

پیرِکاملﷺ
از عمیرہ احمد
قسط نمبر 08
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایم بی اے میں اس کی شاندار کامیابی کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں تھی۔اس کے ڈیپارٹمنٹ میں ہر ایک کو پہلے سے ہی اس کا اندازہ تھا۔اس کے اور اس کے کلاس فیلوز کے پروجیکٹس اور اسائمنٹس میں اتنا فرق ہوتا تھا کہ اس کے پروفیسرز کو یہ ماننے میں کوئی عار نہیں تھا۔وہ مقابلے کی اس دوڑ میں دس گز آگے دوڑ رہا تھا اور ایم بی اے کے دوسرے سال میں اس نے اس فاصلے کو اور بڑھا دیا تھا۔
اس نے انٹرن شپ اقوامِ متحدہ کی ایک ایجنسی میں کی تھی۔اور اس کا ایم بی مکمل ہونے سے پہلے ہی اس ایجنسی کے علاوہ اس کے پاس سات مختلف ملٹی نیشنل کمپنیز کی طرف سے آفرز موجود تھیں۔
“تم اب آگے کیا کرنا چاہتے ہو؟”اس کے رزلٹ کے متعلق جاننے کے بعد سکندر عثمان نے اپنے پاس بلا کر پوچھا تھا۔
“میں واپس امریکہ جا رہا ہوں۔میں یونائیٹڈ نیشنز کے ساتھ ہی کام کرنا چاہتا ہوں۔”
“لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اپنا بزنس شروع کرو یا میرے بزنس میں شامل ہو جاؤ۔”سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
“پاپا! میں بزنس نہیں کر سکتا۔بزنس والا ٹمپرامنٹ نہیں ہے میرا۔میں جاب کرنا چاہتا ہوں اور میں پاکستان میں رہنا بھی نہیں چاہتا۔”سکندر عثمان حیران ہوئے۔”تم نے پہلے کبھی ذکر نہیں کیا کہ تم پاکستان میں رہنا نہیں چاہتے۔تم مستقل طور پر امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتے ہو؟”
“پہلے میں نے امریکہ میں سیٹل ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن اب میں وہیں رہنا چاہتا ہوں۔”
“کیوں؟”
وہ ان سے یہ کہنا نہیں چاہتا تھا کہ پاکستان میں اس کا ڈپریشن بڑھ جاتا ہے۔وہ مسلسل امامہ کے بارے میں سوچتا رہتا تھا۔وہاں ہر چیز اسے امامہ کی یاد دلاتی تھی۔اس کے پچھتاوے اور احساسِ جرم میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔
“میں یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکتا۔”سکندر عثمان کچھ دیر اسے دیکھتے رہے۔
“حالانکہ میرا خیال ہے تم ایڈجسٹ ہو سکتے ہو۔”
سالار جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا مگر وہ خاموش رہا۔
“جاب کرنا چاہتے ہو؟”ٹھیک ہے ، چند سال جاب کر لو لیکن اس کے بعد آ کر میرے بزنس کو دیکھو۔یہ سب کچھ میں تم لوگوں کے لئے ہی اسٹیبلش کر رہا ہوں ، دوسروں کے لئے نہیں۔”
وہ کچھ دیر اسے سمجھاتے رہے ، سالار خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭____
ایک ہفتے کے بعد وہ دوبارہ امریکہ آ گیا تھا اور اس کے چند ہفتے کے بعد اس نے یونیسیف میں جاب شروع کر دی۔وہ نیو ہیون سے نیو یارک چلا گیا تھا۔یہ ایک نئی زندگی کا آغاز تھا اور وہاں آنے کے چند ہفتے بعد اسے یہ اندازہ بھی ہو گیا تھا کہ وہ کہیں فرار حاصل نہیں کر سکتا تھا وہ اسے وہاں بھی اسی طرح یاد آ رہی تھی ، اس کا احساسِ جرم وہاں بھی اس کا ساتھ چھوڑنے پر تیار نہیں تھا۔
وہ سولہ سے اٹھارہ گھنٹے تک کام کرنے لگا۔وہ ایک دن بھی تین چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا اور دن رات کی اس مصروفیت نے اسے بڑی حد تک نارمل کر دیا تھا اگر ایک طرف کام کے اس انبار نے اس کے ڈپریشن میں کمی کی تھی تو دوسری طرف وہ اپنے ادارے کے نمایاں ترین ورکرز میں شمار ہونے لگا تھا۔یونیسیف کے مختلف پروجیکٹس کے سلسلے میں وہ ایشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک جانے لگا۔غربت اور بیماری کو وہ پہلی دفعہ اپنی آنکھوں سے ، اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔رپورٹس اور اخباروں میں چھپنے والے حقائق میں اور ان حقائق کو اپنی تمام ہولناکی کے ساتھ کھلی آنکھ سے دیکھنے میں بہت فرق ہوتا ہے اور یہ فرق اسے اس جاب میں ہی سمجھ میں آیا تھا۔ہر روز بھوکے سونے والے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں تھی۔ہر رات پیٹ بھر کر ضرورت سے زیادہ کھا لینے والوں کی تعداد بھی کروڑوں میں تھی۔صرف تین وقت کا کھانا ، سر پر چھت اور جسم پر لباس بھی کتنی بڑی نعمتیں تھیں ، اسے تب سمجھ میں آیا تھا۔
وہ یونیسیف کی ٹیم کے ساتھ چارٹرڈ طیاروں میں سفر کرتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں سوچتا۔اس نے زندگی میں ایسے کون سے کارنامے انجام دئیے تھے کہ اسے وہ پر آسائش زندگی دی گئی تھی جو وہ گزار رہا تھا اور ان لوگوں سے کیا گناہ ہوئے تھے کہ وہ زندگی کی تمام بنیادی ضروریات سے محروم صرف زندہ رہنے کی خواہش میں خوراک کے ان پیکٹس کے پیچھے بھاگتے پھرتے تھے۔
وہ ساری ساری رات جاگ کر اپنے ادارے میں کے لئے ممکنہ اسکیمیں اور پلان بناتا رہتا۔کہاں خوراک کی ڈسٹری بیوشن کیسے ہو سکتی ہے ، کیا بہتری لائی جا سکتی ہے ، کہاں مزید امداد کی ضرورت ہے ، کن علاقوں میں کس طرح کے پروجیکٹس درکار تھے ، وہ بعض دفعہ اڑتالیس گھنٹے بغیر سوئے کام کرتا رہتا۔
اس کے بنائے ہوئے پرپوزلز اور رپورٹس تکنیکی لحاظ سے اتنے مربوط ہوتے تھے کہ ان میں کوئی خامی ڈھونڈنا کسی کے لئے ممکن نہیں رہتا تھا اور اس کی یہ خصوصیات ، اس کی ساکھ اور نام کو اور بھی مستحکم کرتی جا رہی تھیں اگر مجھے اللہ نے دوسروں سے بہتر ذہن اور صلاحیتیں دی ہیں تو مجھے ان صلاحیتوں کو دوسروں کے لئے استعمال کرنا چاہئیے۔اس طرح استعمال کرنا چاہئیے کہ میں دوسروں کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانی لا سکوں ، دوسروں کی زندگی کو بہتر کر سکوں۔وہ کام کرتے ہوئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتا تھا۔
یونیسیف کے لئے کام کرنے کے دوران ہی اس نے ایم فل کرنے کا سوچا تھا اور پھر اس نے ایم فل میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ایوننگ کلاسز کو جوائن کرتے ہوئے اسے قطعاً کسی قسم کا کوئی شبہ نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ کو ایک بار پھر ضرورت سے زیادہ مصروف کر رہا تھا مگر اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔کام اس کا جنون بن چکا تھا یا پھر اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ایک مشن۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان سے سالار کی پہلی ملاقات امریکہ سے پاکستان آتے ہوئے فلائٹ کے دوران ہوئی۔وہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔وہ امریکہ میں ڈاکٹرز کی کسی کانفرنس میں شرکت کر کے واپس آ رہا تھا جبکہ سالار سکندر اپنی بہن انیتا کی شادی میں شرکت کے لئے پاکستان آ رہا تھا۔اس لمبی فلائٹ کے دوران دونوں کے درمیان ابتدائی تعارف کے بعد گفتگو کا سلسلہ تھما نہیں۔
فرقان ، عمر میں سالار سے کافی بڑا تھا ، وہ پینتیس سال کا تھا لندن اسپیشلائزیشن کرنے کے بعد وہ واپس پاکستان آ گیا تھا اور وہاں ایک ہاسپٹل میں کام کر رہا تھا۔وہ شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے۔
چند گھنٹے آپس میں گفتگو کرتے رہنے کے بعد فرقان اور وہ سونے کی تیاری کرنے لگے۔سالار نے معمول کے مطابق اپنے بریف کیس سے سلیپنگ پلز کی ایک گولی پانی کے ساتھ نگل لی۔فرقان نے اس کی اس تمام کاروائی کو خاموشی سے دیکھا۔جب اس نے بریف کیس بند کر کے دوبارہ رکھ دیا تو فرقان نے کہا۔
“اکثر لوگ فلائٹ کے دوران سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سو سکتے۔”
سالار نے گردن موڑ کر اسے دیکھا اور کہا۔
“میں سلیپنگ پلز کے بغیر نہیں سو سکتا۔فلائٹ میں ہوں یا نہ ہوں ، اس سے فرق نہیں پڑتا۔”
“سونے میں مشکل پیش آتی ہے؟”فرقان کو ایک دم کچھ تجسس ہوا۔
“مشکل؟”سالار مسکرایا۔”میں سرے سے سو ہی نہیں سکتا۔میں سلیپنگ پلز لیتا ہوں اور تین چار گھنٹے سو لیتا ہوں۔”
“انسو مینیا؟”فرقان نے پوچھا۔
“شاید ، میں نے ڈاکٹر سے چیک اپ نہیں کروایا مگر شاید یہ وہی ہے۔”سالار نے قدرے لاپرواہی سے کہا۔
“تمہیں چیک اپ کروانا چاہئیے تھا ، اس عمر میں انسو مینیا ۔۔۔۔۔ یہ کوئی بہت صحت مند علامت نہیں ہے۔میرا خیال ہے تم کام کے پیچھے جنونی ہو چکے ہو اور اسی وجہ سے تم نے اپنی سونے کی نارمل روٹین کو خراب کر لیا ہے۔”
فرقان اب کسی ڈاکٹر کی طرح بول رہا تھا۔سالار مسکراتے ہوئے سنتا رہا۔وہ اسے نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ اگر رات دن مسلسل کام نہ کرے تو وہ اس احساسِ جرم کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا تھا جسے وہ محسوس کرتا ہے۔وہ اسے یہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز کے بغیر سونے کی کوشش کرے تو وہ امامہ کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔اس حد تک کہ اسے اپنا سر درد سے پھٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔
“کتنے گھنٹے کام کرتے ہو ایک دن میں؟”فرقان اب پوچھ رہا تھا۔
“اٹھارہ گھنٹے ، بعض دفعہ بیس۔”
“مائی گڈنیس! اور کب سے؟”
“دو تین سال سے۔”
“اور تب ہی سے نیند کا مسئلہ ہو گا تمہیں ، میں نے ٹھیک اندازہ لگایا۔تم نے خود اپنی روٹین خراب کر لی ہے۔”فرقان نے اس سے کہا۔”ورنہ اتنے گھنٹے کام کرنے والے آدمی کو تو ذہنی تھکن ہی ایک لمبی اور پُر سکون نیند سلا دیتی ہے۔”
“یہ میرے ساتھ نہیں ہوتا۔”سالار نے مدھم لہجے میں کہا۔
“یہی تو تمہیں جاننے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ اگر یہ تمہارے ساتھ نہیں ہوتا تو کیوں نہیں ہوتا۔”سالار اس سے یہ نہیں کہہ سکا کہ وہ وجہ جانتا ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد فرقان نے اس سے کہا۔
“میں اگر تمہیں کچھ آیتیں بتاؤں رات کو سونے سے پہلے ، تو تم پڑھ سکو گے؟”
“کیوں نہیں پڑھ سکوں گا۔”سالار نے گردن موڑ کر اس سے کہا۔
“نہیں ، اصل میں تمہارے اور میرے جیسے لوگ جو زیادہ پڑھ لیتے ہیں اور خاص طور پر تعلیم مغرب میں حاصل کرتے ہیں وہ ایسی چیزوں پر یقین نہیں رکھتے یا انہیں پریکٹیکل نہیں سمجھتے۔”فرقان نے وضاحت کی۔
“فرقان! میں حافظِ قرآن ہوں۔”سالار نے اسی طرح لیٹے ہوئے پُر سکون آواز میں کہا۔
فرقان کو جیسے کرنٹ لگا۔
“میں روز رات کو سونے سے پہلے ایک سپارہ پڑھ کر سوتا ہوں ، میرے ساتھ یقین یا اعتماد کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔”سالار نے بات جاری رکھی۔
“میں بھی حافظِ قرآن ہوں۔”
فرقان نے بتایا۔سالار نے گردن موڑ کر مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔یہ یقیناً ایک خوشگوار اتفاق تھا۔اگرچہ فرقان نے داڑھی رکھی ہوئی تھی مگر سالار کو پھر بھی یہ اندازہ نہیں ہو پایا تھا کہ وہ حافظ قرآن ہے۔
“پھر تو تمہیں اس طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئیے۔قرآن پاک کی تلاوت کر کے سونے والے انسان کو نیند نہ آئے ، یہ مجھے عجیب لگتا ہے۔”
سالار نے فرقان کو بڑبڑاتے سنا۔وہ اب اپنے حواس کو ہلکا ہلکا مفلوج پا رہا تھا۔نیند اس پر غلبہ پا رہی تھی۔اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
“تمہیں کوئی پریشانی ہے؟”اس نے فرقان کی آواز سنی۔وہ نیند کی گولیوں کے زیرِ اثر نہ ہوتا تو مسکرا کر انکار کر دیتا مگر وہ جس حالت میں تھا اس میں وہ انکار نہیں کر سکا۔
“ہاں ، مجھے بہت زیادہ پریشانیاں ہیں۔مجھے سکون نہیں ہے ، مجھے لگتا ہے میں مسلسل کسی صحرا میں سفر کر رہا ہوں ، پچھتاوے اور احساسِ جرم مجھے چھوڑتے ہی نہیں۔مجھے۔۔۔۔۔ مجھے کسی پیر کامل کی تلاش ہے ، جو مجھے اس تکلیف سے نکال دے ، جو مجھے میری زندگی کا راستہ دکھا دے۔”
فرقان دم بخود اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔سالار کی آنکھیں بند تھیں ، مگر وہ اس کی آنکھوں کے کونوں سے نکلتی نمی کو دیکھ رہا تھا۔اس کی آواز میں بھی بےربطی اور لڑکھڑاہٹ تھی۔وہ اس وقت لاشعوری طور پر سلیپنگ پلز کے زیرِ اثر بول رہا تھا۔
وہ اب خاموش ہو چکا تھا۔فرقان نے مزید کوئی سوال نہیں کیا۔بہت ہموار انداز میں چلنے والی اس کی سانس بتا رہی تھی کہ وہ نیند میں جا چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جہاز میں ہونے والی وہ ملاقات وہیں ختم نہیں ہوئی۔وہ دونوں جاگنے کے بعد بھی آپس میں گفتگو کرتے رہے۔فرقان نے سالار سے ان چند جملوں کے بارے میں نہیں پوچھا تھا ، جو اس نے نیند کی آغوش میں سماتے ہوئے بولے تھے۔خود سالار کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے سونے سے پہلے اس سے کچھ کہا تھا اگر کہا تھا تو کیا کہا تھا۔
سفر ختم ہونے سے پہلے ان دونوں نے آپس میں کانٹیکٹ نمبرز اور ایڈریس کا تبادلہ کیا پھر سالار نے اسے انیتا کی شادی پر انوائٹ کیا۔فرقان نے آنے کا وعدہ کیا مگر سالار کو اس کا یقین نہیں تھا۔ان دونوں کی فلائیٹ کراچی تک تھی پھر سالار کو اسلام آباد کی فلائٹ لینی تھی جبکہ فرقان کو لاہور کی۔ائیرپورٹ پر فرقان نے بڑی گرمجوشی کے ساتھ اس سے الوداعی مصافحہ کیا۔
انیتا کی شادی تین دن بعد تھی اور سالار کے پاس ان تین دنوں کے لیے بھی بہت سے کام تھے۔کچھ شادی کی مصروفیات اور کچھ اس کے اپنے مسئلے۔
وہ اگلے دن شام کو اس وقت حیران ہوا جب فرقان نے اسے فون کیا۔دس پندرہ منٹ دونوں کی گفتگو ہوتی رہی۔فون بند کرنے سے پہلے سالار نے ایک بار پھر اسے انیتا کی شادی کے بارے میں یاد دلایا۔
” یہ کوئی یاد دلانے والی بات نہیں ہے ، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔میں ویسے بھی اس ویک اینڈ پر اسلام آباد میں ہی ہوں گا۔”فرقان نے جواباً کہا۔”وہاں مجھے اپنے گاؤں میں اپنا اسکول دیکھنے بھی جانا ہے۔اس کی بلڈنگ میں کچھ اضافی تعمیر ہو رہی ہے ، اسی سلسلے میں ۔۔۔۔۔تو اسلام آباد میں اس بار میرا قیام کچھ لمبا ہی ہو گا۔”سالار نے اس کی بات کو کچھ دلچسپی سے سنا۔
“گاؤں ۔۔۔۔۔اسکول۔۔۔۔۔کیا مطلب؟”
“ایک اسکول چلا رہا ہوں میں وہاں ، اپنے گاؤں میں۔”فرقان نے اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں سے ایک کا نام لیا۔”بلکہ کئی سالوں سے۔”
“کس لئے؟”
“کس لئے؟”فرقان کو اس کے سوال نے حیران کیا۔”لوگوں کی مدد کے لئے اور کس لئے۔”
“چیریٹی ورک ہے؟’
“نہیں ، چیریٹی ورک نہیں ہے۔یہ میرا فرض ہے۔یہ کسی پر کوئی احسان نہیں ہے۔”فرقان نے بات کرتے کرتے موضوع بدل دیا۔اسکول کے بارے میں مزید گفتگو نہیں ہوئی اور فون بند ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان انیتا کی شادی میں واقعی آ گیا تھا۔وہ خاصی دیر وہاں رکا مگر سالار کو محسوس ہوا کہ وہ کچھ حیران تھا۔
“تمہاری فیملی تو خاصی مغرب زدہ ہے۔”
سالار کو ایک دم اس کی الجھن اور حیرانی کی وجہ سمجھ میں آ گئی۔
“میرا خیال تھا کہ تمہاری فیملی کچھ کنزرویٹو سی ہو گی کیونکہ تم نے بتایا تھا کہ تم حافظ قرآن ہو اور تمہارا لائف اسٹائل مجھے کچھ سادہ سا لگا مگر یہاں آ کر مجھے حیرانی ہوئی۔تم اور تمہاری فیملی میں بہت فرق ہے۔” I think you are the odd one out”.
وہ اپنے آخری جملے پر خود ہی مسکرا دیا۔وہ دونوں اب فرقان کی گاڑی کے قریب پہنچ چکے تھے۔
“میں نے صرف دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا اور دو تین سال سے ہی میں odd one out ہوا ہوں۔پہلے میں اپنی فیملی سے بھی زیادہ مغرب زدہ تھا۔”اس نے فرقان کو بتایا۔
“دو سال پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔امریکہ میں اپنی اسٹڈیز کے دوران ، مجھے یقین نہیں آ رہا۔”فرقان نے بےیقینی سے سر ہلایا۔
“کتنے عرصے میں کیا؟”
“تقریباً آٹھ ماہ میں۔”
فرقان کچھ دیر تک کچھ نہیں کہہ سکا ، وہ صرف اس کا چہرہ دیکھتا رہا ، پھر اس نے ایک گہرا سانس لے کر ستائشی نظروں سے اسے دیکھا۔
“تم پر اللہ کا کوئی خاص ہی کرم ہے ، ورنہ جو کچھ تم مجھے بتا رہے ہو یہ آسان کام نہیں ہے۔میں فلائٹ میں بھی تمہارے کارناموں سے کافی متاثر ہوا تھا ، کیونکہ جس عمر میں یونیسکو میں جس سیٹ پر تم کام کر رہے ہو ہر کوئی نہیں کر سکتا۔”
اس نے ایک بار پھر بڑی گرمجوشی کے ساتھ سالار سے ہاتھ ملایا۔چند لمحوں کے لئے سالار کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا۔
“اللہ کا خاص کرم! اگر میں اسے یہ بتا دوں کہ میں ساری زندگی کیا کرتا رہا ہوں تو یہ ۔۔۔۔۔”سالار نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے سوچا۔
“تم پرسوں کسی اسکول کی بات کر رہے تھے۔”سالار نے دانستہ طور پر موضوع بدلا۔
“تم اسلام آباد میں نہیں رہتے؟”
“نہیں ، میں اسلام آباد میں ہی رہتا ہوں مگر میرا ایک گاؤں ہے۔آبائی گاؤں ، وہاں ہماری کچھ زمین ہے ، ایک گھر بھی تھا۔”فرقان اسے تفصیل سے بتانے لگا۔”کئی سال پہلے میرے والدین اسلام آباد شفٹ ہو گئے تھے۔میرے والد نے فیڈرل سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں اپنی زمینوں پر ایک اسکول بنا لیا۔اس گاؤں میں کوئی اسکول نہیں تھا۔انہوں نے پرائمری اسکول بنوایا تھا۔سات آٹھ سال سے میں اسے دیکھ رہا ہوں۔اب وہ سیکنڈری اسکول بن چکا ہے۔چار سال پہلے میں نے وہاں ایک ڈسپینسری بھی بنوائی۔تم اس ڈسپنسری کو دیکھ کر حیران رہ جاؤ گے۔بہت جدید سامان ہے اس میں۔میرے ایک دوست نے ایک ایمبولینس بھی گفٹ کی ہے اور اب صرف میرے گاؤں کے ہی نہیں بلکہ ارد گرد کے بہت سارے گاؤں کے لوگ بھی اسکول اور ڈسپنسری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔”
سالار اس کی باتیں توجہ سے سن رہا تھا۔
“مگر تم یہ سب کیوں کر رہے ہو۔تم ایک سرجن ہو ، تم یہ سب کیسے کر لیتے ہو اور اس کے لئے بہت پیسے کی ضرورت ہے۔”
“کیوں کر رہا ہوں ، یہ تو میں نے اپنے آپ سے کبھی نہیں پوچھا۔میرے گاؤں میں اتنی غربت تھی کہ یہ سوال پوچھنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ہم لوگ بچپن میں کبھی کبھار اپنے گاؤں جایا کرتے تھے۔یہ ہمارے لئے تفریح تھی۔ہماری حویلی کے علاوہ گاؤں کا کوئی مکان پکا نہیں تھا اور سڑک کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہم سب کو یوں لگتا تھا جیسے ہم جنگل میں آ گئے ہیں ، اب اگر ہم جانور ہوتے تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔شہر کی طرح ہم جنگل میں دندناتے پھرتے۔یہی سوچ کر کہ سب ، ہم سب سے مرعوب ہیں اور کوئی بھی ہمارے جیسا نہیں نہ کوئی ہماری طرح رہتا ہے ، نہ ہمارے جیسا کھاتا ہے ، نہ ہمارے جیسا پہنتا ہے مگر انسان ہو کر یہ برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے انسان جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ہو سکتا ہے کچھ انسانوں کو اس سے خوشی محسوس ہوتی ہو کہ انہیں ہر نعمت میسر ہے اور باقی سب ترس رہے ہیں مگر ہمارا شمار ایسے لوگوں میں نہیں ہوتا تھا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کیا کیا جائے۔میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو تھی نہیں کہ میں اسے ہلاتا اور سب کچھ بدل دیتا ، نہ ہی بےشمار وسائل۔تمہیں میں نے بتایا ہے نا کہ میرے والد سول سرونٹ تھے ، ایمان دار قسم کے سول سرونٹ۔میں اور میرا بھائی دونوں شروع سے ہی اسکالرشپ پر پڑھتے رہے ، اس لئے ہم پر ہمارے والدین کو زیادہ خرچ نہیں کرنا پڑا۔خود وہ بھی کوئی فضول خرچ نہیں تھے ، اس لئے تھوڑی بہت بچت ہوتی رہی۔ریٹائرمنٹ کے بعد میرے والد نے سوچا کہ لاہور یا اسلام آباد کے کسی گھر میں اخبار پڑھ کر ، واک کر کے یا ٹی وی دیکھ کر زندگی گزارنے کی بجائے ، انہیں اپنے گاؤں جانا چاہئیے۔وہاں کچھ بہتری لانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔”
وہ دونوں گاڑی کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔
“مشکلات کا تم اندازہ نہیں کر سکتے گاؤں میں نہ بجلی تھی ، نہ صاف پانی ، کچھ بھی نہیں تھا۔بابا نے پتا نہیں کہاں کہاں بھاگ کر یہ ساری چیزیں منظور کروائیں۔جب وہاں پرائمری اسکول بن گیا ، ایک سڑک بھی آ گئی ، بجلی اور پانی جیسی سہولتیں بھی آ گئیں تو گورنمنٹ کو اچانک وہاں ایک اسکول بنانے کا خیال آیا۔میرے والدین کی خوشی تھی کہ گورنمنٹ ان کے اسکول کو اپنی زیرنگرانی لے لے۔اس میں اپنے ٹیچرز بھجوائے اور کچھ عرصے کے بعد اس اسکول کو اپ گریڈ کر دے ، مگر محکمہ تعلیم کے ساتھ چند رابطوں میں ہی بابا کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ان کی ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔بابا وہاں بچوں کو سب کچھ دیتے تھے۔کتابیں ، کاپیاں ، یونیفارم اور ایسی کچھ ضروری چیزیں۔انہوں نے باقائدہ اس کے لئے فنڈز رکھے ہوئے تھے ، مگر تم اندازہ کر سکتے ہو کہ گورنمنٹ کے پاس چلے جانے کے بعد اس اسکول کا کیا حشر ہوتا۔سب سے پہلے وہ فنڈز جاتے پھر باقی سب کچھ۔اس لیے بابا خود ہی اس اسکول کو چلاتے رہے۔
محکمہء تعلیم نے وہاں اسکول پھر بھی کھولا مگر وہاں ایک بچہ بھی نہیں گیا پھر ہار مان کر انہوں نے وہ اسکول بند کر دیا اور ہمارے اسکول کو اپ گریڈ کر دیا۔بابا کے کچھ دوستوں نے اس سلسلے میں ان کی مدد کی ، اسی طرح اس کی اپ گریڈنگ ہوتی گئی۔میں ان دنوں لندن میں پڑھتا تھا اور میں روپے بچا بچا کر بھیجا کرتا تھا۔ابھی بھی ہم اس کو اور ترقی دے رہے ہیں ، آس پاس کے گاؤں کے لوگ بھی اپنے بچوں کو ہمارے پاس بھجواتے ہیں۔میں جب پاکستان واپس آیا تو میں نے وہاں ایک با ضابطہ قسم کی ڈسپنسری قائم کی۔گاؤں کی آبادی بھی اب بہت بڑھ گئی ہے لیکن گاؤں میں غربت ابھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔تعلیم سے اتنا ضرور ہوا ہے کہ گاؤں کے کچھ بچے باہر شہر میں آگے پڑھنے کے لیے جانے لگے ہیں۔کچھ مختلف ہنر سیکھ رہے ہیں۔وہ جو غربت کا ایک چکر تھا وہ ختم ہو رہا ہے۔ان کی یہ نسلیں نہیں تو اگلی نسلیں شاید تمہارے اور میرے جیسے تعلیمی اداروں سے اعلیٰ ڈگریز لے کر نکلیں۔کون کہہ سکتا ہے۔”وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“میں ہر ماہ ایک ویک اینڈ پر گاؤں جاتا ہوں ، وہاں دو کمپاؤنڈر ہیں مگر کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ایک ویک اینڈ پر میں وہاں جاتا ہوں ، باقی تین ویک اینڈز پر بھی ہم کسی نہ کسی کو وہاں بھجوا دیتے ہیں پھر میں وہاں ہر تین ماہ بعد ایک میڈیکل کیمپ لگواتا ہوں۔”
