

پیرِکاملﷺ
از عمیرہ احمد
قسط نمبر 09
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رمشہ نے حیرانی سے اپنے سامنے پڑے ان پیکٹس کو دیکھا۔”لیکن سالار ! یہ سب چیزیں تمہارا برتھ ڈے گفٹ ہیں۔”
سالار اگلی صبح ایک ٹائی چھوڑ کر تمام چیزیں واپس اٹھا لایا تھا اور اب وہ رمشہ کے آفس میں تھا۔
“میں کسی سے اتنا مہنگا تحفہ نہیں لیا کرتا۔ایک ٹائی کافی ہے۔”
“سالار ، میں اپنے فرینڈز کو اتنے ہی مہنگے گفٹس دیتی ہوں۔”رمشہ نے وضاحت کی کوشش کی۔
“یقیناً تم دیتی ہو گی مگر میں نہیں لیتا۔۔۔۔۔اگر تم نے زیادہ اصرار کیا تو میں وہ ٹائی بھی لا کر واپس تمہیں دے دوں گا۔۔۔۔۔۔”سالار نے کہا اور اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر کمرے سے نکل آیا۔رمشہ پھیکے چہرے کے ساتھ اسے کمرے سے نکلتا دیکھتی رہی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار ہمیشہ کی طرح اس دن ڈاکٹر صاحب کے پاس آیا ہوا تھا۔ڈاکٹر صاحب نے ابھی اپنا لیکچر شروع نہیں کیا تھا جب ان کے پاس بیٹھے ایک ادھیڑ عمر آدمی نے کہا۔
“ڈاکٹر صاحب! آدمی کو پیر کامل مل جائے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے۔”
سالار نے گردن موڑ کر اس شخص کو دیکھا ، وہ وہاں پچھلے چند دن سے آ رہا تھا۔
“اس کی نسلیں سنور جاتی ہیں۔میں جب سے آپ کے پاس آنے لگا ہوں ، مجھے لگتا ہے میں ہدایت پا گیا ہوں۔میرے الٹے کام سیدھے ہونے لگے ہیں۔میرا دل کہتا ہے مجھے پیر کامل مل گیا ہے۔میں۔۔۔۔۔میں آپ کے ہاتھوں پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔”
وہ بڑی عقیدت مندی سے ڈاکٹر صاحب کا ہاتھ پکڑے ہوئے کہنے لگا۔کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی تھی۔ڈاکٹر صاحب نے نرمی سے اس شخص کے ہاتھ پر تھپکی دیتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
“تقی صاحب! میں نے زندگی میں آج تک کسی سے بیعت نہیں لی۔آپ کے منہ سے پیرِ کامل کا ذکر سنا۔۔۔۔۔پیرِ کامل کون ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔پیرِ کامل کس کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔وہ کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔؟اس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟”
وہ بڑی سنجیدگی سے اس شخص سے پوچھ رہے تھے۔
“آپ پیرِ کامل ہیں۔”اس شخص نے کہا۔
“نہیں ، میں پیرِ کامل نہیں ہوں۔”ڈاکٹر سبط علی نے کہا۔
“آپ سے مجھے ہدایت ملتی ہے۔”اس شخص نے اصرار کیا۔
“ہدایت تو استاد بھی دیتا ہے ، ماں باپ بھی دیتے ہیں ، لیڈرز بھی دیتے ہیں ، دوست احباب بھی دیتے ہیں ، کیا وہ پیرِ کامل ہو جاتے ہیں؟”
“آپ۔۔۔۔۔آپ گناہ نہیں کرتے۔”وہ آدمی گڑبڑا گیا۔
“ہاں ، دانستہ طور پر نہیں کرتا ، اس لیے نہیں کرتا ، کیونکہ گناہ سے مجھے خوف آتا ہے۔یہاں پر بیٹھے بہت سے لوگ دانستہ طور پر گناہ نہیں کرتے ہوں گے ، کیونکہ میری طرح انہیں بھی گناہ سے خوف آتا ہو گا مگر نادانستگی میں مجھ سے کیا سر زد ہو جاتا ہے ، اسے میں نہیں جانتا۔ہو سکتا ہے نادانستگی میں مجھ سے بھی گناہ سر زد ہو جاتے ہوں۔”انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
“آپ کی دعا قبول ہوتی ہے۔”وہ آدمی اپنے مؤقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
“دعا تو ماں باپ کی بھی قبول ہوتی ہے ، مجبور اور مظلوم کی بھی قبول ہوتی ہے اور بھی بہت سے لوگوں کی قبول ہوتی ہے۔”
“لیکن آپ کی تو ہر دعا قبول ہو جاتی ہے۔”اس نے اصرار کیا۔
ڈاکٹر سبط علی صاحب نے انکار میں سر ہلایا۔
“نہیں ، ہر دعا تو قبول نہیں ہوتی۔میں کئی سالوں سے ہر روز مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی دعا کرتا ہوں ، ابھی تک تو قبول نہیں ہوئی۔ہر روز میری کی جانے والی کئی دعائیں قبول نہیں بھی ہوتیں۔”
“لیکن آپ کے پاس جو شخص دعا کروانے کے لیے آتا ہے ، اس کے لیے آپ کی دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔”
ڈاکٹر صاحب کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔
“آپ کے لیے کی جانے والی دعا قبول ہو گئی ہو گی ، یہاں بہت سے ایسے ہیں جن کے لیے میری دعا قبول نہیں ہوتی یا نہیں ہوئیں۔”
وہ اب کچھ بول نہیں سکا۔
“آپ میں سے اگر کوئی بتا سکے کہ پیرِ کامل کون ہوتا ہے؟”
وہاں موجود لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر ایک نے کہا۔
“پیرِ کامل نیک شخص ہوتا ہے ، عبادت گزار شخص ، پارسا آدمی۔”
ڈاکٹر سبط علی نے سر ہلایا۔
“بہت سے لوگ نیک ہوتے ہیں ، عبادت گزار ہوتے ہیں ، پارسا ہوتے ہیں۔آپ کے ارد گرد ایسے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں تو کیا وہ سب پیر کامل ہوتے ہیں؟”
“نہیں ، پیر کامل وہ آدمی ہوتا ہے جو دکھاوے کے لیے عبادت نہیں کرتا۔دل سے عبادت کرتا ہے ، صرف اللہ کے لیے۔اس کی نیکی اور پارسائی ڈھونگ نہیں ہوتی۔”ایک اور شخص نے اپنی رائے دی۔
“اپنے حلقہء احباب میں آپ میں سے ہر ایک کسی نہ کسی ایسے شخص کو ضرور جانتا ہو گا ، جس کی عبادت کے بارے میں اسے یہ شبہ نہیں ہوتا کہ وہ ڈھونگ ہے ، جس کی نیکی اور پارسائی کا بھی آپ کو یقین ہوتا ہے تو کیا وہ شخص پیر کامل ہے؟”
کچھ دیر خاموشی پھر ایک اور شخص نے کہا۔
“پیر کامل ایک ایسا شخص ہوتا ہے ، جس کے الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے کہ وہ انسان کا دل بدل دیتے ہیں۔”
“تاثیر بھی بہت سے لوگوں کے الفاظ میں ہوتی ہے۔کچھ کے منہ سے نکلنے والے الفاظ میں ، کچھ کے قلم سے نکلنے والے الفاظ میں ، تاثیر تو اسٹیج پر کھڑے ایک کمپئیر اور اخبار کا کالم لکھنے والے ایک جرنلسٹ کے الفاظ میں بھی ہوتی ہے تو کیا وہ پیر کامل ہوتے ہیں؟”
ایک اور شخص بولا۔”پیر کامل وہ ہوتا ہے جسے الہام اور وجدان ہو ، جو مستقبل کو بوجھ سکے۔”
“ہم میں سے بہت سارے لوگ ایسے خواب دیکھتے ہیں جن میں مستقبل میں درپیش آنے والے حالات سے ہمیں آگاہی ہو جاتی ہے۔کچھ لوگ استخارہ بھی کرتے ہیں اور چیزوں کے بارے میں کسی حد تک جان جاتے ہیں۔کچھ لوگوں کی چھٹی حِس بہت تیز ہوتی ہے ، وہ خطروں کو بھانپ جاتے ہیں۔”
“پیر کامل کون ہوتا ہے؟”ڈاکٹر صاحب کچھ دیر خاموش رہے ، انہوں نے پھر اپنا سوال دُہرایا۔
“پیر کامل کون ہو سکتا ہے؟”سالار اُلجھن آمیز انداز میں ڈاکٹر سبط علی کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
“کیا ڈاکٹر سبط علی کے علاوہ کوئی اور پیرِ کامل ہو سکتا تھا اور اگر وہ نہیں تھے تو پھر کون تھا اور کون ہو سکتا ہے؟”
وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کے دل و دماغ میں ایک ہی گونج تھی۔ڈاکٹر سبط علی ایک ایک کا چہرہ دیکھ رہے تھے ، پھر ان کے چہرے کی مسکراہٹ آہستہ آہستہ معدوم ہو گئی۔
“پیرِ کامل میں کاملیت ہوتی ہے۔کاملیت ان تمام چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے جو آپ کہہ رہے تھے۔پیرِ کامل وہ شخص ہوتا ہے جو دل سے اللہ کی عبادت کرتا ہے ، نیک اور پارسا ہوتا ہے۔اس کی ہر دعا قبول ہوتی ہے۔اس حد تک جس حد تک اللہ چاہے۔اس کے الفاظ میں تاثیر بھی ہوتی ہے۔وہ لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے مگر اسے الہام نہیں ہوتا ، اسے وجدان ہوتا ہے۔وحی اُترتی ہے اس پر اور وحی کسی عام انسان پر نہیں اترتی۔صرف پیغمبر پر اترتی ہے۔ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کامل تھا مگر پیرِ کامل وہ ہے جس پر نبوت کا سلسلہ ختم کر دیا جاتا ہے۔
ہر انسان کو زندگی میں کبھی نہ کبھی کسی پیرِ کامل کی ضرورت ضرور پڑتی ہے۔کبھی نہ کبھی انسانی زندگی اس موڑ پر آ کر ضرور کھڑی ہو جاتی ہے جب یہ لگتا ہے کہ ہمارے لبوں اور دلوں سے نکلنے والی دعائیں بےاثر ہو گئی ہیں۔ہمارے سجدے اور ہمارے پھیلے ہوئے ہاتھ رحمتوں اور نعمتوں کو اپنی طرف موڑ نہیں پا رہے۔یوں لگتا ہے جیسے کوئی تعلق تھا جو ٹوٹ گیا ہے پھر آدمی کا دل چاہتا ہے اب اس کے لیے کوئی اور ہاتھ اٹھائے ، کسی اور کے لب اس کی دعا اللہ تک پہنچائیں ، کوئی اور اللہ کے سامنے اس کے لیے گڑگڑائے ، کوئی ایسا شخص جس کی دعائیں قبول ہوتی ہوں ، جس کے لبوں سے نکلنے والی التجائیں اس کے اپنے لفظوں کی طرح واپس نہ موڑ دی جاتی ہوں پھر انسان پیرِ کامل کی تلاش شروع کرتا ہے ، بھاگتا پھرتا ہے ، دنیا میں کسی ایسے شخص کے لیے جو کاملیت کی کسی نہ کسی سیڑھی پر کھڑا ہو۔
پیرِ کامل کی یہ تلاش انسانی زندگی کے ارتقاء سے اب تک جاری ہے۔یہ تلاش وہ خواہش ہے جو اللہ خود انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے۔انسان کے دل میں یہ خواہش ، یہ تلاش نہ اتاری جاتی تو وہ پیغمبروں پر کبھی یقین نہ لاتا۔کبھی ان کی پیروی اور اطاعت کرنے کی کوشش نہ کرتا۔پیرِ کامل کی یہ تلاش ہی انسان کو ہر زمانے میں اُتارے جانے والے پیغمبروں کی طرف لے جاتی رہی پھر پیغمبروں کی مبعوثیت کا یہ سلسلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ختم کر دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اُمت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد کسی اور پیرِ کامل کی گنجائش نہیں رکھی گئی۔
کون ہے جسے اب یا آئندہ آنے والے زمانے میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی مقام دیا جائے؟
