔”بل” سالار نے کاغذ پر گھسیٹا اور سرخ چہرے کے ساتھ اس سیلز مین کی نکھوں کے سامنے اس کاغذ کو کیا۔ سیلز مین نے کچھ بھی کہے بغیر اپنے سامنے پڑے کمپیوٹر پر ان کتابوں کا بل بنانا شروع کر دیا جو اس کے سامنے رکھی تھیں۔
چند منٹوں میں سالار نے بل ادا کیا اور کتابیں اٹھا کر دروزے کی طرف بڑھ گیا۔
“ایڈیٹ۔۔۔۔۔ دوکان سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کاونٹر کے پاس کھڑی ایک لڑکی کا تبصرہ سنا، مخاطب کون تھا اس نے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ وہ جانتا تھا وہ تبصرہ اسی پر کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دو ہفتے بعد اس کی آواز بحال ہو گئی تھی۔ اگرچہ ابھی اس کی آواز بالکل بیٹھی ہوئی تھی، مگر وہ بولنے کے قابل ہو گیا تھا اور ان دو ہفتوں میں وہ روح کی دریافت میں مصروف رہا۔ وہ زندگی میں پہلی بار یہ کام کر رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے یہ احساس ہوا تھا کہ روح بھی کوئی وجود رکھتی تھی اور اگر روح کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو جائے تو وہ زندگی میں پہلی بار خاموشی کے ایک لمبے فیز میں داخل ہوا تھا۔ بولنا نہیں سننا۔۔۔۔۔ صرف سننا بھی بعض دفعہ بہت اہم ہوتا ہے اس کا ادراک اسے پہلی بار ہو رہا تھا۔
اسے زندگی میں کبھی رات سے خوف نہیں آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسے رات سے بے تحاشا خوف آنے لگا تھا۔ وہ کمرے کی لائٹ آن کر کے سوتا تھا۔ اس نے پولیس کسٹڈی میں ان دونوں لڑکوں کو پہچان لیا تھا، مگر وہ پولیس کے ساتھ اس جگہ پر جانے کے لئے تیار نہیں ہوا تھا جہاں اس شام وہ اسے باندھ کر چھوڑ گئے تھے۔ وہ دوبارہ کسی ذہنی پراگندگی کا شکار ہونا نہیں چاہتا تھا، اس نے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنی بے خواب راتیں نہیں گزاری تھیں مگر اب یہ ہو رہا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز لئے بغیر سونے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا اور بعض دفعہ جب وہ سلیپنگ پلز نہیں نہ لیتا تو وہ ساری رات جاگتے ہوئے گزار دیتا، اس نے نیو ہیون میں بھی ایسے ہی چند ہفتے گزارے تھے۔ اتنے ہی تکلیف دہ اور اذیت ناک مگر تب صرف الجھن اور اضطراب تھا یا شاید کسی حد تک پچھتاوا۔
مگر اب وہ ایک تیسری کیفیت سے گزر رہا تھا خوف سے، وہ اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس رات اسے کس چیز سے زیادہ خوف آیا تھا۔ موت سے، قبر سےیا پھر دوزخ سے۔
امامہ نے کہا تھا ecstasyکے بعدpain ہوتی ہے۔ موت pain تھی۔
اس نے کہا تھا painکے بعد nothingness ہو گی۔
قبر nothingness تھی۔
امامہ نے کہا تھا nothingness کے بعد hell آ جائے گا۔
وہ وہاں تک پہنچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس ecstasyسے بچنا چاہتا تھا، جو اسے pain سے hellکا سفر کرنے پر مجبور کر دیتی۔
“اگر مجھے ان سب چیزوں کا پتا نہیں تھا تو امامہ کو کیسے پتا تھا۔ وہ میری ہی عمر کی ہے۔ وہ میرے جیسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، پھر اس کے پاس ان سوالوں کے جواب کیسے آ گئے؟” وہ حیران ہوتے ہوئے سوچنے لگتا۔ آسائشیں تو اس کے پاس بھی ویسی ہی تھیں جیسی میرے پاس تھیں پھر اس میں اور مجھ میں کیا فرق تھا وہ جس مکتبہ ءفکر سے تھی وہ کون ہوتے ہیں اور وہ کیوں اس مکتبہ ءفکر سے منسلک رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پہلی بار اس کے بارے میں تفصیلی طور پر پڑھا۔ اس کی الجھنوں میں اضافہ ہوا، ختم نبوت پر اختلاف کیا اتنا اہم ایشو ہے کہ ایک لڑکی اس طرح اپنا گھر چھوڑ کر چلی جائے۔
“میں نے اسجد سے اس لئے شادی نہیں کی کیونکہ وہ ختم نبوت ﷺ پر یقین نہیں رکھتا۔ تم سمجھتے ہو میں تمہارے جیسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار ہو جاؤں گی۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو ختم نبوت ﷺ پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی گناہ کرتا ہے جو ہر وہ کام کرتا ہے جس سے میرے پیغمبر ﷺ نے منع فرمایا۔ اگر میں حضرت محمدﷺ پر یقین نہ رکھنے والے سے شادی نہیں کروں گی تو میں آپ ﷺ کی نافرمانی کرنے والے کے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔”
اسے امامہ ہاشم کا ہر لفظ یاد تھا۔ وہ مفہوم پر پہلی بار غور کر رہا تھا۔
