Sunday, December 3, 2023
No Result
View All Result
  • Home
  • Complete Novels
    • Yar Yaron Sa Hon Na Juda
    • Yar Yaron Sa Hon Na Juda Season 2
    • Chand_Meri_Dastaras_Mein
    • Ana_zadi
  • Umerah Ahmed Novels
    • Peer_e_kamil
    • Aab _e_Hayat
    • Haasil
  • Nimrah Ahmed Novels
    • Mushaf
  • Short Stories
  • Novel Quotes
    • Abb E Hayat
    • Amar Bail
    • Jannat Kay Pattay
    • Peer E Kamil
    • Haalim
    • Hasil
    • La Hasil
    • Man O Salwa
    • Mushaf
    • Namal
  • All Novels Quotes
  • Favorite Characters
    • Shehzadi Tasha
    • Hashim Kardar
    • Abdar Ubaid
    • Adam Bin Muhammad
    • Ayeshy Gull
    • Bahary Gull
    • Caral
    • Mahir Fareed
    • Hamza Haider Ali
    • Hanian Yousaf
    • Saddi Yousaf
    • DJ
  • Favorite Couples
    • Amriha & Aliyan
    • Alizay & Umer Jahangir
    • Haya & Jihan
    • Imama & Salar
    • Zumar & Faris
    • Jugan & Tashfeen
    • Rooh & Yaram
    • Liza & Sikandar
    • Maliha & Wajdan
    • Taliya & Fatieh
    • Parishay & Afaq Arslan
    • Alizay & Dilawar Shah
  • Urdu Poetry
    • Jaun Elia
    • Tahzeeb Hafi
    • Mirza Ghalib
  • Islamic Quotes
    • Hazrat Ali (R.A)
  • ABOUT US
  • CONTACT US
  • Privacy Policy
No Result
View All Result
No Result
View All Result
Home Umerah Ahmed Novels Peer_e_kamil

Peer E Kamil Novel by Umera Ahmed | Episode_09

by Hiba Chaudhry
June 14, 2023
A A
0
325
SHARES
2.5k
VIEWS
Share on FacebookShare on Twitter