کون ہے جسے آج یا آئندہ آنے والے زمانے میں کسی شخص کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر کاملیت دے دی جائے؟
کون ہے جو آج یا آئندہ آنے والے زمانے میں کسی شخص کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے بڑھ کر شفاعت کا دعویٰ کر سکے؟
جامد اور مستقل خاموشی کی صورت میں آنے والا نفی میں یہ جواب ہم سے صرف ایک سوال کرتا ہے۔
پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چھوڑ کر ہم دنیا میں اور کس وجود کو کھوجنے نکل کھڑے ہوئے ہیں؟ پیر کامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیعت شدہ ہوتے ہوئے ہمیں دوسرے کس شخص کی بیعت کی ضرورت رہ گئی ہے؟
پیر کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے راستے پر چلنے کی بجائے ہمیں دوسرا کون سا راستہ اپنی طرف کھینچ رہا ہے؟
کیا مسلمانوں کے لئے ایک اللہ ، ایک قرآن ، ایک رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کی سنت کافی نہیں؟
اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اس کی کتاب کے علاوہ اور کون سا شخص، کون سا کلام ہے جو ہمیں دنیا اور آخرت کی تکلیفوں سے بچا سکے گا؟
جو ہماری دعاؤں کو قبولیت بخشے ، جو ہم پر نعمتیں اور رحمتیں نازل کر سکے؟
کوئی پیرِ کامل کا فرقہ بتا سکتا ہے؟نہیں بتا سکتا۔”
ڈاکٹر سبط علی کہہ رہے تھے۔
“وہ صرف مسلمان تھے ، وہ مسلمان جو یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر وہ صراطِ مستقیم پر چلیں گے تو وہ جنت میں جائیں گے ، اس راستے سے ہٹیں گے تو اللہ کے عذاب کا نشانہ بنیں گے۔
اور صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جو اللہ اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے قرآن پاک میں بتاتا ہے۔صاف ، دو ٹوک اور واضح الفاظ میں۔وہ کام کریں جس کا حکم اللہ اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ذریعے دیتا ہے اور اُس کام سے رک جائیں جس سے منع کیا جاتا ہے۔
اللہ ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قرآن کسی بات میں کوئی ابہام نہیں رکھتے۔قرآن کو کھولئے ، اگر اس میں کہیں دو ٹوک اور غیر مبہم الفاظ میں کسی دوسرے پیر کامل یا پیغمبر کا ذکر ملے تو اس کی تلاش کرتے رہئیے اور اگر ایسا کچھ نظر نہیں آتا تو پھر صرف خوف کھائیے کہ آپ اپنے پیروں کو کس دلدل میں لئے جا رہے ہیں۔اپنی پچاس ساٹھ سالہ زندگی کو کس طرح اپنی ابدی زندگی کی تباہی کے لئے استعمال کر رہے ہیں کس طرح خسارے کا سودا کر رہے ہیں۔ہدایت کی تلاش ہے ، قرآن کھولئے۔کیا ہے جو وہ آپ کو نہیں بتا دیتا۔وہ آپ کو معصوم ، انجان اور بےخبر نہیں رہنے دیتا۔آپ کا اصل آپ کے منہ پر دے مارتا ہے۔کیا اللہ انسان کو نہیں جانتا ہو گا؟ اس مخلوق کو ، جو اس کی اربوں کھربوں تخلیقات میں سے ایک ہے۔
دعا قبول نہیں ہوتی تو آسرے اور وسیلے تلاش کرنے کی بجائے صرف ہاتھ اٹھا لیجئیے ، اللہ سے خود مانگیں۔دے دے تو شکر کریں ، نہ دے تو صبر ۔۔۔۔۔مگر ہاتھ آپ خود ہی اٹھائیں۔
زندگی کا قرینہ اور سلیقہ نہیں آ رہا تو اسوہء حسنہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف چلے جائیں ، سب کچھ مل جائے گا آپ کو۔
احترام ہر ایک کا کریں۔ہر ولی کا ، ہر مومن کا ، ہر بزرگ کا ، ہر شہید کا ، ہر صالح کا ، ہر پارسا کا۔۔۔۔۔۔
مگر اپنی زندگیوں میں ہدایت اور رہنمائی صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لیں کیونکہ انہوں نے آپ تک اپنے ذاتی احکامات نہیں پہنچائے جو کچھ بتایا وہ اللہ کا نازل کردہ ہے۔
ڈاکٹر سبط علی کون ہے ، کیا ہے ، کون جانتا ہے اسے؟آپ۔۔۔۔۔؟آپ کے علاوہ چند سو لوگ۔۔۔۔۔۔چند ہزار لوگ مگر جس پیرِ کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات کر رہا ہوں انہیں تو ایک ارب کے قریب لوگ اپنا روحانی پیشوا مانتے ہیں۔میں تو وہی کچھ کہتا ، دہراتا پھر رہا ہوں ، جو چودہ سو سال پہلے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرما چکے ہیں۔کیا نئی بات کہی میں نے؟”
ڈاکٹر سبط علی خاموش ہو گئے۔کمرے میں موجود ہر شخص پہلے ہی خاموش تھا۔انہوں نے وہاں بیٹھے ہر شخص کو جیسے آئینہ دکھا دیا تھا اور آئینے میں نظر آنے والا عکس کسی کو ہولا رہا تھا ، کسی کو لرزا رہا تھا۔
وہاں سے باہر آ کر سالار بہت دیر تک اپنی گاڑی کی سیٹ پر چپ چاپ بیٹھا رہا۔اس کی آنکھوں پر بندھی آخری پٹی بھی آج کھول دی گئی تھی۔
کئی سال پہلے جب امامہ ہاشم سوچے سمجھے بغیر گھر سے نکل پڑی تھی تو وہ اس لگن کو سمجھ نہیں پایا تھا۔اس کے نزدیک وہ حماقت تھی۔بعد میں اس نے اپنے خیالات میں ترمیم کر لی تھی۔اسے یقین آ گیا تھا کہ کوئی بھی واقعی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اس حد تک گرفتار ہو سکتا ہے کہ سب کچھ چھوڑ دے۔
اس نے اسلام کے بارے میں جاننا شروع کیا تو اسے پتا چلا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اسی طرح کی قربانیاں دیا کرتے تھے۔حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت اویس قرنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک ان گنت لوگ تھے اور ہر زمانے میں تھے اور سالار سکندر نے اقرار کر لیا تھا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں اتنی طاقت تھی کہ وہ کسی کو بھی چھوڑنے پر مجبور کر دیتی۔اس نے کبھی اس محبت کا تجزیہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔وہ آج وہاں بیٹھا پہلی بار یہ کام کر رہا تھا۔
یہ صرف پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت نہیں تھی ، جس نے امامہ ہاشم کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔وہ صراطِ مستقیم کو دیکھ کر اس طرف چلی گئی تھی۔اس صراطِ مستقیم کی طرف جسے وہ کسی زمانے میں اندھوں کی طرح ڈھونڈتا پھرتا تھا۔وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جاتے تھے۔
امامہ ہاشم نے کئی سال پہلے پیر کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو پا لیا تھا۔وہ بےخوفی اسی ہدایت اور رہنمائی کی عطا کردہ تھی جو اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت سے ملی تھی۔وہ آج تک پیرِ کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خود شناخت نہیں کر پایا تھا اور امامہ ہاشم نے ہر کام خود کیا تھا۔شناخت سے اطاعت تک۔۔۔۔۔اس کو سالار سکندر کی طرح دوسروں کے کندھوں کی ضرورت نہیں پڑی۔
سالار سکندر نے پچھلے آٹھ سالوں میں امامہ ہاشم کے لئے ہر جذبہ محسوس کیا تھا۔حقارت ، تضحیک ، پچھتاوا ، نفرت ، محبت ، سب کچھ ۔۔۔۔۔مگر آج وہاں بیٹھے پہلی بار اسے امامہ ہاشم سے حسد ہو رہا تھا۔تھی کیا وہ۔۔۔۔۔؟ایک عورت۔۔۔۔۔ذرا سی عورت ۔۔۔۔۔آسمان کی حور نہیں تھی۔۔۔۔۔سالار سکندر جیسے آدمی کے سامنے کیا اوقات تھی اس کی۔
کیا میرے جیسا آئی کیو تھا اس کا؟
کیا میرے جیسی کامیابیاں تھیں اس کی؟
کیا میرے جیسا کام کر سکتی تھی وہ؟
کیا میرے جیسا نام کما سکتی تھی وہ؟
کچھ بھی نہیں تھی وہ اور اس کو سب کچھ پلیٹ میں رکھ کر دیا اور میں۔۔۔۔۔میں جس کا آئی کیو لیول 150+ ہے مجھے سامنے کی چیزیں دیکھنے کے قابل نہیں رکھا؟
وہ اب آنکھوں میں نمی لیے اندھیرے میں ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔
“مجھے بس اس قابل کر دیا کہ میں باہر نکلوں اور دنیا فتح کر لوں۔وہ دنیا جس کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے اور وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔”
وہ رُک گیا۔اسے امامہ پر غصہ آ رہا تھا۔آٹھ سال پہلے کا وقت ہوتا تو وہ اسے “بچ” کہتا ، تب امامہ پر غصہ آنے پر یہی کہا کرتا تھا مگر آٹھ سال کے بعد آج وہ زبان پر اس کے لئے گالی نہیں لا سکتا تھا۔وہ امامہ ہاشم کے لئے کوئی بُرا لفظ نکالنے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔صراطِ مستقیم پر خود سے بہت آگے کھڑی اس عورت کے لیے کون زبان سے بُرا لفظ نکال سکتا تھا؟
اپنے گلاسز اُتار کر اس نے اپنی آنکھیں مسلیں۔اس کے انداز میں شکست خوردگی تھی۔
“پیر کامل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ۔۔۔۔۔صراطِ مستقیم۔”آٹھ سال لگے تھے ، مگر تلاش ختم ہو گئی تھی۔جواب مل چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ دونوں ایک ریستوران میں بیٹھے ہوئے تھے۔رمشہ آج خاص طور پر تیار ہو کر آئی تھی۔وہ خوش تھی اور کوئی بھی اس کے چہرے سے اس کی خوشی کا اندازہ لگا سکتا تھا۔سالار بھی۔
ویٹر سے مینیو کارڈ لے کر سالار نے بند کر کے ٹیبل پر رکھ دیا۔رمشہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔وہ اپنا کارڈ کھولے ہوئی تھی۔
“لنچ میری طرف سے ہے مگر مینیو آپ طے کریں۔”سالار نے مدھم مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
“اوکے۔”رمشہ بےاختیار مسکرائی پھر وہ مینیو کارڈ پر نظر دوڑانے لگی اور سالار قرب و جوار میں۔
رمشہ نے ویٹر کو کچھ ڈشز نوٹ کروائیں۔جب ویٹر چلا گیا تو اس نے سالار سے کہا۔
“تمہاری طرف سے لنچ کی یہ دعوت بڑا اچھا سرپرائز ہے میرے لئے۔پہلے تو تم نے کبھی ایسی دعوت نہیں دی؟بلکہ میری دعوت بھی رد کرتے رہے۔”
