قصہ ایک پہاڑی لڑکی کا
مہرو ایک پہاڑی قبیلے میں پیدا ہوئی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ جب وہ سولہ سال کی ہوئی تو اس کی شادی ہو گئی۔ سسرال والوں کا سلوک اس سے اچھا نہ تھا۔ ایک دیور تو نہایت سخت دل اور شکی نوجوان تھا، وہ اوباش اور نکما بھی تھا۔ اُس کا نام سنگین خان تھا۔ وہ کام کم کرتا اور رعب زیادہ جماتا تھا۔ ان ہی عادات کے باعث سب نالاں تھے مگر اس کی دادا گیری کی وجہ سے چپ رہتے تھے۔ مہر و تو اپنے اس دیور سے کبھی کبھی رہتی کیونکہ اس کے کندھے پر ہر وقت بندوق ہوتی بات کرتے وہ خون خرابے ضرور کرتا تھا ہم تینوں بیٹوں میں سے یہی ماں کا سب سے لاڈلا تھا۔ مہرو کی ساس بڑی سخت گیر عورت تھی اور بہو کے معاملے میں اس کی سنگدلی انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ پیہ ان دنوں کا ذکر ہے ، جب بر صغیر ابھی تقسیم نہ ہوا تھا۔ تب اکثر گھروں میں آٹا پتھر کی چکی پر خواتین خود پیسا کرتی تھیں۔ مہرو کی تین نندیں تھیں لیکن ساس تمام گھر والوں کے لئے روزانہ کا آٹا چکی پر مہر و سے ہی پسواتی تھی۔ حالانکہ یہ لوگ کھاتے پیتے گھرانوں میں شمار ہوتے تھے پھر بھی، خادمہ رکھنے کی بجائے ساس ، مہر و سے ہی دھان کی بوریاں کٹواتی اور پانی کے مشکیزے بھرواتی تھی۔ پہاڑوں میں بہتے چشموں سے بھاری مشکیزے بھر لانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ کام محب خان کا ملازم بھی سر انجام دے سکتا تھا مگر جہاندیدہ ساس، نازک بدن بہو کو آسائش پسند نہ بنے دینا چاہتی تھی۔ چشمہ پر پانی بھرنے کو مہرو کے ساتھ اس کی نندیں بھی جاتی تھیں، مگر مشکیزے صرف مہر وہی اٹھاتی تھی۔ وہ سارے گھر کا کام خاموشی سے کرتی، وہ نہایت اطاعت گزار عورت تھی۔ اس نے کبھی سسرال والوں کو شکایت کا موقع نہ دیا۔ بیاہ کے بعد وہ کبھی میکے بھی لوٹ کر نہ گئی۔ ایک روز ساس نے مہرو سے کہا۔ بہو یہ امانت کے روپے ہیں، ان کو سنبھال کر رکھو۔ میرے شوہر کے پاس کوئی شخص امانت رکھوا کر گیا ہے۔ جب وہ مانگیں گے، میں تم سے لے لوں گی۔ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی ، اگر سنگین دیکھ لے گا تو مجھ کو تنگ کرے گا۔ مہرو نے رقم ٹرنک میں چھپادی اور اوپر سے تالا بھی لگادیا۔ جانے کیسے سنگین نے چھپ کر یہ گفتگو سن لی۔ چند دن گزرے تو ساس نے امانت طلب کی۔ مہرو نے ٹرنک کھولا تور قم غائب تھی۔ اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اب ساس کو کیا جواب دے ؟ وہ سمجھ گئی کہ یہ سنگین خان کی کارستانی ہے مگر وہ لب نہ کھول سکتی تھی۔ ساس یہ بات کہاں مانے والی تھی۔ الٹا اس پر الزام دھر دیتی۔ اس زمانے میں سو پچاس کی رقم بھی پانچ ہزار کے برابر ہو گی، جبکہ ایک مکان بھی اتنی رقم میں مل جاتا تھا۔ مہرو کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ کیا کرے۔ گم صم ٹرنک کے پاس بیٹھی تھی، تبھی ساس اندر آکر بولی۔ مہرو! وہ رقم اپنے پاس ہی رہنے دے۔ فی الحال تمہارے سر کو ضرورت نہیں ہے۔ جس شخص کی امانت ہے اسے جمعے کو لوٹنا ہے۔ اس وقت تو مصیبت ٹل گئی مگرر تم تو مبر و کودینی تھی۔ تمام رات یہ بیچاری سوچتی رہتی ، شب کو نہ سو سکی۔ وہ کسی سے اپنی بپتانہ کہہ سکتی تھی۔ شوہر بستی سے باہر گیا ہوا تھا، میکہ دور تھا۔ شکنجہ خان یہاں ہو تاتب بھی کیا ہوتا۔ اس قبیلے میں ان دنوں عورت کی حیثیت مرد کی زر خرید لونڈی کے برابر تھی ، شکنجہ خان پوری طرح ماں کے شکنجے میں تھا۔ وہ بیوی کی بات کب سنتا تھا۔ جمعے ہیں تین دن باقی تھے۔ یہ سوچ سوچ کر مہرو کا جی الٹا جارہا تھا۔ صبح سویرے چار بجے بیدار ہونا اس کا معمول تھا۔ روزانہ کے لئے آنا چکی پر پینا ہوتا تھا۔ آج بھی چکی پیستے ہوئے سوچ کی لپٹوں پر سلکتی رہی۔ دروازے پر دستک ہوئی، گھر کا ملازم بخت آیا تھا، جس کا سارا خاندان اس کے سسر محب خان کا نمک خوار تھا اور یہ سلسلہ پشتوں سے چلا آر ہا تھا۔ ایسے چاکروں کا سلسلہ غلامی اعتبار کی زنجیروں سے بندھاہوتا تھا۔ بہو بیٹیاں، گھر کی چار دیواری کے اندر سے ان کو کام بتا سکتی تھیں۔ ملازم گھر کے اندر قدم نہیں رکھ سکتے تھے۔ بخت کی دستک سن کر مہرونے چکی کا پھیر اٹھہرایا اور مشکیزے کو کم سے اتار کر زمین پر رکھ دیا۔ وہ کھلی کی بھیگی پرات اٹھا کر ڈیوڑھی کے پاس لے گئی اور بولی۔ بخت ! جانوروں کو چارہ ڈال دے، پر ذرا ٹھہر کر میری بات سن لے۔ جی بہو بی بی ! کہئے کیا بات ہے ؟ مہر و بولی۔ اماں نے میرے پاس ڈیڑھ سور و پیر رکھوائے تھے۔ وہ کسی کی امانت تھے۔ میرے ٹرنک سے چوری ہو گئے ہیں۔ میر از یور کسی سنار کے پاس گروی رکھ کر رقم لاد دور نہ بڑی خرابی مجھ پر ٹوٹے گی۔ ابھی وہ اتنی بات ہی کر پائی تھی کہ کھٹکا ہوا۔ وہ جلدی سے ڈیوڑھی سے بہتی ہوئی بولی۔ اچھا بخت، اب تم جائو۔ میں کل صبح تڑکے سے پہلے زیور تمہارے حجرے میں پہنچادوں گی۔ ملازم چلا گیا۔ وہ تمام دن سوچتار ہا کہ مہر و بی بی مصیبت میں ہے۔ اب اس کا انجام نجانے کیا ہو گا۔ رات ہی ہونے پوٹلی بنا کر زیورات گندم کے ڈھیر میں چھپا دیئے تھے۔ یہ زیورات اس کی ماں نے اسے دیئے تھے۔ وہ ان کی بلا شرکت غیرے مالک تھی۔ رات کے چوتھے پہر وہ اٹھ گئی اس نے زیور کی پوٹلی گندم کی ڈھیری سے نکالی اور در کھول بخت کی کوٹھری کو چل دی۔ دروازے سے اس کے حجرے کا فاصلہ چالیس قدم ہو گا۔ گھر کی دیوار کے ساتھ یہ چھوٹاسا کمرہ، باہر کی جانب بنا ہوا تھا۔ جس کی چھت گھر کی چار دیواری سے نیچی تھی۔ ساتھ ہی اس سے متصل جانوروں کا باڑہ تھا۔ دیا بجھا ہوا تھا لیکن صبح کا مکھڑا رات کے گھونگٹ سے جھلکنے والا تھا۔ تبھی رات کا رنگ پھیکا پڑتا جارہا تھا۔ بخت جاگ رہا تھا۔ مہرونے ہلکے سے در بجایا اور بخت نے اس سے زیورات کی پوٹلی لے لی۔ جب میرا بھائی آئے گا، روپے اس سے لے کر زیور چھڑالوں گی، مگر دھیان رکھنا اس بات کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ وہ جتنی تیزی سے آئی تھی۔ اتنی ہی تیزی سے پلٹ گئی ، لیکن ابھی گھر کی دہلیز پر قدم رکھنے نہ پائی تھی کہ سنگین خان نے اس کو للکارا۔ رک جائو مہرو۔ تم بخت کے بجرے سے آرہی ہونا ! سنگین کی آواز سنی تو اس کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ قدم زمین نے جکڑ لئے اور وہ جیسے پتھر کی ہو گئی۔ تبھی وہ گھوڑی سے اتر آیا اور بولا۔ بے غیرت، ہمارا بھائی گھر میں نہیں ہے تو کیا ہوا، ہم تجھے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ سنتے ہی مہرو نے ہمت جمع کی اور تیزی سے گھر کے اندر چلی گئی مگر سنگین خان جو اس وقت نجانے کدھر سے آرہا تھا۔ بندوق تان کر خادم کے سر پر جا پہنچا۔ بخت بیچارا ، جھولی میں مہرو کے زیور رکھے نجانے کن سوچوں میں گم تھا۔ وہ یہ زیور اپنے دوپٹے میں باندھ کر لائی تھی اور دوپٹہ اب نوکر کی گود میں پھیلا ہوا تھا۔ سنگین نے اس کا گریبان پکڑ کر اسے کھڑا کیا تو زیور اور دوپٹہ زمین پر گر گئے۔ دوپٹہ اٹھا کر سنگین نے زیور دوبارہ اس میں ڈال لئے اور بخت کو دھکا دے کر بولا۔ نمک حرام، تیری یہ مجال ! پھر اس پر لاتوں اور مکوں کی بارش کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ابھی تجھے بندوق سے ہلاک کر ڈالتا لیکن اس کا فیصلہ بھائی کے ہاتھوں ہونا چاہئے۔ اس وقت تک اس کو ٹھری میں تو موت کا انتظار کر ، جب تک بھائی لوٹ کر گھر نہیں آجاتا۔ یہ کہہ کر اس نے ہجرے کے دروازے پر لگی لوہے کی زنجیر والی کنڈی باہر سے چڑھا کر تالا لگا دیا۔ ادھر مہر و جان چکی تھی کہ اب اس کی موت یقینی ہے۔ نوکر کی کٹیا میں قدم رکھ کر اس نے جو فاش غلطی کی تھی، اس کی سزا اسے ملی تھی۔ دیور نے اس پر بدکاری کا الزام لگاہی دینا تھا کیونکہ اس گھرانے کی عورتیں منہ اندھیرے یونہی گھر سے باہر قدم نہیں نکالتی تھیں۔ یہ بات بہو کو خوب اچھی طرح معلوم تھی۔ سنگین خان کے پاس بھا بھی کو بلیک میل کرنے کا پورا جواز تو موجود تھاہی، شکنجہ خان یقین کرے نہ کرے یہ داستان اس کے گوش گزار ہونی ہی تھی مگر وہ بھی کیوں یقین نہ کرتا۔ بخت کوئی بوڑھا کھوسٹ شخص نہ تھا۔ بھر پور ، خوش شکل تھا۔ الزام لگنے پر مہرو کے لئے اس الزام کی صفائی ممکن نہ تھی۔ اب جان بچانے کا صرف ایک ہی رستہ تھا کہ وہ کسی طور علاقے کے سردار کے گھر جاکر پناہ لے لے جو ان کے قبیلے کا سر خیل تھا مگر وہ بڑے خان کے قلعے کا رستہ بھی نہ جانتی تھی۔ وہ اپنے گھر سے فرار ہو کر رہبر خان کی پناہ میں پہنچ جاتی تو اس کی جان بچ سکتی تھی۔ مہرو کی بات تو کسی نے بھی نہ سنی مگر سنگین کے بیان کے بعد وہ تمام گھر والوں کی نظروں میں حقیر ہو گئی۔ ساس نندوں نے جھڑکا اور سسر نے اسے دیکھ کر منہ پھیر لیا جبکہ دیور اس کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ اب انتظار تھاتو شکنجہ خان کا، جو ابھی تک گھر نہیں آیا تھا۔ جان کے پیاری نہیں ہوتی ، مہرو تو پھر سولہ سال کی الہڑ لڑکی تھی۔ وہ یوں ہے موت مرنا نہیں چاہتی تھی۔ اگر شوہر کی خائن قرار پاجاتی تو روج کے مطابق میکے والے بھی اس کو پناہ نہیں دے سکتے تھے اور سسرال میں تو بس چند سانسوں کی مہلت تھی۔ آدھی رات کو جب سب گھر والے سورہے تھے۔ اس کی سب سے چھوٹی نند کو جانے کیسے اس پر رحم آگیا کیونکہ ماں تذکرہ کر چکی تھی کہ مہرو کے ٹرنک سے رقم غائب ہو گئی ہے ظاہر ہے کہ یہ رقم غائب کرنے والا بھی سنگین ہی ہو سکتا تھا جو بھا بھی کی بد کرداری کا گواہ بنے جارہا تھا۔