“تم یہ بات نہیں سمجھو گے۔”
اس نے بہت بار سالار سے یہ جملہ کہا تھا۔ اتنی بار کہ وہ اس جملے سے چڑنے لگا تھا۔ آخر وہ یہ بات کہہ کر اس پر کیا جتانا چاہتی تھی یہ کہ وہ کوئی بہت بڑی اسکالر یا پارسا تھی اور وہ اس سے کمتر۔۔۔۔۔
اب وہ سوچ رہا تھا، وہ بالکل ٹھیک کہتی تھی۔ وہ واقعی تب کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ کیچڑ میں رہنے والا کیڑا یہ کیسے جان سکتا تھا کہ وہ کس گندگی میں رہتا ہے، اسے اپنے بجائے دوسرے گندگی میں لپٹے اور گندگی میں رہتے نظر آتے ہیں۔ وہ تب بھی گندگی میں ہی تھا۔
“مجھے تمہاری آنکھوں سے، تمہارے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔” اسے پہلی بار اب ان دونوں چیزوں سے گھن آئی۔” آئینے کے سامنے رکھے ہونے پر یہ جملہ کسی بزورڈ (buz word)کی طرح کئی ماہ تک اس کے کانوں میں گونجتا رہا۔ وہ ہر بار اسے ذہن سے جھٹکتا کچھ مشتعل ہو جاتا، اپنے کام میں مصروف ہو جاتا مگر اب پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا کہ اسے خود بھی اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔ وہ اپنا گریبان بند رکھنے لگا تھا۔ اپنی آنکھوں کو جھکانے لگا۔ وہ آئینے میں بھی خود اپنی آنکھوں میں دیکھنے سے کترانے لگا تھا۔
اس نے کبھی کسی سے یہ نہیں سنا تھا کہ کسی کو اس کی آنکھوں اس کی نظروں سے گھن آتی تھی۔ خاص طور پر کسی لڑکی کو۔
یہ اس کی آنکھیں نہیں ان آنکھوں میں جھانکنے والا تاثر تھا، جس سے امامہ ہاشم کو گھن آئی تھی۔ اور امامہ ہاشم سے پہلے کسی لڑکی نے اس تاثر کو شناخت نہیں کیا تھا۔
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی لڑکیوں کی کمپنی میں رہتا تھا اور وہ ایسی ہی لڑکیوں کو پسند کرتا تھا۔ امامہ ہاشم نے کبھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی وہ اس کے چہرے کو دیکھتی اور اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر نظر ہٹا لیتی یا کسی اور چیز کو دیکھنے لگتی۔ سالار کو خوش فہمی تھی کہ وہ اس سے نظریں اس لئے چرا رہی تھی کیونکہ اس کی آنکھیں بہت پرکشش تھیں۔
اسے پہلی بار اس کے منہ سے فون پر یہ سن کر شاک لگا تھا کہ اسے اس کی آنکھوں سے گھن آتی تھی۔
“آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں۔” اس نے کہیں پڑھا تھا تو کیا میری آنکھیں میرے اندر چھپی گندگی کو دکھانا شروع ہو گئی تھیں۔ اسے تعجب نہیں ہوا۔ ایسا ہی تھا مگر اس گندگی کو دیکھنے کے لئے سامنے والے کا پاک ہونا ضروری تھا اور امامہ ہاشم پاک تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آپ اب مجھے کچھ بھی نہ سمجھائیں۔ آپ کو اب مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔”
سالار نے سکندر سے آنکھیں ملائے بغیر کہا۔
وہ دوبارہ Yale جا رہا تھا اور جانے سے پہلے سکندر نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہی پرانی نصیحتیں کسی موہوم سی آس اور امید میں ایک بار پھر اس کے کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی تھی مگر اس بار ان کے بات شروع کرتے ہی سالار نے انہیں شاید زندگی میں پہلی دفعہ یقین دہائی کروائی تھی اور زندگی میں پہلی بار سکندر عثمان کو اس کے الفاظ پر یقین آیا تھا۔
وہ اس حادثے کے بعد اس میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھ رہے تھے۔ وہ پہلے والا سالار نہیں رہا تھا، اس کی زندگی ہی تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا حلیہ، اس کا انداز، سب کچھ۔۔۔۔۔ اس کے اندر کے شعلے کو جیسے کسی نے پھونک مار کر بجھا دیا تھا۔ صحیح ہوا تھا یا غلط، یہ تبدیلیاں اچھی تھیں یا بری۔ خود سکندر عثمان بھی اس پر کوئی رائے دینے کے قابل نہیں ہوئے تھے مگر انہیں یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ اس میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار چوٹ کھائی تھی اور زندگی میں پہلی بار پڑنے والی چوٹ، بڑے بڑوں کو رلا دیتی ہے وہ تو پھر اکیس بائیس سال کا لڑکا تھا۔