“ہاں لیکن اب ہم دونوں کے لیے کچھ باتیں کرنا ضروری ہو گیا تھا۔مجھے اسی لئے تمہیں یہاں بلانا پڑا۔”سالار نے کہا۔
رمشہ نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔
“کچھ باتیں؟۔۔۔۔۔کون سی باتیں؟”
“پہلے لنچ کرلیں ، اس کے بعد کریں گے۔”سالار نے اسے ٹالتے ہوئے کہا۔
“مگر لنچ آنے اور کھانے میں کافی وقت لگے گا۔کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم وہ باتیں ابھی کر لیں؟”رمشہ نے قدرے بےتابی سے کہا۔
“نہیں ، یہ بہتر نہیں ہے۔لنچ کے بعد۔”سالار نے مسکراتے ہوئے مگر حتمی انداز میں کہا۔
رمشہ نے اس بار اصرار نہیں کیا۔وہ دونوں ہلکی پھلکی گفتگو کرنے لگے پھر لنچ آ گیا اور وہ دونوں لنچ میں مصروف ہو گئے۔
لنچ سے فارغ ہونے میں تقریباً پون گھنٹہ لگا ، پھر سالار نے ویٹر سے کافی منگوا لی۔
“میرا خیال ہے اب بات شروع کرنی چاہئیے۔”
رمشہ نے کافی کا پہلا گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔سالار اب بہت سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔وہ سر جھکائے اپنی کافی میں چمچ ہلا رہا تھا۔رمشہ کی بات پر اس نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔
“میں تم سے اس کارڈ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں ، جو تم نے دو دن پہلے مجھے بھیجا ہے۔”رمشہ کا چہرہ قدرے سُرخ ہو گیا۔
دو دن پہلے جب وہ شام کو اپنے فلیٹ پر پہنچا تو وہاں ایک کارڈ اور بکے اس کا منتظر تھا۔وہ ایک ہفتہ ہانگ کانگ میں بنک کے کسی کام کے لئے رہا تھا اور اسی شام واپس آیا تھا۔کارڈ رمشہ کا بھیجا ہوا تھا۔
“تمہیں دوبارہ دیکھ کر مجھے کتنی خوشی ہو گی اس کا اظہار ناممکن ہے۔”
سالار کارڈ پر لکھے پیغام کو پڑھ کر چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گیا۔اس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے تھے۔رمشہ اس کے لئے اپنے احساسات کا اظہار کر رہی تھی۔
سالار نے اگلے دو دن اس کارڈ کے بارے میں رمشہ سے کوئی تذکرہ نہیں کیا لیکن اس نے ویک اینڈ پر اسے لنچ کی دعوت دے ڈالی۔رمشہ کے ساتھ اب ان تمام باتوں کو کلئیر کرنا ضروری ہو گیا تھا۔
“تمہیں کارڈ بُرا لگا؟”رمشہ نے کہا۔
“نہیں ، پیغام۔”
رمشہ کچھ شرمندہ ہو گئی۔
“آئی ایم سوری ، مگر میں صرف ۔۔۔۔۔سالار! میں تمہیں بتانا چاہ رہی تھی کہ میں نے تمہیں کتنا مس کیا۔”
سالار نے کافی کا ایک گھونٹ لیا۔
“تم مجھے اچھے لگتے ہو ، میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔”
رمشہ نے چند لمحوں کے توقف کے بعد کہا۔
“ہو سکتا ہے یہ پروپوزل تمہیں عجیب لگے لیکن میں بہت عرصے سے اس سلسلے میں تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی۔میں تم سے فلرٹ نہیں کر رہی ہوں جو کچھ کارڈ میں میں نے لکھا ہے میں واقعی تمہارے لیے وہی جذبات رکھتی ہوں۔”
سالار نے اسے بات مکمل کرنے دی۔اب وہ کافی کا کپ نیچے رکھ رہا تھا۔
“لیکن میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”جب وہ خاموش ہو گئی تو اس نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
“کیوں؟”
“کیا اس سوال کا جواب ضروری ہے؟”سالار نے کہا۔
“نہیں ، ضروری نہیں ہے مگر بتانے میں کیا حرج ہے۔”
“تم مجھ سے شادی کیوں کرنا چاہتی ہو؟”سالار نے جواباً پوچھا۔
“کیونکہ تم مختلف ہو۔”
سالار ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔
“عام مردوں جیسے نہیں ہو ، وقار ہے تم میں ، کلچرڈ اور گرومڈ ہو۔”
“میں ایسا نہیں ہوں۔”
“ثابت کرو۔”رمشہ نے چیلنج کیا۔
“کر سکتا ہوں ، مگر نہیں کروں گا۔”اس نے کافی کا کپ دوبارہ اٹھاتے ہوئے کہا۔
“ہر مرد سالار سکندر سے بہتر ہے۔”
“کس لحاظ سے؟”
“ہر لحاظ سے۔”
“میں نہیں مانتی۔”
“تمہارے نہ ماننے سے حقیقت نہیں بدلے گی۔”
“میں تمہیں جانتی ہوں ، ڈیڑھ سال سے تمہارے ساتھ کام کر رہی ہوں۔”
“مردوں کے بارے میں اتنی جلدی کسی رائے پر پہنچنا مناسب نہیں ہوتا۔”
“تمہاری کوئی بات تمہارے بارے میں میری رائے کو تبدیل نہیں کر سکتی۔”رمشہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔
“تم جس فیملی سے تعلق رکھتی ہو ، جس سوسائٹی میں موو کرتی ہو ، وہاں تمہیں مجھ سے زیادہ اچھے مرد مل سکتے ہیں۔”
“تم مجھ سے صرف اپنی بات کرو۔”
“رمشہ! میں کسی اور سے محبت کرتا ہوں۔”
اس نے بالآخر کہہ دیا۔اس ساری گفتگو میں پہلی بار رمشہ کی رنگت زرد پڑی۔
“تم نے۔۔۔۔۔تم نے کبھی۔۔۔۔۔کبھی نہیں بتایا۔”
سالار آہستہ سے مسکرایا۔””ہمارے درمیان اتنی بےتکلفی تو کبھی بھی نہیں رہی۔”
“تم اس سے شادی کر رہے ہو؟”
دونوں کے درمیان اس بار خاموشی کا ایک طویل وقفہ آیا۔
“ہو سکتا ہے کچھ مشکلات کی وجہ سے میری وہاں شادی نہ ہو سکے۔”سالار نے کہا۔
“میں تمہاری بات سمجھ نہیں سکی۔تم کسی سے محبت کر رہے ہو ، یہ جانتے ہوئے کہ وہاں تمہاری شادی نہیں ہو سکتی؟”
“کچھ ایسا ہی ہے۔”
“سالار! تم ۔۔۔۔۔تم اتنے جذباتی تو نہیں ہو۔ایک پریکٹکل آدمی ہو کر تم کس طرح کی عجیب بات کر رہے ہو۔”
رمشہ استہزائیہ انداز میں ہنس دی۔
“فرض کیا کہ وہاں تمہاری شادی نہیں ہوئی تو پھر۔۔۔۔۔۔پھر کیا تم شادی نہیں کرو گے؟”
“نہیں۔”
رمشہ نے نفی میں سر ہلایا۔I can’t believe it ۔( مجھے یقین نہیں آ رہا ) ۔
“مگر ایسا ہی ہے ، میں نے اگر شادی کا سوچا بھی تو دس پندرہ سال بعد ہی سوچوں گا اور دس پندرہ سال تک ضروری نہیں کہ میں زندہ رہوں۔”
اس نے بےحد خشک لہجے میں کہتے ہوئے ویٹر کو ہاتھ کے اشارے سے اپنی طرف بلایا۔
“میں چاہتا ہوں رمشہ! کہ آج کی اس گفتگو کے بعد ہم دونوں کے درمیان دوبارہ کوئی ایسا مسئلہ پیدا نہیں ہو۔ہم اچھے کولیگ ہیں۔میں چاہتا ہوں یہ تعلق ایسے ہی رہے۔میرے لئے اپنا وقت ضائع مت کرو ، میں وہ نہیں ہوں ، جو تم مجھے سمجھ رہی ہو۔”
ویٹر قریب آ گیا تھا۔سالار اس کا لایا ہوا بل ادا کرنے لگا۔
رمشہ ، سالار کا چہرہ دیکھتی رہی۔وہ اب کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سالار اس روز کسی کام سے لنچ بریک کے بعد آفس سے نکل آیا۔ریلوے کراسنگ پر ٹریفک کا اژدھام دیکھ کر اس نے دور سے ہی گاڑی موڑ لی۔وہ اس وقت کسی ٹریفک جام میں پھنس کر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔
گاڑی کو پیچھے موڑ کر اس نے ایک دوسری سڑک پر ٹرن لے لیا۔وہ اس سڑک پر تھوڑا ہی آگے گیا تھا جب اس نے سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر ایک بوڑھی خاتون کو بیٹھے دیکھا۔وہ ایک ہائی روڈ تھی اور اس وقت بالکل سنسان تھی۔خاتون اپنے لباس اور چہرے سے کسی بہت اچھے گھرانے کی نظر آ رہی تھیں۔اس کے ہاتھ میں سونے کی کچھ چوڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں اور سالار کو خدشہ ہوا کہ اس اکیلی سڑک پر وہ کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائیں۔اس نے گاڑی ان کے قریب لے جا کر روک دی۔خاتون کی سفید رنگت اس وقت سرخ تھی اور سانس پھولا ہوا تھا اور شاید وہ اپنا سانس ٹھیک کرنے کے لئے ہی سڑک کنارے بیٹھی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس نے گاڑی ان کے قریب لے جا کر روک دی۔خاتون کی سفید رنگت اس وقت سرخ تھی اور سانس پھولا ہوا تھا اور شاید وہ اپنا سانس ٹھیک کرنے کے لئے ہی سڑک کنارے بیٹھی تھیں۔
السلام علیکم اماں! کیا مسئلہ ہے ، آپ یہاں کیوں بیٹھی ہیں؟”
سالار نے اپنے سن گلاسز اُتارتے ہوئے کھڑکی سے سر نکال کر پوچھا۔
“بیٹا! مجھے رکشہ نہیں مل رہا۔”
سالار ان کی بات پر حیران ہوا۔وہ مین روڈ نہیں تھی۔ایک رہائشی علاقے کی ہائی روڈ تھی اور وہاں رکشہ ملنے کا امکان نہیں تھا۔
“اماں جی! یہاں سے تو آپ کو رکشہ مل بھی نہیں سکتا۔آپ کو جانا کہاں ہے؟”
اس خاتون نے اسے اندرون شہر کے ایک علاقے کا نام بتایا۔سالار کے لئے بالکل ممکن نہیں تھا کہ وہ انہیں وہاں چھوڑ آتا۔
“آپ میرے ساتھ آ جائیں۔میں آپ کو مین روڈ پر چھوڑ دیتا ہوں۔وہاں سے آپ کو رکشہ مل جائے گا۔”
سالار نے پچھلے دروازے کا لاک کھولا اور پھر اپنی سیٹ سے اتر گیا مگر اماں جی اسے خاصی متامل نظر آئیں۔وہ ان کے اندیشوں کو بھانپ گیا۔
“اماں جی! ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔میں شریف آدمی ہوں۔آپ کو نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔میں صرف آپ کی مدد کرنا چاہتا ہوں ، کیونکہ اس سڑک سے تو آپ کو رکشہ ملے گا نہیں اور اس وقت سڑک سنسان ہے ، آپ نے زیور پہنا ہوا ہے ، کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے آپ کو۔”
سالار نے نرمی سے ان کے اندیشے دور کرنے کی کوشش کی۔خاتون نے اپنی عینک درست کرتے ہوئے اپنی چوڑیوں کو دیکھا اور پھر سالار سے کہا۔
“لو۔۔۔۔۔یہ سارا زیور تو نقلی ہے۔”
“چلیں ، یہ تو بہت اچھی بات ہے مگر کوئی بھی غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔کوئی آپ سے یہ تھوڑی پوچھے گا کہ یہ زیور اصلی ہے یا نقلی۔”
سالار نے ان کے جھوٹ کا پردہ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ اب سوچ میں پڑ گئیں۔سالار کو دیر ہو رہی تھی۔
“ٹھیک ہے اماں جی! آپ اگر مناسب نہیں۔۔۔۔۔”
اس نے واپس اپنی گاڑی کی طرف قدم بڑھائے تو اماں جی فوراً بول اٹھیں۔