پیرِکاملﷺ
از عمیرہ احمد
قسط نمبر 09

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشہ نے حیرانی سے اپنے سامنے پڑے ان پیکٹس کو دیکھا۔”لیکن سالار ! یہ سب چیزیں تمہارا برتھ ڈے گفٹ ہیں۔”
سالار اگلی صبح ایک ٹائی چھوڑ کر تمام چیزیں واپس اٹھا لایا تھا اور اب وہ رمشہ کے آفس میں تھا۔
“میں کسی سے اتنا مہنگا تحفہ نہیں لیا کرتا۔ایک ٹائی کافی ہے۔”
“سالار ، میں اپنے فرینڈز کو اتنے ہی مہنگے گفٹس دیتی ہوں۔”رمشہ نے وضاحت کی کوشش کی۔
“یقیناً تم دیتی ہو گی مگر میں نہیں لیتا۔۔۔۔۔اگر تم نے زیادہ اصرار کیا تو میں وہ ٹائی بھی لا کر واپس تمہیں دے دوں گا۔۔۔۔۔۔”سالار نے کہا اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کمرے سے نکل آیا۔رمشہ پھیکے چہرے کے ساتھ اسے کمرے سے نکلتا دیکھتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار ہمیشہ کی طرح اس دن ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا ہوا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے ابھی اپنا لیکچر شروع نہیں کیا تھا جب ان کے پاس بیٹھے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے کہا۔
“ڈاکٹر صاحب! آدمی کو پیر کامل مل جائے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔”
سالار نے گردن موڑ کر اس شخص کو دیکھا ، وہ وہاں پچھلے چند دن سے آ رہا تھا۔
“اس کی نسلیں سنور جاتی ہیں۔میں جب سے آپ کے پاس آنے لگا ہوں ، مجھے لگتا ہے میں ہدایت پا گیا ہوں۔میرے الٹے کام سیدھے ہونے لگے ہیں۔میرا دل کہتا ہے مجھے پیر کامل مل گیا ہے۔میں۔۔۔۔۔میں آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ بڑی عقیدت مندی سے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے کہنے لگا۔کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے نرمی سے اس شخص کے ہاتھ پر تھپکی دیتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
“تقی صاحب! میں نے زندگی میں آج تک کسی سے بیعت نہیں لی۔آپ کے منہ سے پیرِ کامل کا ذکر سنا۔۔۔۔۔پیرِ کامل کون ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔پیرِ کامل کس کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔وہ کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔؟اس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟”
وہ بڑی سنجیدگی سے اس شخص سے پوچھ رہے تھے۔
“آپ پیرِ کامل ہیں۔”اس شخص نے کہا۔
“نہیں ، میں پیرِ کامل نہیں ہوں۔”ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
“آپ سے مجھے ہدایت ملتی ہے۔”اس شخص نے اصرار کیا۔
“ہدایت تو استاد بھی دیتا ہے ، ماں باپ بھی دیتے ہیں ، لیڈرز بھی دیتے ہیں ، دوست احباب بھی دیتے ہیں ، کیا وہ پیرِ کامل ہو جاتے ہیں؟”
“آپ۔۔۔۔۔آپ گناہ نہیں کرتے۔”وہ آدمی گڑبڑا گیا۔
“ہاں ، دانستہ طور پر نہیں کرتا ، اس لیے نہیں کرتا ، کیونکہ گناہ سے مجھے خوف آتا ہے۔یہاں پر بیٹھے بہت سے لوگ دانستہ طور پر گناہ نہیں کرتے ہوں گے ، کیونکہ میری طرح انہیں بھی گناہ سے خوف آتا ہو گا مگر نادانستگی میں مجھ سے کیا سر زد ہو جاتا ہے ، اسے میں نہیں جانتا۔ہو سکتا ہے نادانستگی میں مجھ سے بھی گناہ سر زد ہو جاتے ہوں۔”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“آپ کی دعا قبول ہوتی ہے۔”وہ آدمی اپنے مؤقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
“دعا تو ماں باپ کی بھی قبول ہوتی ہے ، مجبور اور مظلوم کی بھی قبول ہوتی ہے اور بھی بہت سے لوگوں کی قبول ہوتی ہے۔”
“لیکن آپ کی تو ہر دعا قبول ہو جاتی ہے۔”اس نے اصرار کیا۔
ڈاکٹر سبط علی صاحب نے انکار میں سر ہلایا۔
“نہیں ، ہر دعا تو قبول نہیں ہوتی۔میں کئی سالوں سے ہر روز مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی دعا کرتا ہوں ، ابھی تک تو قبول نہیں ہوئی۔ہر روز میری کی جانے والی کئی دعائیں قبول نہیں بھی ہوتیں۔”
“لیکن آپ کے پاس جو شخص دعا کروانے کے لیے آتا ہے ، اس کے لیے آپ کی دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔”
ڈاکٹر صاحب کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
“آپ کے لیے کی جانے والی دعا قبول ہو گئی ہو گی ، یہاں بہت سے ایسے ہیں جن کے لیے میری دعا قبول نہیں ہوتی یا نہیں ہوئیں۔”
وہ اب کچھ بول نہیں سکا۔
“آپ میں سے اگر کوئی بتا سکے کہ پیرِ کامل کون ہوتا ہے؟”
وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر ایک نے کہا۔
“پیرِ کامل نیک شخص ہوتا ہے ، عبادت گزار شخص ، پارسا آدمی۔”
ڈاکٹر سبط علی نے سر ہلایا۔
“بہت سے لوگ نیک ہوتے ہیں ، عبادت گزار ہوتے ہیں ، پارسا ہوتے ہیں۔آپ کے ارد گرد ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں تو کیا وہ سب پیر کامل ہوتے ہیں؟”
“نہیں ، پیر کامل وہ آدمی ہوتا ہے جو دکھاوے کے لیے عبادت نہیں کرتا۔دل سے عبادت کرتا ہے ، صرف اللہ کے لیے۔اس کی نیکی اور پارسائی ڈھونگ نہیں ہوتی۔”ایک اور شخص نے اپنی رائے دی۔
“اپنے حلقہء احباب میں آپ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی ایسے شخص کو ضرور جانتا ہو گا ، جس کی عبادت کے بارے میں اسے یہ شبہ نہیں ہوتا کہ وہ ڈھونگ ہے ، جس کی نیکی اور پارسائی کا بھی آپ کو یقین ہوتا ہے تو کیا وہ شخص پیر کامل ہے؟”
کچھ دیر خاموشی پھر ایک اور شخص نے کہا۔
“پیر کامل ایک ایسا شخص ہوتا ہے ، جس کے الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے کہ وہ انسان کا دل بدل دیتے ہیں۔”
“تاثیر بھی بہت سے لوگوں کے الفاظ میں ہوتی ہے۔کچھ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ میں ، کچھ کے قلم سے نکلنے والے الفاظ میں ، تاثیر تو اسٹیج پر کھڑے ایک کمپئیر اور اخبار کا کالم لکھنے والے ایک جرنلسٹ کے الفاظ میں بھی ہوتی ہے تو کیا وہ پیر کامل ہوتے ہیں؟”
ایک اور شخص بولا۔”پیر کامل وہ ہوتا ہے جسے الہام اور وجدان ہو ، جو مستقبل کو بوجھ سکے۔”
“ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے خواب دیکھتے ہیں جن میں مستقبل میں درپیش آنے والے حالات سے ہمیں آگاہی ہو جاتی ہے۔کچھ لوگ استخارہ بھی کرتے ہیں اور چیزوں کے بارے میں کسی حد تک جان جاتے ہیں۔کچھ لوگوں کی چھٹی حِس بہت تیز ہوتی ہے ، وہ خطروں کو بھانپ جاتے ہیں۔”
“پیر کامل کون ہوتا ہے؟”ڈاکٹر صاحب کچھ دیر خاموش رہے ، انہوں نے پھر اپنا سوال دُہرایا۔
“پیر کامل کون ہو سکتا ہے؟”سالار اُلجھن آمیز انداز میں ڈاکٹر سبط علی کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
“کیا ڈاکٹر سبط علی کے علاوہ کوئی اور پیرِ کامل ہو سکتا تھا اور اگر وہ نہیں تھے تو پھر کون تھا اور کون ہو سکتا ہے؟”
وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ میں ایک ہی گونج تھی۔ڈاکٹر سبط علی ایک ایک کا چہرہ دیکھ رہے تھے ، پھر ان کے چہرے کی مسکراہٹ آہستہ آہستہ معدوم ہو گئی۔
“پیرِ کامل میں کاملیت ہوتی ہے۔کاملیت ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے جو آپ کہہ رہے تھے۔پیرِ کامل وہ شخص ہوتا ہے جو دل سے اللہ کی عبادت کرتا ہے ، نیک اور پارسا ہوتا ہے۔اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔اس حد تک جس حد تک اللہ چاہے۔اس کے الفاظ میں تاثیر بھی ہوتی ہے۔وہ لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے مگر اسے الہام نہیں ہوتا ، اسے وجدان ہوتا ہے۔وحی اُترتی ہے اس پر اور وحی کسی عام انسان پر نہیں اترتی۔صرف پیغمبر پر اترتی ہے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیرِ کامل وہ ہے جس پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا جاتا ہے۔
ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی پیرِ کامل کی ضرورت ضرور پڑتی ہے۔کبھی نہ کبھی انسانی زندگی اس موڑ پر آ کر ضرور کھڑی ہو جاتی ہے جب یہ لگتا ہے کہ ہمارے لبوں اور دلوں سے نکلنے والی دعائیں بےاثر ہو گئی ہیں۔ہمارے سجدے اور ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ رحمتوں اور نعمتوں کو اپنی طرف موڑ نہیں پا رہے۔یوں لگتا ہے جیسے کوئی تعلق تھا جو ٹوٹ گیا ہے پھر آدمی کا دل چاہتا ہے اب اس کے لیے کوئی اور ہاتھ اٹھائے ، کسی اور کے لب اس کی دعا اللہ تک پہنچائیں ، کوئی اور اللہ کے سامنے اس کے لیے گڑگڑائے ، کوئی ایسا شخص جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں ، جس کے لبوں سے نکلنے والی التجائیں اس کے اپنے لفظوں کی طرح واپس نہ موڑ دی جاتی ہوں پھر انسان پیرِ کامل کی تلاش شروع کرتا ہے ، بھاگتا پھرتا ہے ، دنیا میں کسی ایسے شخص کے لیے جو کاملیت کی کسی نہ کسی سیڑھی پر کھڑا ہو۔
پیرِ کامل کی یہ تلاش انسانی زندگی کے ارتقاء سے اب تک جاری ہے۔یہ تلاش وہ خواہش ہے جو اللہ خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے۔انسان کے دل میں یہ خواہش ، یہ تلاش نہ اتاری جاتی تو وہ پیغمبروں پر کبھی یقین نہ لاتا۔کبھی ان کی پیروی اور اطاعت کرنے کی کوشش نہ کرتا۔پیرِ کامل کی یہ تلاش ہی انسان کو ہر زمانے میں اُتارے جانے والے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی پھر پیغمبروں کی مبعوثیت کا یہ سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور پیرِ کامل کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
کون ہے جسے اب یا آئندہ آنے والے زمانے میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی مقام دیا جائے؟
کون ہے جسے آج یا آئندہ آنے والے زمانے میں کسی شخص کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر کاملیت دے دی جائے؟
کون ہے جو آج یا آئندہ آنے والے زمانے میں کسی شخص کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر شفاعت کا دعویٰ کر سکے؟
جامد اور مستقل خاموشی کی صورت میں آنے والا نفی میں یہ جواب ہم سے صرف ایک سوال کرتا ہے۔
پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر ہم دنیا میں اور کس وجود کو کھوجنے نکل کھڑے ہوئے ہیں؟ پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیعت شدہ ہوتے ہوئے ہمیں دوسرے کس شخص کی بیعت کی ضرورت رہ گئی ہے؟
پیر کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستے پر چلنے کی بجائے ہمیں دوسرا کون سا راستہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے؟
کیا مسلمانوں کے لئے ایک اللہ ، ایک قرآن ، ایک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی سنت کافی نہیں؟
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اس کی کتاب کے علاوہ اور کون سا شخص، کون سا کلام ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کی تکلیفوں سے بچا سکے گا؟
جو ہماری دعاؤں کو قبولیت بخشے ، جو ہم پر نعمتیں اور رحمتیں نازل کر سکے؟
کوئی پیرِ کامل کا فرقہ بتا سکتا ہے؟نہیں بتا سکتا۔”
ڈاکٹر سبط علی کہہ رہے تھے۔
“وہ صرف مسلمان تھے ، وہ مسلمان جو یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلیں گے تو وہ جنت میں جائیں گے ، اس راستے سے ہٹیں گے تو اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں گے۔
اور صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جو اللہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے قرآن پاک میں بتاتا ہے۔صاف ، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں۔وہ کام کریں جس کا حکم اللہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے دیتا ہے اور اُس کام سے رک جائیں جس سے منع کیا جاتا ہے۔
اللہ ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کسی بات میں کوئی ابہام نہیں رکھتے۔قرآن کو کھولئے ، اگر اس میں کہیں دو ٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں کسی دوسرے پیر کامل یا پیغمبر کا ذکر ملے تو اس کی تلاش کرتے رہئیے اور اگر ایسا کچھ نظر نہیں آتا تو پھر صرف خوف کھائیے کہ آپ اپنے پیروں کو کس دلدل میں لئے جا رہے ہیں۔اپنی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کو کس طرح اپنی ابدی زندگی کی تباہی کے لئے استعمال کر رہے ہیں کس طرح خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ہدایت کی تلاش ہے ، قرآن کھولئے۔کیا ہے جو وہ آپ کو نہیں بتا دیتا۔وہ آپ کو معصوم ، انجان اور بےخبر نہیں رہنے دیتا۔آپ کا اصل آپ کے منہ پر دے مارتا ہے۔کیا اللہ انسان کو نہیں جانتا ہو گا؟ اس مخلوق کو ، جو اس کی اربوں کھربوں تخلیقات میں سے ایک ہے۔
دعا قبول نہیں ہوتی تو آسرے اور وسیلے تلاش کرنے کی بجائے صرف ہاتھ اٹھا لیجئیے ، اللہ سے خود مانگیں۔دے دے تو شکر کریں ، نہ دے تو صبر ۔۔۔۔۔مگر ہاتھ آپ خود ہی اٹھائیں۔
زندگی کا قرینہ اور سلیقہ نہیں آ رہا تو اسوہء حسنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف چلے جائیں ، سب کچھ مل جائے گا آپ کو۔
احترام ہر ایک کا کریں۔ہر ولی کا ، ہر مومن کا ، ہر بزرگ کا ، ہر شہید کا ، ہر صالح کا ، ہر پارسا کا۔۔۔۔۔۔
مگر اپنی زندگیوں میں ہدایت اور رہنمائی صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لیں کیونکہ انہوں نے آپ تک اپنے ذاتی احکامات نہیں پہنچائے جو کچھ بتایا وہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔
ڈاکٹر سبط علی کون ہے ، کیا ہے ، کون جانتا ہے اسے؟آپ۔۔۔۔۔؟آپ کے علاوہ چند سو لوگ۔۔۔۔۔۔چند ہزار لوگ مگر جس پیرِ کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کر رہا ہوں انہیں تو ایک ارب کے قریب لوگ اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔میں تو وہی کچھ کہتا ، دہراتا پھر رہا ہوں ، جو چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما چکے ہیں۔کیا نئی بات کہی میں نے؟”
ڈاکٹر سبط علی خاموش ہو گئے۔کمرے میں موجود ہر شخص پہلے ہی خاموش تھا۔انہوں نے وہاں بیٹھے ہر شخص کو جیسے آئینہ دکھا دیا تھا اور آئینے میں نظر آنے والا عکس کسی کو ہولا رہا تھا ، کسی کو لرزا رہا تھا۔
وہاں سے باہر آ کر سالار بہت دیر تک اپنی گاڑی کی سیٹ پر چپ چاپ بیٹھا رہا۔اس کی آنکھوں پر بندھی آخری پٹی بھی آج کھول دی گئی تھی۔
کئی سال پہلے جب امامہ ہاشم سوچے سمجھے بغیر گھر سے نکل پڑی تھی تو وہ اس لگن کو سمجھ نہیں پایا تھا۔اس کے نزدیک وہ حماقت تھی۔بعد میں اس نے اپنے خیالات میں ترمیم کر لی تھی۔اسے یقین آ گیا تھا کہ کوئی بھی واقعی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اس حد تک گرفتار ہو سکتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ دے۔
اس نے اسلام کے بارے میں جاننا شروع کیا تو اسے پتا چلا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اسی طرح کی قربانیاں دیا کرتے تھے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ان گنت لوگ تھے اور ہر زمانے میں تھے اور سالار سکندر نے اقرار کر لیا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کسی کو بھی چھوڑنے پر مجبور کر دیتی۔اس نے کبھی اس محبت کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔وہ آج وہاں بیٹھا پہلی بار یہ کام کر رہا تھا۔
یہ صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت نہیں تھی ، جس نے امامہ ہاشم کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ صراطِ مستقیم کو دیکھ کر اس طرف چلی گئی تھی۔اس صراطِ مستقیم کی طرف جسے وہ کسی زمانے میں اندھوں کی طرح ڈھونڈتا پھرتا تھا۔وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جاتے تھے۔
امامہ ہاشم نے کئی سال پہلے پیر کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پا لیا تھا۔وہ بےخوفی اسی ہدایت اور رہنمائی کی عطا کردہ تھی جو اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت سے ملی تھی۔وہ آج تک پیرِ کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خود شناخت نہیں کر پایا تھا اور امامہ ہاشم نے ہر کام خود کیا تھا۔شناخت سے اطاعت تک۔۔۔۔۔اس کو سالار سکندر کی طرح دوسروں کے کندھوں کی ضرورت نہیں پڑی۔
سالار سکندر نے پچھلے آٹھ سالوں میں امامہ ہاشم کے لئے ہر جذبہ محسوس کیا تھا۔حقارت ، تضحیک ، پچھتاوا ، نفرت ، محبت ، سب کچھ ۔۔۔۔۔مگر آج وہاں بیٹھے پہلی بار اسے امامہ ہاشم سے حسد ہو رہا تھا۔تھی کیا وہ۔۔۔۔۔؟ایک عورت۔۔۔۔۔ذرا سی عورت ۔۔۔۔۔آسمان کی حور نہیں تھی۔۔۔۔۔سالار سکندر جیسے آدمی کے سامنے کیا اوقات تھی اس کی۔
کیا میرے جیسا آئی کیو تھا اس کا؟
کیا میرے جیسی کامیابیاں تھیں اس کی؟
کیا میرے جیسا کام کر سکتی تھی وہ؟
کیا میرے جیسا نام کما سکتی تھی وہ؟
کچھ بھی نہیں تھی وہ اور اس کو سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر دیا اور میں۔۔۔۔۔میں جس کا آئی کیو لیول 150+ ہے مجھے سامنے کی چیزیں دیکھنے کے قابل نہیں رکھا؟
وہ اب آنکھوں میں نمی لیے اندھیرے میں ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔
“مجھے بس اس قابل کر دیا کہ میں باہر نکلوں اور دنیا فتح کر لوں۔وہ دنیا جس کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے اور وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔”
وہ رُک گیا۔اسے امامہ پر غصہ آ رہا تھا۔آٹھ سال پہلے کا وقت ہوتا تو وہ اسے “بچ” کہتا ، تب امامہ پر غصہ آنے پر یہی کہا کرتا تھا مگر آٹھ سال کے بعد آج وہ زبان پر اس کے لئے گالی نہیں لا سکتا تھا۔وہ امامہ ہاشم کے لئے کوئی بُرا لفظ نکالنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔صراطِ مستقیم پر خود سے بہت آگے کھڑی اس عورت کے لیے کون زبان سے بُرا لفظ نکال سکتا تھا؟
اپنے گلاسز اُتار کر اس نے اپنی آنکھیں مسلیں۔اس کے انداز میں شکست خوردگی تھی۔
“پیر کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔۔۔صراطِ مستقیم۔”آٹھ سال لگے تھے ، مگر تلاش ختم ہو گئی تھی۔جواب مل چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔رمشہ آج خاص طور پر تیار ہو کر آئی تھی۔وہ خوش تھی اور کوئی بھی اس کے چہرے سے اس کی خوشی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔سالار بھی۔
ویٹر سے مینیو کارڈ لے کر سالار نے بند کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔رمشہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔وہ اپنا کارڈ کھولے ہوئی تھی۔
“لنچ میری طرف سے ہے مگر مینیو آپ طے کریں۔”سالار نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“اوکے۔”رمشہ بےاختیار مسکرائی پھر وہ مینیو کارڈ پر نظر دوڑانے لگی اور سالار قرب و جوار میں۔
رمشہ نے ویٹر کو کچھ ڈشز نوٹ کروائیں۔جب ویٹر چلا گیا تو اس نے سالار سے کہا۔
“تمہاری طرف سے لنچ کی یہ دعوت بڑا اچھا سرپرائز ہے میرے لئے۔پہلے تو تم نے کبھی ایسی دعوت نہیں دی؟بلکہ میری دعوت بھی رد کرتے رہے۔”
“ہاں لیکن اب ہم دونوں کے لیے کچھ باتیں کرنا ضروری ہو گیا تھا۔مجھے اسی لئے تمہیں یہاں بلانا پڑا۔”سالار نے کہا۔
رمشہ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
“کچھ باتیں؟۔۔۔۔۔کون سی باتیں؟”
“پہلے لنچ کرلیں ، اس کے بعد کریں گے۔”سالار نے اسے ٹالتے ہوئے کہا۔
“مگر لنچ آنے اور کھانے میں کافی وقت لگے گا۔کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم وہ باتیں ابھی کر لیں؟”رمشہ نے قدرے بےتابی سے کہا۔
“نہیں ، یہ بہتر نہیں ہے۔لنچ کے بعد۔”سالار نے مسکراتے ہوئے مگر حتمی انداز میں کہا۔
رمشہ نے اس بار اصرار نہیں کیا۔وہ دونوں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے پھر لنچ آ گیا اور وہ دونوں لنچ میں مصروف ہو گئے۔
لنچ سے فارغ ہونے میں تقریباً پون گھنٹہ لگا ، پھر سالار نے ویٹر سے کافی منگوا لی۔
“میرا خیال ہے اب بات شروع کرنی چاہئیے۔”
رمشہ نے کافی کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔سالار اب بہت سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔وہ سر جھکائے اپنی کافی میں چمچ ہلا رہا تھا۔رمشہ کی بات پر اس نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔
“میں تم سے اس کارڈ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ، جو تم نے دو دن پہلے مجھے بھیجا ہے۔”رمشہ کا چہرہ قدرے سُرخ ہو گیا۔
دو دن پہلے جب وہ شام کو اپنے فلیٹ پر پہنچا تو وہاں ایک کارڈ اور بکے اس کا منتظر تھا۔وہ ایک ہفتہ ہانگ کانگ میں بنک کے کسی کام کے لئے رہا تھا اور اسی شام واپس آیا تھا۔کارڈ رمشہ کا بھیجا ہوا تھا۔
“تمہیں دوبارہ دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہو گی اس کا اظہار ناممکن ہے۔”
سالار کارڈ پر لکھے پیغام کو پڑھ کر چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گیا۔اس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔رمشہ اس کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کر رہی تھی۔
سالار نے اگلے دو دن اس کارڈ کے بارے میں رمشہ سے کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن اس نے ویک اینڈ پر اسے لنچ کی دعوت دے ڈالی۔رمشہ کے ساتھ اب ان تمام باتوں کو کلئیر کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
“تمہیں کارڈ بُرا لگا؟”رمشہ نے کہا۔
“نہیں ، پیغام۔”
رمشہ کچھ شرمندہ ہو گئی۔
“آئی ایم سوری ، مگر میں صرف ۔۔۔۔۔سالار! میں تمہیں بتانا چاہ رہی تھی کہ میں نے تمہیں کتنا مس کیا۔”
سالار نے کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
“تم مجھے اچھے لگتے ہو ، میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔”
رمشہ نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
“ہو سکتا ہے یہ پروپوزل تمہیں عجیب لگے لیکن میں بہت عرصے سے اس سلسلے میں تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہی ہوں جو کچھ کارڈ میں میں نے لکھا ہے میں واقعی تمہارے لیے وہی جذبات رکھتی ہوں۔”
سالار نے اسے بات مکمل کرنے دی۔اب وہ کافی کا کپ نیچے رکھ رہا تھا۔
“لیکن میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”جب وہ خاموش ہو گئی تو اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“کیوں؟”
“کیا اس سوال کا جواب ضروری ہے؟”سالار نے کہا۔
“نہیں ، ضروری نہیں ہے مگر بتانے میں کیا حرج ہے۔”
“تم مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہو؟”سالار نے جواباً پوچھا۔
“کیونکہ تم مختلف ہو۔”
سالار ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
“عام مردوں جیسے نہیں ہو ، وقار ہے تم میں ، کلچرڈ اور گرومڈ ہو۔”
“میں ایسا نہیں ہوں۔”
“ثابت کرو۔”رمشہ نے چیلنج کیا۔
“کر سکتا ہوں ، مگر نہیں کروں گا۔”اس نے کافی کا کپ دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
“ہر مرد سالار سکندر سے بہتر ہے۔”
“کس لحاظ سے؟”
“ہر لحاظ سے۔”
“میں نہیں مانتی۔”
“تمہارے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔”
“میں تمہیں جانتی ہوں ، ڈیڑھ سال سے تمہارے ساتھ کام کر رہی ہوں۔”
“مردوں کے بارے میں اتنی جلدی کسی رائے پر پہنچنا مناسب نہیں ہوتا۔”
“تمہاری کوئی بات تمہارے بارے میں میری رائے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔”رمشہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
“تم جس فیملی سے تعلق رکھتی ہو ، جس سوسائٹی میں موو کرتی ہو ، وہاں تمہیں مجھ سے زیادہ اچھے مرد مل سکتے ہیں۔”
“تم مجھ سے صرف اپنی بات کرو۔”
“رمشہ! میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں۔”
اس نے بالآخر کہہ دیا۔اس ساری گفتگو میں پہلی بار رمشہ کی رنگت زرد پڑی۔
“تم نے۔۔۔۔۔تم نے کبھی۔۔۔۔۔کبھی نہیں بتایا۔”
سالار آہستہ سے مسکرایا۔””ہمارے درمیان اتنی بےتکلفی تو کبھی بھی نہیں رہی۔”
“تم اس سے شادی کر رہے ہو؟”
دونوں کے درمیان اس بار خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا۔
“ہو سکتا ہے کچھ مشکلات کی وجہ سے میری وہاں شادی نہ ہو سکے۔”سالار نے کہا۔
“میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکی۔تم کسی سے محبت کر رہے ہو ، یہ جانتے ہوئے کہ وہاں تمہاری شادی نہیں ہو سکتی؟”
“کچھ ایسا ہی ہے۔”
“سالار! تم ۔۔۔۔۔تم اتنے جذباتی تو نہیں ہو۔ایک پریکٹکل آدمی ہو کر تم کس طرح کی عجیب بات کر رہے ہو۔”
رمشہ استہزائیہ انداز میں ہنس دی۔
“فرض کیا کہ وہاں تمہاری شادی نہیں ہوئی تو پھر۔۔۔۔۔۔پھر کیا تم شادی نہیں کرو گے؟”
“نہیں۔”
رمشہ نے نفی میں سر ہلایا۔I can’t believe it ۔( مجھے یقین نہیں آ رہا ) ۔
“مگر ایسا ہی ہے ، میں نے اگر شادی کا سوچا بھی تو دس پندرہ سال بعد ہی سوچوں گا اور دس پندرہ سال تک ضروری نہیں کہ میں زندہ رہوں۔”
اس نے بےحد خشک لہجے میں کہتے ہوئے ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔
“میں چاہتا ہوں رمشہ! کہ آج کی اس گفتگو کے بعد ہم دونوں کے درمیان دوبارہ کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہو۔ہم اچھے کولیگ ہیں۔میں چاہتا ہوں یہ تعلق ایسے ہی رہے۔میرے لئے اپنا وقت ضائع مت کرو ، میں وہ نہیں ہوں ، جو تم مجھے سمجھ رہی ہو۔”
ویٹر قریب آ گیا تھا۔سالار اس کا لایا ہوا بل ادا کرنے لگا۔
رمشہ ، سالار کا چہرہ دیکھتی رہی۔وہ اب کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار اس روز کسی کام سے لنچ بریک کے بعد آفس سے نکل آیا۔ریلوے کراسنگ پر ٹریفک کا اژدھام دیکھ کر اس نے دور سے ہی گاڑی موڑ لی۔وہ اس وقت کسی ٹریفک جام میں پھنس کر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔
گاڑی کو پیچھے موڑ کر اس نے ایک دوسری سڑک پر ٹرن لے لیا۔وہ اس سڑک پر تھوڑا ہی آگے گیا تھا جب اس نے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک بوڑھی خاتون کو بیٹھے دیکھا۔وہ ایک ہائی روڈ تھی اور اس وقت بالکل سنسان تھی۔خاتون اپنے لباس اور چہرے سے کسی بہت اچھے گھرانے کی نظر آ رہی تھیں۔اس کے ہاتھ میں سونے کی کچھ چوڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں اور سالار کو خدشہ ہوا کہ اس اکیلی سڑک پر وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔اس نے گاڑی ان کے قریب لے جا کر روک دی۔خاتون کی سفید رنگت اس وقت سرخ تھی اور سانس پھولا ہوا تھا اور شاید وہ اپنا سانس ٹھیک کرنے کے لئے ہی سڑک کنارے بیٹھی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے گاڑی ان کے قریب لے جا کر روک دی۔خاتون کی سفید رنگت اس وقت سرخ تھی اور سانس پھولا ہوا تھا اور شاید وہ اپنا سانس ٹھیک کرنے کے لئے ہی سڑک کنارے بیٹھی تھیں۔
السلام علیکم اماں! کیا مسئلہ ہے ، آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟”
سالار نے اپنے سن گلاسز اُتارتے ہوئے کھڑکی سے سر نکال کر پوچھا۔
“بیٹا! مجھے رکشہ نہیں مل رہا۔”
سالار ان کی بات پر حیران ہوا۔وہ مین روڈ نہیں تھی۔ایک رہائشی علاقے کی ہائی روڈ تھی اور وہاں رکشہ ملنے کا امکان نہیں تھا۔
“اماں جی! یہاں سے تو آپ کو رکشہ مل بھی نہیں سکتا۔آپ کو جانا کہاں ہے؟”
اس خاتون نے اسے اندرون شہر کے ایک علاقے کا نام بتایا۔سالار کے لئے بالکل ممکن نہیں تھا کہ وہ انہیں وہاں چھوڑ آتا۔
“آپ میرے ساتھ آ جائیں۔میں آپ کو مین روڈ پر چھوڑ دیتا ہوں۔وہاں سے آپ کو رکشہ مل جائے گا۔”
سالار نے پچھلے دروازے کا لاک کھولا اور پھر اپنی سیٹ سے اتر گیا مگر اماں جی اسے خاصی متامل نظر آئیں۔وہ ان کے اندیشوں کو بھانپ گیا۔
“اماں جی! ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں شریف آدمی ہوں۔آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔میں صرف آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ، کیونکہ اس سڑک سے تو آپ کو رکشہ ملے گا نہیں اور اس وقت سڑک سنسان ہے ، آپ نے زیور پہنا ہوا ہے ، کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے آپ کو۔”
سالار نے نرمی سے ان کے اندیشے دور کرنے کی کوشش کی۔خاتون نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے اپنی چوڑیوں کو دیکھا اور پھر سالار سے کہا۔
“لو۔۔۔۔۔یہ سارا زیور تو نقلی ہے۔”
“چلیں ، یہ تو بہت اچھی بات ہے مگر کوئی بھی غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔کوئی آپ سے یہ تھوڑی پوچھے گا کہ یہ زیور اصلی ہے یا نقلی۔”
سالار نے ان کے جھوٹ کا پردہ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ اب سوچ میں پڑ گئیں۔سالار کو دیر ہو رہی تھی۔
“ٹھیک ہے اماں جی! آپ اگر مناسب نہیں۔۔۔۔۔”
اس نے واپس اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے تو اماں جی فوراً بول اٹھیں۔
“نہیں ، نہیں۔میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔پہلے ہی ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں چل چل کے۔”
وہ ٹانگوں پر زور دیتے ہوئے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگیں۔
سالار نے ان کا بازو پکڑ کر انہیں اُٹھایا۔پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر انہیں اندر بٹھا دیا۔
ہائی روڈ کو تیزی سے کراس کر کے وہ مین روڈ پر آ گیا۔اب وہ کسی خالہ رکشہ کی تلاش میں تھا مگر اسے رکشہ نظر نہیں آیا۔وہ آہستہ آہستہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی خالی رکشے کی تلاش میں ٹریفک پر نظریں دوڑانے لگا۔
“نام کیا ہے بیٹا تمہارا؟”
“سالار۔”
“سلار؟”انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔وہ بےاختیار مسکرایا۔زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے نام کو بگڑتے سنا تھا۔تصحیح کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔وہ پنجابی خاتون تھیں اور اس سے بمشکل اردو میں بات کر رہی تھیں۔
“جی۔”سالار نے تصدیق کی۔
“یہ کیا نام ہوا ، مطلب کیا ہے اس کا؟”انہوں نے یک دم دلچسپی لی۔
سالار نے انہیں اپنے نام کا مطلب اس بار پنجابی میں سمجھایا۔اماں جی کو اس کے پنجابی بولنے پر خاصی خوشی ہوئی اور اب وہ پنجابی میں گفتگو کرنے لگیں۔
سالار کے نام کا مطلب پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا۔
“میری بڑی بہو کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔”
وہ حیران ہوا اسے توقع نہیں تھی کہ نام کا مطلب جاننے کے بعد ان کا اگلا جملہ یہ ہو گا۔
“جی۔۔۔۔۔مبارک ہو۔”فوری طور پر اسے یہی سوجھا۔
“خیر مبارک۔”
انہوں نے خاصی مسرت سے اس کی مبارک باد وصول کی۔
“میری بہو کا فون آیا تھا ، پوچھ رہی تھی کہ امی! آپ نام بتائیں۔میں تمہارا نام دے دوں؟”
اس نے بیک ویو مرر سے کچھ حیران ہو کر انہیں دیکھا۔
“دے دیں۔”
“چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔”
اماں جی اب اطمینان سے عینک اُتار کر اپنی بڑی سی چادر کے پلو سے اس کے شیشے صاف کرنے لگیں۔سالار کو ابھی تک کوئی رکشہ نظر نہیں آیا تھا۔
“عمر کتنی ہے تمہاری؟”انہوں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔
“تیس سال۔”
“شادی شدہ ہو؟”
سالار سوچ میں پڑ گیا۔وہ ہاں کہنا چاہتا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ ہاں کی صورت میں سوالات کا سلسلہ مزید دراز ہو جائے گا اس لئے بہتر یہی تھا کہ انکار کر دے اور اس کا یہ اندازہ اس دن کی سب سے فاش غلطی ثابت ہوا۔
“نہیں۔”
“شادی کیوں نہیں کی؟”
“بس ایسے ہی۔خیال نہیں آیا۔”اس نے جھوٹ بولا۔
“اچھا۔”
کچھ دیر خاموشی رہی۔سالار دعائیں کرتا رہا کہ اسے رکشہ جلدی مل جائے۔اسے دیر ہو رہی تھی۔
“کیا کرتے ہو تم؟”
“میں بینک میں کام کرتا ہوں۔”
“کیا کام کرتے ہو؟”
سالار نے اپنا عہدہ بتایا۔اسے اندازہ تھا کہ اماں جی کے اوپر سے گزرے گا مگر وہ اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔
“یہ افسر ہوتا ہے نا؟”
وہ بےاختیار ہنسا۔اس سے زیادہ اچھی وضاحت کوئی اس کے کام کی نہیں دے سکتا تھا۔
“جی ا ماں جی!”افسر” ہوتا ہے۔”وہ محفوظ ہوا۔
“کتنا پڑھے ہو تم؟”
“سولہ جماعتیں۔”
اس بار سالار نے اماں جی کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو آسان لفظوں میں پیش کیا۔اماں جی کا جواب اس بار بھی حیران کن تھا۔
“یہ کیا بات ہوئی سولہ جماعتیں۔۔۔۔۔؟ایم بی اے کیا ہے یا ایم اے اکنامکس؟”
سالار نے بےاختیار پلٹ کر اماں جی کی کو دیکھا۔وہ اپنی عینک کے شیشوں سے اسے گھور رہی تھیں۔
“اماں جی! آپ کو پتا ہے ایم بی اے کیا ہوتا ہے یا ایم اے اکنامکس کیا ہوتا ہے؟”وہ واقعی حیران تھا۔
“لو مجھے نہیں پتا ہو گا؟میرے بڑے بیٹے نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ادھر پاکستان سے پھر انگلینڈ جا کر اس نے ایم بی اے کیا۔وہ بھی بینک میں ہی کام کرتا ہے مگر ادھر انگلینڈ میں۔اسی کا تو بیٹا ہوا ہے۔”
سالار نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے گردن واپس موڑ لی۔
“تو پھر تم نے بتایا نہیں؟”
“کیا؟”
سالار کو فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ انہوں نے کیا پوچھا تھا۔
“اپنی تعلیم کے بارے میں؟”
“میں نے ایم بی اے کیا ہے۔”
“کہاں سے؟”
“امریکہ سے۔”
“اچھا۔۔۔۔ماں باپ ہیں تمہارے؟”
“جی۔”
“کتنے بہن بھائی ہیں؟”سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
“پانچ۔”سالار کو کوئی جائے فرار نظر نہیں آ رہی تھی۔
“کتنی بہنیں اور کتنے بھائی؟”
“ایک بہن اور چار بھائی۔”
“شادیاں کتنوں کی ہوئی ہیں؟”
“میرے علاوہ سب کی۔”
“تم سب سے چھوٹے ہو؟”
“نہیں ، چوتھے نمبر پر ہوں۔ایک بھائی چھوٹا ہے۔”
سالار کو اب پہلی بار اپنے “سوشل ورک” پر پچھتاوا ہونے لگا۔
“اس کی بھی شادی ہو گئی؟”
“جی۔”
“تو پھر تم نے شادی کیوں نہیں کی؟کوئی محبت کا چکر تو نہیں؟”
اس بار سالار کے پیروں کے نیچے سے حقیقت میں زمین کھسک گئی۔وہ ان کی قیافہ شناسی کا قائل ہونے لگا۔
“اماں جی! رکشہ نہیں مل رہا۔آپ مجھے ایڈریس بتا دیں ، میں آپ کو خود چھوڑ آتا ہوں۔”سالار نے ان کے سوال کا جواب گول کر دیا۔
دیر تو اسے پہلے ہی ہو چکی تھی اور رکشے کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا اور وہ اس بوڑھی خاتون کو کہیں سڑک پر بھی کھڑا نہیں کر سکتا تھا۔
اماں جی نے اسے پتا بتایا۔
سالار کی سمجھ میں نہیں آیا۔ایک چوک میں کھڑے ٹریفک کانسٹیبل کو اس نے وہ پتا دوہرا کر مدد کرنے کے لئے کہا۔کانسٹیبل نے اسے علاقے کا رستہ سمجھایا۔
سالار نے دوبارہ گاڑی چلانا شروع کی۔
“تو پھر تم نے مجھے بتایا نہیں کہ کہیں محبت کا چکر تو نہیں تھا؟”
سالار کا دل چاہا کہیں ڈوب کر مر جائے۔وہ خاتون ابھی تک اپنا سوال نہیں بھولی تھیں جبکہ وہ صرف اس سوال کے جواب سے بچنے کے لئے انہیں گھر چھوڑنے پر تیار ہوا تھا۔
“نہیں اماں جی! ایسی کوئی بات نہیں۔”
اس نے اس بار سنجیدگی سے کہا۔
“الحمدللہ۔”وہ اماں جی کی اس “الحمدللہ” کا سیاق و سباق سمجھ نہیں پایا تھا اور اس نے اس کا تردد بھی نہیں کیا۔
اماں جی اب اس کے ماں باپ کے بارے میں کرید کرید کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش فرما رہی تھیں۔سالار واقعی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔
سب سے بڑی گڑبڑ اس وقت ہوئی جب وہ اماں جی کے بتائے ہوئے علاقے میں پہنچا اور اس نے اماں جی سے مطلوبہ گلی کی طرف رہنمائی کرنے کی درخواست فرمائی اور اماں جی نے کمال اطمینان سے کہا۔
“اب یہ تو مجھے پتہ ہے کہ اس علاقے میں گھر ہے مگر پتہ مجھے معلوم نہیں۔”
وہ بھونچکا رہ گیا۔
“اماں جی! تو گھر کیسے پہنچاؤں میں آپ کو۔پتے کے بغیر اس علاقے میں آپ کو کہاں ڈراپ کروں؟”
وہ اپنے گھر پر لکھا نمبر اور نام بتانے لگیں۔
“نہیں اماں جی! آپ مجھے گلی کا نام بتائیں۔”
وہ گلی کے نام کی بجائے نشانیاں بتانے لگیں۔
“حلوائی کی ایک دکان ہے گلی کے کونے میں۔۔۔۔۔بہت کھلی گلی ہے۔۔۔۔۔پرویز صاحب کا گھر بھی وہیں ہے ، جن کے بیٹے نے جرمنی میں شادی کی ہے پچھلے ہفتے۔۔۔۔۔پہلی بیوی اس کی ادھر ہی ہے ہمارے محلے میں۔۔۔۔۔شادی کی اطلاع ملنے پر بےچاری نے رو رو کر محلہ سر پر اُٹھا لیا۔”وہ نشانیاں بتاتے بتاتے کہیں اور نکل گئیں۔
سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کر دی۔
“اماں جی! آپ کے شوہر کا کیا نام ہے؟گھر کے بارے میں اور گلی کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتائیں ، اس طرح تو میں کبھی بھی آپ کو گھر نہیں پہنچا سکوں گا۔”
اس نے تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا۔
“میں سعیدہ اماں کے نام سے جانی جاتی ہوں۔میاں بیچارے تو دس سال پہلے فوت ہو گئے۔ان کو تو لوگ بھول بھال گئے اور گلی کا میں تمہیں بتا رہی ہوں ، بہت بڑی گلی ہے۔تین دن پہلے گٹر کے دو ڈھکن لگا کر گئے ہیں ، بالکل نئے۔سیمنٹ سے جوڑ کر گئے ہیں۔ہر ماہ کوئی نہ کوئی اُتار کر لے جاتا تھا ، اب بےفکری ہو گئی ہے۔”
سالار نے بےاختیار گہرا سانس لیا۔
“اماں جی! کیا میں کہہ کر لوگوں سے آپ کی گلی کا پوچھوں کہ گٹر کے دو نئے ڈھکنوں والی گلی آپ وہاں کے کسی ایسے شخص کا نام بتائیں جسے لوگ جانتے ہوں جو قدرے معروف ہو۔”
“وہ مرتضیٰ صاحب ہیں جن کے بیٹے مظفر کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی کل صبح۔”
“اماں جی! یہ کوئی تعارف نہیں ہوتا۔”
وہ اس کی بات پر برا مان گئیں۔
“لو بھلا، اب کیا ہر گھر میں ٹانگ ٹوٹتی ہے کسی نا کسی کی۔”
سالار چپ چاپ گاڑی سے اتر گیا۔ آس پاس کی دوکانوں سے اس نے سعیدہ اماں کے بتائے ہوئے “کوائف” کے مطابق گلی تلاش کرنا شروع کی، مگر جلد ہی اسے پتا چل گیا کہ ان نشانیوں کے ساتھ وہ کم از کم آج کی تاریخ میں گھر نہیں ڈھونڈ سکتا۔
وہ مایوس ہو کر واپس لوٹا۔
“اماں جی! گھر میں فون ہے آپ کے؟ گاڑی کے اندر گھستے ہی اس نے پوچھا۔
“ہاں ہے۔”
سالار نے سکون کا سانس لیا۔
“اس کا نمبر بتائیں مجھے۔” سالار نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
“نمبر کا تو مجھے نہیں پتا۔”
وہ ایک بار پھر دھک سے رہ گیا۔
“فون نمبر بھی نہیں پتا۔؟ اس نے شدید صدمے کے عالم میں کہا۔
“بیٹا! میں نے کون سا کبھی فون کیا ہے۔ میرے بیٹے خود کر لیتے ہیں، رشتہ دار بھی خود کر لیتے ہیں یا ضرورت ہو تو بیٹی فون ملا دیتی ہے۔”
“ادھر ماڈل ٹاؤن میں کس کے پاس گئی تھیں؟”
سالار کو یک دم خیال آیا۔
“ادھر کچھ رشتہ دار ہیں میرے۔ پوتے کی مٹھائی دینے گئی تھی۔”
انہوں نے فخریہ بتایا۔
سالار نے سکون کا سانس لیتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔
“ٹھیک ہے ادھر ہی چلتے ہیں۔ وہاں کا پتہ بتائیں۔”
“پتہ تو مجھے نہیں پتا۔”
سالار اس بار صدمے سے کچھ دیر کے لئے بول بھی نہ سکا۔
“تو پھر گئیں کیسے تھیں آپ؟”
“بیٹا! اصل میں جہاں جانا ہو ہمسائے کے بچے چھوڑ آتے ہیں، ان ہی کو گھر کا پتہ ہے۔ پچھلے دس سال سے مجھے وہی لے کر جا رہے ہیں۔ وہ چھوڑ آتے ہیں اور پھر وہاں سے بلال وغیرہ واپس چھوڑ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ بلال وغیرہ بھی پہلے میرے محلے میں ہی رہتے تھے۔ یہی کوئی دس بارہ سال پہلے ادھر گئے ہیں اس لئے میرے پورے محلے کو ان کے گھر کا پتا ہے۔”
سالار نے کچھ نہیں کہا۔ اسے اب بھی امید تھی کہ جہاں سے اس نے ان خاتون کو پک کیا ہے بلال وغیرہ کا گھر وہیں کہیں ہو گا۔
سعیدہ اماں کی گفتگو جاری تھی۔
“آج تو ایسا ہوا کہ بلال کے گھر پر کوئی تھا ہی نہیں، صرف ملازمہ تھی ۔ میں کچھ دیر بیٹھی رہی پھر بھی وہ لوگ نہیں آئے تو میں نے سوچا خود گھر چلی جاؤں اور پھر ماشاءاللہ تم مل گئے۔”
“اماں جی! آپ رکشے والے کو کیا بتاتیں؟”
“وہی جو تمہیں بتایا ہے۔”
وہ ان کی ذہانت پر باغ باغ ہو گیا۔
“اس سے پہلے کبھی آپ اس طرح پتہ بتا کر گھر پہنچی ہیں؟”
اس نے قدرے افسوس بھرے لہجے میں گاڑی ریورس کرتے ہوئے پوچھا۔
“نہ ۔۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔ضرورت ہی نہیں پڑی۔”
سعیدہ اماں کا اطمینان قابل رشک تھا۔ سالار مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سڑک پر لے آیا۔
“اب تم کہاں جا رہے ہو؟”
سعیدہ اماں زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکیں۔
“جہاں سے میں نے آپ کو لیا تھا گھر اسی سڑک پر ہو گا،آپ نے کوئی ٹرن تو نہیں لیا تھا؟”
سالار نے بیک ویو مرر سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں، میں نے نہیں لیا۔”
سعیدہ اماں نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
سالار نے ان کے لہجے پر غور نہیں کیا۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کا مطلب تھا گھر اس سڑک پر ہی کہیں تھا اور گلیوں کی نسبت کالونی میں گھر تلاش کرنا آسان تھا۔ وہ بھی اس صورت میں جب اسے صرف ایک سڑک کے گھر دیکھنے تھے۔
“تم سگریٹ پیتے ہو؟”
خاموشی یک دم ٹوٹی۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے چونک گیا۔
“میں۔۔۔۔۔؟”
اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی بیک ویو مرر میں ہی دیکھ رہی تھیں۔
“آ۔۔۔۔۔ نہیں۔”
وہ سوال کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
“کوئی اور نشہ وغیرہ۔”
وہ اس بار سوال سے زیادہ ان کی بے تکلفی پر حیران ہوا تھا۔
“آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
“بس ویسے ہی۔اب اتنا لمبا راستہ میں خاموش کیسے رہوں گی۔”
انہوں نے اپنی مجبوری بتائی۔
“آپ کو کیا لگتا ہے، میں کرتا ہوں گا کوئی نشہ؟”
سالار نے جواباً ان سے پوچھا۔
“نہیں، کہاں۔۔۔۔۔اسی لئے تو میں پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ تو پھر نہیں کرتے؟”
ان کے انداز نے اس بار سالار کو محظوظ کیا۔
“نہیں۔” اس نے مختصراً کہا۔ وہ اب سگنل پر رکے ہوئے تھے۔
“کوئی گرل فرینڈ ہے؟” سالار کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس نے پلٹ کر سعیدہ اماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“آپ نے کیا پوچھا ہے؟”
“میں نے کہا، کوئی گرل فرینڈ ہے؟” سعیدہ اماں نے “گرل فرینڈ” پر زور دیتے ہوئے کہا۔
سالار کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
“آپ تو پتا ہے گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے؟”
سعیدہ اماں اس کے سوال پر برا مان گئیں۔
“کیوں بھئی۔۔۔۔۔ دو بیٹے ہیں میرے، مجھے نہیں پتا ہو گا کہ گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے۔ جب انہیں باہر پڑھنے کے لئے بھیجا تھا تو کہہ کر بھیجا تھا میرے شوہر نے کہ گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہئیے اور پھر مہینے میں ایک بار فون آتا تھا دونوں کا۔”
سگنل کھل گیا۔ سالار مسکراتے ہوئے سیدھا ہو گیا اور ایکسیلیٹر پر پاؤں دبا دیا۔
سعیدہ اماں نے بات جاری رکھی۔
“میں دونوں سے کہتی تھی کہ قسم کھا کر بتائیں، انہوں نے کوئی گرل فرینڈ بنائی تو نہیں۔ جب تک شادیاں نہیں ہو گئیں۔ ہر بار فون پر سب سے پہلے دونوں قسم کھا کر یہی بتایا کرتے تھے مجھے۔ سلام بھی بعد میں کیا کرتے تھے۔”
وہ فخریہ انداز میں بتاتی جا رہی تھیں۔
“بڑے تابعدار بچے ہیں میرے، دونوں نے گرل فرینڈ نہیں بنائی۔”
“آپ نے اپنی پسند سے دونوں کی کہیں شادیاں کی ہیں؟”
سالار نے پوچھا۔
“نہیں، دونوں نے ادھر ہی اپنی پسند سے شادیاں کی ہیں۔”
انہوں نے سادگی سے کہا۔ سالار کے حلق سے بے اختیار قہقہہ نکلا۔
“کیا ہوا؟” سعیدہ اماں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں، آپ کی بہوئیں انگریز ہیں؟”
“نہیں، پاکستانی ہیں مگر وہیں رہتی تھیں۔ میرے بیٹوں کے ساتھ کام کرتی تھیں مگر تم ہنسے کیوں؟”
سعیدہ اماں نے اپنا سوال دہرایا۔
“کوئی خاص بات نہیں۔”
سعیدہ اماں کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے کہا۔
“تو تم نے بتایا نہیں کہ گرل فرینڈ۔۔۔۔۔”
سالار نے بات کاٹ دی۔
“نہیں ہے سعیدہ اماں! گرل فرینڈ بھی نہیں ہے۔”
“ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔” وہ ایک بار پھر اس ماشاءاللہ کا سیاق وسباق سمجھنے میں ناکام رہا۔
“گھر اپنا ہے؟”
“نہیں کرائے کا ہے۔”
“کوئی ملازم وغیرہ ہے؟”
“مستقل تو نہیں ہے مگر صفائی وغیرہ کے لئے ملازم رکھا ہوا ہے۔”
“اور یہ گاڑی تو اپنی ہی ہو گی؟”
“جی۔”
“اور تنخواہ کتنی ہے؟”
سالار روانی سے جواب دیتے دیتے ایک بار پھر چونکا۔ گفتگو کس نوعیت پر جا رہی تھی، فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
“سعیدہ اماں! آپ یہاں اکیلی کیوں رہتی ہیں۔ اپنے بیٹوں کے پاس کیوں نہیں چلی جاتیں؟”
سالار نے موضوع بدلا۔
“ہاں، میرا یہی ارادہ ہے۔ پہلے تو میرا دل نہیں چاہتا تھا مگر اب یہ سوچا ہے کہ بیٹی کی شادی کر لوں تو پھر باہر چلی جاؤں گی۔ اکیلے رہتے رہتے تنگ آ گئی ہوں۔”
سالار اب اس سڑک پر آ گیا تھا جہاں سے اس نے سعیدہ اماں کو پک کیا تھا۔
“میں نے آپ کو یہاں سے لیا تھا۔ آپ بتائیں، ان میں سے کون سا گھر ہے؟” سالار نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے دائیں طرف کے گھروں پر نظر ڈالی۔
“نمبر کا نہیں پتا، گھر کی تو پہچان ہو گی آپ کو؟”
سعیدہ اماں بغور گھروں کو دیکھ رہی تھیں۔
“ہاں۔۔۔۔ ہاں گھر کی پہچان ہے۔”
وہ گھر کی نشانیاں بتانے لگیں جو اتنی ہی مبہم تھیں، جتنا ان کے اپنے گھر کا پتہ۔ وہ سڑک کے آخری سرے پر پہنچ گئے۔ سعیدہ اماں گھر نہیں پہچان سکیں۔ سالار، بلال کے والد کا نام پوچھ کر گاڑی سے نیچے اتر گیا اور باری باری دونوں اطراف کے گھروں سے سعیدہ اماں کے بارے میں پوچھنے لگا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ اس سڑک پر موجود ہر گھر میں جا چکا تھا۔ مطلوبہ نام کے کسی آدمی کا گھر وہاں نہیں تھا۔
“آپ کو ان کا نام ٹھیک سے یاد ہے؟”
وہ تھک ہار کر سعیدہ اماں کے پاس آیا۔
“ہاں ۔۔۔۔ لو بھلا اب مجھے نام بھی پتا نہیں ہو گا۔”
سعیدہ اماں نے برا مانا۔
“لیکن اس نام کے کسی آدمی کا گھر یہاں نہیں ہے، نہ ہی کوئی آپ کے بارے میں جانتا ہے۔”
سالارنے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“ہاں تو۔۔۔۔۔ یہ ساتھ والی سڑک پر دیکھ لو۔”
سعیدہ اماں نے کچھ فاصلے پر ایک اور سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
“لیکن سعیدہ اماں! آپ نے کہا تھا کہ گھر اسی سڑک پر ہے۔” سالار نے کہا۔
“میں نے کب کہا تھا؟” وہ متعرض ہوئیں۔
“میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے ٹرن تو نہیں لیا۔ آپ نے کہا نہیں۔”سالار نے انہیں یاد کرایا۔
“وہ تو میں نے کہا تھا مگر یہ ہوتا کیا ہے؟”
سالار کا دل ڈوبا۔
“ٹرن؟”
“ہاں یہی۔”
“آپ کسی اور سڑک سے تو مڑ کر یہاں نہیں آئیں؟”
“لو تو اس طرح کہو نا۔” سعیدہ اماں کو تسلی ہوئی۔
“میں کیوں یہاں بیٹھ گئی تھی۔ تھک گئی تھی چل چل کر اور یہ سڑک تو چھوٹی سی ہے۔ یہاں میں چل کر کیا تھک سکتی تھی؟”
سالار نے گاڑی سٹارٹ کر لی۔ وہ دن بہت خراب تھا۔
“کس سڑک سے مڑ کر یہاں آئیں تھیں آپ؟”
اس نے سعیدہ اماں سے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی۔
“میرا خیال ہے۔۔۔۔۔” وہ پہلی سڑک کو دیکھتے ہوئے الجھیں۔
“یہ ہے۔” انہوں نے کہا۔
سالار کو یقین تھا وہ سڑک نہیں ہو گی مگر اس نے گاڑی اس سڑک پر موڑ لی۔ یہ تو طے تھا کہ آج اس کا سارا دن اسی طرح ضائع ہونا تھا۔
اگلا ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ آس پاس کی مختلف سڑکوں پر سعیدہ اماں کو لے کر پھرتا رہا مگر اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ سعیدہ اماں کو ہی گھر دور سے شناسا لگتا۔ پاس جانے پر وہ کہنا شروع کر دیتیں۔
“نہ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہے۔”
وہ بالآخر کالونی میں تلاش چھوڑ کر انہیں واپس اسی محلہ میں لے آیا جہاں وہ پہلے ان کا گھر ڈھونڈتا رہا تھا۔
مزید ایک گھنٹہ وہاں ضائع کرنے کے بعد جب وہ تھک کر واپس گاڑی کے پاس آیا تو شام ہو چکی تھی۔
سعیدہ اماں اس کے برعکس اطمینان سے گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
“ملا؟”
انہوں نے سالار کے اندر بیٹھتے ہی پوچھا۔
“نہیں، اب تو رات ہو رہی ہے۔ تلاش بے کار ہے۔ میں پولیس میں رپورٹ کرا دیتا ہوں آپ کی۔ آپ کی بیٹی یا آپ کے محلے والے آپ کے نہ ملنے پر پولیس سے رابطہ تو کریں گے ہی۔۔۔۔۔ پھر وہ لے جائیں گے آپ کو۔”
سالار نے ایک بار پھر گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے تجویز پیش کی۔
“چچ۔۔۔۔۔چچ۔۔۔۔۔ آمنہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی۔”
سعیدہ اماں کو اپنی بیٹی کا خیال آیا۔ سالار کا دل چاہا وہ ان سے کہے کہ وہ ان کی بیٹی سے زیادہ پریشان ہے مگر وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتے ہوئے گاڑی پولیس سٹیشن لے آیا۔
رپورٹ درج کرانے کے بعد وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔ سعیدہ اماں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“آپ بیٹھیں۔۔۔۔۔ آپ یہیں رہیں گی۔”
سالار نے ان سے کہا۔
“نہیں۔۔۔۔۔ ہم انہیں یہاں کہاں رکھیں گے، آپ انہیں ساتھ لے جائیں، ہم نے کسی سے رابطہ کیا تو ہم انہیں آپ کا پتہ دے دیں گے۔” پولیس انسپکٹر نے کہا۔

