

گنہگار ہوں گنہگاروں سے ہے واسطہ میرا
پرہیزگاروں سے میں اکثر پرہیز کرتا ہوں۔


مجھے اپنے مرنے کا غم نہیں
ہاۓ میں تجھ سے بچھڑ جاؤں گا۔


اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے۔


تم نے روٹھنے میں جلدی کی
بچھڑ تو ویسے بھی جانا تھا۔


ہے وہ بے چارگی کا حال کہ ہم
ہر کسی کو سلام کر رہے ہیں۔


چھوڑو یہ سر سری وعدے نہیں پورے ہوتے
میں اسی وقت جو مر جاؤں تو مر جاؤ گے کیا؟


مت کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑھی دلیل نہیں۔


تیری بانہوں سے ہجرت کرنے والے
نئے ماحول میں گھبرا رہے ہیں۔


آپ اچھے ھیں، بے حد اچھے ھیں
جائیں۔۔۔خود سا کوئی تلاش کریں۔


حال یہ ہے کہ اپنی حالت پر
غور کرنے سے بچ رہا ہوں میں۔


ہم سُنے اور سُناۓ جاتے تھے
رات بھر کی کہانیاں تھے ہم۔


آئینہ کہتا ہے، کہنا تو نہیں چاہیے تھا
تو ابھی زندہ ہے، رہنا تو نہیں چائیے تھا۔


جسم و جاں کو تو بیچ ہی ڈالا
اب مجھے بیچنی ہے لاش اپنی۔


حشر میں بتاؤں گا تجھے
جو حشر تو نے کیا ہے میرا۔


بہت نزدیک آتی جا رہی ہو
بچھڑنے کا ارادہ کر لیا کیا؟


زندگی کم پڑ گئی ورنہ
وہ نہ ملتا مجال تھی اس کی۔


چاند تارے بلاوجہ خوش ہیں
میں تو کسی اور سے مخاتب ہوں۔


ختم ہونے کو ہے سفر شاید
پھر ملیں گے کبھی مگر شاید۔


ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر، اس کی تمنا کیے بغیر۔


اُن رفیقوں سے شرم آتی ہے
جو میرا ساتھ دے کے ہارے ہیں۔


میرے مرنے پہ لاکھ روئیں گے
میرے رونے پہ کون مرتا ہے؟


اس نے رسمن مجھے سلام کیا
لوگ کیا کیا گمان کر بیٹھے؟


سوچتا ہوں کبھی کبھی آخر
ہرج کیا تھا اسے منانے میں۔


جی ہی لینا چاہیے تھا
مرتے مرتے خیال آیا مجھے۔


مرنا تو اس جہاں میں کوئی حادثہ نہیں
اس دورِ نہ گوار میں جینا کمال ہے۔


آج کا دن بھی عیش سے گزرا
سر سے پا تک بدن سلامت ہے۔


سب سمجھتے ہیں میں تمہارا ہوں
تم بھی رہتے ہو اس گمان میں کیا۔


ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے۔


ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا
جو نہیں ہے وہ خوبصورت ہے۔

