”تم نے عبایا کب سے لینا شروع کر دیا؟” وہی حیرت، سوال، تفتیش، تشویش۔ ایک لمبا اور جامع سا جواب دے کر بھی اسے لگا کہ زارا غیر مطمئن ہے اور غیر آرامدہ بھی۔ شاپنگ کرتے، جوتے دیکھتے، کپڑے نکلواتے اور پھر آخر میں راحت بیکرز کے سامنے پارکنگ لاٹ میں بیٹھے ”اسکوپ” کا سلش پیتے ہوئے زارا بار بار ایک غیر آرام دہ نگاہ اس پہ ڈالتی جو پورے اعتماد سے عبایا اور نقاب مین بیٹھی سلش پی رہی تھی۔
”یار! چہرے سے تو اتار دو۔”
؛؛زارا! میرا نہ دم گھٹ رہا ہے، نہ ہی مرنے لگی ہوں۔ میں بالکل کمفرٹیبل ہوں۔ اگر تم نہیں ہو تو بتاوۤ۔” وہ ایک دم بہت سنجیدگی سے کہنے لگی۔
وہ حیا سلیمان تھی۔ وہ عائشے گل کی طرح ہر بات نرمی سے سہہ جانے والی نہیں تھی۔ جب وہ اپنے زمانہ جاہلیت کے لباس پہ کسی کو بولنے کا موقع نہیں دیتی تھی تو اب نقاب پہ کیوں کسی کو بولنے دے؟ صرف حجابی لڑکی صبر کیوں کرے؟ اس کی رائے میں بہت زیادہ چپ رہنے کو بھی کمزوری سمجھا جاتا تھا۔