“لیکن میں تو انہیں آپ کے حوالے کر دینا چاہتا ہوں۔” سالار معترض ہوا۔
“دیکھیں، بوڑھی خاتون ہیں، اگر کوئی رابطہ نہیں کرتا ہم سے تو رات کہاں رہیں گی یہ۔۔۔۔۔ اور اگر کچھ دن اور گزر گئے۔۔۔۔۔”
پولیس انسپکٹر کہتا گیا۔ سعیدہ اماں نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
“نہیں، مجھے ادھر نہیں رہنا۔ بیٹا! میں تمہارے ساتھ ہی چلوں گی۔ میں ادھر کہاں بیٹھوں گی آدمیوں میں۔”
سالار نے انہیں پہلی بار گھبراتے ہوئے دیکھا۔
“لیکن میں تو۔۔۔۔۔ اکیلا رہتا ہوں، وہ کہتے کہتے رک گیا، پھر اسے فرقان کے گھر کا خیال آیا۔
“اچھا ٹھیک ہے چلیں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
باہر گاڑی میں آکر اس نے موبائل پر فرقان سے رابطہ قائم کیا۔ وہ انہیں فرقان کے ہاں ٹھہرانا چاہتا تھا۔ فرقان ابھی ہاسپٹل میں ہی تھا۔ اس نے موبائل پر ساری صورت حال اسے بتائی۔
“نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔” فرقان نے اسے بتایا۔


نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔” فرقان نے اسے بتایا۔
“مگر کوئی مسئلہ نہیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ انہیں اپنے فلیٹ پر لے جاؤں گا۔ وہ کون سی کوئی نوجوان خاتون ہیں کہ مسئلہ ہو جائے گا۔ تم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی محتاط ہو رہے ہو۔”
“نہیں، میں ان کے آرام کے حوالے سے کہہ رہا تھا۔ آکورڈ نہ لگے انہیں۔” سالار نے کہا۔
“نہیں لگتا یار! پوچھ لینا تم ان سے، ورنہ پھر کسی ساتھ والے فلیٹ میں ٹھہرا دیں گے، عالم صاحب کی فیملی کے ساتھ۔”
“اچھا، تم آؤ پھر دیکھتے ہیں۔”
سالار نے موبائل بند کرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں بیٹا! میں تمہارے پاس ہی رہ لوں گی، تم میرے بیٹے کے برابر ہو مجھے اعتماد ہے تم پر۔”
سعیدہ اماں نے مطمئن لہجے میں کہا۔
سالار نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اس نے راستے میں رک کر ایک ریسٹورنٹ سے کھانا لیا۔ بھوک سے اس کا برا حال ہو رہا تھا اور یک دم اسے احساس ہوا کہ سعیدہ اماں بھی دوپہر سے اس کے ساتھ کچھ کھائے پئیے بغیر ہی پھر رہی ہیں۔ اسے ندامت کا احساس ہوا۔ اپنے فلیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے راستے میں ایک جگہ رک کر سعیدہ اماں کے ساتھ سیب کا تازہ جوس پیا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی بوڑھے شخص کے ساتھ اتنا وقت گزار رہا تھا اور اسے احساس ہو رہا تھا کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔
فلیٹ میں پہنچ کر وہ ابھی سعیدہ اماں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا جب فرقان آ گیا۔
اس نے سعیدہ اماں سے خود ہی اپنا تعارف کرایا اور پھر کھانا کھانے لگا۔ چند منٹوں میں ہی وہ سعیدہ اماں کے ساتھ اتنی بے تکلفی کے ساتھ ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کر رہا تھا کہ سالار کو رشک آنے لگا۔ اس نے فرقان سے اچھی گفتگو کرنے والا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے گفتگو کے انداز میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ دوسرا اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دینے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اتنے سالوں سے دوستی کے باوجود وہ فرقان کی طرح گفتگو کرنا نہیں سیکھ سکا تھا۔
دس منٹ بعد وہ وہاں خاموشی سے کھانا کھانے والے ایک سامع کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جبکہ فرقان اور سعیدہ اماں مسلسل گفتگو میں مصروف تھے۔ سعیدہ اماں یہ جان کر کہ فرقان ڈاکٹر ہے، اس سے طبی مشورے لینے میں مصروف تھیں۔ کھانے کے خاتمے تک وہ فرقان کو مجبور کر چکی تھیں کہ وہ اپنا میڈیکل باکس لا کر ان کا چیک اپ کرے۔
فرقان نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ اونکولوجسٹ تھا۔ وہ بڑی تحمل مزاجی سے اپنا بیگ لے آیا۔ اس نے سعیدہ اماں کا بلڈ پریشر چیک کیا پھر اسٹیتھو سکوپ سے ان کے دل کی رفتار کو ماپا اور آخر میں نبض چیک کرنے کے بعد انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ بے حد تندرست حالت میں ہیں اور بلڈ پریشر یا دل کی کوئی بیماری انہیں نہیں ہے۔
سعیدہ اماں ایک دم بے حد ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔ سالار ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتے ہوئے کچن میں برتن دھوتا رہا۔ وہ دونوں لاونج کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
پھر اسی دوران اس نے فون کی گھنٹی سنی۔ فرقان نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ڈاکٹر سبط علی تھے۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
“سالار نے پولیس اسٹیشن پر کسی سعیدہ نام کی خاتون کے بارے میں اطلاع دی تھی۔”
فرقان حیران ہوا۔
“جی وہ یہیں ہیں، ہمارے پاس۔”
“اللہ کا شکر ہے۔” ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار کہا۔
“ہاں، وہ میری عزیزہ ہیں، ہم انہیں تلاش کر رہے تھے چند گھنٹوں سے۔ پولیس سے رابطہ کیا تو سالار کا نام اور نمبر دے دیا انہوں نے۔”
فرقان نے انہیں سعیدہ اماں کے بارے میں بتایا اور پھر سعیدہ اماں کی بات فون پر ان سے کرائی۔ سالار بھی باہر لاؤنج میں آ گیا۔
سعیدہ اماں فون پر گفتگو میں مصروف تھیں۔
“ڈاکٹر صاحب کی عزیزہ ہیں یہ۔”
فرقان نے دھیمی آواز میں اس کے قریب آ کر کہا۔
“ڈاکٹر سبط علی صاحب کی؟” سالار حیران ہوا۔
“ہاں، ان ہی کی۔”
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
“بھائی صاحب کہہ رہے ہیں تم سے بات کرانے کو۔”
سعیدہ اماں نے فرقان سے کہا۔
فرقان تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ریسیور لے کر کاغذ پر کچھ نوٹ کرنے لگا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے ایڈریس لکھوا رہے تھے۔
سعیدہ اماں نے قدرے حیرانی سے لاؤنج کے دروازے میں کھڑے سالار کو دیکھا۔
“تم کیا کر رہے ہو؟” ان کی نظریں سالار کے ایپرن پر جمی تھیں۔
وہ کچھ شرمندہ ہو گیا۔
“میں ۔۔۔۔۔ برتن دھو رہا تھا۔”
سالار واپس کچن میں آیا اور اس نے ایپرن اتار دیا۔ ویسے بھی برتن وہ تقریباً دھو چکا تھا۔
“سالار! آؤ پھر انہیں چھوڑ آتے ہیں۔”
اسے اپنے عقب میں فرقان کی آواز آئی۔
“یہ کام بعد میں کر لینا۔”
“تم گاڑی کی چابی لو، میں ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔” سالار نے کہا۔
اگلے دس منٹ میں وہ نیچے سالار کی گاڑی میں تھے۔ فرقان اگلی سیٹ پر تھا اور اس کے باوجود پچھلی سیٹ پر بیٹھی سعیدہ اماں سے گفتگو میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ وہ سالار کو راستے کے بارے میں ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا۔
بہت تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ بیس منٹ میں مطلوبہ محلے اور گلی میں تھے۔ بڑی گلی میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد وہ دونوں انہیں اندر گلی میں ان کے گھر تک چھوڑنے گئے۔ سعیدہ اماں کو اب رہنمائی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی گلی کو پہچانتی تھیں۔
وہ فخریہ انداز میں کچھ جتاتے ہوئے سالار کو بتاتی گئیں۔
“حلوائی کی دوکان۔۔۔۔۔ گٹر کے سیمنٹ والے ڈھکن۔۔۔۔۔ پرویز صاحب کا گھر۔۔۔۔۔”
“جی!” سالار مسکراتے ہوئے سر ہلاتا رہا۔
اس نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ ان کی بتائی ہوئی ساری نشانیاں صحیح تھیں۔ صرف وہ اسے ایک غلط علاقے میں لے گئی تھیں۔
“آمنہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی۔” انہوں نے سرخ اینٹ کی بنی ہوئی ایک حویلی نما دو منزلہ مکان کے سامنے رکتے ہوئے275 دفعہ کہا۔
فرقان نے آگے بڑھ کر بیل بجائی۔ سالار قدرے ستائشی انداز میں حویلی پر نظریں دوڑاتا رہا۔ وہ یقیناً کافی پرانی حویلی تھی مگر مسلسل دیکھ بھال کی وجہ سے وہ اس گلی میں سب سے باوقار لگ رہی تھی۔
“تم لوگوں کو اب میں نے چائے پئیے بغیر نہیں جانے دینا۔” سعیدہ اماں نے کہا۔
“میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوئی۔ خاص طور پر سالار کو۔ بچہ مجھے سارا دن لیے پھرتا رہا۔” سعیدہ اماں نے سالار کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں، سعیدہ اماں! چائے ہم پھر کبھی پئیں گے، آج ہمیں دیر ہو رہی ہے۔”
“ہاں سعیدہ اماں! آج چائے نہیں پئیں گے۔ کبھی آ کر آپ کے پاس کھانا کھائیں گے۔”
فرقان نے بھی جلدی سے کہا۔
“دیکھ لینا، ایسا نہ ہو کہ یاد ہی نہ رہے تمہیں۔”
“لیں، بھلا کھانا کیسے بھولیں گے ہم۔ وہ جو آپ پالک گوشت کی ترکیب بتا رہی تھیں، وہی بنا کر کھلائیے گا۔”
فرقان نے کہا۔ اندر سے قدموں کی آواز آ رہی تھی۔ سعیدہ اماں کی بیٹی دروازہ کھولنے آ رہی تھی اور اس نے دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی سعیدہ اماں اور فرقان کی آوازیں سن لی تھیں، اس لئے اس نے کچھ بھی پوچھے بغیر دروازے کا بولٹ اندر سے اتارتے ہوئے دروازہ تھوڑا سا کھول دیا۔
“اچھا سعیدہ اماں! خدا حافظ۔” فرقان نے سعیدہ اماں کو دروازے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ سالار اس سے پہلے ہی پلٹ چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرتے ہوئے سالار نے فرقان سے کہا۔
“تمہاری سب سے ناپسندیدہ ڈش، پالک گوشت ہے اور تم ان سے کیا کہہ رہے تھے؟”
فرقان نے قہقہہ لگایا۔”کہنے میں کیا حرج ہے، ویسے ہو سکتا ہے وہ واقعی میں اتنا اچھا پکائیں کہ میں کھانے پر مجبور ہو جاؤں۔”
“تم جاؤ گے ان کے گھر؟”
سالار گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے حیران ہوا۔
“بالکل جاؤں گا، وعدہ کیا ہے میں نے اور تم نے۔”
“میں تو نہیں جاؤں گا۔” سالار نے انکار کیا۔
“جان نہ پہچان، منہ اٹھا کر ان کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاؤں۔”
“ڈاکٹر سبط علی صاحب کی فرسٹ کزن ہیں وہ اور مجھ سے زیادہ تو تمہاری جان پہچان ہے ان کے ساتھ۔” فرقان نے کہا۔
“وہ اور معاملہ تھا، انہیں مدد کی ضرورت تھی، میں نے کر دی اور بس اتنا کافی ہے۔ ان کے بیٹے یہاں ہوتے تو اور بات تھی لیکن اس طرح اکیلی عورتوں کے گھر تو میں کبھی نہیں جاؤں گا۔” سالار سنجیدہ تھا۔
“میں کون سا اکیلا جانے والا ہوں یار! بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ جانتا ہوں میرا اکیلا ان کے ہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ نوشین بھی ان سے مل کر خوش ہو گی۔”
“ہاں،بھابھی کے ساتھ چلے جانا، کوئی حرج نہیں۔” سالار مطمئن ہوا۔
“میں جاؤں۔۔۔۔۔؟ تم کو بھی تو ساتھ چلنا ہے، انہوں نے تمہیں بھی دعوت دی ہے۔”
“میں تو نہیں جاؤں گا، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ تم ہو آنا، کافی ہے۔” سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
“تم ان کے خاص مہمان ہو، تمہارے بغیر تو سب کچھ پھیکا رہے گا۔”
سالار کو اس کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔
“کیا مطلب؟”
“میرا خیال ہے انہیں تم داماد کے طور پر پسند آ گئے ہو۔”
“فضول باتیں مت کرو۔” سالار نے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
“اچھا۔۔۔۔۔ دیکھ لینا، پروپوزل آئے گا تمہارا اس گھر سے۔ سعیدہ اماں کو تم ہر طرح سے اچھے لگے ہو۔ ہر بات پوچھی ہے انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں۔ یہ بھی کہ تمہارا شادی کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں اور ہے تو کب تک کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا کہ جیسے ہی کوئی اچھا پروپوزل ملا وہ فوراً کر لے گا پھر وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بتانے لگیں۔ اب جتنی تعریفیں وہ اپنی بیٹی کی کر رہی تھیں اگر ہم اس میں سے پچاس فیصد بھی سچ سمجھ لیں تو بھی وہ لڑکی۔۔۔۔۔ کیا نام لے رہی تھیں۔۔۔۔۔ ہاں آمنہ۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بہترین ہو گی۔”
“شرم آنی چاہئیے تمہیں ڈاکٹر سبط علی صاحب کی رشتہ دار ہیں وہ اور تم ان کے بارے میں فضول باتیں کر رہے ہو۔” سالار نے اسے جھڑکا۔
فرقان سنجیدہ ہو گیا۔
“میں کوئی غلط بات نہیں کر رہا ہوں، تمہارے لئے تو یہ اعزاز کی بات ہونی چاہئیے کہ تمہاری شادی ڈاکٹر سبط علی صاحب کے خاندان میں ہو۔۔۔۔۔”
“جسٹ اسٹاپ اٹ فرقان! یہ مسئلہ کافی ڈسکس ہو گیا، اب ختم کرو۔” سالار نے سختی سے کہا۔
“چلو ٹھیک ہے، ختم کرتے ہیں پھر کبھی بات کریں گے۔”
فرقان نے اطمینا ن سے کہا۔ سالار نے گردن موڑ کر چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
“ڈرائیونگ کر رہے ہو، سڑک پر دھیان رکھو۔” فرقان نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ سالار کچھ ناراضی کے عالم میں سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سعیدہ اماں کے ساتھ ان کا رابطہ وہیں ختم نہیں ہوا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ ایک شام ڈاکٹر سبط علی کے ہاں تھے جب انہوں نے اپنے لیکچر کے بعد ان دونوں کو روک لیا۔
“سعیدہ آپا آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں، مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں آپ لوگوں کے ہاں انہیں لے جاؤں، میں نےا ن کو بتایا کہ شام کو وہ لوگ میری طرف آئیں گے، آپ یہیں مل لیں۔ آپ لوگوں نے شاید کوئی وعدہ کیا تھا ان کے ہاں جانے کا، مگر گئے نہیں۔”
فرقان نے معنی خیز نظروں سے سالار کو دیکھا۔ وہ نظریں چرا گیا۔
“نہیں، ہم لوگ سوچ رہے تھے مگر کچھ مصروفیت تھی اس لئے نہیں جا پائے۔” فرقان نے جواباً کہا۔
وہ دونوں ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ ان کے ڈرائینگ روم میں چلے آئے جہاں کچھ دیر بعد سعیدہ اماں بھی آ گئیں اور آتے ہی ان کی شکایات اور ناراضی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرقان انہیں مطمئن کرنے میں مصروف رہا جبکہ سالار خاموشی سے بیٹھا رہا۔
اگلے ویک اینڈ پر فرقان نے سالار کو سعیدہ اماں کی طرف جانے کے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ سالار کو اسلام آباد اور پھر وہاں سے گاؤ ں جانا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی مصروفیت بتا کر سعیدہ اماں سے معذرت کر لی۔
ویک اینڈ گزارنے کے بعد لاہور واپسی پر فرقان نے اسے سعیدہ اماں کے ہاں گزارے جانے والے وقت کے بارے میں بتایا۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں گیا تھا۔
“سالار! میں سعیدہ اماں کی بیٹی سے بھی ملا تھا۔”
فرقان نے بات کرتے ہوئے اچانک کہا۔
“بہت اچھی لڑکی ہے، سعیدہ اماں کے برعکس خاصی خاموش طبع لڑکی ہے۔ بالکل تمہاری طرح، تم دونوں کی بڑی اچھی گزرے گی۔ نوشین کو بھی بہت اچھی لگی ہے۔”
“فرقان! تم صرف دعوت تک ہی رہو تو بہتر ہے۔” سالار نے اسے ٹوکا۔
“میں بہت سیریس ہوں سالار!” فرقان نے کہا۔
“میں بھی سیریس ہوں۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔” تمہیں پتا ہے فرقان! تم جتنا شادی پر اصرار کرتے ہو، میرا شادی سے اتنا ہی دل اٹھتا جاتا ہے اور یہ سب تمہاری ان باتوں کی وجہ سے ہے۔”
سالار نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
“میری باتوں کی وجہ سے نہیں۔ تم صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم امامہ کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔”
فرقان یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
“اوکے۔۔۔۔۔ صاف صاف کہہ دیتا ہوں ، میں امامہ کی وجہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا پھر۔۔۔۔۔؟”
سالار نے سرد مہری سے کہا۔
“یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔” فرقان اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
“اوکے ، فائن۔ بچگانہ سوچ ہے پھر؟” سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
Then you should get rid of it (تب تمہیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئیے) ۔ فرقان نے نرمی سے کہا۔
I don’t want to get rid of it…. So? (میں اس سے چھٹکارا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ پھر؟)۔
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔ فرقان کچھ دیر لاجواب ہو کر اسے دیکھتا رہا۔
“میرے سامنے دوبارہ تم سعیدہ اماں کی بیٹی کی بات مت کرنا اور اگر تم سے وہ اس بارے میں بات کریں بھی تو تم صاف صاف کہہ دینا کہ مجھے شادی نہیں کرنی، میں شادی شدہ ہوں۔”
“اوکے، نہیں کروں گا اس بارے میں تم سے بات۔ غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
فرقان نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے صلح جوئی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں اس لئے تمہیں بلوایا ہے۔” سکندر نے مسکراتے ہوئے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ طیبہ کے ساتھ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے اور سالار ان کے فون کرنے پر اس ویک اینڈ اسلام آباد آیا ہوا تھا۔
سکندر عثمان نے قدرے ستائشی نظروں سے اپنے تیسرے بیٹے کو دیکھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ان کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد اب کپڑے تبدیل کر کے ان کے پاس آیا تھا۔ سفید شلوار قمیض اور گھر میں پہنی جانے والی سیاہ چپل میں وہ اپنے عام سے حلیے کے باوجود بہت باوقار لگ رہا تھا۔ شاید یہ اس کے چہرے کی سنجیدگی تھی یا پھر شاید وہ آج پہلی بار کئی سالوں کے بعد اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور اعتراف کر رہے تھے کہ اس کی شخصیت میں بہت وقار اور ٹھہراؤ آ گیا ہے۔
انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سالار کی وجہ سے انہیں اپنے سوشل سرکل میں اہمیت اور عزت ملے گی۔ وہ جانتے تھے بہت جگہوں پر اب ان کا تعارف سالار سکندر کے حوالے سے ہوتا تھا اور انہیں اس پر خوشگوارحیرت ہوتی تھی۔ اس نے اپنی پوری ٹین ایج میں انہیں بری طرح خوار اور پریشان کیا تھا اور ایک وقت تھا، جب انہیں اپنے اس بیٹے کا مستقبل سب سے تاریک لگتا تھا۔ اپنی تمام غیرمعمولی صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود مگر ان کے اندازے اور خدشات صحیح ثابت نہیں ہوئے تھے۔
طیبہ نے خشک میوے کی پلیٹ سالار کی طرف بڑھائی۔
سالار نے چند کاجو اٹھا لئے۔
“میں تمہاری شادی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔”
کاجو منہ میں ڈالتے ہوئے وہ ایک دم رک گیا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ سکندر عثمان اور طیبہ بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔
“اب تمہیں شادی کر ہی لینی چاہئیے سالار!”
سکندر نے کہا۔ سالار نے غیر محسوس انداز میں ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاجو دوبارہ خشک میوے کی پلیٹ میں رکھ دئیے۔
“میں اور طیبہ تو حیران ہو رہے تھے کہ اتنے رشتے تو تمہارے بھائیوں میں سے کسی کے نہیں آئے جتنے تمہارے لئے آ رہے ہیں۔”
سکندر نے بڑے شگفتہ انداز میں کہا۔
“میں نے سوچا، کچھ بات وات کریں تم سے۔”
وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
“زاہد ہمدانی صاحب کو جانتے ہو؟” عثمان سکندر نے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے ہیڈ کا نام لیا۔
“جی۔۔۔۔۔ ان کی بیٹی میری کولیگ ہے۔”
“رمشہ نام ہے شاید؟”
“جی۔”
“کیسی لڑکی ہے؟”
وہ سکندر عثمان کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ان کا سوال بہت “واضح” تھا۔
“اچھی ہے۔” اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
“تمہیں پسند ہے؟”
“کس لحاظ سے؟”
“میں رمشہ کے پروپوزل کی بات کر رہا ہوں۔” سکندر عثمان نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
“زاہد پچھلے کئی ہفتے سے مجھ سے اس سلسلے میں بات کر رہا ہے۔ اپنی وائف کے ساتھ ایک دو بار وہ ہماری طرف آیا بھی ہے۔ ہم لوگ بھی ان کی طرف گئے ہیں۔ پچھلے ویک اینڈ پر رمشہ سے بھی ملے ہیں۔ مجھے اور طیبہ کو تو بہت اچھی لگی ہے۔ بہت well behaved ہے اور تمہارے ساتھ بھی اس کی اچھی خاصی دوستی ہے۔ ان لوگوں کی خواہش ہے بلکہ اصرار ہے کہ تمہارے ذریعے دونوں فیملیز میں کوئی رشتہ داری بن جائے۔”
“پاپا میری رمشہ کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہے۔” سالار نے مدھم اور ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
“وہ میری کولیگ ہے، جان پہچان ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت اچھی لڑکی ہے مگر میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
“تم کہیں اور انٹرسٹڈ ہو؟”
سکندر نے اس سے پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔ سکندر اور طیبہ کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا۔
“اگر تمہاری کہیں اور دلچسپی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہمیں خوشی ہو گی وہاں تمہاری شادی کی بات کرتے ہوئے اور یقیناً ہم تم پر بھی کوئی دباؤ نہیں دالیں گے اس سلسلے میں۔”
سکندر نے نرمی سے کہا۔
“میں بہت عرصہ پہلے شادی کر چکا ہوں۔”
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے مدھم لہجے میں کہا۔ سکندر کو کوئی دشواری نہیں ہوئی یہ سمجھنے میں کہ اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ ان کے چہرے پر یک دم سنجیدگی آ گئی۔
“امامہ کی بات کر رہے ہو؟”
وہ خاموش رہا۔ سکندر بہت دیر تک بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے۔
“اتنے عرصے سے اس لئے شادی نہیں کر رہے؟”
سکندر کو جیسے ایک شاک لگا تھا۔ ان کا خیال تھا وہ اسے بھلا چکا تھا۔ آخر یہ آٹھ سال پرانی بات تھی۔
“اب تک تو وہ شادی کر چکی ہو گی، اپنی زندگی آرام سے گزار رہی ہو گی۔ تمہاری اور اس کی شادی تو کب کی ختم ہو چکی۔”
سکندر نے اس سے کہا۔
“نہیں پایا! اس کے ساتھ میری شادی ختم نہیں ہوئی۔” اس نے پہلی بار سر اٹھا کر کہا۔
“تم نے اسے نکاح نامے میں طلاق کا اختیار دیا تھا اور۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے تم اسے ڈھونڈنا چاہتے تھے تاکہ طلاق دے سکو۔”
سکندر نے جیسے اسے یاد کرایا۔
“میں نے اسے ڈھوندا تھا مگر وہ مجھے نہیں ملی اور وہ یہ بات نہیں جانتی کہ اس کے پاس طلاق کا ختیار ہے۔ وہ جہا ں بھی ہو گی ابھی تک میری ہی بیوی ہو گی۔”
“سالار! آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ ایک دو سال کی بات تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ جان گئی ہو کہ طلاق کا اختیار اس کے پاس ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اب بھی تمہاری بیوی ہی ہو۔”
سکندر نے قدرے مضطرب ہو کر کہا۔
“میرے علاوہ تو کوئی دوسرا اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا اور میں نے اسے اس حق کے بارے میں نہیں بتایا اور جب تک وہ میرے نکاح میں ہے مجھے کہیں اور شادی نہیں کرنی۔”
“تمہارا کانٹیکٹ ہے اس کے ساتھ؟” سکندر نے بہت مدھم آواز میں کہا۔
“نہیں۔”
“آٹھ سال سے اس سے تمہارا رابطہ نہیں ہوا۔ اگر ساری عمر نہ ہوا تب تم کیا کرو گے؟”
وہ خاموش رہا اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
سکندر عثمان کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتے رہے۔
“تم نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس لڑکی کے ساتھ ایموشنلی انوالوڈ ہو۔ تم نے تو مجھے یہی بتایا تھا کہ تم نے صرف وقتی طور پر اس کی مدد کی تھی وہ کسی اور لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ وغیرہ وغیرہ۔”
سالار اس بار بھی خاموش رہا۔
سکندر عثمان چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔ وہ اپنے اس تیسرے بیٹے کو کبھی نہیں جان سکے تھے۔ اس کے دل میں کیا تھا وہ اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ جس لڑکی کے لئے وہ آٹھ سال ضائع کر چکا تھا اور باقی کی زندگی ضائع کرنے کے لئے تیار تھا، اس کے ساتھ اس کے جذباتی تعلق کی شدت کیسی ہو سکتی تھی یہ اب شاید اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضروت نہیں تھی۔ کمرے میں خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا پھر سکندر عثمان اٹھ کر اپنے ڈریسنگ روم میں چلے گئے۔ ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہوئی۔ صوفہ پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے سالار کی طرف ایک لفافہ بڑھا دیا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے وہ لفافہ پکڑ لیا۔
“امامہ نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔”
وہ سانس نہیں لے سکا۔ سکندر عثمان ایک بار پھر صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔
“یہ پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ فون ناصرہ نے اٹھایا تھا اور اس نے امامہ کی آواز پہچان لی تھی۔ تب تم پاکستان میں تھے۔ ناصرہ نے تمہارےبجائے مجھ سے اس کی بات کرائی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے اس کی بات کراؤں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مر چکے ہو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ تم سے رابطہ کرے اور جس مصیبت سے ہم چھٹکارا پا چکے ہیں اس میں دوبارہ پڑیں۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات پر یقین کر لے گی کیونکہ تم کئی بار خود کشی کی کوشش کر چکے تھے۔ وہ وسیم کی بہن تھی تمہارے بارے میں یہ سب جانتی ہو گی۔ کم از کم ایک ایسی کوشش کی تو وہ خود گواہ تھی۔ میں اسے نکاح نامے میں موجود طلاق کے اختیار کے بارے میں نہیں بتا سکا نہ ہی اس طلاق نامے کے بارے میں جو میں نے تمہاری طرف سے تیار کرایا تھا۔ تمہیں جب میں نے امریکہ بھجوایا تھا تو تم سے ایک سادہ کاغذ پر سائن لیے تھے، میں چاہتا تھا کہ مجھے ضرورت پڑے تو میں خود ہی طلاق نامہ تیار کرا لوں۔ یہ قانونی یا جائز تھا کہ نہیں ا س کا پتا نہیں مگر میں نے اسے تیار کرا لیا تھا اور میں امامہ کو اس کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اور اسے تمام پیپرز بھی دینا چاہتا تھا مگر اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے نمبر ٹریس آؤٹ کرایا وہ کسی پی سی او کا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد بیس ہزار کے کچھ ٹریولرز چیک مجھے اس نے ڈاک کے ذریعے بھجوائے اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔ شاید تم نے اسے کچھ رقم دی تھی۔ اس نے وہ واپس کی تھی۔ میں نے تمہیں اس لئے نہیں بتایا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم دوبارہ اس معاملے میں انوالو ہو۔ میں امامہ کی فیملی سے خوفزدہ تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ تب بھی تمہاری تاک میں ہوں گے اور میں چاہتا تھا تم اپنا کیرئیر بناتے رہو۔”
وہ لفافہ ہاتھ میں پکڑے رنگ بدلتے ہوئے چہرے کے ساتھ سکندر عثمان کو دیکھتا رہا، کسی نے بہت آہستگی کے ساتھ اس کے وجود سے جان نکال لی تھی۔ اس نے لفافے کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ طیبہ اور سکندر اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو دیکھ سکیں۔۔۔۔۔ وہ دیکھ چکے تھے مگر اس کے حواس چند لمحوں کے لئے بالکل کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔ اپنے سامنے پڑی ٹیبل پر رکھے اس لفافے پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اسے ٹیبل پر رکھے رکھے اس نے اس کے اندر موجود کاغذ کو نکال لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔

خدا حافظ
امامہ ہاشم
سالار کو لگا وہ واقعی مر گیا ہے۔ سفید چہرے کے ساتھ اس نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو دوبارہ لفافے میں ڈال دیا۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے لفافہ تھاما اور اٹھ کھڑا ہوا۔ سکندر اور طیبہ دم بخود اسے دیکھ رہے تھے جب وہ سکندر کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ اٹھ کھڑے ہو گئے۔
“سالار۔۔۔۔۔!”
وہ رک گیا۔ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
“جو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔۔ نادانستگی میں ہوا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم۔۔۔۔۔ اگر تم نے کبھی مجھے امامہ کے بارے میں اپنی فیلنگز بتائی ہوتیں تو میں کبھی یہ سب نہ کرتا۔ میں اس سارے معاملے کو کسی اور طرح ہینڈل کرتا یا پھر اس کے ساتھ تمہارا رابطہ کرا دیتا۔ میرے بارے میں اپنے دل میں کوئی شکایت یا گلہ مت رکھنا۔”
سالار نے سر نہیں اٹھایا۔ ان سے نظر نہیں ملائی مگر سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ اسے ان سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ سکندر نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹا لیا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا، سکندر چاہتے تھے وہ وہاں سے چلا جائے۔ انہوں نے اس کے ہونٹوں کو کسی بچے کی طرح کپکپاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بار بار انہیں بھینچ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چند منٹ اور وہاں رہتا تو شاید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ سکندر اپنے پچھتاوے میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
طیبہ نے اس ساری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی، مگر سالار کے باہر جانے کے بعد انہوں نے سکندر کی دل جوئی کرنے کی کوشش کی۔
“پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کی بہتری کے لئے کیا۔ وہ سمجھ جائے گا۔”
وہ سکندر کے چہرے سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی تھیں۔ سکندر ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہے تھے۔
“یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مجھے سالار سے پوچھے بغیر یا اس کو بتائے بغیر یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ مجھے امامہ سے اس طرح کا جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔”
وہ بات ا دھوری چھوڑ کر تاسف امیز انداز میں ایک ہاتھ کو مٹھی کی صورت میں بھینچے ہوئے کھڑکی میں جا کر کھڑے ہو گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی بہت محتاط انداز میں سڑک پر پھسل رہی تھی۔ سالار کئی سال بعد پہلی بار اس سڑک پر رات کے اس پہر گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ رات اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔ اسے لگا آٹھ سال اڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ سب کچھ وہی تھا۔ وہیں تھا۔
کوئی بڑی آہستگی سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔ اس نے اپنے آپ کو فریب کی گرفت میں آنے دیا۔ گردن موڑ کر برابر والی سیٹ کو نہیں دیکھا۔ الوژن کو حقیقت بننے دیا۔ جانتے بوجھتے کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ کوئی اب سسکیوں کے ساتھ رو رہا تھا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔

خدا حافظ
امامہ ہاشم

ایک بار پھر اس خط کی تحریر اس کے ذہن میں گونجنے لگی تھی۔
وہ سکندر عثمان کے پاس سے آ کر بہت دیر تک خط لئے اپنے کمرے میں بیٹھا رہا۔
اس نے امامہ کو کوئی رقم نہیں دی تھی مگر وہ جانتا تھا اس نے اس کا کون سا قرض لوٹایا تھا۔ موبائل فون کی قیمت، اور اس کے بلز، وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے بیڈ پر بیٹھے نیم تاریک کمرے کی کھڑکیوں سے باہر اس کے گھر کی عمارت کو دیکھتا رہا۔ ساری دنیا یک دم جیسے ہر زندہ شے سے خالی ہو گئی تھی۔
اس نے خط پر تاریخ پڑھی، وہ امامہ کے گھر سے جانے کے تقریباً ڈھائی سال بعد بھیجا گیا تھا۔
ڈھائی سال بعد اگر وہ بیس ہزار روپے اسے بھجوا رہی تھی تو اس کا مطلب تھا وہ خیریت سے تھی۔ کم از کم اس کے امامہ کے بارے میں بدترین اندیشے درست ثابت نہیں ہوئے تھے۔ اسے خوشی تھی لیکن اگر اس نے یہ سمجھ لیا تھا کہ سالار مر چکا تھا تو پھر وہ اس کی زندگی سے بھی نکل چکا گیا تھا اور اس کا کیا مطلب تھا وہ یہ بھی جانتا تھا۔
کئی گھنٹے وہ اسی طرح وہیں بیٹھا رہا پھر پتا نہیں اس کے دل میں کیا آیا، اپنا بیگ پیک کر کے وہ گھر سے نکل آیا۔
اور اب وہ اس سڑک پر تھا۔ اسی دھند میں، اسی موسم میں، سب کچھ جیسے دھواں بن رہا تھا یا پھر دھند۔ چند گھنٹوں کے بعد وہ اسی ہوٹل نما سروس سٹیشن کے پاس جا پہنچا۔ اس نے گاڑی روک لی۔ دھند میں ملفوف وہ عمارت اب بالکل بدل چکی تھی۔ گاڑی کو موڑ کر وہ سڑک سے اتار کر اندر لے آیا۔ پھر دروازہ کھول کر نیچے اتر آیا، آٹھ سال پہلے کی طرح آج بھی وہاں خاموشی کا راج تھا۔ صرف لائٹس کی تعداد پہلے سے زیادہ تھی۔ اس نے ہارن نہیں دیا، اس لئے اندر سے کوئی نہیں نکلا۔ برآمدے میں اب وہ پانی کا ڈرم نہیں تھا۔ وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