زندگی میں بعض دفعہ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم تاریکی سے باہر آئے ہیں یا تاریکی میں داخل ہوئے ہیں۔ اندھیرے میں سمت کا پتا نہیں چلتا مگر آسمان اور زمین کا پتا ضرور چل جاتا ہے بلکہ ہر حال میں چلتا ہے۔ سر اٹھانے پر آسمان ہی ہوتا ہے، سر جھکانے پر زمین ہی ہوتی ہے۔ دکھائی دے نہ دے مگر زندگی میں سفر کرنے کے لئے صرف چار سمتوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ دائیں ،بائیں ، آگے ، پیچھے۔ پانچویں سمت پیروں کے نیچے ہوتی ہے۔ وہاں زمین نہ ہو تو پاتال آ جاتا ہے۔ پاتال میں پہنچنے کے بعد کسی سمت کی ضرورت نہیں رہتی۔
چھٹی سمت سر سے اوپر ہوتی ہے۔ وہاں جایا ہی نہیں جا سکتا۔ وہاں اللہ ہوتا ہے۔ آنکھوں سے نظر نہ آنے والا مگر دل کی ہر دھڑکن، خون کی ہر گردش، ہر آنے جانے والے سانس، حلق سے اترنے والے ہر نوالے کے ساتھ محسوس ہونے والا۔ وہ فوٹوگرافک میموری، وہ 150+ آئی کیو لیول اسے اب عذاب لگ رہا تھا۔وہ سب کچھ بھولنا چاہتا تھا۔وہ سب جو وہ کرتا رہا ، وہ کچھ بھی بھلانے کے قابل نہیں تھا۔کوئی اس سے اس کی تکلیف پوچھتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نیو ہیون واپس آنے کے بعد اس نے زندگی کے ایک نئے سفر کو شروع کیا تھا۔
اس رات اس جنگل کے ہولناک اندھیرے اور تنہائی میں اس درخت کے ساتھ بندھے بلکتے ہوئے کئے گئے تمام وعدے اسے یاد تھے۔
وہ سب سے بالکل الگ تھلگ رہنے لگا تھا۔معمولی سے رابطے اور تعلق کے بھی بغیر۔
“مجھے تم سے نہیں ملنا۔”
وہ صاف گو تو ہمیشہ سے ہی تھا مگر اس حد تک ہو جائے گا اس کے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔چند ہفتے اس کے بارے میں اس کا گروپ چہ میگوئیاں کرتا رہا پھر یہ چہ میگوئیاں اعتراضات اور تبصروں میں تبدیل ہو گئیں اور اس کے بعد طنزیہ جملوں اور ناپسندیدگی میں پھر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔سالار سکندر کسی کی زندگی کا مرکز اور محور نہیں تھا نہ دوسرا کوئی اس کی زندگی کا۔
اس نے نیو ہیون پہنچنے کے بعد جو چند کام کیے تھے اس میں جلال انصر سے ملاقات کی کوشش بھی کی تھی۔وہ پاکستان سے واپس آتے ہوئے اس کے گھر سے امریکہ میں اس کا ایڈریس لے آیا تھا۔یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس کا ایک کزن بھی اسی ہاسپٹل میں کام کر رہا تھا۔باقی کا کام بہت آسان ثابت ہوا۔ضرورت سے زیادہ آسان۔
وہ اس سے ایک بار مل کر اس سے معذرت کرنا چاہتا تھا۔اسے ان تمام جھوٹوں کے بارے میں بتا دینا چاہتا تھا جو وہ اس سے امامہ کے بارے میں اور امامہ کو اس کے بارے میں بولتا رہا تھا۔وہ ان دونوں کے تعلق میں اپنے رول کے لئے شرمندہ تھا۔وہ اس کی تلافی کرنا چاہتا تھا۔وہ جلال انصر تک پہنچ چکا تھا اور وہ امامہ ہاشم تک پہنچنا چاہتا تھا۔
وہ جلال انصر کے ساتھ ہاسپٹل کے کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہوا تھا۔جلال انصر کے چہرے پر بےحد سنجیدگی تھی اور اس کے ماتھے پر پڑے ہوئے بل اس کی ناراضی کو ظاہر کر رہے تھے۔
سالار کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچا تھا اور جلال انصر اسے وہاں دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔اس نے جلال سے چند منٹ مانگے تھے۔وہ دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد بالآخر کیفے ٹیریا میں آ گیا تھا۔
“سب سے پہلے تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ تم نے مجھے ڈھونڈا کیسے؟”اس نے آپ جناب کے تمام تکلفات کو برطرف رکھتے ہوئے ٹیبل پر بیٹھتے ہی سالار سے کہا۔
“یہ اہم نہیں ہے۔”
“یہ بہت اہم ہے۔اگر تم واقعی یہ چاہتے ہو کہ میں کچھ دیر تمہارے ساتھ یہاں گزاروں تو مجھے پتا ہونا چاہئیے کہ تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟”
“میں نے اپنے کزن سے مدد لی ہے۔وہ ایک ڈاکٹر ہے اور اس شہر میں بہت عرصے سے کام کر رہا ہے۔میں یہ نہیں جانتا اس نے آپ کو کیسے ڈھونڈا ہے۔میں نے اسے صرف آپ کا نام اور کچھ دوسری معلومات دی تھیں۔”سالار نے کہا۔
“لنچ۔۔۔۔۔؟”جلال نے بڑے رسمی انداز میں کہا ، وہ ٹیبل پر آتے ہوئے اپنی لنچ ٹرے ساتھ لے کر آیا تھا۔
“نہیں ، میں نہیں کھاؤں گا۔”سالار نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔
جلال نے کندھے اچکائے اور کھانا شروع کر دیا۔
“کس معاملے میں بات کرنا چاہتے تھے تم مجھ سے؟”
“میں آپ کو چند حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔”
جلال نے اپنی بھنویں اچکائیں۔”حقائق؟”
“میں آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔میں امامہ کا دوست نہیں تھا۔وہ میرے دوست کی بہن تھی۔صرف میری نیکسٹ ڈور neighbour ۔۔۔۔۔۔”جلال نے کھانا جاری رکھا۔
