عمر جہانگیر اگر دنیا میں محبّت نام کا کوئی جراثیم موجود ہے تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس سے میرا دل اور دماغ کبھی متاثر نہیں ہوا۔
علیزے کم سے کم تم وہ ہستی ہو جسے میں کبھی تکلیف نہیں دے سکتا۔
میں تم سے ناراض نہیں ہو سکتا علیزہ “مگر آپ تھے” اس نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوۓ کہا نہیں! میں تم سے ناراض نہیں تھا۔۔۔ ناراض ہونے کے لیے شکایت کا ہونا ضروری ہوتا ہےاور مجھے تم سےکبھی کوئی شکایت نہیں ہو سکتی” اس نے بے یقینی سے سر اٹھا کر عمر جہانگیر کو دیکھا دنیا میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جس کی کوئی بات آپ کو بری نہیں لگتی جس پر کبھی آپ کو غصہ نہیں آتا۔جس سے کبھی آپ ناراض نہیں ہوتے ناراض ہونا چاہیں تو بھی نہیں ہو سکتے میرے لیے وہ کوئی نہ کوئی تم ہو
اگر پوری دنیا بھی تمہارے حلاف ہو جاۓ تو تم یہ یاد رکھنا کہ عمر جہانگیر ہمیشہ تمہارے ساتھ ساتھ کھڑا رہے گا
میرا کمرہ تمہیں بہت مس کرتا ہے۔اسے ایک پری کی عادت ہو گئی ہے میرے جیسا جن اس کو پسند نہیں آ رہا۔
عمر : اس لیے بات کر رہا ہیں کیونکہ میرا دل چاہ رہا ہے آپ سے باتیں کرنے کو۔ علیزے : میں اس لیے بات نہیں کر رہی کیونکہ میرا دل نہیں چاہ رہا آپ سے باتیں کرنے کو۔ عمر اس کے جواب پر بے اختیار ہنس پڑا۔
مجھے ہر تعلق۔۔۔ہر رشتے۔۔۔ہر بیک گراؤنڈ۔۔۔ہر فور گراونڈ سے نکال کے دیکھو۔۔۔مجھ کو بھول کر جنید کو جج کرو۔۔۔ پھر بھی تمہیں یہی لگے کہ وہ تمہارے لیے ٹھیک نہیں ہے تو یہ رشتہ ختم کر دو۔۔۔مگر یہ بات ذہن میں رکھو کہ جنید نہیں ہو گا تو کوئی دوسرا ہوگا۔۔۔کوئی دوسرا نہیں تو تیسرا ہو گا۔ کوئی بھی سہی مگر۔۔وہ۔۔میں نہیں ہو گا۔ نہ آج۔۔نہآئندہ کبھی۔۔۔۔۔!!
وہ اس کے چہرے پر نظر ڈالے بغیر بھی اس کی ساری کیفیات سے باخبر تھا۔
“مرد جس سے محبّت کرتا ہے…واقعی محبت کرتا ہے۔۔۔اس سے شادی کر لیتا ہے..” “90 فیصد کیسز میں مرد ایسا نہیں کرتا۔۔کیونکہ 90 فیصد کیسز میں مرد محبت نہیں کرتا۔۔ فلرٹ کرتا ہے”
میری محبت ایک امربیل ہے علیزے! اور جانتی ہو نہ امربیل جس پیڑ پر چڑھ جاۓ وہ کبھی سر سبز نہیں ہوتا۔تم مجھ سے دور رہنا مجھے ڈر ہے کہ۔۔۔ میری محبت کی امربیل تم سے نہ لپٹ جاۓ!
زندگی میں ہر شخص،ہر چیز، ہر فیلنگ کی Replacement موجود ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں ایسا نہیں ہوتا، بکواس کرتے ہیں”
مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ اس کے ہر انداز سے محبت جھلکتی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا نہیں مگر محبت تو محسوس کرتے ہیں نا۔۔۔۔!!