وہ برآمدے سے گزر تے ہوئے اندر جانے لگا، تب ہی اندر سے ایک شخص نکل آیا، اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا سالار نے اس سے کہا۔
“میں چائے پینا چاہتا ہوں۔”
اس نے جماہی لی اور واپس مڑ گیا۔
“آ جائیں۔۔۔۔۔”
سالار اندر چلا گیا۔ یہ وہی کمرہ تھا مگر اندر سے کچھ بدل چکا تھا۔ پہلے کی نسبت میزوں اور کرسیوں کی تعداد زیادہ تھی اور کمرے کی حالت بھی بہت بہتر ہو چکی تھی۔
“چائے لیں گے یا ساتھ کچھ اور بھی؟” اس آدمی نے مڑ کر اچانک پوچھا۔
“صرف چائے۔”
سالار ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
آدمی کاؤنٹر کے عقب میں اب اسٹوو جلانے میں مصروف ہو چکا تھا۔
“آپ کہاں سے آئے ہیں؟” اس نے چائے کے لئے کیتلی اوپر رکھتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
جواب نہیں آیا۔
اس شخص نے گردن موڑ کر دیکھا۔ چائے پینے کے لئے آنے والا وہ شخص کمرے کے ایک کونے پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ بالکل پتھر کے کسی مجسمے کی طرح بے حس و حرکت۔
وہ نماز پڑھ کر اس کے بالمقابل میز کے دوسری جانب کرسی پر آ بیٹھی تھی۔ کچھ کہے بغیر اس نے میز پر پڑا چائے کا کپ اٹھایا اور اسے پینے لگی۔ لڑکا تب تک برگر لے آیا تھا اور اب ٹیبل پر برگر رکھ رہا تھا۔ سالار تیکھی نظروں کے ساتھ برگر کی پلیٹ کو دیکھ رہا تھا، جو اس کے سامنے رکھی جا رہی تھی۔ جب لڑکے نے پلیٹ رکھ دی تو سالار نے کانٹے کے ساتھ برگر کا اوپر والا حصہ اٹھایا اور تنقیدی نظروں سے فلنگ کا جائزہ لیا پھر چھری اٹھا کر اس نے لڑکے سے کہا جو اب امامہ کے برگر کی پلیٹ اس کے سامنے رکھ چکا تھا۔
“یہ شامی کباب ہے؟”
وہ filling کی اوپر والی تہہ کو الگ کر رہا تھا۔
“یہ آملیٹ ہے؟” اس نے نیچے موجود آملیٹ کو چھری کی مدد سے تھوڑا اونچا کیا۔
“اور یہ کیچپ، تو چکن کہاں ہے؟ میں نے تمہیں چکن برگر لانے کو کہا تھا نا؟”
اس نے اکھڑ لہجے میں لڑکے سے کہا۔
امامہ تب تک خاموشی سے برگر اٹھا کر کھانے میں مصروف ہو چکی تھی۔
“یہ چکن برگر ہے۔” لڑکے نے قدرے گڑبڑا کر کہا۔
“کیسے چکن برگر ہے؟ اس میں کہیں چکن نہیں ہے۔” سالار نے چیلنج کیا۔
“ہم اسے ہی چکن برگر کہتے ہیں۔” وہ لڑکا اب نروس ہو رہا تھا۔
“اور جو سادہ برگر ہے اس میں کیا ڈالتے ہو؟”
“اس میں بس شامی کباب ہوتا ہے۔ انڈہ نہیں ہوتا۔”
“اور انڈہ ڈال کر سادہ برگر چکن برگر بن جاتا ہے، چونکہ انڈے سے مرغی نکلتی ہے اور مرغی کے گوشت کو چکن کہتے ہیں اس لئے directlyنہیں تو indirectly یہ چکن برگر بنتا ہے۔”
سالار نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ وہ لڑکا کھسیانے انداز میں ہنسا۔ امامہ ان دونوں کی گفتگو پر توجہ دئیے بغیر ہاتھ میں پکڑا برگر کھانے میں مصروف تھی۔
“ٹھیک ہے جاؤ۔” سالار نے کہا۔
لڑکے نے یقیناً سکون کا سانس لیا اور وہاں سے غائب ہو گیا۔ چھری اور کانٹے کو رکھ کر سالار نے بائیں ہاتھ سے برگر کو اٹھا لیا۔ برگر کھاتے ہوئے امامہ نے پہلی بار پلیٹ سے سالار کے ہونٹوں تک بائیں ہاتھ میں برگر کے سفر کو تعجب آمیز نظروں سے دیکھا اور یہ تعجب ایک لمحے میں غائب ہو گیا تھا۔ وہ ایک بار پھر برگر کھانے میں مصروف تھی۔سالار نے اپنے برگر کو دانتوں سے کاٹا ایک لمحہ کے لئے منہ چلایا اور پھر برگر کو اپنی پلیٹ میں اچھال دیا۔
“فضول برگر ہے۔ تم کس طرح کھا رہی ہو؟” سالار نے لقمے کو بمشکل حلق سے نگلتے ہوئے کہا۔
“اتنا برا نہیں ہے جتنا تمہیں لگ رہا ہے۔” امامہ نے بے تاثر انداز میں کہا۔
“ہر چیز میں تمہارا اسٹینڈرڈ بڑا لو ہے امامہ! وہ چاہے برگر ہو یا شوہر۔”
برگر کھاتے ہوئے امامہ کا ہاتھ رک گیا۔ سالار نے اس کے سفید چہرے کو ایک پل میں سرخ ہوتے دیکھا۔ سالار کے چہرے پر ایک تپا دینے والی مسکراہٹ آئی۔
“میں جلال انصر کی بات کر رہا ہوں۔” اس نے جیسے امامہ کو یاد دلایا۔
“تم ٹھیک کہتے ہو۔” امامہ نے پرسکون لہجے میں کہا۔
“میرا اسٹینڈرڈ واقعی بہت لو ہے۔” وہ ایک بار پھر برگر کھانے لگی۔
“میں نے سوچا تم برگر میرے منہ پر دے مارو گی۔” سالار نے دبی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“میں رزق جیسی نعمت کو کیوں ضائع کروں گی۔”
“یہ اتنا برا برگر نعمت ہے؟” اس نے تضحیک آمیز انداز میں کہا۔
“اور کون کون سی نعمتیں ہیں اس وقت تمہارے پاس۔۔۔۔۔”
“انسان اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی جو حس ہے یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو اس میں اس کا ذائقہ محسوس کر سکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔”
“اور ان لوگوں میں ٹاپ آف دی لسٹ سالار سکندر کا نام ہو گا، ہے نا؟”
اس نے امامہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی تیز آواز میں اس کی بات کاٹی۔
“سالار سکندر کم از کم اس طرح کی چیزیں کھا کر انجوائے نہیں کر سکتا۔”
اس شخص نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔ سالار یک دم چونک گیا۔ سامنے والی کرسی اب خالی تھی۔
“ساتھ میں کچھ اور چاہئیے؟” آدمی نے کھڑے کھڑے پھر پوچھا۔
“نہیں، بس چائے کافی ہے۔” سالار نے چائے کا کپ اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
“آپ اسلام آباد سے آئے ہیں؟” اس نے پوچھا۔
“ہاں۔۔۔۔۔”
“لاہور جا رہے ہیں؟” اس نے ایک اور سوال کیا۔
اس بار سالار نے سر کے اشارے سے جواب دیا۔ وہ اب چائے کا گھونٹ لے رہا تھا۔ اس آدمی کو شبہ ہوا اس نے چائے پینے والے شخص کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی دیکھی ہے۔
“میں کچھ دیر یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہوں۔” اس نے چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے سر اٹھائے بغیر کہا۔
وہ شخص کچھ تعجب سے اسے دیکھتا ہوا واپس کچن میں چلا گیا اور ثانوی نوعیت کے کاموں میں مصروف گاہے بگاہے دور سے سالار پر نظریں دوڑاتا رہا۔
پورے پندرہ منٹ بعد اس نے سالار کو ٹیبل چھوڑ کر کمرے سے نکلتے دیکھا۔ وہ آدمی بڑی تیز رفتاری کے ساتھ کچن سے کمرے میں واپس آیا مگر اس سے پہلے کہ وہ سالار کے پیچھے باہر جاتا، میز پر خالی کپ کے نیچے پڑے ایک نوٹ نے اسے روک لیا۔ وہ بھونچکا سا اس نوٹ کو دیکھتا رہا، پھر اس نے آگے بڑھ کر اس نوٹ کو پکڑا اور تیزی سے کمرے سے باہر آ گیا۔ سالار کی گاڑی اس وقت ریورس ہوتے ہوئے مین روڈ پر جا رہی تھی۔ اس آدمی نے حیرانی سے اس دور جاتی ہوئی گاڑی کو دیکھا پھر ہاتھ میں پکڑے اس ہزار روپے کے نوٹ کو برآمدے میں لگی ٹیوب لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔
“نوٹ اصلی ہے مگر آدمی بے وقوف۔۔۔۔۔”
اس نے اپنی خوشی پر قابو پاتے ہوئے زیر لب تبصرہ کیا اور نوت کو جیب میں ڈال لیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر عثمان صبح ناشتے کی میز پر آئے تو بھی ان کے ذہن میں سب سے پہلے سالار کا ہی خیال آیا تھا۔
“سالار کہاں ہے؟ اسے بلاؤ۔”
انہوں نے ملازم سے کہا۔” سالارصاحب تو رات کو ہی چلے گئے تھے۔”
سکندر اور طیبہ نے بے اختیار ایک دوسرے کا چہرہ دیکھا۔
“کہاں چلے گئے۔۔۔۔۔؟ گاؤں؟”
“نہیں ، واپس لاہور چلے گئے۔ انہوں نے سالار کا نمبرڈائل کیا۔ موبائل آف تھا۔ انہوں نے اس کے فلیٹ کا نمبر ڈائل کیا۔
وہاں جوابی مشین لگی ہوئی تھی۔ انہوں نے پیغام ریکارڈ کرائے بغیر فون بند کر دیا۔ کچھ پریشان سے وہ دوبارہ ناشتے کی میز پر آبیٹھے۔
“فون پر کانٹیکٹ نہیں ہوا؟” طیبہ نے پوچھا۔
“نہیں موبائل آف ہے۔ اس کے فلیٹ پر آنسر فون لگا ہوا ہے۔ پتا نہیں کیوں چلا گیا؟”
“آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔۔ ناشتہ کریں۔” طیبہ نے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
“تم کرو۔۔۔۔۔ میرا موڈ نہیں ہے۔”
وہ اٹھ کر باہر نکل گئے۔ طیبہ بےا ختیار سانس لے کر رہ گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار نے اپنے فلیٹ کا دروازہ کھولا، باہر فرقان تھا۔ وہ پلٹ کر اندر آ گیا۔
“تم کب آئے؟” فرقان نے قدرے حیرانی سے اس کے پیچھے اندر آتے ہوئے کہا۔
“آج صبح۔۔۔۔۔” سالار نے صوفے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
“کیوں۔۔۔۔۔” تمہیں گاؤں جانا تھا؟” فرقان نے اس کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں تو پارکنگ میں تمہاری گاڑی دیکھ کر آ گیا۔ بندہ آتا ہے تو بتا ہی دیتا ہے۔”
سالار جواب میں کچھ کہے بغیر صوفے پر بیٹھ گیا۔
“کیا ہوا؟” فرقان نے پہلی بار اس کے چہرے کو دیکھا اور تشویش میں مبتلا ہوا۔
“کیا ہوا؟” سالار نے جواباً کہا۔
“میں تم سے پوچھ رہا ہوں، تمہیں کیا ہوا ہے؟” فرقان نے اس کے سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“کچھ نہیں۔”
“گھر میں سب خیریت ہے؟”
“ہاں۔۔۔۔۔”
“تو پھر تم۔۔۔۔۔سر میں درد ہے؟ میگرین؟”
فرقان اب اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
“نہیں۔۔۔۔۔” سالار نے مسکرانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کا فائدہ بھی نہیں تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کو مسلا۔
“تو پھر ہوا کیا ہے تمہیں؟ آنکھیں سرخ ہو رہی ہیں۔”
“میں رات سویا نہیں، ڈرائیو کرتا رہا ہوں۔”
سالار نے بڑے عام سے انداز میں کہا۔
“تو اب سو جاتے۔ یہاں آ کر فلیٹ پر، صبح سے کیا کر رہے ہو؟” فرقان نے کہا۔
“کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔”
“سوئے کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟”
“نیند نہیں آ رہی۔۔۔۔۔”
“تم تو سلپنگ پلز لے کر سو جاتے ہو، پھر نیند نہ آنا کیا معنی رکھتا ہے؟”
فرقان کو تعجب ہوا۔
“بس آج نہیں لینا چاہتا تھا میں۔ یا یہ سمجھ لو کہ آج میں سونا نہیں چاہتا تھا۔”
“کھانا کھایا ہے؟”
“نہیں، بھوک نہیں لگی۔۔۔۔۔”
“دو بج رہے ہیں۔” فرقان نے جیسے اسے جتایا۔
“میں کھانا بھجواتا ہوں کھا لو۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر سو جاؤ پھر رات کو نکلتے ہیں آؤٹنگ کے لئے۔”
“نہیں، کھانا مت بھجوانا۔ میں سونے جا رہا ہوں۔ شام کو اٹھوں گا تو باہر جا کر کہیں کھاؤں گا۔”
سالار کہتے ہوئے صوفہ پر لیٹ گیا اور اپنا بازو آنکھوں پر رکھ لیا۔ فرقان کچھ دیر بیٹھا اسے دیکھتا رہا ، پھرا ٹھ کر باہر چلا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟”
رمشہ نے سالار کے کمرے میں آتے ہوئے کہا۔ اس نے ریسیپشن کی طرف جاتے ہوئے سالار کے کمرے کی کھڑکیوں کے چند کھلے ہوئے بلائنڈز میں اسے اندر دیکھا تھا۔ کوریڈور میں سے جانے کی بجائے وہ رک گئی۔ سالار ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑے ہوئے تھا۔ رمشہ جانتی تھی کہ اسے کبھی کبھار میگرین کا درد ہوتا تھا۔ وہ ریسیپشن کی طرف جانے کی بجائے اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آ گئی۔
سالار اسے دیکھ کر سیدھا ہو گیا۔ وہ اب ٹیبل پر کھلی ایک فائل کو دیکھ رہا تھا۔
“تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” رمشہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
“ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔”
اس نے رمشہ کو دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ رمشہ واپس جانے کی بجائے آگے بڑھ آئی۔
“نہیں تم ٹھیک نہیں لگ رہے۔” اس نے سالار کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
“تم پلیز اس فائل کو لے جاؤ۔۔۔۔۔ اسے دیکھ لو۔۔۔۔۔ میں دیکھ نہیں پا رہا۔۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے فائل بند کر کے ٹیبل پر اس کی طرف کھسکا دی۔
“میں دیکھ لیتی ہوں، تمہاری طبیعت زیادہ خراب ہے تو گھر چلے جاؤ۔”
رمشہ نے تشویش بھرے انداز میں کہا۔
“ہاں، بہتر ہے۔ میں گھر چلا جاؤں۔” اس نے اپنا بریف کیس نکال کر اسے کھولا اور اپنی چیزیں اندر رکھنا شروع کر دیں۔ رمشہ بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گیارہ بجے آفس سے واپس گھر آ گیا تھا۔ یہ چوتھا دن تھا جب وہ مسلسل اسی حالت میں تھا۔ یک دم، ہر چیز میں اس کی دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔
بینک میں اپنی جاب
لمز (LUMS) کے لیکچرز
ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ نشست۔۔۔۔۔
فرقان کی کمپنی
گاؤں کا اسکول۔
مستقبل کے منصوبے اور پلاننگ
اسے کوئی چیز بھی اپنی طرف کھینچ نہیں پا رہی تھی۔
وہ جس امکان کے پیچھے کئی سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آ گیا تھا وہ” امکان” ختم ہو گیا تھا۔ اور اسے کبھی اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ختم ہونے سے اس کے لئے سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ وہ مسلسل اپنے آپ کو اس حالت سے باہر لانے کے لئے جدوجہد کر رہا تھا اور وہ ناکام ہو رہا تھا۔
محض یہ تصور کہ وہ کسی اور شخص کی بیوی بن کر کسی اور کے گھر میں رہ رہی ہو گی۔ سالار سکندر کے لئے اتنا ہی جان لیوا تھا جتنا ماضی کا یہ اندیشہ کہ وہ غلط ہاتھوں میں نہ چلی گئی ہو اور اس ذہنی حالت میں اس نے عمرہ پر جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ واحد جگہ تھی جو اس کی زندگی میں اچانک آ جانے والی اس بے معنویت کو ختم کر سکتی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ احرام باندھے خانہ کعبہ کے صحن میں کھڑا تھا۔ خانہ کعبہ میں کوئی نہیں تھا۔ دور دور تک کسی وجود کا نشان نہیں تھا۔ رات کے پچھلے پہر آسمان پر چاند اور ستاروں کی روشنی نے صحن کے ماربل سے منعکس ہو کر وہاں کی ہر چیز کو ایک عجیب سی دودھیا روشنی میں نہلا دیا تھا۔ چاند اور ستاروں کے علاوہ وہاں اور کوئی روشنی نہیں تھی۔
خانہ کعبہ کے غلاف پر لکھی ہوئی آیات، سیاہ غلاف پر عجیب طرح سے روشن تھے۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا اور اس گہرے سکوت کو صرف ایک آواز توڑ رہی تھی۔ اس کی آواز۔۔۔۔۔ اس کی اپنی آواز۔۔۔۔۔ وہ مقام ملتزم کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی نظریں خانہ کعبہ کے دروازے پر تھیں اور وہ سر اٹھائے بلند آواز سے کہنے لگا۔
“لبيك اللهم لبيك٭ لبيك لا شريك لك لبيك٭ إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك٭”
(حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک حمد وثنا تیرے لئے ہے، نعمت تیری ہے، بادشاہی تیری ہے کوئی تیرا شریک نہیں)۔
پوری وقت سے گونجتی ہوئی اس کی آواز خانہ کعبہ کے سکوت کو توڑ رہی تھی، اس کی آواز خلا کی وسعتوں تک جاری تھی۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔”
ننگے پاؤں، نیم برہنہ وہاں کھڑا وہ اپنی آواز پہچان رہا تھا۔
“لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔ وہ صرف اس کی آواز تھی۔ ٭ إن الحمد والنعمة لك والملك ۔”
اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اس کی ٹھوڑی سے نیچے اس کے پیروں کی انگلیوں پر گر رہے تھے۔
“لا شریک لک۔۔۔۔۔”
اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔”
اس نے خانہ کعبہ کے غلاف پر کندہ آیات کو یک دم بہت روشن دیکھا۔ اتنا روشن کہ وہ جگمگانے لگی تھیں۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی بھی اچانک بڑھ گئی۔ وہ ان آیات کو دیکھ رہا تھا۔ مبہوت سحر زدہ، کسی معمول کی طرح، زبان پر ایک ہی جملہ لئے۔۔۔۔۔ اس نے خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آہستہ ہستہ کھلتے دیکھا۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔۔”
اس کی آواز اور بلند ہو گئی۔ ایک درد کی طرح، ایک سانس، ایک لے۔
“لبیک لا شریک لک لبیک۔۔۔۔۔”
اس وقت پہلی بار اس نے اپنی آواز میں کسی اور آواز کو مدغم ہوتے محسوس کیا۔
“إن الحمد والنعمة۔۔۔۔۔”
اس کی آؤاز کی طرح وہ آواز بلند نہیں تھی۔ کسی سرگوشی کی طرح تھی۔ کسی گونج کی طرح، مگر وہ پہچان سکتا تھا وہ اس کی آواز کی گونج نہیں تھی۔ وہ کوئی اور آواز تھی۔
“لک و الملک۔۔۔۔”
اس نے پہلی بار خانہ کعبہ میں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کو محسوس کیا۔
“لا شریک لک۔۔۔۔۔”
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل رہا تھا۔
“لبیک الھم لبیک۔۔۔۔”
وہ اس نسوانی آواز کو پہچانتا تھا۔
“لبیک لا شریک لک۔”
وہ اس کے ساتھ وہی الفاظ دہرا رہی تھی۔
“لبیک إن الحمد والنعمة۔”
آواز دائیں طرف نہیں تھی بائیں طرف تھی۔ کہاں۔۔۔۔۔ اس کی پشت پر۔ چند قدم کے فاصلے پر۔
“لک و الملک لا شریک لک۔”
اس نے جھک کر اپنے پاؤں پر گرنے والے آنسوؤں کو دیکھا اس کے پاؤں بھیگ چکے تھے۔
اس نے سر اٹھا کر خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ اندر روشنی تھی۔ دودھیا روشنی۔ اتنی روشنی کہ اس نے بے اختیار گھٹنے ٹیک دئیے۔ وہ اب سجدہ کر رہا تھا، روشنی کم ہو رہی تھی۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا، روشنی اور کم ہو رہی تھی۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ خانہ کعبہ کا دروازہ اب بند ہو رہا تھا۔ روشنی اور کم ہوتی جا رہی تھی اور تب اس نے ایک بار پھر سرگوشی کی صورت میں وہی نسوانی آواز سنی۔
اس بار اس نے مڑ کر دیکھا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______________
سالار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ حرم شریف کے ایک برآمدے کے ستون سے سر ٹکائے ہوئے تھا۔ وہ کچھ دیر سستانے کے لئے وہاں بیٹھا تھا مگر نیند نے عجیب انداز میں اس پر غلبہ پایا۔
وہ امامہ تھی۔ بے شک امامہ تھی۔ سفید احرام میں اس کے پیچھے کھڑی۔ اس نے اس کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی مگر ایک جھلک بھی اسے یقین دلانے کے لئے کافی تھی کہ وہ امامہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھی۔ خالہ الذہنی کے عالم میں لوگوں کو ادھر سے ادھرجاتے دیکھ کر بے اختیار دل بھر آیا۔
آٹھ سال سے زیادہ ہو گیا تھا اسے اس عورت کو دیکھے جسے اس نے آج وہاں حرم شریف میں دیکھا تھا کسی زخم کو پھر ادھیڑا گیا تھا۔ اس نے گلاسز اتار دئیے اور دونوں ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔
آنکھوں سے ابلتے گرم پانی کو رگڑتے، آنکھوں کو مسلتے اسے خیال آیا۔ یہ حرم شریف تھا۔ یہاں اسے کسی سے آنسو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں سب آنسو بہانے کے لئے ہی آتے تھے۔ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا لئیے۔ اس پر رقت طاری ہو رہی تھی۔ وہ سر جھکائے بہت دیر وہاں بیٹھا روتا رہا۔
پھر اسے یاد آیا، وہ ہر سال وہاں عمرہ کرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کی طرف سے بھی عمرہ کیا کرتا تھا۔
وہ اس کی عافیت اور لمبی زندگی کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
وہ امامہ ہاشم کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
اس نے وہاں حرم شریف میں اتنے سالوں میں اپنے اور امامہ کے لئے ہر دعا مانگ چھوڑی تھی۔ جہاں بھر کی دعائیں۔ مگر اس نے وہاں حرم شریف میں امامہ کو کبھی اپنے لئے نہیں مانگا تھا۔ عجیب بات تھی مگر اس نے وہاں امامہ کے حصول کے لئے کبھی دعا نہیں کی تھی۔ اس کے آنسو یک دم تھم گئے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
وضو کے بعدا س نے عمرے کے لئے احرام باندھا۔ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس بار اتفاقاً اسے مقام ملتزم کے پاس جگہ مل گئی۔ وہاں ، جہاں اس نے اپنے آپ کو خواب میں کھڑے دیکھا تھا۔
اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے اس نے دعا کرنا شروع کی۔
“یہاں کھڑے ہو کر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں میں اور میری دعا میں بہت فرق ہے۔”
وہ گڑگڑا رہا تھا۔
“میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہ گار بشر۔ میری خواہشات، میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہو کر کبھی کوئی کسی عورت کے لئے نہیں رویا ہو گا۔ میری ذلت اور پستی کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہو گی کہ میں یہاں کھڑا ۔۔۔۔۔ حرم پاک میں کھڑا۔۔۔۔۔ ایک عورت کے لئے گڑگڑا رہا ہوں مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر۔
یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی، یہ تو نے کیا۔ کیوں میرے دل میں اس عورت کے لئے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کر رہا ہوں؟ کیوں مجھے اس قدر بے بس کر دیا کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا؟ میں وہ بشر ہوں جسے تو نے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا۔ میں وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دکھانے والا نہیں، اور وہ عورت ، وہ عورت میری زندگی کے ہر راستے پر کھڑی ہے۔ مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی یا تو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لئے ہی روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لئے آنسو نہیں بہا سکوں گا۔ میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔
میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں۔
میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔
میں اپنی نسل کے لئے اس عورت کو مانگتا ہوں، جس نے آپ کے پیغمبرﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ جس نے ان کے لئے اپنی زندگی کی تمام آسائشات کو چھوڑ دیا۔
اگر میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، تو مجھے اس کے عوض امامہ ہاشم دے دے۔ تو چاہے تو یہ اب بھی ہو سکتا ہے۔ اب بھی ممکن ہے۔
مجھے اس آزمائش سے نکال دے۔ میری زندگی کو آسان کر دے۔
آٹھ سال سے میں جس تکلیف میں ہوں مجھے اس سے رہائی دے دے۔
سالار سکندر پر ایک بار پھر رحم کر، وہی جو تیری صفات میں افضل ترین ہے۔
وہ سر جھکائے وہاں بلک رہا تھا۔ اسی جگہ پر جہاں اس نے خود کو خواب میں دیکھا تھا مگر اس بار اس کی پشت پر امامہ ہاشم نہیں تھی۔
بہت دیر تک گڑگڑانے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی اب بھی مدھم تھی۔ خانہ کعبہ روشنیوں سے اب بھی بقعہ نور بنا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم رات کے اس پہر بھی اسی طرح تھا۔ خواب کی طرح خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نہیں کھلا تھا۔ اس کے باوجود وہاں سے ہٹتے ہوئے سالار سکندر کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔
وہ اس کیفیت سے باہر آ رہا تھا جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے تھا۔ ایک عجیب سا قرار تھا جو اس دعا کے بعد اسے ملا تھا اور وہ اسی قرار اور طمانیت کو لیے ہوئے ایک ہفتے کے بعد پاکستان لوٹ آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭____________
“میں اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے امریکہ جا رہا ہوں۔”
فرقان نے بے اختیار چونک کر سالار کو دیکھا۔
“کیا مطلب۔۔۔۔۔” سالار حیرانی سے مسکرایا۔
“کیا مطلب کا کیا مطلب؟ میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتا ہوں۔”
“یوں اچانک۔۔۔۔۔؟”
“اچانک تو نہیں۔ پی ایچ ڈی کرنی تو تھی مجھے۔ بہتر ہے ابھی کر لوں۔” سالار اطمینان سے بتا رہا تھا۔
وہ دونوں فرقان کے گاؤں سے واپس آ رہے تھے۔ فرقان ڈرائیو کر رہا تھا جب سالار نے اچانک اسے اپنی پی ایچ ڈی کے ارادے کے بارے میں بتایا۔
“میں نے بینک کو بتا دیا ہے، میں نے ریزائن کرنے کا سوچا ہے۔ لیکن وہ مجھے چھٹی دینا چاہ رہے ہیں۔ ابھی میں نے سوچا نہیں کہ ان کی اس آفر کو قبول کر لوں یا ریزائن کر دوں۔”
“تم ساری پلاننگ کیے بیٹھے ہو۔”
“ہاں یار۔۔۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہا۔۔۔۔۔ میں واقعی اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے جا رہا ہوں۔”
“چند ماہ پہلے تک تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔”
“ارادے کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں بن جاتا ہے۔”
سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر آنے والے کھیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
“میں ویسے بھی بینکنگ سے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں لیکن یہاں میں پچھلے کچھ سالوں میں اتنا مصروف رہا ہوں کہ اس پر کام نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں پی ایچ ڈی کےدوران میں یہ کتاب لکھ کر شائع بھی کرا لوں۔ میرے پاس کچھ فرصت ہو گی تو میں یہ کام آسانی سے کر لوں گا۔”
فرقان کچھ دیر خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
“اور اسکول۔۔۔۔۔؟ اس کا کیا ہو گا؟”
“اس کا کچھ نہیں ہو گا۔ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ بورڈ آف گورنرز ہے، وہ لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ تم ہو۔۔۔۔۔ میں نے پاپا سے بھی بات کی ہے وہ بھی آیا کریں گے یہاں پر۔۔۔۔۔ میرے نہ ہونے سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ سکول بہت پہلے سالار سکندر کی تھمائی ہوئی لاٹھیاں چھوڑ چکا ہے۔ آئندہ بھی اسے ان کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر میں مکمل طور پر اس سے قطع تعلق نہیں کر رہا ہوں۔ میں اس کو دیکھتا رہوں گا۔ کبھی میری مدد کی ضرورت پڑی تو آ جایا کروں گا۔ پہلے بھی تو ایسا ہی کیا کرتا تھا۔”
وہ اب تھرمس میں سے چائے کپ میں ڈال رہا تھا۔
“پی ایچ ڈی کے بعد کیا کرو گے؟” فرقان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“واپس آؤں گا۔ پہلے کی طرح یہیں پر کام کروں گا۔ ہمیشہ کے لئے نہیں جا رہا ہوں۔”
سالار نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپکا۔
“کیا چند سال بعد نہیں جا سکتے تم؟”
“نہیں، جو کام آج ہونا چاہئیے اس آج ہی ہونا چاہئیے۔ میرا موڈ ہے پڑھنے کا۔ چند سال بعد شاید خواہش نہ رہے۔”
سالار نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا وہ اب بائیں ہاتھ سے ریڈیو کو ٹیون کرنے میں مصروف تھا۔
“روٹری (Rotary) کلب والے اگلے ویک اینڈ پر ایک فنکشن کر رہے ہیں، میرے پاس انویٹیشن آیا ہے۔ چلو گے؟”
اس نے ریڈیو کو ٹیون کرتے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
“کیوں نہیں چلوں گا۔ ان کے پروگرام دلچسپ ہوتے ہیں۔”
فرقان نے جواباً کہا۔ گفتگو کا موضوع بدل چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس دن اتوار تھا۔ سالار صبح دیر سے اٹھا۔
اخبار لے کر سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے وہ کچن میں ناشتہ تیار کرنے لگا۔ اس نے صرف منہ ہاتھ دھویا تھا۔ شیو نہیں کی۔ نائٹ ڈریس کے اوپر ہی اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہن لیا اس نے کتیلی میں چائے کا پانی ابھی رکھا ہی تھا جب ڈور بیل کی آواز سنائی دی۔ وہ اخبار ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر آ گیا، دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔


دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جب اس نے سعیدہ اماں کو وہاں کھڑا پایا۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔
“السلام علیکم! کیسی ہیں آپ؟”
“اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں ، تم کیسے ہو؟”
انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کے سر پر اپنےدونوں ہاتھ پھیرے۔
“میں بھی ٹھیک ہوں، آپ اندر آئیں۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“ٹھیک لگ تو نہیں رہے ہو۔ کمزور ہو رہے ہو، چہرہ بھی کالا ہو رہا ہے۔” انہوں نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے اس کے چہرے پر غور کیا۔
“رنگ کالا نہیں ہوا، میں نے شیو نہیں کی۔” سالار نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ روکی۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا اندر آ گیا۔
“لو بھلا شیو کیوں نہیں کی۔ اچھا داڑھی رکھنا چاہتے ہو۔۔۔۔۔ بہت اچھی بات ہے۔ نیکی کا کام ہے۔ بہت اچھا کر رہے ہو۔”
وہ صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولیں۔
“نہیں اماں! داڑھی نہیں رکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔ آج اتوار ہے۔ دیر سے اٹھا ہوں کچھ دیر پہلے ہی۔ اس لئے شیو نہیں کی۔” وہ ان کی بات پر محظوظ ہوا۔
“دیر سے کیوں اٹھے۔۔۔۔۔ بیٹا! دیر سے نہ اٹھا کرو۔ صبح جلدی اٹھ کر فجر کی نماز پڑھا کرو۔۔۔۔۔ چہرے پر رونق آتی ہے۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ صبح نماز پڑھ کر بندہ قرآن پڑھے پھر سیر کو چلا جائے۔ صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
“میں نماز پڑھ کر سویا تھا۔ صرف اتوار والے دن ہی دیر تک سوتا ہوں۔ ورنہ روز صبح وہی کرتا ہوں جو آپ کہہ رہی ہیں۔”
وہ اس کی وضاحت پر بے حد خوش نظر آنے لگیں۔
“بہت اچھی بات ہے۔۔۔۔۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ چمک رہا ہے۔ رونق نظر آ رہی ہے۔”
انہوں نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تبدیلی کی۔
“آپ کیا لیں گی؟”
وہ اپنے چہرے پر کوئی تبصرہ نہیں سننا چاہتا تھا، اس لئے موضوع بدلا۔
“ناشتا کریں گی؟”
“نہیں، میں ناشتا کر کے آئی ہوں۔ صبح چھ سات بجے میں ناشتہ کر لیتی ہوں۔ گیارہ ساڑھے گیارہ تو میں دوپہر کا کھانا بھی کھا لیتی ہوں۔”
انہوں نے اپنے معمولات سے آگاہ کیا۔
“تو پھر دوپہر کا کھانا کھا لیں۔ ساڑھے دس تو ہو رہے ہیں۔”
“نہیں ابھی تو مجھے بھوک ہی نہیں۔ تم میرے پاس آ کر بیٹھو۔”
“میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔۔”
وہ ان کے انکار کے باوجود کچن میں آ گیا۔
“پورے چھ ماہ سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ تم نے ایک بار بھی شکل نہیں دکھائی۔ حالانکہ وعدہ کیا تھا تم نے۔”
اسے کچن میں ان کی آواز سنائی دی۔
“میں بہت مصروف تھا اماں جی۔۔۔۔۔”
اس نےا پنے لئے چائے تیار کرتے ہوئےکہا۔
“لو ایسی بھی کیا مصروفیت۔۔۔۔۔ ارے بچے! مصروف وہ ہوتے ہیں، جن کے بیوی بچے ہوتے ہیں نہ تم نے گھر بسایا، نہ تم گھر والوں کے ساتھ رہ رہے ہو۔۔۔۔۔ پھر بھی کہتے ہو مصروف تھا۔۔۔۔۔”
وہ ٹوسٹر سے سلائس نکالتے ہوئے ان کی بات پر مسکرایا۔
“اب یہی دیکھو، یہ تمہارے کرنے کے کام تو نہیں ہیں۔”
وہ اسے چائے کی ٹرے لاتے دیکھ کر خفگی سے بولیں۔
“میں تو کہتی ہوں یہ کام مرد کے کرنے والے ہیں ہی نہیں۔”
وہ کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے میز پر برتن رکھنے لگا۔
“اب دیکھو بیوی ہوتی تو یہ کام بیوی کر رہی ہوتی۔ مرد اچھالگتا ہی نہیں ایسے کام کرتے ہوئے۔”
“آپ ٹھیک کہتی ہیں اماں جی! مگر اب مجبوری ہے۔ اب بیوی نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔”
سالار نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ انہیں اس کی بات پر جھٹکا لگا۔
“یہ کیا بات ہوئی، کیا کیا جا سکتا ہے؟ ارے بچے ! دنیا لڑکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ تمہارے تو اپنے ماں باپ بھی ہیں۔ ان سے کہو۔۔۔۔۔ تمہارا رشتہ طے کریں۔ یا تم چاہو تو میں کوشش کروں۔”
سالار کو یک دم صورت حال کی سنگینی کا احساس ہونے لگا۔
“نہیں ، نہیں اماں جی! آپ چائے پئیں میں بہت خوش ہوں، اپنی زندگی سے۔۔۔۔۔ جہاں تک گھر کے کاموں کاتعلق ہے تو وہ تو ہمارے پیغمبرﷺ بھی کر لیا کرتے تھے۔”
“لو اب تم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میں تو تمہاری بات کر رہی ہوں۔” وہ کچھ گڑبڑا گئیں۔
“آپ یہ بسکٹ لیں اور کیک بھی۔۔۔۔۔”
سالار نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
“ارے ہاں، جس کام کے لئے میں آئی ہوں وہ تو بھول ہی گئی۔”
انہیں اچانک یاد آیا، اپنے ہاتھ میں پکڑا بڑا سا بیگ انہوں نے کھول کر اندر کچھ تلاش کرنا شروع کر دیا۔
“تمہاری بہن کی شادی طے ہو گئی ہے۔”
سالار کو چائے پیتے بے اختیار اچھو لگا۔
“میری بہن کی۔۔۔۔۔ اماں جی! میری بہن کی شادی تو پانچ سال پہلے ہو گئی تھی۔”
اس نے کچھ ہکا بکا ہوتے ہوئے بتایا۔ وہ اتنی دیر میں اپنے بیگ سے ایک کارڈ برآمد کر چکی تھیں۔
“ارے میں اپنی بیٹی کی بات کر رہی ہوں۔ آمنہ کی، تمہاری بہن ہی ہوئی نا۔۔۔۔۔”
انہوں نے اس کے جملے پر بڑے افسوس کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کارڈ تھمایا۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی کل تک وہ اسے اس کی بیوی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں اور اب یک دم بہن بنا دیا، مگر اس کے باوجود سالار کو بے تحاشا اطمینان محسوس ہوا۔ کم از کم اب اسے ان سے یا ان کی بیٹی سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا۔
بہت مسرور سا ہو کر اس نے کارڈ پکڑ لیا۔
“بہت مبارک ہو۔۔۔۔۔ کب ہو رہی ہے شادی؟” اس نے کارڈ کھولتے ہوئے کہا۔
“اگلے ہفتے۔۔۔۔۔”
“چلیں اماں جی! آپ کی فکر تو ختم ہو گئی۔”
سالار نے” میری” کے بجائے” آپ کی” کا لفظ استعمال کیا۔
“ہاں اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی جگہ رشتہ ہو گیا۔ میری ذمہ داری ختم ہو جائے گی پھر میں بھی اپنے بیٹوں کے پاس انگلینڈ چلی جاؤں گی۔”
سالار نے کارڈ پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی۔
“یہ کارڈ تمہیں دینے خاص طور پر آئی ہوں۔۔۔۔۔ اس بار کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ تمہیں شادی پر آنا ہے۔ بھائی بن کر رخصت کرنا ہے بہن کو۔”
سالار نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چائے کا کپ لیا۔
“آپ فکر نہ کریں، میں ضرور آؤں گا۔”
وہ کپ نیچے رکھ کر سلائس پر مکھن لگانے لگا۔
“یہ فرقان کا کارڈ بھی لے کر آئی ہوں میں۔۔۔۔۔ اس کو بھی دینے جانا ہے۔”
انہیں اب فرقان کی یاد ستانے لگی۔
“فرقان کو تو آج بھابھی کے ساتھ اپنے سسرال جانا تھا۔ اب تک تو نکل چکا ہو گا۔ آپ مجھے دے دیں، میں اسے دے دوں گا۔” سالار نے کہا۔
“تم اگر بھول گئے تو؟” وہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
“میں نہیں بھولوں گا، اچھا میں فون پر اس سے آپ کی بات کرا دیتا ہوں۔”
وہ یک دم خوش ہو گئیں۔
“ہاں یہ ٹھیک ہے، تم فون پر اس سے میری بات کرا دو۔”
سالار اٹھ کر فون اسی میز پر لے آیا۔ فرقان کا موبائل نمبر ڈائل کر کے اس نے اسپیکر آن کر دیا اور خود ناشتہ کرنے لگا۔
“فرقان! سعیدہ اماں آئی ہوئی ہیں میرے پاس۔”
فرقان کے کال ریسیو کرنے پر اس نے بتایا۔
“ان سے بات کرو۔”
وہ خاموش ہو گیا، اب فرقان اور سعیدہ اماں کے درمیان بات ہو رہی تھی۔
دس منٹ بعد جب یہ گفتگو ختم ہوئی تو سالار ناشتہ کر چکا تھا۔ برتن کچن میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا۔
“آئی کس کے ساتھ تھیں آپ؟” وہ باہر نکل آیا۔
“اپنے بیٹے کے ساتھ۔” سعیدہ اماں نے اطمینان سے کہا۔
“اچھا، بیٹا آ گیا آپ کا؟ چھوٹا والا یا بڑا والا؟”
سالار نے دلچسپی لی۔
“میں ساتھ والوں کے راشد کی بات کر رہی ہوں۔” سعیدہ اماں نے بے اختیار برا مانا۔
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ سعیدہ اماں کے لئے ہر لڑکا اپنا بیٹا اور ہر لڑکی اپنی بیٹی تھی۔ وہ بڑے آرام سے رشتے گھڑ لیتی تھیں۔
“تو وہ کہاں ہے؟” سالار نے پوچھا۔
“وہ چلا گیا، موٹر سائیکل پر آئی ہوں اس کے ساتھ۔ آندھی کی رفتار سے چلائی ہے اس نے۔ نو بجے بیٹھی ہوں، پورے ساڑھے دس بجے ادھر پہنچا دیا اس نے۔ میری ایک نہیں سنی اس نے۔ سارا راستہ۔۔۔۔۔ بار بار یہی کہتا رہا آہستہ چلا رہا ہوں۔ یہاں اتارتے وقت کہنے لگا آپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر میرا آخری سفر تھا۔ دوبارہ کہیں لے کر جانا ہوا تو پیدل لے کر جاؤں گا آپ کو۔۔۔۔۔”
سالار کو ہنسی آئی۔ آدھہ گھنٹہ میں طے ہونے والے راستے کو ڈیڑھ گھنٹےمیں طے کرنے والے کی جھنجھلاہٹ کا وہ اندازہ کر سکتا تھا۔ بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارنا خاصا مشکل کام تھا۔ یہ وہ سعیدہ اماں کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات میں ہی جان گیا تھا۔
“تو واپس کیسے جائیں گی۔ راشد لینے آئے گا آپ کو؟”
“ہاں ، اس نے کہا تو ہے کہ میچ ختم ہونے کے بعد آپ کو لے جاؤں گا۔ اب دیکھو کب آتا ہے۔”
وہ اسے ایک بار پھر اپنی بیٹی اور اس کے ہونے والے سسرال کے بارے میں اطلاعات پہنچانے لگیں۔
وہ مسکراتے ہوئے بڑی فرمانبرداری سے سنتا رہا۔
اس قسم کی معلومات میں اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی مگر سعیدہ اماں اب اس کے ساتھ بینکنگ کے بارے میں تو گفتگو نہیں کر سکتی تھیں۔ ان کی باتیں رتی بھر اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں مگر وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے وہ ہر بات سمجھ رہا ہے۔
دوپہر کا کھانا اس نے ان کے ساتھ کھایا۔ اس نے ان کے سامنے فریزر سے کچھ نکال کر گرم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک بار پھر شادی کے فوائد اور ضرورت پر لیکچر نہیں سننا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ریسٹورنٹ فون کر کے لنچ کا آرڈر دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے وقت تک راشد نہیں آیا تو سالار نے ان کی تشویش کو کم کرنے کے لئے کہا۔
“میں گاڑی پر چھوڑ آتا ہوں آپ کو۔”
وہ فوراً تیار ہو گئیں۔
“ہاں یہ ٹھیک ہے، اس طرح تم میرا گھر بھی دیکھ لو گے۔”
“اماں جی! میں آپ کا گھر جانتا ہوں۔”
سالار نے کار کی چابی تلاش کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا۔
آدھہ گھنٹہ کے بعد وہ اس گلی میں تھا جہاں سعیدہ اماں کا گھر تھا۔ وہ گاڑی سے اتر کر انہیں اندر گلی میں دروازے تک چھوڑ گیا۔ انہوں نے اسے اندر آنے کی دعوت دی، جسے اس نے شکریہ کے ساتھ رد کر دیا۔
“آج نہیں۔۔۔۔۔ آج بہت کام ہیں۔”
وہ اپنی بات کہہ کر پچھتایا۔
“بچے اسی لئے کہتی ہوں شادی کر لو۔ بیوی ہو گی تو خود سارے کام دیکھے گی۔ تم کہیں آ جا سکو گے۔ اب یہ کوئی زندگی ہے کہ چھٹی کے دن بھی گھر کے کام لے کر بیٹھے رہو۔” انہوں نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
“جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اب میں جاؤں؟”
اس نے کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہاں میں ہاں ملائی۔
“ہاں ٹھیک ہے جاؤ، مگر یاد رکھنا شادی پر ضرور آنا۔ فرقان سے بھی ایک بار پھر کہہ دینا کہ وہ بھی آئے اور اس کو کارڈ ضرور پہنچا دینا۔”
سالار نے ان کے دروازے پر لگی ہوئی ڈور بیل بجائی اور خداحافظ کہتے ہوئے پلٹا۔
اپنے پیچھے اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ سعیدہ اماں اب اپنی بیٹی سے کچھ کہہ رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭______________
“پھر کیا پروگرام ہے، چلو گے؟”
فرقان نے اگلے دن شام کو اس سے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔
“نہیں، میں تو اس ویک اینڈ پر کراچی جا رہا ہوں۔ آئی بی ای کے ایک سیمینار کے لئے۔ اتوار کو میری واپسی ہو گی۔ میں تو آ کر بس سوؤں گا۔
“Nothing else۔ تم چلے جانا ۔، میں لفافہ دے دوں گا، وہ تم میری طرف سے معذرت کرتے ہوئے دے دینا۔” سالار نے کہا۔
“کتنے افسوس کی بات ہے سالار! وہ خود کارڈ دے کر گئی ہیں، اتنی محبت سے بلایا ہے۔”
فرقان نے کہا۔
“جانتا ہوں لیکن میں ادھر جا کر وقت ضائع نہیں کر سکتا۔”
“ہم بس تھوڑی دیر بیٹھیں گے پھر آجائیں گے۔”
“فرقان! میری واپسی کنفرم نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے میں اتورا کو آ ہی نہ سکوں یا اتوار کی رات کو آؤں۔”
“بے حد فضول آدمی ہو تم۔ وہ بڑی مایوس ہوں گی۔”
“کچھ نہیں ہو گا، میرے نہ ہونے سے ان کی بیٹی کی شادی تو نہیں رک جائے گی۔ ہو سکتا ہے انہیں پہلے ہی میرے نہ آنے کا اندازہ ہو اور ویسے بھی فرقان! تم اور میں کوئی اتنے اہم مہمان نہیں ہیں۔”
سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
“بہرحال میں اور میری بیوی تو جائیں گے، چاہے ہم کم اہم مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔” فرقان نے ناراضی سے کہا۔
“میں نے کب روکا ہے، ضرور جاؤ، تمہیں جانا بھی چاہئیے۔ سعیدہ اماں کے ساتھ تمہاری مجھ سے زیادہ بے تکلفی اور دوستی ہے۔” سالار نے کہا۔
“مگر سعیدہ اماں کو میرے بجائے تمہارا زیادہ خیال رہتا ہے۔”فرقان نے جتایا۔
“وہ مروت ہوتی ہے۔” سالار نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لئے بغیر کہا۔
“جو بھی ہوتا ہے بہرحال تمہارا خیال تو ہوتا ہے انہیں۔ چلو اور کچھ نہیں تو ڈاکٹر سبط علی کی عزیزہ سمجھ کر ہی تم ان کے ہاں چلے جاؤ۔” فرقان نے ایک اور حربہ آزمایا۔
“ڈاکٹر صاحب تو خود یہاں نہیں ہیں۔ وہ تو خود شادی میں شرکت نہیں کر رہے اور اگر وہ یہاں ہوتے بھی تو کم از کم مجھے تمہاری طرح مجبور نہیں کرتے۔”
“اچھا، میں بھی نہیں کرتا تمہیں مجبور۔ نہیں جانا چاہتے تو مت جاؤ۔”
فرقان نے کہا۔
سالار ایک بار پھر اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہو چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ایک سرسبز و وسیع سبزہ زار تھا جہاں وہ دونوں موجود تھے۔ وسیع کھلے سبزہ زار میں درخت تھے مگر زیادہ بلند نہیں۔ خوبصورت بھولدار جھاڑیاں تھیں، چاروں طرف خاموشی تھی۔وہ دونوں کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کے بجائے ایک پھولدار جھاڑی کے قریب دھوپ میں بیٹھے تھے۔ امامہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ہوئے بیٹھی تھی اور وہ گھاس پر چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ان دونوں کے جوتے کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔ امامہ نے اس بار خوبصورت سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہو رہی تھی۔ امامہ اس سے کچھ کہتے ہوئے دور کسی چیز کو دیکھ رہی تھی۔ اس نے لیٹے لیٹے اس کی چادر کے ایک پلو سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ یوں جیسے دھوپ کی شعاعوں سے آنکھوں کو بچانا چاہتا ہو۔ اس کی چادر نے اسے عجیب سا سکون اور سرشاری دی تھی۔ امامہ نے چادر کے سرے کو اس کے چہرے سے ہتانے یا کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔ دھوپ اس کے جسم کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ آنکھیں بند کئے وہ اپنے چہرے پر موجود چادر کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔ وہ نیند اسے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔
سالار نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔ کسی چیز نے اس کی نیند کو توڑ دیا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے کچھ دیر بے یقینی سے اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اسے ہونا چاہئیے تھا۔ ایک اور خواب۔۔۔۔۔ ایک اور الوژن۔۔۔۔۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور تب اس کو اس موبائل فون کی آواز نے متوجہ کیا، جو مسلسل اس کے سرہانے بج رہا تھا۔ یہ فون ہی تھا جو اسے اس خواب سے باہر لے آیا تھا۔ قدرے جھنجھلاتے ہوئے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر اس نے موبائل اٹھایا۔ دوسری طرف فرقان تھا۔
“کہاں تھے سالار! کب سے فون کر رہا ہوں۔ اٹینڈ کیوں نہیں کر رہے تھے؟”فرقان نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
“میں سو رہا تھا۔” سالار نے کہا اور اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظر اب پہلی بار گھڑی پر پڑی جو چار بجا رہی تھی۔
“تم فوراً سعیدہ اماں کے ہاں چلے آؤ۔” دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔
“کیوں؟میں نے تمہیں بتایا تھا ، میں تو۔۔۔۔۔”
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
“میں جانتا ہوں، تم نے مجھے کیا بتایا تھا مگر یہاں کچھ ایمرجنسی ہو گئی ہے۔”
“کیسی ایمرجنسی؟” سالار کو تشویش ہوئی۔
“تم یہاں آؤ گے تو پتا چل جائے گا۔ تم فوراً یہاں پہنچو، میں فون بند کر رہا ہوں۔”
فرقان نے فون بند کر دیا۔
سالار کچھ پریشانی کے عالم میں فون کو دیکھتا رہا۔ فرقان کی آواز سے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ پریشان تھا مگر سعیدہ اماں کے ہاں پریشانی کی نوعیت کیا ہو سکتی تھی۔
پندرہ منٹ میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد گاڑی میں تھا۔ فرقان کی اگلی کال اس نے کار میں ریسیو کی۔
“تم کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے؟ مجھے پریشان کر دیا ہے تم نے۔” سالار نے اس سے کہا۔
“پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ادھر ہی آ رہے ہو۔ یہاں آؤ گے تو تمہیں پتا چل جائے گا۔ میں فون پر تفصیلی بات نہیں کر سکتا۔”
فرقان نے ایک بار پھر فون بندکر دیا۔
تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے آدھے گھنٹے کا سفر تقریباً بیس منٹ میں طے کیا۔ فرقان اسے سعیدہ اماں کے گھر کے باہر ہی مل گیا۔ سالار کا خیال تھا کہ سعیدہ اماں کے ہاں اس وقت بہت چہل پہل ہو گی مگر ایسا نہیں تھا۔ وہاں دور دور تک کسی بارات کے آثار نہیں تھے۔ فرقان کے ساتھ وہ بیرونی دروازے کے بائیں طرف بنے ہوئے ایک پرانی طرز کے ڈرائینگ روم میں آ گیا۔
“آخر ہوا کیا ہے جو تمہیں مجھے اس طرح بلانا پڑ گیا؟”
سالار اب الجھ رہا تھا۔
“سعیدہ اماں اور ان کی بیٹی کے ساتھ ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔” فرقان نے اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
“کیسا مسئلہ؟”
“جس لڑکے سے ان کی بیٹی کی شادی ہو رہی تھی اس لڑکے نے کہیں اور اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے۔”
“مائی گڈنیس۔” سالار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
“ان لوگوں نے ابھی کچھ دیر پہلے سعیدہ اماں کو یہ سب فون پر بتا کر ان سے معذرت کی ہے۔ وہ لوگ اب بارات نہیں لا رہے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے ہاں گیا ہوا تھا، مگر وہ لوگ واقعی مجبور ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے، اس لڑکے نے بھی انہیں صرف فون پر ہی اس کی اطلاع دی ہے۔” فرقان تفصیل بتانے لگا۔
“اگر وہ لڑکا شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے بہت پہلے ہی ماں باپ کو صاف صاف بتا دینا چاہئیے تھا۔ بھاگ کر شادی کر لینے کی ہمت تھی تو ماں باپ کو پہلے اس شادی سے انکار کر دینے کی بھی ہمت ہونی چاہئیے تھی۔” سالار نے ناپسندیدگی سے کہا۔
“سعیدہ اماں کے بیٹوں کو اس وقت یہاں ہونا چاہئیے تھا، وہ اس معاملے کو ہینڈل کر سکتے تھے۔”
“لیکن اب وہ نہیں ہیں تو کسی نہ کسی کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔”
“سعیدہ اماں کے کوئی اور قریبی رشتہ دار نہیں ہیں؟” سالار نے پوچھا۔
“نہیں، میں نے ابھی کچھ دیر پہلے داکٹر سبط علی صاحب سے بات کی ہے فون پر۔” فرقان نے اسے بتایا۔
“لیکن ڈاکٹر صاحب بھی فوری طور پر تو کچھ نہیں کر سکیں گے۔ یہاں ہوتے تو اور بات تھی۔” سالار نے کہا۔
“انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہاری فون پر ان سے بات کراؤں۔”فرقان کی آواز اس بار کچھ دھیمی تھی۔
“میری بات۔۔۔۔۔ لیکن کس لئے؟ سالار کچھ حیران ہوا۔
“ان کا خیال ہے کہ اس وقت تم سعیدہ اماں کی مدد کر سکتے ہو۔”
“میں ؟” سالار نے چونک کر کہا۔” میں کس طرح مدد کر سکتا ہوں؟”
“آمنہ سے شادی کر کے۔”
سالار دم بخود پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟” اس نے بمشکل فرقان سے کہا۔
“ہاں، بالکل ٹھیک ہے۔” سالار کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
“پھر تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔”
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ فرقان برق رفتاری سے اٹھ کر اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔
“کیا سوچ کر تم نے یہ بات کہی ہے۔” سالار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکا۔
“میں نے یہ سب تم سے ڈاکٹرصاحب کے کہنے پر کہا ہے۔” سالار کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
“تم نے انہیں میرا نام کیوں دیا؟”
“میں نے نہیں دیا سالار! انہوں نے خود تمہارا نام لیا ہے۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تم سے درخواست کروں کہ میں اس وقت سعیدہ اماں کی بیٹی سے شادی کر کے اس کی مدد کروں۔”
کسی نے سالار کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی تھی یا سر سے آسمان، اسے انداز ہ نہیں ہوا۔ وہ پلٹ کر واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔
“میں شادی شدہ ہوں فرقان! تم نے انہیں بتایا۔”
“ہاں میں نے انہیں بتا دیا تھا کہ تم نے کئی سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا، مگر پھر وہ لڑکی دوبارہ تمہیں نہیں ملی۔”
“پھر؟”
“وہ اس کے باوجود یہی چاہتے ہیں کہ تم آمنہ سے شادی کر لو۔”
“فرقان۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
“اور امامہ۔۔۔۔۔ اس کا کیا ہو گا؟”
“تمہاری زندگی میں امامہ کہیں نہیں ہے۔ اتنے سالوں میں کون جانتا ہے، وہ کہاں ہے۔ ہے بھی کہ نہیں۔”
“فرقان۔۔۔۔۔” سالار نے ترشی سے اس کی بات کاٹی۔” اس بات کو رہنے دو کہ وہ ہے یا نہیں۔ مجھے صرف یہ بتاؤ کہ اگر کل امامہ آ جا تی ہو تو۔۔۔۔۔ تو کیا ہو گا؟”
“تم یہ بات ڈاکٹر صاحب سے کہو۔” فرقان نے کہا۔
“نہیں، تم یہ سب کچھ سعیدہ اماں کو بتاؤ، ضروری تو نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قبول کر لیتی جس نے کہیں اور شادی کی ہے۔”
“وہ اگر بارات لے کر آ جاتا تو شاید یہ بھی ہو جاتا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ آمنہ سے دوسری شادی پر بھی تیار نہیں ہے۔”
“اسے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔”
“ہاں، ڈھونڈا جا سکتا ہے مگر یہ کام اس وقت نہیں ہو سکتا۔”
“ڈاکٹر صاحب نے آمنہ کے لئے غلط انتخاب کیا ہے۔ میں ۔۔۔۔۔ میں آمنہ کو کیا دے سکتا ہوں۔میں تو اس آدمی سے بھی بدتر ہوں جو ابھی اسے چھوڑ گیا ہے۔”
سالار نے بے چارگی سے کہا۔
“سالار! انہیں اس وقت کسی کی ضرورت ہے، ضرورت کے وقت صرف وہی آدمی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔ تم زندگی میں اتنے بہت سے لوگوں کی مدد کرتے آ رہے ہو، کیا ڈاکٹر سبط علی صاحب کی مدد نہیں کر سکتے۔”
“میں نے لوگوں کی پیسے سے مدد کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے پیسہ نہیں مانگ رہے۔”
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے نمبر دیکھ کر موبائل سالار کی طرف بڑھا دیا۔
“ڈاکٹر صاحب کی کال آ رہی ہے۔”
سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ موبائل پکڑ لیا۔
وہاں بیٹھے موبائل کان سے لگائے سالار کو پہلی بار احساس ہو رہا تھا کہ زندگی میں ہر بات، ہر شخص سے نہیں کہی جا سکتی۔ وہ جو کچھ فرقان سے کہہ سکتا تھا وہ ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتا تھا۔ انہیں دلائل دے سکتا تھا نہ بہانے بنا سکتا تھا۔ انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں اس سے درخواست کی تھی۔
“اگر آپ اپنے والدین سے اجازت لے سکیں تو آمنہ سے شادی کر لیں۔ وہ میری بیٹی جیسی ہے۔ آپ سمجھیں میں اپنی بیٹی کے لئے آپ سے درخواست کر رہا ہوں، آپ کو تکلیف دے رہا ہوں لیکن میں ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوں۔”
“آپ جیسا چاہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔”
اس نے مدھم آواز میں ان سے کہا۔
“آپ مجھ سے درخواست نہ کریں، آپ مجھے حکم دیں۔” اس نے خود کو کہتے پایا۔
فرقان تقریباً دس منٹ کے بعد اندر آیا۔ سالار موبائل فون ہاتھ میں پکڑے گم صم فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
“ڈاکٹر صاحب سے بات ہو گئی تمہاری؟”
فرقان نے اس کے بالمقابل ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔
سالار نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر کچھ کہے بغیر سینٹر ٹیبل پر اس کا موبائل رکھ دیا۔
“میں رخصتی ابھی نہیں کراؤں گا۔ بس نکاح کافی ہے۔”
اس نے چند لمحوں بعد کہا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا۔ فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ وہ” مقدر” کا شکار ہونے والا پہلا انسان نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سڑک پر گہما گہمی نہ ہونے کے برابر تھی۔ رات بہت تیزی سے گزرتی جا رہی تھی۔ گہری دھند ایک بار پھر ہر چیز کو اپنے حصار میں لے رہی تھی۔
سڑک پر جلنے والی سٹریٹ لائٹس کی روشنی دھند کو چیرتے ہوئے اس بالکونی کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی جہاں منڈیر کے پاس ایک اسٹول پر، سالار بیٹھا ہوا تھا۔ منڈٖیر پر اس کے سامنے کا فی کا ایک مگ پڑا ہوا تھا، جس میں سے اٹھنے والی گرم بھاپ دھند کے پس منظر میں عجیب سی شکلیں بنانے میں مصروف تھی اور وہ۔۔۔۔۔ وہ سینے پر دونوں ہاتھ لپیٹے یک ٹک نیچے سنسان سڑک کو دیکھ رہا تھا جو دھند کے اس غلاف میں بہت عجیب نظر آ رہی تھی۔
رات کے دس بج رہے تھے اور وہ چند منٹ پہلے ہی گھر پہنچا تھا۔ سعیدہ اماں کے گھر نکاح کے بعد وہ وہاں رکا نہیں تھا۔ اسے وہاں عجیب سی وحشت ہو رہی تھی۔ وہ گاڑی لے کر بے مقصد شام سے رات تک سڑکوں پر پھرتا رہا۔ اس کا موبائل آف تھا۔ وہ بیرونی دنیا سے اس وقت کوئی رابطہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ موبائل آن ہوتا تو فرقان اس سے رابطہ کرتا۔ بہت سی وضاحتیں دینے کی کوشش کرتا یا ڈاکٹر سبط علی رابطہ کرتے، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتے۔
وہ یہ دونوں چیزیں نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس وقت مکمل خاموشی چاہتا تھا۔ اٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک بار پھر چند گھنٹے پہلے کے واقعات کے بارے میں سوچا۔ سب کچھ ایک خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ کاش خواب ہی ہوتا۔ اسے وہاں بیٹھے کئی ماہ پہلے حرم پاک میں مانگی جانے والی دعا یاد آئی۔
“تو کیا اسے میری زندگی سے نکال دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔” اس نے تکلیف سے سوچا۔
“تو پھر یہ اذیت بھی تو ختم ہونی چاہئیے۔ میں نے اس اذیت سے رہائی بھی تو مانگی تھی۔ میں نے اس کی یادوں سے فرار بھی تو چاہا تھا۔” اس نے منڈیر پر رکھا گرم کافی کا کپ اپنے سرد ہاتھوں میں تھام لیا۔
“تو امامہ ہاشم بالآخر تم میری زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل گئی۔”
اس نے کافی کی تلخی اپنے اندر اتاری۔
“اور اب کیا میں پچھتاؤں کہ کاش میں کبھی سعیدہ اماں کو اس سڑک پر نہ دیکھ پاتا یا میں ان کو لفٹ نہ دیتا۔ ان کا گھر مل جاتا اور میں انہیں وہاں ڈراپ کر کے آ جاتا۔ ان کو اپنے گھر نہ لاتا، نہ روابط بڑھتے، نہ وہ اس شادی پر مجھے بلاتیں یا پھر کاش میں آج کراچی میں ہی نہ ہوتا ۔ یہاں ہوتا ہی نہیں یا میں موبائل آف کر کے سوتا۔ فون کا ریسیور رکھ دیتا۔ فرقان کی کال ریسیو ہی نہ کرتا یا پھر کاش میں ڈاکٹر سبط علی کو نہ جانتا ہوتا کہ ان کے کہنے پر مجھے مجبور نہ ہونا پڑتا یا پھر شاید مجھے یہ تسلیم کر لینا چاہئیے کہ امامہ میرے لئے نہیں ہے۔” اس نے کافی کا مگ دوبارہ منڈیر پر رکھ دیا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر پھیرے، پھر جیسے کوئی خیال آنے پر اپنا والٹ نکال لیا۔ والٹ کی ایک جیب سے اس نے ایک تہہ شدہ کاغذ نکال کر کھول لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
اس نے نو ماہ میں کتنی بار اس کاغذ کو پڑھا تھا اسے یاد نہیں تھا۔ اس کاغذ کو چھوتے ہوئے اسے اس کاغذ میں امامہ کا لمس محسوس ہوتاتھا۔ اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا اپنا نام۔۔۔۔۔ کاغذ پر تحریر ان چند جملوں میں اس کے لئے کوئی اپنائیت نہیں تھی۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امامہ کو اس کی موت کی خبر پر بھی کوئی افسوس نہیں ہوا تھا۔ وہ خبر اس کے لئے ڈھائی سال بعد رہائی کا پیغام بن کر آئی تھی۔ اسے کیسے افسوس ہو سکتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ چند جملے اس لئے بہت اہم ہو گئے تھے۔
اس نے کاغذ پر لکھے جملوں پر اپنی انگلیاں پھیریں۔ اس نے آخر میں لکھے امامہ ہاشم کے نام کو چھوا۔۔۔۔۔ پھر کاغذ کودوبارہ اسی طرح تہہ کر کے والٹ میں رکھ لیا۔
منڈیر پر کافی کا مگ سرد ہو چکا تھا۔ سالار نے ٹھنڈی کافی کے باقی مگ کو ایک گھونٹ میں اپنے اندر انڈیل لیا۔