“اور اس سب کے لئے روپیہ کہاں سے آتا ہے؟”
“شروع میں تو یہ بابا کا روپیہ تھا۔ان ہی کی زمین پر اسکول بنا ، ان کی گریجویٹی سے اس کی تعمیر ہوئی۔میری امی نے بھی اپنے پاس موجود رقم سے ان کی مدد کی ، پھر بابا کے کچھ دوست بھی مالی امداد کرنے لگے۔اس کے بعد میں اور مہران بھی اس میں شامل ہو گئے پھر میرے کچھ دوست بھی۔میں اپنی انکم کا ایک خاص حصہ ہر ماہ گاؤں بھجوا دیتا ہوں۔اس سے ڈسپنسری بڑے آرام سے چلتی رہتی ہے ، جو ڈاکٹرز وہاں مہینے کے تین ویک اینڈز پر جاتے ہیں وہ کچھ چارج نہیں کرتے۔ان کے لیے یہ سوشل ورک ہے۔میڈیکل کیمپس بھی اسی طرح کے لگ جاتے ہیں اور اسکول کے پاس اب اتنے فکسڈ ڈیپازٹس ہو چکے ہیں کہ ان سے آنے والی رقم ٹیچرز کی تنخواہ اور دوسرے اخراجات کے لیے کافی ہوتی ہے۔ہم چند سالوں میں وہاں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے لئے بھی کچھ کام کرنا چاہتے ہیں۔”
“تم کب جا رہے ہو وہاں؟”
“میں تو صبح نکل رہا ہوں۔”
“اگر میں تمہارے ساتھ جانا چاہوں؟”سالار نے کہا۔
“موسٹ ویلکم ۔۔۔۔۔مگر کل تو ولیمہ ہو گا ، تم یہاں مصروف ہو گے۔”فرقان نے اسے یاد دلایا۔
“ولیمہ تو رات کو ہے ، سارا دن تو میں فارغ ہی ہوں گا۔کیا رات تک پہنچنا مشکل ہو گا؟”
“نہیں ، بالکل بھی نہیں۔تم بہت آسانی سے پہنچ سکتے ہو۔صرف صبح کچھ جلدی نکلنا پڑے گا۔اگر تم واقعی وہاں چند گھنٹے گزارنا چاہتے ہو ، ورنہ پھر تم واپس آ کر خاصے تھک جاؤ گے۔”فرقان نے اس سے کہا۔
“میں نہیں تھکوں گا ، میں یونیسیف کی ٹیمز کے ساتھ کیسے کیسے علاقوں میں سفر کرتا رہا ہوں ، تمہیں اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔میں فجر کے بعد تیار رہوں گا ، تم مجھے وقت بتا دو۔”
“ساڑھے پانچ۔”
“اوکے ، تم گھر سے نکلتے ہوئے مجھے ایک بار موبائل پر کال کر لینا اور دو تین بار ہارن دینا یہاں آ کر ، میں نکل آؤں گا۔”
اس نے فرقان سے کہا اور پھر خدا حافظ کہتا ہوا اندر مڑ گیا۔
اگلی صبح فرقان ٹھیک ساڑھے پانچ بجے اس کے گیٹ پر ہارن دے رہا تھا اور سالار پہلے ہی ہارن پر باہر تھا۔
“تم واپس پاکستان کیوں آ گئے؟تم انگلینڈ میں بہت آگے جا سکتے تھے؟”گاڑی شہر سے باہر والی سڑک پر بھاگ رہی تھی۔انہیں سفر کرتے آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا ، جب سالار سے اچانک اس نے پوچھا۔
“انگلینڈ کو میری ضرورت نہیں تھی ، پاکستان کو تھی ، اس لئے میں پاکستان آ گیا۔”فرقان نے بڑے نارمل انداز میں کہا۔
“وہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔یہاں ایک ڈاکٹر فرقان کے نہ ہونے سے بہت فرق پڑ جاتا۔یہاں میری خدمات کی ضرورت ہے۔”اس نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
“مگر وہاں اتنے سالوں میں تم بہت آگے جا سکتے تھے۔پھر پروفیشنلی بھی تم بہت کچھ سیکھتے۔فنانشیلی بھی تم اس پروجیکٹ کے لئے زیادہ روپیہ حاصل کر سکتے تھے ، جو تم نے شروع کیا ہوا ہے۔آفٹر آل ، پاکستان میں تم اتنے کامیاب نہیں ہو سکتے۔”سالار نے کہا۔
“اگر کامیابی سے تمہاری مراد پاؤنڈز کی تعداد اور سہولتوں سے ہے تو ہاں ، دونوں جگہوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے لیکن اگر تمہارا اشارہ علاج کی طرف ہے تو میں یہاں زیادہ لوگوں کو زندگی بانٹ رہا ہوں جو اطمینان ڈاکٹر اپنے صحت یاب ہونے والے مریض کو دیکھ کر حاصل کرتا ہے تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔انگلینڈ اونکولوجسٹ سے بھرا ہوا ہے۔پاکستان میں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔میں وہاں رہ کر پیسوں کا ڈھیر بھی یہاں بھجواتا رہتا تو کوئی فرق نہ پڑتا۔جہاں ایک فرد کی کمی ہوتی ہے وہاں اس فرد سے ہی وہ کمی پوری ہوتی ہے۔روپیہ یا دوسری کوئی چیز اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔میں بہت قانع ہوں سالار ! میری پوری فیملی بہت قانع ہے۔اگر میں نے کوئی چیز سیکھی ہے تو وہ سب سے پہلے میرے اپنے لوگوں کے کام آنی چاہئیے۔میں اپنے لوگوں کو مرتا چھوڑ کر دوسرے لوگوں کی زندگی نہیں بچا سکتا۔پاکستان میں کچھ بھی صحیح نہیں ہے ، سب کچھ خراب ہے ، کچھ بھی ٹھیک نہیں ، سہولتوں سے خالی ہاسپیٹلز اور حد سے زیادہ برا اور کرپٹ ہیلتھ سسٹم۔جس برائی اور خامی کا سوچو وہ یہاں ہے مگر میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔اگر میرے ہاتھ میں شفا ہے تو پھر سب سے پہلے یہ شفا میرے اپنے لوگوں کے حصے میں آنی چاہئیے۔”
سالار بہت دیر تک کچھ نہیں بول سکا۔گاڑی میں یک دم خاموشی چھا گئی تھی۔
“تم نے مجھ سے تو یہ سوال پوچھ لیا کہ میں پاکستان کیوں آ گیا ، کیا اب میں تم سے یہ سوال پوچھوں کہ تم پاکستان کیوں نہیں آ جاتے؟ “فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا اب میں تم سے یہ سوال پوچھوں کہ تم پاکستان کیوں نہیں آ جاتے؟ “فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔
“میں یہاں نہیں رہ سکتا۔”سالار نے بےاختیار کہا۔
“تم پیسوں اور سہولتوں کی وجہ سے یہ کہہ رہے ہو؟”
“نہیں ، پیسہ یا سہولتیں میرا مسئلہ نہیں ، نہ اب ، نہ ہی پہلے کبھی۔تم میرا فیملی بیک گراؤنڈ جان چکے ہو۔”
“پھر؟”
“پھر۔۔۔۔۔کچھ بھی نہیں۔بس میں یہاں نہیں آ سکتا۔”اس نے قطعی لہجے میں کہا۔
“یہاں تمہاری ضرورت ہے۔”
“کس کو؟’
“اس ملک کو۔”
سالار بےاختیار مسکرایا۔”میں تمہاری طرح کی حب الوطنی نہیں رکھتا۔میرے بغیر بھی سب کچھ ٹھیک ہے یہاں۔ایک ڈاکٹر کی اور بات ہے مگر ایک اکانومسٹ تو کسی کو زندگی اور موت نہیں دے سکتا۔”
“تم جو سروسز وہاں دے رہے ہو ، وہ یہاں کے اداروں کو دے سکتے ہو جو کچھ اپنے لیکچرز میں وہاں کی یونیورسٹیز میں سکھا رہے ہو ، یہاں کی یونیورسٹیز میں سکھا سکتے ہو۔”
اس کا دل چاہا ، وہ فرقان سے کہے کہ وہ یہاں آ کر کچھ بھی سکھانے کے قابل نہیں رہ سکے گا ، مگر وہ خاموشی سے اس کی بات سنتا رہا۔
“تم نے افریقہ کی غربت ، بھوک اور بیماری دیکھی ہے۔تم یہاں کی غربت ، بھوک اور بیماری دیکھو گے تو حیران رہ جاؤ گے۔”
“یہاں صورت حال ان ملکوں کی طرح خراب نہیں ہے فرقان! یہاں اتنی پسماندگی نہیں ہے۔”
“اسلام آباد کے جس سیکٹر میں تم پلے بڑھے ہو وہاں رہ کر اردگرد کی زندگی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔تم اسلام آباد کے قریبی گاؤں میں چلے جاؤ تو تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ یہ ملک کتنا خوشحال ہے۔”
“فرقان! میں تمہارے اس پروجیکٹ میں کچھ کنٹری بیوشن کرنا چاہتا ہوں۔”سالار نے یک دم بات کا موضوع بدلنا چاہا۔
“سالار! میرے اس پروجیکٹ کو فی الحال کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔تم اگر ایسا کوئی کام کرنا چاہتے تو تم خود کسی گاؤں میں اس طرح کا کام شروع کرو ، تمہارے پاس فنڈز کی کمی نہیں ہو گی۔”
“میرے پاس وقت نہیں ہے ، میں امریکہ میں بیٹھ کر یہ سب نہیں چلا سکتا۔تم اگر یہ چاہتے ہو تو کہ کسی دوسرے گاؤں میں بھی کوئی اسکول قائم کیا جائے تو میں اسے سپورٹ کرنے کو تیار ہوں۔میرے لئے ذاتی طور پر وقت دینا مشکل ہے۔”
فرقان اس بار خاموش رہا۔شاید اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سالار اب اس کے اس اصرار پر کچھ جھنجھلا رہا تھا۔بات کا موضوع ایک بار پھر فرقان کے گاؤں کی طرف مڑ گیا۔
وہ دن سالار کی زندگی کے یادگار ترین دنوں میں سے ایک تھا۔وہ اس اسکول کو دیکھ کر واقعی بڑا متاثر ہوا تھا مگر اس سے بھی زیادہ متاثر وہ اس ڈسپنسری کو دیکھ کر ہوا تھا جہاں وہ گیا تھا۔اسے ایک چھوٹا ہاسپٹل کہنا زیادہ بہتر تھا۔ڈاکٹر کے نہ ہونے کے باوجود وہ بڑے منظم طریقے سے چلایا جا رہا تھا۔اس دن فرقان کی آمد متوقع تھی اور اس کے انتظار میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود تھی فرقان آتے ہی مصروف ہو گیا۔ہاسپٹل کا احاطہ مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔وہاں ہر عمر اور ہر طرح کے مریض تھے۔نوزائیدہ بچے ، عورتیں ، بوڑھے ، جوان۔
سالار احاطے میں لاشعوری طور پر چہل قدمی کرتا رہا۔وہاں موجود چند لوگوں نے اسے بھی ڈاکٹر سمجھا اور اس کے قریب چلے آئے۔سالار ان سے بات چیت کرنے لگا۔
زندگی میں وہ پہلی بار کینسر کے ایک اسپیشلسٹ کو ایک فزیشن کے طور پر چیک اپ کرتے اور نسخے لکھتے دیکھ رہا تھا اور اس نے اعتراف کیا۔اس نے زندگی میں فرقان سے اچھا ڈاکٹر کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہ بےحد پروفیشنل اور بےحد نرم مزاج تھا۔اس تمام عمل میں اس کے چہرے کی مسکراہٹ ایک لمحہ کے لئے بھی غائب نہیں ہوئی تھی۔سالار کو یوں لگ رہا تھا جیسے اس نے اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ کو کسی چیز کے ساتھ چپکایا ہوا تھا ، کچھ وقت گزرنے کے بعد اس نے سالار کو ایک آدمی کے ساتھ اسکول بھجوا دیا تھا وہ وہاں اس کے والدین سے ملا۔
وہ اس کی آمد سے پہلے ہی با خبر تھے ، یقیناً فرقان نے ان کو فون پر بتا دیا تھا وہ ان کے ساتھ اسکول میں پھرتا رہا۔اسکول کی عمارت اس کی توقعات سے برعکس بہت وسیع اور بہت اچھی بنی ہوئی تھی۔اسے وہاں موجود بچوں کی تعداد دیکھ کر بھی حیرت ہو رہی تھی۔
وہاں کچھ گھنٹے رکنے کے بعد وہ ان دونوں کے ساتھ ان کی حویلی میں آ گیا ، حویلی کے بیرونی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بےاختیار اس کا دل خوش ہوا تھا۔اسے اس گاؤں میں اس قسم کے شاندار لان کی توقع نہیں تھی۔وہاں پودوں کی بھرمار تھی مگر بےترتیبی نہیں تھی۔
“بہت شاندار لان ہے ، بہت آرٹسٹک۔”وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکا۔
“یہ شکیل صاحب کا شوق ہے۔”فرقان کی امی نے کہا۔
“میرا اور نوشین کا۔”فرقان کے والد نے اضافہ کیا۔
“نوشین؟”سالار نے سوالیہ انداز میں کہا۔
“فرقان کی بیوی۔۔۔۔۔یہ آرٹسٹک ٹچ اسی کا ہے۔”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“فرقان نے مجھے بتایا تھا کہ اس کی فیملی لاہور میں ہوتی ہے۔”سالار کو یاد تھا۔
“ہاں ، وہ لوگ لاہور میں ہی ہوتے ہیں مگر فرقان مہینے میں ایک ویک اینڈ یہاں گزارتا ہے پھر وہ اپنی فیملی بھی یہاں لاتا ہے۔یہ سلائیڈز اس کے بچوں کے لیے لگوائی ہیں۔نوشین بھی ڈاکٹر ہے۔ابھی بچے چھوٹے ہیں ، اس لئے پریکٹس نہیں کرتی مگر جب یہاں آتی ہے تو فرقان کے ساتھ ڈسپنسری جاتی ہے۔اس بار وہ اپنے بھائی کی شادی میں مصروف تھی ، اس لئے فرقان کے ساتھ نہیں آ سکی۔”وہ اِدھر اُدھر نظریں دوڑاتا ان کی باتیں سنتا رہا۔
وہ ان کے ساتھ لنچ کرنے کے لئے گھر پر آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کچھ دیر تک فرقان بھی آ جائے گا مگر جب کھانا لگنا شروع ہو گیا تو اس نے فرقان کے بارے میں پوچھا۔
“وہ دوپہر کا کھانا یہاں نہیں کھاتا۔صرف ایک سینڈوچ اور چائے کا کپ لیتا ہے۔اس میں بھی پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لگتے۔اس کے پاس مریض اتنے ہوتے ہیں کہ وہ شام تک بالکل فارغ نہیں ہوتا۔کھانا وانا بالکل بھول جاتا ہے۔”
فرقان کی امی نے اس سے کہا۔وہ ان کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے کھانا کھانے لگا۔فرقان کے والد فنانس ڈویژن میں ہی کام کرتے رہے تھے اور بیسویں گریڈ میں ریٹائر ہوئے تھے۔یہ جان کر کہ سالار کا تعلق بھی فنانس سے ہی تھا۔ان کے جوش میں کچھ اضافہ ہو گیا تھا۔سالار کو ان سے باتیں کرتے ہوئے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا۔سالار نے ان سے اس اسکول کے حوالے سے بات کی۔
“اسکول کے لئے ہمیں فی الحال کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے پاس خاصے فنڈز ہیں۔فرقان کا ایک دوست ایک نیا بلاک بھی بنوا رہا ہے بلکہ بن ہی چکا ہے ، تم نے تو دیکھا ہی ہے۔ہاں ، تم اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو ڈسپنسری کے لئے کرو۔ہمیں ایک مستقل ڈاکٹر کی ضرورت ہے اور ہم اس کے لئے ہیلتھ منسٹری میں بہت دفعہ درخواستیں دے چکے ہیں۔فرقان نے اپنے تعلقات بھی استعمال کیے ہیں مگر کوئی بھی ڈاکٹر یہاں مستقل طور پر آ کر رہنے کو تیار نہیں اور ہمیں ایک ڈاکٹر کی اشد ضرورت ہے۔تم نے مریضوں کی تعداد تو دیکھی ہی ہو گی۔ایک قریبی گاؤں میں ایک ڈسپنسری اور ڈاکٹر ہے ، مگر ڈاکٹر مستقل چھٹی پر ہے اور اگلا ڈاکٹر بھی آنے سے پہلے ہی چھٹی پر چلا جاتا ہے۔”
“میں اس سلسلے میں جو کچھ کر سکا ضرور کروں گا لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس اسکول کے لئے بھی کچھ کروں۔میں واپس جانے کے بعد کوشش کروں گا کہ آپ کو یونیسکو کی طرف سے کسی این جی او کے ذریعے ہر سال کچھ گرانٹ بھی ملتی رہے۔”
“لیکن ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے۔یہ سب کچھ جو تم نے دیکھا ہے یہ سب ہم لوگوں نے خود کیا ہے۔ہماری فیملی نے ، رشتہ داروں نے ، فیملی فرینڈز نے ۔ میرے واقف کاروں نے ، میرے بچوں کے دوستوں نے۔ہمیں کبھی کسی حکومتی یا بین الاقوامی ایجنسی کی گرانٹ کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔کب تک یونیسکو آ کر ہمارے لوگوں کی بھوک ، جہالت اور بیماری ختم کرتی رہے گی۔جو کام ہم اپنے وسائل سے کر سکتے ہیں وہ ہمیں اپنے وسائل سے ہی کرنے چاہئیں۔”
“میں صرف یہ چاہتا تھا کہ آپ اس پروجیکٹ کو اور بڑھائیں۔”سالار بےاختیار بولتے ہوئے لڑکھڑایا۔
“یہ بہت بڑھ جائے گا ، تم بیس سال بعد یہاں آ کر دیکھو گے تو یہ گاؤں تمہیں ایک مختلف گاؤں ملے گا۔جتنی غربت تم نے آج یہاں دیکھی ہے وہ تب نہیں ہو گی۔ان کا “کل” آج سے مختلف ہو گا۔”
فرقان کے والد نے بےحد اطمینان سے کہا۔سالار چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
سہ پہر کے قریب اسے فرقان نے ڈسپنسری سے فون کیا۔کچھ دیر رسمی گفتگو کے بعد اس نے سالار سے کہا۔
“اب تمہیں واپس اسلام آباد کے لئے نکل جانا چاہئیے۔میں چاہتا تھا کہ خود تمہیں واپس چھوڑ کر آؤں مگر یہاں بہت رش ہے جو لوگ دوسرے گاؤں سے آتے ہیں اگر میں انہیں آج چیک نہیں کر سکا تو انہیں بہت زحمت ہو گی ، اس لئے میں اپنے ڈسپنسر کو بھجوا رہا ہوں۔وہ گاڑی میں تمہیں اسلام آباد چھوڑ آئے گا۔”اس نے پروگرام طے کیا۔
“اوکے۔”سالار نے کہا۔
“جانے سے پہلے ڈسپنسری آ کر مجھ سے مل لینا۔”اس نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔
سالار نے ایک بار پھر فرقان کے والدین کے ساتھ چائے پی۔گاڑی تب تک وہاں آ چکی تھی ، پھر وہ وہاں سے گاڑی میں فرقان کے پاس چلا گیا۔صبح والی بھیڑ اب کم ہو چکی تھی۔وہاں اب صرف پچیس تیس کے قریب لوگ تھے۔فرقان ایک بوڑھے آدمی کا معائنہ کر رہا تھا۔سالار کو دیکھ کر مسکرایا۔
“میں دو منٹ میں انہیں چھوڑ کر آتا ہوں۔”
اس نے مریض سے کہا اور پھر اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔سالار کے ساتھ چلتا ہوا وہ باہر گاڑی تک آیا۔
“تم کب تک پاکستان میں ہو؟”اس نے سالار سے پوچھا۔
“ڈیڑھ ہفتہ۔”
“پھر تو دوبارہ ملاقات نہیں ہو سکے گی تم سے کیونکہ میں تو اب اگلے ہی ماہ اسلام آباد اور یہاں آؤں گا لیکن میں تمہیں فون کروں گا ، تمہاری فلائٹ کب ہے؟”
سالار نے اس کے سوال کو نظر انداز کیا۔
“ملاقات کیوں نہیں ہو سکتی ، میں لاہور آ سکتا ہوں ، اگر تم انوائٹ کرو۔”فرقان کچھ حیران انداز میں مسکرایا۔
سالار اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گیا۔
سالار نہیں جانتا تھا اسے کون سی چیز اس طرح اچانک فرقان کے اتنے قریب لے آئی تھی۔وہ یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ فرقان کو کیوں اتنا پسند کر رہا تھا۔وہ اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
فرقان کے ساتھ اس کاگاؤں دیکھنے کے چار دن بعد وہ لاہور گیا۔وہ وہاں ایک دن کے لئے گیا تھا اور اس نے فرقان کو فون پر اس کی اطلاع دی۔فرقان نے اسے ائیرپورٹ پر پک کرنے اور اپنے ساتھ رہنے کی آفر کی ، مگر اس نے انکار کر دیا۔
وہ فرقان سے طے شدہ پروگرام کے مطابق چار بجے کے قریب اس کے گھر پہنچا۔وہ ایک اچھے علاقے میں ایک عمارت کے گراؤنڈ فلور کے ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔دروازے کے ساتھ موجود بیل دبا کر وہ خاموشی سے کھڑا ہو گیا۔اندر سے یک دم کسی بچے کے بھاگنے کی آواز آئی۔ایک چار پانچ سال کی بچی ڈور چین کی وجہ سے دروازے میں آنے والی جھری سے اس کو دیکھ رہی تھی۔
“آپ کو کس سے ملنا ہے؟”سالار اسے دیکھ کر دوستانہ انداز میں مسکرایا تھا مگر اس بچی کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں آئی۔وہ بڑی سنجیدگی سے سالار سے پوچھ رہی تھی۔
“بیٹا! مجھے آپ کے پاپا سے ملنا ہے۔”
اس بچی اور فرقان کے چہرے میں اتنی مماثلت تھی کہ اس کے لئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ فرقان کی بیٹی تھی۔
“پاپا اس وقت کسی سے نہیں ملتے۔”اسے بڑی سنجیدگی سے اطلاع دی گئی۔
“مجھ سے مل لیں گے۔”سالار نے قدرے محفوظ ہوتے ہوئے کہا۔
“آپ سے کیوں مل لیں گے؟”فوراً جواب آیا۔
“کیوں کہ میں ان کا دوست ہوں ، آپ انہیں جا کر بتائیں گی کہ سالار انکل آئے ہیں تو وہ مجھ سے مل لیں گے۔”سالار نے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا۔وہ اس کی مسکراہٹ سے متاثر نہیں ہوئی۔
“لیکن آپ میرے انکل تو نہیں ہیں۔”
سالار کو بےاختیار ہنسی آ گئی۔
“آپ نہ ہنسیں۔”وہ بےاختیار بگڑی۔سالار پنجوں کے بل اس کے مقابل بیٹھ گیا۔
“اچھا میں نہیں ہنستا۔”اس نے چہرے کی مسکراہٹ کو چھپایا۔
“آپ اس فراک میں بہت اچھی لگ رہی ہیں۔”وہ اب کچھ قریب سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔اس کی تعریف نے دروازے کی جھری میں سے جھانکتی ہوئی محترمہ کے تاثرات اور موڈ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔
“لیکن آپ مجھے اچھے نہیں لگے۔”
اس کے جملے سے زیادہ اس کے تاثرات نے سالار کو محفوظ کیا۔وہ اب کچھ دور سے فلیٹ کے اندر کسی کے قدموں کی آواز سن رہا تھا۔کوئی دروازے کی طرف آ رہا تھا۔
“کیوں ، میں کیوں اچھا نہیں لگا؟”اس نے مسکراتے ہوئے اطمینان سے پوچھا۔
“بس نہیں اچھے لگے۔”اس نے ناگواری سے گردن کو جھٹکا۔
“نام کیا ہے آپ کا؟”وہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
“امامہ!”سالار کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔اس نے دروازے کی جھری میں سے امامہ کے عقب میں فرقان کو دیکھا۔وہ امامہ کو اٹھاتے ہوئے دروازہ کھول رہا تھا۔
سالار کھڑا ہو گیا۔فرقان نہا کر نکلا تھا ، اس کے بال گیلے اور بےترتیب تھے۔سالار نے مسکرانے کی کوشش کی وہ فوری طور پر کامیاب نہیں ہو سکا۔فرقان نے اس سے ہاتھ ملایا۔
“میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔”وہ اس کے ساتھ اندر جاتے ہوئے بولا۔وہ دونوں اب ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہے تھے۔
امامہ فرقان کی گود میں چڑھی ہوئی تھی اور اسے مسلسل کان میں کچھ بتانے کی کوشش کر رہی تھی ، جسے فرقان مسلسل نظر انداز کر رہا تھا۔
“انکل سالار سے ملی ہیں آپ!” فرقان نے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے امامہ سے پوچھا۔وہ اب خود بھی صوفے پر بیٹھ رہا تھا۔
“یہ مجھے اچھے نہیں لگتے۔”اس نے باپ تک اپنی ناپسندیدگی پہنچائی۔
“بہت بُری بات ہے امامہ! ایسے نہیں کہتے۔”فرقان نے سرزنش کرنے والے انداز میں کہا۔
“آپ انکل کے پاس جائیں اور ان سے ہاتھ ملائیں۔”
اس نے امامہ کو نیچے اُتار دیا۔وہ سالار کی طرف جانے کی بجائے ایک دم بھاگتے ہوئے باہر چلی گئی۔
“حیرانی کی بات ہے کہ اسے تم اچھے نہیں لگے ، ورنہ اس کو میرا ہر دوست اچھا لگتا ہے۔آج اس کا موڈ بھی کچھ آف ہے۔”فرقان نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی۔
“یہ نام کا اثر ہے مجھے حیرانی ہوتی اگر اسے میں اچھا لگتا۔”سالار نے سوچا۔
چائے پیتے ہوئے وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اور باتوں کے دوران سالار نے اس سے کہا۔
“ایک دو ہفتےتک تم لوگوں کی ڈسپنسری میں ڈاکٹر آ جائے گا۔”اس نے سرسری انداز میں کہا۔
“یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔”فرقان یک دم خوش ہوا۔
“اور اس بار وہ ڈاکٹر وہاں رہے گا۔اگر نہ رہے تو مجھے بتانا۔”
“میری سمجھ میں نہیں آتا میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں۔ڈسپنسری میں ایک ڈاکٹر کی دستیابی سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے۔”
“اس کی ضرورت نہیں ہے۔”وہ رکا۔”وہاں جانے سے پہلے مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تم اور تمہاری فیملی اس کام کو اس اسکیل پر اور اتنے آرگنائزڈ انداز میں کر رہے ہو میں تم لوگوں کے کام سے درحقیقت بہت متاثر ہوا ہوں اور میری آفر ابھی بھی وہی ہے۔میں اس پروجیکٹ کے سلسلے میں تمہاری مدد کرنا چاہوں گا۔”
اس نے سنجیدگی سے فرقان سے کہا۔
“سالار! میں نے تم سے پہلے بھی کہا ہے کہ میں چاہوں گا ، تم اسی طرح کا کوئی پروجیکٹ وہاں کسی دوسرے گاؤں میں شروع کرو۔تمہارے پاس مجھ سے زیادہ ذرائع ہیں اور تم مجھ سے زیادہ اچھے طریقے سے یہ پروجیکٹ چلا سکتے ہو۔”
“میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا میرا مسئلہ وقت ہے ، میں تمہارے جتنا وقت نہیں دے سکتا اور پھر میں پاکستان میں رہ بھی نہیں سکتا۔تمہاری طرح میرے فیملی ممبرز بھی اس معاملے میں میری مدد نہیں کر سکتے۔”سالار نے اپنا مسئلہ بتایا۔
“چلو اس پر بعد میں بات کریں گے ، ابھی تو تم چائے پیو پھر میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا۔”فرقان نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
“کہاں؟”