“نہیں ، نہیں۔میں چلتی ہوں تمہارے ساتھ۔پہلے ہی ٹانگیں ٹوٹ رہی ہیں چل چل کے۔”
وہ ٹانگوں پر زور دیتے ہوئے اُٹھنے کی کوشش کرنے لگیں۔
سالار نے ان کا بازو پکڑ کر انہیں اُٹھایا۔پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر انہیں اندر بٹھا دیا۔
ہائی روڈ کو تیزی سے کراس کر کے وہ مین روڈ پر آ گیا۔اب وہ کسی خالہ رکشہ کی تلاش میں تھا مگر اسے رکشہ نظر نہیں آیا۔وہ آہستہ آہستہ گاڑی چلاتے ہوئے کسی خالی رکشے کی تلاش میں ٹریفک پر نظریں دوڑانے لگا۔
“نام کیا ہے بیٹا تمہارا؟”
“سالار۔”
“سلار؟”انہوں نے جیسے تصدیق چاہی۔وہ بےاختیار مسکرایا۔زندگی میں پہلی بار اس نے اپنے نام کو بگڑتے سنا تھا۔تصحیح کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔وہ پنجابی خاتون تھیں اور اس سے بمشکل اردو میں بات کر رہی تھیں۔
“جی۔”سالار نے تصدیق کی۔
“یہ کیا نام ہوا ، مطلب کیا ہے اس کا؟”انہوں نے یک دم دلچسپی لی۔
سالار نے انہیں اپنے نام کا مطلب اس بار پنجابی میں سمجھایا۔اماں جی کو اس کے پنجابی بولنے پر خاصی خوشی ہوئی اور اب وہ پنجابی میں گفتگو کرنے لگیں۔
سالار کے نام کا مطلب پوچھنے کے بعد انہوں نے کہا۔
“میری بڑی بہو کے ہاں بیٹا ہوا ہے۔”
وہ حیران ہوا اسے توقع نہیں تھی کہ نام کا مطلب جاننے کے بعد ان کا اگلا جملہ یہ ہو گا۔
“جی۔۔۔۔۔مبارک ہو۔”فوری طور پر اسے یہی سوجھا۔
“خیر مبارک۔”
انہوں نے خاصی مسرت سے اس کی مبارک باد وصول کی۔
“میری بہو کا فون آیا تھا ، پوچھ رہی تھی کہ امی! آپ نام بتائیں۔میں تمہارا نام دے دوں؟”
اس نے بیک ویو مرر سے کچھ حیران ہو کر انہیں دیکھا۔
“دے دیں۔”
“چلو یہ مسئلہ تو حل ہوا۔”
اماں جی اب اطمینان سے عینک اُتار کر اپنی بڑی سی چادر کے پلو سے اس کے شیشے صاف کرنے لگیں۔سالار کو ابھی تک کوئی رکشہ نظر نہیں آیا تھا۔
“عمر کتنی ہے تمہاری؟”انہوں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں سے توڑا تھا۔
“تیس سال۔”
“شادی شدہ ہو؟”
سالار سوچ میں پڑ گیا۔وہ ہاں کہنا چاہتا تھا مگر اس کا خیال تھا کہ ہاں کی صورت میں سوالات کا سلسلہ مزید دراز ہو جائے گا اس لئے بہتر یہی تھا کہ انکار کر دے اور اس کا یہ اندازہ اس دن کی سب سے فاش غلطی ثابت ہوا۔
“نہیں۔”
“شادی کیوں نہیں کی؟”
“بس ایسے ہی۔خیال نہیں آیا۔”اس نے جھوٹ بولا۔
“اچھا۔”
کچھ دیر خاموشی رہی۔سالار دعائیں کرتا رہا کہ اسے رکشہ جلدی مل جائے۔اسے دیر ہو رہی تھی۔
“کیا کرتے ہو تم؟”
“میں بینک میں کام کرتا ہوں۔”
“کیا کام کرتے ہو؟”
سالار نے اپنا عہدہ بتایا۔اسے اندازہ تھا کہ اماں جی کے اوپر سے گزرے گا مگر وہ اس وقت ہکا بکا رہ گیا جب انہوں نے بڑے اطمینان سے کہا۔
“یہ افسر ہوتا ہے نا؟”
وہ بےاختیار ہنسا۔اس سے زیادہ اچھی وضاحت کوئی اس کے کام کی نہیں دے سکتا تھا۔
“جی ا ماں جی!”افسر” ہوتا ہے۔”وہ محفوظ ہوا۔
“کتنا پڑھے ہو تم؟”
“سولہ جماعتیں۔”
اس بار سالار نے اماں جی کا فارمولا استعمال کرتے ہوئے اپنی تعلیم کو آسان لفظوں میں پیش کیا۔اماں جی کا جواب اس بار بھی حیران کن تھا۔
“یہ کیا بات ہوئی سولہ جماعتیں۔۔۔۔۔؟ایم بی اے کیا ہے یا ایم اے اکنامکس؟”
سالار نے بےاختیار پلٹ کر اماں جی کی کو دیکھا۔وہ اپنی عینک کے شیشوں سے اسے گھور رہی تھیں۔
“اماں جی! آپ کو پتا ہے ایم بی اے کیا ہوتا ہے یا ایم اے اکنامکس کیا ہوتا ہے؟”وہ واقعی حیران تھا۔
“لو مجھے نہیں پتا ہو گا؟میرے بڑے بیٹے نے پہلے ایم اے اکنامکس کیا ادھر پاکستان سے پھر انگلینڈ جا کر اس نے ایم بی اے کیا۔وہ بھی بینک میں ہی کام کرتا ہے مگر ادھر انگلینڈ میں۔اسی کا تو بیٹا ہوا ہے۔”
سالار نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے گردن واپس موڑ لی۔
“تو پھر تم نے بتایا نہیں؟”
“کیا؟”
سالار کو فوری طور پر یاد نہیں آیا کہ انہوں نے کیا پوچھا تھا۔
“اپنی تعلیم کے بارے میں؟”
“میں نے ایم بی اے کیا ہے۔”
“کہاں سے؟”
“امریکہ سے۔”
“اچھا۔۔۔۔ماں باپ ہیں تمہارے؟”
“جی۔”
“کتنے بہن بھائی ہیں؟”سوالات کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا تھا۔
“پانچ۔”سالار کو کوئی جائے فرار نظر نہیں آ رہی تھی۔
“کتنی بہنیں اور کتنے بھائی؟”
“ایک بہن اور چار بھائی۔”
“شادیاں کتنوں کی ہوئی ہیں؟”
“میرے علاوہ سب کی۔”
“تم سب سے چھوٹے ہو؟”
“نہیں ، چوتھے نمبر پر ہوں۔ایک بھائی چھوٹا ہے۔”
سالار کو اب پہلی بار اپنے “سوشل ورک” پر پچھتاوا ہونے لگا۔
“اس کی بھی شادی ہو گئی؟”
“جی۔”
“تو پھر تم نے شادی کیوں نہیں کی؟کوئی محبت کا چکر تو نہیں؟”
اس بار سالار کے پیروں کے نیچے سے حقیقت میں زمین کھسک گئی۔وہ ان کی قیافہ شناسی کا قائل ہونے لگا۔
“اماں جی! رکشہ نہیں مل رہا۔آپ مجھے ایڈریس بتا دیں ، میں آپ کو خود چھوڑ آتا ہوں۔”سالار نے ان کے سوال کا جواب گول کر دیا۔
دیر تو اسے پہلے ہی ہو چکی تھی اور رکشے کا ابھی بھی کہیں نام و نشان نہیں تھا اور وہ اس بوڑھی خاتون کو کہیں سڑک پر بھی کھڑا نہیں کر سکتا تھا۔
اماں جی نے اسے پتا بتایا۔
سالار کی سمجھ میں نہیں آیا۔ایک چوک میں کھڑے ٹریفک کانسٹیبل کو اس نے وہ پتا دوہرا کر مدد کرنے کے لئے کہا۔کانسٹیبل نے اسے علاقے کا رستہ سمجھایا۔
سالار نے دوبارہ گاڑی چلانا شروع کی۔
“تو پھر تم نے مجھے بتایا نہیں کہ کہیں محبت کا چکر تو نہیں تھا؟”
سالار کا دل چاہا کہیں ڈوب کر مر جائے۔وہ خاتون ابھی تک اپنا سوال نہیں بھولی تھیں جبکہ وہ صرف اس سوال کے جواب سے بچنے کے لئے انہیں گھر چھوڑنے پر تیار ہوا تھا۔
“نہیں اماں جی! ایسی کوئی بات نہیں۔”
اس نے اس بار سنجیدگی سے کہا۔
“الحمدللہ۔”وہ اماں جی کی اس “الحمدللہ” کا سیاق و سباق سمجھ نہیں پایا تھا اور اس نے اس کا تردد بھی نہیں کیا۔
اماں جی اب اس کے ماں باپ کے بارے میں کرید کرید کر معلومات حاصل کرنے کی کوشش فرما رہی تھیں۔سالار واقعی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔
سب سے بڑی گڑبڑ اس وقت ہوئی جب وہ اماں جی کے بتائے ہوئے علاقے میں پہنچا اور اس نے اماں جی سے مطلوبہ گلی کی طرف رہنمائی کرنے کی درخواست فرمائی اور اماں جی نے کمال اطمینان سے کہا۔
“اب یہ تو مجھے پتہ ہے کہ اس علاقے میں گھر ہے مگر پتہ مجھے معلوم نہیں۔”
وہ بھونچکا رہ گیا۔
“اماں جی! تو گھر کیسے پہنچاؤں میں آپ کو۔پتے کے بغیر اس علاقے میں آپ کو کہاں ڈراپ کروں؟”
وہ اپنے گھر پر لکھا نمبر اور نام بتانے لگیں۔
“نہیں اماں جی! آپ مجھے گلی کا نام بتائیں۔”
وہ گلی کے نام کی بجائے نشانیاں بتانے لگیں۔
“حلوائی کی ایک دکان ہے گلی کے کونے میں۔۔۔۔۔بہت کھلی گلی ہے۔۔۔۔۔پرویز صاحب کا گھر بھی وہیں ہے ، جن کے بیٹے نے جرمنی میں شادی کی ہے پچھلے ہفتے۔۔۔۔۔پہلی بیوی اس کی ادھر ہی ہے ہمارے محلے میں۔۔۔۔۔شادی کی اطلاع ملنے پر بےچاری نے رو رو کر محلہ سر پر اُٹھا لیا۔”وہ نشانیاں بتاتے بتاتے کہیں اور نکل گئیں۔
سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی کھڑی کر دی۔
“اماں جی! آپ کے شوہر کا کیا نام ہے؟گھر کے بارے میں اور گلی کے بارے میں کچھ تفصیل سے بتائیں ، اس طرح تو میں کبھی بھی آپ کو گھر نہیں پہنچا سکوں گا۔”
اس نے تحمل سے کام لیتے ہوئے کہا۔
“میں سعیدہ اماں کے نام سے جانی جاتی ہوں۔میاں بیچارے تو دس سال پہلے فوت ہو گئے۔ان کو تو لوگ بھول بھال گئے اور گلی کا میں تمہیں بتا رہی ہوں ، بہت بڑی گلی ہے۔تین دن پہلے گٹر کے دو ڈھکن لگا کر گئے ہیں ، بالکل نئے۔سیمنٹ سے جوڑ کر گئے ہیں۔ہر ماہ کوئی نہ کوئی اُتار کر لے جاتا تھا ، اب بےفکری ہو گئی ہے۔”
سالار نے بےاختیار گہرا سانس لیا۔
“اماں جی! کیا میں کہہ کر لوگوں سے آپ کی گلی کا پوچھوں کہ گٹر کے دو نئے ڈھکنوں والی گلی آپ وہاں کے کسی ایسے شخص کا نام بتائیں جسے لوگ جانتے ہوں جو قدرے معروف ہو۔”
“وہ مرتضیٰ صاحب ہیں جن کے بیٹے مظفر کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی کل صبح۔”
“اماں جی! یہ کوئی تعارف نہیں ہوتا۔”
وہ اس کی بات پر برا مان گئیں۔
“لو بھلا، اب کیا ہر گھر میں ٹانگ ٹوٹتی ہے کسی نا کسی کی۔”
سالار چپ چاپ گاڑی سے اتر گیا۔ آس پاس کی دوکانوں سے اس نے سعیدہ اماں کے بتائے ہوئے “کوائف” کے مطابق گلی تلاش کرنا شروع کی، مگر جلد ہی اسے پتا چل گیا کہ ان نشانیوں کے ساتھ وہ کم از کم آج کی تاریخ میں گھر نہیں ڈھونڈ سکتا۔
وہ مایوس ہو کر واپس لوٹا۔
“اماں جی! گھر میں فون ہے آپ کے؟ گاڑی کے اندر گھستے ہی اس نے پوچھا۔
“ہاں ہے۔”
سالار نے سکون کا سانس لیا۔
“اس کا نمبر بتائیں مجھے۔” سالار نے اپنا موبائل نکالتے ہوئے کہا۔
“نمبر کا تو مجھے نہیں پتا۔”
وہ ایک بار پھر دھک سے رہ گیا۔
“فون نمبر بھی نہیں پتا۔؟ اس نے شدید صدمے کے عالم میں کہا۔
“بیٹا! میں نے کون سا کبھی فون کیا ہے۔ میرے بیٹے خود کر لیتے ہیں، رشتہ دار بھی خود کر لیتے ہیں یا ضرورت ہو تو بیٹی فون ملا دیتی ہے۔”
“ادھر ماڈل ٹاؤن میں کس کے پاس گئی تھیں؟”
سالار کو یک دم خیال آیا۔
“ادھر کچھ رشتہ دار ہیں میرے۔ پوتے کی مٹھائی دینے گئی تھی۔”
انہوں نے فخریہ بتایا۔
سالار نے سکون کا سانس لیتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی۔
“ٹھیک ہے ادھر ہی چلتے ہیں۔ وہاں کا پتہ بتائیں۔”