ڈاکٹر سبط علی ایک ہفتے تک لندن سے واپس پاکستان پہنچ رہے تھے اور اسے ان کا انتظار تھا۔ امامہ ہاشم کے بارے میں جو کچھ وہ اتنے سالوں سے انہیں نہیں بتا سکا تھا وہ انہیں اب بتانا چاہتا تھا۔ اپنے ماضی کے بارے میں جو کچھ وہ انہیں نہیں بتا پایا تھا اب وہ ان سے کہہ دینا چاہتا تھا۔ اسے اب پرواہ نہیں تھی وہ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رمضان کی چار تاریخ تھی، جب ڈاکٹر سبط علی واپس آ گئے تھے۔ وہ رات کو کافی دیر سے آئے تھے اور سالار نے اس وقت انہیں ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ وہ رات کو ان کے پاس پہلے کی طرح جانا چاہتا تھا مگر دوپہر کو خلاف توقع بینک میں ان کا فون آ گیا۔ سالار کے نکاح کے بعد یہ ان کا سالار سے تیسرا رابطہ تھا۔ وہ کچھ دیر اس کا حال احوال دریافت کرتے رہے پھر انہوں نے اس سے کہا۔
“سالار! آپ آج رات کو نہ آئیں، شام کو آجائی۔ افطاری میرے ساتھ کریں۔”
“ٹھیک ہے میں آ جاؤں گا۔” سالار نے حامی بھرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر ان کے درمیان مزید گفتگو ہوتی رہی پھر ڈاکٹر سبط علی نے فون بند کر دیا۔
وہ اس دن بینک سے کچھ جلدی نکل آیا۔ اپنے فلیٹ پر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ جب ان کے پاں پہنچا اس وقت افطاری میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔
ڈاکٹر سبط علی کا ملازم اسے اجتماع والے بیرونی کمرے کے بجائے سیدھا اندر لاؤنج میں لے آیا تھا۔ ڈاکٹر سبط علی نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس سے بغلگیر ہونے کے بعد بڑی محبت کے ساتھ اس کا ماتھا چوما۔
“پہلے آپ ایک دوست کی حیثیت سے یہاں آتے تھے، آج آپ گھر کا ایک فرد بن کر یہاں آئے ہیں۔”
وہ جانتا تھا ان کا اشارہ کس طرف تھا۔
“آئیے بیٹھیے۔” وہ اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود دوسرے صوفہ پر بیٹھ گئے۔
“بہت مبارک ہو۔ اب تو آپ بھی گھر والے ہو گئے ہیں۔”
سالار نے خاموش نظروں اور پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھا۔ وہ مسکرا رہے تھے۔
“میں بہت خوش ہوں کہ آپ کی شادی آمنہ سے ہوئی ہے۔ وہ میرے لئے میری چوتھی بیٹی کی طرح ہے اور اس رشتے سے آپ بھی میرے داماد ہیں۔”
سالار نے نظریں جھکا لیں۔ اس کی زندگی میں امامہ ہاشم کا باب نہ لکھا ہوا ہوتا تو شاید ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر وہ اپنے آپ پر فخر کرتا مگر سارا فرق امامہ ہاشم تھی۔ سارا فرق وہی ایک لڑکی پیدا کر رہی تھی وہ جو تھی اور نہیں تھی۔
ڈاکٹر سبط علی کچھ دیر اسے دیکھتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
“آپ اتنے سالوں سے میرے پاس آ رہے ہیں آپ نے کبھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ آپ نکاح کر چکے ہیں۔ تب بھی نہیں جب ایک دو بار آپ سے شادی کا ذکر ہوا۔”
سالار نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔
“میں آپ کو بتانا چاہتا تھا مگر۔۔۔۔۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو گیا۔
“سب کچھ اتنا عجیب تھا کہ میں آپ کو کیا بتاتا۔” اس نے دل میں کہا
“کب ہوا تھا آپ کا نکاح؟” ڈاکٹر سبط علی دھیمے لہجے میں پوچھ رہے تھے۔” ساڑھے آٹھ سال پہلے، تب میں اکیس سال کا تھا۔”اس نے کسی شکست خودہ معمول کی طرح کہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ انہیں سب کچھ بتاتا گیا۔ ڈاکٹر سبط علی نے ایک بار بھی اسے نہیں ٹوکا تھا۔ اس کے خاموش ہونے کے بعد بھی بہت دیر تک وہ چپ رہے تھے۔
بہت دیر بعد انہوں نے اس سے کہا تھا۔
“آمنہ بہت اچھی لڑکی ہے اور وہ خوش قسمت ہے کہ اسے ایک صالح مرد ملا ہے۔”
ان کی بات سالار کو ایک چابک کی طرح لگی۔
“صالح؟ میں صالح مرد نہیں ہوں ڈاکٹرصاحب! میں تو۔۔۔۔۔ اسفل السافلین ہوں۔ آپ مجھے جانتے ہوتے تو میرے لئے کبھی یہ لفظ استعمال نہ کرتے نہ اس لڑکی کے لئے میرا انتخاب کرتے جسے آپ اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں۔”
“ہم سب اپنی زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر”زمانہ جاہلیت” سے ضرور گزرتے ہیں، بعض گزر جاتے ہیں، بعض ساری زندگی اسی زمانے میں گزار دیتے ہیں۔ آپ اس میں سے گزر چکے ہیں۔ آپ کا پچھتاوا بتا رہا ہے کہ آپ گزر چکے ہیں۔ میں آپ کو پچھتاوے سے رکوں گا نہ توبہ اور دعا سے، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی ساری زندگی یہ کریں، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شکر بھی ادا کریں کہ آپ نفس کی تمام بیماریوں سے چھٹکارا پا چکے ہیں۔”
اگر دنیا آپ کو اپنی طرف نہیں کھینچتی، اگر اللہ کے خوف سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، اگر دوزخ کا تصور آپ کو ڈراتا ہے، اگر آپ اللہ کی عبادت اس طرح کرتے ہیں جس طرح کرنی چاہئیے، اگر نیکی آپ کو اپنی طرف راغب کرتی ہے اور برائی سے آپ رک جاتے ہیں تو پھر آپ صالح ہیں۔ کچھ صالح ہوتے ہیں، کچھ صالح بنتے ہیں، صالح ہونا خوش قسمتی کی بات ہے، صالح بننا دو دھاری تلوار پر چلنے کے برابر ہے۔ اس میں زیادہ وقت لگتا ہے، اس میں زیادہ تکلیف سہنی پڑتی ہے۔ میں اب بھی یہی کہتا ہوں کہ آپ صالح ہیں کیونکہ آپ صالح بنے ہیں، اللہ آپ سے بڑے کام لے گا۔”
سالار کی آنکھوں میں نمی آ گئی انہوں نے ایک بار پھر امامہ ہاشم کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا، کچھ نہیں کہا تھا۔ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس کی زندگی سے نکل گئی؟ کیا اس کا مطلب تھا کہ وہ آئندہ بھی کبھی اس کی زندگی میں نہیں آئے گی؟ اسے اپنی زندگی آمنہ کے ساتھ ہی گزارنے پڑے گی؟ اس کا دل ڈوبا۔ وہ ڈاکٹڑ صاحب کے منہ سے امامہ کے حوالے سے کوئی تسلی، کوئی دلاسا، کوئی امید چاہتا تھا۔
ڈاکٹر صاحب خاموش تھے۔ وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
“میں آپ کے لئے اور آمنہ کے لئے بہت دعا کروں گا بلکہ میں بہت دعا کر کے آیا ہوں خانہ کعبہ میں۔۔۔۔۔ روضہ رسول ﷺ پر۔” وہ لندن سے واپسی پر عمرہ کر کے آئے تھے۔ سالار نے سر جھکا لیا۔ دور اذا ن کی آواز آ رہی تھی۔ ملازم افتاری کے لئے میز تیار کر رہا تھا۔ اس نے بوجھل دل کے ساتھ ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ بیٹھ کر روزہ افطار کیا پھر وہ اور ڈاکٹر سبط علی نماز پڑھنے کے لئے قریبی مسجد میں چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر اس نے ڈاکٹر سبط علی کے ہاں کھانا کھایا اور پھر اپنے فلیٹ پر واپس آ گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“کل میرے ساتھ سعیدہ اماں کے ہاں چل سکتے ہو؟”
اس نے ڈاکٹر سبط علی کے گھر سے واپسی کے بعد دس بجے کے قریب فرقان کو فون کیا۔ فرقان ہاسپٹل میں تھا اس کی نائٹ ڈیوٹی تھی۔
“ہاں ، کیوں نہیں۔ کوئی خاص کام ہے؟”
“میں آمنہ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔”
فرقان کچھ دیر بول نہیں سکا۔ سالار کا لہجہ بہت ہموار تھا۔ وہاں کسی تلخی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
“کیسی باتیں؟”
“کوئی تشویش ناک بات نہیں ہے۔” سالار نے جیسے اسے تسلی دی۔
“پھر بھی۔” فرقان نے اصرار کیا۔
“تم پھر امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟”
“تم پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ میرے ساتھ چلو گے؟”
سالارنے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے پوچھا۔
“ہاں، چلوں گا۔”
“تو پھر میں تمہیں کل ہی بتاؤں گا کہ مجھے اس سے کیا بات کرنی ہے۔”
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا، فون بند ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“تم اس سے امامہ کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہو؟” فرقان نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے سالار سے پوچھا۔
“نہیں، صرف امامہ کے بارے میں نہیں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو میں کرنا چاہتا ہوں۔”
“فارگاڈ سیک سالار! گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش مت کرو۔” فرقان نے ناراضی سے کہا۔
“اس کو میری ترجیحات اور مقاصد کا پتا ہونا چاہئیے۔ اب اسے ساری زندگی گزارنی ہے میرے ساتھ۔”
سالارنے اس کی ناراضی کی پرواہ کئے بغیر کہا۔
“پتا چل جائے گا اسے، سمجھ دار لڑکی ہے وہ اور اگر کچھ بتانا ہی ہے تو گھر لا کر بتانا۔ وہاں پینڈورا باکس کھول کر مت بیٹھنا۔”
“گھر لا کر بتانے کا کیا فائدہ، جب اس کے پاس واپسی کا کوئی راستہ ہی نہ ہو۔ میں چاہتا ہوں وہ میری باتوں کو سنے، سمجھے، سوچے اور پھر کوئی فیصلہ کرے۔”
“اب کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی وہ۔ تمہارا اور اس کا نکاح ہو چکا ہے۔”
“رخصتی تو نہیں ہوئی۔”
“اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
“کیوں نہیں پڑتا۔ اگر اس کو میری بات پر اعتراض ہوا تو وہ اس رشتے کے بارے میں نظر ثانی کر سکتی ہے۔” سالار نے سنجیدگی سے کہا۔
فرقان نے چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
“اور اس نظر ثانی کے لئے تم کس طرح کے حقائق اور دلائل پیش کرنے والے ہو اس کے سامنے؟”
“میں اسے صرف چند باتیں بتانا چاہتا ہوں جس کا جاننا اس لئے ضروری ہے۔” سالار نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“وہ ڈاکٹر سبط علی کی رشتہ دار ہیں، میں اس حوالے سے اس کی بہت عزت کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے نہیں کہا ہوتا تو یہ رشتہ قائم بھی نہ ہوتا لیکن میں۔۔۔۔۔”
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
“ٹھیک ہے، تم کو اس سے جو کہنا ہے ، کہہ لینا لیکن امامہ کے ذکر کو ذرا کم ہی رکھنا کیونکہ وہ اگر کسی بات سے ہرٹ ہوئی تو وہ یہی بات ہو گی، باقی چیزوں کی پرواہ وہ شاید نہ کرے۔ آفٹر آل۔ دوسری بیوی ہونا یا کہلانا آسان نہیں ہوتا۔”
فرقان نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
“اور میں چاہتا ہوں وہ یہ بات محسوس کرے،سوچے اس کے بارے میں۔۔۔۔۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں بگڑا۔ تم کہتے ہو وہ خوبصورت ہے، پڑھی لکھی ہے، اچھی فیملی سے تعلق ہے اس کا۔۔۔۔۔”
فرقان نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
“ختم کرو اس موضوع کو سالار! تم کو اس سے جو کچھ کہنا ہے، اسے جو سمجھانا ہے جا کہ کہہ لینا۔۔۔۔۔”
“میں اس سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔” سالار نے کہا۔
“میں سعیدہ اماں سے کہہ دوں گا۔ وہ تمہیں اکیلے میں اس سے بات کرا دیں گی۔”
فرقان نے اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
وہ آدھ گھنٹہ میں سعیدہ اماں کے ہاں پہنچ گئے۔ دروازہ سعیدہ اماں نے ہی کھولا تھا اور سالار اور فرقان کو دیکھ کر وہ جیسے خوشی سے بے حال ہو گئی تھیں۔ وہ ان دونوں کو اسی بیٹھک نماکمرے میں لے گئیں۔
“سعیدہ اماں! سالار، آمنہ سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔”
فرقان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کچھ الجھیں۔
“کیسی باتیں؟” وہ اب سالار کی طرف دیکھ رہی تھیں جو خود بھی بیٹھنے کے بجائے فرقان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔
“ہیں چند باتیں، جو وہ اس سے کرنا چاہتا ہے مگر پریشانی والی کوئی بات نہیں۔” فرقان نے انہیں تسلی دی۔
سعیدہ اماں ایک بار پھر سالار کو دیکھنے لگیں۔ اس نے نظریں چرا لیں۔
“اچھا۔۔۔۔۔ پھر تم میرے ساتھ آ جاؤ بیٹا! آمنہ اندر ہے۔ ادھر آ کر اس سے مل لو۔”
سعیدہ اماں کہتے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئیں۔ سالار نے ایک نظر فرقان کو دیکھا پھر وہ خود بھی سعیدہ اماں کے پیچھے چلا گیا۔
بیٹھک بیرونی دروازے کے بائیں جانب تھی۔ دائیں جانب اوپر جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ بیرونی دروازے سے کچھ آ گے بالکل سامنے کچھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد لکڑی کا ایک اور پرانی طرز کا بہت بڑا دروازہ تھا جو اس وقت کھلا ہوا تھا اور وہاں سرخ اینٹوں کا بڑا وسیع صحن نظر آ رہا تھا۔
سعیدہ اماں کا رخ انہی سیڑھیوں کی طرف تھا۔ سالار ان سے کچھ فاصلے پر تھا۔ سعیدہ اماں اب سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ وہ جب سیڑھیاں چڑھ کر صحن میں داخل ہو گئیں تو سالار بھی کچھ جھجکتا ہوا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کےدونوں اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراونڈ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ صحن کے ایک حصے میں دھوپ تھی اور دن کے اس حصے میں بھی وہ دھوپ بے حد تیز تھی۔ دھوپ نے سرخ رنگ کو کچھ اور نمایاں کر دیاتھا۔
آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر سالار نے صحن میں قدم رکھ دیا اور وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ صحن کے دھوپ والے حصے میں رکھی چارپائی کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ شاید ابھی چارپائی سے اتری تھی۔ اس کی پشت سالار کی طرف تھی۔ وہ سفید کرتے اور سیاہ شلوار میں ملبوس تھی اور نہا کر نکلی تھی۔ اس کی کمر سے کچھ اوپر اس کے سیاہ گیلے بال لٹوں کی صورت میں اس کی پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کا سفید دوپٹہ چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ وہ اپنے کرتے کی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کرتے ہوئے سالار کی طرف مڑی۔
سالار سانس نہیں لے سکا۔ اس نے زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی یا پھر اسے اس لڑکی سے زیادہ خوبصورت کوئی نہیں لگا تھا۔ وہ یقیناً آمنہ تھی۔ اس کے گھر میں آمنہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا تھا۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ کسی نے اس کے دل کو مٹھی میں لیا تھا۔ دھڑکن رکی تھی یا رواں وہ جان نہیں سکا۔
اس کے اور آمنہ کے درمیان بہت فاصلہ تھا آستین موڑتے ہوئے آمنہ کی پہلی نظر سعیدہ اماں پر پڑی۔
“سالار بیٹا آیا ہے۔”
سعیدہ اماں بہت آگے بڑھ آئی تھیں۔ آمنہ نے گردن کو ترچھا کرتے ہوئے صحن کے دروازے کی طرف دیکھا۔ سالار نے اسے بھی ٹھٹکتے دیکھا، پھر وہ مڑی۔ اس کی پشت ایک بار پھر سالار کی طرف تھی۔ سالار نے اسے جھکتے اور چار پائی سے دوپٹہ اٹھاتے دیکھا۔ دوپٹے کو سینے پر پھیلاتے ہوئے اس نے اس کے ایک پلو کے ساتھ اپنے سر اور پشت کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔
سالار اب اس کی پشت پر بکھرے بال نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اسے آمنہ کے اطمینان نے حیران کیا تھا، وہاں کوئی گھبراہٹ، کوئی جلدی ، کوئی حیرانی نہیں تھی۔
سعیدہ اماں نے مڑ کر سالار کو دیکھا پھر اسے دروازے میں ہی کھڑے دیکھ کر انہوں نے کہا۔
“ارے بیٹا! وہاں کیوں کھڑے ہو، اندر آؤ۔ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔”
آمنہ نے دوپٹہ اوڑھنے کے بعد مڑ کر اسے ایک بار پھر دیکھا تھا۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، دم بخود، بے حس و حرکت۔
آمنہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ وہ اب آگے گیا تھا۔
“یہ آ منہ ہے، میری بیٹی۔” سعیدہ اماں نے اس کے قریب آنے پر تعارف کرایا۔
“السلام علیکم!” سالار نے آمنہ کو کہتے سنا۔ وہ کچھ بول نہیں سکا۔ وہ اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھنا مشکل ہو گیا تھا۔
وہ نروس ہو رہا تھا۔ آمنہ نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کر لیا تھا۔
“سالار! تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔”
سعیدہ اماں نے آمنہ کو بتایا۔
آمنہ نے ایک بار پھر سالار کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں میل ، دونوں نے بیک وقت نظریں چرائیں۔
آمنہ نے سعیدہ اماں کو دیکھا اور سالار نے آمنہ کی کلائیوں تک مہندی کے نقش و نگار سے بھرے ہاتھوں کو۔
یک دم اسے لگا کہ وہ اس لڑکی سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
“سالار بیٹا! اندر کمرے میں چلتے ہیں۔ وہاں تم اطمینان سے آمنہ سے بات کر لینا۔
سعیدہ اماں نے اس بار سالار کو مخاطب کیا۔
سعیدہ اماں کہتے ہوئے اندر برآمدے کی طرف بڑھیں۔ سالار نے آمنہ کو سر جھکائے ان کی پیروی کرتے دیکھا۔ وہ وہیں کھڑا اسے اندر جاتا دیکھتا رہا۔ سعیدہ اماں کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئیں۔ آمنہ نے دروازے کے پاس پہنچ کر مڑتے مڑتے اسے دیکھا۔ سالار نے برق رفتاری سے نظریں جھکا لیں۔ آمنہ نے مڑ کر اسے دیکھا پھر شاید وہ حیران ہوئی۔ سالار اندر کیوں نہیں آ رہا تھا۔ سالار نے اس کی طرف دیکھے بغیر سر جھکائے قدم آگے بڑھا دئیے۔ آمنہ کچھ مطمئن ہو کر مڑ کر کمرے میں داخل ہو گئی۔
سالار جب کمرے میں داخل ہوا تو سعیدہ اماں پہلے ہی ایک کرسی پر بیٹھ چکی تھیں۔ آمنہ لائٹ آن کر رہی تھی۔ سالار کو دھوپ سے اندر آ کر خنکی کا احساس ہوا۔
“بیٹھو بیٹا!” سعیدہ اماں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔ سالار کرسی پر بیٹھ گیا۔ آمنہ لائٹ آن کرنے کے بعد اس سے کچھ فاصلے پر ان کے بالمقابل ایک کاؤچ پر بیٹھ گئی۔
سالار منتظر تھا کہ سعیدہ اماں چند لمحوں میں وہاں سے اٹھ کر چلی جائیں گی۔ فرقان نے واضح طور پر انہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا، مگر چند لمحوں کے بعد سالار کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا یہ انتظار بے کار تھا۔وہ شاید یہ بھول گئی تھیں کہ سالار تنہائی میں آمنہ سے ملنا چاہتا تھا یا پھر ان کا یہ خیال تھا کہ وہ تنہائی صرف فرقان کی عدم موجودگی کے لئے تھی۔ سالار نے انہیں اس میں شامل نہیں کیا ہو گا یا پھر وہ ابھی سالار کو اتنا قابل اعتبار نہیں سمجھتیں کہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسے اکیلا چھوڑ دیتیں۔
سالار کو آخری اندازہ صحیح لگا۔ وہ اس سے جو کچھ اور جتنا کچھ کہنا چاہتا تھا، سعیدہ اماں کے سامنے نہیں کہنا چاہتا تھا، وہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنے ذہن کو کھنگالنے کی کوشش کی۔ اسے کچھ تو کہنا ہی تھا، وہ کچھ نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس کا ذہن خالی تھا۔
نیم تاریک خنک کمرے میں بالکل خاموشی تھی۔ وہ اب دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
آمنہ نے کمرے میں کوئی فینسی لائٹ روشن کی تھی۔ اونچی دیواروں والا فرنیچر سے بھرا ہوا وہ وسیع و عریض کمرہ شاید سیٹنگ روم کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس میں بہت زیادہ دروازے تھے اور تمام دروازے بند تھے۔ کمرے میں موجود واحد کھڑکی برآمدے میں کھلتی تھی اور اس کے آگے پردے تھے۔ فرش کو بھاری بھر کم میرون نقش و نگار کے قالین سے ڈھکا گیا تھا اور فینسی لائٹ کمرے کو پوری طرح روشن کرنے میں ناکام ہو رہی تھی۔
کم از کم کمرے میں سالار کو تاریکی ہی محسوس ہو رہی تھی۔ شاید یہ اس کے احساسات تھے یا پھر۔
مجھے اپنے optician سے آج ضرور ملنا چاہئیے۔ قریب کے ساتھ ساتھ شاید میری دور کی نظر بھی کمزور ہو گئی ہے۔
سالار نے مایوسی سے سوچا۔ سینٹر ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی آمنہ کو وہ دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے ایک بار پھر نظر قالین پر جما دی پھر اس نے یک دم آمنہ کو اٹھتے دیکھا۔ وہ دیوار کے پاس جا کر کچھ اور لائٹس آن کر رہی تھی۔ کمرہ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں جگمگا اٹھا۔ فینسی لائٹ بند ہو گئی۔ سالار حیران ہوا۔ آمنہ نے پہلے ٹیوب لائٹ آن کیوں نہیں کی تھی، پھر اچانک اسے احساس ہوا وہ بھی نروس تھی۔
آمنہ دوبارہ پھر اس کے سامنے کاؤچ پر آ کر نہیں بیٹھی۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر سعیدہ اماں کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس بار اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسی طرح قالین کو گھورتا رہا۔ سعیدہ اماں کا صبر بالآخر جواب دے گیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کھنکھار کر سالار کو متوجہ کیا۔
“کرو بیٹا! وہ باتیں ، جو تم نے آمنہ سے تنہائی میں کرنی تھیں۔”
انہوں نے سالار کو بڑے پیار سے یاد دلایا۔
“اتنی دیر سے چپ بیٹھے ہو، میرا تو دل ہول رہا ہے۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا، پھر سعیدہ اماں اور آمنہ کو باری باری دیکھا۔
“کچھ نہیں، میں بس انہیں دیکھنا چاہتا تھا۔”
اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان ہموار رکھتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کے چہرے پر بشاشت آ گئی۔
“تو اتنی سی بات تھی اور فرقان نے مجھے ڈرا ہی دیا۔ ہاں ہاں ضرور دیکھو، کیوں نہیں۔ بیوی ہے تمہاری۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
“آپ ان سے کہہ دیں کہ سامان پیک کر لیں، میں باہر انتظار کرتا ہوں۔”
وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا سعیدہ اماں سے بولا۔ آمنہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
“مگر بیٹا! تم تو صرف کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے اس سے، پھر رخصتی۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے میں چاہتی تھی باقاعدہ رخصت کروں اور۔۔۔۔۔”
سالار نے نرمی سے سعیدہ اماں کی بات کاٹی۔
“آپ یہ سمجھ لیں کہ میں باقاعدہ رخصت کروانے کے لئے ہی آیا ہوں۔”
سعیدہ اماں کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
“ٹھیک ہے بیٹا! تم اگر ایسا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی مگر افطار کے لئے رکو۔ چند گھنٹے ہی باقی ہیں ، کھانا تو کھا کر جاؤ۔”
“نہیں ، مجھے اور فرقان کو کچھ کام ہے۔ میں اسے صرف ایک گھنٹے کے لئے لے کر آیا تھا۔ زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں ہے میرے لئے۔” وہ کھڑے کھڑے کہہ رہا تھا۔
“لیکن اماں! مجھے تو سامان پیک کرنے میں بہت دیر لگے گی۔”
آمنہ نے وہیں کرسی پر بیٹھے ہوئے پہلی بار ساری گفتگو میں حصہ لیا۔ سالار نے مڑ کر اسے دیکھے بغیر سعیدہ اماں سے کہا۔
“سعیدہ اماں! آپ ان سے کہیں یہ آرام سے پیکنگ کر لیں، میں باہر انتظار کروں گا۔ جتنی دیر یہ چاہیں۔”
وہ اب کمرے سے نکل گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
فرقان نے حیرانی سے سالار کو دیکھا۔ وہ بیٹھک میں داخل ہو رہا تھا۔
“تم اتنی جلدی واپس آ گئے، میں تو سوچ رہا تھا تم خاصی دیر کے بعد واپس آؤ گے۔”
سالار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے بیٹھ گیا۔
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
“خیریت ہے؟”
“ہاں۔”
“آمنہ سے ملاقات ہوئی؟”
“ہاں۔”
“پھر؟”
“پھر کیا؟”
“چلیں؟”
“نہیں۔”
“کیوں؟”
“میں آمنہ کو ساتھ لے کر جا رہا ہوں۔”
“کیا؟” فرقان بھونچکا رہ گیا۔
“تم تو اس سے بات کرنے کے لئےآئے تھے۔”
سالار جواب دینے کے بجائے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
“یہ یک دم رخصتی کا کیوں سوچ لیا؟”
“بس سوچ لیا۔”
اس بار فرقان نے اسے الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دو گھنٹے کے بعد آمنہ جب فرقان اور سالار کے ساتھ سالار کے فلیٹ پر پہنچی، تب افطار میں زیادہ وقت نہیں تھا۔ سالار نے افطاری کا سامان راستے سے لے لیا تھا۔ فرقان ان دونوں کو افطاری کے لئے اپنے فلیٹ پر لے جانا چاہتا تھا مگر سالار اس پر رضامند نہیں ہوا۔ فرقان نے اپنی بیوی کو بھی سالار کے فلیٹ پر بلوا لیا۔
افطاری کے لئے ٹیبل فرقان کی بیوی نے ہی تیار کیا تھا۔ آمنہ نے مدد کرنے کی کوشش کی تھی جسے فرقان اور اس کی بیوی نے رد کر دیا۔ سالار نے مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ موبائل لے کر بالکونی میں چلا گیا۔ لاونج میں بیٹھے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار آمنہ نے اسے بالکونی میں ٹہلتے موبائل پر کسی سے بات کرتے دیکھا۔ وہ بہت سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔
اس نے سعیدہ اماں کے گھر سے اپنے فلیٹ تک ایک بار بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ یہ صرف فرقان تھا جو وقتاً فوقتاً اسے مخاطب کرتا رہا تھا اور اب بھی یہی ہو رہا تھا۔
سالار نے وہ خاموشی افطار کی میز پر بھی نہیں توڑی۔ فرقان اور اس کی بیوی ہی آمنہ کو مختلف چیزیں سرو کرتے رہے۔ آمنہ نے اس کی خاموشی اور سرد مہری کو محسوس کیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
افطار کے بعد وہ فرقان کے ساتھ مغرب کی نماز کے لئے نکل آیا تھا۔ فرقان کو مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ہاسپٹل جانا تھا۔
مسجد سے نکل کر فرقان کے ساتھ کار پارکنگ کی طرف آتے ہوئے فرقان نے اس سے کہا۔
“تم بہت زیادہ خاموش ہو۔” سالار نے ایک نظرا سے دیکھا مگر کچھ کہے بغیر چلتا رہا۔
“کیا تمہیں کچھ کہنا نہیں ہے؟”
وہ مسلسل اس کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔ سالار نے سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
مغرب کے وقت ہی دھند نمودار ہونے لگی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے فرقان کو دیکھا۔
“نہیں، مجھے کچھ نہیں کہنا۔”
چند لمحے ساتھ چلنے کے بعد فرقان نے اسے بڑبڑاتے سنا۔
“میں آج کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہوں۔”
فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ ساتھ چلتے چلتے اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا۔
میں تمہارے احساسات سمجھ سکتا ہوں مگر زندگی میں یہ سب ہوتا رہتا ہے، تم امامہ کے لئے جو کچھ کر سکتے تھے تم نے کیا۔ جتنا انتظار کر سکتے تھے تم نے کیا۔ آٹھ نو سال کم نہیں ہوتے۔ اب تمہاری قسمت میں اگر یہی لڑکی ہے تو ہم یا تم کیا کر سکتے ہیں۔”
سالار نے بے تاثر نظروں سے اسے دیکھا۔
“اس گھر میں آنا امامہ کا مقدر نہیں تھا، آمنہ کا مقدر تھا۔ سو وہ آ گئی۔ اس سے نکاح ہوئے سات دن ہوئے ہیں اور آٹھویں دن وہ یہاں ہے۔ امامہ کے ساتھ نکاح کو نو سال ہونے والے ہیں وہ ج تک تمہارے پاس نہیں آ سکی۔ کیا تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ امامہ تمہارے مقدر میں نہیں ہے۔”
وہ پوری دلجمعی سے اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
“ہماری بہت ساری خواہشات ہوتی ہیں۔ بعض خواہشات اللہ پوری کر دیتا ہے ، بعض نہیں کرتا۔ ہو سکتا ہے امامہ کے نہ ملنے میں تمہاری لئے بہتری ہو۔ ہو سکتا ہے اللہ نے تمہیں آمنہ کے لئے ہی رکھا ہو۔ ہو سکتا ہے آج سے چند سال بعد تم اس بات پر اللہ کا شکر ادا کرتے نہ تھکو۔”
وہ دونوں اب پارکنگ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان کی گاڑی شروع میں ہی کھڑی تھی۔
“میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی انسان نہیں دیکھا جس کی ہر خواہش پوری ہو، جس نے جو چاہا ہو پالیا ہو پھر شکوہ کس بات کا۔ آمنہ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزارنے کی کوشش کرو۔”
وہ دونوں اب گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا مگر بیٹھنے سے پہلے اس نے سالار کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے باری باری اس کے دونوں گالوں کو نرمی سے چوما۔
“تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تم نے ایک نیکی کی ہے اور اس نیکی کا اجر اگر تمہیں یہاں نہیں ملے گا تو اگلی دنیا میں مل جائے گا۔”
وہ اب سالار کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار سر کو ہلکا سا خم کرتے ہوئے تھوڑا سا مسکرایا۔
فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔ آج کے دن یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو اس نے سالار کے چہرے پر دیکھی تھی۔ اس نے خود بھی مسکراتے ہوئے سالار کی پشت تھپتھپائی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
سالار نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا۔ فرقان اگنیشن میں چابی لگا رہا تھا۔ جب اس نے سالار کو کھڑکی کا شیشہ انگلی سے بجاتے دیکھا۔ فرقان نے شیشہ نیچے گرا دیا۔
“تم کہہ رہے تھے کہ تم نے آج تک کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا، جس نے جس چیز کی بھی خواہش کی ہو اسے مل گئی ہو۔”
سالار کھڑکی پر جھکے پُرسکون آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ فرقان نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ بے حد پُرسکون اورمطمئن نظر آرہا تھا۔
“پھر تم مجھے دیکھو کیونکہ وہ انسان میں ہوں، جس نے آج تک جو بھی چاہا اسے وہ مل گیا۔”
فرقان کو لگا اس کا ذہن غم کی وجہ سے متاثر ہورہا تھا۔
“جسے تم میری نیکی کہہ رہے ہو وہ دراصل میرا “اجر” ہے جو مجھے زمین پر ہی دے دیا گیا ہے۔ مجھے آخرت کے انتظار میں نہیں رکھا گیا اور میرا مقدر آج بھی وہی ہے جو نو سال پہلے تھا۔”
وہ ٹھہر ٹھہر کر گہری آواز میں کہہ رہا تھا۔
“مجھے وہی عورت دی گئی ہے جس کی میں نے خواہش کی تھی، امامہ ہاشم اس وقت میرے گھر پہ ہے، خداحافظ۔”
فرقان دم بخود دور جاتے ہوئے اس کی پشت دیکھتا رہا۔ وہ کیا کہہ گیا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
“شاید میں ٹھیک سے اس کی بات نہیں سن پایا۔۔۔۔۔ یا پھر شاید اس کا دماغ خراب ہوگیاہے۔۔۔۔۔ یا پھر شاید اس نے صبر کرلیا ہے۔۔۔۔۔ امامہ ہاشم۔۔۔۔۔؟” سالار اب بہت دور نظر آرہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جاری ہے۔۔۔