“یہ تو میں تمہیں راستے میں ہی بتاؤں گا۔”وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_______
“میں وہاں جا کر کروں گا کیا؟”سالار نے گاڑی میں بیٹھے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
“وہی جو میں کرتا ہوں۔”وہ سگنل پر گاڑی روکتے ہوئے بولا۔
“اور تم وہاں کیا کرتے ہو؟”
“یہ تم وہاں پہنچ کر دیکھ لینا۔”
فرقان اسے کسی ڈاکٹر سبط علی کے پاس لے کر جا رہا تھا جس کے پاس وہ خود بھی جایا کرتا تھا۔
وہ کوئی مذہبی عالم تھے اور سالار کو مذہبی علماء سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔وہ پچھلے چند سالوں میں اتنے مذہبی علماء کے اصلی چہرے دیکھ چکا تھا کہ وہ اب مزید ان جگہوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“فرینکلی اسپیکنگ فرقان! میں اس ٹائپ کا ہوں نہیں جس ٹائپ کا تم مجھے سمجھ رہے ہو”۔اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد فرقان کو مخاطب کیا۔
“کس ٹائپ کے؟”فرقان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔
“یہی پیری مریدی۔۔۔۔۔یا بیعت وغیرہ۔۔۔۔۔یا جو بھی تم سمجھ لو۔”اس نے قدرے صاف گوئی سے کہا۔
“اسی لئے تو میں تمہیں وہاں لے جا رہا ہوں ، تمہیں مدد کی ضرورت ہے؟”سالار نے چونک کر اسے دیکھا۔وہ سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
“کیسی مدد؟”
“اگر کوئی حافظِ قرآن رات کو ایک پارہ پڑھے اور پھر بھی نیند لانے کے لئے اسے نیند کی گولیاں کھانی پڑیں تو پھر کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہے۔کئی سال مجھے بھی ایک بار بہت ڈپریشن ہوا تھا۔میرا ذہن بھی بہت اُلجھ گیا تھا پھر کوئی مجھے ڈاکٹر صاحب کے پاس لے کر گیا تھا۔آٹھ دس سال ہو گئے ہیں مجھے اب وہاں جاتے ہوئے۔تم سے مل کر مجھے احساس ہوا کہ تمہیں بھی میری طرح کسی کی مدد کی ضرورت ہے ، رہنمائی کی ضرورت ہے۔”فرقان نے نرم لہجے میں کہا۔
“تم کیوں میری مدد کرنا چاہتے ہو؟”
“کیونکہ دین کہتا ہے کہ تم میرے بھائی ہو۔”اس نے موڑ موڑتے ہوئے کہا۔سالار نے گردن سیدھی کر لی۔وہ اس سے مزید کیا پوچھتا۔
اسے مذہبی علماء سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ہر عالم اپنے فرقے کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے میں ماہر تھا۔ہر عالم کو اپنے علم پر غرور تھا۔ہر عالم کا لب لباب یہی ہوتا تھا۔میں اچھا ہوں ، باقی سب برے ہیں۔میں کامل ہوں باقی سب نامکمل ہیں۔ہر عالم کو دیکھ کر لگتا اس نے علم کتابوں سے نہیں ، براہِ راست وحی کے ذریعے حاصل کیا ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔اس نے آج تک ایسا عالم نہیں دیکھا تھا جو اپنے اوپر تنقید سنے اور برداشت بھی کرے۔
سالار خود اہلِ سنت مسلک سے تعلق رکھتا تھا مگر جو آخری چیز وہ کسی سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا وہ مسلک اور فرقہ تھا اور ان مذہبی علماء کے پاس ڈسکس کرنے کے لئے سب سے پہلی چیز مسلک اور فرقہ ہی تھا۔ان علماء کے پاس جاتے جاتے وہ رفتہ رفتہ ان سے برگشتہ ہو گیا تھا۔ان کی پوٹلی میں صرف علم بھرا ہوا تھا ، عمل نہیں۔وہ “غیبت ایک گناہ” پر لمبا چوڑا لیکچر دیتے ، قرآنی آیات اور احادیث کے حوالے دیتے اور اگلی ہی سانس میں وہ اپنے کسی ہم عصر عالم کا نام لے کر اس کا مذاق اُڑاتے ، اس کی علمی جہالت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔
وہ اپنے پاس آنے والے ہر ایک کا پورا بائیوڈیٹا جانتے اور پھر اگر وہ بائیوڈیٹا ان کے کام کا ہوتا تو مطالبوں اور سفارشوں کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا اور اس بائیوڈیٹا کو وہ اپنے پاس آنے والوں کو متاثر کرنے کے لئے بھی استعمال کرتے کہ ان کے پاس کس وقت ، کون آیا تھا۔کس طرح کون ان کے علم سے فیض یاب ہوا تھا۔کون بڑا آدمی ہر وقت ان کی جوتیاں سیدھی کرتے رہنے کو تیار رہتا ہے۔کس نے انہیں گھر بلایا اور کس طرح خدمت کی۔وہ اب تک جن عالموں کے پاس ایک بار گیا تھا دوبارہ نہیں گیا اور اب فرقان اسے پھر ایک عالم کے پاس لے کر جا رہا تھا۔
وہ شہر کے اچھے علاقوں میں سے ایک میں جا پہنچے تھے۔وہ علاقہ اچھا تھا ، مگر بہت پوش نہیں تھا۔اس سڑک پر پہلے بھی بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔فرقان نے بھی ایک مناسب جگہ پر گاڑی سڑک کے کنارے پارک کر دی ، پھر وہ گاڑی سے نیچے اُتر گیا۔سالار نے اس کی پیروی کی۔تین چار منٹ چلتے رہنے کے بعد وہ ان بنگلوں میں سے ایک نسبتاً سادہ مگر پروقار اور چھوٹے بنگلے کے سامنے پہنچ گئے۔نیم پلیٹ پر ڈاکٹر سید سبط علی کا نام تحریر تھا۔فرقان بلا جھجک اندر داخل ہو گیا۔سالار نے اس کی پیروی کی۔
بنگلے کے اندر موجود چھوٹے سے لان میں ایک مالی اپنے کام میں مصروف تھا۔فرقان نے پورچ میں ایک ملازم کے ساتھ دعا سلام کا تبادلہ کیا پھر وہ مزید کچھ آگے چلتا ہوا ایک دروازے کے سامنے پہنچ گیا اور وہاں اس نے اپنا جوتا اتار دیا۔وہاں پہلے بھی بہت سے جوتے پڑے تھے۔اندر سے باتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔سالار نے بھی دیکھا دیکھی اپنے جوتے اتار دئیے۔سالار نے ایک قدم اس کے پیچھے اندر رکھتے ہوئے ایک ہی نظر میں پورے کمرے کا جائزہ لے لیا۔وہ ایک کشادہ کمرے میں تھا جس کے فرش پر کارپٹ بچھا ہوا تھا اور بہت سے فلو کشنز بھی پڑے ہوئے تھے۔کمرے میں فرنیچر کے نام پر صرف چند معمولی سی چیزیں تھیں اور دیواروں پر کچھ قرآنی آیات کیلی گرافی کی صورت میں لگی ہوئی تھیں۔کمرے میں بیس پچیس کے قریب مرد تھے جو آپس میں گفتگو میں مصروف تھے۔فرقان نے اندر داخل ہوتے ہی بلند آواز میں سلام کیا اور پھر چند لوگوں کے ساتھ کچھ خیر مقدمی کلمات کا تبادلہ کیا پھر وہ ایک خالی کونے میں بیٹھ گیا۔
“ڈاکٹر سید سبط علی کہاں ہیں؟”سالار نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں پوچھا۔
“آٹھ بجتے ہی وہ اندر آ جائیں گے ، ابھی تو صرف سات پچیس ہوئے ہیں۔”فرقان نے اس سے کہا۔
سالار گردن ہلا کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ لینے لگا۔وہاں ہر عمر کے افراد تھے۔چند ٹین ایج لڑکے۔اس کے ہم عمر افراد ، فرقان کی عمر کے لوگ ، ادھیڑ عمر ۔۔۔۔۔۔اور کچھ عمر رسیدہ بھی۔فرقان اپنی دائیں طرف بیٹھے کسی آدمی کے ساتھ مصروف گفتگو تھا۔
ٹھیک آٹھ بجے اس نے ساٹھ پینسٹھ سال کے ایک آدمی کو ایک اندرونی دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔اس کی توقع کے برعکس وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی بھی استقبال کے لئے احتراماً کھڑا نہیں ہوا۔آنے والے نے ہی سلام میں پہل کی تھی جس کا جواب وہاں موجود لوگوں نے دیا۔آنے والے کے احترام میں کھڑا نہ ہونے کے باوجود سالار اب اچانک وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کی نشست کے انداز میں احترام دیکھ رہا تھا۔وہ سب یک دم بہت چوکنے اور محتاط نظر آنے لگے تھے۔
آنے والے یقیناً ڈاکٹر سید سبط علی تھے۔وہ کمرے کی ایک دیوار کے سامنے اس مخصوص جگہ پر بیٹھ گئے جنہیں شاید ان ہی کے لئے چھوڑا گیا تھا۔وہ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھے۔ان کی رنگت سرخ و سفید تھی اور یقیناً جوانی میں وہ بہت خوبصورت ہوں گے۔ان کے چہرے پر موجود داڑھی بہت لمبی نہیں تھی مگر بہت گھنی اور نفاست سے تراشی گئی تھی۔داڑھی مکمل طور پر سفید نہیں ہوئی تھی اور کچھ یہی حال ان کے سر کے بالوں کا بھی تھا۔سفید اور سیاہ کے امتزاج نے ان کے چہرے اور سر پر موجود بالوں کو بہت با وقار کر دیا تھا۔وہ وہاں بیٹھ کر دائیں طرف موجود کسی آدمی کا حال دریافت کر رہے تھے۔شاید وہ کسی بیماری سے اٹھ کر آیا تھا۔سالار نے چند ہی لمحوں میں ان کے سراپے کا جائزہ لے لیا تھا۔وہ اور فرقان باقی لوگوں کے عقب میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔
ڈاکٹر سبط علی نے اپنے لیکچر کا آغاز کیا۔ان کا لب و لہجہ بےحد شائستہ تھا اور انداز دھیما تھا۔کمرے میں مکمل سکوت تھا ، وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے کوئی بھی حرکت نہیں کر رہا تھا۔سالار کو ان کے ابتدائی چند جملوں سے ہی اندازہ ہو گیا تھا وہ ایک غیر معمولی عالم کے سامنے تھا۔
ڈاکٹر سبط علی شکر کے بارے میں بات کر رہے تھے۔
“انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے ، کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے ، وہ شکر کا ہوتا ہے یا ناشکری کا۔کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف جائیں ، وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں۔کچھ ایسے ہوتے ہیں جو صرف ناشکری کے راستے پر سفر کرتے ہیں ، چاہے وہ زوال حاصل کریں یا کمال اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ان دونوں پر سفر کرتے ہیں۔کمال کی طرف جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے ناشکری کے۔انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے۔وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا ، صرف فرض رکھتا ہے۔وہ زمین پر کسی ایسے ٹریک ریکارڈ کے ساتھ نہیں اُتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اس پر اللہ نے اپنی رحمت کا آغاز جنت سے کیا ، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس سب کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا شکر کا۔کیا محسوس کرتے ہیں آپ ! اگر آپ زندگی میں کسی پر کوئی احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کی بجائے آپ کو ان مواقع کی یاد دلائے جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو یہ جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لیے کافی نہیں تھا۔اگر آپ اس کے لئے “یہ” کر دیتے یا “وہ” کر دیتے تو زیادہ خوش ہوتا۔کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ؟دوبارہ احسان کرنا تو ایک طرف ، آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا تک پسند نہ کریں۔ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں ، جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔اللہ پھر بھی رحیم ہے ، وہ ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا رہتا ہے۔ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا۔”
سالار پلکیں جھپکائے بغیر ان کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔
“شکر ادا نہ کرنا بھی ایک بیماری ہوتی ہے ، ایسی بیماری جو ہمارے دلوں کو روز بہ روز کشادگی سے تنگی کی طرف لے جاتی ہے جو ہماری زبان پر شکوہ کے علاوہ اور کچھ آنے ہی نہیں دیتی۔اگر ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنے کی عادت نہ ہو تو ہمیں انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کی بھی عادت نہیں پڑتی۔اگر ہمیں خالق کے احسانوں کو یاد رکھنے کی عادت نہ ہو تو ہم کسی مخلوق کے احسان کو بھی یاد رکھنے کی عادت نہیں سیکھ سکتے۔”
سالار نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ناشکری کیا ہوتی ہے ، کوئی اس سے زیادہ اچھی طرح نہیں جان سکتا تھا۔اس نے ایک بار پھر آنکھیں کھول کر ڈاکٹر سید سبط علی کو دیکھا۔
پورے ایک گھنٹے کے بعد انہوں نے اپنا لیکچر ختم کیا ، کچھ لوگوں نے ان سے سوال کیے پھر لوگ باری باری اٹھ کر جانے لگے۔
باہر سڑک پر لوگ اپنی گاڑیوں پر بیٹھ رہے تھے ، وہ بھی اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گئے۔رات اب گہری ہو رہی تھی۔سالار کے کانوں میں ابھی بھی ڈاکٹر سبط علی کی باتیں گونج رہی تھیں۔فرقان گاڑی سٹارٹ کر کے واپسی کا سفر شروع کر چکا تھا۔
سات دن پہلے وہ فرقان نامی کسی شخص سے واقف تک نہیں تھا اور سات دن میں اس نے اس کے ساتھ تعلقات کی بہت سی سیڑھیاں طے کر لی تھیں۔اسے حیرت تھی وہ لوگوں کا عادی نہیں تھا۔کچھ تعلقات اور روابط اوپر کہیں طے کیے جاتے ہیں۔کس وقت۔۔۔۔۔کون کسے۔۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔۔۔کس لئے ملے گا اور زندگی میں کیا تبدیلی لے آئے گا یہ سب۔
وہ صرف ایک دن کے لئے لاہور آیا تھا ، مگر وہ پاکستان میں اپنے قیام کے باقی دن اسلام آباد کے بجائے لاہور میں ہی رہا اور باقی کے دن وہ ہر روز فرقان کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے پاس جاتا رہا۔وہ ایک دن بھی ان سے براہِ راست نہیں ملا۔صرف اُن کا لیکچر سُنتا اور اُٹھ کر آ جاتا۔
ڈاکٹر سبط علی کی زندگی کا بڑا حصہ مختلف یورپی ممالک کی یونیورسٹیز میں اسلامک اسٹڈیز اور اسلامک ہسٹری کی تعلیم دیتے گزرا تھا۔پچھلے دس بارہ سال سے وہ پاکستان میں یہاں کی ایک یونیورسٹی سے وابستہ تھے اور فرقان تقریباً اتنا ہی عرصہ سے انہیں جانتا تھا۔
جس دن اسے لاہور سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے واپس واشنگٹن جانا تھا اس رات پہلی بار وہ لیکچر کے ختم ہونے کے بعد فرقان کے ساتھ وہاں ٹھہر گیا۔باری باری تمام لوگ کمرے سے نکل رہے تھے۔ڈاکٹر سبط علی کھڑے تھے اور کچھ لوگوں سے الوداعی مصافحہ کر رہے تھے۔
فرقان اس کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کی طرف بڑھ آیا۔
ڈاکٹر سبط علی کے چہرے پر فرقان کو دیکھ کر مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔وہ کمرے میں موجود آخری آدمی کو رخصت کر رہے تھے۔
“کیسے ہیں آپ فرقان صاحب!” انہوں نے فرقان کو مخاطب کیا۔”بڑے دنوں کے بعد رُکے آپ یہاں پر۔”
فرقان نے کوئی وضاحت دی پھر سالار کا تعارف کروایا۔
“یہ سالار سکندر ہیں ، میرے دوست ہیں۔”
سالار نے اپنا نام سننے پر انہیں یک دم چونکتے دیکھا اور پھر وہ کچھ حیران ہوئے مگر اگلے ہی لمحہ ان کے چہرے پر ایک بار پھر پہلے والی مسکراہٹ تھی۔فرقان اب اس کا تفصیلی تعارف کروا رہا تھا۔
“آئیے بیٹھئیے ۔”ڈاکٹر سبط علی نے فرشی نشست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔فرقان اور وہ ان سے کچھ فاصلے پر بیٹھے گئے۔وہ فرقان کے ساتھ اس کے پروجیکٹ کے حوالے سے بات کر رہے تھے۔سالار خاموشی سے باری باری ان دونوں کے چہرے دیکھتا رہا۔گفتگو کے دوران ہی ان کا ملازم اندر آیا اور انہوں نے اسے کھانا لانے کے لیے کہا۔
ملازم نے اس کمرے میں دسترخوان بچھا کر کھانا لگا دیا۔فرقان یقیناً پہلے بھی وہاں کئی بار کھانا کھاتا رہا تھا۔
وہ جب ہاتھ دھو کر کھانا کھانے کے لیے واپس کمرے میں پہنچا اور دسترخوان پر بیٹھا تو ڈاکٹر سبط علی نے اچانک اسے مخاطب کیا۔
“آپ مسکراتے نہیں ہیں سالار؟”وہ ان کے سوال سے زیادہ سوال کی نوعیت پر گڑبڑا گیا۔کچھ ہونق سا وہ انہیں دیکھتا رہا۔
“اس عمر میں اتنی سنجیدگی تو کوئی مناسب بات نہیں۔”سالار کچھ حیرانی سے مسکرایا ، پندرہ بیس منٹ کی ملاقات میں وہ یہ کیسے جان گئے تھے کہ وہ مسکرانے کا عادی نہیں رہا تھا۔وہ فرقان کی طرف دیکھ کر کچھ جھینپا ، پھر اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔یہ آسان کام ثابت نہیں ہوا۔
“کیا میرا چہرہ میرے ہر احساس کو ظاہر کرنے لگا ہے کہ پہلے فرقان اور اب ڈاکٹر سبط علی مجھ سے میری سنجیدگی کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔”اس نے سوچا۔
“ایسی کوئی بات نہیں ہے۔میں اتنا سنجیدہ نہیں ہوں۔”اس نے ڈاکٹر سبط علی سے زیادہ جیسے خود کو بتایا۔
“ممکن ہے ایسا ہی ہو۔”ڈاکٹر سبط علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کھانے کے بعد دونوں کو رخصت کرنے سے پہلے وہ اندر گئے۔واپسی پر ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی وہ کتاب انہوں نے سالار کی طرف بڑھا دی۔
“آپ کا تعلق معاشیات سے ہے ، کچھ عرصے پہلے میں نے اسلامی اقتصادیات کے بارے میں یہ کتاب لکھی ہے۔مجھے خوشی ہو گی اگر آپ اسے پڑھیں تاکہ آپ کو اسلامی اقتصادی نظام کے بارے میں بھی کچھ واقفیت حاصل ہو۔”
سالار نے کتاب ان کے ہاتھ سے پکڑ لی ، کتاب پر ایک نظر ڈالتے ہوئے اس نے مدھم آواز میں ڈاکٹر سبط علی سے کہا۔
“میں واپس جا کر بھی آپ سے رابطہ رکھنا چاہتا ہوں۔میں آپ سے صرف اقتصادیات کے بارے میں نہیں سیکھنا چاہتا اور بھی بہت کچھ جاننا چاہتا ہوں۔”ڈاکٹر سبط علی نے نرمی سے اس کا کندھا تھپتھپایا۔
“ڈاکٹر سبط علی صاحب کے پاس جتنے لوگ بھی آتے ہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے کمیونٹی ورک سے وابستہ ہیں۔کچھ پہلے ہی اس کام میں انوالو ہوتے ہیں اور جو پہلے نہیں ہوتے وہ بعد میں ہو جاتے ہیں۔”
ڈاکٹر سبط علی سے پہل ملاقات کے بعد فرقان نے اسے بتایا۔
“ان کے پاس آنے والے زیادہ تر لوگ بہت کوالیفائیڈ ہیں۔بڑے بڑے اداروں سے وابستہ ہیں۔میں بھی اتفاقاً ہی ان کے پاس جانا شروع ہوا۔لندن میں ایک بار ان کا لیکچر سننے کا اتفاق ہوا پھر پاکستان آنے پر ایک دوست کے توسط سے ان سے ملنے کا موقع ملا اور اس کے بعد سے میں ان کے پاس جا رہا ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کے بارے میں میرے نظریات پہلے کی نسبت اب بہت صاف اور واضح ہیں۔ذہنی طور پر بھی میں پہلے کی نسبت اب زیادہ مضبوط ہو گیا ہوں تم اس پروجیکٹ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔اس پروجیکٹ میں میری بہت زیادہ مدد ڈاکٹر سبط علی کے پاس آنے والے لوگوں نے بھی کی۔بہت ساری سہولیات انہی لوگوں نے فراہم کیں اور میں یہاں اس قسم کے پروجیکٹ پر کام کرنے والا واحد نہیں ہوں اور ہم ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے ہیں۔اس مدد کی نوعیت مختلف ہوتی ہے ، مگر مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ہم اس ملک کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔”
سالار نے اس کے آخری جملے پر عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا۔”یہ اتنا آسان تو نہیں ہے۔”
“ہاں ہم جانتے ہیں یہ آسان کام نہیں ہے۔ہم یہ بھی جانتے ہیں یہ سب ہماری زندگیوں میں نہیں ہو گا مگر ہم وہ بنیاد ضرور فراہم کر دینا چاہتے ہیں ، جن پر ہمارے بچے اور ان کے بعد والی نسل تعمیر کرتی رہے۔وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتی رہے۔کم از کم مرتے ہوئے ہم لوگوں کو یہ احساس تو نہیں ہو گا کہ ہم لوگوں نے تماشائیوں جیسی زندگی گزار دی۔دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح ہم بھی صرف تنقید کرتے رہے۔خرابیوں پر انگلیاں اٹھاتے رہے۔اسلام کو صرف مسجد کی حدود تک ہی محدود کر کے بیٹھے رہے۔اپنے اور دوسروں کی زندگیوں میں ہم نے کوئی تبدیلی لانے کی کوشش نہیں کی۔”
وہ حیرانی سے فرقان کا چہرہ دیکھتا رہا تھا۔امامہ ہاشم ، جلال انصر ، سعد کے بعد وہ ایک اور مسلمان کو دیکھ رہا تھا۔ایک اور پریکٹیکل مسلمان کو ، وہ مسلمانوں کی ایک اور قسم سے آگاہ ہو رہا تھا۔وہ مسلمان جو دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے ، جو دونوں انتہاؤں کے بیچ کے راستے کو پہنچانتے تھے اور ان پر چلنے کا طریقہ جانتے تھے وہ بُری طرح اُلجھا۔
“تم نے میری آفر کے بارے میں کیا سوچا ہے؟”اس نے فرقان سے کہا۔
“میں نے تمہیں بتایا تھا میں تم سے کیا چاہتا ہوں۔تمہاری ضرورت ہے اس ملک کو۔یہاں کے لوگوں کو ، یہاں کے اداروں کو ، تمہیں یہاں آ کر کام کرنا چاہئیے۔”
سالار اس بات پر ہلکے سے ہنسا “تم کبھی اس ٹاپک کو نہیں چھوڑ سکتے۔اچھا میں اس پر سوچوں گا۔پھر تم میری آفر کے بارے میں کیا کہو گے؟”
“میرے گاؤں کے قریب ہی ایک اور گاؤں ہے۔۔۔۔۔اسی حالت میں جس حالت میں دس پندرہ سال پہلے میرا گاؤں تھا۔مین آج کل کوشش کر رہا تھا کہ کوئی وہاں پر اسکول بنا دے۔پرائمری اسکول تو گورنمنٹ کا وہاں ہے مگر آگے کچھ نہیں ہے۔اگر تم وہاں اسکول شروع کرو تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔میں اور میری فیملی تمہاری غیر موجودگی میں اسے دیکھیں گے۔ہم اسے قائم کرنے میں بھی تمہاری مدد کریں گے مگر پھر تمہیں خود ہی اسے چلانا ہو گا۔صرف روپیہ فراہم کر دینا کافی نہیں ہو گا۔”فرقان نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد کہا۔
“کل چل سکتے ہو ، میرے ساتھ وہاں؟”سالار نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
“تمہاری تو فلائیٹ ہے کل صبح۔”
“نہیں میں دو دن بعد چلا جاؤں گا۔ایک بار میں چلا گیا تو فوری طور پر میرے لیے واپس آنا ممکن نہیں رہے گا اور میں جانے سے پہلے یہ کام شروع کر دینا چاہتا ہوں۔”
اس نے فرقان سے کہا۔فرقان نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_________
وہ اس رات کی فلائیٹ سے اسلام آباد گئے اور پھر رات کو ہی فرقان کے گاؤں چلے گئے۔رات وہاں قیام کرنے کے بعد صبح فجر کے وقت فرقان کے ساتھ وہ اس گاؤں میں گیا۔دوپہر بارہ بجے تک وہ اس گاؤں کے لوگوں سے ملتے اور وہاں پھرتے رہے۔وہاں موجود پرائمری اسکول کو دیکھ کر سالار کو یقین نہیں آیا تھا۔وہ اپنی حالت سے کچھ بھی لگتا تھا مگر اسکول نہیں۔فرقان کو اس کی طرح کوئی شاک نہیں لگا تھا ، وہ وہاں کے حالات سے پہلے ہی بہت اچھی طرح باخبر تھا۔وہ سال میں تین چار مرتبہ مختلف دیہات میں میڈیکل کیمپس لگوایا کرتا تھا اور وہ دیہات کی زندگی اور وہاں کی حالت سے سالار کی نسبت بہت اچھی طرح واقف تھا۔فرقان کو شام کی فلائٹ سے لاہور جانا تھا۔وہ لوگ دو بجے کے قریب وہاں سے اسلام آباد جانے کے لیے روانہ ہو گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_____
اسکول کے اس پروجیکٹ کو شروع کرنے سے پہلے سکندر عثمان سے اس کی بات ہوئی تھی۔اس نے مختصر الفاظ میں انہیں اس پروجیکٹ کے بارے میں بتایا تھا۔وہ کسی مداخلت کے بغیر اس کی بات سنتے رہے پھر انہوں نے بڑی سنجیدگی سے اس سے کہا۔
“یہ سب کچھ کیوں کر رہے ہو تم؟’
“پاپا! میں اس کام کی ضرورت محسوس کرتا ہوں لوگوں کو۔۔۔۔۔۔”انہوں نے سالار کی بات کاٹ دی۔
“میں اسکول کی بات نہیں کر رہا۔”