“میری اس سے معمولی جان پہچان تھی۔وہ مجھے پسند نہیں کرتی تھی خود میں بھی اسے پسند نہیں کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے آپ پر یوں ظاہر کیا جیسے وہ میری بہت گہری دوست تھی۔میں آپ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتا تھا۔”
جلال سنجیدگی سے اس کی بات سنتے ہوئے کھانا کھاتا رہا۔
“اس کے بعد جب امامہ گھر سے نکل کر آپ کے پاس آنا چاہتی تھی تو میں نے اس سے جھوٹ بولا۔آپ کی شادی کے بارے میں۔”
اس بار جلال کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔”میں نے اس سے کہا کہ آپ شادی کر چکے ہیں۔وہ آپ کے پاس اسی لئے نہیں آئی تھی۔مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں نے بہت نا مناسب حرکت کی ہے مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی۔امامہ سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا مگر یہ ایک اتفاق ہے کہ آپ سے میرا رابطہ ہو گیا۔میں آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتا ہوں۔”
“میں تمہاری معذرت قبول کرتا ہوں مگر میں نہیں سمجھتا کہ تمہاری وجہ سے میرے اور امامہ کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی ، میں پہلے ہی اس سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔”جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
“وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی۔”سالار نے دھیمی آواز میں کہا۔
“ہاں میں جانتا ہوں مگر شادی وغیرہ میں صرف محبت تو نہیں دیکھی جاتی اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔”جلال بہت حقیقت پسندانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
“جلال! کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں۔”
“پہلی بات یہ کہ میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ میرا اس کے ساتھ رابطہ ہوتا بھی تب بھی میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا۔”
“اس کو آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔”سالار نے کہا۔
“میں نہیں سمجھتا کہ اسے میرے سہارے کی ضرورت ہے۔اب تو بہت عرصہ گزر چکا ہے اب تک وہ کوئی نہ کوئی سہارا تلاش کر چکی ہو گی۔”جلال نے اطمینان سے کہا۔
“ہو سکتا ہے اس نے ایسا نہ کیا ہو۔وہ ابھی بھی آپ کا انتظار کر رہی ہو۔”
“میں اس طرح کے امکانات پر غور کرنے کا عادی نہیں ہوں۔میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میرے لئے اپنے کیرئیر کی اس اسٹیج پر شادی ممکن ہی نہیں ہے۔وہ بھی اس سے۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”
“اس کیوں کا جواب میں تمہیں کیوں دوں۔تمہارا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں اس سے کیوں شادی نہیں کرنا چاہتا۔میں تب ہی اسے بتا چکا ہوں اور اتنے عرصے کے بعد تم دوبارہ آ کر پھر وہی پینڈورا باکس کھولنے کی کوشش کر رہے ہو۔”جلال نے قدرے ناراضی سے کہا۔
“میں صرف اس نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، جو میری وجہ سے آپ دونوں کا ہوا۔”سالار نے نرمی سے کہا۔
“میرا کوئی نقصان نہیں ہوا اور امامہ کا بھی نہیں ہوا ہو گا۔تم ضرورت سے زیادہ حساس ہو رہے ہو۔”
جلال نے سلاد کے چند ٹکڑے منہ میں ڈالتے ہوئے اطمینان سے کہا۔سالار اسے دیکھتا رہا۔وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ اسے اپنی بات کیسے سمجھائے۔
“میں اس کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔اس نے کچھ دیر بعد کہا۔”مگر میں اسے ڈھونڈنا نہیں چاہتا۔شادی مجھے اس سے نہیں کرنی پھر ڈھونڈنے کا فائدہ۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔”آپ جانتے ہیں اس نے کس لئے گھر چھوڑا تھا؟”
“میرے لئے بہرحال نہیں چھوڑا تھا۔”جلال نے بات کاٹی۔
“آپ کے لئے نہیں چھوڑا تھا ، مگر جن وجوہات کی بنا پر چھوڑا تھا کیا ایک مسلمان کے طور پر آپ کو اس کی مدد نہیں کرنی چاہئیے جب کہ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ لڑکی آپ سے بہت محبت کرتی ہے۔آپ سے بہت انسپائرڈ ہے۔”
“میں دنیا میں کوئی واحد مسلمان نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ میں اس کی مدد ضرور کروں۔میری ایک ہی زندگی ہے اور میں اسے کسی دوسرے کی وجہ سے تو خراب نہیں کر سکتا اور پھر تم بھی مسلمان ہو ، تم کیوں نہیں شادی کرتے اس سے؟میں نے تو تب بھی تم سے کہا تھا کہ تم اس سے شادی کر لو۔تم ویسے بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہو۔”