Previous Post

Peer E Kamil Novel by Umera Ahmed | Last Episode

Next Post

Peer E Kamil Novel by Umera Ahmed | Episode_08

Hiba Chaudhry

Hiba Chaudhry

Next Post
Summary Of Novel "Peer_E_Kamil" By Umera Ahmed (ناول پیر کامل کا اردو خلاصہ)

Peer E Kamil Novel by Umera Ahmed | Episode_08

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

No Result
View All Result

Categories

  • Aab _e_Hayat (15)
  • Abb E Hayat (1)
  • Abdar Ubaid (1)
  • Adam Bin Muhammad (1)
  • Alizay & Umer Jahangir (1)
  • All Novels Quotes (3)
  • Amar Bail (1)
  • Ana_zadi (11)
  • Ayeshy Gull (2)
  • Bahary Gull (1)
  • Caral (1)
  • Chand_Meri_Dastaras_Mein (6)
  • Complete Novels (57)
  • DJ (1)
  • Favorite Characters (14)
  • Favorite Couples (8)
  • Favorite Writers (2)
  • Haalim (1)
  • Haasil (10)
  • Hamza Haider Ali (1)
  • Hanian Yousaf (1)
  • Hashim Kardar (1)
  • Haya & Jihan (1)
  • Hazrat Ali (R.A) (1)
  • Imama & Salar (1)
  • Islamic Quotes (2)
  • Jannat Kay Pattay (10)
  • Jaun Elia (1)
  • Jugan & Tashfeen (1)
  • Liza & Sikandar (1)
  • Mahir Fareed (1)
  • Meri Kahani Meri Zubani (4)
  • Mirza Ghalib (3)
  • Mushaf (13)
  • Namal (4)
  • Nimra Ahmed (7)
  • Nimrah Ahmed Novels (13)
  • Novel Quotes (25)
  • Peer E Kamil (4)
  • Peer_e_kamil (10)
  • Rooh & Yaram (1)
  • Saddi Yousaf (1)
  • Shehzadi Tasha (1)
  • Umera Ahmed (1)
  • Umerah Ahmed Novels (35)
  • Uncategorized (1)
  • Urdu Poetry (4)
  • Yar Yaron Sa Hon Na Juda (17)
  • Yar Yaron Sa Hon Na Juda Season 2 (20)
  • Zumar & Faris (2)
Facebook Instagram

We bring you the best Premium WordPress Themes that perfect for news, magazine, personal blog, etc. Check our landing page for details.

Category

  • Aab _e_Hayat (15)
  • Abb E Hayat (1)
  • Abdar Ubaid (1)
  • Adam Bin Muhammad (1)
  • Alizay & Umer Jahangir (1)
  • All Novels Quotes (3)
  • Amar Bail (1)
  • Ana_zadi (11)
  • Ayeshy Gull (2)
  • Bahary Gull (1)
  • Caral (1)
  • Chand_Meri_Dastaras_Mein (6)
  • Complete Novels (57)
  • DJ (1)
  • Favorite Characters (14)
  • Favorite Couples (8)
  • Favorite Writers (2)
  • Haalim (1)
  • Haasil (10)
  • Hamza Haider Ali (1)
  • Hanian Yousaf (1)
  • Hashim Kardar (1)
  • Haya & Jihan (1)
  • Hazrat Ali (R.A) (1)
  • Imama & Salar (1)
  • Islamic Quotes (2)
  • Jannat Kay Pattay (10)
  • Jaun Elia (1)
  • Jugan & Tashfeen (1)
  • Liza & Sikandar (1)
  • Mahir Fareed (1)
  • Meri Kahani Meri Zubani (4)
  • Mirza Ghalib (3)
  • Mushaf (13)
  • Namal (4)
  • Nimra Ahmed (7)
  • Nimrah Ahmed Novels (13)
  • Novel Quotes (25)
  • Peer E Kamil (4)
  • Peer_e_kamil (10)
  • Rooh & Yaram (1)
  • Saddi Yousaf (1)
  • Shehzadi Tasha (1)
  • Umera Ahmed (1)
  • Umerah Ahmed Novels (35)
  • Uncategorized (1)
  • Urdu Poetry (4)
  • Yar Yaron Sa Hon Na Juda (17)
  • Yar Yaron Sa Hon Na Juda Season 2 (20)
  • Zumar & Faris (2)

© 2023 Novelszone.com All Rights Reserved - Developed By: Khurram Sheikh

No Result
View All Result
  • Home
  • Complete Novels
    • Yar Yaron Sa Hon Na Juda
    • Yar Yaron Sa Hon Na Juda Season 2
    • Chand_Meri_Dastaras_Mein
    • Ana_zadi
  • Umerah Ahmed Novels
    • Peer_e_kamil
    • Aab _e_Hayat
    • Haasil
  • Nimrah Ahmed Novels
    • Mushaf
  • Short Stories
  • Novel Quotes
    • Abb E Hayat
    • Amar Bail
    • Jannat Kay Pattay
    • Peer E Kamil
    • Haalim
    • Hasil
    • La Hasil
    • Man O Salwa
    • Mushaf
    • Namal
  • All Novels Quotes
  • Favorite Characters
    • Shehzadi Tasha
    • Hashim Kardar
    • Abdar Ubaid
    • Adam Bin Muhammad
    • Ayeshy Gull
    • Bahary Gull
    • Caral
    • Mahir Fareed
    • Hamza Haider Ali
    • Hanian Yousaf
    • Saddi Yousaf
    • DJ
  • Favorite Couples
    • Amriha & Aliyan
    • Alizay & Umer Jahangir
    • Haya & Jihan
    • Imama & Salar
    • Zumar & Faris
    • Jugan & Tashfeen
    • Rooh & Yaram
    • Liza & Sikandar
    • Maliha & Wajdan
    • Taliya & Fatieh
    • Parishay & Afaq Arslan
    • Alizay & Dilawar Shah
  • Urdu Poetry
    • Jaun Elia
    • Tahzeeb Hafi
    • Mirza Ghalib
  • Islamic Quotes
    • Hazrat Ali (R.A)
  • ABOUT US
  • CONTACT US
  • Privacy Policy

© 2023 Novelszone.com All Rights Reserved - Developed By: Khurram Sheikh

Go to mobile version