“پھر آپ کس چیز کی بات کر رہے ہیں؟”وہ حیران ہوا۔
“میں تمہارے لائف اسٹائل کی بات کر رہا ہوں۔”
“میرے لائف اسٹائل کو کیا ہوا؟’وہ چونکا۔سکندر عثمان اسے دیکھتے رہے۔
“تم نے قرآن پاک حفظ کرنے کے بارے میں ہمیں اس وقت بتایا جب تم حفظ کر چکے تھے ، اوکے فائن ، میں نے کچھ نہیں کہا۔تم حج پر جانا چاہتے تھے میرے اس سلسلے میں کچھ تحفظات تھے مگر میں نے تمہیں نہیں روکا۔تم نے ہر طرح کی سوشل لائف ختم کر دی۔میں نے اعتراض نہیں کیا۔تم مذہب میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے لگے ، نماز شروع کر دی وہ بھی مسجد میں۔میں نے پھر بھی کچھ نہیں کہا۔تم نے بزنس کرنے کی بجائے جاب کرنا چاہی وہ بھی یہاں نہیں امریکہ میں۔میں نے تمہیں کرنے دی۔اب تم ایک اسکول کھولنا چاہ رہے ہو۔اب ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اس تمام معاملے پر کچھ سنجیدگی سے بات کر لیں۔”سکندر عثمان بےحد سنجیدہ تھے۔
“تمہیں اندازہ ہے کہ تمہارا یہ لائف اسٹائل تمہیں ہمارے سوشل سرکل کے لئے ناقابلِ قبول بنا دے گا۔پہلے تم ایک انتہا پر تھے اب تم دوسری انتہا پر ہو۔پچیس ، چھبیس سال کی عمر میں جن کاموں میں تم اپنے آپ کو انوالو کر رہے ہو وہ غیر ضروری ہیں۔تمہیں اپنے کیرئیر پر دھیان دینا چاہئیے اور اپنے لائف اسٹائل میں تبدیلی لانا چاہئیے۔
ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں وہاں مذہب سے ایسی وابستگی بہت سے مسائل پیدا کر دیتی ہے۔”وہ سر جھکائے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
“اور صرف تمہارے لئے ہی نہیں ، ہمارے لئے بھی بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔تم خود سوچو تم لوگوں کو کیا امپریشن دینے کی کوشش کر رہے ہو۔کل کو ہم یا تم خود جب اپنی کلاس کی کسی اچھی فیملی کی لڑکی کے ساتھ شادی کرنا چاہو گے تو تمہاری یہ مذہبی وابستگی تمہارے لئے کتنے مسائل پیدا کرے گی تمہیں اندازہ ہے۔کوئی بھی فیملی سکندر عثمان کا نام دیکھ کر یا تمہاری کوالیفیکیشنز دیکھ کر اپنی بیٹی کی شادی تم سے نہیں کر دے گی۔اوپر سے تم نے اس عمر میں سوشل ورک شروع کرنے کی ٹھان لی ہے جب تمہاری عمر کے لوگ اپنے کیرئیر کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں تم یونیسیف میں بہت سوشل ورک کرتے رہے ہو اتنا کافی ہے۔ضروری نہیں ہے کہ تم یہ سب کچھ اپنی پرسنل لائف میں بھی شروع کر دو۔جو پیسہ تم اس اسکول پر اور لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کے لئے ضائع کرو گے اسے تم اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرو۔انہیں آسائشیں دینے کے لیے ، ایک آرام دہ لائف اسٹائل دینے کے لئے۔اپنے آپ پر خرچ کرو ، تین سو سال کی زندگی نہیں ہے تمہاری ، پھر اتنی سی عمر میں بڑھاپے کو کیوں سوار کر لیا ہے تم نے اپنے اعصاب پر۔ایک حادثہ ہوا ، بُرا ہوا۔تم نے سبق سیکھا۔بہت اچھا کیا۔بس اتنا کافی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم اس عمر میں تسبیح پکڑ لو۔”وہ رُکے۔”کیا میری بات کو سمجھ رہے ہو؟”انہوں نے پوچھا۔
“پاپا! میں نے تسبیح نہیں پکڑی ہے۔”سالار نے ان کے سوال کا جواب دینے کی بجائے کہا۔
“آپ نے زندگی میں توازن رکھنے کی بات کی میں وہ توازن ہی رکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔میں اپنے کیرئیر میں کہاں پر کھڑا ہوں آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔میری کارکردگی سے آپ واقف ہیں۔”
“میں واقف ہوں اور اسی لئے تم سے کہہ رہا ہوں کہ اگر تم اس طرح کی سرگرمیوں میں خود کو انوالو نہ کرو تو تم بہت آگے جا سکتے ہو۔”سکندر نے کہا۔
“میں کہیں نہیں جا سکتا۔اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں یہ سب کچھ چھوڑ دوں تو کیرئیر کی کسی ماؤنٹ ایوریسٹ تک پہنچ جاؤں گا ، تو ایسا نہیں ہے۔”اس نے توقف سے کیا۔
“تم اپنے مستقبل کے بارے میں بھی سوچو۔اپنی شادی کے بارے میں ، ایسی اپروچ رکھنے پر تم کو کہاں قبول کیا جائے گا۔”
“میں نے سوچا ہے پاپا! میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتا۔”
سکندر ہنسے۔
“بچکانہ سوچ ہے۔ہر ایک یہی کہتا ہے۔تمہیں تو اپنا “ایڈونچر” یاد رکھنا چاہئیے۔”
ان کا اشارہ کس طرف تھا وہ جانتا تھا وہ بہت دیر کچھ نہیں کہہ سکا۔یہ بھی نہیں کہ وہ اس ایڈونچر کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
“مجھے یاد ہے۔”بہت دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔
“میں آپ کے سوشل سرکل میں بہت پہلے ہی مس فٹ ہو چکا ہوں اور میں یہاں جگہ بنانے کی کوشش نہیں کروں گا۔مجھے اس سوشل سرکل میں کوئی نیا تعلق یا رشتہ بھی قائم نہیں کرنا۔
مجھے پروا نہیں کہ لوگ ، میرے بہن بھائی ، میرا مذاق اڑائیں گے یا مجھ پر ہنسیں گے۔میں اس سب کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں۔جہاں تک سوال اس پروجیکٹ کا ہے۔پاپا مجھے اسے شروع کرنے دیں۔میرے پاس بہت پیسہ ہے۔اس پروجیکٹ کو شروع کرنے کے بعد بھی مجھے فٹ پاتھ پر رہنا نہیں پڑے گا۔کچھ لوگوں کو جسم کی بیماری ہوتی ہے ، کچھ کو روح کی۔جسم کی بیماری کے لئے لوگ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں۔روح کی بیماری کے لئے لوگ وہی کرتے ہیں جو میں کر رہا ہوں۔جو میں کرنا چاہتا ہوں۔میں اس پیسے سے سب کچھ خرید سکتا ہوں صرف سکون نہیں خرید سکتا۔زندگی میں پہلی بار میں سکون حاصل کرنے کے لئے اس پیسے کو انویسٹ کر رہا ہوں۔ہو سکتا ہے مجھے سکون مل جائے۔”سکندر عثمان کی سمجھ میں نہیں آیا وہ اس سے کیا کہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭__________
واپس واشنگٹن پہنچ کر وہ ایک بار پھر پہلے کی طرح مصروف ہو گیا تھا مگر اس بار فرق یہ تھا کہ وہ مسلسل پاکستان میں فرقان اور ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ رابطے میں تھا۔فرقان اسے اسکول کے بارے میں ہونے والی تفصیلات سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔
یونیسیف میں اس طرح کا کام اس کی جاب کا حصہ تھا۔اسے اس کام کے لئے بہت اچھا معاوضہ دیا جاتا تھا مگر پاکستان کے اس گاؤں میں اس طرح کے کام کا آغاز اور وہ بھی اپنے وسائل سے۔چند سال پہلے کے سالار سکندر کو جاننے والے کبھی بھی اس بات یقین نہیں کرتے۔خود اسے بھی یقین نہیں آتا تھا کہ وہ کبھی اس طرح کا کام کرنے کا سوچ سکتا تھا مگر یہ صرف اس پروجیکٹ کے لئے اپنے اکاؤنٹ سے پیسہ نکالتے ہوئے اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس کے لئے یہ پروجیکٹ کم از کم مالی لحاظ سے مشکل نہیں تھا۔
پچھلے تین سال میں اس کے اخراجات میں بہت کمی آ گئی تھی۔بہت ساری وہ چیزیں اس کی زندگی سے نکل گئی تھیں جن پر وہ اندھا دھند پیسہ خرچ کرتا تھا۔وہ اپنے بینک اکاؤنٹ میں رقم جان کر حیران ہو گیا تھا۔وہ ایسا شخص نہیں تھا جس سے پیسہ جمع کرنے کی توقع کی جا سکتی۔ایم فل کے لیے اس کے پاس اسکالرشپ تھا اسے کم از کم اس کے لئے اپنے پاس سے کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا تھا۔اس دن اپنے اپارٹمنٹ میں چلتے پھرتے اس نے پہلی بار وہاں موجود تمام چیزوں کو غور سے دیکھا تھا۔اس کے اپارٹمنٹ میں کہیں بھی کوئی بھی مہنگی چیز نہیں تھی بلکہ سامان بھی بہت محدود تھا۔اس کا کچن بھی کھانے پینے کی چیزوں سے تقریباً خالی تھا۔کافی ، چائے ، دودھ اور اسی طرح کی چند دوسری چیزیں۔اس کا اپنے اپارٹمنٹ میں بہت کم وقت گزرتا تھا جو وقت گزرتا تھا وہ سونے میں گزرتا۔
یونیسیف میں اپنی جاب پر جاتے ہوئے بھی اس کے پاس پہلے سے موجود کپڑوں اور دوسری اشیاء کا اتنا انبار موجود تھا کہ وہ اس معاملے میں بھی لاپرواہی برتتا رہا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے آخری بار اس طرح کی کوئی چیز کب خریدی تھی۔اپنے ساتھ کام کرنے والوں اور یونیورسٹی میں اپنے کچھ کلاس فیلوز کے علاوہ وہ نیویارک میں کسی کو نہیں جانتا تھا یا پھر دانستہ طور پر اس نے خود کو ایک محدود سرکل میں رکھا تھا اور لوگوں کے ساتھ بھی اس کی دوستی بہت رسمی قسم کی تھی۔
واحد چیز جس پر وہ خرچ کرتا رہتا تھا ، وہ کتابیں تھیں۔اس لائف اسٹائل کے ساتھ اگر اس کے اکاؤنٹ میں اتنی رقم جمع ہو گئی تھی تو یہ کوئی خلافِ توقع بات نہیں تھی۔آفس ، یونیورسٹی ، فلیٹ۔۔۔۔۔۔اس کی زندگی کے معمولات میں چوتھی چیز کوئی نہیں تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_
ایم فل کے دوران سالار نے یونیسیف چھوڑ کر یونیسکو جوائن کر لیا۔
ایم فل کرنے کے بعد سالار کی پوسٹنگ پیرس میں ہو گئی۔اس سے پہلے وہ ایک فیلڈ آفس میں کام کر رہا تھا مگر اب اسے یونیسکو کے ہیڈکوارٹرز میں کام کرنے کا موقع مل رہا تھا۔وہ گزشتہ سالوں میں وقتاً فوقتاً چھوٹے موٹے پراجیکٹس کے سلسلے میں پیرس جاتا رہا تھا مگر اس بار وہ پہلی دفعہ لمبے عرصے کے لئے وہاں جا رہا تھا۔ایک آشنا دنیا سے نا آشنا دنیا میں ، اس دنیا میں جہاں وہ زبان تک سے واقف نہیں تھا۔نیویارک میں اس کے بہت سے دوست تھے ، یہاں پر ایسا کوئی بھی نہیں تھا جسے وہ بہت اچھی طرح جانتا ہو۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭____
یونیسیف میں کئے جانے والے ان تھک کام کی طرح وہ یہاں آ کر ایک بار پھر اسی طرح کام کرنے لگا تھا مگر اسلام آباد کے نواحی علاقے میں شروع کیا جانے والا وہ اسکول یہاں بھی اس کے ذہن سے محو نہیں ہوا تھا۔بعض دفعہ اسے حیرت ہوتی کہ اپنی جاب میں تعلیم سے اتنا گہرا تعلق ہونے کے باوجود آخر اسے کبھی فرقان کی طرح وہ اسکول کھولنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔اگر اس اسکول کے بارے میں وہ کئی سال پہلے سوچ لیتا تو شاید آج یہ اسکول بہت مستحکم بنیادوں پر کھڑا ہوتا۔
“مجھے پاکستان سے زیادہ محبت نہیں ہے ، نہ ہی اس کے لیے میں کوئی گہری انسیت رکھتا ہوں۔”اس نے شروع کی ملاقات میں ایک بار فرقان سے کہا تھا۔
“کیوں؟”فرقان نے پوچھا تھا۔
“کیوں کا جواب تو میں نہیں دے سکتا ، بس پاکستان کے لئے کوئی خاص احساسات میرے دل میں نہیں ہیں۔”اس نے کندھے اچکا کر کہا تھا۔
“یہ جاننے کے باوجود کہ یہ تمہارا ملک ہے؟”
“ہاں ، یہ جاننے کے باوجود۔”
“امریکہ کے لیے خاص احساسات ہیں ، امریکہ سے محبت ہے؟”فرقان نے پوچھا۔
“نہیں ، اس کے لیے بھی میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔”اس نے اطمینان سے کہا۔
فرقان نے اس بار حیرانی سے اسے دیکھا۔”دراصل میں وطنیت پر یقین نہیں رکھتا۔”اس نے فرقان کو حیران دیکھ کر وضاحت کی۔
“یا پھر مجھے ان جگہوں کے لیے محبت پیدا کرنے میں دقت محسوس ہوتی ہے ، جہاں میں رہتا ہوں۔میں کل کسی تیسرے ملک میں رہنے لگوں گا تو امریکہ کو بھی یاد نہیں کروں گا۔”
“تم بڑے عجیب آدمی ہو سالار!”فرقان نے بےاختیار کہا۔”کیا یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنے ملک کے لیے یا اس جگہ کے لیے کوئی خاص احساسات ہی نہ رکھے جہاں وہ رہتا ہے۔”
فرقان کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا تھا مگر اس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔پیرس آنے کے بعد اسے نیویارک کی کوئی چیز یاد نہیں آئی تھی۔نیو ہیون سے نیویارک آتے ہوئے بھی اسے وہاں ایڈجسٹمنٹ کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔وہ ہر پانی کی مچھلی تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭____________
وہ ان دنوں یونائیٹڈ نیشنز کے زیرِ اہتمام ہونے والی کسی ریجنل کانفرنس کے سلسلے میں پاکستان آیا ہوا تھا۔وہ پرل کانٹی نینٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔اسے وہاں ایک بزنس مینجمنٹ کے ادارے میں کچھ لیکچرز دینے تھے اور فرقان کے ساتھ اپنے اسکول کے سلسلے میں کچھ امور کو بھی طے کرنا تھا۔
وہ لاہور میں اس کے قیام کا تیسرا دن تھا۔اس نے رات کا کھانا کچھ جلدی کھا لیا اور اس کے بعد وہ کسی ضروری کام سے ہوٹل سے باہر نکل آیا۔شام کے ساڑھے سات ہو رہے تھے۔مال روڈ پر جاتے ہوئے اچانک اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ڈرائیور گاڑی سے اتر کر ٹائر کو دیکھنے لگا۔چند منٹوں کے بعد اس نے سالار کی کھڑکی کے پاس آ کر کہا۔
“سر! گاڑی میں دوسرا ٹائر موجود نہیں ہے۔میں آپ کے لئے کوئی ٹیکسی لاتا ہوں ، آپ اس پر چلے جائیں۔”سالار نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
“نہیں ، میں خود ٹیکسی روک لیتا ہوں۔”وہ کہتا ہوا اُتر گیا۔کچھ دور ایک پارکنگ میں کچھ ٹیکسیاں نظر آ رہی تھیں۔سالار کا رُخ اسی طرف تھا جب ایک کار نے یک دم اس کے پاس آ کر بریک لگائی۔گاڑی سامنے سے آئی تھی اور اس کے رُکنے پر سالار نے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے اس میں بیٹھے شخص کو ایک نظر میں ہی پہچان لیا۔
وہ عاکف تھا۔وہ اب گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ سے اُتر رہا تھا۔لاہور میں کچھ سال پہلے اس کی سرگرمیوں کا وہ ایک مرکزی کردار تھا۔عاکف اور اکمل۔وہ ان ہی دونوں کے ساتھ اپنا زیادہ وقت گزارا کرتا تھا اور اس سے سالار کی دوبارہ ملاقات کئی سالوں کے بعد ہو رہی تھی۔وہ ان سب کو چھوڑ چکا تھا۔پاکستان یا لاہور آنے پر بھی اس نے کبھی ان کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ان لوگوں نے پچھلے کئی سالوں میں باربار اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر ان کی ان کوششوں کے باوجود سالار ان سے بچنے کی کوششوں میں کامیاب رہا تھا۔
اور اب اتنے سالوں کے بعد وہ یک دم اس طرح اچانک اس کے سامنے آ گیا تھا۔سالار کے اعصاب یک دم تن گئے تھے۔عاکف بڑے جوش و خروش کے عالم میں اس کی طرف بڑھا۔
“سالار! مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ تم ہو۔۔۔۔۔کہاں غائب تھے اتنے سالوں سے؟تم تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہو گئے تھے۔کہاں تھے یار ! اور اب یہاں کیا کر رہے ہو۔حلیہ ہی بدل لیا ہے ، کہاں گئے وہ بال ، لاہور میں کب آئے ہو ، آنے کی اطلاع کیوں نہیں دی۔؟”
اس نے یکے بعد دیگرے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔اس نے سالار کے انداز میں جھلکنے والی سرد مہری پر غور نہیں کیا تھا۔سالار کے جواب دینے سے پہلے ہی عاکف نے دوبارہ پوچھا۔
“یہاں مال پر کیا کر رہے ہو؟”
“گاڑی خراب ہو گئی تھی ، میں ٹیکسی کی طرف جا رہا تھا۔”سالار نے کہا۔
“”کہاں جا رہے ہو ، میں ڈراپ کر دیتا ہوں۔”عاکف نے بےتکلفی سے کہا۔
“نہیں ، میں چلا جاتا ہوں۔ٹیکسی پاس ہی ہے۔”سالار نے تیزی سے کہا۔
عاکف نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔
“چلو اندر بیٹھو۔”اس نے بازو پکڑ کر کھینچ لیا۔سالار سٹپٹایا لیکن اس کی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔اس کا موڈ بہت خراب ہونے لگا تھا۔
“تم تو اسٹیٹس پڑھنے چلے گئے تھے اور پھر مجھے پتا چلا کہ تم نے وہاں جاب کر لی ہے پھر اچانک پاکستان کیسے؟”عاکف نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا۔”کیا چھٹیاں گزارنے آئے ہو؟”
“ہاں!”سالار نے مختصراً کہا ، وہ اس طرح سے جان چھڑا سکتا تھا۔
“کیا کر رہے ہو ج کل؟’عاکف نے گاڑی چلاتے ہوئے پوچھا۔
“یونائیٹڈ نیشنز کی ایک ایجنسی میں کام کر رہا ہوں۔”
“یہاں لاہور میں کہاں ٹھہرے ہو؟”
“پی سی میں۔”
“ارے پی سی میں کیوں ٹھہرے ہو ، میرے پاس آتے یا مجھے فون کرتے۔کب آئے یہاں؟”عاکف نے کہا۔
“کل”۔
“بس تو پھر تم میرے ساتھ ، میرے گھر رہو گے۔ضرورت نہیں ہے ہوٹل میں رہنے کی۔”
“نہیں ، میں کل صبح اسلام آباد واپس جا رہا ہوں۔”سالار نے روانی سے جھوٹ بولا۔وہ عاکف سے ہر قیمت پر جان چھڑا لینا چاہتا تھا۔اسے اس سے الجھن ہو رہی تھی یا پھر یہ شاید اس کے ساتھ گزارا جانے والا ماضی تھا جو اسے تکلیف میں مبتلا کر رہا تھا۔
“اگر کل اسلام آباد واپس جا رہے ہو تو پھر آج میرے ساتھ رہو۔کھانا کھاؤ میرے ساتھ گھر چل کر۔”عاکف نے آفر کی۔
“کھانا میں دس منٹ پہلے ہی کھا کر نکلا ہوں۔”
“پھر بھی میرے ساتھ گھر چلو۔تمہیں اپنی بیوی سے ملواؤں گا۔”
“شادی ہو گئی تمہاری؟”
“ہاں ، تین سال ہوئے۔”عاکف نے کہا۔پھر پوچھا۔
“اور تم۔۔۔۔۔تم نے شادی کر لی؟”
“نہیں۔”
“کیوں؟”
“بس کچھ مصروفیت تھی اس لیے۔”سالار نے کہا۔
“گڈ! ابھی آزاد ہی پھر رہے ہو۔”عاکف نے ایک گہرا سانس لیا۔”خوش قسمت ہو۔”سالار نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔عاکف نے اس سے بات کرتے ہوئے گلو کمپارٹمنٹ کھول کر اندر سے ایک کیسٹ نکالنی چاہی۔اس کا دھیان ذرا بھٹکا اور کیسٹ نکالتے نکالتے گلوکمپارٹمنٹ سے بہت سی چیزیں سالار کی گود اور نیچے اس کے پیروں میں گر پڑیں۔
“too bad ” عاکف نے بےاختیار کہا۔سالار جھک کر چیزیں اٹھانے لگا۔عاکف نے گاڑی کے اندر کی لائٹ جلا دی۔وہ ان چیزوں کو سمیٹ کر گلو کمپارٹمنٹ میں رکھنے لگا تھا جب وہ ٹھٹک گیا کسی نے اس کے جسم میں جیسے کرنٹ سا دوڑا دیا۔گلوکمپارٹمنٹ کے ایک کونے میں ایر رنگز پڑے تھے۔سالار کے ہاتھوں میں بےاختیار لرزش آ گئی۔بایاں ہاتھ بڑھا کر اس نے ان ایر رنگز کو باہر نکال لیا۔وہ اب اس کے ہاتھ کی ہتھیلی پر گاڑی کے اندر جلتی روشنی میں چمک رہے تھے۔وہ بےیقینی کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔
بہت سال پہلے اس نے ان ایر رنگز کو کسی کے کانوں میں دیکھا تھا۔ایک بار۔۔۔۔۔دو بار۔۔۔۔۔۔تین بار۔۔۔۔۔چوتھی بار وہ انہیں اب دیکھ رہا تھا۔اسے کوئی شبہ نہیں تھا۔وہ امامہ ہاشم کے ایر رنگز تھے۔وہ آنکھیں بند کر کے کاغذ پر ان کا ڈیزائن اُتار سکتا تھا۔ہر پیچ و خم کو۔۔۔۔۔عاکف نے اس کی ہتھیلی سے وہ ایررنگز اُٹھا لئے۔کسی نے جیسے سالار کا سکتہ توڑ دیا تھا۔عاکف ان ایررنگز کو ایک بار پھر گلوکمپارٹمنٹ میں رکھ رہا تھا۔
“یہ ایررنگز۔۔۔۔۔”وہ اٹکتے ہوئے بولا۔”یہ تمہاری بیوی کے ہیں؟”سالار نے اپنے سوال کو مکمل کیا۔
“بیوی کے؟”عاکف ہنسا۔”کم آن یار ! بیوی کے ہوتے تو میں یہاں رکھتا۔”سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
“پھر؟”اس نے سرسراتی ہوئی آواز میں کہا۔
“یار ہے ایک گرل فرینڈ میری ، پچھلی رات میرے ساتھ تھی۔یہ ایررنگز میرے بیڈروم میں چھوڑ گئی۔کچھ ایمرجنسی میں ہی جانا پڑا اسے کیونکہ روہا واپس آ گئی تھی۔میں نے یہ ایررنگز لا کر گاڑی میں رکھ دئیے کیونکہ آج میرا اس کی طرف جانے کا ارادہ ہے۔”عاکف بڑی بےتکلفی سے اسے بتا رہا تھا۔
“گرل فرینڈ؟”سالار کے حلق میں جیسے پھندا لگا۔
“ہاں ، گرل فرینڈ۔ریڈ لائٹ ایریا کی ہی ایک لڑکی ہے۔اب ادھر ڈیفنس میں شفٹ ہو گئی ہے۔”
“کیا۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس کا؟”امامہ ریڈ لائٹ ایریا کی لڑکی تو کبھی نہیں ہو سکتی۔یقیناً مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔اس نے عاکف کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
“صنوبر۔”عاکف نے اس کا نام بتایا۔سالار نے چہرہ موڑ کر ہاتھ میں پکڑی چیزیں گلوکمپارٹمنٹ میں رکھ کر اسے بند کر دیا۔اسے واقعی غلط فہمی ہوئی تھی۔عاکف گاڑی کی لائٹ آف کر چکا تھا۔سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر سالار نے گہرا سانس لیا۔
“مگر یہ اس کا اصلی نام نہیں ہے۔”عاکف نے بات جاری رکھی۔”اصلی نام اس کا امامہ ہے۔”سالار کے کانوں میں کوئی دھماکہ ہوا تھا یا پھر یہ پھگلا ہوا سیسہ تھا جو کسی نے اس کے کانوں میں انڈیل دیا تھا۔
عاکف اب اسٹیرنگ پر تھوڑا آگے جھکے ہونٹوں میں دبا سگریٹ لائٹر سے جلا رہا تھا۔
“تم نے۔۔۔۔۔تم نے۔۔۔۔۔کیا کہا؟”سالار کی آواز میں لرزش تھی۔
“کیا کہا؟”عاکف نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
“نام بتا رہے تھے تم اس کا؟”
“ہاں ، امامہ ۔۔۔۔۔تم جانتے ہو اسے؟”عاکف نے عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ سالار کو دیکھا۔
کھڑکی کا شیشہ اب اس نے کھول دیا تھا۔سالار یک ٹک اسے دیکھتا رہا یوں جیسے وہ عاکف کو پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ایررنگز اب اس کی مٹھی کی گرفت میں تھے۔
“میں کیا پوچھ رہا ہوں یار! تم جانتے ہو اسے؟”
عاکف نے ہونٹوں سے سگریٹ انگلیوں میں منتقل کرتے ہوئے کہا۔
“میں۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔”سالار نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔اپنی آواز اسے کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔ریڈ لائٹ ایریا وہ آخری جگہ تھی جہاں اس نے کبھی امامہ کے ہونے کا تصور کیا تھا۔
گاڑی کے اندر چلنے والی روشنی میں عاکف نے بہت غور سے دیکھا۔اس کے ذرد پڑتے ہوئے چہرے کو ، اس کے ہاتھ کی بند مٹھی کو ، اس کے کپکپاتے ہونٹوں کو ، اس کے بےربط ، بے معنی لفظوں کو۔عاکف مسکرا دیا۔اس نے اس کے کندھے پر تسلی آمیز انداز میں تھپکی دی۔
“ڈونٹ وری یار! کیوں گھبرا رہے ہو ، وہ صرف گرل فرینڈ ہے میری۔اگر تمہارے اور اس کے درمیان بھی کچھ ہے تو کوئی بات نہیں ، ہم تو پہلے بھی بہت کچھ شئیر کیا کرتے تھے ، یاد ہے تمہیں۔”عاکف نے قہقہہ لگایا پھر اس نے بارود میں تیلی پھینکی۔
“یہ تو پھر لڑکی ہے۔”
مال روڈ پر کتنا رش تھا۔عاکف کتنی رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا۔ان دو سوالوں کے ساتھ ساتھ سالار نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسٹیرنگ پر موجود شخص پر جھپٹنے کی صورت میں خود اس کے ساتھ کیا ہو سکتا تھا۔اس نے پلک جھپکتے میں عاکف کو گلے سے پکڑ لیا۔عاکف کا پاؤں بےاختیار بریک پر آیا۔گاڑی ایک جھٹکے سے رُکی۔وہ دونوں پوری قوت سے ڈیش بورڈ سے ٹکرائے۔سالار نے اس کے کالر کو نہیں چھوڑا۔عاکف حواس باختگی کی حالت میں چلایا۔
“کیا کر رہے ہو تم؟”اس نے سالار کے ہاتھوں سے اپنا گلا چھڑانے کی کوشش میں اسے دور ہٹانے کی کوشش کی۔”پاگل ہو گئے ہو؟”
“How dare you talk like that?”
