کافی دیر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی بیٹھی تھک گئی تو ذرا سا پہلو بدلا، اور ایسا کرتے ہوئے پاؤں کی سمت بدلی تو جوتے کی آواز آئی۔ جہان نے چونک کر دیکھا۔ ”تم پھر یہی جوتے پہن آئی ہو؟“ اس نے اب نوٹ کیا تھا یا پہلے سے جانتا تھا، وہ فیصلہ نہ کر سکی۔ ”ہاں، کیونکہ مجھے پتہ ہے تمہیں یہ کتنے پسند ہیں۔“ ”بالکل۔ ذرا ایک منٹ اتارنا۔“ ”کیوں؟“ ”بس ایک منٹ نا!“ حیا نے ذرا تذبذب سے جھک کر جوتوں کے اسٹریپس کھولے، اور پاؤں ان سے نکالے۔ جہان نے ایک جوتا اٹھا کر الٹ پلٹ کیا۔ ”اچھا ہے، مگر اتنا نہیں کہ ساتھ نبھا سکے۔“ ساتھ ہی اس نے جوتے کے دونوں کناروں کو پکڑ کر جھٹکا دیا۔ چٹخ کی آواز کے ساتھ جوتا درمیان سے ٹوٹا۔ ”جہان، نہیں!“ وہ بمشکل اپنی حواس باختہ چیخ روک پائی۔ جہان نے پرواہ کیے بغیر دوسرے کو بھی فوراً سے اٹھا کر اسی طرح توڑا۔ جوتے کی لکڑی ٹوٹ چکی تھی مگر چمڑے کے باعث دونوں ٹوٹے حصے ایک دوسرے سے نتھی تھے۔ جہان نے ایک ایک کرکے دونوں کو دور اچھالا۔ وہ اندھیرے میں گم ہو گئے۔ حیا شاکڈ اسے دیکھ رہی تھی۔ ”کیوں کیا تم نے ایسا؟“ اس نے جواباً بے نیازی سے شانے اچکائے۔ ”دل چاہ رہا تھا۔“ ”اب میں گھر کیسے جاؤں گی؟“ کیا تم مجھے اپنے جوتے دو گے؟“ ”میں بلکل بھی اپنے جوتے نہیں دوں گا۔“ ”اور جو یہ یہاں اتنے پتھر، اتنے کانٹے اور جھاڑیاں ہیں، میں ان پہ کیسے ننگے پاؤں چل کر جاؤں گی؟“ وہ خفگی سے بولی تھی۔ ”یہ جو تم نے اپنے پرس میں نیلے پلاسٹک بیگ میں گلابی رنگ کے کینوس شوز رکھے ہیں نا، تم یہ پہن کر واپس چلی جانا۔“ اور حیا ایک دم جھینپ کر ہنس دی۔ وہ ایک دفعہ پھر پکڑی گئی تھی۔ سوچا تھا اس کو خوب چڑا کر واپسی پہ کینوس شوز پہن لے گی، مگر وہ جہان ہی کیا جو بلا اجازت کسی کا بیگ نہ چیک کرے۔ ”میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اگر میرا جوتا ٹوٹا تو تم مجھے جوتا دیتے ہو یا نہیں؟“ ”اور تمہیں یقین تھا کہ میں نہیں دوں گا، اسی لیے تم دوسرا جوڑا اٹھا لائی۔“ ”ہاں، تمہارا کیا بھروسہ۔ اسی لیے پلان بی میں نے تیار رکھا تھا۔ مگر یہ طے ہے کہ میں تمہیں نہیں آزما سکتی، اور تم بھلے مجھے کتنا ہی کیوں نہ آزماؤ۔“ وہ محظوظ انداز میں بولی تھی۔ ”اور تم نے میرا بیگ چیک کیا، مطلب تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے۔“ ”اونہوں۔ بات بھروسے کی نہیں، پروفیشنلزم کی ہے۔ اصول، اصول ہوتے ہیں۔ اپنے escort کو بغیر چیک میں یہاں تک نہیں لا سکتا۔“