“پتہ تو مجھے نہیں پتا۔”
سالار اس بار صدمے سے کچھ دیر کے لئے بول بھی نہ سکا۔
“تو پھر گئیں کیسے تھیں آپ؟”
“بیٹا! اصل میں جہاں جانا ہو ہمسائے کے بچے چھوڑ آتے ہیں، ان ہی کو گھر کا پتہ ہے۔ پچھلے دس سال سے مجھے وہی لے کر جا رہے ہیں۔ وہ چھوڑ آتے ہیں اور پھر وہاں سے بلال وغیرہ واپس چھوڑ جاتے ہیں۔ اصل میں یہ بلال وغیرہ بھی پہلے میرے محلے میں ہی رہتے تھے۔ یہی کوئی دس بارہ سال پہلے ادھر گئے ہیں اس لئے میرے پورے محلے کو ان کے گھر کا پتا ہے۔”
سالار نے کچھ نہیں کہا۔ اسے اب بھی امید تھی کہ جہاں سے اس نے ان خاتون کو پک کیا ہے بلال وغیرہ کا گھر وہیں کہیں ہو گا۔
سعیدہ اماں کی گفتگو جاری تھی۔
“آج تو ایسا ہوا کہ بلال کے گھر پر کوئی تھا ہی نہیں، صرف ملازمہ تھی ۔ میں کچھ دیر بیٹھی رہی پھر بھی وہ لوگ نہیں آئے تو میں نے سوچا خود گھر چلی جاؤں اور پھر ماشاءاللہ تم مل گئے۔”
“اماں جی! آپ رکشے والے کو کیا بتاتیں؟”
“وہی جو تمہیں بتایا ہے۔”
وہ ان کی ذہانت پر باغ باغ ہو گیا۔
“اس سے پہلے کبھی آپ اس طرح پتہ بتا کر گھر پہنچی ہیں؟”
اس نے قدرے افسوس بھرے لہجے میں گاڑی ریورس کرتے ہوئے پوچھا۔
“نہ ۔۔۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔۔۔ضرورت ہی نہیں پڑی۔”
سعیدہ اماں کا اطمینان قابل رشک تھا۔ سالار مزید کچھ کہے بغیر گاڑی سڑک پر لے آیا۔
“اب تم کہاں جا رہے ہو؟”
سعیدہ اماں زیادہ دیر چپ نہیں رہ سکیں۔
“جہاں سے میں نے آپ کو لیا تھا گھر اسی سڑک پر ہو گا،آپ نے کوئی ٹرن تو نہیں لیا تھا؟”
سالار نے بیک ویو مرر سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“نہیں، میں نے نہیں لیا۔”
سعیدہ اماں نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
سالار نے ان کے لہجے پر غور نہیں کیا۔ اس نے اطمینان کی سانس لی۔ اس کا مطلب تھا گھر اس سڑک پر ہی کہیں تھا اور گلیوں کی نسبت کالونی میں گھر تلاش کرنا آسان تھا۔ وہ بھی اس صورت میں جب اسے صرف ایک سڑک کے گھر دیکھنے تھے۔
“تم سگریٹ پیتے ہو؟”
خاموشی یک دم ٹوٹی۔ وہ گاڑی ڈرائیو کرتے کرتے چونک گیا۔
“میں۔۔۔۔۔؟”
اس نے بیک ویو مرر میں دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی بیک ویو مرر میں ہی دیکھ رہی تھیں۔
“آ۔۔۔۔۔ نہیں۔”
وہ سوال کو سمجھ نہیں سکا تھا۔
“کوئی اور نشہ وغیرہ۔”
وہ اس بار سوال سے زیادہ ان کی بے تکلفی پر حیران ہوا تھا۔
“آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟”
“بس ویسے ہی۔اب اتنا لمبا راستہ میں خاموش کیسے رہوں گی۔”
انہوں نے اپنی مجبوری بتائی۔
“آپ کو کیا لگتا ہے، میں کرتا ہوں گا کوئی نشہ؟”
سالار نے جواباً ان سے پوچھا۔
“نہیں، کہاں۔۔۔۔۔اسی لئے تو میں پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔ تو پھر نہیں کرتے؟”
ان کے انداز نے اس بار سالار کو محظوظ کیا۔
“نہیں۔” اس نے مختصراً کہا۔ وہ اب سگنل پر رکے ہوئے تھے۔
“کوئی گرل فرینڈ ہے؟” سالار کو لگا اسے سننے میں کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس نے پلٹ کر سعیدہ اماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
“آپ نے کیا پوچھا ہے؟”
“میں نے کہا، کوئی گرل فرینڈ ہے؟” سعیدہ اماں نے “گرل فرینڈ” پر زور دیتے ہوئے کہا۔
سالار کھلکھلا کر ہنس پڑا۔
“آپ تو پتا ہے گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے؟”
سعیدہ اماں اس کے سوال پر برا مان گئیں۔
“کیوں بھئی۔۔۔۔۔ دو بیٹے ہیں میرے، مجھے نہیں پتا ہو گا کہ گرل فرینڈ کیا ہوتی ہے۔ جب انہیں باہر پڑھنے کے لئے بھیجا تھا تو کہہ کر بھیجا تھا میرے شوہر نے کہ گرل فرینڈ نہیں ہونی چاہئیے اور پھر مہینے میں ایک بار فون آتا تھا دونوں کا۔”
سگنل کھل گیا۔ سالار مسکراتے ہوئے سیدھا ہو گیا اور ایکسیلیٹر پر پاؤں دبا دیا۔
سعیدہ اماں نے بات جاری رکھی۔
“میں دونوں سے کہتی تھی کہ قسم کھا کر بتائیں، انہوں نے کوئی گرل فرینڈ بنائی تو نہیں۔ جب تک شادیاں نہیں ہو گئیں۔ ہر بار فون پر سب سے پہلے دونوں قسم کھا کر یہی بتایا کرتے تھے مجھے۔ سلام بھی بعد میں کیا کرتے تھے۔”
وہ فخریہ انداز میں بتاتی جا رہی تھیں۔
“بڑے تابعدار بچے ہیں میرے، دونوں نے گرل فرینڈ نہیں بنائی۔”
“آپ نے اپنی پسند سے دونوں کی کہیں شادیاں کی ہیں؟”
سالار نے پوچھا۔
“نہیں، دونوں نے ادھر ہی اپنی پسند سے شادیاں کی ہیں۔”
انہوں نے سادگی سے کہا۔ سالار کے حلق سے بے اختیار قہقہہ نکلا۔
“کیا ہوا؟” سعیدہ اماں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
“کچھ نہیں، آپ کی بہوئیں انگریز ہیں؟”
“نہیں، پاکستانی ہیں مگر وہیں رہتی تھیں۔ میرے بیٹوں کے ساتھ کام کرتی تھیں مگر تم ہنسے کیوں؟”
سعیدہ اماں نے اپنا سوال دہرایا۔
“کوئی خاص بات نہیں۔”
سعیدہ اماں کچھ دیر خاموش رہیں پھر انہوں نے کہا۔
“تو تم نے بتایا نہیں کہ گرل فرینڈ۔۔۔۔۔”
سالار نے بات کاٹ دی۔
“نہیں ہے سعیدہ اماں! گرل فرینڈ بھی نہیں ہے۔”
“ماشاءاللہ۔۔۔۔۔ ماشاءاللہ۔” وہ ایک بار پھر اس ماشاءاللہ کا سیاق وسباق سمجھنے میں ناکام رہا۔
“گھر اپنا ہے؟”
“نہیں کرائے کا ہے۔”
“کوئی ملازم وغیرہ ہے؟”
“مستقل تو نہیں ہے مگر صفائی وغیرہ کے لئے ملازم رکھا ہوا ہے۔”
“اور یہ گاڑی تو اپنی ہی ہو گی؟”
“جی۔”
“اور تنخواہ کتنی ہے؟”
سالار روانی سے جواب دیتے دیتے ایک بار پھر چونکا۔ گفتگو کس نوعیت پر جا رہی تھی، فوری طور پر اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
“سعیدہ اماں! آپ یہاں اکیلی کیوں رہتی ہیں۔ اپنے بیٹوں کے پاس کیوں نہیں چلی جاتیں؟”
سالار نے موضوع بدلا۔
“ہاں، میرا یہی ارادہ ہے۔ پہلے تو میرا دل نہیں چاہتا تھا مگر اب یہ سوچا ہے کہ بیٹی کی شادی کر لوں تو پھر باہر چلی جاؤں گی۔ اکیلے رہتے رہتے تنگ آ گئی ہوں۔”
سالار اب اس سڑک پر آ گیا تھا جہاں سے اس نے سعیدہ اماں کو پک کیا تھا۔
“میں نے آپ کو یہاں سے لیا تھا۔ آپ بتائیں، ان میں سے کون سا گھر ہے؟” سالار نے گاڑی کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے دائیں طرف کے گھروں پر نظر ڈالی۔
“نمبر کا نہیں پتا، گھر کی تو پہچان ہو گی آپ کو؟”
سعیدہ اماں بغور گھروں کو دیکھ رہی تھیں۔
“ہاں۔۔۔۔ ہاں گھر کی پہچان ہے۔”
وہ گھر کی نشانیاں بتانے لگیں جو اتنی ہی مبہم تھیں، جتنا ان کے اپنے گھر کا پتہ۔ وہ سڑک کے آخری سرے پر پہنچ گئے۔ سعیدہ اماں گھر نہیں پہچان سکیں۔ سالار، بلال کے والد کا نام پوچھ کر گاڑی سے نیچے اتر گیا اور باری باری دونوں اطراف کے گھروں سے سعیدہ اماں کے بارے میں پوچھنے لگا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ اس سڑک پر موجود ہر گھر میں جا چکا تھا۔ مطلوبہ نام کے کسی آدمی کا گھر وہاں نہیں تھا۔
“آپ کو ان کا نام ٹھیک سے یاد ہے؟”
وہ تھک ہار کر سعیدہ اماں کے پاس آیا۔
“ہاں ۔۔۔۔ لو بھلا اب مجھے نام بھی پتا نہیں ہو گا۔”
سعیدہ اماں نے برا مانا۔
“لیکن اس نام کے کسی آدمی کا گھر یہاں نہیں ہے، نہ ہی کوئی آپ کے بارے میں جانتا ہے۔”
سالارنے گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر بیٹھتے ہوئے کہا۔
“ہاں تو۔۔۔۔۔ یہ ساتھ والی سڑک پر دیکھ لو۔”
سعیدہ اماں نے کچھ فاصلے پر ایک اور سڑک کی طرف اشارہ کیا۔
“لیکن سعیدہ اماں! آپ نے کہا تھا کہ گھر اسی سڑک پر ہے۔” سالار نے کہا۔
“میں نے کب کہا تھا؟” وہ متعرض ہوئیں۔
“میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ نے ٹرن تو نہیں لیا۔ آپ نے کہا نہیں۔”سالار نے انہیں یاد کرایا۔
“وہ تو میں نے کہا تھا مگر یہ ہوتا کیا ہے؟”
سالار کا دل ڈوبا۔
“ٹرن؟”
“ہاں یہی۔”
“آپ کسی اور سڑک سے تو مڑ کر یہاں نہیں آئیں؟”
“لو تو اس طرح کہو نا۔” سعیدہ اماں کو تسلی ہوئی۔
“میں کیوں یہاں بیٹھ گئی تھی۔ تھک گئی تھی چل چل کر اور یہ سڑک تو چھوٹی سی ہے۔ یہاں میں چل کر کیا تھک سکتی تھی؟”
سالار نے گاڑی سٹارٹ کر لی۔ وہ دن بہت خراب تھا۔
“کس سڑک سے مڑ کر یہاں آئیں تھیں آپ؟”
اس نے سعیدہ اماں سے کہتے ہوئے گاڑی آگے بڑھائی۔
“میرا خیال ہے۔۔۔۔۔” وہ پہلی سڑک کو دیکھتے ہوئے الجھیں۔
“یہ ہے۔” انہوں نے کہا۔
سالار کو یقین تھا وہ سڑک نہیں ہو گی مگر اس نے گاڑی اس سڑک پر موڑ لی۔ یہ تو طے تھا کہ آج اس کا سارا دن اسی طرح ضائع ہونا تھا۔
اگلا ایک ڈیڑھ گھنٹہ وہ آس پاس کی مختلف سڑکوں پر سعیدہ اماں کو لے کر پھرتا رہا مگر اسے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔ سعیدہ اماں کو ہی گھر دور سے شناسا لگتا۔ پاس جانے پر وہ کہنا شروع کر دیتیں۔
“نہ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔۔ نہ۔۔۔۔۔ یہ نہیں ہے۔”
وہ بالآخر کالونی میں تلاش چھوڑ کر انہیں واپس اسی محلہ میں لے آیا جہاں وہ پہلے ان کا گھر ڈھونڈتا رہا تھا۔
مزید ایک گھنٹہ وہاں ضائع کرنے کے بعد جب وہ تھک کر واپس گاڑی کے پاس آیا تو شام ہو چکی تھی۔
سعیدہ اماں اس کے برعکس اطمینان سے گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
“ملا؟”
انہوں نے سالار کے اندر بیٹھتے ہی پوچھا۔
“نہیں، اب تو رات ہو رہی ہے۔ تلاش بے کار ہے۔ میں پولیس میں رپورٹ کرا دیتا ہوں آپ کی۔ آپ کی بیٹی یا آپ کے محلے والے آپ کے نہ ملنے پر پولیس سے رابطہ تو کریں گے ہی۔۔۔۔۔ پھر وہ لے جائیں گے آپ کو۔”