سالار جواباً غرایا۔اس کے ہاتھ ایک بار پھر عاکف کی گردن پر تھے۔عاکف کا سانس رُکنے لگا۔اس نے کچھ غصے اور کچھ حواس باختگی کے عالم میں سالار کے منہ پر مکا مارا۔سالار بےاختیار جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا۔اس کے دونوں ہاتھ اب اپنے منہ پر تھے۔عاکف کی گاڑی کے پیچھے موجود گاڑیاں ہارن پر ہارن دے رہی تھیں۔وہ سڑک کے وسط میں کھڑے تھے اور یہ ان دونوں کی خوش قسمتی تھی کہ اس طرح اچانک گاڑی رُکنے پر پیچھے آنے والی گاڑی ان سے نہیں ٹکرائی۔
سالار دونوں ہاتھوں سے اپنا جبڑا پکڑے ہوئے اپنی سیٹ پر دہرا ہوا تھا۔عاکف نے اپنے ہوش و حواس کو قابو میں رکھتے ہوئے گاڑی کو کچھ آگے ایک سنسان ذیلی سڑک پر موڑتے ہی ایک طرف روک لیا۔سالار تب تک سیدھا ہو چکا تھا اور اپنے ہاتھ کی ہتھیلی سے ہونٹوں اور جبڑے کو دبائے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھ رہا تھا۔چند پہلے کا اشتعال اب غائب ہو چکا تھا۔
عاکف نے گاڑی روکی۔سیٹ پر بیٹھے بیٹھے اس کی طرف مڑا اور کہا۔”کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔میرے گلے کیوں پڑ رہے تھے ، میں نے کیا کیا ہے؟”
بلند آواز میں بات کرتے کرتے اس نے ڈیش بورڈ سے ٹشو باکس اٹھا کر سالار کی طرف بڑھایا۔اس نے سالار کی شرٹ پر خون کے چند قطرے دیکھ لیے تھے۔سالار نے یکے بعد دیگرے دو ٹشو نکال لیے اور ہونٹ کے اس کونے کو صاف کرنے لگا جہاں سے خون رس رہا تھا۔
“گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو جاتا ابھی۔”عاکف نے کہا۔سالار کو ہاتھ صاف کرتے ہوئے دوبارہ ایررنگز کا خیال آیا۔اس نے یک دم جھک کر پائیدان میں ایررنگز ڈھونڈنا شروع کر دیا۔
“فٹ پاتھ پر گاڑی چڑھ جاتی یا۔۔۔۔۔”عاکف بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
“کیا ڈھونڈ رہے ہو؟”
“وہ ایررنگز۔”سالار نے مختصراً کہا۔
عاکف بےاختیار جھلایا۔
“کیا پرابلم ہے سالار! میری گرل فرینڈ ہے ، اس کے ایررنگز ہیں ، میرا پرابلم ہے یہ ایررنگز یا اس کا پرابلم ہے تمہارا نہیں۔”سالار یک دم رُک گیا۔اسے اپنی نامعقول حرکت کا احساس ہوا۔وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ٹشو کو کھڑکی سے باہر پھینکتے ہوئے اسے دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
عاکف ماتھے پر بل لیے اس کو دیکھ رہا تھا۔
“تمہارا اور صنوبر کا کوئی۔۔۔۔۔”عاکف بات کرتے کرتے محتاط انداز میں رُک گیا۔وہ اندازہ نہیں کر پا رہا کہ پچھلی بار اس کے جملے میں ایسا کون سا لفظ تھا جس نے اسے مشتعل کیا تھا۔وہ دوبارہ غلطی دُہرانا نہیں چاہتا تھا۔
“آئی ایم سوری۔”سالار نے اُس کے رُکنے پر کہا۔
“اوکے فائن۔”عاکف کچھ مطمئن ہوا۔”تم اور صنوبر۔۔۔۔۔”وہ پھر رُک گیا۔
“تم نے کہا تھا اس کا نام امامہ ہے۔۔”سالار نے گردن موڑ کر اس کا چہرہ دیکھا۔عاکف کو بےاختیار اس کی آنکھوں سے خوف آیا۔وہ کسی نارمل انسان کی آنکھیں نہیں تھیں۔وحشت۔۔۔۔۔بےچارگی۔۔۔۔۔خوف ۔۔۔۔۔وہ ہر تاثر لیے ہوئے تھیں۔
“ہاں ، اس نے ایک بار مجھے بتایا تھا۔شروع میں ، ایک بار اپنے بارے میں بتا رہی تھی ، تب اس نے مجھے بتایا۔”
“اس کا حلیہ بتا سکتے ہو مجھے؟”سالار نے موہوم سی اُمید کے ساتھ کہا۔
“ہاں ، کیوں نہیں۔”عاکف گڑبڑایا۔”بہت خوبصورت ہے۔fair………Tall “عاکف اب اٹکنے لگا۔”کالی آنکھیں ہیں ، بال بھی پہلے کالے تھے اب ڈائی کیے ہوئے ہیں اس نے اور کیا بتاؤں۔”وہ زچ ہوا۔
سالار نے آنکھیں بند کر کے ونڈ اسکرین کی طرف چہرہ کر لیا۔گھٹن کچھ اور بڑھ گئی تھی۔
“امامہ ہاشم ہے اس کا نام؟”وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
“پتا نہیں ، باپ کا نام تو نہیں بتایا اس نے۔نہ ہی میں نے پوچھا۔”عاکف نے کہا۔
“امامہ ہاشم ہی ہے وہ۔”وہ بڑبڑایا۔اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔”یہ سب میری وجہ سے ہوا۔۔۔۔۔سب۔۔۔۔۔میں ذمہ دار ہوں اس سب کچھ کا۔”
“کس چیز کے ذمہ دار ہو تم؟”عاکف کو تجسس ہوا۔سالار خاموشی سے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتا رہا۔عاکف جواب کا انتظار کرتا رہا۔چند منٹ کی خاموشی کے بعد سالار نے گردن موڑ کر اس سے کہا۔
“میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ابھی اور اسی وقت۔”
عاکف کچھ دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر وہ ڈیش بورڈ سے موبائل اٹھا کر ایک کال ملانے لگا۔کچھ دیر تک وہ کوشش کرتا رہا پھر اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
“اس کا موبائل آف ہے۔پتا نہیں وہ گھر پر ملے یا نہ ملے کیونکہ اب رات ہو رہی ہے اور وہ۔۔۔۔۔۔”عاکف چپ ہو کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔”لیکن میں تمہیں لے جاتا ہوں اس کے گھر۔”
آدھہ گھنٹہ کے بعد وہ دونوں ڈیفنس کے ایک بنگلے کے باہر کھڑے تھے۔وہاں پہنچنے تک ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی۔عاکف اب اس وقت کو کوس رہا تھا جب اس نے سالار کو لفٹ دی تھی۔
چند بار ہارن دینے پر اندر سے ایک آدمی باہر نکل آیا ، وہ چوکیدار تھا۔
“صنوبر گھر پر ہے؟”عاکف نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔
“نہیں ، بی بی صاحبہ تو نہیں ہیں۔”
“وہ کہاں ہیں؟”
“مجھے پتا نہیں۔”عاکف نے سالار کو دیکھا اور پھر گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
“تم بیٹھو ، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔”عاکف اس آدمی کے ساتھ اندر چلا گیا۔اس کی واپسی دس منٹ بعد ہوئی۔
“تم کو اس سے بات کرنی ہے؟”اس نے اندر بیٹھتے ہی پوچھا۔
“مجھے اس سے ملنا ہے۔”عاکف دوبارہ گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔
سفر پھر اسی خاموشی سے طے ہونے لگا۔نو بج رہے تھے جب وہ ریڈلائٹ ایریا میں پہنچے تھے۔سالار کے لیے وہ جگہ نئی نہیں تھی۔صرف اس تکلیف کا احساس نیا تھا جو اسے اس بار ہو رہا تھا۔
“آج یہاں ہی ہے وہ۔۔۔۔۔۔کسی آدمی نے یہاں کی کچھ لڑکیوں کو بک کروایا ہے کسی فنکشن کے لیے۔وہ بھی ان ہی کے ساتھ جا رہی ہے۔”
عاکف نے گاڑی سے اُترتے ہوئے کہا۔
“تم بھی تو اُترو ، بہت اندر جانا ہے۔اب صنوبر کو تو میں تم سے ملانے کے لئے یہاں نہیں لا سکتا۔”سالار باہر نکل آیا۔
وہ عاکف کے ساتھ ایک بار پھر ان گلیوں میں جانے لگا۔اسے اچھی طرح یاد تھا وہ اس طرح کی جگہ میں آخری بار وہاں کب آیا تھا ، وہان کچھ بھی نہیں بدلا تھا۔انسانی گوشت کی تجارت تب بھی اسی “ڈھکے چھپے” انداز میں ہو رہی تھی۔
اسے بہت اچھی طرح یاد تھا وہ پہلی بار اٹھارہ سال کی عمر میں وہاں آیا تھا پھر وہ کئی بار وہاں آتا رہا تھا ، کئی بار۔بعض دفعہ رقص دیکھنے ، بعض دفعہ کسی مشہور ایکٹریس کی کسی محفل میں شرکت کے لیے۔بعض دفعہ ان گلیوں کے دروازوں ، کھڑکیوں ، چوباروں سے لٹکتی جھانکتی نیم برہنہ عورتوں کو دیکھنے۔( اسے عجیب سی خوشی ملتی تھی ان گلیوں سے گزرتے ہوئے۔وہ وہاں کھڑی کسی بھی عمر کی کسی بھی شکل کی کو چند گھنٹوں کے لیے خرید سکتا تھا۔والٹ سے نکلنے والے چند نوٹ وہاں کھڑی کسی بھی لڑکی کو سر سے پیر تک اس کا کر دیتے۔دنیا پیروں کے نیچے اور کائنات مٹھی میں ہونا اور کسے کہتے تھے ، اسے سرشاری کا احساس ہوتا )۔اور بعض دفعہ وہاں رات گزارنے کے لئے ، ان عورتوں کے ساتھ جن سے وہ نفرت کرتا تھا چند روپوں کی خاطر جسم فروخت کرنے والیوں کے لئے وہ اس کے علاوہ کیا جذبات رکھ سکتا تھا اور نفرت کے باوجود وہ انہیں خریدتا تھا کیونکہ وہ خرید سکتا تھا۔اتھارہ انیس سال کی عمر میں اسے یقین تھا ان عورتوں میں کبھی کوئی ایسی عورت نہیں ہو سکتی تھی جس سے اس کا کوئی تعلق ہوتا ، خونی رشتہ ہوتا یا محبت ہوتی۔
اس کی ماں اور بہن ایلیٹ کلاس کی فرد تھیں۔اس کی بیوی کو بھی اسی کلاس کے کسی گھر سے آنا تھا۔اس کی بیٹی بھی اسی کلاس سے ہوتی۔ریڈ لائٹ ایریا کی عورتیں۔۔۔۔۔۔انہیں اسی کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔اسے یقین تھا اکڑی گردن ، اٹھی ہوئی ٹھوڑی اور تنے ہوئے ابروؤں کے ساتھ وہ اس مخلوق سے جتنی نفرت کرتا ، کم تھی۔جتنی تذلیل کرتا ناکافی تھی۔
اور اب۔۔۔۔۔اب قسمت نے کیا کیا تھا۔سات پردوں میں رہنے والی اس عورت کو جس کے جسم پر وہ کسی کی انگلی کے لمس تک کو برداشت نہیں کر سکتا تھا ، اسے اس بازار میں پھینک دیا گیا تھا۔اس سے چند قدم آگے وہ شخص چل رہا تھا جو اس کا گاہک تھا اور سالار سکندر زبان کھولنے کے قابل تک نہیں تھا۔آواز بلند نہیں کر سکتا تھا۔شکوہ نہیں کر سکتا تھا۔وہ کسی سے کیا کہتا۔کیا وہ اللہ سے کہہ سکتا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہوا۔آخر اس نے ایسا کیا کیا تھا؟اس نے اپنے ہونٹ بھینچ لیے تھے۔اس کی کپکپاہٹ کو کیسے روکتا۔ان گلیوں میں آنے والا کوئی شخص کبھی دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے اپنے گھر ، اپنے خاندان کی عورت کبھی اس بازار میں نہیں آئے گی۔کسی دوسرے مرد کی جیب میں پڑے ہوئے نوٹوں کے عوض نہیں بک سکے گی۔ماں نہیں؟۔۔۔۔۔بہن؟۔۔۔۔۔یا بیوی؟۔۔۔۔۔بیٹی؟۔۔۔۔۔پوتی؟۔۔۔۔۔نواسی؟۔۔۔۔۔آنے والی نسلوں میں سے کوئی۔
سالار سکندر کی زبان حلق سے کھینچ لی گئی تھی۔امامہ ہاشم اس کی بیوی تھی اس کی منکوحہ۔ایلیٹ کلاس کی وہ عورت جس کا اس بازار سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا۔سالار سکندر نے ایک بار پھر خود کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر رات کی تاریکی میں درخت کے ساتھ بندھا پایا۔۔۔۔۔ بےبسی کی انتہا تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار سکندر کی زبان حلق سے کھینچ لی گئی تھی۔امامہ ہاشم اس کی بیوی تھی اس کی منکوحہ۔ایلیٹ کلاس کی وہ عورت جس کا اس بازار سے کبھی واسطہ نہیں پڑتا۔سالار سکندر نے ایک بار پھر خود کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر رات کی تاریکی میں درخت کے ساتھ بندھا پایا۔۔۔۔۔ بےبسی کی انتہا تھی۔
“صاحب! میرے ساتھ چلو ، ہر عمر کی لڑکی ہے میرے پاس۔اس علاقے کی سب سے اچھی لڑکیاں ، قیمت بھی زیادہ نہیں ہے۔”اس کے ساتھ ایک آدمی چلنے لگا۔
“میں اس لئے یہاں نہیں آیا ہوں۔”سالار نے مدھم آواز میں اس پر نظر ڈالے بغیر کہا۔
“کوئی ڈرنک چاہئیے ، کوئی ڈرگ میں سب کچھ سپلائی کر سکتا ہوں۔”
عاکف نے یک دم قدم روک کر قدرے اکھڑے ہوئے انداز میں اس آدمی سے کہا۔”تمہیں ایک بار کہا ہے نا کہ ضرورت نہیں پھر پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔”
اس آدمی کے قدم تھم گئے۔سالار خاموشی سے چلتا رہا۔اس کا ذہن کسی آندھی کی زد میں آیا ہوا تھا۔امامہ ہاشم وہاں ، کب ، کیوں ، کیسے آ گئی تھی۔ماضی ایک فلم کی طرح اس کی نظروں کے سامنے آیا تھا۔
“پلیز ، تم ایک بار۔۔۔۔۔ایک بار اس کو جا کر میرے بارے میں سب کچھ بتاؤ ، اس سے کہو مجھ سے شادی کر لے۔اس سے کہو ، مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے ، صرف ایک نام ہے۔اس کو تم حضرت محمد ﷺ کا واسطہ دو گے تو وہ انکار نہیں کرے گا۔وہ اتنی محبت کرتا ہے ان ﷺ سے۔”اس نے بہت سال پہلے اپنے بیڈ پر نیم دراز چپس کھاتے ہوئے موبائل فون پر بڑے اطمینان کے ساتھ اس کو بلکتے سنا تھا۔
“بائے دا وے تم امامہ کے کیا لگتے ہو؟”
“میں۔۔۔۔۔؟میں اور امامہ بہت گہرے اور پرانے فرینڈز ہیں۔”جلال انصر کے ماتھے پر بل پڑ گئے تھے۔سالار نے عجیب سی سرشاری محسوس کی۔جلال اس وقت امامہ اور اس کے بارے میں کیا سوچ رہا ہو گا۔وہ اچھی طرح اندازہ کر سکتا تھا۔
“اس سے جا کر صاف صاف کہہ دو کہ میں اس سے شادی نہیں کروں گا۔”
وہ جلال انصر کا یہ پیغام سنتے ہوئے امامہ ہاشم کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے چیونگم کے ببل بناتے ہوئے امامہ کو موبائل پر خبر دی تھی۔
“تم نے مجھ پر اتنے احسان کیے ہیں ، ایک احسان اور کرو۔مجھے طلاق دے دو۔”وہ فون پر گڑگڑائی تھی۔
“نہیں ، میں تم پر احسان کرتے کرتے تھک گیا ہوں ، اب اور احسان نہیں کر سکتا اور یہ والا احسان ۔۔۔۔۔یہ تو ناممکن ہے۔”اس نے جواباً کہا تھا۔
“تم طلاق چاہتی ہو ، کورٹ میں جا کر لے لو مگر میں تو تمہیں طلاق نہیں دوں گا۔”
سالار کے حلق میں پھندے لگنے لگے۔
“ہاں ، میں نے یہ سب کچھ کیا تھا لیکن میں نے ، جلال انصر کی غلط فہمی کو دور کر دیا تھا۔میں نے اسے سب کچھ بتا دیا تھا ، کچھ بھی نہیں چھپایا۔میں نے صرف ایک مذاق کیا تھا ، ایک پریکٹیکل جوک۔میں یہ تو نہیں چاہتا تھا کہ امامہ کے ساتھ یہ سب کچھ ہو۔”وہ جیسے کسی عدالت میں آن کھڑا ہوا تھا۔
“ٹھیک ہے میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی اسے طلاق نہیں دے کر۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔میں نے پھر بھی یہ خواہش تو نہیں کی تھی کہ وہ یہاں آ پھنسے۔میں نے۔۔۔۔۔میں نے اسے گھر چھوڑنے سے روکا تھا ، میں نے مذاق میں ہی سہی مگر اسے مدد کی آفر بھی کی تھی۔میں تو اسے یہاں لے کر نہیں آیا تھا۔کوئی مجھے تو ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتا اس سب کا۔”
وہ بےربط جملوں میں وضاحتیں دے رہا تھا۔اس کے سر میں سنسناہٹ ہونے لگی تھی۔درد کی ایک تیز مگر مانوس سی لہر میگرین (آدھے سر کا درد ) کا ایک اور اٹیک۔وہ چلتے چلتے رُکا ، ہونٹ بھینچتے ہوئے اس نے بےاختیار اس نے اپنی کنپٹی کو مسلا ، درد کی لہر گزر گئی تھی۔آنکھیں کھول کر اس نے گلی کے پیچ و خم کو دیکھا۔وہ اندھی گلی تھی ، کم از کم اس کے لئے اور امامہ ہاشم کے لئے۔اس نے قدم آگے بڑھائے۔عاکف ایک چوبارے نما گھر کے سامنے رُک گیا تھا۔اس نے مڑ کر سالار کو دیکھا۔
“یہی گھر ہے۔”سالار کا چہرہ کچھ اور زرد پڑ گیا۔قیامت اب اور کتنی دور رہ گئی تھی۔
“اوپر کی منزل پر جانا ہے ، صنوبر اوپر ہی ہو گی۔”عاکف کہتے ہوئے ایک طرف موجود تنگ اور تاریک سی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔سالار کو پہلی سیڑھی پر ہی ٹھوکر لگی۔وہ بےاختیار جھکا ، عاکف نے مڑکر اسے دیکھا اور رُک گیا۔
“احتیاط سے آؤ ، سیڑھیوں کی حالت زیادہ اچھی نہیں ہے۔اوپر سے یہ لوگ بلب لگوانے کے بھی روادار نہیں۔”سالار سیدھا ہو گیا۔اس نے عاکف کا سہارا لے کر اوپر والی سیڑھی پر قدم رکھا۔سیڑھیاں بل کھا کر گولائی کی صورت میں اوپر جا رہی تھیں اور اتنی تنگ تھیں کہ صرف ایک وقت میں ایک ہی آدمی گزر سکتا تھا۔ان کی سیمنٹ بھی اکھڑی ہوئی تھی۔وہ بوٹ پہننے کے باوجود ان کی خستہ حالت کو جانچ سکتا تھا جس دیوار کا سہارا لے کر وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔اس دیوار کی سیمنٹ بھی اکھڑی ہوئی تھی۔سالار اندھوں کی طرح دیوار ٹٹولتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
پہلی منزل کے ایک دروازے کے کھلے ہوئے پٹ سے آنے والی روشنی نے سالار کی رہنمائی کی تھی۔عاکف وہاں کہیں نہیں تھا۔یقیناً وہ دروازہ پار کر کے آگے چلا گیا تھا۔سالار چند لمحوں کے لیے وہاں رُکا پھر اس نے دہلیز کے پار قدم رکھا۔وہ اب ایک چوبارے میں تھا۔ایک طرف بہت سے کمروں کے دروازے تھے۔دوسری طرف نیچے گلی نظر آ رہی تھی۔برآمدے نما لمبا چوبارہ بالکل خالی تھا۔تمام کمروں کے دروازے اسے وہاں کھڑے بند ہی لگ رہے تھے۔عاکف کہاں گیا تھا وہ نہیں جانتا تھا۔اس نے بہت محتاط انداز میں اپنے قدم آگے بڑھائے۔یوں جیسے وہ کسی بھوت بنگلے میں آ گیا تھا۔ابھی کوئی دروازہ کھلتااور امامہ ہاشم اس کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی۔
“میرے خدا۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔ میں اس کا سامنا یہاں کیسے کروں گا۔” اس کا دل ڈوبا۔
وہ ان بند دروازوں پر نظر ڈالتے ہوئے چلتا جارہا تھا۔ جب اس برآمدے کے آخری سرے پر ایک دروازے میں سے عاکف نکلا۔
“تم یہاں رہ گئے ہو۔” وہ وہیں سے بلند آواز میں بولا۔”یہاں آؤ۔”
سالار کے قدموں کی رفتار تیز ہوگئی ۔ سالار دروازے تک پہنچنے سے پہلے چند لمحے کے لئے رُک گیا۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن کی آواز باہر تک سن رہا تھا پھر آنکھیں بند کئے سرد ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے وہ کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہاں عاکف ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ ایک لڑکی اپنے بالوں پر برش کرتے ہوئے عاکف سے باتیں کر رہی تھی۔
“یہ امامہ نہیں ہے۔” بے اختیار سالار کے منہ سے نکلا۔
“ہاں یہ امامہ نہیں ہے۔ وہ اندر ہے ، آؤ۔”عاکف نے اٹھتے ہوئے ایک اور کمرے کا دروازہ کھولا۔ سالار ہموار قدموں سے اس کے پیچھے گیا۔ عاکف اگلے کمرے کو بھی پار کرگیا اور ایک اور دروازہ کھول کر ایک دوسرے کمرے میں داخل ہوگیا۔
“ہیلو صنوبر!”سالار نے دور سے عاکف کو کہتے ہوئے سنا۔ اس کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ ایک لمحے کے لئے اس کا جی چاہا وہ وہاں سے بھاگ جائے۔۔۔۔۔ ابھی اسی وقت۔۔۔۔۔ سرپٹ۔۔۔۔۔ ادھر اُدھر دیکھے بغیر۔۔۔۔۔ اس گھر سے۔۔۔۔۔ اس علاقے سے۔۔۔۔۔ اس شہرسے۔۔۔۔۔ اس ملک سے۔۔۔۔۔ دوبارہ کبھی وہاں کا رخ تک نہ کرے۔۔۔۔۔ اس نے گردن موڑ کر اپنے عقب میں موجود دروازے کو دیکھا۔
“آؤ سالار! عاکف نے اسے مخاطب کیا۔ وہ اب گردن موڑ ے اندر کسی لڑکی سے مصروف گفتگو تھا ۔ سالار نے تھوک نگلا۔ اس کا حلق کانٹوں کا جنگل بن گیا تھا۔وہ آگے بڑھا۔ عاکف نے اپنی پشت پر اس کے قدموں کی آواز سنی تو دروازے سے ہٹ گیا۔ سالار دروازے میں تھا۔ وہ کمرے کے وسط میں کھڑی تھی۔
“یہ ہے صنوبر۔” عاکف نے تعارف کروایا۔ سالار اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ وہ بھی اس پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
“امامہ؟” وہ بے حس و حرکت اسے دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔
“ہاں امامہ! عاکف نے تصدیق کی۔
سالار گھٹنوں کے بل زمین پر گر پڑا۔ عاکف گھبرا گیا۔
“کیا ہوا، کیا ہوا؟” وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑتے ہوئے سجدے میں تھا۔ وہ ایک طوائف کے کوٹھے پر سجدے میں گرنے والا پہلا مرد تھا۔
عاکف پنجوں کے بل بیٹھا اسے کندھے سے پکڑے ہلا رہا تھا۔ سالار سجدے میں بچوں کی طرح رو رہا تھا۔
“پانی۔۔۔۔۔ پانی لاؤں؟”صنوبر گھبراتے ہوئے تیزی سے بیڈ کے سرہانے پڑے جگ اور گلاس کی طرف گئی اور گلاس میں لے کر سالار کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
“سالار صاحب! آپ پانی پئیں۔”
سالار ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ یوں جیسے اسے کرنٹ لگا ہو۔ اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ کچھ کہے بغیر اس نے اپنی جینز کی جیب سے والٹ نکالا اور پاگلوں کی طرح اس میں سے کرنسی نوٹ نکال کر صنوبر کے سامنے رکھتا گیا اس نے والٹ چند سیکنڈ میں خالی کردیا تھا۔ اس میں کریڈٹ کارڈ ز کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچا تھا۔ پھر وہ کچھ کہے بغیر اٹھ کھڑا ہوا اور الٹے قدموں دروازے کی دہلیز سے ٹھوکر کھاتا ہوا باہر نکل گیا۔ عاکف ہکا بکا اس کے پیچھے آیا۔
“سالار۔۔۔۔۔سالار۔۔۔۔۔! کیا ہوا ہے؟ کہاں جارہے ہو؟”
اس نے سالار کو کندھے سے پکڑکر روکنے کی کوشش کی ۔ سالار وحشت زدہ اس سے اپنے آپ کو چھڑانے لگا۔
“چھوڑو مجھے ۔ ہاتھ نہ لگاؤ۔ مجھے جانے دو۔”
وہ بلند آواز میں روتے ہوئے ہذیانی انداز میں چلا یا۔
“امامہ سے ملنا تھا تمہیں۔” عاکف نے اسے یاد دلایا۔
“یہ اما مہ نہیں ہے۔ یہ نہیں ہے امامہ ہاشم۔۔۔۔۔”
“تو ٹھیک ہے۔ مگر میرے ساتھ جانا ہے تمہیں۔”
“میں چلا جاؤں گا۔ میں چلا جاؤں گا۔ مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔” وہ اُلٹے قدموں اپنا کندھا چھڑاکر بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ عاکف زیرلب کچھ بڑبڑایا۔ اس کا موڈ آف ہوگیا تھا مڑ کر وہ صنوبر کے کمرے میں گھس گیا جو ابھی بھی حیرانی سے نوٹوں کے ڈھیر کو دیکھ رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______
سیڑھیاں اب بھی اسی طرح تاریک تھیں مگر اس بار وہ جس ذہنی حالت میں تھا اسے کسی دیوار، کسی سہارے ، کسی روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اندھا دھند تاریک سیڑھیوں سے نیچے بھاگا اور بری طرح گرا۔ اگر سیڑھیاں سیدھی ہوتیں تو وہ سیدھا نیچے جاکر گرتا مگر سیڑھیوں کی گولائی نے اسے بچالیا تھا۔ وہ اندھیرے میں ایک بار پھر اُٹھا۔ گھٹنوں اور ٹخنوں میں اٹھنے والی ٹیسوں سے بے پروا اس نے دوبارہ اسی طرح بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اترنے کی کوشش کی۔ چند سیڑھیاں اُترنے کے بعد لگائی جانے والی چھلانگ نے اسے پھر زمین بوس کیا تھا۔ اس بار اس کا سر بھی دیوار سے ٹکرایا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کی ہڈی نہیں ٹوٹی۔ شاید سیڑھیوں سے گرنے کے بعد نیچے والی سیڑھیوں پر آگیا تھا۔ سامنے گلی کی روشنی نظر آرہی تھی۔ وہ سیڑھیو ں سے نکل آیا مگر آگے نہیں جاسکا۔ چند قدم آگے چل کر اس گھر کے باہر تھڑے پر بیٹھ گیا۔ اسے متلی محسوس ہورہی تھی۔ سر کو تھامتے ہوئے بے اختیار اسے ابکائی آئی وہ تھڑے پر بیٹھے بیٹھے جھک گیا تھا ، وہ ابکائیاں کرتے ہوئے بھی اسی طرح سے رورہا تھا۔ گلی میں سے گزرنے والے لوگوں کے لئے یہ سین نیا نہیں تھا۔یہاں بہت سے شرابی اور نشئی ضرورت سے زیادہ نشہ استعمال کرنے کے بعد یہی سب کچھ کیا کرتے تھے۔صرف سالار کا لباس اور حلیہ تھا جوا سے کچھ مہذب دکھا رہا تھا اور اس کے آنسو اور واویلا۔ کسی طوائف کی بے وفائی کا نتیجہ تھا شاید۔ طوائف کا کوٹھا ہر کسی کو راس نہیں آتا۔ گزرنے والے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے گزر رہے تھے۔ کوئی اس کے پاس نہیں آیا تھا۔ اس بازار میں حال احوال جاننے کا رواج نہیں تھا۔
عاکف نیچے نہیں آیاتھا۔ آتا تو شاید سالار کے پاس رُک جاتا۔ امامہ ہاشم وہاں نہیں تھی۔ صنوبر امامہ ہاشم نہیں تھی۔ کتنا بڑا بوجھ اس کے کندھوں سے اٹھالیا گیا تھا۔ کیسی اذیت سے اسے بچالیا گیا تھا۔ تکلیف دے کر اسے آگہی نہیں دی گئی۔صرف تکلیف کا احساس دے کر اسے آگہی سے شناسا کردیا گیا تھا۔اسے وہاں نہ دیکھ کر وہ اس حالت میں جاپہنچا تھا۔ وہ اسے وہاں دیکھ لیتا تو اس پر کیا گزرتی۔ اسے اللہ سے خوف آرہا تھا بے پناہ خوف۔ وہ کس قدر طاقتور تھا کیا نہیں کرسکتا تھا۔ وہ کس قدر مہربان تھا ۔ کیا نہیں کرتا تھا۔ انسان کو انسان رکھنا اسے آتا تھا۔ کبھی غضب سے ، کبھی احسان سے۔ وہ اسے اس کے دائرے میں ہی رکھتا تھا۔
اسے کبھی اپنی زندگی کے اس سیاہ باب پر اتنا چھتاوا اتنی نفرت نہیں ہوئی جتنی اس وقت ہورہی تھی۔۔۔۔۔
“کیوں؟کیوں۔۔۔۔۔؟ کیوں آتا تھا میں یہاں پر۔۔۔۔۔؟ کیوں خریدتا تھا میں ان عورتوں کو۔۔۔۔۔؟ کیوں گناہ کا احساس میرے اندر نہیں جاگتا تھا؟” وہ چبوترے پر بیٹھا دونوں ہاتھوں سے سر پکڑے بلک رہا تھا۔
“اور اب ۔۔۔۔۔ اب جب میں یہ سب کچھ چھوڑ چکا ہوں تو اب۔۔۔۔۔ اب کیوں۔۔۔۔۔ یہ تکلیف۔۔۔۔۔ یہ چبھن ہورہی ہے مجھے۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔۔۔ جانتا ہوں مجھے اپنے ہر عمل کے لئے جواب دہ ہونا ہے مگر یہ حساب یہاں۔۔۔۔۔ اس طرح نہ لے۔۔۔۔۔ جس عورت سے میں محبت کرتا ہوں اسے کبھی بازار میں نہ پھینک۔”
وہ روتے ہوئے رکا، کون سا انکشاف کہاں ہورہا تھا۔
“محبت؟” وہ گلی سے گزرتے لوگوں کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے بڑبڑایا۔
“کیا میں۔۔۔۔۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں؟” کوئی لہر اس کے سر سے پیروں تک گزری تھی۔
“کیا یہ تکلیف صرف اس لئے ہورہی ہے مجھے کہ میں اس سے۔۔۔۔۔” اس کے چہرے پر سائے لہرائے تھے۔” کیا وہ میرا پچھتاوا نہیں ہے۔ کچھ اور ہے۔۔۔۔۔؟
اسے لگا وہ وہاں سے کبھی اٹھ نہیں پائے گا۔
“تو یہ پچھتاوا نہیں محبت ہے، جس کے پیچھے میں بھاگتا پھر رہا ہوں۔” اسے اپناجسم ریت کا بنا ہوا لگا۔
“امامہ پھانس نہیں ہے روگ ہے؟۔ آنسو اب بھی اس کی گالوں پر بہ رہے تھے۔”
“اور اس بازار میں اس عورت کی تلاش میں اٹھتے میرے قدموں میں لرزش اس لئے تھی کیونکہ میں نے اسے اپنے دل کے بہت اندر کہیں بہت اونچی جگہ رکھا تھا۔ وہاں جہاں خود میں بھی اس کو محسوس نہیں کرپارہا تھا۔ چیک میٹ۔”
“150 پلس آئی کیو لیول کا وہ مرد منہ کے بل زمین پر گرایا گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کون سازخم تھا جو وہاں بیٹھا ہرا ہورہا تھا۔ کون سی تکلیف تھی جو سانس لینے نہیں دے رہی تھی۔ آئینے نے اسے کہاں بر ہنہ کیا تھا۔ اسے کیا یاد تھا؟ کیا لیا تھا؟ وہ اٹھ کر وہاں سے چلنے لگا۔ اسی طرح بلک بلک کر روتے ہوئے ۔ اسے خود پر قابو نہیں تھا۔ اسے پاس سے گزرنے والوں کی نظروں کی بھی پروا نہیں تھی۔ اسے اپنے وجود سے کبھی زندگی میں اتنی نفرت محسوس نہیں ہوئی تھی جتنی اس وقت ہورہی تھی۔ وہ ریڈ لائٹ ایریا اس کی زندگی کا سب سے سیاہ باب تھا۔ ایسا سیاہ باب جسے وہ کھرچ کر اپنی زندگی سے علیحدہ نہیں کر پایا تھا۔ وہ ایک بار پھر اس کی زندگی میں آکھڑا ہوگیا تھا۔ کئی سال پہلے وہاں گزاری گئی راتیں اب بلاؤں کی طرح اسے گھیرے ہوئے تھیں اور وہ ان سے فرار حاصل نہیں کر پارہا تھا اور اب جس خوف نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا وہ تو۔۔۔۔۔
“اگر ۔۔۔۔۔اگر۔۔۔۔۔امامہ اس بازار میں آگئی ہوتی تو۔۔۔۔۔؟ صنوبر، امامہ ہاشم نہیں تھی مگر کوئی اور۔۔۔۔۔” اس کے سر میں درد کی ایک لہر اٹھی۔ میگرین اب شدت اختیار کرتا جارہا تھا۔ اس کا ذہن بیٹھ گیا تھا۔ گاڑیوں کے ہارن اور لائٹس نے اس کے درد کو اور بڑھا دیا تھا پھر اس کا ذہن کسی تاریکی میں اتر گیا تھا۔
کسی نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر کچھ کہا۔۔۔۔۔ ایک دوسری آواز نے جواباً کچھ کہا۔ سالار سکندر کے حواس آہستہ آہستہ کام کرنے لگے تھے۔ مضمحل تھکن زدہ۔۔۔۔۔ مگر آوازوں کو شناخت کرتا ہوا ذہن۔
بہت آہستہ آہستہ اس نے آنکھیں کھولیں۔ اسے حیرانی نہیں ہوئی۔ اسے یہیں ہونا چاہیئے تھا۔ وہ ہاسپٹل یا کسی کلینک کے ایک کمرے میں ایک بیڈ پر تھا۔ بے حد نرم اور آرام دہ بیڈ، اس سے کچھ فاصلے پر فرقان کسی دوسرے ڈاکٹر کے ساتھ ہلکی آواز میں باتیں کر رہا تھا۔ سالار نے ایک گہراسانس لیا۔ فرقان اور دوسرے ڈاکٹر نے گردن موڑ کر باتیں کرتے اسے دیکھا پھر دونوں اس کی طرف چلے آئے۔
سالار نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں ۔آنکھیں کھلا رکھنا اسے مشکل لگ رہا تھا۔ فرقان نے پاس آکر نرمی سے اس کے سینے کو تھپتھپایا۔
“کیسے ہو اب سالار؟”
سالا نے آنکھیں کھول دیں۔ اس نے مسکرا نے کی کوشش نہیں کی۔ صرف چند لمحے خالی الذہنی کے عالم میں اسے دیکھتا رہا۔
“فائن۔۔۔۔۔”اس نے کہا۔
دوسرا ڈاکٹر اس کی نبض دیکھنے میں مصروف تھا۔
سالار نے ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔ فرقان اور دوسرا ڈاکٹر آپس میں ایک بار پھر گفتگو میں مصروف تھے۔ اسے اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے کسی بھی چیز میں کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ باقی سب کچھ ویسا ہی تھا۔ احسا س جرم ، پچھتاوا۔ عاکف ، صنوبر۔۔۔۔۔امامہ۔۔۔۔۔ریڈ لائٹ ایریا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ اس کا دل چاہا کاش وہ ابھی ہوش میں نہ آتا۔
تو سالار صاحب۔۔۔۔۔! اب کچھ تفصیلاً گفتگو ہوجائے آپ کے ساتھ۔” اس نے فرقان کی آواز پر آنکھیں کھول دیں۔ وہ اس کے بیڈ کے بالکل قریب ایک اسٹول پر بیٹھا ہوا تھا۔ دوسرا ڈاکٹر باہر جا چکا تھا۔ سالار نے اپنی ٹانگوں کو سمیٹنے کی کوشش کی۔ اس کے منہ سے کراہ نکلی۔ اس کے ٹخنے اور گھٹنوں میں شدید ہورہا تھا۔ اس کی ٹانگوں پر کمبل تھا وہ انہیں نہیں دیکھ سکتا مگر اس کو اندازہ تھا کہ اس کے ٹخنے اور گھٹنے پر کچھ لپٹا ہوا تھا۔ وہ اپنے کپڑوں میں بھی نہیں تھا بلکہ مریضوں کے لئے مخصوص لباس میں تھا۔
“کیا ہوا ہے؟” سالار نے بے اختیار کراہ کر ٹانگ سیدھی کرتے ہوئے کہا۔
“sprained ankleدونوں گھٹنوں اور calfپر کچھ خراشیں اور سوجن مگر خوشی قسمتی سے کوئی فریکچر نہیں۔ بازوں اور کہنیوں پر بھی کچھBruises خوش قسمتی سے پھر کوئی فریکچر نہیں ۔ سر کے بائیں پچھلے حصے میں چھوٹا ساکٹ تھوڑی سی بلیڈنگ ، مگر سی ٹی اسکین کے مطابق کوئی سیریس انجری نہیں۔ سینے پر بھی رگڑ کی وجہ سے معمولی خراشیں مگر جہاں تک تمہارے سوال کا تعلق ہے کہ کیا ہوا ہے؟ تو یہ تم بتاو کہ کیا ہوا ہے؟”
فرقان کسی ماہر ڈاکٹر کی طرح بات کرتے کرتے بولا۔ سالار چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
“میں پہلے سمجھتا رہا کہ میگرین کا اٹیک اتنا شدید تھا کہ تم بے ہوش ہوگئے مگر بعد میں تمہارا چیک اپ کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ ایسا نہیں تھا۔ کیا کسی نے حملہ کیا تھا تم پر؟” وہ اب سنجیدہ تھا۔ سالار نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے سر کو جھٹکا۔
“تم مجھ تک کیسے پہنچے بلکہ میں یہاں کیسے پہنچا؟”
“میں تمہارے موبائل پر تمہیں کال کر رہا تھا اور تمہارے بجائے کسی آدمی نے وہ کال ریسیو کی ، وہ اس وقت فٹ پاتھ پر تمہارے قریب تھا۔ تمہیں ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے مجھے تمہاری حالت کے بارے میں بتایا۔اچھا آدمی تھا۔ میں نے اسے کہا کہ وہ تمہیں کسی ٹیکسی میں قریبی ہاسپٹل لے جائے۔ وہ لے گیا پھر میں وہاں پہنچ گیا اور تمہیں یہاں لے آیا۔”
“ابھی کیا وقت ہے؟”
“صبح کے چھے بج رہے ہیں۔ سمیر نے تمہیں رات کو پین کلر ز دیئے اسی لئے تم ابھی تک سو رہے تھے۔”
فرقان کو بات کرتے کرتے ہوئے احساس ہوا کہ وہ دلچسپی نہیں لے رہا۔ اس کی نظروں میں ایک عجیب سی سرد مہری محسوس ہوئی تھی۔ یوں جیسے فرقان اسے کسی تیسرے شخص کی حالت کے بارے میں بتارہا تھا۔
“تم مجھے۔۔۔۔۔ دوبارہ۔۔۔۔۔”سالار نے اسے خاموش ہوتے ہوئے دیکھ کر کہنا شروع کیا۔ پھر قدرے الجھن آمیز انداز میں رکا۔ آنکھیں بند کیں جیسے ذہن پر زور دے رہا ہو۔
“ہاں ۔۔۔۔۔کوئی ٹرینکولائز دے دو۔ میں بہت لمبی نیند سونا چاہتا ہوں۔”
“سوجانا۔۔۔۔۔مگر یہ تو بتاؤ۔۔۔۔۔ہوا کیا تھا؟”
“کچھ نہیں۔” سالار نے بیزری سے کہا۔
“میگرین ۔۔۔۔۔ اور میں فٹ پاتھ پر گر پڑا، گرنے سے چوٹیں لگ گئیں۔”
فرقان نے اسے غور سے دیکھا۔
“کچھ کھالو۔۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کاٹی۔” نہیں۔۔۔۔۔ بھوک ۔۔۔۔۔ نہیں ہے۔ تم بس مجھے کچھ دو۔۔۔۔۔ ٹیبلٹ ، انجکشن ، کچھ بھی ، میں بہت تھکا ہوا ہوں۔”
“اسلام آباد تمہارے گھر والوں ۔۔۔۔۔”
سالار نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
“نہیں، اطلاع مت کرنا۔ میں جب سو کر اٹھوں گا تو اسلام آباد چلا جاؤں گا۔”
“اس حالت میں؟”
“تم نے کہا ہے میں ٹھیک ہوں۔”
“ٹھیک ہو مگر اتنے بھی ٹھیک نہیں ہو۔ دو چار دن آرام کرو۔ یہیں رہو لاہور میں ، پھر چلے جانا۔”
“اچھا پھر تم پا پا کو یا ممی کو اطلاع مت دینا۔”
فرقان نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھا۔ اس کے ماتھے پر چند بل آگئے۔” اچھا۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ کچھ۔۔۔۔۔؟”
“ٹرینکولائز۔۔۔۔۔”
فرقان اسے سوچتے ہوئے دیکھنے لگا۔
“میں رہوں تمہارے پاس۔۔۔۔۔؟”
“فائدہ۔۔۔۔۔؟ میں تو ابھی سو جاؤں گا۔ تم جاؤ۔ جب میں اٹھوں گا تو تمہیں کال کروں گا۔”
اس نے بازو کے ساتھ اپنی آنکھیں ڈھانپ لیں۔ اس کے انداز میں موجود روکھے پن اور سرد مہری نے فرقان کو کچھ اور پریشان کیا۔ اس کا رویہ بہت ابنارمل تھا۔
“میں سمیر سے بات کرتا ہوں، مگر ٹرینکولائز چاہیئے تو پہلے تو تمہیں کچھ کھا نا ہوگا۔” فرقان نے اٹھتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا۔ سالار نے آنکھوں سے باز و نہیں ہٹایا۔
دوبارہ اس کی آنکھ جس وقت کھلی اس وقت شام ہورہی تھی۔ کمرہ خالی تھا۔ اس کے پاس کوئی بھی نہیں تھا۔ جسمانی طور پر صبح سے زیادہ تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔ اپنی ٹانگوں سے کمبل پرے ہٹا کر اس نے لیٹے لیٹے بائیں ٹخنے اور گھٹنوں میں اٹھتی ہوئی ٹیسوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹانگوں کو سکیڑ لیا۔ اسے اپنے اندر ایک عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ اتنی گھٹن جیسے کسی نے اس کے سینے کو جکڑ لیا ہو۔ وہ اسی طرح لیٹے لیٹے چھت کو گھور تا رہا پھر جیسے اسے کوئی خیال آیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ہوٹل آکر اپنا سامان پیک کر رہا تھا جب فرقان نے دروازے پر دستک دی۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔ فرقان کو دیکھ کر وہ حیران ہوا۔ اسے اندا زہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی اس کے پیچھے آجائے گا۔
“عجیب انسان ہو تم سالار۔۔۔۔۔” فرقان اسے دیکھتے ہی ناراضی سے بولنے لگا۔
“یوں کسی کو بتائے بغیر سمیر کے کلینک سے چلے آئے، مجھے پریشان کر دیا۔ اوپر سے موبائل کوبھی آف کر رکھا ہے۔”
سالار نے کچھ نہیں کہا۔ وہ لنگڑاتا ہو ایک بار پھر اپنے بیگ کے پاس آگیا۔ جس میں وہ اپنی چیزیں پیک کر رہا تھا۔
“تم جارہے ہو؟” فرقان بیگ دیکھ کر چونکا۔
“ہاں۔۔۔۔۔!”سالار نے یک لفظی جواب دیا
“کہاں۔۔۔۔۔؟” سالار نے بیگ کی زپ بند کردی اور بیڈ پر بیٹھ گیا
“اسلام آباد؟” فرقان اس کے سامنے صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔
“نہیں ۔” سالار نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
“پھر ۔۔۔۔۔؟”
کراچی جارہا ہوں۔”
“کس لئے؟” فرقان نے حیرانی سے پوچھا۔
“فلائٹ ہے میری۔”
“پیرس کی؟”
“ہاں۔۔۔۔۔!”