جلال انصر نے قدرے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔سالار اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔وہ اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ اس سے شادی کر چکا ہے۔
“شادی۔۔۔۔۔؟وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔”اس نے کہا۔
“میں اس سلسلے میں اسے سمجھا سکتا ہوں۔تم میرا اس سے رابطہ کروا دو تو میں اسے تم سے شادی پر تیار کر لوں گا۔اچھے آدمی ہو تم۔۔۔۔۔اور خاندان وغیرہ بھی ٹھیک ہی ہو گا تمہارا۔کار تو ڈیڑھ سال پہلے بھی بڑی شاندار رکھی ہوئی تھی تم نے۔اس کا مطلب ہر روپیہ وغیرہ ہو گا تمہارے پاس۔ویسے یہاں کس لئے ہو؟”
“ایم بی اے کر رہا ہوں۔”
“پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔جاب تمہیں مل جائے گی۔روپیہ ویسے بھی تمہارے پاس ہے۔لڑکیوں کو اور کیا چاہئیے۔امامہ تو ویسے بھی تمہیں جانتی ہے۔”جلال نے چٹکی بجاتے مسئلہ حل کیا تھا۔
“سارا مسئلہ تو اسی “جاننے” نے ہی پیدا کیا ہے۔وہ مجھے ضرورت سے زیادہ جانتی ہے۔”سالار نے جلال کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
“وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔”سالار نے جیسے اسے یاد دلایا۔
“اب اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ہے۔لڑکیاں کچھ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اس معاملے میں۔”جلال نے قدرے بیزاری سے کہا۔
“یہ ون سائیڈ لو افئیر تو نہیں ہو گا۔آپ کسی نہ کسی حد تک اس میں انوالو تو ضرور ہوں گے۔”سالار نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
“ہاں تھوڑا بہت انوالو تھا ، مگر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں انسان کی۔”
“اگر آپ کو وقت اور حالات کے ساتھ اپنی ترجیحات بدلنی تھیں تو آپ کو اس کے بارے میں امامہ کو انوالو ہوتے ہوئے ہی بتا دینا چاہئیے تھا۔کم از کم اس سے یہ ہوتا کہ وہ آپ سے مدد کی توقع رکھتی نہ ہی آپ پر اس قدر انحصار کرتی۔میں اُمید کرتا ہوں آپ یہ تو نہیں کہیں گے کہ آپ نے اس سے شادی کے حوالے سے کبھی کوئی بات یا وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔”
جلال کچھ کہنے کی بجائے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
“تم مجھے کیا جتانے اور بتانے کی کوشش کر رہے ہو؟”اس نے چند لمحوں کے بعد اکھڑے ہوئے انداز میں کہا۔
“اس نے جب مجھ سے پہلی بار رابطہ کیا تھا تو آپ کا فون نمبر اور ایڈریس دے کر اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے پوچھوں آپ نے اپنے پیرنٹس سے شادی کی بات کر لی ہے۔میں نے اسے اپنا فون دیا تھا کہ وہ آپ سے یہ بات خود پوچھ لے۔یقیناً اسلام آباد آنے سے پہلے آپ نے اس سے یہ کہا ہو گا کہ آپ اس سے شادی کے لئے اپنے پیرنٹس سے بات کریں گے۔آپ نے یقیناً پہلے محبت وغیرہ کے اظہار کے بعد اسے پروپوز کیا ہو گا۔”
جلال نے کچھ برہمی سے اس کی بات کاٹی۔”میں اسے پروپوز نہیں کیا تھا۔اس نے مجھے پروپوز کیا تھا۔”
“مان لیتا ہوں اس نے پروپوز کیا۔آپ نے کیا کیا؟انکار کر دیا؟”وہ چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا۔
“انکار نہیں کیا ہو گا۔”سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
“اس نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نعت بڑی اچھی پڑھتے ہیں۔اور آپ کو حضرت محمد ﷺ سے بھی بہت محبت ہے۔ آپ کو بھی بتایا ہو گا اس نے کہ وہ آپ سے محبت کیوں کرتی تھی مگر آپ سے مل کر اور آپ کو جان کر مجھے بہت مایوسی ہوئی۔آپ نعت بہت اچھی پڑھتے ہوں گے مگر جہاں تک حضرت محمد ﷺ سے محبت کا تعلق ہے میں نہیں سمجھتا وہ آپ کو ہے۔میں خود کوئی بہت اچھا آدمی نہیں ہوں اور محبت کے بارے میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔خاص طور پر اللہ اور حضرت محمد ﷺ سے محبت کے بارے میں مگر اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ جو شخص اللہ یا اس کے پیغمبر ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے یا لوگوں کو یہ امپریشن دیتا پھرتا ہے وہ مدد کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھ کو نہیں جھٹک سکتا نہ ہی وہ کسی کو دھوکا اور فریب دے گا۔”سالار اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