اس لڑکی نے رات کو ماں کو پلو سے چابی کھولی اور کمرے کا تالا کھول کر مہرو سے کہا۔ اگر بھاگنا ہے تو بھاگ جائو۔ صبح تک لالہ آگیا تو پھر تم کو مرنا ہی ہو گا۔ مہرو بولی۔ اگر ان لوگوں نے قسم اٹھوائی کہ میرے کمرے کا تالا کس نے کھولا، تو تم کیا کرو گی؟ تیری جان بچانے کو میں جھوٹی قسم اٹھانے کا گناہ اپنے سر لے لوں گی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ تو بے گناہ ہے۔ یہ سب سنگین کی چال ہے، وہ اپنی چوری کھلنے سے ڈرتا ہے۔ مہرو نے نند کے ہاتھ چوم لئے۔ تب وہ بولی۔ تم دروازے سے نہیں نکلنا، تم طاقی سے کسی طور نکلو اور میں اپنے قدموں کے نشان مٹاتی ہوں۔ یہ طاقی “ ایک چھوٹی کھڑکی تھی، جس کو باہر سے زنجیر ڈال دی گئی تھی۔ نند نے زنجیر کو کھول دیا اور مہرو کی باہر نکلنے میں مدد کی۔ دروازے کو نند نے دوبارہ تالا لگادیا۔ کچے فرش سے اپنے قدموں کے نشان بھی اس نے مٹادیئے اور آکر اپنے بستر پر دراز ہوگئی۔ مہرو کے دیور شکنجہ کو لینے بستی چلے گئے تھے اور تیسرا گہری نیند سو رہا تھا۔ سسر نے کچھ کھٹکاسنا مگر خاموش پڑارہا۔ مہرو نے گھر سے باہر آتے ہی، کھونٹے سے بندھا نچر کھولا اور اس پر سوار ہو کر کسی انجانے رستے پر چل پڑی۔ وہ رستہ جو اسے گھر سے دور بہت دور لے جانے والا تھا۔ کافی آگے جا کر اس نے خچر کو واپس گھر جانے والے رستے پر ہانک دیا اور خود پیدل چلنے لگی۔ تمام رات وہ کہیں رکے بغیر چلتی رہی۔ آڑے ترچھے راستوں کو پھلانگتی ، ایک رات اور ایک دن کے سفر کے بعد تھکن اس پر اتنی غالب آئی کہ وہ گر گئی۔ سامنے کسی بستی کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔ رات سر پر تھی ، تعاقب کا خوف اور موت کا یقین تھا پھر بھی سانس کی ڈوری کو مضبوطی سے تھامے وہ اپنے خدا سے مدد مانگ رہی تھی۔ قریب ہی ایک باریش بزرگ گزرا، اس نے لڑکی کو سڑک کنارے گرا ہوا پایا تو گری ہوئی مجبور کو سہارا دے کر اٹھایا اور احوال دریافت کیا۔ مہرو نے اپنی مصیبت اس عمر رسیدہ شخص کو بتادی۔ وہ بولا۔ آتو میرے ساتھ ، یہاں کوئی رہبر خان نامی سردار نہیں رہتا تم کسی اور طرف نکل آئی ا۔ وہ شخص اسے اپنی بستی کے سب سے معزز آدمی سید روشن شاہ کے پاس لے گیا۔ یہ شخص نیک ، رحم دل اور سچا انسان تھا۔ جب مہرو نے رورو کر اس کو اپنی داستان سنائی ، تو اس نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ تم اب میری پناہ میں ہو اور آج سے میری مہمان ہو ۔ جب تک میرے جسم میں سانس ہے ، تمہارا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔ جھوٹ کیا ہے اور سچ کیا ہے اس کا بعد میں پتا چل جائے گا۔ تم بے خوف ہو کر میرے گھر میں رہو اور ہر فکر سے آزاد ہو جب مہرو کے فرار کا علم اس کے ساس سسر اور دیور کو ہوا تو انہوں نے منادی کرادی کہ مہر و پر بدکاری کا الزام تھا سو سے قبل کہ اس کا شوہر آتا اور وہ خائن ثابت ہوتی، وہ پہلے ہی بھاگ نکلی ہے ، سواب اس کا قتل قبیلے کے ہر اس فرد پر واجب ہو گیا ہے۔ وہ جس کو بھی کہیں مل جائے، اسے ہلاک کر ڈالے۔ یہ اعلان سنتے ہی بستی کے چند جو شیلے نوجوان غیرت کی آگ میں جل اُٹھے، تبھی شکنجہ خان بھی بھائیوں کے ہمراہ بستی آپہنچا۔ یہ نوجوان اس کے ہمراہ اسلحے سے لیس ہو کر مہرو کی تلاش میں روانہ ہو گئے۔ کچھ دنوں کی بھاگ دوڑ کے بعد پوچھتے پاچھتے بالآخر وہ سید صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ انہوں نے سید صاحب سے کہا کہ مہر و ہماری مجرمہ ہے ، لہذا اس کو ہمارے حوالے کر دو کہ ہم اس کو اپنے قبیلے کی ریت رواج کے مطابق سزا دے سکیں۔ سید صاحب نے ان کو بہت سمجھایا اور احکام خداوندی بھی سنائے مگر وہ کسی طرح قائل نہ ہوئے آخر اعلان جنگ ہو گیا اور دونوں طرف کے مرد کام آگئے۔ سید صاحب کے دو ملازم اور تین جوان بیٹے اس معرکے میں مارے گئے مگر اس شیر دل آدمی نے مہرو سے کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور اس کو قاتلوں کے حوالے نہ کیا۔ بالآخر حبر خان کو خبر ہو گئی۔ سردار نے مداخلت کی اور مشتعل افراد ہچروں پر اپنی لاشیں اٹھا کر چلے گئے۔
مہرو نے گھر سے باہر آتے ہی کھونٹے سے بندھا نچھر کھولا اور اس پر سوار ہو کر کسی انجانے رستے پر چل پڑی۔ ودرستہ جو
جب مہرو کو پتا چلا کہ اس کی حفاظت کا وعدہ نبھانے کی خاطر سید صاحب کے تین جوان لڑکے مارے گئے ہیں تو وہ غم سے نڈھال ہو گئی۔ اس نے سوچا کہ اس کو ابھی اور اسی وقت سید صاحب کے گھر سے چلے جانا چاہئے ، ورنہ وہ لوگ اس کو حاصل کرنے دوبارہ آئیں گے۔ وہ سید صاحب سے اس قدر شر مندہ تھی کہ ان کو اپنا منہ دکھانے کا حوصلہ بھی نہ تھا کہ اس کی وجہ سے ان پر اتنی بڑی قیامت ٹوٹی تھی۔ وہ اسی وقت گھر کے پچھلے دروازے سے نکل کھڑی ہوئی۔ گھر میں کہرام مچا ہوا تھا، کسی کو اس کے چلے جانے کا ہوش نہ تھا۔ عصر کے بعد کا وقت تھا۔ شام سر پر تھی، جب وہ سید روشن صاحب کے گھر سے نکلی تھی۔ سمجھ نہ پارہی تھی کدھر کو رخ کرے۔ دنیا اس پر تنگ ہو چکی تھی اور زندہ رہنے کے تمام راستے مسدود ہو گئے تھے۔ موت کی پر چھائی کے خوف سے تو مر جانا ہی بہتر تھا۔ وہ نہر کے قریب پہنچی اور اس میں کود کر جان دینے کا فیصلہ کر لیا، تبھی اس کی نظر ایک شخص پر پڑی جو نہر کے کنارے سجدہ ریز تھا۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا تو مہرو کو دیکھا کہ وہ ندی میں کو د جانے کو پر تول رہی تھی تبھی وہ جلدی سے اس کے پاس پہنچا اور بولا۔ بیٹی خود کشی حرام ہے، یہ فعل اللہ کو پسند نہیں ہے۔ مہرو رونے لگی، بولی۔ سید صاحب آپ! میں آپ سے شرمندہ ہوں کہ آپ کے جوان بیٹوں کی موت کا سبب بنی، تبھی یہاں آئی ہوں۔ مجھے مر جانے دیجئے۔ سید صاحب نے جواب دیا۔ مہرو نہیں ، موت تو ہر کسی کو آنی ہے۔ مگر شہادت کسی کسی کو ملتی ہے۔ میرے بیٹوں نے کسی بے گناہ کی زندگی بچانے کی خاطر موت کو گلے لگایا ہے۔ یہ بھی ایک جہاد ہے ، انہوں نے شہادت پائی ہے۔ شکر ہے اس رب کا، قول پر پر جان دینا بچے مسلمان کا شیوہ ہوتا ہے۔ وہ سمجھا بجھا کر مہرو کو گھر لے آئے اور اس مظلوم لڑکی کی شادی اپنے علاقے کے نوجوان زمیندار سے کروادی۔ مہر النساء یوں ہماری دادی بن
گئیں۔
ختم شدہ