سالار نے ایک بار پھر گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے تجویز پیش کی۔
“چچ۔۔۔۔۔چچ۔۔۔۔۔ آمنہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی۔”
سعیدہ اماں کو اپنی بیٹی کا خیال آیا۔ سالار کا دل چاہا وہ ان سے کہے کہ وہ ان کی بیٹی سے زیادہ پریشان ہے مگر وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتے ہوئے گاڑی پولیس سٹیشن لے آیا۔
رپورٹ درج کرانے کے بعد وہ اٹھ کر وہاں سے جانے لگا۔ سعیدہ اماں بھی اٹھ کھڑی ہوئیں۔
“آپ بیٹھیں۔۔۔۔۔ آپ یہیں رہیں گی۔”
سالار نے ان سے کہا۔
“نہیں۔۔۔۔۔ ہم انہیں یہاں کہاں رکھیں گے، آپ انہیں ساتھ لے جائیں، ہم نے کسی سے رابطہ کیا تو ہم انہیں آپ کا پتہ دے دیں گے۔” پولیس انسپکٹر نے کہا۔
“لیکن میں تو انہیں آپ کے حوالے کر دینا چاہتا ہوں۔” سالار معترض ہوا۔
“دیکھیں، بوڑھی خاتون ہیں، اگر کوئی رابطہ نہیں کرتا ہم سے تو رات کہاں رہیں گی یہ۔۔۔۔۔ اور اگر کچھ دن اور گزر گئے۔۔۔۔۔”
پولیس انسپکٹر کہتا گیا۔ سعیدہ اماں نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔
“نہیں، مجھے ادھر نہیں رہنا۔ بیٹا! میں تمہارے ساتھ ہی چلوں گی۔ میں ادھر کہاں بیٹھوں گی آدمیوں میں۔”
سالار نے انہیں پہلی بار گھبراتے ہوئے دیکھا۔
“لیکن میں تو۔۔۔۔۔ اکیلا رہتا ہوں، وہ کہتے کہتے رک گیا، پھر اسے فرقان کے گھر کا خیال آیا۔
“اچھا ٹھیک ہے چلیں۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
باہر گاڑی میں آکر اس نے موبائل پر فرقان سے رابطہ قائم کیا۔ وہ انہیں فرقان کے ہاں ٹھہرانا چاہتا تھا۔ فرقان ابھی ہاسپٹل میں ہی تھا۔ اس نے موبائل پر ساری صورت حال اسے بتائی۔
“نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔” فرقان نے اسے بتایا۔
نوشین تو گاؤں گئی ہوئی ہے۔” فرقان نے اسے بتایا۔
“مگر کوئی مسئلہ نہیں، میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ انہیں اپنے فلیٹ پر لے جاؤں گا۔ وہ کون سی کوئی نوجوان خاتون ہیں کہ مسئلہ ہو جائے گا۔ تم ضرورت سے کچھ زیادہ ہی محتاط ہو رہے ہو۔”
“نہیں، میں ان کے آرام کے حوالے سے کہہ رہا تھا۔ آکورڈ نہ لگے انہیں۔” سالار نے کہا۔
“نہیں لگتا یار! پوچھ لینا تم ان سے، ورنہ پھر کسی ساتھ والے فلیٹ میں ٹھہرا دیں گے، عالم صاحب کی فیملی کے ساتھ۔”
“اچھا، تم آؤ پھر دیکھتے ہیں۔”
سالار نے موبائل بند کرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں بیٹا! میں تمہارے پاس ہی رہ لوں گی، تم میرے بیٹے کے برابر ہو مجھے اعتماد ہے تم پر۔”
سعیدہ اماں نے مطمئن لہجے میں کہا۔
سالار نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔
اس نے راستے میں رک کر ایک ریسٹورنٹ سے کھانا لیا۔ بھوک سے اس کا برا حال ہو رہا تھا اور یک دم اسے احساس ہوا کہ سعیدہ اماں بھی دوپہر سے اس کے ساتھ کچھ کھائے پئیے بغیر ہی پھر رہی ہیں۔ اسے ندامت کا احساس ہوا۔ اپنے فلیٹ کی طرف جاتے ہوئے اس نے راستے میں ایک جگہ رک کر سعیدہ اماں کے ساتھ سیب کا تازہ جوس پیا۔ وہ زندگی میں پہلی بار کسی بوڑھے شخص کے ساتھ اتنا وقت گزار رہا تھا اور اسے احساس ہو رہا تھا کہ یہ کام آسان نہیں تھا۔
فلیٹ میں پہنچ کر وہ ابھی سعیدہ اماں کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا جب فرقان آ گیا۔
اس نے سعیدہ اماں سے خود ہی اپنا تعارف کرایا اور پھر کھانا کھانے لگا۔ چند منٹوں میں ہی وہ سعیدہ اماں کے ساتھ اتنی بے تکلفی کے ساتھ ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کر رہا تھا کہ سالار کو رشک آنے لگا۔ اس نے فرقان سے اچھی گفتگو کرنے والا کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے گفتگو کے انداز میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور تھا کہ دوسرا اپنا دل اس کے سامنے کھول کر رکھ دینے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ اتنے سالوں سے دوستی کے باوجود وہ فرقان کی طرح گفتگو کرنا نہیں سیکھ سکا تھا۔
دس منٹ بعد وہ وہاں خاموشی سے کھانا کھانے والے ایک سامع کی حیثیت اختیار کر چکا تھا جبکہ فرقان اور سعیدہ اماں مسلسل گفتگو میں مصروف تھے۔ سعیدہ اماں یہ جان کر کہ فرقان ڈاکٹر ہے، اس سے طبی مشورے لینے میں مصروف تھیں۔ کھانے کے خاتمے تک وہ فرقان کو مجبور کر چکی تھیں کہ وہ اپنا میڈیکل باکس لا کر ان کا چیک اپ کرے۔
فرقان نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ اونکولوجسٹ تھا۔ وہ بڑی تحمل مزاجی سے اپنا بیگ لے آیا۔ اس نے سعیدہ اماں کا بلڈ پریشر چیک کیا پھر اسٹیتھو سکوپ سے ان کے دل کی رفتار کو ماپا اور آخر میں نبض چیک کرنے کے بعد انہیں یہ یقین دلایا کہ وہ بے حد تندرست حالت میں ہیں اور بلڈ پریشر یا دل کی کوئی بیماری انہیں نہیں ہے۔
سعیدہ اماں ایک دم بے حد ہشاش بشاش نظر آنے لگیں۔ سالار ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سنتے ہوئے کچن میں برتن دھوتا رہا۔ وہ دونوں لاونج کے صوفوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔
پھر اسی دوران اس نے فون کی گھنٹی سنی۔ فرقان نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ڈاکٹر سبط علی تھے۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے کہا۔
“سالار نے پولیس اسٹیشن پر کسی سعیدہ نام کی خاتون کے بارے میں اطلاع دی تھی۔”
فرقان حیران ہوا۔
“جی وہ یہیں ہیں، ہمارے پاس۔”
“اللہ کا شکر ہے۔” ڈاکٹر سبط علی نے بے اختیار کہا۔
“ہاں، وہ میری عزیزہ ہیں، ہم انہیں تلاش کر رہے تھے چند گھنٹوں سے۔ پولیس سے رابطہ کیا تو سالار کا نام اور نمبر دے دیا انہوں نے۔”
فرقان نے انہیں سعیدہ اماں کے بارے میں بتایا اور پھر سعیدہ اماں کی بات فون پر ان سے کرائی۔ سالار بھی باہر لاؤنج میں آ گیا۔
سعیدہ اماں فون پر گفتگو میں مصروف تھیں۔
“ڈاکٹر صاحب کی عزیزہ ہیں یہ۔”
فرقان نے دھیمی آواز میں اس کے قریب آ کر کہا۔
“ڈاکٹر سبط علی صاحب کی؟” سالار حیران ہوا۔
“ہاں، ان ہی کی۔”
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔
“بھائی صاحب کہہ رہے ہیں تم سے بات کرانے کو۔”
سعیدہ اماں نے فرقان سے کہا۔
فرقان تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ریسیور لے کر کاغذ پر کچھ نوٹ کرنے لگا۔ ڈاکٹر سبط علی اسے ایڈریس لکھوا رہے تھے۔
سعیدہ اماں نے قدرے حیرانی سے لاؤنج کے دروازے میں کھڑے سالار کو دیکھا۔
“تم کیا کر رہے ہو؟” ان کی نظریں سالار کے ایپرن پر جمی تھیں۔
وہ کچھ شرمندہ ہو گیا۔
“میں ۔۔۔۔۔ برتن دھو رہا تھا۔”
سالار واپس کچن میں آیا اور اس نے ایپرن اتار دیا۔ ویسے بھی برتن وہ تقریباً دھو چکا تھا۔
“سالار! آؤ پھر انہیں چھوڑ آتے ہیں۔”
اسے اپنے عقب میں فرقان کی آواز آئی۔
“یہ کام بعد میں کر لینا۔”
“تم گاڑی کی چابی لو، میں ہاتھ دھو کر آتا ہوں۔” سالار نے کہا۔
اگلے دس منٹ میں وہ نیچے سالار کی گاڑی میں تھے۔ فرقان اگلی سیٹ پر تھا اور اس کے باوجود پچھلی سیٹ پر بیٹھی سعیدہ اماں سے گفتگو میں مصروف تھا۔ ساتھ ساتھ وہ سالار کو راستے کے بارے میں ہدایات بھی دیتا جا رہا تھا۔
بہت تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہ بیس منٹ میں مطلوبہ محلے اور گلی میں تھے۔ بڑی گلی میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد وہ دونوں انہیں اندر گلی میں ان کے گھر تک چھوڑنے گئے۔ سعیدہ اماں کو اب رہنمائی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی گلی کو پہچانتی تھیں۔
وہ فخریہ انداز میں کچھ جتاتے ہوئے سالار کو بتاتی گئیں۔
“حلوائی کی دوکان۔۔۔۔۔ گٹر کے سیمنٹ والے ڈھکن۔۔۔۔۔ پرویز صاحب کا گھر۔۔۔۔۔”
“جی!” سالار مسکراتے ہوئے سر ہلاتا رہا۔
اس نے ان کو یہ نہیں بتایا کہ ان کی بتائی ہوئی ساری نشانیاں صحیح تھیں۔ صرف وہ اسے ایک غلط علاقے میں لے گئی تھیں۔
“آمنہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی۔” انہوں نے سرخ اینٹ کی بنی ہوئی ایک حویلی نما دو منزلہ مکان کے سامنے رکتے ہوئے275 دفعہ کہا۔
فرقان نے آگے بڑھ کر بیل بجائی۔ سالار قدرے ستائشی انداز میں حویلی پر نظریں دوڑاتا رہا۔ وہ یقیناً کافی پرانی حویلی تھی مگر مسلسل دیکھ بھال کی وجہ سے وہ اس گلی میں سب سے باوقار لگ رہی تھی۔
“تم لوگوں کو اب میں نے چائے پئیے بغیر نہیں جانے دینا۔” سعیدہ اماں نے کہا۔
“میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوئی۔ خاص طور پر سالار کو۔ بچہ مجھے سارا دن لیے پھرتا رہا۔” سعیدہ اماں نے سالار کے کندھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
“کوئی بات نہیں، سعیدہ اماں! چائے ہم پھر کبھی پئیں گے، آج ہمیں دیر ہو رہی ہے۔”
“ہاں سعیدہ اماں! آج چائے نہیں پئیں گے۔ کبھی آ کر آپ کے پاس کھانا کھائیں گے۔”
فرقان نے بھی جلدی سے کہا۔
“دیکھ لینا، ایسا نہ ہو کہ یاد ہی نہ رہے تمہیں۔”
“لیں، بھلا کھانا کیسے بھولیں گے ہم۔ وہ جو آپ پالک گوشت کی ترکیب بتا رہی تھیں، وہی بنا کر کھلائیے گا۔”