“اور میں تو آپ سے ریکویسٹ کر رہا ہوں اس کی مدد کے لئے۔ہو سکتا ہے اس نے بھی ڈیڑھ سال پہلے کی ہو پھر بھی اگر آپ انکار پر مصر ہیں تو۔۔۔۔۔میں یا کوئی آپ کو مجبور تو نہیں کر سکتا مگر آپ سے مل کر اور آپ سے بات کر کے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔”
اس نے الوداعی مصافحہ کے لئے جلال کی طرف ہاتھ بڑھایا۔جلال نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ، وہ تنفر بھرے انداز میں ماتھے پر بل لئے اسے دیکھتا رہا۔
“خدا حافظ ۔”سالار نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔جلال اسی حالت میں اسے جاتا دیکھتا رہا اور پھر اس نے خود کلامی کی۔”It’s really an idiot’s world out there. “
وہ دوبارہ لنچ ٹرے کی طرف متوجہ ہو گیا۔اس کا موڈ بےحد آف ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جلال انصر سے ملاقات کے بعد وہ اپنے احساسات کو کوئی نام دینے میں ناکام ہو رہا تھا۔کیا اسے اپنے پچھتاوے سے آزاد ہو جانا چاہئیے؟کیوں کہ جلال نے یہ کہا تھا کہ سالار بیچ میں نہ آتا تو بھی ، وہ امامہ سے شادی نہیں کرتا اور جلال انصر سے بات کرنے کے بعد اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ امامہ کے لئے اس کے احساسات میں کوئی گہرائی نہیں تھی مگر یہ شاید اس کے لئے بہت سے نئے سوالات پیدا کر رہا تھا۔وہ جلال سے آج ملا تھا۔ڈیڑھ سال پہلے اس نے جلال کے ساتھ اس طرح بات کی ہوتی تو شاید اس پر ہونے والا اثر مختلف ہوتا۔تب امامہ کے لئے اس کے احساسات کا پیمانہ مختلف ہوتا اور شاید ڈیڑھ سال پہلے وہ امامہ کے بارے میں اس بےحسی کا مظاہرہ نہ کرتا جس کا مظاہرہ اس نے آج کیا تھا وہ ایک ذہنی رو میں اپنے کندھوں سے بوجھ ہٹا ہوا محسوس کرتا اور اگلی ذہنی رو اسے پھر اُلجھن کا شکار کر دیتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایم بی اے کا دوسرا سال بہت پُر سکون گزرا تھا۔پڑھائی کے علاوہ اس کی زندگی میں اور کوئی سرگرمی نہیں رہی تھی۔وہ گیمز پر صرف ڈسکشنز میں ہی اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گفتگو کرتا یا پھر گروپ پروجیکٹس کے سلسلے میں اس کے ساتھ وقت گزارتا۔باقی کا سارا وقت وہ لائبریری میں گزار دیتا۔ویک اینڈ پر اس کی واحد سرگرمی اسلامک سینٹر جانا تھا جہاں وہ ایک عرب سے قرآن پاک تلاوت کرنا سیکھا کرتا تھا پھر وہ قرآن پاک کے ان اسباق کو دہرایا کرتا پھر اسی عرب سے اس نے عربی زبان سیکھنا شروع کر دی۔
خالد عبدالرحمان نامی وہ عرب بنیادی طور پر ایک میڈیکل ٹیکٹیشن تھا اور ایک ہاسپٹل سے وابستہ تھا۔وہ ویک اینڈ پر وہاں آ کر عربی زبان اور قرآن پاک کی کلاسز لیا کرتا تھا۔وہ اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں لیا کرتا تھا بلکہ اسلامک سینٹر کی لائبریری میں موجود کتابوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی کے دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے عطیہ کی گئی تھی۔
قرآن پاک کی ان ہی کلاسز کے دوران ایک دن اس نے سالار سے کہا۔
“تم قرآن پاک حفظ کیوں نہیں کرتے؟”سالار اس کے اس تجویز نما سوال پر کچھ دیر حیرانی سے اس کا منہ دیکھنے لگا۔
“میں۔۔۔۔۔میں کیسے کر سکتا ہوں؟”
“کیوں۔۔۔۔۔تم کیوں نہیں کر سکتے؟”خالد نے جواباً اس سے پوچھا۔
“یہ بہت مشکل ہے اور پھر میرے جیسا آدمی ، نہیں میں نہیں کر سکتا۔”سالار نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
“تمہارا ذہن بہت اچھا ہے بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ میں نے اپنی آج تک کی زندگی میں تم سے زیادہ ذہین آدمی نہیں دیکھا جتنی تیز رفتاری سے تم نے اتنے مختصر عرصہ میں اتنی چھوٹی بڑی سورتیں یاد کی ہیں کوئی اور نہیں کر سکا اور جتنی تیز رفتاری سے تم عربی سیکھ رہے ہو میں اس پر بھی حیران ہوں۔جب ذہن اس قدر زرخیز ہو اور دنیا کی ہر چیز سیکھ لینے اور یاد رکھنے کی خواہش ہو تو قرآن پاک کیوں نہیں۔تمہارے ذہن پر اللہ تعالیٰ کا بھی حق ہے۔”خالد نے کہا۔
“آپ میری بات نہیں سمجھے۔مجھے سیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر یہ بہت مشکل ہے۔میں اس عمر میں یہ نہیں سیکھ سکتا۔”سالار نے وضاحت کی۔