“چار دن بعد ہے تمہاری فلائٹ ، ابھی جاکر کیا کروگے؟” فرقان اسے دیکھنے لگا۔ سمیر کا اندازہ ٹھیک تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات بے حد عجیب تھے۔
“کام ہے مجھے وہاں۔”
“کیا کام ہے؟”
وہ جواب دینے کے بجائے بیڈ پر بیٹھا پلکیں جھپکائے بغیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا ۔فرقان سا ئیکالوجسٹ نہیں تھا۔ پھر بھی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی آنکھوں کو پڑھنے میں اسے کوئی مشکل نہیں ہوئی ۔ سالار کی آنکھوں میں کچھ بھی نہیں تھا۔ صرف سرد مہری تھی۔ یوں جیسے وہ کسی کو جانتا ہی نہ ہو۔ اسے اور اپنے آپ کو بھی۔ وہ ڈپریس تھا۔ فرقان کو کوئی شبہ نہیں تھا مگر اس کا ڈپریشن اسے کہاں لے جا رہا تھا۔ فرقان یہ جاننے سے قاصر تھا۔
“تمہیں آخر کیا پریشانی ہے سالار؟” وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
“سالار نے توقف کیا۔ پھر کندھے جھٹکے۔
“کوئی پریشانی نہیں ہے۔”
“تو پھر۔۔۔۔۔” سالار نے فرقان کی بات کاٹ دی۔
“تم جانتے ہو مجھے میگرین ہے۔ کبھی کبھار اس طرح ہوجاتا ہے مجھے۔”
“میں ڈاکٹر ہوں سالار!” فرقان نے سنجیدگی سے کہا۔” میگرین کوکوئی مجھ سے زیادہ بہتر نہیں جانتا۔ یہ سب کچھ میگرین کی وجہ سے نہیں تھا۔”
“تو تم بتاؤ اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟” سالار نے اُلٹاا س سے سوال کیا۔
“کسی لڑکی کا پرابلم ہے؟” سالار پلکیں جھپک نہیں سکا ۔ فرقان کہاں جا پہنچا تھا۔
“ہاں ۔۔۔۔۔” وہ نہیں جانتا اس نے “نہیں” کیوں نہیں کہا تھا۔
“کسی میں انوالو ہو تم؟” فرقان کو اپنے اندازے کے صحیح ہونے پر جیسے یقین نہیں آیا۔
“ہاں۔۔۔۔۔”
فرقان بہت دیر چپ بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ یوں جیسے اپنی بے یقینی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہو۔
“کس کے ساتھ انوالو ہو؟”
“تم اسے نہیں جانتے۔”
“شادی نہیں ہو سکی تمہاری اس کے ساتھ؟” سالار اسے دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔
“ہوگئی تھی۔” اس کے لہجے میں آنچ تھی۔
“شادی ہوگئی تھی؟” فرقان کو پھر یقین نہیں آیا۔
“ہاں۔۔۔۔۔”
پھر۔۔۔۔۔ طلاق ہوگئی؟” اس نے پوچھا۔
“نہیں۔”
“تو۔۔۔۔۔؟” سالار کے پاس آگے بتانے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا۔
“تو بس۔۔۔۔۔”
“بس کیا۔۔۔۔۔؟ سالار اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کر اپنے بائیں ہاتھ کی انگلی دائیں ہاتھ میں موجود دل کی لکیرپر پھیرتا رہا۔
“کیا نام ہے اس کا؟” فرقان نے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔ وہ ایک بار پھر اس طرح لکیر کو چھوتے ہوئے بہت دیر تک خاموش رہا ۔ بہت دیر۔۔۔۔۔ پھر اس نے کہا۔
“امامہ ہاشم۔۔۔۔۔” فرقان نے بے اختیار سانس لیا۔ اسے اب سمجھ میں آیا کہ وہ اس کی چھوٹی بیٹی کو ڈھیروں کے حساب سے تحفے کیوں دیا کرتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے میں جب سے سا لار سے اس کی شناسائی ہوئی تھی اور سالار کا اس کے گھر آنا جانا شروع ہوا تھا سالار اور امامہ کی بہت دوستی ہوگئی تھی۔ وہ پاکستان سے جانے کے بعد بھی اسے وہاں سے کچھ نہ کچھ بجھواتا رہتا تھا مگر فرقان کو اکثر صرف ایک بات پر حیرانی ہوئی تھی۔ وہ کبھی امامہ کا نام نہیں لیتا تھا اور وہ خود اس سے بات کرتا تو اسے نام کے بغیر مخاطب کرتا رہتا۔ فرقان کو چند ایک بار یہ بات محسوس ہوئی تھی مگر اس نے اسے نظر انداز کردیا تھا لیکن اب امامہ ہاشم کا نام سن کر وہ جان گیا تھا کہ وہ کیوں اس کا نام نہیں لیتا تھا۔
وہ اب رُک رُک کر بے ربط جملوں میں مدھم آواز میں اسے اپنے اور امامہ کے بارے میں بتارہا تھا۔ فرقان دم سادھے سن رہا تھا۔ جب وہ سب کچھ بتانے کے بعد خاموش ہوا تو دیر تک فرقان بھی کچھ بول نہیں سکا۔ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ تسلی دے یا پھر کچھ اور کہے۔۔۔۔۔ کوئی نصیحت۔۔۔۔۔
“تم اسے بھول جاؤ۔” اس نے بالآخر کہا۔” سوچ لو کہ وہ جہاں بھی ہے خوش ہے اور محفوظ ہے۔ ضروری نہیں اس کے ساتھ کوئی سانحہ ہی ہوا ہو۔ ہوسکتا ہے وہ بالکل محفوظ ہو۔ فرقان کہہ رہا تھا۔” تم نے اس کی مدد کی ، جس حد تک تم کر سکتے تھے۔ پچھتاؤں سے اپنے آپ کو نکال لو۔ اللہ مدد کرتا ۔ تمہارے بعد ہوسکتا اسے تم سے بہتر کوئی اور مل گیا ہو۔ تم کیوں اس طرح کے وہم لئے بیٹھے ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ جلال سے اس کی شادی نہ ہونے کی وجہ تم تھے۔ جو کچھ تم نے مجھے جلال کے بارے میں بتایا ہے۔ میرا ندازہ یہی ہے کہ وہ کسی صورت میں امامہ سے شادی نہ کرتا، چاہے تم بیچ میں آتے نہ آتے۔ کوشش کرتے نہ کرتے۔ جہاں تک امامہ کو طلاق نہ دینے کا سوال ہے اسے چاہیئے تھا وہ تم سے دوبارہ رابطہ کرتی۔ وہ ایسا کرتی تو یقیناً تم اسے طلاق دے دیتے۔ اگر اس معاملے میں تم سے کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اللہ تمہیں معاف کردے گا کیونکہ تم پچھتارہے ہو۔ تم اللہ سے معافی بھی مانگتے آرہے ہو۔ یہ کافی ہے مگر اس طرح ڈپریشن کا شکار ہونے سے کیا ہوگا۔ سالار کی خاموشی سے اسے امید بندھی کہ شاید اس کی کوشش رنگ لارہی تھی مگر ایک لمبی تقریر کے بعد جب وہ خاموش ہوا تو سالار اٹھ کر اپنا بریف کیس کھولنے لگا۔
“کیا کر رہے ہو؟” فرقان نے پوچھا۔
“میری فلائٹ کا ٹائم ہورہا ہے۔” وہ اب اپنے بریف کیس میں سے کچھ پیپر نکال رہا تھا۔ فرقان کی سمجھ نہیں آیا وہ اس سے کیا کہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ پچھلے کئی سالوں میں کئی بار پاکستان آتا جاتا رہا تھا اسے کبھی واپس جاتے ہوئے اس قسم کی کیفیا ت کا شکار نہیں ہونا پڑا تھا جس قسم کی کیفیات کا شکار وہ اس بار ہوا تھا۔ جہاز کے ٹیک آف کے وقت ایک عجیب سا خالی پن تھا، جو اس نےا پنے اندر اترتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ اس نے جہاز کی کھڑکی سے باہر جھانکا ۔ بہت دور تک پھیلے ہوئے اس خطے میں کہیں امامہ ہاشم نام کی ایک لڑکی بھی تھی۔ وہ وہاں رہتا تو کبھی کہیں کسی وقت کسی روپ میں وہ اسے نظر آجاتی۔ اسے مل جاتی۔ یاکوئی ایسا شخص اسے مل جاتا جو اس سے واقف ہوتا لیکن وہ اب جہاں جا رہا تھا اس زمین پر امامہ ہاشم کہیں نہیں تھی۔ کوئی اتفا ق بھی ان دونوں کو آمنے سامنے نہیں لاسکتا تھا۔ وہ ایک بار پھر ایک لمبے عرصے کے لئے”امکان ” کو چھوڑ کر جارہا تھا۔ وہ زندگی میں کتنی بار “امکان ” کو چھوڑ کر جاتا رہے گا۔
دس منٹ کے بعد پانی سے ٹرینکولائز کو نگلتے ہوئے اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ زندگی میں کہیں بھی نہیں کھڑا تھا۔ وہ زندگی میں کبھی بھی نہیں کھڑا ہوپائے گا۔ اس کے پیروں کے نیچے زمین کبھی نہیں آسکے گی۔
ساتویں منزل پر اپنے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے بھی اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ وہاں جانا نہیں چاہتا تھا وہ کہیں اور جانا چاہتا تھا۔کہاں۔۔۔۔۔؟
اس نے اپارٹمنٹ کے دروازے کو لاک کیا۔ لاؤنج میں پڑے ٹی وی کو آن کیا۔ سی این این پر نیوز بلیٹن آرہا تھا۔ اس نے اپنے جوتے اور جیکٹ اُتار کر دور پھینک دئیے۔ پھر ریموٹ لے کر صوفے پر لیٹ گیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ چینل بدلتا رہا ۔ ایک چینل سے گونجتی آوازنے اُسے روک لیا۔
ایک غیر معروف سا گلوکار کوئی غزل گا رہا تھا۔
میری زندگی تو فراق ہے ، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
اس نے ریموٹ اپنے سینے پر رکھ دیا۔ گلوگار کی آواز بہت خوبصورت تھی یا پھر شاید وہ اس کے جذبات کو الفاظ دے رہا تھا۔
ہمیں جاں دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح وہ کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے دار پر جو نہیں کوئی، تو ہمیں سہی
شاعری، کلاسیکل میوزک ، پرانی فلمیں ۔ انسٹرو مینٹل میوزک اسے ان تما م چیزوں کی worthکا اندازہ پچھلے کچھ سالوں میں ہی ہونا شروع ہوا تھا۔ پچھلے کچھ سالوں نے اس کی موسیقی کے انتخاب کو بہت اعلیٰ کردیا تھا اور اردو غزلیں سننے کا تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔
سر طور ہو، سر حشر ہو ، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں ، وہ کہیں ملیں ، وہ کبھی سہی ، وہ کہیں سہی
اسے ایک بار پھر امامہ یاد آئی۔ اسے ہمیشہ وہی یاد آتی تھی۔ پہلے وہ صرف تنہائی میں یاد آتی تھی پھر وہ ہجوم میں بھی نظر آنے لگی۔۔۔۔۔ اور وہ۔ وہ محبت کو پچھتاوا سمجھتا رہا۔
نہ ہو ان پہ جو مرا بس نہیں کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں ان ہی کا تھا، میں ان ہی کاہوں، وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
سالار یک دم صوفے سے اٹھ کر کھڑکیوں کی طرف چلا گیا۔ ساتویں منزل پر کھڑے وہ رات کو روشنیوں کی اوٹ میں دیکھ سکتا تھا۔ عجیب وحشت تھی جو باہر تھی۔ عجیب عالم تھا جو اندر تھا۔
ہو جو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پر نہ اٹھائیے
جو کریں گے آپ ستم وہاں، وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
وہاں کھڑے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار اندھیرے میں ٹمٹماتی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے اپنے اندر اُترنے کی کوشش کی۔
“میں اور کبھی کسی لڑکی سے محبت کروں۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
بہت سال پہلے اکثر کہا جانے والا جملہ اسے یاد آیا۔ باہر تاریکی کچھ اور بڑھی ۔ اندر آوازوں کی بازگشت۔۔۔۔۔ اس نے شکست خوردہ اندا ز میں سر جھکایا پھر چند لمحوں کے بعد دوبارہ سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ انسان کا اختیا ر کہاں سے شروع کہاں پر ختم ہوتا ہے؟ڈپریشن کا ایک اور دورہ ، وہ باہر نظر آنے والی ٹمٹاتی روشنیاں بھی اب بجھے لگی تھیں۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
سالار سکندر نے مڑ کر اس کی اسکرین کو دیکھا ، گلوگار لہک لہک کر بار بار آخری شعر دہرا رہا تھا۔ کسی معمول کی طرح چلتا ہوا وہ صوفے پر آکر بیٹھ گیا۔ سینٹرل ٹیبل پر رکھے ہوئے بریف کیس کو کھول کر اس نے اندر سے لیپ ٹاپ نکال لیا۔
اسے دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو ، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
گلوکار مقطع دہرا رہا تھا۔ سالار کی انگلیاں لیپ ٹاپ پر برق رفتاری سے حرکت کرتے ہوئے استعفیٰ لکھنے میں مصروف تھیں۔ کمرے میں موسیقی کی آواز اب ڈوبتی جارہی تھی۔ استعفیٰ کی ہرلائن اس کے وجود پر چھائے جمود کو ختم کر رہی تھی وہ جیسے کسی جادو کے حصار سے باہر آرہا تھا۔ کوئی تو ڑ ہورہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_____
“اپنے کیر ئیر کے اس اسٹیج پر اس طرح کا احمقانہ فیصلہ صر ف تم ہی کرسکتے تھے۔”
وہ فون پر سکندر عثمان کو خاموشی سے سن رہا تھا۔
“آخر اتنی اچھی پوسٹ کو کیوں چھوڑ رہے ہو اور وہ بھی اس طرح اچانک اور چلو اگر چھوڑنے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر آکر اپنا بزنس کرو۔ بینک میں جانے کی کیا تک بنتی ہے۔” وہ اس کے فیصلے پر بری طرح تنفید کر رہے تھے۔
“میں اب پاکستان میں کام کرنا چاہتا ہوں ۔ بس اسی لئے جاب چھوڑ دی۔ بزنس نہیں کرسکتا اور بینک کی آفر میرے پاس بہت عرصے سے تھی۔ وہ مجھے پاکستان پوسٹ کرنے پر تیار ہیں، اسی لئے میں اسے قبول کر رہا ہوں۔” اس نے تمام سوالوں کا اکٹھا جواب دیا۔
“پھر بینک کو بھی جوائن مت کرو،میرے ساتھ آکر کام کرو۔”
“میں نہیں کرسکتا پا پا! مجھے مجبور نہ کریں۔”
“تو پھر وہیں پر رہو۔ پاکستان آنے کی کیا تک بنتی ہے؟”
“میں یہاں پر رہ نہیں پا رہا۔”
“حب الوطنی کا کوئی دورہ پڑا ہوا ہے تمہیں؟”
“نہیں۔۔۔۔۔”
“تو پھر۔۔۔۔۔؟”
“میں آپ لوگوں کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔” اس نے بات بدلی۔
“خیر یہ فیصلہ کم از کم ہماری وجہ سے تو نہیں کیا گیا۔” سکندر عثمان کا لہجہ نرم ہوا۔
سالار خاموش رہا۔ سکندر عثمان بھی کچھ دیر خاموش رہے۔
“فیصلہ تو تم کر ہی چکے ہو۔ میں اب اس کے بارے میں تو کچھ نہیں کرسکتا۔ ٹھیک ہے آنا چاہتے ہو آجاؤ۔ کچھ عرصہ بینک میں کام کرکے بھی دیکھ لو لیکن میری خواہش یہی ہے کہ تم میرے ساتھ میرے بزنس کو دیکھو۔” سکندر عثمان نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
“تمہارا تو پی ایچ ڈی کا بھی ارادہ تھا۔اس کا کیا ہوا؟” سکندر عثمان کو بات ختم کرتے کرتے پھر یاد آیا۔
“فی الحال میں مزید اسٹڈیز نہیں کرنا چاہ رہا۔ ہوسکتا ہے کچھ سالوں بعد پی ایچ ڈی کے لئے دوبارہ باہر چلا جاؤں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پی ایچ ڈی کروں ہی نہ۔” سالار نے مدھم آواز میں کہا۔
“تم اس اسکول کی وجہ سے آرہے ہو؟” سکندر عثمان نے اچانک کہا۔” شاید۔۔۔۔۔ سالار نے تردید کی۔ وہ اگر اسکول کو اس کی واپسی کی وجہ سمجھ رہے تھے تو بھی کوئی حرج نہیں تھا۔
“ایک بار پھر سوچ لو سالار۔۔۔۔۔! سکندر کہے بغیر نہیں رہ سکے۔
“بہت کم لوگوں کو کیرئیر میں اس طرح کا اسٹارٹ ملتا ہے جس طرح کا تمہیں ملا ہے۔ تم سن رہے ہو۔”
“جی۔۔۔۔۔!” اس نے صرف ایک لفظ کہا۔
“باقی تم میچور ہو، اپنے فیصلے خود کرسکتے ہو،” انہوں نے ایک طویل کال کے اختتام پر فون بند کرنے سے پہلے کہا۔
سالار نے فون رکھنے کے بعد اپارٹمنٹ کی دیواروں پر ایک نظر دوڑائی۔ اٹھارہ دن کے بعد اسے یہ اپارٹمنٹ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭___________
پیر س سے واپسی پر اس کی زندگی کے ایک نئے فیز کا آغاز ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر وہ اسلام آباد میں اس غیر ملکی بینک میں کام کر تا رہا۔ پھر کچھ عرصے بعد وہ اسی بینک کی ایک نئی برانچ کے ساتھ لاہور چلا آیا۔اسے کراچی جانے کا موقع مل رہا تھا مگر اس نے لاہور کا انتخاب کیا۔ اسے یہاں ڈاکٹر سبط کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع مل رہا تھا۔
پاکستان میں اس کی مصروفیات کی نوعیت تبدیل ہوگئی تھی مگر ان میں کمی نہیں آئی تھی۔ وہ یہاں بھی دن رات مصروف رہتا تھا۔ ایکexceptional ماہر معاشیات کے طور پر اس کی شہرت اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہی تھی۔ حکومتی حلقوں کے لئے اس کا نام نیا نہیں تھا مگر پاکستان آجانے کے بعد فنانس منسٹری مختلف مواقع پر اپنے زیر تربیت آفیسر کو دیئے جانے والے لیکچرز کے لئے اسے بلواتی رہتی۔ لیکچرز کا سلسلہ بھی اس کے لئے نیا نہیں تھا۔Yale میں زیر تعلیم رہنے کے بعد وہ وہاں مختلف کلاسز کو لیکچر دیتا رہا تھا یہ سلسلہ نیویارک منتقل ہوجانے کے بعد بھی جاری رہا ۔ جہاں وہ کولمبیا یونیورسٹی میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر ہونے والے سیمینارز میں حصہ لیتا رہا بعد میں اس کی توجہ ایک بار پھر اکنانکس کی طرف مبذول ہوگئی۔
پاکستان میں بہت جلد وہ ان سیمینارز کے ساتھ انوالو ہوگیا تھا۔ جوIBAاور LUMS, FAST اور جیسے ادارے کروارہے تھے۔اکنامکس اور ہیومن ڈویلپمنٹ واحد موضوعات تھے جن پر خاموشی اختیار نہیں کیا کرتا تھا۔ وہ اس کے پسندیدہ موضوع گفتگو تھے اور سیمینارز میں اس کے لیکچرز کا فیڈ بیک ہمیشہ بہت زبردست رہا تھا۔
وہ مہینے کا ایک ویک اینڈ گاوں میں اپنے اسکول میں گزارا کرتا تھا اور وہاں رہنے کے دوران وہ زندگی کے ایک نئے رخ سے آشنائی حاصل کر رہا تھا۔
“ہم نے اپنی غربت اپنے دیہات میں چھپادی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لوگ مٹی کو کارپٹ کے نیچے چھپا دیتے ہیں۔”
اس اسکول کی تعمیر کا آغاز کرتے ہوئے فرقان نے ایک بار اس سے کہا تھا اور وہاں گزارے جانے والے دن اسے اس جملے کی ہولناکی کا احساس دلاتے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں غربت کی موجودگی سے نا آشنا تھا۔ وہ یونیسکو اور یونی سیف میں کام کے دوران دوسرے ایشیائی ممالک کے ساتھ پاکستان کے بارے میں بھی بہت ساری رپورٹس دیکھتا رہا مگر پاکستان میں غربت کی آخری حدوں کو بھی پار کرجانے والی لوگوں کو وہ پہلی بار ذاتی طور پر دیکھ رہا تھا۔
“پاکستان کے دس پندہ بڑے شہروں سے نکل جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں رہنے والے لوگ تیسری دنیا میں نہیں دسویں بارھویں دنیا میں رہتے ہیں۔ وہاں تو لوگوں کے پاس نہ روزگار ہے ، نہ سہولتیں ۔ وہ اپنی آدھی زندگی خواہش میں گزارتے ہیں اور آدھی حسرت میں مبتلا ہو کر۔ کون سی اخلاقیات سکھا سکتے ہیں آپ اس شخص کو جس کا دن سوکھی روٹی سے شروع ہوتا ہے اور فاقے پر ختم ہوجاتا ہے۔ اور ہم۔۔۔۔۔ ہم لوگوں کی بھوک مٹانے کے بجائے مسجدوں پر مسجدیں تعمیر کرتے ہیں۔ عالی شان مسجدیں، پرشکوہ مسجدیں، ماربل سے آراستہ مسجدیں۔ بعض اوقات تو ایک ہی سڑک پر دس دس مسجدیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ نمازیوں سے خالی مسجدیں۔”
فرقان تلخی سے کہتا تھا۔
“اس ملک میں اتنی مسجدیں بن چکی ہیں کہ اگر پورا پاکستان ایک وقت کی نماز کے لئے مسجدوں میں اکٹھا ہوجائے تو بہت سی مسجدیں خالی رہ جائیں گی۔ میں مسجد یں بنانے پر یقین نہیں رکھتا۔جہاں لوگ بھوک سے خودکشیاں کرتے پھر رہے ہوں جہاں کچھ خاص طبقوں کی پوری نسل جہالت کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہو وہاں مسجد کے بجائے مدرسے کی ضرورت ہے۔ اسکول کی ضرورت ہے، تعلیم اور شعور ہوگا اور رزق کمانے کے مواقع تو اللہ سے محبت ہوگی ورنہ صرف شکوہ ہی ہوگا۔
وہ فرقان کی باتیں خاموشی سے سنتا رہا تھا۔ اس نے مستقل طور پر گاوں جانا شروع کیا تو اسے اندازہ ہوا تھا فرقان ٹھیک کہتا تھا۔ غربت لوگوں کو کفرتک لے گئی تھی۔ چھوٹی چھوٹی ضرورتیں ان کے اعصاب پر سوار تھیں اور جو ان معمولی ضرورتوں کو پورا کردیتا وہ جیسے اس کی غلامی کرنے پر تیار ہوجاتے۔ اس نے جس ویک اینڈ پر گاؤں جانا ہوتا اسکول میں لوگ اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے جمع ہوتے۔ بعص دفعہ لوگوں کی قطاریں ہوتیں۔
“بیٹے کو شہر کی کسی فیکٹری میں کام پر رکھوادیں۔ چاہے ہزار روپیہ ہی مل جائے مگر کچھ پیسہ تو آئے۔”
“دوہزار روپے مل جاتے تو میں اپنی بیٹی کی شادی کردیتا۔”
“بارش نے ساری فصل خراب کردی ۔ اگلی فصل لگانے کے لئے بیج خریدنے تک کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ آپ تھوڑے پیسے قرض کے طور پر دے دیں۔ میں فصل کاٹنے کے بعد دے دوں گا۔”
“بیٹے کو پولیس نے پکڑ لیا ہے، قصور بھی نہیں بتاتے بس کہتے ہیں ہماری مرضی جب تک چاہیں اندر رکھیں تم آئی جی کے پاس جاؤ۔”
پٹواری میری زمین پر جھگڑا کر رہا ہے۔ کسی اور کو الاٹ کر رہا ہے۔ کہتا ہے میرے کاغذ جعلی ہیں۔”
“بیٹا کام کے لئے پاس کے گاؤں جاتا ہے۔ روز آٹھ میل چل کر آنا پڑتا ہے۔ آپ ایک سائیکل لے دیں مہربانی ہوگی۔”
“گھر میں پانی کا ہینڈ پمپ لگوانا ہے،آپ مدد کریں۔”
وہ تعجب سے ان درخواستوں کو سنتا تھا۔ کیا لوگوں کے یہ معمولی کام بھی ان کے لئے پہاڑ بن چکے ہیں ۔ ایسا پہاڑ جسے عبور کرنے کے لئے وہ زندگی کے کئی سال ضائع کر دیتے ہیں۔ وہ سوچتا۔
مہینے کے ایک ویک اینڈ پر جب وہ وہاں آتا تو اپنے ساتھ دس پندرہ ہزار روپے زیادہ لے کر آتا وہ روپے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بہت سے لوگوں کو بضاہر بڑی لیکن حقیقتاً بہت چھوٹی ضرورتیں پوری کر دیتے تھے۔ ان کی زندگی میں کچھ آسانیاں لے آتے اس کے لکھے ہوئے چند سفارشی رقعے اور فون کالز ان لوگوں کے کندھوں کے بوجھ اور پیروں میں نہ نظر پڑنے والی بیڑیوں کو کیسے اتاردیتے ۔ اس کا احساس شاید سالار کو خود بھی نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______________
لاہور میں اپنے قیام کے دوران وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر سبط صاحب کے پاس جاتا تھا۔ ان کے ہاں ہر رات عشاء کی نماز کے بعد کچھ لوگ جمع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کسی نہ کسی موضوع پر بات کیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ اس موضوع کا انتخاب وہ خود کرتے بعض دفعہ ان کے پاس آنے والے لوگوں میں سے کوئی ان سے سوال کرتا اور پھر یہ سوال اس رات کا موضوع بن جاتا۔ عام اسکالرز کے برعکس ڈاکٹر سبط علی صرف خود نہیں بولتے تھے نہ ہی انہوں نے اپنے پاس آنے والے لوگوں کو صرف سامع بنادیا تھا بلکہ وہ اکثر اپنی بات کے دوران ہی چھوٹے موٹے سوالات بھی کرتے رہتے اور پھر ان سوالات کا جواب دینے کے لئے نہ صرف لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے بلکہ ان کی رائے کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ان کے اعتراضات کو بڑے تحمل اور بردباری سے سنتے۔ ان کے پاس آنے والوں میں صرف سالار سکندر تھا جس نے کبھی سوال کیا تھا نہ کبھی ان کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی تھی۔ وہ کبھی کسی بات پر اعتراض کرنے والوں میں شامل نہ ہوا نہ کسی بات پر رائے دینے والوں میں۔
وہ فرقان کے ساتھ آتا۔ فرقان نہ آتا تو اکیلا چلا آتا، کمرے کے آخری حصے میں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتا، خاموشی سے ڈاکٹر صاحب اور وہاں موجود لوگوں کوسنتا۔ بعض دفعہ اپنے دائیں بائیں آبیٹھنے والے لوگوں کے استفسار پر اپنا ایک جملہ پیش کرتا۔