فرقان نے کہا۔ اندر سے قدموں کی آواز آ رہی تھی۔ سعیدہ اماں کی بیٹی دروازہ کھولنے آ رہی تھی اور اس نے دروازے سے کچھ فاصلے پر ہی سعیدہ اماں اور فرقان کی آوازیں سن لی تھیں، اس لئے اس نے کچھ بھی پوچھے بغیر دروازے کا بولٹ اندر سے اتارتے ہوئے دروازہ تھوڑا سا کھول دیا۔
“اچھا سعیدہ اماں! خدا حافظ۔” فرقان نے سعیدہ اماں کو دروازے کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا۔ سالار اس سے پہلے ہی پلٹ چکا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی میں بیٹھ کر اسے سٹارٹ کرتے ہوئے سالار نے فرقان سے کہا۔
“تمہاری سب سے ناپسندیدہ ڈش، پالک گوشت ہے اور تم ان سے کیا کہہ رہے تھے؟”
فرقان نے قہقہہ لگایا۔”کہنے میں کیا حرج ہے، ویسے ہو سکتا ہے وہ واقعی میں اتنا اچھا پکائیں کہ میں کھانے پر مجبور ہو جاؤں۔”
“تم جاؤ گے ان کے گھر؟”
سالار گاڑی مین روڈ پر لاتے ہوئے حیران ہوا۔
“بالکل جاؤں گا، وعدہ کیا ہے میں نے اور تم نے۔”
“میں تو نہیں جاؤں گا۔” سالار نے انکار کیا۔
“جان نہ پہچان، منہ اٹھا کر ان کے گھر کھانا کھانے پہنچ جاؤں۔”
“ڈاکٹر سبط علی صاحب کی فرسٹ کزن ہیں وہ اور مجھ سے زیادہ تو تمہاری جان پہچان ہے ان کے ساتھ۔” فرقان نے کہا۔
“وہ اور معاملہ تھا، انہیں مدد کی ضرورت تھی، میں نے کر دی اور بس اتنا کافی ہے۔ ان کے بیٹے یہاں ہوتے تو اور بات تھی لیکن اس طرح اکیلی عورتوں کے گھر تو میں کبھی نہیں جاؤں گا۔” سالار سنجیدہ تھا۔
“میں کون سا اکیلا جانے والا ہوں یار! بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ جانتا ہوں میرا اکیلا ان کے ہاں جانا مناسب نہیں ہے۔ نوشین بھی ان سے مل کر خوش ہو گی۔”
“ہاں،بھابھی کے ساتھ چلے جانا، کوئی حرج نہیں۔” سالار مطمئن ہوا۔
“میں جاؤں۔۔۔۔۔؟ تم کو بھی تو ساتھ چلنا ہے، انہوں نے تمہیں بھی دعوت دی ہے۔”
“میں تو نہیں جاؤں گا، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ تم ہو آنا، کافی ہے۔” سالار نے لاپرواہی سے کہا۔
“تم ان کے خاص مہمان ہو، تمہارے بغیر تو سب کچھ پھیکا رہے گا۔”
سالار کو اس کا لہجہ کچھ عجیب سا لگا۔ اس نے گردن موڑ کر فرقان کو دیکھا۔ وہ مسکرا رہا تھا۔
“کیا مطلب؟”
“میرا خیال ہے انہیں تم داماد کے طور پر پسند آ گئے ہو۔”
“فضول باتیں مت کرو۔” سالار نے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
“اچھا۔۔۔۔۔ دیکھ لینا، پروپوزل آئے گا تمہارا اس گھر سے۔ سعیدہ اماں کو تم ہر طرح سے اچھے لگے ہو۔ ہر بات پوچھی ہے انہوں نے مجھ سے تمہارے بارے میں۔ یہ بھی کہ تمہارا شادی کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں اور ہے تو کب تک کرنے کا ارادہ ہے۔ میں نے کہا کہ جیسے ہی کوئی اچھا پروپوزل ملا وہ فوراً کر لے گا پھر وہ اپنی بیٹی کے بارے میں بتانے لگیں۔ اب جتنی تعریفیں وہ اپنی بیٹی کی کر رہی تھیں اگر ہم اس میں سے پچاس فیصد بھی سچ سمجھ لیں تو بھی وہ لڑکی۔۔۔۔۔ کیا نام لے رہی تھیں۔۔۔۔۔ ہاں آمنہ۔۔۔۔۔ تمہارے لئے بہترین ہو گی۔”
“شرم آنی چاہئیے تمہیں ڈاکٹر سبط علی صاحب کی رشتہ دار ہیں وہ اور تم ان کے بارے میں فضول باتیں کر رہے ہو۔” سالار نے اسے جھڑکا۔
فرقان سنجیدہ ہو گیا۔
“میں کوئی غلط بات نہیں کر رہا ہوں، تمہارے لئے تو یہ اعزاز کی بات ہونی چاہئیے کہ تمہاری شادی ڈاکٹر سبط علی صاحب کے خاندان میں ہو۔۔۔۔۔”
“جسٹ اسٹاپ اٹ فرقان! یہ مسئلہ کافی ڈسکس ہو گیا، اب ختم کرو۔” سالار نے سختی سے کہا۔
“چلو ٹھیک ہے، ختم کرتے ہیں پھر کبھی بات کریں گے۔”
فرقان نے اطمینا ن سے کہا۔ سالار نے گردن موڑ کر چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔
“ڈرائیونگ کر رہے ہو، سڑک پر دھیان رکھو۔” فرقان نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔ سالار کچھ ناراضی کے عالم میں سڑک کی طرف متوجہ ہو گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعیدہ اماں کے ساتھ ان کا رابطہ وہیں ختم نہیں ہوا۔
کچھ دنوں کے بعد وہ ایک شام ڈاکٹر سبط علی کے ہاں تھے جب انہوں نے اپنے لیکچر کے بعد ان دونوں کو روک لیا۔
“سعیدہ آپا آپ لوگوں سے ملنا چاہتی ہیں، مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ میں آپ لوگوں کے ہاں انہیں لے جاؤں، میں نےا ن کو بتایا کہ شام کو وہ لوگ میری طرف آئیں گے، آپ یہیں مل لیں۔ آپ لوگوں نے شاید کوئی وعدہ کیا تھا ان کے ہاں جانے کا، مگر گئے نہیں۔”
فرقان نے معنی خیز نظروں سے سالار کو دیکھا۔ وہ نظریں چرا گیا۔
“نہیں، ہم لوگ سوچ رہے تھے مگر کچھ مصروفیت تھی اس لئے نہیں جا پائے۔” فرقان نے جواباً کہا۔
وہ دونوں ڈاکٹر سبط علی کے ساتھ ان کے ڈرائینگ روم میں چلے آئے جہاں کچھ دیر بعد سعیدہ اماں بھی آ گئیں اور آتے ہی ان کی شکایات اور ناراضی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فرقان انہیں مطمئن کرنے میں مصروف رہا جبکہ سالار خاموشی سے بیٹھا رہا۔
اگلے ویک اینڈ پر فرقان نے سالار کو سعیدہ اماں کی طرف جانے کے پروگرام کے بارے میں بتایا۔ سالار کو اسلام آباد اور پھر وہاں سے گاؤ ں جانا تھا۔ اس لئے اس نے اپنی مصروفیت بتا کر سعیدہ اماں سے معذرت کر لی۔
ویک اینڈ گزارنے کے بعد لاہور واپسی پر فرقان نے اسے سعیدہ اماں کے ہاں گزارے جانے والے وقت کے بارے میں بتایا۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ وہاں گیا تھا۔
“سالار! میں سعیدہ اماں کی بیٹی سے بھی ملا تھا۔”
فرقان نے بات کرتے ہوئے اچانک کہا۔
“بہت اچھی لڑکی ہے، سعیدہ اماں کے برعکس خاصی خاموش طبع لڑکی ہے۔ بالکل تمہاری طرح، تم دونوں کی بڑی اچھی گزرے گی۔ نوشین کو بھی بہت اچھی لگی ہے۔”
“فرقان! تم صرف دعوت تک ہی رہو تو بہتر ہے۔” سالار نے اسے ٹوکا۔
“میں بہت سیریس ہوں سالار!” فرقان نے کہا۔
“میں بھی سیریس ہوں۔” سالار نے اسی انداز میں کہا۔” تمہیں پتا ہے فرقان! تم جتنا شادی پر اصرار کرتے ہو، میرا شادی سے اتنا ہی دل اٹھتا جاتا ہے اور یہ سب تمہاری ان باتوں کی وجہ سے ہے۔”
سالار نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
“میری باتوں کی وجہ سے نہیں۔ تم صاف صاف یہ کیوں نہیں کہتے کہ تم امامہ کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتے۔”
فرقان یک دم سنجیدہ ہو گیا۔
“اوکے۔۔۔۔۔ صاف صاف کہہ دیتا ہوں ، میں امامہ کی وجہ سے شادی کرنا نہیں چاہتا پھر۔۔۔۔۔؟”
سالار نے سرد مہری سے کہا۔
“یہ ایک بچگانہ سوچ ہے۔” فرقان اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔
“اوکے ، فائن۔ بچگانہ سوچ ہے پھر؟” سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
Then you should get rid of it (تب تمہیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئیے) ۔ فرقان نے نرمی سے کہا۔
I don’t want to get rid of it…. So? (میں اس سے چھٹکارا نہیں چاہتا۔۔۔۔۔ پھر؟)۔
سالار نے ترکی بہ ترکی کہا۔ فرقان کچھ دیر لاجواب ہو کر اسے دیکھتا رہا۔
“میرے سامنے دوبارہ تم سعیدہ اماں کی بیٹی کی بات مت کرنا اور اگر تم سے وہ اس بارے میں بات کریں بھی تو تم صاف صاف کہہ دینا کہ مجھے شادی نہیں کرنی، میں شادی شدہ ہوں۔”
“اوکے، نہیں کروں گا اس بارے میں تم سے بات۔ غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
فرقان نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے صلح جوئی سے کہا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں اس لئے تمہیں بلوایا ہے۔” سکندر نے مسکراتے ہوئے سالار کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ طیبہ کے ساتھ اس وقت لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے اور سالار ان کے فون کرنے پر اس ویک اینڈ اسلام آباد آیا ہوا تھا۔
سکندر عثمان نے قدرے ستائشی نظروں سے اپنے تیسرے بیٹے کو دیکھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ان کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد اب کپڑے تبدیل کر کے ان کے پاس آیا تھا۔ سفید شلوار قمیض اور گھر میں پہنی جانے والی سیاہ چپل میں وہ اپنے عام سے حلیے کے باوجود بہت باوقار لگ رہا تھا۔ شاید یہ اس کے چہرے کی سنجیدگی تھی یا پھر شاید وہ آج پہلی بار کئی سالوں کے بعد اسے بڑے غور سے دیکھ رہے تھے اور اعتراف کر رہے تھے کہ اس کی شخصیت میں بہت وقار اور ٹھہراؤ آ گیا ہے۔
انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سالار کی وجہ سے انہیں اپنے سوشل سرکل میں اہمیت اور عزت ملے گی۔ وہ جانتے تھے بہت جگہوں پر اب ان کا تعارف سالار سکندر کے حوالے سے ہوتا تھا اور انہیں اس پر خوشگوارحیرت ہوتی تھی۔ اس نے اپنی پوری ٹین ایج میں انہیں بری طرح خوار اور پریشان کیا تھا اور ایک وقت تھا، جب انہیں اپنے اس بیٹے کا مستقبل سب سے تاریک لگتا تھا۔ اپنی تمام غیرمعمولی صلاحیتوں اور قابلیت کے باوجود مگر ان کے اندازے اور خدشات صحیح ثابت نہیں ہوئے تھے۔
طیبہ نے خشک میوے کی پلیٹ سالار کی طرف بڑھائی۔
سالار نے چند کاجو اٹھا لئے۔
“میں تمہاری شادی کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔”
کاجو منہ میں ڈالتے ہوئے وہ ایک دم رک گیا۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ سکندر عثمان اور طیبہ بہت خوشگوار موڈ میں تھے۔
“اب تمہیں شادی کر ہی لینی چاہئیے سالار!”