“جب کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں قرآن پاک حفظ کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔تم ایک بار اسے حفظ کرنا شروع کرو ، میں کسی اور کے بارے میں تو یہ دعویٰ نہ کرتا مگر تمہارے بارے میں ، میں دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ تم نہ صرف بہت آسانی سے اسے حفظ کر لو گے بلکہ بہت کم عرصے میں۔۔۔۔۔”
سالار نے اس دن اس موضوع کے بارے میں مزید کوئی بات نہیں کی۔
مگر اس رات اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آنے کے بعد وہ خالد عبدالرحمان کی باتوں کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔اس کا خیال تھا کہ خالد عبدالرحمان دوبارہ اس کے بارے میں اس سے بات نہیں کرے گا۔مگر اگلے ہفتے خالد عبدالرحمان نے ایک بار پھر اس سے یہی سوال کیا۔
سالار بہت دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے مدھم آواز میں خالد سے کہا۔
“مجھے خوف آتا ہے۔”
“کس چیز سے؟”
“قرآن پاک حفظ کرنے سے۔”خالد نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سالار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“کیوں۔۔۔۔۔؟”وہ بہت دیر خاموش رہا پھر کارپٹ پر اپنی انگلی سے لکیریں کھینچتے اور انہیں دیکھتے ہوئے اس نے خالد سے کہا۔
“میں بہت گناہ کر چکا ہوں ، اتنے گناہ کہ مجھے انہیں گننا بھی مشکل ہو جائے گا۔صغیرہ ، کبیرہ ہر گناہ جو انسان سوچ سکتا ہے یا کر سکتا ہے۔میں اس کتاب کو اپنے سینے یا ذہن میں محفوظ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میرا سینہ اور ذہن پاک تو نہیں ہے۔میرے جیسے لوگ اسے۔۔۔۔۔اسے حفظ کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔”اس کی آواز بھرا گئی۔
خالد کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے کہا۔”ابھی بھی گناہ کرتے ہو؟”سالار نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“تو پھر کس چیز کا خوف ہے تم اگر قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہو ، اپنے ان سارے گناہوں کے باوجود تو پھر اسے حفظ بھی کر سکتے ہو اور پھر تم نے گناہ کئے مگر تم اب گناہ نہیں کرتے۔یہ کافی ہے۔اگر اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہے گا کہ تم اسے حفظ کرو تو تم اسے حفظ نہیں کر سکو گے چاہے تم لاکھ کوشش کر لو اور اگر تم خوش قسمت ہوئے تو تم اسے حفظ کر لو گے۔”خالد نے چٹکی بجاتے ہوئے جیسے یہ مسئلہ حل کر دیا تھا۔
سالار اس رات جاگتا رہا ، آدھی رات کے بعد اس نے پہلا پارہ کھول کر کانپتے ہاتھوں اور زبان کے ساتھ حفظ کرنا شروع کیا۔اسے حفظ کرتے ہوئے اسے احساس ہونے لگا کہ خالد عبدالرحمان ٹھیک کہتا تھا۔اسے قرآن پاک کا بہت سا حصہ پہلے ہی یاد تھا۔خوف کی وہ کیفیت جو اس نے قرآن پاک حفظ کرنا شروع کرتے ہوئے محسوس کی تھی وہ زیادہ دیر نہیں رہی تھی۔اس کے دل کو کہیں سے استقامت مل رہی تھی۔کہاں سے؟کوئی اس کی زبان کی لڑکھڑاہٹ دور کر رہا تھا ، کون۔۔۔۔۔؟کوئی اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ ختم کر رہا تھا کیوں؟”
فجر کی نماز سے کچھ دیر پہلے وہ اس وقت بےتحاشا رویا جب اس نے پچھلے پانچ گھنٹے میں یاد کئے ہوئے سبق کو پہلی بار مکمل طور پر دہرایا۔وہ کہیں نہیں اٹکا تھا۔وہ کچھ نہیں بھولا تھا۔زیر زبر کی کوئی غلطی نہیں ، آخری چند جملوں پر اس کی زبان پہلی بار کپکپانے لگی تھی۔آخری چند جملے ادا کرتے ہوئے اسے بڑی دقت ہوئی تھی کیونکہ وہ اس وقت آنسوؤں سے رو رہا تھا۔
“اگر اللہ یہ چاہے گا اور تم خوش قسمت ہو گے تو تم قرآن پاک حفظ کر لو گے ورنہ کچھ بھی کر لو ، نہیں کر پاؤ گے۔”اسے خالد عبدالرحمان کی بات یاد آ رہی تھی۔
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے کیسٹ پر اپنی زندگی کے اس پہلے سبق کو ریکارڈ کیا تھا۔ایک بار پھر اسے کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ روانی اور لہجے میں پہلے سے زیادہ فصاحت تھی۔
اس کی زندگی میں ایک نئی چیز شامل ہو گئی تھی۔اس پر ایک اور احسان کر دیا گیا تھا مگر اس کا ڈپریشن ختم نہیں ہوا تھا۔وہ رات کو سلیپنگ پلز کے بغیر نیند کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور سلیپنگ پلز لینے کے باوجود وہ کبھی اپنے کمرے کی لائٹس آف نہیں کر سکا تھا۔وہ تاریکی سے خوف کھاتا تھا۔