“میں سالار سکندر ہوں، ایک بینک میں کام کرتا ہوں۔”
وہ جب تک امریکہ میں رہا تب ہر ہفتے ایک بار وہاں سے ڈاکٹر سبط علی کو فون کرتا رہا مگر فون پر ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو بہت مختصر اور ایک ہی نوعیت کی ہوتی تھی۔ وہ کال کرتا ڈاکٹر صاحب ریسیو کرتے اور ایک ہی سوال کرتے۔
وہ پہلی بار اس سوال پر تب چونکا تھا جب وہ پاکستان سے چند دن پہلے امریکہ آیا تھا اور ڈاکٹر صاحب اس کی واپسی کا پوچھ رہے تھے۔ اسے تعجب ہوا تھا۔
“ابھی تو نہیں۔۔۔۔۔” اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا تھا۔ بعد میں وہ سوال اسے کبھی عجیب نہیں لگا کیونکہ وہ لاشعوری طور پر جان گیا تھا کہ وہ کیا پوچھ رہے تھے۔
آخری بار انہوں نے وہ سوال اس سے تب کیا تھا جب وہ امامہ کی تلاش میں ریڈ لائٹ ایریا میں پہنچا تھا۔ پیرس واپس پہنچنے کے ایک ہفتے کے بعد اس نے ہمیشہ کی طرح انہیں کا ل کیا تھا۔ ہمیشہ جیسی گفتگو کے بعد گفتگو اسی سوال پر آپہنچی تھی۔
“واپس پاکستان کب آرہے ہیں؟”
بے اختیار سالار کا دل بھر آیا۔ اسے خود کو کمپوز کرنے میں کچھ دیر لگی
“اگلے ماہ آجاوں گا ۔ میں ریزائن کر رہا ہوں۔ واپس آکر پاکستان میں ہی کام کروں گا۔”
“پھر ٹھیک ہے، آپ سے اگلے ماہ ملاقات ہوگی۔” ڈاکٹر صاحب نے تب کہا تھا۔
“دعا کیجئے گا۔” سالا ر آخر میں کہتا۔
“کروں گا کچھ اور۔۔۔۔۔؟”
“اور کچھ نہیں۔ اللہ حافظ۔۔۔۔۔” وہ کہتا۔
“اللہ حافظ۔” وہ جواب دیتے۔ گفتگو کا یہ سلسلہ پاکستان آنے تک جاری رہا جب وہ ان کے پاس باقاعدگی سے جانے لگا تو یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_____________
لاہور آنے کے بعد وہ باقاعدگی سے ان کے پاس جانے لگا تھا۔ اسے ان کے پاس سکون ملتا تھا۔ صرف ان کے پاس گزارا ہوا وقت ایسا ہوتا تھا جب وہ کچھ دیر کے لئے مکمل طور پر اپنے ڈپریشن سے آزادی حاصل کر لیتا تھا۔ بعض دفعہ ان کے پاس خاموش بیٹھے بیٹھے بے اختیار اس کا دل چاہتا وہ ان کے سامنے وہ سب کچھ اگل دے جسے وہ اتنے سالوں سے اپنے اندر زہر کی طرح بھرے پھر رہا تھا۔ پچھتاوا، احساس جرم ۔۔۔۔۔ بے چینی، بے بسی ، شرمندگی ، ندامت ، ہر چیز۔ پھر اسے خوف پیدا ہوتا ڈاکٹر سبط علی اس کو پتا نہیں کن نظروں سے دیکھیں گے۔ اس کی ہمت دم توڑ جاتی۔
ڈاکٹر سبط علی ابہام کو دور کرنے میں کمال رکھتے تھے۔ وہ ان کے پاس خاموش بیٹھا رہتا۔ صرف سنتا، صرف سمجھتا، صرف نتیجے اخذ کرتا۔ کوئی دھند تھی جو چھٹ رہی تھی۔ کوئی چیز تھی جو نظر آنے لگی تھی۔جن سوالوں کو وہ کئی سالوں سے سر پر بوجھ کی صورت میں لئے پھر رہا تھا ان کے پاس ان کے جواب تھے۔
“اسلام کو سمجھ کر سیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ اس میں کتنی وسعت ہے۔ یہ تنگ نظری اور تنگ دلی کا دین نہیں ہے نہ ہی ان دونوں چیزوں کی اس میں گنجائش ہے۔ یہ میں سے شروع ہوکر ہم پر جاتا ہے۔ فرد سے معاشرے تک۔ اسلام آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ چوبیس گھنٹے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح ہر جگہ مصلیٰ بچھائے بیٹھے رہیں۔ ہر بات میں اس کے حوالے دیتے رہیں۔ نہیں، یہ تو آپ کی زندگی سے ۔۔۔۔۔ آپ کی اپنی زندگی سے حوالہ چاہتا ہے۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ دیانت داری اور لگن چاہتا ہے۔ اخلاص اور استقامت مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں اپنے کردار سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔”
سالار ان کی باتوں کو ایک چھوٹے سے ریکارڈ ر میں ریکارڈ کرلیتا پھر گھر آکر بھی سنتا رہتا۔ اسے ایک رہبر کی تلاش تھی، ڈاکٹر سبط علی کی صورت میں اسے وہ رہبر مل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“سالار آؤ، اب آ بھی جاؤ۔کتنی منتیں کرواؤ گے؟” انیتا نے اس کا بازو کھینچتے ہوئے ناراضی سے کہا۔
وہ عمار کی شادی میں شرکت کے لئے اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ تین دن کی چھٹی لے کر حالانکہ اس کے گھر والوں کا اصرار تھا کہ وہ ایک ہفتے کے لئے آئے۔ شادی کی تقریبات کئی دن پہلے شروع ہوچکی تھیں۔ وہ ان تقریبات کی “اہمیت” اور ” نوعیت” سے واقف تھا۔ اس لئے گھر والوں کے اصرار کے باوجود تین دن کی رخصت لے کر آیا اور اب وہ عمار کی مہندی کے فنکشن میں شرکت کرہا تھا جو عمار اور اس کے سسرال والے مل کر کر رہے تھے۔ عمار اور اسری ٰ دونوں کے عزیز و اقارب اور دوست مختلف فلمی اور پاپ گانوں پر رقص کرنے میں مصروف تھے۔ ایک طوفان بدتمیزی تھا جو وہاں برپا تھا۔ سلیولیس شرٹس، کھلے گلے ، جسم کے ساتھ چپکے ہوئے کپڑے، باریک ملبوات، سلک اور شیفون کی ساڑھیاں ، نیٹ کے بلاؤز اس کی فیملی کی عورتیں بھی دوسری عورتوں کی طرح اسی طرح کے ملبوسات پہنے ہوئے تھیں۔
مکسڈ گیدرنگ تھی اور وہ تقریب شروع ہونے پر اس ہنگامے سے کافی دور کچھ ایسے لوگوں کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو کارپوریٹ یا بینکنگ سکیٹر سے تعلق رکھتے تھے اور سکندر یا اس کے اپنے بھائیوں کے شناسا تھے۔
مگر پھر مہندی کی رسومات کا آغاز ہونے لگا اور انیتا اسے اسٹیج کی طرف لے گئی۔ اسریٰ اور عمار بے تکلفی سے اسٹیج پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وہ پہلی بار اسریٰ سے مل رہا تھا۔ عمار نے اس کا اور اسری ٰ کا تعارف کروایا۔ مہندی کی رسومات کے بعد اس نے وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر کامران اور طیبہ نے اسے زبردستی روک دیا۔
بھائی کی مہندی ہورہی ہے اور تم اس طرح وہاں کونے میں بیٹھے ہو۔” طیبہ نے اسے ڈانٹا تھا۔ تمہیں یہاں ہونا چاہیئے۔”
وہ ان کے کہنے پر وہیں کامران اور اس کی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ۔ اس کے ایک کزن نے ایک بار پھر دوپٹہ اس کے گلے میں ڈالنے کی کوشش کی جو وہ سب ڈالے ہوئے تھے۔ اس نے ایک بار پھر قدرے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے اسے تنبیہ کی۔
اگلے چند منٹوں کے بعد وہاں رقص شروع ہوچکا تھا۔ عمار سمیت سارے بہن بھائی اور کزنز رقص کر رہے تھے اور انتیا نے اسے بھی کھینچنا شروع کردیا تھا۔
“نہیں انیتا! میں نہیں کرسکتا۔ مجھے نہیں آتا۔”
اس نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے معذرت کی مگر اس کی معذرت قبول کرنے کے بجائے وہ اور عمار اسے کھینچ کر رقص کرنے والوں کے ہجوم میں لے آئے تھے۔ کامران اور معیز کی شادی میں وہ بھی ایسے ہی رقص کرتا رہا تھا، مگر عمار کی مہندی پر وہ پچھلے سات سالوں میں اتنا لمبا ذہنی سفر طے کرچکا تھا کہ وہاں اس ہجوم کے درمیان خالی بازو کھڑے کرنا بھی اس کے لئے دشوار تھا۔ قدرے بے بس مسکراہٹ کے ساتھ وہ اسی طرح ہجوم کے درمیان کھڑا رہا پھر اس نے انیتا کے کان میں کہا۔
“انیتا۔۔۔۔۔ میں ڈانس بھول چکا ہوں۔Please let me go۔ (برائے مہربانی مجھے جانے دو) ۔”
“تم کرنا شروع کرو۔۔۔۔۔آجائے گا۔” انیتا نے جواباً اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ اب اسریٰ بھی اس ہجوم میں شامل ہوچکی تھی۔
“میں نہیں کرسکتا ۔ تم لوگ کرو۔ میں انجوائے کر رہا ہوں۔ مجھے جانے دو۔”
اس نے مسکراتے ہوئے نکلنے کی کوشش کی ۔ اسریٰ کی آمد نے اسے اس کوشش میں کامیاب کردیا۔
“عروج ہرقوم ، ہر نسل کا خواب ہوتا ہے اور پھر وہ قومیں جن پر الہامی کتابیں ناز ل ہوئی ہوں وہ تو عروج کو اپنا حق سمجھتی ہیں ، مگر کبھی بھی کسی قوم پر عروج صرف اس بنا پر نہیں آیا کہ اسے کتاب اور نبی دے دیا گیا جب تک اس قوم نے اپنے اعمال اور افعال سے عروج کے لئے اپنی اہلیت ثابت نہیں کردی وہ کسی مرتبہ کسی مقام کسی فضیلت کے قابل نہیں ٹھہریں۔ مسلمان قوم یا امت کے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا ہے اور ہورہا ہے ۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے اعلی طبقات تعیش اور نفس پرستی کا شکا ر ہیں۔ یہ دونوں چیزیں وبا کی طرح ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے سے دوسرے سے تیسرے اور پھر یہ سلسلہ کہیں رکتا نہیں۔” اسے وہاں کھڑے ان ناچتی عورتوں اور مردوں کے ہجوم کو دیکھتے ہوئے بے اختیار ڈاکٹر سبط کی باتیں یاد آنے لگیں۔
“مومن عیاش نہیں ہوتا نہ تب جب وہ رعایا ہوتا ہے نہ تب جب وہ حکمران ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کسی جانور کی زندگی جیسی نہیں ہوتی۔ کھانا پینا، اپنی نسل کو آگے بڑھانا اور فنا ہوجانا۔ یہ کسی جانور کی زندگی کا انداز تو ہوسکا ہے مگر کسی مسلمان کی نہیں۔ “سالار بے اختیار مسکرا دیا۔ وہ آج پھر “جانوروں ” اور”حشرات الارض”کا ایک گروہ دیکھ رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی ، وہ بہت عرصہ پہلے ان میں سے نکل چکا تھا۔ وہاں ہر ایک خوش باش ، پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ بلند قہقہے اور چمکدار چہرے اور آنکھیں۔ اس کے سامنے طیبہ عمار کے سسر کے ساتھ رقص کر رہی تھیں ۔ انیتا اپنے سب سے بڑے بھائی کامران کے ساتھ۔
سالار نے اپنے ہاتھ کی ا نگلیوں سے دائیں کنپٹی کو مسلا۔ شاید یہ تیز میوزک تھا یا پھر اس وقت اس کا ذہنی اضطراب اسے اپنی کنپٹی میں ہلکی سی درد کی لہر گزرتی محسوس ہوئی۔ اپنے گلاسز اُتار کر اس نے بائیں ہاتھ سے اپنی دونوں آنکھیں مسلیں۔ دوبارہ گلاسز آنکھوں پر لگاتے ہوئے اس نے مڑ کر راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی، کچھ جدوجہد کے بعد وہ اپنی جگہ چھوڑتے ہوئے اس دائرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ اسے بخوشی راستہ دے دیا گیا۔
“کدھر جارہے ہو؟” بے ہنگم شور میں طیبہ نے بلند آواز میں جانے سے پہلے اس کا بازو پکڑ کر پوچھا تھا۔ وہ ابھی رقص کرتے کرتے تھک کر اس کے پاس کھڑی ہوئی تھیں ان کا سانس پھولا ہوا تھا۔
“ممی! میں ابھی آتا ہوں۔ نماز پڑھ کر۔”
“آج رہنے دو۔۔۔۔۔”
سالار مسکرایا مگر اس نے جواب میں کچھ نہیں کہا بلکہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے نرمی سے ان کا ہاتھ اپنے بازو سے ہٹا دیا۔
وہ اب باہر نکلنے کی تگ ودو کر رہا تھا۔
“یہ کبھی نارمل نہیں ہوسکتا۔ زندگی کو انجوائے کرنا بھی آرٹ ہے اور یہ آرٹ اس بے وقوف کو کبھی نہیں آئے گا۔” انہوں نے اپنے تیسرے بیٹے کی پشت کو دیکھتے قدرے افسوس سے سوچا۔
سالار نے اس ہجوم سے نکل کر بے اختیار سکون کی سانس لی تھی۔
وہ جس وقت نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کے گیٹ سے باہر نکل رہا تھا۔ سنگر اس وقت گانے میں مصروف تھا۔ اس وقت مسجد کی طرف جانے والا وہ اکیلا تھا۔ شاید گاڑیوں کی لمبی قطاروں کے درمیان سے سڑک پر چلتے ہوئے وہ مسلسل ڈاکٹر سبط علی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ “سینکڑوں “کے اس مجمع کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا جو اس کے گھر ناچ گانے میں مصروف تھے۔ مسجد میں کل” چودہ” لوگوں نے باجماعت نماز ادا کی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
پاکستان آنے کے بعد اسلام آباد اپنی پوسٹنگ کے دوران وہ سکندر عثمان کے گھر پر ہی رہتا رہا۔لاہور آنے کے بعد بھی کسی پوش علاقے میں کوئی بڑا گھر رہائش کے لئے منتخب کرنے کی بجائے اس نے فرقان کی بلڈنگ میں ایک فلیٹ کرائے پر لینے کو ترجیح دی۔
فرقان کے پاس فلیٹ لینے کی ایک وجہ اگر یہ تھی کہ وہ لاہور میں اپنی عدم موجودگی کے دوران فلیٹ کے بارے میں کسی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوتا تھا تو دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ فلیٹ کی بجائے کوئی گھر لینے پر اسے دو چار ملازم مستقل رکھنے پڑتے جب کہ اس کا بہت کم وقت فلیٹ پر گزرتا تھا۔ فرقان کے ساتھ آہستہ آہستہ لاہور میں اس کا سوشل سرکل بہت وسیع ہونے لگا تھا۔فرقان بہت سوشل آدمی تھا اور اس کا حلقہء احباب بھی خاصا لمبا چوڑا تھا۔وہ سالار کے موڈ اور ٹمپرامنٹ کو سمجھنے کے باوجود اسے وقتاً فوقتاً اپنے ساتھ مختلف جگہوں پر کھینچتا رہتا۔
وہ اس رات فرقان کے ساتھ اس کے کسی ڈاکٹر دوست کی ایک پارٹی اور محفل غزل میں شرکت کے لیے گیا تھا۔وہ ایک فارم پر ہونے والی پارٹی تھی۔اس نے سالار کو مدعو کر لیا اور محفل غزل کا سن کر وہ انکار نہیں کر سکا۔
فارم پر شہر کی ایلیٹ کلاس کا اجتماع تھا۔وہ ان میں سے اکثریت کو جانتا تھا۔وہ اپنے شناسا کچھ لوگوں کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ڈنر چل رہا تھا اور ان ہی باتوں کے دوران اس نے فرقان کی تلاش میں نظر دوڑائی تھی وہ کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔سالار ایک بار پھر کھانے میں مصروف ہو گیا۔کھانے کے بعد اسے چند لوگوں کے ساتھ فرقان کھڑا نظر آ گیا۔وہ بھی اس طرف بڑھ آیا۔
“آؤ سالار! میں تمہارا تعارف کرواتا ہوں۔”فرقان نے اس کے قریب آنے پر چند جملوں کے تبادلے کے بعد کہا۔”یہ ڈاکٹر رضا ہیں۔گنگا رام ہاسپٹل میں کام کرتے ہیں۔چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں۔”سالار نے ہاتھ ملایا۔
“یہ ڈاکٹر جلال انصر ہیں۔”سالار کو اس شخص سے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔فرقان اب کیا کہہ رہا تھا وہ سن نہیں پایا۔اس نے جلال انصر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔دونوں کے درمیان بہت رسمی سا مصافحہ ہوا۔جلال انصر نے بھی یقیناً اسے پہچان لیا تھا۔
سالار وہاں ایک اچھی شام گزارنے آیا تھا مگر اس وقت اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک اور بری رات گزارنے آیا تھا۔یادوں کا ایک سیلاب تھا جو ایک بار پھر ہر بند توڑ کر اس پر چڑھائی کر رہا تھا۔وہ سب اس طرف جا رہے تھے جہاں بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔اس کے ساتھ اب فرقان تھا۔جلال انصر اب اس سے کچھ آگے دوسرے ڈاکٹرز کے ساتھ تھا۔سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کی پشت کو دیکھا۔
دشتِ تمہائی میں اے جانِ جہاں
لرزاں ہیں
تیری آواز کے سائے
تیرے ہونٹوں کے سراب
اقبال بانو گانا شروع کر چکی تھیں۔
دشتِ تنہائی میں
دوری کے
خس و خاشاک تلے
کھل رہے ہیں
تیرے پہلو کے سمن اور گلاب
اس کے ارد گرد بیٹھے لوگ اپنا سر دھن رہے تھے۔سالار چند ٹیبلز کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے اس شخص کو دیکھ رہا تھا جو اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا۔اسے زندگی میں کبھی کسی شخص کو دیکھ کر رشک نہیں آیا تھا ، اس دن پہلی بار آ رہا تھا۔
آدھا گھنٹہ گزر جانے کے بعد اس نے فرقان سے کہا۔
“چلیں؟”فرقان نے چونک کر اسے دیکھا۔
“کہاں۔۔۔۔۔؟”
“گھر۔۔۔۔۔۔”
“ابھی تو پروگرام شروع ہوا ہے۔تمہیں بتایا تو تھا ، رات دیر تک یہ محفل چلے گی۔”
“ہاں ، مگر میں جانا چاہتا ہوں۔کسی کے ساتھ بھجوا دو۔تم بعد میں آ جانا۔”
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
“تم کیوں جانا چاہتے ہو؟”
“مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔”اس نے مسکرانے کی کوشش کی۔
“اقبال بانو کو سنتے ہوئے بھی کوئی دوسرا کام یاد آ گیا ہے؟”فرقان نے قدرے ملامتی انداز میں کہا۔
“تم بیٹھو میں چلا جاتا ہوں۔”سالار نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
“عجیب باتیں کرتے ہو۔یہاں سے کیسے جاؤ گے۔فارم اتنا دور ہے۔چلو اگر اتنی ہی جلدی ہے تو چلتے ہیں۔”فرقان بھی اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
میزبان سے اجازت لیتے ہوئے وہ دونوں فرقان کی گاڑی میں آ بیٹھے۔
“اب بتاؤ۔یوں اچانک کیا ہوا ہے؟”گاڑی کو فارم سے باہر لاتے ہوئے فرقان نے کہا۔
“میرا وہاں ٹھہرنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”سالار نے جواب نہیں دیا۔وہ باہر سڑک کو دیکھتا رہا۔
“وہاں سے اُٹھ آنے کی وجہ جلال ہے؟”
سالار نے بےاختیار گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔
“یعنی میرا اندازہ ٹھیک ہے۔تم جلال انصر کی وجہ سے ہی فنکشن سے بھاگ آئے ہو۔”
“تمہیں کیسے پتا چلا؟”سالار نے ہتھیار ڈالنے والے انداز میں کہا۔
“تم دونوں بڑے عجیب انداز میں آپس میں ملے تھے۔جلال انصر نے خلافِ معمول تمہیں کوئی اہمیت نہیں دی جب کہ تمہارے جیسی شہرت والے بینکر کے سامنے تو اُس جیسے آدمی کو کھل اٹھنا چاہئیے تھا۔وہ تعلقات بنانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا ، خود تم بھی مسلسل اُسے دیکھ رہے تھے۔”فرقان بہت آرام سے کہہ رہا تھا۔
“تم جلال انصر کو جانتے ہو؟”
سالار نے گردن سیدھی کر لی۔وہ ایک بار پھر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔
“امامہ اسی شخص سے شادی کرنا چاہتی تھی۔”بہت دیر بعد اس نے مدھم آواز میں کہا۔فرقان کچھ بول نہیں سکا۔اسے توقع نہیں تھی جلال اور سالار کے درمیان اس طرح کی شناسائی ہو گی ، ورنہ وہ شاید یہ سوال کبھی نہ کرتا۔
گاڑی میں بہت دیر خاموشی رہی پھر فرقان نے ہی اس خاموشی کو توڑا۔
“مجھے یہ جان کر مایوسی ہوئی ہے کہ وہ جلال جیسے آدمی کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔یہ تو بڑا خرانٹ آدمی ہے۔ہم لوگ اس کو “قصائی” کہتے ہیں۔اس کی واحد دلچسپی پیسہ ہے۔مریض کیسے لا کر دے گا ، کہاں سے لا کر دے گا ، اسے دلچسپی نہیں ہوتی۔تم دیکھنا آٹھ سال میں یہ اسی رفتار کے ساتھ پیسہ کماتے ہوئے لاہور کا سب سے امیر ڈاکٹر ہو گا۔”
فرقان اب جلال انصر کے بارے میں تبصرہ کر رہا تھا۔سالار خاموشی سے سن رہا تھا۔جب فرقان نے اپنی بات ختم کر لی تو اس نے کہا۔
“اس کو قسمت کہتے ہیں۔”
“تمہیں اس پر رشک آ رہا ہے؟”فرقان نے قدرے حیرانی سے کہا۔
“حسد تو میں کر نہیں سکتا۔”سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔”یہ جو کچھ تم مجھے اس کے بارے میں بتا رہے ہو۔یہ سب کچھ مجھے بہت سال پہلے پتا تھا۔تب ہی جب میں امامہ کے سلسلے میں اس سے ملا تھا۔یہ کیسا ڈاکٹر بننے والا تھا ، مجھے اندازہ تھا مگر آج اس فنکشن میں اسے دیکھ کر مجھے اس پر بےتحاشا رشک آیا۔کچھ بھی نہیں ہےاس کے پاس۔معمولی شکل و صورت ہے۔خاندان بھی خاص نہیں ہے۔اس جیسے ہزاروں ڈاکٹرز ہوتے ہیں۔لالچی ، مادہ پرست بھی ہے مگر قسمت دیکھو کہ امامہ ہاشم جیسی لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہوئی۔اس کے پیچھے خوار ہوتی پھری۔میں اور تم اسے قصائی کہہ لیں ، کچھ بھی کہہ لیں ، صرف ہماری باتوں سے اس کی قسمت تو نہیں بدل جائے گی نہ اس کی نہ میری۔”
اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔فرقان نے اس کے چہرے کو دھواں دھواں ہوتے دیکھا۔
“کوئی نہ کوئی خوبی تو ہو گی اس میں کہ۔۔۔۔۔کہ امامہ ہاشم کو اور کسی نہیں صرف اسی سے محبت ہوئی۔”وہ اب اپنی دونوں آنکھوں کو مسل رہا تھا۔
“مجھے اگر پتا ہوتا کہ یہاں تم جلال انصر سے ملو گے تو میں تمہیں کبھی اپنے ساتھ یہاں نہ لاتا۔”فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے کہا۔
“مجھے بھی اگر یہ پتا ہوتا کہ میں یہاں اس کا سامنا کروں گا تو میں بھی کسی قیمت پر یہاں نہ آتا۔”سالار نے ونڈ اسکرین سے نظر آنے والی تاریک سڑک کو دیکھتے ہوئے افسردگی سے سوچا۔
کچھ اور سفر بےحد خاموشی سے طے ہوا پھر فرقان نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
“تم نے اسے کبھی ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی؟”
“امامہ کو۔۔۔۔۔؟یہ ممکن نہیں ہے۔”
“کیوں؟”
“میں اسے کیسے ڈھونڈ سکتا ہوں۔کئی سال پہلے ایک بار میں نے کوشش کی تھی کوئی فائدہ نہیں ہوا اور اب۔۔۔۔۔۔اب تو یہ اور بھی مشکل ہے۔”
“تم نیوز پیپرز کی مدد لے سکتے ہو۔”
“اشتہار دوں اس کے بارے میں؟”سالار نے قدرے خفگی سے کہا۔”وہ تو پتا نہیں ملے یا نہ ملے لیکن اس کے گھر والے مجھ تک ضرور پہنچ جائیں گے۔شک تو ان کو مجھ پر پہلے بھی تھا اور فرض کرو میں ایسا کچھ کر بھی لوں تو نیوز پیپر میں کیا اشتہار دوں۔کیا کہوں؟”اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
“پھر اسے بھول جاؤ۔”فرقان نے بڑی سہولت سے کہا۔
“کوئی سانس لینا بھول سکتا ہے؟”سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔
“سالار! اب بہت سال گزر گئے ہیں۔تم آخر کتنی دیر اس طرح اس لاحاصل عشق میں مبتلا رہو گے۔تمہیں اپنی زندگی کو دوبارہ پلان کرنا چاہئیے۔تم اپنی ساری زندگی امامہ ہاشم کے لئے تو ضائع نہیں کر سکتے۔”
“میں کچھ بھی ضائع نہیں کر رہا ہوں۔نہ زندگی کو ، نہ وقت کو ، نہ اپنے آپ کو۔میں اگر امامہ ہاشم کو یاد رکھے ہوئے ہوں تو صرف اس لئے کیونکہ میں اسے بھلا نہیں سکتا۔یہ میرے بس میں نہیں ہے۔مجھے اس کے بارے میں سوچنے سے بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن میں اس تکلیف کا عادی ہو چکا ہوں۔وہ میری پوری زندگی کو dominate کرتی ہے۔وہ میری زندگی میں نہ آتی تو میں آج یہاں پاکستان میں تمہارے ساتھ نہ بیٹھا ہوتا۔سالار سکندر کہیں اور ہوتا یا شاید ہوتا ہی نہ۔مجھ پر اس کا قرض بہت ہے۔جس آدمی کے مقروض ہوں اس کو چٹکی سے پکڑ کر اپنی زندگی سے کوئی باہر نہیں کر سکتا۔میں بھی نہیں کر سکتا۔”
سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“فرض کرو دوبارہ نہ ملے پھر۔۔۔۔۔۔؟”فرقان نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔یکلخت گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔بہت دیر بعد سالار نے کہا۔
“میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔کسی اور موضوع پر بات کرتے ہیں۔”اس نے بڑی سہولت سے بات بدل تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______
چند سالوں میں فرقان کی طرح اس نے بھی گاؤں میں بہت کام کیا تھا اور فرقان کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے کیونکہ فرقان سے برعکس وہ بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا۔اس نے چند سالوں میں اس گاؤں کی حالت بدل کر رکھ دی تھی۔صاف پانی ، بجلی اور بڑی سڑک تک جاتی پختہ سڑک ، اس کے پہلے دو سالوں کی کارکردگی تھی۔تیسرے سال وہاں ڈاک خانہ ، محکمہ وزارت کا دفتر اور فون کی سہولت آئی تھی اور چوتھے سال اس کے اپنے ہائی اسکول میں سہ پہر کی کلاسز میں ایک این جی او کی مدد سے لڑکیوں کے لئے دستکاری سکھانے کا آغاز کیا گیا۔گاؤں کی ڈسپنسری میں ایمبولینس آ گئی۔وہاں کچھ اور مشینری نصب کی گئی۔فرقان کی طرح یہ ڈسپنسری بھی اس نے اپنے وسائل سے اسکول کے ساتھ ہی شروع کی تھی اور اسے مزید بہتر بنانے میں فرقان نے اس کی مدد کی تھی۔
فرقان کے برعکس اس کی ڈسپنسری میں ڈاکٹر کی عدم دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔اس کی ڈسپنسری کا باقاعدہ آغاز ہونے سے بھی پہلے ایک ڈاکٹر اس کی کوششوں کی وجہ سے وہاں موجود تھا۔
اسکول پر ہونے والے تمام اخراجات تقریباً اسی کے تھے لیکن ڈسپنسری کو قائم کرنے اور اسے چلانے کے لیے ہونے والے اخراجات اس کے کچھ دوست برداشت کر رہے تھے۔یونیسیف میں کام کے دوران بنائے ہوئے کانٹیکٹ اور دوستیاں اب اس کے کام آ رہی تھیں اور وہ انہیں استعمال کر رہا تھا۔وہ یونیسیف اور یونیسکو میں اپنے بہت سے دوستوں کو پاکستان آنے پر وہاں لا چکا تھا۔وہ اب وہاں ووکیشنل ٹریننگ کی پلاننگ کرنے میں مصروف تھا ، مگر چوتھے سال میں صرف یہی کچھ نہیں ہوا تھا کچھ اور بھی ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______________
سکندر عثمان اس دن سہ پہر کے قریب اسلام آباد آتے ہوئے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہونے پر سڑک پر رُک گئے تھے۔ڈرائیور ٹائر بدلنے لگا اور وہ سڑک کے اطراف نظریں دوڑانے لگے۔تب ان کی نظر ایک سائن بورڈ پر پڑی۔وہاں لکھے ہوئے گاؤں کے نام نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔سالار سکندر کے حوالے سے وہ نام ان کے لئے نا آشنا نہیں تھا۔
ڈرائیور جب ٹائر بدل کر واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا تو سکندر عثمان نے اس سے کہا۔
“اس گاؤں میں چلو۔”انہیں اچانک ہی تجسس پیدا ہوا تھا۔اس اسکول کے بارے میں جو سالار سکندر پچھلے کئی سالوں سے وہاں چلا رہا تھا۔
پکی سڑک پر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے دس منٹ میں وہ گاؤں کے اندر موجود تھے۔آبادی شروع ہو چکی تھی۔کچھ کچی پکی دکانیں نظر آنے لگی تھیں۔شاید یہ گاؤں کا “کمرشل ایریا ” تھا۔
“یہاں نیچے اتر کر کسی سے پوچھو کہ سالار سکندر کا اسکول کہاں ہے۔”سکندر عثمان نے ڈرائیور کو ہدایت دی۔اس وقت انہیں یاد آیا تھا کہ اس نے کبھی ان کے سامنے اسکول کا نام نہیں لیا تھا اور جہاں ان کی گاڑی موجود تھی وہاں آس پاس کسی اسکول کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔گاؤں کے لوگوں کے لیے چند سال پہلے سکند عثمان کی گاڑی بےحد اشتیاق یا تجسس کا باعث بنتی مگر پچھلے کچھ سالوں میں سالار اور فرقان کی وجہ سے وہاں وقتاً فوقتاً گاڑیوں کی آمد ہوتی رہتی تھی۔یہ پہلے کی طرح ان کے لیے تعجب انگیز نہیں رہی تھی مگر وہ گاڑی وہاں سے ہمیشہ کی طرح گزر جانے کی بجائے جب وہیں کھڑی ہو گئی تو یک دم لوگوں میں تجسس پیدا ہوا۔
سکندر عثمان کی ہدایت پر ڈرائیور نیچے اتر کر پاس کی ایک دکان کی طرف گیا اور وہاں بیٹھے چند لوگوں سے اسکول کے بارے میں پوچھنے لگا۔
“یہاں سالار سکندر صاحب کا کوئی اسکول ہے؟”علیک سلیک کے بعد اس نے پوچھا۔
“ہاں جی ہے۔۔۔۔۔یہ اسی سڑک پر آگے دائیں طرف موڑ مڑنے پر بڑی سی عمارت ہے۔”ایک آدمی نے بتایا۔
“آپ ان کے کوئی دوست ہیں؟”اس آدمی نے جواب کے ساتھ ساتھ سوال بھی کیا۔
“نہیں میں ان کے والد کے ساتھ آیا ہوں۔”
“والد؟”اس آدمی کے منہ سے بےساختہ نکلا اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام لوگ یک دم سکندر عثمان کی گاڑی کی طرف دیکھنے لگے۔پھر اس آدمی نے اٹھ کر ڈرائیور سے ہاتھ ملایا۔
“سالار صاحب کے والد آئے ہیں بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔”اس آدمی نے کہا اور پھر ڈرائیور کے ساتھ گاڑی کی طرف آنے لگا۔وہاں بیٹھے ہوئے باقی لوگ بھی کسی معمول کی طرح اس کے پیچھے آئے۔
سکندر عثمان نے دور سے انہیں ایک گروپ کی شکل میں اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ کچھ اُلجھن کا شکار ہو گئے۔ڈرائیور کے پیچھے آنے والے آدمی نے بڑی عقیدت کے ساتھ کھڑکی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔سکندر عثمان نے کچھ تذبذب کے عالم میں اس سے ہاتھ ملایا جب کہ اس آدمی نے بڑے جوش و خروش سے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اس سے مصافحہ کیا۔اس کے ساتھ آنے والے دوسرے آدمی بھی اب یہی کر رہے تھے۔سکندر کچھ اُلجھن کے انداز میں ان سے ہاتھ ملا رہے تھے۔
“آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے صاب۔”
پہلے ادھیڑ عمر آدمی نے عقیدت بھرے انداز میں کہا۔
“آپ کے لیے چائے لائیں یا پھر بوتل۔۔۔۔۔”وہ آدمی اسی جوش و خروش سے پوچھ رہا تھا۔ڈرائیور اب گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔کوئی ضرورت نہیں۔بس راستہ ہی پوچھنا تھا۔”انہوں نے جلدی سے کہا۔
ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔وہ آدمی اور اس کے ساتھ کھڑے دوسرے لوگ وہیں کھڑے گاڑی کو آگے جاتے دیکھتے رہے پھر اس آدمی نے قدرے مایوسی سے سر ہلایا۔
“سالار صاحب کی اور بات ہے۔”
“ہاں سالار صاحب کی اور ہی بات ہے۔وہ کبھی کچھ کھائے پئیے بغیر یہاں سے اس طرح جاتے تھے۔”ایک دوسرے آدمی نے تائید کی۔وہ لوگ اب واپس قدم بڑھانے لگے۔
سالار گاؤں میں موجود ان چند دکانوں کے پاس ہی اپنی گاڑی کھڑی کر دیا کرتا تھااور پھر وہاں موجود لوگوں سے ملتے ان کی پیش کردہ چھوٹی موٹی چیزیں کھاتا پیتا وہاں سے پیدل دس منٹ میں اپنے اسکول چلا جاتا تھا۔وہ لوگ مایوس ہوئے تھے۔سکندر عثمان نے تو گاڑی سے اترنے تک کا تکلف نہیں کیا تھا ، کھانا پینا تو دور کی بات تھی۔
گاڑی اب موڑ مڑ رہی تھی اور موڑ مڑتے ہی ڈرائیور سے مزید کچھ کہتے کہتے سکندر عثمان خاموش ہو گئے۔پچھلی سیٹ پر بیٹھے ونڈ اسکرین کے پار نظر آنے والی وسیع و عریض عمارت ان چھوٹے چھوٹے کچے پکے مکانوں اور کھلے کھیتوں کے درمیان دور سے بھی حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی تھی۔سکندر کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ وہاں اتنا بڑا اسکول چلا رہا تھا مگر ان کو دم بخود اس اسکول کی دور تک پھیلی ہوئی عمارت نے نہیں کیا تھا بلکہ اسکول کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر لگے اس سائن بورڈ نے کیا جس پر تیر کے ایک نشان کے اوپر جلی حروف میں اردو تحریر تھا۔سکندر عثمان ہائی اسکول ، ڈرائیور گاڑی اسکول کے سامنے روک چکا تھا۔
سکندر عثمان نے گاڑی سے اتر کر اس عمارت کے گیٹ کے پار عمارت کے ماتھے پر چمکتے ہوئے اپنے نام کو دیکھا ، ان کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیر گئی۔سالار سکندر نے ایک بار پھر انہیں کچھ بولنے کے قابل نہیں رکھا تھا۔گیٹ بند تھا مگر اس کے دوسری طرف چوکیدار موجود تھا جو گاڑی کو وہاں رُکتے دیکھ کر گیٹ کھول رہا تھا۔ڈرائیور جب تک گاڑی سے اترا چوکیدار باہر آ گیا۔
“صاحب شہر سے آئے ہیں ذرا اسکول دیکھنا چاہتے ہیں۔”ڈرائیور نے چوکیدار سے کہا۔سکندر عثمان ہنوز اس اسکول پر لگے اپنے نام کو دیکھ رہے تھے۔
“سالار صاحب کے حوالے سے آئے ہیں؟”چوکیدار نے پوچھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔”ڈرائیور نے بلا توقف کہا۔”ویسے آئے ہیں۔”سکندر عثمان نے پہلی بار اپنی نظریں ہٹا کر ڈرائیور اور پھر چوکیدار کو دیکھا۔
“میں سالار سکندر کا باپ ہوں۔”سکندر عثمان نے مستحکم مگر بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ڈرائیور نے حیرانی سے ان کو دیکھا۔چوکیدار ایک دم بوکھلا گیا۔
“آپ۔۔۔۔۔آپ سکندر عثمان صاحب ہیں؟”سکندر کچھ کہے بغیر میکانکی انداز میں گیٹ کی طرف بڑھ گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______________
وہ شام کو جاگنگ ٹریک پر تھا جب موبائل پر سکندر عثمان کی کال آئی۔اپنی بےترتیب سانس پر قابو پاتے ہوئے وہ جاگنگ کرتے کرتے رُک گیا اور ٹریک کے پاس ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔
“ہیلو پاپا! السلام علیکم۔”
“وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ٹریک پر ہو؟”انہوں نے اس کے پھولے ہوئے سانس سے اندازہ لگایا۔
“جی۔۔۔۔۔آپ کیسے ہیں؟”
“میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔”
“ممی کیسی ہیں؟”
“وہ بھی ٹھیک ہیں۔”سالار ان کی طرف سے کچھ مزید کہنے یا پوچھنے کا انتظار کرتا رہا۔دوسری طرف اب خاموشی تھی پھر چند لمحوں کے بعد وہ بولے۔
“میں آج تمہارا اسکول دیکھ کر آیا ہوں۔”
“رئیلی۔۔۔۔۔!” سالار نے بےساختہ کہا۔
“کیسا لگا آپ کو؟”
“تم نے یہ سب کیسے کیا ہے سالار؟”
“کیا۔۔۔۔۔؟”
“وہ سب کچھ جو وہاں پر ہے۔”
“پتا نہیں۔بس ہوتا گیا۔مجھے پتا ہوتا تو میں آپ کو خود ساتھ لے جاتا۔کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟”سالار کو تشویش ہوئی۔
“وہاں سالار سکندر کے باپ کو کوئی پرابلم ہو سکتی ہے؟”انہوں نے جواباً کہا۔سالار جانتا تھا وہ سوال نہیں تھا۔
“تم کس طرح کے آدمی ہو سالار؟”
“پتا نہیں۔۔۔۔۔آپ کو پتا ہونا چاہئیے ، میں آپ کا بیٹا ہوں۔”
“نہیں مجھے۔۔۔۔۔ مجھے تو کبھی بھی پتا نہیں چل سکا۔”سکندر کا لہجہ عجیب تھا۔سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
“مجھے بھی کبھی پتا نہیں چل سکا۔میں تو اب بھی اپنے آپ کو جاننے کی کوشش کر رہا ہوں۔”
“تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔سالار ایک انتہائی احمق ، کمینے اور خبیث انسان ہو۔”سالار ہنسا۔
“آپ ٹھیک کہتے ہیں ، میں واقعی ایسا ہوں۔۔۔۔۔اور کچھ۔۔۔۔۔؟”
“اور۔۔۔۔۔یہ کہ میں بڑا خوش قسمت ہوں کہ تم میری اولاد ہو۔”سکندر عثمان کی آواز لرز رہی تھی۔اس بار چپ ہونے کی باری سالار کی تھی۔
“مجھے اس اسکول کے ہر ماہ کے اخراجات کے بارے میں بتا دینا۔میری فرم ہر ماہ اس رقم کا چیک تمہیں بھجوا دیا کرے گی۔”
اس سے پہلے کہ سالار کچھ کہتا فون بند ہو چکا تھا۔سالار نے پارک میں پھیلی تاریکی میں ہاتھ میں پکڑے موبائل کی روشن اسکرین کو دیکھا۔پھر جاگنگ ٹریک پر لگی روشنیوں میں وہاں دوڑتے لوگوں کو کچھ دور وہ وہیں بیٹھا خالی الذہنی کے عالم میں ان لوگوں کو دیکھتا رہا پھر اٹھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ٹریک پر آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______________
رمشہ سے سالار کی پہلی ملاقات لاہور آنے کے ایک سال بعد ہوئی تھی۔وہ لندن اسکول آف اکنامکس کی گریجویٹ تھی اور سالار کے بینک میں اس کی تعیناتی ہوئی تھی۔اس کے والد بہت عرصے سے اس بینک کے کسٹمرز میں سے تھے اور سالار انہیں ذاتی طور پر جانتا تھا۔
رمشہ بہت خوبصورت ، ذہین اور خوش مزاج لڑکی تھی اور اس نے وہاں آنے کے کچھ عرصے کے بعد ہی ہر ایک سے خاصی بےتکلفی پیدا کر لی تھی۔ایک کولیگ کے طور پر سالار کے ساتھ بھی اچھی سلام دعا تھی اور کچھ اس کے والد کے حوالے سے بھی وہ اس کی خاصی عزت کرتا تھا۔بینک میں کام کرنے والی چند دوسری لڑکیوں کی نسبت رمشہ سے اس کی کچھ زیادہ بےتکلفی تھی۔
لیکن سالار کو قطعی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کس وقت رمشہ نے اسے کچھ زیادہ سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا۔وہ سالار کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھنے لگی تھی۔وہ اس کے آفس میں بھی زیادہ آنے جانے لگی تھی اور آفس کے بعد بھی اکثر اوقات اسے کال کرتی رہتی۔سالار کو چند بار اس کا رویہ کچھ خلافِ معمول لگا لیکن اس نے اپنے ذہن میں ابھرنے والے شبہات کو جھٹک دیا مگر اس کا یہ اطمینان پورے ایک سال کے بعد ایک واقعے کے ساتھ رخصت ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭_____________
سالار صبح آفس میں داخل ہوا اور داخل ہوتے ہی چونک گیا۔اس کی ٹیبل پر ایک بہت بڑا اور خوبصورت بکے پڑا ہوا تھا۔اپنا بریف کیس ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے وہ بکے اٹھا کر اس پر موجود کارڈ کھولا۔
“ہیپی برتھ ڈے ٹو سالار سکندر۔”
رمشہ ہمدانی۔
سالار نے بےاختیار ایک گہرا سانس لیا۔اس میں کوئی شک نہیں تھا آج اس کی سالگرہ تھی مگر رمشہ یہ کیسے جانتی تھی وہ کچھ دیر کسی سوچ میں گُم ٹیبل کے پاس کھڑا رہا پھر اس نے بکے ٹیبل پر ایک طرف رکھ دیا۔اپنا کوٹ اتار کر اس نے ریوالونگ چئیر کی پشت پر لٹکایا اور چئیر پر بیٹھ گیا۔بکے کے نیچے ٹیبل پر بھی ایک کارڈ پڑا ہوا تھا۔اس نے بیٹھنے کے بعد اس کارڈ کو کھولا۔چند لمحے تک وہ اس میں لکھی ہوئی تحریر پڑھتا رہا پھر کارڈ بند کر کے اس نے اپنی دراز میں رکھ دیا۔وہ نہیں جانتا تھا اس کارڈ اور بکے پر کس ردِ عمل کا اظہار کرے ، چند لمحے وہ کچھ سوچتا رہا پھر اس نے کندھے جھٹک کر اپنا بریف کیس کھولنا شروع کر دیا۔وہ اس میں سے اپنا لیپ ٹاپ نکال کر بریف کیس کو نیچے کارپٹ پر اپنی ٹیبل کے ساتھ رکھ رہا تھا جب رمشہ اندر داخل ہوئی۔
“ہیپی برتھ ڈے سالار۔”اس نے اندر داخل ہوتے ہی کہا۔
سالار مسکرایا۔
“تھینکس۔۔۔۔۔”رمشہ اب ٹیبل کے سامنے پڑی کرسی کھینچ کر بیٹھ رہی تھی ، جب کہ سالار لیپ ٹاپ کو کھولنے میں مصروف تھا۔
“بکے اور کارڈ کے لیے بھی شکریہ۔یہ ایک خوشگوار سرپرائز تھا۔”
سالار نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا وہ اب اپنا فون لیپ ٹاپ کے ساتھ اٹیچ کرنے میں مصروف تھا۔
“مگر تمہیں میری برتھ ڈے کے بارے میں پتا کیسے چلا؟”وہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا۔
“جناب یہ تو میں نہیں بتاؤں گی۔بس پتا چلانا تھا۔چلا لیا۔”رمشہ نے شگفتگی سے کہا۔”اور ویسے بھی دوست آپس میں یہ سوال نہیں کرتے۔اگر دوستوں کو ایسی چیزوں کا بھی پتہ نہیں ہوگا تو پھر وہ دوست تو نہیں ہوئے۔”
سالار لیپ ٹاپ کی اسکرین پر نظریں جمائے مسکراتے ہوئے اس کی بات سنتا رہا۔
“اب میں سارے اسٹاف کی طرف سے پارٹی کی ڈیمانڈ کے لیے آئی ہوں۔آج کا ڈنر تمہیں ارینج کرنا چاہئیے۔”سالار نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔
“رمشہ! میں اپنی برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کرتا۔”
“کیوں۔۔۔۔۔۔؟”
“ویسے ہی۔۔۔۔۔۔”
“کوئی وجہ تو ہو گی۔۔۔۔۔۔؟”
“کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔بس میں ویسے ہی سیلیبریٹ نہیں کرتا۔”
“پہلے نہیں کرتے ہو گے مگر اس بار تو کرنی پڑے گی۔اس بار تو سارے اسٹاف کی ڈیمانڈ ہے۔”رمشہ نے بےتکلفی سے کہا۔
“میں کسی بھی دن آپ سب لوگوں کو کھانا کھلا سکتا ہوں۔میرے گھر پر ، ہوٹل میں ، جہاں آپ چاہیں مگر میں برتھ ڈے کے سلسلے میں نہیں کھلا سکتا۔”سالار نے صاف گوئی سے کہا۔
“یعنی تم چاہتے ہو ہم تمہارے لیے پارٹی ارینج کر دیں۔”رمشہ نے کہا۔
“میں نے ایسا نہیں کہا۔”وہ کچھ حیران ہوا۔
“اگر تم پورے اسٹاف کو پارٹی نہیں بھی دے سکتے تو کم از کم مجھے ڈنر پر تو لے جا سکتے ہو۔”
“رمشہ! میں آج رات کچھ مصروف ہوں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ۔”سالار نے ایک بار پھر معذرت کی۔
“کوئی بات نہیں میں بھی آ جاؤں گی۔”رمشہ نے کہا۔
“نہیں یہ مناسب نہیں ہو گا۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”
“وہ سب مرد ہیں اور تم ان سے واقف بھی نہیں ہو۔”اس نے بہانا بنایا۔
“میں سمجھتی ہوں۔”رمشہ نے کہا۔
“پھر کل چلتے ہیں؟”
“کل نہیں۔۔۔۔۔پھر کبھی چلیں گے۔میں تمہیں بتا دوں گا۔”
رمشہ کچھ مایوس ہوئی مگر اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ اسے فی الحال باہر کہیں لے جانے کا ارداہ نہیں رکھتا۔
“اوکے۔۔۔۔۔”وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔
“مجھے اُمید ہے ، تم نے مائنڈ نہیں کیا ہو گا۔”سالار نے اُسے اٹھتے دیکھ کر کہا۔
“نہیں بالکل نہیں۔It’s alright” وہ مسکراتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔سالار اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔اس کا خیال تھا سالگرہ کا وہ معاملہ وہیں ختم ہو گیا۔یہ اس کی غلط فہمی تھی۔
لنچ آور کے دوران اس کے لیے ایک سرپرائز پارٹی تیار تھی۔اس کے باس مسٹر پال ملر نے بڑی گرم جوشی سے سالگرہ پر مبارک باد دی تھی۔وہ پارٹی رمشہ نے ارینج کی تھی اور کیک اور دوسرے لوازمات کو دیکھتے ہوئے وہ پہلی بار صحیح معنوں میں تشویش میں مبتلا ہوا تھا اگر پہلے رمشہ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی پسندیدگی ظاہر کر رہی تھی تو اس دن اس نے بہت واضح انداز میں یہ بات ظاہر کر دی تھی۔وہ لنچ آور کے بعد تقریباً آدھ گھنٹہ اپنے آفس میں بیٹھا پہلی بار رمشہ کے بارے میں سوچتا رہا۔وہ اندازہ کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس سے کون سی ایسی غلطی ہوئی تھی، جس سے رمشہ کو اس میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی۔پچھلے کچھ عرصے میں ملنے والی چند اچھی لڑکیوں میں سے ایک تھی مگر وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس میں انوالو ہونے لگے۔وہ پچھلے کچھ عرصے سے رمشہ کے اپنے لیے خاص روئیے کو اس کی خوش اخلاقی سمجھ کر ٹالتا رہا تھا ، مگر اس دن آفس سے نکلتے ہوئے اس کی طرف سے دئیے جانے والے چند پیکٹس کو گھر جا کر کھولنے پر اس کے چودہ طبق روشن ہو گئے تھے۔وہ ابھی ان تحائف کو دیکھ کر تشویش میں مبتلا ہو رہا تھا ، جب فرقان آ گیا۔ڈرائنگ روم میں پڑے وہ پیکٹس فوراً اس کی نظر میں آ گئے۔
“واؤ ، آج تو خاصے تحائف اکٹھے ہو رہے ہیں۔دیکھ لوں؟”فرقان نے صوفہ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سالار نے صرف سر ہلایا ، گھڑی ، پرفیومز ، ٹائیاں ، شرٹس ، وہ یکے بعد دیگرے ان چیزوں کو نکال نکال کر دیکھتا رہا۔
“یہ تمہاری بری کا سامان اکٹھا نہیں ہو گیا؟”فرقان نے مسکراتے ہوئے تبصرہ کیا۔”خاصا دل کھول کر گفٹس دئیے ہیں تمہارے کولیگز نے۔”
“صرف ایک کولیگ نے۔”سالار نے مداخلت کی۔
“یہ سب کچھ ایک نے دیا ہے؟”فرقان کچھ حیران ہوا۔
“ہاں۔”
“کس نے؟”
“رمشہ نے۔”فرقان نے اپنے ہونٹ سکوڑے۔
“تم جانتے ہو یہ سب گفٹس ایک ڈیڑھ لاکھ کی رینج میں ہوں گے۔”وہ اب دوبارہ ان چیزوں پر نظر ڈال رہا تھا۔
“صرف یہ گھڑی ہی پچاس ہزار کی ہے۔کوئی صرف کولیگ سمجھ کر تو اتنی مہنگی چیزیں نہیں دے گا۔تم لوگوں کے درمیان کوئی۔۔۔۔۔۔”فرقان بات کرتے کرتے رُک گیا۔
“ہم دونون کے درمیان کچھ نہیں ہے۔کم از کم میری طرف سے ، مگر آج میں پہلی بار پریشان ہو گیا ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ رمشہ۔۔۔۔۔۔مجھ میں کچھ ضرورت سے زیادہ دلچسپی لے رہی ہے۔”سالانے نے ان چیزوں پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔
“بہت اچھی بات ہے۔چلو تم میں بھی کسی لڑکی نے دلچسپی لی۔”فرقان نے ان پیکٹس کو واپس سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔
“ویسے بھی تم بہت کنوارے رہ لیے۔لگے ہاتھوں اس سال یہ کام کر لو۔”
“جب مجھے شادی ہی نہیں کرنی تو میں اس سلسلے کو آگے کیوں بڑھاؤں۔”
“سالار دن بہ دن تم بہت impractical کیوں ہوتے جا رہے ہو؟تمہیں اب سیٹل ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔ہر لڑکی سے کب تک اس طرح بھاگتے پھرو گے۔تمہیں اپنی ایک فیملی شروع کر لینی چاہئیے۔رمشہ اچھی لڑکی ہے۔میں اس کی فیملی کو جانتا ہوں۔کچھ ماڈرن ضرور ہے مگر اچھی لڑکی ہے اور چلو اگر رمشہ نہیں تو پھر تم کسی اور کے ساتھ شادی کر لو۔میں اس سلسلے میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔تم اپنے پیرنٹس کی مدد لے سکتے ہو مگر اب تمہیں اس معاملے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئیے۔تمہیں ان تمام باتوں کے بارے میں غور کرنا چاہئیے اور کم از کم دوسرے کی بات پر کچھ کہہ ضرور دینا چاہئیے۔”
فرقان نے آخری جملے پر زور دیتے ہوئے کہا اس کا اشارہ اس کی خاموشی کی طرف تھا۔
“اس سے دوسرے کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ کسی مجمعے کے سامنے تقریر نہیں کرتا رہا۔”فرقان نے کہا۔
“تم کبھی اپنی شادی کے بارے میں سوچتے نہیں ہو؟”
“کون اپنی شادی کے بارے میں نہیں سوچتا؟”سالار نے مدھم آواز میں کہا۔”میں بھی سوچتا ہوں مگر میں اس طرح نہیں سوچتا جس طرح تم سوچتے ہو۔چائے پیو گے؟”
“آخری جملے کے بجائے تمہیں کہنا چاہئیے تھا کہ بکواس بند کرو۔”
فرقان نے ناراضی سے کہا۔سالار نے مسکرا کر کندھے اچکا دئیے وہ اب چیزیں سمیٹ رہا تھا۔
جاری ہے۔۔۔