میں نے آج اس کو بہت رلایا ہے۔بہت زیادہ، میں نے آج اس کو بہت جھڑکا ہے، وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے، وہ جنید کے ساتھ منگنی توڑنا چاہتی ہے.. وہ کہتی ہے کہ وہ میرے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، میں نے آج اسے جھڑکا ہے۔اسے بہت رلایا ہے،لیکن میں اس کے پاس سے اٹھ کر آیا ہوں تو مجھے لگ رہا ہے،میں تو اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ مجھے تو اس سے بہت محبت ہے میں کیسے اسے جنید کے ساتھ دیکھ سکوں گا..مجھ سے بہت بڑھی غلطی ہو گئی ہے
زندگی میں انسان کو ایک عادت ضرور سیکھ لینی چاہئے جو چیز ہاتھ سے نکل جاۓ اسے بھول جانے کی عادت۔ یہ عادت بہت سی تکلیفوں سے بچا دیتی ہے۔
وقت کو پر نہیں لگتے بلکہ بعض دفعہ وقت بلکل رُک جاتا ہے۔اس کی تیز رفتاری ہی صبر آزما نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ اس کی سست رفتاری بھی تکلیف دو ہوتی ہے۔
“مجھے پتا ہے علیزے، میرے مرنے پہ رونے والی صرف تم ہو گی۔”
کاش معجزے ہونا بند نہ ہوتے۔ ایک معجزہ میری زندگی میں بھی ہوتا۔ میں آنکھیں بند کروں اور پھر کھولوں تو مجھے پتا چلے یہ سب خواب تھا۔
وہ اس کی محبت میں 18 سال کی عمر میں گرفتار ہوئی تھی۔ وہ واحد شخص تھا جس سے وہ ہر بات کر لیتی تھی۔
اس نے علیزے کو دیکھا۔ بے احتیار.. اس نے سانس لینے کی کوشش کی پھر اس نے اس کے ساتھ جنید کو دیکھا وہ سانس نہیں لے سکا!!
“خاموشی تم پر سوٹ نہیں کرتی عمر…..” “اچھا تو پھر کیا سوٹ کرتا ہے….؟” “تم ویسے ہی اچھے لگتے ہو جیسے پہلے تھے…ہنگامہ کرتے ہوۓ قہقے لگاتے ہوۓ… شور مچاتے ہوۓ….!”
اگر پوری دنیا بھی تمہارے حلاف ہو جاۓ تو تم یہ یاد رکھنا، عمر جہانگیرہمیشہ تمہاری طرف کھڑا رہے گا۔۔!
ہر انسان کی ریپلیسمنٹ ہو جاتی ہے، فورا نہیں تو کچھ دیر بعد مگر ہو ہی جاتی ہے۔ مجھ سے کچھ عرصہ پہلے کسی نے کہا تھا۔۔۔ سب کی ریپلیسمنٹ ہو سکتی مگر تمہاری نہیں اب دیکھتی ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ میں بھی ریپلیس ہو گئی اور اتنی جگہوں پر ہو گئی کہ اب تو یاد بھی نہیں ہے کہ میں جب اس جگہ تھی تو کیسی لگتی تھی۔
تم بہت اچھی ہو علیزے۔۔۔۔ لیکن مجھے تم سے محبت نہیں ہے۔۔۔
شاید ابھی میں میچور نہیں ہوئی۔۔۔ یا شاید میں کبھی میچور نہیں ہی سکتی۔۔۔ یا پھر عمر جہانگیر وہ حد ہے، جہاں آکر میری میچورٹی ختم ہو جاتی ہے۔ ۔۔ میرے حواس خمسہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ پھر میں وہی دیکھتی، سنتی اور کہتی ہوں جو عمر کی خواہش ہوتی ہے۔۔ کیا اس کیفیت کو محبت کہتے ہیں۔۔!!!
چیزیں ٹوٹنے کے لیے ہوتی ہیں اور بعض دفعہ چیزیں توڑنے میں مزہ آتا ہے۔ ہے نا علیزے! آؤ ایک پرفیوم اور توڑ دیں۔
عمر نے محبّت کی اور پھر اتنی کی کہ صرف اس کا سوچا۔۔۔ اس کا اچھا، صرف اچھا…! اور خود پیچھے ہٹ گیا…!
وہ سب چیزیں کبھی اس شخص کی زندگی کا حصہ تھیں جسے وہ اپنے وجود کا حصہ سمجھتی تھی۔ اس سب چیزوں پر اس شخص کے ہاتھ کا لمس تھا جسے اس نے دنیا میں سب سے زیادہ چاہا تھا۔ عمر جہانگیر ختم ہو چکا تھا!!