یہ پھر خالد عبد الرحمان ہی تھا جس نے ایک دن اس سے کہا تھا۔وہ اسے قرآن پاک کا سبق زبانی سنا رہا تھا اور اسے احساس ہو رہا تھا کہ خالد عبدالرحمان مسلسل اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا جب اس نے اپنا سبق ختم کیا اور پانی کا گلاس اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے خالد کو کہتے سنا۔
“میں نے کل رات تمہیں خواب میں حج کرتے دیکھا ہے۔”
سالار مُنہ میں لے جانے والا پانی حلق سے اُتار نہیں سکا۔گلاس نیچے رکھتے ہوئے خالد کو دیکھنے لگا۔
“اس سال تمہارا ایم بی اے ہو جائے گا۔اگلے سال تم حج کر لو۔”
خالد کا لہجہ بہت رسمی تھا۔سالار نے منہ میں موجود پانی غیر محسوس انداز میں حلق سے نیچے اتار لیا۔وہ اس دن اس سے کوئی سوال جواب نہیں کر سکا تھا۔اس کے پاس کوئی سوال تھا ہی نہیں۔
ایم بی اے کے فائنل سمسٹر سے دو ہفتے پہلے اس نے قرآن پاک پہلی بار حفظ کر لیا تھا۔فائنل سمسٹر کے چار ہفتے کے بعد ساڑھے تئیس سال کی عمر میں اس نے اپنی زندگی کا پہلا حج کیا تھا۔وہاں جاتے ہوئے وہاں سے آتے ہوئے اس کے دل و دماغ میں کچھ بھی نہیں تھا۔کوئی تکبر ، کوئی تفخر ، کوئی رشک کچھ بھی نہیں۔اس کے ساتھ پاکستانی کیمپ میں ساتھ جانے والے شاید وہ لوگ ہوں گے جو خوش قسمت ہوں گے۔انہیں ان کی نیکیوں کے عوض وہاں بلایا گیا تھا۔وہ قرآن پاک حفظ نہ کر رہا ہوتا تو حج کرنے کا سوچتا بھی نہیں ، جو شخص حرم شریف سے دور اللہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کعبہ کے سامنے پہنچ کر اللہ کا سامنا کر لے گا وہ ہر جگہ جانے کو تیار ہو جاتا ، مگر خانہ کعبہ جانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
مگر خالد عبدالرحمان کے ایک بار کہنے پر اس نے جیسے گھٹنے ٹیکتے ہوئے حج پر جانے کے لئے پیپرز جمع کروا دئیے تھے۔
لوگوں کو حج پر جانے کا موقع تب ملتا تھا جب ان کے پاس گناہ نہیں ہوتے۔نیکیوں کا ہی انبار ہوتا ہے۔سالار سکندر کو یہ موقع تب ملا تھا جب اس کے پاس گناہوں کے علاوہ بھی کچھ بھی نہیں تھا۔
“ہاں ٹھیک ہے ، اگر میں گناہ کرنے سے خوف نہیں کھاتا رہا تو پھر اب مجھے اللہ کے سامنے جانے اور معذرت کرنے سے بھی خوف نہیں کھانا چاہئیے۔صرف یہی ہے نا کہ میں وہاں سر نہیں اٹھا سکوں گا۔نظریں اوپر نہیں کر سکوں گا۔منہ سے معافی کے علاوہ اور کوئی لفظ نہیں نکال سکوں گا تو ٹھیک ہے مجھے یہ سزا بھی ملنی چاہئیے۔میں تو اس سے زیادہ شرمندگی اور بےعزتی کا مستحق ہوں۔ہر بار حج پر کوئی نہ کوئی شخص ایسا آتا ہو گا ، جس کے پاس گناہوں کے علاوہ اور کچھ ہو گا ہی نہیں۔اس بار وہ شخص میں سہی ، سالار سکندر ہی سہی۔”اس نے سوچا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گناہ کا بوجھ کیا ہوتا ہے اور آدمی اپنے گناہ کے بوجھ کو کس طرح قیامت کے دن اپنی پُشت سے اتار پھینکنا چاہے گا کس طرح اس سے دور بھاگنا چاہے گا کس طرح اسے دوسرے کے کندھے پر ڈال دینا چاہے گا۔یہ اس کی سمجھ میں حرم شریف میں پہنچ کر ہی آیا تھا۔وہاں کھڑے ہو کر وہ اپنے پاس موجود اور آنے والی ساری زندگی کی دولت کے عوض بھی کسی کو وہ گناہ بیچنا چاہتا تو کوئی یہ تجارت نہ کرتا۔کاش آدمی کسی مال کے عوض اپنے گناہ بیچ سکتا۔کسی اجرت کے طور پر دوسروں کی نیکیاں مانگنے کا حق رکھتا۔
لاکھوں لوگوں کے اس ہجوم میں دو سفید چادریں اوڑھے کون جانتا تھا سالار کون تھا؟اس کا آئی کیو لیول کیا تھا ، کسے پرواہ تھی۔اس کے پاس کون سی اور کہاں کی ڈگری تھی ، کسے ہوش تھا۔اس نے زندگی کے میدان میں کتنے تعلیمی ریکارڈ توڑے اور بنائے تھے ، کسے خبر تھی وہ اپنے ذہن سے کون سے میدان تسخیر کرنے والا تھا، کون رشک کرنے والا تھا۔
وہ وہاں اس ہجوم میں ٹھوکر کھا کر گرتا۔بھگدڑ میں روندا جاتا۔اس کے اوپر سے گزرنے والی خلقت میں سے کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ انہوں نے کیسے دماغ کو کھو دیا تھا۔کس آئی کیو لیول کے نایاب آدمی کو کس طرح ختم کر دیا تھا۔
اسے دنیا میں اپنی اوقات ، اپنی اہمیت کا پتا چل گیا تھا۔اگر کچھ مغالطہ رہ بھی گیا تھا تو اب ختم ہو گیا تھا۔اگر کچھ شبہ باقی تھا تو اب دور ہو گیا تھا۔
فخر ، تکبر ، رشک ، انا ، خود پسندی ، خود ستائشی کے ہر بچے ہوئے ٹکڑے کو نچوڑ کر اس کے اندر سے پھینک دیا گیا تھا۔وہ ان ہی آلائشوں کو دور کروانے کے لئے وہاں آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔۔۔