سکندر نے کہا۔ سالار نے غیر محسوس انداز میں ہاتھ میں پکڑے ہوئے کاجو دوبارہ خشک میوے کی پلیٹ میں رکھ دئیے۔
“میں اور طیبہ تو حیران ہو رہے تھے کہ اتنے رشتے تو تمہارے بھائیوں میں سے کسی کے نہیں آئے جتنے تمہارے لئے آ رہے ہیں۔”
سکندر نے بڑے شگفتہ انداز میں کہا۔
“میں نے سوچا، کچھ بات وات کریں تم سے۔”
وہ چپ چاپ انہیں دیکھتا رہا۔
“زاہد ہمدانی صاحب کو جانتے ہو؟” عثمان سکندر نے ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی کے ہیڈ کا نام لیا۔
“جی۔۔۔۔۔ ان کی بیٹی میری کولیگ ہے۔”
“رمشہ نام ہے شاید؟”
“جی۔”
“کیسی لڑکی ہے؟”
وہ سکندر عثمان کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگا۔ ان کا سوال بہت “واضح” تھا۔
“اچھی ہے۔” اس نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
“تمہیں پسند ہے؟”
“کس لحاظ سے؟”
“میں رمشہ کے پروپوزل کی بات کر رہا ہوں۔” سکندر عثمان نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔
“زاہد پچھلے کئی ہفتے سے مجھ سے اس سلسلے میں بات کر رہا ہے۔ اپنی وائف کے ساتھ ایک دو بار وہ ہماری طرف آیا بھی ہے۔ ہم لوگ بھی ان کی طرف گئے ہیں۔ پچھلے ویک اینڈ پر رمشہ سے بھی ملے ہیں۔ مجھے اور طیبہ کو تو بہت اچھی لگی ہے۔ بہت well behaved ہے اور تمہارے ساتھ بھی اس کی اچھی خاصی دوستی ہے۔ ان لوگوں کی خواہش ہے بلکہ اصرار ہے کہ تمہارے ذریعے دونوں فیملیز میں کوئی رشتہ داری بن جائے۔”
“پاپا میری رمشہ کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہے۔” سالار نے مدھم اور ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
“وہ میری کولیگ ہے، جان پہچان ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت اچھی لڑکی ہے مگر میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔”
“تم کہیں اور انٹرسٹڈ ہو؟”
سکندر نے اس سے پوچھا۔ وہ خاموش رہا۔ سکندر اور طیبہ کے درمیان نظروں کا تبادلہ ہوا۔
“اگر تمہاری کہیں اور دلچسپی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہمیں خوشی ہو گی وہاں تمہاری شادی کی بات کرتے ہوئے اور یقیناً ہم تم پر بھی کوئی دباؤ نہیں دالیں گے اس سلسلے میں۔”
سکندر نے نرمی سے کہا۔
“میں بہت عرصہ پہلے شادی کر چکا ہوں۔”
ایک لمبی خاموشی کے بعد اس نے اسی طرح سر جھکائے ہوئے مدھم لہجے میں کہا۔ سکندر کو کوئی دشواری نہیں ہوئی یہ سمجھنے میں کہ اس کا اشارہ کس طرف تھا۔ ان کے چہرے پر یک دم سنجیدگی آ گئی۔
“امامہ کی بات کر رہے ہو؟”
وہ خاموش رہا۔ سکندر بہت دیر تک بے یقینی سے اسے دیکھتے رہے۔
“اتنے عرصے سے اس لئے شادی نہیں کر رہے؟”
سکندر کو جیسے ایک شاک لگا تھا۔ ان کا خیال تھا وہ اسے بھلا چکا تھا۔ آخر یہ آٹھ سال پرانی بات تھی۔
“اب تک تو وہ شادی کر چکی ہو گی، اپنی زندگی آرام سے گزار رہی ہو گی۔ تمہاری اور اس کی شادی تو کب کی ختم ہو چکی۔”
سکندر نے اس سے کہا۔
“نہیں پایا! اس کے ساتھ میری شادی ختم نہیں ہوئی۔” اس نے پہلی بار سر اٹھا کر کہا۔
“تم نے اسے نکاح نامے میں طلاق کا اختیار دیا تھا اور۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے تم اسے ڈھونڈنا چاہتے تھے تاکہ طلاق دے سکو۔”
سکندر نے جیسے اسے یاد کرایا۔
“میں نے اسے ڈھوندا تھا مگر وہ مجھے نہیں ملی اور وہ یہ بات نہیں جانتی کہ اس کے پاس طلاق کا ختیار ہے۔ وہ جہا ں بھی ہو گی ابھی تک میری ہی بیوی ہو گی۔”
“سالار! آٹھ سال گزر چکے ہیں۔ ایک دو سال کی بات تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ یہ جان گئی ہو کہ طلاق کا اختیار اس کے پاس ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ اب بھی تمہاری بیوی ہی ہو۔”
سکندر نے قدرے مضطرب ہو کر کہا۔
“میرے علاوہ تو کوئی دوسرا اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا اور میں نے اسے اس حق کے بارے میں نہیں بتایا اور جب تک وہ میرے نکاح میں ہے مجھے کہیں اور شادی نہیں کرنی۔”
“تمہارا کانٹیکٹ ہے اس کے ساتھ؟” سکندر نے بہت مدھم آواز میں کہا۔
“نہیں۔”
“آٹھ سال سے اس سے تمہارا رابطہ نہیں ہوا۔ اگر ساری عمر نہ ہوا تب تم کیا کرو گے؟”
وہ خاموش رہا اس کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔
سکندر عثمان کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتے رہے۔
“تم نے مجھ سے کبھی یہ نہیں کہا کہ تم اس لڑکی کے ساتھ ایموشنلی انوالوڈ ہو۔ تم نے تو مجھے یہی بتایا تھا کہ تم نے صرف وقتی طور پر اس کی مدد کی تھی وہ کسی اور لڑکے سے شادی کرنا چاہتی تھی ۔ وغیرہ وغیرہ۔”
سالار اس بار بھی خاموش رہا۔
سکندر عثمان چپ چاپ اسے دیکھتے رہے۔ وہ اپنے اس تیسرے بیٹے کو کبھی نہیں جان سکے تھے۔ اس کے دل میں کیا تھا وہ اس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔ جس لڑکی کے لئے وہ آٹھ سال ضائع کر چکا تھا اور باقی کی زندگی ضائع کرنے کے لئے تیار تھا، اس کے ساتھ اس کے جذباتی تعلق کی شدت کیسی ہو سکتی تھی یہ اب شاید اسے لفظوں میں بیان کرنے کی ضروت نہیں تھی۔ کمرے میں خاموشی کا ایک لمبا وقفہ آیا پھر سکندر عثمان اٹھ کر اپنے ڈریسنگ روم میں چلے گئے۔ ان کی واپسی چند منٹوں کے بعد ہوئی۔ صوفہ پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے سالار کی طرف ایک لفافہ بڑھا دیا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے وہ لفافہ پکڑ لیا۔
“امامہ نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔”
وہ سانس نہیں لے سکا۔ سکندر عثمان ایک بار پھر صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔
“یہ پانچ چھ سال پہلے کی بات ہے وہ تم سے بات کرنا چاہتی تھی۔ فون ناصرہ نے اٹھایا تھا اور اس نے امامہ کی آواز پہچان لی تھی۔ تب تم پاکستان میں تھے۔ ناصرہ نے تمہارےبجائے مجھ سے اس کی بات کرائی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے اس کی بات کراؤں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم مر چکے ہو۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ تم سے رابطہ کرے اور جس مصیبت سے ہم چھٹکارا پا چکے ہیں اس میں دوبارہ پڑیں۔ مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات پر یقین کر لے گی کیونکہ تم کئی بار خود کشی کی کوشش کر چکے تھے۔ وہ وسیم کی بہن تھی تمہارے بارے میں یہ سب جانتی ہو گی۔ کم از کم ایک ایسی کوشش کی تو وہ خود گواہ تھی۔ میں اسے نکاح نامے میں موجود طلاق کے اختیار کے بارے میں نہیں بتا سکا نہ ہی اس طلاق نامے کے بارے میں جو میں نے تمہاری طرف سے تیار کرایا تھا۔ تمہیں جب میں نے امریکہ بھجوایا تھا تو تم سے ایک سادہ کاغذ پر سائن لیے تھے، میں چاہتا تھا کہ مجھے ضرورت پڑے تو میں خود ہی طلاق نامہ تیار کرا لوں۔ یہ قانونی یا جائز تھا کہ نہیں ا س کا پتا نہیں مگر میں نے اسے تیار کرا لیا تھا اور میں امامہ کو اس کے بارے میں بتانا چاہتا تھا اور اسے تمام پیپرز بھی دینا چاہتا تھا مگر اس نے فون بند کر دیا۔ میں نے نمبر ٹریس آؤٹ کرایا وہ کسی پی سی او کا تھا۔ اس کے کچھ دنوں بعد بیس ہزار کے کچھ ٹریولرز چیک مجھے اس نے ڈاک کے ذریعے بھجوائے اس کے ساتھ ایک خط بھی تھا۔ شاید تم نے اسے کچھ رقم دی تھی۔ اس نے وہ واپس کی تھی۔ میں نے تمہیں اس لئے نہیں بتایا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تم دوبارہ اس معاملے میں انوالو ہو۔ میں امامہ کی فیملی سے خوفزدہ تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ وہ تب بھی تمہاری تاک میں ہوں گے اور میں چاہتا تھا تم اپنا کیرئیر بناتے رہو۔”
وہ لفافہ ہاتھ میں پکڑے رنگ بدلتے ہوئے چہرے کے ساتھ سکندر عثمان کو دیکھتا رہا، کسی نے بہت آہستگی کے ساتھ اس کے وجود سے جان نکال لی تھی۔ اس نے لفافے کو ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ طیبہ اور سکندر اس کے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو دیکھ سکیں۔۔۔۔۔ وہ دیکھ چکے تھے مگر اس کے حواس چند لمحوں کے لئے بالکل کام کرنا چھوڑ گئے تھے۔ اپنے سامنے پڑی ٹیبل پر رکھے اس لفافے پر ہاتھ رکھے وہ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر اسے ٹیبل پر رکھے رکھے اس نے اس کے اندر موجود کاغذ کو نکال لیا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم
سالار کو لگا وہ واقعی مر گیا ہے۔ سفید چہرے کے ساتھ اس نے کاغذ کے اس ٹکڑے کو دوبارہ لفافے میں ڈال دیا۔ کچھ بھی کہے بغیر اس نے لفافہ تھاما اور اٹھ کھڑا ہوا۔ سکندر اور طیبہ دم بخود اسے دیکھ رہے تھے جب وہ سکندر کے پاس سے گزرنے لگا تو وہ اٹھ کھڑے ہو گئے۔
“سالار۔۔۔۔۔!”
وہ رک گیا۔ سکندر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
“جو کچھ بھی ہوا۔۔۔۔۔ نادانستگی میں ہوا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تم۔۔۔۔۔ اگر تم نے کبھی مجھے امامہ کے بارے میں اپنی فیلنگز بتائی ہوتیں تو میں کبھی یہ سب نہ کرتا۔ میں اس سارے معاملے کو کسی اور طرح ہینڈل کرتا یا پھر اس کے ساتھ تمہارا رابطہ کرا دیتا۔ میرے بارے میں اپنے دل میں کوئی شکایت یا گلہ مت رکھنا۔”
سالار نے سر نہیں اٹھایا۔ ان سے نظر نہیں ملائی مگر سر کو ہلکی سی جنبش دی۔ اسے ان سے کوئی شکوہ نہیں تھا۔ سکندر نے اس کے کندھے سے ہاتھ ہٹا لیا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا، سکندر چاہتے تھے وہ وہاں سے چلا جائے۔ انہوں نے اس کے ہونٹوں کو کسی بچے کی طرح کپکپاتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ بار بار انہیں بھینچ کر خود پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ چند منٹ اور وہاں رہتا تو شاید پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا۔ سکندر اپنے پچھتاوے میں مزید اضافہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔
طیبہ نے اس ساری گفتگو میں کوئی مداخلت نہیں کی، مگر سالار کے باہر جانے کے بعد انہوں نے سکندر کی دل جوئی کرنے کی کوشش کی۔
“پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے جو کچھ کیا اس کی بہتری کے لئے کیا۔ وہ سمجھ جائے گا۔”
وہ سکندر کے چہرے سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا سکتی تھیں۔ سکندر ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کمرے میں چکر لگا رہے تھے۔
“یہ میری زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ مجھے سالار سے پوچھے بغیر یا اس کو بتائے بغیر یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہئیے تھا۔ مجھے امامہ سے اس طرح کا جھوٹ بھی نہیں بولنا چاہئیے تھا۔۔۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔”
وہ بات ا دھوری چھوڑ کر تاسف امیز انداز میں ایک ہاتھ کو مٹھی کی صورت میں بھینچے ہوئے کھڑکی میں جا کر کھڑے ہو گئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گاڑی بہت محتاط انداز میں سڑک پر پھسل رہی تھی۔ سالار کئی سال بعد پہلی بار اس سڑک پر رات کے اس پہر گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ رات اس کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی طرح چل رہی تھی۔ اسے لگا آٹھ سال اڑ کر غائب ہو گئے تھے۔ سب کچھ وہی تھا۔ وہیں تھا۔
کوئی بڑی آہستگی سے اس کے برابر میں آ بیٹھا۔ اس نے اپنے آپ کو فریب کی گرفت میں آنے دیا۔ گردن موڑ کر برابر والی سیٹ کو نہیں دیکھا۔ الوژن کو حقیقت بننے دیا۔ جانتے بوجھتے کھلی آنکھوں کے ساتھ۔ کوئی اب سسکیوں کے ساتھ رو رہا تھا۔
ڈئیر انکل سکندر!
مجھے آپ کے بیٹے کی موت کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا۔ میری وجہ سے آپ لوگوں کو چند سال بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے سالار کو کچھ رقم ادا کرنی تھی۔ وہ میں آپ کو بھجوا رہی ہوں۔
خدا حافظ
امامہ ہاشم